اردو فنڈا @urdufunda Channel on Telegram

اردو فنڈا

@urdufunda


اردو فنڈا (Urdu)

اردو فنڈا یہ ہے جہاں اردو زبان کے فنون اور ثقافت کی خوبصورتی کو نشان دیا جاتا ہے۔ یہ چینل اردو زبان کے فنون، شاعری، نغمے اور ہنر کی دنیا کو آپ تک پہنچاتا ہے۔ یہاں آپ کو معروف شاعریاں، ادبی کام، فن کاروبار اور اردو زبان کی تاریخ سے متعلق مواد ملیں گے۔nnاردو فنڈا ایک جمع ہونے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جہاں اردو زبان کے خوبصورت معارف، شاعری، موسیقی اور فن کی ترویج کی جاتی ہے۔ یہاں اردو زبان کے شائقین ایک دوسرے سے جڑ سکتے ہیں اور علم اور تجربات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔nnاردو فنڈا کا مقصد اردو زبان اور ثقافت کو مزید معروفی دینا ہے اور نوآموز فرائض کو عالمی سطح پر پیش کرنا ہے۔ یہاں آپ کو اردو زبان کے تاریخی فنکار اور معروف شخصیتوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی تاکہ آپ اپنی زبان اور ثقافت کے فخر کو بڑھا سکیں۔nnانتہائی دلچسپ مواد، معلوماتی مواضع اور فعال مشتری سپورٹ کے ساتھ، اردو فنڈا ایک بہترین منصوبہ ہے جو اردو زبان کے فنون و ثقافت کو فروغ دینے کا مقصد رکھتا ہے۔ تو جلد ہی اردو فنڈا کے چینل کو شامل ہو جائیں اور اردو زبان کی خوبصورت دنیا سے اپنا تعلق جوڑیں۔

اردو فنڈا

07 Jan, 16:50


میرا لنڈ بھی اب خون سے ثنا ہوا تھا، پھر میں پاس  پڑے ایک کپڑے سے اپنے لنڈ کو صاف کرنے لگا۔ پھر میں نے اس کی چوت کو صاف کیا.

اور ہم دونوں نے اپنے کپڑے پہلے اور میں وقت دیکھا تو صبح کے 4:30 بج چکے تھے۔ پھر ہم اپنے اپنے بستر پر  گئے، جب صبح اٹھے تو اس سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔

اور اس نے ماں سے کیا - آنٹی  سیڑھیوں سے اترتے ہوئے میرا پیر پھسل گیا تھا ۔

  ناشتے کے بعد میں اسے اسکے گھر پر چھوڑا، اور اس کے گھر والو کو بھی  یہی بتایا ۔

اسکے بعد تو ہم دونوں  جب بھی موقع پاتے  چودائی کا  مزہ لیتے۔ آب ہم دونو بی اے کر چکے ہیں، اور ہم دونوں کی شادی ہو گئی ہے۔ پر آج وہ میرے دل کے پاس ہی رہتی ہے۔

ختم شدہ

اردو فنڈا

07 Jan, 16:50


Yum group

ماہی

مکمل


میری اور ماہی کی دوستی فزک کی کوچنگ میں ہوئی تھی، تب سے ہم دونوں آپس میں دوست بن گئے ہیں۔ ابھی ہم دونو ایک ہی کلاس میں پڑھائی کر رہے ہیں۔

وو ایک اچھی فطرت والی لڑکی تھی، اور سب سے اچھے سے بات کرتی تھی۔ کوچنگ می ہم دونو  اکثر ایک ہی میز پر  بیٹھا کرتے ہیں، تو ہم دونو میں کافی باتیں ہوا کرتی تھی

پھر ایک دن میں نے ہی پہل کرتے ہوئے  نمبر کا تبادلہ کرنے کو کہا، تو وہ جھٹ سے مان گئی ۔ اب ہم دونو فون پر بات کرنے لگ گے۔

پھر ایک دن  اس نے مجھے اپنی چھوٹی بہن کی سالگرہ کی پارٹی کا دعوت نامہ دیا۔ میں جب اسے گھر گیا تو اس کے گھر والوں نے بھی میرا اچھے سے استقبال کیا ہے۔

جو مجھے  پسند آیا، اسکی فیملی بھی مجھے اپنی فیملی کی طرح کھلے اور اچھے خیال والی لگی۔

برتھ ڈے پارٹی بہت رات تک چلی، پھر میں اپنی موٹر سائیکل سے اپنے گھر واپس آیا۔ اب ہماری دوستی اور بھی گہری ہو گئی تھی، ایسی طرح وقت  گزرتا رہا تھا۔


اب میرا سالگرہ بھی آ گی تھی، میں نے فلم کے لیے دعوت دی ہے۔ تو وہ خوشی خوشی مان گئی، ہم دونو "جنت 2" فلم دیکھنے گئے

فلم شروع ہوئی اور ہاٹ فلم کے شروع میں ہی ہاٹ  سین آ گیا ہے۔ جس دیکھ کر ہم دونو ایک دوسرے کو  ترشی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

کچھ ہی پل بعد ہم دونو نے ہی اپنی آنکھیں ہٹائی اور فلم دیکھنے لگے۔ فلم ختم ہوتے ہی اس نے مجھے ایک تحفہ دیا، جس پر میں نے گھر پر برتھ ڈے پارٹی میں آنے کے لیے کہا دیا۔

وہ - نہیں یار رات کو آنے میں مسئلہ ہو گیا، تو میں اپنے گھر والا سے پوچھ کر تمہیں بتاؤں گی۔

پھر ہم دونو گھر کے لیے نکل پڑیں، گھر آکر میں نے اپنی ماں سے ساری بات کی۔  تو انہوں نے کہا کہ میں ماہی کو  انوائٹ کر سکتا ہوں

پھر میں اپنی ماں سے اسکی ماں کو فون کروایا، اور اسے میرے گھر آنے کی  اجازت مل گئی ہے۔ وہ شام کو کیک کٹنے کے کچھ دیر پہلے ہی آ گی ۔

پھر میں کیک کاٹنے کے بعد ڈانس پروگرام شروع کیا۔ اب سب مستی میں ڈانس کرنے لگ گئے،

اُدھر ہم دونو بھی ساتھ میں ڈانس کر رہے تھے۔
تو ڈانس کرتے وقت میرا ہاتھ  غلطی سے اسکے مموں کو چھو گیا جس نے اسے نظر انداز کر دیا. پھر رات مین دیر ہونے کی وجہ سے میری ماں اسے میرے گھر پر ہی روک لیا، اور  اسے صبح جانے کو کہہ دیا۔

ان دنوں گرمیوں کے دن تھے، تو سب کی سونے کی تیاری ہم نے چھت پر ہی کری تھی. پھر ہم دونو چھت پر دو بستر لگا کر لیٹ گئے اور بات کرنے لگا۔

میری کب انکھ لگ گئی مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ ہم دونو کے بستر بہت ہی پاس لگے ہوئے تھے، اس لیے رات کے 2:30 بجے میرا ہاتھ  اس کے سینے پر چلا گیا ہے۔

مجھے کچھ گڑگڑا سا احساس آتا ہی میری نیند ٹوٹ گی، پر اسکی طرف سے کوئی  ہلچل نہیں ہوئی۔ مجھے اس کے ممے نہت ہی نرم لگ رہے تھے، میں دھیرے دھیرے ان پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔

تبی مجھے اس کے ممے دبانے کا خیال آیا، اور مجھ پر تھوڑی سی ہوس بھی  حاوی ہونے لگی لگا۔میں نے اب دھیرے دھیرے ماہی کے مموں کو رگڑنا شروع کر دیا ہے۔

اس نے کوئی  احتجاج نہیں کیا، اب مجھے سمجھ آ گیا کہ وہ جاگ رہی تھی اور وہ سونے کا ناٹک کر رہی ہے۔

بس پھر کیا تھا، میں دھیرے سے اسلے پلنگ پر آ گیا اور اسکا ٹوپ اوپر کر کے اسکے مموں کو مسلنا شروع کر دیا گیا۔

اگلے ہی پل نے میں  اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔۔ اس سے بھی اب رہا نہیں گیا، اور اب وہ میرا ساتھ دینے لگی۔ میں نے اب اٹھا کر اپنے سارے کپڑے نکل دیے۔

پھر میں نے اسے سارے کپڑے اترنے کا اشارا کیا استعمال کریں۔ اس کے ننگی ہوتے ہی میں اس کے اوپر آ  کر  میں اسے اوپر سے نیچے تک چومنے لگ پڑا۔۔

اب وہ بہت گرم ہو چکی تھی، میں اسکی چوت اور اپنے لنڈ پر بہت سارا تھوک لگا کر اپنا لنڈ اسکی چوت پر سیٹ کرتا ہوں.

اب میں نے اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر ایک زوردار دھکا مارا. پہلے ہی دھکے میں میرا آدھا لنڈ اسکی چوت میں  گھس گیا، اسکے منہ سے آہ  کی آواز آئی.

پر میں اسکے ہونٹو کو دبایا ہوا تھا۔ پر درد کے کارن اسکی آنکھوں میں سے آنسو نکل رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں تھوڑا روکا اور پھر کچھ پلو بعد میں ایک اور دھکا مارا۔

اب  وہ ادمرھی سی ہو گئی تھی، کیونکہ اس کو بہت درد ہو رہا تھا۔ میں تھوڑی دیر روکا رہا اور میں اسکے کس کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ  نارمل ہو گی.

تو اب میں نے لنڈ کو اگے پیچھے کرنا  شروع کر دیا. درد ابھی بھی اسے ہو رہا تھا، پر اب وہ میرا ساتھ دے رہی تھی۔ اب وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر میرا ساتھ دینے لگی۔

کچھ دیر کی چودائی کے بعد میں اپنی رفتار تیز کر دی، اور کچھ دیر بعد میرے لنڈ سے ایک پچکاری اسکی چوت میں ہی نکل گی ۔

اب میں جھڑ چکا تھا، اس نے بتایا کی وہ  بھی جھڑ چکی ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں اس کے اوپر سے ہٹ گیا، تو میں دیکھا کی اسکی چوت سے خون نکل رہا تھا۔

اردو فنڈا

01 Jan, 17:23


Share درندہ مکمل (yum pdf bank).pdf

اردو فنڈا

01 Oct, 12:17


Document from SMASH💕

Farzana Or Kashif Complete

اردو فنڈا

02 Aug, 04:37


Share ایک غلطی مکمل (yum pdf bank).pdf

اردو فنڈا

08 Jul, 05:11


آصف جنگلی کتے کی طرح بجلی کی رفتار سے میری چوت کو چود رہا تھا مجھے اس کی سپیڈ سے ڈر تھا کہ کہیں وہ میری چوت کو پھاڑ نہ دے پھر آصف نے 50-60 تیز دھکے دیے اور میری چوت میں مواد چھوڑ دیا وہ مجھ پر گر پڑا۔ اس کے ہونٹ چوستے ہوئے میں ابھی تک ہانپ رہی تھی۔آصف بھی میرے ہونٹ چوسنے لگا۔آج اس نے مجھے ایک شاندار چدائی دی۔

پھر ہم نے پوزیشنیں بدلیں اور رات بھر میں کئی بار سیکس کیا۔

صبح جب میں اٹھی تو میری چوت میں درد ہو رہا تھا میں نے کھڑکی سے پردے ہٹائے تو سورج نکل آیا تھا سورج کی روشنی آصف پر پڑی وہ اٹھا اور مجھے اپنی بانہوں میں کھینچ لیا پھر ہم نے چومنا شروع کر دیا۔

"جنت ڈارلنگ! کیا آپ نے رات کا مزہ لیا؟" آصف نے مسکرا کر کہا

"تم نے رات کو میری چوت کو پھاڑ دیا تھا... یقین نہیں آتا تو خود ہی دیکھ لو" میں نے اسے اپنی چوت دکھائی۔ رات میں آصف نے مجھے کئی بار چودا تھا، آصف نے مجھے لیٹ کر میری چوت چاٹنا شروع کر دی۔ اب میرا نیا شوہر آصف ہی تھا۔پھر میں باتھ روم گئی اور نہانے چلی گئی۔میں نے جلدی سے آصف کو ناشتہ کھلایا تو میرے پہلے شوہر عرفان کا فون بج اٹھا۔

"بیگم کیسی ہیں آپ؟ رات میں حلالہ ختم ہو گیا تھا؟ آصف نے آپ کو چودا کہ نہیں؟" میرے پہلے شوہر عرفان نے مجھ سے پوچھا

"اس نے مجھے رات کو سونے نہیں دیا۔ رات بار وہ مجھے چودتا رہا۔

میری چوت میں ابھی تک درد ہے" میں نے پہلے شوہر عرفان کو بتایا۔

میرے پہلے شوہر عرفان نے کہا، "ہنی، تم بہت شاندار اور خوبصورت ہو، جو بھی تم سے ملتا وہ تمہیں کیوں چھوڑ دیتا۔

، میں نے جلدی سے اپنی چوت کو انگلی سے پھیلایا اور فوٹو کھینچ کر اپنے پہلے شوہر عرفان کو واٹس ایپ کیا، میرے پہلے شوہر عرفان نے میری چوت کی تصویر دیکھ کر مٹھ لگائی۔

میری دوست اور آصف کی پہلی بیوی نجمہ بھی ایک ہی کمرے میں آئیں اور کہنے لگیں ’’آج ہم تینوں مل کر کریں گے۔‘‘ میرا شوہر آصف رات کو گھر آیا، میں آتے ہی اس سے لپٹ گئی۔

"آپ صبح سے کہاں تھے؟ بیوی کیسی ہے؟ مجھے ایک بار بھی یاد نہیں کیا؟" میں دھڑک کر بولا۔

تب تک نجمہ بھی برہنہ ہو گئی اور پہلے مجھے چومتی رہی اور پھر میرے مموں کو چوسنے اور دبانے لگی اور آصف نے اپنا لنڈ نجمہ کی چوت میں داخل کر دیا اور اسے چودنے لگا۔

اس کے بعد آصف نے اپنا لنڈ میری چوت میں ڈالا اور مجھے چودنے لگا۔

میں 15 دن آصف اور نجمہ کے ساتھ سوتی رہی پھر اس نے مجھے طلاق دے دی پھر میں نے اپنے پہلے شوہر عرفان سے دوبارہ شادی کر لی اب ہم دونوں خوش ہیں اور کبھی جھگڑا نہیں ہوتا آپ کو کہانی کیسی لگی؟

---------مکمل------------

اردو فنڈا

08 Jul, 05:11


میں نے لال شلوار کُرتا پہنا ہوا تھا۔آہستہ آہستہ آصف مجھے پیار کرنے لگا۔ دونوں لیٹ گئے اور آصف میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔

"باجی تم تو چودھویں کا چاند ہو!" آصف بولا۔

"تم مجھے باجی نہ کہو، مجھے جنت کہو، اب میں تمہاری بیوی ہوں۔"

آصف نے کہا، "جنت جان! تم بہت خوبصورت اور خوبصورت ہو، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں تمہارا شوہر بن سکا ہوں۔"

"آصف! اب میں تمہاری بیوی ہوں، تم مجھ سے صرف محبت کی بات کرو۔ میری جوانی اور خوبصورتی صرف تمہاری ہے، آصف" میں نے کہا۔

پھر اس نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور چومنا شروع کر دیا۔آصف دیکھنے میں بہت سیکسی اور مضبوط جسم کا تھا۔میں نے اسے بہت گرم محسوس کیا۔آہستہ آہستہ ہم پیار کرنے لگے۔اس نے میری چھاتیوں کو میری گانڈ کو دبانا شروع کیا۔ میرے نئے شوہر آصف نے اب میرے سوٹ کے اوپر میرا دودھ دبانا شروع کر دیا۔ سی! آہ! میں نے کرنا شروع کر دیا مجھے مزہ آ رہا تھا آصف اپنے ہاتھ سے میرے دودھ کو دبا رہا تھا اور سہلا رہا تھا۔

کچھ دیر بعد اس نے مجھے ننگا ہونے کو کہا۔

"جنت جان جلدی سے ننگی ہو جاو" میرے نئے شوہر نے حکم دیا۔آہستہ آہستہ میں نے اپنے سارے کپڑے اتار دیے، میں نے اپنا سوٹ اتارا، میں نے اپنی شلوار کی زپ کھول کر اتار دی، پھر میں نے خود ہی اپنی برا اور پینٹی اتار دی، میں ننگی ہو کر لیٹ گئی۔ بستر پر بالکل ننگی تھی اب آصف مجھے سختی سے چودنے والا تھا شام کو ہی میں نے اپنی چوت کو صاف کر لیا تھا آج میں اس کے ساتھ سونے جو جا رہی تھی۔

"آصف! میرے پیارے! آؤ مجھ سے پیار کرو" میں نے کہا۔

آصف نے اپنا کُرتا پائجامہ اتار دیا پھر اپنی بنیان اور انڈرویئر اتار کر بیڈ پر میرے قریب آیا اور مجھے اپنی بانہوں میں لپیٹ کر میرے گالوں، گردن، آنکھوں، کانوں، ناک پر ہر جگہ بوسہ دینے لگا۔میں بھی پورا ساتھ دے رہی تھی۔ میں خوش تھی کہ میں آصف کے ساتھ حلالہ کر رہی ہوں۔
میں نے اپنا سب کچھ آصف کو دے دیا وہ میری کمر، رانوں اور کولہوں کو سہلا رہا تھا۔ وہ میرے خوبصورت سیکسی جسم کو ہر جگہ مجھے چوم رہا تھا۔آہستہ آہستہ مجھے بھی چودنے کا احساس ہونے لگا۔پھر آصف نے میرے دودھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر چومنا شروع کر دیا۔

میں گرم گرم سسکیاں لینے لگی آصف آہستہ سے میرے دودھ کو سہلا رہا تھا مجھے اچھا لگ رہا تھا دھیرے دھیرے اس نے میرا دودھ نچوڑنا شروع کر دیا میرے دودھ بہت خوبصورت تھا میرے نپلز کے گرد گول سیاہ سیکسی گیندیں بہت گرم لگ رہی تھیں پھر آصف نے میرا نپل اپنے منہ کے اندر لے لیا۔ اس کا منہ تیزی سے چوسنے لگا۔میں گرم ہونے لگی اور شہوانی آوازیں نکالنے لگی۔آصف کسی معصوم بچے کی طرح میرے گلابی نپلز کو تیزی سے چوس رہا تھا۔مجھے مزہ آ رہا تھا۔

مجھے مزہ آرہا تھا وہ میرے نپلز کو اپنے دانتوں سے کاٹتا تھا میں اسے کاٹتی تھی آج رات میں اسے بہت مزہ دینا چاہتی تھی وہ کسی معصوم بچے کی طرح چوستا ہوا آہستہ آہستہ سیکس اور ہوس کا نشہ اترتا گیا میری چوت میں بری طرح خارش ہونے لگی .

میں نے اپنی چوت کو جلدی سے انگلی کرنا شروع کر دیا آصف کے میرے ممے کو سویٹی کی طرح دبا رہا تھا رگڑنے کی وجہ سے میرے بوبس لال ہو گئے میں نے اپنی چوت کو انگلی کرنا شروع کر دیا اب میں جلدی سے چودنا چاہتی تھی آصف کے بڑے لنڈ کو لے کر میں آج رات مزہ لینا چاہتی تھی۔

"آصف! آؤ اپنا موٹا لنڈ جلدی سے میری چوت میں ڈالو اور آج میری اس پھولی ہوئی چوت کو پھاڑ دو" میں نے کہا۔


اس کے بعد آصف میرے قدموں کی طرف آیا اس نے میرے پاؤں کی انگلیوں کو چاٹنا شروع کر دیا اور پھر میری رانوں کو سہلانا شروع کر دیا پھر اس نے اپنا 7"انچ اور 2 انچ موٹا لنڈ میری چوت میں ڈالا اور تیزی سے چودنے لگا۔ میں آوازیں نکال رہی تھی۔ آصف وہ مجھے تیزی سے چود رہا تھا۔ اپنے موٹے لنڈ کے ساتھ۔

کافی دیر تک سیکس نہ کرنے کی وجہ سے چوت ٹائیٹ ہو گئی تھی۔آصف نے کہا بیگم آپ کی چوت کسی کنواری لڑکی کی طرح ٹائیٹ ہے، مجھے واقعی بہت مزہ آ رہا ہے۔

میری جان دم توڑ رہی تھی۔ میرے پہلے شوہر کا لنڈ صرف 3 انچ کا تھا۔ لیکن آصف کا لنڈ ڈبل تھا۔ وہ جلدی سے میرا کھیل ختم کر رہا تھا۔ مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔ ایسا لگا جیسے کسی نے میری چوت میں موٹی بار ڈال دی ہو۔ آصف کا لمبا لنڈ شاید میری چوت کو پھاڑ کر میرے پیٹ میں گھس جائے۔

تقریباً 20 منٹ آصف نے مجھے چودا اس کے بعد میری چوت کا مکھن نکلنا شروع ہو گیا پھر میری چوت بہت ہموار ہو گئی اب آصف کا لنڈ میری چوت میں آرام سے پھسلنے لگا مجھے مزہ آنے لگا میں جنگلی بلی کی طرح چودا رہی تھی میں بالکل نشے میں تھی لنڈ آسانی سے اندر آ گیا تھا میں بار بار اپنی کمر اٹھا رہی تھی اب آصف بھی پورے جوش میں تھا وہ مجھے زور سے چود رہا تھا وہ میری چوت پر بہت محنت کر رہا تھا چودائی میں پسینہ آ رہا تھا میری چوت میں آگ لگی ہوئی تھی میری چوت بھر گئی تھی۔

اردو فنڈا

08 Jul, 05:11


مکمل

Yum group

میرا نام جنت بیگم ہے میں لاہور کے رہنے والی ہوں۔ میں ایک بہت ہی منصف اور خوبصورت عورت ہوں۔ میں 25 سال کی ایک جوان، پرکشش نوجوان عورت ہوں۔ میں شادی شدہ ہوں، اور میرا شوہر عرفان بہت اچھا ہے، وہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔ ہماری جنسی زندگی بھی بہت اچھی ہے، میرا شوہر ہر رات میری چودائی کرتا ہے۔ میرا جسم پتلا اور سیکسی ہے، میرے ہونٹ، میرے ممے، میرے ریشمی سنہرے بال، میری پتلی کمر، اور میری چوت سب کچھ بہت گرم ہے مجھے سیکس کرنا اور رات کو باقاعدگی سے اپنی چوت میں اپنے شوہر کا موٹا لنڈ کھانا بہت اچھا لگتا ہے میرے ابھی بچے نہیں ہیں میں صرف چند سالوں تک سیکس اور چدائی کا مزہ لینا چاہتی تھی، اسی لیے ابھی مجھے بچے نہیں چاہیے۔

جوان ہوتے ہی مجھے میرے بوائے فرینڈز نے چودنا شروع کر دیا شادی کے بعد میں ایک رات بھی لنڈ کے بغیر نہیں سوئی۔ میری سیکس کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی میں ہر رات اپنے شوہر کے ساتھ سیکس کرتی ہوں میں کرواتی ہوں ماہواری میں بھی ہم نہیں رکتے لیکن میرے جسم کی بھوک بالکل نہیں مٹتی،

یہ تین سال پہلے کا واقعہ ہے، میری والدہ بہت بیمار تھیں، میرا شوہر عرفان کام پر گیا ہوا تھا، میں نے گھر کو تالا لگا کر ساتھ والی خالہ، جنہیں میں خالہ کہتی ہوں، کو دے کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئی، جب میرا شوہر گھر آیا۔ ، وہ مجھے گھر میں موجود نہ پا کر بہت غصے میں تھا، اس نے مجھے بلایا اور ہم جھگڑنے لگے، میں نے اسے بتایا کہ میری والدہ بہت بیمار ہیں، اس لیے مجھے بغیر پوچھے جانا پڑا۔

جب صبح ہوئی تو رات کو میری چوت نہ ملنے کی وجہ سے میرے شوہر غصے میں تھے، میرے شوہر نے کہا کہ تم یہاں کیا کرنے آئی ہو، جاؤ، ابھی اپنی ماں کے پاس رہو، اور پھر میرے شوہر نے غصے میں آکر مجھے 3 بار طلاق کہا دیا۔ میں رونے لگی لیکن اب مجھے طلاق ہو چکی تھی بعد میں میرے شوہر کو بہت پچھتاوا ہوا اب مجھ سے دوبارہ شادی کرنے کے لیے میرا حلالہ ہونا ضروری تھا اب مجھے کسی اور سے شادی کرنی تھی تو وہ مجھ چودیں گے۔ اس کے بعد وہ طلاق کہوں گا، اس کے بعد میں اپنے شوہر عرفان سے دوبارہ شادی کر سکتی ہوں۔

میرے شوہر عرفان نے ایسے آدمی کی تلاش شروع کر دی جو مجھ سے شادی کر سکے۔کچھ لڑکے حلالہ کرنے کے لیے تیار تھے لیکن وہ 2 سے 3 لاکھ مانگ رہے تھے۔ایک تو وہ مجھ چودیں گے اور اس کے اوپر وہ پیسے مانگ رہے ہیں۔میرا پورا خاندان اس بارے میں بہت فکر مند ہے

میرے شوہر نے بھی مجھ سے کہا کہ اپنے ماموں یا جاننے والوں کو دیکھ لو، شاید کوئی مدد کر سکے، میں نے کوشش کی لیکن کوئی مدد نہ مل سکی، ہم دونوں سیکس کے بغیر بہت اداس ہونے لگے۔

پھر ایک دن میری ایک سکول کی سہیلی نجمہ میرے گھر آئی تو اس نے پوچھنا شروع کر دیا کہ میاں کے ساتھ کیسے چل رہے ہیں، اسے میری طلاق کا کوئی علم نہیں تھا۔
اس نے پوچھا تو میں رونے لگی، پھر طلاق ثلاثہ، پھر حلالہ کی تقریب اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے حلالہ نہ ہونے کا سارا قصہ سنایا۔

تو نجمہ نے کچھ دیر سوچا اور کہا میں آپ کا مسئلہ حل کروا دوں گی اس نے اپنے شوہر آصف سے بات کی وہ بہت اچھا کھاتے پیتے گھر کے ہیں تو نجمہ نے اپنے شوہر آصف کو میری مدد کے لیے راضی کیا۔

اب میں نے عرفان سے بات کی کہ میری دوست کا شوہر حلالہ کے لیے تیار ہے، وہ بھی بغیر پیسوں کے۔

اب نجمہ اور آصف دونوں اس کے لیے ہچکچا رہے تھے، تو نجمہ نے کہا- آصف میں تمہیں اجازت دیتی ہوں، تم حلالہ کے بعد شادی کر کے میری دوست کے گھر آباد ہو جاؤ، اب تک آصف اور میں ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے۔

نجمہ نے میری تصویر آصف کو بھیجی، آصف اسے دیکھ کر فوراً راضی ہوگیا۔

میرے شوہر بہت خوش ہوئے، آخر کار 3 دن کے بعد وہ وقت آگیا، قاضی نے میری اور آصف کی شادی کرادی۔


حلالہ میں عورت کا دوسرے مرد سے نکاح ہوتا ہے پھر وہ نیا مرد عورت سے جسمانی تعلق بناتا ہے اور حلالہ ہونے کے لیے عورت کو اپنے نئے شوہر سے جسمانی تعلق کرنا ہوگا۔ورنہ دوسری شادی تب تک مکمل نہیں ہوتی۔ اس کے بعد نیا شوہر چند دنوں کے بعد عورت کو طلاق دے دیتا ہے پھر عورت اپنے پہلے شوہر سے شادی کر سکتی ہے یہ ساری رسم حلالہ کی ہے۔

میں نے آصف سے شادی کی تھی اب میں اس کی بیوی بن چکی تھی مجھے اس کے ساتھ کچھ راتیں گزارنی تھیں اور اس سے چدوانا تھا میرا شوہر عرفان خوش تھا کہ آصف مجھے چودیں گے۔ ورنہ اگر میں کسی اور آدمی سے شادی کر لیتی تو پتا نہیں وہ میری چوت کو کیسے مارتا۔ پھر کیا پتا وہ مجھے طلاق دے یا نہ دے لیکن آصف نے تحریری معاہدہ کیا تھا کہ وہ مجھے کچھ دنوں کے بعد طلاق دے دے گا تو میرے شوہر عرفان بہت خوش تھے۔

میں رات کو آصف کے پاس آیا تھا آج ہماری سہاگ رات تھی ہم دونوں بہت شرمیلے تھے آصف مجھے باجی کہہ کر پکار رہا تھا پھر آہستہ آہستہ ہم نے ایک دوسرے کو چومنا شروع کر دیا۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


وہ سب مسکراتے اس دیوانے کو دیکھ رہے تھے وہ آنکھوں میں جوت لئے اسے تک رہا تھا۔۔
وہ دھیرے سے اسکے آگے بیٹھی تھی۔۔
"میں بھی حیدر سے پیار کرتا ہوں۔۔
اسکی کھلی باہوں میں آہستہ سے سماتی اسکے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگا لبوں سے لگاتی وہ بہت آہستہ بولی تھی۔
نیلگوں آسماں بھی مسرور نظر آ رہا تھا۔ کائنات اک سرور کی سی کیفیت میں رقص کر رہی تھی ۔۔ پرندوں کی آوازیں فضا میں موسیقی کے ساز بکھیر رہی تھیں۔۔
اور سبزے کی بھینی مہک جو سانسوں اور دل و جاں کو معطر کر رہی تھی۔۔ زندگی مسکرا رہی تھی۔۔ انکی آنکھوں کی جوت اب مزید روشن ہونے والی تھی۔۔
رقص کرتی خوشی کے سنگ ایک محبت کی ایک حسین کہانی کا اختتام ہو رہا تھا۔۔ وہیں سے عشق کی ایک نئی داستان نے بھی بھی سر اٹھانا تھا۔۔
"جانم"۔۔
۔
ختم شد۔۔
__________

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


اسکی آنکھوں میں جھاکتے اس نے گھمبیر لہجے میں کہتے اسے نگاہیں جھکانے پر مجبور کیا۔۔
وہ سب اؤ کی آواز نکالتے انھیں دیکھ رہے تھے۔۔ حیران تو خود بھی تھی۔۔ فرحان لفظوں سے بہت کم ہی اظہار کیا کرتا تھا۔۔
ساحرہ،
اپنے ہونٹوں کو جُنبش تو دے
اور دھنک کے حسیں سات رنگوں کو چھو کر اُنہیں مات دے
پھول خیرات لینے کو آئے ہیں تو اِن کو خیرات دے۔۔
پاس رکھے پھول اسکی جانب اچھالتے اس نے قدرے شرارت سے کہا۔۔
۔
ساحرہ،
اِس مہکتے ہوئےگال کی روشنی سے دمکنے دے دونوں جہاں
راستہ روکتی زُلفِ شب خُو ہٹا
ساحرہ
اپنے پاوں کو مٹی پہ رکھ اور سونا بنا
ساحرہ
(میثم علی آغا)
محبت سے کہتے وہ آج بھی اسے ویسے ہی تک رہا تھا
"جیسے وہ کوئی جادوئی شہ ہو "۔۔
۔
"میرے ساتھ ڈانس کرینگی حفصہ۔۔
ریان کی آواز پر حفصہ نے سٹپٹا کر ان سب کو دیکھا جو آنکھوں میں شرارت لئے اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ رہے تھے۔۔
۔
"دیکھو۔۔ کدو کی شکل والے ایسے پیار کرتے ہیں بیوی سے۔۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا تم ریان بھائی کے بھائی ہو ہی نہیں سکتے "۔۔
فیضی کو دھموکا جڑتے حریم نے کہا تھا۔۔
۔
"اوہ نا شکری عورت بھول گئی نکاح والے دن کتنی اچھی لائنز کہیں تھیں میں نے۔۔
فیضی نے گردن اکڑا کر یاد دلایا۔۔
"نقلی شہزادی۔۔
۔
"ایک بار اظہار کر کے دو سال سے احسان جتا رہا ہے یہ شخص "۔۔
وہ روہانسی ہوتی بولی تھی۔۔
"رر ریان۔۔
اسے مسلسل اپنی جانب دیکھتے پا کر وہ منمنائی تھی۔۔
۔
"مسز ریان مرتضیٰ۔۔ ول یو ڈانس وتھ می"۔۔
آنکھوں میں محبتوں کا جہاں آباد کئے اس نے ایک بار اپنی بات پر زور دے کر کہا۔۔
"بھابی دیکھ کیا رہی ہیں۔۔ اتنا ہینڈسم لڑکا پھر نہیں ملنے والا۔۔
حریم کی شرارت بھری آواز میں بھابی کہنے پر اس نے خفگی سے اسے گھورنا چاہا لیکن سامنے اس شخص کی نظروں کے سامنے وہ گھور بھی کہاں سکتی تھی۔۔
نرمی سے اسے کھڑا کرتے اسے کمر سے تھام کر اپنے کچھ قریب کر کے وہ دھیرے دھیرے سٹیپس لیتا ساتھ ساتھ گنگنا رہا تھا۔۔
اسے گھمبیر آواز میں گانا گاتے دیکھ اس نے نظریں اٹھانا دوبھر ہو رہا تھا۔۔
"دبی دبی سانسوں میں سنا تھا میں نے
بولے بنا میرا نام آیا۔۔
پلکیں جھکی اور جھکیں اور اٹھنے لگیں
تو ہولے سے اسکا سلام آیا۔۔
اسے پیام دیتی نظروں سے تکتے اس نے ہلکے ہلکے سٹیپس لیتا وہ اسکی جانب جھکے گنگنا رہا تھا۔۔

"دبی دبی سانسوں میں سنا تھا میں نے
بولے بنا میرا نام آیا۔۔
پلکیں جھکی اور جھکیں اور اٹھنے لگیں
تو ہولے سے اسکا سلام آیا۔۔
حیدر بھی احتیاط سے ریبا کو ساتھ لگائے دھیرے دھیرے سٹیپس لے رہا تھا۔۔
۔
ھاد کا ہاتھ تھام کر ڈانس کرتے فرحان نے گہری نظروں سے ساتھ بیٹھی ارسا کو دیکھا۔۔
جب بولے وہ جب بولے۔۔
اسکی آنکھ میں رب بولے۔۔
۔
اسکی بولتی آنکھوں سے نظریں چراتی وہ مسکراتی ہوئی رخ موڑ گئی۔۔

جب بولے وہ جب بولے۔۔
اسکی آنکھ میں رب بولے۔۔
پاس پاس ہی رہنا تم۔۔
آنکھ آنکھ میں کہنا تم ۔۔
"دیکھا تمہیں تو آرام آیا۔۔
۔

"دبی دبی سانسوں میں سنا تھا میں نے
بولے بنا میرا نام آیا۔۔
پلکیں جھکی اور جھکیں اور اٹھنے لگیں
تو ہولے سے اسکا سلام آیا۔۔
۔
"تو ملے نا ملے۔۔ یہ حسیں سلسلے۔۔
وقت کے ساتھ ہے۔۔ اب یہ کٹتے نہیں۔۔
ایک ہاتھ سے اسکی انگلی پکڑ کر گھماتے دوسرے ہاتھ سے اسے قریب کھینچا۔۔
"حح حیدر۔۔
وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔۔
وہ مبہوت سا اسکی بچوں جیسی شفاف ہنسی دیکھتا اسے گھما رہا تھا۔۔
۔
"تیرے بنا سانس بھی چلتی ہے۔
تیرے بنا دل بھی دھڑکتا ہے۔۔
یاد نہیں تھا یاد آیا۔۔

"دبی دبی سانسوں میں سنا تھا میں نے
بولے بنا میرا نام آیا۔۔
پلکیں جھکی اور جھکیں اور اٹھنے لگیں
تو ہولے سے اسکا سلام آیا۔۔
۔
اسے کمر سے تھام کر اپنے قریب کرتے ریان اسکے کانوں کے پاس سرگوشی کر رہا تھا۔۔ وہ خود میں سمٹتی بامشکل اسکے ساتھ سٹیپس لے رہی تھی۔۔ حریم اور فیضی ہنستے ہوئے تالیاں بجا رہے تھے۔۔
انکے ساتھ ہی حیدر بھی ریبا کے ساتھ سٹیپس لے رہا تھا جو گانے کے ساتھ ہی کھلکھلا رہی تھی۔۔ فاتح ہاتھ اٹھائے فرحان اور ھاد کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا۔۔
ارسا فرحان کی بولتی نظروں سے لجاتی ان سب کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔
۔
"نیند کی چھاؤں سے۔۔ تم دبے پاؤں سے ۔۔
یوں گئے وہ نشان اب تو دیکھتے نہیں۔۔
۔
تیرے لئے چاند بھی رکتا ہے۔۔
تیرے لئے اوس ٹھہرتی ہے۔۔
اس کے کھلکھلاتے ہوئے چاند سے مکھڑے کو دیکھتے حیدر بھی ریان کے ساتھ گا رہا تھا۔۔
"یاد نہیں تھا یاد آیا۔۔
"دبی دبی سانسوں میں سنا تھا میں نے
بولے بنا میرا نام آیا۔۔
پلکیں جھکی اور جھکیں اور اٹھنے لگیں
تو ہولے سے اسکا سلام آیا۔۔
۔
"حیدر آپ سے بہت پیار کرتے ہیں اہلیہ جانم "
اسکی جانب محبت سے تکتے باہیں پھیلائے وہ بلند آواز میں کہ رہا تھا۔۔ جیسے اپنے عشق کا علان کر رہا تھا۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


"اب ابھی بلائینگے دا جان کو۔۔ وہ بضد سے انداز میں بولی تھی ۔۔
بلکل ابھی بلائینگے میری جان۔۔
اسے روٹھے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے اس نے نرمی سے جواب دیا۔۔
۔
________
سورج اپنی الوداعی دھوپ کے سنگ شفق پر گلابی رنگت بکھیرتے غروب ہوتے لاکھوں داستانوں کو اپنے سنگ لے ڈوب رہا تھا۔۔ پرندے فضا میں چہچہاتے اپنے گھروں کی جانب گامزن تھے۔۔ وہ ہریالی کی اس دبیض کالین پر کھڑا اپنی متاع زندگی کو تک رہا تھا۔۔
لان کے تمام درختوں کو فینسی لائٹس سے سجائے وہ سب گول دائرہ بنائے بیٹھے تھے۔۔ اس نے نظریں گھمائیں جہاں فرحان کی کسی بات پر گلال ہوتی ارسا سمٹ کر بیٹھی تھی۔۔ اسکے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔۔ کچھ دوری پر حریم دونوں ہاتھوں سے فیضی کو مار رہی تھی جو ہنستا ہوا اس سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔۔ ان سب کے ساتھ اسکی زندگی بیٹھی تھی اسکا گڈا ۔۔ اسکا راجا بیٹا جو اب بھی حیدر کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔ ھاد کو پیار کر رہی تھی۔۔ سب کے درمیان بیٹھا فاتح جو کھلکھلا رہا تھا۔۔
اور موہنی سی مسکراہٹ لبوں پر لئے فیضی کو آنکھیں دکھاتی حفصہ۔۔ اسکی محبت۔۔ اسکی شریک سفر۔۔
"میں ریان مرتضیٰ اپنی زندگی اپنے بچوں پر وار دینے والا ریان مرتضیٰ۔۔ اپنے گڈے سے عشق کرنے والا ریان مرتضیٰ اسے ہر خوشی۔۔ ہر خواہش پوری کرنے کے باوجود بھی ایک جگہ چوک گیا تھا۔۔ اسے اللہ‎ کی پہچان نہیں کروا سکا تھا۔۔ اور اس پہچان کی میں نے۔۔ میرے گڈے نے۔۔ ہم سب نے بہت بڑی قیمت چکائی۔۔ گزرے سالوں نے مجھے سیکھا دیا کے ہم کتنا بھی کسی چاہ لیں۔۔ کتنی ہی مکمّل محبت کر لیں۔۔ ہر محبت سے مقدم اللہ‎ کی محبت ہے۔۔ اور یہ سیکھانے کا ذریعہ میری ریبا بنی میری بچی بنی۔۔ جس نے مجھے بتایا کے محبت تو وہی ہے جو اللہ‎ سے قریب کر دیں۔۔
ٹھنڈی ہوا اپنے اندر اتارتے وہ مسکرا کر حیدر کو ریبا کو دیکھتا انکی جانب بڑھا۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ریبا اور حفصہ کے درمیان آ بیٹھا۔۔
"دا جان۔۔
وہ حیدر کے حصار سے نکلتی اسکے سینے سے لگی تھی۔۔
"دا جان میں اتنے دن سے آپ کے پاس نہیں آیا تھا۔۔ میں نے اتنا مس بھی کیا تھا آپ کو۔۔
۔
"آپ کے حیدر نہیں لے کر جانے دے رہے نا ورنہ دا جان تو اتنے دنوں سے اپنے بچے کو لے کر جانا چاہتے ہیں۔۔
اسکی پیشانی پر لب رکھ کر اس نے پیار سے کہا۔۔
۔
"دا جان ایک منٹ۔۔
اسے اشارہ کرتی وہ کھڑی ہوئی تھی۔۔
ریبا۔۔ میرے دل مجھے بتائیں نا یار کیا بات۔۔
اسکے ڈگمگاتے وجود کو سنبھالتے حیدر نے خفگی سے کہا تھا۔
۔
"میری پرسنل بات ہے۔۔
اس نے بھی خفا خفا انداز اپنایا۔۔
پاس گلاب کے درخت سے احتیاط سے ایک گلاب توڑ کر وہ ریان کے نزدیک آئی تھی۔۔
"دا جان میں آپ سے بہت سارا پیار کرتا ہوں۔۔
پھول ریان کی جانب بڑھاتی وہ آنکھیں پھیلا کر بولی تھی۔۔
ریان نے مسکراتے ہوئے پھول تھاما
"دا جان بھی اپنے گڈے سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔
اسکی آنکھوں کو چوم کر اس نے دھیرے سے کہا تھا۔۔
۔
"بھئی ہمیں تو سوتیلا ہی بنا دیتے ہیں آپ بھیا۔فیضی کا شکوہ ابھرا تھا۔۔
وہ سب قہقہا لگا کر ہنس پڑے ۔۔
۔
موتیے کا ایک پھول ہاتھوں میں لئے وہ اسکے قریب آیا تھا۔۔ اسکے آگے بیٹھ کر اپنی مضبوط ھتیلی اسکی جانب بڑھائی۔۔ اس نے ریان کے اشارہ کرنے پر ہونا نازک ہاتھ اسکی ہتھیلی میں دیا۔۔
۔
" سنا ہے مرتے وقت محبوب ہستیاں اور محبوب لمحے یاد آتے ہیں.
میں چاہتا ہوں جب میری زندگی کے آخری لمحات ہوں تو آپ کی خوشبو میرے ارد گرد ہو۔۔ آپکا لمس میں میرے رگ رگ میں موجود ہو۔۔ آپ کے وجود کی نرمی میں اس پہر بھی محسوس کر سکوں۔۔ آپ کی گود میں سر رکھوں اور آپ کے ان نین کٹوروں میں اپنا عکس دیکھتے زندگی ہار دوں۔۔ محبت امر کر دوں۔۔
جذب کے عالم میں کہتے اس نے موتیے کا وہ پھول اسکی انگلی کے بیچ سجا کر لبوں سے لگایا۔۔
وہ نم آنکھوں سے اسکا اظہار سن رہی تھی۔۔ اگلے ہی لمحے تڑپ کر اسکے سینے سے لگی۔۔
"آ آپ کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہوں۔۔ آ آپ مرنے والی باتیں کر رہے ہیں۔۔
اس سے لپٹی وہ اپنے انداز میں اظہار کر رہی تھی ۔۔ وہ سب بےاختیار مسکرا اٹھے۔۔
۔
"جینا بھی چاہتا ہوں نا میرے دل ہمیشہ رہنے والی زندگی آپ کے سنگ جینا چاہتا ہوں۔۔
اسے نرمی سے خود سے الگ کرتے وہ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔
۔
"فرحان بھیا۔۔ آپ صرف نظروں ہی نظروں سے کہینگے یا زبانی کلامی بھی کچھ۔۔
فیضی نے شرارت سے کہتے ارسا کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں ڈھیروں رنگ لئے فرحان کو تک رہی تھی۔۔

ساحرہ
اپنی جُھکتی نگاہیں اُٹھا
اور عمروں سے پیاسے ہوئے دشت کو آج سیراب کر
ایک ٹوٹے ہوئے اٙدھ بُجھے دیپ کو چُھو کے مہتاب کر ۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


"" جانم ""
از قلم لائبہ ناصر
آخری قسط پارٹ ٢
۔
۔
سوچا تھا شادی ہوجائیگی۔۔ چاند ستاروں جیسی دلہن آئیگی تو کہے گی سرتاج آپ بیٹھیں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔۔ حق ہاں یہاں تو روز کمرے سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔۔
جوس بناتے کن انکھیوں سے حریم کو دیکھ کر اسکی دوہائیاں اب بھی جاری تھیں۔۔
۔
"دیکھ لئے تم نے دن میں چاند تارے۔۔ ابھی مزید دیکھو گے۔۔
حفصہ نے بھی ہنستے ہوئے اسکے سر پر چپت لگائی۔۔
۔
"ہائے بھابی دعا کریں میری اولاد مجھ پر جائے۔۔ اس بےبی ایلیفینٹ کی فوٹو کاپی آ گئی تو میں تو گیا۔۔
اس نے ڈرامائی انداز میں دو بڑیڈ کے ٹکرے میں انڈا ڈال کر کھاتی حریم کو دیکھ کر کہا۔۔
۔
"میری اولاد بلکل مجھ پر ہی جائے گی۔۔ خوش شکل۔۔ خوش خوراک۔۔ اور خوش اخلاق۔۔
وہ بھی فخر سے گردن اکڑائے بولی تھی۔۔
"نا میری جان اللہ‎ نا کرے تم پر جائے ورنہ وہ خوش نہیں خوف شکل۔۔ خوف خوراک۔۔ اور خوفناک اخلاق کی ہو جائے گی۔۔
وہ بھی فیضی تھا۔۔
۔
"بس کرو فیضی۔۔
فرحان کے آنکھ دکھانے پر اس نے بریک لگائی۔۔
"آپ سب کو ایک بتانا چاہتا تھا۔۔ بھائی آپ تایا بننے والے ہیں۔۔
ان سب پر ایک نگاہ ڈال کر اس نے ریان کی جانب دیکھتے اس نے جلدی سے اپنی بات مکمّل کی۔۔
۔
"پھر سے۔۔
فیضی کی زبان میں ایک بار پھر خارش ہوئی۔۔
"فیضی۔۔۔
حفصہ کے گھڑکنے پر اس نے مسکراتے ہوئے لبوں پر ہاتھ رکھا۔۔
۔
"ماشاءالله۔۔ اللہ‎ مبارک کرے۔۔
ارسا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ریان نے شفقت سے کہا تھا۔۔
۔
"مبارک ہو بھابی۔۔
حریم جلدی سے اپنی چیئر سے اٹھ کر ارسا کے پاس آئی تھی۔۔
۔
"حریم آرام سے بچے۔۔
اسکی جلدی پر فرحان نے اسے ٹوکا۔۔
۔
"انسان کی طرح بیٹھ جاؤ یہاں۔۔ کہا بھی ہے ایسی حالت میں اچھل کود سے بعض رہو۔۔
فیضی سرعت سے اٹھ کر اسے نزدیک آیا تھا۔۔ سختی سے کہ کر اسے سہارا دیتے چیئر اور بیٹھایا۔۔
۔
"جب سے شادی ہوئی ہے یہ زیادہ ہی فری ہو گیا ہے۔۔ ہمیشہ مجھے ڈانٹتا رہتا ہے۔۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے کہتی فیضی کے سامنے سے سینڈوچ اٹھا چکی تھی۔۔
اس نے مسکراہٹ دبا کر گہری نظروں سے اسکا حسین وجود دیکھا۔۔
چادر سے اپنا پورا وجود چھپائے روتی ہوئی سینڈوچ کھاتی وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔۔
۔
"بھئی آج تو پارٹی بنتی ہے۔۔ حیدر بھیا کو کہ دیں ریبا کو لے آئیں شام تک۔۔
فیضی نے چہکتے ہوئے کہا۔۔
۔
"وہ ریبا کو اس حالت میں کہیں لے کر نہیں جا رہا ہے تم جانتے تو ہو۔۔ چار مہینوں سے تو یہاں نہیں لایا۔۔ ہم خود مل مل کر آ رہے ہیں۔۔
ریان نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
ریبا کا آخری ماہ چل رہا تھا اور حیدر پچھلے چار مہینوں سے اسے کہیں لے کر نہیں جا رہا تھا۔۔
"یہ خبر سن کر لے آئیگا۔۔
فرحان نے دھیرے سے کہتے فون ہاتھ میں اٹھایا۔۔
_________
۔
چاندنی کو تن پہ لپیٹے.. موتیے کی چند ادھ کھلی کلیاں زلف گرہ گیر کی زینت بناۓ۔۔ پیروں میں خوشبو کی پائل باندھے
ہریالی کے دبیز قالین پہ خراماں خراماں اٹھلاتے بنا چاپ کے قدموں سے سہج سہج چلتی وہ آنکھوں سے سیدھا دل میں اتر رہی تھی۔۔
اس نے پیچھے سے اسے حصار میں لیا۔۔ سفید لباس میں اسکا دمکتا وجود اسکی دھڑکنیں روکنے کے درپے تھا۔۔
۔
"حیدر کے دل۔۔
اس نے دھیرے سے اسکے کانوں کے قریب سرگوشی کی۔۔وہ سمٹ سی گئی۔۔
پچھلے ایک سال سے وہ اس چھوٹے مگر خوبصورت سے کوٹیج نما گھر میں رہ رہے تھے۔۔ گھر کے چارو اطراف اس نے اپنی بیوی کی پسند کا ہر پھول لگوایا تھا۔۔ وہ روز صبح یہیں پائی جاتی تھی۔۔
۔
"دا جان کو اتنا سارا مس کر رہا ہوں۔۔ آپ کب سے لے کر نہیں گئے۔۔
وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلاتی لاڈ سے بولی تھی۔۔ وہ جی جان سے فدا ہوا۔۔
۔
"حیدر کی جان کے ٹکرے۔۔ ہم دا جان کو اپنے گھر کیوں نہیں بلا لیتے میری جان۔۔ آپ کو جانے نہیں دے سکتا میرے دل۔۔ اس حالت میں آپ بس میری نظروں کے سامنے رہیں۔۔
اسکا بھرا بھرا وجود نرمی اور احتیاط سے باہوں میں بھرتے اس نے محبت سے اسکی گالوں پر لب رکھے۔۔
اس واقعہ کو دو سال ہو گئے تھے لیکن اسکا خوف اب بھی حیدر کے دل میں برقرار تھا۔۔
۔
"آپ میری زندگی ہیں ریبا۔۔ اور میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔۔ میں پھر سے کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتا۔۔ ہم آج دا جان کو کال کرینگے۔۔ اور سب کو یہاں اپنے گھر انوائٹ کر لینگے میرے دل۔۔
رک کر اس نے موتیے کی چند کلیوں کو دست حنائی میں بھر کے اس کی مہک کو اپنے اندر اتارا تو فضا ساکن ہو گئی.. پھولوں کی ساری مہک جیسے کہیں کھو سی گئی ہر منظر اپنی جگہ ساکت ہو گیا تھا وہ مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا۔۔
۔
اس نے دھیرے سے اپنی معطر سانسوں کو فضا کی منجمند ہوتی سانسوں سے ملنے دیا.۔ اس نے بےاختیار اسکے وجود کی مدہوش کر دینے والی خوشبو اپنے اندر اتارے۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


"آجا بابا کا شیر۔۔ بابا کو تیار تو کر دو۔۔
اسے اسکی کرسی پر کھڑا کر کے وہ خود ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔
وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکے بال بناتا اب اس پر پرفیوم چھڑک رہا تھا۔۔
۔
"ہادی بابا۔۔
اسکے بالوں کو سیٹ کر کے اس پر پرفیوم سپرے کر کے اسکے پھولے سرخ گالوں پر پیار کر کے فرحان نے اسے نیچے اتارا۔۔
۔
"بابا۔۔ یو ڈڈنٹ ہگ ہادی۔۔
اپنے ننھے بازو پھیلائے وہ اسے یاد دلا رہا تھا کے اس نے آج اسے پیار نہیں کیا۔۔
فرحان مسکرا کر گھٹنوں کے بل جھکا تھا۔۔
دھیرے سے اسکے گال کو چوم کر اسے سینے سے لگایا۔۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے بھینج گیا تھا۔۔
"ہادی کیا بات ہے میری جان۔۔
اس نے اسے خود میں بھنج کر دھیرے دھیرے اسکی کمر سہلاتے سوال کیا۔۔
۔
"ہادی لوو یو۔۔ بابا از مائین۔۔
وہ بھرائے لہجے میں کہتا اسکی گردن میں منہ چھپا رہا تھا۔۔
۔
"بابا لووز یو لوٹ میری جان۔۔ بابا از اونلی یورز۔۔
اسکے چھوٹے سے وجود کو گود میں اٹھا کر اسکے گالوں سے اپنے میس کرتے وہ محبت سے بولا تھا۔۔
۔
"ماما سیڈ یو آر نوٹ اونلی مائین۔۔
وہ اب اسے اسکی وجہ بتا رہا تھا۔۔
"بابا از یورز میری جان۔۔ بابا کا ہادی۔۔ بابا کا شیر۔۔
ہمیشہ کی طرح اسکی آنکھوں۔۔ گال۔۔ ناک ایک ایک نقش پر پیار کرتے اس نے اسے اپنے ہونے کا یقین دلایا۔۔
"ہادی از آلسو یورز۔۔
فرحان کے گال پر پیار کر کے اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپاتے وہ شدّت سے بولا تھا۔۔
فرحان ہنس پڑا۔۔
"تیار ہو گئے آپ لوگ۔۔آجائیں ناشتے پر۔۔
ارسا نے مسکرا کر ایک دوسرے میں گم باپ بیٹے کو دیکھا۔۔
۔
"تم بھی آجاؤ۔۔
اس نے پیار سے اسے تکتے بازو پھیلائے وہ بنا دیر کئے اسکے نزدیک آ گئی تھی۔۔
"ہادی دو منٹ کے لئے ہادی باہر جائے گا بیٹا۔۔ بابا ابھی آتے ہیں۔۔
ارسا نے پیار سے اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر کر کہا۔۔ وہ کچھ دیر فرحان کو دیکھتے رہنے کے بعد اسکی گود سے اترتا کمرے سے چلا گیا تھا۔۔
۔
"اسے باہر کیوں بھیج دیا ارسا۔۔ وہ میرے بغیر ناشتے پر کہاں جاتا ہے۔۔
فرحان فکرمندی سے بولا تھا۔۔
۔
"مجھے بات کرنی تھی۔۔
اسکے سینے سے لگ کر وہ دھیرے سے بولی۔۔
۔
"اچھا بولو نا اس طرح اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ تم ہسپتال بھی گئی تھی نا کل اب کیسی طبیعت ہے تمہاری۔۔
اسکے بالوں میں چہرہ چھپا کر دھیرے سے اسکے گال کے نشان کو لبوں سے چھو کر اس نے تشویش سے پوچھا۔۔ اسکی طبیعت کافی دنوں سے خراب تھی۔۔ کل وہ حفصہ کے ساتھ ہسپتال گئی تھی۔۔ اسکی پریشانی کی وجہ بھی وہ خبر تھی جو اسے وہاں ملی تھی۔
۔
"اپنے بیٹے کو سنبھالنے کی تیاری کر لیں۔۔ اسکے بابا کے پیار کا حصّے دار آنے والا ہے۔۔
اسکے سینے سے لگتی وہ دھیرے سے بولی تھی۔۔
۔
"مطلب۔۔ ایک مطلب تم پریگنینٹ۔۔ اوہ میرے اللہ‎ مطلب میں بابا بننے والا ہوں۔۔
کچھ دیر ناسمجھی سے اسے دیکھتے رہنے کے بعد وہ ہوش میں آیا تھا۔۔ اسکے چہرے کو جابجا چومتے وہ خوشی سے کہ رہا تھا۔۔
۔
"فرحانننن۔۔
اس نے روہانسے ہو کر اسے پکارا۔۔
۔
"یار اتنی بڑی خوشی دی ہے تم نے مجھے۔۔
وہ سرشار سا اسکے ماتھے سے سر ٹکا کر بول رہا تھا۔۔
۔
"ھاد کو ہم کیسے۔۔
اس نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی۔۔
۔
"وہ اپنے بابا کا بیٹا ہے مجھے خوش دیکھے گا تو بات کوئی بھی وہ خود بھی خوش ہوگا۔۔ اسے تم مجھ پر چھوڑ دو
اسکی بات پر اس نے بھی حامی بھری۔۔ وہ تو واقعی اپنے بابا کا بیٹا تھا۔۔ وہ جانتی تھی فرحان اسے سمجھا لیگا۔۔
۔
"بھائی کو بتایا ہوگا حفصہ نے۔۔
۔
"انہوں نے کہا ہے آپ بتائینگے۔۔
وہ گلال بھرے چہرے کے ساتھ کہتی اسکے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔۔
اسکی ادا پر وہ سرشار سا ہنس پڑا۔۔
۔
"سوچا تھا شادی ہوجائیگی۔۔ چاند ستاروں جیسی دلہن آئیگی تو کہے گی سرتاج آپ بیٹھیں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔۔ حق ہاں یہاں تو روز کمرے سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔۔
جوس بناتے کن انکھیوں سے حریم کو دیکھ کر اسکی دوہائیاں اب بھی جاری تھیں۔۔
۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


"پہلے آپ میرے گڈے کا نام لے کر مجھ سے فرار کے راستے ڈھونڈتی تھیں۔۔ اب آپ میرے بیٹے کا سہارا لیتی ہیں۔۔ یہ اچھی بات نہیں ہے جاناں۔۔
اسکی نتھنی کو انگلیوں سے چھیڑتے وہ اطمینان سے بول رہا تھا۔۔
۔
"رر ریان۔۔
وہ دھیرے سے بولی۔۔
"اب تو نام بنا ڈرے لے لیا کریں ریان کی جان۔۔
وہ ہلکا سا ہنسا تھا۔۔
___________

دو سال بعد۔۔
سورج پورے آب و تاب سے شان سے ابھر رہا تھا۔۔ روشن صبح کے حسین آغاز میں سورج کی کرنیں اسکے چہرے پر پڑی تھیں۔۔ ایک زور دار آواز کے ساتھ منہ کھول کر اس نے بھر پور انگڑائی لی۔۔کہ اس کے کھولے لبوں سے کوئی نرم شہ ٹکرائی تھی۔۔
"حریمممممم۔۔
ہلکے سے آنکھیں کھول کر دیکھتے اگلے ہی لمحے اسکی زور دار چیخ کمرے میں گونج اٹھی تھی۔۔ حریم میڈم بہت آرام سے نیند میں بےخبر اپنا پیر اسکے کھولے منہ میں ڈال چکی تھیں۔۔
۔
"اب کیا مسئلہ ہے۔۔ یااللہ‎ اس آدمی کو ھدایت دے۔۔ نا رات میں سونے دیتا ہے نا صبح آرام کرنے دیتا ہے کہاں جاؤں میں۔۔
وہ روہانسی ہوتی اٹھ بیٹھی۔۔
۔
"ھدایت تو اللہ‎ اس موٹی عقل کی بےبی ایلیفینٹ کو دے۔۔ رات بھر مجھے پنچنگ بیگ سمجھ کر تو تم مجھے لاتیں رسید کرتی ہو۔۔ اور الزام مجھ پے۔۔
اسکا پیر دوڑ ہٹاتے وہ بھی غرایا تھا۔۔
۔
"پوری رات گدھے کی طرح خراٹے لیتے ہو تم۔۔ آس پاس کے دس مکانوں تک تمہارے خراٹوں کی آواز جاتی ہوگی۔۔ بس میں نے کہ دیا ہے ابھی اسی وقت میرے کمرے سے نکلو تم۔۔
ڈھکا دے کر اسے بیڈ سے نیچے گراتے وہ خونخوار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔۔
۔
"کیا۔۔ میں نکلوں۔۔ میں کیوں نکلوں تم جاؤ میرے کمرے سے۔۔ اور میرے گھر سے بھی۔۔
وہ بھی ٹھوک بجا کر بولا۔۔ اگلے ہی لمحے وہ آواز کے ساتھ بلند آواز میں رونے لگی تھی۔۔
۔
"یہی دن دیکھنے کے لئے میں نے تم سے شادی کی تھی۔۔ مم مجھے گھر سے نکال رہے ہو تم۔۔ مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا تمہاری نیت ہی خراب ہے۔۔ کوئی تیسری چوھتی پسند آ گئی ہوگی نا۔۔
وہ سوں سوں کر کے زور زور سے روتی ہوئی بول رہی تھی۔۔
۔
"ارے یار۔۔ نہیں آئی مجھے کوئی تیسری چوھتی پسند۔۔ پلیز چپ ہو جاؤ۔۔
جلدی سے اسکے بھرے بھرے وجود کو خود سے نزدیک کرتے اس نے اسکو پچکارتے ہوئے کہا تھا۔۔
پچھلے ایک سال سے انکی صبح اسی طرح ہوتی تھی۔۔ ایک سال پہلے اسکی رخصتی ہوئی تھی۔۔۔
"ویسے ڈائریکٹ تیسری چوھتی کیوں دوسری کہاں گئی۔۔
وہ حیرانی سے بولا۔۔
"دو کے برابر تو میں اکیلی ہوں نا۔۔
اسکی شرٹ اپنی ناک رگڑتی وہ بھرائی آواز میں بولی تھی۔۔
۔
"میری جان دو کے نہیں تم دس کے برابر ہو۔۔ اب چپ ہو جاؤ کیوں میرے معصوم بچوں کو صبح صبح ڈرا رہی ہو۔۔
اسکی سرخ ہوتی ناک پر پیار کرتے وہ شوخی سے بولا وہ پل بھر میں سرخ ہوئی تھی۔۔
"دور ہٹو بےشرم۔۔ بےہودہ آدمی۔۔
خجل سی ہو کر اسے دور ہٹاتی وہ رخ موڑ گئی۔۔
"ارے میں شرم کرنے لگتا نا تو ابھی میرے دو دو بچوں کے بابا بننے والا نہیں ہوتا۔۔
وہ فخر سے گردن اکڑائے بولا تھا۔۔ پانچ مہینے پہلے ہی انھیں خوش خبری ملی تھی۔۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر نے انھیں ٹوئنز بچوں کی آمد سے آگاہ کیا تھا۔۔ فیضی کے تو خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی۔۔ تصور میں سات آٹھ بچوں کے درمیان بیٹھا دیکھ کر اس نے حریم کو کتنے دنوں تک تنگ کیا تھا۔۔
۔
"اب تو تم نکل ہی جاؤ میرے کمرے سے۔۔
خفت سے سرخ پڑھتا چہرہ لئے وہ اسے کمرے سے نکال چکی تھی۔۔
۔
"کیا ہوا پھر نکال دیا گیا کمرے سے۔۔
ناشتہ تیار کرتی ارسا نے اسے دیکھ کر شرارت سے کہا تھا۔۔ ہر روز وہ یونہی کمرہ بدر ہوا کرتا تھا۔۔
۔
"ارے بھابی اپنی قسمت ہی موٹی ہے۔۔
وہ ٹھنڈی آہیں بھرتا اسکے پاس ہی کچن میں آ گیا۔۔ گھر کا رول اب بھی وہی تھا۔۔ ارسا حفصہ اور حریم کے ساتھ وہ تینوں بھی گھر کے کام کرواتے تھے۔۔
۔
__________
۔
"ہادی بابا کی جان جلدی سے برش کرو بیٹا۔۔
وہ واش بیسن کے قریب رکھی چیئر پر کھڑے چار سالہ ہادی کو دیکھ کر بولا تھا جو اسکے برابر کھڑا بلکل اس جیسے تاثرات بنائے شیشے میں دیکھ کر برش کر رہا تھا۔۔
۔
"بابا ڈن۔۔
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔ فرحان نے مسکرا کر اسکے ہاتھ سے برش لے کر رکھا۔۔ دھیرے سے اسکے گالوں پر پیار کرتے اس نے باتھ کرٹن برابر کر کے شاور آن کیا۔۔

"جلدی سے شاور لے کر آؤ میری جان بابا باہر ویٹ کر رہے ہیں "۔۔
اسے ھدایت کرتا وہ کمرے میں آیا بیڈ پر ان دونوں کے کپڑے رکھے ہوئے تھے جو یقیناً ارسا نے ہی رکھے تھے۔۔
۔
"بابا ہادی ہیز کیم۔۔
پیچھے وہ خود پر تولیہ لپیٹ کر کھڑا تھا۔۔ فرحان نے کپڑے اسکے ہاتھ میں دئے خود اپنے کپڑے لے کر وہ ڈریسنگ روم میں گیا۔۔ وہ نکلا تو ہادی بھی بلیو جینس کی شارٹ اور سفید شرٹ پہنے کھڑا اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا وجہ اسکے بابا نے بھی سیم کلر پہنا تھا۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


تو بھی اس سے پیار کرتا ہوں دد دا جان۔۔
ریان کی گود میں چہرہ چھپائے وہ بری طرح سسک رہی تھی۔۔ حیدر کے دل نے ایک بار پھر اعتراف کیا وہ منفرد تھی۔۔ وہ ایک نعمت کے چھن جانے پر ان سب کی طرح اللہ‎ سے بدگماں نہیں ہوئی تھی۔۔ وہ اپنے پاس موجود نعمتوں کے لئے اللہ‎ کا شکر ادا کر رہی تھی۔۔
۔
"پر پر میں اس سے بہت پیار کرتا تھا دد دا جان۔۔ اس اسے آپ کو دینا چاہتا تھا۔۔ جیسے مم مجھے پیار کرتے ہیں ویسے اسے کرنا تھا۔۔ اس اسکا نام رکھنا تھا دا جان۔۔ وو وہ تو آیا ہی نہیں۔۔
تڑپ تڑپ کر روتی وہ ان سب کو رلا رہی تھی۔۔
۔
"نا میرے بچے۔۔ نا دا جان کی جان۔۔ اللہ‎ خوشیاں دے کر واپس لیتا ہے تو دوگنی خوشی دیتا ہے میری جان۔۔ وہ میرے بچے کو پھر خوش دے گا۔۔ ایسے نہیں روتے دا جان کی جان۔۔۔
اسے اپنے سینے سے لگائے وہ نم لہجے میں اسے سمجھا رہا تھا۔۔
"مم میں میں اس سے بہت پیار کرتا تھا۔۔ مم میں نے دد دیکھا بھی نہیں دد دا جان "۔۔
وہ سسکیوں کے بیچ کہ رہی تھی۔۔
۔
"ریبا بس بیٹا۔۔ ادھر دیکھو۔۔ بھائی کی طرف دیکھو۔۔
ریان کی حالت دیکھ کر فرحان نے نرمی سے اسے ریان سے الگ کیا۔۔
۔
"اللہ‎ نے دیا تھا میری جان اس نے لے لیا۔۔ وہ تو ہر چیز پر قادر ہے بچے۔۔
نرمی سے اسکے آنسوں صاف کر کے وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
"مم میں نے اسے دیکھا بھی نہیں تھا۔۔
وہ اسے دیکھتی بلک رہی تھی۔۔ حیدر ضبط سے سرخ انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے یوں بلکتے سسکتے دیکھ رہا تھا۔۔
۔
"اللہ‎ کی یہی مرضی تھی نا بھائی کی جان۔۔
فرحان نے نرمی سے اسے ساتھ لگایا۔۔
"میں کمرے میں جا رہا ہوں۔۔
اسکی برداشت یہیں تک تھی اس سے زیادہ وہ اسے یوں سسکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
"ریبا کو بھی لے کر جاؤ۔۔ کھانا کھا لیا ہے اس نے۔۔ اور بھائی آپ بھی ریسٹ کریں کچھ دیر ۔۔
فرحان نے سنجیدگی سے کہتے ریبا کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھمایا وہ جانتا تھا وہ خود بھی اس وقت بہت ڈسٹرب ہے۔۔ اور اسے پرسکون صرف اسکی بیوی ہی کر سکتی تھی۔۔
۔
_______
اسے بیڈ پر لیٹا کر وہ خود بھی دوسری جانب نیم دراز ہو گیا تھا۔۔آنکھیں بند کرنے پر جانے کب سے ضبط کئے دو آنسوں لڑھک کر اسکے گال پر گرے تھے۔۔
اپنے گالوں پر مانوس سا نرم لمس محسوس کر کے اس نے آنکھیں کھولیں وہ اسکے سینے سے لگی چہرہ اوپر کی جانب اٹھائے اپنی نرم پوروں سے اسکے آنسوں چن چکی تھی۔۔
۔
"کیوں اتنی تکلیف دے رہی ہیں مجھے۔۔ ٹوٹ رہا ہوں آپ کو اس طرح دیکھ کر۔۔
اسکی تھوڑی پر لب رکھ کر وہ کرب سے بولا تھا۔۔
"سوری۔۔
وہ گال پھلا کر نم آنکھوں سے بولی تھی۔۔
۔
"بھولنا آسان نہیں ہے لیکن آگے بڑھنا اتنا مشکل بھی تو نہیں ہے نا۔۔ تھوڑی سی مدد تو کریں میری۔۔
اس کے گال پر لب رکھ کر اس نے بےبسی سے اسکی جانب دیکھا۔۔
۔
"اب نہیں رؤنگا۔۔
وہ جیسے یقیں دلا رہی تھی۔۔
۔
"بلکل بھی نہیں۔۔
اس نے دھیرے سے اسکی آنکھوں میں موجود نمی کو بھی انگوٹھے کی مدد سے صاف کیا۔۔
۔
"میری آنکھوں میں درد ہو رہا ہے۔۔
اسکی جانب دیکھتے وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
اسکے اشارے پر وہ دھیرے سے کچھ اونچی ہوتی اسکے آنکھوں پر لب رکھ گئی۔۔
"یہاں بھی۔۔
اس نے بند آنکھوں کی پتلیوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا۔۔
وہ آہستہ سے اسکی انگلی ہٹا کر اپنے لب رکھ گئی۔۔
حیدر کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔۔
"یہاں بھی۔۔
۔
"گندے آدمی گندے ہیں۔۔ شرم بھی نہیں آتی۔۔
اسکے اشارے پر وہ دونوں ہاتھوں سے اس پر گھونسے برساتی اسکے سینے سے لگ کر لیٹ گئی تھی۔۔
وہ ہلکا سا ہنسا۔۔
"گندا آدمی۔۔
__________
وہ آنکھیں موند کر لیٹا پیشانی پر انگلیاں مسل رہا تھا۔۔ فاتح کو کاٹ پر لیٹا کر وہ دھیرے سے اسکے قریب آئی۔۔
تکیہ سے اسکا سر ہٹا کر نرمی سے اپنی گود میں رکھتی دھیرے دھیرے نرم ہاتھوں سے اسکا سر دبانے لگی۔۔
"انتظار کر رہا تھا آپکا۔۔ بہت تھک گیا ہوں۔۔
اسکی آواز میں بھی واضح تھکن تھی۔۔
اس نے بنا کچھ کہے دھیرے سے اسکی کشادہ پیشانی پر لب رکھے۔۔
وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔
اسکی نرم انگلیوں کی حرکت بالوں میں اسے سکون پہنچا رہی تھیں۔۔
پچھلے ایک ہفتے سے جس طرح وہ سب سنبھال رہی تھی اسکی نظروں سے اوجھل نہیں تھا۔۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔
آہستہ آہستہ اسکا سر دباتی وہ اسے تسلی بھی دے رہی تھی۔ اس نے مسکرا کر اثبات میں گردن ہلایا۔۔
۔
"آپ ہیں نا میرے ساتھ پریشان نہیں ہوں میں۔۔
اسکے ہاتھوں کو لبوں سے لگاتے وہ خمار آلود لہجے میں بولا۔۔
"بب بس۔۔ صحیح ہو گیا درد۔۔
وہ جلدی سے پیچھے ہوئی تھی۔۔
"اونہوں۔۔ ابھی تو نہیں ہوا۔۔
اسکی نتھنی کو لبوں سے چھوتے وہ دھیرے سے بولا ۔۔
۔
"فاتح اٹھ جائے گا۔۔
اس نے سوئے ہوئے فاتح کی جانب اشارہ کیا۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


حیدر کے سینے میں چہرہ چھپاتی وہ روتی ہوئی بولی تھی
۔
"ہم چل ہیں گھر میری جان۔۔
اسے نرمی سے اٹھاتے ترحم بھری ایک نگاہ پیچھے سٹریچر پر پڑے وجود پر ڈال کر وہ کمرے سے نکل گیا۔۔ پیچھے وہ ہاتھ جوڑے آنکھوں میں حسرت لئے انھیں دور ہوتا دیکھ رہی تھی۔۔
''یارب المستضعفین۔۔
ایک بار پھر وہ آواز اسکی سماعت میں گونج اٹھی۔۔
__________
۔
درد تھا۔۔ تکلیف تھی لیکن آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی۔۔ کچھ بھی تو ہمیشہ رہنے والا نہیں تھا۔۔۔ درد تکلیف بھی نہیں۔۔ اسے ہسپتال سے گھر آئے ایک دن ہو گیا تھا۔۔ وہ سب اسکا حد سے زیادہ خیال رکھ رہے تھے۔۔
اس وقت وہ ریان کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی ریان آہستہ آہستہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔ اسکے زخم اب کافی حد تک مندل ہو گئے تھے۔۔ نشان اب بھی تھے۔۔۔
فیضی بہت نرمی سے اسکے بازوؤں میں آئنٹمنٹ لگا رہا تھا۔۔ سامنے ہی ھاد بیٹھا اسکے منہ میں وقفے وقفے کچھ کھانے کی چیزیں ڈال رہا تھا۔۔ گڈا کا خیال تو ہادی بھی رکھ رہا تھا۔۔
جب حیدر اور فرحان لاؤنچ میں داخل ہوئے۔۔
"جو کام کہا تھا وہ کر دیا ہے۔۔
ریان نے سنجیدگی سے انھیں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔
۔
"میں چاہتا تھا میری بیوی اسے خود اپنے ہاتھوں سے سزا دیں۔۔۔
ریبا کی پیشانی پر لب رکھ کر اسکی جانب نرم سی مسکراہٹ اچھال کر وہ سنجیدگی سے ریان سے بولا تھا۔۔
کل ہی ان دونوں نے عمر اصغر سے متعلق اسے بتایا تھا۔۔ اسکی حالت دیکھ کر اسکے لئے یقیں کرنا مشکل ہو گیا کے ایسا ان دونوں نے کیا تھا۔ . وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔۔ اسکے ہاتھ بلکل بےکار ہو گئے تھے اور شاید دماغی توازن بھی۔۔
"وہ مسلسل صرف ایک ہی لفظ دوہرا رہا تھا۔۔
گڑیا دوست۔۔ گڑیا نہیں۔۔
ریان نے فورا ان لوگوں کو اسے آزاد کر کے ہسپتال میں داخل کرنے کہا تھا جس پر فرحان اور حیدر دونوں ہی اس سے ناراض تھے۔۔
۔
"سزا اور جزا کا مالک اوپر رب بیٹھا ہے حیدر۔۔ میں اور تو یہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔۔ میری بچی سلامت ہے۔۔ ہمارے پاس ہے۔۔ وہ اسکا مجرم تھا اور اسے اسکے کئے کی سزا مل چکی ہے۔۔ اب وہ قابل رحم ہے۔۔
ریبا کی پھیلتی آنکھوں پر لب رکھ کر وہ بھی سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
۔
"وہ میری بیوی کا بھی مجرم تھا بھیا۔۔
فرحان نے دروازے پر کھڑی ارسا پر ایک نگاہ ڈال کر کہا۔۔
"اسے اسکی سزا مل چکی ہے فرحان۔۔ اور ارسا کو اسکے صبر کا پھل بھی۔
اس نے ارسا کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا وہ فورا اسکے پاس آ بیٹھی تھی۔۔ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ریان نے اسکی جانب دیکھا۔۔
جو نم آنکھوں سے اثبات میں گردن ہلا رہی تھی۔۔
۔
"بابا ہادی گڈا ایت مورر۔۔
Baba hadi's Gudda eat more..
اپنے ہاتھ میں موجود باول میں ڈرائے فروٹس ختم ہو جانے پر وہ ریبا کے گالوں کو چٹاچٹ چوم کر فرحان کے پاس آیا تھا۔۔
گڈے سے پچھلے ایک ہفتے میں اسکی اور بھی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔۔
۔
"بابا کی جان۔۔ میرا بیٹا خیال رکھ رہا ہے گڈے کا۔۔
اسکے سرخ گالوں پر پیار کر کے اسے گود میں بیٹھایا جو اسکے سینے سے لگ کر بیٹھ گیا تھا۔۔ گڈا سے دوستی کی وجہ بھی بابا ہی تھے۔۔
۔
"بابا ہادی گڈا نو اوں اوں۔۔ ہادی گڈا پا دی۔۔ یا پا دی۔۔ گڈا گڈ۔۔ گڈا ہادی۔۔ ہادی بابا۔۔
بابا کو سامنے پا کر ہی اسکی کب سے بند زبان پورے سپیڈ میں چل پڑی تھی۔۔
گڈے کی تعریف کر لینے کے بعد وہ بتانا نہیں بھولا تھا کے ہادی صرف بابا کا ہے۔۔
۔
"بھیا مجھے ہادی بےبی بہت پسند ہے۔۔
وہ دھیرے سے بولی تھی۔۔ کتنی ہی دنوں کے بعد ان سب کے لبوں مسکراہٹ بکھری تھی ۔۔
"بھیا کی جان ہادی بےبی آپکا ہی ہے۔۔
۔
"نو ہادی بابا۔۔ بابا ہادی۔۔
ہادی بےبی کو یہ بات بلکل پسند نہیں آئی تھی ۔۔
۔
"ریبا ۔۔ دا جان کا گڈا ٹھیک تو ہے نا میرا بچہ۔۔
اسکے گالوں کو سہلاتے ریان نے دھیرے سے پوچھا تھا۔۔
۔
"دا جان مم میری میم کہتی ہیں اللہ‎ پاک جن سے خوش ہوتا ہے انھیں پیار کرتا ہے۔۔ اور اور سب پیار کرتے ہیں۔۔ اللہ‎ پاک مجھ سے خوش ہوا تھا۔۔ سب سب مجھ سے اتنا اتنا سارا پیار کرتے۔۔ پر دا جان میں پہلے اللہ‎ پاک کو کبھی تھینک یو نہیں بولا۔۔ جنکو اللہ‎ پاک اتنا سارا پیار دیتے ہیں وہ تھینک یو کہتے ہے نا۔۔
وہ سب دم سادے اسے سن رہے تھے۔۔
ریان نے اثبات میں گردن ہلائی۔۔
۔
"مم میں تو نہیں بولتا نا بھیا۔۔ حح حیدر نے سیکھایا الحمداللہ کہوں۔۔ اللہ‎ پاک مم مجھ سے اور خوش ہو گیا۔۔ مم مجھے حیدر۔۔ دا جان۔۔ فرحان بھیا فیضی۔۔ حفصہ سندریلا اور فاتح بےبی ار ہادی بےبی بھی دیا۔۔ اور اور پھر مجھے میرا پرسنل بےبی بھی دیا۔۔ پر الحمداللہ تو میں تھوڑا تھوڑا کیا۔۔ اتنا سارا نہیں کیا۔۔
۔
"میں سوچتا ہوں بھیا جب اللہ‎ پاک کے اتنے سارے گفٹ پر اتنا تھوڑا الحمداللہ کیا اللہ‎ پاک خفا نہیں ہوا ۔۔ اب ایک گفٹ واپس لے لیا تو میں کیسے خفا ہو سکتا ہوں بھیا۔۔ مم میں نہیں ہو سکتا۔۔ وو وہ اب بھی مجھ سے پیار کرتا ہے۔۔ اس نے مجھے اتنا سارا کچھ دیا۔۔ مم میں نے اسکا دیا ہوا اسکا گفٹ اسے واپس دے دیا

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


وہ اسکے سینے سے لگی روتی ہوئی اسے بتا رہی تھی۔۔
"کس نے مارا میرے دل۔۔
اسکے چہرے کو ہاتھوں میں لئے اس نے تشویش سے پوچھا۔۔
۔
"علیشا نے۔۔
وہ اسکے سینے میں منہ چھپاتی ہوئی بولی تھی۔۔
حیدر نے بےاختیار مٹھیاں بھینجی۔۔
"آپ کیا پڑھ رہی تھیں بیوی اس وقت۔۔
اس نے دھیرے سے سوال کیا۔۔
''یارب المستضعفین۔۔
وہ سر ہلا کر بولی۔۔
۔
"تو میری جان وہ جو رب ہے وہ ہمیں یونہی تو نہیں چھوڑے گا میرے دل۔۔
اسکے سر پر پیار کرتے اس نے دھیرے سے کہا۔۔
"میں بہت ڈر گیا تھا۔۔ یہ خوف اتنا جان لیوا تھا کے آپ کو کچھ ہو گیا تو۔۔ مجھے لگ رہا تھا میری سانسیں تھم جائینگی۔۔
۔
"میں سن رہا تھا۔۔
وہ دھیرے سے بولی۔۔
وہ میں آنکھیں بند کر کے سو رہا تھا نا آپ تھوڑا تھوڑا بول رہے تھے"۔۔
وہ شاید اپنی بےہوشی کا ذکر کر رہی تھی۔۔
_______
پورے ایک ہفتے بعد وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہو رہی تھی۔۔ ریان نے دھیرے سے اسے پیار کر کے سہارا دے کر کھڑے کیا۔۔
"آجاؤ ریبا۔۔
حفصہ نے نرمی سے اسے دوسری جانب سے سہارا دیا۔۔ نقاہت کے باعث وہ کافی کمزور ہو گئی تھی۔۔ اس پورے ایک ہفتے میں حیدر نے ہسپتال کے سٹاف تک کا دماغ خراب کر دیا تھا۔۔اپنی بیوی کے معاملے میں وہ پہلے سے کئی زیادہ حساس ہو گیا تھا۔۔
۔
"کیسی ہے میری جان۔۔
فرحان نے مسکرا کر اسکے پھولے گالوں کو سہلایا۔۔
۔
"تھوڑا تھوڑا ٹھیک ہوں۔۔
وہ سر ہلا کر بولی۔۔
۔
"پوری ٹھیک بھی ہوجاؤ گی میری جان۔۔
ارسا نے بھی اسے پیار سے ساتھ لگایا۔۔۔
"مے آئی۔۔
وہ دھیرے سے اسکے قریب آیا تھا۔۔ آہستہ سے اسکے آگے اپنی مضبوط ہتھیلی پھیلائی۔۔ اس نے ہلکا سا مسکرا کر اپنا نرم ہاتھ اسکی ہتھیلی میں دیا۔۔
وہ سر کو خم دیتا اسے نرمی سے بازوؤں میں اٹھا چکا تھا۔۔
پھولے گالوں کو اسکی شرٹ سے رگڑتے وہ اسکے شانے پر سر ٹکا گئی۔۔
"اپنی بیوی کو میں کچھ دیر میں لے کر گھر پہنچتا ہوں۔۔
محبت بھری ایک نظر اس پر ڈالتے اس نے ریان کی جانب دیکھا جو پیار سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
۔
وہ نرمی سے اسے اٹھائے ہسپتال کے ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔
"مم میں یہاں کیوں آیا ہوں۔۔
وہ سہم کر اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔۔
"اپنا معاملہ اللہ‎ کے سپرد کیا تھا نا میرے دل اللہ‎ کا انصاف دکھانے لے کر آیا ہوں۔۔
اسکی پیشانی چوم کر اس نے سامنے سٹریچر کی جانب اشارہ کیا۔۔ سامنے سٹریچر پر آنکھیں موند کر لیٹے وجود کو دیکھ کر اسکے چہرے پر خوف سا پھیل گیا تھا۔۔ وہ خوفزدہ انداز میں حیدر کی جانب دیکھنے لگی جو اسے نرمی سے کھڑا کر چکا تھا۔۔
"یی یہ۔۔
۔
"علیشا ہے۔۔
اسے گھبراتے ہوئے دیکھ کر حیدر نے نرمی سے اسے اپنے حصار میں لے کر اطمینان سے جواب دیا۔۔
اس رات ریبا کے بتانے پر کے اسکی یہ حالت علیشا نے کی تھی فرحان کا بھی غصّے سے برا حال ہو رہا تھا۔۔ وہ تو عمر کو سمجھ رہے تھے لیکن عمر اب اس حالت میں ہی نہیں تھا کے ریبا کو کوئی نقصان پہنچا سکتا۔۔
حیدر جب غصّے میں رضوان صاحب کے گھر پہنچا تو علیشا کے ایکسیڈنٹ کی خبر سن کر سن سا رہ گیا۔۔ جس گاڑی سے اس نے ریبا کو ہٹ کیا تھا اسی گاڑی سے اسکا خود کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔۔ ٹکر اتنی شدید تھی کے دو دنوں تک وہ ہوش میں ہی نہیں آئی اور وہ ہوش میں آئی تو دونوں ٹانگوں سے محروم ہو چکی تھی۔۔ اسکی گاڑی میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اسکی ہڈیاں تک افیکٹ ہوئیں تھی۔۔ اب وہ کبھی چل نہیں سکتی تھی۔۔ اسکی ٹانگیں کاٹ دی گئیں تھیں کیوں کے پائزن پورے جسم میں پھیلنے کا خطرہ تھا۔۔
حسد کی جس آگ میں جل کر اس نے دوسروں کی خوشیاں راکھ کرنی چاہی تھی۔۔۔ آج وہ خود محرومی کی زندگی گزارنے والی تھی۔۔
۔
"مم میں نے ایسا نہیں چاہا۔۔ مم میں نہیں اللہ‎ سے یہ نہیں کہا حیدر۔۔ مم میں نہیں۔۔۔
ریبا نفی میں گردن ہلاتی روتی ہوئی حیدر میں سمٹ سی گئی۔۔
"ششش آپ کو رونے کی ضرورت نہیں ہے میری جان۔۔ آپ کسی کے لئے ایسا نہیں چاہ سکتیں۔۔ علیشا آپ سے معافی مانگنا چاہتی تھی اس لئے آپ کو یہاں لے کر آیا ہوں۔۔
اسے نرمی سے الگ کرتے اس نے پیار سے سمجھایا۔۔
اس نے روتے ہوئے اسکی جانب دیکھا جو ہاتھوں کو جوڑے آنکھوں میں حسرت لئے اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔۔ آگ سے اسکا چہرہ بھی افیکٹ ہوا تھا۔۔ ایک حصّہ پوری طرح جل چکا تھا۔۔ وہ ٹھیک طرح سے بول نہیں پا رہی تھی۔۔
۔
"مم میں اس سے بہت پیار کرتا تھا۔۔ وو وہ تو بہت چھوٹا سا ہوگا۔۔ چھوٹے بےبی بہت اچھے ہوتے ہیں۔۔ تم تمہیں اسے نہیں مارنا چاہئیے تھا۔۔
اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے اس نے کچھ محسوس کرنا چاہا لیکن محسوسیت جیسے کہیں سو گئی تھی۔۔
"مم مجھے گھر جانا ہے۔۔ پپ پلیز اس طرح اسے نہیں دیکھنا۔۔
اتنا آسان تو نہیں تھا اپنا سب سے بڑا نقصان معاف کر دینا۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


سامنے ہی وہ ریان کے ساتھ لگی چھت کو گھور رہی تھی۔۔ اسے محسوس ہوا جیسے اسکا دل کسی نے مسل دیا ہو۔۔
اس نے ایک نظر ان سب پر ڈالی۔۔ ارسا اور حفصہ کے ساتھ کھڑی روتی ہوئی حریم۔۔ تسبیح پڑھتی فائزہ بیگم۔۔ ریبا کے دوسری جانب بیٹھا فیضی جو اسے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ اور پھر ریان کے سینے لگی ریبا۔۔
وہ احتیاط سے اسکے نزدیک بیٹھ گیا۔۔ اسے دیکھ کر اس نے نظریں اٹھائیں تھیں۔۔
حیدر نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔۔
۔
"ختم ہو گیا۔۔
اسکے ہاتھ کو اپنے نرم ہاتھ میں تھامتی وہ خالی خالی آنکھوں سے اسے تکتی ہوئی بولی تھی۔۔ ریان نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔۔ حیدر خود بھی پہلو بدل کر رہ گیا۔۔ اسی لمحے سے تو وہ بچنا چاہ رہا تھا۔۔
ارسا کی سسکی کمرے میں گونجی۔۔ پہلی اولاد کو کھونے کا درد اس سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا۔۔
۔
"سس سب ختم ہو گیا۔۔
وہ اب بھی خالی آنکھوں سے اسے دیکھتی بڑبڑائی تھی۔۔
"اب ابھی تو میں رویا نہیں۔۔ تھوڑا سا بھی نہیں رویا۔۔ یہ یہ اب بھی ریڈ ہو رہی ہیں۔۔
کچھ آگے ہو کر اسکی آنکھوں کے گلابی کناروں کو اپنے ہاتھوں سے چھوتی وہ دھیرے سے بولی تھی۔۔
ریان کے اشارے پر وہ سب ہی باہر نکل گئے۔۔ وہ خود بھی ریبا کی پیشانی چوم کر باہر نکل گیا۔۔
۔
"رو لیں بیوی۔۔ آج رو لیں میری جان۔۔
وہ کرب سے بولا تھا۔۔
"خالی۔۔ ہو گیا۔۔ مم میں خالی ہو گیا۔۔ دد دیکھیں کچھ نہیں ہے۔۔ وو وہ چلا گیا۔۔
اسکے ہاتھ کو اپنے پیٹ پر رکھتی وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہی تھی۔۔
حیدر نے ضبط سے سرخ ہوتی آنکھوں سے تکتے اسے سینے سے لگایا۔۔ اگلے ہی لمحے ہسپتال کا وہ کمرہ اسکی چیخوں سے گونج رہا تھا۔۔
اسکے سینے سے لگی وہ بلند آواز میں روتی اسے اپنے اندر زندگی کے ختم ہونے کا ایک ایک لمحہ بتا رہی تھی۔۔ وہ اسکے بالوں میں منہ چھپائے اپنے آنسوں اس سے چھپائے اسکی کمر سہلاتا دلاسہ دے رہا تھا۔۔
باہر کھڑا ہر فرد اسکی آہیں سسکیوں پر تڑپ رہا تھا۔۔
۔
"شششش۔۔ بسس۔۔ بہت رو لیا۔۔ اب بس۔۔
اسکی مسلسل بہتی آنکھوں پر لب رکھتے اس نے بھاری ہوتی آواز میں اسے رونے سے منع کیا۔
۔
"اسے کس نے دیا تھا ہمیں میری جان۔۔
اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے وہ ضبط سے سوال کر رہا تھا۔۔
"اللہ‎۔۔۔ اللہ‎ کا گفٹ تھا وہ۔۔
وہ روتی ہوئی بولی تھی۔۔
"اللہ‎ کی امانت تھا۔۔ اللہ‎ نے دیا تھا میری جان اس نے ہی واپس لے لیا۔۔ وہ ہمیں مزید خوشیاں دے گا ریبا۔۔ لیکن اس آزمائش کے وقت ہمیں کیا کرنا ہے میرے دل۔۔
اسکے ہاتھوں کو لبوں لگاتے وہ خود پر ضبط کے گہرے کڑے بیٹھائے اس سے سوال کر رہا تھا۔۔
۔
"صبر۔۔
اس نے آنسوں صاف کرتے سر ہلا کر کہا تھا۔۔
۔
"ہم کرینگے نا ریبا۔۔ ہم کرینگے میرے دل۔۔ یہی تو گھڑی ہوتی ہے حیدر کی جان کے ٹکرے جب ہم خود کو اللہ‎ کا ثابت کرتے ہیں۔۔ اسکی آزمائش میں پورے اتر کر ہی تو اسکے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوگا نا میری جان۔۔
اسکی آنکھوں پر لب رکھتا وہ اس سے تصدیق مانگ رہا تھا۔۔
۔
"نن نہیں ہو رہا۔۔
وہ تڑپ کر روتی ہوئی بولی تھی۔۔ اپنے وجود کا وہ حصّہ جو اسکی گود میں آنے سے پہلے ہی اس نے کھو دیا تھا آسان نہیں تھا اس پر صبر کرنا۔۔
(امن یجیب المضطر،، وھو معکم این ما کنتم
"میں خوفزدہ ہوں تو مجھ میں یقین بھرتا ہے۔
گر بدگماں ہوں تو پکڑ، جھنجھوڑ دیتا ہے۔۔
۔
وہ دھیرے سے آیت پڑھ رہا تھا۔۔
وہ روتی ہوئی اسکے سینے سے لگی تڑپ رہی تھی۔۔
۔
(الا بذکر ﷲ تطمئن القلوب)
" کبھی عطا کرتا ہے عجب سکون کا عالم۔
کبھی شور اک عجب سا وہ چھوڑ دیتا ہے"۔۔
آنسوں پوچھ کر اس نے دھیرے سے سر اٹھایا جیسے کہ رہی ہو ہاں کوشش کر رہی ہے صبر کرنے کی۔۔
۔
"یہاں نن نہیں۔۔ نہیں رہنا چاہتا میں۔۔ آ آپ نے کہا تھا اب کبھی ہسپتال نہیں آونگا میں۔۔ مم مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔ یہ یہ دیکھیں کت کتنا درد ہوا۔۔ آ آپ نے کسی کو نہیں ڈانٹا سس سب نے لگا دیا۔۔
اپنے ہاتھ اسکے آگے کرتی وہ روتی ہوئی بولی تھی۔۔
"معاف کر دیں حیدر کو میرے دل۔۔ درد سے بچانے میں ہمیشہ ناکام ہوجاتا ہوں اپنی جان کے ٹکرے کو۔۔ معاف کر دیں میری جان۔۔
اسکے ایک ایک زخم پر لب رکھتے وہ بھاری آواز میں کہ رہا تھا۔۔
۔
"ممم میرا میرا بےبی۔۔ وووہ بھی نہیں ہے۔۔
اپنے زخموں پر اسکا لمس محسوس کرتی وہ ایک بار پھر بکھر رہی تھی۔۔
۔
"اللہ‎ ہمیں اور خوشی دے گا میری دل۔۔
اس نے دھیرے سے اسکی اٹھتی تھوڑی پر پیار کیا۔۔
۔
"اس نے مم مجھے مارا۔۔ مجھے پیر مارا حح حیدر۔۔ مم میرے بےبی کو مارا۔۔ اس اسے چوٹ لگی ہوگی۔۔ مم میں نے اس اسے کہا ہیلپ کک کرے۔۔ اس نے نہیں۔۔ اس نے آپ کو آواز نہیں دی۔۔ مم مجھے ایسے پکڑا مجھے مارا۔۔ میں کچھ نہیں بولا حح حیدر۔۔ وو وہ میرا مشکل وقت تھا۔۔ میں نے اللہ‎ کو آواز دی حیدر۔۔ میں نے اللہ‎ کو پکارا۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


۔
"ایسا کون کرتا ہے بیوی۔۔ حیدر کے دل اتنا نہیں تڑپائیں حیدر کو میری جان۔۔ اتنا مضبوط نہیں ھوں میں۔۔ آپ کے معاملے میں تو دل ایک بچے جیسا جیسا ہے آپ یوں تڑپائینگی تو دھڑکنا بھول جائے گا۔۔
ہلکے سے جھک کر اسکے بازو کی ابھرتی رگوں پر لب رکھتے وہ نم لہجے میں بول رہا تھا۔۔
۔
"سارا خون واپس دے دونگا میری جان۔۔ سارا خون اپنے جسم سے نکالتے آپ کے حوالے کر دونگا میرے دل ۔۔ ایک بار آنکھیں کھولیں ریبا۔۔ میری طرف دیکھیں۔۔ مجھ سے بولیں میری جان۔۔ اپنا خون واپس مانگ لیں۔۔ دیکھیں کتنا خون بہ گیا میرے دل کا۔۔
سر پر لگی پٹی کو ہلکے سے لبوں سے چھوتے دھیرے سے کہا۔۔
آپریشن ہوئے چھ گھنٹے گزر گئے تھے۔۔ اب تو اسے روم میں شفٹ ہوئے بھی دو گھنٹے گزر گئے تھے وہ اب بھی ہوش میں نہیں آئی تھی۔۔
۔
"وہ چوبیس گھنٹوں سے پہلے ہوش میں نہیں آئیگی۔۔
ڈاکٹر کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوتے فرحان کی آواز تھی۔۔
حیدر نے سرخ ہوتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
۔
"خطرے سے باہر ہے وہ۔۔
اسکے بازو پر سے سوئی ہٹاتے ڈاکٹر فردوس نے جیسے اسکی نظروں کا مفہوم سمجھ کر اسے تسلی دی تھی۔۔
"ریان کہاں ہے۔۔
اس نے ارد گرد دیکھتے سوال کیا۔۔
"وہ کبھی ریبا کو اس حالت میں دیکھنے کی ہمّت نہیں کر سکتے۔۔ میں نے زبردستی گھر بھیجا ہے حفصہ اور ارسا بہت رو رہی تھیں تو انھیں لے کر ہی آئینگے۔۔
فرحان نے دھیرے سے کہا تھا۔۔
"حیدر تم کچھ دیر ریسٹ کرو۔۔ ابھی بلڈ لیا ہے تم سے۔۔
حیدر کو کرسی سے اٹھتے دیکھ ڈاکٹر نے اسے ٹوکا۔۔
۔
"وہ ٹھیک ہیں تو مجھے کچھ نہیں ہوگا۔۔
آہستہ مگر مضبوط لہجے میں جواب دیتے وہ اسکا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیتے کرسی کو اس سے قریب کر کے بیٹھ گیا تھا۔۔
۔
صبح اذان کے بعد ریان آیا تھا۔۔
باقی لوگوں کو کچھ دیر میں فیضی کے ساتھ آنے کی ھدایت کر دی تھی۔۔
۔
"دا جان کا گڈا۔۔
دھیرے سے اسکے قریب آتے اس نے سر پر لگی پٹی پر لب رکھے۔۔ وہ اسکے لمس پر بھی نہیں اٹھی تھی۔۔
سر پر لگی پٹی۔۔ حد سے زیادہ کٹا ہوا نچلا لب جس پر اب خون جم چکا تھا۔۔ بازوؤں اور پیروں میں لگی نالیاں اسکا دل دہلا رہی تھیں۔۔ اسکے زخم زخم وجود کو دیکھ کر ضبط کھوتا وہ رو پڑا تھا۔۔
۔
"میرا بچہ اتنی تکلیف میں ہے فرحان۔۔ اسکے دا جان اسکی تکلیف بھی خود پر نہیں لے سکتے۔۔ کتنا بےبس ہو گیا ہوں میں۔۔ بےبسی کی انتہا ہے یہ فرحان۔۔
اسکے زخموں پر لب رکھتے وہ بھیگے لہجے میں بولا تھا۔۔
___________
پورا دن ان سب نے ہسپتال میں اسکے ہوش میں آنے کے انتظار میں گزارا تھا۔۔ اسکے وجود میں ہلکی جنبش بھی نہیں ہوئی تھی۔۔ وہ اس رات بھی اسکا ہاتھ تھامے اسکے سامنے یونہی کرسی پر بیٹھا رہا تھا۔۔ ریان نے بھی سامنے صوفے پر بیٹھ کر اسے دیکھتے رات گزاری تھی۔۔

"دد دا جان۔۔
پورے دو دن کے بعد اسکی دھیمی سی پکار پر ان سب کے سن وجود میں جیسے بجلی سی دوڑ گئی تھی۔۔ حیدر نامحسوس انداز میں اٹھتا کمرے سے نکل گیا تھا۔۔ ریان نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ اسے ہوش میں آتے دیکھ وہ اس سے مل رہا کیوں نہیں تھا۔۔
۔
"دا جان کا گڈا۔۔ میری جان۔۔۔ دا جان قربان میرا بچہ۔۔ کہیں میری جان۔۔
وہ اس پکار پر جی جان سے قربان ہوتا اسکی جانب جھکا تھا۔۔۔
۔
اپنا وجود خالی خالی سا محسوس کرتے اسکی آنکھیں ساکت سی ہو گئیں تھیں۔۔ وہ سب جو سمجھ رہے تھے اب وہ روئے گی۔۔ وہ چیخے گی۔۔ اسکی خاموشی پر مزید دل بھاری ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔۔
"ریبا دا جان کا بچہ میری جان۔۔
وہ اسکی تکلیف اپنے دل پر محسوس کرتا تڑپ کر اسے سینے سے لگا گیا۔۔ اسکی بنجر آنکھیں اسکا دل دہلا رہی تھیں۔۔
"حیدر۔۔
وہ ان سب پر ایک نظر ڈالتی دھیرے سے بولی تھی۔۔
"یہیں ہیں میرے بچے۔۔ ابھی آ جا رہے ہیں۔۔
فرحان کو اشارہ کر کے اس نے اسکے ہاتھوں کو چوما۔۔
۔
"نن نہیں ہیں۔۔ یہاں یہاں نہیں ہیں حیدر دد دا جان۔۔
سامنے سب ہی موجود تھے سوائے اسکے۔۔
۔
"وہ آپ کے پاس ہی تھا کل سے میری جان ۔۔
اسے ساتھ لگائے اس نے تسلی دی تھی۔۔
"وہ ڈھونڈ رہی ہے تجھے۔۔
بینچ پر سر جھکائے بیٹھے حیدر کے قریب ہی بیٹھتے وہ دھیرے سے بولا۔۔
۔
"میں نہیں جا سکتا انکے سامنے۔۔
اس نے لاچارگی سے اسکی جانب دیکھا۔۔
۔
"وہ بہت عجیب ریئکٹ کر رہی ہے حیدر۔۔ وہ تجھے ڈھونڈھ رہی ہے اسے نارمل تو ہی کر سکتا ہے۔۔
۔
"وہ روئینگی۔۔ وہ وہ مجھ سے ہمارے بچے سے متعلق سوال کرینگی۔۔ میں نہیں دیکھ سکتا انھیں ٹوٹتا بکھرتا۔۔
حیدر نے زخمی نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔۔
۔
"تو چاہتا ہے وہ اندر اندر گھٹتی رہے۔۔ سامنا کرنا تو ہے حیدر۔۔
فرحان نے سنجیدگی سے کہا۔۔
وہ کرب سے اسکی جانب دیکھتے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔

اردو فنڈا

07 Jul, 19:25


ایک طویل انتظار کے بعد وہ بتی بجھی تھی۔۔ وہ سب جھٹکے سے کھڑے ہوئے۔ ۔ ڈاکٹر فردوس اپنے ساتھی ڈاکٹرز کے ہمراہ باہر نکلی تھیں۔۔
حیدر بہتی آنکھوں کے ساتھ سر مزید نیچے کئے بیٹھا ہوا تھا۔۔ دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔ اگلا کوئی ایک لمحہ انکے لبوں سے نکلا ایک جملہ اسکی سانس کھینچ لے گا۔۔
وہ سب سے پہلے اس کے آگے آ کھڑی ہوئیں تھیں۔۔
"We've been successful.. She is out of danger now..
وہ بےاختیار سجدہ میں جھکا تھا۔۔
"الحمداللہ۔۔
ریان کی آنکھوں سے دو آنسوں نکل کر کہیں گم ہوئے تھے۔۔
فرحان نے بھیگتی آنکھوں کے کنارے صاف کرتے اوپر کی جانب دیکھا۔۔
اس نے سرخ ہوتی نگاہیں اٹھا کر کرب سے انہیں دیکھا جیسے کہ رہا ہو آگے کی خبر بھی دے دیں۔۔ جیسے آگاہ کر رہا ہو درد سہنے کے لئے تیار ہوں۔۔
"We couldn't save your child haider..
ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھتے انہوں نے افسوس سے کہا تھا۔۔
"دا جان میرے پاس میرا پرسنل بےبی آجائے گا۔۔
ریان کی بہتی آنکھوں کے سامنے بےاختیار اسکا خوشی سےدمکتا چہرہ آیا۔۔
۔
"سب کے پاس بےبی ہے۔۔ اب میرے پاس بھی آئیگا۔۔
فرحان نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔۔
۔
"جو مدر بنتے ہیں نا اللہ‎ خوش ہوا ہوتا ہے ان سے تو میں آپ کی ساری باتیں مانتا ہوں۔۔ آپ کی ڈانٹ بھی سن لیتا ہوں پر تھوڑا سا روتا ہوں۔۔ تو اللہ‎ مجھ سے خوش ہو گیا ہے نا میں تو بہت اچھا ہوں اب اور اچھا ہو گیا ہوں۔۔ تو یہ میرا گفٹ ہے۔۔ اور آپ کو پتہ ہے نا اب میں جنّت بھی بن جاؤنگا۔۔ سب سب خوش ہوتے ہیں نا اتنے اچھے گفٹ پر تو۔۔ اللہ‎ کے گفٹ پر تو سب خوش ہوتے ہیں۔۔ میں بھی خوش ہوتا ہوں۔۔ بب بہت خوش ہوتا ہوں۔۔
اسکا کہا ایک ایک جملہ حیدر کی سماعت میں گونج رہا تھا۔۔
۔
اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کو محسوس کئے بنا ہی وہ خوش ان سے دور ہو گئی تھی۔۔
۔
"میری بیوی کو کب تک ہوش آئیگا۔۔؟۔
آنسوں کو اندر اتارتے وہ ضبط سے سرخ ہوتی آنکھیں میچ کر بولا تھا۔۔
۔
"خون بہت بہ چکا تھا۔۔ خون کی کمی اب بھی ہے۔۔ اور ہوش میں آنے کا ابھی کچھ کہ نہیں سکتے کم از کم اگلے چوبیس گھنٹوں تک۔۔
۔
___________
"فیضی۔۔
اسکے جھکے سر پر اپنی نرم انگلیاں پھیرتے اس نے دھیرے سے اسے پکارا۔۔
وہ جھٹکے سے سیدھا ہوتا اسکے ساتھ لگا تھا۔۔ اس وقت اسے شدّت سے کسی آغوش کی ضرورت تھی اور اس سے زیادہ بہتر جگہ اور کہاں تھی اپنے آنسوؤں کو بہانے کی۔۔
چند لمحے کے لئے حریم ساکت سی کھڑی رہ اسکے ہچکولے لیتے وجود کو دیکھ رہی تھی۔۔
"مم مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔ حریم۔۔ اسے کچھ ہو گیا تو۔۔ وہ اسکا بہت خون بہ رہا تھا۔۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہئیے حریم۔۔
اسکے لہجے میں واضح کپکپاہٹ تھی۔۔ حریم نے دھیرے سے اسکے گرد حصار باندھا۔۔ وہ اسکا محرم تھا۔۔ اسکا شوھر تھا اسکا درد بانٹنا تو اب اس پر فرض تھا۔۔
۔
"اللہ‎ پر یقیں رکھو فیضی۔۔ وہ ٹھیک ہوجائے گی۔۔
اسکے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیرتے اس نے نرم لہجے میں کہا۔۔
۔
"وہ ہمارے لئے گفٹ لینے گئی تھی حریم۔۔
اس نے سے اٹھا کر وہ مخملی ڈبہ اسکے ہاتھ میں دیا جو ملازمہ باہر سے اٹھا کر لائی تھی۔۔
اسکے اندر ایک چین کے ساتھ ایک چھوٹا سا لاکٹ تھا جس میں دو چھوٹے چھوٹے ہاتھی بنے ہوئے تھے جنکی سونڈ مل کر دل کی شکل بنا رہی تھی۔۔
حریم نے لبوں پر سختی سے ہاتھوں کو جماتے اپنی سسکی روکی۔۔
"وہ انھیں اپنی محبتوں کا قرض دار کر گئی تھی ۔۔
۔
"کچھ دیر میں ریان آ رہے ہیں۔۔ میں اور ارسا جا رہے ہیں ریبا کے پاس۔۔ تم چلو گی۔۔
حفصہ کی آواز پر وہ جلدی سے پیچھے ہوئی۔۔ فیضی بھی آنکھیں صاف کرتا دور ہو کر بیٹھ گیا۔۔
"اللہ‎ کے کرم سے آپریشن کامیاب رہا ہے ریبا ٹھیک ہے۔۔ پر۔۔
ریبا کی خیریت کے متعلق بتانے کے بعد وہ آہستہ سے بولی تھی۔۔
"بچے کو سیو نہیں کر سکے وہ۔۔
فیضی نے بےاختیار لب بھینجے۔۔
__________
رات کے آخری پہر ہسپتال کے اس وارڈ میں وہ بیڈ پر آنکھیں موندے بےسدھ پڑی تھی۔۔ وہ اسکے سامنے رکھے کرسی پر بیٹھا ہوا ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ارد گرد ڈرپس سے متصل نالیوں کا جال تھا۔۔ چہرے پر آکسیجن ماسک اور ہاتھ پر پتلی سی سفید پٹی چپکی ہوئی تھی جس کے نیچے ڈرپ کی سوئی رفتہ رفتہ خون کی بوندیں انڈیل رہی تھی۔۔ اس نالی کا دوسرا سرا اوپر ڈرپ سے ہوتے اسکے بازو پر لگی سوئیں سے جڑا تھا۔۔ بوند بوند اسکا خون اسکی زندگی کی رگوں میں داخل ہو رہا تھا۔۔
۔
"میرا خون۔۔ میرا اتنا سارا خون لے لیا ہے۔۔ مجھے میرا خون واپس چاہئیے۔ ۔
اسکے معصوم مطالبے یاد آتے اسکی نظریں اپنی سرخ ہوتی کمیز پر گئیں تھیں جو اسکے خون سے بھری ہوئی تھی۔۔ ناصرف اسکی بلکے فرحان اور ریان کی کمیز پر بھی خاصا خون لگا ہوا تھا۔۔ اسے یاد آیا تھوڑا سا خون نکلنے پر وہ کتنا روئی تھی۔۔ دو آنسوں اسکی آنکھوں سے نکلتے داڑھی میں جذب ہوئے۔۔