🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹 @naseehataamozwaqiaat Channel on Telegram

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

@naseehataamozwaqiaat


اس چینل کا مقصد عمدہ قسم کے نصیحت آموز واقعات و حکایات کو چن کر یہاں اکھٹا کرنا ہے تاکہ ان کو پڑھ کر عبرت اور نصیحت حاصل ہو۔ ثواب کی نیت سے صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے یہاں سے کچھ بھی کاپی کرکے آگے ارسال کرنے کی اجازت ہے تبدیلی کیے بغیر کریں تو بہت کرم ہوگا۔

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹 (Urdu)

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹 چینل ایک معقول تعلیمی اور تربیتی مقام ہے جہاں آپ مختلف نصیحت آموز واقعات اور حکایات پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو مختلف اہم مواقع اور واقعات کی نصیحت دی جائے گی تاکہ آپ ان سے عبرت اور نصیحت حاصل کر سکیں۔ اس چینل کا مقصد ایک معقول طریقے سے معلوم کرنا ہے کہ کس طرح زندگی کے مختلف مواقع پر ہمیں کیسے عبرت حاصل ہو سکتی ہے۔ یہاں آپ کو سیدھی بات سیدھی بات ملے گی اور آپ کو معلوم ہوگا کہ زندگی میں کیسے عبرت لی جا سکتی ہے۔ اس چینل پر صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے آپ کچھ بھی کاپی کرکے آگے ارسال کرسکتے ہیں، تبدیلی کیے بغیر کریں تو بہت کرم ہوگا۔ چینل کی ترقی اور فروغ کے لیے ہمیں ساتھ دیں اور بہترین نصیحت آموز واقعات کا لطف اُٹھائیں۔

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

15 Jul, 13:50


زمانہ وہ ہی اچھا تھا آج کی دنیا داری سے
ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی #غربت کیوں ھے؟
جواب ملا۔
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا #لوگوں نے شور مچا رکھا ھے۔ ۔

۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل #خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے۔

ہم نے تو غربت کے وہ #دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں #تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے۔۔

(سلیٹ) پر #سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استمعال کرتے تھے۔

اسکول کے #کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے۔

اگر کسی شادی #بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔

کپڑے اگر پھٹ جاتے تو #سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔

جوتا بھی اگر #پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔

اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں #پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔

گھر میں اگر #مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے #نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔

آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک #ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔

مہمان تو کیا پوری #بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔

آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین #یونیفارم ضرور ہوتے ہیں۔

آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔

ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔

آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا...

غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے۔

آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..

اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں
غریب ہوں۔

*آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے.*

*ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.*

"سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی اسٹیٹس کم و بیش ایک جیسا تھا ، توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھتے تھے جبکہ آجکل تنہائی پسندی ہے، علم کم مگر عمل بہتر تھا ۔
اس دور میں اللّٰه کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں لیکن اکثر شکر ، توکل اور باہمی تعلقات کمزور ہیں .
اللّٰه کریم ہم سب کو کامل ہدایت بخشے آمین

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

01 Jul, 04:35


اتنا کہہ کر ہم لوگوں کو وہیں روک کر وہ اندر چلا گیا۔
اندر سے ایک عورت آئی جو وارڈن تھی۔ اس نے بڑے زہریلے لفظ میں کہا۔ 2 بجے رات کو آپ لوگ لے جاکے کہیں اسے مار دیں تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گی؟

میں نے وارڈن سے کہا "بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت پچھتاوے میں جی رہے ہیں"

آخر میں کسی طرح انکے کمرے میں لے گئی. کمرے کا جو نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف ایک فوٹو جس میں پوری فیملی ہے، وہ بھی ماں کے بغل میں جیسے بچے کو سلا رکھا ھے۔

مجھے دیکھی تو اسے لگا کہیں بات نہ کھل جائے۔
لیکن جب میں نے کہا کہ ھم لوگ آپ کو لینے آئے ھیں۔ تو پوری فیملی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگی۔ آس پاس کے کمروں میں اور بھی بزرگ تھے۔ سب لوگ جاگ کر باہر تک ہی آگئے۔ انکی بھی آنکھیں نم تھیں۔

کچھ وقت کے بعد چلنے کی تیاری ھوئی۔ پورے اولڈ ہوم کے لوگ باہر تک آئے۔ کسی طرح ہم لوگ اولڈ ایج ہوم کے لوگوں کو چھوڑ پائے۔ سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے، شاید انہیں بھی کوئی لینے آئے۔
راستے بھر بچے اور بھابی جی تو چپ چاپ رہے۔ مگر ماں اور بھائی صاحب پرانی باتیں یاد کرکے رو رہے تھے۔ گھر آتے آتے قریب 3:45 ھو گئے۔

بھابی جی بھی اپنی خوشی کی چابی کہاں ہے یہ سمجھ گئی تھیں۔

میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے آنکھوں میں گھومتے رھے۔

*ماں صرف ماں ھے*
*اسکو مرنے سے پہلے نہ ماریں۔
ماں ہماری طاقت ہے۔ اسے کمزور نہیں ھونے دیں۔ اگر وہ کمزور ہو گئی تو ثقافت کی ریڑھ کمزور ھو جاۓگی ۔ اور بنا ریڑھ کا معاشرہ کیسا ھوتا ھے۔ یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ھے۔

اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ دار میں اسطرح کا کوئی مسئلہ ھو تو انھیں یہ ضرور پڑھوایں اور اچھی طرح سمجھایں، کچھ بھی کرے لیکن ھمیں جنم دینے والی ماں کو بے گھر ، بے سہارا نہیں ہونے دیں۔ اگر ماں کی آنکھ سے آنسو گر گئے تو یہ قرض کئی صدیوں تک رہے گا۔

یقین مانیں سب ھوگا تمہارے پاس لیکن سکون نہیں ھوگا۔
سکون صرف ماں کے آنچل میں ھوتا ھے۔ اس آنچل کو بکھرنے مت دینا۔

اس دل کو چھو لینے والی داستان کو خود بھی پڑھیں۔ اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں تاکہ اس سے عبرت حاصل کر سکیں۔

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

01 Jul, 04:35


کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کی کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔ قریب شام کے7 بجےہونگے، موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز۔۔۔
میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی جی آخر ہوا کیا؟؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آ سکتے ہیں؟
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟ اور ماں جی کدھر ہیں؟ آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے۔
میں اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہنچا۔

دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں۔ 12 سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور 9 سال کی بیٹی بھی کچھ کہہ نہیں پا رہی ہے۔

میں نے بھائی صاحب سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے۔

پھر بھابی جی نے کہا؛ یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔

کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں۔ مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں۔
میں نے پوچھا "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟ اتنی اچھی فیملی ہے، دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے۔ پہلی نظر میں مجھے لگا کے یہ مذاق ہے۔

لیکن میں نے بچوں سے پوچھا دادی کدھر ھے؟ تو بچوں نے بتایا: پاپا انہیں 3 دن پہلے نوئیڈا کے "اولڈ ایج ہوم" میں شفٹ کر آئے ہیں۔

میں نے نوکر سے کہا: مجھے اور بھائی صاحب کو چائے پلاؤ
کچھ دیر میں چائے آئی. بھائی صاحب کو میں نے بہت کوشش کی چائے پلانے کی۔ مگر انہوں نے نہیں پیا اور کچھ ہی دیر میں وہ معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور بولے میں نے 3 دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔ میں اپنی 61 سال کی ماں کو کچھ لوگوں کے حوالے کر کے آیا ھوں۔

پچھلے سال سے میرے گھر میں ماں کے لیے اتنی مصیبتیں ہوگئیں کہ بیوی نے قسم کھا لی کہ "میں ماں جی کا دھیان نہیں رکھ سکتی"
نہ تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات کرتے تھے۔

روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بہت روتی تھی۔
نوکر تک بھی ان سے خراب طرح سے پیش آتے تھے اور اپنی من مانی کرتے تھے۔

ماں نے 10 دن پہلے بول دیا: تو مجھے اولڈ ایج ھوم میں ڈال دے۔ میں نے بہت کوشش کی پوری فیملی کو سمجھانے کی، لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔
جب میں دو سال کا تھا تب ابو انتقال کرگئے تھے۔ ماں نے دوسروں کے گھروں میں کام کر کے مجھے پڑھایا۔ اس قابل بنایا کے میں آج ایک جج ھوں۔
لوگ بتاتے ہیں کہ ماں دوسروں کے گھر کام کرتے وقت کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ اس ماں کو میں آج اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آیا ہوں۔ میں اپنی ماں کی ایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لئے اٹھائے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ھے جب میں میٹرک کے امتحان دینے والا تھا۔ ماں میرے ساتھ رات رات بھر بیٹھی رہتی تھی۔ ایک بار جب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت زبردست بخار میں مبتلا پایا۔ پورا جسم گرم اور تپ رہا تھا۔ میں نے ماں سے کہا تجھےتیز بخار ہے۔ تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بنا کر آئی ہوں اس لئے گرم ہے۔

لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھے یونیورسٹی سے *ایل ایل بی* تک پڑھایا۔

مجھے ٹیوشن تک نہیں پڑھانےدیتی تھی۔ کہیں میرا وقت برباد نہ ہو جائے۔
کہتے کہتے اور زیادہ زور سے رونے لگے اور کہنے لگے۔ جب ایسی ماں کے ہم نہیں ھو سکے تو اپنے بیوی اور بچوں کے کیا ہوں گے۔
ہم جن کے جسم کے ٹکڑے ہیں، آج ہم ان کو ایسے لوگوں کے حوالے کر آئے جو ان کی عادت، انکی بیماری، انکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔ جب میں ایسی ماں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تو میں کسی اور کے لئے بھلا کیا کر سکتا ہوں۔

آذادی اگر اتنی پیاری ھے اور ماں اتنی بوجھ ہے تو، میں پوری آزادی دینا چاہتا ہوں۔

جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جاینگے۔ اسی لیے میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔
ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کے حوالے کرکے اس اولڈ ایج ھوم میں رہوں گا۔ وہاں کم سے کم ماں کے ساتھ رہ تو سکتا ہوں۔
اور اگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود ماں، اولڈ ایج ہوم میں رہنے کے لئے مجبور ہے تو ایک دن مجھے بھی آخر جانا ہی پڑے گا۔

ماں کے ساتھ رہتے رہتے عادت بھی ھو جائےگی۔ ماں کی طرح تکلیف تو نہیں ہوگی۔
جتنا بولتے اس سے بھی زیادہ رو رہے تھے۔ اسی درمیان رات کے 12:30 ھوگئے۔ میں نے بھابی جی اور بچوں کے چہروں کو دیکھا۔
ان کے چہرے پچھتاوے کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔

میں نے ڈرائیور سے کہا؛ ابھی ہم لوگ اولڈ ایج ہوم چلیں گے۔ بھابی جی، بچے اور ہم سارے لوگ اولڈ ایج ہوم پہنچے ،
بہت زیادہ درخواست کرنے پر گیٹ کھلا۔
بھائی صاحب نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑ لیے۔ بولے میری ماں ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔
چوکیدار نے پوچھا "کیا کرتے ہو صاحب"؟
بھائی صاحب نے کہا۔ میں ایک جج ہوں۔

اس چوکیدار نے کہا "جہاں سارے ثبوت سامنے ہیں۔ تب تو آپ اپنی ماں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے۔ اوروں کے ساتھ کیا انصاف کرتے ہوں گے صاحب؟

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

24 Jun, 07:55


اپنی وفات سے قبل، ایک والد نے اپنے بیٹے سے کہا،" میری یہ گھڑی میرے والد نے مجھے دی تھی۔ جو کہ اب 100 سال پرانی ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ میں تمہیں دوں کسی سُنار کے پاس اس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں پھر دیکھو وہ اس کی کیا قیمت لگاتا ہے۔"

بیٹا سُنار کے پاس گھڑی لے گیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ سُنار اسکے 25 ہزار قیمت لگا رہا ہے، کیونکہ یہ بہت پرانی ہے۔

والد نے کہا کہ اب گِروی رکھنے والے کے پاس جاؤ بیٹا گِروی رکھنے والوں کی دکان سے واپس آیا اور بتایا کہ گِروی رکھنے والے اس کے 15 سو قیمت لگا رہے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ استعمال شدہ ہے۔

اس پر والد نے بیٹے سے کہا کہ اب عجائب گھر جاؤ اور انہیں یہ گھڑی دکھاؤ۔ وہ عجائب گھر سے واپس آیا اور پرجوش انداز میں والد کو بتایا کہ عجائب گھر کے مہتمم نے اس گھڑی کے 8 کروڑ قیمت لگائی ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور وہ اسے اپنے مجموعہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

اس پر والد نے کہا،" میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صحیح جگہ پر ہی تمہاری صحیح قدر ہو گی۔ اگر تم غلط جگہ پر بے قدری کئے جاؤ تو غصہ مت ہونا۔ صرف وہی لوگ جو تمھاری قدر پہچانتے ہیں وہی تمھیں دل سے داد دینے والے بھی ہوں گے۔ اس لئے اپنی قدر پہچانو اور ایسی جگہ پر مت رکنا جہاں تمہاری قدر پہچاننے والا نہیں۔"

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

21 Jun, 12:44


میرا پہلا حج شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے دور حکومت میں ہواتھا۔ مکہ معظمہ میں حرم شریف کی عمارتیں ابھی ترکی دور ہی کی پرانی چلی آرہی تھیں ، خوشحالی کا دور ابھی شروع نہیں ہواتھا۔ سعودی حکومت کو پیسوں کی بہت ضرورت تھی ، تمام ملکوں میں اس کے نمائندے اور دلال پائے جاتے تھے، جو حاجیوں کو لاتے ۔ ہر حاجی پر ۳۷۴روپئے کا ٹیکس لگتا، جوا نہی ملکوں میں ادا کیا جاتا۔ ٹکٹ کے ہزار ڈیڑھ ہزار روپئے الگ سے لگتے۔ معمولی ٹکٹ آٹھ سو روپئے میں آتا تھا۔ غریب لوگ حج کے شوق میں بھیک مانگ مانگ کر سفرپر نکلتے۔ کچھ عرصہ بعد حکومت ہند نے ہر حاجی کو اپنے ساتھ دوہزار روپئے نقد اور ڈرافٹ کی شکل میں دوہزار روپئے لے جانے کی چھوٹ دے دی۔ اور سفرِ حج پر سہولتوں کے مختلف دور آئے۔
اس سفر میں ہمیں بڑی مصیبتوں اور مشقتوں سے گذرنا پڑا۔ زندہ واپسی کی امید نہ تھی۔ لیکن خدانے اپنی امان میں رکھااور آج انتالیس سال بعد بھی آپ کے سامنے صحیح سالم موجود ہوں۔ اس سفر کی کچھ تصویریں انجمن خدام النبی ؐ کے بمبئی آفس میں موجود ہونگی، جن سے حاجیوں کی اس وقت کی حالت ِ زار کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اس طرح خدا خدا کرکے میر ا پہلاسفر ِ حج تمام ہوا۔ اور انجمن خدام البنی ؐ میں حاجیوں کی خدمت کرنے میں میری دلچسپی روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

21 Jun, 12:44


کر شہزادہ فیصل بہت خوش ہوئے ۔ ہمیں ڈھیر ساری مبارکباددی اور فوراً ہی مکہ جاکر اعلان کردیا کہ تمام برف کے کارخانہ دار اپنا اپنا تیار کردہ پورے کا پورا برف منٰی بھیج دیں اور مختلف مراکز قائم کرکے اسے حاجیوں میں تقسیم کریں*۔
آج حاجیوں کو جو سہولیات مہیا ہیں اس زمانے میں نہ تھی ۔ گرمی کی شدت ناقابل برداشت تھی ۔ اس وقت کی پریشانیاں بیان سے باہر ہیں۔ باوجود اس کے ہم شب وروز منٰی و عرفات میں حاجیوں کی خدمت کرتے رہے ۔ احمدغریب ان کے بھائی مولوی احمد عبداللہ اور ان کے بعض دوست واحباب خدمت کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے ۔ ہم سب نے آپس میں ایک دوسرے سے کہہ دیا تھا کہ خدا ہی ہمیں یہاں سے زندہ سلامت وطن واپس پہنچا سکتاہے، ورنہ حالات ایسے نہیں کہ یہاں سے زندہ بچ سکیں۔ ہماری زبانوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھ کر حاجیوں کی ضروریات معلوم کرنے کے لئے کیمپوں کی طرف ہم نکل پڑتے۔
وہ واقعہ تو اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہے جب ہم قربانی دے کر اپنی رہائش گاہ کی جانب لوٹ رہے تھے ، ابھی پائو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا باقی تھا۔ مجھ پر چلتے چلتے غشی طاری ہونے لگی۔ ٹیکسی وغیرہ کوئی سواری نہیں مل رہی تھی ، آج کے دور میں نہیں ، اس سستے دورمیں بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی ملی ۔ ڈرائیور نے پائو کلومیٹر کے چالیس ریال طلب کئے ۔ ایک قدم بڑھانے کی طاقت ہم میں نہ تھی ۔ احمد غریب نے ہدایت کی کہ جتنے کی بھی گنجائش ہو لوگ سوار ہوجائیں۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ابھی رہائش گاہ میں قدم رکھتے ہی سب بے ہوش ہو کر پڑگئے ۔ یہ خداکا فضل ہی تھا کہ سبھی زندہ بچ گئے۔
جب ہم منٰی میں تھے ، نمازِ فجر کے بعد حیدرآباد کے معلم بدرالدین نے میراہاتھ پکڑ کرکہا ۔ منیری صاحب!اس وقت اللہ تعالیٰ کا کچھ جلال معلوم ہوتاہے ، شام تک ہمارا کیا حال ہوگا کچھ معلوم نہیں ۔ وقت جوں جوں گذرتاگیا گرمی کی شدت اور پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ جان کر تمہیں حیرت ہوکہ جوان جوڑے چلتے چلتے بیٹھ گئے، پھر انہیں اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ لیٹتے ہی سانس نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اسپتال میں ہزاروں لوگ پانی کے ٹبوں میں پڑے ہوئے تھے ، کسی کے کان میں پانی ڈالا جارہاتھا کسی کے منھ سے جھاگ اٹھ رہی ہے اور بہت سے اپنے رب کو جواب دے چکے ہیں۔
اس سال بھٹکل سے چار افراد شیکرے صائبو، کے یم باشا، ان کی والدہ اور حافظکا کے والد فریضہ حج انجام دے رہے تھے۔ ان کاکیمپ ہمارے میمن حضرات کے کیمپ سے قریب تھا۔ ہمارے معلم سید سراج ولی تھے۔ اتفاقاً ایک روز دوپہر کے وقت ان کی رہائش گاہ پر جاناہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حافظکا کے والد پر لُولگنے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں ، کے یم باشا حسرت سے کہنے لگے ، منیری ! برف کا کہیں سے انتظام ہوجاتاتو کتنا اچھا تھا۔ کہیں سے بھی برف کا کوئی ٹکڑانہیں مل رہاہے۔
ہمارے میمن ساتھی بڑے ہوشیار تھے۔ یہاں پر ان کی دکانیں بھی تھیں، انہیں حج کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوںنے برف کی دوسلیں عرفات میں حفاطت سے لاکر رکھیں تھیں۔ جعفر سیٹھ کے بھائی محمد سیٹھ سے میں نے گذارش کی کہ ہمارا ایک شخص بے ہوش پڑا ہواہے۔ مہربانی فرماکر برف کا کوئی ٹکڑا دے دیں…ارے منیری !ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے لئے یہ ہم لائے ہیں۔ تم بولتے ہوتو ایک چھوٹاسا ٹکڑا لے جائو…ان کے اس جواب سے میری جان میں جان آئی ۔ برف کا ایک چھوٹاٹکڑا لے کر کیمپ گیااور حافظکاکے والد کے سرہانے بیٹھ کر اسے سینکتا رہا۔ برف کا چھوٹا سا ٹکڑا پانی میں گھول کر انہیں پلاتا رہا۔ اس وقت برف کے اس ننھے سے ٹکڑے کی جو قدرو قیمت تھی موجودہ دورمیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اب تو برف کی بہتات ہے قدم قدم پر ملتی ہے۔ اس زمانے میں عرفات میں کہیں برف کانام و نشان نہیں تھا۔ لوگ گرمی سے تڑپتے تھے ، ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس کے دام دینا ان کے بس سے باہر ہوتا تھا۔ ایسے عالم میں ان حضرات نے ہماری مدد کی۔ ایک دو گھنٹے برف سینکنے کے بعد حافظکا کے والد کو ذرا ہوش آیا۔ انہوںنے اپنا حج پوراکیا اور مزید پندرہ بیس سال زندگی گزار کر اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے۔
اس سفرِ حج سے قبل ہمیں لُو لگنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، نہ ہی احتیاطی تدابیر کا ہمیں علم تھا۔ البتہ منٰی و عرفات کے بدؤوں کی زبانی سنتے تھے کہ لُو لگنے پر پیاز ہاتھ میں رکھنی چاہئے، اس کا رس لُو زدہ شخص کے کانوںمیں گھولنااور سرپرمَلنا چاہئے۔ احمد غریب نے احتیاط کے تحت دو تین پیاز کے بورے بحفاظت رکھ لئے تھے۔ اب تو بازاروں میں بہت ساری دوائیاں دستیاب ہورہی ہیں ، اس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

21 Jun, 12:44


*میر ا پہلا سفر ِ حج۔۔۔الحاج محی الدین منیریؒ۔ مدیر البلاغ بمبئی*


تقسیم ہند کے بعد تیس سال سے زیادہ حاجیوں کی خدمت کرنے والے سرزمین بھٹکل سے تعلق رکھنے والے خادم الحجاج کی زبانی ۱۹۵۱ء کے حج کے مشاہدات (عبد المتین منیری)
۱۹۵۱ء میں بمبئی شدید فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں تھا، شہر میں سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ اس دوران حج کا موسم آگیا۔ انجمن خدام النبی ﷺکے حاجیوں میں کپڑوں وغیرہ کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم لوگ دن رات ان کی خدمت میں لگ گئے۔ ان دنوں حاجی احمد غریب سیٹھ ، انجمن خدام النبی ؐ کے جنرل سکریٹری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ثروت ودولت سے مالامال کیا تھا۔ انہوںنے اپنی عمر عزیز حاجیوں کی خدمت کرتے گذار دی۔ میرے کام سے وہ بہت خوش تھے۔ اسی دوران انجمن خدام النبی ؐ نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی حاجیوں میں راشن کی تقسیم کے لئے تین افراد کو مکہ مکرمہ بھیجاجائے۔ آپ نے مجھ سے دریافت کیا کہ مکہ کی سخت دھوپ اور گرمی میں راشن کے بورے اٹھانے پڑیں گے۔ بڑی تکلیفیں برداشت کرنی ہونگی ۔ کیا تم اس کام پر جانے کے لئے تیار ہو۔ میں نے کہا ’’ نورعلیٰ نور‘‘ انہوںنے پھر کہا کہ راشن کی تھیلیاں تم سے اٹھائی نہیں جائیں گی ۔ میں نے جواب دیا ایک مرتبہ مجھے حج بیت اللہ پر بھیج کر تو دیکھیں باقی مجھ پر چھوڑ دیں۔ بالآخر میرے نام کا قرعۂ فال نکلا اور احمد غریب مرحوم نے مزید دو ساتھیوں کی رفاقت میں مجھے حج بیت اللہ پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔
خداکی شان دیکھئے ، یہ سب اتنی عجلت میں ہوا کہ سفرِ حج سے قبل وطن جاکر اہلِ وعیال سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملی۔ مجبوراً والدہ سے ٹیلگرام کے ذریعہ اجاز ت طلب کرنی پڑی کہ زندگی میں ایک سنہرا موقعہ نصیب ہواہے ۔ اس وقت مجھے احمد جانی کی بات باربار یاد آئی کہ منیری ! محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنا جلدی بلاوا آئے گا۔ اور سچ مچ بلاوا آگیا۔ یہ خبر سن کر احمد جانی میرے پاس آئے ، پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے ، میں نے نہیں کہا تھا تمھارا جلد بلاوا آئے گا۔ دیکھو ، بلاوا آہی گیا ، خدمت بھی کرو ، عبادت بھی کرو۔
سفرِ حج پر جب روانہ ہواتو عالم یہ تھا کہ مکہ مکرمہ میں اس شدت کی گرمی پڑی ہوئی تھی کہ برداشت سے باہر تھی ۔ جدہ سے سیکڑوں راشن کی بوریاں آتیں، جن پر حاجیوں کے نمبر درج ہوتے، اس ڈھیرمیں سے حاجیوںکی بوریاں نمبروں کے مطابق تلاش کرکے نکالی جاتیں ۔ اس دوران حاجیوں کی صلواتیں سننے کو ملتیں کہ گھنٹہ گذرگیا، اتنی دیر ہوگئی ، تم کام کرتے ہوکہ ……بعض نادان و بے سمجھ تو گالیوں کی بوچھار شروع کردیتے۔ مجھے وہ واقعہ اب بھی یاد ہے کہ ایک حیدرآبادی حاجی اپنی اناج کی بوری لینے کے لئے احرام کی حالت میں میرے پاس آئے تھے۔ ان کے نمبر کی بوری ادھر ادھر ہونے کی وجہ سے تلاش میں جو دیری ہوئی تو انہوںنے مجھے ایسی ایسی گالیاں دینی شروع کیں کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں ان کے قدموںپر گرگیا اور ان کا احرام پکڑ کر التجا کی کہ حاجی صاحب آپ اتنا سارا خرچ کرکے تکلیفیں اٹھا کر بیت اللہ کے پاس آئے ہیں ۔ آپ کی بوری تو دیر سویر مل ہی جائے گی لیکن گالیاں دے کر اپنا یہ حج ضائع نہ کیجئے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’فَلارَفَثَ وَلا فُسُوق َ وَلاَ جِدَالَ فیِ الحَج‘‘اگر دوران ِ حج اس قسم کا بڑ ا عمل سرزد ہوا تو ساراحج برباد ہوجائے گا۔ مگر وہ کہاں سننے والے تھے۔ حالت ِ احرام میں گالیوں کی بھرمار سے اپنے سارے حج کا ستیا ناس کردیااور اگلے روز آکر معافی تلافی کرنے لگے۔
پہلے حج کے دوران دل پر عجیب کیفیت طاری تھی ۔ ایک طرف جسم جھلسادینے والی گرمی ۔ اس پر اناج کے بورے پیٹھ پر لاد کر ادھر ادھر لے جانے کی محنت ۔ کوئی اور ہوتو اپنے ہوش وحواس کھودے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سب راہیں آسان کردیں، تمام مصائب ومشکلات سے پار کردیا ۔
اسی دوران ہم لوگوںنے فیصلہ کیاکہ حاجیوں میں مفت برف تقسیم کی جائے۔ احمد غریب اور ان کے خاندان والوں نے منیٰ و عرفات میں وسیع و عریض مکانات رہائش کے لئے کرایہ پر لے لئے تھے۔ مرحوم کو حج کے میدان میں بڑا تجربہ حاصل تھا۔ وہ بڑے ہی نیک جذبات کے مالک انسان تھے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد انہوںنے برف حاصل کی اور ڈھیر سارا برف اپنی رہائش گاہ پرجمع کردیا۔ اور ہم لوگ اس کی تقسیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اکیلے احمد غریب نے سارا خرچ برداشت کیا۔
*برف کی اس مفت تقسیم پر دوچار روز ہی گذرے تھے کہ ایک دن شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز جو ابھی سعودی عرب کے فرمانروا نہیں بنے تھے اچانک ایک کارمیں آکر ہمارے ڈیرے پر رک گئے ۔ انہوں نے ہمیں طلب کیا ۔ احمدغریب اور میں ان کے نزدیک گئے ۔ انہوںنے دریافت کیا کہ برف کی یہ تقسیم کس کی طرف سے ہورہی ہے۔ ہم نے بتایا کہ گرمی کی شدت سے حاجی مررہے ہیں ، انہیں تھوڑا ساہی سہی آسراملے، اس غرض سے ہندوستانی حاجیوں کی خدمت کے لئے قائم تنظیم ’’ انجمن خدام النبیؐ‘‘ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہماری یہ بات سن

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

19 Jun, 03:44


*جب زمانے میں مسلمانوں کی قدر و قیمت ہوا کرتی تھی !*

عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک قاصد کو شاہ روم کے پاس کسی کام سے بھیجا۔ قاصد پیغام پہنچانے کے بعد محل سے نکلا اور ٹہلنے لگا ٹہلتے ٹہلتے اس کو ایک جگہ سے تلاوت کلام پاک سنائی دی آواز کی جانب گیا تو کیا منظر دیکھا کہ ایک نابینا شخص چکی پیس رہا ہے اور ساتھ میں تلاوت بھی کر رہا ہے۔ آگے بڑھ کے سلام کیا جواب نہیں ملا، دوبارہ سلام کیا جواب نہیں ملا، تیسری بار سلام کیا نابینا شخص نے سر اٹھا کر کہا شاہ روم کے دربار میں سلام کیسے؟
قاصد نے کہا : پہلے یہ بتاؤ کہ شاہ روم کے دربار میں خدا کا کلام کیسے؟
اس نابینا شخص نے بتایا کہ وہ یہاں کا مسلمان ہے بادشاہ نے مجبور کیا کہ اسلام چھوڑ دے، انکار پر سزا کے طور پر دونوں آنکھیں نکال دی گئیں اور چکی پیسنے پر لگا دیا۔
معاملات طے کرنے کے بعد قاصد واپس آیا تو عمر بن عبد العزیز کے سامنے اس قیدی کی بات بھی رکھ دی۔
"کیا لوگ تھے وہ بھی" عمر بن عبد العزیز نے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا، پانچ یا دس منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا، اجلاس نہیں بلایا، بلکہ کاغذ قلم لیا اور یہ تحریر شاہ روم کولکھ بھیجی:
"اے شاہ روم میں نے سنا ہے کہ تیرے پاس ایک مسلمان قید ہے اور تو اس پر ظلم روا رکھتا ہے، میری یہ تحریر تیرے پاس پہنچنے کے بعد تو نے اس قیدی کی رہائی کا پروانہ جاری نہیں کیا تو پھر ایسے لشکر جرار کا سامنا کرنا جس کا پہلا فرد تیرے محل میں ہوگا اور آخری میرے دربار میں"۔

سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی مملکت کے سربراہ نےاتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا؟ وہ بھی ایک شخص کے لیے جو اس کے ملک کا باشندہ بھی نہیں تھا، اپنی سالمیت خطرے میں ڈال دی پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر ایک مسلمان کی حرمت خانہ کعبہ سے بڑھ کر ہے تو جغرافائی حدود سے بھی بڑھکر ہے۔
کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ رسول علیہ الصلاۃ والسلام نے صرف ایک صحابی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے لئے پندرہ سو صحابہ کرام سے موت پہ بیعت لی تھی۔
انہیں معلوم تھا کہ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما گئے ہیں کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہے، ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم تڑپتا ہے۔
انہیں معلوم تھا کہ "نحن الامہ" ہم ایک امت ہے، اور جب سے یہ نظریہ ہم سے اٹھا ہے ذلیل و رسواء ہو رہے ہیں۔
آج باوجودیکہ کی دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان موجود ہے لیکن شامی بچی آخری ہچکیاں لیتی ہوئی کہتی ہے "میں رب کو جا کر سب کچھ بتاؤں گی"۔
عراق جنگ میں ایک لڑکی جان بچانے کے لیے بھاگتے ہوئے صحافی سے فریاد کرتی ہے کہ "انکل میری تصویر نہیں لینا میں بے حجاب ہوں"۔
ایک فلسطینی بچہ بھوک کی شدت سے نڈھال فریاد کر رہا ہے کہ "اے اللہ ! مجھے جنت بھیج دے مجھے بہت بھوک لگی ہے"۔
صرف چند لاکھ آبادی کا حامل ایک ملعون ملک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور دو ارب مسلمان تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے۔۔۔۔۔؟
کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم میں سے کوئی پاکستانی ہے، کوئی ہندوستانی، کوئی سعودی، اماراتی تو کوئی ملائی یا بنگالی مسلمان ہے۔ سب ایک ہوتے تو ایک دوسرے کے درد کا احساس بھی ہوتا ایک دوسرے کے لیے تڑپ بھی ہوتی۔
جبکہ مقابلہ میں کا فر ناٹو فوجی اتحاد کی صورت متحد ہے۔
اللہ رب العزت ہم تمام مسلمانوں کو متحد ہونے اور باطل کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت عطا فرمائیں۔ آمین۔

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

04 Apr, 10:10


سچی باتیں (۲۸؍اکتوبر ۱۹۴۰ء) ۔ آخری عشرہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

روحانیات کے عالم میں موسم بہار ختم ہونے کو آگیا۔ امت کے ’’ریفریشر کورس‘‘ کے خاتمہ کو ایک ہفتہ رہ گیا، سپاہیوں کے قدم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوگئی۔ آخری فرصت کو غنیمت سمجھ، سیکھنے والوں اور حاصل کرنے والوں کی ہمت اورمستعدی بڑھ گئی، طلب اور تڑپ دوچند ہوگئی۔ رمضان کا مبارک مہینہ، سستی اور کاہلی، پڑے رہنے اور انگڑائیاں لیتے رہنے کا مہینہ کبھی بھی نہ تھا۔ آخری ہفتہ میں چستی اور مستعدی اپنے حدّ کمال کو پہونچ گئی۔ مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا تھا(اولہ‘ رحمۃٌ)تمامتر نیکی کے قویٰ کو تحریک ہوتی رہی۔ دوسرے عشرہ سے نتائج ظاہر ہونے لگے، دلوں سے زنگ دُور ہوگئے، روح میں جلا آگئی(أوسطہ‘ مغفرۃٌ) تیسرا عشرہ نچوڑ کا ہے، رہی سہی کثافتیں بھی دور ہوجائیں گی، ایک ایک فرد، اور ساری کی ساری اُمت نکھر جائے گی، سنور جائے گی، سُدھر جائے گی(وآخرہ‘عتقٌ من النار)……حدیث میں آتاہے کہ اس فوج کا سردار اعظمؐ، آخر عشرہ میں تمامتر وقفِ عبادت ہوجاتاتھا۔ تعلقات خلق سے وقتی انقطاع کے ساتھ مصروفیت ویکسوئی براہ راست خالق وناظر کے ساتھ ہوجاتی تھی!
خبر دی ہے اُس نے جس کی دی ہوئی ہرخبر سچ اور سچی ہی نکلی ہے، کہ اسی مشق وریاضت والے مہینہ (شہر الصبر) ، اسی رحم وہمدردی والے مہینہ (شہر المواساۃ) کے آخری عشرہ میں کوئی رات ایسی بھی آتی ہے، جو سال کی ہررات عمر کی ہررات سے بڑھ کر قیمتی اور قابل قدر ہوتی ہے۔ ڈھونڈواُسے آخر کی پانچ طاق راتوں میں۔ اللہ والے اس تلاش میں ساری ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں۔ اور دن بھر کی بھوک، پیاس کے ساتھ ساتھ رات کی نیند کی قربانی بھی بے تکلف اور بمسرت اپنے اَن دیکھے مولیٰ کے حضور میں پیش کردیتے ہیں، کہ رحمت کے فرشتے جس وقت بھی انھیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں، غافل نہیں،ہوشیار ومستعد، اپنی چاکری پر کمربستہ، اپنی ڈیوٹی پرمسلح پائیں!……جو امت ہرسال اس مجاہدہ کی منزلوں سے گزرتی ہے، دنیا کی جدوجہد میں اُسے کسی قوم سے بھی پیچھے رہنا چاہئے؟ ہنگامہ عمل میں کسی سے بھی بچھڑ جانے، اور بچھڑ جانے کا خطرہ اُسے ہے؟
تیسواں دن یا اکتیسویں دن خوشی کا دن ہوگا۔ سالانہ جشن کی تاریخ ہوگی۔ اللہ کے دربار میں اللہ والوں کے میلہ لگنے کی گھڑی آئے گی۔ یہ انوکھے میلہ والے گھروں سے نکلیں گے، فحش گیت گاتے ہوئے نہیں، ایک دوسرے پر رنگ کی کیچڑ اُچھالتے ہوئے نہیں، پاک صاف ہوکر، نہادھوکر، دلوں میں اللہ کا نام جپتے ہوئے، زبانوں سے توحید کی بڑائی پکارتے ہوئے، شہر کے باہریا محلہ کے مرکز میں جمع ہوں گے، ناچ، ناٹک، سوانگ دیکھنے نہیں، گھوڑدوڑ میں بازی لگانے نہیں، کارنیوال میں پانسہ ڈالنے نہیں، حمدوتسبیح کے لئے، رکوع وسجود کے لئے، توحید کی گواہی، رسالت کی شہادت کے لئے۔ آج نہ کوئی بڑا ہوگا نہ کوئی چھوٹا۔ نہ کوئی آقا اور نہ کوئی رعایا، نہ کوئی شریف نہ کوئی رذیل۔ محمود وایاز ایک صف میں کھڑے ہوں گے، محلہ کے دھوبی، بھشتی، نائی، جو رئیسوں کی ڈیوڑھیوں اور حویلیوں پر گھنٹوں کھڑے، اور پہروں پڑے رہتے ہیں، اور پھر باریابی نہیں ہوتی، آج بے تکلف اور بلاجھجک اُنھیں رئیسوں، امیروں نوابوں کے شانہ سے شانہ ملائے کھڑئے ہوں گے، ایک ساتھ اُٹھیں گے، ایک ساتھ جھکیں گے، ایک ساتھ دعاؤں کے لئے ہاتھ اُٹھائیں گے!……زبانیں ایک ہوں گی، ہاتھ پیر ایک ہوں گے، قالب ایک ہوں گے، عجب کیا ہے جو اس ظاہری اور خارجی یک رنگی، یک جہتی، یکسوئی سے دل اور روحیں بھی ایک ہوجائیں!

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

08 Jan, 06:04


💫💐 *ایک انتہائی اہم سبق* 💐💫

👇👇👇👇👇👇
ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔

کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں، تو آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔
میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت ﻋﻄﺎﺀ ہے۔
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیراً کثیرا 💝

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

23 May, 11:09


صدقہ صرف پیسے سے نہیں, دل سے بھی کیا جاتا ہے

ایک غریب عورت نے بڑی عزت کے ساتھ آواز دی، "آ جائیے میڈم، آپ یہاں بیٹھ جائیں،" کہتے ہوئے اس نے اپنی سیٹ پر ایک استانی کو بیٹھا دیا اور خود بس میں کھڑی ہوگئی۔ میڈم نے، "بہت بہت شکریہ، میری تو بری حالت تھی، سچ میں،" کہتے ہوئے دعائیں دی. اس غریب عورت کے چہرے پر ایک خوشکن مسکان پھیل گئی۔
کچھ دیر بعد استانی کی پاس والی سیٹ خالی ہو گئی لیکن اس عورت نے ایک اور عورت کو، جو ایک چھوٹے بچے کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور مشکل سے بچے کو اٹھا پارہی تھی، کو سیٹ پر بیٹھا دیا۔ اگلے پڑاؤ پر بچے والی عورت بھی اتر گئی، سیٹ پھر خالی ہوگئی، لیکن اس نیک دل عورت نے پھر بھی بیٹھنے کی بالکل کوشش نہیں کی بلکہ اس ایک کمزور اور بزرگ آدمی کو بیٹھا دیا، جو ابھی ابھی بس میں سوار ہوئے تھے۔

مزید کچھ دیر کے بعد وہ بزرگ بھی اتر گئے، سیٹ پھر سے خالی ہو گئی۔ بس میں اب چند مسافر ہی رہ گئے تھے، اب اس استانی نے غریب خاتون کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ "کتنی بار سیٹ خالی ہوئی لیکن آپ لوگوں کو بٹھاتی رہیں، خود نہیں بیٹھیں، کیا بات ہے؟ "
اس خاتون نے جواب دیا "میڈم میں مزدور ہوں، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کچھ صدقہ و خیرات کرسکوں، تو میں کیا کرتی ہوں کہ، سڑک میں پڑے پتھروں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتی ہوں، کبھی کسی ضرورت مند کو پانی پلا دیتی ہوں، کبھی بس میں کسی کے لیے سیٹ چھوڑ دیتی ہوں. پھر جب سامنے والا مجھے دعائیں دیتا ہے تو میں اپنی غربت بھول جاتی ہوں، میری دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی ہے۔ اور تو اور، جب میں روٹی کھانے کے لیے باہر بینچ پر بیٹھتی ہوتی ہوں، کچھ پرندے میرے قریب آ کر بیٹھ جاتے ہیں، میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے انکے سامنے ڈال دیتی ہوں. جب وہ خوشی سے چلاتی ہیں تو خدا کے ان مخلوق کو خوش دیکھ کر میرا پیٹ بھر جاتا ہے۔ روپے پیسے نہ سہی، سوچتی ہوں دعائیں تو مل ہی جاتی ہوں گی، مفت میں، فائدہ ہی ہے نا، اور ہمیں کیا ہی لے کر جانا ہے اس دنیا سے"۔

استانی ہکا بکا رہ گئی، ایک ان پڑھ سی دکھنے والی غریب عورت نے اتنا بڑا سبق جو پڑھا گئی انہیں۔ اگر دنیا کے آدھے لوگ بھی ایسی خوبصورت اور مثبت سوچ اپنا لیں تو یہ زمین جنت بن جائے گی سب کے لئے۔ صدقہ و خیرات صرف پیسے سے نہیں دل سے بھی کیا جاتا ہے۔
--------------------------------------

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

04 Jun, 05:39


شادی کی تقریب میں ایک صاحب اپنے جاننے والے آدمی کے پاس جاتے ھیں اور پوچھتے ھیں۔۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟"
انہوں نے غور سے دیکھا اور کہا "ھاں آپ میرے پرائمری سکول کے شاگرد ھو۔ کیا کر رھے ھو آج کل؟"
شاگرد نے جواب دیا کہ "میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ھوں۔اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ھی کی وجہ سے پیدا ھوئی۔"
استاد نے پوچھا "وہ کیسے؟"
شاگرد نے جواب دیا، "آپ کو یاد ھے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ھو گئی تھی اور وہ گھڑی میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس کو کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ھے واپس کر دے۔ میں گھڑی واپس کرنا چاھتا تھا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جرات نہ کر سکا۔
آپ نے پوری کلاس کو دیوار کی طرف منہ کر کے ، آنکھیں بند کر کے کھڑے ھونے کا حکم دیا اور سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی میرا نام لئے بغیر وہ گھڑی اس کے مالک کو دے دی اور مجھے کبھی اس عمل پر شرمندہ نہ کیا۔ میں نے اسی دن سے استاد بننے کا تہیئہ کر لیا تھا۔"
استاد نے کہا کہ "کہانی کچھ یوں ھے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور مجھے بھی آج ھی پتہ چلا ھے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔Teacher respect🤲
الله پاک میرے تمام اساتذہ کرام کو خوشیوں والی لمبی زندگی عطاء فرمائے آمین ...💕

https://t.me/NaseehatAamozWaqiaat

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

02 Jun, 13:08


حافظ اسلم

میاں بیوی کی ( عجیب کہانی )

تم اور میں کبھی بیوی اور شوہر تھے ۔۔۔۔۔
پھر
تم ماں بن گئیں اور میں باپ بن کے رہ گیا ۔

تم نے گھر کا نظام سنبھالا اور میں نے ذریعۂ معاش کا
اور پھر تم
" گھر سنبھالنے والی ماں " بن گئیں اور میں کمانے والا باپ بن کر رہ گیا ۔۔۔

بچوں کو چوٹ لگی تو تم نے گلے لگایا اور میں نے سمجھایا،
تم محبت کرنے والی ماں بن گئیں اور میں صرف سمجھانے والا باپ ہی رہ گیا ۔۔۔۔

بچوں نے غلطیاں کیں تم ان کی حمایت کرکے " understanding mom " اچھی ماں بن گئیں اور میں نہ سمجھنے والا " باپ بن کے رہ گیا ۔۔۔۔

" بابا ناراض ہونگے " یہ کہہ کر تم اپنے بچوں کی " best friend " اچھی دوست بن گئیں ۔۔۔۔ اور میں غصہ کرنے والا باپ بن کے رہ گیا ۔۔۔۔

تم سارا دن بچوں سے راز و نیاز کرتے ہوئے اپنا مستقبل محفوظ بناتے ہوئے بچوں کے ذہنوں میں گھر کرتی چلی گئیں ۔۔۔۔
اور میں فقط گھر کا مستقبل بنانے کے لئے میں اپنا آج برباد کرتا چلا گیا ۔۔۔۔

تمہارے آنسوؤں میں ماں کا پیار نظر آنے لگا اور میں بچوں کی آنکھوں میں فقط بے رحم باپ بن کے رہ گیا ۔۔۔

تم چاند کی چاندنی بنتی چلی گئیں اور پتہ نہیں کب میں سورج کی طرح آگ اگلتا باپ بن کر رہ گیا ۔۔۔

تم ایک " رحمدل اور شفیق ماں " بنتی گئیں اور میں تم سب لوگوں کی زندگی کا بوجھ اٹھانے والا صرف ایک باپ بن کر رہ گیا ۔۔۔۔


یہ ایک انتہائی تلخ معاشرتی تصویر ہے ۔۔۔ ؟

بہت کم ایسی مائیں ملیں گی جو اپنے بچوں کے سامنے ان کے باپ کا مقام بلند کرکے رکھتی ہیں جو بچوں کو یہ بتاتی ہیں کہ کیسے ان کا باپ اپنے آگے کا نوالہ اپنے بچوں کو کھلا کر خود بھوکا رہ جاتا ہے ۔
کیسے ایک باپ سارا دن اپنے بچوں کے رزق کے لئے مارا مارا پھرتا ہے ۔
اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے کیا کیا قربانیاں دیتا ہے اور کن کن تکالیف کا سامنا کرتا ہے ۔
کس طرح ان کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے اپنے آپ کو برباد کرلیتا ہے خود کو ختم کرلیتا ہے، تب جاکر کہیں اولاد کسی قابل بنتی ہے ۔
مگر اولاد کو یہ بتانے اور سمجھانے والی مائیں ان کو یہ نہیں بتا پاتیں ۔
اسی لئے اولاد اس وقت تک اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتی جب تک وہ خود باپ نہ بن جائے اور تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔۔۔۔ !!

https://t.me/NaseehatAamozWaqiaat

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

30 May, 11:06


*اکابرین کیسے اللہ کی راہ*
*میں خرچ کرتے تھے؟*
------

ایک صاحب حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے ملنے آئے تھے، انہوں نے مختلف سوالات کئے حضرت والا دامت برکاتہم جواب دیتے رہے۔ ایک سوال انہوں نے یہ پوچھا کہ صدقہ کرنے کی کیا ترتیب ہونی چاہئے؟ اس کی بہتر صورت کیا ہے؟
حضر نے فرمایا : *’’کہ بزرگوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ مخصوص کر دیا جائے مثلاً ایک فیصد یا دس فیصد، جتنی استطاعت ہو، اس حساب سے متعین کر لیا جائے اور پھر وہ اتنا پیسہ صدقہ کر دیاجائے
’’حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بڑا ذوق تھا، اور آپ مصارفِ خیر میں حصہ لینے کی کوشش میں رہتے تھے۔.....انفاق کا یہ معمول تنگی و فراخی ہر حالت میں جاری رہا۔ اور اس کیلئے *جو طریقِ کار اپنایا ہوا تھا وہ بڑا سبق آموز اور لائقِ تقلید ہے۔*
آپ کا معمول یہ تھا کہ زکوۃ ادا کرنے کے علاوہ آپ کے پاس *جب بھی کوئی رقم آتی تو اس کا ایک معین حصہ فوراً مصارف خیر میں خرچ کرنے کے لئے علیحدہ فرمالیتے،* اور طے کیا ہوا تھا کہ آمدنی اگر محنت سے حاصل ہوئی ہے تو بیسواں حصہ (پانچ فی صد)اوراگر کسی محنت کے بغیر حاصل ہوئی ہے(مثلاً انعام،ہدیہ،تحفہ وغیرہ) تو اس کا دسواں حصہ فوراً علیحدہ نکال لیاجائے،.............صندوقچی میں ایک تھیلا آپ کے پاس ہمیشہ رہتا تھا،جس پر ’’صدقات و مبرّات‘‘ لکھا رہتا تھا،تنگ دستی کا زمانہ ہو یا فراخی کا،آمدنی کا مذکورہ حصہ آپ فوراً اس تھیلے میں رکھ دیتے تھے،اور جب تک یہ حصہ ’’صدقات ومبرات ‘‘کے تھیلے میں نہ چلاجاتا،اس وقت تک اس آمدنی کو استعمال نہیں فرماتے تھے،اگر دس روپئے بھی کہیں سے آئے ہیں تو فوراً اس کے چھوٹے نوٹ بدلوا کر ایک روپیہ اس تھیلے میں رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱ ص۴۵۹) *حضرت مولانا تھانوی ؒ اپنی کمائی کا ایک تہائی خیرات کردیا کرتے تھے* اور حضرت *مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب ؒاپنی کمائی کا ایک خمس(یعنی پانچواں حصہ) خیرات کرتے تھے۔* حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب کو دیکھا کہ ان کے پاس تین چپاتیاں آتی تھیں،ان میں ڈیڑھ چپاتی خود تناول فرماتے ایک چپاتی خیرات کردیتے تھے اور آدھی کسی کو ہدیہ کردیتے تھے ۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲ ۔ ص۸۹۱)
اس ساری بات سے اس طریقِ کار کی اہمیت کا اندازہ ہوا
ویسے تو ہر شخص صدقہ کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ صدقہ کرتا ہی رہتا ہے لیکن اس التزام اور اس طرح کی پابندی کا فائدہ یہ ہوگا کہ ساری کی ساری آمدنی مکمل طور پر صدقے کی چھلنی سے چھن کر آئے گی اور گویا کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی آ رہا ہے، اس کے ایک ایک پیسے کا صدقہ دیا جا رہا ہے، اس طریقِ کار سے برکت بھی ہوگی اور صدقہ کا اہتمام بھی رہے گا کیونکہ کوئی وقت ایسا نہیں ہوگا کہ جب اس کے پاس مال آیا ہو اور اس نے اس کا صدقہ نہ دیا ہو۔
اگر انسان زیادہ اوسط متعین نہیں کرسکتا تو کل آمدنی کا ایک فیصد ہی متعین کرلے یعنی کہ *اگر کسی کی ماہانہ آمدنی مِل ملا کے بیس ہزار روپے بنتی ہو اور اس نے ایک فیصد صدقہ متعین کیا ہوا ہے تو کل 200 روپے بنیں گے۔* اب ہوسکتا ہے کہ وہ ماہانہ بنیاد پر مذکورہ رقم سے زیادہ ہی صدقہ کیا کرتا ہو لیکن اگر یہ طریقہ اپنا لیا تو ہر ہر رقم میں سے صدقہ کشید ہو کر وہ آمدنی پاکیزہ اور بابرکت ہوتی جائیگی۔ اور صدقہ میں بھی کبھی تعطل نہیں آئے گا۔
-----
اس مضمون کو نشر فرمائیں جتنے لوگ اس نصیحت پر عمل کریں گے آپکو بھی ثواب ملے گا ۔


https://t.me/NaseehatAamozWaqiaat

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

29 May, 05:08


https://t.me/Md_Huzaifa

اس لنک پر کلک کر کے بھی رابطہ کر سکتے ہیں

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

29 May, 05:06


درج بالا بار کوڈ کو اسکین کر کے اپنی قیمتی آراء سے نوازیں۔ آپ کی رائے ہمارے لیے راہ نما بنے گی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے گی ۔

جزاكم اللهُ احسن الجزاء

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

29 May, 04:53


چینل میں بھیجی گئی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ عام کریں۔

ہوسکے تو اپنے احباب کو بھی چینل سے جوڑیں

https://t.me/NaseehatAamozWaqiaat

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

29 May, 03:00


انمول موتی



حسب معمول عصر کی نماز کے بعد اساتذہ کے ہمراہ حضرت مولانا عبداللہ مغیثی دامت برکاتہم العالیہ (مہتمم جامعہ گلزار حسینیہ اجراڑہ، میرٹھ و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) کی مجلس میں حاضر تھا۔
حضرت نے حاضرین مجلس سے ایک سوال کیا کہ: ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان دوسرے کی غیبت کرتا ہے، برائی بیان کرتا ہے اور کرتا ہی چلا جاتا ہے اور اس کی طرف طبیعت ایک دم مائل ہوتی چلی جاتی ہے اتنی اچھائی کی طرف مائل نہیں ہوتی ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

حاضرین نے وجوہات بیان کیں۔ ایک وجہ بندے کے ذہن میں بھی آئی اور وہ حضرت کے سامنے ذکر کی۔

میں نے کہا کہ: حضرت! میری سمجھ میں اس کی وجہ یہ آتی ہے کہ انسان کو اپنے عیوب نظر نہیں آتے جب کہ دوسروں کا ادنی سا عیب بھی دکھ جاتا ہے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی برائی کو برائی نہیں سمجھتے بل کہ اس کو اچھا خیال کرتے ہیں اور دوسروں کی چھوٹی سی برائی بھی بڑی نظر آتی ہے اور خوبیاں نظر انداز کردی جاتی ہیں۔ اگر کسی کے اندر 99 خوبیاں ہوں اور صرف ایک برائی ہو تو ہم ان خوبیوں کو نظر انداز کر کے اس ایک برائی کا تذکرہ کرتے ہیں۔

حضرت نے بڑی توجہ سے سنا اور پھر بڑا سراہا اور تائید کی اور پھر حضرت والا نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ:

ایک مرتبہ ہم مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ الله تعالی کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔حضرت کی مجلس میں عموما سکوت ہوتا تھا یا کوئی علمی بحث ہوتی تھی۔ ایک دن حضرت مولانا نذر الحفیظ ؒ استاد ندوۃ العلماء لکھنؤ نے حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بارے میں کچھ کہا۔ تو حضرت علی میاں ندوی ؒ فورا گرجے اور کہا: مولانا نذر الحفیظ! خاموش رہیے اور توبہ کیجیے۔

یہ تھے ہمارے اسلاف جو کسی کے خلاف ادنی سی بات سننا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے۔

ہمیں اپنی مجالس کو غیبت سے خصوصا پاک کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم کسی کی اچھائیاں بیان نہیں کرسکتے تو کم از کم برائی کرنے سے تو بچ ہی سکتے ہیں۔

(مندرجہ بالا سوال کی وجوہات کے بارے میں اپنی قیمتی آراء سے نوازیں)

ابو الیمـان محمد حذیفہ ہردےپور، ہاپوڑ


https://t.me/NaseehatAamozWaqiaat

🌹 نصیحت آموز واقعات 🌹

28 May, 16:40


A silent msg
ہم کب بدلیں گے۔“🙂

چاچا جی کتنے پیسے بن گئے آپ کے !؟؟
میں نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھا ۔۔
100 روپے ہو گئے ہیں بیٹا ۔۔
50 بوٹ کی سلائی اور پالش کے اور 50 جوتے کی سلائی اور پالش کے ۔۔
میں نے بائیک پہ بیٹھے بیٹھے ہی بے پرواہی سے 50 کے دو نوٹ چاچا کی طرف لہرا دیے جو ہوا میں مستی کرتے ہوئے چاچا جی کے پاؤں میں جا گرے ۔۔ 50 55 سال کے اس چاچا جی نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ کر کہا ۔۔ " بیٹا یہ پیسے آپ رکھ لو " ۔۔
چاچا جی خیریت ہے ۔۔ یہ پیسے آپ کے ہیں ۔۔ آپکی محنت مزدوری کے ۔۔ آپ مجھے واپس کیوں لوٹا رہے ہیں ؟؟
میں نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا ۔۔
چاچا جی نے اداس، زخمی اور دکھ بھری مسکراہٹ سے میرے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔۔
" بیٹا! دولت سے زیادہ اہم تہذیب اور اخلاق ہیں اور ۔۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے ۔۔
میری پوری توجہ چاچا جی کی طرف ہو گئی تھی۔۔
بیٹا! عزتِ نفس اور باعزت روزی ہر ایک کی اولین ترجیح ہوتی ہے ۔۔
میرا پیشہ اگرچہ حقیر ہے لیکن میری کمائی حلال کی ہے ۔۔ دولت کے بل بوتے پر آپ میری عزتِ نفس کو مجروح نہیں کر سکتے ۔۔
چاچا کی بے ترتیبی گفتگو بھی حقائق سے بھرپور تھی ۔۔
" بیٹا! جس طرح آپ نے پیسے اچھالے ہیں اس نے میری عزتِ نفس کو مجروح کیا ہے۔۔ پیسے تو ناچنے والوں پر اچھالے جاتے ہیں ۔۔ خون پسینے سے کام کرنے والوں کو بند مٹھی میں پیسے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔۔
شرم کے مارے میرا برا حال تھا ۔۔
بظاہر ان پڑھ اور عمر رسیدہ موچی نے مجھے زندگی کا بہت بڑا سبق پڑھا دیا تھا ۔۔
میں نے چاچا جی سے اپنے رویہ پر معذرت کی اور آئندہ اس طرح نہ کرنے کا عزم کیا ۔۔۔
100 روپے میں جوتے پالش کرانے کے ساتھ ساتھ میں نے زندگی کا ایک بہترین سبق بھی سیکھ لیا تھا۔“
منقول

https://t.me/NaseehatAamozWaqiaat

1,941

subscribers

17

photos

5

videos