‘ دوسرا‘ میں آپ سے یہ خبر چھپا لیتا‘ آپ کو ہوٹل جانے پر مجبور کر دیتا, آپ مجھ سے وقتی طور پر ناراض ہو جاتے لیکن آپ کی چھٹیاں اور وقت برباد نہ ہوتا‘ میں دوسرے آپشن پر چلا گیا‘ میں نے اپنے خاندان سے کہا میرا مہمان آیا ہے آپ کے رونے کی آواز بیٹھک تک نہیں جانی چاہیے‘ میں اسے واپس بھجواتا ہوں اور ہم اس کے بعد اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو اطلاع دیں گے‘‘وہ رکا‘ اس نے لمبی سانس لی اور بولا’’ میں نے آپ کے لیے ان حالات میں چائے کیسے تیار کروائی آپ اندازہ نہیں کر سکتے‘ میری بیوی‘ میری ماں اور میری بہنیں اندر منہ پر سرہانے رکھ کر رو رہی تھیں اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا‘ میں بار بار اندر جاکر انھیں چپ کرانے کی کوشش بھی کررہا تھا‘ میں اس وقت گہرے صدمے میں تھا چنانچہ مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں‘ آپ جب ناراض ہوئے اور آپ نے اپنا سامان اٹھایا تو میری ٹانگیں بے جان ہو گئیں‘ میں آپ کے ساتھ اُٹھ کر باہر تک نہ جاسکا‘ میں کرسی پر بیٹھا رہا‘ آپ جوں ہی گلی سے باہر نکلے‘ میرے اندر سے چیخ نکلی اور اس کے بعد میرے پورے خاندان نے ماتم شروع کردیا‘ یہ گہرا صدمہ تھا‘ اس صدمے نے پہلے میری ماں کی جان لی اور اس کے چند ماہ بعد میرے والد بھی فوت ہو گئے‘ پھر میری بیوی بیمار ہوگئی اور میں پے درپے صدموں کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں اب ذرا سا سنبھلا ہوں تو میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے آپ کے پاس آگیا‘‘۔ وہ خاموش ہوا تو میری آنکھیں برسنے لگیں‘ میں اس کے صبر‘ اس کی ہمت پر حیران تھا‘ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی نعش اندر چھوڑ کرمیری خدمت کرتا رہا اور میں ڈھائی سال تک اسے مطلبی‘ جاہل‘ ظالم اور بدتمیز سمجھتا رہا‘ میں اس سے نفرت کرتا رہا.
ہم دوسروں کے بارے میں اتنی دیر میں رائے قائم کر لیتے ہیں جتنی دیر میں مرغی کا انڈا بوائیل نہیں ہوتا۔