<<کچھ دل سے❤>> @kuchdilse Channel on Telegram

<<کچھ دل سے>>

@kuchdilse


اس چینل میں ڈیلی قرآنی ویڈیو، رسول اللہﷺ کی احادیث مع تشریح، مختلف سیریز، سلف صالحین کے اقوال،علماء کے بیانات، درود، اقوال زریں اور مزید عمدہ تحریریں ارسال کیے جائیں گے ان شاء الله۔

<<کچھ دل سے❤>> (Urdu)

خوش آمدید! آپ کو ہمارے ٹیلیگرام چینل <<کچھ دل سے❤>> میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ چینل ایک معقول مکمل مذہبی تجربہ فراہم کرتا ہے جہاں آپ کو روزانہ قرآنی ویڈیو، رسول اللہﷺ کی احادیث مع تشریح، مختلف سیریز، سلف صالحین کے اقوال، علماء کے بیانات، درود، اقوال زریں اور مزید عمدہ تحریریں ملیں گی۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ اس چینل پر آپ کو ایک بہترین اور معنوی تجربہ ملے گا۔ ہمیں ہر روز نیا مواد شیء کرنے کا فخر ہے اور ہم انتظار کرتے ہیں کہ آپسے بھی اس تجربہ کو شیء کرنے کا موقع ملے۔ جلد ہی ہمارے ٹیلیگرام چینل <<کچھ دل سے❤>> میں شامل ہوں اور اس معنوی سفر میں شامل ہونے کا لطف اٹھائیں۔

<<کچھ دل سے>>

16 Feb, 06:33


مرے ہوئے شخص کو (مرحوم) کہنا یا لکھنا

کسی مرے ہوئے مسلمان کو مرحوم کہنا غیر مشروع ہے. یعنی صحیح نہیں ہے. لہذا مرحوم کی جگہ "رحمہ اللہ" کہا جائے گا.

دفتاویٰ اللجنة الدائمة،ج9،ص141

<<کچھ دل سے>>

16 Feb, 03:13


"فقہ" اس عالم سے حاصل کریں جو آپ کو اہل حدیث کے طریقہ پر تفقہ سکھاتے ہوں - یعنی صرف ایک مذہب کی فقہ سکھانے پر اکتفا نہ کرتے ہوں، اور نہ ہی صرف ایک مذہب کی تقلید کا حکم دیتے ہوں - کیونکہ باجماع اہل الحدیث والفقہاء والاصولیین حق صرف ایک مذہب میں محصور نہیں، بلکہ راجح بات یہی ہے کہ حق مذاہب اربعہ میں بھی محصور نہیں - دور حاضر میں شیخ سلیمان الرحیلی، شیخ عبد السلام السحیمی وغیرہما حفظہما اللہ ہیں، نیز ماضی قریب میں نواب صدیق حسن خان، شمس الحق عظیم آبادی، عبد الرحمن مبارکپوری، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثيمين، شیخ البانی اور شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہم اللہ وغیرہم اسی "فقہ اہل الحدیث" کے مناد تھے، اسی طریقہ فقہ کی نشر و اشاعت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی کی، اور امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اسی "فقہ اہل حدیث" کی بنیاد کو مضبوط کیا، اور "فقہ اہل حدیث" کی بنیاد اور حجر اساس ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے رکھی جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اس کی تعلیم دی تھی.
خلاصہ کلام یہ کہ: اگر آپ مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک ہی مذہب کا التزام کرتے ہیں تو یقینی طور پر کئی امور میں آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، صحابہ کرام کی اور سلف صالحین کی مخالفت کرنی پڑے گی، اور اگر "فقہ اہل حدیث" کا التزام کرتے ہیں تو ہمیشہ اتباع کتاب و سنت اور فہم سلف کی راہ پر کاربند رہیں گے، گرچہ اس سے بعض اہل علم کے بعض اقوال کی مخالفت ہوگی..
یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ تمذہب اختیار کرکے اور اپنے آپ کو صرف ایک مذہب کا پابند بنا کر، کتاب، سنت، صحابہ کرام اور سلف صالحین کی مخالفت کریں یا فقہ اہل حدیث سیکھ کر کتاب و سنت اور سلف صالحین کے راستہ پر چلیں.

نوٹ: یہاں تمذہب اختیار کرنے اور صرف ایک مذہب کے التزام کی بات ہو رہی ہے، فأتوا البيوت من أبوابها.

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

<<کچھ دل سے>>

16 Feb, 00:49


سورۃ الفرقان:٢٨،٢٩ || شریف مصطفیٰ

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 18:16


الســـلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

ہماری نئی سیریز ماہِ رمضان میں درپیش مسائل کا حلحاصل کرنے کے لئے ہمارے واٹس ایپ گروپ یا چینل کو ضرور جوائن کریں،اور لنک کو زیادہ سے شیئر کریں تاکہ کثیر تعداد میں لوگ مستفید ہوسکے۔۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا💐*

گروپ لنک
https://chat.whatsapp.com/GJuE5YTNxGG0ufM4aHzf4n

چینل لنک
https://whatsapp.com/channel/0029VaUt4EcIiRopYYPLVL1T

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 14:56


سوشل میڈیا اور زندگی پر اسکے غیر معمولی اثرات

𝑯𝒂𝒇𝒊𝒛 𝑨𝒃𝒅𝒖𝒍 𝑨𝒛𝒆𝒆𝒎 𝑼𝒎𝒓𝒊 𝑴𝒂𝒅𝒂𝒏𝒊

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 14:33


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{136}

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 12:21


ماہِ رمضان میں درپیش مسائل کا حل|5|

بیماری کی وجہ سے چھوٹے ہوئے روزے

سوال: میں ایک بیمار عورت ہوں، گذشتہ رمضان کے کچھ روزے میں نہیں رکھ سکی تھی، اور بیماری کے باعث ان کی قضا بھی نہیں کرسکی، اس کا کفارہ کیا ہے؟ ایسے ہی اس سال بھی میں روزے نہیں رکھ سکوں گی، اس کا کیا کفارہ ہوگا؟
جواب: بیمار آدمی کے لئے اگر روزہ رکھنے میں مشقت ہو تو اسکے لئے روزہ نہ رکھنا جائز ہے، اور جب اللہ تعالیٰ اسے شفا دے وہ اس کی قضا کرلے ۔کیوں کہ فرمان الٰہی ہے:{وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر} یعنی جو بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
اے سوال کرنے والی عورت!جب تک تمہاری بیماری باقی ہے تمہیں اس مہینے میں روزہ نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،کیوں کہ مریض اور مسافر کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزہ نہ رکھنے کی رخصت دے رکھی ہے ،اور اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی دی ہوئی رخصت سے فائدہ اٹھایا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے، اور تمہارے اوپر کوئی کفارہ نہیں ہے ،لیکن جب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت دے تم کو اپنے روزوں کی قضا کرنی لازمی ہے ،اللہ تعالیٰ تم کو ہر مصیبت سے نجات دے اور ہمارے اور تم سب کے گناہوں کو بخش دے۔ (شیخ ابن باز)

روزہ کے ایک سو پچاس مسائل،ص:٥١

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 10:48


رسول اللہﷺ کا اپنی پیاری بیٹی کو بتایا گیا وظیفہ
🎙️ عبداللہ یوسف ذھبی

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 09:14


عورتیں اور کتابیں جلانے کے واقعات

1- امام سیبویہ نے بصرہ میں ایک لونڈی سے نکاح کیا جو ان سے شدید محبت کرتی تھی، اسی دوران وہ اپنی کتاب "الکتاب" کو بھی لکھ رہے تھے اور اس کے ابتدائی ابواب لکھ بھی چکے تھے، یہ چیزیں انہوں نے مختلف کاغذ کے ٹکڑوں اور دیگر چیزوں پر لکھ رکھی تھیں، سیبویہ کتاب لکھنے میں اتنے مشغول تھے کہ وہ بیوی کی طرف توجہ نہیں دیتے حالانکہ وہ ان کی محبت میں ڈوبی ہوئی تھی، لیکن انہیں مطالعہ، شب بیداری اور اپنی کتاب کے سوا کسی چیز کی پرواہ نہ تھی، ایک دن بیوی نے کسی ضرورت کے تحت ان کو بازار بھیجا اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے آگ کی چنگاری کو ان کی کتابوں پر ڈال دیا یہاں تک کہ کتاب جل کر راکھ ہو گئی، سیبویہ جب واپس آئے اور اپنی کتابوں کو جلا ہوا پایا تو غم کے مارے بیہوش ہو گئے، ہوش میں آنے کے بعد انہوں نے فوراً اسے طلاق دے دی اور دوبارہ کتاب لکھنے کا آغاز کیا. (کتاب الفصوص 8/5)
2- لیث بن مظفر بیوی کے بجائے امام فراہیدی کی کتاب "العین" کو حفظ کرنے میں مشغول تھے، بیوی کو اس کتاب سے حسد ہوگیااور اس نے کتاب کو جلا دیا. (المزهر في علوم اللغة للسيوطي 1/ 62)
3- امیر محمود الدولہ الآمری کتابوں کو جمع کرنے کے بہت شوقین تھے، جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی بیوی انہیں یاد کرتے ہوئے ان کی کتابیں گھر کے تالاب میں پھینکتی رہیں کیونکہ وہ بیوی کو چھوڑ کر کتابوں میں مشغول رہتے تھے.
(عيون الأنباء في طبقات الأطباء 515)
4- ابراہیم عیّاشی نے اپنی زندگی کے بیس سال "حُجُرات النساء" نامی کتاب لکھنے میں لگا دی، ان کی بیوی کو ان کی اس مصروفیت پر غصہ آیا اور اس نے پوری کتاب جلا دی جس کی وجہ سے ان کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ فالج کا شکار ہو گئے.
5- محمد بن شِہاب زہری سے ان کی بیوی نے ایک دن کہا کہ اللہ کی قسم یہ کتابیں میرے لئے تین سوکنوں سے زیادہ تکلیف دہ ہیں. (وفيات الأعيان 4/ 32)
6- أبو عبدالله جوهري کہتے ہیں کہ شادی کے بعد میں حسب عادت بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا، دوات میرے سامنے رکھی ہوئ تھی اسی درمیان میرے بیوی کی ماں آکر دوات اٹھا لیتی ہے اور مجھے احساس تک نہ ہوا، پھر اس نے دوات زمین پر دے ماری اور اسے توڑ دیا، جب میں نے اس پر اعتراض کیا تو کہنے لگی یہ دوات میری بیٹی کے لئے تین سو سوکنوں سے زیادہ خطرناک ہے. (تاريخ بغداد 1/ 320)

جبران أحمد ضمير أحمد

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 00:57


اسلام نے محبت اور قلبی میلان کو نکاح کی پاکیزگی سے باندھ دیا ہے، اور نکاح کو "منورنجن" نہیں بلکہ سکون بخش اور خوش گزار زندگی گزارنے کا جنکشن بنا یا ہے، وہ محبت اور فطری لگاؤ اور دلی بہاؤ کو بے بھاؤ نہیں رہنے دیتا، وہ شادی کی ترغیب دیتا ہے، اور اسے بھی استطاعت کے ساتھ مربوط کرتا ہے، وہ نکاح کے ساتھ روٹی، روزی اور مکان کے ساتھ مُسکان کا بھی پابند بناتا ہے، وہ نکاح سے پہلے آزادانہ اختلاط اور قیل و قال و کال بیک سے بھی منع کرتا ہے، تاکہ شب زفاف میں جب ملاقات ہو تو ایک طرح سے اجنبیت و محبت باقی رہے، وہ نکاح و شادی سے پہلے گفتگو سے اس لیے منع کرتا ہے کہ محبت کا بیلنس بنا رہے ایسا نہ ہو کہ ملاقات پر بات کرنے کو کچھ بچا ہی نہ رہے،
نکاح سے بڑا کوئی "یوم محبّت" نہیں ہوسکتا،
اسلام نے اسی لیے تو مجرد زندگی گزارنے سے منع کیا ہے اور شادی کی ترغیب دی ہے، بلکہ مردوں کی توانائی اور انگڑائی کو دیکھتے ہوئے عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ چار تک پہونچنے کا کورس بھی عطاء کیا ہے،
"ویلنٹائن ڈے" وہ لوگ منائیں جن کے یہاں نکاح و شادی کو گناہ تصور کیا گیا ہے اور اسے گاڈ و بھگوان تک پہونچنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا ہے،
ہم تو الحمد للہ اس دین حق کے ماننے والے ہیں جہاں "حق زوجیت" ادا کرنے پر بھی ثواب کا وعدہ ہے، اور اگر کبھی راستوں میں "نگاہ ثانی" کی ضرورت پڑ جائے تو سیدھے اپنی بیگم صاحبہ سے ملنے کے لیے کہا گیا ہے،
ہمیں اسلام کی ان عظیم تعلیمات اور نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے اور اپنے خالق حقیقی کا اورجنل شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے‌۔

ابو اشعر فھیم

<<کچھ دل سے>>

15 Feb, 00:57


سورة يوسف: ٢٣ || هادي محمد توري

<<کچھ دل سے>>

14 Feb, 16:57


ماہِ رمضان میں درپیش مسائل کا حل|4|

بچوں کے لئے روزہ کا حکم

سوال:میرا چھوٹا بچہ روزہ رکھنے پر اصرار کرتا ہے،حالانکہ روزہ اس کے لیے بوجہ صغر سنی اور کمزوریِ صحت نقصان دہ ہے،تو کیا میں اس پر اس بارے میں سختی کر سکتی ہوں کہ وہ روزہ نہ رکھے؟

جواب:بچہ اگر چھوٹا ہو، بالغ نہ ہوا ہو تو اس پر روزہ رکھنا فرض نہیں ہے۔لیکن اگر وہ رکھ سکتا ہو اور اسے مشقت نہ ہوتی ہو تو اس سے روزہ رکھوانا چاہیے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے چھوٹے بچوں کو روزے رکھواتے تھے، حتیٰ کہ بعض اوقات وہ اس وجہ سے روتے تو انہیں کھلونے وغیرہ دے کر بہلاتے تھے۔ ہاں اگر یہ ثابت ہو کہ روزہ بچے کے لیے مضر ہے تو اسے اس سے روکنا جائز ہے۔کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان چھوٹے بچوں کو ان کی مصلحت کے پیش نظر ان کے مال دینے سے منع فرمایا ہے،اس اندیشے کے تحت کہ وہ اپنا مال ضائع کر بیٹھیں گے۔تو اس کے مقابلے میں بدن کا نقصان زیادہ قابل اہتمام ہے، لہذا اسے روزہ رکھنے سے روکا جائے، مگر اس معاملے میں سختی سے کام نہ لیا جائے۔کیونکہ بچوں پر سختی کرنا تربیتی نقطہ نظر سے مناسب نہیں ہوتا۔(محمد بن صالح عثیمین

احکام ومسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا،ص:٣٧٤

<<کچھ دل سے>>

14 Feb, 16:34


ویلنٹائن ڈے، اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا پیغام

𝑯𝒂𝒇𝒊𝒛 𝑨𝒃𝒅𝒖𝒍 𝑨𝒛𝒆𝒆𝒎 𝑼𝒎𝒓𝒊 𝑴𝒂𝒅𝒂𝒏𝒊 𝓗𝓪𝓯𝓲𝔃𝓪𝓱𝓾𝓵𝓵𝓪𝓱

<<کچھ دل سے>>

14 Feb, 13:29


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{135}

<<کچھ دل سے>>

14 Feb, 09:09


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہ ﷺ(241)

🪶۔موت کے وقت بندہ مومن کو اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے

عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَمُوتَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ہر شخص کو اس حال میں موت آنی چاہیے کہ وہ اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو۔

تشریح:(1)انسان کو اللہ کی رحمت کی امید اور اس کی ناراضی کا خوف،دونوں کی ضرورت ہے۔امید اسے نیکیوں کی رغبت دلاتی ہے اور خوف اسے گناہ سے باز رکھتا ہے(2)زندگی میں امید پر خوف کا غلبہ رہنا چاہیے لیکن وفات کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے(3)اللہ سے حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بارے میں یہ امید رکھے کہ اس کی توفیق سے زندگی میں جو نیک کام ہوئے ہیں اللہ تعالی انھیں قبول فرمائے گا اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے گا(4)امید کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی عادت ہو اور نیکیوں کی طرف رغبت نہ ہو۔جب نصیحت کی جائے تو کہہ دے:اللہ بہت رحم کرنے والا ہے۔یہ امید کا غلط تصور ہے۔

(سنن ابن ماجہ:4167)

<<کچھ دل سے>>

14 Feb, 09:03


🔷Hadees.Of.The.Day.(166)

سمندر کا پانی پاک اور اسکا مردار حلال ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ا نہوں نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:اے اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی لے لیتے ہیں۔اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں گے۔پینے کے لئے پانی نہیں رہے گا،تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اس کا پانی پاک کرنے والا اور اس کا مرا ہوا جانور حلال ہے۔

(سنن ابن ماجہ:386)

<<کچھ دل سے>>

09 Feb, 08:09


رسوم شب برات، علمائے امت کی نظر میں(قسط نمبر‌‌6)

اسعد اعظمی حفظہ اللہ

۹- ہزاری نماز
ایک خطرناک بدعت یہ بھی ہے کہ پندرہویں شعبان کی شب میں کچھ لوگ ایک مخصوص قسم کی نماز پڑھتے ہیں جسے ’’صلاة الالفية‘‘ ( ہزاری نماز ) کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اس کا طریقہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ سو رکعتیں پڑھتے ہیں، ہر رکعت میں دس دس بار سورہ اخلاص کی قرأت کرتے ہیں۔
اس بدعت کا آغاز کہاں سے ہوا اس کے بارے میں امام عز بن عبد السلام لکھتے ہیں: ’’بیت المقدس میں صلاة الرغائب (یہ ماہ رجب میں پڑھی جانے والی ایک مبتدعانہ نماز ہے) یا نصف شعبان کی نماز نہیں ہوتی تھی، لیکن ہوا یہ کہ ۴۸۸ھ میں ابن الحی نامی نابلس کا ایک شخص یہاں آیا، اس کی تلاوت قرآن بہت اچھی تھی، اس نے مسجد اقصی میں شب نصف شعبان کو نماز شروع کی ، اس کے پیچھے ایک شخص آ کر نماز کے لئے کھڑا ہو گیا، پھر دو چار اور آ گئے اور نماز ختم ہوتے ہوتے پوری جماعت بن گئی۔ اگلے سال وہ پھر آیا تو بہت سے لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی ، اور اس طرح یہ مسجد اقصی اور عام لوگوں کے گھروں میں پھیل گئی اور آج تک اس طرح سے برقرار ہے جیسے کوئی سنت ہو۔ (بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم دیو بند، شمارہ نومبر ۲۰۰۰ء، ص:۲۸)
اور ملا علی قاری اس من گھڑت نماز کی فتنه انگیزیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ ’’بعض رسائل میں ہے : علی بن ابراہیم نے کہا: اس نماز نے عوام میں ایک بڑا فتنہ جنم دیا ہے، اس کے سبب کثرت سے چراغاں کرنے کا اہتمام ہوتا ہے، اس قدر فسق وفجور اور بے حرمتی ہوتی کہ ناقابل بیان ہے۔ حتی کہ اولیاء الله اس ڈر سے جنگلوں کو بھاگے کہ کہیں زمین دھنس نہ جائے۔۔۔۔
مساجد کے جاہل ائمہ نے اس نماز اور صلاة الرغائب وغیرہ نمازوں کو عوام کو پھانسنے کا جال بنایا ہے، اس سے اقتدار قائم کرتے ہیں، دنیاوی ٹھیکرے اکٹھا کر تے ہیں، لیکن اللہ تعالی نے ائمہ ہدایت کو اس کے خاتمہ کی کوشش کرنے کی توفیق دی، بالآخر مصری و شامی شہروں سے آٹھویں صدی ہجری کے شروع میں اس کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا۔“ (مرقاۃ المفاتیح:۳/۱۹۷،۱۹۸)
اس نماز سے متعلق روایت کی استنادی حیثیت بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری لکھتے ہیں: ’’اللٓالی‘‘ میں لکھا ہے کہ شب نصف شعبان میں سورکعت، اور ہر رکعت میں دس بار سورہ اخلاص پڑھنے کے بارے میں دیلمی وغیرہ میں لمبے چوڑے فضائل کا ذکر ہے۔ یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔“ (مرقاۃ المفاتیح:۳/۱۹۷)

(جاری...)

<<کچھ دل سے>>

09 Feb, 06:44


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{130}

<<کچھ دل سے>>

09 Feb, 06:10


کافر کو دیکھو تو نعمتِ اسلام پر اللہ کی حمد کرو، فاجر کو دیکھ کر تقویٰ پر اللہ کی حمد کرو، جاہل کو دیکھ کر علم پر اور ابتلا کو دیکھ کر عافیت پر اللہ کی حمد کرو۔

#اقتباس

<<کچھ دل سے>>

09 Feb, 00:54


سورۃ الانسان:٣٠ || عمر ھشام العربی

<<کچھ دل سے>>

08 Feb, 17:43


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(79)

سسرالی رشتے داروں میں عورت کے لیے نامحرم اشخاص نیز عورتوں کا دلہن کی تصویر اتارنا

سوال: ایک عورت کے لیے کون سے سسرالی رشتے نامحرم ہیں،دوسری بات یہ ہے کہ شادی پر لیڈیز کو دلہن کی تصویر اتارنے کی اجازت اس شرط پر دی جائے کہ تصویریں صرف عورتیں ہی دیکھیں گی لیکن وہ دلہن کی تصویریں نامحرم کو بھی دیکھا دیں تو کیا دلہا بھی گناہ گار ہوگا؟

جواب: سسرالی رشتہ داروں میں عورت کے لئے شوہر کے اصول یعنی اس کا باپ ، دادا اور نانا۔ اور فروع میں شوہر کا بیٹا، پوتا اور نواسہ محرم ہیں جبکہ ان کے علاوہ شوہر کا چچا، مامو، پھوپھا اور خالو غیرمحرم ہیں۔
جاندار کی تصویر کا معاملہ بہت زیادہ نازک ہے، اس کا شمار حرام تصویروں میں ہوتا ہے اور ایسی تصویر کے استعمال پر بڑی وعیدیں آئی ہیں اس لیے شادی کے موقع پرلڑکی کو اپنی تصویر کسی کو دینی ہی نہیں چاہئے ، تصویر اسی لئے لی جاتی ہے کہ پورے خاندان والوں کو دیکھائی جائے خواہ مرد ہو یا عورت اور آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو کہیں سے کہیں تصویر وائرل ہوجاتی ہے اس لئے تصویر دینا بالکل درست نہیں ہے۔ جس عورت کو دیکھنا ہو وہ گھر آکر لڑکی دیکھے۔ یہاں پر تصویر کے معاملے میں گناہ ان لوگوں کو ہوگا جنہوں نے تصویر دی یا تصویر دینے پر ابھارا یا کسی کو تصویر دکھائی یا کسی کو تصویر بھیجا اور جس کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے اس کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

<<کچھ دل سے>>

08 Feb, 13:08


یہ نہ سمجھو کہ زندگی کسی کے لیے کامل ہوگئی۔ کسی کے پاس گھر ہے کار نہیں، کسی کے پاس بیوی ہے کام‌ نہیں، کسی کو کھانے کی خواہش ہے تو کھانا نہیں، کسی کے پاس کھانے کی افراط ہے لیکن کھانے سے منع کر دیا گیا ہے۔

#اقتباس

<<کچھ دل سے>>

08 Feb, 12:17


رسوم شب برات، علمائے امت کی نظر میں(قسط نمبر‌‌ 5)

اسعد اعظمی حفظہ اللہ

۸۔ روح ملانے کا عقیده
روحوں سے تعلق سے کچھ مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ جو شخص شب برات سے پہلے انتقال کر جاتا ہے، اس کی روح دوسری روحوں میں نہیں ملتی، آوارہ بھٹکتی رہتی ہے، لہٰذا جب شب برات آتی ہے تو روح کو روحوں میں ملانے کا ختم دلا یا جاتا ہے۔ ہر قسم کے عمدہ کھانے، میوے، پھل اور کپڑے وغیرہ مجلس میں رکھ کر امام مسجد ختم پڑھتے ہیں ، اور روحوں میں ملاديتے ہیں، بعدہ کھانے، میوے، پھل اور قیمتی کپڑے وغیرہ اٹھا کر لے جاتے ہیں ، میت کے گھر والے شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کے مرنے والے عزیز کی روح روحوں میں شامل ہوگئی، اگر نہ ہوتی تو اس کی بددعا سے گھر والوں پر تباہی آنی تھی۔
اس عقیدہ کا بطلان اظہر من الشمس ہے، چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب شب برات سے پہلے کوئی مر جائے تو جب تک کہ اس کے لئے فاتحہ شب برات نہ کیا جائے وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتا، یہ بھی محض تصنیف یاراں اور بالکل لغو ہے، بلکہ رواج ہے کہ اگر تہوار سے پہلے کوئی مر جائے تو کنبہ بھر میں پہلا تہوار نہیں ہوتا ، حدیثوں میں صاف مذکور ہے کہ جب مردہ مرتا ہے تو مرتے ہی اپنے جیسے لوگوں میں جا پہنچتا ہے، یہ نہیں کہ شب برات تک اٹکا رہتا ہے۔“ (اصلاح الرسوم ، ص:۱۳۲-۱۳۳)

روح ملانے کا ایک دلچسپ واقعہ

ایک گاؤں کا زمیندار چودھری فوت ہو گیا، جب شب برات آئی تو دھوم دھام سے چودھری صاحب کی اولاد نے روح ملانے کے ختم کا اہتمام کیا، دس بارہ جوڑے بیش قیمت کپڑے، انواع و اقسام کے کھانے اور بہت سے قیمتی برتن و غیرہ ختم میں رکھے گئے اور برادری اکٹھی ہوئی، میاں صاحب نے ختم کہنا شروع کیا، جب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی تو ہاتھوں کو منھ پر پھیرنے کے بجائے انھیں یوں ہی چھوڑ دیا اور ایک ہی سانس لے کر کہا: آه روح روحوں میں ملنا نہیں چاہتی، یہ سن کر چودھری صاحب کے سب گھر والے گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ اب کیا ہوگا، اگر روح روحوں میں نہ ملی تو ہم پر و بال ضرور آجائے گا۔ میاں جی جس طرح ہوسکے روح کو ملا دو روحوں سے ، میاں جی نے پھر بہت کچھ پڑھا اور ہاتھ اٹھا کر منھ پر نہ پھیرے، یونہی چھوڑ دیے اور کہا کہ روح روحوں میں نہیں ملنا چاہتی، سب گھر والے بہت پریشان ہو گئے اور رو رو کر کہنے لگے: میاں جی خدا کے واسطے روح ملانے کی کوشش کرو، پھر میاں جی نے کچھ پڑھا اور آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ چودھری صاحب کی روح کہتی ہے کہ اس ختم میں جب تک عمدہ صحت مند بھینس لا کر نہ رکھو گے میں روحوں میں نہیں ملوں گی، گھر والے ایک صحت مند نوجوان، دودھ والی بھینس بھی کھول کر لائے اور اسے ختم کی دوسری چیزوں میں شامل کر دیا، اب کے میاں جی نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور جلد ہی خوشی سے منھ پر پھیر کر کہا: مبارک ہو، روح روحوں میں مل گئی ہے، گھر والے بڑے خوش ہوئے اور ختم کی سب چیزیں اٹھا کر مع بھینس میاں جی کے گھر چھوڑ آئے۔(خانہ سازشریعت، ص:۲۵۰)

(جاری...)

<<کچھ دل سے>>

08 Feb, 10:32


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{129}

<<کچھ دل سے>>

08 Feb, 03:57


🔷Hadees.Of.The.Day.(161)

قضاء حاجت کے بعد ہاتھوں کو مٹی یا صابن وغیرہ سے ضرور دھوئیں

حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ درختوں کے ایک جھنڈ میں داخل ہوئے اور قضائے حاجت کی۔حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے پانی کا برتن حاضر کیا۔چنانچہ آپ نے اس سے استنجا فرمایا اور ہاتھ کو مٹی سے رگڑا۔

(سنن ابن ماجہ:359)

<<کچھ دل سے>>

08 Feb, 03:56


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہ ﷺ(238)

🏚️۔مکان تعمیر کرتے وقت فضول خرچی سے اجتناب کریں

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَيْتُ بَيْتًا يُكِنُّنِي مِنْ الْمَطَرِ وَيُكِنُّنِي مِنْ الشَّمْسِ مَا أَعَانَنِي عَلَيْهِ خَلْقُ اللَّهِ تَعَالَى

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:جب میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتا تھا(اور آپ حیات تھے)تو میں نے یہ کیفیت بھی دیکھی کہ میں نے ایک کمرہ بنایا جو مجھے بارش سے محفوظ رکھ سکے اور دھوپ سے بچا سکے۔ اس کی تعمیر میں میری کسی شخص نے مدد نہ کی۔

تشریح:(1)گھر کا اصل مقصد بارش اور دھوپ سے بچاؤ اپنی زندگی کا تحفظ اور پردے کا اہتمام ہے۔یہ فائدہ معمولی گھر سے بھی اسی طرح حاصل ہوتا ہے جس طرح مزین اور خوبصورت کوٹھیوں سے حاصل ہوتا ہے اس لیے ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا بے فائدہ ہے(2)صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ذاتی ضروریات کے لیے سادہ سے سادہ اہتمام کرتے تھے اور باقی مال اللہ کی راہ میں اور دوسروے مسلمانوں کی مدد کے لیے خرچ کردیتے تھے یہی سادگی مسلمان کی اصل شان ہے(3)کسی کے مدد نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اتنا معمولی گھر تھا کہ خود ہی بنا لیا کسی سے مدد لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔

(سنن ابن ماجہ:4162)

<<کچھ دل سے>>

08 Feb, 03:50


سورة الواقعة: ١٠-١٤ || عمير شميم

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 15:44


مفقود کے بارے میں کیوں سوچتے ہو، موجود پر شکر کیوں نہیں کرتے، موجودہ نعمت کو بھول جاتے ہو، غیر موجود نعمت پر حسرت کرتے ہو، لوگوں سے حسد کرتے ہو، جو تمہارے پاس ہے اس سے غفلت برتتے ہو۔

#اقتباس

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 13:51


خواتین کے متعلق سوال و جواب سیریز(78)

عورت کے کپڑوں پر بچے کے پیشاب کا لگ جانا

سوال:میں نے نماز کے لیے وضو کیا اور بچے کو اٹھا لیا تو اس نے میرے کپڑے پر پیشاب کردیا۔میں نے پیشاب لگے حصے کو دھو لیا اور دوبارہ وضو کیے بغیر میں نے نماز پڑھ لی۔کیا میری نماز درست ہے؟
جواب:تمہاری نماز درست ہے،اس لیے کہ بچے کا پیشاب لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا بلکہ تجھے جس حصے پر پیشاب لگاہے صرف اسے دھونا ضروری ہے۔

(سعودی فتویٰ کمیٹی)

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 10:59


Dr Fathat Hashmi ki Gumrahiyan.pdf

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 10:53


رسوم شب برات علمائے امت کی نظر میں(قسط نمبر‌‌ 4)

اسعد اعظمی حفظہ اللہ

۶-حلوہ خوری

اس موقع پر جو پکوان پکائے جاتے ہیں، ان میں حلوہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا اہتمام کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، اس حلوے سے متعلق جو لچر پوچ دلیلیں دی جاتی ہیں، ان کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور سرور عالم ﷺ کا دندان مبارک جب شہید ہوا تھا ، آپ نے حلوہ نوش فرمایا تھا، یہ بالکل موضوع اور غلط قصہ ہے، اس کا اعتقاد کرنا ہرگز جائز نہیں، یہ عقلاً بھی ممکن نہیں، اس لیے کہ یہ واقعہ شوال میں ہوا نہ کہ شعبان میں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ان دنوں میں ہوئی تھی، یہ ان کی فاتحہ ہے، یہ محض بے اصل ہے، اول تو تعین تاریخ کی ضرورت نہیں ، دوسرے خود یہ واقعہ بھی غلط ہے، آپ کی شہادت بھی شوال میں ہوئی تھی شعبان میں نہیں ہوئی ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں: -
’’حلوے کی ایسی پابندی ہے کہ بدون اس کے سمجھتے ہیں کہ شب برات ہی نہیں ہوئی، اس پابندی میں اکثر فساد عقیدہ بھی ہو جاتا ہے کہ اس کو مؤکد ضروری سمجھنے لگتے ہیں ، فساد عمل بھی ہو جاتا ہے، فرائض وواجبات سے زیادہ اس کا اہتمام کرنے لگتے ہیں۔۔۔ ان خرابیوں کے علا وہ تجربہ سے ایک اور خرابی ثابت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ نیت بھی فاسد ہو جاتی ہے، ثواب وغیرہ مقصود نہیں رہتا ہے۔ خیال ہوجاتا ہے کہ اگر اب کے نہ کیا تو لوگ کہیں گے کہ اب کے خست و ناداری نے گھیر ليا ہے۔ اس الزام کے رفع کرنے کے لیے جس طرح بن پڑتا ہے مر مار کرتا ہے، اسی نیت سے صرف کرنا محض اسراف و تفاخر ہے، جس کا گناہ ہونا بارہا مذکور ہو چکا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے لیے سودی قرض لینا پڑتا ہے، یہ جدا گناہ ہے۔“
(اصلاح الرسوم، ص:۱۳۲-۱۳۳)
جسٹس مولانا تقی عثمانی لکھتے ہیں:
’’ویسے تو سارے سال کے کسی بھی دن حلوہ پکانا جائز اور حلال ہے، جس شخص کا جب دل چاہے پکا کر کھالے، لیکن شب برات سے اس کا کیا تعلق؟ نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے، نہ حدیث میں اس کے بارے میں کوئی روایت، نہ صحابہ کے آثار میں، نہ تابعین کے عمل میں، اور بزرگان دین کے عمل میں کہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں، لیکن شیطان نے لوگوں کو حلوہ پکانے میں لگا دیا۔‘‘

۷- روحوں کی حاضری کا عقیدہ

تمام اہتمامات میں گھروں کی صفائی و آرائش ، نوع بنوع کھانے ، اور ان کے ساتھ عمدہ قسم کی خوشبو دار اگر بتیوں سے گھروں کو معطر کرنا، در اصل اس نقطہ نظر سے کئے جاتے ہیں کہ اس دن گزرے ہوئے لوگوں کی روحیں تشریف لاتی ہیں ، اور رات بھر گھروں میں رہ کر پھر سویرے عالم ارواح کی طرف رخت سفر باندھتی ہیں، چنانچہ انہی روحوں کا استقبال کرنے کے لئے گھروں کو سنوارتے، روشنیوں سے سجاتے اور فاتحہ میں ان کو وہ پسندیدہ اشیاء پیش کرتے ہیں جو زندگی میں انہیں مرغوب رہی ہوں۔
روحوں کے آنے کا یہ تصور سراسر ہندوانہ اور مشرکانہ ہے، ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ ’’پُتر پکھ‘‘ وغیرہ کے موقع پر پروجوں کی آتمائیں (روحیں) آتی ہیں، اور انھیں پنڈ نذر کیا جاتا ہے، جس سے انھیں شانتی مل جاتی ہے اور واپس ہو جاتی ہیں، یہ پنڈان کے نام سے ندی میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے روحوں کی واپسی کا عقیدہ سراسر غلط ہے، انسان کے مر جانے کےبعد دوبارہ اس کی روح لوٹ کر دنیا میں نہیں آسکتی، جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کا یہ قول گزر چکاہے کہ:
’’بعض لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شب برات وغیرہ میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ کسی نے ہمارے لئے کچھ پکایا ہے یانہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا امر خفی بجز دلیل نقلی کے اور کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا، اور وہ یہاں ندارد ہے۔“(اصلاح الرسوم ، ص:۱۳۲)
اس کے علاوہ درج ذیل فتاوی بھی ملاحظہ فرمائیں:
سوال: میت کی روح مکان میں آتی ہے یانہیں ؟ اگر نہیں آتی تو خواب میں کیوں نظر آتی ہے؟
جواب: خواب میں کسی میت کا نظر آنا اس کو مقتضی نہیں ہے کہ اس کی روح مکان میں آئے، بلکہ خواب میں نظر آنا بسبب تعلق روحانیت کے ہے، مکان سے اس کو کچھ تعلق آنے کا نہیں، بہت سے زندہ لوگوں کو جو دور دراز پر ہیں ، خواب میں دیکھا جاتا ہے، پس خواب کا قصہ جدا ہے، اجسام ظاہری کا اتصال اس کے لئے ضروری نہیں ہے، عالم ارواح دوسرا عالم ہے۔“ (فتاوی دارالعلوم : ۵/۴۶۰)
سوال: ارواح مومنین ہر جمعہ کی شب کو اپنے اہل و عیال میں آتی ہیں، یہ صحیح ہے یانہیں؟ اس طرح کا عقیدہ رکھنا درست ہے یانہیں؟
ٍٍ جواب: ارواح مومنین کا شب جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر آنا کہیں ثابت نہیں ہوا۔ یہ روایات واہیہ (غلط) ہیں، اس پر ہرگز عقید نہیں کرنا چاہئے ۔“(فتاوی رشیدیہ، ص:۲۶۹)

(جاری...)

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 09:34


۔اللهم بلغنا رمضان

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 07:35


خرچ کرنے والوں کو "اور" ملتا ہے

مال ہوتا ہی اس لیے ہے کہ استعمال میں آئے۔ جمع کرکر کے رکھنے والوں کا مال ان کے کسی کام تو نہیں آتا البتہ ان کے مرنے کے بعد جائیداد وارثوں میں ضرور تقسیم ہو جاتی ہے۔
مال کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ وعدہ ہے کہ جو جتنا مال خرچ کرتا ہے اللہ تعالی اسے اتنا مزید عطا فرماتا ہے۔ اس لیے خرچ کرنے والوں کو اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ ہم خرچ کرنے سے نادار ہو جائیں گے۔ جو مال اس کے پاس ہے وہ بھی اللہ ہی کی عطا ہے ۔ بندے کو یقین ہونا چاہیے کہ اُس وسیع خزانوں کے مالک رب کی عطا کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

عبداللہ یوسف ذہبی حفظہ اللہ

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 07:25


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{128}

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 03:33


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہ ﷺ(237)

🏠۔سر چھپانے کے لیے مکان ضرور بنائیں لیکن موت کو ہرگز فراموش نہ کریں۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا فَقَالَ مَا هَذَا فَقُلْتُ خُصٌّ لَنَا وَهَى نَحْنُ نُصْلِحُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:ہم لوگ اپنی ایک جھونپڑی کی مرمت کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟میں نے کہا:ہماری جھونپڑی کمزور ہو گئی ہے ہم اسے ٹھیک کر رہے ہیں۔آپ نے فرمایا:میرے خیال میں تو معاملہ اس سے جلد واقع ہونے والا ہے۔

تشریح:(1)معاملے کی جلدی سے مراد یہ ہے کہ معلوم نہیں موت کب آجائے۔شاید مرمت کیے ہوئے گھر میں رہنا نصیب ہو یا نہ ہو(2)نصیحت میں موقع محل کی مناسبت کا خال رکھنا چاہیے(3)سر چھپانے کے لیے مکان کی ضرورت تو ہے لیکن موت کو نہیں بھولنا چاہیے۔جس طرح دنیا کی ضرورت کے لیے کوشش کرتے ہیں اس سے زیادہ آخرت کے گھر کی فکر ضروری ہے(4)بے جا تکلفات سے ہر ممکن حد تک بچنا چاہیے۔

(سنن ابن ماجہ:4160)

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 02:07


🔶 Hadees.Of.The.Day.(160)

اللہ تعالی پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ آیت کریمہ اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی:فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين اس میں کچھ لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں،اور اللہ پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے(سورة التوبة:108)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں:وہ پانی سے استنجاء کرتے تھے تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

(سنن ابن ماجہ:357)

<<کچھ دل سے>>

07 Feb, 01:09


سورۃ الاحزاب:٥٦ || مشاری راشد العفاسی

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 16:11


مشکلات عبور کرنے کے لئے نماز بہترین مددگار ہے۔ وہ نفس کو بلند آفاق میں لے جاتی ہے اور روح کو نور و کامیابی کی فضا میں پہنچا دیتی ہے۔

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 15:17


خواتین کے متعلق سوال و جواب سیریز(77)

پرت جمنے والی مہندی لگانے کا حکم

سوال:آجکل ملنے والی کون مہندی میں پرت اترتی ہیں ، کچھ دن بعد جب وہ اترنے کے قریب ہوتی۔ کیا ایسی مہندی پر وضو ہو جاتا ہے؟
جواب:آئیکون نامی مہندی میں مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس مہندی کے لگانے سے ہاتھ پر برت جمتی ہے اس مہندی کو لگانے سے وضو اور غسل نہیں ہوگا لہذا یہ تجربہ کرکے آپ کو اس کا اندازہ لگانا ہے کہ وہ کون سی مہندی ہے جس سے پرت جمتی ہے۔
میرے خیال سے شاید کوئی ایک آدھ مہندی ہوگی،باقی مارکیٹ میں متعدد قسم کی مہندیاں ملتی ہیں جن سے کوئی برت نہیں جمتی ہے اور کیمیکل تو اکثر مہندی میں ہوتا ہے لیکن پرت ہر مہندی میں نہیں جمتی اس لیے مہندی کے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے، صرف پرت بنانے والی مہندی لگانے سے بچنا چاہیے اور وہ بھی ایسی پرت بنانے والی مہندی جو پانی جذب نہ کرسکے۔

شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 14:24


لوگ خواتین والی آئی ڈی پر لپک لپک کر آتے ہیں بیوی سے ہفتوں کلام نہ ہو، ماں مہینوں سے ناراض ہو، بہن سالوں سے رابطے میں نہ ہو اپنے بھائی سے برسوں سے بول چال بند ہو لیکن لوگ نسوانی آئی ڈی پر یوں جلدی جلدی کومنٹ کررہے ہوتے ہیں جیسے سجدے میں تسبیح گن گن کر پڑھ رہے ہوں، ایک شعر کسی محترمہ نے لکھ دیا گرچہ وہ دو کوڑی کا بھی نہ ہو لیکن لوگ واہ واہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ ایسے کہتے ہیں اور شعر میں ایسی نکتہ آفرینیاں فرماتے ہیں کہ پوسٹ کرنے والی محترمہ پروین شاکر کی بھی استاد لگنے لگتی ہے، بہر حال رب نے عورت کی ذات، صفات بلکہ اس کے مطلق نام میں بھی وہ کشش رکھی ہے کہ گونگے بھی بول پڑتے ہیں، اندھے بھی دیکھ لیتے ہیں اور اپاہج بھی ہاتھ ہلا ہلاکر داد دے لیتے ہیں، عورت مرد کی کمزوری بھی ہے اور طاقت و ضرورت بھی، عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے اور مرد کی بھی لیکن مرد عورت کا صرف دوست ہی ہوتا ہے، عورت سکون وسکینت کی چیز ہے اور اس کا مصدر و ماخذ بھی،
بس سکون و اطمینان سے اسے جائز طریقوں سے حاصل کیجیے، جن شوہروں کی پیاری بیویاں انہیں دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتی ہیں وہی بیویاں اپنے پیارے شوہر کے "خفیہ تار وپیار " کو کیسے برداشت کر لیتی ہیں یہ بھی کمال کی چیز ہے۔
اللہ ہمیں باکمال بنائے۔

ابو اشعر فہیم

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 13:56


تعلقات میں منافقت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ لوگ مصیبت میں ساتھ دینے نہیں آتے لیکن ضرورت پڑنے پر حق جتانے آجاتے ہیں۔

#فیضیات

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 13:39


سنت کی روشنی اور بدعت کی تاریکی.pdf

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 12:19


کئی زمانوں سے جاری ہے گفتگو اس کی
وہ جس نے صرف تریسٹھ برس کلام کیا

https://www.instagram.com/p/DFuyOq2y2HR1fcyuIM3ojWVgxNutqYjhu8lyn40/?igsh=OGZlaGZzMGczbzZ6

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 08:55


رسوم شب برات علمائے امت کی نظر میں(قسط نمبر‌‌ 3)

اسعد اعظمی حفظہ اللہ

۵- انواع و اقسام کے کھانے
شب برات کے دن یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بہت سارے گھروں میں لذيذ، مرغن اور مرغوب کھانے تیار کیے جاتے ہیں، اور دوستوں و رشتہ داروں کے یہاں بھیجے جاتے ہیں، کچھ غرباء و مساکین کے لیے بھی حصہ لگتا ہے، حتی کہ بیشتر نادار اور غیر مستطیع لوگ قرض لے کر اس کام کو انجام دیتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمی کو باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی ثواب سے محرومی کا سبب بھی۔
انواع و اقسام کے ان کھانوں کی تیاری کے پیچھے جو مقاصد پنہاں ہوتے ہیں ان میں سے ایک اہم اور بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں اور گھر کے مردہ لوگوں کی روحیں پندرہویں شعبان کی رات میں آتی ہیں ، ان کے استقبال اور ضیافت کے لیے یہ اہتمام کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شب برات وغیرہ میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ کسی نے ہمارے لیے کچھ پکایا ہے یانہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا امر خفی بجز دلیل نقلی کے اور کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا، اور وہ یہاں ندارد ہے۔“ (اصلاح الرسوم ، ص:۱۳۲)
اور کھانا وغیرہ تقسیم کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جولوگ مستحق اعانت ہیں ان کو کوئی بھی نہیں دیتا، یا ادنی درجہ کا پکا کر ان کو دیا جاتا ہے، اکثر اہل ثروت و برادری کے لوگوں کو بطور معاوضہ کے دیتے لیتے ہیں، اور نیت اس میں یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے یہاں بھیجا ہے، اگر ہم نہ بھیجیں گے تو وہ کیا کہے گا، غرض کہ اس میں بھی وہی ریاء و تفاخر ہو جاتا ہے ۔ بعض لوگ اس تاریخ میں مسور کی دال ضرور پکاتےہیں، اس ایجاد کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہوئی، لیکن اس قدر ظاہر ہے کہ موکد سمجھنا بلا شبہ معصیت ہے، یہ تو کھانا پکانے میں مفاسد ایجاد کرتے ہیں.“
(اصلاح الرسوم،ص:۱۳۳-۱۳۴)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
مسئلہ: کھانا تقسیم کرنے سے متعلق اس شب (شب برات) میں خاص طور پر کوئی روایت میری نظر سے نہیں گزری ۔ (فتاوی محمودیہ:۱/۷۵)

(جاری...)

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 08:51


حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دین کی بنیاد ہیں،دین کے اول پھیلانے والے ہیں،انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا،یہ وہ مبارک جماعت ہے کہ جسکو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مصاحبت کے لیے چنا اور اس بات کے مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بناکر اس کی اتباع کی جائے۔

<<کچھ دل سے>>

06 Feb, 02:36


تشریح:- قضا نہیں دے سکتی تھی۔اس خطرے کی بنا پر کہ ایسا نہ ہو رسول اللہﷺ کو ہماری ضرورت محسوس ہو اور ہم روزے سے ہوں کیونکہ آپ ہر روز عصر کے بعد یا کسی اور وقت میں سب ازواج مطہرات کے گھروں میں جاتے تھے، باری کا تعلق تو صرف رات کی حد تک تھا دن کو آپ کسی گھر میں بھی جا سکتے تھے۔

<<کچھ دل سے>>

27 Jan, 13:03


27 رجب کو شب معراج منانا بدعت ہے

إن اقامة الإحتفالات ليلة سبع وعشرین من رجب بدعة لا أصل لها
رجب کی ستائیسویں رات کو محفلیں منعقد کرنا بدعت ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ
لقاء الباب المفتوح:217

<<کچھ دل سے>>

27 Jan, 10:38


استخارہ ، باعثِ سکون یا پریشانی
🎤 عبداللہ یوسف ذہبی حفظہ اللہ

<<کچھ دل سے>>

27 Jan, 05:37


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ“ - "ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔" (سنن أبي داؤد : ٤٩١٨)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”الْمُؤْمِنُ مَرْآةُ أَخِيهِ، إِذَا رَأَى فِيهَا عَيْبًا أَصْلَحَهُ.“ - "مومن اپنے بھائی کیلیے آئینہ ہوتا ہے، جب اُس میں کوئی عیب دیکھتا ہے تو اس کی اصلاح کر دیتا ہے۔" (الأدب المفرد للبخاري : ٢٣٨)

تابعی بلال بن سعد رحمہ اللہ (١١١ھ) نے اپنے ایک ساتھی سے کہا : ”بَلَغَنِي أَنَّ الْمُؤْمِنَ مَرْآةُ أَخِيهِ فَهَلْ تَسْتَرِيبُ مِنْ أَمْرِي شَيْئًا“ -"مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے۔ کیا آپ مجھ میں کوئی خامی دیکھتے ہیں؟" (الزهد لابن المبارك : ١٣٧٨)

قاضي ابو یعلی ابن الفراء رحمہ اللہ (٤٥٨ھ) فرماتے ہیں : ”اور مرید کیلیے ایک نیک ہم نشیں کا ہونا ضروری ہے جو اصلاحِ احوال اور صلاحِ اعمال پر اس کا معاون ہو، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔“ (كتاب التوكل : ٦٨)

<<کچھ دل سے>>

27 Jan, 00:53


ابو لہب بھی چچا اور ابو طالب بھی،
ایک شعلہ دوسرا شبنم،
قرابت میں اور رشتے میں دونوں ایک، سلوک میں دونوں جدا،
ایک شعب ابی طالب کا مجرم، دوسرا شعب ابی طالب کا محسن،
ایک طعنہ دینے والا ایک طعنہ سہنے والا،
خاندانی محبت میں ثویبہ کو آزاد کرنے والا لیکن کوہ صفا سے دعوت توحید سن کر سب سے پہلے منفی تبصرہ کرنے والا،
دنیاوی سلوک میں نبیﷺ نے ابو طالب کے حسن سلوک کا شکریہ ادا کیا،
لیکن توحید میں سمجھوتہ نہیں کیا، نبیﷺ کی خواہش کے باوجود ابو طالب ایمان سے بہرہ مند نہ ہوسکے اور قوم کے جذبات کے آگے سیرینڈر ہوگئے۔ جبکہ توحید رب کے آگے سیرینڈر ہونے کا نام ہے۔ توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے۔۔۔
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

ابو اشعر فہیم

<<کچھ دل سے>>

27 Jan, 00:43


بیش قیمت نصیحتیں

اپنی اولادوں میں یہ بات پروان چڑھائیے کہ باطل، باطل ہے اگر چہ اسکے متبعین زیادہ ہوں، اور حق، حق ہے اگرچہ اسکے متبعین کم ہوں۔ اور حق کا عَلم ہمشہ سر بلند رہے گا اگرچہ اسے کوئی بھی بلند نہ کرے، اور باطل کا علم سرنگوں ہی رہے گا گرچہ اسے سب نے اٹھا رکھا ہو، اور حرام، حرام ہی رہے گا گرچہ اسے تمام لوگ کرتے ہوں۔

🎙 فضيلة الشيخ صالح بن حميد /حفظه الله
[إمام وخطيب الحرم المكي ]

<<کچھ دل سے>>

27 Jan, 00:36


سورۃ البقرۃ:٢٧٦ || احمد خضر

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 16:48


خواتین کے متعلق سوال و جواب سیریز(66)

دوران عدت عورت کا گھر کے کام کاج کرنا

سوال: عورت اگر عدت میں ہو تو کیا وہ گھر کے کام کاج کرسکتی ہے یا صرف چار مہینے دس دن تک اسے عبادت میں ہی وقت گزارنا ہوگا؟
جواب: جو عورت اپنے شوہر کی وفات کی وجہ سے گھر میں عدت گزار رہی ہے، وہ گھر کے سارے کام کاج کرسکتی ہے اس کے لئے گھر میں رہتے ہوئے کوئی بھی کام کرنا منع نہیں ہے۔ اس کے لیے فقط زیب و زینت کرنا اور بلاضرورت گھر سے نکلنا منع ہے۔

شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 16:27


🎀۔ نوریات سیریز {16}

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 15:55


وطن سے وفاداری یہ نہیں ہے کہ کسی ایک دن اس کی محبت کے نام پر مختلف رنگ کھیل لیے جائیں، کچھ گیت گالیے جائیں، رنگ برنگے بھڑکیلے کپڑے زیب تن کرلیے جائیں، اسکولوں، میدانوں اور سڑکوں پر تماشے اور میوزک سجاکر کچھ گیتوں کا ورد کرلیا جائیں یا کمسن بچوں بچیوں کو سب کے سامنے گانوں کے سُر پر غیر مہذب انداز میں ٹھرکا لیا جائیں۔
نہیں! ہرگز نہیں!
وطن سے حقیقی محبت یہ ہے کہ اس میں امن قائم کیا جائے، اس کی زمین پر فتنہ وفساد برپا نہ کیا جائے، وطن کے سڑکوں، گلیوں اور محلوں کو صاف ستھرا رکھا جائیں، روڈوں پر ناچ گانے، تماشے نہ کیے جائیں، ہم وطن عورتوں اور بچیوں کو تحفظ دیا جائیں، بزرگوں کی قدر کی جائیں اور ان کے لیے مضبوط سہارا بنا جائیں اور سب سے بڑی وفاداری یہ ہے کہ بغیر رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے وطن کے ہر رہواسی کے متعلق انصاف والا قانون نافذ کیا جائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
عمّــار عبـدالعـزِيـز المحمّــدی
ليلة ٢٦ رجب ١٤٤٦ هجـ

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 11:18


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(231)

🎀۔حضرت فاطمہ بنت محمد ﷺ کے گھر کی کیفیت

عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَهُمَا فِي خَمِيلٍ لَهُمَا وَالْخَمِيلُ الْقَطِيفَةُ الْبَيْضَاءُ مِنْ الصُّوفِ قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَّزَهُمَا بِهَا وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ إِذْخِرًا وَقِرْبَةٍ

ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت علی اور فاطمہ کے ہاں تشریف لے گئے،اس وقت ان دونوں نے ایک سفید اونی چادر لے رکھی تھی جو ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ نے عنایت فرمائی تھی،نیز ایک اذخر کی گھاس بھراگدا دیا تھا اور مشکیزہ۔

تشریح:رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح کے موقع پر گھریلو استعمال کی کچھ چیزیں دی تھیں۔بعض لوگوں نے اس کو جہیز کے موجودہ رواج کی دلیل بنایا ہےجو درست نہیں۔اصل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب مفلس آدمی تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدد کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ جب وہ جوان ہوئے تو نبیﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا ان سے نکاح کردیا۔اس موقع پر ان کا الگ گھر بسانے کے لیے ضروری سامان مہیا کیا گیا ہے۔اور اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی مالی حالت ایسی تھی کہ جب ان کو کہا گیا کہ شب زفاف کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کوئی تحفہ دو تو انھوں نے کہا:میرے پاس تو کچھ نہیں ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:اسے اپنی چادر ہی دے دو جو تمھارے پاس ہے۔ (سنن ابی داؤد النكاح باب في الرجل يدخل بامراته قبل ان ينقدها شيئاً حديث:٢١٢٥)

(سنن ابن ماجہ:4152)

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 03:29


🔷 Hadees.Of.The.Day.(150)

استنجا کرتے وقت بائیں ہاتھ کا استعمال کریں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص جب استنجا کرے تو دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے،اسے اپنے بائیں ہاتھ سے استنجا کرنا چاہیے۔

(سنن ابن ماجہ:312)

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 02:22


خدا کی راہ میں ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے

مگر خاک وطن تجھ کو کبھی رسوا نہیں کرتے

ہمارے دیش کی سنسد تجھے یہ تو پتہ ہوگا

محبت کرنے والی ہر چیز کو ہم سجدہ نہیں کرتے

رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِناَ
میرے رب اس شہر کو امن والا بنا دے (آمین)

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 01:26


جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا نہیں کرتا، وہ چاہے لاکھ دعوے کرے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں،مگر وہ اللہ سے نہیں ڈرتا!

شیخ سليمان الرحيلي حفظه الله

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 00:59


"حب الوطنی من الایمان"
وطن سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے

مذکورہ روایت عوام میں بہت مشہور و معروف ہے اور کثرت سے پھیلی ہوئی ہے جبکہ یہ رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ یہ موضوع، منگھڑت اور بے اصل ہے۔

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 00:47


وطن کی محبت فطری چیز ہے

نبیﷺ پر جو پہلی وحی آئی اور جب اس کا تذکرہ آپﷺ نے ورقہ بن نافل سے کیا جیسے ہی ورقہ نے یہ کہا:
لَيْتَنِي أكُونُ حَيًّا اِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ
کاش میں اس وقت زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ تب آپﷺ نے فرمایا: أوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ (بخاری)
کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین اور مقبول ہوں۔)
امام سہیلی رحمة الله عليه اس کی تشریح میں فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وطن کی جدائی دل پر بہت گراں گزرتی ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے جب ورقہ سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ آپ کو تکلیف دیں گے، جھٹلائیں گے، تو اس پر آپﷺ کو کوئی گھبراہٹ نہیں ہوئی۔ لیکن جیسے ہی ورقہ نے کہا کہ یہ لوگ آپ کو یہاں سے نکال دیں گے تو وطن کی محبت اور اس سے الفت کے باعث آپﷺ کا دل لرز اٹھا، اور آپﷺ نے بے ساختہ یہ کہا: کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟

فتح الباری لابن حجر:١٢/٣٥٩
تفسیر القرآن :٦١

<<کچھ دل سے>>

26 Jan, 00:32


سورۃ المجادلہ:٥/٦ || الشیخ السدیس

<<کچھ دل سے>>

25 Jan, 18:45


امریکہ میں لگی آگ سے امت مسلمہ کے نام دس پیغام  

مرتب:بو معاویہ شارب بن شاکر السلفی

صفحات 16

<<کچھ دل سے>>

08 Jan, 18:46


شیخ إبن عثیمین رحمہ اللہ (١٤٢١ ھ) نے فرمایا :
"انسان کو ہر اس چیز سے دور رہنے کو کہا گیا ہے جو اس کے لئے غم و تکلیف کا باعث بنتی ہو، لہذا ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے ہمیشہ خوش رہنے اور غم سے دور رہنے کا مطالبہ کرتا ہے"
شرح بلوغ المرام ٣٥٣/٣
ترجمانی:أم محمد خوشنما مصلح الدين

<<کچھ دل سے>>

08 Jan, 14:55


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(49)

عورت کا خوشبو لگا کر باہر نکلنا

سوال:عورت کا معطر ہو کر باہر نکلنا کیسا ہے؟
جواب:اگر اس کو عورتوں کے اجتماع میں شرکت کے لئے جانا ہو اور راستے میں مردوں کے قریب سے گزرنا پڑے تو اس کے لئے خوشبو استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور ایسے بازاروں میں جہاں مرد پائے جاتے ہیں معطر ہوکر جانا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:کوئی بھی عورت خوشبو استعمال کرکے ہمارے ساتھ عشاء میں شریک نہ ہو۔
اس معنی کی اور بھی حدیثیں ہیں،ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورت کا معطر ہوکر ان راستوں پر چلنا جہاں مرد ہوتے ہیں اور مردوں کے اجتماع میں جانا جیسے مساجد وغیرہ ہیں فتنہ کے اسباب میں سے ایک سبب ہے،اس کے برخلاف پردہ کا اہتمام کرنا اور زیب و زینت کی نمائش سے بچنا عورت پر واجب ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:وہ اپنے گھروں میں ٹھہری رہیں اور پہلی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کی نمائش نہ کریں۔(الاحزاب:33)
مثلا چہرہ اور سر وغیرہ کی بے پردگی بھی نمائش زیب و زینت میں داخل ہے۔

تفھیم دین۔ص،387

<<کچھ دل سے>>

08 Jan, 14:55


🔷 Hadees.Of.The.Day.(133)

وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرتا ہے

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:راہ استقامت پر قائم رہو تم ساری نیکیوں کا احاطہٰ نہیں کر سکو گے،اور تم جان لو کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے،اور وضو کی محافظت صرف مومن کرتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ:277)

<<کچھ دل سے>>

08 Jan, 04:40


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہ ﷺ(215)

🌏۔دنیا اور دنیا میں موجود تمام چیزیں ملعون ہیں

أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرَ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ أَوْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرمارہے تھے:دنیاملعون ہے،اسمیں جو کچھ ہے،سب ملعون ہے،سوائے اللہ کے ذکر کے اور اس سے تعلق رکھنے والی اشیاء کے اور سوائے عالم اور طالب علم کے۔

تشریح:(1)لعنت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے یعنی دنیا چونکہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہےاس لیے یہ لعنت کا باعث ہے(2) ہر وہ چیز یا عمل جس کا اللہ کی یاد سے کسی بھی انداز سے کوئی تعلق ہو اس پر یا اس کی وجہ سے رحمت نازل ہوتی ہےچنانچہ تلاوت نماز اللہ کے لیے جانور کی قربانی اور حج وعمرہ کے اعمال سب رحمت کا باعث ہیں،ایسے اعمال انجام دینے والا اللہ کی لعنت سے محفوظ رہتا ہے،اسی طرح کعبہ صفا ومروہ منی عرفات مزدلفہ اور ہر مسجد ومدرسہ اللہ کی رحمت کے مقامات ہیں،یہاں دین کی خدمات انجام دینا اور دین کے خادموں کی ضروریات مہیا کرنادینی کتابیں چھاپنا اور دوسروں تک پہنچاناان کی تعلیم دینا اور تعلیم حاصل کرنا علماء و طلباء کی ضروریات پوری کرنے کی نیت سے حلال روزی کمانا یہ سب اللہ کی رحمت کے اسباب ہیں(3)دین کے علم سے کسی بھی انداز سے منسلک ہونا اللہ کی رحمت کا باعث ہے اس لیے اگر دنیوی علوم و فنون بھی خدمت دین کی نیت سے حاصل کی جائیں تو وہ بھی دین کے خادم علوم ہونے کی وجہ سے لعنت کے دائرے سے خارج ہو جائیں گے،اگر نیت نہ ہو تو یہ علوم رحمت کا باعث نہیں ہوں گے(4)حلال روزی کمانا اللہ کا حکم ہےاس لیے اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے حلال روزی کمانا اور حلال کاموں میں خرچ کرنا ثواب کا کام ہے۔

(سنن ابن ماجہ:4112)

<<کچھ دل سے>>

08 Jan, 04:39


سورة الحجر: ٨٧-٨٩ || عمير شميم

<<کچھ دل سے>>

07 Jan, 16:06


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(48)

ڈاکٹروں کے مشورے سے حمل کو گرانا

سوال: ایک حاملہ خاتون کو ڈاکٹروں نے اسقاط حمل کا مشورہ دیا ہے کیونکہ وہ بد صورت اور بے شکل پیدا ہوگا تو کیا وہ ان کی رائے قبول کرلے؟
جواب: اگر اس بچے میں روح بھر دی گئی ہے تو کسی صورت میں بھی اسے گرانا جائز نہیں حتیٰ کہ اگر ماں کی موت اور حمل کے مریض پیدا ہونے کا خطرہ ہو کیونکہ یہ ایک محترم جان ہے،لہذا بچہ جب چار مہینے کا ہوتا ہے اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ،اس کا رزق،موت،اس کا عمل،بدبخت ہونا یا نیک بخت ہونا لکھ دیا جاتاہے۔اور اگر یہ مذکورہ مشورہ روح پھونکے جانے سے پہلے ہو اور ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق وہ ایسا معلوم اور ظاہر معاملہ ہو تو اسے گرانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ ایسی حد تک نہیں پہنچا جس میں وہ جاندار کہلا سکے تو جب یقین ہوجائے کہ یہ بچہ ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق مسخ شدہ اور خراب شکل وصورت پر پیدا ہوگا اور اپنے آپ پر اور گھر والوں پر بوجھ ہوگا تو اس کو ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ
عورتوں کے لیے صرف،ص:661

<<کچھ دل سے>>

07 Jan, 15:27


مشکل وقت میں ہی دوستی کا اصل پتہ چلتا ہے، حالات اچھے ہوں تو ساری دُنیا ہی دوست ہوتی ہے۔

الحافظ ابن حبان رحمہ اللہ، روضة العقلاء،ص:٢٤٧

<<کچھ دل سے>>

07 Jan, 12:08


🔷 Hadees.Of.The.Day.(132)

نماز کی کنجی،تحریم وتحلیل

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:نماز کی کنجی،پاکیزگی ہے اور نماز کی تحریم(اس میں پابندیاں لگانے والی چیز)تکبیر ہے،اور نماز کی تحلیل(اس میں پابندیاں ختم کرنے والی چیز) سلام ہے۔

(سنن ابن ماجہ:275)

<<کچھ دل سے>>

07 Jan, 08:48


المزاح_و_الظرافت

ایک لڑکے کی والدہ نے اس کو کہا کہ سوئی میں دھاگہ ڈال دو،تو اسے کسی دوست کی بات یاد آگئی کہ جب کبھی والدہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے کا حکم دے تو کچھ دیر ٹھہر کر دھاگہ ڈالنا اور یہ دکھانے کی کوشش کرنا کہ یہ کام واقعی مشکل ہے،تاکہ ماں خود کو بوڑھی نہ سمجھے اور اس کا دل نہ ٹوٹ جائے وہ شخص دھاگہ ڈالنے میں مشقت و مشکل کا اظہار کرنے لگا،اتنے میں والدہ محترمہ نے کان کے نیچے ایک رکھ کر دی اور کہا اتنا تو مشکل نہیں ہے جتنا تم نے بنا دیا ھے،ہر وقت تمہارا دھیان موبائل میں لگا رہتا ہے "نتیجہ ماں کے سامنے ڈرامہ ہر گز نہ کریں ورنہ معلوم نہیں گدی پہ دستِ ممتا پڑے یا کمر میں نعلِ ماں پڑے اور طبیعت صاف ستھری ہو جائے"

#.ابتسامہ😂🤭

<<کچھ دل سے>>

07 Jan, 07:39


Follow the <<کچھ دل سے>> channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaUt4EcIiRopYYPLVL1T

<<کچھ دل سے>>

07 Jan, 02:16


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہ ﷺ(214)

🌎۔دنیا اللہ کے نزدیک ایک مردہ میمنے سے بھی زیادہ حقیر ہے

عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُسْتَوْرِدُ بْنُ شَدَّادٍ قَالَ إِنِّي لَفِي الرَّكْبِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَى عَلَى سَخْلَةٍ مَنْبُوذَةٍ قَالَ فَقَالَ أَتُرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا أَوْ كَمَا قَالَ قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا

ترجمہ:حضرت مستورد بن شداد قرشی سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں ایک قافلے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپﷺ کا گزر ایک پھینکے ہوئے(مردہ) میمنے کے پاس سے ہوا،آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تمہارے خیال میں یہ میمنا مالکوں کی نظر میں بے قدر ہے؟انھوں نے کہا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ! انھوں نے بے قدر سمجھ کرہی پھینکا ہے،نبی ﷺ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جتنا یہ میمنا مالکوں کی نظر میں حقیر ہے،اللہ کے ہاں دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔

تشریح:(1)اللہ کے ہاں اصل اہمیت انسان کے اعمال کی ہے،دنیا کے اسباب اگر نیکی کے کام میں استعمال کیے جائیں تو وہ انسان کے لیے مفید ہیں ورنہ مال ودولت یا جاہ و حشمت کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں(2)دنیا کے اسباب کو جائز ذرائع سے حاصل کرنا چاہیےاور انھیں ایسے کام میں خرچ کرنا چاہیے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو(3)اللہ کی رضا اور انعامات کا اصل مقام جنت ہے۔اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی دولت کی کوئی قیمت نہیں۔

(سنن ابن ماجہ:4111)

<<کچھ دل سے>>

07 Jan, 02:15


سورة البقرة: ٢٥٧ || رضوان أبو قدوة

<<کچھ دل سے>>

06 Jan, 14:03


🔷 Hadees.Of.The.Day.(131)

بغیر وضو کے نماز عنداللہ قابل قبول نہیں

حضرت اسامہ بن عمیر ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کوئی بھی نماز بغیر وضو کے قبول نہیں فرماتا،اور نہ چوری کے مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ:271)

<<کچھ دل سے>>

06 Jan, 13:48


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(47)

سر پر مہندی لگاکر عورت کا وضو کرنا

سوال:ایک خاتون نے وضو کیا اور پھر اپنے سر پر مہندی لگا لی اور نماز پڑھنے لگی،تو کیا اس طرح اس کی نماز درست ہو گی؟ اور اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا اسے مہندی کے اوپر سے مسح کرنا جائز ہو گا یا وہ پہلے اپنے بال دھوئے اور پھر وضو کرے؟
جواب: بالوں پر مہندی لگا لینا کسی طرح وضو یا طہارت کے منافی نہیں ہے،اگر اس نے مہندی لگالی ہو اور اسی حالت میں وضو کرے یا کوئی اور لیپ جس کی خواتین کو ضرورت رہتی ہے،ان کے اوپر سے مسح کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے،وضو بالکل صحیح ہوگا،البتہ طہارت کبریٰ(یعنی واجبی غسل)کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سر پر تین لپ پانی ڈال کر اپنے بالوں کو ملے اور ہلائے،صرف مسح کرنا کافی نہ ہو گا،کیونکہ صحیح مسلم میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول!میں اپنے سر کے بال خوب گوندھ کر باندھتی ہوں،تو کیا میں غسل جنابت اور غسل حیض کے لیے انہیں کھولا کروں؟فرمایا:نہیں،تجھے اتناہی کافی ہے کہ تو اس پر تین لپ پانی ڈال لیا کر،پھر باقی جسم پر پانی ڈال لیا کر،اس طرح تو پاک ہو جائے گی۔اور اگر عورت غسل حیض کے لیے اپنے بال کھول کر دھوئے تو یہ افضل ہے،کیونکہ اس بارے میں اور بھی احادیث آئی ہیں۔

عبدالعزیز بن باز
احکام ومسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا۔ص،165

<<کچھ دل سے>>

06 Jan, 10:48


رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھجور لائی گئی، حسن و حسين رضی اللہ عنہما اس سے کھیلنے لگے۔ دونوں میں سے کسی ایک نے کھجور کا ایک دانہ اُٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بچے کے منہ سے وہ دانہ نکالا اور فرمایا : ”کیا آپ کو پتہ نہیں کہ آلِ محمد ﷺ صدقے کی چیز نہیں کھاتے؟!“
(صحيح البخاري : ١٤٨٥)

علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (٤٤٩ھ) فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو جب کسی کام سے شرعًا منع کیا جائے تو انہیں بتایا جائے کہ کیوں منع کیا گیا ہے، تاکہ اُن کی نشو و نما علم پر ہو، اور بالغ ہونے تک وہ شرعی احکامات جان چُکے ہوں۔

(شرح صحیح البخاري : ٥٣٤/٣)

<<کچھ دل سے>>

06 Jan, 08:25


ایک عورت نے وکیل کی مدد سے اپنا مقدمہ جیتنے کے بعد کہا:میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں؟
اس نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا:
جب سے انسان نے"پیسہ ایجاد"کیا ہے،تب سے شکریہ کی کوئی اہمیت نہیں رہی!

#۔ابتسامہ🤭😂

<<کچھ دل سے>>

06 Jan, 07:12


معاف کر دینا بدلہ لینے سے بہتر ہے۔

✿۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿وَجَزَ ٰ⁠ۤؤُا۟ سَیِّئَةࣲ سَیِّئَةࣱ مِّثۡلُهَاۖ فَمَنۡ عَفَا وَأَصۡلَحَ فَأَجۡرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّهُۥ لَا یُحِبُّ ٱلظَّـٰلِمِینَ، وَلَمَنِ ٱنتَصَرَ بَعۡدَ ظُلۡمِهِۦ فَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ مَا عَلَیۡهِم مِّن سَبِيلٍ﴾
’’اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں انہیں ملامت نہیں کی جا سکتی، اور جو اپنی مظلومی کے بعد ظلم کا انتقام لے تو اس پر کوئی ملامت نہیں۔‘‘ [الشورى ٤٠ - ٤١]

⇚ علامہ ابن جزی رحمہ اللہ (٧٤١هـ) فرماتے ہیں: هذا يدل على أن العفو عن الظلمة أفضل من الانتصار، لأنه ضمن الأجر في العفو، وذكر الانتصار بلفظ الإباحة في قوله: «ولمن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل»
’’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ظالموں کو معاف کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے، کیونکہ معاف کرنے پر اللہ نے اجر کی ضمانت دی ہے۔ جبکہ بدلہ لینے کو صرف جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو اپنی مظلومی کے بعد ظلم کا انتقام لے تو اس پر کوئی ملامت نہیں۔‘‘ (لتسهيل لعلوم التنزيل : ٢/‏٢٥١)

<<کچھ دل سے>>

26 Nov, 03:19


پریشانیاں چند گھڑیوں کے لیے ہوتی ہیں،پوری زندگی کے لیے نہیں، پس تقدیر کا شکوہ نا کریں!

<<کچھ دل سے>>

26 Nov, 01:23


🌹۔اللہ کا ذکر "گناہوں کی معافی کا ذریعہ"

<<کچھ دل سے>>

26 Nov, 01:22


سورۃ النازعات:٤٠،٤١ || اسلام أصبحی

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 15:11


جس نے تمہارا راز جان لیا گویا اس نے تمہیں اسیر کر لیا

إِذَا ضَاقَ صَدْرُ الْمَرْءِ عَنْ سِرِّ نَفْسِهِ
فَصَدْرُ الَّذِي يَسْتَوْدِعُ السِّرَّ أَضْيَقُ

جب آدمی کا سینہ اپنے ہی راز کے لیے تنگ پڑ جائے تو اس شخص کا سینہ جسے وہ یہ راز سپرد کرے، زیادہ تنگ ہوگا۔

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 14:52


اگر اپنے عمل میں مخلص نہیں ہو تو عمل کرکے تھکو نہیں!

امام ابن قیم رحمہ اللہ
بدائع الفوائد:٣/٢٣٥

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 14:49


بدن کی پردہ پوشی لباس میں ہے،جبکہ دل کی پردہ پوشی تقویٰ میں ہے۔

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 14:38


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(7)

مہندی لگا کر دلہن کا نماز کے لیے تیمم کرنا

سوال: دلہن کو جب مہندی لگائی جاتی ہے، تو وہ مہندی کے لگانے سے پہلے وضو سے ایک دو نمازیں پڑھ لیتی ہے، لیکن اگر پھر وضو کی ضرورت پیش آئے تو مہندی اور میک اپ کے خراب ہونے کی وجہ سے اس کو تیمم کرایا جاتا ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: پانی کی موجودگی میں اور اس حال میں کہ پانی کا استعمال بھی ضرر رساں نہیں ہے تو ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز نہیں ہے اور کوئی ایسی صورت میں تیمم کر کے نماز پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی۔

(شیخ مقبول احمد سلفى حفظہ اللہ)

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 09:35


🔸Hadees.Of.The.Day.(89)

جنگ بدر میں شریک ہونےوالے صحابہ کے فضائل(2)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:میرے ساتھیوں کو برا بھلا مت کہو،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر سونا بھی(اللہ کی راہ میں) خرچ کردے، تو ان کے ایک مُد،بلکہ آدھے مُد تک نہیں پہنچ سکتا۔

(سنن ابن ماجہ:161)

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 09:32


جاپان میں ایک خوبصورت مجسمہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا وزن اور قیمت آپ کے کلوگرام کی تعداد نہیں بلکہ آپ کی پڑھی جانے والی کتابوں کی تعداد ہے۔

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 09:29


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{118}

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 01:08


🌹۔اللہ کا ذکر "ایک مظبوط قلعہ" ہے

<<کچھ دل سے>>

25 Nov, 01:08


سورۃ الشوریٰ:٥٣ || أحمد العجمی

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 14:03


اگر اللہ نے آپ کو ایسی صلاحیت دی ہے جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچ‌ رہا ہے تو پہنچاتے رہئیے۔ یہی اس نعمت کا شکر ہے۔

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 14:02


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(6)

مردوں کو رسول بنایا،عورت کو کیوں نہیں؟ یہ بھید بھاؤ کیوں؟

جواب:نبوت کو اٹھانے کے لیے جس صبر کی ضرورت ہوتی ہے،وہ عورتوں میں نہیں ہوتا۔ وہ جذباتی ہوتی ہیں، لہذا نبوت کے ذمے داری انہیں نہ دے کر ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ کیا گیا ہے۔

(حافظ جلال الدین القاسمی حفظہ اللہ)

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 12:39


اگر اللہ نے آپ کو ایسی صلاحیت دی ہے جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچ‌ رہا ہے تو پہنچاتے رہئیے۔ یہی اس نعمت کا شکر ہے۔

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 11:19


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{117}

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 11:11


🪻۔ عاجزی اختیار کرو، تم تارے کی طرح ہو جاؤ گے جس کا عکس دیکھنے والے کو پانی کی سطح پر نظر آتا ہے جبکہ وہ تارا اس سے بہت بلند ہے۔

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 08:29


اگر بندے کو یہ معلوم ہو جائے کہ ناپسندیدہ چیز پسندیدہ چیز لاتی ہے تو ناپسندیدہ چیز کے لیے اس کا سینہ کھل جائے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ
تفسیر القرآن:71

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 07:29


🔸Hadees.Of.The.Day.(88)

جنگ بدر میں شریک ہونےوالے صحابہ کے فضائل(1)

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:حضرت جبریل علیہ السلام،یا فرمایا:ایک فرشتہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: تم میں سے جو لوگ جنگ بدر میں شریک ہوئے،تم لوگ انہیں کیا مقام دیتے ہو؟ انہوں نے کہا:ہم انہیں اپنے میں افضل شمار کرتے ہیں،فرشتے نے کہا، اسی طرح ہماری نظر میں وہ ( فرشتے جو جنگ بدر میں شریک ہوئے دوسرے) فرشتوں میں افضل ہیں۔

(سنن ابن ماجہ:160)

<<کچھ دل سے>>

24 Nov, 07:28


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(177)

🔗۔تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے اس کے جو جماعت کو لازمی پکڑے

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقَتْ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،وَإِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ:الْجَمَاعَةُ

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بنی اسرائیل اکہتر(71)فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت بہتر (72) فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی،ایک کے سوا وہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے،اور وہ جماعت ہے۔

تشریح: (1)نبیﷺ نے مستقبل میں آنے والے جن جن واقعات کی جس جس طرح خبردی،وہ اسی طرح پیش آئے،یہ رسول اللہﷺ کی نبوت اور صداقت کی دلیل ہے(2)فرقوں میں تقسیم ہونے کے بارے میں اس لیے بتایا گیا ہے کہ مسلمان ان اختلافات میں صحیح طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش کریں(3)نصاریٰ اور مسلمانوں میں اختلاف کی اصل وجہ خواہشات نفس کی پیروی اور تعصب ہے،اور یہ جرائم جہنم میں لے جانے والے ہیں(4)مسلمانوں کی اصل جماعت وہ ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے طریقے پر چلی آرہی ہے،اس جماعت سے لوگ مختلف فرقوں کی شکل اختیار کرگئے لیکن اصل جماعت بھی قائم ہے،مسلمانوں کو اسی جماعت کے ساتھ رہنے کی پیروی کرنے کا حکم ہے(5)جماعت سے الگ ہونے والے خواہش نفس یا غلط تاویلات کی وجہ سے الگ ہوئے،جو لوگ ان فرقوں میں شامل نہیں ہوئے وہ قرآن و حدیث پر قائم رہے،یہی سیدھا راستہ ہے(6)نجات کا دارومدار اپنی پارٹی کا کوئی خاص نام رکھ لینے پر نہیں بلکہ قرآن وسنت پر عمل کرنے پر ہے،عاملین کتاب وسنت مختلف زبانوں اور علاقوں میں مختلف ناموں سے مشہور ہوجائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ الگ الگ فرقے بن گئے ہیں بلکہ وہ سب تنظیمیں یا جماعتیں الجماعۃ میں شامل ہیں۔

(سنن ابن ماجہ:3993)

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 17:34


”اپنے کمالات نہ بتایا کرو، اپنی نیکیوں کا ذکر نہ کیا کرو، مجالس میں خود اپنی تعریفیں نہ کیا کرو ؛ یہ دین کی کمی بھی ہے اور عقل کی خرابی بھی۔“

(الشيخ محمد ابن قاسم العاصمي رحمه الله تـ ١٤٢١ھ)

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 14:03


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(3)

عورت کا مرد کو ٹیلی ویژن یا راستے پر دیکھنے کا حکم

سوال:سڑک پر فطری نظر یا ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے دوران عورت کے مرد کو دیکھنےکا کیا حکم ہے؟
جواب:عورت کا مرد کو دیکھنا دو انداز سے خالی نہیں،چاہے وہ ٹیلی ویژن پر ہویا اس کے علاوہ کسی دوسری حالت میں ہو۔
(1)۔لذت و شہوت کی نظر سے دیکھنا:یہ حرام ہے کیونکہ اس میں خرابی اور فتنہ ہے۔
(2)۔لذت و شہوت کے بغیر دیکھنا:علمائے کرام کے صحیح قول کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ جائز ہے کیونکہ بخاری و مسلم میں ثابت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کھیلنے والے حبشیوں کی(جنگی مشق کی) طرف دیکھتی اور نبیﷺ انھیں کھلاڑیوں کی نگا ہوں سے چھپائے ہوئے تھے.آپﷺ نے ان کو کھیل دیکھنے دیا اور اس لیے بھی کہ عورتیں بازاروں میں چلتی پھرتی ہیں اور مردوں کو دیکھتی ہیں اگرچہ وہ باپردہ ہی ہوتی ہیں تو عورت مرد کو دیکھ رہی ہوتی ہے اگرچہ مرد اسے نہیں دیکھ رہا ہوتا لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی شہوت و فتنہ نہ پایا جائے،اور اگر شہوت یا کوئی فتنہ ہو تو دیکھنا حرام ہے اگرچہ ٹیلی و یژن یا اس کے علاوہ کہیں بھی دیکھنا ہو۔

(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین)

ماخوذ:عورتوں کے لیے صرف۔ص،640

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 11:32


سعودی عرب کا دفاع کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے؟

✍🏼 انس اقبال (کالم نگار دار نیوز)

ہم سعودی عرب کا دفاع کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ یہ ایسے صالح علماء اور موحد حکمرانوں کے حوالے سے مشہور ہے جو لوگوں کو توحید وسنت کی تعلیم دیتے ہیں۔ بدعات اور شرک سے خبردار کرتے ہیں۔ ہر صاحب علم ان کی خدمات کا معترف ہے۔ ہم انہیں اسی حیثیت سے افضل سمجھتے ہیں۔ سب کے حساب و کتاب کا مالک اللہ تعالی ہے۔ اور ہم سب کو اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

سعودی عرب وہ مملکت ہے جہاں آج بھی مساجد میں علمی حلقے جاری ہیں۔ حفظ قرآن کی مجالس برپا ہیں۔ امن و امان سے حج اور عمرہ ادا کیا جا رہا ہے۔ علماء کی تقاریر اور بیانات سے پوری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے اور سرزمین توحید کی حفاظت فرمائے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سعودی عرب کے حکمرانوں کو وہی کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالی کو پسند اور منظور ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں پر جب اور جہاں بھی کوئی مصیبت آتی ہے، سعودی عرب سب سے پہلے ان کی مدد کے لیے پہنچتا ہے۔ بغیر کسی مطلب اور بنا کسی مفاد کے، صرف اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر ہر طرح کی مشکل کے باوجود سب کی مدد کرتاہے۔ کیا اس کی یہ خدمت کم ہے؟

یہاں غزہ کے ایشو پر ہر دوسرا آدمی سعودی عرب کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے۔ جنگ کوئی اور چھیڑتا ہے، بغیر پلان کیے چھیڑی گئی جنگ کے شعلے جب بھڑک اُٹھتے ہیں تب سازشیں کر کے سعودیہ کو بھی اس بھڑکتی آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دوسری طرف کچھ لوگوں کو آج کل ریاض سیزن کا ہیضہ ہو رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہاں یہ ہو رہا ہے اور وہ ہورہا ہے۔ اگر واقعی کچھ غلط ہو رہا ہے تو ہم ان کے لئے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ، وہ اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہیں۔ جو آج سعودی عرب پر اپنی لمبی لمبی زبانیں دراز کیے ہوئے ہیں کیا انھوں نے اس سے پہلے سعودی عرب کے کسی اچھے کام پر اس کی تعریف کی ہے؟ کبھی بھی نہیں، کیونکہ ان کا تعلق اچھے یا برے کام سے نہیں بلکہ انھیں صرف سعودی عرب کا بُغض لاحق ہے۔

واضح رہے کہ ریاض اور جدہ کے اکثر میوزیکل کنسرٹس غیر ملکیوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ناچنے، گانے اور سننے والے سب غیر ملکی ہوتے ہیں۔ جن میں سفارت کار، مقیم، کھلاڑی اور سیاح شامل ہوتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ریاض مڈل ایسٹ کا سب سے بڑا دار الحکومت ہے، جہاں ہزاروں غیر ملکی اور غیر مسلم رہتے ہیں۔ ایسے میوزیکل کنسرٹس کا تعلق اُنہی غیر ملکیوں اور غیر مسلموں سے ہوتا ہے۔ سعودی شہریوں کا ان سے حقیقت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ہمیں جس سعودی معاشرے سے محبت ہے وہ بہترین علماء اور صالح حکمرانوں کا سعودی عرب ہے۔ اور وہ سعودی عرب آج بھی ویسا ہی ہے ،جیسا پہلے تھا۔ وہی صالح حکمران ہیں اور وہی شاندار علماء ہیں۔ نہ اُن کی صالحیت اور توحید ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ہماری ان سے محبت تمام ہوئی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی قوم سے محبت رکھتا ہے، لیکن ان کے ساتھ (اعمال میں) شامل نہیں ہو سکا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "آدمی ان ہی کے ساتھ ہوگا جن سے وہ محبت رکھتا ہے”۔ (متفق علیہ)۔

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 11:23


لائیک بھی ایک امانت ہے

جب آپ سوشل میڈیا پر کسی پوسٹ پر ری ایکٹ کرتے ہیں تو اس سے دو کام لازمی ہوتے ہیں:
(1)آپ کا لائیک اس پوسٹ کی ریچ بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے
(2)صاحبِ پوسٹ کی تائید اور اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اس لیے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ لائک ایک امانت ہے۔ کسی پوسٹ کو لائک کرنے سے پہلے ان دو باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ بے کار، فضول اور بے مقصد پوسٹ کو لائیک دے دینا اور مفید، باعثِ اجر وثواب اور صدقہ جاریہ بننے والی پوسٹ کو سکرول کر کے نظر انداز کر دینا کسی طرح بھی پسندیدہ عمل نہیں ہے۔

(عبداللہ یوسف ذہبی)

https://t.me/kuchdilse

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 08:10


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہ ﷺ(174)

🪶۔فتنوں کے دور میں عبادت الہی پر گامزن رہنا گویا ہجرت کرنا ہے

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ، كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ

ترجمہ:حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قتل و غارت (اور فتنوں کے ایام) کے دوران میں عبادت کرنا ایسے ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا۔

تشریح:(1)فتنہ وفساد کے ایام میں فتنوں میں شمولیت سے بہتر ہے کہ الگ تھلگ رہا جائے،اس کے لیے بہترطریقہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارا جائے(2)رہبانیت ممنوع ہے لیکن فتنوں کے ایام میں گوشہ نشینی رہبانیت میں شامل نہیں کیونکہ رہبانیت کا مطلب ہے کہ عوام سے جائز میل جول سے بھی اجتناب کیا جائے اور عبادت میں اس طرح کی سختی کی جائے جو سنت کے خلاف ہے جب کہ اس گوشہ نشینی کا مقصد اپنے آپ کو قتل وغارت اور فساد میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھنا ہے(3)اس دوران میں مسنون نفلی عبادات میں اس حد تک مشغول ہوا جاسکتا ہے کہ اپنی ذات اور بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کے علاوہ کسی اور مشکوک سر گرمی میں حصہ نہ لیا جاسکے(4)ہجرت میں وطن چھوڑا جاتا ہے اور گوشہ نشینی میں اہل وطن کی برائیوں اور شرارتوں سے دامن بچانے کے لیے ان سے تعلق محدود کیاجاتا ہے،اس لحاظ سے یہ دونوں عمل مشابہ ہیں،اوران دونوں کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔

(سنن ابن:3985)

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 07:40


🔶 Hadees.Of.The.Day.(85)

فضائل حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ(1)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی کپڑا بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ حاضرین اسے ہاتھ میں لے لے کر دیکھنے لگے( کہ کتنا عمدہ ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال اس سے بہتر ہیں۔

(سنن ابن ماجہ:157)

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 07:40


🌹۔اللہ تعالٰی کا فرشتوں کے سامنے فخر

<<کچھ دل سے>>

21 Nov, 02:33


سورۃ الروم:٤١ || رعد الکردی

<<کچھ دل سے>>

20 Nov, 13:39


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(2)

اونچی ایڑی والی جوتی پہننے کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟

جواب:اونچی ایڑی کم از کم کراہت کا حکم رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں دھوکہ ہے، عورت دراز قد معلوم ہوتی ہے جبکہ وہ ایسی نہیں ہوتی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں عورت کے گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ ڈاکٹروں کی رائے میں ایسی جوتی پہننا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

شیخ ابن باز
(فتاویٰ برائے خواتین،ص:271)

<<کچھ دل سے>>

20 Nov, 12:33


ساری رات ان پر کمبل دیتے رہو، لیکن جب دیکھو گے یہ مخلوق کمبل سے باہر ہی نظر آئے گی۔

#۔ابتسامہ🤭😂

<<کچھ دل سے>>

20 Nov, 04:06


🔶 Hadees.Of.The.Day.(84)

فضائل حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا آپ نے فرمایا:ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر بات میں سچا آدمی نہ زمین نے اٹھایا نہ آسمان نے اس پر سایہ کیا۔

(سنن ابن ماجہ:156)

<<کچھ دل سے>>

20 Nov, 04:04


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(173)

🔖۔مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔

تشریح:(1)مومن سے بعض اوقات غلطی ہوسکتی ہے لیکن غلطی واضح ہونے پر اس سے رجوع کرلینا چاہیے(2)جو شخص ایک بار ناقابل اعتماد ثابت ہوجائے دوبارہ اس پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرنا درست نہیں۔

(سنن ابن ماجہ:3983)

<<کچھ دل سے>>

20 Nov, 03:24


🌹۔اللہ کا ذکر ہی زندگی ہے

<<کچھ دل سے>>

20 Nov, 03:23


سورۃ آل عمران:٣١،٣٢ || رعد الکردی

<<کچھ دل سے>>

19 Nov, 14:40


خواتین کے متعلق سوال وجواب سیریز(1)

سوال:ایک عورت نے اپنی بھتیجی کو ایک دفعہ اپنا دودھ پلایا تھا، کیا ایک دفعہ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے اور کیا وہ اس سے اپنے بیٹے کی شادی کرسکتی ہے؟
جواب:ایک دفعہ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی بلکہ رضاعت کے لئے پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر دودھ پلانا ضروری ہے اور وہ بھی تب جب بچہ دو سال کے اندر کا ہو۔مذکورہ مسئلہ میں رضاعت ثابت نہیں ہوتی ہے اس وجہ سے وہ عورت اپنے بیٹے کی شادی اپنی بھتیجی سے کر سکتی ہے۔

(شیخ مقبول احمد سلفى حفظہ اللہ)

<<کچھ دل سے>>

19 Nov, 12:22


اللہ تعالٰـے محمد بن سلمانکی اصلاح فرمائے اور اس کو صحيح دین پر استقامت دے، نیز اسلام اور مسلمانوں کا اس کے ذریعہ غلبہ فرمائے (آمین)

<<کچھ دل سے>>

19 Nov, 09:59


🔶Hadees.Of.The.Day.(83)

فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری امت میں، امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں،اور اللہ کے دین میں سب سے سخت عمر رضی اللہ عنہ ہیں،سب سے زیادہ سچی حیا والے عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ کی کتاب کے زیادہ عالم اُبّی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں،حلال و حرام کا زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں،اور علم میراث کے زیادہ ماہر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں،سنو!ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین( دیانت دار فرد) ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں۔

(سنن ابن ماجہ:154)

<<کچھ دل سے>>

19 Nov, 06:07


💔۔طلاق یافتہ فاطمہ کی روداد __!!

کراچی میں میرے ایک جاننے والے کے ہمسایہ میں ایک فیملی تھی جس میں دو بیٹیاں اور ایک اُنکے والد تھے والدہ پہلے ہی وفات پا گئی تھیں،بڑی بیٹی کی شادی کے بعد والد جلد از جلد چھوٹی بیٹی فاطمہ کا فرض بھی پورا کر دینا چاہتے تھے، لہذا اپنی بہن کے بیٹے سے جو کہ پاکستان سے باہر کمانے گیا ہوا تھا نکاح کر دیا اور رخصتی کچھ سال پر مؤخر کر دی کیونکہ فاطمہ تب صرف سترہ سال کی معصوم بچی تھی۔
اللّٰہ کی حکمتیں اللّٰہ ھی جانے، ابھی بچی کا نکاح کِیا یی تھا کہ کچھ دن بعد والد بھی ایک ایکسیڈینٹ میں چل بسے، والدہ کا پیار بھی نہ پا سکی اور اب والد بھی گئے،لڑکی ہونے کے ساتھ بھولی اور معصوم بھی اتنی تھی کہ صِرف ایک دوست تھی اُسکی وہ بھی اُسکی کزن، لہذا کچھ ماہ اپنے گھر رکھنے کے بعد اُسکی بہن اور بہنوئی نے پھوپھو سے رخصتی کی بات کی، لڑکے کو بلوایا گیا اور رخصتی کردی گئی۔

بہت خوش تھی کہ پھوپھو کے گھر جارہی ہوں کیونکہ بچپن سے پھوپھو نے بہت پیار دیا تھا لیکین بچی کیا جانتی تھی کہ رشتہ داروں کا پیار تب تک ہی زندہ رہتا ہے جب تک آپ کے والدین سلامت ہوں،والدین کی وفات کے ساتھ رشتہ داروں کی ہمدردیوں کا بھی جنازہ اُٹھ جاتا ہے،لڑکا ایک ہفتے بعد واپس چلا گیا اور وہاں سے جا کر طلاق کے کاغذات بھیج دیئے اور ماں کو بتا دیا کہ میں نے آپ کو بناء بتائے یہاں شادی کرلی تھی اور میں خوش ہوں اپنی بیوی کے ساتھ،اب ماں نے اپنی تربیت چُھپائی بیٹے کی اِس خباثت پر پردہ ڈال کر اور فاطمہ کو خط کا نہ بتایا بس ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے اُس معصوم پر یہ سوچ کر کہ شائد تنگ آکر یہ خود ہی طلاق کا مطالبہ کر ڈالے اور ہم خاندان میں بدنامی سے بچ جائیں آخر جب ہر طرح سے ظلم و ستم کر کے دیکھ لِیا تو ایک دن تنگ آ کر خود ہی وہ خط دِکھا کر اُسے گھر سے نکال دیا،بچی اپنی بہن کے گھر رہنے آگئی اور جاتی بھی کہاں؟ وہ ترو تازہ چہرہ مُرجھا گیا تھا صِرف ایک لفظ طلاق سے،کچھ عرصہ گزرا نہیں کہ بہن کے سسرالیوں نے بھی تنگ کرنا شروع کر دیا، بڑی بہن کا جینا حرام کر دیا کہ بھیجو اِسے اپنے گھر یا کہیں اور شادی کرو اِسکی،ہم پر بوجھ بنی بیٹھی ہے،فاطمہ کو بھی مختلف طریقوں سے ذہنی اذیت دینے لگے۔

اپنے دوسرے بیٹے سے اُسکی شادی بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اُس معصوم پر طلاق کا دھبہ جو لگ گیا تھا اور ہمارا معاشرہ عُمریں اور کردار کب دیکھتا ھے بس یہ دیکھتا ھے کہ لڑکی کنواری ھے یا نہیں؟ آخر تنگ آ کر ایک رات وہ معصوم بچی گھر سے بھاگ گئی...کہاں گئی کسی کو کچھ پتا نہ چلا ۔

دو سال بعد بہنوئی کا کسی کام سے ایدھی سینٹر جانا ہوا تو فاطمہ نظر آئی وہاں...ذہنی توازن بگڑا ہوا...اور اپنی عُمر سے بیس سال بڑی لگ رہی تھی...خدا جانے دو سال میں کہاں کہاں دھکے کھا کے ایدھی پہنچی یہ تو اللّٰہ جانے...لیکن ایک معصوم شریف نیک کردار بچی کی ساری زندگی صِرف اِس وجہ سے اُجڑ گئی کہ ایک تو اُسکے ماں باپ حیات نہ تھے دوسرا اُس کو طلاق ہو چُکی تھی... یہ جو لوگ طلاق یافتہ کو اپنانے سے بھاگتے ہیں اِسکا یہی مطلب ہوا نہ کہ وہ صِرف عورت کے جسم سے شادی کرنا چاہتے ہیں کردار سے نہیں...

اگر آپ ایسے اسلامی واقعات، اور دل پر اثر کرنے والی تحریر پڑھنا چاھتے ہیں تو آج ہی ہمارا چینل کچھ دل سے جوائن کیجیے۔

https://chat.whatsapp.com/Bge0AQUGqanJAug15uqQBW

<<کچھ دل سے>>

19 Nov, 05:52


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(172)

🔗۔فتنوں کے دور میں تنہائی اختیار کرنا جائز ہے

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ،عَنْ أَبِيهِ،أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ،يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ،وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بسے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قریب ہے کہ مسلمان کے لیے بہترین مال بکریاں ہوں جن کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں میں(جہاں گھاس چارہ مل سکتا ہے) لیے پھرتا رہے،اوراس طرح اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے فتنوں سے دور بھاگتا پھرے۔

تشریح: (1)جب عام لوگوں کے ساتھ رہنے میں ایمان کو خطرہ ہو تو گوشہ نشینی اختیار کرنا جائز ہے(2)جو شخص فتنوں میں غلط کار لوگوں کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے اپنی زبان استعمال کرسکتا ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت اور بحث و مناظرہ کے لیے آبادی میں رہنا اور یہ خدمت انجام دینا افضل ہے۔

(سنن ابن ماجہ:3980)

<<کچھ دل سے>>

19 Nov, 03:22


🌹۔ہر دم زبان پر اللہ کا ذکر رہے

<<کچھ دل سے>>

16 Nov, 05:29


🥀۔ایک لرزہ خیز جرم کی ہولناک داستان!

🖊️آصفہ عنبرین قاضی

باپ دو دن سے بیٹی کے نمبر پر ڈسکہ کے نواحی گاؤں کال کر رہا تھا مگر نمبر بند تھا،وہ گھبرا کر بیٹی کے سسرال چلا آیا اور پوچھا زارا کہاں ہے ؟ فون کیوں بند ہے اس کا،جبکہ زارا کا دو سال کا بیٹا گھر میں موجود تھا،ساس اور نندوں نے بتایا دو دن پہلے رات کو کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی،موبائل بھی ساتھ لے گئی۔ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے،خاموشی سے تلاش کررہے ہیں۔

باپ کو یقین نہ آیا،چار سال پہلے اس نے بہت چاؤ سے اس کا رشتہ اس کی خالہ صغری کے بیٹے قدیر سے کیا،اور وہ دونوں بہت خوش تھے،ہاں سگی خالہ اس سے اکثر نالاں رہتی تھی مگر وہ پھر بھی بیٹی کو نباہ اور صبر کی تلقین کرتا رہا،اس نے تلاش گمشدگی کے لیےپولیس کی مدد لی،پولیس نے سسرالیوں کے بیان لیے،زارا کی ساس اور نندوں کو شامل تفتیش کیا گیا،ہر ایک کے بیان میں تضاد موجود تھا،جس پر پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا،انہوں نے انکشاف کیا کہ زارا بھاگی نہیں بلکہ 11 نومبر کی رات انہوں اس کو مار کر پھینک دیا تھا،اور اس کے شوہر کو بھی یہی بتایا کہ وہ کسی سے رابطے میں تھی اور گھر سے نکل گئی،جبکہ زارا سات ماہ کی حاملہ تھی،اس کے ساتھ ننھی جان بھی ماری گئ۔

جھگڑا کیا تھا؟ وہی ساس بہو کی ازلی چپقلش اور نند بھابی کا بیر،زارا کی پانچ نندیں تھیں اور قدیر ان کا اکلوتا بھائی،اور انہوں نے خود زارا کا رشتہ مانگا اور اپنے ہاتھوں سے رخصت کرکے گھر لائیں۔
جھگڑا پیسے کا تھا، ان کا خیال تھا ان کا بیٹا سارا خرچ بہو کے ہاتھ رکھتا ہے جبکہ اسے سب کچھ ماں بہنوں کو دینا چاہیے ،وہ خود زارا کو دیں،انہی جھگڑوں سے تنگ آ کر قدیر اسے اٹلی بھی لے گیا اور کچھ ماہ پہلے سسرال چھوڑ گیا،اس بار ساس اور نندوں نے سوچا کہ زارا کو واپس ہی نہ جانے دیا جائے اور قدیر کی ساری کمائی ہمیں ملے ،پلان کے تحت لاہور سے کسی کو بلایا،فجر سے کچھ دیر پہلے سوئی ہوئی زارا کے منہ پر تکیہ رکھ کر سانس بند کی اور موت کے حوالے کردیا ،اب مسئلہ لاش کا تھا کہ وہ کہاں کریں،اور شناخت کیسے چھپائیں تو سر کو دھڑ سے الگ کرکے چولہے پر جلایا گیا تاکہ نین نقش مسخ ہوجائیں،پھر جسم کاٹ کر دو الگ الگ بوریوں میں ڈالا،ایک بوری نہر میں اور ایک دور جھاڑیوں میں پھینک دی،پولیس نے ان کی نشان دہی پر مختلف جگہوں سے جسم کی باقیات برآمد کر لیں۔

لوگ کہتے ہیں رشتہ اپنوں میں کریں،اپنا مارے گا بھی تو چھاؤں میں ڈالے گا،یہاں تو چھاؤں میں بھی نہیں ڈالا گیا۔۔۔اور پھر اپنا ہو۔۔۔تو مارے ہی کیوں ؟؟

<<کچھ دل سے>>

16 Nov, 03:40


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(169)

🌹۔اچھی بات کہیں ورنہ خاموشی اختیار کریں

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے،اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔

تشریح:(1)بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے(2)فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے(3)بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔

(سنن ابن ماجہ:3971)

<<کچھ دل سے>>

16 Nov, 03:07


🔶 Hadees.Of.The.Day.(81)

فضائل حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ(3)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:عمار رضی اللہ عنہ پر جب بھی دو کام پیش کیے تو انہوں نے زیادہ صحیح کام کا انتخاب کیا۔

(سنن ابن ماجہ:148)

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 23:21


🌹۔ رحمت اور سکینت کا نزول

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 23:21


سورۃ الروم:٢١ || میفلان کورتش

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 09:28


معاشرہ کا درد ناک پہلو یہ بھی ہے:

کسی بھی لڑکا لڑکی کے لیے شادی کے بعد ان کی اولین ترجیح اولاد کی نعمت کا حصول ہوتا ہے۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ ابھی دلہن کے ہاتھ کی مہندی کا رنگ پھیکا نہیں پڑتا کہ محلے بھر کی دادیاں، نانیاں جمع ہوتی ہیں اور لڑکی سے کہتی ہیں، “بہو خوشخبری کب سنا رہی ہو؟”

جیسے خوشخبری تو بہو اپنے ساتھ جہیز میں لائی ہو اور خوشخبری سنانا اس کے دائرہ اختیار میں ہو۔

اور جن جوڑوں کی شادی کو تین، چار سال کا عرصہ گزر جائے تو لوگ کہتے ہیں، “اب تو خوشخبری سنا ہی دو!” لیکن کبھی سوچا ہے ہمارے ان جملوں سے اس لڑکی کے دل پر کیسے آری چلتی ہوگی، وہ کتنا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہوگی۔

ہمارے کہے ہوئے جملے محض جملے نہیں ہوتے، یہ الفاظ کے گرز ہوتے ہیں جس کے ذریعے ہم اس لڑکی کے ارمانوں کا خون کرتے ہیں۔ نہ جانے اس لڑکی نے خود ہی اپنے آپ کو کتنی تسلیاں دی ہوں گی، ذہن بھٹکانے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہوں گے۔

لیکن ہمارا ایک سوال جو صرف چسکا لینے کے لیے ہوتا ہے، اس لڑکی کو کتنی اذیت اور کتنا درد دیتا ہوگا، عام لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

یہی دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں جعلی عاملوں کے پاس جاتی ہیں، جہاں وہ اپنا مال تو ضائع کرتی ہی ہیں، بسا اوقات اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

میں اپنی ماؤں، بہنوں سے التجا کرتا ہوں کہ کچھ بھی بولنے میں احتیاط کریں، “پہلے تولو، پھر بولو” پر عمل کریں۔ یہ وقت چسکے لینے کا نہیں ہے۔

یہ وقت ان کی امید بڑھانے کا ہے، ان کو حوصلہ دینے کا ہے۔ اللہ کی ذات پر ان کے یقین کو مضبوط کرنے کا ہے۔ خدانخواستہ اگر کل کو یہی صورت ہماری بہن، بیٹی کے ساتھ پیش آ گئی تو ہم کہاں جائیں گے؟

اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ اپنے الفاظ کا چناؤ بہت سوچ سمجھ کر کریں تاکہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئیں۔

تحریر پسند آنے پر ری ایکٹ اور شیئر کرنے کا اہتمام کریں۔

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 09:23


مسلمان خواتین کے بارے میں کہی گئی سب سے خوبصورت بات،جب وہ پیدا ہوتی ہے تو اپنے باپ کی جنت کی کنجی ہوتی ہے،جب وہ شادی کرتی ہے تو وہ اپنے شوہر کا آدھا دین ہوتی ہے اور جب وہ اولاد کو جنم دیتی ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 04:35


🔷 Hadees.Of.The.Day.(80)

فضائل حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ(2)

حضرت ہانی بن ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےحضرت عمار رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا:پاک کیے ہوئے پاک باز کو خوش آمدید! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا:عمار رضی اللہ عنہ سرتاپا ایمان سے معمور ہے۔

(سنن ابن ماجہ:147)

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 04:33


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(168)

📌۔اپنے بھائی پر ہتھیار اٹھانے والا شخص جہنم کے کنارے پر ہوتا ہے

عَنْ أَبِي بَكْرَةَ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا الْمُسْلِمَانِ حَمَلَ أَحَدُهُمَا عَلَى أَخِيهِ السِّلَاحَ، فَهُمَا عَلَى جُرُفِ جَهَنَّمَ،فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، دَخَلَا جَمِيعًا

ترجمہ:حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی ﷺ نے فرمایا:جب دو مسلمانوں میں سے ایک اپنے بھائی پر ہتھیار اٹھاتا ہے تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں،جب ان میں سے ایک اپنے ساتھی کو قتل کر دیتا ہے تو دونوں جہنم میں داخل ہو جاتے ہیں۔

تشریح:(1)جہنم کے کنارے پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے ان دونوں کے جہنمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن ان کے لیے جہنم سے بچنے کا موقع باقی ہوتا ہے کہ لڑائی سے باز آجائیں(2)مومن کا قتل جہنم میں پہنچانے والا عمل ہےالبتہ توبہ یا قصاص سے یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ:3965)

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 03:09


🌹۔سب سے بہترین عمل

<<کچھ دل سے>>

15 Nov, 03:09


سورۃ الاحزاب:٥٦ || شریف مصطفیٰ

<<کچھ دل سے>>

14 Nov, 08:35


وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ

<<کچھ دل سے>>

14 Nov, 06:47


الســـلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

معزز قارئین کرام! یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر انسان آج سکون کی تلاش میں ہے، ہر انسان کو فطری طور پر ایک ایسی ٹھنڈی چھاؤں کی تلاش ہے جس کے نیچے وہ اطمینان وسکون کی زندگی بسر کرسکے۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سکون ہمیں کب اور کیسے میسر ہو گا؟کیا ایک اچھا گھر بنا لینے سے؟عمدہ غذا کھانے سے؟ عمدہ سے عمدہ لباس زیب تن کرنے سے؟اچھی جاب مل جانے سے؟ ایک اچھا لائف پارٹنر مل جانے سے؟ یا کثرت اولاد سے؟ نہیں ہرگز نہیں! اکثر ہم لوگوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایک شخص کے پاس دنیا کی ساری آرائشیں و سہولتیں میسر ہونے کے باجود وہ بے سکونی میں مبتلاء رہتا ہے،وہ صحیح اطمینان وسکون قلب حاصل نہیں کرپا کیوں؟ کیونکہ یہ سب چیزیں دنیاوی ہیں اور دنیا کی ہر شے سے قلق،اضطراب اور بے چینی بڑھتی ہے،
کلام اللہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحیح سکون واطمینان قلب تو صرف اور صرف ذکر الہی میں ہی پوشیدہ ہے،ذکر الہی سے دلوں کے اندر زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہےاور اس سے اطمینان خاطر اور سکون قلب حاصل ہو جاتا ہے،ذکر الہی کرنے والے دراصل زندہ ہیں اور جو اللہ کو یاد نہیں کرتے گویا وہ مردے ہیں،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَيِّتِ جو شخص اپنے رب کو یاد کرتا ہے اس کی مثال زندے کی سی ہے اور جو شخص اپنے رب کو یاد نہیں کرتا ہے اسکی مثال مردے کی سی ہے،آپ ﷺ نے اس شخص کو زندہ فرمایا جو اللہ تعالی کی یاد میں مشغول رہتا ہے،جس شخص کا دل ذکر الہی سے یکسر خالی ہوگا وہ زندہ تو ہے لیکن اُس کا دل مردہ ہے اس لئے کہ اس کے اندر اس چیز کا بالکل فقدان ہے جو دلوں کو زندگی بخشتی ہے دلوں کو سکون فراہم کرتی ہے،
فضائل ذکر سیریز ارسال کرنے کا مقصد ذکر الہی کے فوائد لوگوں کے سامنے عیاں کرنا ہے تاکہ ذکر الہی کے فوائد و فضائل کو جان کر ہم کثرت سے ذکر الہی کرکے اپنے قلب کو سکون فراہم کرسکیں کیونکہ جس سکون کی جستجو ہم سب کو ہے وہ بغير ذکر الہی کے ممکن نہیں۔

آپ تمام سے التماس ہے کہ فضائل ذکر سیریز کو نہ صرف پڑھیں بلکہ اپنے دوست واحباب کے ساتھ بھی ضرور شئیر کریں تاکہ کثرت تعداد میں لوگ ذکر الہی سے اپنی زبان کو تر رکھ سکیں اور اپنے قلب کو سکون پہنچا سکیں۔

جزاکم اللّہ خیرا

<<کچھ دل سے>>

14 Nov, 02:35


🔷Hadees.Of.The.Day.(79)

فضائل حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ(1)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:میں نبی ﷺ کے پاس بیٹھا تھا کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے آنے کی اجازت چاہی نبی ﷺ نے فرمایا:اسے اجازت دے دو اس پاک کیے ہوئے پاک باز کو خوش آمدید ۔

(سنن ابن ماجہ:146)

<<کچھ دل سے>>

14 Nov, 00:02


🌹۔اللہ ذکر کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے

<<کچھ دل سے>>

13 Nov, 23:44


عمیر شمیم||سورۃ الصافات:۱۳۹تا۱۴۴

<<کچھ دل سے>>

13 Nov, 04:58


حافظ ابن حجر العسقلاني رحمه الله فرماتے ہیں :

اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کو آزمائش سے نکالنا ہی ہوتا ہے،بعض اوقات تاخیر صرف اس لیے کرتا ہے کہ وہ انہیں نکھارنا اور ان کے ثواب میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

( فتح الباري : ٤٨٣/٦ )

<<کچھ دل سے>>

13 Nov, 04:58


🔷 Hadees.Of.The.Day.(78)

فضائل حضرت حسین رضی اللہ عنہ(1)

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام کو کھانے کی دعوت دی گئی تھی،وہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ وہاں جانے کے لئے روانہ ہوئے،دیکھا تو گلی میں حسین رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے۔ نبی ﷺ نے دوسروں سے آگے بڑھ کر حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑنے کے لئے ہاتھ پھیلا دیے،وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے،نبی ﷺ انہیں ہنساتے رہے،آخر انہیں پکڑ لیا،آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا، اور دوسرا ہاتھ ان کے سر کے پچھلے حصے پر رکھا اور انہیں چوم لیا،پھر فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں،جو حسین سے محبت کرے، اللہ اس سے محبت کرے اور حسین اسباط میں سے ایک سبط ہیں۔

(سنن ابن ماجہ:144)

<<کچھ دل سے>>

13 Nov, 04:52


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(167)

🪶۔قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں

عَنْ أَبِي مُوسَى،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ، وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْقَاتِلُ،فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ:إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ

ترجمہ:حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے ملتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں فریق جہنم میں جائیں گے،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:اللہ کے رسول!یہ قاتل ہےاس لیے مجرم ہے مقتول کے جہنمی ہونے کی کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا:وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔

تشریح:(1)جب کوئی شخص جرم کی پوری کوشش کرے لیکن کسی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے تو اللہ کے ہاں وہ بھی مجرم ہے(2)جو شخص ارتکاب جرم کا عزم رکھتا ہو لیکن ارتکاب سے پہلے رجوع کرلے تو اس کا گناہ معاف ہوجاتاہے اور توبہ کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ:3964)

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 18:15


https://drive.google.com/file/d/11-X5YYUui7l8TybAsGFqjrYBEQvDAa-z/view?usp=drive_link

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 18:14


*EHTERAM-E-INSANIYAT AUR USKE HUDOOD*

* Shaikh Inayatullah Madani Hafizahullah*
(Da'ee Subai Jamiat Ahle Hadees Mumbai)
•─════﷽════─•
الحمدُ لِلّٰہِ والصَّلاۃُ والسَّلامُ علی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِینَ، أَمَّا بَعْدُ:

Is azeem-ush-shaan conference ke ine’qad par, Allah tabarak wa ta’ala ki hamd aur shukr ke baad, Ameer Mohtaram ke shukriye aur unheiñ mubarakbaadi ke baad, Allah tabarak wa ta’ala ke fazl o karam se "conference" ka jo mauzuu' hai, is ke nekaat do teen minute mein aap ke samne pesh kar deta hoon.

*✺ Ehtram-e-Insaniyat ki Ahmiyat:*
Is mauzuu' se mutalliq sab se ahem baat ye hai ke insaniyat ka ehteram kiya jaaye. Aur insaniyat ka ehteram, insaniyat ki buniyad par kahan tak kiya jayega? Is ka daira Allah ki kitab aur Nabi e Akram ﷺ ki Sunnat mein muqarrar kar diya gaya hai.

*✺ Ehteram-e-Insaniyat ke Hudood:*
Insaniyat ka daira-e-ehteram insaniyat ke hudood tak hai. Jaise:
◈ Jaan ka mas’ala hai,
◈ Maal ka mas’ala hai,
◈ Izzat ka mas’ala hai,
◈ Aqal ka mas’ala hai,
◈ Ya sehat o tandurusti, aur bhook aur pyaas ka mas’ala hai.
☞ In tamam mu’amlaat mein insaniyat ka ehteram aakhri had tak kiya jayega.

*✺ Rabb-ul-Aalameen ki taraf se Insaniyat ka Asal Ehteram:*
Warna asal ehteram wo hai jo Allah tabarak wa ta’ala ne insaan ko sahih tauheed ke aqeede ke saath ata farmaya hai. Sabse bada ehteram Allah tabarak wa ta’ala ne insaniyat ke saath ye kiya hai ke Allah ta’ala ne "La Ilaha Illallah" se pehchaan karwayi aur apni ma’rifat ata farmai. Ke:
◈ Maiñ Khaaliq o Maalik hoon.
◈ Meri ibadat honi chahiye.
◈ Maiñ sab kuch tumheiñ deta hoon.
◈ Tumhare sar Sirf mere samne jhukne chahiye.
◈ Aur tumhari hidayat aur rehnumai ke liye hamara Nabi hai, hamari kitaabeiñ aur saheefe hain, jo tumhare paas aaye hue hain.
☞ Ye tumhari asal cheez hai jis ke zariye tumhara ehteram ho sakta hai.

*✺ Risalat: Ehtram-e-Insaniyat ki Takmeel:*
Allah ta’ala ne Ambiya ko isi liye bheja taake apni tauheed ka paigham apne bandoñ tak pahuñchayeiñ. Allah tabarak wa ta’ala se zyada apne bandoñ ka ehteram koi nahi karne wala hai, aur sabse bada ehteram ye hai ke Allah ne apne bandoñ ko tauheed ata farmai.
Isi tarah risalat bhi Allah ta’ala ki taraf se apne bandoñ ke liye sabse bada ehteram hai, jis ke zariye wo Allah ta’ala ko pehchan sakeiñ, us ki marziyaat ko pehchan sakeiñ, uski narazgi ko pehchan sakeiñ, haq aur batil ko pehchan sakeiñ, apni bhalai ko, apne nuqsan ko, fasaad ko, salah ko pehchan sakeiñ. Ye sab kuch Allah ta’ala ne ataa farmaya hai, aur yahi asal ehteram-e-insaniyat hai.

*✺ Ehteram-e-Insaniyat ke Daire ki Pabandi:*
☞ Is liye hamara ehteram-e-insaniyat ka daira kabhi bhi hudood se tajawuz nahi karna chahiye.
☞ Yaad rahe ke hamara ye stage Jamat e Ahle Hadees ka sabse zyada muqaddas stage hai, is ka taqaddus hamesha baaqi rehna chahiye, khalt-malt nahi hona chahiye, aisa na ho ke is muqaddas stage se rawadari ke naam par ya ehteram-e-insaniyat ke naam par koi kahe ke banda khuda ban jaata hai. Yeh kisi tarah se rawaa nahi hai, jaiz nahi hai, is ki koi gunjaish nahi hai. kyunke hum apne asal se phir zaaya ho jayenge. Asal ko barbaad karne wale ho jayenge.
Koi kahe gair Islami ibadat gaahoñ ke andar 3 din, 7 din, 10 din jaa kar theharna chahiye, rahna chahiye mahaz ehteram ke naam par.
☞ Mere bhaiyo! Zaahir hai ye karne ka matlab ye nahi hai ke hum insaniyat ka ehteram karenge. Agar humne is ko kahiñ jagah de di to hum khud sabse zyada zillat aur pasti ki aakhri satah mein pahunch jayenge.

*✺ Ehtram-e-Insaniyat ki Asal Buniyad:*
Is liye insaniyat ka asal ehteram ye hai ke banda apne Allah ko pehchane, Allah ta’ala ke aur Nabi ﷺ ke paigham ko pehchane aur ye sabse bada ehteram hai jo Allah ta’ala ne apne bandoñ ka kiya hai.
Allah ke kalaam ki aayaat, aur Allah ke Nabi ﷺ ki hadeeseiñ is silsile mein be-shumar hain.
Zaahir hai ke ye koi waqt nahi hai jis mein aap ke samne guftagu ho.

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 18:14


*✺ Dua’aiya Kalemaat:*
Allah ta’ala se dua karta hoon ke Allah ta’ala is koshish ko usooloñ ke saath paaya e takmeel tak pahunchaye. Iske khaas aur khalis ahdaaf mein Allah ta’ala zimmedaraan ko kamiyabi ataa farmaye. Allah ta’ala humeiñ apne usooloñ par, apni buniyadoñ par, apne asal tashakhkhusaat par istehkam ke saath insaniyat ka ehteram duniya mein aam karne ki taufeeq ata farmaye.
Tamam zimmedaraan ka shukriya ada karte hue, Allah ta’ala ki hamd o sana aur uske shukr ke baad is guftagu ka ikhtetam karta hoon. Allah ta’ala se dua hai ke Allah ta’ala hum sab ko apni zimmedariyoñ ko sahih ma’noñ mein samajhne ki taufeeq ata farmaye. Ameen Ya Rabbal Aalameen.

وَصَلَّىٰ ٱللَّهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَىٰ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ

https://youtu.be/GJi1vd1m7i0?si=_7SlV_G97SlyywSX
┈┉┅━━━❁━━━┅┉┈
https://rb.gy/a8qdxj

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 18:07


https://drive.google.com/file/d/1v4zhu-Tcu9lL_LgzQai3AlqPbsL_Lwll/view?usp=drive_link

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 18:03


https://youtu.be/GJi1vd1m7i0?si=_7SlV_G97SlyywSX
┈┉┅━━━❁━━━┅┉┈
https://rb.gy/a8qdxj

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 18:03


*احترامِ انسانیت اور اس کے حدود*

* شیخ عنایت اللہ مدنیؔ حفظہ اللہ*
(داعی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)
•─════﷽════─•
الحمدُ لِلّٰہِ والصَّلاۃُ والسَّلامُ علی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِینَ، أَمَّا بَعْدُ:

اس عظیمُ الشَّان کانفرنس کے انعقاد پر، اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد اور شکر کے بعد، امیر محترم کے شکریے اور انہیں مبارکبادی کے بعد، اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’کانفرس‘‘ کا جو موضوع ہے، اس کے نکات دو تین منٹ میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔

*✺ احترامِ انسانیت کی اہمیت:*
اس موضوع سے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانیت کا احترام کیا جائے۔ اور انسانیت کا احترام، انسانیت کی بنیاد پر کہاں تک کیا جائے گا؟ اس کا دائرہ اللہ کی کتاب اور نبی اکرم ﷺ کی سُنَّت میں مقرر کر دیا گیا ہے۔

*✺ احترامِ انسانیت کی حدود:*
انسانیت کا دائرۂ احترام انسانیت کے حدود تک ہے۔جیسے:
◈ جان کا مسئلہ ہے،
◈ مال کا مسئلہ ہے،
◈ عزت کا مسئلہ ہے،
◈ عقل کا مسئلہ ہے،
◈ یا صحت وتندرستی، اور بھوک اور پیاس کا مسئلہ ہے۔
☜ ان تمام معاملات میں انسانیت کا احترام آخری حد تک کیا جائے گا۔

*✺ رب العالمین کی طرف سے انسانیت کا اصل احترام:*
ورنہ اصل احترام وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو صحیح توحید کے عقیدے کے ساتھ عطا فرمایا ہے۔ سب سے بڑا احترام اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کے ساتھ یہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ" سے پہچان کروائی اور اپنی معرفت عطا فرمائی۔ کہ:
◈ میں خالق و مالک ہوں۔
◈ میری عبادت ہونی چاہیے۔
◈ میں سب کچھ تمہیں دیتا ہوں۔
◈ تمہارے سر صرف میرے سامنے جھکنے چاہئے۔
◈ اور تمہاری ہدایت اور رہنمائی کے لیے ہمارا نبی ہے، ہماری کتابیں اور صحیفے ہیں، جو تمہارے پاس آئے ہوئے ہیں۔
☜ یہ تمہاری اصل چیز ہے جس کے ذریعے تمہارا احترام ہو سکتا ہے۔

*✺ رسالت: احترامِ انسانیت کی تکمیل:*
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اسی لیے بھیجا تاکہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے زیادہ اپنے بندوں کا احترام کوئی نہیں کر نے والا ہے، اور سب سے بڑا احترام یہ ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو توحید عطا فرمائی۔
اسی طرح رسالت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سب سے بڑا احترام ہے، جس کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان سکیں، اس کی مرضیات کو پہچان سکیں، اس کی ناراضگی کو پہچان سکیں، حق اور باطل کو پہچان سکیں، اپنی بھلائی کو، اپنے نقصان کو، فساد کو، صلاح کو پہچان سکیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اور یہی اصل احترامِ انسانیت ہے۔

*✺ احترامِ انسانیت کے دائرے کی پابندی:*
☜ اس لیے ہمارا احترامِ انسانیت کا دائرہ کبھی بھی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
☜ یاد رہے کہ ہمارا یہ اسٹیج جماعت اہل حدیث کا سب سے زیادہ مقدس اسٹیج ہے، اس کا تقدس ہمیشہ باقی رہنا چاہیے، خلط ملط نہیں ہونا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ اس مقدس اسٹیج سے رواداری کے نام پر یا احترامِ انسانیت کے نام پر کوئی کہے کہ بندہ خدا بن جاتا ہے۔ یہ کسی طرح سے روانہیں ہے، جائز نہیں ہے، اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ہم اپنے اصل سے پھر ضائع ہو جائیں گے۔ اصل کو برباد کرنے والے ہو جائیں گے۔
کوئی کہے غیر اسلامی عبادت گاہوں کے اندر تین دن، سات دن، دس دن جا کر ٹھہرنا چاہیے، رہنا چاہیے محض احترام کے نام پر۔
☜ میرے بھائیو! ظاہر ہے یہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم انسانیت کا احترام کریں گے۔ اگر ہم نے اس کو کہیں جگہ دے دی تو ہم خود سب سے زیادہ ذلت اور پستی کی آخری سطح میں پہنچ جائیں گے۔

*✺ احترامِ انسانیت کی اصل بنیاد:*
اس لئے انسانیت کا اصل احترام یہ ہے کہ بندہ اپنے اللہ کو پہچانے، اللہ تعالیٰ کے اور نبی ﷺ کے پیغام کو پہچانے اور یہ سب سے بڑا احترام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا کیا ہے۔
اللہ کے کلام کی آیات، اور اللہ کے نبی ﷺ کی حدیثیں اس سلسلے میں بے شمار ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ کوئی وقت نہیں ہے جس میں آپ کے سامنے گفتگو ہو۔

*✺ دعائیہ کلمات:*
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو اصولوں کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ اس کے خاص اور خالص اہداف میں اللہ تعالیٰ ذمہ داران کو کامیابی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اصولوں پر، اپنی بنیادوں پر، اپنے اصل تشخصات پر استحکام کے ساتھ انسانیت کا احترام دنیا میں عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تمام ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کے شکر کے بعد اس گفتگو کا اختتام کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

وَصَلَّىٰ ٱللَّهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَىٰ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 17:42


نیکیوں میں سبقت کیوں نہیں...؟

✍️ سفینہ (بنارس)

قرآن وحدیث میں اہل ایمان کو نیکیاں کرنے کی بار بار ترغیب دلائ گئ ہے۔بلکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نیکی کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ فاستبقواالخیرات ۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو (سورة البقرہ ١۴٩) ۔

اسی لیے نیکیوں میں مسابقت ومسارعت کے سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں۔ان کا یہ حال تھا کہ وہ نیکیوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور اس میں کمال حاصل کرنے کو اپنی ترقی کی معراج سمجھتے تھے۔وہ برابر اسی کوشش میں رہتے تھے کہ کس طرح نیکیوں میں سب سے آگے نکل سکتے ہیں ۔کہیں نیکیوں میں سبقت حاصل کرنے کے لئے ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا سارا مال لے کرحاضر ہوجاتے ۔کہیں صحابہ کرام غربت ومجبوری کی وجہ سے راہِ خدا میں سفر نہ کرنے کی وجہ سے رونے لگتے۔کہیں صحابہ کرام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غربت کی وجہ سے شکایت کر رہےہوتےکہ مالدارصدقات کےذریعے نیکیوں میں ہم سے سبقت وفوقیت لےجا رہے ہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تسبیح وتحمید وتکبیر کے کلمات بتاتے ہیں۔

📌لیکن افسوس کہ اگر آج ہم اپنے دینی واسلامی معاشرے کا جائزہ لیں اور اپنی موجودہ حالت پر نظر ڈالیں۔ تو ہم میں سے اکثریت دنیاوی معاملے میں ایک دوسرے سے بڑے جوش کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔معصیت کے کاموں میں بھی فخر سے مقابلہ کرتے ہیں۔فی الحال شادیوں میں مقابلہ دیکھ لیجیے کس طرح پوری جد وجہد کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ۔ لوگوں کی خوشی کی خاطر رب کی ناراضگی کو بڑی آسانی سے مول لے لیتے ہیں۔
خدارا ، مقابلہ کرنا ہوتو دنیاوی معاملے کے بجائے دینی معاملے میں مسابقہ کیجیے۔یہی اصل عقلمندی ہے۔

اللہ ہم سب کو برائیوں سے محفوظ رکھے۔آمین

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 17:32


🔷 Hadees.Of.The.Day.(76)

فضائل حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما(1)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ،اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ نے انہیں سینے سے لگایا۔

(سنن ابن ماجہ:142)

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 17:31


🔷 Hadees.Of.The.Day.(75)

فضائل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ(3)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا:مجھے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:تمہارا اذن( گھر میں آنے کے لئے) یہی ہے کہ پردہ اٹھاؤ،اور تم میری رازدارانہ گفتگو بھی سن سکتے ہو،حتٰی کہ میں منع کردوں۔

(سنن ابن ماجہ:139)

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 15:16


📜۔نصیحتیں ہمارے اسلاف کی!{114}

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 11:40


محمد بن سليمان رحمہ اللہ نے فرمایا:بیٹے نعمتیں ہیں اور بیٹیاں حسنات (نیکیاں) ہیں، اور اللہ عزوجل نعمتوں کا حساب لیتا ہے اور نیکیوں پر اجر دیتا ہے۔

[الآداب الشرعية ١/١٥٤]
ترجمانی:ام محمد خوشنما مصلح الدين

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 05:16


سلسلہ۔احادیث۔رسول اللہﷺ(165)

🌄۔جس نے صبح کی(یعنی فجر کی)نماز پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں ہے

عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي عَهْدِهِ، فَمَنْ قَتَلَهُ طَلَبَهُ اللَّهُ حَتَّى يَكُبَّهُ فِي النَّارِ، عَلَى وَجْهِهِ

ترجمہ:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی، وہ اللہ کی حفاظت میں ہے، چنانچہ تم اللہ کے(حفظ وامان کے) وعدے کو مت توڑو،جو شخص اس نمازی مسلمان کو قتل کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے (ایک مجرم کی طرح اپنے دربار میں)طلب فرمائے گا، پھر اسے جہنم میں منہ کے بل اوندھا کر کے پھینک دے گا۔

تشریح:(1)اگر سردار یا بادشاہ کسی کو پناہ دے تو اسے تکلیف دینا سردار یا بادشاہ کی توہین یا بغاوت سمجھا جاتا ہے،نمازی مسلمان اسی طرح اللہ کی پناہ میں ہے لہذاسے تکلیف دینا یا اسے قتل کرنا اللہ تعالی کی شان میں گستاخی اور بغاوت کے مترادف ہے جو ناقابل معافی جرم ہے ،بے نماز کو اللہ کی یہ پناہ حاصل نہیں(2)مسلمان کے قاتل کی سزا جہنم ہے لیکن اگر مقتول کے وارث خون بہالے کر یا احسان کرتے ہوئے قاتل کو معاف کردیں تو ایسے مسلمان قاتل کی سزا معاف ہوجائے گی(3)کبیرہ گناہوں کے مرتکب جہنم میں جائیں گے پھر اپنے گناہوں کے مطابق سزا بھگتنے کے بعد انھیں رہائی مل جائے گی۔

(سنن ابن ماجہ:3945)

<<کچھ دل سے>>

11 Nov, 02:06


سورۃ یوسف:٨٦ || احمد خضر

<<کچھ دل سے>>

10 Nov, 18:20


شیخ عبدالسلام سلفی کے خطاب کا اتنا حصہ پورے کانفرنس کا سب سے اہم حصہ ہے، یہ پیغام فرض کفایہ تھا جو پوری جماعت اہل حدیث کی طرف سے شیخ نے ادا کر دیا۔
اللہ امیر صاحب کو پوری جماعت کی طرف سے اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔
(سرفراز فیضی)

<<کچھ دل سے>>

10 Nov, 12:42


پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

<<کچھ دل سے>>

10 Nov, 11:42


سلف صالحات کی دینی غیرت کی ایک مثال
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خلقِ قرآن کا فتنہ خلیفہ مامون رشید کے دور (غالباً ٢١٨ھ) میں شروع ہوا، یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص معتزلی احمد بن ابی دُؤاد تھا، اور یہ خلیفہ مامون کے نہایت قریب ہوچکا تھا، اس نے خلیفہ مامون کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے.
اس فتنہ کا اثر اس وقت کے تمام علماء پر پڑا، کیونکہ اس معتزلی کی بات مان کر خلیفہ نے پورے عالمِ اسلام میں سرکاری حکم جاری کر دیا تھا کہ ہر مقام کا امیر اور حاکم اپنے ہاں کے علماء سے اس بات کا اقرار کروائے کہ قرآن مخلوق ہے، اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے گرفتار کرکے خلیفہ کے دربار میں بھیج دے.
اور اس فتنے کا سب سے زیادہ اثر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر پڑا، جو اس نظریے کے سخت مخالف تھے، انہوں نے اس عقیدے کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور اس کی وجہ سے انہیں شدید اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا.
خلیفہ مامون کے بعد معتصم خلیفہ بنا، مامون نے اس بارے میں اسے تاکید کی تھی کہ علماء سے یہ مسئلہ منوایا جائے، اس نے خلیفہ بنتے ہی حکم دیا کہ ان علماء کو پیش کیا جائے جو قرآن کے مخلوق ہونے کا انکار کررہے ہیں.

اسی درمیان عاصم بن علی رحمہ اللہ کی دونوں بیٹیوں نے اپنے والد کو خط لکھا کہ :
" والد محترم! ہمیں خبر ملی ہے کہ معتصم نے احمد بن حنبل کو پکڑ کر گرفتار کر لیا ہے، اور انہیں کوڑے مارے جارہے ہیں تاکہ وہ اس بات کا اقرار کرلیں کہ قرآن مخلوق ہے، ابا جان! آپ اللہ سے ڈریں، اور اگر وہ آپ سے یہ سوال کرے تو آپ اس کا جواب نہ دیں، اللہ کی قسم! ہمیں آپ کی وفات کی خبر ملے تو یہ ہمارے لئے اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ ہمیں یہ خبر ملے کہ آپ نے اقرار کرلیا ہو کہ قرآن مخلوق ہے ". - [تهذيب الكمال (١٣ /٥١٤)]

أم محمد خوشنما مصلح الدين
جامعہ أم القریٰ مکہ مکرمہ

<<کچھ دل سے>>

10 Nov, 09:32


آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس لائیو دیکھئے آئی پلس ٹی وی کے یوٹیوب چینل پر.
35th All India Ahle Hadees Conference
Ehteram-E-Insaniyat Mazaahib-E-Alam || Day 2
لنک👇
https://www.youtube.com/live/Nm8m6wo2o4E?si=CKOSTVDJb-2TOOUZ

<<کچھ دل سے>>

10 Nov, 08:53


پینتیسویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس، رام لیلا میدان دہلی میں

امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی
فضیلۃ الشیخ عبدالسلام سلفی/حفظہ اللہ کا اہم خطاب

https://youtu.be/_xQU53wOpAM

<<کچھ دل سے>>

25 Oct, 09:26


سعودی عرب کے میوزک کنسرٹ اور سلفی علماء
✿✿✿
✍️ سرفراز فیضی
•─════﷽════─•

فرد ہو یا حکومت ، جتنا ان میں خیر ہوتا ہے اتنی ان سے محبت ہوتی ہے، جتنا ان میں شر ہوتا ہے اتنی ان سے برأت۔
سعودی حکومت سے سلفیوں کو جو محبت ہے وہ عقیدہ میں ان کے ساتھ ہم آہنگی اور توحید کے لیے ان کی خدمات کی وجہ سے ہے، توحید کیونکہ سب سے بڑی نیکی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کی بنیاد پر ہونے والی محبت بھی سب سے شدید ہوگی۔
باقی پچھلے کچھ سالوں میں جو تبدیلیاں سعودی عرب میں تہذیبی سطح پر آئی ہیں ، موسیقی اور ناچ گانے کی محفلیں جتنی بھی عام ہوئی ہیں (تحریکی پروپیگنڈے سے قطع نظر) سلفی ان سے بری ہیں، کوئی ایک سلفی عالم نہ اس سے خوش ہیں، نہ اس کی تائید کرتے ہیں۔ بلکہ اس تبدیلی سے سب سے زیادہ تشویش سلفیوں کو ہی ہے، ایسی کسی بھی خبر سے سب سے زیادہ دل انہیں کا دکھتا ہے ، تحریکی تو خوش ہوجاتے ہیں کہ ان کو طعنے دینے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔
فحاشی کے معاملے میں سلفیوں کا موقف ہمیشہ تحریکیوں سے زیادہ سخت رہا ہے ، تحریکیوں کے تو بڑے بڑے علماء ناچ گانے کو جائز قرار دیتے ہیں، عورتوں سے میل ملاپ کے بارے میں بھی ڈھیلا ڈھالا موقف رکھتے ہیں۔
البتہ جیسے حسن ظن کا فائدہ ہم ایک مسلم فرد کو دیتے ہیں ویسے ہی مسلم حکومت کو بھی دیتے ہیں کہ ممکن ان فیصلوں کے پیچھے حکام کی کچھ مجبوریاں ہوں ، واللہ اعلم بالصواب

سلفیت قرآن وسنت کی اتباع کا نام ہے ، جب ہم ائمہ دین کے اقوال قرآن وسنت پر مقدم نہیں کرتے تو کسی حکومت کے اقدامات کو قرآن وسنت پر مقدم کیسے کرسکتے ہیں، منکر منکر ہے، کسی حکومت کے اس میں ملوث ہوجانے سے وہ حلال نہیں ہوجاتا ۔

ہاں ! ہم حکام کے خلاف خروج کو فتنہ سمجھتے ہیں، بغاوت کے خلاف ہیں، لیکن حکام کے گناہوں کی تبریر وتحسین کرنا نہ درست سمجھتے ہیں نہ اپنی ذمہ داری
ہم منکر سے انکار کو واجب سمجھتے ہیں ، لیکن کھلے عام مسلم حکمرانوں پر طنز کرنا انکار منکر نہیں ، بغاوت کی چنگاری کو ہوا دینا ہے جو قطعا امت کے حق میں نہیں۔
جو لوگ موسیقی کی ان محفلوں کے حوالے سے سلفی علماء پر تنقید کرتے ہیں ان کے پاس اس کی کیا دلیل ہے کہ اہل علم ان حکمرانوں کو تنہائی میں تنبیہ نہیں کرتے ہوں گے؟ یا اس بات کی شرعی دلیل کیا ہے تنہائی کی گئی تنبیہ کافی نہیں جب تک عوام میں اس کا پرچار نہ کیا جائے؟

سلفی حتی الامکان اور حتی المقدور ہر منکر سے انکار کو واجب سمجھتے ہیں لیکن ان کی بنیاد پر علی الاعلان حکومت پر تنقید کرنا بغاوت اور خروج سمجھتے ہیں ۔

سعودی عرب اور سلفیت میں کوئی موازنہ نہیں ۔سعودی عرب ایک ملک ہے اور سلفیت ایک منہج ہے، سعودی کل نہیں تھا ، آج ہے، کیا پتہ کل رہے گا یا نہیں۔ ادام اللہ بقائھا۔
سلفیت ہمیشہ سے ہے،اور ہمیشہ رہے گی ان شـــــــاء اللـــــــہ

(سرفراز فیضی)

<<کچھ دل سے>>

25 Oct, 08:29


کچھ دل سے واٹس ایپ چینل کو فالو & شئیر کریں۔۔۔جزاک اللہ خیرا

https://whatsapp.com/channel/0029VaUt4EcIiRopYYPLVL1T

<<کچھ دل سے>>

25 Oct, 06:29


🔷 Hadees.Of.The.Day(59)

فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ(4)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:حسن اور حسین رضی اللہ عنھماجنتی جوانوں کے سردار ہیں،اور ان کے والد ان سے افضل ہیں۔

(سنن ابن ماجہ:118)

<<کچھ دل سے>>

25 Oct, 02:30


محمد کا معنی سب سے زیادہ تعریف کے مستحق اور احمد کا معنی سب سے اعلیٰ تعریف کے مستحق۔ یعنی انسانوں میں آپ ﷺ کی ثنا سب سے زیادہ بھی ہے اور سب سے اعلیٰ بھی۔

(زاد المعاد لابن القيم : ٩٠/١)

<<کچھ دل سے>>

25 Oct, 02:30


سورۃ الاحزاب:٥٦ || طارق محمد

<<کچھ دل سے>>

24 Oct, 15:51


Kuch dil se instagram page follow & share karen...🪻جزاک اللہ خیرا

https://www.instagram.com/kuchdilse22

<<کچھ دل سے>>

24 Oct, 13:42


📚۔کتابوں کی پی ڈی ایف کے نقصانات!

۔مصنف کی محنت کا اس کو صلہ نہیں ملتا.
۔ایک کتاب شائع کرنے پر ناشر کی لاکھوں روپیوں کی سرمایہ کاری ضائع ہو جاتی ہے.اگر اسی ناشر کی زیادہ کتب کی پی ڈی ایف بنا کر پھیلا دی جائے تو اس کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے.
۔ناشر اس خوف سے کتاب کو اچھے کاغذ پر طبع ہی نہیں کرواتا کہ مبادا اس کی پی ڈی ایف بن گئی تو باقی ماندہ نسخے فروخت نہیں ہو سکیں گے اور پیسہ ڈوب جائے گا.
۔مصنف کتاب کے مواد کو یہ سوچ کر اپ ڈیٹ ہی نہیں کرتا کہ اس کی سابقہ محنت ناکارہ ہو گئی تھی اسی طرح اگلی بھی بے سود ہو گی.
۔پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کر کے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میں رکھ لی جاتی ہے لیکن اس کا مطالعہ نہیں کیا جاتا.کتاب کو اٹھا کر بندہ چلتے پھرتے بھی پڑھ سکتا ہے لیکن لیپ ٹاپ پر یہ ممکن نہیں ہے. اس طرح پڑھنے کا رجحان ختم ہو تاجارہاہے.
۔ مطبوعہ کتاب کے لمس کالطیف احساس اس کی خوشبو کی لذت اور قاری کے ساتھ کتاب کے صفحات کی انسیت ختم ہو جاتی ہے.اب وہ تصور ختم ہو چکا ہے کہ... کتاب بہترین ساتھی ہے. اسے پیار کیجئے.اس کو ضائع ہونے سے بچائیے.
کیونکہ!
📠۔ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
لائبریریاں بے رونق اور ویران ہو چکی ہیں. اربوں روپوں کی لاگت سے تعمیر کی گئی عمارات اور ان کا اندرونی انفراسٹرکچر ضائع ہو رہا ہے.ان میں جمع کی گئی کتب کو دیمک کھا رہی ہے. کوئی اکا دکا شخص ہی وہاں نظر آتا ہے.اسٹاف سارا دن چائے پی کر اور گپیں ہانک کر گھر چلا جاتا ہے.
🔖۔مسئلہ کا حل
ایمانداری کا ثبوت دیجئے،کسی کی مہنت کو پی ڈی ایف بناکر بغیر اجازت کے نشر نہ کریں،ان تمام ویب سائٹوں کو بند کر دیا جائے جن پر کاپی رائٹ مواد کو غیر قانونی طریقوں سے مہیا کیا جا رہا ہے.
📚لائبریریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تا کہ اگر کسی کو مواد کی ضرورت ہو اور وہ کتابوں کو خریدنے کی معاشی سکت نہ رکھتا ہو تو لائبریری سے اس کو مواد حاصل ہو سکے۔

(کاپی پیسٹ)

<<کچھ دل سے>>

24 Oct, 06:37


🎈۔تاثر برائے تربیت اولاد سیریز

<<کچھ دل سے>>

24 Oct, 06:33


سلسلہ۔احادیث۔ رسول اللہﷺ(149)

💦۔ جب بارش ہونے کے اثار نظر آئے یا بارش ہونے لگے تو یہ دعا پڑھیں

عَنْ أَبِيهِ الْمِقْدَامِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى سَحَابًا مُقْبِلًا مِنْ أُفُقٍ مِنَ الْآفَاقِ، تَرَكَ مَا هُوَ فِيهِ وَإِنْ كَانَ فِي صَلَاتِهِ، حَتَّى يَسْتَقْبِلَهُ، فَيَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِهِ» ، فَإِنْ أَمْطَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ سَيْبًا نَافِعًا» مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، وَإِنْ كَشَفَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَمْ يُمْطِرْ حَمِدَ اللَّهَ عَلَى ذَلِكَ

ترجمہ:ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا س ے روایت ہے، نبی ﷺ جب کسی افق سے بادل آتا دیکھتے تو جس کام میں بھی مشغول ہوتے،خواہ نماز ہی میں کیوں نہ ہوتے،اسے چھوڑ کر بادل کی طرف متوجہ ہو جاتے اور فرماتے:اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِهِ یا اللہ!ہم اس چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جو کچھ دے کر یہ (بادل) بھیجا گیا ہے،اگر بارش شروع ہو جاتی تو دوبار یا تین بار فرماتے:اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا یا اللہ!اس بارش کو فائدہ مند بنا دے،اگر بارش نہ ہوتی اور اللہ تعالیٰ بادل کو ہٹا دیتا تو آپ اللہ کا شکر کرتے۔

تشریح:(1)بارش اللہ کی ر حمت ہے لیکن اللہ کا عذاب بھی ہوسکتی ہے،اس لئے بادل دیکھ کر اللہ کی رحمت کی اُمید کے ساتھ ساتھ اس کے عذاب سے پناہ بھی مانگنی چاہیے(2)بارش انسان کےلئے انتہائی ضروری ہونے کے باجود اس میں نقصان کا پہلو بھی موجود ہے،اس لیے بارش کے نفع مند ہونے کی دعا کرنا ضروری ہے(3)بادل کا برسے بغیر چھٹ جانا اس لئے اللہ کا انعام ہے کہ اس کے عذاب ہونے کا خطرہ ٹل گیا(4)بندے کوہر حال میں اللہ سے امید کے ساتھ ساتھ اللہ کا خوف بھی رکھنا چاہیے اور ان مواقع پر یہ دعائیں پڑھنے کاالتزام کرنا چاہیے۔

(سنن ابن ماجہ:3889)

<<کچھ دل سے>>

24 Oct, 06:01


🔷 Hadees.Of.The.Day(58)

فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ(3)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر آئے، آپ نے راستے میں ایک جگہ نزول فرمایا اور عرض کیا:(الصلاة جامعة)یعنی سب کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا،پھر علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:کیا میں مومنوں کی جانوں کا مومنوں سے زیادہ حقدار نہیں ہوں؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیا میں ہر مومن کا اس کی جان سے زیادہ حقدار نہیں ہوں؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:کیوں نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ(علی) دوست ہیں اس کے جس کا میں دوست ہوں،اے اللہ!جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، جو علی سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ

(سنن ابن ماجہ:116)

<<کچھ دل سے>>

24 Oct, 00:50


سورۃ النحل:٦٦ || عبد الرحمٰن السدیس

<<کچھ دل سے>>

23 Oct, 14:16


پھول سی بیٹی بھی لے لیتے ہو، جہیز بھی لے لیتے ہو، خدمتیں بھی کرواتے ہو اور پھر ذلیل بھی کرتے ہو۔

میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی ٹرک کے پیچھے ایسی باکمال بات لکھی ہوئی دیکھی،
شاید ایک باپ نے اپنا درد ان الفاظ میں بیان کیا ہوا ہے کے یہ پڑھ کر کوئی اس بات کو سمجھے...!!

<<کچھ دل سے>>

23 Oct, 13:41


🎈۔تاثر برائے تربیت اولاد سیریز

<<کچھ دل سے>>

23 Oct, 07:52


📌 ہمارے معاشرے کا المیہ ____؟؟

والدین کو چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو اچھی بیوی بننے کا بھی علم دیں۔ انہیں زندگی کے ہر اس پہلو کی اہمیت،افادیت اور نقصانات کا علم دیں جو آئندہ زندگی میں ان کی رہنمائی کرسکے۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ لڑکیوں کی تعلیم پر تو خوب توجہ دیتے ہیں لیکن ان کی تربیت نہیں کرتے،والدین کا کہنا یہی ہے کہ آجکل لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم بہت ضروری ہے کیونکہ اگر شوہر کے ساتھ۔۔۔۔خدانخواستہ کچھ اونچ نیچ ہوجائے تو وہ اپنی تعلیم کے بل بوتے پر خود کو مالی طور پر سنبھال سکتی ہے۔
یعنی۔۔۔۔جب والدین ہی اپنی بیٹی کو ان دیکھے خطرات سے نمٹنے کیلیے تیار کرتے ہیں تو پھر ایسی نوبت بھی آہی جاتی ہے،حالانکہ اگر اس کا مقام اور اس کے شوہر کی حیثیت و مرتبے کا علم دے دیا جائے تو پھر بڑے سے بڑے مسائل بھی اس کے سامنے چھوٹے پڑ جائیں گے، لیکن جب ذہن کی پرورش غلط ڈھنگ سے ہو تو پھر انجام بھی ویسا ہی متوقع ہوتا ہے جو آجکل ہمارے معاشرے میں دیکھا اور برتا جارہا ہے۔

عورت ہر حال میں عورت ہے،اللہ تعالیٰ نے اس پر شوہر اور بچوں کے حوالے سے جو فرض عائد فرمایا ہے،وہ ہر حال میں فرض ہے اور رہے گا، اگر وہ اچھی بیوی ہے ،اچھی ماں ہے ، تعلیم یافتہ ہے،باوقار ہے،ڈاکٹر ہے یا انجینئر ہے ،پائلٹ ہے یا اس سے بھی زیادہ کچھ ہے لیکن اپنے شوپر کی تابعداری اور بچوں پر ممتا نچھاور کرنے والی خوبیاں اس میں نہیں ہیں تو پھر وہ کچھ بھی نہیں ہے۔
علم حاصل کرنے کا مطلب شعور اور آگہی ہے ، جب یہ ناپید ہو تو انسان کے پاس خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو،سب بےمعنی ہوجاتا ہے۔

(#منقول)

<<کچھ دل سے>>

23 Oct, 07:52


🔷 hadees.Of.The.Day(57)

فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ(2)

حضرت سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تیری وہ نسبت ہو جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔

(سنن ابن ماجہ:115)

<<کچھ دل سے>>

23 Oct, 04:10


🎈۔تاثر برائے تربیت اولاد سیریز

<<کچھ دل سے>>

23 Oct, 01:16


سورۃ التغابن:١١ || رعد الکردی