کُتُب سے اِقتِباسات @eqtebaskb Channel on Telegram

کُتُب سے اِقتِباسات

@eqtebaskb


ہماری پہچان : بحوالہ اقتباسات، منقول سے اجتناب۔ حاصلِ مطالعہ,قرآن و حدیث، تاریخ و فلسفہ، ادب و افسانہ، اشعار, سیرت ساتھ ساتھ ـ اقتباسات تحریری اور عکس کی صورت میں آپ حاصل کرسکتے ہیں
یہ بوٹ @Iqtabasat_bot چینل کے منتظمین سے رابطہ کے لیے ہے ـ

کُتُب سے اِقتِباسات (Urdu)

ہماری پہچان : بحوالہ اقتباسات، منقول سے اجتناب۔ یہ چینل اقتباسات کے حوالے سے ہے جہاں آپ قرآن و حدیث، تاریخ اور فلسفہ، ادب اور افسانے، اشعار اور سیرت جیسے مختلف موضوعات پر مشہور کتب سے اقتباسات کی صورت میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو تحریری اور عکسی اقتباسات دونوں میں دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر آپ مختلف موضوعات پر اقتباسات پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ چینل آپ کے لیے ایک معمولی و مفید ذریعہ ہو سکتا ہے۔ اس چینل سے رابطہ کے لیے آپ یہاں دیا گیا بوٹ کس ایک وقت میں استعمال کر سکتے ہیں ہمیشہ کی طرح : @Iqtabasat_bot۔

کُتُب سے اِقتِباسات

12 Nov, 05:45


علامہ محمود شکری آلوسی رحمہ اللہ (١٣٤٢ھ)، علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (١٣٣٢ھ) کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

”بندۂ فقیر معذرت خواہ ہے کہ اس دوران ظاہری و باطنی مصائب و مصروفیات کی بدولت زیادہ رابطہ نہیں کر پایا۔ مسلمانوں اور ان کے شہروں پر ٹوٹی افتاد دیکھ کر دل بجھ چُکا ہے، اور جب دل بُجھ جائے تو جسم بھی صحت مند نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ کوئی کتاب مطالعہ کرنے، کوئی علمی مسئلہ سننے، یا کسی شخص سے بات چیت کرنے کی رغبت بھی ختم ہو چلی ہے۔ آزمائش مسلمانوں کے شہروں کو گھیرے ہوئے ہے، خطرہ منڈلا رہا ہے، خصوصًا عراق پر؛ اور احمق لوگ خود دشمن کو اپنے اوپر مسلط کر رہے ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کیا منظور ہے!“

(الرسائل المتبادلة بينهما : ٢٢٣)

کُتُب سے اِقتِباسات

11 Nov, 07:54


"مولا! اگر تو نے مجھے عذاب دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو میرے معاملے کو لوگوں سے مخفی رکھنا تاکہ کوئی شخص یہ نہ کہتا پھرے : آج وہ بھی مبتلائے عذاب ہے جو خدا تک رَستہ دکھایا کرتا تھا ۔"

( امام ابن جوزی رحمه الله ، صیدالخاطر : ٣٠٥ )

کُتُب سے اِقتِباسات

08 Nov, 19:01


بسم الله ؛ رَبِّ يَسِّرْ وَأَعِنْ!

(اس منشور کے مخاطَبین صرف علومِ شریعت کے طلبہ ہیں۔)

علمِ شرعی کو اللہ تعالیٰ نے قولِ ثقیل قرار دیا ہے۔ یہ بہت بھاری شے ہے۔ ہر کسی کو یہ راس آتا ہے نہ ہر کوئی اس کا اہل ہوتا ہے۔ اس کا نور کل انسانیت کیلیے ہے، مگر اس نور کے معادن و مصادر چند مخصوص سینے ہیں۔ اس علم کا حق یہ ہے کہ اس کی ہیبت باقی رکھی جائے، اِسے رسوا نہ ہونے دیا جائے۔ اعمش نے جب شعبہ کو دیکھا کہ بعض ناقدروں کو حدیث پڑھا رہے ہیں تو فرمایا : ”تیرا برا ہو، تُو خنزیروں کے گلے میں موتی پرو رہا ہے؟!“

زمانہ جتنا نورِ نبوت سے دور ہوتا گیا، میراثِ نبوت پر وارداتیے بھی بڑھتے گئے۔ ایک روز مدینہ کے امام، ربیعہ بن عبدالرحمن رو دییے۔ کہنے لگے کہ عام چور اُچکوں سے زیادہ یہ وارداتیے جیل کے مستحق ہیں جو ناحق علم کی سرحدوں کو پَھاندتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب عالم بولتا تھا تو اُس کا سامنا عالم سے ہی ہوتا تھا، اور خواص کی بات خواص میں رہ جاتی تھی۔ اب مگر عالم کی آزمائش یہ ہے کہ اس کے بہی خواہوں میں دوا فروش بھی ہے اور منجن فروش بھی، کتاب فروش بھی اور قلم فروش بھی، زمین فروش بھی اور ضمیر فروش بھی، مدرسے کا مہتمم بھی اور اسٹوڈیو کا منتظم بھی۔ ما أشدّ غربة العالِم !!

سکرین آنے کے بعد یہ تمنا کرنا کہ حرماتِ علم کا تحفظ ہو سکے، محال ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی جرم ہے کہ خدارا علم، علم والوں کیلیے رہنے دو۔ بعض کوڑھ مغز دانشوران اس کو پاپائیت سے تعبیر کریں گے، تو بعض نازک اندام مفکرین تکبر سے۔ سو اب رسمِ دنیا اور موقع و دستور یہی ہے کہ منسوبینِ علم سے کی جانے والی خاص باتیں بھی سرِ دیوار کی جائیں۔

پس قصۂِ مختصر یہ ہے بھائیو، کہ بحیثیت طالب علم اس بات کو جتنی جلدی سمجھ لیں اتنا اچھا ہے، کہ اس عالَمِ رنگ و بُو میں آپ کے مقابل آنے والا ہر شخص آپ کا مقابل نہیں ہے۔ یہ سب انجینیر، ڈاکٹر، اسپیکر اور صحافی وغیرہ وہ عوام الناس ہیں جن کا شرعی واجب آپ کے آستانے پر اپنے مرض کی دوا لینے آنا ہے، مگر یہ بیچارے اپنے کلینک کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن آپ اپنی قدر سے واقف ہوں اور اس سے تنازل اختیار نہ کریں۔ یہ چند باتیں سمجھ آتی ہیں تو پلے سے باندھ لیں :

١) اعرف الحق تعرف أهله :
جب طالب علم حق کو بعض شخصیات کے تناظر میں دیکھتا ہے تو لامحالہ اس کے ارمانوں کا خون ہو کر رہتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ہر بندہ معرّض للخطأ ہے۔ وہ پھسلے گا تو آپ بھی پھسل جائیں گے؟! لہذا حق کو جاننے کی کوشش کریں، حق والوں کو خود ہی پہچان لیں گے۔ عقیدہ پڑھیں، کتابیں کھولیں، علم کیلیے جوتے گِھسائیں، اور ہڈ حرامی چھوڑ دیں۔ ليهلك من هلك عن بينة ويحيى من حي عن بينة!! ورنہ آپ یہی سمجھتے رہ جائیں گے کہ ڈیبیٹ کو طریقۂِ سلف کے خلاف کہنا مدینہ یونیورسٹی والوں کی ایجاد ہے، اور بدعتی سے ہجر کتاب و سنت میں نہیں ہے، اور ہاتھی اُڑتا ہے، اور انسان پہلے بندر ہوتے تھے، اور حق اس طرف ہوتا ہے جس طرف مہنگا کیمرا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔

٢) بين السنة ولا تخاصم عليها :
اہلِ سنت کا منہج بیان کر دو اور جھگڑے سے باز رہو۔ محدث البانی کہا کرتے تھے: قل كلمتك وامشِ، حق بات کرو اور چلتے بنو۔ کس کس کو پورے آئیں گے؟ کس کس سے سینگ پھنسائیں گے؟ بکری آپ سے بہتر میں میں کر لیتی ہے، اور بیل آپ سے بہتر ٹکریں مار لیتا ہے؛ تو کیا بکری اور بیل کو منہج سکھانے بیٹھ جائیں گے؟! طالبِ علم جب چونچیں لڑانے کا عادی ہو جائے تو وہ اندھیروں میں جا پڑتا ہے، اس کا سفر رُک جاتا ہے، جو بات اللہ کیلیے کرنی ہوتی ہے وہ انتصارِ نفس کے معرکے میں بدل جاتی ہے۔

٣) من جعل دينه غرضا للخصومات أكثر التنقل :
جو دین کو جھگڑوں، اور روز روز کی تُو تکار کی روشنی میں سمجھتا ہو، وہ بے پیندا لوٹا ہوتا ہے۔ لوٹے نہ بنیں، مضبوط پیروں پر کھڑے ہوں۔ یہ دین تب بھی تھا جب فیسبک نہیں تھی۔ اس طالب علم پر افسوس ہے جو بحث و تکرار کے وقت پہلی صف میں ہو اور تعلیم و تعلم کے وقت نظر بھی نہ آئے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے ایک دانشور نے کہا میں آپ سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں جیتا تو آپ میرے موقف پر آ جانا، آپ جیتے تو میں آپ کی رائے اختیار کر لوں گا۔ امام صاحب نے کہا : کل تم سے بڑا دانشور آ کر ہم سے جیت گیا تو ہم اس کے پیچھے چل پڑیں گے؟! یہ کون سا دین ہے؟ اللہ کا دین تو ایک ہی ہے جس میں کوئی رنگ بازی نہیں!

٤) ما كان لله يبقى :
یہ اصل الأصول اور سُلّم الوصول ہے۔ یہ اول بھی ہے اور آخر بھی، کہ اللہ کے ساتھ سچے ہو جائیں۔ پھر بھلے آپ کسی کا رد کریں یا دفاع۔ لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کریں یا کسی گاؤں کی کچی مسجد میں بیٹھ کر نورانی قاعدے کی تعلیم دیں۔ کیونکہ یہ علم اللہ کے ساتھ معاملے کا نام ہے۔ رازی نے شہاب الدین غوری سے کہا تھا: لا سلطانك يبقى، ولا تلبيس الرازي، وإن مردنا إلى الله! سلطنت کام آئے گی نہ وِیوز، فقط اخلاص اور متابعت کا مول پڑے گا۔ ولتنظر نفس ما قدمت لغدٍ!

(عبدالعزيز ناصر)

کُتُب سے اِقتِباسات

04 Nov, 13:55


https://t.me/Deenislami/3959

کُتُب سے اِقتِباسات

03 Nov, 17:48


امام اعمش کہتے ہیں : میں نے سیدنا ابراھیم النخعی(رضی الله عنھما) سے چھ احادیث سنیں ۔ گھر پہنچا تو کنیز نے کہا : گھر میں آٹا نہیں ہے ۔ یہ سنتے ہی وہ احادیث ذھن سے محو ہو گئیں ۔ [ الکامل فی ضعفاء الرجال : ١٤٨/١ ]

امام سفیان ثوری سے پوچھا گیا : آپ کو امام زہری(رضی الله عنھما) سے علم حاصل کرنے سے کس چیز نے روک دیا؟ فرمانے لگے : پیسوں کی کمی نے ۔ [ سیر اعلام النبلاء : ٨/٧ ]

امام احمد بن حنبل یمن کو گئے تو نماز پڑھتے ہوئے اُن سے سہو ہوگیا ، محدث عبدالرزاق(رضی الله عنھما) نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے : آج تین دن ہوگئے ، میں نے ایک لقمہ بھی پیٹ میں نہیں ڈالا ۔ [ طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى : ١/٩٩ ]

کُتُب سے اِقتِباسات

03 Nov, 10:24


قاضی احمد بن بُدیل الکوفي الحنفي کو (ان کی عبادت و ریاضت کی وجہ سے) راھب الکوفة کہا جاتا تھا، جب انہیں قاضی مقرر کیا گیا تو کہنے لگے: "مجھے بڑھاپے میں رسوا کر دیا گیا."

(الجواھر المضیة فی طبقات الحنفیة ؛ ١/١٤٩)

کُتُب سے اِقتِباسات

31 Oct, 06:45


ابنِ شاداب رحمه اللّٰه اُن اساتذہ سے نفرت کرتے تھے جو بطور سزاء بچوں کو مارتے تھے اور کہا کرتے تھے :

ایک گنہگار آدمی اُس بچے کو مارتا ہے جو کہ معصوم ہے؟ فیا للعجب!

(ابنِ ابي دُنیا ۷۴/۷)

کُتُب سے اِقتِباسات

26 Oct, 20:26


تمام چیزوں کے مقابلے میں کتاب کا حصول آسان اور کم خرچ ہے. اس میں تاریخ اور سائنس کے عجائبات دیکھے جاسکتے ہیں. یہ دانشوروں کے علم و تجربہ کا خزانہ ہے اور سابقہ نسلوں اور دور دراز کے علاقوں کی معلومات بہم پہنچانے کا ذریعہ ہے. جب تک آپ کو خاموش پسند ہوگی کتاب خاموش رہے گی اور جس وقت آپ گفتگو کرنا چاہیں گے وہ ایک شیریں کلام ہم نشیں بن جائے گی. آپ کی مصروفیت کے دوران یہ کبھی مداخلت نہیں کرتی لیکن تنہائی میں ایک اچھا رفیق ہے.

امام جاحظ

کُتُب سے اِقتِباسات

25 Oct, 02:51


ایوارڈ یافتہ عراقی مصنف "علی الحدیثی" کو جب مکان مالک نے گھر خالی کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے تصویر نشر کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے:

"ایک بار پھر میری کتابوں کی گٹھری بندھنے کو ہے،
یہ میری ساتویں ہجرت ہے۔
جس کے پاس اپنی چھت نہ ہو، اسے کتابیں رکھنے کا کیا حق؟
کتابیں تو محبوبہ کی مانند ہوتی ہیں،
اور محبوبہ ہمیشہ اپنی ملکیت میں رہنا چاہتی ہے،
اسے کرایے پر رکھنا ممکن نہیں۔
کرایہ دار کا نہ کوئی اپنا وطن ہوتا ہے، نہ کوئی اپنی لائبریری۔"

اسد اللہ میر الحسنی

کُتُب سے اِقتِباسات

22 Oct, 19:39


امام المتكلمين فخر الدین رازی رحمہ اللہ (٦٠٦ھ) نے ایک روز سلطان شہاب الدین غوری رحمہ اللہ (٦٠٢ھ) کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا : ”اے سلطان! تیری سلطنت باقی رہے گی نہ رازی کی چکنی چپڑی باتیں؛ اور ہم سب اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔“ یہ سن کر سلطان زار و قطار رو دیا۔

(الكامل في التاريخ لابن الأثير : ٢١٨/١٠)

کُتُب سے اِقتِباسات

22 Oct, 16:28


امام سفیان ثوری رحمہ اللّٰہ کی جیب میں ایک رقعہ ہوتا تھے جسے وہ بار بار دیکھتے رہتے تھے۔ ایک دن وہ ان سے گر گیا؛ لوگوں نے اسے اٹھا کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا:

سفیان! اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد رکھنا!

(سیر سلف الصالحین، 1006)

کُتُب سے اِقتِباسات

20 Oct, 03:56


دوسروں کی عمریں کیوں برباد کی؟!

”حدیث شریف میں ہے کہ روزِ قیامت انسان قدم نہ ہلا سکے گا جب تک وہ یہ جواب نہ دے لے کہ عمر کہاں فنا کی؟! تم سے صرف تمہاری عمر کا ہی سوال نہیں ہو گا، بلکہ ان تمام لوگوں کی عمروں کا بھی جو تم نے برباد کی!

ہر اس "مجھے تم سے محبت ہے" کا جو تم نے دل سے نہیں فقط زبان سے کہا۔ ہر اس راستے کا جس پر تم کسی کے ساتھ چلے تو سہی مگر آخر تک جانے کیلیے سنجیدہ نہ تھے۔ ہر اس ہاتھ کا جو تم نے چھوڑ دینے کے ارادے سے تھاما۔ لوگوں کے ان دنوں کا جو تمہارے دامِ فریب میں مبتلا ہونے کا غم مناتے گزر گئے۔ ان راتوں کا جو تمہاری بے وفائی پر اشک بہاتے گزاری گئیں۔ اس تمام عرصے کا جو بے رنگ رہ گیا کہ تمہارا مقصد بس وقت گزاری تھا۔ تمام جھوٹے وعدوں کا، اور ہر اس شمع کا جو تم نے کسی کے دل میں جلائی اور جلا کر بجھا دی۔ تم ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہو، مگر اللہ کے ہاں یہ بہت بڑی ہیں!

بچھڑ جانا تو صرف عالی نفوس پر ہی گراں ہوتا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اگر ایک گھوڑے اور ایک گدھے کو اکٹھے باندھ دیا جائے، پھر انہیں الگ کیا جائے تو گدھا ٹس سے مس نہیں ہوتا، مگر گھوڑا ہنہناتا رہتا ہے! پس تعجب کیسا جو کسی نے تمہاری رفاقتوں کا گلا گھونٹ دیا، یا وصال کا بدلہ ہجر سے دیا۔ لوگوں کی یہی سرشت ہوتی ہے، کچھ گدھے تو کچھ گھوڑے۔

میں نے تمہیں بد دعا دینے کیلیے رات کے پچھلے پہر کا انتظار کیا۔ لیکن جب سجدے میں گیا تو دل بازی لے گیا اور زبان پر دعا جاری ہو گئی۔ میں نے دعا کی کہ تم خوش و خرم رہو اور بحفاظت میرے دل سے نکل جاؤ! دل سے نکلنے کی دعا تو قبول ہو چکی، کہ اب اس میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں۔ رہی خوش و خرم رہنے کی دعا تو اس کی کہانی تمہیں پتہ ہو، میرے پاس اسے سننے کا وقت نہیں، کیونکہ مجھے اجنبی لوگوں کی کہانیاں سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“

(الشيخ الحبيب محمد سعيد رسلان حفظه الله)

کُتُب سے اِقتِباسات

20 Oct, 02:41


"مولا! اگر تو نے مجھے عذاب دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو میرے معاملے کو لوگوں سے مخفی رکھنا تاکہ کوئی شخص یہ نہ کہتا پھرے : آج وہ بھی مبتلائے عذاب ہے جو خدا تک رَستہ دکھایا کرتا تھا ۔"

( امام ابن جوزی رحمه الله ، صیدالخاطر : ٣٠٥ )

کُتُب سے اِقتِباسات

14 Oct, 15:36


”ایک آدمی بہت رویا کرتا تھا ۔ جب اس سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اپنے گناہوں کی یاد رلاتی ہے ۔ جو میں نے اس وقت کیے جب کہ میرا آقا مجھے دیکھ رہا تھا اور وہ بر وقت مجھے سزا دینے کی بھی قدرت رکھتا تھا مگر میں نے پھر بھی گناہ کرتے وقت اس سے شرم نہ کی ۔ اب اس نے مجھے اس دن تک کے لیے مہلت دے دی، جس دن کا عذاب دائمی اور اس کی حسرت نہ ختم ہونے والی ہے ۔ اللّٰه کی قسم اگر مجھے یہ اختیار دے دیا جاۓ کہ اگر تُو چاہے تو تیرا حساب لیا جاۓ پھر تجھے جنت میں داخل کر دیا جاۓ اور اگر تُو چاہے کہ مٹی ہو جاۓ تو تیرے مٹی ہونے کا فیصلہ کر دیا جاۓ، حقیقت یہ ہے کہ میں اس بات کو پسند کروں گا کہ میں مٹی ہو جاؤں..“

(کتاب التوابین، ص: ٢٥٣)

کُتُب سے اِقتِباسات

12 Oct, 19:49


۔

کُتُب سے اِقتِباسات

27 Sep, 20:10


”اے اللہ! میں تجھ سے معافی کا خواستگار ہوں اس گناہ پر جس سے میں نے توبہ کی مگر پھر اس کا ارتکاب کیا۔ اور اس نیکی پر جس کا خود سے عہد کیا مگر اس پر قائم نہ رہ سکا۔ اور اس عمل پر جو میرا خیال تھا کہ صرف تیرے لیے کروں گا مگر میری نیت میں وہ کچھ شامل ہو گیا جو تُو جانتا ہے۔“

(التابعي الجليل مطرف بن عبدالله رحمه الله تــ ٩٥ھ)

کُتُب سے اِقتِباسات

27 Sep, 03:22


جو شخص کتابوں کا شیدائی ہو جاتا ہے، تو وہ کبھی ان سے سیر نہیں ہوپاتا ۔

کُتُب سے اِقتِباسات

24 Sep, 20:00


میں کہاں کہاں نہ پہنچا تیری دید کے طلب میں

کُتُب سے اِقتِباسات

17 Sep, 17:13


" ہمارے ہاں ایک نوجوان تھا جس نے بیس سال تک مسلسل خدا کی عبادت کی، پھر اس کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا، ہائے! تو توبہ اور عبادت کرنے میں بہت جلدی کرگیا اور دنیوی لذتوں سے اپنا دامن تہی کرکے بیٹھ گیا، اگر تو واپس پلٹ آئے تو دوبارہ توبہ کرنا تیرے لیے کوئی مشکل نہیں،چنانچہ وہ دنیوی لذتوں کی طرف لوٹ آیا،پھر ایک دن وہ اپنے گھر میں تنہا بیٹھا تھا کہ اسے اپنے وہ دن جو خدا کی ریاضت و عبادت میں گزرے تھے یاد آئے، جن پر وہ دل زدہ سا ہوگیا،پھر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا! تو کیا خیال کرتا ہے کہ اگر میں خدا کی طرف دوبارہ لوٹ جاؤں تو کیا وہ مجھے قبول کرلے گا ؟ فوراً غیب سے ایک آواز آئی! اے بندے تونے ہماری بیس سال تک عبادت کی تو ہم نے تیرا شکریہ ادا کیا، اور تونے جب ہماری نافرمانی کی تو ہم نے تجھے مہلت دی، اور اگر تو دوبارہ ہماری طرف لوٹ آئے گا تو ہم تجھے پھر قبول کر لیں گے "
صوفی ابراہیم بن شیبان قرمیسینی
[شعب الإيمان للبيهقي( ٦٧٢٣ ) وسنده جيد]

کُتُب سے اِقتِباسات

16 Sep, 18:35


سنو!سنو!!

شیشوں کی الماریوں میں دم توڑتی کتابیں :

آج علم وکتاب واٹس ایپ گروپ پرایک تصویرنے مجھے ’’تصویر‘’دکھادی ،مجھے ہی کیاہرفکر مند،اہل،باذوق اورملت کادرد رکھنے والے کویہ تصویرجھنجھوڑدینے والی ہے ،تصویرایک کتب خانے کی ہے جس میں میں بے شمارکتابیں دکھائی دیتی ہیں ،تمام کتابیں مدت تک الماریوں میں بندرہنے کی وجہ سے بالکل ہی ناکارہ اورناقابل استفادہ ہوچکی ہیں۔

بچپن میں محترم ماہرالقادری کی ایک نظم خوب یادکی تھی ’’طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں‘‘یہ صرف قرآن کی فریادنہیں آج ہرکتب خانے،لایبریری اورہر’’کتابی گودام‘‘ کایہی حال ہوگیاہے ۔

رسالہ آئینہ مظاہرعلوم میرے والدصاحب کے نام گھرکے پتے پرجاتاتھا،یقین مانیں صرف والدصاحب ہی نہیں پڑھتے تھے ، بہت سے باذوق افرادمانگ مانگ کررسالہ اس قدرپڑھتے تھے کہ ٹائٹل کے گوشے مڑجاتے تھے ،سفیداوراق پربوسیدگی طاری ہوجاتی تھی،میں جب رسالہ کی اس حالت کودیکھتاتھاتومارے خوشی کے اللہ تعالیٰ کاشکراداکرنے لگتاتھا،زیادہ پڑھے لکھے لوگ عموماً کتاب کوادھرادھرسے ،یہاں وہاں سے ،جہاں تہاں سے پڑھ کراورکچھ لوگ سرسری نظرڈال کرکنارے رکھ دیتے ہیں،مدت پہلے آپ نے اپنی قیمتی کتاب جن صاحبان کوہدیہ کی تھی جب بھی آپ اس کتاب کے بارے میں پوچھیں گے کہ کتاب پڑھ لی یاابھی نوبت نہیں آئی؟ کچھ توصاف صاف بتادیں گے کہ ابھی نہیںپڑھی کچھ، جھوٹ موٹ بول دیں گے کہ کہیں کہیں سے پڑھی ہے فرصت ملنے پر پڑھنے کاارادہ ہے لیکن یقین جانئے فرصت نہیں ملے گی یہاں تک حضرت عزرائیل ہی تشریف ارزانی فرمالیں اورکہنے لگیں کہ اوبھائی !دنیامیں بہت رہ لئے اب چلوچلتے ہیں:یآایتہاالنفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔

شاندارقسم کی آہنی اورشیشوں کی الماریوں میں گھٹ گھٹ کرمرنے والی ہماری کتابیں زندگی کے اس دوراہے پرپہنچ چکی ہیں جس کے دونوں طرف خلیج ہے۔

اس زمانے میں کتاب خریدنے والوں کوہی پڑھنے کی توفیق نہیں ملتی ہے تو آپ اپنی نسل سے کیاامیدرکھتے ہیں جس کے ہاتھ سے موبائل جدانہیں ہوتا۔وہ ہ انگلیاں جونمازکے بعددیرتک تسبیحات میں مصروف رہنی چاہئیں افسوس کہ نمازکے بعدسب سے پہلے موبائل کی اسکرین پرسرکنے لگتی ہیں،وہ دماغ جونمازکے بعدخاص قسم کے سکون سے پرسکون ہوجاناچاہئے افسوس کہ پھرموبائل میں مصروف ہوچکاہے۔صبح سے شام تک،شام سے صبح تک ہماری توجہ کتابوں کی طرف نہیں جاتی ،ہرچیزمیں ہم موبائل کے محتاج ہوگئے ہیں،آپ نے کتابوں کی خریداری کتنے چاؤاورچاہت کے ساتھ کی تھی ،کتنی امیدیں قائم کی تھیں اپنی اولادسے کہ میرے اس قیمتی ذخیرے کومیری اولادپڑھے گی لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے باپ کے مرنے کے فوراًبعد اولاد سب سے پہلے کباڑی کوفون کرتی ہے اورکہتی ہے کہ’’میرے یہاں ’’کباڑ‘‘موجودہے خریدلو‘‘جی ہاں آپ کی زندگی کاوہ اثاثہ جس کوآپ ’’اثاثہ‘‘ کہتے ہیں،ذخیرہ کہتے ہیں، بہترین جلیس اوررفیق کہتے ہیں آپ کی نسل اس کو’’کباڑ‘‘سمجھ رہی ہے،اس نے ٹھان رکھاہے کہ آپ کے حجرے کوڈرائنگ روم سے بدلناہے، اس نے فیصلہ کرلیاہے کہ آپ کی کتابیں ’’کہاں‘‘ پہنچانی ہیں۔

خدارا!اگرآپ کے پاس کتابیں ہیں توان کوپڑھئے،الٹئے پلٹئے،ہوااوردھوپ دکھایئے،ان کی حفاظت کاسامان کیجئے ،یہ کتابیں نہیں چاہتی ہیں کہ انھیں آہنی الماریوں میں قیدکردیاجائے،ان کی خواہش ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ پڑھاجائے،دنیاکے کسی مصنف نے خواہش نہیں کی کہ اس کی کتاب صرف ’’مخطوطہ‘‘ اور’’محفوظہ‘‘ بن کر رہ جائے ہرایک کی نیت اورتمنایہی ہوتی ہے کہ اس کی کتاب سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کریں۔اگرآپ کے پاس کوئی ایسامخطوطہ آہی گیاہے جوابھی شائع نہیں ہواہے توآپ اس مخطوطہ کی اضاعت کی نہیں اشاعت کی تیاری کیجئے، کوئی عمارت اس وقت تک عمارت کہے جانے کے لائق نہیں ہوتی جب تک اس کااستعمال نہ شروع ہوجائے۔کوئی صلاحیت اس وقت تک صلاحیت نہیں کہی جاتی جب تک اس سے استفادے کی راہیں نہ کھل جائیں۔آپ کویہ دولت مل گئی ہے توآپ ’’ناگ‘‘ بن کرکنڈلی مارکرمت بیٹھ جائیں ،ان کی حفاظت اوران کی اشاعت کاکام شروع کریں ورنہ اگریہ قیمتی اثاثہ اشاعت کی بجائے ’’اضاعت ‘‘کے مرحلہ میں داخل ہوگیاتوآپ اللہ تعالیٰ کے یہاں بازپرس سے بچ نہ سکیں گے ۔ان مصنفین نے اگرکل قیامت میں آپ کادامن پکڑلیاتوپہلوتہی نہ کرسکیں گے ۔

اللہ تعالیٰ کی آزمائشیں کسی بھی شکل میں آسکتی ہیں ،وہ کبھی دولت دے کرآزماتاہے،کبھی حسن دے کرآزماتاہے ،کبھی بدصورتی سے، کبھی اچھے جسم سے،کبھی بیماری سے اورکبھی کسی اورطرح سے آزماتاہے ۔

سوچئے !غورکیجئے!حفاظت توآپ سے بھی زیادحکومت کرلیتی ہے لیکن وہاں ’’محل‘‘ توہے ’’اہل‘‘ نہیں ہیں،خدارایہ کہنے کاموقع نہ دیجئے کہ یہاں اہل بھی نہیں محل بھی نہیں۔

کُتُب سے اِقتِباسات

16 Sep, 18:35


اگرآپ کے پاس کچھ بھی کتابیں ہیں توان کے مطالعے کے نظام بنایئے،زیادہ سے زیادہ کتابوں کے فیض کوعام کیجئے،اپنے طلبہ کوصرف درس گاہوں تک محدودمت کیجئے ،ان کے پڑھنے اورابھرنے کایہی بہترین وقت ہے اسی وقت میں انھیں پڑھنے کاچسکہ نہیں لگایاگیاتویقین کیجئے کبھی نہیں پڑھیں گے کہیں نہیں پڑھیں گے۔

مخطوطات کوویب سائٹوں پراپلوڈکیجئے،تحقیقی شعبہ جات قائم کیجئے ، تحقیقی کام کرایئے،،بچوں کوان شعبوں میں ٹریننگ اورتربیت دیجئے،ابھی زیادہ نقصان نہیں ہواہے، ابھی مافات کی تلافی کی جاسکتی ہے ۔(ناصرالدین مظاہری)

کُتُب سے اِقتِباسات

28 Aug, 07:08


”میرے بھائی! کتنے ہی اللہ کی یاد دلانے والے خود اللہ کو بھلائے بیٹھے ہیں، اور کتنے ہی اللہ کا خوف دلانے والے خود گناہوں پر دلیر ہیں، اور کتنے ہی اللہ کی طرف دعوت دینے والے خود اللہ سے بھاگے ہوئے ہیں، اور کتنے ہی اللہ کی کتاب کے قاری اللہ کی آیات سے جان چھڑائے ہوئے ہیں۔ والسلام!“

(ابن السماك العجلي رحمه الله تــ ١٨٣ھ)

کُتُب سے اِقتِباسات

27 Aug, 01:07


حافظ سخاوی رحمه الله لکھتے ہیں :

«اجْتَنِبْ أَيُّهَا الْكَاتِبُ الرَّمْزَ لَهَا أَي لِلصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَطِكَ، بأن تَقْتَصِرَ مِنْهَا عَلَى حَرْفَيْنِ، وَنَحْوِ ذلِكَ، فَتَكُونَ مَنْقُوصَةٌ صُورَةٌ، كَمَا يَفْعَلُهُ الكُسَالَى وَالْجَهَلَةُ مِنْ أَبْنَاءِ الْعَجَمِ غَالِبًا وَعَوَامُ الطَّلَبَةِ، فَيَكْتُبُونَ بَدَلًا عَنْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ص ، أَوْ صم، أَوْ صلم، أَوْ صلعم، فَذَلِكَ لِمَا فِيهِ مِنْ نَّقْصِ الأَجْرِ لِنَقْصِ الكِتابَةِ خِلافُ الأولى»

”اے لکھنے والے ! اپنی لکھائی میں رسول اللهﷺ پر درود کی اس طرح رمز لکھنے سے اجتناب کرو کہ دو یا تین چار حرفوں پر اکتفا کر لو۔ اس طرح درود کی صورت ناقص ہو جاتی ہے، جیسے سست اور بہت سے جاہل عجمیوں کا طرز عمل ہے، اکثر طلبہ بھی اس غلطی کا شکار ہیں۔ وہ "ﷺ" جگہ ص،صم،صلم یا صلعم لکھتے ہیں۔ یہ طریقہ کتابت میں نقص کی بنا پر اجر میں کمی کی وجہ سے غیر مستحسن ہے۔“

[فتح المغيث بشرح ألفية الحديث : ٧٢/٣-٧١]

کُتُب سے اِقتِباسات

16 Aug, 04:56


گزشتہ روز جس عظیم شخصیت (امام المعقولات، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد انور بدخشانی علیہ الرحمہ) کا وصال ہوا، ان کی رودادِ مطالعہ خود اُن کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ طلبہ، اساتذہ اور فارغین مدارس کے لیے نہایت قیمتی مضمون جو کہ Pdf کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے ۔

4,719

subscribers

528

photos

30

videos