”بندۂ فقیر معذرت خواہ ہے کہ اس دوران ظاہری و باطنی مصائب و مصروفیات کی بدولت زیادہ رابطہ نہیں کر پایا۔ مسلمانوں اور ان کے شہروں پر ٹوٹی افتاد دیکھ کر دل بجھ چُکا ہے، اور جب دل بُجھ جائے تو جسم بھی صحت مند نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ کوئی کتاب مطالعہ کرنے، کوئی علمی مسئلہ سننے، یا کسی شخص سے بات چیت کرنے کی رغبت بھی ختم ہو چلی ہے۔ آزمائش مسلمانوں کے شہروں کو گھیرے ہوئے ہے، خطرہ منڈلا رہا ہے، خصوصًا عراق پر؛ اور احمق لوگ خود دشمن کو اپنے اوپر مسلط کر رہے ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کیا منظور ہے!“
(الرسائل المتبادلة بينهما : ٢٢٣)