تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها @thqiqu_mashtahara_minal_ahadis Channel on Telegram

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

@thqiqu_mashtahara_minal_ahadis


اس چینل کا مقصد سوشل میڑیا پر رائج روایات کی تحقیقات کو ایک جگہ جمع کرکے عوام و خواص کو احادیث میں وارد اس جیسی [ مَنْ یَّقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ اَقُلْ فَالْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ . رواہ البخاری ] وعیدوں سے بچانا ہے.

@TMMAVGrabtabot رابطہ

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها (Urdu)

اس چینل کا مقصد سوشل میڈیا پر رائج روایات کی تحقیقات کو ایک جگہ جمع کرکے عوام اور خواص کو احادیث میں وارد اس جیسی عبارات اور عیدوں سے بچانے کی سرگرمیاں فراہم کرنا ہے۔ یہاں آپ اسلامی تعلیم، احادیث، اور دیگر مذہبی موضوعات کی تحقیقات اور سنی کی قوانین پر مبنی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس چینل کا مقصد احادیث اور روایات میں مشہور باتوں کی تحقیقات کر کے انہیں عوام کے سامنے لانا اور علماء کو بہترین مواد فراہم کرنا ہے۔ اس چینل کے ذریعے آپ اخلاقی باتوں، دینی تعلیمات اور معاشرتی قوانین کے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ اس چینل کی مدد سے آپ اپنی علمی، اخلاقی اور دینی ترویج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس چینل سے رابطہ کرنے کے لئے @TMMAVGrabtabot سے رابطہ کریں۔

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

15 Oct, 03:47


⊙══════⊙══════⊙
کتاب : غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ (01)
تحقیق : مفتی طارق امیر خان صاحب
#علوم_الحدیث
⊙══════⊙══════⊙
❖ @darulmuallifeen ❖ ☜

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

27 Apr, 01:27


150 روایات کی تحقیق.pdf

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

24 Dec, 04:11


⤴️4⃣
● ٣. ایک صحابی کا اپنی بیٹی کو کنویں میں ڈالنے کا واقعہ:

ایک صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ہم جاہلیت میں بتوں کی عبادت کرتے تھے اور اپنے بچوں کو قتل کرتے تھے. میری ایک بیٹی تھی جو میرے بلانے سے بہت خوش ہوتی تھی، ایک بار میں نے اس کو بلایا تو وہ میرے پیچھے چل پڑی، میں اس کو اپنے قبیلے کے کنویں لایا اور اسکو دھکیل دیا اور وہ ابو ابو کرکے روتی رہی.. آپ علیہ السلام بہت روئے اور اس کو دوبارہ واقعہ بیان کرنے کا حکم دیا اور پھر روئے یہانتک کہ آپ علیہ السلام کے آنسو داڑھی مبارک تک بہنے لگے اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالی نے جاہلیت کے اعمال کو معاف فرمایا ہے.

□ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِيُّ، عَنْ مَسَرَّةَ بْنِ مَعْبَدٍ (مِنْ بَنِي الْحَارِثِ ابْنِ أَبِى الْحَرَامِ، مِنْ لَخْمٍ) عَنِ الْوَضِينِ: أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: يَارَسُولَ الله! إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ وَعِبَادَةِ أَوْثَانٍ، فَكُنَّا نَقْتُلُ الأَوْلاَدَ، وَكَانَتْ عِنْدِي بِنْتٌ لِي، فَلَمَّا أَجَابَتْ عِبَادَةَ الأَوْثَانِ، وَكَانَتْ مَسْرُورَةً بِدُعَائِي إِذَا دَعَوْتُهَا، فَدَعَوْتُهَا يَوْماً فَاتَّبَعَتْنِي، فَمَرَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُ بِئْراً مِنْ أَهْلِي غَيْرَ بَعِيدٍ، فَأَخَذْتُ بِيَدِهَا فَرَدَّيْتُ بِهَا فِي الْبِئْرِ، وَكَانَ آخِرَ عَهْدِي بِهَا أَنْ تَقُولَ: يَا أَبَتَاهُ يَا أَبَتَاهُ.. فَبَكَى رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم حَتَّى وَكَفَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم: أَحْزَنْتَ رَسُولَ الله. فَقَالَ لَهُ: «كُفَّ، فَإِنَّهُ يَسْأَلُ عَمَّا أَهَمَّهُ» ثُمَّ قَالَ لَهُ: «أَعِدْ عَلَىَّ حَدِيثَكَ» فَأَعَادَهُ، فَبَكَى حَتَّى وَكَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَيْنَيْهِ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: «إِنَّ الله قَدْ وَضَعَ عَنِ الْجَاهِلِيَّةِ مَا عَمِلُوا، فَاسْتَأْنِفْ عَمَلَكَ» رجال إسناده ثقات الا انه مرسل. (الدارمي، أبومحمد، مسند الدارمي ت الزهراني، ٤٢/١)

● صحابہ کرام میں بچیوں کو بچانے والے:

حضرت صعصعہ بن ناجیہ رضی اللہ عنہ (مشہور شاعر فرزدق کے دادا) نے اسلام سے قبل 360 بچیوں کو زندہ درگور کرنے سے بچایا تھا.

□ الصحابي الجليل “صعصعة بن ناجية” جد الفرزدق الشاعر المشهور، الذي قال: ظهر الإسلام وقد أحييت ثلاثمائة وستين موؤدة، أشتري كل واحدة منهن بناقتين عشراوين وجمل.

خلاصہ کلام

کتب حدیث میں صحابہ کرام کے ایک آدھ واقعے ( قیس بن عاصم اور اور سنن دارمی کی روایت والے صحابی) جن کا اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنے یا قتل کرنے کو مختصرا بیان کیا گیا ہے.

ان کے علاوہ صحابہ کرام میں سے کسی بھی صحابی کا اپنی بچی کو زندہ دفن کرنا ثابت نہیں، نہ حضرت عمر کا اور نہ حضرت دحیہ کلبی کا.

سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، لہذا اس کو بیان کرنا اور پھیلانا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٤ فروری ٢٠٢٠ کراچی

https://t.me/Thqiqu_mashtahara_minal_ahadis

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

28 Jul, 01:43


⤴️2⃣
اس قول سے ازھر کی تضعیف مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتلانا ہے کہ ابن عدی ازھر کے مقابلہ میں اوثق ہیں۔
(ضوابط الجرح والتعدیل ص۵۸)

اس قاعدہ کی وجہ سے باحث پر ضروری ہے کہ وہ ائمۂ جرح وتعدیل کے اقوال کو نقل کرتے وقت الفاظ جرح وتعدیل کے سیاق وسباق اور قرائن کو بھی ملحوظ رکھے۔

https://t.me/Thqiqu_mashtahara_minal_ahadis

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

28 Jul, 01:43


*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*

*فن حدیث کے ضروری مباحث*

*از: محمد ادریس گودھروی*

*قسط : ٣٦*

*رواۃ کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق*

*قاعدہ نمبر (۱۲)*

*الفاظ جرح وتعدیل کے استعمال میں ائمۂ جرح وتعدیل کی مخصوص اصطلاحات کو بھی پیش نظر رکھا جائے*

▪️ائمۂ جرح و تعدیل کی مخصوص اصطلاحات کا بیان قسط :٢٣,٢٤,٢٥ میں گذر چکا ہے ۔

*قاعدہ نمبر (۱۳)*

*کبھی لفظ کے ضبط کے اختلاف کی وجہ سے جرح وتعدیل کے اعتبار سے لفظ کی دلالت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔*

جیسے راوی کے بارے میں جرح کے لیے *فلان مود* استعمال کیا جاتا ہے. اگر یہ لفظ مخفف ہو تو ھالک کے معنی دیتا ہے، یہ أودی یودی إیداءًا سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی ھالک کے آتے ہیں۔

اگر یہی لفظ مشدد *(مُوَدٍّ)* پڑھا جائے اس کے معنی حسن ادا(روایت کے ادا کرنے اور سنانے میں بہتر) کے آتے ہیں۔
(ضوابط الجرح والتعدیل: ٥٤)

اس لیے ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کو چانچتے وقت ان کے صحیح تلفظ کے جاننے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

*قاعدہ نمبر (١٤)*

*ائمۂ جرح وتعدیل کی طرف سے کی گئی توثیق اور تضعیف کبھی مقید ہوتی ہے۔ اس طرح کے طرز عمل سے راوی کی علی الاطلاق تضعیف یا توثیق کرنا مقصود نہیں ہوتا ہے،*

اس کی چند صورتیں ہیں

*(۱)* مثلاً ایک شخص ایک شہر یا ایک اقلیم میں ثقہ ہوتا تھا اور وہی راوی دوسرے شہر یا دوسرے اقلیم میں ضعیف ہوتا تھا، وجہ اس کی یہ ہوتی تھی کہ ایک شہر میں اس نے اس طرح احادیث بیان کی کہ اس کے پاس کتاب نہیں تھی تو اس نے اپنی یادداشت کے مطابق احادیث بیان کی جس کی وجہ سے معاملہ خلط ملط ہوگیا اور جب وہی راوی دوسرے شہر یا اقلیم میں گیا تو کتاب ساتھ موجود تھی جس کی وجہ سے اس نے احادیث کو محفوظ طریقہ سے روایت کیا ۔

یا ایسا ہوتا تھا کہ ایک جگہ اس نے کسی شیخ سے احادیث سنی تو وہ اسے محفوظ نہ رکھ سکا اور کسی دوسرے شہر میں جاکر احادیث سنی تو ان احادیث کو اس نے محفوظ کرلیا۔

*مثال :* معمر بن راشد ازدی کی بصرہ میں بیان کی گئی احادیث میں بہت زیادہ اضطراب ہوتا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ بصرہ میں ان کے پاس اپنی کتابیں موجود نہیں تھیں اور یمن میں روایت کردہ ان کی احادیث جید اور قابل اعتبار ہوتی ہے۔

*(٢)* ایک راوی کسی شخص سے روایت کرتا ہے تو ثقہ ہوتا ہے لیکن جب وہی راوی کسی دوسرے شیخ سے روایت کرتا ہے تو ضعیف ہوتا ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کہ راوی فی نفسہ ثقہ ہوتا ہے لیکن بعض شیوخ سے روایت کرنے میں غفلت کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے اس شیخ سے روایت کرنے میں ضعیف ہوجاتا ہے، باقی شیوخ سے روایت کرنے میں وہ اپنی حالت پر ثقہ ہوتا ہے۔

*مثال :* جریربن حازم بصری یہ ثقہ راوی ہیں لیکن جب قتادہ سے روایت کرتے ہیں تو ضعیف ہوتے ہیں۔

اسی طرح بقول امام احمدکہ جعفر بن برقان الجزری فی نفسہ ثقہ ہیں لیکن جب زہری سے روایت کرتے ہیں تو ان کی تضعیف کی جاتی ہے۔ (ضوابط الجرح والتعدیل ص۵۵، ٥٦)

اس خاص موضوع سے متعلق صالح بن حامد الرفاعی نے *الثقات الذین ضعفوا فی بعض شیوخھم* نامی کتاب تالیف کی ہے۔

*(۳)* کچھ راوی ایسے ہیں جن کی روایتیں بعض حالات میں صحیح اور بعض حالات میں ضعیف ہوتی ہیں مثلاً وہ رواۃ جو آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے یا کسی عارضہ کی وجہ سے سوئے حفظ کے شکار ہوگئے تھے۔

*مثال :* صالح بن نبھان مولی التوامہ سےجن لوگوں نے ابتدا میں سنا (جیسے محمد بن ابی ذئب) ان کا سماع درست ہے اور جن لوگوں نے آخری عمر میں اختلاط کے بعد سنا (جیسے سفیان ثوری) تو ان کے سماع کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔

*(٤)* کبھی ایسا ہوتا ہے کہ راوی جب کتاب سے روایت کرتا ہے تو ثقہ ہوتا ہے اور جب حفظ سے روایت کرتا ہے تو ضعیف ہوتا ہے،

*مثال :* یونس بن یزید ایلی کے بارے میں ابوزرعہ کا قول ہے کہ یہ کتاب سے روایت کرنے میں ثقہ تھے لیکن جب حفظ سے روایت کرنے لگے تو ضعفاء میں شمار کئے جانے لگے۔

*قاعدہ نمبر (۱۵)*

*کبھی ائمہ جرح وتعدیل ایک راوی کو ثقہ اور دوسرے کو ضعیف کہتے ہیں جس سے ان کا مقصد قطعی حکم لگانا نہیں ہوتا ہے بلکہ دوسرے کے مقابلہ میں حکم لگانا مقصد ہوتا ہے۔*

*مثال :* امام دارمی نے جب یحیی بن معین سے علاء بن عبدالرحمن اور سعید مقبری کے بارے میں سوال کیا کہ دونوں میں کون بہتر ہے تو یحیی بن معین نے کہا کہ : سعید اوثق ہے اور علاء بن عبدالرحمن ضعیف ہے یعنی سعید کی بہ نسبت علاء ضعیف ہیں۔

اسی طرح محمد بن ابراہیم بن ابی عدی اور ازھر بن سعد سمان دونوں ثقہ ہیں، ان دونوں کے بارے میں امام احمد کا قول ہے: *ابن أبی عدی أحب إلی من أزھر*
⤵️1⃣

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

25 Jul, 02:35


حسن لغیرہ کی مثال پر چند تنبیہات
✦─────────────
بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
✦─────────────
👈 ❋ تحقیق ما اشتہر من الاحادیث وغیرہا
https://t.me/Thqiqu_mashtahara_minal_ahadis

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

25 Jul, 02:32


⤴️3⃣
معلوم ہواکہ کتاب میں صحیح روایات کے ساتھ ساتھ بہت ساری موضوع احادیث اور من گھڑت قصے کہانیاں بھی ذکر کی ہیں ، مگر اس میں مصنف کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے صحیح غلط میں تمیز کئے بغیر ان کو کتاب میں جگہ دی ۔

زیر بحث روایت کے بارے میں ابن تیمیہ فرماتے ہیں : وينقلون عَن عمر أَنه تزوج بِامْرَأَة أبي بكر ليسألها عَن عمله فِي السِّرّ فَقَالَت : كنت أَشمّ مِنْهُ رَائِحَة الكبد المشوية  .

وَهَذَا من أبين الْكَذِب ، وَإِنَّمَا تزوج بِامْرَأَة أبي بكر أَسمَاء بنت عُمَيْسٍ بعده عَليٌّ .[ المنتقى من منهاج الاعتدال ص: 505]

شاید ابن تیمیہ سے واقعہ نقل کرنے میں غلطی ہوئی ، کیونکہ واقعہ میں حضرت عمر کے شادی کرنے کا تذکرہ نہیں ہے ، بلکہ صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سے ان کے حالات دریافت کرنے کا ذکر ہے ، جیساکہ محب الدین طبری کے حوالہ سے اوپر گذرچکا۔


مگر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ نقشبندیہ سلسلہ کی کتابوں میں اس واقعہ کو بلا سند ذکر کیا جاتا ہے ، پھرواقعہ میں مذکورجگرکے بھننے کی بوآنے کی تاویل دو طرح سے بیان کی جاتی ہے :

۱۔ اس کی وجہ حبس نفَس (سانس روکنا)ہے ، یعنی ذکر خفی کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کو (پاس انفاس)بھی کہتے ہیں ، اس میں سانس کو روک کر کئی سو مرتبہ ذکر قلبی کیا جاتا ہے ، تو سانس روکنے کی وجہ سے بدن کے اندرونی بعض اعضاء میں حرارت پیدا ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے احتراق  کی سی یہ بوآتی ہے،بعض کتابوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ تہجد سے جو سانس روکتے تھے تو صرف ایک مرتبہ سحری کے وقت  ایک لمبی سانس لیتے تھے،اوپر واقعہ میں سانس لینے کے تذکرہ سے شاید یہی مراد ہو۔

۲۔ بعض تصوف کی کتابوں میں اس کی وجہ : مراقبہ معیت لکھا ہے ، اور یہ کہ اس مراقبہ کی تلقین خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق غار کو غار ثور میں تلقین فرمائی تھی ۔ چنانچہ طول مراقبہ کی وجہ سے یہ کیفیت پیدا ہوتی تھی ۔[ارغام المرید للکوثری]۔

صاحب تفسیر روح البیان (۱۰/۸۵)نے ایک دوسری وجہ بیان کی ہے :  وكانوا يشمون من كبد أبي بكر الصديق رضي الله عنه رائحة الكبد المشوي من شد الخوف من الله تعالى .

اور بعض واعظین کے نزدیک اس کی وجہ تلاوت قرآن مجید کے وقت کثرت سے رونا ہے ،اور مبلغین کے یہاں دین کی فکر اوراس کے لئے مہموم ومغموم رہنا۔


الحاصل : فن حدیث کی رو سے یہ واقعہ ثابت نہیں ہے ، کیونکہ اس کی کوئی معتبر سند بھی نہیں ہے ، اور نہ متقدمین کی کتابوں میں اس کا ذکر ہے ، سب سے پہلے اس کا تذکرہ عمر الملاء کی سیرت کی کتاب میں ملتا ہے ،جو غث وسمین کا مجموعہ ہے۔

لہذابلا سند اس واقعہ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے ،رہ گئی  اہل تصوف کی ان کے وظائف ومعمولات کی مستندات، تو وہ میری سمجھ سے بالاتر ہیں،خصوصا کوثری جیسے محدث وناقد کا ان کو بلا نکیر نقل کرنا۔


ہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رقتِ قلب مشہور ومعروف ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفاۃمیں جب ارشاد فرمایا تھا کہ : ابو بکر کو حکم پہنچاؤ کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ،تو حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ: میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! ابو بکر رضی اللہ عنہ نرم دل انسان ہیں ،  جب وہ قرآن  پڑھیں گے تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے ،  لہٰذا اگر آپ ابو بکر  ‌‌ ‌  کے بجائے کسی اور کو حکم  دیں تو بہتر ہے ۔

ہجرت سے پہلے کا بھی مشہور واقعہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ مشرکین مکہ کی ایذاء رسانیوں سے تنگ آکر جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے عزم سے نکلے ، تو آپ ابھی برک  الغماد تک ہی پہنچے تھے کہ ابن الدغنہ(جوکہ مکہ کا کافر اور بااثر ورسوخ باشندہ تھا) سے ملاقات ہوگئی، ابن الدغنہ نے آپ کو سمجھا بجھا کر اور اپنی امان میں  لینے کا اعلان کرکے واپس کیا ، مگرمشرکین مکہ اس شرط  پر راضی ہوئی کہ حضرت ابوبکر اپنے گھر میں ہی قرآن کی تلاوت کیا کریں گے، تاکہ قوم کے بچے اور عورتوں کو فتنہ میں مبتلا نہ کرسکیں۔

چنانچہ حضرت ابوبکر نے اپنے صحن ہی میں ایک جگہ تلاوت کے لیے مختص کرلی، لیکن آپ اس قدر رقیق القلب تھے کہ جب تلاوت فرماتے تو مشرکین کی عورتیں اور بچے اپنی چھتوں پرچڑھ کر آپ کی تلاوت سنتے، جس سے وہ متأثر ہوتے جاتے تھے، قوم کویہ گوارا نہیں ہوا ، فوراً ابن الدغنہ سے اس کی شکایت کی، ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ: یاتو آپ میری امان میں رہیں یا تلاوت اس طرح نہ کریں، جس پر حضرت ابوبکر نے کہاکہ مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں ہے، مجھے میرے اللہ کی امان کافی ہے۔

مقصد یہ ہے کہ ان کی رقت قلب مشہور ہے ، مگر جگر کباب ہونے کی بات مستند نہیں ہے ۔


رقمہ العاجز: محمد طلحہ بلال احمد منیار

 8/7/2020

https://t.me/Thqiqu_mashtahara_minal_ahadis

تحقيق ما اشتهر من الأحاديث وغيرها

25 Jul, 02:32


⤴️2⃣
وجہ تلقیب یہ ہے کہ وہ اینٹ بنانے کی بھٹی کے مالک تھے ، اور وہاں پر اپنے ماتحت چند مزدوروں کی مدد سے(بھٹی)کوپتھروں سے تلاوت کرتے ہوئےبھرتےتھے ، اس وجہ سے اس  لقب سے موسوم ہوئے،تاج الدین تکریتی کی تاریخ میں ان کے کام کی وضاحت اس طرح بیان کی ہے:(كنا نتردَّد إليه ونَمضي معه إلى تنُّوره الذي كان يملؤه بالحجارة لحَرق الجَصّ ومعه مماليك يقدِّمون له الحجارة ، وكلٌّ يعمل شُغلَه وهو يتلو القرآن).[وسیلہ جزء رابع]۔اس میں ان کا بھٹی کے دہانے پر کھڑے ہوکر اس کو بھرنےکے دوران دوسروں کے بجائے خود حرارت وتپش برداشت کرنا حسن تعامل اور اخلاق کے کمال کی بات ہے۔


وسیلۃ  المتعبدین  الى متابعۃ سید المرسلین:

یا (وسیلۃ  المتعبدین  فی سیرۃ سید المرسلین) اور مختصرا (سیرۃ الملا) کےنام کے ساتھ اس کتاب کویاد کیا جاتا ہے ۔

اس کتاب کے بعض اجزاء مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد سے سن ۱۹۷۲میں چھپے تھے ،مکتبۃ الاسکندریہ کی سائٹ پر تین اجزاء دیکھنے کا موقع ملا :[القسم الثاني من الجزء الثاني،القسم الثاني من الجزء الثالث،القسم الاول من الجزء الرابع]۔

جزء رابع کے شروع میں کتاب کے ناشر نے ایک نوٹ لکھا ہے :(لما بدأنا تصحيح هذا الكتاب لم نجد لمعارضته ومقابلته إلا نسخة وحيدة من مخطوطات خزانة بانكي بور(بتنة)وهي أيضا ناقصة الأجزاء، تبتدئ من الجزء الرابع وتنتهي إلى الجزء العاشر ، وقد سقط من بينها الجزء الخامس والسابع كلاهما،ولكننا ظفرنا بجزءيه الأخيرين الحادي عشر والثاني عشر في مخطوطات دار الكتب المصرية، ولما لم يتيسر لنا الأجزاء الثلاثة الأول فلا بد لنا من الابتداء بالجزء الرابع وسميناه القسم الأول ...) .

یعنی دائرۃ المعارف والوں نے بانکی پور پٹنہ (خدا بخش لائبریری)کےناقص الاجزاء نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے کتاب کی طباعت کی ہے ، معہد المخطوطات میں کتاب کے جو اجزاء ہیں اورجس کا حوالہ زرکلی نے (الاعلام) میں دیا ہے وہ مصنف کے خود نوشتہ ہیں ، اور بعض اجزاء میں یہ وضاحت  بھی ہے کہ یہ کتاب مصنف کے سامنےکئی مجالس میں  پڑھی گئی،آخری مجلس ربیع الاول سن ۵۶۹ ھ میں تھی ۔

نیزترکی میں مکتبہ (ولی الدین برقم ۷۹۷) میں ایک نسخہ ہے ، جس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کامل ہے۔

مجھے موقع (الالوکہ)پر سے ایک نسخہ میسر ہوا جو سیرت نبوی کے آخری حصے اور خلفائے راشدین کی سیرت کے ابتدائی حصے پر مشتمل ہے، اس میں حضرت ابوبکر کے مناقب میں زیر بحث واقعہ تقریبا اسی طرح مذکور ہے جس طرح طبری نے (الریاض النضرہ)میں بلا سندنقل کیا ہے۔


منہج المصنف :

وسیلۃ المتعبدین  کےمصنف کے مقدمہ پر مطلع ہوئے بغیر ان کے منہج کی وضاحت صحیح طور پر کرنا مشکل ہے،البتہ مطبوعہ اجزاء کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ یہ سیرت نبویہ اور سیرت خلفاء راشدین پر مشتمل ہے ،اور ابواب پر مرتب ہے ، یعنی تقریبا جس طرح(سبل الہدی والرشاد) ابواب پر مرتب ہے۔

کتاب کے مشمولات تو عموما روایات حدیث  ہی ہیں ، لیکن اکثر روایات میں سند محذوف ہے ، پھر بعض میں راوی اعلی (یعنی صحابی)کا صرف نام مذکور ہے ، اور بعض روایات(وروی انہ کذا)کہہ کر نقل کی ہیں ، مگر دونوں طرح کی روایات میں مصدر منقول عنہ کی تصریح نہیں ہے۔


کتاب کی روایات پر نقد:

کتاب کے مشمولات پر متقدمین میں سے حافظ ابن تیمیہ نے اور معاصرین میں سے شیخ جمال الدین قاسمی نےتنقید کی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :

قال الشيخ ابن تيمية في "قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة" (1/195) تعليقا على حديث : "من سره أن يَحفظ فليصم سبعة أيام، وليكن إفطاره في آخر هذه الأيام السبعة ..." :

ولم يذكره من لا يَروي بإسنادٍ مثل كتاب "وسيلة المتعبدين" لعمر الملا الموصلي، وكتاب "الفردوس" لشهريار الديلمي، وأمثال ذلك ، فإن هؤلاء دون هؤلاء الطبقات، وفيما يذكرونه من الأكاذيب أمر كبير.

وقال في "مجموع الفتاوى" (2/ 239) : وَذَكَرَ بَعْضَهُ عُمَرُ الملا فِي "وَسِيلَةِ الْمُتَعَبِّدِينَ" وَابْنُ سَبْعِينَ وَأَمْثَالُهُمْ مِمَّنْ يَرْوِي الْمَوْضُوعَاتِ الْمَكْذُوبَاتِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ .


 

وقال القاسمي في "قواعد التحديث" (ص 167) :

ولكن أقام الله للدين مَن يَنفي عنه تحريفَ الغالين وانتحالَ المبطلين وتأويلَ الجاهلين ويحميه من وضع الوضاعين... كمن صنف في الصحيح ... وكذلك الذين تكلموا على الرجال وأسانيدها ... فهؤلاء وأمثالهم أهلُ الذب عن أحاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم ، عكسَ حالِ مَن صنف كتبًا فيها من الموضوعات شيءٌ كثيرٌ، وهو لا يميِّز ولا يعرف الموضوع والمكذوب من غيره ، فيجيء الغِرُّ الجاهلُ فيَرَى حديثًا في كتابٍ مُصَنَّفٍ فيغترُّ به وينقله ، وهؤلاء كثير أيضًا مثل مصنف كتاب: "وسيلة المتعبدين" الذي صنفه الشيخ عمر الموصلي ، ومثل: "تنقلات الأنوار" للبكري الذي وضع فيه من الكذب ما لا يخفى على من له أدنى مُسكة عقل.
⤵️2⃣

1,948

subscribers

800

photos

1

videos