اس کے بالکل برعکس ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو اپنے ارد گرد ایک گہری نظر دوڑائیں اور دیکھے کہ کتنے ہیں جو سوشل میڈیا کی دنیا میں مگن ہوکر اسی دنیا کے ہوکر رہ گئے،پہلے وہ موبائل استعمال کرتے تھے اور اب ان کو موبائل استعمال کرنے لگا ہے، پہلے وہ والدین کی آواز پر لبیک کہتے تھے اب وہ کسی اشتہار کو بھی برداشت نہیں کرتے، ان کی مجموعی فکر سبسکرائبر سے شروع ہوتی ہے اور موبائل چارج پر ختم ہوجاتی ہے، وہ ایک بے مقصد مصرف میں گھنٹوں برباد کرتا ہے جبکہ کسی بڑے کا حکم مان کر پانچ منٹ بھی اسے بھاری لگتے ہیں، وہ پہلے صرف بے نمازی تھا اب ملحد بھی بننے لگا ہے، پہلے سوکر اٹھتا تھا تو ماں کو ڈھونڈتا تھا اب موبائل ڈھونڈتا ہے۔ اس کے نیم مذہبی خیالات سے پورا گھر پریشان رہتا ہے، نیم سیاسی تجزیوں سے معاشرہ تنگ آچکا ہے، اخلاق و فکر، عقیدہ و عمل، ظاہر و باطن اس کی شخصیت میں فقط تضاد ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
تجوید ٹھیک ہو یا نہ ہو قراء کو ہدف تنقید بنالیتا ہے، علم کی الف ب سے بھی واقف نہ علماء کو موضوع بناتا ہے، فن تاریخ پر کبھی کچھ پڑھا ہی نہ ہو اسلاف پر تنقید کرتا ہے، سیاسی شخصیات کو پوجتا ہے یا ان کی شخصیت پر کیچڑ اچھالتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ شخص چاہتا کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ اس کا میدان عمل کیا ہے؟ اس کی تعلیم و صلاحیت کیا ہے؟ آخر یہ ٹھیکہ اسے ملا کہاں سے ہے اور یہ بلاسونپی ہوئی ٹھیکےداری کب تک معاشرے کو برداشت کرنی پڑے گی ؟
اقتباس "دین کی دعوت اور سوشل میڈیا " از عبدالمتین