تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں @tareekhislam Channel on Telegram

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

@tareekhislam


کسی بھی قوم کا رابطہ اگر اپنے ماضی سے ٹوٹ جائے تو اس قوم کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا امت مسلمہ کی تاریخ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے مسلم تاریخ کی عظیم شخصیات اور بے مثال فتوحات اس چینل میں بیان کی جائے گی-

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں (Urdu)

مسلمان تاریخ اور اسلامی کہانیاں چینل کی شاندار دنیا میں خوش آمدید! یہاں آپ کو اسلام کی تاریخ کی معلومات، عظیم شخصیات اور بے مثال فتوحات کی دلچسپ کہانیاں ملیں گی۔ امت مسلمہ کی تاریخ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے، اور یہ چینل اسی روشنی کو پھیلانے کا مقصد رکھتا ہے۔ یہاں آپ کو مختلف موضوعات پر مواد فراہم کیا جائے گا جیسے کہ تاریخی حقائق، انبیاء کے سرگُزشت، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت، قدیم حضرات کی حکایات اور بعض دینی معلومات۔ اس چینل کے ذریعے آپ اپنی تاریخی، فکری اور دینی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے ساتھ جوڑ جائیں اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں اپنی روشنی چمکائیں۔

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

23 Nov, 12:05


*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

23 Nov, 12:05


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-50*
─┉●┉─
*┱✿__ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حال _,*

*★_ اپنی پوری خلافت کے دوران ان کا حال ایک طرف تو کچھ اس طرح تھا کہ روم اور شام کی طرف فوجیں بھیج رہے ہیں، قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے بات چیت کر رہے ہیں، اسلامی لشکر کے سپہ سالاروں سے پوچھ کچھ کر رہے ہیں، گورنروں کے نام احکامات لکھ رہے ہیں، دوسری طرف حال یہ تھا کہ بدن پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہیں، صحرا کی ریت پر کوڑے کا تکیہ بنائیں سو رہے ہیں اور پسینہ ریت پر بہہ رہا ہے، سر پر پھٹا ہوا عمامہ ہے پاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہیں، اور کاندھے پر پانی کی مثک اٹھائے جا رہے ہیں کہ بیوہ عورتوں کے گھروں کا پانی بھرنا ہے،*
*"_ راتوں کو شہر کا گشت لگایا جا رہا ہے، کسی بدو کی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہے تو اپنی زوجہ محترمہ کو اس کے گھر پہنچانے جا رہے ہیں، رات کو کسی بیوہ کے بچے بھوک سے روتے سنائ دے گئے تو گھر سے کھانے پینے کا سامان بوری میں ڈال کر اپنی کمر پر لاد کر اس گھر تک پہنچانے جا رہے ہیں، خادم خود اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نہیں اٹھانے دیتے،*

*★_ خلافت کے کام کرتے کرتے تھک گئے تو مسجد کے فرش پر ہی لیٹ گئے، مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کا سفر کرنا پڑ گیا تو کوئی خیمہ یا شامیانہ ساتھ نہیں لے جا رہے، کسی درخت کے نیچے چادر بچھائی اور لیٹ گئے، طبقات ابن سعد کی ایک روایت کے مطابق روزانہ کا خرچ دو درہم تھا,*
*"_ احناف بن قیس اور عرب کے رئیسوں نے ایک بار آپ سے ملاقات کا پروگرام طے کیا، وہاں گئے تو دیکھا آستین چڑھا رکھی ہے اور ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں، احناف بن قیس پر نظر پڑی تو بولے- آؤ، تم بھی میری مدد کرو.. بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے .. اور تم جانتے ہو کہ ایک اونٹ میں کتنے غریب کا حصہ ہوتا ہے؟ایسے میں ایک شخص نے کہہ دیا- اے امیر المومنین ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.. کسی غلام سے کہہ دیں، وہ ڈھونڈ لائے گا، اس کے جواب میں آپ نے فرمایا– مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے ؟*
*"_ شام کے سفر میں قضاء حاجت کے لئے سفر سے اترے، آپ کے غلام اسلم ساتھ تھے، واپس لوٹے تو ان کے اونٹ پر سوار ہو گئے، ادھر اہل شام استقبال کے لیے آرہے تھے، جو آتا، پہلے اسلم کی طرف متوجہ ہوتا، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے، لوگوں کو حیرت ہوتی تھی، آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے کہ یہ کیسے امیرالمومنین ہیں .., اس پر آپ نے فرمایا- ان لوگوں کی نظریں در اصل عجمی شان و شوکت کو تلاش کر رہی ہیں لیکن وہ یہاں انہیں کہاں نظر آئے گی ؟_,،*

*★_ ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے، اس میں فرمایا- لوگوں ! میں ایک زمانے میں اس قدر غریب تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر دیا کرتا تھا، وہ اس کے بدلے میں مجھے چھوارے دے دیتے تھے، وہی کھا کرو اپنا پیٹ بھرتا تھا _,” کہاں اور ممبر سے اترے … لوگوں کو بہت حیرت ہوئی کہ یہ بھی کوئی بتانے کی بات تھی، اس پر وضاحت کرنے کے لیے فرمایا- بات دراصل یہ ہے کہ میری طبیعت میں غرور آگیا تھا .. یہ میں نے اس کا علاج کیا ہے _,”*
*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی نکاح کیے، آپ کے ہاں اولاد بھی کسرت سے ہوئی، ان میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اس لئے ممتاز ہیں کہ وہ ازواج مطہرات میں شامل ہوئ، نرینہ اولاد میں سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت مشہور ہوئے یہ بہت بڑے فقیہ تھے، آگے چل کر ان کے بیٹے سالم بن عبداللہ فقیہ ہوئے، وہ مدینہ منورہ کے سات بڑے فقیہوں میں سے ایک تھے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ کے بیٹے عاصم رضی اللہ عنہ بھی بہت بڑے عالم فاضل ہوئے، آپ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ دنیا میں اگر ایک عمر اور پیدا ہو جاتا تو ساری دنیا میں اسلام عام ہوتا،.. غرض آپ کی خوبیوں کو شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے، اللہ تعالی ان پر کروڑوں ہا کروڑ رحمتیں نازل فرمائے، آمین،*

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زخمی ہونے کے بعد چھ صحابہ کرام کے نام تجویز فرمائے تھے اور ارشاد فرمایا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لینا، وہ چھ نام یہ ہیں :- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ،*

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

23 Nov, 12:04


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-49*
─┉●┉─
*┱✿_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ _,*

*★_ اس قسم کے کئی اور بھی واقعات پیش آئے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے ہی درست ثابت ہوئی، آپ آنحضرت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کا بہت لحاظ رکھتے تھے، جب صحابہ رضی اللہ عنہم کے روزینہ مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا مشورہ یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا روزینہ سب سے پہلے مقرر کیا جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا– نہیں! سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین کے مقرر کیے جائیں گے _,”*
*"_ چنانچہ سب سے پہلے بنو ہاشم سے شروع کیے گئے، ان میں بھی حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہم سے ابتدا کی گئی، بنو ہاشم کے بعد آنحضرت صلی اللہ سے نسبت میں قریب ترتیب سے سب کے نام لکھے گئے، تنخواہوں میں بھی اسی طرح کا لحاظ رکھا گیا، سب سے زیادہ تنخواہیں اصحاب بدر کی تھی ،*

*★_ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اگرچہ بدر میں شامل نہیں تھے، یہ بدر کی لڑائی کے وقت بہت چھوٹے تھے لیکن ان کی تنخواہیں اسی حساب سے مقرر کیں اور یہ سب سے زیادہ مقدار تھی، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تنخواہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مقرر کی، اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا اور کہا- آپ نےمیری تنخواہ اسامہ بن زید سے کم مقرر کی ہے… ؟ جواب میں آپ نے فرمایا– رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے اور اسامہ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے_,”*

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے کے بغیر خلافت کا کام انجام نہیں دیتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نہایت دوستانہ انداز میں پورے خلوص سے مشورہ دیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بیت المقدس جانا پڑا تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر کر گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حد درجہ پاس اور لحاظ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا، یہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی,*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

22 Nov, 15:19


*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ رائے دی :- اے امیرالمومنین میری رائے ہے کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا– میں وہ کام کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا, حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی کہا، آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ حضرت عمر کی رائے دوست ہے, تب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا- قرآن کو ایک جگہ جمع کرو ,”*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

22 Nov, 15:19


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-48*
─┉●┉─
*┱✿_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت -٢_,*

*★_ دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے نکلے، فیروز ان سے پہلے ہی مسجد میں آ چکا تھا، اس کے پاس ایک کھنجر تھا وہ اس نے اپنی آستین میں چھپا رکھا تھا، وہ مسجد کے ایک کونے میں دبکا ہوا تھا، ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ امامت کرانے کے لئے آگے آئے۔۔ اس وقت تک صفیں درست ہو چکی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صفیں درست کرانے کے لئے کچھ لوگ مقرر کر رکھے تھے، جونہی آپ نے نماز شروع کی.. فیروز اچانک گھات سے نکلا اور آپ پر کھنجر کے چھ وار کیے، ان میں سے ایک وار ناف کے نیچے لگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فورا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنی جگہ کھڑا کردیا اور خود گر پڑے، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس ہی میں پڑے تڑپ رہے تھے، فیروز وار کر کے بھاگا، کچھ لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے ان پر بھی وار کیے، کچھ لوگ زخمی ہوئے، فیروز نے جب دیکھا کہ اسے گھیر لیا گیا ہے اس نے وہی خنجر اپنے پیٹ میں گھونپ کر خود کشی کرلی_"*

*★_ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر گھر لاے، اس وقت تک ان کا خیال تھا کہ زخم معمولی ہیں، چنانچہ ایک طبیب کو بلایا گیا اس نے شہد اور دودھ منگوایا، آپ کو پلایا گیا تو دونوں چیزیں زخموں کے راستے باہر نکل آئیں، اس وقت لوگوں کو احساس ہوا کہ آپ بچ نہیں پائیں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہوش میں آنے کے بعد پوچھا میرا قاتل کون ہے؟ لوگوں نے بتایا– فیروز پارسی، آپ نےکہا- ا اللہ کا شکر ہے میں کسی مسلمان کے ہاتھوں نہیں مارا گیا_,*
*"_ اب آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا– عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ ان سے کہو کہ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے,” حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ بری طرح رو رہی تھی, انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پیغام پہنچایا، آپ نے فرمایا– اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، لیکن آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں,”*

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام، عراق، جزیرہ خوزستان عجم آرمینیہ آزراہائی جان، فارس، کرمان خراسان اور مکران فتح ہوئے ، بلوچستان کا کچھ حصہ بھی فتح ہوا, حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جو ان کی رائے ہوتی تھی اکثر وہی بات پیش آجاتی تھی، یہاں تک کہ ان کی بہت سی آراء مذہب کے احکام بن گئی، کئی موقعوں پر خود اللہ تعالی نے ان کی رائے کی تائید فرمائی،*


*★_ نماز کے اعلان کے لئے جب ایک طریقہ طے کرنے کا مسئلہ سامنے آیا تو لوگوں نے مختلف مشورے دیے، کسی نے کہا نے ناقوس بجا لیا جائے، کسی نے نقارہ بجانے کی رائے دی، کسی نے آگ جلانے کی بات کہی، لیکن اس وقت حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے یہ رائے دی کیوں نہ ایک آدمی مقرر کیا جائے جو نماز کی منادی کیا کرے,” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اذان دیں، چنانچہ یہ پہلا دن تھا جب اذان کا طریقہ شروع ہوا اور درحقیقت اذان سے بہتر کوئی اور طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ,”*
*"_ بدر کے قیدیوں کا معاملہ پیش آیا تو جو رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی وحی بھی اسی کے مطابق نازل ہوئی،*

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پہلے شرعی پردہ نہیں کرتی تھی کیونکہ پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بار بار اس بات کا خیال آیا, آخر انہوں نے عرض کر ہی دیا کہ اے اللہ کے رسول پردہ کروایا کریں, دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں وحی کا انتظار تھا، آخر پردے کی آیت نازل ہوئی اور تمام مسلمان عورتوں پر پردہ فرض ہو گیا _,”*
*"_ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا، جب وہ مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چاہا کہ نماز جنازہ پڑھا دیں لیکن اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روکا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے آیت نازل ہوئی، اس میں منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا،*

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

22 Nov, 15:19


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-47*
─┉●┉─
*┱✿__ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتظامات اور شہادت_,*

*★_ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام یرفا کے علاوہ ان کے ساتھ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، ایک مقام ایلہ کے قریب پہنچے تو اپنی سواری س اتر گئے، اس پر غلامی کو بٹھا دیا، خود اونٹ پر سوار ہو گئے، راستے میں کوئی پوچھتا – امیرالمومنین کہاں ہیں؟ تو جواب میں فرماتے- تمہارے آگے ہیں_,” اسی طرح ایلہ میں داخل ہوے، یہاں دو دن ٹھہرے، آپ کا کرتا سفر کے دوران سواری کے کجاوے سے رگڑ کھا کر پھٹ گیا تھا، اسے مرمت کے لیے ایلہ کے پادری کو دیا، اس نے اپنے ہاتھ سے پیوند لگا دیا ساتھ میں ایک نیا کرتا آپ کو پیش کیا، آپ نے اپنا کرتا پہنا اور فرمایا- اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے_,”*

*★_ آپ ایلہ سے دمشق آئے، اس کے ضلعوں میں دو دو چار چار دن قیام فرماتے رہے،مناسب انتظام فرماتے رہے، جو لوگ وبا سے ہلاک ہوگئے تھے ان کے وارثوں کو بلا کر ان کی جایداد وغیرہ ان کے حوالے کی، وبا کی وجہ سے جو جگہ خالی ہو گئی تھی ان جگہوں پر نئے آدمی مقرر کیے، اس سال سخت قحط پڑا، آپ نے قحط کے دنوں میں اس قدر زبردست انتظامات کیے کہ لاکھوں لوگوں کو بھوک سے بچا لیا گیا، اسی سال آپ نے مہاجرین، انصار اور دوسرے قبائل کی تنخواہیں مقرر کیں،*
*"_ فتوحات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تھا کہ ٢١ ہجری میں اصفہان، ٢٣ ہجری میں فارس، کرمان، سیستان، خراسان فتح ہوئے اور 26 ذالحجہ ٢٣ ہجری کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا, اس کی تفصیل یہ ہے,*

*★_ مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی نہاوند فتح ہوا تو یہ قیدیوں میں شامل تھا اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا گیا تھا، ایک روز یہ شخص امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے آپ سے عرض کیا- میرے آقا مغیرہ بن شعبہ( رضی اللہ عنہ) نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کر رکھا ہے، آپ کم کروا دیجئے _,”*
*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا- اچھا تمہیں کتنا محصول دینا پڑتا ہے ؟ اس نے بتایا- مجھے روزانہ دو درہم ( ٤٣ پیسے) دینا پڑتے ہیں،آپ نے اس سے پوچھا- تم کیا کام کرتے ہو ؟ اس نے کہا– میں نقاشی اور آہن گری کا کام کرتا ہوں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا– اس کام کے مقابلے میں تو یہ رقم زیادہ نہیں ہے _,”*

*★_ فیروز آپ کا جواب سن کر ناراض ہو گیا، ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا– تم میرے لیے بھی ایک چکی بنا دو_,” جواب میں اس نے کہا– آپ کے لئے تو میں ایسی چکی بناؤں گا کہ آپ یاد کریں گے_,” یہ کہہ کر وہ چلا گیا… آپ نے آس پاس موجود لوگوں سے فرمایا– یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے _,”*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

22 Nov, 15:16


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-46*
─┉●┉─
*┱✿__حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات_,”*

*★_ 18 ہجری میں شام مصر اور عراق میں طاعون کی وبا پھیلی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس وبا کے پھیلنے اور بڑی تعداد میں لوگوں کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تو انتظامات کے لئے خود روانہ ہوئے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بیماری کا زور بڑھتا ہی جا رہا ہے، اس پر آپ نے مہاجرین اور انصار کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف مشورے دئے، ایک صاحب نے کہا- آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں_,”*
*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا- ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے_,” ان کی یہ بات سن کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا- “_ اے عمر ! اللہ کی تقدیر سے بھاگ ر پے ہو _,” جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ہاں ! تقدیر الٰہی سے بھاگتا ہوں .. مگر بھاگتا بھی تو تقدیر ہی کی طرف ہوں _,”*
*"_ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ چلے آئے اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا- مجھے آپ سے کچھ کام ہے آپ کچھ دن کے لیے مدینہ منورہ چلے آئیں _,”*

*★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس وبا کے خوف سے مدینہ منورہ میں بلا رہے ہیں_, چنانچہ جواب میں لکھ بھیجا :- میں مسلمانوں کو یہاں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے نہیں آؤں گا _,”*
*"_حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ خط پڑھ کر رو پڑے اور پھر انہیں لکھا :- اس وقت فوج جہاں موجود ہے، وہ نشیب میں ہے اور مرطوب ہے، آپ لشکر کو لے کر کسی اور جگہ چلے جائیں _,” حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں چلے گئے، .. وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس بیماری کی زد میں آگئے، آپ نے لوگوں کو جمع کیا، انہیں نصیحتیں فرمائیں، آپ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ سپہ سالار مقرر فرمایا، اس وقت نماز کا وقت ہو چکا تھا، چنانچہ ان سے کہا- آپ نماز پڑھائیں _,”*
*"_حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی, ۔۔ادھر سلام پھیرا، ادھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون,*

*★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا نام عامر بن عبداللہ بن جراح تھا، آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی یہ ان 10 صحابہ کرام میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں جنتی ہونے کی بشارت ملی، اسلام لانے میں آپ کا نواں نمبر ہے یعنی اسلام لانے میں بھی سب سے پہلو میں شامل ہیں، آپ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے، پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی, تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک میں خود کی دو کڑیاں گڑ گئ تھی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تھا، اس کوشش میں آپ کے سامنے کے دو دانت نکل گئے تھے، وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھاون سال تھی، اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے، آمین ۔*

*★_ آپ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے, اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں_,” *®_(بخاری, مسلم و مشکواۃ )*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

22 Nov, 15:15


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-45*
─┉●┉─
*┱✿ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی شکایت اور اذان,*

*★_ بیت المقدس میں آپ نے کئی دن تک قیام فرمایا، ضرورت کے احکامات جاری کیے، اس دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آکر یہ شکایت کی کہ اے امیرالمومنین ! ہمارے افسر پرندوں کا گوشت اور معدے کی روٹیاں کھاتے ہیں .. لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا_,” حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے افسروں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا- امیرالمومنین ! اس ملک میں تمام چیزیں مل سکتی ہیں,.. جتنی قیمت میں حجاز میں روٹی اور کھجوریں ملتی ہیں یہاں اسی قیمت میں پرندے کا گوشت اور معدہ مل جاتا ہے _,”*
*"_یہ سن کر آپ نے حکم فرمایا- مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ ہر سپاہی کا خانہ بھی مقرر کیا جائے _,”*
*"_ ایک دن نماز کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آج آپ اذان دیں _,” حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا- میں عزم کر چکا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دوں گا، .. پھر بھی آپ کی فرمائش کو بھی ٹال نہیں سکتا، چناچہ صرف آج اذان دے دیتا ہوں _,”*
*"_ جب انہوں نے اذان شروع کی تو تمام صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک یاد آگیا، سب پر غم طاری ہوگیا، حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تو روتے روتے بیتاب ہو گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی ہچکیاں بندھ گئیں، دیر تک یہ اثر باقی رہا _,”*
*"_ اسی طرح کا واقعہ ایک بار مدینہ منورہ میں پیش آیا، جب حضرت حسنین رضی اللہ عنہم کی درخواست پر آپ نے اذان دی,*

*★_ ایک دن مسجد اقصیٰ آئے، وہاں کعب بن احبار رح کو بلایا اور ان سے پوچھا- نماز کہاں پڑھی جائے _,” یہ پہلے یہودی تھے اس بنیاد پر ان سے پوچھا کیونکہ انہیں مسجد اقصیٰ کے بارے میں زیادہ معلوم تھا, انہوں نے عرض کی سخرہ کے پاس پڑھیں، مسجد اقصیٰ میں بھی حجر اسود کی طرح ایک پتھر ہے، یہ پتھر انبیاء علیہ السلام کی یادگار ہے، اس پتھر کو سخرہ کہتے ہیں _,”*

*★_ ان فتوحات کے دوران ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری سے ہٹا دیا تھا اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری سونپ دی تھی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ پھر بھی ایک افسر کی حیثیت سے اسلامی لشکر میں شامل رہے تھے، یہ بات نہیں کہ انہیں بلکل ہی اسلامی لشکر سے الگ کر دیا تھا جیسا کہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں، اس سلسلے میں بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی پہلا حکم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا دیا تھا، جبکہ یہ بات بلکل غلط ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ 13 ہجری میں خلیفہ بنے تھے جب کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو 17 ہجری میں سپہ سالاری سے ہٹایا گیا، اگرچہ ان کی ایک تجربہ کار افسر کی حیثیت باقی رہی تھی،*

*★_ اس بارے میں بہت سی مختلف روایات تاریخ کتابوں میں درج ہیں، اس سلسلے میں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ آپ پڑھ لیں، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد جب مدینہ منورہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا :- خالد ! اللہ کی قسم تم مجھے محبوب ہو, میں تمہاری عزت کرتا ہوں_,” اس کے بعد آپ نے تمام گورنروں کو یہ پیغام ارسال فرمایا :- میں نے خالد کو کسی ناراضی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں دیکھتا تھا لوگ اس خیال پر پختہ ہوتے جا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو فتح خالد کی سپہ سالاری کی وجہ سے ہو رہی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، فتوحات تو ہمیں اللہ تعالی عطا کر رہے ہیں، بس میں لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کرتا ہے _,”*
*"_معلوم ہوا کہ اصل مصلحت یہ تھی، لہٰذا ہمیں اختلافی روایات میں پڑ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف سے دل میں کسی بدگمانی کو جگہ نہیں دینا چاہیے،*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

20 Nov, 08:42


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-44*
─┉●┉─
*┱✿ بیت المقدس کی فتح -*

*★_ اب وہ فلسطین کی طرف متوجہ ہوئے، عیسائی قلعہ بند کر بیٹھے گئے، اس وقت تک حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ شام کے قریب قریب تمام ضلع فتح کر چکے تھے، چنانچہ فارغ ہوکر انہوں نے فلسطین کا رخ کیا، اب عیسائی ہمت ہار گئے اور انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور شرط یہ رکھی مسلمانوں کے خلیفہ خود آ کر ان سے صلح کریں، صلح نامہ ان کے ہاتھ سے لکھا جائے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس پیشکش کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، جس کے الفاظ یہ تھے :- اگر آپ خود تشریف لے آئیں تو بیت المقدس جنگ کے بغیر فتح ہو سکتا ہے، عیسائیوں نے پیشکش کی ہے کہ آپ خود آ کر صلح کریں اور صلح کی شرائط آپ خود لکھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام ملا تو آپ نے بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع فرما لیا، ان سے مشورہ کیا کہ اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا- انہوں نے بلایا ہے تو آپ کو جانا چاہیے _,”*
*"_ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے کو پسند فرمایا اور سفر کے لیے تیار ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا،*

*★_ آپ رجب 16 ہجری میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور اس انداز سے روانہ ہوئے کہ نہ تو کوئی فوجی دستہ ساتھ لیا نہ بوڈی گارڈ، نہ خدمتگزار کی فوج ساتھ لی، نہ کسی اور قسم کا سازوسامان ساتھ لیا، یہاں تک کہ خیمہ بھی ساتھ نہ لیا، سواری کے لئے اونٹ تھا اور صرف چند مہاجرین اور انصار ساتھ تھے، آپ نے فوج کے سالاروں کو پیغام بھیجا کہ جابیہ کے مقام پر ان سے آ ملیں، چنانچہ حضرت یزید بن ابی سفیان اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم نے اسی مقام پر آپ کا استقبال کیا، آپ شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر دوڑائی، دشمن کے بلندوبالا دلکش مکانات آپ کے سامنے تھے، جابیہ میں کچھ دن قیام فرمایا، عیسائیوں کو آپ کی آمد کی خبر مل چکی تھی، چنانچہ اب وہ بھی اسی مقام پر پہنچ گئے، یہ لوگ شہر کے رئیسوں میں سے تھے، جب یہ لوگ پہنچے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے، صحابہ نے ان کو آتے دیکھا تو خیال کیا کہ یہ لوگ حملے کی نیت سے آگے بڑھتے چلے آ رہے ہیں چناچہ انہوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لیے،*

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا- کیا بات ہے تم نے ہتھیار کیوں سنبھال لیے ؟ انہوں نے آنے والوں کی طرف اشارہ کیا، ان کے کندھوں پر تلواریں لٹک رہیں تھیں، ان کی طرف دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا- گھبراؤ نہیں.. یہ لوگ تو ایمان طلب کرنے کے لئے آ رہے ہیں_,” اسی طرح عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہوا، اس پر دستخط کیے گئے، معاہدہ ہو چکا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فلسطین میں داخل ہونے کے ارادے سے اٹھے، ان کے لیے ایک عمدہ نسل کا گھوڑا لایا گیا، آپ اس پر سوار ہونے لگے تو وہ شوخی دکھانے لگا، آپ اس پر بھی سوار نہ ہوئے اور پیدل بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے، بیت المقدس نزدیک آیا تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے سالار استقبال کے لئے آئے، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لباس بہت معمولی تھا، اس لیے اس کو دیکھ کر ان حضرات نے سوچا- آپ کا لباس قیمتی ہونا چاہیے تاکہ بیت المقدس کے لوگوں پر اثر پڑے، چنانچہ ترکی گھوڑے کے ساتھ قیمتی پوشاک بھی پیش کی، اس کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا– اللہ نے ہمیں جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے.. اور ہمارے لئے یہی کافی ہے _,”*
*_ غرض اسی حالت میں بیت المقدس میں داخل ہوئے، سب سے پہلے مسجد میں گئے، محراب کے پاس جا کر سورہ ص کی آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ کیا، پھر عیسائیوں کے گرزے میں آئے، ادھر ادھر گھوم کر اس کو دیکھا,*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

20 Nov, 08:42


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-43*
─┉●┉─
*┱✿_ یرموک کی فتح -2,*

*★_ دوسری صبح رومی لشکر اس قدر سازوسامان کے ساتھ سامنے آیا کہ صحابہ کرام حیران رہ گئے، اسلامی فوج کی تعداد 36 ہزار تھی، جب کہ رومیوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر اپنی فوج کے 36 حصے کیے اور آگے پیچھے ان کے صفین قائم کر دی، اس طرح ان کی 36 صفے بن گئیں، فوج کے قلب یعنی درمیان پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، دائیں حصے پر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ، جب کہ بائیں بازو پر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، ان کے علاوہ ہر صف کا بھی ایک افسر تھا، اس طرح 36 افسر مقرر کیے، اسلامی لشکر کی تعداد اگرچہ دشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی لیکن ان میں چنے ہوئے حضرات تھے، ان میں سو صاحبہ وہ تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں حصہ لیا تھا، بدری صحابہ کا تو اپنا مقام ہے، قبیلہ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی، قبیلہ ہمدان، خولان، لحم، جذام وغیرہ کے مشہور بہادر بھی شامل تھے، ایک خاص بات یہ تھی کہ اسلامی لشکر میں خواتین بھی شامل تھیں جو مجاہدین کو مختلف خدمات اور مرہم پٹی وغیرہ پر مامور تھیں، حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی آواز بہت دلکش تھی، وہ فوج کے آگے سورہ انفال پڑھتے جاتے تھے، آخر جنگ شروع ہوئی، ابتدا رومیو کی طرف سے ہوئی، صحابہ نے اس موقع پر اس شدت سے جنگ کی کہ رومیوں کی صفیں درہم برہم ہو گئی، رومیوں کے جو پاؤں اکھڑے تو پھر جم نہ سکے، وہ بھاگتے چلے گئے، مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب رومی مارے گئے اور صحابہ تین ہزار کے قریب شہید ہوئے، رومیوں کا بادشاہ قیصر اس وقت انطاکیہ میں تھا، اسے اپنے لشکر کی شکست کی خبر وہیں ملی، اس نے اسی وقت وہاں سے چلنے کی ٹھانی اور چلتے وقت یہ الفاظ کہے :- الوداع اے شام !*


*★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فتح کے خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یرموک کی خبر کے انتظار میں مسلسل جاگ رہے تھے، سو نہیں سکے تھے، فتح کی خبر ملی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فوراً سجدے میں گر پڑے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ یرموک سے واپس حمص آ گئے، انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تنصرین کی طرف بھیجا اور آپ نے حلب کا رخ کیا، دونوں علاقے فتح ہوگئے، حلب کے بعد انطاکیہ کی باری آئی، یہ قیصر کا خاص دارالحکومت تھا، رومیو اور عیسائیوں نے بڑی تعداد میں آ کر یہاں پناہ لی تھی، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہر طرف سے انطاکیہ کا محاصرہ کر لیا، چند روز بعد مجبور ہو کر انہوں نے صلح کی پیشکش کی، ان مقامات کی فتح نے مسلمانوں کا رعب قائم کر دیا، انطاکیہ کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے چاروں طرف فوجیں پھیلا دی، اس طرح چھوٹے چھوٹے علاقے آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے، خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہا، اسی طرح حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مرعش فتح کیا، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فلسطین کے آس پاس کے تمام شہر فتح کرلئے،*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

19 Nov, 13:21


*"_ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا :- بے شک تم دولت مند ہو، حکومت کے مالک ہو .. تم نے اپنے ہمسایہ عربوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ بھی ہمیں معلوم ہے .. لیکن یہ تم نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ یہ تمہارا اپنے دین کی اشاعت کا طریقہ تھا، اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ عیسائی ہوگئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہیں … یہ بھی درست ہے کہ ہم نہایت محتاج تنگدست اور خانہ بدوش تھے، ہمارا حال یہ تھا کہ طاقتور کمزور کو کچل دیتا تھا، قبائل آپس میں لڑ لڑ کر مر جاتے تھے، ہم نے بہت سے خدا بنا رکھے تھے انہیں پوچھتے تھے، اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے، اللہ تعالی نے ہم پر رحم فرمایا اور ہم میں ایک پیغمبر بھیجا، وہ خود ہماری قوم سے تھے، سب سے زیادہ شریف پاکباز اور سخی تھے، انہوں نے ہمیں توحید کا سبق دیا، ہمیں بتایا کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں نہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد، وہ بالکل یکتا ہے، انہوں نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو دنیا کے سامنے پیش کریں… جو ان کو مان لے وہ مسلمان ہے، ہمارا بھائی ہے، جو انکار کرے وہ جزیہ دینا قبول کرے، ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، جو ان دونوں باتوں سے انکار کرے گا اس سے ہم لڑائی کریں گے _,”*

*★_ باہاں نے یہ سن کر سرد آہ بھری اور بولا :- ہم کسی قیمت پر بھی جزیہ نہیں دیں گے … ہم تو جزیہ لیتے ہیں، دیتے نہیں _ ,” اس طرح کوئی بات طے نہ ہو سکی اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ واپس آگئے، چنانچہ لڑائی کی تیاری شروع کر دی گئی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چلے جانے کے بعد باہان نے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے بولا :- تم نے سنا، یہ کیا کہہ گئے ہیں .. ان کا دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ، جنگ نہیں ٹل سکتی.. کیا تمہیں ان کی غلامی منظور ہے ؟ وہ سب کے سب پرجوش انداز میں بول اٹھے :- ہم مر تو جائیں گے، ان کی غلامی قبول نہیں کریں گے _,” چنانچہ جنگ کا فیصلہ کرلیا گیا،*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

19 Nov, 13:21


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-42*
─┉●┉─
*┱✿_ یرموک کی فتح -1,*

*★_ دوسری طرف رومی لشکر بھی خوب سازوسامان سے لیس ہو کر آگے بڑھے، ان کی تعداد دو لاکھ سے کہیں زیادہ تھی، کل فوج کی چوبیس صفیں تھی، فوج کے آگے مذہبی پیشوا پادری وغیرہ ہاتھوں میں صلیبیں لئے جوش دلا رہے تھے، آخر دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں اور یرموک کا میدان تھا، رومی باری باری اپنے لشکر سامنے لاتے رہے، انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے دستوں کے مقابلے میں الگ الگ فوجیں آگے بھیجیں، لیکن ان سب نے باری باری شکست کھائی،*

*★_ رومی سپہ سالار باہان نے رات کے وقت اپنے سرداروں کو جمع کیا اور کہا :- عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ گیا ہے… بہتر یہ ہے کہ مال و دولت دے کر انہیں ٹالا جائے_,” اس رائے سے سب نے اتفاق کیا, دوسرے دن انہوں نے ایک قاصد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا، اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا-“_ہمارے سپہ سالار چاہتے ہیں آپ بات چیت کے لئے کسی افسر کو بھیجیں_,” اس وقت مغرب کی نماز کا وقت ہو چلا تھا، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے ٹھکرایا کہ نماز کے بعد بات کرتے ہیں، وہ انہیں نماز پڑھتے ہوئے حیرت زدہ انداز میں دیکھتا رہا، نماز ہو چکی تو اس نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا_,“_ حضرت عیسیٰ کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ جواب میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء کی آیات 171 تلاوت کی :- (ترجمہ ) _ اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور اللہ کی شان میں سوائے پکی بات کے نہ کہو، بے شک مسیحی عیسیٰ مریم کے بیٹے اور اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کا ایک کلمہ ہیں جنہیں اللہ نے مریم تک پہنچایا اور اللہ کی طرف سے ایک جان ہیں، سو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں، اس بات کو چھوڑ دو، تمہارے لیے بہتر ہو گا، بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کارساز کافی ہے، مسیحی خدا کا بندہ بننے سے ہرگز عار نہیں کرے گا اور نہ مقرب فرشتے اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا اللہ تعالٰی ان سب کو اپنی طرف اکٹھا کرے گا_,”*

*★_ مترجم نے جب اس آیت کا ترجمہ قاصد کے سامنے کیا تو وہ بے اختیار پکار کر بولا- بے شک عیسٰی علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں اور بے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے_,” یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا.. ساتھ ہی اس نے کہا :- بس اب میں اپنی قوم کے پاس واپس نہیں جاؤں گا _,”*
*"_ اس پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے قاصد سے کہا- اس طرح رومی کہیں گے کہ مسلمانوں نے بے عہدی کی.. ہمارے قاصد کو روک لیا .. لہٰذا تم اس وقت تو چلے جاؤ.. کل جب ہمارا قاصد وہاں سے آے تم اس کے ساتھ چلے آنا_,” اس نے یہ بات مان لی, دوسرے دن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رومیوں کے لشکر میں باہان کے خیمے کے پاس پہنچی تو اس نے بہت احترام سے آپ کا استقبال کیا اور اپنے برابر بٹھایا، مترجم کے ذریعے بات چیت شروع ہوگئ، پہلے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف کی پھر قیصر کے بارے میں بولا :- ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے…,” ابھی وہ یہاں تک کہہ پایا تھا کہ حضرت خالد بول اٹھے :- تمہارا بادشاہ ضرور ایسا ہوگا، لیکن ہم نے جس شخص کو اپنا سردار بنا رکھا ہے اگر اسے ایک لمحے کے لیے بادشاہت کا خیال آجائے تو ہم فوراً اسے معزول کر دیں _,”*

*★_ باہان نے ان کے خاموش ہونے پر پھر اپنی تقریر شروع کی :- اے اہلِ عرب ! تمہاری قوم کے لوگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے، ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کیا، ہمارا خیال تھا ہمارے اس سلوک کی وجہ سے پورا عرب ہمارا شکر گزار ہوگا لیکن اس کے خلاف تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے، اب تم چاہتے ہو کہ ہمیں ہمارے ملک سے نکال دو، تم نہیں جانتے اس سے پہلے بھی بہت قوموں نے ایسا کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے، اب تم آئے ہو، تم سے زیادہ جاہل اور بے ساز و سامان قوم اور کوئی بھی نہیں ، اس پر تم نے یہ جرائت کی، .. خیر .. درگزر کرتے ہیں .. اگر تم یہاں سے چلے جانا منظور کر لو تو ہم انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار دینار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دینگے _,” باہان یہاں تک کہہ کر خاموش ہو گیا،*

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

19 Nov, 13:20


*"_ اس خط کے جواب میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہوں نے لکھا :- “_ ہم نے حمص کو ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصد یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جو جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں وہ سب ایک جگہ جمع ہو جائیں، .. اور آپ وہیں ٹھہرے، ہم آرہے ہیں _,” دوسرے دن انہوں نے اردن کی حدود میں پہنچ کر یرموک کے مقام پر قیام کیا، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی ان سے یہی آ ملے، یہ مقام جنگ کے لئے اس وجہ سے مناسب تھا کہ عرب کی سرحد یہاں سے قریب ترین تھی، اسلامی لشکر کو یہ فائدہ تھا کہ جہاں تک چاہتے ہٹ سکتے تھے، حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بھی ایک ہزار کا لشکر لے کر وہاں پہنچ گئے ،*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

19 Nov, 13:20


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-41*
─┉●┉─
*┱✿__ یرموک کی تیاری-,*

*★_ دمشق اور حمص سے شکست کھا کر ہی یہودی انطاکیا پہنچے، انہوں نے ہرقل سے فریاد کی کہ عربوں نے تمام شام فتح کرلیا ہے، ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور ان سے کہا – عرب تم سے طاقت میں اور سازوسامان میں کم ہیں… پھر بھی تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکے ؟ ان کے سر شرم سے جھک گئے، کوئی کچھ نہ بولا، آخر ایک بوڑھے نے کہا – عربوں کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں، وہ رات کو عبادت کرتے ہیں دن کو روزے رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بھائیوں کی طرح ملتے ہیں، کوئی خود کو دوسرے سے بڑا نہیں سمجھتا جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ شراب پیتے ہیں، بدکاری کرتے ہیں، عہد کی پابندی نہیں کرتے، دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش پایا جاتا ہے، ہم میں جوش اور جذبہ نہیں ہے،*
*"_ اس بات چیت کے بعد قیصر نے روم قسطنطنیہ، جزیرہ، آرمینیا غرض ہر طرف احکامات بھیجے کہ تمام فوجیں پایہ تخت انطاکیہ میں ایک مقررہ تاریخ کو جمع ہو جائیں، اس نے تمام ضلعوں کے افسروں کو لکھا کہ جس قدر آدمی جہاں سے بھی مہیا ہو سکیں، روانہ کر دیے جائیں، ان احکامات کے پہنچتے ہی ہر طرف سے انسانوں کا سیلاب انطاکیہ کی طرف چل پڑا ، انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نظر جاتی تھی فوجیں ہی فوجیں نظر آتی تھی،*

*★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر مل چکی تھی، انہوں نے سب کو جمع کیا اور ان کے سامنے ایک پرجوش تقریر کی، اس تقریر میں آپ نے فرمایا– مسلمانوں ! اللہ تعالی نے تمہیں بار بار چانچا .. تم ہر بار اس کی جانچ میں پورے اترے، اس کے بدلے اللہ تعالی نے بھی تمہیں کامیابیاں عطا فرمائیں.. اب تمہارا دشمن اس سازوسامان سے تمہارے مقابلے میں آیا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے،… اب بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟ آخر کار یہ مشورہ ہوا کہ حمص کو چھوڑ کر دمشق کی طرف روانہ ہو جائیں، وہاں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور عرب کی سرزمین وہاں سے قریب ہے، جب یہ بات طے ہوگئی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہوں نے حبیب بن مسلمہ کو بلایا، یہ افسر خزانہ تھے، آپ نے ان سے فرمایا :-“_ ہم عیسائیوں سے جزیہ لیتے رہے ہیں اس کے بدلے ان کی حفاظت کرتے رہے ہیں لیکن اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے، لہذا اس وقت تک ان سے جتنا جزیہ لیا ہے، وہ سب کا سب انہیں واپس کر دیں اور ان سے کہہ دیں کہ ہمیں تم سے جو تعلق تھا وہ اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتے اس لئے جزیہ واپس کرتے ہیں، کیونکہ جزیہ دراصل حفاظت کرنے کا معاوضہ ہوتا ہے_,”*

*★_ جب یہ لاکھوں کی رقم واپس کی گئیں تو عیسائیوں پر اس کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ رونے لگے، روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:- خدا تمہیں واپس لائے _,” یہودیوں پر بھی بہت اثر ہوا انہوں نے کہا – تورات کی قسم ! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا _,”*
*"_اور پھر انہوں نے شہر کے دروازے بند کرلئے.. جگہ جگہ پہرے بٹھا دئے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے یہ سلوک صرف حمص والوں ہی سے نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے، ہر جگہ لکھ بھیجا– جزیہ کی جس قدر رقم وصول کی ہے ساری کی ساری واپس کر دی جائے _,*
*"_ غرض اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دمشق کی طرف روانہ ہوئے، انہوں نے ان تمام حالات کی خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کر دی, جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم ہوا کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص چھوڑ کر چلے آئے ہیں تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ فوج کے تمام افسران کا فیصلہ یہی تھا تب انہیں اطمینان ہوا، آپ نے فرمایا- اللہ تعالی نے کسی مصلحت کے تحت ہی تمام مسلمانوں کو اس رائے پر جمع کیا ہوگا _,”*

*★_ پھر آپ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا :-“_ میں مدد کے لئے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیج رہا ہوں لیکن فتح اور شکست فوج کی زیادتی پر نہیں ہے_,” ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورہ کیا، ابھی مشورہ ہو رہا تھا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا قاصد خط لے کر پہنچا، خط کا مضمون یہ تھا :- “_ اردن کے ضلعوں میں عام بغاوت پھیل گئی ہے، رومیوں کی ہر طرف سے آمد نے ہر طرف ہلچل مچا دی ہے افراتفری پھیل گئی ہے، حمص چھوڑ کر چلے آنے سے بہت نقصان ہوا ہے، ہمارا رعب اٹھ گیا _,”*

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

17 Nov, 15:26


*★_ حمص کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہرقل کے پایہ تخت کا رخ کرنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم آیا کہ اس سال اور آگے نہ بڑھو، چناچہ روانگی روک دی گئی، فتح کیے علاقوں میں بڑے بڑے افسروں کو بھیج دیا گیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دمشق چلے گئے، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اردن میں قیام کیا، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ خود حمص میں ٹھہرے،*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

17 Nov, 15:26


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-40*
─┉●┉─
*┱✿_ فتوحات پر فتوحات -*

*★_ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شام کے فتوحات کا سلسلہ جاری تھا اور دمشق فتح ہو چکا تھا، دمشق کی فتح کے بعد اردن کا رخ کیا تھا، اس لئے رومیوں نے اردن کے شہر بسان میں فوج جمع کر لی، اس طرح وہاں چالیس ہزار کے قریب رومی لشکر جمع ہوگیا، اس لشکر کے سالار کا نام سکر تھا، شام کا ملک چھ ضلعوں میں تقسیم تھا ان میں دمشق ہمس، اردن اور فلسطین ضلعے مشہور تھے، رومیوں نے وہاں جس قدر بھی نہریں تھی ان سب کے بند توڑ دئے، اس طرح وہاں پانی ہی پانی ہوگیا، کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب بھلا ان سے کب رک سکتا تھا، اسلامی لشکر پھر بھی بسان پہنچ گیا، ان کی یہ مضبوطی دیکھ کر عیسائی لشکر نے صلح کا پیغام بھیجا لیکن صلح نہ ہوسکی، جنگ شروع ہوئی، تقریبا ایک گھنٹہ جنگ جاری رہی، آخر رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بری طرح بدحواس ہو کر بھاگے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوشخبری مدینہ منورہ بھیجیں اور امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے معلوم کروایا کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، ادھر سے جواب آیا- رعایا کو ذمی قرار دیا جاے اور زمین بادستور زمین داروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے،*

*★_ اس عظیم الشان فتح کے بعد اردن کے تمام شہر آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے، ہر مقام پر یہ لکھ کر دیا گیا- فتح کیے گئے لوگوں کی جان ومال گرجے اور دوسری عبادت گاہیں سب کی سب محفوظ رہیں گی، صرف مسجدوں کی تعمیر کے لئے کسی قدر زمین لی جائے گی , یعنی کسی کے ساتھ بھی کوئی ناگوار سلوک نہیں کیا گیا, جبکہ رومی اور ایرانی فتح کیے گئے علاقوں کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے تھے، اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حمص کا رخ کیا، شام کے تمام ضلعو میں یہ ایک بڑا ضلع تھا، پرانا شہر تھا، اردن کے بعد صرف تین شہر باقی رہ گیے تھے، ان تینوں کے فتح ہونے کا متلب تھا پورا شام فتح ہو گیا، یہ تینوں شہر بیت المقدّس، حمص اور انطاکیہ، انطاکیہ میں خد ہرقل موجود تھا، ان تینوں شہروں میں حمص زیادہ قریب تھا، اس لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پہلے اسی کا رخ کیا،*

*★_ حمص کے نزیدک رومیو نے خود آگے بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا، ایک بڑی فوج حمص سے نکلی، جوسیہ کے مقام پر دونوں فوجیں آمنے سمنے آ گیں، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلے ہی حملے میں انکے پاؤں اکھڑ گئے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے مصیرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص کی طرف روانہ کیا، راستے میں رومیوں کی شکست کھائی ہوئی فوج سے مقابلہ ہوتا رہا، ان مقابلوں میں بھی صحابہ کو فتح ہوئی، ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حمص کا رخ کیا، حمص کو گھیرے میں لیا گیا، موسم بہت سرد تھا، رومیوں کو یقین تھا کہ صحابہ سردی کا مقبلہ نہیں کر سکیں گے، ہرقل کا بھی انہیں پیغام پہنچ چکا تھا کہ بہت جلدی مدد پہنچ جاے گی اور ہرقل ایک بڑا لشکر روانہ بھی کر چکا تھا، لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی لللہ عنہ نے اس لشکر کو روکنے کے لئے اپنی طرف سے لشکر بھیج دیا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس وقت عراق کی مہم پر تھے، انکے لشکر نے رومی فوج کو وہیں روک لیا اور وہ حمص نہ پہنچ سکی،*

*★_ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، راستے میں جو علاقے آتے گئے وہ آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ لازکیہ تک پہنچ گئے، لازکیہ بہت پرانا شہر تھا، اس کی مضبوطی کو دیکھ کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فاصلے پر پڑاؤ کیا، یہاں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عجیب حکمت عملی اپنائی، آپ نے میدان میں کھائیاں خدوای، یہ اس طرح خودی گئی کہ دشمن کو پتہ نہ چل سکا، پھر ایک دن فوج کو کوچ کا حکم دے دیا، رومیوں نے لشکر کو واپس جاتے دیکھ لیا، وہ سمجھے کہ مسلمان مایوس ہو کر چلے گئے، لیکن ہوا صرف یہ تھا کہ رات کی تاریکی میں اسلامی لشکر نہایت خاموشی سے لوٹ آیا تھا اور کھائیوں میں چھپ گیا تھا، ادھر رومی اس لمبے محاصرے سے تنگ آئے ہوئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمان جا چکے ہیں تو شہر کے دروازے کھول کر باہر نکل آئے اور روز مرہ کے کاموں میں بے فکری سے مشغول ہو گئے، یہی وقت تھا جس کا صحابہ کو انتظار تھا، وہ کھائیوں سے نکل آئے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا، اس طرح شہر فوراً فتح ہوگیا،*

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

17 Nov, 15:25


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-39*
─┉●┉─
*┱✿_ دور فاروقی میں ایران فتح _,*

*★_ مدائن کے بعد صرف جلولہ باقی رہ گیا تھا، مدائن سے بھاگ کر ایرانی یہاں جمع ہو گئے تھے اور جنگ کی تیاری کر رہے تھے، خرزاد رستم کا بھائی اس کا سالار تھا، اس نے شہر کے گرد خندق تیار کرا دیں، راستوں اور گزرگاہوں پر دو گوکھرد ( لوہے کی کیلے ) بچھوادی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، وہاں سے حکم آیا– ہاشم بن عتبہ 12 ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائے، اس طرح ہاشم بن عتبہ 12 ہزار فوج لے کر جلولہ کی طرف بڑھے، چار دن بعد وہاں پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا یہ محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا، آخر ایک دن ایرانی خوب تیاری کے ساتھ باہر نکلے، صحابہ کرام نے خوب جم کر ان کا مقابلہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے خاص مہربانی فرمائی، ایک زبردست آندھی آئی، جس سے گھپ اندھیرا ہو گیا، ہزاروں ایرانی اندھیرے کی وجہ سے خندق میں گر گئے، ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بدحواس ہو کر بھاگے، صحابہ کرام کے ہاتھ بے تحاشا مال غنیمت آیا، اس کا اندازہ تین کروڑ لگایا گیا،*

*★ _ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوش خبری کے ساتھ مال غنیمت کا پانچواں ہسہ مدینہ منورہ بھجوایا, یہ خوش خبری لے کر زیاد رح گیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انسے جنگ کے حلات سنے، پھر تمام مسلمانو کو جمع ہونے کا حکم فرمایا اور زیاد رح.سے فرمایا- سب کے سامنے تمام واقعات بیان کریں” انہوں نے بھرے مجمع کو حالات سناے اور اس طرح بیان کیا کہ پورا منظر لوگو کو نظر آنے لگا، آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے- خطیب اسے کہتے ہیں _,*
*" _ مال غنیمت کا مسجد کے سہن میں ڈھیر کر دیا گیا .. لکین اس وقت تک اندھیرا پھیل چکا تھا چنانچہ صبح تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا، صبح کے وقف لوگو کے سامنے مال غنیمت سے چادر ہٹائی گئی، درہم و دینار کے علاواہ جواہیرات کے بھی امبار لگے ہوئے تھے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے ساختہ رو پڑے، لوگ انکے رونے پر بہت ہیران ہوئے کہ یہ رونے کا کونسا موقع ہے، یہ تو خوشی کا موقع ہے، لوگوں کو ہیراں دیکھ کر اپنے فرمایا– جہان مال و دولت آتی ہے، وہان رشک و حسد بھی ساتھ آتا ہے _,"*

*★ _ یزدگرد کو جلولا میں ایرانیوں کی شکشت کی خبر ملی تو وو حلوان کو چھوڑ کر رے کی ترف چلا گیا، حلوان میں چند دستے فوج کے چھوڈ گیا، اسکا سالار خسرو شانوم کو مقرر کیا تھا، اب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت قعقع رضی اللہ تعالی عنہ کو حلوان کی ترف روانہ کیا، یہ حلواں سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ خسرو خود آگے بڑھ آیا ، پہلے تو اسنے ڈٹ کر مقابلہ کیا لکین پھر شکشت کے آسار دیکھ کر بھاگ نکلا، اس طرح حلوان بھی صحابہ کرام کے قبضے میں آ گیا، حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے امن کا اعلان کرا دیا، اس طرح چارو طرف سے ایرانی انکی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور جزیہ قبول کر نے لگیں، اس طرح یہ لوگ اسلام کی حمایت میں آ گئے، اس مقام پر عراق کی حد ختم ہو جاتی تھی، اس علاقے کے فتح کے ساتھ ہی ہورا ایران فتح ہو گیا، اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایران کے فتوحات کا سلسلہ مکممل ہو گیا،*

*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

17 Nov, 15:22


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-38*
─┉●┉─
*┱✿_ مدائن کی فتح اور صحابہ کا دریا دجلہ میں گھوڑے ڈال دینا _,*

*★_ ادھر ایرانی قادسیہ سے بھاگے تو بابل پہنچ کر دم لیا، یہ ایک محفوظ اور بڑا مقام تھا، یہاں آکر ایک بار پھر انہوں نے جنگ کی تیاری شروع کر دی، فروزان کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کر لیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ ١٥ ہجری میں بابل کی طرف بڑھے، بابل میں ایرانیوں کے بڑے بڑے سردار جمع تھے اس کے باوجود یہ لوگ اسلامی لشکر کے پہلے ہی حملے میں بھاگ نکلے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بابل میں ٹھہرے، البتہ کچھ فوج آگے روانہ کر دی، اس کا سالار انہوں نے زہرہ کو مقرر فرمایا، ایرانی فوج بابل سے فرار ہوکر کوسی پر پہنچ گئی، یہاں ایرانیوں کا سالار شہریار تھا، زہرہ کوسی کے مقام پر پہنچے اور شہریار کو شکست دے کر آگے بڑھے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدائن کے لئے روانہ ہوئے، آگے بڑھے تو ان کے سامنے دریا دجلا تھا اس پر جہاں جہاں پر پل بنے ہوئے تھے ایرانیوں نے صحابہ کرام کی آمد کی خبر پا کر سب توڑ دیے تھے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ جب دریا کے کنارے پہنچے تو وہاں نہ کوئی پل تھا نہ کشتی،*

*★_ آپ نے فوج سے مخاطب ہو کر کہا :- برادران اسلام ! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے, تم یہ مہم بھی سر کر لو پھر میدان صاف ہے_,” یہ کہہ کر آپ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا, انہیں دیکھ کر فوج نے بھی ہمت کی اور سب دریا میں اتر گئے، دریا میں بہت طغیانی تھی اور وہ موجیں مار رہا تھا، موجیں گھوڑوں سے آکر ٹکراتی رہیں اور یہ رقاب سے رقاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ فوج کی ترتیب تک میں فرق نہ آیا, دوسری طرف ایرانی حیرت زدہ انداز میں یہ منظر دیکھ رہے تھے، فوج جب کنارے کے قریب پہنچیں تو انہیں خیال آیا، یہ انسان نہیں ہیں، چناچہ چلا اٹھے- دیو آ گئے … دیو آ گئے _,” یہ کہتے ہوئے خوف زدہ ہو کر بھاگے، ان کے سپہ سالار خزاؤں کی فوج نے صحابہ کرام پر تیروں کی بارش شروع کر دی، صحابہ کرام نے ان تیروں کی کوئی پرواہ نہ کی اور برابر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ تیر اندازوں کو ملیامیٹ کردیا، یزدگرد نے جب یہ خبر سنی تو شہر چھوڑ کر نکل بھاگا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا _,”*

*★_ فوج نے وہاں جمعہ کی نماز ادا کی، اس طرح یہ وہاں پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا، وہاں سے بہت مال غنیمت ہاتھ آیا، نوشیروان سے لے کر موجودہ دور تک کی تمام قیمتی چیزیں لا کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈھیر کر دی گئی، ان میں ہزاروں زرہیں، تلواریں، خنجر، سونے کے تاج اور شاہی لباس تھے، سونے کا ایک گھوڑا بھی تھا اس پر چاندی کی زین کسی ہوئی تھی، سینے پر یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے، چاندی کی ایک اونٹنی تھی، اس پر سونے کی پالان تھی، اس کی مہار میں یاقوت پروئے ہوئے تھے، سوار بھی سر سے لے کر پاؤ تک جواہرات سے اٹا پڑا تھا، ان سب سے زیادہ عجیب ایک قالین تھا، ایرانی اس قالین کو بہار کے نام سے پکارتے تھے، اس قالین پر درخت تھے، سبزہ تھا، پھول تھے یعنی پورا باغ تھا اور یہ سب کا سب جواہرات سے تیار کیا گیا تھا، یعنی سونے چاندی اور موتیوں سے تیار کیا گیا تھا، یہ سب کا سب سامان صحابہ کرام کو ملا تھا لیکن کیا مجال کہ کسی نے اس میں سے کوئی چیز خود اٹھائیں ہو، جو چیز جس حالت میں پائی سالار کے آگے رکھ دی، جب یہ سارا سامان لا کر سجایا گیا یا تو دور دور تک میدان جنگ جگمگا اٹھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ حیرت زدہ رہ گئے،*

*★_ مال غنیمت قاعدہ کے مطابق تقسیم کیا گیا اور پانچواں حصہ دربار خلافت کو بھیج دیا گیا، فرش اور قدیم یادگاریں جوں کی توں بھیج دیی گئیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ سارا سامان چنا گیا تو آپ کو بھی فوج کی دیانت پر حیرت ہوئی، مدینہ میں ایک شخص محالم نامی رہتا تھا وہ بہت لمبے قد تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا- نوشیرواں کے لباس لا کر محالم کو پہنائے جائیں، یہ لباس مختلف حالتوں کے تھے سواری کا الگ، دربار کا الگ، جشن کا الگ، مبارک بادی کا الگ، چنانچہ باری باری یہ سب اسے پہنائے گئے، جب اسے خاص لباس پہنا کر تاج سر پر رکھا گیا تو دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئی بہت دیر تک اسے حیرت زدہ انداز میں دیکھتے رہے، قالین کے بارے میں لوگوں کی رائے تھی کہ اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے لیکن پھر کاٹ کر تقسیم کر دینے کا فیصلہ ہوا،*

تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

17 Nov, 15:22


نہیں، عمل سے _,”*


تاریخ اسلام اور اسلامی کہانیاں

17 Nov, 15:22


✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
•═════••════•
*پوسٹ-37*
─┉●┉─
*┱✿_ قادسیہ کی جنگ_,*

*★_ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہو گئی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے قائدے کے مطابق تین نعرے لگائے، چوتھے نعرے میں جنگ شروع ہو گئی, دیر تک دونوں طرف سے بہادر میدان میں آتے رہے مقابلے ہوتے رہے, حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے ایک انوکھی تدبیر کی، اسلامی لشکر میں ہاتھی نہیں تھے، جبکہ ایرانیوں کے پاس ہاتھی تھے، ان کی وجہ سے اسلامی لشکر کے گھوڑے بدک جاتے تھے، حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ کئی کئی اونٹوں کو ملا کر ان پر چادر ڈال دی، چادروں میں لپٹے یہ اونٹ جب اگے لائے گئے تو ہاتھی سے بھی زیادہ خوفناک جانور نظر آئے، ان کو دیکھ کر ایرانیوں کے گھوڑے بدکنے لگے، یہ تدبیر بھی خوب کارگر رہی، اس روز فتح اور شکست کا فیصلہ نہ ہو سکا، سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی دونوں لشکر واپس پلٹ گئے،*

*★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے شام سے سات سوں سوار بھیجے تھے، وہ بھی پہنچ گئے، ان کے پہنچنے پر خوب نعرے گونجے, پھر جنگ کا آغاز ہوا، دونوں لشکروں پر جوش کا ایک ایسا عالم طاری ہوچکا تھا کہ سورج غروب ہونے کے بعد بھی لڑائی بند نہ ہو سکی یہاں تک کہ رات ہوگئی، لڑائی پھر بھی نہ رکی، آخر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے چند بہادروں کو ساتھ لیا اور رستم کی طرف رخ کیا، رستم اس وقت اپنے تخت پر بیٹھا تھا، اس نے انہیں اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو تخت پر بیٹھا نہ رہ سکا، نیچے اترا، اس نے بھی اپنی تلوار سونت لی اور مردانہ وار جنگ کرنے لگا، بہت دیر تک لڑتا رہا یہاں تک کے زخموں سے چور ہو گیا اور بھاگ نکلا، بلال نامی ایک صحابی نے اس کا پیچھا کیا، ایسے میں ایک نہر سامنے آگئی، رستم کود پڑھا کہ تیر کر نکل جائیں، بلال بھی گھوڑے سے کود پڑے، اسے ٹانگوں سے پکڑ کر نہر سے نکال لائے، پھر تلوار کے ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا، اور خود تخت پر چڑھ کر پکار اٹھے- میں نے رستم کو مار دیا ہے _,”*

*★_ ایرانیوں نے تخت کی طرف دیکھا، اس پر رستم نہ تھا، بس پھر کیا تھا پوری فوج میں بھگدڑ مچ گئی، صحابہ کرام نے دور تک ان کا پیچھا کیا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کی خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیجیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خبر سننے کو بری طرح بے چین تھے، بے چینی کے عالم میں آپ روزانہ صبح سویرے سے باہر نکل آتے اور قاصد کی راہ دیکھتے رہتے، جب قاصد کے آنے کی امید نہ رہ جاتی تب واپس لوٹتے، اسی طرح ایک دن قاصد کے انتظار میں دور تک نظر جمائے کھڑے تھے کہ ایک سوار آتا نظر آیا، وہ اونٹ پر سوار تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے نزدیک آنے کا انتظار نہ کیا، خود اس کی طرف دوڑ پڑے، وہ حضرت سعد کا قاصد تھا، سیدھا میدان جنگ سے چلا آ رہا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا- کہاں سے آرہے ہو ؟ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہچانتا نہیں تھا چنانچہ لاپرواہی کے عالم میں بولا – قادسیہ سے آ رہا ہوں، حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے بےتابانہ پوچھا – جنگ کی کیا خبر ہے ؟, اس نے بتایا- اللہ تعالی نے فتح عطا فرمائی _,” یہ کہتے ہوئے وہ آپ کے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گیا، اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگے، ساتھ ساتھ جنگ کے حالات پوچھتے جاتے تھے اور دوڑتے جاتے تھے، یہاں تک کہ اسی حالت میں قاصد مدینہ منورہ میں داخل ہوگیا، اب جو لوگ سامنے آرہے تھے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فوراً کہا- امیرالمومنین ! اسلام علیکم… امیرالمومنین ! اسلام علیکم _,”*
*"_ اب قاصد کو معلوم ہوا کہ یہ شخص اتنی دور سے اس کے اونٹ کے ساتھ ساتھ بھاگا چلا آ رہا ہے وہ تو مسلمانوں کے حکمران ہیں یعنی دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں جن سے قیصر و کسریٰ تھر تھر کانپ رہے ہیں، یہ معلوم ہوتے ہی وہ لرز گیا، فوراً اپنے اونٹ سے نیچے اتر آیا، پریشانی کے عالم میں بولا - امیرالمومنین ! مجھے معاف کر دیجیے، میں آپ کو پہچانتا نہیں تھا _,”*
*“_ کوئی حرج نہیں، تم فکر نہ کرو بس جنگ کے حالات سناتے رہو اور اونٹ پر سوار ہو جاؤ میں اسی طرح تمہارے ساتھ ساتھ چلوں گا _,” چنانچہ اسے پھر اونٹ پر سوار ہونے پر مجبور کر دیا، آپ اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے جنگ کے بارے میں پوچھتے رہے یہاں تک کہ گھر آ گیا، اب آپ نے سب لوگوں کو جمع کر کے فتح کی خوشخبری سنائی، ایک زبردست تقریر کی، آخر میں فرمایا :- “مسلمانوں ! میں بادشاہ نہیں کہ تمھیں غلام بنانا چاہتا ہوں، نہیں ! میں تو خود اللہ تعالی کا غلام ہوں, البتہ خلافت کا بوجھ میرے سر پر رکھ دیا گیا ہے، اگر میں اسی طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوو تو یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے اور اگر میں یہ خواہش کروں کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو یہ میرے لئے بدبختی کی بات ہوگی، میں تمہیں تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن باتوں سے

11,254

subscribers

663

photos

1,763

videos