اردو سچی کہانیاں @urdusachekahaniya Channel on Telegram

اردو سچی کہانیاں

@urdusachekahaniya


اس مجلس کا مقصد آپ ممبران کیلئے کارآمد اور مفید "اسلامی کہانیاں اور واقعات " کو ڈھونڈکر ایڈمن یہاں پیش کرینگے ۔ ثواب اور صدقہ جاریہ کی نیت سے آپ ممبران یہاں سے کچھ بھی کاپی
کر کے کہیں بھی شیئر کر سکتے ہیں۔۔۔

رابطہ بوٹ 👇
@Urdu_sache_kahaniyabot

اردو سچی کہانیاں (Urdu)

اس ٹیلیگرام چینل "اردو سچی کہانیاں" کا مقصد آپ ممبران کیلئے کارآمد اور مفید اسلامی کہانیاں اور واقعات کو ڈھونڈ کر آپکے سامنے پیش کرنا ہے۔ یہاں کہانیاں پڑھ کر آپ ثواب اور صدقہ جاریہ کی نیت سے انہیں کاپی کر کے کہیں بھی شیئر کر سکتے ہیں۔ اس ٹیلیگرام چینل کے ذریعے آپ ایک مختلف تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس مجلس میں مختلف انداز میں لکھی ہوئی کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں جو آپکو روشناسی اور تعلیم دینے کیلئے ہیں۔ اس ٹیلیگرام چینل کو فالو کر کے آپ ان کہانیوں کا مزیدار سفر شروع کر سکتے ہیں۔nnرابطہ بوٹ: @Urdu_sache_kahaniyabot

اردو سچی کہانیاں

28 Dec, 13:01


♻️اردو سچی کہانیاں ♻️


ایمان کتنی بڑی نعمت ہے

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی نے ایک واقعہ سنایا کہ 1994ء میں سمرقند جانے کا موقع ملا تو جامع مسجد سمرقند میں خطبہ جمعہ دیا۔ نماز جمعہ کے بعد چند نوجوان میرے پاس آئے اور کہنے لگے حضرت! آپ ہمارے گھر میں تشریف لے چلیں‘ ہماری والدہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں‘ میں نے معذرت کر دی کہ اتنے لوگ یہاں موجود ہیں‘ میں ان کو چھوڑ کر وہاں کیسے جاؤں‘ مفتی اعظم سمرقند میرے ساتھ ہی کھڑے تھے وہ کہنے لگے حضرت! آپ ان کو انکار نہ کریں‘ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا‘ ان کے ہاں جانا ضروری ہے۔ میں نے کہا بہت اچھا‘ چنانچہ ہم دوستوں سے ملاقات کر کے چل پڑے۔
راستے میں مفتی اعظم بتانے لگے کہ ان نوجوان لڑکوں کی والدہ ایک مجاہدہ اور پکی مومنہ ہے جب کمیونزم کا انقلاب آیا تو اسوقت وہ بیس سال کی نوجوان لڑکی تھی‘ اس کے بعد ستر سال گزر چکے ہیں اس طرح اس کی عمر نوے سال ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کمیونزم کے دور میں اتنا مضبوط ایمان دیا تھا کہ ادھر دہریت کا سیلاب آیا اور ادھر یہ نوجوان لڑکیوں کو دین پر جمے رہنے کی تبلیغ کرتی تھی‘ ان سے گھنٹوں بحث کرتی اور ان کو کلمہ پڑھا کر ایمان پہ لے آتی‘ ہم پریشان ہوتے کہ اس نوجوان لڑکی کی جان بھی خطرے میں ہے اور یہ دہریے قسم کے فوجی اس کی عزت خراب کر دیں گے اور اسے سولی پر لٹکا دیں گے، لہٰذا ہم اسے سمجھاتے‘ بیٹی تو جوان العمر ہے تیری عزت و آبرو اور جان کا معاملہ ہے اتنا کھل کر لوگوں کو اسلام کی تبلیغ نہ کیا کر مگر وہ کہتی کہ میری عزت و آبرو اور جان اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں ہے میری جان اللہ تعالیٰ کے راستے میں قبول ہو گئی تو کیا فرق پڑ جائے گا۔
لہٰذا یہ عورتوں کو کھلے عام تبلیغ کرتی رہتی حتیٰ کہ سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں دہریت سے توبہ کر کے دوبارہ مسلمان ہوگئیں۔ ہمیں اس کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا‘ سب علماء پریشان تھے، کہ پتہ نہیں اس لڑکی کا کیا بنے گا؟ پتہ نہیں کون سا دن وہ گا جب اسے سولی پر چڑھا دیا جائے گا اور اس کو سارے لوگوں کے سامنے بے لباس کر کے ذلیل و رسوا کر دیا جائے گا۔ مگر یہ نہ گھبراتی یہ ان کو دین کی تبلیغ کرتی رہتی‘ حتیٰ کہ اس نے ستر سال تک دین کی تبلیغ کی اور یہ ہزاروں عورتوں کے ایمان لانے کا سبب بن گئی‘ اب وہ بیمار ہے بوڑھی ہے اور چارپائی پر لیٹی ہوئی ہے اس عورت کو آپ کے بارے میں کسی نے بتایا کہ پاکستان سے ایک عالم آئے ہیں اس کا جی چاہا کہ وہ آپ سے گفتگو کر لے اس لئے میں نے کہا کہ آپ انکار نہ کریں۔ اس عاجز نے جب یہ سنا تو دل میں بہت خوش ہوا کہ جب وہ ایسی اللہ کی نیک بندی ہے تو ہم بھی ان سے دعا کروائیں۔
جب ہم ان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ صحن میں ان کی چارپائی پڑی ہوئی تھی او وہ اس پر لیٹی ہوئی تھیں۔ لڑکوں نے اس کے اوپر ایک پتلی سی چادر ڈال دی ہم چارپائی سے تقریباً ایک میٹر دور جا کر کھڑے ہو گئے‘ اس عاجز نے جاتے ہی سلام کیا‘ سلام کرنے کے بعد میں نے عرض کیا اماں! ہمارے لئے دعا مانگیئے‘ ہم آپ کی دعائیں لینے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ جب میں نے عرض کیا تو انہوں نے چادر کے اندر ہی اپنے ہاتھ اٹھائے اور بوڑھی آواز میں سب سے پہلے یہ دعا مانگی ’’خدایا! ایمان سلامت رکھنا‘‘ یقین کیجئے کہ ہماری آنکھوں سے آنسو آ گئے ‘اس دن احساس ہوا کہ ایمان کتنی بڑی نعمت ہے کہ ستر سال تک ایمان پر محنت کرنے والی عورت اب بھی جب دعا مانگتی ہے تو پہلی بات کہتی ہے خدایا ایمان سلامت رکھنا۔ ۔ ۔

✭ نوٹ :- ایسے ہی عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔👇
https://telegram.me/Urdusachekahaniya

اردو سچی کہانیاں

28 Dec, 13:00


♻️اردو سچی کہانیاں ♻️


خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

ایک دن خلیفہ ہارون الرشید کی بیگم زبیدہ خاتون محل سے باہر دریا کے کنارے سیر کر رہی تھیں۔
انہوں نے حضرت بہلول کو دریا پر بیٹھے دیکھا تو پوچھا:
بہلول یہاں کیا کر رہے ہو۔؟ بہلول نے جواب دیا:
جنت بیچ رہا ہوں___ خریدوگی۔؟
کہا :
کتنے کی۔؟
بہلول نے کہا:
پانچ سو دینار کی۔ زبیدہ خاتون نے پانچ سو دینار دیا۔
بہلول نے پانچ سو دینار لیا اور انہیں دریا میں ڈال دیا۔
جب زبیدہ خاتون نے یہ دیکھا تو حضرت
بہلول سے کہا : کہ یہ کیا کر دیا۔
پیسے دریا میں پھینک دئیے۔ تمہارے کام آئے نہ میرے ، نہ کسی اور کے ۔
بہلول نے کہا :
یہ کاروبار اور سودے کی بات ہے تم
نے جنت خریدی تو رقم میری ہوگئی میں
رقم کو جیسے بھی استمعال کروں میری
مرضی۔ زبیدہ خاتون واپس آ گئیں-
رات کو خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑا
محل ہے جو انتہائی حسین و جمیل ہے۔
پوچھا :
یہ کیا ہے ؟
جواب آیا :
یہ وہ جنت ہے جو تم نے بہلول سے پانچ سو دینار کے بدلے خریدی ہے۔ دوسرے دن زبیدہ نے دیکھا کہ بہلول پھر وہیں بیٹھے ہیں۔
وہ ان کے پاس گئی اور پوچھا:
کہ بہلول کیا کر رہے ہو۔؟
کہا : جنت بیچ رہا ہوں___ خریدوگی۔؟
کہا : کتنے کی بیچتے ہو ؟؟
کہا : پانچ ہزار دینار کی !
کہا : بہلول ایک رات میں اتنی مہنگی کر دی جنت ۔
بہلول نے جواب دیا :
کہ کل تو نے میری زبان پر یقین کر کے خریدی تو قیمت کم تھی۔ لیکن آج اپنی آنکھوں سے دیکھ کے آئی ہو، تو دیکھ پرکھ کے کئیے گئے سودے کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ زبیدہ خاتون نے پانچ ہزار
دینار دئیے تو بہلول نے پھر وہی کام کیا
کہ انہیں دریا میں ڈال دیا۔
زبیدہ خاتون سے نہ رہا گیا تو پھر کہا :
کہ بہلول آج بھی رقم دریا میں کیوں ڈال دی ؟
بہلول نے کہا :
"اللہ کی بندی اس نہر کے کنارے ایک بستی ہے جہاں بھوک اور افلاس نے ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔ میں یہ رقم پانی میں پھینکتا ہوں تو مچھلیاں وہ رقم نگل لیتی ہیں۔ مچھلیاں پانی کے بہاؤ میں بہہ کے آگے جاتی ہیں تو آگے وہ لوگ مچھلیاں پکڑتے ہیں اور جب انہیں پکانے کے لئیے ان کا پیٹ چاک کرتے ہیں تو وہ رقم انہیں مل جاتی ہے، جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں۔ مخلوق کا بھلا مانگنا سب سے بڑی عبادت ہے۔
کرو مہربانی تم نے اہل زمیں پر خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر" ۔۔۔

✭ نوٹ :- ایسے ہی عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
https://telegram.me/Urdusachekahaniya

اردو سچی کہانیاں

23 Dec, 06:14


اس مجلس کا مقصد آپ ممبران کیلئے کارآمد اور مفید "اسلامی کہانیاں اور واقعات " کو ڈھونڈکر ایڈمن یہاں پیش کرینگے ۔ ثواب اور صدقہ جاریہ کی نیت سے آپ ممبران یہاں سے کچھ بھی کاپی
کر کے کہیں بھی شیئر کر سکتے ہیں۔۔۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

27 Nov, 10:08


اس سے اپنے حالات کھل کے ڈسکس کریں مثلاً لڑکا بڑا ہے اس پہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی زمہ داریاں ہیں تو یہ بجائے اس کے کہ لڑکے کی شادی نا کی جائے اور اسے بہن بھائیوں کے انتظار میں بیٹھایا جائے بلکہ اس سے ڈسکس کر لیا جائے کہ تم اپنی زمہ داریاں پوری کرو گے۔ اور اس لڑکی کو بھی پہلے سے لڑکے کی زمہ داریوں کے بارے میں اعتماد میں لینا چاہیے۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
اس کے بعد اچھا یہ ہے کہ شادی کے بعد بچوں کو سزا کے طور پہ نہیں بلکہ ایک الگ اور مکمل فیملی یونٹ کے طور پہ انڈیپینڈنٹ کر دیں ان کی سپورٹ جاری رکھیں مگر انہیں اپنے فیصلے خود لینے دیں۔

محترم والدین اپنے بیٹوں کو ان کی بیویوں سے شاندار harmony اور تعلق بنانے میں ان کی مدد کریں یہ بیویاں ان کی زندگی بھر کا ساتھی ہیں ان کے دکھ سکھ کی ساتھی ہیں آپ بیٹوں کو بیویوں سے بیزار کر کے بہوؤں پہ ہی نہیں خود بیٹوں پہ شدید ظلم کرتے ہیں انہیں ایک بہترین ساتھی سے محروم کر دیتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ والدین ساری عمر ساتھ نہیں رہتے آپ کے بیٹے بعد میں تنہا رہ جاتے ہیں بیویاں تو بچوں میں دل لگا لیتی ہیں شوہر اکیلے رہ جاتے ہیں اور پھر انہیں دنیا اپنے مقاصد کے طور پہ ڈیل کرتی ہے۔
یہ نا گھر کے نا گھاٹ کے
انہیں ان کے گھر سے متنفر نا کریں ان کے گھر کو ان کی جنت بنانے میں اپنا مثبت رول ادا کریں۔ بڑے ہیں تو ظرف بڑا رکھیں۔

جویریہ ساجد
21 نومبر 2024


https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

27 Nov, 10:08


پسند ناپسند ۔


ہمارے یہاں جب کوئی نوجوان لڑکا اپنی شادی کے لیے اپنے والدین کو اپنی پسند بتاتا ہے تو ننانوے فیصد والدین شدید رد عمل دیتے ہیں اور ایک دم ان کی پسند کو رد کر کے بیان داغ دیتے ہیں کہ تمہاری شادی ہم اپنی پسند سے چھان پھٹک کے کریں گے۔

اس کے بعد والدین اور اولاد کے درمیان ایک سرد جنگ چھڑ جاتی ہے کبھی اس جنگ میں والدین جیت جاتے ہیں کہ اس جنگ کے دوران لڑکی کا رشتہ کہیں اور ہو جاتا ہے اور لڑکے بکتے جھکتے چپ ہو جاتے ہیں۔
کہیں بچے جیت جاتے ہیں ان کی ضد کے سامنے والدین کو پسپائی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
دونوں اطراف اس معاملے کو ٹھیک سے ہیندل نہیں کرتیں۔

یہاں والدین سے میرا سوال یہ ہے کہ اپنی پسند اور مرضی سے کھانا کھانے والے، شاپنگ کرنے والے، سونے جاگنے والے، کیرئیر کا انتخاب کرنے والے اہنی پسند سے اپنا جیون ساتھی کیوں منتخب نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔؟

بچوں نے روٹی نہیں کھانی تو پیزا آ گیا
سبزی نہیں کھانی تو برگر آرڈر کر دیا
دال نہیں پسند تو لوڈڈ فرائز منگوا لیے۔

پھٹی اور گری ہوئی پتلون پہننے سے والدین کو مسئلہ نہیں ہے، ٹخنے سے اوپر ٹراوزر پہن کے بنا دوپٹے کے گھروں سے باہر نکلنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ساری ساری رات دوستوں کے ساتھ گھومنا منع نہیں ہے سارا سارا دن اوندھا پڑے سونا منع نہیں ہے تو اپنی پسند کی شادی پہ کیا اعتراض ہے۔۔۔۔۔۔

محترم والدین !
خاص طور سے لڑکوں کے والدین
جب بچوں کو ان کی مرضی کی زندگی دی جا رہی ہے تو شادی کیوں وہ اپنی پسند سے نہیں کر سکتے۔
آپ والدین اپنی پسند سے اپنے بیٹوں کی شادیاں کر کے کون سا بہوؤں سے خوش ہوتے ہیں رشتہ پکا کرتے ہی آپ چھوٹی چھوٹی بے بنیاد باتوں پہ بدظن ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور شادی کے بعد اپنی ہی پسند کی ہوئی لڑکی سے باقائدہ جنگ شروع کر دیتے ہیں۔

تو جب یہی رویہ رکھنا ہے تو لڑکوں کو اتنا حق تو دیں کہ وہ خوش اور مطمئن رہیں کہ انہوں نے اپنی پسند سے شادی کی ہے بعد میں شادی جیسی بھی چلے ان میں ایک سینس آف اچیومنٹ ہوتا ہے کہ انہوں نے جسے چاہا اس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ورنہ وہ ساری عمر ٹھنڈی آہیں ہی بھرتے رہتے ہیں۔ خود کو ناکام تصور کرتے ہیں۔ اور خود ترسی کا شکار رہتے ہیں۔

محترم والدین ! جب آپ کا بیٹا آپ سے شادی کی خواہش کا اظہار کرئے تو اس کی خواہش کا احترام کریں وہ اپنی پسند بتائے تو اس کی بات دھیان سے سنیں اس پہ خطرناک ردعمل مت دیں بلکہ اس سے اس کی پسند کی تفصیلات پوچھیں کہ کس خصوصیت کی بنیاد پہ بیٹے نے اپنے لیے اس لڑکی کو جیون ساتھی کے طور پہ پسند کیا۔

بعض مرتبہ ہمارے بچے وقتی پسندیدگی کو محبت سمجھتے ہیں اور ظاہری اشیاء پہ مر مٹ کے زندگی بھر کا جذباتی فیصلہ کر بیٹھتے ہیں اگر ہم ان سے تفصیلی سوال جواب کریں تو ناصرف ہمارا بلکہ بچوں کا بھی ذہن کلئیر ہو گا بچوں کو خود بھی اپنی پسندیدگی کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی یہ ایک بہت باریک نقطہ ہے اس کو سمجھیں۔

بچے سے سب سے پہلے اس کی پسند کی ہوئی لڑکی کی خصوصیات پوچھیں کہ کس خصوصیت پہ بچے نے اسے زندگی بھر کے ساتھ کے لیے سلیکٹ کیا ہے۔
ان کے جواب اطمینان بخش نا ہوئے تو یہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں بچوں کے ذہنوں میں بھی سوالیہ نشان ہوں گے۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
دوسری بات ٹین ایج کے بعد اپنے بچوں سے وقتاً فوقتاً ان کی شادی کے موضوع پہ کھل کے بات کریں ان کی ذہن سازی کریں اچھے برے لوگوں کی پہچان بتائیں ان کی پسند کا معیار بنائیں انہیں ظاہریت پسند نا بنائیں کہ ظاہری خوبصورتی پہ مر مٹیں۔ دولت کا پجاری نا بنائیں کہ امیر کبیر لڑکی ان کا معیار بن جائے انہیں شروع سے سمجھائیں اور سیکھائیں کہ شکل و صورت اور مال و دولت، ڈگریاں، سٹیٹس، بولڈنیس کبھی بھی پسند کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔
کیریکٹر، مزاج سب سے اہم ہے اس کے بعد تربیت دیکھیں۔
بچوں کی پسند کو معیار دیں۔
انہیں واضح طور پہ بتاتے رہیں کہ آپ کے خاندان کے ساتھ کیسی لڑکی چلے گی۔
ہمارے یہاں والدین شادی کے نام پہ ڈسکس کرتے ہیں
میں تو اپنے سب ارمان پورے کروں گی
ہزار لوگوں کا ولیمہ ہو گا
چھ سات فنکشن میں الگ مینیو ہوگا۔
اونچے گھرانے میں رشتہ کریں گے تاکہ شریکے جل کے کوئلہ ہو جائیں۔وغیرہ وغیرہ
پریکٹیکل لائف سے دور دور تک ان پلانگز کا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔
بچوں کی ذہن سازی شروع سے کریں اچھے برے انسان کی پرکھ سیکھائیں

اس کے بعد بچوں کی پسند کو کھلے دل سے قبول کریں۔
ان سیکیور ہو کے انکار کرنے کے بجائے اپنی ان سیکیورٹیز بچوں کے سامنے رکھیں انہیں بچوں سے ڈسکس کریں اور ان کا حل نکالیں۔

بچوں سے ایک وعدہ ضرور لیں کہ وہ شادی کو نبھائیں گے آج شادی کی کل توڑ دی یہ نہیں چلے گا۔ اور انہیں تنبیہہ کریں کہ وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کے شادی کریں شادی کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے اس کے ساتھ بچے کی پسند کی ہوئی لڑکی سے ملیں اسے جج نا کریں اسے اعتماد دیں اپنائیں۔

اردو سچی کہانیاں

27 Nov, 10:07


*پیچھے اس امام کے*
*مَیں ایک دن سوچ رہا تھا کہ آخر ، "پیچھے اس امام کے"، اس کا مطلب عوام کیا سمجھتی ہے*
*تو میری سمجھ میں جو آیا اسے جان کر آپ حیران ہو جائیں گے*
*پیچھے اس امام کے*
*یعنی اس امام کے پیچھے پڑ جاؤ*
*کہاں جاتا ہے ؟
کیا کرتا ہے ؟
کب سوتا ہے؟
اکثر یہ سنت پڑھتا نظر نہیں آتا ،
اس سے پہلے کہاں نماز پڑھاتا تھا ؟
وہاں سے کیوں نکالا گیا؟
اب وہاں کیوں جاتا ہے ؟ فلاں سے کیوں بات کرتا ہے ؟
نمازیوں کے ساتھ کیوں بیٹھتا ہے؟
نمازی بالخصوص نوجوان اس سے ملنے کیوں آتے ہیں؟
اس کے پاس موبائل کون سا ہے ؟
گاڑی بہت تیز چلاتا ہے؟ اس کے پاس گاڑی کہاں سے آگئی ؟
کھا کھا کر موٹا ہوگیا ہے ،
جب آیا تھا تو پتلا تھا. اس کو چربی چڑھ گئی ہے ،
یہ بازار/مارکیٹ کیوں جاتا ہے؟
اگر جلسہ/پروگرام میں یا کسی ضروری کام سے چلا جائے تو کہا جاتا ہے:"
یہ امام بہت غیر حاضر ہونے لگا۔"
ابھی جماعت کھڑی ہو نے میں 3/4منٹ باقی ہوتے ہیں لوگ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ امام آیا یا نہیں!
سالوں سال گھر نہ جائے اپنے والدین/بیوی بچوں سے دور رہے اگر مہینے دو مہینے بعد دوچار دن اپنے گھر/گاؤں چلاجاۓ توبعض فتنہ پرور شور مچاتے ہیں:
لو جی امام صاحب بڑے غیر ذمہ دار ہوگئے ہیں۔۔۔(خود کو مہینے میں چار یا آٹھ چھٹیاں درکار مگر امام بندہ بشر تھوڑی ہے اسے چھٹی کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ خود روز گھر جائیں مگر امام؟
نہ بھئی نہ) امام کبھی بیمار ہوجاۓ تو بجاۓ عیادت و بیمار پرسی کے اس پر بھی اعتراضات شروع کردیئے جاتے ہیں۔۔۔
بس جی ان کو تو کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*وغیرہ وغیرہ*
*آج اکثر ائمۂ مساجد ان چیزوں کے شکار ہیں ، وہ اپنا دکھڑا کہیں تو کس سے کہیں ، ان کا کوئی حامی اور مدد گار نہیں، قوم جب چاہتی ہے اماموں کو نکال دیتی ہے ، اور اکثر جگہ اماموں کو حسد/بغض/ذاتی انتقام کی وجہ سے نکالا جاتا ہے ، امام بیچارہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑتاہے*
*جیسے ہی وہ جاتا ہے فتنہ و فساد کے چیمپئن/معاشرے کے ناسور اس کی "ایک برائی" کو "سو برائیاں" بنا کر عوام کے سامنے رکھتی ہے*
*اگر یہ جھوٹ ہے تو آپ مجھے بتائیں*
*اور اگر سچ ہے تو آگے فاروڈ کریں*
اللہ پاک عقل سلیم عطا فرماۓ اور اماموں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

27 Nov, 10:07


*"تمہارا مقام وہی ہے جہاں اللہ نے تمہیں مصروف رکھا ہے*

*کسی بزرگ نے کیا ہی فرمایا* :


اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ *اللہ* کے نزدیک تمہارا مقام کیا ہے، تو دیکھو وہ تمہیں کس کام میں مشغول رکھتا ہے:

*اگر وہ تمہیں اپنے ذکر میں مشغول رکھے*،

تو جان لو کہ وہ تمہیں یاد رکھنا چاہتا ہے۔

*اگر تمہیں قرآن میں مصروف کرے*،

تو سمجھ لو کہ وہ تم سے ہمکلام ہونا چاہتا ہے۔

*اگر تمہیں نیک اعمال میں مصروف کرے*،

تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنے قریب کرنا چاہتا ہے۔

*اگر دنیاوی معاملات میں الجھائے*،

تو یہ سمجھو کہ تمہیں دور کر رہا ہے۔

*اگر تمہیں لوگوں کے معاملات میں مصروف رکھے*،

تو یہ جان لو کہ وہ تمہیں بے وقعت کرنا چاہتا ہے۔

*اگر دعا میں مشغول کرے*،

تو یقین کرو کہ وہ تمہیں نوازنا چاہتا ہے۔

*اگر فائدہ مند علم میں مصروف کرے*،

تو وہ چاہتا ہے کہ تم اس کی معرفت حاصل کرو۔

*اگر تمہیں جہاد فی سبیل اللہ میں لگائے*،

تو وہ تمہیں اپنے لیے چننا چاہتا ہے۔

*اگر خدمت خلق اور بھلائی کے کاموں میں مشغول کرے*

، تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنی محبت والے کاموں میں لگا رہا ہے۔

*اور اگر تمہیں غیر ضروری کاموں میں مصروف کرے*

، تو سمجھو کہ تمہیں اپنی محبت سے نکال رہا ہے۔

*اگر تمہیں دین میں تحریف یا ایسے کاموں میں مشغول رکھے*

جو اسکی نافرمانی کے ہوں تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنی محبت سے محروم کر رہا ہے

*اور اگر تمہیں اپنے بندوں کو تکلیف اور اذیت پہنچانے میں مصروف رہنے دے*،

تو جان لو کہ تمہیں خیر سے محروم کیا جا رہا ہے

*لہذا، اپنے حال پر غور کرو کہ تم کس کام میں مشغول ہو، کیونکہ تمہارا مقام وہی ہے جہاں اللہ نے تمہیں مصروف رکھا ہے۔*۔

*اللّٰه اللّٰه اللّه*

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

27 Nov, 10:07


*یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے جس سے ہر کوئی محبت کرتا تھا،*


*لیکن سوال یہ تھا کہ اس سے شادی کون کرے گا*

کہا جاتا ہے کہ ایک نوجوان نے اپنے والد سے کہا: "میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں،
جسے میں نے دیکھا ہے اور جس کے حسن و خوبصورتی اور دلکش آنکھوں نے مجھے مسحور کر دیا ہے۔"

والد خوشی سے مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں: "کہاں ہے وہ لڑکی،
تاکہ میں تمہارے لیے اس کا رشتہ مانگوں؟"

جب وہ دونوں لڑکی کو دیکھنے جاتے ہیں تو والد بھی اس کے حسن سے متاثر ہو جاتا ہے اور اپنے بیٹے سے کہتا ہے:
"سن بیٹا، یہ لڑکی تمہارے لائق نہیں ہے،
تم اس کے قابل نہیں ہو۔
یہ تو ایک ایسے آدمی کے لیے ہے جو زندگی کا تجربہ رکھتا ہو اور جس پر بھروسہ کیا جا سکے، جیسے میں۔"

لڑکا اپنے والد کی بات سن کر حیران ہو جاتا ہے اور کہتا ہے:
"نہیں، میں اس سے شادی کروں گا، نہ کہ آپ۔"

پھر وہ دونوں جھگڑتے ہوئے پولیس اسٹیشن چلے جاتے ہیں
تاکہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔
جب انہوں نے پولیس افسر کو اپنی کہانی سنائی تو افسر نے کہا:
"لڑکی کو بلاؤ، ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس کو چاہتی ہے، بیٹے کو یا والد کو؟"

جب افسر نے لڑکی کو دیکھا اور اس کے حسن سے متاثر ہوا،
تو اس نے کہا:
"یہ تم دونوں کے لیے مناسب نہیں،
یہ تو میرے جیسے کسی اہم شخص کے لیے ہے۔"

اب تینوں میں جھگڑا ہوتا ہے
اور وہ وزیر کے پاس چلے جاتے ہیں۔
وزیر لڑکی کو دیکھتے ہی کہتا ہے:
"یہ لڑکی تو صرف وزیروں کے لائق ہے، جیسے میں ہوں۔"

اسی طرح ان میں جھگڑا ہوتا رہا اور معاملہ امیرِ شہر تک پہنچ گیا۔
جب امیر نے لڑکی کو دیکھا،
تو اس نے کہا:
"یہ مسئلہ میں حل کرتا ہوں،
لڑکی کو لاؤ۔"

لڑکی کو دیکھ کر امیر بھی کہنے لگا:
"یہ تو صرف کسی امیر ہی سے شادی کر سکتی ہے، جیسے میں ہوں۔"

پھر سب نے بحث کی،
تو لڑکی نے کہا:
"میرے پاس ایک حل ہے۔
میں دوڑوں گی اور تم سب میرے پیچھے دوڑو گے،
جو بھی پہلے مجھے پکڑے گا،
میں اسی کی بن جاؤں گی اور اس سے شادی کروں گی۔"

لڑکی دوڑی اور پانچوں یعنی نوجوان، والد، پولیس افسر، وزیر اور امیر سب اس کے پیچھے دوڑے۔
اچانک دوڑتے دوڑتے پانچوں ایک گہری کھائی میں جا گرے۔

لڑکی اوپر سے انہیں دیکھ کر کہتی ہے:
"کیا تمہیں معلوم ہوا میں کون ہوں؟ میں دنیا ہوں!!!
میں وہ ہوں جس کے پیچھے ہر انسان دوڑتا ہے، اور اپنی آخرت اور دین کو بھول جاتا ہے۔
وہ سب میری تلاش میں لگے رہتے ہیں،
یہاں تک کہ قبر میں جا گرتے ہیں، اور پھر بھی مجھے حاصل نہیں کر پاتے۔"
کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دنیا کی چمک دمک کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے دین اور آخرت پر توجہ دیں،
کیونکہ دنیا فانی ہے اور ہمیں کبھی بھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

27 Nov, 10:06


🥀 _*بیٹوں کی کامیاب اور بابرکت زندگی کے رہنما اصول*_ 🥀

بیٹوں کی تربیت ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے اکثر والدین اولاد کی سرکشی کی وجہ سے شدید دکھ اور تکلیف میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں

اس سلسلے میں ابن القیم الجوزيؒ کہتے ہیں:
بے شک گناہوں میں سے کچھ گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کفارہ انسان کو اولاد کی طرف سے ملنے والے غم کے سوا کچھ نہیں ہوتا تو خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے بیٹوں کی تربیت کا اہتمام اس طریقے پر کرتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کی پسند اور رضا کا ہے اور خوشخبری ہے اس کے لیے جس کے لیے اولاد کی تربیت میں تکلیف اٹھانا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے لہذا اگر تم اپنے بیٹوں میں کوئی ایسی بات دیکھو جو تمہیں ان کی تربیت کے معاملہ میں تھکا دیتی ہو تو اپنے رب سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو

مقاتل بن سلیمانؒ منصور عباسی خلیفہ کے پاس آئے جس دن ان کی خلافت پر بیعت کی گئی تو منصور نے ان سے کہا:
اے مقاتل! مجھے کچھ نصیحت کیجئے
تو مقاتل کہنے لگے:
کیا میں تمہیں (اس میں سے) نصیحت کروں جو میں نے دیکھا یا (اس میں سے) جو میں نے سنا؟
تو منصور نے کہا:
اس میں سے جو آپ نے دیکھا ہے
تو مقاتل نے کہا:
سنو اے امیر المومنین! عمر بن عبد العزیز کے گیارہ بیٹے تھے اور وہ صرف اٹھارہ دینار چھوڑ کر فوت ہوئے جن میں سے پانچ دینار کا وہ کفن دیے گئے اور چار دینار سے ان کے لیے قبر خریدی گئی اور باقی دینار ان کے بیٹوں میں تقسیم کر دیے گئے اور ھشام بن عبد الملک کے ہاں بھی گیارہ لڑکے تھے جب اس کا انتقال ہوا تو اس نے ترکہ میں ہر لڑکے کے حصے میں دس لاکھ دینار چھوڑے اللہ کی قسم! اے امیر المومنین میں نے ایک ہی دن عمر بن عبدالعزیز کے ایک بیٹے کو دیکھا وہ اللہ کی راہ میں سو گھوڑے صدقہ کر رہا تھا اور ھشام کے بیٹے کو دیکھا وہ بازاروں میں بھیک مانگ رہا تھا
جب عمر بن عبدالعزیزؒ بستر مرگ پر تھے تو لوگوں نے ان سے پوچھا:
اے عمر! تم اپنے بیٹوں کے لیے کیا چھوڑے جارہے ہو؟
انہوں نے فرمایا:
میں نے ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کا تقوی چھوڑا ہے پس اگر وہ نیکوکار ہوئے تو اللہ سبحانہ و تعالی نیکوکاروں کا دوست ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور ہوئے تو میں ان کے لیے وہ مال ہرگز نہ چھوڑوں گا جو وہ اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں ان کا مددگار بنے
یہ بہت قابل غور بات ہے کہ عموما لوگ مال جمع کرنے کے لیے سخت محنت اور مشقت کرتے ہیں اور اپنی اولاد کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی موت کے بعد ان کی اولاد کے پاس مال ہوگا تو ہی وہ خوشحال رہیں گے اور امن میں ہوں گے. جبکہ وہ اس سے زیادہ بڑے امان جو کہ اللہ کا تقوی ہے اس سے غافل رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو تقوی کا توشہ نہیں دیتے
ایک آدمی جب اپنے کسی بیٹے میں اخلاقی زوال دیکھتا تو صدقہ کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور اس آیت کی تلاوت کرتا تھا
*خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا*
ان سے ان کے مالوں میں سے صدقہ لے کر ان کو پاک کیجئے اور اس سے ان کا تزکیہ کیجئے
اور دعا کرتا کہ
اے اللہ! میرا یہ صدقہ کرنا اس لیے ہے کہ میرے بیٹے کا اخلاقی تزکیہ ہو جائے کیونکہ اس کا یہ بگاڑ مجھ پر اس کی جسمانی بیماری سے زیادہ بھاری ہے
اسی طرح ایک اور شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ غربت کی زندگی گزارنے کی وجہ سے جب وہ صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ پاتا اور اس کا بیٹا اس کو ستاتا تو وہ رات کو قیام اللیل میں سورة البقرة پڑھ کر دعا کرتا اور یوں کہتا کہ:
اے اللہ! یہ میرا صدقہ ہے تو مجھ سے قبول کر لے اور اس کی وجہ سے میرے بیٹے کی اصلاح فرما دے
اپنے بیٹوں کی اصلاح کی نیت سے اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف عبادت کے ذریعے رجوع کریں اگر انہوں نے تمہاری کوششوں کو مغلوب کر بھی لیا تو وہ تمہاری نیتوں کو ہرگز مغلوب کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے
*رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا*
اے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا آمین

اپنا یہ معمول بنالیں کہ ہر فرض نماز کی آخری رکعت میں درود اور دعا کے ساتھ اس دعا کا بھی اضافہ کرلیں ان شاء اللہ انتہائی مجرب پائیں گے اللہ تعالی ہمارے بچوں کو صحیح معنوں میں امت کا سرمایہ اور ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنا دے آمین یا رب العالمین
تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش کسی کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن جائے
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

06 Oct, 19:25


اردو سچی کہانیاں

          سبق آمــــــــــوز قصہ

شیخ محمد راوی سے ایک عورت نے سوال پوچھا کہ ان کے شوہر کی والدہ بیمار رہتی ہیں۔
شوہر تقاضا کرتا ہے کہ میں ان کے ماں کی خدمت کروں اور  مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔
کیا مجھ پر شوہر کے ماں کی خدمت واجب ہے؟
شیخ نے جواب دیا نہیں تجھ پر شوہر کے ماں کی خدمت ہرگز واجب نہیں ہے ہاں البتہ تمہارے شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرے۔
پھر شیخ نے تین حل پیش کیے
پہلا حل والدہ کو گھر لیکر آئیں اور دن رات آپ کے شوہر اور اس کے بچے اپنی ماں اور دادی کی خدمت کرے ان پر یہ واجب ہے یاد رکھیں آپ پر واجب نہیں ہے۔
دوسرا حل والدہ کو الگ گھر میں رکھیں اور انکی دیکھ بھال خدمت و خبر گیری کے لیے وہاں جاتا رہے اگر والدہ یہ تقاضا کرے کہ رات ان کے سرہانے گزارے تو ماں کے پاس رات رکنا ان پر واجب ہے، یاد رکھیں آپ پر واجب نہیں ہے۔
تیسرا حل والدہ کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس رکھ لیں اگر نرس کے لیے تنخواہ دینے میں حرج ہو تو گھر کے اخراجات کم کرکے نرس کی تنخواہ دے، نرس کی موجودگی میں والدہ کے پاس آتے جاتے فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہو نرس سے شادی کرنا واجب ہوگا، اس طرح وہ تین نیکیوں کو جمع کرے گا دوسری شادی کا اجر، ماں کی خدمت کا اجر اور فتنے سے بچنے کا اجر ۔
البتہ آپ پر شوہر کے ماں کی خدمت واجب نہیں ہے، لہذا آپ عزت کے ساتھ اپنے گھر رکی رہیں۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد عورت بولی، شیخ صاحب شوہر کی ماں بھی میری ماں جیسی ہے واجب نہیں تو مستحب سہی میں خود اسکی خدمت کروں گی۔

✭ نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے آج ہی ہمارا چینل جوائن کریں۔ چینل میں شامل ہونے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں اور شمولیت اختیار کریں اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو۔👇
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
🌷🌷

اردو سچی کہانیاں

06 Oct, 19:24


♻️♻️
♻️اردو سچی کہانیاں ♻️

   وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا

کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس کی سلطنت بہت وسیع اور خوشحال تھی۔ اس کے دربار میں ایک عقلمند اور دانا وزیر تھا جو ہر مشکل وقت میں بادشاہ کو بہترین مشورے دیتا تھا۔ بادشاہ وزیر کی حکمت سے بہت متاثر تھا اور اکثر اس کی رائے سے اپنے فیصلے کیا کرتا تھا۔

ایک دن بادشاہ نے ایک بہت ہی عجیب واقعہ دیکھا کہ اس کا قریبی ساتھی اچانک بے سبب ناراض ہو کر اس کے خلاف ہو گیا۔ بادشاہ کو بہت صدمہ پہنچا اور وہ سخت پریشان ہو گیا۔ وہ وزیر کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ "آخر یہ کیا ہو گیا؟ میرے وفادار ساتھی نے اچانک مجھے دھوکہ کیوں دیا؟"

وزیر نے مسکراتے ہوئے کہا، "حضور، یہ دنیا ایسی ہے کہ لوگ حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ وقت میں دوست دشمن بن جاتے ہیں اور کبھی دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں۔ آپ کو صبر سے کام لینا چاہیے اور جلدی کسی پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔"

بادشاہ وزیر کی بات سمجھ گیا، مگر وہ پھر بھی پریشان تھا۔ وزیر نے بادشاہ کو ایک مشورہ دیا کہ "اے بادشاہ! جب بھی آپ کو زندگی میں مشکل وقت کا سامنا ہو تو بس یہ یاد رکھیں کہ 'یہ وقت بھی گزر جائے گا'۔"

کچھ دن گزرے اور بادشاہ کی زندگی میں پھر خوشحالی کا دور آیا۔ اس نے وزیر سے کہا، "اب تو سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔"

وزیر نے پھر مسکراتے ہوئے کہا، "یہ بھی یاد رکھیں، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔"

کہانی کا سبق ؛

اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ زندگی میں اچھے اور برے دونوں وقت آتے ہیں۔ خوشحالی کے دن ہوں یا مشکلات کا سامنا ہو، ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، اور ہر حالت میں صبر و شکر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

سیکھنے کا نکتہ ؛

واقعہ چاہے حقیقت پر مبنی ہو یا نہ ہو، اس سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جو ہمارے دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں اور ہمیں بہتر انسان بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم ان واقعات سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنی زندگی میں اپنائیں اور اپنی شخصیت کو بہتر بنائیں۔

ہمیں ان کہانیوں سے ملنے والی تعلیمات اور نصیحتوں کو اپنے روزمرہ کے عمل میں شامل کرنا چاہئے تاکہ ہم خود کو اور اپنی دنیا کو بہتر بنا سکیں۔

✭ نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے آج ہی ہمارا چینل جوائن کریں۔ چینل میں شامل ہونے کے لئے درج ذیل لنک پہ کلک کریں اور شمولیت اختیار کریں اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو۔👇

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:08


*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ*
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q


*علم کا نفع متعدی کرنے کی صورتیں*

ارشاد فرمایا کہ ایک سبق علماء کو لینا چاہیے کہ علم کو فضل عظیم سمجھ کر حاصل کریں اور اس سے کوئی غرض دنیوی نہ رکھیں اور بعد تحصیل کے اس فضل عظیم کی پوری قدر کریں، اس کی حفاظت کریں، اس کو ضائع نہ کریں۔ آج کل طلباء کی یہ حالت ہے کہ علم حاصل کرنے تک تو نہ کچھ نیت ہوتی ہے نہ توجہ نہ شغل اور جب فارغ ہوئے تو بعض تو اسے دنیا کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور بعض اس سے تعلق ہی نہیں رکھتے کہ کوئی طبیب بن جاتا ہے، کوئی تاجر بن گیا، کوئی صنّاع ہوگیا۔ میں کچھ بننے کو منع نہیں کرتا، بنو مگر علوم سے تعلق تو رکھو تاکہ اس کا نفع متعدی رہے اور اس تعدیہ کی ایک خاص صورت یہ ہے کہ پڑھاتا رہے اور ایک عام صورت ہے کہ وعظ کہتا رہے جس کو آج کل علماء نے بالکل چھوڑ دیا اور اسی لیے اسے جہلاء نے لے لیا اور اگر ان دونوں میں سے کچھ نہ ہوسکے تو کم از کم مطالعہ ہی کرتا رہے تاکہ ذہول (بھول) نہ ہوجائے اور اگر اتفاق سے کسی کے لیے کسب (کمائی) کا ذریعہ بھی یہی علم ہو تو وعظ کو ذریعہ معاش نہ بناؤ بلکہ کوئی کتاب تصنیف کرو، تدریس میں مشغول ہو اور اس سے معاش حاصل کرو۔

(فیضانِ مجدد، صفحہ ۱۵۴)

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:08


*‏بچیوں کو محفوظ کریں!*

1: اپنی بچیوں کو کبھی کسی بھی مرد ٹیچر کے پاس سکول پڑھنے،، یا قاری صاحب کے پاس قرآن پڑھنے کے لیے نہ بھیجیں! بچی چھوٹی ہو یا بڑی ہو،، ٹیچر یا قاری صاحب بڑی عمر کے سمجھ دار ہوں یا کم عمر نوجوان.. بچی ہمیشہ استانی کے پاس ہی پڑھے گی۔۔

2: جب بچی کچھ بڑی بڑی لگنے لگے تو اسے دکان پر چیز لینے نہ جانے دیں! خواہ بچی کتنی ہی کم عمر ہو.. اگر صحت مند ہے اور خد و خال واضح ہو رہے ہیں تو دکان پر مت جانے دیں!

3: بچیوں کو کم لباس، یا تنگ لباس کر کے باہر مت بھیجیں! بلکہ گھر میں بھی مکمل کپڑے پہنا کر رکھیں! گھر میں کوئی مرد نہ ہو، صرف عورتیں ہی ہوں پھر بھی پورے ، اور کشادہ کپڑے پہننے کی عادت ڈالیں!

4: بچیوں کو چھوٹے بچوں ، یا بڑے مرد کسی کے سامنے مت نہلائیں! اور نہ ہی پیشاب وغیرہ کروائیں! حتیٰ کہ باپ کے سامنے بھی بچیوں کو برہنہ مت کریں! بچیوں کے اعضاء ستر بچپن سے ہی پردے میں رہنے چاہییں!

5: بچیوں کو بچیوں جیسا تیار کریں! سرخی پوڈر اور میک اپ کروا کر انہیں عورتوں کے مشابہ مت بنائیں! میک اپ کرکے تنگ کپڑے پہن کر چھوٹی چھوٹی عورتیں لگ رہی ہوتی ہیں ۔۔ پھر مردوں کی ہوس کی شکار بنتی ہیں ،، اور ان کی لاشیں ویرانوں سے برآمد ہوتی ہیں ۔

6: بالغ لڑکیوں کو،، یا قریب البلوغ بچیوں کو غیر محرم خصوصاً کزن، پھوپھا اور خالو وغیرہ کے ساتھ کبھی موٹر سائیکل پر مت بٹھائیں! اگر مجبوراً بھیجنا ہو تو ساتھ کوئی اور بچہ بھیجیں جو درمیان میں بیٹھ جائے۔

7: بچیاں ہوں یا بچے.. ہاتھ کا مذاق ان سے کوئی نہیں کرے گا۔ نہ استاد ، نہ کوئی بڑا انکل ، نہ ہی قریبی رشتے دار..
اسی طرح گالوں پر ہاتھ پھیرنا ، گود میں بٹھانا ، گدگدی کرنا وغیرہ.. یہ سب چیزیں بالکل ممنوع قرار دیں!

8: بہنوں کے کمرے بھائیوں سے الگ ہونے چاہییں! بھائیوں کو بہنوں کے کمروں میں بلا اجازت جانے پر سخت سزا دیں! بہنوں کے گلے لگنا، گلے میں ہاتھ ڈالنا، مذاق مذاق میں ایک دوسرے سے گتھم گتھ ہونا بالکل غلط ہے ۔۔ بلکہ موجودہ حالات کے پیش نظر بے ہودگی کے زمرے میں آتا ہے ۔
#علماءہند

9: گھر میں کوئی بھی نامحرم مرد مہمان آئے ، قریب سے آئے یا دور سے،، جوان بچیاں اس سے سر پر ہاتھ نہیں رکھوائیں گی۔ بلکہ بہت قریبی رشتے دار نہ ہو تو سلام کرنا بھی ضروری نہیں۔ یہ بے ادبی کے زمرے میں نہیں آتا ۔
اپنی بچیوں کی جوانی کو ایسے چھپا کر رکھیں کہ کسی مرد کو ان کا سراپا ہی معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں کی لڑکی اتنی موٹی اور اتنی لمبی تھی وغیرہ ۔۔

10: بچیوں کو گھر میں محرم رشتے داروں کے سامنے دوپٹہ لینے اور سنھبالنے کی خصوصی مشق کروائیں! دوپٹہ سر سے کبھی سرک بھی جائے تو سینے سے بالکل نہیں ہٹنا چاہیے!
اور کھلے گلوں پر سختی سے پابندی لگائیں! بچیوں کو سمجھائیں کہ دستر خوان پر کبھی کسی کے سامنے جھک کر سالن نہیں ڈالنا، کوئی چیز گر جائے تو جھک کر نہیں اٹھانی.. اور اکیلے میں بھی اگر جھک کر کوئی کام کریں تو گلے اور سینے پر دوپٹے برابر قائم رہے ۔۔ تاکہ انجانے میں بھی کسی کی نظر نہ پڑے..
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

#ULAMA_A_HIND
یہ چند باتیں ہیں جن پر عمل کرنے سے ان شاءاللہ بہت فائدہ ہوگا،، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بچیاں محفوظ رہیں تو ان پر عمل کریں! یہ ہندوستان اور پاکستان ہے یہاں سب سے زیادہ فحش ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں ،، اور اب تو فحش نگاری کے باقاعدہ مصنفین موجود ہیں جو محرم رشتوں کے آپسی جنسی تعلقات سے متعلق گندی کہانیاں لکھ رہے ہیں اور ویڈیوز بنا رہے ہیں.. ہندوستان اور پاکستان کے لوگ سب سے زیادہ ایسی ویڈیوز اور کہانیاں دیکھ رہے ہیں۔۔ اسی لیے یہاں کے لوگ آہستہ آہستہ بھیڑیے بنتے جا رہے ہیں ۔۔ اپنی بچیاں خود بچالیں!
ورنہ یاد رکھیں! کسی کو آپ کی بچیوں پر ہونے والی زیادتیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کی لاش گٹر میں ملے ، ندی نالوں میں ملے یا کسی ویرانے میں ملے۔۔ تو یہ صرف اخبار کی ایک خبر ہے ، یا ٹی وی کی نیوز...
انصاف وغیرہ کو بھول جائیں! وہ یہاں نہیں ملتا ۔
اس لیے بہتر ہے کہ خود ہی احتیاط کریں !

*سارے حضرات اپنے فیملی گروپوں میں اس کو پھیلائیں !*

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:08


اٹھ کر کہا : ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے جب تک آپ یہ وضاحت نہ کردیں کہ مال غنیمت میں ہر ایک کے حصے میں جتنا کپڑا آیا تھا آپ نے اس سے زیادہ کیوں لے لیا؟ اور اس سے اپنا جُبّہ بنوالیا ؟ حضرت عمر نے اس شخص کو بُرا بھلا نہیں کہا کہ تم میری ایمان داری پر شک و شبہہ کیوں ظاہر کرتے ہو؟ بلکہ اپنے بیٹے عبد اللہ کو اشارہ کیا ، جنھوں نے کھڑے ہوکر یہ وضاحت کردی کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا ابّا جان کو دے دیا تھا -

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:08


*بدگمانی سے بچنا ضروری ہے*
*اور بدگمانی کو دوٗر کرنا بھی ضروری ہے -*

محمد رضی الاسلام ندوی

حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے - ام المؤمنين حضرت صفیہ بنت حُیَی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : اللہ کے رسول ﷺ ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف میں تھے - میں رات میں آپ سے ملاقات کرنے کے لیے گئی - [ ام المؤمنين کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس تھا - ] کچھ دیر تک بیٹھ کر آپ سے گفتگو کی - جب واپس آنے لگی تو آپ نے فرمایا : ٹھہرو ، میں تمہیں باہر تک چھوڑ دوں - آپ میرے ساتھ مسجد کے دروازے تک آئے - وہاں سے انصار کے دو آدمی گزر رہے تھے - انھوں نے آپ کو دیکھ کر اپنی رفتار تیز کردی - آپ نے انہیں پُکارا : ” اِدھر آؤ ، یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہیں - “ انھوں نے کہا : ” سبحان اللہ ، اے اللہ کے رسول ! کسی دوسرے کے بارے میں تو ہم بدگمانی کر سکتے ہیں ، لیکن آپ کے بارے میں کسی طرح کی بدگمانی کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے؟ “ آپ نے فرمایا : ” شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح گردش کرتا رہتا ہے - مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی نہ ڈال دے - “ (بخاری : 2035 ، مسلم : 2175)

یہ حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتبِ حدیث میں بھی مروی ہے - اس سے دین کی متعدّد اہم تعلیمات مستنبط ہوتی ہیں :

(1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی حالتِ اعتکاف میں اپنے گھر والوں سے مل سکتا ہے اور ان سے گفتگو کر سکتا ہے - مسنون اعتکاف یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے آپ کو مسجد میں محبوس کرلے - وہاں رہتے ہوئے زیادہ اوقات عبادت میں گزارے ، نوافل پڑھے ، قرآن کی تلاوت کرے ، اسے سمجھنے کی کوشش کرے ، دینی کتابوں کا مطالعہ کرے - ان کے علاوہ بھی وہ دیگر کام انجام دے سکتا ہے -

(2) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت مسجد میں جاسکتی ہے ، نماز پڑھنے کے لیے ، مسجد میں منعقد ہونے والے کسی دینی پروگرام میں شرکت کے لیے ، مسجد میں مقیم کسی شخص سے ملاقات کرنے کے لیے - اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے دروازے عورت پر بند کردینا درست رویّہ نہیں ہے -

(3) اس سے زوجین کے درمیان قریبی تعلق ، انس و محبّت ، خبر گیری اور دیکھ بھال کا بھی اشارہ ملتا ہے - حضرت صفیّہ اپنے شوہر (اللہ کے رسول ﷺ) سے ملاقات کے لیے گئیں - اور آپ نے انہیں بیٹھے بیٹھے رخصت کردینے کو کافی نہیں سمجھا ، بلکہ مسجد کے دروازے تک انہیں چھوڑنے گئے -

(4) اس سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے بارے میں بدگمانی نہیں رکھنی چاہیے - ایک مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن رکھے اور جب تک اس کے پاس پختہ ثبوت نہ ہوں وہ کسی کے بارے میں غلط رائے قائم نہ کرے - بدگمانی ایک بری خصلت ہے - قرآن و حدیث میں اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے - اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا كَثِيۡرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ‌ (الحجرات : 12)
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔ “
آج کل مسلم سماج میں بھی یہ بیماری عام ہے کہ بغیر کسی پختہ ثبوت کے کسی کے بارے میں بدگمانی قائم کرلی جاتی ہے - بدگمان شخص میں اتنی ہمّت نہیں ہوتی کہ وہ متعلّق شخص سے براہ راست رابطہ کرکے تحقیق کرلے کہ اُس کے بارے میں اسے جو بات معلوم ہوئی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں ، اس کے بجائے وہ اُس بات کو دوسروں سے کہتا پھرتا ہے ، چنانچہ انہیں بھی بدگمان کردیتا ہے - اس طرح مسلسل غیبت کا مرتکب ہوتا رہتا ہے - اسی لیے سورۂ حجرات کی مذکورہ بالا آیت میں بدگمانی سے منع کرنے کے ساتھ لوگوں کے عیوب تلاش کرنے ، معاملات کی ٹوہ میں لگنے ، تجسّس کرنے اور چُھپی ہوئی باتوں کی کھوج کرید کرنے سے روکا گیا ہے -

(5) اس سے ایک اہم استنباط یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی موقع پر کسی شخص کو اندیشہ ہو کہ دوسرے لوگ کسی معاملے میں اس سے بدگمان ہوجائیں گے تو اسے خود آگے بڑھ کر ان کی بدگمانی دوْر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے - یہ سوچنا کافی نہیں کہ میں حق پر ہوں ، دوسرے لوگ میرے بارے میں جو بھی سوچیں ، جو بھی کہیں ، کوئی فرق نہیں پڑتا ، بلکہ اپنی پوزیشن صاف کرنے اور معاملے کی وضاحت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے - اللہ کے رسول ﷺ نے محسوس کیا کہ راستے سے گزرنے والوں کے دل میں یہ بات آسکتی ہے کہ یہ پتہ نہیں ، کون عورت ہے؟ چنانچہ آپ نے فوراً وضاحت کردی کہ یہ میری بیوی ہے -

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

البتہ ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے - وہ یہ کہ خود کو صرف وضاحت کرنے تک محدود رکھنا چاہیے ، اس سے آگے بڑھ کر شبہات کا اظہار کرنے یا اندیشوں میں مبتلا ہونے والوں کو بُرا بھلا نہیں کرنا چاہیے - مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے - اسی دوران میں ایک شخص نے

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:08


`بھائی```


بہن بھائی کا رشتہ بھی عجیب سا ہے ، یہ کبھی محبت کا ہے
تو کبھی لڑائی کا کبھی دوستی کا ہے تو کبھی دشمنی کا ۔
میرا بھائی مجھ سے چار سال بڑا ہے بچپن میں وہ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا ۔ میں یہ بات اس کے منہ پر برملا کہہ دیا کرتی تھی کہ بھائی تم مجھے بالکل نہیں پسند ، یہ سن کر وہ زور سے ہنستا اور چلا جاتا ۔
اس ناپسندیدگی کی بہت ساری وجوہات تھیں ۔ بھائی مجھے کبھی سکون سے بیٹھنے نہ دیتا ، ہر وقت تنگ کرنا اس کا کام تھا ، کبھی میری پونی ٹیل پکڑ کر کھینچ دینا ، میرے گال نوچ کر چلے جانا ، میری گڑیا کے ہاتھ پاوں توڑ دینا ، میں تین پیہوں کی سائیکل آرام آرام سے چلاتی تو وہ اچانک پیچھے سے آتا اور ذور سے دھکا دیتا میری سائیکل تیز چلنے لگتی اور بے قابو ہوجاتی کبھی دیوار سے ٹکڑا جاتی یا کبھی میں گر جاتی ، چھت پر جاتی تو نیچے سے سیڑھی ہٹا دیتا اور بھاگ جاتا میں جھجے پر بیٹھی روتی رہتی ۔
ایک دن تنگ آکر میں نے بھائی کی شکایت ابو سے لگائی ۔ اس دن بھائی کو ابو سے بہت مار پڑی ابو بھایئ کو مارتے جاتے اور میں پیچھے آنسو بہاتی جاتی
جب ابو بھائی کو چھوڑ کو چلے گئے تو میں سوجی آنکھوں کے ساتھ بھائی کے پاس آئی اور کہا بھائی سوری آئندہ میں تمھاری شکایت نہیں لگاوں گی ۔ بھائی ہنستے ہوئے بولا تم بے شک میری شکایت نا لگاو لیکن میں تم کو تنگ کرنے سے باز نہیں آوں گا ۔ میں بھائی ڈھیٹنس پر حیران رہ گئی ۔ دن یونہی گزرتے گئے ۔ ایک دن میں نے امی سے کہا کہ یہ بھائی مجھے بالکل نہیں پسند مجھے اتنا تنگ کرتا ہے ۔
اس دن امی نے ایک انکشاف کیا مجھ پر تو میں حیران رہ گئی ۔
امی بولی تم کو وہی بھائی نہیں پسند جو تم کو سب سے ذیادہ چاہتا ہے ۔ میں حیرت سے بولی امی بھائی کو تو میں بالکل نہیں پسند اسی لیے تو مجھے تنگ کرتا ہے ، امی مسکرائیں اور بولی نہیں ایسا نہیں ہے ۔ بھائیوں کے محبت کرنے کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے وہ بہنوں کو تنگ کرکے اپنی محبت جتاتے ہیں ۔
اس انکشاف کے بعد میں نے بھائی سےچڑنا چھوڑ دیا اور اہستہ آہستہ میری بھائی سے دوستی ہوگئی ۔
بھائی کالج میں اگیا اور میں ساتویں کلاس میں ۔ ہمارے گھر میں فلمیں دیکھنے پر پابندی تھی ۔ بھائ اپنے دوست کے گھر فلم دہکھنے جاتا اور مجھے کہتا کہ کسی کو نہیں بتانا کہ میں فلم دیکھتا ہوں میں تم کو واپس اکر فلم کی پوری کہانی سناوں گا
میں کسی کو نا بتاتی اور بھائی آکر مجھے فلم کی کہانی سناتا ۔ بھائی کی فلم کی کہانی اتنی صاف ستری ہوتی کہ میں سوچتی کہ فلمیں دیکھنے کو لوگ برا کیوں کہتے ہیں ۔
بھائی ٹیوشن پڑھانے لگا تو بھائی کے پاس پیسے بھی ہوتے تھے تو میں بھائی سے کبھی ائس کریم کی فرمائش کرتی تو کبھی چاٹ کی، بھائی میری چھوٹی چھوٹی فرمائشیں خوشی خوشی پوری کرتا ۔
بھائی یونیوڑسٹی میں آیا تو فلموں کی کہانیوں کی جگہ کلاس کی لڑکیوں نے لیے لی ۔ کسی دن کسی لڑکی سے بھائی کی سلام دعا ہی ہوتی بھائی اس کو ایسے بیان کرتا کہ جیسے ایک گھنٹہ باتیں کرکے ایا ہے ۔ میں بھائی کی باتیں اسے ذوق و شوق سے سنتی جیسے وہ سناتا تھا ۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

شادی کی تقاریب میں امی نے مجھے لپ اسٹک لگانے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ میں تیار ہوکر آتی تو بھائی امی سے ذور سے کہتا کہ امی اس سے کہیں لپ اسٹک ہلکی کرے ۔ میں غصہ میں اپنی لپ اسٹک مٹا دیتی اور ویسے ہی ذور سے کہتی کہ امی بھائی مجھ سے جلتا ہے اسی لیے نہیں چاہتا کہ میں اچھی لگوں ۔ اور بھائی سے ناراض ہوکرجانے لگتی تو بھائی میرے گال پر ہلکہ سا مکہ مار کر کہتا کہ اپنا منہ ٹھیک کرو اتنی ڈراونی لگ رہی ہو وہاں سب ڈر جائیں گے ۔
میری شادی ہونے لگی تو بھائی نے مجھے بہت تنگ کیا ، کہتا میرا دل کررہا ہے کہ تمھارے ہونے والے ان کو کہوں کہ بھائی کیوں اپنے پاوں پر کلہاڑا مارتے ہو ۔ کبھی کہتا ۔ تمارے ان کی تو جنت پکی زندگی بھر تم کو جو برداشت کرنا ہے ۔
میری شادی کے دو سال بعد بھائی کی شادی ہوگئی ۔ بھائی کی شادی والے دن میں نے بھائی کو بہت تنگ کیا اس دن خاموشی سے سب برداشت کرگیا ۔ اور صرف مسکراتا رہا ۔
بھائی شادی کے بعد مڈل ایسٹ چلا گیا اور میں یورپ ۔ بھائی پاکستان الگ مہینے میں آتا اور ہم الگ مہینے میں اس طرح تین سال میری بھائی سے ملاقعات نا ہوسکی ، فون پر بھی سلام دعا سے ذیادہ نا ہوپاتی ، بھابی سے میں کافی باتیں کرتی لیکن بھائی سے بات ہی نا ہوتی ۔ میں سوچتیu شادی کے بعد بھائیوں کو بہنیں یاد نہیں اتی شاید، اسی لیے خاموش ہوجاتی ۔
تین سال بعد ایک دن بھائی کا فون ایا کہ تم اس سال پاکستان کب آو گی میں تم سے ملنے آوں کا بہت عرصہ ہوا تم کو دیکھے ہوئے ، اس دن مین بہت روئی کہ میں سوچتی تھی کہ بھائیوں کو شادی کے بعد بہنیں یاد نہیں آتی ۔

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:08


میں پاکستان گئی تو بھائی مجھ سے ملنے ایا ، بھائی بہت بدلا بدلا سا لگا ۔ نا اس کی آنکھون میں شرارتی چمک تھی نا چہرے پر ویسی مسکراہٹ نا وہ بات بات پر ہنستا تھا ۔ اس کی شوخی جیسے غائب ہی ہوگئی تھی ۔ وہ بہت سنجیدہ ، بارعب مرد بن چکا تھا ۔ اور کچھ پریشان سا بھی لگا
میری اس سے ذیادہ بات نا ہوسکی ، میں اس سے اس کی پریشانی کی وجہ بھی نا پوچھ سکی میں نے سوچا کہ میں اس کی بہن کے ساتھ دوست تھی تو مجھ سے اپنے قصے شئیر کرتا تھا لیکن اب اس کو بیوی کی صورت میں دوست مل گئی ہے اب وہ مجھ سے اپنی باتیں کیوں شئیر کرے گا ۔
یونہی دن گزرتے گئے ۔
ہم بھی مڈل ایسٹ میں سیٹل ہوگئے ۔ ایک دن میرے شوہر ملک سے باہر جارہے تھے بولے تم گھر میں اکیلے رہنے کے بجائے بھائی کے گھر چلی جاو ۔
آج میں تقریباً دس سال بعد بھائی کے ساتھ رہنے اور وقت گزارنے جارہی تھی ۔ میرے ذہن میں تمام واقعات ایک فلم کی طرح اتے جارہے تھے ، میں بھائی کے گھر گئی کھانا کھانے کے بعد بچوں کو سلا کر میں لاونچ میں‌ آکر بیٹھی جہاں بھائی ، بھابی بیٹھے ہوئے تھے ۔
میں نے بھائی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا بھائی تم نے کوئی فلم دیکھی ۔ بھائی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ اگئی بھائی کو بھی وہ تمام واقعات ایک فلم کی طرح یاد آگئے ہونگے ۔
وہ صوفے پر گود بنا کر بیٹھ گیا اور مجھے ایک فلم کی کہانی سنا نے لگا ۔ اس کی آنکھوں میں ویسی ہی چمک لوٹ ائی ۔ میں نے بھائی کو نہیں بتایا کہ میں یہ فلم دیکھ چکی ہوں اور نا ہی بھائی نے مجھ سے پوچھا ، میں بھائی کی کہانی سن کر مسکرادی اب بھی بھائی کی کہانی فلم کے مقابلے میں بہت صاف ستری تھی ۔ پہر فلم کی کہانی سنانے کے بعد مختلف قصے سنانے لگا یونیوڑسٹی کی لڑکیوں کے قصے، بالکل ویسے ہی ہنس ہنس کر مختلف باتین کی ، میں بھائی کو دیکھتی رہی اور اس کو سنتی رہی
آخر میں بولی بھائی تم تو بالکل پہلے جیسے ہی ہو ، میں سمجھی تھی کہ تم بدل گئے ، بھائی نے کہا کہ تم نے یہ کیسے سوچا کہ میں بدل گیا ۔
میں بولی تم نے مجھے تنگ کرنا چھوڑ دیا ، مجھ سے باتیں کرنا چھوڑ دیا مجھے قصے کہانیان سنا ناچھوڑ دیا ۔
بھائی بولا ، تم نے بھی تو مجھ سے لڑنا چھوڑدیا ، بات بے بات غصہ کرنا چھوڑ دیا ، مجھ سے ناراض ہونا چھوڑ دیا اور مجھ سے فرمائشیں کرنا چھوڑ دیا ۔ کیا تم نہیں بدل گئی ۔
یہ سن کر میں خاموش ہوگئی ۔ تو وہ مسکرایا ، میرے پاس آکر میرے گال پر ہلکی سی چپت لگائی اور بولا
پگلی بہن بھائی نہیں بدلتے ، بس وقت بدل جاتا ہے.



نقل و چسپاں ۔

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:08


دارالعلوم (دیوبند) چوک پر حافظ جی چائے کا یہ ہوٹل کئی تاریخی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے، مؤرخین لکھتے ہیں کہ: ’’جب ابنِ بطوطہ نے ہندوستان کے سفر ارادہ کیا تو اس کی محبوبہ نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ہندوستان جاکر جس نے اس ہوٹل کی زیارت نہ کی، تو وہ اس شخص کے مانند ہے جو آگرہ میں رہ کر تاج محل کی زیارت سے محروم رہا۔
بی بی سی لندن کے ایک انٹرویو میں کسی بڑے ملک کے وزیر اعظم نے اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہی وہ ہوٹل ہے، جہاں انہوں نے چائے فروشی سے لے کر دیش فروشی تک کے تمام اسباق حرفاً حرفاً پڑھے، کتاب المولسریّات (دارالعلوم دیوبند میں احاطۂ مولسری ایک جگہ ہے، تمام تخیلی اقوال کو اس کی جانب منسوب کرتے مولسریات کہا جاتا ہے) کے مصنف نے اس کی قدامت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ اس کے سنِ تعمیر و تاسیس میں قدرے اختلاف ہے اور تمام مؤرخین کی رائے دوسرے سے مختلف ہے؛ البتہ بعض قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فراعنۂ مصر میں سے کسی فرعون کی مشورہ گاہ تھی، جو گردشِ لیل ونہار، اور مرور زمانہ کی ضرب کاری سے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی اور تا ہنوز کھنڈر ہی ہے۔
دیوبند میں بین الطلاب یہ ہوٹل غارِ حرا اور غارِ ثور کے نام سے موسوم ہے، جو کہ ۔"تسمیۃ الکل باسم الجزء‘‘ کے قبیل سے ہے؛ کیوں کہ اس ہوٹل کے اندر ایک کمرہ، غار نما ہے جس کی وجہ سے یہ ہوٹل غار حرا کے نام مشہور ہوگیا، تاریخ اس بابت خاموش ہے کہ یہ تاریخی ہوٹل کس کے توسط اور وسیلے سے حافظ جی کی ملکیت میں آیا؛ البتہ بعض سن رسیدہ لغو گوؤں سے روایت ہے کہ حافظ جی کے آباء واجداد ہلاکو خان کے دربار کے سپاہی تھے، تو ہلاکو خان کے حکم سے بطورِ رہائش یہ جگہ حافظ جی کے آباء واجداد کے حصے میں آئی تھی پھر ہلاکو خان کی وفات کے بعد حافظ جی کے پر دادا نے یہاں چائے فروشی کا شغل اختیار کرلیا، جو نسل در نسل چلا آرہا ہے۔
یہ چائے کی دکان ہمیشہ سے لغو گوؤں کی آماجگاہ اور اہالیانِ سیاست کی تبصرہ گاہ رہی ہے، آج بھی یہاں ایک گلاس چائے کے وقفے میں قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں اُلٹ پلٹ جاتی ہیں، امریکہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے، اور روم و فارس سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں، راقم الحروف بھی اکثر یہاں بیٹھ کر مستقبل کا قائد اور امیر بن جاتا تھا، اور کبھی کبھی تو وزیر اعظم تک پہنچ جاتا تھا.
منقول

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:07


✭ نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے درج ذیل ہمارے چینل میں شامل ہوجائیں۔ چینل میں شامل ہونے کے لئے درج ذیل لنک پہ لنک پر کلک کریں اور شمولیت اختیار کریں اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:07


*شادی کی پہلی رات کے لئے دولہا دلہن کو چند نسحیتیں*

زیادہ تر نئے شادی جوڑوں کے لئے یہ رات سخت ترین رات ہوتی ہے کیونکہ ایک الگ گھر میں یہ دونوں کے درمیان پہلی ملاقات ہے جس میں کوئی تیسرا شریک نہیں ہے۔ ایسے وقت میں عموماً دونوں یہ دونوں میں سے کوئی ایک گھبرا جاتا ہیں اور کبھی کبھی بڑے عجیب حادثے ہوجاتے ہیں جنہیں بعد میں یاد کرکے میاں بیوی خود لطف اندوز ہوتے ہیں۔

زیادہ تر بیویوں کے لیے یہ رات ایک بہت بڑی رات ہوتی ہے جس میں وہ اکثر گھبراہٹ کا شکار ہوتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہی ہوتی ہے اس رات میں عورت اپنے شوہر کے ساتھ پہلی مرتبہ جنسی عمل سے گذرنے والی ہوتی ہے۔ اس گھبراہٹ میں عورت کبھی رو بھی پڑتی ہے کبھی منہ پھیر لیتی ہے اور بات نہیں کرتی۔ بعض عورتیں کھانا پینا چھوڑ دیتی ہیں اور بعض کو ماہواری کا خون آنے لگتا ہے اور ایسا صرف گھبراہٹ کی وجہ سے ہوتا ہے اور ڈر یا خوف والا خون کہا جاتا ہے۔ اس لیے عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو عورت کی نفسیات کو سمجھتا ہے اور شروع سے ہی جنسی فعل کے بارے میں نہیں سوچنے لگتا بلکہ صبر سے کام لیتا ہے۔

شروع کے لمحات میں تعارفی گفتگو کرتا ہے اور پر لطف گفتگو کرکے بیوی کی گھبراہٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بیوی کو اللہ کی یاد دلاتا ہے اور جس طریقے سے وہ زندگی گذارنا چاہتا ہے اسے بڑے اچھے طریقے سے اپنی بیوی کو سمجھاتا ہے۔ اگر اس کے بعد وہ جنسی فعل کا خواہشمند ہو اور اسے بیوی کی طرف سے اعراض کا سامناکرنا پڑے تو اسے چاہیے کہ وہ تحمل اور عقلمندی سے آہستہ آہستہ بالتدریج اس کی طرف بڑھے۔ یہ نہ ہو کہ یک دم سارے کپڑے اتارے اس کے سامنے آجائے .

بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے بستر پر ہوتے ہوے اپنے کپڑے اتارے اور ساتھ میں بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتا جائے یہاں تک اسے اپنا مقصود مل جائے۔ اور اگر بیوی پھر بھی انکار کرے اور رونے لگے یا بہت خوفزدہ ہو تو شوہر کو چاہیے کہ صبر سے کام لے کیونکہ بیوی نے ان شاء اللہ ساری عمر اس کے ساتھ رہنا ہے۔ اس لیے جلدی نہ کرے کیونکہ اس مقام پر جلدی کرنا نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو اس رات میں شوہر کے خراب رویے کے باعث نہ صرف جنسی فعل سے نفرت کرنے لگتی ہیں بلکہ شوہر سے بھی انھیں نفرت ہوجاتی ہے۔

اگر میاں بیوی اس رات میں سنت کی اتباع کریں تو اس سے دونوں کو سکون نصیب ہوگا۔ سنت یہ ہے کہ جب اس رات میں شوہر بیوی کے پاس آئے تو اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھے اور کہے (بسم اللہ) پھر کہے: اللھم انی أسالک منہ خیرھا و خیر ما جبلتھا علیہ و أعوذبک منہ شرھا شرھا جبلتھا علیہ (۱) (بخاری)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کی بھلائی جس پر تو نے اس کو پیدا کیا اور اس کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس چیز کی برائی سے جس پر تو نے اسے پیدا کیا۔

پھر اگر اس کے بعد وہ اسے کوئی مشروب پیش کرتا ہے یا کوئی تحفہ دیتا ہے تو یہ ایک اچھا فعل ہے اور اس سے دلوں میں الفت بڑھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے عائشہؓ کو شادی کی رات میں دودھ پیش کیا۔ (۲) (آداب الزفات فی السنہ المطھہرۃ)

اسی طرح سے دونوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ دونوں باجماعت دو رکعتیں پڑھیں کیونکہ یہ سلف سے منقول ہے۔ (۳) (ایضاً ص ۹۴)

ایک آدمی ابوحریز ابن مسعودؓ کے پاس آیا اور بولا: میں نے ایک نوجوان کنواری لڑکی سے شادی کی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے مسترد نہ کردے۔ ابن مسعودؓ نے فرمایا: الفت اللہ کی طرف سے ہے اور نفرت شیطان کی طرف سے ہے۔ وہ تم دونوں میں نفرت ڈالنا چاہتا ہے اس چیز میں جو اس نے تمہارے لیے حلال کی ہے اس لیے جب لڑکی تمہارے پاس آنے لگے تو اسے اپنے پیچھے دو رکعت نماز پڑھنے کا کہو۔ (۴) (آداب الزفات ص ۹۵۔ ۹۶)

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
نیز نماز سے دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے اور شادی کی رات میں اکٹھے نماز پڑھنا یہ اعلان ہے کہ وہ اللہ کو کلام پر اکٹھے ہی اور ان کا بننے والا گھر اللہ کی اطاعت پر قائم ہے۔

ہم بستری کے وقت شوہر کے لئے مسنون ہے کہ وہ کہے: بسم اللہ ، اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان مارزقتنا (۱)(بخاری) ترجمہ: اے اللہ ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور جو تو ہمیں دے اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے بیٹا مقرر کرے گا تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو اس رات کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتا ہے مثال کے طور پر تحفے کے بارے میں سوچتا ہے کہ کون سا تحفہ دینا اچھا ہوگا۔ کس طرح سے دینا مناسب ہوگا یا تھوڑا وقت ہنس کھیل کر گذارتا ہے اور بیوی کو قصے کہانیاں وغیرہ سناتا ہے تاکہ اس کی گھبراہٹ اور پریشانی کم ہوسکے

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:07


اردو سچی کہانیاں


بابا جی سے میں نے ایک دن پوچھا ''ہماری روحانی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے وہ بزرگ چلتے چلتے ندی کے کنارے پہنچے پانی کی سطح پر پاؤں رکھا اور پانی پر چلتے چلتے ندی کے پار اتر گئے کیا یہ ممکن ہے؟ کیا انسان روحانیت کے زور سے پانی پر چل سکتا ہے‘‘
بابا جی نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’تذکرہ نویس ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کے بزرگ روحانی طاقت سے انسان سے بطخ بن گئے تھے‘‘

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
میں نے حیران ہو کر عرض کیا
’’کیا مطلب وہ بولے لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں میں سے کوئی ایک پانی پر چلنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہو گا مگر یہ کام دنیا کی ہر بطخ اور اس کے بچے روز کرتے ہیں‘ تمام بگلے پانی کے تمام پرندے دنیا کے ہر کونے میں پانی پر تیرتے اور چلتے پھرتے ہیں لہٰذا یہ کیا روحانیت ہوئی انسان انسان سے بطخ بن گیا‘‘
میں نے عرض کیا
’’بزرگوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے وہ اچانک ہوا میں اُڑنا شروع ہو گئے‘‘
بابا جی نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ گویا وہ روحانی طاقت سے مکھی بن گئے‘‘
میں نے سر جھکا لیا وہ بولے ’’بیٹا ہم اگر دس‘ بیس چالیس سال کی تپسیا سے اُڑنے کی شکتی حاصل کر لیں تو بھی ہم مکھی سے بہتر نہیں اڑ سکتے ہم چڑیوں طوطوں کوئوں چیلوں اور عقابوں سے اچھا نہیں اڑ سکیں گے چنانچہ یہ کیا روحانیت ہوئی انسان انسان نہ رہا مکھی طوطا یا کوا بن گیا یا چیلوں اور چڑیوں کا مقابلہ کرنے لگا‘‘۔
میں نے عرض کیا ’’ اور بزرگوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے
اللّٰہ کے فلاں ولی چشم زدن میں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جاتے تھے‘‘
بابا جی نے مسکرا کر جواب دیا ’’ یہ بھی کوئی کمال نہیں شیطان کی اسپیڈ اس سے بھی ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے یہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دنیا کے کسی بھی مقام پر پہنچ سکتا ہے شیطان اپنی اسپیڈ ہی کی وجہ سے ایک لمحے میں سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو گمراہ کرتا ہے چنانچہ یہ کیا روحانیت ہوئی انسان دس بیس پچاس سال وظیفے اور چلے کرے اور آخر میں شیطان کے ساتھ ریس شروع کر دے‘‘
میں نے عرض کیا ’’ پھر روحانیت کیا ہے بابا جی بولے ’’روحانیت اشرف المخلوقیت ہے اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو جس قدر مطمئن، شاکر، صابر، عالم، متحرک اور خوش پیدا کیا تھا
انسان ٹینشن‘ پریشانیوں‘ ہوس اور افراتفری کے اس زمانے میں خود کو واپس اس بنیاد کی طرف لے جائے یہ لوگوں کے درمیان رہے ان سے معاملہ کرے ترقی کرے‘ آگے بڑھے لوگوں کی مدد کرے اور اپنے اہل و عیال کے نان نفقے کا بندوبست بھی کرے لیکن ان تمام کارہائے دراز کے باوجود اللّٰہ کی یاد سے بھی غافل نہ ہو‘ یہ اپنی ہر کامیابی اور اپنی ہر ناکامی میں اللّٰہ تعالیٰ کو یاد رکھے‘ یہ سوئے تو اللّٰہ سے توبہ کر کے سوئے‘ یہ جاگے تو اللّٰہ کا شکر ادا کرے‘ یہ رزق حلال پائے تو اللّٰہ کا شکر گزار ہو یہ رزق حلال ہضم ہو جائے تو اللّٰہ کا احسان مند ہو مشکلیں پڑیں تو مخلوق کے بجائے خالق سے رابطہ کرے مشکلیں آسان ہو جائیں تو بھی مخلوق سے قبل خالق کا شکر ادا کرے‘ یہ کُل روحانیت ہے۔



منقول

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:07


*پیاری بہنو! کیا آپ گھر کا ماحول خوشگوار رکھنا چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ آپ کی ساس آپ کو حقیقی بیٹی جتنا پیار کرے ؟؟؟*

*تو ان چند ٹوٹکوں پر عمل کرنے کی کوشش کیجیے۔*

(1) شوہر کی روٹین یہ بنائیں کہ گھر آئے پر ، وہ پہلے اپنی ماں کے پاس جائے ، بعد میں آپ کے پاس آئے ۔

(2) جب بازار جائیں تو ساس کے لئے کوئی ناں کوئی تحفہ ضرور لے کر آئیں ، چاہے وہ لون کا سوٹ ہو ، یا دس روپے کی مونگ پھلی ۔

(3) کپڑے بدلنے لگیں تو کبھی کبھی اپنے دو پسندیدہ جوڑے ، ساس کے پاس لے جائیں ، ان سے پوچھیں کہ میں ان دونوں میں سے کون سا جوڑا پہنوں ۔ پھر جو وہ کہیں ، وہ پہن لیں ۔

(4) جب جب آپ کے شوہر آپ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کریں تحفہ دیں تو ساس کو دکھائیں یا بتائیں اور ساس کے سامنے ان کے بیٹے اور ساس کی تعریف کریں ، کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بہت اچھی تربیت کی ہے ۔

(5) گاڑی میں بیٹھنا ہو ، تو بڑی محبت کے ساتھ ساس کو فرنٹ سیٹ پر بٹھائیں ، اور ان سے کہیں کہ یہ آپ کا حق ہے ، کیونکہ آپ کی دعاؤں کی وجہ سے ہی ہمیں اللہ نے یہ گاڑی دی ہے ۔

(6) گھر میں کھانا بنانے لگیں تو ساس سے پوچھ لیں کہ آج کیا بنائیں ۔ اکثر وہ یہ معاملہ آپ پہ چھوڑ دیں گی ۔ لیکن اگر وہ کسی خاص چیز کی فرمائش کریں تو وہ بھی پکالیں ۔

(7) کبھی بھی ، کسی کے بھی سامنے ، اپنے میاں ، اپنی ساس اور کسی بھی دوسرے سسرالی رشتہ دار کی برائی نہ کریں ، کیونکہ یہ بھی غیبت ہے ۔ اور غیبت ایسی منحوس چیز ہے ، جو گھروں کے گھر اجاڑ دیتی ہے ۔

(8 ) اگر کبھی آپ کی ساس اور آپ کے میاں ، اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہے ہوں ، تو پوری کوشش کریں ، کہ میاں کو بلا کر ، وہاں سے نہ اٹھائیں۔

(9 ) ساس کی پسند کی تعریف کریں ۔ اور انہیں یقین دلائیں کہ آپ ان کے اعلی ذوق کی معترف ہیں ۔

(10) کبھی کبھی اپنی ساس کے پاس بیٹھ کر ، ان سے ان کے ماں باپ کی باتیں کیا کریں ۔ ان کے بچپن اور جوانی کے قصے سنا کریں ۔

(11) کبھی کبھی ، ان کے کہے بغیر ان کے پاؤں دبا دیا کریں ۔ ان کے سر کی کنگھی کر دیا کریں ۔

(12) اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے سامنے ، اپنی ساس کی اچھی باتوں کی تعریف کیا کریں ۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:07


*❣️🌙اپنی سب بیٹیوں کی نذر ۔۔۔۔*🌙❣️

*گھر کا ماحول خوشگوار بنانے ، اور سسرال میں اپنی عزت بنانے کے کچھ ٹوٹکے ۔*

*(1) شوہر کی روٹین یہ بنائیں کہ گھر آئے پر ، وہ پہلے اپنی ماں کے پاس جائے ، بعد میں آپ کے پاس آئے ۔*

*(2) جب بھی بازار جائیں ، ساس کے لئے کوئی ناں کوئی تحفہ ضرور لے کر لائیں ، چاہے وہ ، لون کا سوٹ ہو ، یا دس روپے کی مونگ پھلی ۔*

*(3) کپڑے بدلنے لگیں تو اپنے دو پسندیدہ جوڑے ، ساس کے پاس لے جائیں ، ان سے پوچھیں کہ میں ان دونوں میں سے کون سا جوڑا پہنوں ۔ پھر جو وہ کہیں ، وہ پہن لیں ۔*

*(4) جب جب آپ کے شوہر آپ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کریں ، ساس کے سامنے ، ساس کی تعریف کریں ، کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بہت اچھی تربیت کی ہے ۔*

*(5) گاڑی میں بیٹھنا ہو ، تو بڑی محبت کے ساتھ ساس کو فرنٹ سیٹ پر بٹھائیں ، اور ان سے کہیں کہ یہ آپ کا حق ہے ، کیونکہ آپ کی دعاؤں کی وجہ سے ہی ہمیں اللہ نے یہ گاڑی دی ہے ۔*

*(6) گھر میں کھانا بنانے لگیں تو ساس سے پوچھ لیں کہ آج کیا بنائیں ۔ اکثر وہ یہ معاملہ آپ پہ چھوڑ دیں گی ۔ لیکن اگر وہ کسی خاص چیز کی فرمائش کریں تو وہی پکائیں ۔*

*(7) کبھی بھی ، کسی کے بھی سامنے ، اپنے میاں ، اپنی ساس اور کسی بھی دوسرے سسرالی رشتہ دار کی برائی نہ کریں ، کیونکہ یہ بھی غیبت ہے ۔ اور غیبت ایسی منحوس چیز ہے ، جو گھروں کے گھر اجاڑ دیتی ہے ۔*

*(8) اگر کبھی آپ کی ساس اور آپ کے میاں ، اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہے ہوں ، تو پوری کوشش کریں ، کہ میاں کو بلا کر ، وہاں سے نہ اٹھائیں ۔*

*(9) ساس کی ہر پسند کی تعریف کریں ۔ اور انہیں یقین دلائیں کہ آپ ، ان کے اعلی ذوق کی معترف ہیں ۔*

*(10) اپنی ساس کے پاس بیٹھ کر ، ان سے ان کے ماں باپ کی باتیں کیا کریں ۔ ان کے بچپن اور جوانی کے قصے سنا کریں ۔*

*(11) کبھی کبھی ، ان کے کہے بغیر ان کے پاؤں دبا دیں ۔ ان کے سر کی کنگھی کر دیا کریں ۔*

*(12) اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے سامنے ، اپنی ساس کی تعریف کرتی رہا کریں ۔*

*اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔*

*التماسِ دعا*
*اَلَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِداَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد.*

*نوٹ* *اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے*
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

❣️🌙❣️🌙❣️🌙❣️🌙❣️🌙❣️

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:06


*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ*

*بزرگوں کے پاس رہنے ہی میں سلامتی ہے*

ارشاد فرمایا کہ آج ایک خط آیا ہے۔ لکھا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ محض اللہ کی رضا کے واسطے چالیس روزے رکھوں اور ایسی جگہ رہوں جہاں کوئی نہ آوے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا کہ دو چیزیں اس کی مانع ہیں : ایک مشقت ناقابلِ تحمل دوسرے شہرت، اس کو دیکھ لیا جائے۔ پھر فرمایا کہ اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نہ معلوم لوگ مخلوق سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کیا کوئی کھائے لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بزرگ مشہور ہوجائیں گے کہ چلہ کھینچ رہے ہیں اور یہ بڑا فتنہ ہے۔ ایک دفعہ فلاں مولوی صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ جی چاہتا ہے کہ گم نام جگہ میں رہوں جہاں کوئی نہ پہچانتا ہو۔ میں نے کہا کہ اس کی ضرورت ہی کیا ہے، اپنے بڑوں کے پاس رہنے میں بھی کون پہچانتا ہے، اگر الگ رہوگے تو بزرگ مشہور ہوجاؤ گے جو بڑا فتنہ ہے۔ خیر اسی میں ہے کہ اپنے بزرگوں کے پاس پڑے رہو۔

( آدابِ شیخ و مرید، صفحہ ۵۲)
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:06


"اچھا....." اس کی ساس غصے سے چمک کر بولی.. "اچھا بتاو تم نے کتنے کا دیا تھا..؟"
"ایک لاکھ کا.." اس کے منہ سے اچانک نکل گیا..
مومنہ کا رنگ فق ہو گیا..
اس کی ساس اسی لہجے میں بولی.. "ہمیں یہ پسند نہیں آیا.. استعمال بھی نہیں ہوا.. یہ واپس لے لو اور ہمیں رقم لوٹا دو.."
مومنہ جیسے پھانسی پہ لٹک گئی کہ اب بھانڈا پھوٹے گا مگر دکاندار اپنی کرسی پر بیٹھ گیا.. اس نے دراز کھولی اور پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں والی گڈی میں سے بیس نوٹ نکال کر اس کی ساس کی ہتھیلی پر رکھ دیے..
مومنہ کی آنکھوں میں ایک گھنٹے سے رکے آنسو جھرجھر بہنے لگے.. اس نے منہ پر برقع کا نقاب ڈال لیا....
اس کی ساس نے نوٹ اپنے پرس میں رکھ لیے اور شرمندہ سے لہجے میں بولی.. آو چلو.. میں تمھیں کسی اور دکان سے اپنی پسند کا امپورٹڈ سیٹ خرید دیتی ہوں.."
مومنہ اس کے پیچھے پیچھے چلی.. کاونٹر کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی دائیں ہاتھ میں پہنی ہوئی سونے کی چھ ماشے کی انگوٹھی اتار کر چپکے سے دکاندار کے آگے رکھ دی اور خود تیزی سے باہر نکل آئی.. یہ انگوٹھی اس کی امی نے تب دی تھی جب اس نے ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا.. اسے وہ سینے سے لگا کر رکھتی مگر آج اس عالی ظرف انسان نے جس طرح اس کا پردہ رکھا تھا اور اس کی ازدواجی زندگی بچا لی تھی یہ اس کے عوض بہت کم تھی مگر پھر بھی کچھ پیسے تو ادا ہو سکتے تھے..
ساس نے باہر نکل کر رکشا روکا اور اس میں بیٹھ گئی.. جب دوسری طرف سے مومنہ بیٹھنے لگی تو دکاندار باہر آ گیا اور گلی کی نکڑ پر اُنھیں رکنے کا اشارہ دیا.. پھر دوڑ کر ان کے پاس آ گیا..
اب مومنہ کا دل پھر زور زور سے دھڑکنے لگا اور کسی نئی مصیبت میں گرفتار ہونے کے آثار نظر آنے لگے..
دکاندار اُس طرف آیا جہاں مومنہ کھڑی تھی.. اس کی ساس بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دکاندار کو دیکھنے لگی..
وہ مومنہ کے قریب آ گیا اور ہاتھ میں پکڑی انگوٹھی اس کی طرف بڑھا کر بولا.. "بیٹی ! یہ شاید آپ کی انگوٹھی ہے.. جہاں آپ کھڑی تھیں مجھے وہاں سے ملی ہے.. اس کو سنبھال لیجیے.. شکر ہے اس وقت دکان میں کوئی اور نہیں تھا____!!

*خدارا دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور نرمی کا معاملہ کریں!*

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:06


"میں آپ کو پینتالیس ہزار میں دے دوں گا.." دکان دار نے جواب دیا..
"ٹھیک ہے ہم گھر جا کر فیصلہ کر لیتے ہیں.." مومنہ کی امی نے کہا..
"نہیں بہن! ابھی فیصلہ کر لیں.. چیزیں پڑی نہیں رہتیں' بک جاتی ہیں.. یہ تو بالکل امپورٹڈ لگتا ہے اور اب یہ آخری سیٹ رہ گیا ہے.. اس کی بہت مانگ ہے.. آپ لے جائیں پیسے کل دے جانا.."چناں چہ تھوڑی سے بحث کے بعد انھوں نے یہ سیٹ خرید لیا اور گھر آ گئے..
پچھلے ماہ مومنہ کی ساس نے کچھ مہمانوں کو مدعو کیا اور مومنہ سے کہا کہ وہ اپنی شادی کا ڈنرسیٹ نکال لائے.. سیٹ کے ہر برتن کو اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا اور گھور کر پوچھا.. "کیا یہ امپورٹڈ ہے..؟"
مومنہ نے ہولے سے کہا.. "جی ہاں.."
وہ چمک کر بولی.. "اس پر تو کچھ لکھا ہوا نہیں.."
مومنہ نے ہلکی آواز میں کہا.. "دکاندار نے تو ہم سے یہی کہا تھا کہ جاپانی سیٹ ہے اور ہم نے خرید لیا.."
"اور تم نے الٹ کر دیکھا ہی نہیں..؟"
"جی نہیں.."
"اتنی بے وقوف ہے تمہاری ماں اور تم.." مومنہ چپ کر گئی..
مومنہ کی ساس نے کہا.. "اس کو اسی طرح واپس پیک کر دو اور کل مجھے اس دکاندار کے پاس لے جانا.. میں خود جا کے پوچھوں گی کہ یہ کہاں کا بنا ہوا ہے.." مومنہ نے سیٹ پھر اسی طرح پیک کر دیا لیکن اپنے شوہر کو یہ بات نہ بتا سکی کیونکہ وہ اپنے دفتری کام سے شہر سے باہر گیا ہوا تھا.. اس نے ہفتے بعد آنا تھا..
مومنہ کی ساس اس کے جہیز کی ہر چیز میں سے کیڑے نکال چکی تھی.. حتیٰ کہ اسے سونے کے وہ کنگن بھی پسند نہیں آئے جو اس کی ماں نے اسے دیے تھے.. وہ سنار کے پاس جا کر ان کی قیمت بھی لگوا آئی اور کئی بار مومنہ کو سناچکی تھی.. مومنہ کی چھوٹی تین بہنیں گھر بیٹھی ہوئی تھیں اس لیے وہ ایسی جلی کٹی سن کر ہمیشہ خاموش رہتی..
آج جب اس کی ساس نے رکشا منگوا کر اسے ڈنرسیٹ لے کر بازار چلنے کو کہا تو وہ انکار یا احتجاج نہ کر سکی اور ساتھ چل پڑی.. گو اس نے دکان ڈھونڈنے میں کافی دیر لگائی تاہم اسے دکان ڈھونڈنا ہی پڑی.. بمشکل اتنا بھاری ڈبا اٹھا کر جب وہ اندر داخل ہوئی تو کائونٹر پر ایک جوان لڑکا بیٹھا تھا.. وہ گھبرا گئی.. آگے آ کے بولی.. "وہ جو بزرگ یہاں بیٹھتے ہیں' کہاں ہیں..؟"
لڑکا کھڑا ہو گیا ' بولا.. "وہ میرے والد ہیں.. نماز پڑھنے گئے ہیں ابھی آ جائیں گے.. فرمائیے! میں کیا خدمت کر سکتا ہوں.."
"نہیں ہم اُن کا انتظار کر لیں گے.." مومنہ نے کہا..
اس کی ساس ایک اسٹول پر بیٹھ گئی اور ہانپنے لگی.. مومنہ اِدھر اُدھر دیکھ کر بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈھ ہی رہی تھی کہ دکاندار آ گیا.. مومنہ نے اپنی آنکھوں میں نصیب کا سارا دکھ بھر کے اس کو دیکھا اور دیکھتی ہی رہی.. وہ بھی حیران ہو کر برقع پوش لڑکی کو دیکھنے لگا.. پھر اسٹول پر بیٹھی اس کی ساس کو دیکھا اور آگے آ گیا..
"جی فرمائیے.." ساس کے پاس آ کر بولا.. اب مومنہ ڈبا آگے کرکے بولی.. "یہ ڈنرسیٹ ہم نے آپ کی......" ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس کی ساس کھڑی ہو گئی اور کرخت لہجے میں بولی.. "کیا یہ ڈنرسیٹ امپورٹڈ ہے..؟ بس اتنا بتا دیں.."
دکاندار نے پہلے مومنہ کی طرف دیکھا.. اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور نمی میں ایک التجا تیر رہی تھی.. یوں لگتا تھا ابھی روئی کہ روئی..
دکاندار نے کہا.. "میں دیکھے بغیر کیسے بتا سکتا ہوں.. ڈبا آپ کے آگے پڑا ہوا ہے' کھول کر دیکھ لیں.." دکاندار ڈبا کھولنے لگا.. اس کا بیٹا بھی آگے آ کے اس کا ہاتھ بٹانے لگا.. پھر اس نے دو چار پلیٹیں نکال لیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا.. ایک نظر اس نے مومنہ پر ڈالی.. اس کے چہرے پر عجیب بے چارگی تھی.. ساس ساتھ کھڑی ہوئی تھی.. مومنہ منہ سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی.. بس آنکھوں ہی سے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی تھی..
"بی بی! آپ اس کی رسید لائی ہیں..؟" دکاندار نے براہ راست مومنہ سے پوچھا..
"جی نہیں.. پتا نہیں اب رسید ہو گی یا گم ہو چکی.. میری شادی کو دو مہینے ہو گئے ہیں.."
دکاندار کی سمجھ میں ساری بات آ گئی..
"رسید سے کیا مطلب.. آپ دکاندار ہیں.. آپ نے سیٹ بیچا ہے.. آپ کو معلوم ہونا چاہیے یہ پاکستانی ہے یا امپورٹڈ.." ساس تلخ لہجے میں بولی..
"جی ' جی.." وہ آرام سے بولا.. "میرا خیال تھا یہ شاید واپس لوٹانے کو لائی ہیں.."
"ٹھیک ہے.. پہلے بتاو کیا یہ جاپانی سیٹ ہے..؟"
دکاندار ذرا سا مسکرایا.. مومنہ کی سانس حلق میں پھنسنے لگی.. وہ بولا.. "محترمہ ! یہ امپورٹڈ ڈنرسیٹ ہے.. ہم براہ راست جاپان سے کراکری منگواتے ہیں.. چونکہ پاکستان میں آئے دن امپورٹ ایکسپورٹ کے قانون بدلتے رہتے ہیں اس لیے ہم انھیں ہدایت دیتے ہیں کہ کچھ برتنوں پر میڈ اِن جاپان نہ لکھا جائے.. اس سے ہمیں فائدہ ہو جاتا ہے.."

اردو سچی کہانیاں

05 Sep, 10:06


*اردو سچی کہانیاں*


*ظالم ساس اور رحم دل دکان دار •*


https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
"بدبخت اور کتنا مجھے پھرائے گی. میرا کلیجا منہ کو آنے لگا ہے." مومنہ کی ساس نے رک کر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے کہا. "کہاں گئی وہ تیری دکان.؟"
"جی بس ذرا آگے ہے. سہمی ہوئی مومنہ نے جواب دیا.
"ذرا آگے کہتے کہتے تو مجھے میلوں چلا چکی."
مومنہ نے ہاتھ میں وزنی کارٹن پکڑا ہوا تھا.. اسے زمین پر رکھ دیا. دم لیا. پھر اپنے برقع کا نقاب درست کیا. دوپٹے سے منہ کا پسینا پونچھا اور اِدھر اُدھر گھوم کر ساری دکانوں کو دیکھا جیسے اپنی مطلوبہ دکان ڈھونڈ رہی ہو. اگرچہ اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جس دکان سے اس کی امی نے یہ ڈنر سیٹ خریدا تھا وہ اس نکڑ سے اندر جا کر گلی میں ہے. بہت بڑی دکان تھی مگر وہ اسے ڈھونڈنے میں دانستہ تاخیر کر رہی تھی. وہ ڈرتی تھی کہ جانے اس دکان کے اندر جانے کے بعد اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہو.
دو مہینے پہلے مومنہ کی شادی ہوئی تھی.. اس کا باپ ایک کالج میں پروفیسر تھا.. چھے بہن بھائی تھے.. مومنہ سب سے بڑی تھی. ماں نے اپنی حیثیت کے مطابق جہیز میں ضرورت کی ہر چیز دی تھی.. جب شادی طے ہو چکی تو مومنہ کی ساس نے مختلف طریقے سے پیغام بھیجنے شروع کیے اور اپنے مطالبات کو زبان دینا شروع کر دی. بیٹے کے لیے امپورٹڈ گرم سوٹ اور رولیکس گھڑی ' پھر امپورٹڈ ٹی وی ' امپورٹڈ ریفریجریٹر مانگا. یہ تو اس نے خود سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کراکری اور ڈنر سیٹ بھی امپورٹڈ ہونا چاہیے.
مومنہ کی ساس نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی.. اس کا بیٹا سی ایس ایس کر کے اچھی ملازمت میں آ گیا تھا لہٰذا اب وہ اپنا معیار زندگی اونچا کرنا چاہتی تھی. اس کا یہی ایک اکلوتا بیٹا تھا.. مومنہ کے والد اب ریٹائر ہونے والے تھے پھر بھی اس کی سلیقہ شعار ماں نے کوشش کی کہ بیٹی کی ساس کی ہر فرمائش پوری کرتی چلی جائے.. اتفاق سے جب وہ ڈنرسیٹ خریدنے آئی تو اس کے پاس امپورٹڈ ڈنرسیٹ خریدنے کو پیسے نہیں بچے.. امپورٹڈ ڈنرسیٹ ایک لاکھ سے شروع ہو کر پانچ لاکھ تک جاتے تھے.. دکان پوچھتی ہوئی وہ اس گلی والی دکان پہ پہنچ گئی.. باہر لکھا تھا "جاپانی کراکری اسٹور" اندر گئی تو امپورٹڈ جاپانی اور چینی برتنوں کے علاوہ پاکستانی ڈنرسیٹ بھی پڑے ہوئے تھے جن کی قیمتیں مناسب تھیں..
برتن دکھانے کے بعد اس کو سوچ میں مگن دیکھ کر دکاندار نے پوچھا.. "آپ کا مسئلہ کیا ہے..؟‘‘ حیران ہو کر اس نے دکاندار کی طرف دیکھا.. پچاس اور ساٹھ کے درمیان اس کی عمر تھی اور کاروباری انداز سے وہ ایک ایک چیز دکھا رہا تھا.. مومنہ بھی ماں کے ساتھ تھی.. ماں کو خاموش دیکھ کر وہ بولی.. "امپورٹڈ ڈنرسیٹ تو بہت مہنگے ہیں ہم نہیں خرید سکتے.. کیا آپ ہمیں کوئی ایسا پاکستانی ڈنرسیٹ دکھا سکتے ہیں جو دیکھنے میں بالکل امپورٹڈ لگتا ہو..؟"
دکاندار مسکرایا.. "بی بی! آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ہم تو روزانہ یہی کام کرتے ہیں.. " اس نے کہا..
اس نے ایک بند الماری کھول دی اور بولا.. "آئیے بہن جی آپ دیکھ لیں.."
اس الماری میں تین چار پاکستانی ڈنرسیٹ رکھے ہوئے تھے.. وہ ان جاپانی سیٹوں کی ہو بہو نقل تھے جو دو لاکھ روپے مالیت کے تھے اور انھوں نے باہر شوکیس میں دیکھے تھے.. مومنہ نے جلدی سے پلیٹ ہاتھ میں لے کر اس کو الٹ پلٹ کر دیکھا.. پیچھے کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا..
دکاندار تحمل سے بولا.. "لوگ فرمائش کرتے ہیں کہ پاکستانی ڈنرسیٹ کے پیچھے "میڈاِن پاکستان" نہ لکھوایا جائے.. لیکن معیار میں یہ بالکل جاپانی سیٹ کے برابر ہیں بے شک ساتھ ساتھ رکھ کر دیکھ لیں.." وہ باہر سے جاپانی ڈنر سیٹ کی ایک پلیٹ اُٹھا لایا اور دونوں برابر برابر رکھ دیں.. واقعی بالکل ایک سا ڈیزائن تھا.. ذرا بھی اصلی اور نقلی میں فرق نہیں لگ رہا تھا..
مومنہ نے ایم اے کیا ہوا تھا.. سمجھدار تھی.. پورا سیٹ اٹھا کر ایک ایک چیز پر غور کر رہی تھی پھر ماں سے بولی.. "امی جی یہ ٹھیک ہے.."
"ہاں ہے تو ٹھیک... ماں سوچتے ہوئے بولی.. مگر پتا نہیں اس کی قیمت کیا ہے..؟"
دکاندار بولا.. "آپ کے پاس کتنی گنجائش ہے..؟ میں ویسا سیٹ آپ کو دکھا دوں.."
"نہیں.. سیٹ یہی مناسب ہے.. قیمت بتا دیں پلیز…!" مومنہ بولی..
"پورے مکمل سیٹ کی قیمت تو پچاس ہزار روپے ہے.. اگر اس میں سے کچھ پیس کم کر دیے جائیں تو قیمت اور بھی کم ہو جائے گی.."
"پچاس ہزار..........." اس کی ماں حیرت سے بولی..
"آپ فیصلہ کریں میں کچھ اور کم کر دوں گا.. آپ تو دیکھ چکی ہیں جاپانی سیٹ دو لاکھ روپے کا تھا.."
"اگر ہم کچھ پیسز کم کروائے بغیر لیں تو آپ کتنی رعایت دیں گے.." مومنہ بولی..

اردو سچی کہانیاں

21 Aug, 08:49


اردو سچی کہانیاں

حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ تمہاری جیب میں کچھ ہے؟
اس نے کہا: میرے پاس دو درہم ہیں۔
حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا: یہ تین درہم ہو جائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہموں کی روٹیاں لے آؤ۔
وہ گیا، تین روٹیاں لیں اور راستے میں سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھال لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا۔
آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا: تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں؟
اس نے کہا: دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی۔
حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا:اے اللہ کے نبی! ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی؟
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: گھبراؤ نہیں، میں آگے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلتے آؤ،خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کرلیں گے۔
چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے۔
شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا: میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان!آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا۔
آپ نے فرمایا: یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا؟
اس نے کہا: جی ہاں! میرا دل نور سے بھر گیا، پھر آپ نے فرمایا: اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں؟
اس نے کہا :حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں۔
پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔
جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا:’’‘‘ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا۔
ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جا ملا۔
شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہوگیا او رکہنے لگا: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا؟
شاگرد نے کہا: اے اللہ کے نبی! میرا ایمان پہلے سے دوگنا ہو چکا ہے۔
آپ نے فرمایا: پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں؟
شاگرد نے کہا :حضرت روٹیاں دو ہی تھیں۔
دونوں راستہ چلے گئے، ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی تھیں۔
آپ نے فرمایا: ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس شخص کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی۔ یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا: حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی۔
حضرت عیسی نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا: تینوں اینٹیں تم لے جاؤ، یہ کہہ کر حضرت عیسی وہاں سے روانہ ہوگئے اور لالچی شاگرد اینٹوں کے قریب بیٹھ کر سوچنے لگا کہ انہیں کیسے گھر لے جائے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q

اسی دوران تین ڈاکو وہاں سے گزرے انہوں نے دیکھا، ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں، انہوں نے اسے قتل کردیا اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں، لہٰذا ہر شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آتی ہے، وہ کچھ بھوکے تھے، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دئیے اور کہا کہ شہر قریب ہے تم وہاں سے روٹیاں لے آؤ، اس کے بعد ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے، وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھ مرجائیں گےاور تینوں اینٹیں میری ہوجائیں گی، ادھر اس کے دونوں ساتھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کردیں تو ہمارے میں حصہ میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی۔
جب ان کا تیسرا ساتھ زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبہ کے مطابق اس پر حملہ کر کے اسے قتل کردیا، پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے مرگئے، واپسی پر حضرت عیسیٰؑ وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس چار لاشیں بھی پڑی ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر ی اور فرمایا: ’’دنیا اپنی چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔‘‘

(انوار نعمانیہ ص۳۵۳)

اردو سچی کہانیاں

21 Aug, 08:48


♻️اردو سچی کہانیاں ♻️

*خاندان اور خون کی پہچان .*


سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ھوا تھا، دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں اولیاء قطب اور ابدال بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے..
سب خاموش رہے دربار میں بیٹھا اک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں .سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہوگا لیکن میں اک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہوگا، سلطان نے شرط منظور کر لی اس شخص کو چلے کے لیے بھیج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا۔
6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے.
مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا.... ؟
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام میں نے آپ سے جھوٹ بولا .... میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہو رہا تھا بچے بھوک سے مر رہے تھے اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا.....

سلطان محمود غزنوی نے اپنے اک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے، وزیر نے کہا اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ھے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے۔ دربار میں اک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے، کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا .....

بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتاؤ.؟ اس نے کہا کہ اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کہ مرے، اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے۔ دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔

سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے اک سال اک غریب کے بچے پلتے رہے آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا اگر میری بات مانیں، تو اسے معاف کر دیں، اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے .....ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا۔ ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے.
بابا جی کہنے لگے: بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے اک قصائی کو وزیر بنا لیا ۔

دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اُس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا کتوں سے شکار کھیلتا تھا اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا آپ کی غلطی یے کہ ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیر ہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے۔

اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو! ایاز سیّد زادہ ہے سیّد کی شان یہ ہے کہ سیّد اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا ہے مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا، سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کہ کہتا ہے ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سیّد ہو..
ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا آج میں بھی ایک راز کھول دیتا ہوں۔ اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں.
https://whatsapp.com/channel/0029VaeP3sk1SWt9tGQDI90Q
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

6,085

subscribers

7

photos

7

videos