چینل صدائے حق @sada_e_haq_noori Channel on Telegram

چینل صدائے حق

@sada_e_haq_noori


اسلام نے خواتین کو جو عزت دی ہے وہ آج تک کوئی قوم نہ کوئی مذہب دے سکا

چینل صدائے حق (Urdu)

چینل صدائے حق کے زیرِ اہتمام یہ گروہ ایک مقصد کے ساتھ جڑے ہیں: حقیقت اور عدل کے لئے آواز اٹھانا۔ یہاں آپ تمام معلومات کو حقیقت کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں اور انصاف کی طلب میں ہمارے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ چینل صدائے حق کے زیرِ اہتمام 'sada_e_haq_noori' ہیں، جو اس کام کو بہتر اور فعال بنانے کے لئے ایک معاون ہیں۔ یہ گروہ کسی بھی قسم کے ظلم اور ناانصافی کے خلاف لڑنے کے لئے پیش آرہے ہیں اور ان صارفین کو آگاہ کرنے کا مقصد رکھتے ہیں۔ اگر آپ بھی انصاف اور حق کی گواہی دینے کا شوق رکھتے ہیں تو چینل صدائے حق آپ کے لئے ایک مثالی مکان ہے جہاں آپ اپنے خیالات اور تجربات کا اظہار کر سکتے ہیں۔

چینل صدائے حق

27 Oct, 18:25


امام آجری نے امام ابوبکر بن ابوداؤد رحمہما اللہ کی زبانی ایک قصیدہ املاء کیا جس میں لکھا ہے کہ

" تم کہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں "سب سے بہتر آپ کے دو وزیر ہیں" ۔۔۔جو دونوں آپ کے پرانے ساتھی ہیں پھر راجح قول کے مطابق حضرت عثمان ہیں ۔۔۔۔اور ان حضرات کے بعد مخلوق میں سب سے بہتر چوتھے فرد حضرت علی ہیں ۔۔۔ جو بھلائی کے حلیف ہیں اور بھلائی کے ذریعہ ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے ، یہ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنت الفردوس کے منتخب مقام پر ہمیشہ رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( آگے لکھا ہے)

اور تم تمام صحابہ کے بارے میں اچھی راے رکھو ، اور تم طعن کرنے والے نہ ہو جاؤ جو عیب بیان کرتا ہے اور جرح کرتا ہے ، کیونکہ وحی مبین میں ان حضرات کی فضیلت بیان کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر میں امام آجری لکھتے ہیں :

امام ابوبکر بن ابوداؤد نے اس کے بعد یہ کہا تھا۔۔۔ کہ یہ میرا موقف ہے اور میرے والد (امام ابوداؤد) کا موقف ہے ، اور امام احمد بن حنبل کا موقف ہے ، اور جن اہل علم کو ہم نے پایا ہے ، اور جن کو ہم نے نہیں پایا ، لیکن ان کے حوالے سے روایات ہم تک پہنچی ہیں ان سب کا یہی مسلک ہے ، جو شخص اس کے علاوہ میری طرف کوئی بات منسوب کرے گا وہ جھوٹ کہے گا ۔

(الشریعہ مترجم جلد 3 ص 670 تا 673 پروگریسو بکس لاہور)

یہ سارا قصیدہ امام ابوداؤد جن کی صحاح ستہ میں شامل حدیث کی مشہور کتاب "سنن ابی داؤد " ہے کہ عقائد و نظریات پر مشتمل ہے
جس سے پتا چلا کہ حدیث کے یہ امام ابوداؤد بھی اسی بات کے قائل تھے ، کہ اس امت میں بعد از نبی بزرگ صدیق و فاروق ہیں ۔۔۔اور مولا علی کا پہلا نہیں ، بلکہ چوتھا نمبر ہے ۔

اب تفضیلی رافضی ٹولا چاہے تو دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے امام ابوداؤد ، ان کے صاحبزادے اور امام آجری کو گالیاں دے ، اور چاہے تو حق تسلیم کرے اور عوام کو گمراہ کرنا چھوڑ دے ۔

نشرمکرر
✍️ارسلان احمد اصمعی قادری
17/2/2021ء

چینل صدائے حق

27 Oct, 17:54


@faizanealahazrat

اہلِ سنت کی آواز
جلد 16،ذی قعدہ 1430ھ/نومبر 2009ء
خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطھرہ کا ترجمان

خصوصی شمارہ
اکابر مارہرہ مطھرہ
خانقاہ برکاتیہ ،بڑی سرکار، مارہرہ شریف ضلع ایٹہ، اتر پردیش
#MAHNAMA #MONTHLY #TAZKIRA #HISTORY #AULIA

چینل صدائے حق

12 Oct, 04:51


یہاں حدیث کی وہ تمام کتب جنہیں "موطأ" کہا جاتا ہے

1. موطأ امام مالک بن أنس (متوفی 179ھ)
2. موطأ ابن ابی ذئب محمد بن عبد الرحمن مدنی (متوفی 158ھ)
3. موطأ عبد الله بن محمد مروزی (متوفی 293ھ)
4. موطأ امام محمد بن حسن شیبانی (متوفی 189ھ)
5. موطأ امام یحییٰ بن یحییٰ لیثی (متوفی 234ھ)
6. موطأ امام عبد الرحمن بن قاسم العتقی (متوفی 191ھ)
7. موطأ امام أبی مصعب احمد بن أبی بکر زہری (متوفی 242ھ)
8. موطأ امام أبی حارث لیث بن سعد (متوفی 175ھ)
9. موطأ امام أبی حذیفہ إسماعیل بن قعنب (متوفی 234ھ)
10. موطأ امام سحنون بن سعید التنوخی (متوفی 240ھ)
11. موطأ عبد الوہاب بن عبد الرحمن الثقفی (متوفی 206ھ)
12. موطأ ابن وہب عبد اللہ بن وہب المصری (متوفی 197ھ)
13. موطأ ابن عبد الحکم عبد اللہ بن عبد الحکم (متوفی 214ھ)
14. موطأ ابن ماجہ محمد بن یزید القزوینی (متوفی 273ھ)
15. موطأ ابن عباس عبد اللہ بن عباس (متوفی 68ھ)
16. موطأ ابن عروہ عروہ بن زبیر (متوفی 94ھ)
17. موطأ ابن جریر الطبری محمد بن جریر (متوفی 310ھ)
18. موطأ ابن ابی ذئب محمد بن عبد الرحمن (متوفی 158ھ)

یہ فہرست ان موطآت پر مشتمل ہے جو مختلف محدثین نے تصنیف کی ہیں۔ ان میں سے بعض امام مالک کی موطأ کی مختلف روایات ہیں، جبکہ بعض دیگر علماء کی اپنی تالیفات ہیں۔

منقول

چینل صدائے حق

02 Oct, 09:22


سید حسین علی اجمیری کے عہد میں سیدی امام اہلسنت اعلی حضرت رضی اللہ عنہ 1325ھ میں بارگاہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز میں حاضر ہوئے تھے
📝حسن نوری گونڈوی

چینل صدائے حق

08 Sep, 20:59


خیر المجالس میں بھی ایسا ہی ہے

چینل صدائے حق

08 Sep, 20:58


مشائخ چشت نے تصنیف و تالیف نہیں کی

فتاوی رضویہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہے

چینل صدائے حق

08 Sep, 20:58


خاتمہ گیسو دراز بندہ نواز

چینل صدائے حق

07 Sep, 15:57


پالک کو حقیقی بیٹا تصور کرنا، اس کی بھی تردید فرمادی: ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ‘‘
٭ منہ بولے بیٹے کے موضوع پر تین آیتیں سورت میں مذکور ہیں: ۱:- ’’وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَائَ کُمْ اَبْنَائَ کُمْ‘‘ ، ۲:-’’اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَائِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ‘‘، ۳:- اور تیسری آیت یہی آیت ہے۔
٭ ابتداء سورت میں آیت نمبر:۴ میں تین احکامات کا ذکر ہے، جن میں منہ بولے بیٹے سے متعلق حکم بھی موجود ہے: ’’مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ ج وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰئِیْ تُظٰھِرُوْنَ مِنْھُنَّ اُمَّھٰتِکُمْ ج وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَائَ کُمْ اَبْنَائَ کُمْ‘‘
٭ کلمۂ کَانَ: یہ آیت میں تین بار مذکور ہے، دو مرتبہ لفظاً اور ایک مرتبہ تقدیراً: ۱:- مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ ، ۲:- وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ: رسول کے نصب کے ساتھ، چونکہ یہ ’’کَانَ‘‘ مقدرہ کا اسم ہے، ۳:- وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ۔
٭ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ’’کَانَ‘‘ کی بھی تین قسمیں ہیں : ۱:-تامہ، ۲:-ناقصہ، ۳:-زائدہ۔
٭ تین وجوہات: ’’وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ فرمایا، یوں نہیں فرمایا : ’’لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ الرُّسُلِ‘‘، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا: ’’وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ‘‘ (سورۃ آل عمران:۷۴)، اس کی بظاہر تین وجوہات ہیں : ۱:-عام کی نفی کو خاص کی نفی مستلزم ہے، اس کا برعکس ضروری نہیں، چونکہ نبوت عام ہے، لہٰذا ختم نبوت کو ختم رسالت مستلزم ہے، برعکس ضروری نہیں۔ ۲:-حضور علیہ السلام کی نبوت کی صراحت فرمادی، جبکہ اس کی طرف اشارہ رسول اللہ سے ہوگیا تھا، کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے۔ ۳:- اس میں اشارہ ہوگیا ہے کہ رسولوں کی تعداد انبیاء سے کم ہے، البتہ وہ انبیاء سے رتبہ میں افضل ہیں، اسی لیے رسول کو مفرد اور نبی کو بصیغۂ جمع لائے ۔
٭ تین اقوال: ’’وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ‘‘ کلمۂ ’’لٰکِنْ‘‘ میں تین اقوال ہیں: ۱:- امام اخفشؒ اور فراءؒ کہتے ہیں کہ تقدیری عبارت یوں ہے: ’’ولکن کان رسول اللہ‘‘ (بنصبِ رسول)۔ ۲:-اور ان دونوں نے رفع کے ساتھ بھی جائز قرار دیا ہے۔ ۳:-ایک جماعت نے اسے لکنّ (تشدیدکے ساتھ) پڑھا ہے، پھر اس صورت میں ’’رسُوْل اللہِ‘‘ لکنّ کا اسم ہے اور خبر اس کی محذوف ہے۔ (تفسیر القرطبی ، ج:۴، ص:۱۹۶)
٭ تین اجزاء: قیاس کے تین اجزاء ہیں: صغریٰ، کبریٰ اور نتیجہ۔ زید مرد ہے، پیغمبر کسی مرد کا باپ نہیں، لہٰذا پیغمبر زید کا باپ نہیں۔ یہاں صرف ایک مقدمہ کا ذکرہوا: ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ‘‘ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے باپ نہیں۔
٭ تین مناسبات: ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ‘‘ اور ’’خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ دونوں جملوں کی آپس میں ۳ طرح کی مناسبتیں واضح ہیں: ۱:- اس میں اشارہ ہے کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے والد نہیں، چونکہ وہ خاتم النبیین ہیں، اگر وہ کسی مرد کے والد ہوتے تو وہ کبھی والد کے حق کا مطالبہ کرتا، جن میں سے ایک منصبِ نبوت بھی ہے، سو یہ اللہ جل شانہ کی تدبیر خاص تھی، اسی مضمون پر اس آیت کا اختتامی جزء دلالت کرتا ہے: ’’وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا‘‘ ، ۲:- وراثت عموماً دوچیزوں میں جاری ہوتی ہے، مال اور منصب میں، اس آیتِ کریمہ میں دونوں کی بالکلیہ نفی کردی۔ ۳:- دونوں دعوے(مُتبنّٰی، مُتنبِّیْ) بلادلیل ہیں، اسی لیے ان کو متصل ذکر فرمایا۔
٭ تین فرق: ’’رَسُوْلُ اللہِ‘‘ : رسول و نبی کے مابین فرق میں مشہور تین قول ہیں: ۱:-دونوں میں تساوی کی نسبت ہے۔ ۲:-رسول وہ ہے جو کفار کی طرف بھیجا گیا ہو اور نبی وہ ہے جو مسلمانوں کی طرف مبعوث ہو۔ ۳: راجح قول کے مطابق دونوں میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے ۔

چینل صدائے حق

07 Sep, 15:57


اس آیتِ کریمہ سے ثلاثیات پر مشتمل فوائد یکجا کرنے میں ہماری رہنمائی حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے نام گرامی ‘‘محمد‘‘ سے ہوئی جو تین حروف پر مشتمل ہے (میم، حاء اور دال) اور ان میں حرف میم سب سے زیادہ قابلِ عظمت ہے، چونکہ وہ اسی اسم گرامی میں تین دفعہ مکرر واقع ہوا ہے، یہی حرف میم‘‘خَاتَمُ‘‘ میں بھی ہے، بلکہ اس کے اختتام پر ہے، نیز لفظِ جلالہ میں حرفِ لام بھی مکرر آیا ہے اور یہ لام لفظِ ’’مُحَمَّد‘‘ میں مکرر حرفِ میم کی مانند ہے، اور دونوں حروف میں حروفِ ہجاء کی ترتیب (ل، م، ن) کلمۂ توحید: ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کی ترتیب کے مطابق ہے، اور حروفِ مقطعات کی ترتیب بھی اسی کے موافق ہے:’’ الٓمٓ، الٓمٓصٓ، الٓمٓرٰ‘‘ ان میں حرفِ لام میم پر مقدم ہے۔
نیز اس آیت کا موضوع جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر ہے، لہٰذا اس آیت کی ابتداء و انتہاء دونوں حرفِ میم پر ہوتے ہیں: ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ ۔۔۔ اِلیٰ قوْلِہٖ ۔۔۔ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا۔‘‘
اگر ہم اس آیت کا مرکزی مضمون ایک جملہ میں ادا کریں تو وہ ’’ مُحَمَّدٌ ھُوَ الْخَاتَمُ‘‘ ہوگا، اب اس جملہ کی ابتداء و انتہاء دونوں حرفِ میم پر ہے۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : ’’اِنَّہُ یَخْرُجُ فِی الْاُمّۃِ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ یَدَّعُوْنَ النُّبُوَّۃَ وَاِنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘۔۔۔۔ ’’یعنی میری امت میں تیس جھوٹے مدعیّانِ نبوت کا خروج ہوگا، حالانکہ میرے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔‘‘ اسی مناسبت سے اس آیت میں ؟؟؟۳۰ فوائدِ ثلاثیہ تک رسائی حاصل ہوئی ہے، لہٰذا یہ تیس فوائد اُن تیس کذّابین کے حق میں شہابِ ثاقب کی مانند ہوں گے، جن سے ان کو مار بھگایا جائے گا، ان شاء اللہ!
اب آپ کی خدمت میں اُن فوائد کو پیش کیا جارہا ہے:
٭ تین حروف: حضور k کا نام گرامی تین حروف پر مشتمل ہے: حرفِ میم، حاء اور دال۔ اور میم ان میں سب سے بابرکت ہے، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک میں تین دفعہ آیا ہے۔
٭ اس آیت مبارکہ میں اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ کا ذکر تین بار ہوا ہے، دو مرتبہ لفظ جلالہ کے ساتھ اور ایک بار وصف کے ساتھ: ۱:- وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ،۲:- وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ ،۳:- عَلِیْمًا۔
٭ اسی طرح رسول کا ذکر بھی تین بار ہوا ہے، ایک بار نامِ گرامی کے ساتھ ’’ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ‘‘، دو مرتبہ وصف کے ساتھ ’’وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔‘‘
٭ تین آیات: سیاقِ آیت میں ۳ ؍احکامات کا بیان ہے، ان معاملات سے متعلق جن کا تعلق حضور علیہ السلام کی ذاتِ اطہر سے ہے، وہ احکام تین سلبی جملوں کی صورت میں وارد ہوئے، البتہ سب کا اسلوب ایک ہے، یعنی ابتدا ’’مَا کَانَ‘‘ سے ہے۔۱:-پہلے کا تعلق نبی اور مؤمنین سے ہے : ’’وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوْلُہٗ أَمْرًا‘‘ ،۲:- دوسرے کا تعلق نبی اور اس کے رب سے ہے: ’’مَا کَانَ عَلَی النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللہُ لَہٗ۔‘‘ ، ۳:- تیسرے کا تعلق تینوں سے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، نبی اور عام لوگ :’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔‘‘
٭ ذکر کردہ پہلی آیت میں حضرت زینب- رضی اللہ عنہا - کو قائل کرنے کا بیان ہے (چونکہ آپؓ نزولِ آیت سے قبل حضرت زید ؓ سے نکاح پر راضی نہ تھیں)، دوسری آیت میں حضور علیہ السلام کے قائل کرنے کا بیان ہے (چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانۂ جاہلیت کی رسمِ بد کا قلع قمع کرنے کے لیے مُتبنّٰی بیٹے کی زوجہ سے نکاح کا حکم دیا)، تیسری آیت میں عام مؤمنین کے قائل کرنے کا بیان ہے۔
٭ تین جملے: اس آیت میں رسول کے اوصاف سے متعلق تین جملے ہیں، جن میں سے ایک سلبی اور دو ایجابی ہیں: ۱:- مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ ،۲:- لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ، ۳:-وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ۔
٭ تین تعلق: ۱ :- ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ‘‘ یہ آیت کا جزء رسول اور مرسل الیہم سے متعلق ہے، ’’۔ ۲:- لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِِ‘‘ یہ رسول و مرسِل(بکسر السین، یعنی اللہ) سے متعلق ہے، ۳:- ’’وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ یہ رسول و مرسل معہ (یعنی انبیاء کرام) سے متعلق ہے، لہٰذا آیت میں رسول کا مرسل الیہم، مرسِل اور مرسل معہ تینوں سے تعلق ہے۔
٭ تین دعوے: آیت میں تین دعووں کا ذکر ہے، جن میں سے ایک کی تائید اور دو کی تردید ہے: النبي،المتنبی،المتبنّٰی: ۱:- النبي: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو نبوت کا سچا مدعی ہے، اس کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق فرمائی ہے: ’’لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ‘‘ ، ۲:-المتنبی: وہ غیر نبی جو نبوت کا دعویٰ کرے، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمادی: ’’وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ ، ۳:- المتبنّٰی: لے

چینل صدائے حق

31 Aug, 19:11


حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی علیہ الرحمہ
کے بقول حضرت شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین عمر سہروردی
علیہ الرحمہ کے ٧٠ خلفا مہسون بنگال میں مدفون ہیں