📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚 @www_darul_ifta_wal_irshad_com Channel on Telegram

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

@www_darul_ifta_wal_irshad_com


رحمت آباد ، نزد سلامت ﷲ مسجد ، مالیگاؤں ضلع ناسک مہاراشٹر انڈیا

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚 (Urdu)

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚 یہ ایک تیلیگرام چینل ہے جو رحمت آباد، نزد سلامت ﷲ مسجد، مالیگاؤں ضلع ناسک مہاراشٹر، انڈیا میں واقع ہے۔ یہاں آپ کو افتاء اور ارشاد کے معاملات میں مدد حاصل کرنے کے لیے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ چینل آپ کی معاشرتی، اسلامی اور عقائدی مسائل کے حل کے لیے ایک وسیع معلوماتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو بھی شخص معاشرتی یا دینی مسئلے کا سامنا ہو، یہاں ان کی ہر قسم کی گائیڈنس فراہم کی جاتی ہے۔ اس چینل میں معتبر علماء کا مشورہ حاصل کرنے کے زریعے آپ اپنے اعتباری مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ چینل کو فالو کریں اور اپنے دینی اور معاشرتی سوالات کے جوابات حاصل کریں۔

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

20 Jan, 12:31


▫️ *_عورتوں کا کالی پوت یا منگل سوتر پہننا_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہٰذا میں کہ عورتیں شادی کے بعد گلے میں کالی پوت ، سونے کے پتے کا جو ہار پہنتی ہیں اسکا کیا حکم ہے؟ (جیسے غیر مسلم عورتیں منگل سوتر پہنتی ہیں،)

( المستفتی : حافظ زبیر صاحب، احمد نگر )
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

سوال میں جس ہار کا تذکرہ کیا گیا ہے اسے کالی پوت، یا پتہ موتی یا لچّھا یا منگل سوتر کہتے ہیں، یہ ہار غیر مسلم عورتوں کے لۓ ان کے مذھب میں ایک مذھبی شعار کی حیثیت رکھتا ہے، ان کا عقیدہ یہ ہوتا ھیکہ اس کالی پوت کو محض شادی شدہ خواتین ہی پہنتی ہے، شوہر کے انتقال کے بعد اسے اتار دیا جاتا ہے اب وہ دوبارہ نہیں پہن سکتی وغیرہ،،
اس عقیدے وخیال کے مطابق اگر مسلم عورت پہنتی ہے تو اس کا پہننا درست نہیں ہوگا،(۱)
ہاں البتہ بغیر کسی رسم ورواج کے اور لازم سمجھے بغیر بغرض زینت کے مسلم عورتیں پہنتی ہیں تو پہن سکتی ہیں،(۲)


📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) عن ابن عمرؓ قال : قال رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أبوداؤدشریف، رقم : ۴۰۳۱)

(۲) قل من حرم زینۃﷲ التي أخرج لعبادہ۔ والقول الثاني: ذکرہ الإمام فخر الرازيؒ أنہ یتناول جمیع أنواع الزینۃ، فیدخل تحتہ جمیع أنواع الملبوس، والحلیٰ، (تفسیر خازن قدیم۲/۸۴)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۱۹/رجب المرجب ١۴۴٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

05 Nov, 17:05


▫️ *_کیا حضرت موسی علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی ؟_*

سوال :- کیا یہ باتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی؟ رہنمائی فراہم کریں ؟

(المستفتی:سیّد اختر، ہزار کھولی، مالیگاٶں)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جی ہاں قرآن وتفاسیر میں اس بات کا تذکرہ ملتا ھیکہ حضرت موسی علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی، یہ لکنت کس طرح پیدا ہوٸی اور کس طرح ختم ہوٸی مکمل تفصیل فتاوی دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں ملاحظہ فرماٸیں،

" صغرسنی میں حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی زبان پر آگ کا انگارہ رکھ لیاتھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں کچھ لکنت تھی، زبان پر انگارہ رکھنے کا واقعہ معارف القرآن، تفسیر مظہری اور قرطبی وغیرہ میں مذکور ہے، البتہ جب ان کو تبلیغ کا حکم ہوا تو انھوں نے اور چیزوں کے لۓ دعا کے ساتھ خاص طور پر اپنی زبان کی بندش کو ختم کرنے کی بھی دعا کی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام دعائیں قبول بھی کرلیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی یہ بندش بھی ختم ہوگئی تھی مگر دوسری جگہ خود حضرت موسی علیہ السلام کی زبانی حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت یہ مذکور ہے: ہُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا․․ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ لکنت باقی رہ گئی تھی، بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اتنی ہی لکنت زائل کرنے کی دعا کی تھی جتنے میں لوگ ان کی بات سمجھ سکیں اور یہ دعاء قبول بھی ہوئی البتہ تھوڑی لکنت اخیر تک باقی رہی، "

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

﴿وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي﴾ وَذَلِكَ لِمَا كَانَ أَصَابَهُ مِنَ اللَّثَغِ، حِينَ عَرَضَ عَلَيْهِ التَّمْرَةَ وَالْجَمْرَةَ، فَأَخَذَ الْجَمْرَةَ فَوَضَعَهَا عَلَى لِسَانِهِ، كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ، وَمَا سَأَلَ أَنْ يَزُولَ ذَلِكَ بِالْكُلِّيَّةِ، بَلْ بِحَيْثُ (٣) يَزُولُ الْعَيُّ، وَيَحْصُلُ لَهُمْ فَهْمُ مَا يُرِيدُ مِنْهُ وَهُوَ قَدْرُ الْحَاجَةِ. وَلَوْ سَأَلَ الْجَمِيعَ لَزَالَ، وَلَكِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَا يَسْأَلُونَ إِلَّا بِحَسْبِ الْحَاجَةِ، وَلِهَذَا بَقِيَتْ بَقِيَّةٌ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِخْبَارًا عَنْ فِرْعَوْنَ أَنَّهُ قَالَ: ﴿أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلا يَكَادُ يُبِينُ﴾ [الزُّخْرُفِ ٥٢] أَيْ: يُفْصِحُ بِالْكَلَامِ.
وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ: ﴿وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي﴾ قَالَ: حُلَّ عُقْدَةً وَاحِدَةً، وَلَوْ سَأَلَ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ أُعْطِيَ.
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شَكَا مُوسَى إِلَى رَبِّهِ مَا يَتَخَوَّفُ من آل فرعون في القتيل، وعقدة لسانه، فَإِنَّهُ كَانَ فِي لِسَانِهِ عُقْدَةٌ تَمْنَعُهُ مِنْ كَثِيرٍ مِنَ الْكَلَامِ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ يُعِينَهُ بِأَخِيهِ هَارُونَ يَكُونُ لَهُ رِدْءًا وَيَتَكَلَّمُ عَنْهُ بِكَثِيرٍ مِمَّا لَا يُفْصِحُ بِهِ لِسَانُهُ، فَآتَاهُ سُؤْلَهُ، فَحَلَّ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِهِ.
(تفسیر ابن کثیر، ۵/۲۸۲)،فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۳/جمادی الاولی ١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

03 Nov, 08:32


▫️ *_چکّی کا قیامت تک چلنے والی روایت کی تحقیق وتخریج_*

سوال :- مفتی صاحب جماعت کے ساتھی نماز کی اہمیت بتلاتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی کے گھر میں کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی تو نماز پڑھ کر اپنے گھر میں چکی چلائی اور اس میں سے اتنا آٹا نکلا کہ گھر کے سارے برتن بھر گئے پھر چکی کا پاٹ اٹھا کر دیکھا تو اس میں کچھ نہیں نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر پاٹ نہیں اٹھاتے تو قیامت تک چکی چلتی رھتی،،
کیا یہ حدیث صحیح ہے اگر صحیح ہے تو اسکا حوالہ کیا ہے ؟ رھناٸی فرماٸیں عین نوازش ہوگی،،

(المستفتی : مولانا اظہر اشاعتی، املنیر)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جی ہاں اللّٰه کی مدد سے خود بخود چکی سے آٹا نکلنے کا یہ واقعہ متعدد کتب حدیث میں موجود ہے، اور حدیث بھی صحیح ہے، البتہ سوال میں یہ جو تحریر ھیکہ صحابی نے نماز پڑھکر چکی چلاٸی تو آٹا نکلنا شروع ہوا یہ درست نہیں ہے، چکی سے آٹا نکلنے کی دو وجہیں حدیث سے معلوم ہوتی ہیں، ایک تو صحابی رسول کی بیوی کا اللہ سے حصولِ رزق کی دعا کرنا، دوسرے تنگدستی اور فقر وفاقہ پر لوگوں سے شکایت نہ کرتے ہوۓ صبر کرنا اور باری تعالی پر توکل کرنا، مسند احمد کے حوالہ سے مکمل روایت ذکر کی جاتی ہے،

حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ھیکہ ایک آدمی اپنی بیوی کے پاس آیا ، اس نے جب اس پر پریشانی کے حالات دیکھے تو وہ جنگل کی طرف نکل گیا ، یہ دیکھ کر اس کی بیوی چکی کی طرف بڑھی اور اسے لا کر رکھا اور تنور کو دہکایا اور کہنے لگی کہ اے اللہ ! ہمیں رزق عطاء فرما ، اس نے دیکھا تو ہنڈیا بھر چکی تھی ، تنور کے پاس گئی تو وہ بھی بھرا ہوا تھا ، تھوڑی دیر میں اس کا شوہر واپس آ گیا اور کہنے لگا کیا میرے بعد تمہیں کچھ حاصل ہوا ہے ؟ اس کی بیوی نے کہا ہاں ! ہمارے رب کی طرف سے ، چنانچہ وہ اٹھ کر چکی کے پاس گیا اور اسے اٹھا لیا ، نبی ﷺ نے فرمایا اگر وہ چکی اس کی جگہ سے نہ اٹھاتا تو وہ قیامت تک گھومتی ہی رہتی،(۱)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَهْلِهِ فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنْ الْحَاجَةِ خَرَجَ إِلَى الْبَرِيَّةِ فَلَمَّا رَأَتْ امْرَأَتُهُ قَامَتْ إِلَى الرَّحَى فَوَضَعَتْهَا وَإِلَى التَّنُّورِ فَسَجَرَتْهُ ثُمَّ قَالَتْ اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا فَنَظَرَتْ فَإِذَا الْجَفْنَةُ قَدْ امْتَلَأَتْ قَالَ وَذَهَبَتْ إِلَى التَّنُّورِ فَوَجَدَتْهُ مُمْتَلِئًا قَالَ فَرَجَعَ الزَّوْجُ قَالَ أَصَبْتُمْ بَعْدِي شَيْئًا قَالَتْ امْرَأَتُهُ نَعَمْ مِنْ رَبِّنَا قَامَ إِلَى الرَّحَى فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَرْفَعْهَا لَمْ تَزَلْ تَدُورُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. (مسند احمد، رقم : ۱۰٦٦۷)

«مجمع الزواٸد ۱۰/۴۵۰» كتاب الزهد/ باب فيمن صبر على العيش الشديد ولم يشك إلى الناس،

دلائل النبوة للبيهقي : (باب ما جاء في دعاء المرأة بالرزق، ۱۰۵/٦، ط: دار الكتب العلمية)

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۳۰/ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

02 Nov, 07:32


▫️ *_دورانِ نماز وضو ٹوٹ جاۓ تو کیا کرے ؟_*

سوال :- مفتی صاحب اگر کوٸی اگلی صف میں کھڑا ہو اور اس کا وضو ٹوٹ جاۓ تو اسے کیا کرنا چاھیۓ ؟ جبکہ پیچھے اور صفیں لگی ہوں ؟ اس تعلق سے مکمل رھنماٸی فرماٸیں ؟

(المستفتی : شرافت حسین، راجگڈھ، مدھیہ پردیش،)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جماعت کھڑی ہو اور اس دوران کسی مقتدی کا وضو غیر اختیاری طور پر ٹوٹ جاۓ تو وہ وضو کرکے اپنی نماز بناء کرسکتا ہے، جس کا طریقہ یہ ھیکہ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر صفوں کو چیرتا ہوا فورا وہاں سے نکل آۓ، وضو ٹوٹنے کے بعد اگر ایک رکن کی اداٸیگی کے مقدار صف سے نہ نکلا اور وہیں ٹہرا رہا تو اسکی نماز فاسد ہوجاۓ گی، اس صورت میں بناء معتبر نہیں ہوگی، بلکہ اسے از سر نو نماز ادا کرنا ہوگی،
چنانچہ کسی سے بات کۓ بغیر فورا وضو کرے اور اپنی اسی جگہ لوٹ آۓ جہاں پہلے تھا، وضو کے دوران جو رکعتیں چھوٹ گٸ ہوں پہلے انھیں بغیر قرأت کے ادا کرے، یعنی قرأت کے بقدر خاموش رہ کر ان رکعتوں کو پورا کرے گا، چھوٹی ہوٸی رکعتوں کے پورا کرنے کے بعد پھر امام کے ساتھ شامل ہوجاۓ اور نماز پوری کرے، اور اگر امام نماز مکمل کرچکا ہوگا تو پھر تنہا ہی اپنی نماز مکمل کرے،

اور ایسا بھی کرسکتا ھیکہ وضو کے بعد امام کے ساتھ شامل ہوجاۓ اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد دورانِ وضو جو رکعتیں چھوٹ گٸ ہیں انھیں ویسے ہی بغیر قرأت کے ادا کرے، لیکن پہلی والی صورت بہتر ہے اسے ہی اختیار کرنا چاھیۓ،
نیز وضو کرنے کے لۓ صفوں کو چیر کرکے جانا چاھے آگے کی طرف ہو یا پیچھے کی طرف ممنوع نہیں ہے، نیز یہ بھی ذھن نشین رھیکہ وضو کرتے وقت اگر امام نماز مکمل کرچکا ہو تو وہیں پر کسی جگہ نماز مکمل کرلے، ورنہ تو اسی جگہ لوٹ کر جانا ضروری ہوگا،

اورجو شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو یعنی وہ ”منفرد“ ہو اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ فوراً وضو کرے اور جس قدر جلد ممکن ہو وضو سے فارغ ہوجائے، وضو کے بعد چاہے وہیں اپنی بقیہ نماز تمام کرلے اور یہی افضل ہے اور چاہے جہاں پہلے تھا وہاں جاکر پڑھے؛ لیکن منفرد کے حق میں افضل یہ ہے کہ قصدا پہلی نماز کو سلام پھیرکر قطع کردے اور وضو کے بعد از سر نو نماز پڑھے۔
(ماخوذ از بہشتی زیور، ص: ۵۶۸، حصہ: ۱۱، ط: توصیف پبلیکیشنز، لاہور)

*تنبیہ :* یہ بناء کا مسٸلہ ہے جو کہ بہت ہی باریک اور عوام سے اوجھل ہے، عمل کرنے میں بہت ساری دقت آسکتی ہے، لھذا بہتر یہ ھیکہ ایسی صورت میں اگر مجمع کثیر ہو تو وہیں بیٹھا رہے اور بعد نماز اپنی نماز وضو کے ساتھ تنہا ادا کرلے، یا وہاں سے نکل کر وضو کرکے اپنی نماز از سر نو ادا کرلے،

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

عن عائشۃ قالت: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من أصابہ قیئ، أورعاف، أو قلس أو مذي، فلینصرف فلیتوضأ، ثم لیبن علی صلاتہ وہو ذلک لایتکلم۔ (ابن ماجہ، إقامۃ الصلاۃ، والسنۃ، باب ماجاء في البناء علی الصلاۃ، النسخۃ الہندیۃ ۸۵، دارالفکر رقم:۱۲۲۱)

عن یزید بن عبد الله قسیط اللیثی: أنہ رأی سعید بن المسیب رعف وہو یصلي فأتی حجرۃ أم سلمۃ زوج النبي صلی الله علیہ وسلم فأتی بوضوء فتوضأ، ثم رجع فبنیٰ علی ماقد صلی۔ (الموطأ للإمام مالک، کتاب الطہارۃ، ۱۰؍باب ماجاء في الرعاف ۶۰، رقم:۴۶-۴۷-۴۸)

المصلي إن کان مقتدیاً فانصرف وتوضأ ، فإن لم یفرغ إمامہ من الصلاۃ فعلیہ أن یعود لأنہ فی حکم المقتدی بعد ، ولو لم یعد وأتم بقیۃ صلاتہ فی بیت لا یجزیہ ، لأنہ إن صلی مقتدیاً بإمامہ لا یصح لإنعدام شرط الإقتداء وہو اتحاد البقعۃ ۔ (بداٸع الصناٸع ۱/۵۲۲ ، فصل ، الکلام فی محل البناء)

وأما المقتدی إذا فرغ من الوضوء ، فإن لم یفرغ إمامہ من الصلاۃ فعلیہ أن یعود ، ولو أتم بقیۃ صلاتہ فی بیتہ لا یجزئہ ، لأنہ بینہ وبین إمامہ ما یمنع صحۃ الإقتداء ، وإن کان قد فرغ إمامہ یخیر ہوکما بینا ۔ ( المبسوط للسرخسي۱/۳۲۵ ، باب الحدث فی الصلاۃ ،)

ثم لجواز البناء شروط ، منہا أن ینصرف من ساعتہ حتی لو أدّی رکناً مع الحدث أو مکث مکانہ قدر ما یؤدی رکناً فسدت صلاتہ ۔( ھندیہ ،۱/۹۴، الباب السادس فی الحدث فی الصلاۃ ، حلبی کبیر:ص/۴۵۳)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۲۹/ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

01 Nov, 14:48


▫️ *_کیا شیطان مسجد میں آسکتا ہے ؟_*

سوال :- مفتی صاحب سوال یہ ھیکہ کیا شیطان مسجد میں آسکتا ہے ؟ رھنماٸی فرماٸیں ؟

(المستفتی : شرافت حسین، مدھیہ پردیش،)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جی ہاں شیطان مسجد میں داخل ہوسکتا ہے، یہاں دو حدیثیں نقل کی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ھیکہ مسجد میں شیطان کا داخل ہونا ممکن ہے،

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ ہمیں فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ دوران نماز اپنے ہاتھ سے کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیئے ، نماز سے فارغ ہو کر لوگوں نے اس کے متعلق پوچھا تو فرمایا شیطان میرے سامنے آگ کے شعلے لے کر آتا تھا تاکہ میری نماز خراب کر دے ، میں اسے پکڑ رہا تھا ، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو وہ مجھ سے اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکتا تھا یہاں تک کہ اسے مسجد کے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے تک اسے دیکھتے،(۱)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنی صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو ، انہیں قریب قریب بناؤ اور گردنوں کو بھی برابر رکھو ، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ خالی جگہوں میں سے تمہاری صفوں میں گھس آتا ہے گویا وہ بکری کا بچہ ہو،(۲)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) عن جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ فَجَعَلَ يَهْوِي بِيَدِهِ قَالَ خَلَفٌ يَهْوِي فِي الصَّلَاةِ قُدَّامَهُ فَسَأَلَهُ الْقَوْمُ حِينَ انْصَرَفَ فَقَالَ إِنَّ الشَّيْطَانَ هُوَ كَانَ يُلْقِي عَلَيَّ شَرَرَ النَّارِ لِيَفْتِنَنِي عَنْ صَلَاتِي فَتَنَاوَلْتُهُ فَلَوْ أَخَذْتُهُ مَا انْفَلَتَ مِنِّي حَتَّى يُنَاطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ. (مسند احمد، رقم : ۲۱۳۱۲)

(۲) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ، ‌‌‌‌‌‏فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ. (ابوداٶد، رقم : ٦٦۷)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۲۸/ربیع الثانی١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

01 Nov, 05:39


▫️ *_جمعرات کے دن انتقال ہونے والے کو جمعہ کی فضیلت پانے کے واسطے مغرب بعد دفن کرنا_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ ایک شخص کا انتقال جمرات کے روز دن میں بارہ 12 بجے ہوا گھر کے چند افراد (جن میں پڑھے لکھے اور انپڑھ دونوں قسم کےلوگ شاملِ ہیں) نے کہا کہ نماز جنازہ اور تدفین بعد نماز مغرب ہوگی اس لۓ کہ مغرب سے جمعہ کا دن شروع ہوجاتا ھے لہذا تدفین جمعہ کے دن شمار ہوگی ، حضرات مفتیان کرام اس صورت مسئلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ آیا ان کا یہ عمل کہاں تک درست ہے؟ قرآن وحدیث میں اس بارے میں کیا ہدایت دی گئی ہیں ؟ یا پھر یہ ایک من مانی یا من گھڑت فعل ہے جو کہ شرع کے خلاف ہے ؟
مدلل و مفصل جواب مطلوب ہے ؟

(المستفتی : مولانا شکیل خان اشاعتی، اورنگ آباد)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ھیکہ جس کی وفات جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں ہوجاۓ اللّٰه اسے قبر کے عذاب سے محفوظ فرمادیتے ہیں، حدیث کے الفاظ سے پتہ چلتا ھیکہ اس فضیلت کا مستحق وہی ہوگا جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں وفات پاجاۓ، تدفین کا اعتبار نہیں ہوگا،(۱)

لھذا اسطرح کا عمل کرنا کہ جمعرات کو دن میں کسی کا انتقال ہوجاۓ تو بلا عذر قصدا میت کو روک کر جمعہ کی رات میں دفن کرنا حدیث کی رُو سے درست نہیں ہے، ویسے بھی حدیث میں آتا ھیکہ انسان کی وفات کے بعد تجھیز وتکفین میں جلدی کرنا چاھیۓ، نعش کو روکے رکھنا مناسب نہیں ہے،(۲)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ :‌‌‌‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :‌‌‌‏ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ. (ترمذی، رقم : ۱۰۷۴)

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ.
(مسند احمد، رقم : ۷۰۵۰)

(۲) عَنِ الْحُصَيْنِ بْنِ وَحْوَحٍ:‌‌‌‏ أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ الْبَرَاءِ مَرِضَ، ‌‌‌‌‌‏فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ إِنِّي لَا أَرَى طَلْحَةَ إِلَّا قَدْ حَدَثَ فِيهِ الْمَوْتُ، ‌‌‌‌‌‏فَآذِنُونِي بِهِ، ‌‌‌‌‌‏وَعَجِّلُوا، ‌‌‌‌‌‏فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِجِيفَةِ مُسْلِمٍ أَنْ تُحْبَسَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِهِ. (ابوداٶد، رقم : ۳۱۵۹)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۲۸/ربیع الثانی١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

31 Oct, 05:56


▫️ *_حضرت علیؓ وفاطمہؓ وحسنینؓ سےمتعلق ایک حدیث کی وضاحت_*

سوال :- مفتی صاحب ایک شیعہ نے یہ حدیث سینڈ کی ہے۔۔۔۔۔۔کیا تفصیل ہے براۓ مہربانی وضاحت فرماٸیں ؟

زید بن ارقم ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین ؓ سے فرمایا: میں اس شخص کے لۓ سراپا صلح ہوں جس سے تم لوگوں نے صلح کی، اور سراپا جنگ ہوں اس کے لۓ جس سے تم لوگوں نے جنگ کی،

(المستفتی: غضنفرعلی خان سر،بیلباغ، مالیگاٶں)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جی ہاں یہ روایت ابن ماجہ ، ترمذی ، ومسند احمد وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے،(۱) لیکن اس حدیث کے راویوں پر کلام کیا گیا ہے اسی لۓ محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے،(۲) حتی کہ اس حدیث کی سند کا ایک راوی تلید بن سلیمان شیعہ رافضی اور جھوٹا ہے، حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ وعثمانؓ کو برا بھلا کہتا ہے،(۳)
البتہ حدیث کا مفہوم اپنی جگہ درست ہے، کہ اہل بیت سے محبت اور ان کی عظمت ہر مسلمان کا ایک ایمانی حصہ ہے، اور ان سے بغض وعداوت بڑی بدبختی ومحرومی کی علامت ہے، لیکن اس حدیث کو حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے اجتہادی اختلاف پر محمول نہیں کیا جاۓ گا، ان کا یہ اختلاف اور جنگ ذاتی بغض وعداوت کی بنیاد پر نہیں تھا، جیسا کہ شیعہ جماعت کا عقیدہ ہے، تمام صحابہ کے انفرادی واجتماعی فضاٸل اور ان کا عدل قرآن وصحیح احادیث سے ثابت ہے، لھذا اس باب میں کسی بھی شیعہ کی بات یا تفسیر معتبر نہیں ہوگی،،،

📚 والحجة علی ما قلنا 📚
‌‌‌‌‌‏
(۱) عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ لَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ. (ابن ماجہ، رقم : ۱۴۵)

(۲) وهذا السند من سداسياته؛ رجاله كوفيون إلا الحسن بن علي، فإنه مكي، وحكمه: الضعف، لأن صبيحًا لم يسمع زيد بن أرقم، ففيه انقطاع.............وشارك المؤلف في رواية هذا الحديث: الترمذي؛ أخرجه في كتاب المناقب، باب فضل فاطمة بنت محمد، وقال: هذا حديث غريب، إنما نعرفه من هذا الوجه، وصبيح مولى أم سلمة ليس بمعروف. فدرجة هذا الحديث: أنه ضعيف لأن سنده منقطع؛ لعدم سماع صبيح من زيد بن أرقم، وصبيح في نفسه غير معروف، كما قالوا، وإن ذكره ابن حبان في «الثقات»،
(شرح سنن ابن ماجہ للھرری ۲/٦۱)

(۳) قال أحمد: شيعي، لم نر به بأسا.
وقال ابن معين: كذاب يشتم عثمان، قعد فوق سطح فتناول عثمان، فقام إليه بعض أولاد موالى عثمان فرماه فكسر رجليه. وقال أبو داود: رافضي يشتم أبا بكر وعمر. وفي لفظ: خبيث. وقال النسائي: ضعيف.
(میزان الاعتدال ۱/۳۵۸)

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۲۷/ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

29 Oct, 17:01


▫️ *_ای شرم کارڈ بنوانے کا حکم_*

سوال :- السلام علیکم
مفتی صاحب سرکار کی طرف سے جو ای شرم کارڈ بن رہا ہے اسے بنوانا کیسا ہے ؟ مکمل رھنماٸی فرماٸیں ؟

(المستفتی : محمد اشھد، چونا بھٹی، مالیگاٶں)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

تحقیق کرنے سے معلوم ہوا ھیکہ یہ مرکزی روزگار وزارت کی جانب سے مزدوروں اور غریبوں کے لۓ ایک سرکاری امداد ہے، نیز ای شرم کارڈ کے ممبران کو ھفتہ واری یا ماہانہ یا سالانہ کسی طرح کی کوٸی رقم حکومت کو دینی نہیں ہوتی ہے، اگر ایسا ہی ہے تو ای شرم کارڈ بنوانا اور اس کارڈ کے ذریعہ سرکاری امداد سے نفع اٹھانا شرعا جاٸز ودرست ہے،(۱)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ. (فتاوی ھندیہ، ۳۴۲/۵)

وعن عليؓ : أن السلطان يصيب من الحلال والحرام، فإذا أعطاك شيئًا فخذه، فإن ما يعطيك حلال لك، (المحیط البرھانی،۳٦۷/۵ )فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۲٦/ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

29 Oct, 11:37


▫️ *_قبرستان میں داخل ہونے کی دعا_*

سوال :- قبرستان میں داخل ہونے کی مکمل دعا کون سی ہے، وضاحت فرماکر ممنون ومشکور ہوں ؟ ؟

(المستفتی : سیّد مبین، مالیگاٶں)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

قبرستان میں داخل ہونے کی مختلف دعاٸیں مختلف روایتوں سے منقول ہیں، دو مشہور زبان زد دعاٸیں نقل کی جاتی ہیں،

*السَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَکُمْ أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَرِ۔*(۱)

ترجمہ: اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے پہنچے ہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں،


*السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ.*(۲)

ترجمہ: سلامتی ہو تم پر اے ان گھروں کے مومن لوگو! اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے آملنے والے ہیں۔

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‌‌‌‏ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمَدِينَةِ، ‌‌‌‌‌‏فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ، ‌‌‌‌‌‏يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، ‌‌‌‌‌‏أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَر، (ترمذی، رقم :۱۰۵۳)

(۲) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‌‌‌‌‌‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْمَقْبَرَةِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، ‌‌‌‌‌‏وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ .(ابوداٶد، رقم : ۳۲۳۷)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۲۵/ربیع الثانی ۱۴۴٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

29 Oct, 04:55


▫️ *_مختلف دعوتوں کے نام اور ان کا حکم_*

سوال :- مفتی صاحب مندرجہ ذیل جو کھانوں کا ذکر ہے کیا ان کا شریعت میں ذکر ہے رہنمائی فرمائیں ؟

القِرَی : مہمان کا کھانا
المأدَبَة : دعوت کا کھانا۔
التحفة : زائرین کا کھانا
الولیمة : شادی کا کھانا
الخُرس : ولادت کا کھانا
الوَضیمة : ماتم کا کھانا۔
العقیقة : بچے کے بال اتارنے پر کھانا
العذیرة : ختنے پر کھانا
النَقیعة : سفر سے واپسی پر کھانا
الوَکیرة : تعمیر کی تکمیل پر کھانا

(المستفتی: ڈاکٹر سیّد نخشب حسین، مالیگاٶں)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

سوال میں مذکور یہ کھانے کے نام مختلف مواقع پر کی جانے والی دعوتوں کے عربی نام ہیں، ہر ایک کا حکم بالترتیب ملاحظہ فرماٸیں،
مہمان کا کھانا : مہمان کے اکرام واعزاز میں مہمان کو دعوت دی جاتی ہے، قرآن واحادیث میں مہمان کو کھلانے کی ترغیب آٸی ہے، انبیاء بڑے مہمان نواز ہوا کرتے تھے، حدیث میں آتا ھیکہ ’’جس گھر میں مہمان کھانا کھاتے ہیں اس میں بھلائی اس سے بھی جلد آتی ہے جتنی جلدی چُھری اونٹ کے کوہان پر چلتی ہے‘‘(۱)

دعوت کا کھانا : کسی بھی تقریب یا پروگرام پر کۓ گۓ کھانے کو دعوت کہتے ہیں، تقریب میں خلاف شرع کوٸی بات نہ ہو تو شریک ہو سکتے ہیں، حدیث میں آتا ھیکہ ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو دعوت دے تو وہ قبول کرے شادی ہو یا اس جیسی (کوئی اور) تقریب‘‘(۲)

زاٸرین کا کھانا : مقدس مقامات کی زیارت کرنے والوں کو کھانا کھلانا، لیکن عربی لغت میں تلاش کرنے پر کہیں نظر نہیں پڑی کہ اس کھانے کو التحفہ کہا گیا ہو، شاید زاٸرین کو ہلکی پھلکی چیز دینے کو تحفہ کہہ دیا گیا ہو، اور اگر تحفہ میں کھانا ہی کھلایا جاۓ تو یہ بھی مہمان کے حکم میں آجاۓ گا،

ولیمہ کا کھانا : ولیمہ کہتے ہیں نکاح کے بعد مرد کا خوشی کے طور پر لوگوں کو دعوت دینا،(۳) ولیمہ کا کھانا مسنون ہے، حدیث میں آتا ھیکہ جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جاۓ تو اسے آنا چاھیۓ،(۴)

ولادت کا کھانا یعنی بچے کی پیداٸش پر دعوت کرنا، ماتم کا کھانا، سوال میں اَلوَضِیمَةُ کے معنی ماتم کا کھانا جو لکھا گیا ہے وہ غلط ہے، اس کا صحیح مطلب کسی مصیبت کے وقت دعوت کرنا ہے، مثلا میت ہوجاۓ تو میت کے گھر والوں کے لۓ کھانا بنانا، بچے کے بال اتارنے پر کھانا یعنی عقیقہ کی دعوت کرنا، ختنہ کرتے وقت دعوت کرنا، سفر سے واپسی پر دعوت کرنا یا کسی گمشدہ کے گھر واپس آنے پر دعوت کرنا، مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر دعوت کرنا، یہ سب دعوتیں مستحب ہیں، جبکہ اسے ضروری ولازمی نہ سمجھا جاۓ، اور رسم ورواج کے تحت نہ کیا جاۓ، اور نہ ہی ان دعوتوں میں کوٸی خلاف شرع کام ہو،،(۵)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «الْخَيْرُ أَسْرَعُ إِلَى الْبَيْتِ الَّذِي يُؤْكَلُ فِيهِ ، مِنَ الشَّفْرَةِ إِلَى سَنَامِ الْبَعِيرِ» (ابن ماجہ، رقم : ۳۳۵۷)

(۲) عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُجِبْ عُرْسًا كَانَ أَوْ نَحْوَهُ»(مسلم، رقم : ۳۵۱۳)

(۳) وَوَلِيمَةُ الْعُرْسِ سُنَّةٌ، وَفِيهَا مَثُوبَةٌ عَظِيمَةٌ وَهِيَ إذَا بَنَى الرَّجُلُ بِامْرَأَتِهِ يَنْبَغِي أَنْ يَدْعُوَ الْجِيرَانَ وَالْأَقْرِبَاءَ وَالْأَصْدِقَاءَ. (ھندیہ، ۵/۳۴۳)

(۴) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ،أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْوَلِيمَةِ فَلْيَأْتِهَا. (بخاری، رقم : ۵۱۷۳)

(۵) قال المحدث السہارنفوري في حاشیۃ البخاري: قال الکرماني: قالوا: الضیافۃ ثمانیۃ أنواع: الولیمۃ للعرس، والخُرسُ للولادۃ، والإعذار للختان، والوکیرۃ لبناء، والنقیعۃ لقدوم المسافر من النقع وہو الغبار، والوضیمۃ المصیبۃ، والعقیقۃ تسمیۃ الولد یوم السابع من ولادتہ، والمأدُبۃ الطعام المتخذ للضیافۃ بلا سبب، وکلہا مستحبۃ إلا الولیمۃ؛ فإنہا تجب عند قوم، کذا في المجمع۔ (حاشیۃ البخاري، کتاب النکاح / باب الولیمۃ ۲؍۷۷۲ رقم الحاشیۃ: ۵)(کتاب النوازل)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۲۵/ربیع الثانی ١٤٤٦ھ

*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

22 Oct, 06:35


▫️ *_بچّوں کو تعویذ پہنانے کا حکم_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ بچوں کو تعویذ پہنانا کیسا ہے ؟ مدلل جواب مرحمت فرماٸیں ؟

(المستفتی : آصف اقبال، باغِ محمود، مالیگاٶں)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

ایسے تعویذات جو قرآنی آیت یا ادعیہ ماثورہ یا اللہ کے نام وصفات پر مشتمل ہو، اور عربی زبان میں یا ایسی زبان میں ہو جس کے معنی معلوم ہو، اور اسے موثر بالذات نہ سمجھا جاۓ تو شرعاً پہننے کی گنجاٸش ہے،(۱) صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمروؓ اپنے نابالغ بچوں کے گلے میں تعویذ لکھ کر ڈال دیا کرتے تھے،(۲) اس سے پتہ چلتا ھیکہ تعویذ پہننے کو مطلقا ناجاٸز یا شرک کہنا درست نہیں ہے، جن احادیث میں تعویذ لٹکانے کو شرک کہا گیا ہے اس سے مراد وہ تعویذات ہیں جو شرکیہ وکفریہ کلمات پر مشتمل ہوں،(۳)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى جَوَازِ الرُّقَى عِنْدَ اجْتِمَاعِ ثَلَاثَةِ شُرُوطٍ أَنْ يَكُونَ بِكَلَامِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ وَبِاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ أَوْ بِمَا يُعْرَفُ مَعْنَاهُ مِنْ غَيْرِهِ وَأَنْ يُعْتَقَدَ أَنَّ الرُّقْيَةَ لَا تُؤَثِّرُ بِذَاتِهَا بَلْ بِذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى، (فتح الباری، ۱۰/۱۹۵)

وَأَمَّا مَا كَانَ مِنْ الْقُرْآنِ أَوْ شَيْءٍ مِنْ الدَّعَوَاتِ فَلَا بَأْسَ بِهِ اهـ (شامی٦/۳٦۳)

(۲) فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ، ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ. (ترمذی رقم الحدیث ۳۵۲۸)

(۳) عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ فَقَالَ اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ . (مسلم رقم : ۵۷۳۲)

وأما الأحادیث التي ورد فیہا النہي عن الرقي، أو الأحادیث التي أثنی فیہا علی الذین لا یسترقون؛ فإنہا محمولۃ علی رقي الکفار التي تشتمل علی کلمات الشرک، أو الاستمداد بغیر اللّٰہ تعالی، أو الرقي التي لا یفہم معناہا؛ فإنہا لا یؤمن أن تؤدي إلی الشرک فمنع منہا احتیاطًا۔ (تکملۃ فتح الملہم ۴/۲۹۵)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۱۸/ربیع الثانی ١٤٤٦ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

03 Oct, 15:32


*_مکتب کے اخراجات میں نفلی صدقات کا لینا_*

سوال :- ھمارے گاٶں پالدھی ضلع جلگاوں میں ایک مدسہ ریاض الجنہ واقع ہے، جس میں گاٶں ہی کے پانچ سو پچیس (525) طلباء زیر تعلیم ہیں، اس کی امداد کیلۓ مدسہ کے منتظمین نے ایک شکل یہ بناٸی ہیکہ گاٶں کے بہت سے گھروں میں ایک ایک گلّے رکھے ہیں جس میں گھر والے اپنے بیمار کیلۓ یا سفر میں جاتے وقت یا نفلی صدقات کے ذریعہ مدرسہ کا اس گلے میں ڈال کر تعاون کریں گے، واضح رہیکہ مدرسہ میں طلباء کیلۓ کھانے کا کوٸی نظم نہیں ہے، تو کیا اس طرح کے نفلی صدقات سے مدرسہ ریاض الجنہ پالدھی کا تعاون کرنا درست ھوگا ؟ ؟ مدلّل جواب مل جاۓ تو عین نوازش ھوگی،

(المستفتی : ذمّہ دارانِ مدرسہ ریاض الجنّة، پالدھی، جلگاٶں)
*_______*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جی ہاں مکتب ومدرسہ میں نفلی صدقات کی رقم استعمال کرسکتے ہیں، سوال میں جو صورت آپ نے ذکر کی ہےکہ گھر گھر گلّے کی شکل میں چندہ پیٹی رکھی جاۓ گی اور لوگ اس میں سفر کے وقت یا بیمار کی شفاء یابی کے لۓ پیسہ ڈالا کریں گے تو شرعا اس میں کوٸی مضاٸقہ نہیں، یہ نفلی صدقات کہلاٸیں گے، اس کے علاوہ بھی محض للّہ فی اللّہ ثواب کی نیت سے جو پیسے ڈالیں جاٸیں گے وہ بھی نفلی صدقات ہی میں شمار ہوں گے، اور ان کا استعمال بلا کراہت مکتب کے کسی بھی مد میں کرسکتے ہیں،
البتہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی بھی مکان یا دکان میں جبراً گلّے نہ رکھیں جاۓ، نیز گلہ یا چندہ پیٹی رکھتے وقت وضاحت کردی جاۓ کہ اس میں صرف نفلی صدقات ہی ڈالیں، واجبی صدقات مثلا زکوة ، صدقہ فطر ، کفارہ وفدیہ کی رقم نہ ڈالیں، گلے پر تحریر کردینا بھی بہتر ہوگا،،

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

وقيد بالزكاة؛ لأن النفل يجوز للغني كما للهاشمي، وأما بقية الصدقات المفروضة والواجبة كالعشر والكفارات والنذور وصدقة الفطر فلا يجوز صرفها للغني لعموم قوله عليه الصلاة والسلام «لا تحل صدقة لغني» خرج النفل منها؛ لأن الصدقة على الغني هبة كذا في البدائع." (البحر الراٸق ،كتاب الزكاة،، ۲/۲٦۳)

"وأما صدقة التطوع فیجوز صرفها إلی الغنی لأنها تجري مجری الهبة". ( بداٸع الصناٸع كتاب الزكاة، ٢/٤٨)

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۳۰/ ربیع الاول ١٤٤٦ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

10 Jul, 06:29


*ایک ساتھ تین طلاق دینے سےکتنی طلاق ہوتی ہے ؟*

سوال :- مفتی صاحب ایک سوال ہے کسی آدمی نے بیوی کو ایک لفظ میں طلاق دیا یعنی یوں کہا کہ تجھے تین طلاق یا یوں کہا میں نے تمہیں تین طلاق دیا تو کیا اس سے تین طلاق واقع ہوگی یا ایک طلاق واقع ہوگی حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرماۓ ؟

( المستفتی : حافظ توفیق عالم، کٹہیار، بہار)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

قرآن واحادیث میں صراحت کے ساتھ یہ ثابت ہے نیز جمہور صحابہؓ وتابعینؒ اور اٸمہ اربعہ وفقھاءؒ کا موقف بھی یہی ھیکہ اگر ایک ساتھ تین طلاق دی جاۓ یا الگ الگ کلموں میں تین طلاق دی جاۓ خواہ مجلس ایک ہو یا متفرق بہر صورت تین طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ہے،(۱)

تین طلاق سے متعلق مزید تفصیلات ودلاٸل ، اور احناف کے دلاٸل پر فریق مخالف کے اعتراضات کے مدلل ومسکت جوابات کے لۓ اِن کتابوں کا مطالعہ فرماٸیں، مفتی سلمان صاحب منصورپوری کی کتاب ” تین طلاق کا مسٸلہ دلاٸل شرعیہ کی روشنی میں “ مولانا الیاس صاحب گھمن کی کتاب ” مسٸلہ طلاق ثلاثہ “ سعودی کبار علماء کی مشترکہ کتاب ” سعودیہ کی مجلس کبار علماء کا فیصلہ تین طلاق دینے سے تین ہی طلاق پڑتی ہے “

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(۱) الطَّلاَقُ مَرَّتَان. . . . . فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ. (سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۲۹)

عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی الله عليه وآله وسلم أتحل للأول قال لا حتی يذوق عسيلتها کما ذاق الأول. (بخاری شریف رقم : ۲۰۱۴)

ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً ۔ (فتح القدیر ۳/۴٦۹، کتاب الطلاق، ط: دار الفکر)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۳/محرم الحرام ١٤٤٦ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

18 Jun, 05:40


▫️ *_جانور کے پائے کو گرم پانی میں ڈالنا، نیز عورت کی طرف سے قربانی ہو تو نام ولدیت کے ساتھ یا زوجیت کے ساتھ لیا جائے؟ _*

السلام علیکم محترم مفتی صاحب!
[ 1 ] سوال یہ ہے کہ جانور کے پائے کی کُھر کو آسانی سے نکالنے کے لیے اسے کھولتے ہوئے گرم پانی میں یا پھر اسے انگیٹھی پر گرم کرکے نکالا جاتا ہے تو کیا یہ دونوں طریقے صحیح ہیں یا پھر شریعت کا کھر کے بارے میں کچھ اور حکم یا ترتیب وارد ہوئی ہے ؟

[ 2 ] اسی طرح دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ قربانی کے لیے عورتوں کا نام ولدیت کے ساتھ لیا جائے گا یا پھر زوجیت کے لحاظ سے لیا جائے گا ؟
امید ہے کہ بحوالہ رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں -
جزاک اللہ خیرا کثیرا

(المستفتی : ابوذر غفاری عرفان احمد،مالیگاٶں)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

[1] جانوروں کے پائے بنانے کے لۓ کُھروں کو گرم پانی میں ڈالنا یا گرم چیز پر رکھنا دونوں طریقے درست ہیں، ایسا صرف سھولت وآسانی کے لۓ کیا جاتا ہے، شرعا اس میں کوٸی مضاٸقہ نہیں، بلکہ کھر کے نکالنے میں جو بھی طریقہ آسان ہو اسے استعمال کرسکتے ہیں،(١)

[2] عورت کی طرف سے قربانی کی جاۓ تو ضروری نہیں ھیکہ ساتھ میں اس کے والد یا شوھر کا بھی نام لیا جاۓ، خواہ نسبت باعتبارِ زوجیت کے شوھر کی طرف ہو یا باعتبارِ ولدیت کے والد کی طرف ہو کوٸی حرج نہیں، بلکہ محض عورت کا نام بھی لیا جائے تو کافی ہے، اور نام نہ لیتے ہوۓ دل میں صرف نیت وارادہ بھی کرلیں کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے تو درست ہے،(٢)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ وَمُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: «يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا،(مسلم شریف رقم : ٤٥٢٦)

(٢) لا یشترط مع نیۃ القلب التلفظ في جمیع العبادات۔ (الأشباہ، الفن الأول، القاعدۃ الثانیۃ، قدیم ۵/ ۸۸)

والنیۃ: ہي الإرادۃ، والشرط: أن یعلم بقلبہ، أي صلاۃ یصلي، أما الذکر باللسان فلا معتبر بہ۔ (ہدایۃ، ۱/ ۹٦)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٢٥/ذی الحجہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

17 Jun, 14:29


▫️ *_جانور کو بندوق کی گولی سے مار کر ذبح کرنا_*

مفتی صاحب!!!
سوال :- زید کو شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ملی جس میں ایک قربانی کے جانور کو بندوق سے مار کر گرایا جاتا ہے پھر جیسے ہی جانور زخمی حالت میں زمین پر گِرتا ہے تو فوراً ذابح آ کر تیز چھری سے جانور کو ( شرعی حکم کے مطابق) ذبح کر دیتا ہے یعنی چار رگیں کاٹتا ہے -
لہٰذا کیا اس طرح ذبح کرنا جائز ہے؟

(المستفتی : حافِظ حبیب الرحمن ابن مولانا عبدالباری قاسمی صاحبؒ، مالیگاؤں)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جانور کو بندوق سے گولی مارنے کے بعد اس کے مرنے سے پہلے اگر شرعی طور پر ذبح کردیا جاۓ تو جانور حلال ہوگا،(١) اور اگر گولی مارنے کے بعد ذبح کرنے سے پہلے ہی جانور مرجاۓ تو اب یہ جانور حلال نہیں ہوگا خواہ بسم اللہ پڑھکر ہی گولی چلاٸی ہو،(٢)

نیز یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ذبح کرنے سے پہلے بلا وجہ جانور کو گولی مارنا پھر ذبح کرنا یہ ظلم وزیادتی ہے، ہاں اگر جانور بڑا شرارتی ہے اودھم مچاتا ہے اسے گرانا مشکل پڑ رہا ہے تو بندوق کا استعمال کرنے کی گنجاٸش ہے،(٣)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) وحل المذبوح بقطع ای ثلاث منھا اذ للاکثر حکم الکل، (در مختار ٦/٢٩٥)

(٢) وما قتلہ المعراض بعرضہ والبندقیۃ حرامٌ۔ (تکملۃ: البحر الرائق مع الکنز الدقائق ۸؍۲۲۹ کوئٹہ)

(٣) فتاوی حقانیہ ج ٦ ص ٤٥٣

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
١٦/ذی الحجہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

17 Jun, 04:46


▫️ *_قربانی کے جانور کی چربی کو تیل یا گھی بنا کر فروخت کرنا_*

مفتی صاحب
السلام وعلیکم
سوال :- کیا مسئلہ بیان کرتے ہیں حضرات مفتیان کرام کہ گھر پر آئے ہوئے قربانی کے گوشت اور گھر کے قربانی کے جانور سے حاصل ہونے والی چربی کو پگھلا کر تیل گھی بنایا جاتا ہے اتنا تیل اور گھی گھر میں استعمال نہیں ہوسکتا، تو کیا اسے فروخت کر سکتے ؟
اور اس سے حاصل ہونے والے پیسوں کا استعمال کر سکتے ہیں کیا؟
رہنمائی فرمائیں،

( المستفتی : شیخ مبارک سر، روشن آباد،مالیگاؤں)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

خود اپنی قربانی کے جانور سے نکلی ہوٸی چربی یا اسکا تیل یا گھی بناکر ھم استعمال کرسکتے ہیں، اور اگر یہ تیل یا گھی زیادہ ہوجاۓ تو انھیں صدقہ کی نیت سے فروخت کرسکتے ہیں،(١) یا تو گھی اور تیل صدقہ کردے یا انھیں فروخت کرکے اسکی قیمت صدقہ کردے، خود مالک ان پیسوں کو استعمال نہیں کرسکتا،(٢)

البتہ دوسروں کی طرف سے قربانی کا جو گوشت آتا ہے اسکی چربی سے نکلا ہوا تیل اور گھی فروخت کرکے اسکا پیسہ ھم خود استعمال کرسکتے ہیں،(٣)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) ولابأس ببیعہ بالدراہم لیتصدق بہا۔ (المحیط البرہانی کوئٹہ ٦/٤٨١)

(٢) ولو باع الجلد أو اللحم بالدراہم أو بمالاینتفع بہ إلا بعد استہلاکہ تصدق بثمنہ۔ (ہدایہ، ٤/٤٥٠)

فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أی بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ۔ (در مختار، ٩/٤٧٥)

(٣) فتاوی محمودیہ ج ٢٦ ص ٣٩٧

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
١٨/ذی الحجہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

16 Jun, 14:43


▫️ *_قربانی کا جانور ذبح کرنے کا طریقہ و دعاء_*

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
سوال :- کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا مکمل طریقہ سنت و مستحب وغیرہ کے لحاظ سے کیا ہے؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ، نیز ذبح کرنے کی دعاء بھی عربی عبارات کے ساتھ تحریر فرما دینگے تو اور بھی زیادہ اچھا ہوگا ؟
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین -

( المستفتی : محمد اکرم، پوارواڑی، مالیگاؤں)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جانور کو ذبح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ھیکہ اسے قبلہ رُو زمین پر اس طرح لٹایا جاۓ کہ جانور کا بایاں پہلو زمین کی پشت پر ہو، دُم والا حصہ شمال کی جانب اور گردن والا حصہ جنوب کی جانب ہو، اور جانور کے پیر قبلہ کی طرف ہو، پھر ذبح کرنے والا یہ دعا پڑھے،،

إنِّيْ وَجَّھّتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا أنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن ، إنَّ صَلٰوتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ، لا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أمِرْتُ وَأنَا أوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ

دعا پڑھنے کے بعد ذابح اپنا دایاں پیر جانور کے داٸیں پہلو پر رکھکر تیز چھری سے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے، ذبح کرنے کے بعد ذابح یہ دعا پڑھے

اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّيْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَخَلِیْلِکَ إبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِمَا الصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ‘‘

اور اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کررہا ہے تو ’’ مِنِّيْ‘‘ کی جگہ ’’ مِنْ فُلانٍ‘‘ کہے، اور فلان کی جگہ اس کا نام لے لے،

*تنبیہ :* ان دعاٶں کا پڑھنا سنت ہے، اگر کسی کو یہ دعاٸیں یاد نہ ہو تو صرف بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر بھی ذبح کردے تو کافی ہے،،،،اپنا جانور اپنے ہاتھ سے خود ذبح کرنا سنت ہے، عورت اگر ذبح کرنا چاھے تو بھی ذبح کرسکتی ہے، البتہ بے پردگی نہ ہو،

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

{فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِآَیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَ۔ [الأنعام: ۱۱۸]}

عن أنس قال: ضحی النبی ﷺ بکبشین أملحین أقرنین، ذبحہما بیدہ، وسمی وکبر، ووضع رجلہ علی صفاحہما۔ (صحیح البخاری، رقم: ۵۳۵۰،)

واتفقوا علی أن اضجاعہا یکون علی الجانب الأیسر فیضع رجلہ علی الجانب الأیمن۔ (حاشیۃ أبو داؤد شریف، النسخۃ الہندیۃ ۲/۳۸۶)

وتلہ أی صرعہ علی الأرض للجبین قال ابن عباس أضجعہ علی جنبہ علی الأرض والجبہۃ بین الجنبین۔ (تفسیر مظہری زکریا دیوبند قدیم ۸/۱۲۹- ۱۳۰، جدید)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٩/ذی الحجہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

16 Jun, 09:54


قربانی کے جانور سے شروع فرماتے، یہ مستحب ہے، اور روزے والی بات بالکل غلط ہے،،،،،،(کتاب الفتاوی)

*تنبیہ :* مضمون مزید طویل نہ ہوجاۓ اس کے لۓ عبارتیں تحریر نہیں کی گٸ ہیں، ورنہ دلاٸل ھمارے پاس محفوظ ہیں،،،،،،،

*وما توفیقی الّا باللّٰہ*
******
*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

16 Jun, 09:54


*_نمازِ بقرعید اور قربانی سے متعلق عوامی غلطیاں_*

*✍️ از :- مفتی احتشام حسین غفرلہ*
(خادم دارالافتاء والارشاد، رحمت آباد مالیگاؤں)

*نماز عیدالاضحی کا طریقہ :* نماز عیدالاضحی واجب ہے، جس میں چھ زاٸد تکبیریں بھی واجب ہیں، طریقہ یہ ھیکہ اول نیت کریں کہ میں دو رکعت واجب نماز عید الاضحی مع چھ زاٸد تکبیروں کے ادا کرتا ہوں، پھر تکبیر تحریمہ کہتے ہوۓ ہاتھ باندھ لیں اور ثناء پڑھیں،پھر تین مرتبہ الله أكبر کہے اور ھر مرتبہ کانوں تک ہاتھ اٹھاۓ، پہلی اور دوسری تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں، اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے، قرأت وغیرہ کے ساتھ ایک رکعت مکمل کریں، دوسری رکعت کی بھی قرأت کرے، اب دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیریں کہے، تینوں تکبیر کہتے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھاۓ اور چھوڑ دے، پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ اٹھاۓ بغیر رکوع میں چلا جاۓ، اور نماز مکمل کرے،(حلبی کبیر)

*قربانی کی بجاۓ صدقہ :* یہ اعتراض ھمیشہ مستشرقین کی طرف سے ہوا کرتا ہے، لیکن بعض روشن خیال اور کم علم مسلمانوں کا بھی یہ نظریہ بنا ہوا ھیکہ قربانی نہ کرتے ہوۓ رقم صدقہ کردی جاۓ، دھیان رھیکہ قربانی کی بجاۓ صدقہ کرنا کافی نہیں ہوگا، ورنہ واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا اور گناہ الگ ہوگا، پوری کوشش کی جاۓ کہ ان تین دنوں میں کسی طرح قربانی کرلی جاۓ، یا پھر حصہ لے لیں، یا آس پاس کہیں قربانی کا نظم ہو وہاں کسی کے ذریعہ قربانی کرالیں یا وہاں حصہ لے لیں، بطور خاص یہ بات یاد رکھیں کہ حتی المقدور کوشش کرنے کے باوجود جس علاقے میں بالکل بھی قربانی کی اجازت نہ ہو، ھر ممکن کوشش کے باوجود بھی تین دنوں میں سے کوٸی بھی دن قربانی نہ کرسکا ہو تو اب تین دن گذرنے کے بعد ایک بکرے کی قیمت صدقہ کرنا ہوگی، یہ حکم اس کے لۓ جس پر قربانی واجب ہے،(فتاوی ھندیہ)

*قربانی کے جانور کا دودھ اور گوبر :* اس مسٸلہ کو لیکر فقھاء کی عبارتوں میں گرچہ تفصیل ہے کہ چارا خود جانور جنگل وغیرہ میں چرتا ہے یا ھم خود اپنے گھر پر لاکر کھلاتے ہیں وغیرہ، اس سے صرف نظر احتیاط اسی میں ھیکہ قربانی کے جانور کا دودھ اور گوبر قربانی کرنے والے کے لۓ استعمال کرنا یا فروخت کرنا درست نہیں ہے، اگر دودھ نکال لے یا فروخت کردے تو دودھ یا اسکی قیمت صدقہ کردے،(فتاوی شامی)

*بوقتِ ذبح کچھ غلطیاں :* بلا کسی عذر بوقت ذبح جانور کا رخ قبلہ رو نہ کرنا مکروہ ہے، جانور کو باٸیں پہلو قبلہ رو لٹایا جاۓ، ذابح کا چہرہ بھی قبلہ رو ہونا چاھیۓ، اسکا اھتمام کیا جاۓ،
اسی طرح کم سے کم چار رگوں میں سے تین کا کٹنا ضروری ہے، تین سے کم کٹنے پر ذبیحہ حلال نہیں ہوگا، اس میں سب سے بڑی کوتاھی قصاب کی ہوتی ھیکہ ذابح جیسے ہی چھری چلاتا ہے ابھی صحیح طریقے سے رگیں کٹ بھی نہیں پاتی کہ فورا ذابح کے ہاتھ سے قصاب چھری لے لیتا ہے،
اسی طرح ذبح کے فورا بعد کھال اتارنا شروع کردیا جاتا ہے، یہ بھی مکروہ ہے، اس سے جانور کو تکلیف ہوتی ہے، لھذا جانور ٹھنڈا ہونے کے بعد ہی کھال اتاری جاۓ، قصاب کو ان سب چیزوں کا مکلف کیا جاۓ، اس لۓ کہ یہ تجارت نہیں عبادت ہے،(فتاوی محمودیہ)

*جانور کی ہڈّیاں اور رسّی :* قربانی کے جانور کو خریدتے وقت گلے میں اگر رسی یا زنجیر ہو تو قربانی کے بعد اسے بھی صدقہ کردینا مستحب ہے، خود استعمال کرنا چاھے تو بھی کرسکتا ہے، البتہ اگر انھیں فروخت کردے تو اسکی قیمت صدقہ کرنا ہوگی،
نیز قربانی کے جانور کی ہڈیوں کو دفن کردیا جاۓ، اور اگر فروخت کرتے ہیں تو اسکی قیمت یا بدلہ میں نمک لیا ہو تو وہ صدقہ کردے،(فتاوی تاتارخانیہ)

*بڑے جانور میں ولیمہ، عقیقہ :* بڑے جانور کے سات حصوں میں کسی کا قربانی کا حصہ ہو کسی کا عقیقہ کا حصہ ہو اور کسی کا ولیمہ کا حصہ ہو، تو یہ درست ہے، اس سے کسی کی قربانی باطل نہیں ہوگی،(احسن الفتاوی)

*مرحوم کی طرف سے قربانی :* کسی مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا چاھے تو کرسکتے ہیں، شرعا اسمیں کوٸی حرج نہیں ہے، اسکا ثواب بھی مرحوم کو ملے گا، اور اس حصہ کا گوشت بھی کھا سکتے ہیں،،(فتاوی شامی)

*غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا :* قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے، کیوں کہ اصل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہا دینے سے ادا ہوچکی ہے اور گوشت کا صدقہ کرنا نفلی صدقہ کے درجہ میں ہے، جس کو غیر مسلم پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے، اور اگر وہ غیر مسلم پڑوسی یا رشتہ دار ہو تو اس کو گوشت دینے سے حسن وسلوک کا ثواب ملنے کی بھی امید ہے،(فتاوی قاسمیہ)

*دس بجے تک روزہ رکھنا :* عوام میں جو مشھور ھیکہ بقرعید کے دن دس بجے تک روزہ رکھے یا پھر قربانی کے جانور کے ذبح ہونے اور کھانا بننے تک روزہ رہے تو یہ سب باتیں غلط ہیں، صحیح بات یہ ھیکہ جس نے قربانی کیا ہے اس کے لۓ مستحب ھیکہ وہ قربانی کے دن کھانے کی ابتدا اپنی قربانی کے جانور کے گوشت سے کرے، حضور ﷺ کا معمول یہی تھا کہ آپ ﷺ بغیر کچھ کھاۓ پۓ نماز بقرعید کے لۓ جاتے اور نماز کے بعد اس دن کھانے کی ابتدا

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

16 Jun, 04:39


▫️ *_مرحوم بچے کا عقیقہ کرنا_*

اَلسَلامُ عَلَيْكُم مُفْتِیْ صَاحَبْ!
سوال :- مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ جو بچہ نومولود عمر میں ہی فوت ہو جائے تو ایسے بچے کے عقیقے کا کیا حکم ہے ؟ مطلب ایسے بچے کا عقیقہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟
برائے کرم تفصیل بیان فرمائیں -

( المستفتی : حافِظ محمد شمشیر، سورت، گجرات)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوریؒ فتاوی رحیمیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ” عقیقہ زندگی میں کیا جاتا ہے، مرنے کے بعد عقیقہ کامستحب ہونا ثابت نہیں، اگر مردہ بچہ کے عقیقہ کو مستحب نہ سمجھا جائے محض شفاعت کی امید اور مغفرت کی لالچ سے کر دیا جائے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے، جیسے کسی نے حج نہیں کیا اور بلا وصیت مر گیا اور وارث نے اس کی مغفرت کی امید پر اپنے خرچ سے حج بدل کیا تو امید ہے کہ حق تعالیٰ قبول فرمائے، اس صورت میں عقیقہ کا جانور مستقل ہو احتیاطاً قربانی کے جانور میں شرکت نہ کرے “(١)

اسی طرح بنوری ٹاٶن کے فتوی میں ھیکہ ” صاحبِ استطاعت افراد کے لۓ اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ اس کی زندگی میں کرنا مستحب ہے، اور اس کا مستحب وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے،(٢)

صورتِ مسئولہ میں جو بچہ پیدائش سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا زندہ پیدا ہونے کے بعد عقیقہ سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا کسی شخص کا بلوغت تک عقیقہ نہ ہوا ہو اور وہ انتقال کر گیا ہو یا زندہ ہو ان تمام صورتوں میں عقیقہ نہیں کیا جائے گا، مرحومین کے نام پر عقیقہ کرنے کا احادیث سے ثبوت نہیں ملتا، البتہ مرحومین کی طرف سے نفلی قربانی کی جا سکتی ہے، لہذا عقیقہ کرنے کے بجائے نفلی قربانی کرلی جائے۔(٣)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) وحاصلہ ان الغلام اذا لم یعق عنہ فمات لم یشفع لوا لدیہ ثم ان الترمذی اجازبھا الی یوم احدی وعشرین قلت بل یجوز الی ان یموت لمارأ یت فی بعض الروایات ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم عق عن نفسہ بنفسہ الخ (فیض الباری ج ٤ ص ۳۳۷ کتاب العقیقۃ)

(٢) عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدي و عشرين‘‘.(ترمذی شریف، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد)

(٣) ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور". (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية ٢/ ٢١٣)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
١٢/شوال ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_Com

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

15 Jun, 14:53


▫️ *_ایام تشریق اور قربانی کا وقت کب سے کب تک ؟_*

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
سوال :- کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایام تشریق کب سے شروع ہوتی ہے؟ اور قربانی کے کتنے دن ہیں ؟ اور کیا تمام ایام تشریق ذبیحہ کے دن ہیں؟

( المستفتی : نوید اختر، نیا اسلام پورہ، مالیگاؤں)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

٩ ذی الحجہ کی فجر سے لیکر ١٣ ذی الحجہ کی عصر تک کا وقت ایام تشریق کہلاتا ہے، ان ایام میں ہر فرض نماز کے بعد مرد ، عورت ،امام ، مقتدی ومنفرد ہر کے لۓ تکبیر تشریق کا ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے،(١)

مرد حضرات بلند آواز سے پڑھیں گے اور عورت آھستہ آواز سے پڑھے گی،(٢) نیز مسبوق شخص جسکی کچھ رکعتیں چھوٹ گٸی ہیں سلام پھیرنے کے بعد وہ بھی تکبیر تشریق پڑھے گا،(٣)

قربانی کے صرف تین دن ہیں، ١٠ / ١١ / ١٢ ذی الحجہ، انھیں تین دنوں میں قربانی کرنا ہے، تمام ایام تشریق ذبیحہ کے دن نہیں کہلاتے ہیں،(٤)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) واما وقتہ فاولہ عقیب صلاۃ الفجر من یوم عرفۃ وآخرہ فی قول ابی یوسف ومحمدؒ عقیب صلاۃ العصر من اٰخرایام التشریق۔ (ہندیۃ ۱؍۱۵۲)

(٢) والمرأۃ تخافت بالتکبیر لان صوتہا عورۃ۔ (تبیین الحقائق ۱؍۵٤٦)

(٣) وکذا یجب علی المسبوق ویکبر بعدما قضی ما فاتہ۔ (ہندیۃ ۱؍۱۵۲)

(٤) عن عمر رضي اللّٰہ عنہ: إنما النحر في ہٰذہ الأیام الثلاثۃ۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۵)

عن عبد اللّٰہ ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما: الأضحی یومان بعد یوم الأضحی۔ (المؤطا للإمام مالک ۱۸۸، إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۳)

عن أنس رضي اللّٰہ عنہ: الأضحی یوم النحر ویومان بعدہ۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۲۳٤)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٦/ذی الحجہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

15 Jun, 11:33


▫️ *_نکاح کے بعد ولیمہ کب کرنا چاہیے ؟_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نکاح کرنے کے بعد ولیمہ کب کر سکتے ہیں ؟ کیا جس دن نکاح ہوا ہے اسی دن رات میں کر سکتے ہیں یا دوسرے دن ہی کرنا ضروری ہے ؟ اس تعلق سے عوام میں بہت ساری باتیں گردش کرتی ہیں لہٰذا تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی -

(المستفتی : مرزا تسلیم، بھڑگاؤں، ضلع جلگاؤں )
*____*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

حدیث مبارکہ وفقھاء کی تشریحات سے پتہ چلتا ھیکہ جس دن نکاح ہوا ہو اُس دن بھی ولیمہ کرسکتے ہیں، نکاح کے دوسرے دن اور تیسرے دن بھی ولیمہ کرسکتے ہیں، عوام میں یہ جو باتیں گردش کرتی ھیکہ نکاح کے دن ولیمہ نہیں کرتے یا رات کا گذارنا ضروری ہے تو یہ سب اغلاط ہیں،

رہی بات کہ کون سے وقت ولیمہ کیا جاۓ تو نکاح کے فورا بعد رخصتی سے پہلے بھی کرسکتے ہیں، اور رخصتی کے بعد صحبت سے پہلے بھی کرسکتے ہیں، اور بیوی سے صحبت ہونے کے بعد بھی کرسکتے ہیں، اور یہ تیسرا طریقہ افضل وبہتر ہے،

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

قال:"الوليمة اول يوم حق، والثاني معروف، واليوم الثالث سمعة ورياء"، قال قتادة: وحدثني رجل: ان سعيد بن المسيب دعي اول يوم فاجاب، ودعي اليوم الثاني فاجاب، ودعي اليوم الثالث فلم يجب، وقال: اهل سمعة ورياء. (ابوداٶد، رقم : ۳۷۴۵)

ولا بأس بأن يدعو يومئذ من الغد وبعد الغد، ثم ينقطع العرس والوليمة، كذا في الظهيرية. (فتاوی ھندیہ ۳۴۳/۵)

ویجوز أن یؤلم بعد النکاح أوبعد الرخصۃ أو بعد أن یبنی بھاوالثالث ہوالأولیٰ۔ ( بذل المجہود، کتاب، جدید دارالبشائر الاسلامیہ بیروت۱۱/۴۷۱)

(فتاوی دارالعلوم زکریا ٦۳۲/۳)

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
۸/ذی الحجہ ١٤٤٥ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

15 Jun, 04:01


▫️ *_مرحومین کے نام سے قربانی کرنا_*

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
سوال :- کیا فرماتے ہیں اہل علم حضرات کہ کیا مرحومین کے نام سے بھی قربانی کرنا ( ضروری) ہوتی ہے؟

( المستفتی : مومن محمد طہٰ، نیاپورہ ،مالیگاؤں)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

مرحومین کے نام سے قربانی کرنا ضروری تو نہیں ہے ، لیکن کوٸی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اگر اللہ نے طاقت واستطاعت دی ہے تو کرنا چاھیۓ، اسکا ثواب انھیں پہنچتا ہے، حضور ﷺ سے ثابت ھیکہ انھوں نے اپنی امت کی طرف سے بکرا ذبح کیا ہے،(١) چنانچہ قربانی کے حصوں میں اگر کسی مرحوم کا نام بھی ڈالا جاۓ تو درست ہے، اس سے کسی کی قربانی میں کوٸی فرق نہیں پڑتا، اور اس حصہ کا گوشت بھی ہر کوٸی استعمال کرسکتا ہے،(٢)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح''۔ (در مختار ج ٦ ص ٣٢٦)

(٢) ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه". (فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳؍۳۵۲ )فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٤/ذیقعدہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

14 Jun, 14:24


▫️ *_بڑے جانور میں سات افراد کے شریک ہونے کا ثبوت _*

اَلسَلامُ عَلَيْكُم !!!
سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیان صاحبان کہ قربانی کے بڑے جانور میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں؟
وہ احادیث مع ترجمہ ارسال کیجئے،
جزاکم اللہ خیراً -

(المستفتی : مولانا صغیر احمد، جلگاؤں، مہاراشٹر)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جی ہاں ایک بڑے جانور یعنی گاۓ، بیل، بھینس، اونٹ میں سات لوگ شریک ہوسکتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : گاۓ سات لوگوں کی طرف سے ہے اور اونٹ سات لوگوں کی طرف سے،(١) امام شعبیؒ فرماتے ھیکہ میں نے حضورﷺ کے صحابہ کو اسی طرح پایا کہ وہ لوگ گاۓ اور اونٹ میں سات لوگوں کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے،(٢) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ھیکہ حدیبیہ کے موقع پر ھم نے حضورﷺ کے ساتھ قربانی کی، گاۓ میں سات اور اونٹ میں سات لوگ شریک تھے،(٣)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

‌‌‌‌‌‏(١) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‌‌‌‌‌‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‌‌‌‏ الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْجَزُورُ عَنْ سَبْعَةٍ، (ابوداٶد، رقم : ٢٨٠٨)

(٢) ونقل ابن حزم عن الشعبي قال: أدرکت أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہم متوافرون، کانوا یذبحون البقرۃ، والبعیر عن سبعۃ۔ (المحلي / کتاب الأضاحي ٦/٤٧)

عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال: نحرنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ، والبقرۃ عن سبعۃ۔ (سنن الترمذي / باب ما جاء في الاشتراک في الأضحیۃ ١/٢٧٦)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٧/ذی الحجہ ١٤٤٢ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

14 Jun, 10:12


▫️ *_دو لوگوں کا مل کر ایک حصّہ حضورﷺ کی طرف سے قربانی کرنا_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں شرع متین مسئلہ زیر گذارش کے بارے میں کہ دو شخص ہیں جنہوں نے ( دونوں نے مل کر) ایک بڑا جانور خریدا ہے اور ایک شخص نے تین حصے لئے اور دوسرے شخص نے تین حصے لئے اب بچا ایک حصہ تو دونوں اشخاص کی یہ نیت ہے کہ دونوں مل کر ایک حصہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے کرے، تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا یا نہیں؟
جواب عنایت کریں -

( المستفتی : حافظ محمد ارشاد، پرلی ،ضلع بیڑ)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جی ہاں صورت مسٸولہ میں دونوں افراد مل کر ایک حصہ حضورﷺ کے نام سے قربانی کرسکتے ہیں، دونوں کو مکمل ثواب ملے گا، (فتاوی قاسمیہ)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

وإن مات أحد السبعۃ المشترکین فی البدنۃ، وقال الورثۃ: اذبحوا عنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل۔ (الدر المختار، کتاب الأضحیۃ، کراچی ٦/٣٢٦)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٧/ذی الحجہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

13 Jun, 12:22


▫️ *_جانور کے ایک ہی حصے میں قربانی اور عقیقہ دونوں کی نیت کرنا_*

سوال :- کیا مسئلہ بیان کرتے ہیں علمائے اسلام کہ کیا قربانی کے جانور میں عقیقے کی نیت کر سکتے ہیں؟ مطلب ایک ہی حصے میں دونوں چیزیں ہوگی یعنی قربانی بھی اور عقیقہ بھی؟
بہتر ہوگا کہ مکمل حوالہ جات کے ساتھ فتویٰ ارسال فرمائے تاکہ امت تک پہنچایا جا سکے -
جزاک اللہ -

( المستفتی : محمد ارشد ، پوارواڑی ،مالیگاؤں ،)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

بڑے جانور کے سات حصوں میں سے کسی ایک ہی حصہ میں قربانی وعقیقہ دونوں کی نیت کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح ایک بکرا یابکری میں قربانی وعقیقہ دونوں کرنا درست نہیں ہے، ایک حصے میں یا تو قربانی کی نیت کی جاۓ یا عقیقہ کی،(١)

البتہ یہ درست ھیکہ بڑے جانور کے سات حصوں میں سے بعض حصے قربانی کے اور بعض حصے عقیقہ کے کۓ جاٸیں،(٢)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) "فَلَا يَجُوزُ الشَّاةُ وَالْمَعْزُ إلَّا عَنْ وَاحِدٍ وَإِنْ كَانَتْ عَظِيمَةً سَمِينَةً تُسَاوِي شَاتَيْنِ مِمَّا يَجُوزُ أَنْ يُضَحَّى بِهِمَا ؛ لِأَنَّ الْقِيَاسَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ أَنْ لَا يَجُوزَ فِيهِمَا الِاشْتِرَاكُ ؛ لِأَنَّ الْقُرْبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ إرَاقَةُ الدَّمِ وَأَنَّهَا لَا تَحْتَمِلُ التَّجْزِئَةَ ؛ لِأَنَّهَا ذَبْحٌ وَاحِدٌ وَإِنَّمَا عَرَفْنَا جَوَازَ ذَلِكَ بِالْخَبَرِ فَبَقِيَ الْأَمْرُ فِي الْغَنَمِ عَلَى أَصْلِ الْقِيَاسِ". (بداٸع الصناٸع، ج ١٠ ص ٢٧٨)

(٢) "وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد". (فتاوی شامی ٦/٣٢٦، کتاب الاضحیة، ط: سعید) فقط

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٥/ذی الحجہ ١٤٤٢ ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

13 Jun, 01:10


▫️ *_قربانی کے جانور میں حضورﷺ کا نام ڈالنا_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام قربانی کے جانور کے حصے میں کس حساب سے ڈال سکتے ہیں؟
اس تعلق سے رہنمائی فرمائیں -

( المستفتی : شیخ اظہر، اورنگ آباد ،مہاراشٹر )
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

اس مسٸلہ کو لیکر اکثریت ان حضرات کی ہے جو غلط فہمی کا شکار ہیں، وہ سمجھتے ھیکہ قربانی کے سات حصوں میں ایک نام حضور ﷺ کا ڈالنا ضروری ہی ہے خواہ گھر کا کوٸی واجب حصہ چھوٹ جاۓ،
اس مسٸلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ قربانی کے حصوں میں حضور ﷺ کے نام کا حصہ ڈالنا ضروری نہیں ہے، اگر حضور ﷺ کا نام نہ بھی ڈالا جاۓ تو قربانی ادا ہوجاتی ہے، سب سے پہلے تو جو واجب حصے ہیں ان کے نام ڈالے جاٸیں، اگر حصے بچ جاٸیں تو حضور ﷺ کا نام بھی ڈال دیں، کیوں کہ اگر واجب چھوٹ جاۓ تو بندہ گناہ گار ہوگا،

ہاں اگر اللہ نے وسعت دی ہے یا حصہ بچا رھتا ہے تو ضرور حضورﷺ کے نام سے قربانی ادا کرنی چاھیۓ، یہ باعث ثواب اور حصول برکت کا ذریعہ ہے، امت پر تاجدار کونین ﷺ کے بے پناہ احسانات ہیں، مزید یہ کہ خود حضور ﷺ امت کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے، تو ھمیں بھی چاھیۓ کہ ھم اس موقع پر حضور کو نہ بھولیں، نیز قربانی میں حضور ﷺ کا حصہ بطور نفل کے ہوگا،

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

عن عائشة أن رسول الله صلی الله علیه وسلم أمربکبش أقرن یطأ في سواد ویبرک في سواد وینظر في سواد، فأتي به لیضحي به، قال: یا عائشة هلمي المدیة! ثم قال: اشحذیها بحجر، ففعلت، ثم أخذها وأخذ الکبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ»، ثم ضحی به۔ (مشکاة المصابيح، باب في الأضحية، الفصل الأول، ص:١٢٧)

عن حنش قال: رأیت علیاً یضحي بکبشین، فقلت له: ماهذا؟ فقال: إن رسول الله صلی الله علیه وسلم أوصاني أن أضحي عنه، فأنا أضحي عنه. (مشكاة المصابيح، باب في الأضحية، الفصل الثاني، ص:١٢٨)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٢٨/ذی قعدہ ١٤٤٣ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

11 Jun, 13:01


▫️ *_جرسی جانور کی قربانی کا حکم_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ جرسی گائے بیل کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہےقربانی کے سلسلے میں بھی اور عام دنوں کے کھانے میں بھی؟

(المستفتی : مولانا محمد اشفاق صاحب اشاعتی، پالدھی، جلگاوں)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

جرسی گاۓ یا بیل حلال جانور ہے، شرعا اس کے کھانے اور دودھ کے استعمال کرنے میں کوٸی قباحت نہیں ہے،(١)

نیز جرسی جانور کی قربانی بھی درست ہے، تاھم علماء فرماتے ھیکہ جرسی گائے وبیل کی پیدائش فطری طریقہ یعنی نر ومادہ کے اختلاط سے نہیں ہوتی، مگر چونکہ ان کی ولادت گائے ہی سے ہوتی ہے، اس لۓ ان کا کھانا حلال ہے، اور ان کی قربانی کرنا بھی جائز ہے، البتہ قربانی ایک عظیم عبادت ہے، اور اس کے لۓ جب غیر مشتبہ جانور بآسانی دستیاب ہوسکتے ہوں، تو اس قسم کے مشتبہ جانور کی قربانی سے بچنا بہتر واولیٰ ہے،(المساٸل المہمہ)(٢)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) واعلم أن الأصل في الأشیاء کلہا سوی الفروج الإباحۃ…إنما تثبت الحرمۃ بعارض نص مطلق، أو خبر مروي، فما لم یوجد شیئ من الدلائل المحرمۃ، فہي علی الإباحۃ۔ (مجمع الأنہر، کتاب الأشربہ، ٤/٢٤٤)

(٢) فإن کان متولداً من الوحشي والأنسي فالعبرۃ للأم ، حتی لو کانت البقرۃ وحشیۃ والثور أہلیاً لم تجز ، وقیل إذا نزا ظبي علی شاۃ أہلیۃ فإن ولدت شاۃ تجوز التضحیۃ وإن ولدت ظبیاً لا تجوز ، (ھندیہ ۵/۲۹۷)

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٦/ ذی الحجہ١٤٤٣ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

11 Jun, 07:39


▫️ *_کانوں میں بِلّا پہنے ہوۓ جانور کی قربانی_*

سوال '- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ھذا کے کہ
جانور کا کان چھید (سوراخ ) کرکے کان میں نمبر کا ِبلّا لگا ہے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہوگی یا نہیں ؟ نیز مارکیٹ میں زیادہ تر ایسے ہی جانور فروخت ہو رہے ہیں،

(المستفتی : یاسین پارس، شہر مالیگاؤں،)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

کانوں میں سوراخ کرکے بلّا پہنے ہوۓ جانور کی قربانی درست ہے، جانور کے کان میں سوراخ کرنے سے قربانی پر کوٸی اثر نہیں ہوگا، کان کا تہاٸی حصہ سے زاٸد کٹا ہونا قربانی کو مانع ہے،

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

وفی الجامع: أنہ إذا کان ذہب الثلث أو أقل جاز وإن کان أکثر لایجوز، والصحیح: أن الثلث و مادونہ قلیل وما زاد علیہ کثیر و علیہ الفتویٰ کذا فی فتاویٰ قاضیخان۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب الخامس، جدید زکریا۵/۳۴۴)

وقال الفقیہ أبو اللیث رحمہ اللہ تعالیٰ إن کانت الأضحیۃ مقطوعۃ الأذن الواحدۃ أکثر من الثلث لایجوز فی قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ (خانیہ جدید زکریا ۳/۲۴۸، وعلی ہامش الہندیۃ زکریا ۳/۳۵۲)فقط،

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٣/ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM

📚 دارُالاِفــــــتاء والاِرشــــــاد 📚

10 Jun, 13:16


▫️ *_مُخنّث جانور کی قربانی کا حکم_*

سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ھذا کے متعلق کہ جو بکرا مخنث ہو کیا اس کی قربانی درست ہے؟ اسی طرح وہ حلال ہے یا حرام؟ اگر حلال ہے تو کیا اس کی کمائی حلال ہوگی یا حرام ؟ عموما کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟ لوگ اس کی کمائی کو حرام سمجھتے ہیں؟ محقق بات کیا ہے؟ سارے جوابات دیں، عین نوازش ہوگی،

( المستفتی : مولانا محمد اشفاق صاحب اشاعتی، پالدھی، جلگاوں،)
*________*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وبااللہ التوفیق

مخنث جانور وہ ہے جس کا نر ومادہ ہونا معلوم نہ ہو، اس میں دونوں علامتیں پاٸی جاتی ہوں، یا پھر دونوں علامتیں موجود نہ ہو،(١) ایسے جانور کی خرید وفروخت اور اس کی کماٸی اور کھانا سب حلال ہے،
البتہ ایسے جانور کی قربانی کرنا جاٸز نہیں ہوگا،(٢)

📚 والحجة علی ما قلنا 📚

(١) وہو ذو فرج و ذکر أو من عري عن الاثنین جمیعاً (درمختار، کتاب الخنثی ، أشرفي دیوبند، ۱۰/۳٦٩)

(٢) لاتجوز التضحیۃ بالشاۃ الخنثیٰ۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب، زکریا قدیم ۵/۲۹۹، جدید ۵/ ۳۴۵)

لاتجوز التضحیۃ بالشاۃ الخنثیٰ لأن لحمہا لاینضج وتحتہ فی الحاشیۃ: وبہذا التعلیل اندفع ما أوردہ ابن وہبان من أنہا لا تخلوا إما أن تکون ذکرا أو أنثیٰ وعلی کل تجوز۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، زکریا قدیم ۵/۲۹۹)

واللہ اعلم باالصواب
احتشام حسین غفرلہ
٨/ذی الحجہ ١٤٤٣ھ

*🤳 رابطہ برائے اِفتاء= 9881642902*
*°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°*
جوائن ٹیلی گرام چینل 📲 🌐
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM