بچوں کے لیے کہانیاں

@bacchokeliyekahaniyan


اس چینل کا مقصد بچوں کے سرپرست، مربیان والدین اور اساتذہ وغیرہ کے لیے تربیتی مواد فراہم کرنا ہے۔
اگر آپ کو یہ چینل پسند آئے تو اس کی لنک ضرور شیئر کریں۔
ہمارے چینل کا بوٹ:
@Tarbiyateatfalbot
رابطہ بوٹ:
@Bacchokikahanirabtabot

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 23:49


﴿إِنَّ الْإِنْسانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ﴾
”یقینًا انسان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔“
[سورة العاديات : ٦]

امام حسن بصری رحمہ اللہ (١١٠ھ) فرماتے ہیں:
”مصیبتیں یاد رکھتا ہے اور نعمتیں بھول جاتا ہے۔“

(الشكر لابن أبي الدنيا: ٦٣)

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 21:39


سبق آموز کہانیاں



*یقین کا سفر ۔*
 

حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے میں اسے نماز پڑھتا دیکھ رہا تھا۔ وہ پچیس چھبیس سال کا خوبصورت نوجوان قتل کے مقدمے میں دو دن پہلے ہی یہاں لایا گیا تھا جہاں سے چند دن بعد عدالتی کاروائی کے بعد اسے جیل منتقل کیا جانا تھا۔۔۔ اس کے خلاف کیس کافی مضبوط تھا اس لیے گمان غالب تھا کہ ایک دو پیشیوں کے بعد ہی اسے سزائے موت سنا دی جائے گی۔۔
میں ایک پولیس والا ہوں، اور پہلے دن سے ہی میرا رویہ اور لہجہ اس کے ساتھ کافی سخت رہا تھا۔۔۔لیکن اس کے لبوں پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ وہ مجھے بڑا سمجھتے ہوئے ادب سے اور نرم لہجے میں بات کرتا تھا۔
اور مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن میں ہی اس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا۔
اب وہ سلام پھیرنے  کے بعد دعا مانگ رہا تھا۔۔۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔ وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو۔
دعا کے بعد اس کی نظر مجھ پر پڑی تو اس کے لبوں پر پھر وہی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔ وہ اٹھ  کر میرے پاس آیا اور ہمیشہ کی طرح میرا حال احوال پوچھا۔
آج خلاف معمول میرا لہجہ کافی نرم تھا۔
باتوں کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ کیا واقعی اس نے قتل جیسا جرم کیا ہے۔۔ کیونکہ مجھے اس کی معصومیت سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ قتل جیسا جرم کر سکتا ہے۔
"ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔۔ تو پھر میں ایسا گھناونا جرم کیسے کرسکتا ہوں؟"
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔
"تو پھر؟"
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
"جب اللہ اس دنیا میں کسی کو اختیارات دیتا ہے نا تو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ اختیارات اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔۔۔ وہ ان سب کو اپنا کمال اور حق سمجھ بیٹھتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔ ہمارے علاقے کے ایک بااثر انسان نے قتل کردیا اور اتفاق سے میں وہاں سے چند قدم ہی دور تھا۔ اس نے الزام مجھ پر لگا دیا۔ جھوٹے گواہ بھی تیار کرلیے گئے اور میں یہاں آگیا"
مجھے دکھ سا ہوا۔
"تو تمہارے گھر والون نے کچھ نہیں کیا؟"
"گھر والوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن وہی بات اس معاشرے میں لوگ بھی ڈر کے مارے اسی کا ساتھ دیتے ہیں جو طاقتور ہو"
وہ پھر سے مسکرایا تھا ۔۔
مجھے اس کے سکون کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔۔
"تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ ہو سکتا ہے کچھ دنوں تک تمہیں موت کی سزا سنا دی جائے؟"
"ان شاءاللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ میں نے اس کے آگے اپنی عرضی رکھ دی ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔۔"
اس نے پر یقین لہجے میں جواب دیا۔
میں نے پھر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"میں اپنے اللہ کی بات کررہا ہوں۔۔۔ اسے میری بے گناہی کا علم ہے اور وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا"
اس کے ہر ہر لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی۔
"تمہیں یقین ہے کہ دعا سے کام ہوجائے گا۔؟ اگر نہ ہوا تو۔؟؟"
میں نے پوچھا۔
"جب اس سے مانگا جاتا ہے نا تو پھر شک میں نہیں پڑتے کہ وہ قبول نہیں کرے گا۔۔ بس سب کچھ اس پر چھوڑ کر انتظار کرتے ہیں"
اس کے لہجے میں یقین ہی یقین تھا۔۔۔ میں بس اس کے چہرے کو تکتا رہ گیا کہ اس سے پہلے اللہ پر اتنا یقین شاید ہی کسی میں دیکھا ہو۔

تین دن مزید گزر گئے۔۔ اس دوران اس کے گھر والے بھی اس سے ملنے آئے تھے۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ماں کا رو رو کر برا حال تھا لیکن اس کے سکون میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ وہ مسلسل سمجھاتا  رہا کہ میں نے اللہ کے سامنے عرضی  رکھ دی ہے اسے پتا ہے میں بے گناہ ہوں دیکھ لیجئے گا وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا۔
میں نے اللہ پر اتنا یقین اس سے پہلے صرف پڑھا ہی تھا لیکن کبھی نہیں دیکھا تھا۔میرے دل میں اب اس کے لیے عقیدت کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ شاید اللہ کی محبت ہوتی ہی ایسی ہے جو پتھر دل کو بھی پگھلا دیتی ہے۔
اور پھر جب اسے عدالت میں پیش کیا جانا تھا اس سے ایک دن پہلے ہی عجیب واقعہ ہوا۔
جس شخص نے خود قتل کرکے الزام اس پر لگایا تھا وہ اپنی بیوی اور اکلوتے بچے کے ساتھ گاڑی میں کہیں جارہا تھا کہ اسے ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس کی بیوی اور بچہ تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ اسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔۔۔ کافی گھنٹوں بعد ہوش میں آنے کے بعد اسے بیوی اور بچے کے مرنے کی خبر ملی تو اس کی حالت اور بگڑ گئی۔۔۔
اسی جان کنی کے عالم میں اسے کچھ یاد آیا۔۔۔ اس نے چیخ کر قریب موجود ڈاکٹر کو اس کی ویڈیو بنانے کا کہا۔۔۔ بار بار اصرار پر ڈاکٹر نے نرس کو ویڈیو بنانے کا اشارہ کیا تو اس نے ویڈیو میں بڑی مشکل سے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور اس نوجوان کو بے گناہ قرار دے کر ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی۔۔۔

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 21:39


اس نے ڈاکٹر سے وعدہ لیا کہ وہ یہ ویڈیو ضرور پولیس سٹیشن لے کر جائے گا۔۔۔۔۔ شاید بیوی بچے کے مرنے کے بعد اور اپنی حالت کا علم ہوجانے کے بعد وہ اس گناہ کو ساتھ لے کر مرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
ادھر ویڈیو پولیس سٹیشن پہنچی  ادھر وہ آدمی مرگیا۔۔۔۔

آج عدالت میں اس کی پیشی تھی۔۔ عدالت کے سامنے اس کی بے گناہی کا ناقابل تردید ثبوت ویڈیو کی شکل میں موجود تھا۔۔ لہذا اسے باعزت بری کر دیا گیا۔۔۔
میں کمرہ عدالت میں کھڑا گم سم سا سوچ رہا تھا کہ اللہ ان بندوں کی جو صحیح معنوں میں اس پر ایمان لاتے ہیں ان کی ایسے بھی مدد کرسکتا ہے۔۔۔
اس کی ہتھکڑیاں کھول دی گئی تھیں ماں روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی تھی باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔۔۔
آج اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔۔ شاید اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے ان حالات میں تنہا نہیں چھوڑا تھا اور اس طرح سے اس کی مدد کی تھی جس کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا۔۔
اور مجھے یاد ہے مجھ سے ملنے کے بعد جب وہ جانے لگا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسی بات بتا کر جائے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں۔۔
تو اس کے الفاظ تھے۔۔
"اللہ سے بڑھ کر کوئی ہمدرد اور دوست نہیں۔۔۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے اسی سے مانگیں اور پھر یقین بھی رکھیں کہ وہ قبول کرے گا۔۔۔ وہ محض کسی سوچ یا تصور کا نام تو ہے نہیں۔۔۔ بلکہ وہ تو ایک زندہ حقیقت ہے۔۔۔ وہ اس وقت بھی ہمارے ساتھ ہے۔۔ شہ رگ سے بھی قریب۔۔ وہ ہمیں دیکھتا رہتا ہے کہ مشکل میں ہمارا رد عمل کیا ہوگا۔۔ اور جو اس سے مانگ کر شک میں نہیں پڑتے، اللہ بھی انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔۔۔ ایسے طریقوں سے اس کی مدد کرتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے"
وہ اب واپس جارہا تھا اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں آج ہی مسلمان ہوا ہوں یا جیسے میں نے آج اپنے اللہ کو پالیا ہے۔


سبق آموز کہانیاں

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 21:39


بد گمانیوں سے بچیں ۔


جاوید چودھری کی یادگار تحریر .

=======================

میرا ایک دوست راولپنڈی میں رہتا تھا‘ یہ دوست مجھ سے عمر میں سینئر تھا‘ شادی شدہ اور بال بچوں والا بھی‘ میں سردیوں کے دنوں میں اس سے ملاقات کے لیے راولپنڈی آ گیا‘ ہمارا پروگرام تھا ہم دونوں چند دن راولپنڈی رہیں گے‘ اس کے بعد برف باری دیکھنے کے لیے مری چلے جائیں گے اور میں ایک ہفتہ گزار کر واپس بہاولپور آ جائوں گا‘ میں دس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد شام کے وقت راولپنڈی پہنچا‘ شہر شدید سردی کی لپیٹ میں تھا‘ میں رکشہ لے کر دوست کے گھر پہنچ گیا‘ اس نے دروازے پر میرا استقبال کیا‘ میں گرم جوشی سے اس سے لپٹ گیا‘ وہ بھی مجھے گلے ملا لیکن میں نے محسوس کیا اس کے معانقے میں گرم جوشی نہیں‘ وہ مجھے اپنی بیٹھک میں لے گیا‘ اس نے چائے کا بندوبست کیا اور میرے سامنے بیٹھ گیا‘ میں اس سے بلا تکان گفتگو کرتا رہا مگر وہ گفتگو میں میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا‘ وہ بات چیت کے دوران کھو جاتا تھا‘ میں اس کی غیر حاضر دماغی پر خاموش ہو جاتا تو اسے بڑی دیر تک میری چپ کا اندازہ نہیں ہوتا تھا‘ اس نے میرے سفر کے بارے میں بھی نہیں پوچھا‘ میرے لیے اس کا یہ ٹھنڈا رویہ پریشان کن تھا‘ میری پریشانی اس وقت مزید بڑھ گئی جب اس نے مجھ سے پوچھا ’’ آپ خیریت سے راولپنڈی آئے ہیں‘‘ میرے لیے اس کا سوال بم ثابت ہوا کیونکہ میں اس کی دعوت پر راولپنڈی آیا تھا‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ اس نے دوسرا سوال پوچھا ’’ آپ کتنے دن راولپنڈی میں ہیں اور کہاں رہیں گے‘‘ میری پریشانی انتہا کو چھونے لگی کیونکہ میں اس کے گھر ٹھہرنے کے لیے آیا تھا‘ میرا سامان تک اس کے ڈرائنگ روم میں پڑا تھا‘ میں پریشانی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا اور وہ کھوئے ہوئے انداز میں مجھے گھورتا رہا‘ مجھ سے کوئی بات نہ بن پائی تو میں نے جواب دیا ’’ میں ویسے ہی ایک دن کے لیے راولپنڈی آیا ہوں‘ کل واپس چلا جاؤں گا اور ہوٹل میں رہوں گا‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور نہایت روکھے انداز میں کہا ’’ آپ اگر مزید ایک دن رک جائیں تو ہم کھانا اکٹھا کھائیں گے‘‘ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ چائے کا کپ میز پر رکھا‘ اپنا بیگ اٹھایا اور بیٹھک سے باہر نکل گیا‘وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر مجھے جاتے ہوئے دیکھتا رہا‘ اس نے مجھے خدا حافظ تک کہنا مناسب نہ سمجھا‘
میں شدید غصے میں تھا‘ میں وہاں سے مری روڈ پر آیا‘ وہاں سستاسا ہوٹل لیا‘ نیند کی گولی کھائی اور گہری نیند سو گیا۔ میں اگلے دن بہاولپور واپس آ گیا مگر مجھے دوست کے رویے نے اندر سے بری طرح توڑ دیا‘ میں اس شخص کو دنیا کا بدتمیز ترین‘ غیر مہذب اور مطلبی سمجھنے لگا‘ میں اپنے آپ کو بے وقوف بھی سمجھتا تھا اور اس بے وقوفی پر اپنے اوپر لعن طعن بھی کرتا تھا‘ میں دو ڈھائی سال تک اپنے ملنے والوں کو یہ واقعہ سناتا رہا اور لوگ مجھ سے ہمدردی اور اس شخص سے نفرت کرتے رہے‘ آپ بھی اگر اس صورتحال کا تجزیہ کریں تو آپ کو بھی مجھ سے ہمدردی اور اس شخص سے نفرت ہو جائے گی۔ میں طویل عرصے تک اپنے دل میں اس دوست کے خلاف نفرت پال کر پھرتا رہا لیکن پھر اس نفرت کا عجیب ڈراپ سین ہوا‘ میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر صحافت میں آگیا اور ایک دن وہ دوست ہمارے ایک مشترکہ دوست کے ساتھ میرے دفتر آ گیا‘ میں اسے دیکھتے ہی غصے سے ابل پڑا مگر وہ میرے گلے لگا اور نرم آواز میں بولا ’’آپ اپنے غصےکو چند منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ دو اور میری بات سن لو‘ اگر تم اس کے باوجود مجھے غلط سمجھو تو پھر تم اپنی نفرت کا سلسلہ جاری رکھ لینا‘ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ وہ بولا ’’ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں‘ میری چھ بہنیں تھیں‘ والدین نے میری شادی 20 سال کی عمر میں کر دی‘میرے والدین پوتا چاہتے تھے لیکن شاید اللہ کو منظور نہیں تھا‘ میرے ہاں اوپر تلے تین بیٹیاں پیدا ہو گئیں مگر میں مایوس نہ ہوا‘ میں اپنے والدین کی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا‘ میں25 سال کی عمر میں چوتھی بار باپ بن گیا ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا‘ میرا پورا خاندان خوش ہو گیا‘ میرا بیٹا خاندان بھر کی گود میں پل کر دو سال کا ہوا لیکن پھر اسے تیز بخار ہوا اور وہ میری گود میں بیٹھا بیٹھا فوت ہو گیا‘ میرے پورے خاندان کی جان نکل گئی‘‘ وہ خاموش ہوا اور میری طرف دیکھنے لگا‘ میرا غصہ ہمدردی میں بدلنے لگا‘ اس نےپوچھا ’’ آپ جانتے ہیں وہ بچہ کس دن فوت ہوا تھا‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ وہ بولا’’ وہ بچہ عین اس وقت فوت ہوا جب آپ رکشے سے اپنا سامان اتار رہے تھے‘‘ میری کنپٹی میں آگ لگ گئی‘ اس نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ’’ میرے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ میں آپ کو اپنے دکھ میں شریک کر لیتا‘ آپ بھی ہمارے ساتھ سوگوار ہو جاتے اور آپ کی چھٹیاں خراب ہو جاتیں . .

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 21:39


‘ دوسرا‘ میں آپ سے یہ خبر چھپا لیتا‘ آپ کو ہوٹل جانے پر مجبور کر دیتا, آپ مجھ سے وقتی طور پر ناراض ہو جاتے لیکن آپ کی چھٹیاں اور وقت برباد نہ ہوتا‘ میں دوسرے آپشن پر چلا گیا‘ میں نے اپنے خاندان سے کہا میرا مہمان آیا ہے آپ کے رونے کی آواز بیٹھک تک نہیں جانی چاہیے‘ میں اسے واپس بھجواتا ہوں اور ہم اس کے بعد اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو اطلاع دیں گے‘‘وہ رکا‘ اس نے لمبی سانس لی اور بولا’’ میں نے آپ کے لیے ان حالات میں چائے کیسے تیار کروائی آپ اندازہ نہیں کر سکتے‘ میری بیوی‘ میری ماں اور میری بہنیں اندر منہ پر سرہانے رکھ کر رو رہی تھیں اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا‘ میں بار بار اندر جاکر انھیں چپ کرانے کی کوشش بھی کررہا تھا‘ میں اس وقت گہرے صدمے میں تھا چنانچہ مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں‘ آپ جب ناراض ہوئے اور آپ نے اپنا سامان اٹھایا تو میری ٹانگیں بے جان ہو گئیں‘ میں آپ کے ساتھ اُٹھ کر باہر تک نہ جاسکا‘ میں کرسی پر بیٹھا رہا‘ آپ جوں ہی گلی سے باہر نکلے‘ میرے اندر سے چیخ نکلی اور اس کے بعد میرے پورے خاندان نے ماتم شروع کردیا‘ یہ گہرا صدمہ تھا‘ اس صدمے نے پہلے میری ماں کی جان لی اور اس کے چند ماہ بعد میرے والد بھی فوت ہو گئے‘ پھر میری بیوی بیمار ہوگئی اور میں پے درپے صدموں کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں اب ذرا سا سنبھلا ہوں تو میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے آپ کے پاس آگیا‘‘۔ وہ خاموش ہوا تو میری آنکھیں برسنے لگیں‘ میں اس کے صبر‘ اس کی ہمت پر حیران تھا‘ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی نعش اندر چھوڑ کرمیری خدمت کرتا رہا اور میں ڈھائی سال تک اسے مطلبی‘ جاہل‘ ظالم اور بدتمیز سمجھتا رہا‘ میں اس سے نفرت کرتا رہا.

ہم دوسروں کے بارے میں اتنی دیر میں رائے قائم کر لیتے ہیں جتنی دیر میں مرغی کا انڈا بوائیل نہیں ہوتا۔

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 21:39


ایک علمی لطیفہ

ایک شیعہ عالمہ مجھ سے کہنے لگی ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے

میں نے کہا کیسے؟

کہا: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ [۸۳] سورۃ الصافات
ترجمہ: اور بے شک ابراہیمؑ اس کے شیعہ میں سے ہیں

میں نے کہا آپ بھی مان جائیں گی، اس نے کہا کیسے؟ میں نے کہا:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [۱۰] وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ [۱۱] سورۃ الحجر
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے جتنے شیعوں میں جتنے بھی رسول بھیجے اور جو بھی رسول آتا وہ ان کا مذاق اڑاتے

إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا [۴] سورۃ القصص
ترجمہ: بے شک فرعون نے سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو شیعہ بنا رکھا تھا

مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا [۳۲] سورۃ الروم
ترجمہ: ان لوگوں میں سے جنہوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور خود بھی شیعہ ہوگئے

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْ [۱۵۹] سورۃ الانعام
ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے وہ شیعہ تھے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيًّا [۶۹] سورۃ مريم
ترجمہ: پھر ہر شیعہ سے ایسے ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو رحمن سے سرکشی کرتے رہے

یہ سن کر وہ عالمہ ہنستے ہوئے کہنے لگی: میں تو مذاق کر رہی تھی 😅

منقول

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 21:39


درد جب دل میں ہو تو ۔۔۔۔۔۔


میں ابهی مریضوں سے فارغ ہوا ہی تها کہ وہ بچے کو اٹهائے بوکهلائی ہوئی میرے کلینک میں آئی .پهولی ہوئی سانسیں بتا رہی تهیں کہ پیدل آئی ہے .اپنے حلیئےسے بهی بے نیاز لگتی تهی .بچے کو بیڈ پر لٹا کر تیزی سے میری طرف مڑی ، اس کے کچهہ کہنے سے پہلے میں جلدی سے اٹها اور بچے کا معائنہ کرنے لگا .گلے میں انفیکشن کی وجہ سے اسے تیز بخار تها جس کے سبب اس پر غنودگی طاری تهی .
میں نے مکمل چیک اپ کے بعد اسے ضروری میڈیسن دی اور انجیکشن شامل کر کے ڈرپ لگا دی .اس تمام وقت وہ بے چینی سے بچے کے ارد گرد گهومتی رہی . میں نے کہا " اس کے قریب کرسی پر بیٹهہ جاو ،ڈرپ ختم ہونے تک
ان شاء اللہ اس کا بخار اتر جائے گا ."
بیٹهہ کر بهی اسے سکون نہ ملا .آئتیں پڑهہ پڑهہ کر اس پر دم کرتی رہی . بار بار اس کے ماتهے پر ہاتهہ رکهتی ،اس کا منہ چومتی اور اپنے آنسو صاف کرتی رہی ، تبهی میری نظر اس کے پاوں پر پڑی .جس سے خون رس رہا تها ،
میں نے پوچها ،"تمہارے پاوں کو کیا ہوا  "جهک کر دیکها اور بے دلی سے مسکرا کر بولی .
"روڈ پر بہت رش تها ، سواری کے انتظار میں دیر ہو جاتی ، اس لئے بهاگی چلی آئی " میرے گهر سے بہت دور تو نہیں ہے آپ کا کلینک !
لیکن یہ خون ؟ میں نے کہا .
سر جهکا کر شرمندہ سی بولی ،"گهر سے نکلتے ہوئے جوتی بدلنے کا خیال نہیں رہا ،گلی کی نکڑ پر موچی بیٹهتا ہے نا ،اس کی کوئی کیل اس پلاسٹک کی جوتی میں آگئی ہو گی "
پاوں اٹها کر دیکها تو واقعی ایک بڑی کیل جوتی سے آرپار ہو گئی تهی .جس نے اس کے تلوے میں اچها خاصا زخم کر دیا تها .میں نے نرس کو پاوں صاف کر کے پٹی کرنے کو کہا .
جب بچے کی حالت سنبهلی تو سکون اس کی روح میں سما گیا .اسے اٹها کر جانے لگی تو میں نے کہا .
"تمہارے پاوں میں اتنا گہرا زخم ہے ،درد نہیں ہو رہا کیا ؟"
بچے کو سینے سے لگا کر چومتے ہوئے بولی .
"ڈاکٹر صاحب ! درد جب دل میں ہو تو پاوں میں کہاں رہتا ہے "



BemiSaaal

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 21:28


پہلی بار کوئی موٹیویشنل تحریر دل کو لگی ۔۔۔۔۔آپ بھی استفادہ کریں ۔

"مریم نے 1 گھنٹے میں 10 کلو میٹر فاصلہ طے کیا حارث نے ڈیڑھ گھنٹے میں یہی فاصلہ طے کیا... دونوں میں سے کون تیز رفتار اور صحت مند ہوا ؟
یقیناً ہمارا جواب ہوگا... "مریم "

اگر ہم کہیں کہ مریم نے یہ فاصلہ ایک تیار ٹریک پر طے کیا جب کہ حارث نے ریتیلے راستے پر چل کر طے کیا تب؟
تب ہمارا جواب ہوگا... "حارث"

لیکن ہمیں معلُوم ہوا کہ مریم کی عُمر 50 سال ہے جب کہ حارث کی عُمر 25 سال تب؟
ہم دوبارہ کہیں گے کہ "مریم "

مگر ہمیں یہ بھی معلُوم ہوا کہ حارث کا وزن 140 کِلو ہے جب کہ مریم کا وزن 65 کِلو تب؟
تب ہم کہیں گے "حارث"
جُوں جُوں ہم مریم اور حارث سے متعلق زیادہ جان لیں گے اُن میں سے کون بہتر ہے تو اُن سے متعلق ہماری رائے اور فیصلہ بھی بدل جائے گا.
ہم بہت سطحی چیزیں اور بہت جلدی میں رائے قائم کرتے ہیں جِس سے ہم خُود اور دُوسروں کے ساتھ اِنصاف نہیں کر پاتے ہیں.
اِسی طرح خُود کو دُوسروں کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے ہم میں سے بہت سارے مایُوس ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر ایک کا ماحول مختلف ہوتا ہے... مواقع مختلف ہوتے ہیں... زِندگی مختلف ہوتی ہے... وسائل مختلف ہوتے ہیں... مسائل مختلف ہوتے ہیں.
آپ اپنے کِسی ہم عُمر سے کِسی کام میں پیچھے ہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کامیاب اور آپ ناکام ہیں' وہ افضل اور آپ کمتر ہیں... مُمکن ہے آپ کو مُیسر مواقع اور درپیش حالات کو دیکھا جائے تو آپ اُن سے بہت بہتر ہوں... زِندگی کی دوڑ میں خود کو کبھی کمتر نہ سمجھیں' احساس کمتری شکست کی پہلی سیڑھی ہے..!! "

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 17:53


*ممبئی میں انتشار پھیلانے کے پیچھے گہری چال ہے؟*
بقلم: مفتی انورخان سرگروہ
_مؤرخہ ۲۳ /جنوری ۴۲۰۲؁_

آجکل بھاجپا کا زور یوپی اور گجرات میں ہے،
مگر اجودھیا کے جشن میں اس نے ممبئی میں انتشار پھیلانا چاہا،
اس کے پیچھے کئی مقاصد کارفرما ہیں.

ممبئی ایک طرح سے "منی انڈیا" ہے،
جہاں ہر ریاست کی طاقتور نمائندگی پائی جاتی ہے،
مہاراشٹر کی راجدھانی ہونے کے باوجود ممبئی میں مہاراشٹر کا تناسب ۳۵ فیصد سے زیادہ نہیں ہے،
اور ممبئی کی معیشت پر ہر ریاست کے اثرات کو صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے،
چنانچہ ممبئی میں چلنے والی آوازیں ملک بھر میں تیزی سے پھیلتی ہیں،
خیر کی طرح شر بھی سرعت سے پھیلتا ہے،
اسی لئے بھاجپا نے اجودھیا کی جذباتی تقریب کے دوران ممبئی کو ٹارگیٹ کیا،
اور آگ لگانے کی کوشش کی ہے.
چنانچہ اس نے یوپی اور گجرات کے بجائے شندے کی کٹھ پتلی سرکار کے کندھے پر سوار ہوکر ممبئی میں فساد کا ارادہ کیا ہے،
اور مہاراشٹر میں بےچینی کا ماحول بناکر سیاسی مقاصد بھنانے کی کوشش کی ہے.

بھاجپا کی جانب سے سڑکوں پر تانڈو مچانے اور مسلم بستیوں کے اندر گھس کر غنڈہ گردی کرنے کا منشا یہ ہےکہ ممبئی میں فتنہ وفساد کا ماحول تیار کیا جائے،
اسی بدنیتی سے بھاجپائی دہشتگردوں نے گاڑیوں پر جھنڈے لگائے،
اور جان بوجھ کر لہراتے ہوئے مسلمانوں کی بستیوں کے چکر کاٹنے لگے،
اور طوفانِ بدتمیزی کا بازار گرم کردیا،
یہ ساری ورزشیں اپنوں میں سورما بننے اور مسلموں کو نیوتہ دینے کے لئے تھیں،
یہ اوچھی سیاست اسلئے بھی کی گئی کہ اپنے فسادی حلقوں میں یہ مشتہر کرسکیں کہ دیکھو ہم نے مسلمانوں کو محلوں کے اندر گھس کر ذلیل کیا ہے،
یوں بھی ان دنوں بھاجپا کے سَر میں گھوس کی طرح گھسنے کا سودا سمایا ہوا ہے.

سارا پلان مگر الٹا پُلٹا ہوگیا،
کیونکہ ممبئی کے جاندار مسلمانوں نے شاندار مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے،
ان کی غیرت وحمیت کو دیکھ کر بھاجپائی ٹولہ ہکاّ بکاّ ہے،
وہ لوگ گاڑیوں میں مارچ پاس کرتے ہوئے مسلمانوں کے سوفیصد علاقوں سے گزرنے لگے،
اور شیطانی نعروں سے مسلمانوں کو دعوتِ مبارزت دیتے رہے،
اس کے ردعمل میں مسلمان نوجوان سینہ سپر ہوکر سامنے آئے،
اور فسطائیوں کو رگید کر رکھ دیا،
چنانچہ انہیں الٹے پاؤں ذلیل وخوار ہوکر پیچھے ہٹنا پڑا ہے.

ممبئی کی بستیوں میں جابجا پہرہ داری سے دہشتگردوں کے حوصلے پست ہوگئے،
اور مارچ پاس پر مبنی رتھ یاترا کی سیاست ناکام ہوگئی،
اسی لئے وہ جزبز ہیں اور میرا روڈ میں تماشا کررہے ہیں،
اور دوبارہ پلٹ وار کرکے اپنے اہنکار کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں.

اس موقع پر لازم ہےکہ اپنی طرف سے ادنیٰ قسم کے شر کو بھی ہوا نہ دی جائے،
ہاں البتہ علاقہ کے امن کو یقینی بنانے کے لئے بدستور مزاحمت جاری رکھی جائے.

بھاجپا کے پلان کے برخلاف مسلم بستیوں میں رتھ یاترا نما مارچ پاس کی کوششیں ناکام ہوئیں،
چنانچہ خطرہ ہےکہ بھاجپائی عناصر کی جانب سے لوکل ٹرینوں میں مسلمانوں کو اکسایا جائے،
چونکہ لوکل ٹرینیں ممبئی کی شہ رگ ہے،
اور مضافاتِ شہر سے کثیر تعداد میں مسافر لوکل سے سفر کرتے ہیں،
اسلئے لوکل میں بھڑکانے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے،
ماضی کے فسادات میں بھی لوکل ٹرین کے تجربات رہے ہیں،
لوکل میں دشمن کی گھٹیا فقرہ بازیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیں،
اور فقرہ بازی کے جواب میں صبر سے کام لیں،
نیز اپنے بھائیوں کو آپے سے باہر ہونے سے روکیں،
اور بہتر ہےکہ کچھ عرصہ ٹولیوں کی شکل میں سفر کریں،
جو ممبئی لوکل کے عرف میں داخل ہے.

ملحوظ رہےکہ یہ اوچھی حرکتیں جو بھاجپا کی طرف سے ہورہی ہیں،
یہ اس کی طاقت کا مظہر بالکل نہیں ہیں،
بلکہ یہ کم ظرف کی کمزوری اور خوفزدہ نفسیات کا منہ بولتا ثبوت ہے،
ممبئی سے کوسوں دور اجودھیا میں تقریب کے دوران مہاراشٹر میں فسطائیت پھیلانے کی جو درگت بنی ہے،
اس سے پارٹی کا پلان اور اس کی فسادی ساکھ بری طرح زخمی ہوئی ہے.

میرا روڈ اور دیگر علاقوں کی طرح یہ بدتہذیب دہشتگرد اپنی گاڑیوں سے مارچ پاس کرتے ہوئے ملت نگر بھی آئے،
اور اندر سے گزرنے پر اصرار کرنے لگے،
تب ملت نگر کے غیّور اور بہادر نوجوانوں نے انہیں رگید کر رکھ دیا،
اور ذلیل ورسوا کرکے نکال باہر کیا،
اور مثبت علامت یہ ہےکہ وہاں کے اصلاح پسند اور بااثر امامِ نے باحمیّت نوجوانوں کی مزاحمت کی سراہنا کی،
اور دہشتگردوں کےخلاف غیرت وحمیّت کے مظاہرہ پر ان کے نام مبارکباد کا پیغام جاری کیا.

شریعت میں احتیاط یہ ہےکہ اپنی طرف سے دشمن کو اکسایا نہ جائے،
مگر وہ کھلے سانڈ کی طرح تم پر چڑھ دوڑے،
تو سینگ پکڑ کر سواگت تو بنتا ہے،
مطلب یہ کہ موذی جانور اگر جنگل کے چکر کاٹ رہا ہے تو اس کی مرضی ہے،
مگر وہ آپ کے گھر میں دّر آئے تو اسے کچلنا احتیاط ہے،
"بےوجہ دشمن سے بھڑجانے کی تمنا مت کرو،
مگر وہ تم پر چڑھ دوڑے تو ڈٹ کر مقابلہ کرو."

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 17:53


تقسیمِ ہند کے بعد ہر طرف ہو کا عالم تھا،
فتنہ وفساد کا دور دورہ تھا،
یہانتک کہ ملک کی تقسیم کے دس برسوں کے بعد بھی مسلمانوں پر دہشتگردی کے حملے ہوتے رہے.

ایسے خونچکاں ماحول میں رائےپور کی خانقاہِ میں اکابرِ وقت نے مزاحمت کے راستے پر اتفاق کیا تھا،
جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنی جانب سے اشتعال انگیزی سے بچیں،
اور فسادی حملہ آور ہوں تو ڈٹ کر مقابلہ کریں،
آج ۲۲ /جنوری ۴۲۰۲؁ ہے اور اس عہد میں بھی وہی راستہ مشعلِ راہ ہے.

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 17:51


بابری مسجد کی شہادت،
رام مندر کے افتتاح کے موقع پر سنجیدہ اور فکرمند احباب کی خدمت میں... جدید درس قرآن سے

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 17:50


مطالعہ میں معاون پانچ امور:
۱- مطالعہ کا وقت متعین کیجیے۔
۲- مطالعہ کے وقت میں سوشل ویب سائٹس سے دور رہیے۔
۳- مطالعہ کے شوقین دوست بنائیے۔
۴- روزانہ مطالعہ کردہ صفحات نوٹ کیجیے۔
۵- دورانِ سفر، مطالعہ کی عادت ڈالیے۔

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 16:55


https://t.me/Aapkmasailkahal/5426

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 09:46


تحفۃ الہند اور تقویۃ الایمان

حضرت مولانا عبیداللہ سندھی لکھتے ہیں کہ:

سب سے پہلے جس کتاب نے مجھے اسلام کے متعلق صحیح واقفیت دی اور ہندو سوسائٹی میں رہ کر میں سولہ برس کی عمر سے پہلے مسلمان ہوگیا، وہ” تحفۃ الہند“ہے۔ تحفۃ الہند کے میرے ہم نام مؤلف نے ہندو مذہب کے مشرکانہ عقائد و رسوم کو نقل کرنے کے بعد ہندوؤں کی طرف سے ایک اعتراض نقل کیا ہے کہ مسلمانوں میں بھی مشرکانہ اعمال و رسوم پائے جاتے ہیں؟ اس کا جواب مؤلف نے مختصر طریقے پر یہ دیا ہے کہ ہم نے ہندو مذہب کے متعلق جو کچھ کہا ہے، وہ ان کی مستند کتابوں سے ماخوذ ہے لیکن اس کے جواب میں جو کچھ پیش کیا جاتا ہے، وہ اسلام کی مستند کتابوں سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اعمال و رسوم ہیں، جن کا اسلام ذمے دار نہیں ہے اور قرآن و حدیث سے ان کی کوئی سند پیش نہیں کی جاسکتی۔

اس موقع پر میرے ساتھی کو (جو میری طرح نو مسلم تھے) توجہ ہوئی کہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ کیا واقعی اسلام کی مستند کتابیں اس مسئلے میں بالکل بے داغ ہیں اور ان میں ان اعمال و رسوم کا کہیں ثبوت نہیں؟ اس موقع پر ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں صرف قرآن و حدیث کے حوالے سے اسلام کی توحید پیش کی گئی ہو۔خوش قسمتی سے تحفۃ الہند کے بعد جو دوسری کتاب ہمارے ہاتھ میں آئی وہ مولانا اسماعیل شہید کی”تقویۃ الایمان“ تھی جو اس سوال کا جوابِ شافی تھی اور جس سے ہم کو معلوم ہوگیا کہ اسلام کی توحید بالکل خالص ہے اور قرآن و حدیث مسلمانوں کے ان اعمال و رسوم سے بالکل بری ہیں۔

(مشاہیرِ اہلِ علم کی محسن کتابیں :٢٩،مط:معارف پریس اعظم گڑھ)

ناقل :ابوسعد چارولیہ

https://t.me/MahnamaAlNakhil

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 09:32


*کلمہ شہادت*


عجیب قیامت کا منظر بپا تھا ہر طرف آگ و خون کا منظر تھا ہر شے پر جیسے تباہی چھا گئی ہو۔ قیامت صغریٰ کا منظر۔۔۔۔ چند منٹوں پہلے اپنے گھروں میں پر سکون لوگ قدرتی آفت کا شکار تھے ہر طرف آگ و خون کا منظر تھا۔ ہر نفس کو اپنی پڑی تھی کہ کیسے وہ اس وحشت ناک حالت سے خود کو نکالے۔
فیس بک پر اسکرولنگ کرتے ہوئے ایک عبرت نظر سے گزری انسان کے پاس بہترین متاع ایمان اور اس کے نیک اعمال ہیں۔ اسکرول کرتے ہوئے وہی آگ و خون کا منظر۔ ترکی میں زلزلے سے متعلق پوسٹ اور ویڈیوز لوگ دھڑا دھڑ شیئر کر رہے تھے۔
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
وہی قیامت صغریٰ کے مناظر۔ اسی ایک ویڈیو میں ایک شخص اپنے آدھے دھڑ سے لٹکے بیٹے کو کلمہ شہادت تلقین کر رہا تھا۔ یہی تو ہے اصل متاع، فلاح اخروی کی نوید۔
کسی کی موت جنازے پر جائیں تو قریبی رشتہ دار یہی بات بتا رہے ہوتے ہیں کہ آخری لمحے زور زور سے کلمہ پڑھ رہے تھے بآواز بلند اپنے رب کو پکار رہے تھے خدانخواستہ کسی کی موت اس کے رشتے داروں کے قریب نہ ہو یا مرتے وقت کوئی موجود نہ ہو تو لوگ اس سے متعلق غالب گمان رکھتے ہیں کہ یقینا کلمہ پڑھا ہوگا۔ وہ کلمہ جس کی شہادت مومن کو اپنی زندگی کے ہر لمحے دینی ہے۔ کیا مومن زندگی کے ہر لمحے یہ شہادت دیتا ہے ؟ یہ ایک سوال ہے، اور اس سوال کے جواب میں معاشرے کی زندگی کا راز مدفن ہے۔ یہی تو ہے وہ خوشحالی کی نوید جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عرب خصوصاً قریش کو دی تھی کہ تم مجھ سے ایک کلمہ لے لو عرب و عجم تمہارے زیر نگین آجائیں گے۔
کلمہ شہادت کا اقرار کرکے نبی اکرم کی شریعت کو مان کر زندگی اس کے مطابق ڈھال لیں تو معاشرے سے تمام برائیوں کا خاتمہ ہوجائے۔زندگی کے سارے دکھ سکھ میں بدل جائیں۔ قناعت کی عادت بن جائے معاشرے سے کرپشن، لوٹ مار اور بد عنوانیوں کا خاتمہ ہو جائے۔
جس کلمے کو زندگی میں رائج کرنے اور عمل پر ابھارنے کی توفیق نہیں ملتی، اس کی توفیق ہم آخری وقت میں کیوں چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ دل کے کسی کونے میں ہم نے یہ بات چھپا کر رکھی ہے کہ یہی تو ہے کامیابی کا راز۔ تو اس کامیابی کے راز سے دنیا کی ترقی کے دروازے کیوں نہیں کھول رہے؟ کیوں مسلم امہ در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے؟ کیوں غیر کے آگے سرنگوں ہیں؟ کیوں لب سلے ہیں؟ حکمران خاموش ہیں؟ مسلم اقوام پر صف ماتم بچھ جاتا ہے کہ جب قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے، رسول پاک کے نام نامی ناموس رسالت کی توہین کی جسارت کی جاتی ہے۔ وہی کلمہ جسے مرتے وقت پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے کاش کہ جیتے جی اس کا حق ادا کر دیا جائے۔
آخر میں ترکی اور شام میں زلزلے کی آفت کے شکار تمام مرحومین کے لیے مغفرت کی دعا۔ اللہ پاک اس مشکل گھڑی میں تمام مسلمان بھائی بہنوں کا حامی و ناصر ہو۔

*INSIGHT*

بچوں کے لیے کہانیاں

20 Jan, 08:25


❼ Umar ubaidullah
https://youtube.com/shorts/rlLJ1_guVsA?feature=share

❽ Muslim maulana suhail mazahiri
https://youtube.com/shorts/n3TxAhG7_kc?feature=share

❾ Hasan salim shaikh
https://youtube.com/shorts/HtJFu4_kuzw?feature=share