!مرغوب المسائل چینل! @margubulmasail Channel on Telegram

!مرغوب المسائل چینل!

!مرغوب المسائل چینل!
https://telegram.me/margubulmasail

تحقیقی مسائل اور فقہ حنفی کا مدلل مجموعہ جس میں آپ حضرات کو الحمدللہ فقہاء کی عبارت سے مزین مسائل روزانہ بطور استفادہ حاصل ہونگے۔۔
@MargubulmasailBot

منتظم:محمدمرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
1,666 Subscribers
54 Photos
2 Videos
Last Updated 23.02.2025 06:33

Similar Channels

Politics Plus
3,117 Subscribers
Takbeer Media
1,912 Subscribers
@فقہی مسائل@
1,746 Subscribers

فقہ حنفی اور روزمرہ مسائل کی اہمیت

فقہ حنفی، اسلامی فقہ کے چار بڑے مذاہب میں سے ایک ہے اور اس کی بنیاد امام ابوحنیفہ کی تعلیمات پر ہے۔ یہ فقہ مسلمانوں کو روزمرہ کے مسائل میں رہنمائی فراہم کرتی ہے، چاہے وہ عبادات، معیشت، یا معاشرتی مسائل ہوں۔ اس فقہ میں احادیث، اقوال صحابہ اور قیاس کے ذریعے مسائل کی تشریح کی جاتی ہے۔ آج کے دور میں، اسلامی معاشرت میں درپیش مسائل کی پیچیدگیوں کے پیش نظر، فقہ حنفی کی تشریحات اور استدلالات کی ضرورت انتہائی اہم ہوگئی ہے۔ محمد مرغوب الرّحمٰن القاسمی کے ذریعے جاری کردہ 'مرغوب المسائل چینل' ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں لوگ روزانہ کی بنیاد پر فقہ حنفی کے مسائل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ یہ چینل اپنی اہمیت کے باعث محققین اور طلباء کے لیے ایک غیر معمولی ذریعہ ہے، جو انہیں صحیح اسلامی تشریحات اور احکام تک پہنچاتا ہے۔

فقہ حنفی کیا ہے؟

فقہ حنفی اسلامی فقہ کے چار اہم مذاہب میں سے ایک ہے، جو امام ابوحنیفہ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اس میں قرآن اور سنت کے حوالے سے مختلف احکام کی تشریح کی گئی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اپنے اجتہادات کے ذریعے ایک منظم نظام قائم کیا جو اسلامی معاشرت کے مختلف پہلوؤں کو منظم کرتا ہے۔

فقہ حنفی کی بنیاد قرآن اور سنت کے ساتھ ساتھ اجماع اور قیاس پر بھی رکھتی ہے۔ یہ مسلمانوں کو زندگی کے مختلف شعبوں، جیسے عبادات، معیشت، اور اخلاقیات میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ فقہ حنفی کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے لیے متعدد کتب اور بنیادی مصادر موجود ہیں جو اس کے اصولوں کو واضح کرتی ہیں۔

محمد مرغوب الرّحمٰن القاسمی کون ہیں؟

محمد مرغوب الرّحمٰن القاسمی ایک معروف عالم دین ہیں جنہوں نے فقہ حنفی کی تعلیمات پر بھرپور توجہ دی ہے۔ وہ فقہاء کے اقوال کو مدنظر رکھتے ہوئے روزمرہ کے مسائل کو سمجھانے کا عمل انجام دیتے ہیں۔ ان کا مقصد عوام کو صحیح اسلامی احکام کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے 'مرغوب المسائل چینل' کے ذریعے ان مسائل کی تشریح کی ہے جو روزانہ کی زندگی میں اسلامی احکامات سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان کی تشریحات اور جوابات طلباء اور عمومی لوگوں کے لیے ایک اہم ذریعہ ہیں، جو انہیں اپنی روزمرہ کی مشکلات کے حل تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

فقہ حنفی کے تحت روزمرہ کے مسائل کیسے حل کیے جاتے ہیں؟

فقہ حنفی کے تحت روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں قرآن اور سنت کے نصوص کے علاوہ، اجماع اور قیاس کی بنیاد پر مسائل کی تشریح کی جاتی ہے۔ فقہ حنفی کے علماء ان نصوص کی روشنی میں جدید مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں۔

اسی طرح، مختلف موجودہ مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے، محققین اور علماء ان کی تشریح کرتے ہیں تاکہ وہ عوام کے لیے قابل فہم اور آسان ہون۔ 'مرغوب المسائل چینل' اسی مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر جدید مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

مرغوب المسائل چینل کیا ہے؟

مرغوب المسائل چینل ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے جہاں فقہ حنفی کے مختلف مسائل کو روزانہ کی بنیاد پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس چینل کے ذریعے، لوگ فقہاء کے اقوال اور اسلامی احکام کو براہ راست حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ چینل خاص طور پر طلباء اور محققین کے لیئے ایک اہم ذریعہ ہے۔

اس چینل میں فراہم کردہ مواد میں مختلف روزمرہ کے مسائل کی تشریح شامل ہوتی ہے، جو کہ لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے کہ وہ کس طرح اسلامی احکام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ ممالک کے مختلف حصوں سے لوگ اس چینل تک رسائی حاصل کر کے اپنے سوالات کے جواب حاصل کر سکتے ہیں۔

فقہ حنفی کی تعلیمات کا معاشرتی زندگی پر کیا اثر ہے؟

فقہ حنفی کی تعلیمات کا اثر معاشرتی زندگی پر بہت زیادہ ہے۔ یہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر روز مرہ کے معاملات جیسے نکاح، طلاق، وراثت اور تجارت کے قوانین کو منظم کرتی ہیں۔ اس فقہ کی وساطت سے انسان اخلاقی روایات اور اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کر سکتا ہے۔

فقہ حنفی کے تحت مسائل کے حل کی بنیاد پر، مسلمان ایک کمزور بنیاد نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ مضبوطی سے اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے، معاشرتی انصاف اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے، جو کہ ایک خوشحال اور مضبوط معاشرے کی تشکیل میں مددگار ہوتا ہے۔

!مرغوب المسائل چینل! Telegram Channel

مرغوب المسائل چینل ایک تحقیقی مسائل اور فقہ حنفی کا مدلل مجموعہ ہے۔ یہاں آپ حضرات کو الحمدللہ فقہاء کی عبارت سے مزین مسائل روزانہ بطور استفادہ حاصل ہونگے۔ اگر آپ فقہ حنفی کے مکمل علوم اور معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ چینل آپکے لیے ایک بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔nnمرغوب المسائل چینل کی منتظم، محمد مرغوب الرحمٰن القاسمی غُفرالہ، افضل اور موثر مسائل کا تحقیقی مجموعہ فراہم کر رہے ہیں۔ انکی محنت سے یہ چینل فقہ حنفی کے معاہدہ ہونے والے مسائل کی روزانہ کی بنیاد پر جلدی حل پیش کرتا ہے۔nnاگر آپ مختلف مسائل پر غور کرنا پسند کرتے ہیں اور فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مرغوب المسائل چینل آپکے لیے بہترین پلیٹفارم ہوسکتا ہے۔ یہاں آپ الحمدللہ فقہاء کی عبارت سے مزین مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے فقہ حنفی علوم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

!مرغوب المسائل چینل! Latest Posts

Post image

’’اگر تو آج واپس آگئی تو تجھے طلاق‘‘ پھر بیوی رات دس بجے آگئی؟
سوال(۴۲۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص کی بیوی اپنے گھر جارہی تھی، تقریباً آٹھ بجے دن کا وقت تھا، اس کے شوہر نے اس سے یہ کہا کہ اگر تو آج واپس آئی تو تجھ کو طلاق، اور وہ عورت دس بجے رات کو واپس آئی، تو اس پر طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی تو کونسی ہوگی؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق: ہمارے عرف میں دن گذرنے کے بعد رات میں آنا بھی اُسی دن کا آنا سمجھا جاتا ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کم از کم ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی؛ البتہ شوہر اگر یہ کہے کہ میں نے آج سے صرف دن کا وقت مراد لیا تھا تو اس کی بات قبول ہوگی اور طلاق واقع نہ ہوگی۔
کما تستفاد من عبارۃ الشامي: أما لفظ الیوم فیطلق علی بیاض النہار حقیقۃ اتفاقاً، وقیل: وعلی مطلق الوقت حقیقۃً أیضاً …، ولو نویٰ بالیوم بیاض النہار صدق قضاء اً؛ لأنہ نویٰ حقیقۃ کلامہ…، ثم الیوم إنما یکون لمطلق الوقت فیما لایمتد۔ (شامي، الطلاق / باب الصریح، مطلب في قولہم الیوم متی قرن بفعل ممتد ۳؍۲۷۱ دار الفکر بیروت، ۴؍۴۹۱ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۱۵؍۱۱؍۱۴۱۱ھ
کتاب النوازل جلد9ص539
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

20 Feb, 14:27
87
Post image

سوال نمبر: 131090
عنوان:اگر کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے مگر فرائض پر عمل نہ كرے؟
سوال:(۱) اگر کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور اس حقیقت کا احترام کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، مگر وہ ارکان اسلام جیسے نماز، روزہ، زکاة اور حج ، پر عمل نہ کرے تو کیا وہ شخص مسلمان کہلائے گا یا غیر مسلم کہلائے گا؟ (۲) اہل کتاب سے شادی جائز ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟کیا نکاح جائز ہونے کے لیے اہل کتاب کا مسلمان ہونا ضروری ہے؟ (۳) اگر کوئی لڑکی ہندوہے مگر بھگوان پر یقین نہیں رکھتی ہے، اور نہ ہی اس کی پوجا کرتی ہے ، مگر وہ لڑکی ایک اللہ پر یقین رکھتی ہے تو اس کو کیا سمجھائے گا، مسلم یا غیر مسلم؟ (۴) اگر کوئی لڑکی شہادت پر یقین رکھے کہ اللہ ایک ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو کیا اس کا نکاح مسلمان مرد کے ساتھ ہوسکتاہے؟کیا اس طرح کے اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے ارکان اسلام کو ماننے اور عمل کرنے کے لیے کوئی وقت درکار ہے؟
جواب نمبر: 131090
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1532-1533/L=2/1438
(۱) اگر کوئی شخص اللہ رب العزت کو اللہ کی جمیع صفات کے ساتھ مانتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا قائل ہوتو وہ شخص مسلمان ہے اگر چہ تکاسلاً وہ نماز، روزہ، حج وغیرہ مامورات پر عمل نہ کرتا ہو۔
(۲) اصل وجہ تو قرآن میں اس حکم کا مذکور ہونا ہے؛ البتہ علماء نے اس کی حکمت لکھی ہے کہ اہل کتاب کا کفر مشرکین و مجوس وغیرہ کے کفر سے اخف ہے؛ کیونکہ یہود و نصاریٰ دینِ سماوی کے قائل ہیں اور شریعت کے اصول و کلیات سے واقف ہیں؛ اس لیے وہ دین اسلام سے اقرب ہیں، لہٰذا مسلمان مرد کا نکاح کتابیہ سے جائز رکھا گیا کہ وہ شوہر کا اثر قبول کرکے مسلمان ہو جائے گی، کیونکہ شوہر بیوی پر غالب اور حاکم رہتا ہے، واضح رہے کہ کتابی عورتوں سے نکاح کے سلسلے میں اب صورتِ حال بدل گئی ہے، خاص طور پر غیر مسلم ممالک (یورپ و امریکہ) میں عورتیں مردوں کے زیر اثر نہیں رہیں، اور کتابی عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرتے ہیں وہ بھی عام طور پر دین سے آشنا نہیں ہوتے؛ اس لیے ان عورتوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات بہت ہی کم ہیں عام طور پر مرد ہی عورت کا اثر قبول کرلیتا ہے اور بچے تو ماں کے زیر اثر ہی پروان چڑھتے ہیں؛ اس لیے اب یہ نکاح باعث فتنہ ہے پس اس سے احتراز ضروری ہے۔ (رحمة اللہ الواسعہ: ۵/۱۰۲) اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے جائز ہونے کے لیے ان کا مسلمان ہونا ضروری نہیں؛ البتہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان لانا اور توریت یا انجیل کو آسمانی کتابیں تسلیم کرنا ضروری ہے۔
(۳) اگر بھگوان سے مراد ان کے دیوی دیوتا ہیں او روہ لڑکی ان سے براء ت کا اظہار کرتی ہے اللہ پر یقین رکھتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی قائل ہے تووہ مسلمان سمجھی جائے گی بشرطیکہ اس کا اقرار بھی زبان سے کرے اور اگر وہ صرف اللہ پر یقین رکھتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی قائل نہیں تو وہ غیر مسلم سمجھی جائے گی۔
(۴) جی ہاں! اس لڑکی کا نکاح مسلمان مردسے ہو سکتا ہے، مسلمان ہوتے ہی ارکان اسلام متعلق ہو جاتے ہیں اس کے لیے وقت درکار نہیں، جو بھی مسلمان ہو اس کو چاہئے کہ جلد از جلد ارکان اسلام کو سیکھ کر اس پر عمل کرنا شروع کردے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

20 Feb, 04:46
107
Post image

کسی شخص کو نوکری دلوا کر ہر ماہ تنخواہ میں سے کچھ کمیشن لینا
سوال :
کسی شخص کو نوکری دلوا کر ہر ماہ تنخواہ میں سے کچھ کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں ؟حال یہ کہ دلال کہتاہے کہ میں نے تم اپنی ذمہ داری پر کام میں رکھا ہوں ؟
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1377-1027/B=12/1440
دلال نے اگر نوکری دلانے میں محنت و مشقت اٹھائی ہے اس کے لئے بھاگ دوڑ کی ہے تو اپنی اس محنت کا صلہ یعنی اجرت پہلے سے طے کرکے لے سکتا ہے، تنخواہ میں سے کمیشن لینا جائز نہ ہوگا۔ ہر دلال اپنی ذمہ داری پر ہی نوکری دلاتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :172931
تاریخ اجراء :Aug 31, 2019
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

01 Feb, 05:41
314
Post image

کام دلواکر کمیشن لینا
سوال
میں نے کسی آدمی کو 5000کا کام دلوا یا ، اس سے 500روپے کمیشن لینا درست ہے یا نہیں، واضح رہے کہ کام کرنے والا کاریگر مالک سے 5500وصول کرکے 500مجھے دے، کیا یہ طریقہ درست ہے؟
جواب
صورتِ مسئولہ میں اگر کام دلانے سے پہلے کمیشن طے ہوئی تھی تو کام دلانے کے بعد طے شدہ کمیشن ایک مرتبہ لینا جائز ہو گا، البتہ ہر مہینے اس کی تنخواہ میں سے 500 کا مطالبہ کرنا شرعا درست نہیں، اسی طرح  اگر کام دلوانے میں سائل  کی کوئی محنت  نہیں تھی،  تو اس کے لیے کسی قسم کا کمیشن لینا جائز نہیں۔
شعب الإيمان میں ہے:
"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ‌أيّ ‌الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."
(التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء ، ج:2، ص:84، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي ‌الدلال ‌والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(كتاب الاجارة، ج؛6، ص:63، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
ماخذ: دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144502101086
تاریخ اجراء: 31-08-2023

محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

01 Feb, 05:08
286