Surgical Strike @surgicalstrikeyasir Channel on Telegram

Surgical Strike

@surgicalstrikeyasir


ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کے ہفتہ واری پروگرام سرجیکل اسٹرائک کی تشہیر کے لیے یہ چینل ہے۔
https://t.me/Surgicalstrikeyasir

Surgical Strike (Urdu)

چرچا اور علم عورتوں اور مردوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے کا مقصد ہے۔ یہاں آپ کو ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کے ہفتہ واری پروگرام سرجیکل اسٹرائک کی تشہیر ملے گی۔ یہ چینل وہاں جائیں جہاں آپ کو اپنی صحت کی جانبوں کا بہترین معلومات ملے گا۔ ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب ایک معروف ڈاکٹر ہیں جنہوں نے سرجری کی معلومات پراپت کی ہیں اور انہوں نے خود بھی بہت سی اپریشنس کر چکے ہیں۔ ان کی معلومات اور تجربات سے متعلق ان ہفتہ واری پروگرام میں آپ کو معلومات فراہم کی جائیں گی۔ چینل سے جوائن کریں اور اپنی صحت کو بہتر بنائیں۔ https://t.me/Surgicalstrikeyasir

Surgical Strike

20 Oct, 02:51


https://www.youtube.com/live/0dT0vPETNLA

Surgical Strike

01 Oct, 08:57


https://youtu.be/_6ixMzBYU20?si=neUmBdQI7314oPt1

Surgical Strike

13 Jul, 04:44


https://youtu.be/zg0ACSKTfqE

Surgical Strike

13 Jul, 04:44


https://youtu.be/ygrAAEPXsyU

Surgical Strike

05 Apr, 11:45


https://www.facebook.com/share/v/DfDecTyYKwL63xiW/?mibextid=TrneLp

Surgical Strike

11 Dec, 07:34


میں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ ہمارے جسم کے وجود کے لیے ضروری ہے کہ ہماری لمبائی چوڑائی اور موٹائی بھی ہو۔ کلامی کتابوں میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جسم میں تین ابعاد (ذو أبعاد ثلاثة) ہوتے ہیں۔

شعور کے غیر مادی ہونے کی بحث کو بھی مناظرے میں پیش کیا گیا تھا۔ اس جانب نبراس شرح شرحِ عقائد میں اشارہ ملتا ہے، مصنف نبراس نے امام رازی کے حوالے سے لکھا ہے کہ عالم یاتو متحیز ہوگا، یا متحیز کی صفت ہوگا یا نہ متحیز ہوگا اور نہی متحیز کی صفت ہوگا۔ اس تیسری قسم کے تحت ہی جواہر مجردہ اور ارواح وغیرہ آتے ہیں۔ یعنی عالم میں ایسی موجودات بھی ہیں، جو غیر مادی ہیں۔

اس پوری داستان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے دلائل کن کتابوں سے ماخوذ تھے۔ البتہ الزامی طور پر میں نے شعور کے اثبات کے لیے سائنس کا حوالہ دیا، جو کہ اس ملحد نے بغیر کسی وجہ کے مسترد کردیا۔

میں نے کبھی کسی یونیورسٹی میں سائنس یا فلسفے کی کلاس نہیں لی ہے، میں نے اسکول کی شکل بھی نہیں دیکھی ہے، البتہ بفضل خدا مجھے انگریزی سے کچھ نہ کچھ واقفیت ہے، اس بنا پر بہت سے سائنسی مباحث اور کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ آج کے دور میں انگریزی سیکھنا کوئی مشکل عمل نہیں ہے۔ البتہ زبان پر اتنی دسترس حاصل کرلینا کہ سائنسی مباحث قابل فہم ہو جائیں ایک صبر آزما کام ضرور ہے۔ لیکن اگر مجھے انگریزی کے ساتھ ساتھ سائنس اور ریاضی پر تو خوب دسترس ہوتی، لیکن اپنے کلامی مباحث سے واقفیت نہ ہوتی، تو یہ مناظرہ ممکن نہیں تھا۔

اگر ارباب مدارس ماہر اساتذہ کی نگرانی میں ان علوم عقلیہ کا نہ صرف یہ کہ احیا کریں، بلکہ ان کا شوق بھی دلوں میں ڈال دیں اور ساتھ میں ان قدیم اصطلاحات کو جدید مثالوں سے آراستہ کردیں، نیز فضلائے مدارس انگریزی زبان اس نیت سے سیکھ لیں، تو برصغیر میں الحاد پنپ نہیں پائے گا۔ ہمارے بہت سے فضلاء مدرسے کی تعلیم کے بعد انگریزی تو سیکھتے ہیں، لیکن اس زبان میں موجود علوم سے استفادہ نہیں کرپاتے۔

میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ان قدیم کتابوں میں ملحدین کی ریشہ دوانیوں کے خلاف مکمل مواد موجود ہے۔ اس وقت مغربی تہذیب نے جن نظریات کو جنم دیا ہے، ان میں لبرل ازم، فیمنزم، ڈارونزم اور سائنٹزم وغیرہ سرفہرست ہیں، ان موضوعات پر منفی ومثبت دلائل قدیم کتابوں میں موجود نہیں ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے، جو ماہرین کے ذریعے مختصر مدتی کورسز کے ذریعے طلبائے مدارس کو پڑھایا جانا چاہیے۔ میں نے الحمد للہ تین سال قبل تہافت الملاحدہ کے نام سے جس کورس کا آغاز کیا (اور جس کی تکمیل پچھلے ہفتے ہی ہوئی ہے) اس میں یہ تمام نظریات تفصیل سے پڑھائے ہیں۔ پڑھنے والوں میں ایک بڑی تعداد مدارس سے ہی وابستہ تھی۔ ارباب مدارس اپنے طلبہ کو کسی ماہر کی نگرانی میں، ہفتے عشرے میں ہی، ان نظریات سے کسی نہ کسی حد تک واقف کروا سکتے ہیں۔ مستقبل قریب میں جب ہمارے پاس ایسے علما کی ایک قابل قدر تعداد ہوگی، تو علم کلام میں اضافہ خود بخود ہو جائے گا۔

مجھے بڑی خوشی ہے کہ ملحد کے ساتھ ہونے والے حالیہ مناظرے نے کچھ فضلائے مدارس کو اس بحث کی طرف متوجہ کیا ہے۔ امید ہے کہ ان شاءاللہ اس بحث کا خاطر خواہ نتیجہ بھی برآمد ہوگا۔

Surgical Strike

11 Dec, 07:34


ما بعد المناظرہ ہند وپاک میں جاری بحث پر تبصرہ
یاسر ندیم الواجدی

سب سے پہلے تو میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شکر بجا لاتا ہوں کہ محض اس کے فضل اور تائید غیبی سے یہ ممکن ہوسکا کہ ملحد ومرتد اویس اقبال کے ساتھ ہونے والے مناظرے کے نتیجہ میں الحاد کا کھوکھلا پن اور اس کا بے ہنگم منہج، نیز اسلامی عقائد کی پختگی اور اصولوں کا توازن وتناسب دنیا کے سامنے آگیا۔ اہل اسلام کو الحاد کی اس بے بنیاد عمارت کے انہدام کی جتنی خوشی ہو وہ کم ہے۔ ان کی اس خوشی کا اظہار سوشل میڈیا پر سب کے سامنے ہے۔ اس ناچیز کو حوصلہ افزائی پر مشتمل دعائیہ کلمات مستقل موصول ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام دعاؤں کو میرے حق میں قبول فرمائے۔

بعض حضرات کی تحریروں نے مناظرے کے بعد برصغیر میں دو الگ الگ بحثوں کو جنم دیا ہے، پہلی بحث تو غامدی صاحب اور درس نظامی کے تعلق سے ان کی بے سر وپیر کی گفتگو سے متعلق ہے، اس بحث میں حصہ لینا میں ضیاع وقت سمجھتا ہوں۔ دوسری بحث طلبائے مدارس کے لیے کلامی مباحث کے مطالعہ کی ضرورت سے متعلق ہے۔ ایک عرصے سے مدارس سے وابستہ حلقوں میں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ ہماری درسی وغیر درسی کتابوں اور اکابر علماء کی تصانیف میں عقائد سے متعلق دلائل اب فرسودہ ہوچکے ہیں۔ ان دلائل کے سہارے جدید الحاد کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ آواز بھی کبھی کبھی لگ جایا کرتی ہے کہ اب ہمیں جدید علم کلام مدون کرنا چاہیے۔ لیکن یہ حضرات اس بنیادی نکتے کو فراموش کردیتے ہیں کہ قدیم کے بغیر جدید کا تصور بھی محال ہے، جب تک قدیم کا علم نہ ہو تو جدید کا علم ایسا ہی ہوگا، جیسے اویس اقبال کی جانب سے پیش کردہ الحاد کی عمارت تھی۔

اس مناظرے میں، اس ناچیز نے جو کچھ کہا وہ تین کتابوں کے مباحث پر مشتمل ہے: پہلی کتاب شرح عقائد، دوسری کتاب الانتباہات المفیدہ اور تیسری کتاب امام ماتریدی کی کتاب التوحید۔ پاکستان کے ایک عالم دین مولانا ساجد نقشبندی صاحب زید مجدہ نے اپنے حالیہ مضمون میں اس بات کو بڑے وقیع انداز سے پیش کیا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور درحقیقت ان کی باتوں کی تائید ہیں۔

فضلائے مدارس جانتے ہیں کہ infinite regress یعنی تسلسل اور اس کے بطلان کی پوری بحث امام تفتازانی نے شرح عقائد میں کی ہے، میں نے اسی کے حوالے سے بطلان تسلسل پر مبنی دلیل دی تھی، البتہ میں نے جدید فلسفے سے بطلان تسلسل کی مثال (ڈامنو ایفیکٹ) ضرور اخذ کی ہے۔ اسی مثال کے ذریعے میں نے بطلان تسلسل کا نظریہ اپنے بیٹے احمد ندیم الواجدی سلمہ کو سات سال کی عمر میں سکھایا تھا، جو اس نے انگریزی زبان میں ایک ویڈیو کے ذریعے پیش بھی کیا تھا۔ اس ویڈیو کے ذریعے میرا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ اگر سات سالہ بچہ اس بات کو سمجھ سکتا ہے، تو پڑھے لکھے بڑے کیوں نہیں سمجھ سکتے۔

عدم دلیل عدم وجود کو مستلزم نہیں ہے، یہ ضابطہ بہت سی کتب میں موجود ہے، اس ضابطے کو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے انتباہات مفیدہ میں بنیادی قواعد کے تحت ذکر کیا ہے۔ میں یہ قواعد یوٹیوب پر نشر ہونے والی گزشتہ چند اسٹریمز میں مثالوں کے ساتھ پیش کرچکا ہوں۔

وجود باری پر پیش کردہ دو دلیلوں میں سے پہلی: دلیلِ خیر وشر، امام ماتریدی کی کتاب التوحید میں موجود ہے۔ امام ماتریدی رحمہ اللہ نے حدوث عالم کے کل گیارہ دلائل ذکر کیے ہیں۔ لیکن وہ منطقی زبان یعنی صغری اور کبری کی شکل میں مذکور نہیں ہیں۔ یہ کتاب معہد تعلیم الاسلام شکاگو کے شعبہ تخصص فی العقیدہ میں میرے زیر تدریس ہے۔ میں نے طلبہ کو پابند بنایا کہ وہ تمام دلائل کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے صغری وکبری کی شکل میں لکھیں، اس کام کو وہ ما شاءاللہ انجام دے چکے ہیں۔

امام ماتریدی نے قیاس الغائب علی الشاہد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے، وہ دلیل الشاہد علی الغائب اور قیاس الغائب علی الشاہد میں فرق کرتے ہیں۔ یہ بحث امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی درء التعارض کی پہلی جلد میں پیش کی ہے۔ ہم نے مناظرے میں اسی بحث کو مدنظر رکھتے ہوے false equivalence کی اصطلاح استعمال کی تھی۔

مناظرے کے دوران خدا پر زمان ومکان کے جاری نہ ہونے اور مادے پر جاری ہونے کی بحث بھی آئی۔ ملحد اویس اقبال نے فیبرک آف ٹائم اینڈ اسپیس کی اصطلاح استعمال کی اور یہ کہا کہ ہر موجود کے لیے زمان ومکان (جو کہ اعراض کے قبیل سے ہیں) کا ہونا ضروری ہے۔ کیا شرح عقائد میں یہ بات نہیں لکھی کہ اللہ کے ماسوی ہر چیز عالم ہے اور عالم اعیان واعراض کا مجموعہ ہے، پھر اعراض کے تحت امام تفتازانی نے زمان ومکان کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی لیے میں نے ملحد کو جواب دیتے ہوے یہ بات کہی تھی کہ زمان ومکان تو مادے کے ساتھ قائم ہیں اور اللہ غیر مادی ہے، اگر یہ نہیں مانتے تو تسلسل لازم آئے گا جس کے بطلان کا وہ بھی قائل ہوا تھا، لیکن بعد میں اپنے کو پھنستے ہوے دیکھ کر تسلسل کے جواز کا قائل ہوبیٹھا۔

Surgical Strike

09 Dec, 12:49


سوشل میڈیا اور مفتی یاسر ندیم الواجدی:
سوشل میڈیا چاہے وہ یو ٹیوب ہو یا فیس بک یا پھر ٹوئٹر مفتی صاحب کسی تعارف کے محتاج۔ خصوصاً نوجوان پڑھے لکھے طبقے میں آپ کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام الناس کی دینی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، نوجوانوں کے عقائد کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں، انھیں کھلا میدان فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے شبہات و اعتراضات پیش کریں اور پھر نہایت ہی متانت و سنجیدگی سے ان ہی کی زبان میں مکمل و مدلل اور مسکت جواب دیتے۔ ابھی تک بہت سے نوجوان ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے ہیں۔ وہ مختلف ادیان کا گہرا مطالعہ بھی کرچکے ہیں اور اس میدان کے مشہور مناظر بھی ہیں، انھوں نے متعدد آن لائن ڈبیٹس میں اسلام مخالفین کے سامنے حق کی شاندار ترجمانی کی ہے۔

ماخوذ از جریدہ بصیرت آن لائن Baseerat Online
ایڈیٹر بصیرت آن لائن

Surgical Strike

09 Dec, 12:49


مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کا مختصر تعارف

ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی دارالعلوم آن لائن کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں۔
اصلاً دیوبند انڈیا کے ہیں اور آج کل مستقل طور پر امریکہ میں رہتے ہیں۔معہد تعلیم الاسلام ایلجن شگاگو امریکہ کے استاذ حدیث ہیں، ساتھ ہی جامعہ الحسنین انڈیانا امریکہ کے استاذ فقہ وعقیدہ ہیں۔ وہ ایک مصنف ومقرر ہیں اور دنیا بھر میں عموما وبھارت میں خصوصاً مسلم اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک مضبوط آواز ہیں۔ وہ اپنی نوعیت کے ایک منفرد آن لائن شو سرجیکل اسٹرائیک کے میزبان ہیں، اس کے علاوہ وہ ایک اسلامی تحقیقی جریدے ”اسلامک لٹریچر ریویو“ کے نائب چیئرمین بھی ہیں اور ماہانہ اردو رسالہ ”ترجمان دیوبند“ کے نائب مدیر بھی ہیں۔

پیدائش و خاندانی پس منظر:
مفتی یاسر ندیم الواجدی کی پیدائش سن 1982 میں مشہور علمی سزمین دیوبند میں ہوئی، انھوں نے علماء سے بھرے پرے خاندان میں آنکھیں کھولیں، ان کے والد ماجد مولانا ندیم الواجدی صاحب مشہور صاحب قلم اور مصنف ہیں۔ آپ کے آبا واجداد شیر شاہ سوری کے عہد میں شیر کوٹ بجنور کے منصب قضاء پر فائز تھے، تقریبا ڈیڑھ صدی قبل یہ خاندان ہجرت کرکے دیوبند آبسا۔ آپ کے دادا حضرت مولانا واجد حسین صاحب رحمہ اللہ جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل کے شیخ الحدیث رہے، جب کہ پردادا حضرت مولانا احمد حسن رحمہ اللہ مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث رہے ہیں۔ آپ کا نانیہال دیوبند کے مشہور عثمانی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ کے نانا حضرت مولانا عبد اللہ سلیم امریکہ ہجرت کرنے سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے شیخ القراء رہے، امریکہ ہجرت کے بعد شکاگو میں ہی معہد تعلیم الاسلام کے نام سے ایک اقامتی مدرسے کی بنیاد رکھی۔ یہ امریکہ کا پہلا مدرسہ ہے۔ آپ کے پرنانا صاحب کمالین وانوار القرآن حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث رہے ہیں۔

تعلیم و تربیت:
مفتی یاسر ندیم الواجدی نے قرآن پاک کا کچھ حصہ مدرسہ میں حفظ کیا پھرگھر میں رہ کر والدین کی نگرانی میں حفظ کی تکمیل کی۔ ابتداء سے دورہ حدیث تک کی تعلیم عالم اسلام کے مشہور علمی مرکز دارالعلوم دیوبند میں ہوئی۔ 2001 میں فضیلت مکمل کرنے کے بعد آپ نے عربی ادب کا ایک سالہ کورس کیا اور پھر افتاء بھی دارالعلوم دیوبند ہی سے 2002-2003 میں مکمل کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب، حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب اور حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب جیسے اساطین علم وفضل شامل ہیں۔ 2004 میں آپ امریکہ منتقل ہو گئے اور وہاں عربی زبان و ادب میں امریکن اوپن یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔ پھر 2012 میں آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملیشیا سے حدیث میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی آپ نے اپنا مقالہ جامعہ عالمیہ اسلامیہ کے مشہور وعبقری استاذ مولانا ڈاکٹر ابواللیث خیرآبادی کی نگرانی میں مکمل کیا۔

علمی مصروفیات اور دارالعلوم آن لائن کا قیام:
دو ہزار چار میں جب آپ امریکہ منتقل ہوئے تو معہد تعلیم الاسلام میں میں تدریس کا موقع ملا، تب سے اب تک آپ اسی ادارے سے منسلک ہیں اور علیا درجات کی کتابیں پڑھاتے ہیں۔
دو ہزار نو میں آپ نے دارالعلوم آن لائن قائم کیا۔ جس کے تحت عالمیت، فضیلت اور تخصص وغیرہ کے مختلف کورس آن لائن کروائے جاتے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا، اس سے پہلے عالم کورس کی آن لائن تدریس کا تصور نہ تھا اس ادارے کا چھ سالہ نصاب ماہر اساتذہ کے ذریعے انگریزی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں الحاد و ارتداد کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو مد نظر رکھتے ہوئے دارالعلوم آن لائن ہی کے تحت ”تہافت الملاحدہ“ (رد الحاد) کا دو سالہ کورس بھی شروع کیا گیا ہے۔ جس میں براہ راست آپ کے محاضرے ہوتے ہیں۔

تصنیف و تالیف:
آپ نے دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں افتا کے سال ”اسلام اور گلوبلائزیشن “ نامی کتاب تصنیف کی جسے ہر خاص و عام میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 2014 میں آپ کی مزید دو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، پہلی تاریخ تجدید دین اور دوسری القاموس العصری جو کہ ایک ضخیم سہ لسانی لغت ہے۔ جس میں عربی انگریزی اور اردو کے تقریبا پچھتر ہزار الفاظ درج ہیں۔
عربی زبان میں شرح عقود رسم المفتی پر تحقیق کے علاوہ
دارالعلوم دیوبند کے عربی جریدے "الداعی” میں 5 تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔
مفتی صاحب اب تک مختلف فقہی سیمینار اور کانفرنسوں میں متعدد تحقیقی مقالے پیش کرچکے ہیں، جں کہ سو سے زیادہ مضامین ملک و بیرون ملک کے مختلف رسائل وجرائد اور آن لائن ویب پورٹل پر شائع ہوچکے ہیں۔
آپ نے امریکہ کے مختلف علاقوں، کناڈا، ملیشیا، آسٹریلیا، بنگلہ دیش اور بھارت کے مختلف علاقوں کے علمی ودعوتی اسفار کیے ہیں۔

Surgical Strike

08 Dec, 15:43


📸 Watch this video on Facebook
https://www.facebook.com/share/v/yEFsRKZRf21oERa7/?mibextid=qi2Omg

Surgical Strike

08 Dec, 15:41


یہ وہ ملحد ہے جس کو گزشتہ اتوار کے لائیو سیشن میں انا تھا مگر نہیں آسکا۔
قریبی علاقے میں رہنے کی وجہ سے یہ شخص ہمارے مدرسے میں آیا اور اس سے فیس ٹو فیس بحث ہوئی۔
پورے مناظرے میں اس ملحد نے جگہ جگہ موضوع بدلنے کی کوشش کی اور غیر متعلقہ سوالات کیے۔
وجود باری پر میرے دو دلائل کا کوئی جواب نہیں دیا۔
معتبر سائنسی اقتباسات کو مسترد کر دیا اور شروع میں ہی یہ تسلیم بھی کر لیا کہ الحاد کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
ویڈیو ضرور دیکھیں۔
https://youtu.be/Ir7utAdXYNg?si=xjRB18kY9V_IW7S7

Surgical Strike

08 Dec, 15:40


ڈاکٹر یاسر ندیم واجدی صاحب اور معروف ملحد اویس اقبال کے درمیان خدا کے وجود پر ہونے مکالمہ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ملحد اویس نے دورانِ گفتگو بے ساختہ واجدی صاحب کو کہہ دیا:
"واجدی صاحب خدا کا خوف کریں"
یعنی جس خدا کے انکار پر دلائل دے رہا تھا اسی خدا سے خوف دلا رہا ہے۔ یہی خدا کے وجود کی دلیل ہے کہ وہ پکے ٹھکے ملحدین سے بھی بے ساختہ اپنا وجود تسلیم کروا دیتا ہے۔

Surgical Strike

03 Dec, 04:43


الحمدُ للَّهِ الَّذي بنعمتِه تتمُّ الصَّالحاتُ
یاسر ندیم الواجدی

کل گزشتہ رات اللہ کے فضل وکرم سے اس ناچیز نے تہافت الملاحدہ کورس کا آخری درس دیا اور اس طرح یہ پروگرام دو سال کے بجائے تین سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے اپنے اس حقیر بندے سے یہ خدمت لی۔

لاک ڈاؤن کے زمانے میں، جب اس پروگرام کا اغاز ہوا، تو مدارس وجامعات کے اکثر طلبہ اپنے گھروں میں محصور تھے اور کسی علمی و دینی مصروفیت کے متلاشی بھی تھے، اس لیے جب ہم نے اس کورس کے آغاز کا اعلان کیا، تو اس وقت تقریبا 600 افراد نے اس میں داخلہ لیا تھا، پھر جب لاک ڈاؤن ختم ہوا اور روز مرہ کی مصروفیات شروع ہوئیں، تو یہ تعداد آہستہ آہستہ گھٹ کر 80 کے قریب رہ گئی۔ ان تمام افراد نے تین سال تک پابندی اور محنت سے پڑھ کر اس کورس کو ختم کیا اللہ تعالی انھیں دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے اور الحاد وارتداد کے خلاف سد سکندری بنائے۔ آمین

اس کورس میں ناچیز نے مندرجہ ذیل موضوعات پر تفصیلی دروس دیے ہیں:
مغربی تہذیب کی تفہیم
علمیات (اسٹیمولوجی)
ارتقاء
الہیات
تاریخ تدوین قرآن
قران پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات
سنت وسیرت پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات
لبرلزم
فیمنزم
ہم جنس پرستی
سیکیولرازم
سائنٹزم

ان تمام دروس کی الحمد للہ ریکارڈنگ بھی موجود ہے (جس کو فی الحال پبلک کرنے کا ارادہ نہیں ہے) اور یہ تحریری شکل میں بھی منتقل کر دیے گئے ہیں، اب اس تحریری مواد پر نظر ثانی کا مرحلہ باقی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ یہ کام بھی جلد از جلد مکمل ہو تاکہ رد الحاد پر ایک تفصیلی دستاویز اپ کے ہاتھ میں ہو۔ آمین

Surgical Strike

02 Dec, 04:48


بعض مرتبہ مختصر جواب تفصیلی جواب کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتا ہے۔ ڈیوڈ اتھیرٹن نامی ایک صحافی نے ایک تصویر ٹویٹر پر پوسٹ کی جس میں ایک مسلمان شخص اپنے بچے کے ساتھ پانی میں کھیل رہا ہے، جبکہ ایک خاتون کنارے پر برقع پہنے کھڑی ہے۔ اس نے اس تصویر پر مختصرا یہ لکھا کہ کون سا معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے؟
ہم نے جوابا عرض کیا،
"انسانی معاشرہ
جانور اس چیز کو نہیں سمجھ پائیں گے"

اس جواب سے کافی لوگ سیخ پا ہوئے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ننگاپن جانوروں کی خصوصیت ہے اور اپنے بدن کو ڈھانک کر رہنا انسانوں کی۔
یہ حقیقت پسندانہ مگر تلخ جملہ 24 گھنٹے کے دوران اب تک تقریبا ایک ملین لوگوں کے ذریعے دیکھا جا چکا ہے، 1800 سے زائد لوگ اس پر اپنی رائے دے چکے ہیں، جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو انسانی معاشرے کو نہیں سمجھ پاتے۔
اللہ کا شکر ہے کہ 22 ہزار لوگوں نے اس جملے کو پسند کرکے انسانی معاشرے کی لاج رکھی ہوئی ہے۔

Surgical Strike

30 Nov, 17:00


اظہارِ خیال
یاسر ندیم الواجدی

سلفی حلقے میں کوئی صاحب شیخ محمد رحمانی سنابلی ہیں، جنھوں نے باقاعدہ ایک ویڈیو بناکر میرے اور زید پٹیل صاحب کے عقائد پر گفتگو کی ہے۔ زید پٹیل صاحب کی گمراھی کی بنیاد ان کا کبھی کبھار میرے پلیٹ فارم پر آنا قرار دیا ہے، یعنی وہ میری وجہ سے گمراہ ہیں۔ یہ مسلکی شدت پسندی کا ناسور اگرچہ ہر جگہ اور ہر مسلک میں ہے، لیکن یہ اختلافات اگر اغیار کے سامنے رکھے جائیں اور ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیا جائے تو اغیار کو فورا موقع مل جاتا ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے، گزشتہ کئی سالوں سے ہم نے مرتدین وملحدین اور غیر مسلموں کے سامنے علمی محاذ پر کام کیا ہے، جس کا اثر یہ ہے کہ وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کیسے پلٹ وار کیا جائے۔ اس طرح کی ویڈیوز جو ایک دوسرے کو مسلکی بنیادوں پر گمراہ قرار دیں ان اغیار کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں۔ چناں چہ یہ ویڈیو بھی ان کے ہاتھ لگی اور ان کو اپنی واردات انجام دینے کا موقع مل گیا۔
ہم اپنے چینل پر کبھی بھی مسلکی اختلاف کی بات نہیں کرتے ہیں، الا یہ کہ کوئی نام نہاد گروہ اپنے اپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہو جیسے قادیانی اور مہدوی جماعت، یا وہ مسلمان تو ہو، لیکن لبرل ازم یا اس کی کسی شاخ سے متاثر ہو، تو ایسے افراد اور گروہوں کے تعلق سے ہم اپنی بات ضرور رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ شیخ محمد رحمانی کو عقل سلیم دے۔ انہوں نے جو عقائد میری طرف منسوب کیے ہیں ان میں سے اکثر میرے عقائد نہیں ہیں۔

Surgical Strike

01 Nov, 18:29


https://youtu.be/5991a_8wi9k?si=OI-LsmNFbT-9n7dk

Surgical Strike

22 Jun, 07:21


https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02AD6kxuf4vN1SS62A9oBSLLEhAnuPpM7uqvAYk9ybVvJPyDuyWrb15ZNNQiz7Sxbkl

Surgical Strike

14 Jun, 13:27


دھورو راٹھی اور اچاریہ پرشانت کی طرف سے مورتی پوجا کے حق میں دی گئی دلیل کا ایک عام فہم جواب۔

Surgical Strike

13 Jun, 15:37


دارالعلوم دیوبند کا یہ اعلان انتظامی ہے
یاسر ندیم الواجدی

قومی اور ملی اداروں کی اپنی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں، ان سے اتفاق اور اختلاف دونوں کیے جا سکتے ہیں، جس طرح اتفاق کو خیرخواہی کا نام دیا جاتا ہے حسن نیت پر مبنی اختلاف کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں اپنا تجربہ پیش کرنا چاہوں گا۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلے سے پہلے، میں نے تقریبا دو سال محلہ قلعہ کے ایک استاذ سے انگریزی سیکھی تھی، پھر سال سوم میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا۔ پہلا سال غیر سنجیدگی کا شکار رہا، اس دوران ایک کوچنگ سینٹر میں کچھ دن کمپیوٹر چلانا بھی سیکھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب درسگاہ سے باہر درسی وغیر درسی دینی کتابوں کو ہاتھ لگانے کا خیال بھی نہیں آتا تھا۔ پھر اللہ کے فضل سے، سال چہارم سے کچھ سنجیدگی پیدا ہوئی تو درسی و غیر درسی اوقات میں صرف مطالعہ اور تکرار وغیرہ پر ہی توجہ دی۔ پھر دارالعلوم کی تعلیم سے فارغ ہوکر ہم نے باقاعدہ کالج میں انگریزی سیکھی، پہلے سے موجود بنیاد اور امریکہ کے ماحول کی وجہ سے، کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ آج بھی بڑی تعداد ایسی ہے جو عالمیت کے نصاب سے فارغ ہوکر ملک کے مختلف اداروں میں جا کر انگریزی سیکھتی ہے اور اس زبان میں مہارت پیدا کرتی ہے۔

جب گزشتہ سال دارالعلوم دیوبند میں یہ اعلان کیا گیا کہ ادارے کے تحت ہی طلبہ دسویں کلاس تک کی تعلیم حاصل کریں گے، تو یہ حسرت ابھر آئی کہ یہ نظام ہمارے زمانے میں کیوں نہیں بنایا گیا۔ ( حالانکہ عملی طور پر یہ نظام ابھی بھی موجود نہیں ہے، لیکن اس کی توقع ہے کہ جلد ہی مدارس میں یہ نظام نافذ العمل ہو جائے گا) میں یہ سمجھتا ہوں کہ درس نظامی سے پہلے طالب علم کو ہائی اسکول، یا انٹر تک تعلیم حاصل کرلینی چاہیے، پھر عالمیت کا نصاب شروع کرنا چاہیے۔ مجھے اس کی کمی آج تک محسوس ہوتی ہے۔

عالمیت وفضیلت کا نصاب اگر سنجیدگی سے پڑھا جائے تو درحقیقت طالب علم کے پاس مزید کچھ کرنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی چھ سے سات گھنٹے پر مشتمل لیکچرز نہیں ہوتے، لیکن مدارس میں ابتدائی درجات میں 6 اور وسطی درجات سے سات گھنٹے روزانہ دروس ہوتے ہیں، اس کے بعد تکرار ومطالعہ کے لیے وقت درکار ہے۔

ریسرچ کے مطابق ایک طالب علم اوسطاً چھ سے سات گھنٹے ہی یومیہ تعلیم میں منہمک رہ پاتا ہے۔ لہذا درس نظامی (کہ جس کا بوجھ کالج ویونیورسٹی کی تعلیم سے کہیں زیادہ ہے) کے ساتھ اضافی کورس کرنا درس نظامی کا حق ادا کرنے میں یقینا مخل ہوگا۔ ( استثناء ہر جگہ ہوتا ہے)۔

لہذا یا تو درس نظامی کا بوجھ کچھ کم ہو اور اس میں ترمیمات کی جائیں، یا پھر اس کورس سے پہلے یا بعد میں عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ البتہ دارالعلوم دیوبند کے اس اعلان کو عام میڈیا چینلوں کی طرح کسی زبان کی مخالفت سے، یا فکری انحطاط سے موسوم کرنا مناسب نہیں ہے۔ میں کتنے ہی انگریزی دانوں سے واقف ہوں جن کی فکر تحت الثریٰ میں ہے۔ یہ خالصتا ایک انتظامی مسئلہ ہے اور اس کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔

1,424

subscribers

98

photos

28

videos