علم و کتاب @ilmokitab Channel on Telegram

علم و کتاب

@ilmokitab


علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل
اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

علم و کتاب (Urdu)

علم و کتاب ٹیلیگرام چینل ایک جگہ ہے جہاں آپ علمی اور ادبی مواد کتابوں اور صوتیات سے متعلقہ مواد پا سکتے ہیں۔ یہ چینل آپکو مختلف موضوعات، تجزیات اور نقل نگرانی کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ اگر آپ علمی تحقیقات پسند ہیں یا ادبی کاموں کا شوق رکھتے ہیں تو یہ چینل آپکے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔nnilmokitab ٹیلیگرام چینل میں ہزاروں کتب اور مواد شامل ہیں جو مختلف زبانوں میں دستیاب ہیں۔ اس چینل کو جوائن کرنے کے لیے آپ بس ہمارے لنک پر کلک کریں: https://telegram.me/muniri اور علم اور ادب کی دنیا میں سفر شروع کریں۔

علم و کتاب

14 Jan, 05:33


گزشتہ سال لکھنؤ کے سفر کے دوران میں نے ان سے ملنا چاہا تو وہ رائے بریلی میں تھے۔رائے بریلی اترپردیش کی ایک روحانی بستی ہے، جہاں 1952 میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی اور اسی دور میں اپنے والد کے ساتھ کلکتہ چلے گئے۔ انھوں نے ابتداء مشاعروں کی نظامت سے کی اور ان کی نظامت میں فیض اور فراق جیسے شاعروں نے بھی کلام پڑھا۔ والی آسی نے ان پر محنت کی۔ انھوں نے تقریبا نصف زندگی لکھنو میں گزاری اور اپنی وہی قلندرانہ شان برقرار رکھی۔
چمک ایسے نہیں آتی ہے خودداری کے چہرے پر
انا کو ہم نے دودو وقت کا فاقہ کرایا ہے
منور رانا کی بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اپنی تمام تر مقبولیت اور ہردلعزیزی کے باوجود کبھی نرگسیت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔انھوں نے کبھی اپنی گردن بھی ٹیڑھی نہیں کی۔ ان کے پاؤں ہمیشہ زمین پر رہے۔ان کے مزاج کا قلندرانہ پہلو انھیں صراط مستقیم پر رکھنے میں کامیاب ہوا۔منور رانا کو ملک زادہ کی طرح شاعری کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی عبور حاصل تھا۔وہ ایک کامیاب انشاء پرداز تھے اور ان کے کئی نثری مجموعے شائع ہوئے۔ان کے خاکے اور انشائیے بھی ان کے شعروں جیسا لطف عطاکرتے ہیں۔ ان کی نثر میں بلا کی ندرت، شگفتگی اور برجستگی ہے۔ناقدین ادب ان کی شاعری سے زیادہ ان کی نثر کو اہمیت دیتے ہیں۔
منور رانا اردو کے علاوہ ہندی میں بھی مقبول تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کی کتاب ”ماں‘‘ ہندی میں شائع ہوئی تو اس کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔یہی حال ان کی طویل نظم ”مہاجر نامہ“ کی مقبولیت کا بھی تھا۔ہجرت کے موضوع پر یہ نظم پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے اور پاکستا ن ہجرت کرنے والوں کے کرب کو بہترین پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ ایک موضوع پر اردو شاعری میں شاید ہی کسی نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔اس رزمیہ نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑآئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں
ہنسی آتی ہے خود اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں
مہاجر کہہ کے دنیا اس لیے ہم کو ستاتی ہے
کہ ہم آتے ہوئے قبروں میں شجرہ چھوڑ آئے ہیں
سیاست کے بنے ایک جال میں ہم پھنس گئے آخر
اگر ہم شاہ تھے تو کیوں رعایا چھوڑ آئے ہیں
’مہاجر نامہ‘ اردو دنیا میں پہلا تجربہ تھا، جسے منور رانا نے بڑی مہارت سے انجام دیا۔یہ ان کے تخیل کی ایسی اپج ہے، جس سے ان کے تخلیقی وفور کا پتہ چلتا ہے۔یہ انسانی دکھوں کی معراج ہے اور ایسا المیہ ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔”مہاجر نامہ“ ایک ایسا ادبی کارنامہ ہے جسے اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
منور رانا کے چلے جانے سے اردو شاعری کا جہاں اداس ہے۔ اب ان کے پائے کے دوچار شاعر بھی باقی نہیں ہیں۔ یہ اردو شاعری کا ہی نہیں خود ہماری تہذیب کا بھی المیہ۔ منور رانا کا جانا ہم سب کا غم ہے۔ انھوں نے بہت پہلے یعنی اپنی حقیقی موت سے بھی پہلے زمین کی خوراک ہوجانے کا سراغ دیا تھا۔ دو اشعار ملاحظہ ہوں
جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہوجائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہوجائیں گے ہم
مٹی کا بدن کردیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

14 Jan, 05:33


منور رانا کی پہلی برسی

معصوم مرادآبادی

https://telegram.me/ilmokitab

آج مشہور و مقبول شاعر منوررانا کی پہلی برسی ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال 14 جنوری 2024 کو لکھنؤ میں وفات پائی ۔ان کے انتقال سے دنیائے شعروادب میں غم کا ماحول تھا۔جس کو بھی یہ خبر ملی وہ اداس ہوگیا اور ہر زبان پر ان کے اشعار رواں ہونے لگے۔وہ کافی دنوں سے بیمار تھے اور مختلف عارضوں نے انھیں گھیر رکھاتھا، لیکن جس بیماری نے ان کی جان لی، وہ ان کے گلے کو لاحق تھی۔ وہی گلا جس کے بل پر وہ برسوں اردو شاعری کے لاکھوں مداحوں کا دل جیتتے رہے۔یہ موذی مرض سرطان تھا، جس نے انھیں بہت مضمحل کرکے رکھا۔ منور رانا عہد حاضرکے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک تھے۔ ان کی موجودگی کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ان کے اشعار میں ایسا جادو تھا کہ لوگ ان کی طرف کھنچتے چلے جاتے تھے۔ وہ ڈوب کر شعر کہتے تھے اور اسی انداز میں پڑھتے بھی تھے۔ الفاظ کا زیروبم ان کے لہجے سے بھی عیاں تھا۔منور رانا نے برسوں مشاعروں میں اپنا سکہ چلایااور اس معاملے میں کوئی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔انھوں نے اپنی طرز اور لب ولہجہ خودہی ایجاد کیا تھا۔ان کا انداز قلندرانہ تھا اور وہ اسے ہی اپنی سب سے بڑی دولت بھی سمجھتے تھے۔بقول خود
بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا
آپ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا
وہ جن پریشان کن امراض کا شکار تھے، ان میں ایک گھٹنے کی تکلیف بھی تھی۔ کئی بار ان کے گھٹنے کی سرجری ہوئی۔ میں نے ایک بار بالمشافہ ملاقات میں ان سے گھٹنے کا حال پوچھا توکہنے لگے ”بھائی ایمس والے کئی بار میرا گھٹناکھول چکے ہیں۔ اس بار میں نے ان سے کہا ہے کہ اس میں ایک زپ لگادیں تاکہ انھیں آسانی رہے۔“
ان کے گھٹنے کی سرجری ماہر ڈاکٹروں نے کی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس معذوری کے باوجود انھوں نے مشاعروں کی دنیا آباد رکھی۔ وہ سیاہ رنگ کا مخصوص چوغہ پہن کر مشاعروں میں آتے تھے۔کچھ مشاعرے تو ایسے تھے کہ ان کی شرکت کے بغیر ان کا تصور ہی نہیں تھا۔ ڈی سی ایم کا مشاعرہ بھی ان ہی میں سے ایک تھا،جس میں گزشتہ سال انھوں نے بیماری اور معذوری کے باجود وہیل چیئر پر شرکت کی تھی۔ یہ ان کا آخری مشاعرہ تھا۔
ڈی سی ایم کے مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری ہمیشہ ملک زادہ منظوراحمدکے کاندھوں پر ہوتی تھی اور وہ اپنے الفاظ کی گھن گرج سے اس مشاعرے میں سماں باندھ دیتے تھے۔ملک زادہ کے بعد لکھنؤ میں منور رانا نے ہی اردو شاعری کی سلطنت کوسنبھال رکھا تھا۔ لکھنؤ میں یہ ایک مثلث تھا، والی آسی،ملک زادہ منظوراحمداور منوررانا۔منور رانا، والی آسی کے چہیتے شاگرد تھے اور انھوں نے ہی انھیں مشاعروں میں متعارف بھی کرایا تھا۔ پہلے والی آسی گئے،پھر ملک زادہ نے رخت سفر باندھا اور اب منوررانا بھی چل دئیے۔ان تینوں کی لکھنؤ میں جتنی گاڑھی چھنتی تھی، اتنی شاید ہی کسی کی چھنتی ہو۔تینوں ایک دوسرے کے قدردان تھے۔ عام طورپر شاعروں میں ایسی یگانگت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ملک زادہ نے اپنی تصنیف ”شہرادب“ میں منور رانا کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے
”معصومیت، سادگی، بھولا پن، بے ریائی، خلوص ایسے عناصر ہیں جو کہ منوررانا کی شاعری میں رچے بسے ہیں۔منور رانا گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت کو قدروں کی بربادی کا پیش خیمہ اور شہروں سے گاؤں کی طرف مراجعت کو قدروں کی بازیافت کا وسیلہ تصور کرتے ہیں۔“
منور رانا کی شعری کائنات بڑی وسیع اور دل پذیر ہے۔وہ ایک زندہ دل انسان تھے۔ آپ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر بے تکلف گفتگو کرسکتے تھے۔ انھوں نے ہر موضوع پر شعر کہے ہیں، لیکن’ماں‘ کا موضوع ایسا ہے جسے انھوں نے اردو شاعری میں امر کردیا۔ وہ اردو غزل جو ہمیشہ سے محبوب کی زلفوں کی اسیر رہی ہے، اسے انھوں نے ماں کی محبت اور ممتا پر نچھاور کردیا۔کچھ لوگوں نے اس پر اعترا ض بھی کیا، لیکن وہ ’ماں‘ پرشعر کہتے رہے اور ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹے رہے۔
جب بھی کشتی میری سیلاب میں آجاتی ہے
ماں دعا کرتی ہے اور خواب میں آجاتی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھودیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں لگتی
منور رانا جب مشاعرے میں ماں کے موضوع پر شعر سناتے تھے تو سامعین کی آنکھوں میں نمی ہوتی تھی۔ یہی ان کی شاعری کا کمال تھا۔ادھر کچھ عرصے سے بعض تنازعات نے انھیں گھیر رکھا تھا۔ان میں کچھ خاندانی تنازعات تھے اور کچھ سیاسی۔اس کے ساتھ صحت کے مسائل بھی تھے جو دن بدن سنگین ہوتے چلے جارہے تھے۔مگروہ دیوانہ وار ان سب کا مقابلہ کرتے رہے۔انھوں نے حالات کی ستم گری سے شاکی ہوکر 2015میں اپنا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں لیں گے۔ انھوں نے ایسا کیا بھی۔ حکومت نے ان پر شکنجہ کسنے کی بھی کوشش کی، لیکن وہ میدان میں ڈٹے رہے اور صحت وسیاست دونوں کے مسائل سے جوجھتے رہے۔ کبھی کبھی فون کرتا تو دل کا حال بیان کرتے۔

علم و کتاب

13 Jan, 19:28


وفیات مورخہ: ۱۴/جنوری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
احمد علی، پروفیسر 14/جنوری/1994ء
چودھری چرن سنگھ 14/جنوری/1980ء
حیدر مچھلی شہری(سید محمد حیدر مہدی) 14/جنوری/1960ء
ظفر علی معلم 14/جنوری/2011ء
عاشق کیرانوی، پیرزادہ (سراج الحسن عثمانی) 14/جنوری/2015ء
عبدالرحیم ناگوری، پروفیسر 14/جنوری/2011ء
عبید اللہ ٹونکی، حافظ 14/جنوری/1987ء
عزیز امروہوی (سید محمد یوسف نقوی) 14/جنوری/1982ء
علی محسن صدیقی، پروفیسر 14/جنوری/2002ء
سید محمد حیدرمہدی 14/جنوری/1960ء
محمد ناصر الدین شیخ 14/جنوری/1991ء
منور رانا 14/جنوری/2024ء

علم و کتاب

13 Jan, 19:01


یہ کون لوگ ہیں؟

معصوم مرادآبادی

https://telegram.me/ilmokitab

میں حرم مکی کے ایک داخلی دروازے پر کھڑے ہوکر یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں۔ عصر کی نماز کے لئے حرم سے اذان بلند ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے ، مگر نمازیوں کے قافلے حرم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں ہر نماز سے پہلے یہی روحانی منظر ہوتا ہے۔ بیشتر لوگ تو اگلی نماز کے انتظار میں حرم کے اندر رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ جو نئے لوگ اس قافلے میں شامل ہورہے ہیں، ان میں
کسی کے ہاتھ میں جانماز ہے تو کسی کے ہاتھ میں کرسی۔ ان میں بیشتر لوگ احرام کی دو چادروں میں ملبوس ہیں اور انھیں اپنی منزل کی تلاش سب سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ، اپنی آسائشیں ترک کرکے اور اپنوں پرایوں سے دعاؤں کی درخواستیں قبول کرکے یہاں آئے ہیں۔ یہاں دعائیں سب سے زیادہ قبولیت حاصل کرتی ہیں۔ حفیظ جالندھری کے لفظوں میں:
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
یہاں پہنچنے والوں کی نظریں جب اچانک خانہ کعبہ پر پڑتی ہیں تو ان کے ہاتھ خود بخود دعا میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ان کی خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ الفاظ انسانی محسوسات کو بیان کرنے کا سب سے ناقص وسیلہ ہیں۔
گوشت پوسٹ سے بنے ہوئے انسان جب اپنے مالک حقیقی کے گھر کے روبرو ہوتے ہیں تو دنیا ان کے سامنے کتنی چھوٹی اور حقیر ہوجاتی ہے، اس کا اندازہ یہاں کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوسکتا۔ احرام میں ملبوس ایک نحیف و ناتواں اور ٹانگوں سے محروم شخص اپنی خودکار وہیل چیئر کے ساتھ حرم میں داخل ہونے کی کوشش میں جان ہارتا ہوا محسوس ہوتا ہے ، لیکن اس کے غیرمعمولی جوش و جذبہ اور چہرے کی چمک دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں معذوری اور مجبوری کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ ہاں اگر کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو وہ ہے ایمان کی قوت جو بڑی سے بڑی معذوری اور مجبوری کو شکست دے سکتی ہے۔
(جاری )
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

13 Jan, 02:10


مدارس کے معیار تعلیم پر نصاب کی مشکل کتابوں کے اثرات

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
12 رجب 1446ھ 13 جنوری 2025ء

ہمارے مدارس میں معیارِ تعلیم حد درجہ پست ہے، مشکل عبارتوں کے حل تک رسائی تو بہت بڑی بات ہوگئی، عبارت خوانی پر بھی قادر نہیں، مدارس میں امتحان کی نسبت سے آمد ورفت رکھنے والے اس واشگاف راز کے محرم ہیں، ناچیز نے بھی یہ زخم دیکھے ہیں، اس کے علاوہ ایک معروف ادارے میں دارالافتاء کے داخلے کے لیے نیابۃً سالہا سال فضلاء کے انٹرویو لیے، عبارت خوانی اور ترجمے ہی میں سمٹ جاتے تھے، یہ حال نامور مدارس کے فارغین کا ہے، ایک ادارے میں ختم بخاری مجلس کے لیے جماعت کے ممتاز طالب علم کو آخری صفحے کی عبارت پڑھنے کے لیے تیاری کرائی گئی، پھر احتیاط کے طور پر زبر زیر بھی لگا دیے گئے، دارالعلوم دیوبند کے داخلہ امتحان میں شامل طلبہ نما ہجوم کی کاپیاں ابن الجوزی کی معروف کتاب أخبار الحمقی والمغفلین کی آئندہ دسیوں جلدوں کا مواد ہیں۔

گو کہ میری عمر پینتالیس سال ہے؛ مگر اس میں بائیس تئیس سال تدریس کے ہیں، دو سال معین مدرس تھا، چھ سال بنگلور میں پڑھایا اور کم وبیش پندرہ سال دارالعلوم کی برکاتِ تدریس سے نہال ہوا، اس دوران مختلف مراحل کی کتابیں زیرِ تدریس آئیں، علوم عالیہ وآلیہ دونوں سے تعلق رہا؛ لیکن میں کسی بھی موڑ پر اس تاثر سے آزاد نہیں ہو سکا کہ ہمارا نصاب، کتابیں اور مضامین عام طلبہ کے سنی شعور، علمی ارتقا، فکری تدریج، ذہنی نشوونما اور دماغی ترقی سے ہم آہنگ نہیں ہے، نصاب کئی کئی سال آگے چلتا ہے، بچے پیچھے رہتے ہیں اور پھر پیچھے ہی رہ جاتے ہیں، جھونکے کی طرح برابر سے گذر جانے والے نصاب کے ساتھ معدودے چند ذہین ترین طلبہ ہی ہم دوشی کر پاتے ہیں، پھر تکرار کلچر فروغ پاتا ہے، اردو شروحات اور نوٹ وجود پذیر ہوتے ہیں اور ترقی پاتے ہیں۔

ہمیں کنز الدقائق نگینے میں حضرت مولانا اسلام صاحب نے پڑھائی، بارہ تیرہ ساتھیوں کے درمیان وہ مسئلۃ البئر جحط بس مجھے پڑھا کر چلے گئے، باقیوں کے لیے وہ جناتی کلام تھا، یہی حال شرح جامی کا رہا اور دل چسپ تو مرقات کی روئداد ہے، متعلق استاذ ضعیف الاستعداد تھے، آخری درجے کی کوشش کے بعد وہ طلبہ سے فیڈ بیک لیتے اور مایوس ہوتے، انجام کار میں کہتا کہ حضرت مجھے سمجھ میں آگیا، آصف بھائی الجھتے تو میں کہنی مارتا کہ اردو شرح دیکھ کر شام کو میں سمجھا دوں گا، اس ضمانت پر مفاہمت ہوتی، انھوں نے بتایا کہ ان کے استاذ مرقات کی اردو شرح دیکھ کر پڑھاتے تھے اور ان کے بھی استاذ تھے، جو اردو شرح ایک طالب علم کو دے کر کہتے کہ سب کو پڑھ کر سنادو، چلو آپ کسی بھی ادارے میں سال دوم کے طلبہ کا مرقات ہی کا جائزہ لے لو، نصاب کتنے سال آگے ہے، واضح ہو جائے گا، شرح تہذیب وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا!

یہ باتیں صرف کہنے کی مد میں ہیں کہ عربی اول کا امیدوار فلاں اور فلاں زبانیں پڑھ کر آتا ہے، پرائمری پاس کر کے آتا ہے، وغیرہ وغیرہ، حقیقت میں وہ حفظ کے بعد اول کی تیاری کرتا ہے اور راست عالمیت کی ٹرین پکڑ لیتا ہے، جہاں علوم وفنون کی دشوار گزار گھاٹیاں اس سے ابتدائی کمزوریوں یا درست تعبیر میں محرومیوں کا خراج وصول کرتی ہیں، سچائی یہ ہے کہ سال اول کے طلبہ کی صورت میں آپ کو لوحِ بے نقش ملی ہے، اس میں خاکہ سازی کا عمل بالکل آغاز سے کرنا ہے؛ لہذا ابتدائی سالوں میں صرف زبانیں پڑھائی جائیں، عربی بطور خاص، ساتھ میں اردو، فارسی اور انگریزی بھی، ان سالوں میں علوم وفنون کا بار بالکل نہ ڈالا جائے، عربی میں پختگی، درک، لکھنے، پڑھنے، سمجھنے اور بولنے میں مہارت کے بغیر علوم وفنون متعارف نہ کرائے جائیں، عربی دسترس سے علوم عالیہ میں کلیدی تعاون ملے گا اور رائج زبانوں کی مہارت سے خدمت دین کا دائرہ وسیع ہوگا، عصری تعلیم کا رجحان رکھنے والوں کو اعتماد اور سہارا ملے گا۔

فی زمانہ تعلیم کے پچاس فی صد معانی میں تنہا لسانیات ہے، باقی پچاس فی صد میں سائنس، اقتصاد، آئی ٹی، انجینئرنگ، میڈیکل، آرٹ اور دنیا بھر کے تمام علوم آتے ہیں، مدرسہ ایجوکیشن میں یہ تناسب تبدیل نہیں ہوتا؛ بل کہ افزود نکلے تو بھی عجب نہیں کہ مذہبیات میں بیان اور قوت بیان شاہ کلید ہے، چناں چہ انبیاء کرام معجز بیان اور سحر اللسان ہوے ہیں، آپ ان بچوں کو متواتر تین چار سال مذکورہ زبانیں سکھائیں، اس میں مقامی زبان کا اضافہ بھی کریں، اس دوران کسی بھی علم وفن کا بار ان پر نہ ڈالیں، صرف ونحو مستثنی ہیں کہ عربی زبان کے لیے ناگزیر ہیں، یہ عالم، فاضل، علامہ، محقق، مصنف اور مختلف الجہات خادمِ دین کا خمیر تیار ہو گیا۔

آئندہ سالوں کے لیے علوم وفنون کے قدیم مصادر کو سامنے رکھ کر نئی کتابیں تیار کی جائیں، جو سادہ، آسان، مختصر، جامع اور مکمل ہوں، سب کے لیے قابلِ فہم ہوں، عبارت سے مضمون واضح ہو، ایسی دقیق عبارتیں پڑھانا جو دس فی صد طلبہ کی گرفت میں آئیں اور نوے فی صد طلبہ سے آنکھ مچولی کھیل جائیں، معقول نہیں، اس پر دارالعلوم کی

علم و کتاب

13 Jan, 02:10


مثال نہ دی جائے کہ طلبہ دارالعلوم اُسی دس فی صد ذہین اکائی کے نمائندے ہیں، باقی مدارس پر رحم کھاؤ جو چھٹائی میں رہ جانے والے طلبہ کو سنبھالتے ہیں، وہ کس طرح ان دقیق باتوں کو نبھائیں گے؟ ہمیں انکار نہیں کہ اسی نصاب سے فلاں اور فلاں علامہ پیدا ہوے، وہ علامہ بیش بہا سہی؛ مگر زید وعمر کی قیمت پر ہر گز نہیں، زید وعمر کی زندگیاں بھی اہم ہیں، وہ آٹھ سال لگا کر کورے واپس ہوں یہ ہمارے نظام کے لیے ننگ اور کلنک ہے۔

اس بات کو مان لو کہ یہ نصابِ تخصص ہے، اسی لیے اس کے شکم سے اکابر پیدا ہوے، وہ غیر معمولی طور پر ذہین تھے، اس سے بھی زیادہ عسیر الفہم نصاب ان کے لیے سہل تھا، ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم متوسط اور ادنی ذہن کو بھی اسی تخصص کا پابند بنائے ہوے ہیں، جب کتاب سمجھ میں نہیں آتی تو طلبہ راہ بدل لیتے ہیں، یا والدین کے جبر پر بے مقصد رواں دواں رہتے ہیں، یا تو آپ مدارس کا دائرہ تنگ کریں اور چنیدہ بچوں کو قرآن وسنت کا ماہر بنائیں، عملا یہ ممکن نہیں، فقط ذہین بچے کیسے فراہم ہوں گے؟ یا پھر مدرسہ شائقین کے لیے عام فہم نصاب بنائیں، ان کو دورۂ حدیث سے گزار کر عالم اور مولوی کی سند عطا کر دیں۔

یہ انبوہِ عام، دین کی بیشتر خدمات کے لیے پورے طور پر اہل ہوگا، ہاں یہ محقق، متخصص، مصنف اور علامہ نہیں ہوگا، اس کے لیے آپ ممتاز فارغین کو روکیں اور دو سالہ تخصصات کا نظم کریں، ان کو خود کفیل بنانے والے وظائف بھی دیں، ان شعبوں میں ضرور وہ قدیم کتابیں پڑھائیں جن کو مشکل اور مغلق کہا جا رہا ہے، دقیق مضامین دنیا کے ہر نظام تعلیم کا حصہ ہیں؛ مگر مرحلۂ تخصص میں، تعلیم کے عام مرحلے میں نہایت سادہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، ان متخصصین کو اسلامک گریجویشن کی سند دی جائے، یہ منتخب فضلا حاملین علم ہوں گے، غلو شعاروں کی تحریف، باطل پرستوں کی دروغ گوئی اور جہلا کی تاویلات پر قد غن لگانے اور قرآن وسنت کہ نگہبانی کے منصب کو زینت بخشنے والے۔

قرآن وسنت کے ماہرین یعنی خواص الخواص اس تعداد میں مطلوب بھی نہیں ہیں جو مدارس میں سالانہ تیار ہو رہی ہے، خود قرآن میں اس طرف اشارہ ہے، ایک تو طائفۃ کا لفظ تقلیل کا مفہوم رکھتا ہے، اوپر سے تنوین آگئی، تو فنا فی العلم تعداد میں کم ہی ہوں گے، بڑے شہروں کے لیے چالیس سے پچاس، متوسط آبادیوں کے لیے بیس پچیس اور قصبوں کے لیے پندرہ بیس مفتیان اور متخصصین کافی ہیں، خواص کی تراش خراش جداگانہ ہو، عام سبیل کو دشوار گزار نہ بنائیں، ایک ہیرے کی تلاش میں تمام راہگیروں سے بیگار نہ لی جائے۔

علم و کتاب

12 Jan, 19:03


شیخ الحدیث علامہ عثمان غنی ؒ (وفات ۱۳ جنوری) تحریر: مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری https://archive.org/download/allamah-usman-ghani-by-sajid-khujawari/Allamah%20Usman%20Ghani%20By%20Sajid%20Khujawari.pdf

علم و کتاب

12 Jan, 08:42


انجمن کے بارے میں

انجمن ترقی اردو (ہند) اردو زبان و ادب کا سب سے قدیم،خودمختار اور ایک قوم پرست لسانی اور ادبی ادارہ ہے جو اس زبان اور اس کے ادب کے عظیم الشان ثقافتی ورثے کومحفوظ رکھنے اور فروغ دینے کے لیے گذشتہ 143 برسوں سے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ انجمن کے اہم مقاصد میں اردو تعلیم کا فروغ، اس کے حقوق کا تحفظ اور ادبِ عالیہ کا تعین (Canonisation) نیز اردو اقدار والے معاشرے کا قیام شامل ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے انجمن اردو کے تہذیبی و علمی ورثے کو محفوظ رکھنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے جس کے لیے وقتاً فوقتاً ادبی تقریبات، ورکشوپس اور سمیناروں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اردو زبان اور اس کی ثقافت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک بہترپلیٹ فورم فراہم ہوسکے۔
تاریخ کے جھروکے سے:
انجمن ترقی اردو (ہند)، جو عوام الناس میں اردو گھر کے نام سے معروف ہے، ہندستان کا سب سے قدیم لسانی و ادبی ادارہ ہے۔ ’اردو گھر‘ دراصل نئی دہلی کے راؤز ایونیو علاقے (آئی ٹی او) پر انجمن کے مرکزی دفتر کی عمارت کا نام ہے۔ یہ نام گاندھی جی نے تجویز کیا تھا۔
انجمن کا قیام 1882 میں سرسیّد احمد خاں نے اردو ہندی تنازعے کی بھڑکتی ہوئی آگ کو فرو کرنے کی خاطر اس مقصد سے کیا تھا کہ ایک زبان اور اس کے مشترکہ ثقافتی ورثے کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے۔ 1903 میں اس کا نام تبدیل کر کے ’انجمن ترقی اردو‘ کردیا گیا، اور اس کی قیادت ممتاز مصنف اور مستشرق علامہ شبلی نعمانی کے سپرد ہوئی جن کا انتخاب سکریٹری کے طور پر ہوا اور ان کے عزیز شاگرد مولانا ابوالکلام آزاد کو اسسٹنٹ سکریٹری بنایا گیا۔ اردو کے ادارے کے اس قوم پرست خلقیے کی تعمیر میں مہاتما گاندھی،پنڈت جواہر لال نہرو،امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین اور سی راجا گوپال چاری جیسے متعدد قومی رہنماؤں نے اہم رول ادا کیا۔
آزادی کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین، صدرِ انجمن کی قیادت میں انجمن ترقی اردو (ہند) نے ایک تحریک کے ذریعے مرکزی اور ریاستی اردو اکیڈمیوں اور یونی ورسٹیوں میں اردو کی تدریس اور دیگر اداروں کے قیام کے لیے اقدام کیے۔ اس کے بعد انجمن نے صوبائی اردو اکادمیوں کے قیام کی طرف توجہ کی اور سب سے پہلے 1971 میں اترپردیش اردو اکادمی اور پھر دیگر صوبائی اردو اکادمیاں قائم ہوئیں۔ قومی کونسل براے فروغِ اُردو زبان (NCPUL) اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی جیسے اہم ادارے بھی انجمن کی اسی ملک گیر اردو تحریک کا نتیجہ ہیں۔ آئینِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں اردو کی شمولیت بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی مرہونِ منت ہے جنھوں نے مجلسِ آئین کے رکن کے طور پر اردو کے آئینی تحفظ کو یقینی بنایا۔ آج جن صوبوں میں بھی اردو دوسری سرکاری زبان ہے، وہاں یہ کام بھی انجمن ہی کی تحریک کے نتیجے میں ہی ممکن ہوسکا۔
آزادی کے بعد انجمن نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں اردو زبان و ادب کے ہمہ جہتی فروغ کے ساتھ ملک گیر سطح پر ایک منفرد لسانی تحریک کی قیادت بھی کی۔ اس تحریک کا مقصد اردو کو آئین کے آٹھویں جدول میں شامل قومی زبان کے حقوق کی عملاً بحالی تھا، جس کے لیے ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں 1951 میں ساڑھے بائیس لاکھ دستخطوں پر مشتمل ایک محضر صدر جمہوریہئ ہند کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
موجودہ دور میں ہندستان بھر میں انجمن ترقی اردو (ہند) کی 650 سے زائد مقامی شاخیں ہیں، جن کا انتظام ریاستی سکریٹریز کی قیادت میں بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔ یہ شاخیں اردو زبان و ثقافت کے فروغ کے لیے سیکولر بنیادوں پر کام کر رہی ہیں اور ہندستان کی گنگاجمنی تہذیب کو تقویت بخشنے میں ان کا اہم کردار ہے۔
شبلی میموریل لائبریری:
انجمن کی شبلی میموریل لائبریری میں نایاب کتابوں اور مخطوطات کا ایک قیمتی ذخیرہ موجود ہے، جن سے بیش تر کتب چوں کہ اب نادر الوجود کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے، اب اس کتب خانے کو ڈیجیٹائز کردیا گیا ہے اور برِّصغیر میں شاید یہ اردو کی سب سے اہم لائبریری ہے جو ہر طرح کی جدید ٹیکنولوجی سے مزین ہے۔
1936میں انجمن ترقی اردو (ہند) کے اورنگ آباد سے دہلی منتقل ہونے کے بعد اہلِ علم سے اردو کتابوں کے عطیے کی اپیل کے ساتھ ساتھ خود انجمن بھی نایاب کتابوں کی مستقل خریداری کرنی شروع کی تھی، اور ایک مختصر وقت میں عربی، فارسی اور اردو کے مخطوطات اور نایاب کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ جمع ہوگیا جو بدقسمتی سے 1947 میں انجمن کے دفتر کے نذرِآتش کیے جانے کے بعد خاکستر ہوگیا اور 1949 کے بعد پھر ایک عظیم لائبریری بنانے کا کام شروع ہوا۔
انجمن کی لائبریری میں اردو،عربی،فارسی کی نادر کتابوں اور مخطوطات کا جو بیش بہا خزینہ ہے اس کا نہ تو کوئی ثانی ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت کا اندازہ قیمت سے لگایا جاسکتا ہے۔ 1999 میں ایران کلچرل ہاؤس کے فارسی ریسرچ سنٹر نے اس لائبریری میں موجود فارسی مخطوطات کی ایک وضاحتی فہرست تیار کی تھی جو شائع بھی ہوچکی ہے۔ سال 2023 میں انجمن کی مکمل طور پر

علم و کتاب

12 Jan, 08:42


تجدید اور لائبریری کے نظام کی جدید کاری کی گئی تاکہ جدید ترین سہولیات کے ذریعے قارئین کی اس کے قیمتی علمی وسائل تک بہ آسانی رسائی ہوسکے۔ ریختہ پورٹل نے اپنی ویب سائٹ پر ایک صفحہ انجمن کی لائبریری کی ڈیجیٹائز کی گئی کتابوں کے لیے اسی وجہ سے ہی مختص کیا ہے کیوں کہ انجمن نے ہی سب سے پہلے ریختہ کو اپنی لائبریری ڈیجیٹائز کرنے کی اجازت دی تھی۔
ڈاکٹر سیّدنا سیف الدین اوڈیٹوریم:
انجمن ترقی اردو (ہند) کے دفتر میں جدید ترین ٹکنولوجی سے مزین و آرائش شدہ اوڈیٹوریم ہے۔ آواز اور روشنی کے جدید ترین آلات سے سے مزین یہ ہال لیکچر، ڈرامائی پیش کش، کتابوں کی رونمائی اور مختلف ثقافتی پروگراموں کے لیے ایک بے مثال ماحول فراہم کرتا ہے۔
اس اوڈیٹوریم میں ایک اعلا لیزر پروجیکٹر اور وسیع اسکرین موجود ہیں، جنھیں ہال میں کسی بھی جگہ سے بہ آسانی چلایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں حال ہی میں متعارف کروائی گئی لائیو براڈکاسٹنگ کی سہولت بھی اس اوڈیٹویم کے پروگراموں کو سامعین اور ناظرین کے وسیع تر حلقے تک پہنچانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس ہال سے متصل بہترین گرین روم مقررین اور تھیٹر فنکاروں کے لیے بنایا گیا ہے۔ سنٹرلائزڈ ایر کنڈیشننگ سسٹم کی وجہ سے اوڈیٹوریم اور انجمن کی لائبریری مختلف رتوں میں درجہئ حرارت کو متوازن رکھتی ہے۔ 130 سیٹوں کی گنجائش والے اس اوڈیٹوریم میں نہایت آرام دہ نشستیں ہیں۔
ڈاکٹر سیدنا سیف الدین اوڈیٹوریم کی تزئین کاری انجمن ترقی اردو (ہند) کے اس عزم کی نمائندگی کرتی ہے کہ شہر میں علمی اور ثقافتی پروگراموں اور تھیٹر،فن اور ادب کے فروغ کے ساتھ اس طرح کے پلیٹ فورم کی موجودگی ملک کے سیکولر اور متحدہ اقدار کی بازیافت کے لیے ضروری ہے جہاں مختلف ادبی و لسانی روابط کے استحکام کے لیے عملاً کوششیں کی جا سکتی ہیں۔
ہماری زبان:
انجمن ترقی اردو (ہند) نے 1939 میں پندرہ روزہ اخبار’ہماری زبان‘ کی ابتدا کی، جس میں خصوصاً اردو زبان کے مسائل، نیز اردو دنیا کی خبریں اور ادب و لسانیات پر مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔’ہماری زبان‘ کا اشاعتی سفر تقسیمِ ہند کے بعد دو برس کے لیے معطل ہو گیا تھا لیکن 1950 میں اس کی دوبارہ اشاعت شروع ہوئی۔ 1957 میں اسے ہفت روزہ اخبارمیں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ اردو کا واحد اخبار ہے جس کے فائلیں دنیا بھر کے قارئین کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد ہفت روزہ اخبار کی اشاعت آج بھی پابندی سے جاری ہے۔
اردو ادب:
انجمن ترقی اردو (ہند) نے 1921میں ایک سہ ماہی رسالہ ’انجمن کا علمی ترجمان اردو‘کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے دفتر کی 1949 میں علی گڑھ منتقلی کے بعد اس جریدے کو ’اردو ادب‘ نام دیا گیا اور تب سے اب تک یہ سہ ماہی مجلے کے طور پر ہی شائع ہورہا ہے۔ ڈاکٹر اطہر فاروقی کی ادارت میں یہ مجلہ اس وقت پوری دنیا میں اردو ادب کا سب سے معتبرو محترم علمی و ادبی جریدہ ہے۔
آرکاؤز:
انجمن کی آرکائیوز میں مشاہیر اردو زبا ن و ادب کے 5لاکھ سے زائد خطوط محفوظ ہیں۔ 30ہزار سے زائد شاعروں، ادیبوں،محققوں کی نایاب تصاویر کے علاوہ ممتاز ادیبوں، شاعروں اور اسکولرز کی تقریروں، گفتگو اور انٹرویو کے صوتی ریکرڈز بھی اس آرکائیوز کی زنیت ہیں۔
ارپن(Arpan):
ارپن پرفومنگ آرٹس کا ایسا منفرد پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد اردو میں تھیٹر کو فروغ دینا ہے۔انجمن کی یہ اردو ریپٹری ہندستان کے کسی بھی ادارے کی واحد کوشش ہے۔اس کے تحت تھیٹر کے مخلوط علوم جیسے اسکرپٹ لکھنا، ہدایت کاری کے اصول، اداکاری، روشنی اور آواز کا استعمال، لباس اور اسٹیج ڈیزائن وغیرہ کی کلاسوں اور ورکشاپ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بچوں کا ادب:
نئی نسل کو اردو زبان و ادب کی طرف راغب کرنے کے لیے انجمن ہر دو برس میں ایک بار بچوں کے ادب پر تحریری مقابلہ منعقد کرتی ہے، اور اچھے مسودوں پر مبلغ 50 ہزار، 25 ہزار اور 10 ہزارکی انعامی رقم بھی بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر کے حق دار قرار دیے جانے والے مسودوں کے خالق کو پیش کی جاتی ہے۔ اس مقابلے کا مقصد بچوں کے ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی ذہنی تربیت کرنا اور بچوں کے لیے تخلیقی ادب کا فروغ ہے۔
ادب سراے:
انجمن نے دیگر ہندستانی زبانوں سے ادبی روابط کو استوار اور مستحکم کرنے کے لیے’ادب سراے‘ کے نام سے ایک سہ ماہی پروگرام کی 2024 میں ابتدکی، جس کا مقصد ہندستانی زبانوں میں تخلیقی ادب سے وابستہ اہلِ علم کے درمیان مکالمے کو فروغ دینا ہے۔یہ سہ ماہی پروگرام ہر تیسرے ماہ کی آخری اتوار کو منعقد کیاجاتا ہے،جس میں خصوصاً یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی ہندستانی زبان کی تخلیقی اصناف یا ادب کے ان زاویوں پر زیادہ گفتگو ہو جو دوسری زبانوں میں اردو سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں تاکہ اردو کے تخلیق کار ان سے مستفید ہوسکیں۔ تھیٹر کے موضوع پر بھی ’ادب سراے‘ میں دیگر اصناف سے کم توجہ نہیں دی جاتی۔

علم و کتاب

12 Jan, 08:08


جلوہ ہائے پابہ رکاب ( ۳۰ )۔۔۔ قواعد نحو میں فلسفیانہ موشگافی
ڈاکٹر ف عبد الرحیم


جامعہ اسلامیہ میں پڑھانے کے دوران ایک ہندوستانی طالب علم مجھ سے ملنے آتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جامعہ اسلامیہ میں داخلہ سے پہلے وہ کسی دینی درسگاہ میں پڑھاتے تھے۔ ان کو عربی نحو سے خاصی دلچسپی تھی۔
وہ ہمیشہ عربی نحو کی باریکیوں پر گفتگو کرتے۔ وہ اپنے کچھ اشکالات بتاتے اور ان کا حل طلب کرتے۔ ان میں سے ایک اشکال یہ تھا کہ جمع مذکر سالم کی علامت ”و“ ہے، لیکن اس جمع میں علامت رفع بھی "و" ہے۔ ان کی پریشانی اس بات سے تھی کہ لفظ «مسلمون» میں اگر "و" علامت جمع ہے، تو علامت رفع کہاں ہے؟ اور اگر وہ علامت رفع ہے تو علامت جمع کہاں ہے؟
میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اعضاء دیے ہیں وہ ایک سے زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ چنانچہ زبان سے ہم چکھ بھی سکتے ہیں، بول بھی سکتے ہیں، ہاتھ سے ہم چھو بھی سکتے ہیں، پکڑ بھی سکتے ہیں۔ انگریزی میں یہ multi- purpose کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کفایت شعاری سکھاتا ہے۔
آپ کی دی گئی مثال میں ”و“ علامت جمع بھی ہے اور علامت رفع بھی۔ جب ہم چکھتے ہوئے بولتے ہیں تو ہماری زبان دونوں فرائض انجام دے رہی ہوتی ہے۔
اسی طرح مسلمون» میں حرف "و" بھی دو فرائض انجام دے رہا ہوتا ہے۔ جب سے عربی معرض وجود میں آئی ہے، «مسلمون» کا " و" اپنی ڈیوٹی بحسن و خوبی انجام دیتا آرہا ہے، کسی کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ بیچارا بیک وقت دو کام کر رہا ہے اور اس کو ڈبل تنخواہ دینی چاہیے۔
زبان ذریعہ تو اصل ہے۔ اگر آپ عربی اس مقصد کے لیے سیکھ رہے ہیں تو اس کو سیکھنا بہت آسان ہے، لیکن اگر آپ عربی کو فلسفیانہ موشگافیوں کا موضوع بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ «مسلمون» کے "و" میں الجھ کر رہ جائیں گے اور آگے کا راستہ دکھائی نہیں دے گا۔
منطق اور فلسفیانہ موشگافیوں کے بارے میں ایک لطیفہ سناتا چلوں۔ مصر کے ایک دیہاتی کا لڑکا ازہر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ چھٹی میں گاوں آیا اور اپنے والد کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا: میں نے ایک نیا علم سیکھا ہے جسے منطق کہتے ہیں۔ باپ نے پوچھا: اس کا فائدہ کیا ہے؟ لڑکے نے بتایا: دیکھو! یہاں میز پر دو انڈے ہیں، میں منطق کی رو سے انہیں تین ثابت کر سکتا ہوں۔ باپ نے فورا دونوں انڈے اٹھا کر کھا لیے اور اپنے ازہری لڑکے سے کہا: منطق کے ذریعہ جو تیسرا انڈا ثابت ہو گا، اسے تم کھا لینا۔
علم وکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

11 Jan, 20:08


وفیات: مورخہ ۱۲ نومبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

افتخار احمد انصاری 12/جنوری/1987ء
حسنین جعفری 12/جنوری/2009ء
صالح محمد اشرفی 12/جنوری/1967ء
عبدالوحید قریشی 12/جنوری/1992ء
فضل الرحمٰن جعفری 12/جنوری/1987ء
محمودہ خاتون 12/جنوری/1959ء
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی 12/جنوری/1956ء
مولانا محمد شبلی جون پوری 12/جنوری/1901ء
سید سجاد حسین (بنگلہ دیش) 12/جنوری/1995ء
ابو سعید ابو الخیر 12/جنوری/1049ء
مراد ہوفمین (نومسلم) 12/جنوری/2020ء
مولانا حمد اللہ جان، ڈاگئی بابا جی 12/جنوری/2019ء

علم و کتاب

11 Jan, 19:53


Mohsin Asrar بھائی اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے اور آپ کا سایہ اقلیم‌ شاعری پر قایم رکھے۔ آمین مجھے آپ کی شاعری بہت پسند ہے۔ کیء سال سے آپ کی شاعری پڑھ رہا ہوں۔ روز بروز آپ کی شاعری میں غیر معمولی طور پر نکھار پیدا ہو رہا ہے۔ عموما شعراء جیسے جیسے بوڑھے ہوتے ہیں ان کے کلام میں جذبے کا عنصر کم ہوتا جاتا ہے لیکن آپ کی شاعری اس سے مستثنیٰ ہے۔ اس میں جذبہ و خیال کا عمدہ امتزاج ہے۔ زبان و بیان پر قدرت اور شاندار قوت ابلاغ آپ کی شاعری کا خاصہ ہے۔ اپنی شاعری سے ہم‌کو اور دنیاءے شعر ادب کو نوازتے رہیے۔ بیحد سلام و دعا

علم و کتاب

11 Jan, 19:50


سچی باتیں (۱۰؍نومبر ۱۹۳۳ء)۔۔۔ پیدائؑش اور موت کے ماحول کا فرق
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ


کسی بچّہ کو، پیداہوتے ہی آپ نے دیکھاہے؟ کیسا آلائشوں میں آلودہ، اور گندگی میں شرابور ہوتاہے! اور پھر بظاہر تکلیف میں بھی کس قدر مبتلا ہوتاہے۔ روتاہے، چیختاہے، چلّاتاہے، لیکن گھروالوں پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، نہ کوئی اس سے گھناکر الگ ہٹ جاتاہے اور نہ کوئی اسے مبتلائے مصیبت سمجھ کر اس سے ہمدردی کرنے لگتاہے۔ یہ سب خوش ہی ہوتے ہیں۔ ماں،باپ، دایہ، بھائی، بہن، سب کے چہرے کھِل ہی جاتے ہیں۔ کوئی انعام اکرام مانگتاہے، کوئی سجدۂ شکر میں گرتاہے، کوئی منّتیں بڑھانے لگتاہے، کوئی بچہ کے نہلانے دھُلانے اور پاک صاف کرنے میں لگ جاتاہے ۔ ظاہری حالات کا اقتضا یہ تھا، کہ سب گھناکر دُور بھاگتے، یا کوئی ازراہِ خداترسی قریب رہ جاتا تو وہ ہمدردی کی تدبیروں میں لگ جاتا۔ مگر یہ کوئی بھی نہیں کرتا۔ اثر، ظاہری حالت کے مقتضی کے بالکل برعکس ہی پڑتاہے…یہ روزمرہ کا تجربہ، ہر جگہ، ہرزمانہ، ہرقوم، ہرملک، ہردَور، ہر گھرانے، کا ہے۔
مرنے والوں کی حالت علی العموم کیاہوتی ہے؟ عمومًا بظاہر ٹھیک اسی طرح کی گندی اور گھناؤنی۔ کسی کا جسم، بخار سے سوکھ کر بالکل کانٹا ہوچکا۔ کسی کو دست اتنے آئے کی پاس بیٹھنے والے اپنی اپنی ناک میں رومال لگائے ہوئے، کسی کے زخموں میں ایسی عفونت پھیلی، کہ پاس کھڑا ہونا دشوار۔ کسی کی شکل بیماری نے ایسی بگاڑدی، کہ دیکھنے والوں سے دیکھا نہیں جاتا۔ جو ان سے جوان، خوبصورت سے خوبصورت، تنومند سے تنومند موت کے وقت، اکثر کیسے ناتوان، بدہیئت، اور غیر دلکش ہوجاتے ہیں!……ان کی زارونزار ظاہری حالتوں اور گھناؤنی ، جسمانی ہیئتوں پر نہ جائیے، یہ دیکھئے کہ جس عالم میں ان کی ولادت ہورہی ہے، جس جہان میں ان کا داخلہ نیا نیا ہورہاہے، وہاں یہ کس کس طرح ہاتھوں ہاتھ لئے جارہے ہیں، اور کیسی کیسی ان کی آؤبھگت ہورہی ہے! کیا کوئی دایہ، ملائکہ، رحمت سے بڑھ کر شفیق اور رحیم ہوسکتی ہے؟ کیا کسی ماں کی مامتا، ارحم الراحمین کے لطف وکرم ، شفقت ورحمت ، کے ہم پلّہ ہوسکتی ہے؟
دیکھنے کی بات صرف یہ ہے، کہ ان کی روحیں کتنی صاف اور ستھری ہیں؟ جس عالم میں اب یہ ہستیاں اب اول اول داخل ہورہی ہیں، وہاں کی فضا اور ماحول کے یہ کہاں تک مطابق، اوروہاں کا لطف وعیش اُٹھانے کے لئے یہ کہاں تک تیارہیں۔ اور اس کا معیار کیاہے؟ فضل خداوندی کے بعد، صر ف اپنے اپنے اعمال ! اگر عمل اچھے ہیں، اگر زندگی طاعت وعبادت میں بسر ہوئی ہے، اگر عمر، قوانین آسمانی کی فرماں برداری میں گزری ہے، تو یہاں سے لے کر وہاں تک ، اس گھڑی سے لے کر ابد الآباد تک بس چین ہی چین، راحت ہی راحت، عیش ہی عیش ہے۔ جسم کی نزاکتیں اور رعنائیاں ، مادّہ کی لطافتیں اور حسن آرائیاں سب اسی عالم ناسوت تک ہیں۔ وہاں، اوراُس عالَم میں ، جو چیز خوشبو اور حُسن پیدا کرتی ہے، اور رعنائی ونزاکت بن کر محسوس ہوتی ہے، وہ تو محض حسن عمل ہے۔ اکبر کی زبان میں ؎
قرآن ہے شاہد کہ حدا حُسن سے خوش ہے

کس حُسن سے ، یہ بھی تو سُنو ، حُسنِ گل سے!
اور عارف رومیؒ کے الفاظ میں ؎
گرمیانِ مشک تن راجا شود

روز مرہ مُردن گندہا پید شود
مشک را برتن مزن بر دل بمال

مشک چہ بود، اسمِ پاک ذا الجلال
جسم کو اگر مشک کے درمیان بھی ڈھک کررکھاجائے، جب بھی آخر موت کے بعد تو طرح طرح کی گندگی ظاہر ہوکر رہے گی۔ مشک کے ملنے کی جگہ جسم نہیں، جان ہے، تن نہیں، دل ہے۔ اور یہ مشک کیا چیز؟ کوئی مادّی شے نہیں، حق سبحانہ‘ وتعالیٰ کا ذکر!
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

11 Jan, 19:49


سچی باتیں (۱۰؍نومبر ۱۹۳۳ء)۔۔۔ پیدائؑش اور موت کے ماحول کا فرق
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ


کسی بچّہ کو، پیداہوتے ہی آپ نے دیکھاہے؟ کیسا آلائشوں میں آلودہ، اور گندگی میں شرابور ہوتاہے! اور پھر بظاہر تکلیف میں بھی کس قدر مبتلا ہوتاہے۔ روتاہے، چیختاہے، چلّاتاہے، لیکن گھروالوں پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، نہ کوئی اس سے گھناکر الگ ہٹ جاتاہے اور نہ کوئی اسے مبتلائے مصیبت سمجھ کر اس سے ہمدردی کرنے لگتاہے۔ یہ سب خوش ہی ہوتے ہیں۔ ماں،باپ، دایہ، بھائی، بہن، سب کے چہرے کھِل ہی جاتے ہیں۔ کوئی انعام اکرام مانگتاہے، کوئی سجدۂ شکر میں گرتاہے، کوئی منّتیں بڑھانے لگتاہے، کوئی بچہ کے نہلانے دھُلانے اور پاک صاف کرنے میں لگ جاتاہے ۔ ظاہری حالات کا اقتضا یہ تھا، کہ سب گھناکر دُور بھاگتے، یا کوئی ازراہِ خداترسی قریب رہ جاتا تو وہ ہمدردی کی تدبیروں میں لگ جاتا۔ مگر یہ کوئی بھی نہیں کرتا۔ اثر، ظاہری حالت کے مقتضی کے بالکل برعکس ہی پڑتاہے…یہ روزمرہ کا تجربہ، ہر جگہ، ہرزمانہ، ہرقوم، ہرملک، ہردَور، ہر گھرانے، کا ہے۔
مرنے والوں کی حالت علی العموم کیاہوتی ہے؟ عمومًا بظاہر ٹھیک اسی طرح کی گندی اور گھناؤنی۔ کسی کا جسم، بخار سے سوکھ کر بالکل کانٹا ہوچکا۔ کسی کو دست اتنے آئے کی پاس بیٹھنے والے اپنی اپنی ناک میں رومال لگائے ہوئے، کسی کے زخموں میں ایسی عفونت پھیلی، کہ پاس کھڑا ہونا دشوار۔ کسی کی شکل بیماری نے ایسی بگاڑدی، کہ دیکھنے والوں سے دیکھا نہیں جاتا۔ جو ان سے جوان، خوبصورت سے خوبصورت، تنومند سے تنومند موت کے وقت، اکثر کیسے ناتوان، بدہیئت، اور غیر دلکش ہوجاتے ہیں!……ان کی زارونزار ظاہری حالتوں اور گھناؤنی ، جسمانی ہیئتوں پر نہ جائیے، یہ دیکھئے کہ جس عالم میں ان کی ولادت ہورہی ہے، جس جہان میں ان کا داخلہ نیا نیا ہورہاہے، وہاں یہ کس کس طرح ہاتھوں ہاتھ لئے جارہے ہیں، اور کیسی کیسی ان کی آؤبھگت ہورہی ہے! کیا کوئی دایہ، ملائکہ، رحمت سے بڑھ کر شفیق اور رحیم ہوسکتی ہے؟ کیا کسی ماں کی مامتا، ارحم الراحمین کے لطف وکرم ، شفقت ورحمت ، کے ہم پلّہ ہوسکتی ہے؟
دیکھنے کی بات صرف یہ ہے، کہ ان کی روحیں کتنی صاف اور ستھری ہیں؟ جس عالم میں اب یہ ہستیاں اب اول اول داخل ہورہی ہیں، وہاں کی فضا اور ماحول کے یہ کہاں تک مطابق، اوروہاں کا لطف وعیش اُٹھانے کے لئے یہ کہاں تک تیارہیں۔ اور اس کا معیار کیاہے؟ فضل خداوندی کے بعد، صر ف اپنے اپنے اعمال ! اگر عمل اچھے ہیں، اگر زندگی طاعت وعبادت میں بسر ہوئی ہے، اگر عمر، قوانین آسمانی کی فرماں برداری میں گزری ہے، تو یہاں سے لے کر وہاں تک ، اس گھڑی سے لے کر ابد الآباد تک بس چین ہی چین، راحت ہی راحت، عیش ہی عیش ہے۔ جسم کی نزاکتیں اور رعنائیاں ، مادّہ کی لطافتیں اور حسن آرائیاں سب اسی عالم ناسوت تک ہیں۔ وہاں، اوراُس عالَم میں ، جو چیز خوشبو اور حُسن پیدا کرتی ہے، اور رعنائی ونزاکت بن کر محسوس ہوتی ہے، وہ تو محض حسن عمل ہے۔ اکبر کی زبان میں ؎
قرآن ہے شاہد کہ حدا حُسن سے خوش ہے

کس حُسن سے ، یہ بھی تو سُنو ، حُسنِ گل سے!
اور عارف رومیؒ کے الفاظ میں ؎
گرمیانِ مشک تن راجا شود

روز مرہ مُردن گندہا پید شود
مشک را برتن مزن بر دل بمال

مشک چہ بود، اسمِ پاک ذا الجلال
جسم کو اگر مشک کے درمیان بھی ڈھک کررکھاجائے، جب بھی آخر موت کے بعد تو طرح طرح کی گندگی ظاہر ہوکر رہے گی۔ مشک کے ملنے کی جگہ جسم نہیں، جان ہے، تن نہیں، دل ہے۔ اور یہ مشک کیا چیز؟ کوئی مادّی شے نہیں، حق سبحانہ‘ وتعالیٰ کا ذکر!
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

11 Jan, 12:49


ہماری رائے میں چیستان قسم کی ان مشکل کتابوں کو مقصد نہ بنایا جائے بلکہ ان کی حیثیت وسیلے کی رکھی جائے،البتہ فقہ کی جو بڑی اور مفصل نوعیت کی کتابیں ہیں انہیں پڑھنے کا ذوق طلبہ میں پیدا کیا جائے، الحمد للہ مذہب شافعی اس لحاظ سے بہت خوش نصیب ہے کہ اس کی زیادہ تر کتابیں بڑی سلیس اور آسان زبان میں لکھی گئی ہیں، ہمیں ایک معتبر عالم دین نے جنہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ سے کچھ عرصہ پڑھا بھی ہے بتایا کہ دوران درس شیخ صاحب یہ بات کہا کرتے تھے کہ فقہی لٹریچر میں مذہب شافعی کی کتاب المہذب للشیرازی جیسی سلیس اور فصیح دوسری کتاب نہیں پائی جاتی۔
یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ دوران طالب علمی مولانا محمد حسین باقوی بنگلوریؒ، افضل العلماء، یم اے یل یل یم جیسے استاد سے شرف تلمذ حاصل ہوا، مولانا اس دنیا سے بے نام ہی گذرے، لیکن جہاں تک ذاتی مشاہدے کا تعلق ہے، اپنی اس مختصر عمر میں مولانا جیسا کوئی زیرک عالم وفقیہ نظر میں نہیں جچا، آپ سے ہمیں نور الانوار، اور بدایۃ المجتھد دو سال میں مکمل پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ مولانا ہمیشہ ہم سے کہتے تھے کہ کتاب الام اور المبسوط للسرخسی جیسی کتابیں مطالعہ میں رکھیں۔ اور حقیقت تو یہی ہے مفصل اور وسیع نوعیت کی کتابوں کے مطالعے سے جتنی چیزیں ذہن نشین ہوتی ہیں، اور ان سے جیسے دماغ کھلتا ہے،ویسا مشکل اور مغلق کتابوں سے نہیں ہوتا،ایک طالب علم کو چیستان قسم کی کتابوں سے تعلق کھانے میں نمک کے برابر ہونا چاہئے۔ کیونکہ ان کے بغیر کھانے کا مزہ نہیں آتا، لیکن صرف مختصر خلاصوں اور نتیجوں پر مکمل انحصار طلبہ کے لئے سود مند نہیں ہوا کرتا۔
2025-01-11

علم و کتاب

11 Jan, 12:49


بات سے بات: نصاب تعلیم سے شرح جامی اور کنز الدقائق جیسی کتابوں کا اخراج
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

آج اس بزم علم وکتاب میں ایک تبصرہ نظر سے گذرا کہ شرح جامی، کنز الدقائق ۔۔۔ بہت تاخیر ہی سے سہی دارالعلوم سمیت کئی ایک تعلیمی اداروں کے تعلیمی نصاب سے نکل چکی ہیں۔
اس موضوع پر میں یہ ناچیز خود کو کوئی تبصرہ کرنے کا اہل نہیں پاتا، باوجود اس کے اس سلسلے میں جو چند باتیں ذہن میں آتی ہیں ان کا تذکرہ بھی یہاں نامناسب نہیں معلوم ہوتا۔
۔ اگریہ کتابیں اس لئے نصاب سے نکالی گئی ہیں کیونکہ انہیں استاد پڑھانے کے اہل نہیں ہیں، تو پھر یہ ہمارے نظام تعلیم کی کوتاہی ہے، اس ناچیز کی رائے میں ہمارے دینی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ انہیں سمجھانے کی اہلیت رکھنے والے اساتذہ کو تیار کرنے پر توجہ دیں، اس وقت ہمارے مدارس میں یہ رجحان فروغ پارہا ہے اور جسے کسی طرح تعمیری نہیں کہا جاسکتا کہ جہاں کتاب مشکل نظر آئی وہاں اسے نصاب سے نکالنے کی فکر ہونے لگی۔
۔ ہمارے اسلاف کا تیار کردہ لٹریچر چاہے وہ دور عروج کا ہو یا انحطاط کا، اسے سمجھنے والی نسل پیدا کرنا ملت پر فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ پرانی کتابیں ہوں یا نئی مرور زمانے کے ساتھ ان میں مندرج علوم ومعلومات کی ضرورت کبھی ختم نہیں ہوتی، اور یہ علمی وثقافتی تسلسل کی عکاس ہوتی ہیں، لہذا علماء کی ایک جماعت ایسی ہونی لازمی ہے جو انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی بھر پور اہلیت رکھتی ہو۔
۔ ہمارے اسلاف کے سامنے ان مشکل کتابوں کو نصاب میں رکھنے کا ایک بنیادی مقصد یہ تھا اگر صرف آسان کتابوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی عادت پڑجائے تو پھر مشکل کتابیں سمجھنے والے ناپید ہوجائیں گے۔ اس جانب علامہ شبلیؒ نے بھی اپنے تعلیمی مقالات میں اشارہ کیا ہے۔
کنز الدقائق کو اگر صرف اس لئے نصاب سے خارج کیا گیا ہے کہ یہ اپنے اسلوب اور اصطلاحات میں واحد کتاب ہے، اور اس کے سمجھنے پر دوسری فقہ کی مشکل کتابیں سمجھنے کا انحصار نہیں ہے توپھر یہ نصاب سے نکالنے کی ایک معقول وجہ ہوسکتی ہے۔
۔ ہماری رائے میں علم وفن کی باریکیوں کو سمجھنا اور کتاب کا سمجھنا دونوں ضروری ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ جن نصابوں میں علوم وفنون کی مشکل کتابیں رکھی گئی ہیں وہاں علم کے منہج اور اس کی جزئیات کو سمجھنے سے زیادہ کتابوں کی عبارتوں کی بال کی کھال اتارنے پرزیادہ تر توجہ مرکوز رہتی ہے، جس کے نتیجے میں ایک طالب علم، علم کی روح کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے، حالانکہ نحو وصرف زبان کو درست کرنے کے لئے پڑھائے جاتے ہیں، لیکن انہیں سالہاسال پڑھنے اور پڑھانے کے باوجود استاد یا طالب علم کو کبھی کبھار ایک جملہ درست لکھنا نہیں آتا، اگر آتا بھی ہیں تو ایک سطر لکھنے کے لئے کئی صفحے لکھنے کی محنت اور وقت درکار ہوتے ہیں۔
ہمیں ۱۹۷۱ء کا وہ حادثہ اب بھی اچھی طرح یاد ہے جب جمالیہ عربک کالج چنئی میں دعا کے وقت ہمارے مہتمم مولانا سید عبد الوہاب بخاری علیہ الرحمۃ نے ٹامل ناڈو کے ایک عالم دین کا یہ کہ کر تعارف کیا تھا کہ آپ جنوبی ہند میں نحو کے امام ہیں، اور گذشتہ بیس سالوں سے شرح جامی پڑھارہے ہیں،اب آپ کو چند نصیحتیں کریں گے، اور یہ مہمان مدرس نحو، طلبہ کے سامنے عربی زبان کا ایک درست جملہ نہ بول سکے اور طلبہ کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔
اس واقعہ سے شرح جامی کی اہمیت ختم نہیں ہوتی، البتہ عربی زبان کے ہر طالب علم کو رائج الوقت پڑھانے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، لیکن ایسے چند علماء کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے جو اسے سمجھ کر اس کی گتھیوں کو سلجھا سکیں۔
پہلے بھی ہم نے تذکرہ کیا ہے کہ ہمارے متہمم جامعہ مولانا شہباز اصلاحی مرحوم سےچند اساتذہ نے شکایت کی کہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب فتح المعین شرح قرۃ العین للملیباری کو نصاب سے خارج کیا جائے، کیونکہ اس میں ایسے مسائل بیان کئے گئے ہیں جو بدعات او خوش عقیدگی کو تقویت پہنچا تے ہیں، تو مولانا نے یہ کہ کر اس کی مخالفت کی تھی کہ یہ کتاب تو فقہ کی مشکل کتابوں کو سمجھنے کا دروازہ ہے، طلبہ اسے سمجھیں گے تو پھر ابن حجر مکیؒ کی تحفۃ المحتاج جیسی فقہ شافعی کی مشکل اور معتمد علیہ کتابوں کو سمجھ سکیں گے، اگر وہ اسے نہیں سمجھیں گے تو پھر فقہ کی کوئی مشکل کتاب سمجھنے کے قابل نہیں ہونگے۔

علم و کتاب

11 Jan, 07:41


یہاں سے فراغت کے بعد ۱۹۶۵ء سے ۱۹۶۸ تک آپ نے جزائر انڈومان میں دعوتی خدمات انجام دیں، جزائر انڈومان جو کالا پانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہاں پر جہاں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد شمالی ہند کے مجاہدین کو قید وبند کیا گیا تھا، اسی میں ۱۹۲۱ء کی ماپلا بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں اس فراموش شدہ تحریک آزادی کے مجاہدین کو ملک بدر کیا گیا تھا، آج یہاں پر ان خانماں برباد مجاہدین اور پھر ملبار سے آنے والوں کی نسل اتنی بڑھی ہے کہ ان سے ممبران پارلمنٹ چن کر آرہے ہیں۔وہاں آپ نے اسلامک ایجوکیشن کے سکریٹری کے حیثت سے بھی خدمات انجام دیں۔ انہی دنوں جماعت اسلامی ہند سے بھی تنظیمی طور پر آپ وابستہ ہوئے۔ اور انڈومان سے واپسی پر ملیالم زبان میں اس کے ترجمان پربودھنم(دعوت) کے معاون مدیر بھی رہے۔ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۲ء تک چار سال آپ نے مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔
۱۹۸۰ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کے امیر جماعت مولانا محمد یوسف صاحب ہرسال وقتا فوقتا دبی میں برسرروزگار فرزند محمد طیب کے یہاں آکر ٹہرتے تھے، اسی زمانے میں مولانا حیدر علی کے توسط ہی سے مولانا سے اس ناچیز کا مولانا سے تعارف ہوا تھا، مولانا ہم دونوں پر بہت اعتماد کرتے تھے، اور مراسلت وغیرہ میں ہم سے تعاون لیتے تھے، اس زمانے میں مولانا سے ملنے مولانا خلیل احمد حامدی، بیرسٹر قربان علی، مسرت حسین، وغیرہ اس وقت کی معروف شخصیات آتیں تو ان سے تعارف اور ملاقات کے مواقع بھی ہمیں ملتے رہے۔ آپ کے توسط سے ابوالجلال مولوی بانی جامعہ اسلامیہ شانتا پورم اور ملبار کی کئی ایک دینی و تحریکی شخصیات سے بھی ملاقاتوں کا موقعہ ملتا رہا۔
مولانا حیدر علی بڑے متحرک اور منظم انسان تھے، ملباری حلقے میں ان کی دینی ودعوتی سرگرمیاں بڑی منظم تھیں، اپنے حلقے کی دینی وملی شخصیات کی آمد پر ان کی خوب خواطر داری کرتے، اور اپنے علاقے کے اداروں کو مضبوط کرنے میں خاص دلچسپی لیتے۔ یہاں آپ نے دروس کے ساتھ ساتھ ریڈیو ایشیا پر ملیالی زبان میں تیرہ سال درس وبیانات بھی پیش کئے،اور ملیالی زبان میں کئی ایک کتابیں بھی یادگار چھوڑیں جو حسب ذیل ہیں،
1- حج کیوں اور کیسے
2-حج سفر اور عمرہ گائیڈ
3- اسلامی دعوت انفرادی طور
4- حج مسافرین کو کچھ نصیحتیں
5- حرم کا پیغام
6-شیخ ابن باز کا فتوی
7-قرآن مقدس ایک مافوق الفطرت صحیفہ
8-مہذب افکار
۲۰۰۶ میں دبی سے رٹائرمنٹ کے بعد آپ نے اپنے مادر علمی کو اپنی خدمات اور توجہات کےلئے وقف کیا تھا۔ یہاں آپ دعوۃ کالج کےپرنسپل اور پھر استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں،اور فارغین جامعہ کی الیمونی کو منظم کیا ، اور آپ سے سینکڑوں طالبان علوم نبوت نے فیض حاصل کیا۔ آج سے کوئی پندرہ سال قبل ہمارا شانتاپورم جانا ہوا تھا تو بہت خوشی ومسرت کا اظہار کیا، طلبہ واساتذہ میں ہمارا خصوصی پروگرام رکھا ، جس میں ہم نے پروجکٹر پر الیکٹرونک لائبریریوں اور کتابوں کا تعارف کیا تھا۔آپ نے جماعت کی مجلس شوری اور مجلس نمائندگان کے رکن کی حیثت سے بھی عرصہ تک خدمات انجام دیں۔
مولانا کی زندگی کلمۃ حق کی سربلندی اور خدمت میں گذری، آپ کے اخلاق اور نرم روی نے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنایا ، آپ کی رحلت سے یہ علاقہ ضرور متاثر ہوگا، ایسے مخلص دوستوں کی یاد دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے، اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ ان کی ضرورمغفرت ہوگی، اور انہیں اعلی علیین میں جگہ ملے گی، اور ان شاء اللہ ٓپ کی رحلت سے علاقے میں جو دینی وملی خسارہ ہوا ہے اسے پر کرنے کے اسباب پیدا ہونگے، وہی قادر مطلق ہے، اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
2025-01-10

علم و کتاب

11 Jan, 07:41


مولانا حیدر علی شانتاپورم۔ ارض ملبار کے ایک مخلص داعی
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

مورخہ ۵/جنوری خبر آئی کہ شانتاپورم، کیرالا میں مولانا حیدر علی صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا، انا للہ وانا الیہ راجعون، انتقال کے وقت آپ کی عمر اکاسی (۸۱) سال تھی، آپ نے مورخہ ۱۵ جولائی ۱۹۴۳ء ملپورم کے قصبے شانتاپورم میں جنم لیا تھا، آپ کے والد ماجد کا نام محی الدین اور والدہ کا آمنہ تھا۔
مولانا ایک سنجیدہ سلجھے ہوئے، دعوتی روح رکھنے والے عالم دین تھے، اردو زبان سے بھی خوب واقف تھے، آپ کا شمار ہمارے ان احباب میں ہوتا ہے جن سے تعارف آج سے پینتالیس (۴۵) سال قبل ہمارے دبی آنے کے بالکل ابتدائی زمانے میں ہوگیا تھا، اور یہ تعلق تقریبا ربع صدی(۲۵) تک قائم رہا۔
اس زمانے میں ہمارا آفس دبی کے بورسعید علاقے میں واقع تھا، اب تو اس علاقہ کا سرکاری نام بدل گیا ہے، لیکن اس زمانے میں کلاک ٹاور کے اطراف جسر آل مکتوم سے شارع مرقبات تک کا پورا علاقہ بورسعید کہلاتا تھا، اس علاقے کا یہ نام ۱۹۵۶ء میں مصر کی نہر سویز پر واقع پورٹ سعید کی مناسبت سے رکھا گیا تھا، جس پر اس وقت اسرائیلی، فرنسی اور برطانوی کی افواج نے مل کر حملہ کیا تھا، اور مصری افواج نے اس حملہ کو پسپا کرکے اسے سامراجی قبضے سے آزاد کردیا تھا۔
بورسعید کے اس علاقے میں مرکز الغریز سے الرقہ نامی جو سڑک کلاک ٹاور کو جاتی ہے، اس کے آخری موڑ پر بائیں جانب جہاں ایک عظیم الشان مسجد بورسعید واقع ہے، قبلہ کے رخ پر دائیں جانب جہاں اب حیات ریجنسی ہوٹل کی عمارت کھڑی ہے، وہاں پر سرخ رنگ کی چار منزلہ رہائشی فلیٹوں پر مشتمل دو لمبی عمارتیں ہوا کرتی تھیں، جو اس زمانے میں مبنی الوزارات کہلاتی تھیں ، یہاں امیگریشن، لیبر، تربیۃ وتعلیم ،انفارمیشن، پبلک ورکس، جیسی جملہ وزارتوں کے آفس یکجا پائے جاتے تھے۔ یہیں پر وزارۃ العدل والشؤون الاسلامیہ والاوقاف کا بھی آفس تھا، جہاں میں ملازم تھا۔
یہیں شارع الرقۃ کی دوسری جانب ایک ذیلی سڑک کو چھوڑ کر ایک بڑی عمارت میں مرکز الدعوۃ والارشاد دبی کا دفترتھا، جو شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کے الرئاسۃ العامہ للبجوث والافتاء والدعوۃ والارشاد ۔ الریاض کے ماتحت قائم تھا، اس زمانے مین سعودیہ میں مفتی عام کا عہدہ قائم نہیں ہوا تھا، نہ ہی الشؤون الاسلامیہ کے نام سے مستقل وزارت تھی، ریاض میں قائم اس ادارے کے ماتحت دنیا بھر میں سینکڑوں دعوتی مراکز چلتے تھے،جن کے اخراجات شیخ بن باز ذاتی طور پر اٹھاتے تھے، ان میں مدینہ یونیورسٹی اور جامعۃ الامام محمد بن سعود الریاض کے فارغین بھیجے جاتے تھے، جن لوگوں نے شیخ بن باز کو دیکھا ہے ان سے سنا ہے کہ شیخ علیہ الرحمۃ جیسی زاہد اور مال ودولت سے بے نیاز شخصیات شاذ ونادر پائی جاتی ہیں ، صبح سے شام تک بڑے بڑے امراء اور شیوخ آپ کی مجلسوں میں آتے اور عطیات دے جاتے تھے، لیکن شیخ علیہ الرحمۃ گھر جاتے ہوئے ان میں سے ایک دھیلا پائی اپنے گھر نہیں لے جاتے تھے۔کھڑے کھڑے کار خیر میں انہیں خرچ کردیتے تھے۔
دبی کا مرکز الدعوۃ کافی بڑا تھا، اور اس میں برصغیر اور مختلف ممالک کے داعیوں کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی تھی، جو مختلف جگہوں پر دینی ودعوتی خدمات درس قرآن ، وعظ وارشاد کی خدمت انجام دیتے تھے، ان میں سے جو حضرات اہل وعیال کے ساتھ نہیں تھے، وہ اسی مرکز کی عمارت میں رہائش پذیر تھے، انہی افراد میں مولانا حیدر علی بھی تھے۔ مولانا کا تعلق اس مرکز سے ۱۹۷۶ء سے ۲۰۰۶ء تک قائم رہا۔ اور یہی مولانا سے ہمارے گہرے تعلقات کے دن تھے۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم شانتاپورم سے متصل ملیا کرشی قصبے کے المدرسۃ الاسلامیہ میں ہوئی تھی، جس کے بعد آپ نے ۱۹۵۵ء میں الکلیۃ الاسلامیہ شانتاپورم کے قیام کے پہلے سال میں داخلہ لیا اور یہاں ۱۹۶۵ء تک دس سال دینی تعلیم کا نصاب مکمل کیا، ۲۰۰۲ء میں یہ ادارہ الجامعۃ الاسلامیۃ شانتاپورم کے نام سے موسوم ہوا۔

علم و کتاب

10 Jan, 19:48


وفیات مورخہ: ۱۲/جنوری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ابن انشا 11/جنوری/1978ء
سید افسر مدد نقوی، سید 11/جنوری/1997ء
ڈاکٹر یس اے حمید 11/جنوری/1988ء
سید علی اختر حیدرآبادی 11/جنوری/1958ء
ایم محمود 11/جنوری/1988ء
مہدی علی صدیقی 11/جنوری/2004ء
بیگم اختر ریاض الدین 11/جنوری/2023ء
جسٹس سعید الزمان صدیقی 11/جنوری/2017ء
خالدہ حسین 11/جنوری/2019ء
زاہدہ زیدی 11/جنوری/2011ء
شیخ عبد اللطیف تپش 11/جنوری/1943ء
لال بہادر شاستری 11/جنوری/1966ء
محمد بن صالح العثیمین 11/جنوری/2001ء
محمد علی قطب شاہ 11/جنوری/1612ء
مخدوم محمد زمان طالب المولی 11/جنوری/1993ء
مولانا سعید احمد اسعد 11/جنوری/2023ء
مولانا محمد میاں منصور غازی 11/جنوری/1946ء
مولوی شمس الدین 11/جنوری/1968ء
نذر الاسلام ( بنگلہ دیش) 11/جنوری/1994ء

علم و کتاب

10 Jan, 10:05


رہا، جس کا ثبوت ظ۔انصاری پر ان کی تازہ کتاب ”ظ۔ایک شخص تھا“ ہے۔ اس وقت اس کتاب نے ہی ان کے بارے میں کچھ لکھنے پر مجبورکیا ہے۔دراصل یہ کتاب ایک مونوگراف کی صورت میں ندیم بھائی سے دہلی اردو اکادمی نے لکھوائی تھی، مگر اس کی اشاعت میں اتنی تاخیرہوئی کہ انھوں نے اکادمی سے اپنا مسودہ واپس لے کر اسے ’اردو قبیلہ‘ کے حوالے کردیا۔ کتاب واقعی بڑے اہتمام سے شائع ہوئی ہے۔
’انقلاب‘ سے وابستگی کے دوران انھوں نے سب سے بڑا ہنر یہ سیکھا کہ خبروں کو مختصر ترین جگہ میں کیسے لگایا جائے۔ ایک دن ایک مختصر ترین خبر کے حوالے سے میری ان سے گفتگو ہوئی تو کہنے لگے”بھائی ہمیں قبروں کے چوکھٹے بناکر دئیے جاتے ہیں کہ اتنی جگہ میں مردے کو دفن کرنا ہے، سو ہم کردیتے ہیں۔“ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ یہاں دہلی میں ایک مسلمان پولیس آفیسر تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ رات دوبجے مجھے فون کرکے روہانسو ہوکر کہاکہ”میری اہلیہ گزرگئی ہیں، کیا یہ خبر صبح کے اخبار میں چھپ سکتی ہے۔“میں نے جواب دیا کہ رات دوبجے تو انگریزی اخباروں کے دفتر بھی بند ہوجاتے ہیں جبکہ اردواخبار تو دس بجے سے ہی بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیتے ہیں۔لہٰذا آپ اس وقت خبر کی بجائے قبر کی فکرکیجئے۔“قبروں کے چوکھٹوں میں خبریں لگاتے لگاتے ندیم بھائی اتنے ماہر ہوگئے کہ انھوں نے اردو ادیبوں اور شاعروں کے کتبے لکھنے شروع کردئیے جو اب سے کئی برس پہلے ”پرسہ“ کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں۔اگست2018میں ندیم بھائی نے اس کتاب کا ایک نسخہ راقم کوروانہ کرتے ہوئے اس میں لکھا تھا”بھائی معصوم صاحب (مرادآبادی)ذرا دیکھئے تو گنہگار کی یہ کتاب، ہمارا اعمال نامہ سیاہ ہوا“ اب دسمبر 2024میں ”ظ۔ایک شخص تھا“ پر وہ لکھتے ہیں ”ممبئی کے ایک گنہگار کی طرف سے مرادآباد کے ایک معصوم کی خدمت میں“۔
ندیم بھائی کو اپنی گنہگاری اور ہماری معصومیت پر اتنا یقین ہے کہ وہ جب بھی فون کرتے ہیں تو پہلا جملہ یہی ہوتا ہے کہ ”معصوم کو ایک گنہگار کا سلام پہنچے۔“ حالانکہ ہم نے ممبئی اور ممبرا کے کئی لوگوں سے ان کے گناہوں کا حساب معلوم کیا تو کوئی اس کا جواب نہیں دے سکا۔اسی لیے ہمیں اپنی معصومیت اور ان کی بے گناہی پر پورا یقین ہے۔ البتہ ممبئی کے پچھلے سفر میں جب وہ ہمیں حسب عادت ناگپاڑہ سے بھنڈی بازار میں اپنے پسندیدہ نورمحمدی ہوٹل میں دال گوشت کھلانے لے جارہے تھے تو بس اسٹاپ پر کھڑے ہوکر ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ”دیکھئے یہی وہ عمارت ہے جہاں منٹو اپنے ممبئی کے قیام کے دوران پارسی دوشیزاؤں سے’عشق‘لڑاتے تھے۔“ممبئی کی علمی، ادبی اور صحافتی تاریخ پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ کبھی آپ ان کے ساتھ ممبئی کے پرانے علاقوں میں گھومئے تو وہ ایک ایک عمارت کی تاریخ بتاتے چلے جائیں گے۔اس میں ناگپاڑہ، بھنڈی بازار اور محمدعلی روڈ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حالانکہ وہ مورخ نہیں ہیں لیکن ممبئی کی علمی، ادبی اور صحافتی تاریخ کا انھیں جتنا علم ہے، اتنا شاید ہی ممبئی میں کسی اور کوہو۔ اخبار میں کام کرنے کا سب سے زیادہ نقصان انھیں یہ پہنچا ہے کہ وہ رات کو جاگنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اب جبکہ ان کے پاس کسی اخبار کی ذمہ داری نہیں ہے تب بھی وہ رات کے آخری پہر میں سوکر عصر کے وقت بیدار ہوتے ہیں اور اردو کے چنے لے کر ممبرا کی گلیوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ابھی تک انھیں اردو کے ان چنوں کا ایک بھی خریدار نہیں ملا ہے۔ خدا انھیں سلامت رکھے اور وہ یونہی ہماری اصلاح فرماتے رہیں۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

10 Jan, 02:17


سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب صلاۃ الضحی

روایت نمبر : 285-288

عربی متن آڈیو ماخوذ از:  Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

https://t.me/shamail255

علم و کتاب

10 Jan, 02:17


سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 283-284

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

https://t.me/shamail255

علم و کتاب

09 Jan, 21:24


محبوب خدا ۔ از چودھری افضل حق https://archive.org/download/mahbub-e-khuda-by-choudhri-afzal-haq/Mahbub%20E%20Khuda%20By%20Choudhri%20Afzal%20Haq.pdf

علم و کتاب

09 Jan, 20:38


حفیظ ہوشیارپوری (وفات ۱۰ جنوری) تحریر: نصر اللہ خان https://archive.org/download/hafeez-hoshiyarpuri-by-nasrullah-khan/Hafeez%20Hoshiyarpuri%20By%20Nasrullah%20Khan.pdf

علم و کتاب

09 Jan, 20:17


وفیات مورخہ : ۱۰ جنوری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
بابا انور شاہ تاجی 10/جنوری/1994ء
ایوب پیام (محمد ایوب خان) 10/جنوری/2006ء
جلال چانڈیو 10/جنوری/2001ء
رکن الدین خان 10/جنوری/2011ء
نواب رحمت اللہ خاں شروانی 10/جنوری/2012ء
حفیظ ہوشیار پوری 10/جنوری/1973ء
سلطان قابوس بن سعید (عمان) 10/جنوری/2020ء
سید شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگارا ہفتم 10/جنوری/2012ء
محمد شمیم جیراج پوری 10/جنوری/2024ء
نصیر ترابی 10/جنوری/2023ء
امام سعد الدین تفتازانی 10/جنوری/1390ء

علم و کتاب

09 Jan, 18:25


راہِ صفا: ایک تعارف

ابن مالک ایوبی
https://telegram.me/ilmokitab
بنیادی طور پر تصوف عرفانِ الٰہی اور اصلاحِ ذات کا ایک تجرباتی وسیلہ ہے، جس کے تحت بندہ مختلف معمولات کے ذریعے باطنی کمالات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اس طریق سے ارتقاء کی وہ منزلیں طے کر سکتا ہے، جو عام حالات میں عموماً دشوار گذار تصور کی جاتی ہیں۔
البتہ تصوف کا اسلامی تصور اس سے بھی اجلا اور شفاف ہے، جس کی بنیاد حدیثِ جبریل پر قائم ہے، اور جس کا منصوص سفر تخلق باخلاق اللہ کے عظیم وصف پر منتہی ہو جاتا ہے، اسلام کے اندر تصوف کا اس سے مختلف کوئی دوسرا مفہوم نہیں ہے۔
علماءِ دیوبند نے شروع سے ہی اس ذریعۂ معرفت سے اعتنا کیا، بلکہ تغیر پذیر دنیا میں اس کی تجدید کاری اور مستحکم آبیاری کی، زمانے کی کدورتوں سے اس کو الگ کر کے قرون اولیٰ کے سادہ و مشروع ’’احسان‘‘ سے اس کی کڑیاں ملا دیں، جو بدعتی تصوف سے مختلف ہونے کے ساتھ قرآن و سنت کی روشنی میں نجات کا واحد راستہ تھا۔
اسی احسان و سلوک کے تعارف، طریق، فوائد و محاسن اور متعلقات پر مشتمل ایک منفرد کتاب ’’راہ صفا‘‘ ہے، جو صحیح معنوں میں قرآنی احسان کا خلاصہ، حدیثی تصوف کا مظہر اور شرعی اخلاق و کردار کا رہنما صحیفہ ہے۔
یہ کتاب حضرت اقدس مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی دامت برکاتہم (مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کے مطبوعہ مواعظِ تصوف و اخلاق کا نیا پیکر ہے، جو متعلقہ مواد کے ساتھ مخصوص ہے، کتاب کے سرورق پر گرچہ افادات کا عنوان درج ہے؛ لیکن اپنے انداز و اسلوب کے لحاظ یہ حضرت کی تصنیف معلوم ہوتی ہے، تقریباً 12 احسانی موضوعات پر مشتمل ابواب کے ذریعے کتاب کو مرتب، منظم اور مربوط رکھنے کی عمدہ سعی کی گئی ہے۔
ضخامت کے لحاظ سے یہ کتاب دو جلدوں کی شکل میں 983 صفحات پر پھیلی ہے، حضرت کے اشاعتی ادارے’’ دار المعارف النعمانیہ ‘‘کی دیگر مطبوعات کی طرح اس کتاب کا بھی سر ورق دیدہ زیب، کاغذ عمدہ اور کتابت دلکش اور رنگین ہے، اور اس طرح یہ کتاب ظاہری و باطنی خوبیوں کا بہترین سنگم ہے۔

نوٹ: کتاب حاصل کرنے کے لیے مکتبہ نعیمیہ، دیوبند سے رابطہ کریں۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

09 Jan, 18:22


*حاصلِ آرزو*
(جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے طلبۂ عزیز کے نام)

(نتیجۂ فکر:- از خاک پائے مصطفیٰ محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل)
💐💐💐
https://telegram.me/ilmokitab

جامعہ کے بام ودر کہتے ہیں تم کو الوداع
یہ حسیں شام وسَحَر کہتے ہیں تم کو الوداع

خوشبوؤں کا قافلہ ہوتا ہے رخصت آج پھر
رُوٹھنے کو ہے گُلوں سے بُوئے الفت آج پھر

تیرگی کی شام میں ہے روشنی کھوئی ہوئی
دورِ نَکبت ہے مسلماں قوم ہے سوئی ہوئی

فکر کی یلغار میں ہے عصرِ حاضر بے مُہار
اور دبی جاتی ہے اُس میں روحِ ایماں کی پکار

دانشِ افرنگ کو روحِ غزالی چاہیے
پھر اذانوں کو وہی سوزِ بلالی چاہیے

سازِ دل پر نغمۂ ایماں جگانا ہے تمھیں
نورِ باطن سے جبینوں کو سجانا ہے تمھیں

قافلے پائیں تمھیں سے اپنی منزل کا نشاں
اور تمھارے پاس آکر غم سے پاجائیں اماں

ہیں بِساطِ دہر میں اجزائے ہستی منتشر
اب نئی شیرازہ بندی کا ہے عالم منتظِر

فکرِ ملت غیرتِ اسلام بھی کھو جائے گی
“محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی”

من کے سرمائے کے آگے ہیچ ہیں سب تخت وتاج
“من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج”

دل کی دنیا اصل دنیا من کی دولت اصل دَھن
“تن کی دنیا تن کی دنیا سود وسودا مکرو فن”

مصطفیٰ کا جانشیں ہے ایک شمعِ رہ گزر
مَشعلِ انسانیت ہے مِثلِ خورشیدِ سَحَر

حق کی اک آواز پر عاشق ہمہ تن گوش ہے
دل میں ہو سودائے الفت سر وبالِ دوش ہے

جُہدِ پیہم سے ہے تیری کِشتِ ویراں لالہ زار
“تیرے فردوسِ تخیّل سے ہے قدرت کی بہار”

“اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے”
نغمۂِ سمعاںؔ طلوعِ صبح کا آغاز ہے

💐💐💐

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

08 Jan, 19:21


حکیم محمود احمد برکاتی (وفات ۹/ جنوری ) تحریر: ڈاکٹر یونس حسنی https://archive.org/download/hakeem-mahmmud-ahmad-barkati-by-dr-yunus-hasani/Hakeem%20Mahmmud%20Ahmad%20Barkati%20by%20Dr%20Yunus%20Hasani.pdf

علم و کتاب

08 Jan, 19:11


وفیات مورخہ: ۹/ جنوری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آفتاب منگی 9/جنوری/2013ء
ڈاکٹر یم ایچ صادق 9/جنوری/1965ء
نواب صدیق علی خان 9/جنوری/1974ء
حاجی شیخ عبدالخالق عبدالرزاق 9/جنوری/1979ء
سید شاہ محمد ضیاء الحق یوسفی تاجی 9/جنوری/1969ء
حکیم سید محمود احمد برکاتی 9/جنوری/2013ء
خالدہ ادیب خانم 9/جنوری/1964ء
مولانا حافظ اکرام الٰہی سٹھلہ 9/جنوری/2002ء
مولانا عبدالباسط ابراہیمی بنارس 9/جنوری/2002ء
مولانا حسیب صدیقی 9/جنوری/2019ء
ڈاکٹرمحمد علی صدیقی 9/جنوری/2013ء
حافظ محمد اکرم الہی دیوبندی 9/جنوری/2002ء
سلطان راہی (ایکٹر) 9/جنوری/1996ء
جان گلگرسٹ 9/جنوری/1841ء
نپولین بونا پارٹ 9/جنوری/1873ء
عبد الرحمن راہی 9/جنوری/2023ء

علم و کتاب

08 Jan, 14:53


چودھری افضل حق (وفات ۸ جنوری) تحریر: آغا شورش کاشمیری https://archive.org/download/chodhri-afzal-haq-by-shorish-kashmiri/Chodhri%20Afzal%20Haq%20By%20Shorish%20Kashmiri.pdf

علم و کتاب

08 Jan, 02:57


تاریخ وفات:08 جنوری 2022ء

آہ! مظفرحسین سید

معصوم مرادآبادی

https://telegram.me/ilmokitab

آٹھ جنوری 2022 کی اولین ساعتوں میں علی گڑھ سے ڈاکٹر راحت ابرار نے یہ دردناک اطلاع دی ہے کہ مشہور صحافی، مترجم اور افسانہ نگار مظفرحسین سید گزشتہ رات انتقال کرگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
ادبی حلقوں میں شارق ادیب کے نام سے معروف مظفرحسین سید بہت عرصے سے بیمار تھے اور کافی دنوں سے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ انھوں نے مارہرہ شریف میں آخری سانس لی، جہاں ممتاز فکشن نگار سید محمداشرف انھیں علاج کے لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
مارہرہ شریف سے ان کا پرانا رشتہ تھا۔مظفرحسین سید کی پیدائش میرے وطن مرادآباد میں ہوئی تھی لیکن وہ بچپن ہی میں اپنے والد ین کے ساتھ مارہرہ چلے گئے تھے، جہاں ان کے والد کو ایک اسکول میں ملازمت مل گئی تھی۔
مظفرحسین سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے1974میں اردو میں ایم اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ سلیمان ہال میں رہتے تھے۔ان کی شخصیت اور کرداروعمل پر علی گڑھ کی پوری چھاپ تھی اور اس میں رچے بسے تھے۔ علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک میں شامل تمام ہی طلباء لیڈروں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔انھوں نے ’علی گڑھ مسلم ٹائمز‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے۔یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وہ ایک سرکاری اسکول میں استاد بھی ہوگئے تھے، لیکن اپنی سیلانی طبیعت کی وجہ سے وہ کہیں بھی زیادہ دنوں تک ٹھہر نہیں سکے۔ نوکری چھوڑکر دہلی آگئے اور یہاں روزنامہ ’قومی آواز‘ سے بطورسب ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔ انھیں تحریر پر عبور حاصل تھا اور اسی مہارت سے وہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ بھی کرتے تھے۔ ’قومی آواز‘ سے علیحدگی کے بعد انھوں نے مشہور وکیل اور سیاست داں ڈی ڈی ٹھاکر کی سرپرستی میں ’حال ہند‘ کے نام سے ایک معیاری ماہنامہ جاری کیاتھا جس کے لیے انھوں نے مجھ سے کئی مضمون لکھوائے۔
90 کی دہائی کے وسط میں مجھے انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ وہ اور میں دونوں ہی کوچہ چیلان کی ایک بلڈنگ میں پڑوسی تھے۔ ان کی شادی قایم گنج میں ہوئی تھی اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ یہاں رہتے تھے۔ انھیں لذیذ کھانوں کا بہت شوق تھا اور صبح سے دوپہر تک اس کی تیاری میں اپنی اہلیہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔بعد کو جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو انھوں نے دوسری شادی نہیں کی اور مجرد زندگی گزاری۔
انھوں نے کئی برس پہلے دریاگنج علاقہ میں ایک ٹیم بناکر ترجمہ کاکام شروع کیا تھا۔ وہ اردو سے انگریزی، انگریزی سے اردو اورعربی وغیرہ کا ترجمہ بڑی مہارت سے کیا کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا ایک کمزور پہلو فضول خرچی تھا جس کے مضر اثرات سے وہ تمام عمر جوجھتے رہے، لیکن انھوں نے شاہ خرچی نہیں چھوڑی۔ہمیشہ آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ کرتے تھے۔اس عادت نے انھیں بلا کا مقروض بنادیا تھا۔
میری ان سے آخری ملاقات مارچ2018میں پٹنہ میں اردوصحافت سیمینار میں ہوئی تھی، جس کا انعقاد اردوڈائرکٹوریٹ نے کیا تھا۔ہم لوگ تین دن پٹنہ کے ہوٹل پناش میں مقیم رہے۔یہاں انھیں دیکھ کر مجھے دھچکا سا لگا، کیونکہ ان کی صحت خراب ہوچکی تھی اور وہ اٹھنے بیٹھنے کے لیے بھی ایک معاون کے محتاج تھے، لیکن اس حالت میں بھی کھانے پینے کا شوق برقرار تھا۔ان کے آخری ایام کی یہ تصویر بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ ان کی عمر 70 سال سے کچھ زیادہ تھی، لیکن وہ خرابی صحت کی وجہ سے 90سال کے لگتے تھے۔ان کانتقال اردو صحافت اور ادب کا بڑا نقصان ہے۔ زبان وبیان پر ایسا عبور رکھنے والے ماہرین فن اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔وہ غیرمعمولی علمی، ادبی اور لسانی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔اگر وہ استقامت اور میانہ روی سے زندگی گزارتے تو بہت آگے جاسکتے تھے۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظورتھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

08 Jan, 02:57


تاریخ وفات: 08 جنوری 2022ء

آہ! مظفرحسین سید

معصوم مرادآبادی

https://telegram.me/ilmokitab

صبح کی اولین ساعتوں میں علی گڑھ سے ڈاکٹر راحت ابرار نے یہ دردناک اطلاع دی ہے کہ مشہور صحافی، مترجم اور افسانہ نگار مظفرحسین سید گزشتہ رات انتقال کرگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
ادبی حلقوں میں شارق ادیب کے نام سے معروف مظفرحسین سید بہت عرصے سے بیمار تھے اور کافی دنوں سے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ انھوں نے مارہرہ شریف میں آخری سانس لی، جہاں ممتاز فکشن نگار سید محمداشرف انھیں علاج کے لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
مارہرہ شریف سے ان کا پرانا رشتہ تھا۔مظفرحسین سید کی پیدائش میرے وطن مرادآباد میں ہوئی تھی لیکن وہ بچپن ہی میں اپنے والد ین کے ساتھ مارہرہ چلے گئے تھے، جہاں ان کے والد کو ایک اسکول میں ملازمت مل گئی تھی۔
مظفرحسین سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے1974میں اردو میں ایم اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ سلیمان ہال میں رہتے تھے۔ان کی شخصیت اور کرداروعمل پر علی گڑھ کی پوری چھاپ تھی اور اس میں رچے بسے تھے۔ علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک میں شامل تمام ہی طلباء لیڈروں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔انھوں نے ’علی گڑھ مسلم ٹائمز‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے۔یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وہ ایک سرکاری اسکول میں استاد بھی ہوگئے تھے، لیکن اپنی سیلانی طبیعت کی وجہ سے وہ کہیں بھی زیادہ دنوں تک ٹھہر نہیں سکے۔ نوکری چھوڑکر دہلی آگئے اور یہاں روزنامہ ’قومی آواز‘ سے بطورسب ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔ انھیں تحریر پر عبور حاصل تھا اور اسی مہارت سے وہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ بھی کرتے تھے۔ ’قومی آواز‘ سے علیحدگی کے بعد انھوں نے مشہور وکیل اور سیاست داں ڈی ڈی ٹھاکر کی سرپرستی میں ’حال ہند‘ کے نام سے ایک معیاری ماہنامہ جاری کیاتھا جس کے لیے انھوں نے مجھ سے کئی مضمون لکھوائے۔
90 کی دہائی کے وسط میں مجھے انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ وہ اور میں دونوں ہی کوچہ چیلان کی ایک بلڈنگ میں پڑوسی تھے۔ ان کی شادی قایم گنج میں ہوئی تھی اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ یہاں رہتے تھے۔ انھیں لذیذ کھانوں کا بہت شوق تھا اور صبح سے دوپہر تک اس کی تیاری میں اپنی اہلیہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔بعد کو جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو انھوں نے دوسری شادی نہیں کی اور مجرد زندگی گزاری۔
انھوں نے کئی برس پہلے دریاگنج علاقہ میں ایک ٹیم بناکر ترجمہ کاکام شروع کیا تھا۔ وہ اردو سے انگریزی، انگریزی سے اردو اورعربی وغیرہ کا ترجمہ بڑی مہارت سے کیا کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا ایک کمزور پہلو فضول خرچی تھا جس کے مضر اثرات سے وہ تمام عمر جوجھتے رہے، لیکن انھوں نے شاہ خرچی نہیں چھوڑی۔ہمیشہ آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ کرتے تھے۔اس عادت نے انھیں بلا کا مقروض بنادیا تھا۔
میری ان سے آخری ملاقات مارچ2018میں پٹنہ میں اردوصحافت سیمینار میں ہوئی تھی، جس کا انعقاد اردوڈائرکٹوریٹ نے کیا تھا۔ہم لوگ تین دن پٹنہ کے ہوٹل پناش میں مقیم رہے۔یہاں انھیں دیکھ کر مجھے دھچکا سا لگا، کیونکہ ان کی صحت خراب ہوچکی تھی اور وہ اٹھنے بیٹھنے کے لیے بھی ایک معاون کے محتاج تھے، لیکن اس حالت میں بھی کھانے پینے کا شوق برقرار تھا۔ان کے آخری ایام کی یہ تصویر بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ ان کی عمر 70 سال سے کچھ زیادہ تھی، لیکن وہ خرابی صحت کی وجہ سے 90سال کے لگتے تھے۔ان کانتقال اردو صحافت اور ادب کا بڑا نقصان ہے۔ زبان وبیان پر ایسا عبور رکھنے والے ماہرین فن اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔وہ غیرمعمولی علمی، ادبی اور لسانی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔اگر وہ استقامت اور میانہ روی سے زندگی گزارتے تو بہت آگے جاسکتے تھے۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظورتھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
صبح کی اولین ساعتوں میں علی گڑھ سے برادرم ڈاکٹر راحت ابرار نے یہ دردناک اطلاع دی ہے کہ مشہور صحافی، مترجم اور افسانہ نگار مظفرحسین سیدگزشتہ رات انتقال کرگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
ادبی حلقوں میں شارق ادیب کے نام سے معروف مظفرحسین سید بہت عرصے سے بیمار تھے اور کافی دنوں سے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ انھوں نے مارہرہ شریف میں آخری سانس لی، جہاں ممتاز فکشن نگار سید محمداشرف انھیں علاج کے لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
مارہرہ شریف سے ان کا پرانا رشتہ تھا۔مظفرحسین سید کی پیدائش میرے وطن مرادآباد میں ہوئی تھی، لیکن وہ بچپن ہی میں اپنے والد ین کے ساتھ مارہرہ چلے گئے تھے، جہاں ان کے والد کو ایک اسکول میں ملازمت مل گئی تھی۔
مظفرحسین سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے1974میں اردو میں ایم اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ سلیمان ہال میں رہتے تھے۔ان کی شخصیت اور کرداروعمل پر علی گڑھ کی پوری چھاپ تھی اور اس میں رچے بسے تھے۔ علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک میں شامل تمام ہی طلباء لیڈروں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔انھوں نے ’علی گڑھ مسلم ٹائمز‘ کی ادارت

علم و کتاب

08 Jan, 02:18


ملے گا غیر بھی ان کے گلے بہ شوق اے دل
حلال کرنے مجھےعید کا ہلال آیا

نگاہ ناز سے ساقی کا دیکھنا مجھہ کو
مرا وہ ہاتھہ میں ساغر اٹھا کے رہ جانا

پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں

نظر کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

نظر کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

ترا آستاں جو نہ مل سکا تری رہ گزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو کہیں سہی
*اسلم ملک*

علم و کتاب

08 Jan, 02:18


کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے

یہ ضرب المثل مصرعے شاد عظیم آبادی کے ہیں. ہم انہی‍ں بھولتے نہیں جا رہے؟ اب تو عظیم آباد بھی نہیں رہا۔ عظیم آباد اب پٹنہ کہلاتا ہے اور بھارت کی ریاست بہار کا دارالحکومت ہے۔
شاد عظیم آبادی جن کا اصل نام علی محمد تھا، 8 جنوری 1846 کو عظیم آباد کے محلہ پورب پورہ کے ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں مرد تو کیا خواتین بھی تعلیم یافتہ تھیں۔ والد کا نام سید عباس مرزا اور دادا کا سید تفضل علی خاں تھا ۔ اس لئے انہیں بھی بچپن سے ہی سید صاحب کہا جاتا تھا ۔ شاد نے امارت اور ریاست کی آغوش میں آنکھہ کھولی۔عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم لائق اساتذہ سے حاصل کی۔سید صاحب کم سنی میں ہی شعر موزوں کرنے لگے۔ سات سال کی عمر میں پہلا شعر یہ کہا
جو کوئی اس تلنگی کو لوٹے
گر پڑے ، ہاتھہ پاؤں ٹوٹے
شاعری میں الفت حسین فریاد عظیم آبادی سے تلمذ حاصل تھا۔ صفیر بلگرامی سے بھی اصلاح لی ۔ میر انیس اور مرزا دبیر کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ شاد انگریزی اور ہندی زبان سے بھی واقف تھے۔ شاد کا ننھیال پانی پت تھا۔ ایک مرتبہ وہ وہاں گئے اور حالی سے ملاقات کی۔ علی گڑھ بھی گئے اور سرسید سے ملاقات ہوئی۔ 1876 میں سید صاحب نے ایک ناول بھی لکھہ لیا،لیکن لوگ ماننے پر تیار نہیں تھے اتنے کم عمر نے خود لکھا ہے۔چند برس بعد ناول کا دوسرا حصہ لکھہ ڈالا۔1889 میں انہیں آنریری مجسٹریٹ کا عہدہ مل گیا۔ اسی زمانے میں تاریخِ بہار لکھی۔ پھر تین جلدوں پر مشتمل صورۃ الخیال کے عنوان سے ایک اور ناول لکھا،چھہ سات نصابی کتابیں لکھیں۔ اس کے بعد’’ ذخیرۃالادب‘‘ لکھی جس میں فن شاعری اور زبان دانی پر بحث تھی۔ دیوان اور خزانچی ان کی ریاست وجاگیر کا بڑا حصہ فروخت کرکے پیسے کھا گئے۔ جو شخص ہزاروں اور لاکھوں میں کھیلتا تھا اسے اپنی آخری زندگی صرف سوروپیہ ماہانہ کی امداد پر گزر بسر کرنی پڑی۔ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں سرکار سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ شاد کو اپنے زمانے کا میر کہا گیا ۔’’مئے خانہ الہام‘‘ کے نام سے ان کا دیوان چھپ گیا ہے۔ شاد نے مراثی ، رباعیات، مثنویات اور نثر کی کل ملاکر تقریباً ساٹھہ کتابیں یادگار چھوڑیں ، جن میں سے زیادہ تر چھپ چکی ہیں ۔ کلیاتِ شادؔ تین حصوں میں کلیم الدین احمد نے ترتیب دے کر 1978 میں شائع کیا ۔ اس سے قبل انتخابِ کلام شادؔ مولانا حسرتؔ موہانی نے مرتب کرکے 1909 میں شائع کیا ۔
شاد 7جنوری1927ء کو پٹنہ میں انتقال کرگئے۔

شاد عظیم آبادی کے کچھ اشعار:

یہ بزمِ مے ہے، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

خم آئے گا صراحی آئے گی تب جام آئے گا
کہاں سے لاؤں صبر حضرت ایوب اے ساقی

طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم

بھرے ہوں آنکھ میں آنسو خمیدہ گردن ہو
تو خامشی کو بھی اظہار مدعا کہیے

چمن میں جا کے ہم نے غور سے اوراق گل دیکھے
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

نظر کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

نظر کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں
ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

اظہار مدعا کا ارادہ تھا آج کچھ
تیور تمہارے دیکھ کے خاموش ہو گیا

جب کسی نے حال پوچھا رو دیا
چشم تر تو نے تو مجھہ کو کھو دیا

جیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو کبھی
محسوس یہ ہوا تجھے ہر بار دیکھ کر

جیتے جی ہم تو غم فردا کی دھن میں مر گئے
کچھہ وہی اچھے ہیں جو واقف نہیں انجام سے

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

کہتے ہیں اہل ہوش جب افسانہ آپ کا
ہنستا ہے دیکھ دیکھ کے دیوانہ آپ کا

کون سی بات نئی اے دل ناکام ہوئی
شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی

کچھہ ایسا کر کہ خلد آباد تک اے شادؔ جا پہنچیں
ابھی تک راہ میں وہ کر رہے ہیں انتظار اپنا

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھہ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

علم و کتاب

07 Jan, 19:22


وفیات مورخہ: ۸/ جنوری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آقائے پرہیزگار (مولاناسید محمدرضوی) 8/جنوری/1973ء
بیگم زاہدہ خلیق الزمان 8/جنوری/1982ء
ڈاکٹر سلیمان احمد خان 8/جنوری/2013ء
ڈاکٹرعبدالرحیم پراچہ 8/جنوری/1971ء
پروفیسرعبدالمتین انصاری 8/جنوری/1983ء
قاضی، پروفیسر زیڈ کے (زین العابدین کمال الدین) 8/جنوری/2013ء
حافظ محمد اسلام 8/جنوری/1979ء
محمد ہادی حسین 8/جنوری/1982ء
ڈاکٹڑ محمود الحسن صدیقی 8/جنوری/1993ء
نجمہ صادق 8/جنوری/2015ء
حافظ نصیر احمد قریشی 8/جنوری/1968ء
نگار صہبائی (محمد سعید الکریم) 8/جنوری/2004ء
سید یوسف بخاری دہلوی 8/جنوری/1991ء
میر علی محمد شاد 8/جنوری/1927ء
چودھری افضل حق 8/جنوری/1942ء
چودھری افضل حق 8/جنوری/1942ء
شاد عظیم آبادی 8/جنوری/1927ء
سر اکبر حیدری 8/جنوری/1942ء
باقی صدیقی ، محمد افضل 8/جنوری/1972ء
مولانا اکرام علی قاسمی بھا گلپوری 8/جنوری/2008ء
صالحہ عابد حسین 8/جنوری/1988ء
مولانا احترام الحق تھانوی 8/جنوری/2023ء
ریاض الدین عطش 8/جنوری/2001ء
آصف نواز جنجوعہ (جنرل) 8/جنوری/1993ء
سر مرزا محمد اسماعیل امین الملک 8/جنوری/1959ء
رضی الدین صدیقی 8/جنوری/1998ء
سیٹھ عابد حسین 8/جنوری/2021ء
علامہ سید شفیق حسن ایلیا 8/جنوری/1956ء
ہاشمی رفسنجانی 8/جنوری/2017ء

علم و کتاب

07 Jan, 16:38


مجھے تمہاری پناہ درکار ہی نہیں ہے میرے لیے خُدا اور خُدا کے رسول ﷺ کی پناہ بالکل کافی ہے-" "
یا معبود! تیری اس دنیا میں کبھی خدا پر ایمان لانے والا دنیا پر بے نیازی سے لات مار کر خطرات کے منجدھار میں یہ اعلان کر سکتا تھا کہ " اس کو کِسی کی پناہ درکار نہیں
اس کے لیے تو خدا اور خدا کے رسول ﷺ کی پناہ کافی ہے۔" لیکن آج ہمارے تصوّرات اس بات کو سوچ کر شل ہو جاتے ہیں کہ " کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟ کیا خدا پر ایمان لانے والا خدا پر اس طرح عملی بھروسہ کا مظاہرہ کر سکتا ہے ؟“ لیکن کاش ہم سوچ سکتے کہ یہ باتیں سوچنے کی نہیں ۔ کر گزرنے کی ہیں۔ خُدا پر بھروسہ کا لطف اُٹھایا ہی تب جا سکتا ہے جب خدا کے لیے خطرات کو قبول کرنے کی جرأت دکھائی جائے ۔ آگ اُسی وقت پھولوں کی سیج بن سکتی ہے جب کوئی ابراہیم (علیہ السلام ) خدا کا نام لے کر آگ میں کود پڑے لیکن ہم چاہتے کہ خطرہ مول لینے سے پہلے خدا کی پناہ گاہ کا دروازہ ہمارے لیے چوپٹ کھول دیا جائے ۔ آگ کے شعلے پہلے لالہ وگل میں ڈھل جائیں پھر ہم ا ِلّا اللہ کر کےاس میں کود پڑیں۔ سچّے مومنوں نے کبھی یوں نہیں سوچا ___ اور ہم ہمیشہ ہر وقت کچھ اسی طرح سوچ رہے ہیں!!

___*___

علم و کتاب

07 Jan, 16:38


کیا ہم مسلمان ہیں (٣٣) لِلّٰہیّت کا پروانہ ( چوتھی قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

آگ برساتے ہوئے ریگستان میں کیف و سرخوشی سے وجد کرتے ہوئے مومن کو ایک "کافر" نے دیکھا تو حیران رہ گیا ۔ یہ قارہ کا سرمایہ دار ابن الدغنہ تھا۔ اس نے سوچا کہ بنوتمیم کا یہ معزز سوداگر آج کس سفر پر چلا جا رہا ہے جہاں نہ اس کے ساتھ تجارت کا سازو سامان ہے اور نہ کوئی رفیقِ سفر ! لیکن پھر بھی اس کے بشرے سے وہ خوشی اور بے نیازی کا نور ٹپک رہا ہے جیسے تمام دنیا کی حکمرانی اس کو مل گئی ہو ۔
"اے ابو بکؓر کہاں چلے !" حیرت و استعجاب کے ساتھ رئیس قارہ نے سوال کیا ۔
"قوم نے مُجھے وطن سے نکال دیا ہے ۔ اب مجھے خُدا کی زمین پر ایک ایسا کونا ڈھونڈ نکالنا ہے جہاں میں آزادی سے خُدا کی پرستش کر سکوں۔"
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آواز میں دل کی چوٹ اور ایمان کی جاں نو از حلاوت تھی۔ ایمان کیسا بے پناہ تھا۔ یہ منظر ایک کافر کے سرد و سیاہ سینے میں انسانیت کا سوز جگا گیا۔ درد کی ایک اشک آلود ہنسی اس کے پُورے وجود میں دوڑ گئی ۔ جذبات سے بوجھل آواز میں ایک کافر کے منہ سے یہ الفاظ نکلے:-
"نہیں اے ابو بکرؓ ! میں تمہیں کبھی نہ جانے دوں گا تم بے کسوں کی مدد کرتے ہو بےنواؤں کی پکار سنتے ہو مہمانوں کے لیے فرش راہ ہوتے ہو ۔ نہیں ! میں تمہیں نہ جانے دوں گا ! آؤ میرے ساتھ چلو میں عہد کرتا ہوں کہ تم میری امان میں رہوگے اور تمہیں خدا کی عبادت کرنے سے کوئی نہ روکے گا _____ "
وہی جسے کفر و شرک نے دیس سے نِکل جانے پر مجبور کیا تھا ہاں اسی کو پھر دیس میں واپس لانے کے لیے وہی کفرو شرک اس کے پاؤں پڑ رہا تھا ___ یہ کفر کا اعترافِ شکست تھا ، ایمان و اخلاق کا اعلانِ فتح و ظفر تھا۔ یہ خدائے بندہ نواز کی قدرت کا ایک اشاریہ تھا _____ !
ابو بکرؓ پھر ایک نئی شانِ خود داری کے ساتھ اس طرح واپس آئے کہ قارہ کا دولت مند سردار ابن الدغنہ ایک ہرکارے کی طرح قریشی سرداروں میں گھوم پھر کر یہ اعلان کر رہا تھا کہ:
"میں اپنی امان میں ابو بکرؓ صالح کو واپس لایا ہوں ۔ اے لوگو تمہیں غیرت آنی چاہیے کہ تم مکّے کو ایک ایسے بھلے مانس سے خالی کر دینا چاہتے ہو جو غمزدوں کی ہمدردی کرتا اور دکھیاروں کے دُکھ درد میں جان و مال سے حصّہ لیتا ہے۔"
کچھ دن یہ لوگ اس توقع کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے رہے کہ ایک بار ملکِ بدر ہو جانے والا دوسری بار جلا وطن ہونے کے ڈر سے اپنے طرزِ عمل میں کوئی احتیاط _ کوئی تبدیلی پسند کرتا ہے کہ نہیں ؟ اُنھوں نے دیکھا کہ ابو بکرؓ کا نالہ نیم شبی ہر رات ان کی "گھریلو مسجد" سے پوری قوّت کے ساتھ بلند ہورہا ہے تو خدا کو بُھول کرمیٹھی نیند سونے والے کافروں کے دِل ہل رہے ہیں جو آواز کبھی گھر سے باہر مکّے والوں کو ڈھونڈتی پکارتی پھرتی تھی اب وہی آواز گھر کے اندر سے یُوں بلند ہوتی ہے کہ دنیا اس کی طرف کھنچی چلی آتی ہے ___ قریشی سرداروں کا وفد ابن الدغنہ سے ملا اور اعلان کر دیا کہ اب ابو بکرؓ کو گھر کے اندر رہتے ہوئے خداے واحد کا نام بلند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ابن الدغنہ نے قریشی سرداروں کے غضب ناک تیور دیکھے تو ہانپتا ہوا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا:
"کیوں اپنی جان کے دشمن ہوئے ہو
؟ خدا کا نام لے لے کر تم سارے مکّے کو خفا کیے جارہے ہو مجھے خطرہ ہے کہ اس طرح میں بھی تمہیں پناہ دینے کے عہد کو برقرار نہ رکھ سکوں گا _____"
یہ اعلان ایک زبردست دھمکی تھی یہ دھمکی اس زلزلے کی دھمک تھی کہ مکّے ہیں خیریت سے رہنا چاہتے ہو تو خدا کی اعلانیہ پرستش سے باز آجاؤ ۔ ورنہ یہ طے ہے کہ تمھیں مسل ڈالا جائے گاـ لیکن وہ مؤمن جو خوب جانتا تھا کہ زلزلہ محشر کیا چیز ہے اور دوزخ کے آتشیں تصوّر میں کس بلا کی ہولناکیاں ہیں اس نے کمال شانِ استغناء سے ابن الدغنہ کی باتوں کو سُنا، ابن الدغنہ کے وہم و گمان پر سکتہ سا چھا گیا جب اس نے اپنے کانوں سے ابو بکرؓ کی یہ بے نیاز آواز سُنی:

علم و کتاب

07 Jan, 05:50


غصے کے متعلق قرآنی آیات اور احادیث نبوی

از: چاہت محمد قریشی قاسمی

https://telegram.me/ilmokitab

غصہ ایک ایسی بری شئ ہے جس کی وجہ سے بہت سی جانیں تلف اور بہت سے گھر برباد ہوجاتے ہیں، اسی لئے اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے، قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں غصہ کے پی جانے پر فضائل اور برداشت کرنے پر انعامات کا ذکر ہے جن میں سے کچھ قرآنی آیات اور احادیث نبوی ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔

قرآنی آیات
۔1۔ غصہ قابو پانے والوں کی تعریف
قر آن کریم میں اللہ نے غصہ ضبط کرنے والوں کی تعریف کی ہے:
وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔(سورۃ آل عمران: 134)
ترجمہ: اور وہ لوگ جو غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں،(مطلب: یہ ایک احسان ہے) اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

۔2۔ نبی کریم ﷺ کو غصہ قابو میں رکھنے کی تعلیم
اللہ نے قرآن کریم کے ذریعہ سے نبی کریم ﷺ کو صحابہ کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ۔(سورۃ آل عمران: 159)
ترجمہ: اللہ کی رحمت سے آپ (یعنی نبی کریم ﷺ) ان کے(یعنی صحابہ کے) لیے نرم ہو گئے، اور اگر آپ سخت مزاج ہوتے تو وہ (صحابہ کرام) آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔
دس احادیث
۔1۔ غصے سے بچنے کی نصیحت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي. فَقَالَ: لَا تَغْضَبْ، فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: لَا تَغْضَبْ.
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: مجھے نصیحت کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: غصہ نہ کرو۔ اس نے کئی بار (یہی درخواست کی)، تو آپ ﷺ نے (ہر بار) فرمایا: غصہ نہ کرو۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر 6116)

۔2۔ طاقتور کون ہے؟
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ۔
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: طاقتور وہ نہیں جو (کُشتی میں) لوگوں کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر 6114)

۔3۔ غصہ ضبط کرنے والے کی فضیلت
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللَّهُ عَلَى رُؤُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ۔
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص غصے کو ضبط کرے حالانکہ وہ اسے نکالنے کی طاقت رکھتا ہو، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے حوروں میں سے انتخاب کرنے کا اختیار دے گا۔(جامع ترمذی، حدیث نمبر 2493)
۔4۔ غصہ آگ کا اثر ہے جو وضو سے ٹھنڈا ہوتا ہے
عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ۔
ترجمہ:حضرت عطیہ السعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک غصہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے، اس لیے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کر لے۔(سنن ابی داؤد،حدیث نمبر 4784)

۔5۔ غصے کے وقت بیٹھنے یا لیٹنے کی ہدایت
عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ۔
ترجمہ:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر غصہ ختم ہو جائے تو بہتر، ورنہ لیٹ جائے۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، حدیث نمبر 4782)
۔6۔ غصہ دہکتی چنگاری ہے جس میں زمین سے لگ جانے کا حکم ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَى احْمِرَارِ عَيْنَيْهِ، وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ؟ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ۔(سنن الترمذی، کتاب الزہد، حدیث نمبر 2191)

علم و کتاب

07 Jan, 05:50


ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: غصہ ابن آدم کے دل میں ایک دہکتی چنگاری ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ غصے کی حالت میں اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور اس کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں؟ تو جسے غصے کا احساس ہو، وہ زمین سے لگ جائے (یعنی لیٹ جائے)۔

۔7۔ غصے میں معاف کرنے کی فضیلت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّكُمْ تُبْسَطُونَ لِلنَّاسِ أَيْدِيَكُمْ وَتَمْنَعُونَهُمْ وُجُوهَكُمْ، وَمَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى إِنْفَاذِهِ، فَقَدْ مَلَأَ اللَّهُ قَلْبَهُ أَمْنًا وَإِيمَانًا۔
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگوں کے لیے اپنے ہاتھ کھولتے ہو اور ان سے اپنے چہرے چھپاتے ہو۔ جو شخص غصے کو ضبط کرے حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو امن اور ایمان سے بھر دیتا ہے۔(مسند احمد، حدیث نمبر 3704)

۔8۔ غصہ ٹھنڈا کرنے کی دعا
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجُلَانِ يَسْتَبَّانِ، وَاحِدُهُمَا قَدْ احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا ذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔
ترجمہ:حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ دو آدمی آپس میں جھگڑنے لگے۔ ایک کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس کی رگیں پھول گئیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں ایک ایسی بات جانتا ہوں، اگر یہ شخص کہہ دے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا۔ وہ یہ کہے: ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث نمبر 3282)

۔9۔ جنتی شخص کی نشانی
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَفَّ غَضَبَهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ عَذَابَهُ، وَمَنْ عَفَا عَنْ نَاسٍ عَفَا اللَّهُ عَنْهُ۔
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے غصے کو روک لے، اللہ تعالیٰ اس سے اپنا عذاب روک لیتا ہے، اور جو لوگوں کو معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، حدیث نمبر 4210)

۔10۔ غصہ ضبط کرنے والے کا انعام
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ يَكْظِمْ غَيْظَهُ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى إِنْفَاذِهِ، مَلَأَ اللَّهُ قَلْبَهُ رِضًى يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
ترجمہ:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے غصے کو ضبط کرے حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہو، قیامت کے دن اللہ اس کے دل کو اپنی رضا سے بھر دے گا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، حدیث نمبر 4211)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

07 Jan, 04:31


اذان اور ہماری ذمہ داری

تحریر: عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی

https://telegram.me/ilmokitab
ہمارے مذہبی شعار میں ایک بڑی اہم چیز پنج وقتہ نمازوں کے لئے اذان ہے ،پورے ملک کے تقریباً سبھی خطوں میں(جہاں دو چار گھر بھی مسلمان ہیں) اذان دی جاتی ہے ،غیر مسلم حضرات اس سے وحشت محسوس کرتے ہیں ،جہالت اور ہماری غفلت کی وجہ سے اکثریت کے ذہن میں یہ بات ہے کہ ’’مسلمان اذان کے ذریعہ مغل بادشاہ اکبر کو یاد کرتے ہیں‘‘۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو اذان کی معنویت اور اور اس کا پیغام امن و عافیت ان کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی جائے ،ان کو بتایا جائے کہ اگر چہ یہ اسلامی شعار ہے لیکن اگر اس کے معنی و مفہوم کو دیکھا جائے تو یہ سراسر ہم سب کے پیدا کرنے والے اور سب کو پالنے والے پروردگار کی بڑائی اور اس کی کبریائی کا اعلان ہے، جس ذات نے ہم سب کو پیدا کیا پھر زندگی گذارنے کے لئے تمام چیزیں مہیا کیں ہیں ،عقل اور سمجھداری کی بات تو یہی ہے کہ پوجا اورعبادت و بندگی صرف اسی کی ہونی چاہئے ، اس اذان میں اسی بات کا اقرار ہے،انسانوں کی ہدایت اور دنیا وآخرت میں سکون اور چین کی زندگی ملے اس سلسلہ کی تعلیمات اور احکامات لے کراللہ کی طرف سے جس مقدس ہستی کو دنیا میں بھیجا گیا تھا اس کی رسالت و نبوت کی شہادت و گواہی اس اذان میں ہے ،دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی اسی پالنہار اور معبود حقیقی کے بتائے ہوئے طریقۂ عبادت میں ہے ،اذان میں اسی طریقۂ عبادت کی طرف بلایا جاتا ہے اور دنیا کو روزانہ پانچ وقت یہی سب یاد دلایا جاتا ہے۔
پالنہار حقیقی کو سب سے بڑا ماننا ،اسی کو معبود حقیقی ماننا،انسانوں کی بھلائی کے لئے اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر اور رسول و اوتار کی رسالت و نبوت کی گواہی دینا،دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی والے طریقۂ عبادت کی طرف لوگوں کو بلانایہی تو اذان کا خلاصہ ہے ،اگر صحیح انداز سے اس کی تشریح کی جائے ،اس کے معنی و مفہوم کو بتایا جائے تو یقیناً جو لوگ اس سے وحشت محسوس کرتے ہیں وہ بھی ان کلمات کے گرویدہ ہونگے ،باہمی منافرت ختم ہوگی۔
اذان کی برکات اور اس کے دنیاوی منافع واثرات جو احادیث وآثار صحابہ سے ظاہر ہیں ان کو عام کیا جائے ،ان کو بتایا جائے کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اذان کے کلمات سے انسانوں کا سب سے بڑا دشمن ’’شیطان ‘‘ بھاگ جاتا ہے، اسی طرح یہ بھی بتایا جائے کہ جب اذان ہوتی ہےتو آسیب ،جنات و شیاطین پریشان ہوکر دور چلے جاتے ہیں،پورا علاقہ جہاں تک اذان کی آواز جاتی ہے شیطانی اثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلمان پہلے خود اس اذان کے معنی و مفہوم اور اس کے تقاضہ سے واقف ہوں،ہم خود پہلے یہ جان لیں کہ اذان کی برکتیں کیا ہیں؟ اس کے دنیوی منافع کیا ہیں؟اذان کے اثرات کیا ہیں؟افسوس کا مقام ہے کہ ہم امت دعوت ہوکر اذان تک کے معنی و مفہوم سے واقف نہیں ہیں تو دیگر شعائر اسلام کے بارے میں ہمارا حال کیا ہوگا؟
ہندوستان کے موجودہ حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ باہمی مفاہمت کا ماحول پیدا کیا جائے ،غیر مسلم حضرات کو اپنے سے قریب کیا جائے ،اسلامی تعلیمات کی ان کی زبان میں وضاحت کی جائے تاکہ اسلام کی فطری اور امن عالم کی ضامن تعلیمات کو یہ حضرات جانیں اوران کی وحشت ، ان کی نفرتختم ہو، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم خود اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات کا علم رکھیںگے ،ان کو سیکھنے اور برتنے کی کوشش کریں گے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

06 Jan, 02:01


خورشید مصطفی رضوی:حیات وعلمی خدمات

معصوم مرادآبادی

https://telegram.me/ilmokitab

سید خورشید مصطفی رضوی (متوفی31/جولائی2002)علمی وادبی دنیا کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے پوری زندگی علم وادب کی خدمت میں گزاری، مگر اپنے کارناموں کی کوئی نمائش نہیں لگائی۔ ان کی پیدائش امروہہ میں ہوئی، جو باکمال لوگوں کی ایک قدیم بستی ہے۔ یہاں علم وفضل کے دریا بہتے ہیں۔اسی مردم خیز اور دل آویز سرزمین میں سید خورشید مصطفی رضوی ایک علمی خانوادے میں 1930 میں پیدا ہوئے۔خاندانی شرافت اور عاجزی وانکساری جیسی صفات انھیں ورثے میں ملی تھیں۔
انھوں نے رامپور، میرٹھ اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرکے1960میں دہلی یونیورسٹی کی لائبریری سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور یہاں سے 1997میں ریٹائرہوئے۔میری خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھے ان سے کسب فیض کا موقع ملا۔بظاہر دھان پان سی نظر آنے والی اس شخصیت نے بے مثال تحقیقی اور علمی کارنامے انجام دئیے۔ وہ ایک روشن خیال محقق ومصنف تھے، جس کا سب سے بڑا ثبوت پہلی جنگ آزادی پر ا ن کی معرکۃ الآراء تصنیف ”جنگ آزادی 1857" ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ نامور مورخ ڈاکٹر تاراچند نے لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ”اس مضمون پر یہ اردو کی پہلی تصنیف ہے جس میں بلاتعصب مذہب وملت اس انقلاب کی صحیح کہانی بتلائی گئی ہے۔ ان کی معلومات وسیع اور نظر گہری ہے۔“
800صفحات پر مشتمل یہ کتاب سیدخورشید مصطفی رضوی کے گہرے تاریخی شعور کی مظہر ہے۔ اس میں شامل بیشتر معلومات انھوں نے 1857کے ریکارڈ اور مآخذ سے براہ راست حاصل کی ہیں۔ ارد و میں چند کتابیں سامنے رکھ کر ایک کتاب تیار کرنے کا رواج عام ہے، لیکن سید خورشید مصطفی رضوی نے تن آسانی کی بجائے جفاکشی کی راہ اختیار کی اور1857پر تحقیق کرنے والوں کے لیے جامع مواد جمع کردیا۔ وہ خود ان شہروں کے مال خانوں میں گئے جہاں 1857 کے ریکارڈ بنڈلوں میں بندھے ہوئے خاک پھانک رہے ہیں اور کسی نے انھیں دیکھنے اور پرکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ انھوں نے اس تمام ریکارڈ کو کھنگالا اور اس میں سے تحقیق کے موتی رولے۔اس معرکۃ الآراء کتاب کے علاوہ ان کی دیگر اہم تصنیفات میں ’حیات ذاکر حسین‘(1969)’تذکرہ بدرچشت‘(1975)’شیرہندوستان ٹیپو سلطان‘(1998)’بابر‘(2002)’تاریح جنگ آزادی ہند1857‘(2000)قابل ذکر ہیں۔ مختلف علمی اور تاریخی موضوعات پر ان کی کتابوں کی مجموعی تعداد دس ہے۔یہ تمام تصنیفات اور تالیفات اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے اردو ادب وتاریخ ہند میں ایک اہم مقام ومرتبہ کی حامل ہیں۔ ان قیمتی کتابوں کے علاوہ میدان علم وادب کے اس شہسوار کی نگارشات میں سیکڑوں نادرونایاب مضامین اور مقالات بھی شامل ہیں، جن کی تاریخی اور ادبی حیثیت مسلّم ہے۔
علم وادب کی اسی نابغہ روزگار شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب کی صورت گری سرزمین امروہہ کے ایک اور لائق فرزند ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے کی ہے اور حق تو یہ ہے کہ ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔ ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی از خود ایک محقق اور مترجم ہیں۔ انھیں اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں پر عبور حاصل ہے۔وہ بھی سیدخورشید مصطفی رضوی کی طرح علی گڑھ کے فیض یا فتہ ہیں، جہاں سے انھوں نے فارسی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ان کی اب تک 31 کتابیں اور تراجم شائع ہوچکے ہیں، جن میں کمال واسطی کی کتاب ’اسرار کشف صوفیہ‘ کا فارسی سے ہندی اور اردو ترجمہ شامل ہے۔ ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی کی علمی تربیت پروفیسر نثار احمد فاروقی جیسے جید عالم کی سرپرستی میں ہوئی ہے۔زیرتبصرہ کتاب میں ان کا روحانی پیش لفظ بھی شامل ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ”کل محترم خورشید مصطفی رضوی اپنے پورے کنبے (حوروغلماں)کے ساتھ تشریف لائے تھے، مختلف موضوعات پر گفتگو کے دوران انھوں نے یہ خوشخبری بھی دی کہ تم نے ان کی سوانح اور ادبی خدمات پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے، سن کر بہت زیادہ مسرت ہوئی۔“
ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے اس کتاب کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی کے روحانی پیش لفظ سے پہلے مصنف نے ’اعتراف حقیقت‘ کے عنوان سے اپنے مقدمہ میں اس کتاب کے ظہور کی روئیداد بیان کی ہے۔ ابواب کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے۔باب اوّل (سرزمین امروہہ کی مختصر علمی وادبی تاریخ)باب دوم (’سید خورشید مصطفی رضوی کا خاندانی تعارف‘)باب سوم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی پیدائش، تعلیم وتربیت اور ملازمت وقلمی خاکہ‘)باب چہارم (’سید خورشید مصطفی رضوی کے اخلاق وعادات، وفات حسرت آیات‘)باب پنجم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی تصانیف وتالیفات کا جامع تعارف‘)باب ششم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی مدیرانہ صلاحیتیں ’درمقصود‘ کے حوالے سے‘)باب ہفتم (‘سید خورشید مصطفی رضوی کی اولاد کا تعارف و کتابیات‘)باب ہشتم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی چند یادگار تصاویر‘)

علم و کتاب

06 Jan, 02:01


ان تمام ابواب میں مصنف ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ جو مواد جمع کیا ہے، وہ خورشید مصطفی رضوی کی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتا ہے۔کتاب کے مصنف سے خورشید مصطفی رضوی کو جو مخلصانہ اور مشفقانہ تعلق تھا،وہ کتاب کے ہرلفظ سے جھلکتا ہے۔کتاب کا اسلوب عام تحقیقی کتابوں کی طرح خشک نہیں ہے بلکہ اس میں زبان وبیان کی چاشنی بھی موجود ہے۔ سید خورشید مصطفی رضوی سے میری پہلی ملاقات اب سے کوئی چالیس برس پہلے اس وقت ہوئی تھی، جب وہ دھولاکنواں کی لائبریری میں تعینات تھے۔ انھوں نے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کیا اور میں ان کا گرویدہ ہوگیا۔ وہ بقول مصنف یقینا ”عجز وانکساری، مروت ورواداری، صبر وتحمل بردباری، خاکساری اور مسکینی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ بڑے تو بڑے خورشید رضوی چھوٹوں کا ایسا ادب کرتے تھے کہ وہ خواہ مخواہ ہی اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا تھا۔“(ص 77)
میں اس بیان کی تصدیق یوں کرسکتا ہوں کہ جب 2000میں ان کی معرکۃ الآراء کتاب ’تاریخ جنگ آزادی ہند 1857‘ کا اضافہ شدہ ایڈیشن شائع ہوا تووہ اس کا ایک نسخہ لے کر میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور اپنے دستخط کے ساتھ مجھے پیش کیا، جو میری ذاتی لائبریری میں محفوظ ہے۔وہ میرے لیے حددرجہ محترم اور مشفق انسان تھے اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ خدا ان کی قبر کو نور سے بھردے۔ ان پر ایک وقیع کتاب کی صورت گری کرکے ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے اہل امروہہ کا قرض اور فرض ادا دونوں اداکیا ہے۔نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ شائع ہونے والی اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ 9810780563

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

05 Jan, 19:06


انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۲۵
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق سمت پرستی ہے ۔اس موضوع پر مولانا دریابادی نے اپنے مخصوص انداز سے اس گمراہی کی مختصر تاریخ اور قرآن کی اس سمت پرستی کی گمراہی پر واضح ضرب کا اپنے مخصوص انداز میں ذکر کیا ہے ۔ساتھ ہی اپنے مخصوص انشائی خوبیوں سے ایسے جملے بھی تحریر فرمائے ہیں جن میں ایک اہم حقیقت کو آسان زبان میں ادا کیا ہے ۔مثلاً مولانا کا لکھا یہ جملہ’’حضرت مسیح علیہ السلام کے چند ہی سال بعد جب مسیحیوں پر ایک شخص پولوس نامی آگھسا۔‘‘ پر ہی غور فرمائیں ۔اس جملہ کا لطف وہی لوگ لے سکتے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی اصل تعلیمات سے واقف ہوں اور جنھیں علم ہو کہ پولوس نے ان تعلیمات میں کس قدر تحریف کی اور اسے کیا سے کیا بنا دیا۔
انشائے ماجدی
”ظہو ر اسلام سے قبل دنیا کی بے شمار گمراہیوں میں سے ایک اہم گمرا ہی سمت پرستی تھی یعنی بے جان دیوتا ؤں، دیویوں،مور تیوں پتھروں، درختوں ،پہاڑوں، دریاؤں کے علاوہ خود سمتوں یا جہتوں کی بھی پرستش جاری ہوگئی تھی اورمختلف جاہلی قوموں نے یہ اعتقاد جما لیا تھا کہ فلاں مخصوص سمت مثلاً مشرق مقدّس ہے اور فلاں متعین جہت مثلاً مغرب قابلِ پرستش ہے۔قرآن مجید یہاں شرک کی اسی صورت خاص کی تردید کر رہا ہے اور ارشاد کر رہا ہے کہ کسی جہت میں کیا تقدّس رکھا ہوا ہے اور کوئی سمت بحیثیت سمت، ہر گز قابل تقدیس نہیں، طاعت (اَلبِرّ) سے اس کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے حضرات ِمفسرین کو اس آیت میں جو اشکال نظر آیا وہ محض اس لئے کہ مذاہبِ غیر کی اس گمراہی پر ان کی نظرنہ تھی۔ اسلام نے ظاہر ہے کہ نماز کے لئے کوئی سمت بحیثیت سمت، ہر گز متعین نہیں کی ہے۔ اُس نے نہ صرف ایک متعین مکان یعنی خانہء کعبہ کو ایک مرکزی حیثیت دی ہے اور اسے قبلہء توجہ ٹھہرایا ہے خواہ وہ کسی سمت میں پڑجائے ۔چنانچہ مشاہدہ ہے کہ کعبہ مصر و طرابلس و حبشہ سے مشرق میں پڑتا ہے، ہندستان، افغانستان اور چین سے مغرب میں، شام و فلسطین مدینہ سے جنوب میں اور یمن اور بحر قلزم کے جنوبی ساحلوں سے شمال میں ۔اور بہت سے مقامات سے ان مختلف سمتوں کے مختلف گوشوں میں۔یہ حقیقت پیش ِنظر رہے تو یہ اشکال از خود رفع ہو جاتا ہے اور مختلف تاویلوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔
اَلمَشرِق سورج دیوتا دنیائے شرک کا معبودِ اعظم رہا ہے ۔مشرک قوموں نے اس کی پرستش بڑی کثر ت سے کی اور یہ چونکہ مشرق سے طلوع ہوتا ہےاس لئے عموماً جاہلی قوموں نے مشرق کو بھی مقدس سمجھ لیا اور عبادت کے لئے مشرق رُخی اختیار کر لی ۔حضرت مسیح علیہ السلام کے چند ہی سال بعد جب مسیحیوں پر ایک شخص پولوس نامی آگھسا( جسے ایک دنیا آج سینٹ پال کے نام سے یاد کرتی ہے) اور اس نے مسیحیت کا رُخ بجائے تجدید موسویت کے ایک مستقل تثلیثی شرک کی طرف پھیر دیا، رومی اس وقت حاکم قوم تھی اور جیسے ابھی کل تک ہندوستان کے ہر شعبہء زندگی میں انگریزیت اور ’’صاحبیت ‘‘ کا بول بالا تھا، فلسطین میںمحکوموں کے دلوں میں رومی مشرکوں ہی کے علوم و فنون، تہذیب ومعاشرت، دین و عقائد کا تسلط چھایا ہوا تھا اور رومی مذہب کا ایک جزو آفتاب پرستی بھی تھا۔پولوسی مسیحیون نے جہاں اور بہت سے مشرکانہ مراسم رو میوںسے دھڑا دھڑ اخذ کر لئے وہیں اس مشرق پرستی کو کبھی ان سے لے لیا اور عبادت مشرق کی طرف رخ کرکے کرنے لگے ۔چنانچہ مسیحیوں کے گرجے آج تک مشرق رویہ چلے آتے ہیں ۔قرآن مجید نے اس مشرق رُخی پر زبر دست ضرب لگائی اور بتا دیا کہ سمت دار تقدّس تو کسی درجہ میں کبھی طاعت یا عبادت نہیں ۔
وَالمَغْرِب۔مشرق پرستی سے تو بہر حال کم اور بہت کم ،پھر بھی بہت کچھ عام اور وسیع وبا مغرب پرستی کی بھی شرک کی دنیا میں رہ چکی ہے ۔آفتاب کے طلوع و غروب پر قیاس کرکےمشرک ذہنیت نے یہ نتیجہ نکالا کہ جس طرح مصدرِ حیات سمتِ شرقی ہے، اسی طرح مستقر ّموت واجل سمت مغرب ہے اور اسی لئے یہ بھی مستحق تعظیم و تقدیس ہے۔المشرق والمغرب، یہ دونوں نام صراحت کے ساتھ صرف مثال کے طور پر لئے گئے ۔مقصود تمام سمتوں کی تعمیم ہے انہی دو سمتوں کی تحدید یا تخصیص نہیں - ‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اوّل ،صفحہ نمبر۳۱۵)

علم و کتاب

05 Jan, 18:53


اولاد
اللہ تعالیٰ نے کاتب صاحب کو سات بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ تمام بیٹے کسب ِ حلال میں مشغول ہیں اور بنیادی دنیوی ضروریات کی تکمیل کی حد تک کامیاب ہیں۔
والد گرامی ؒ سے بستر علالت میںملاقاتیں
والد گرامی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ جب بستر علالت پر تھے اُس وقت بھی کاتب صاحب عیادت کے لیے گھر تشریف لاتے، کچھ دیر بیٹھتے، پرانی باتیں چھیڑتے اور اُن کے لیے کسی حد تک فرحت ِ قلب کا سبب بنتے۔
انتقال پُر ملال
وفات سے تقریباً چار ماہ قبل وہ بیمار ہوئے اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔ بالآخر ۲۰۲۵ء کے پہلے دن سحری کے وقت وہ جوارِ رحمت میں منتقل ہوگئے۔ ظہر کی نماز کےبعد احاطۂ مولسری میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور شیخ الہند لائبریری کی مغربی سمت میں واقع ’’قبرستانِ انصاریان‘‘ میں سپردِ خاک ہوئے۔
بلاشبہ وہ ایک شریف الطبع، محنتی، امانت دار اور مخلص انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی خطاؤں کو درگزر فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے جملہ پس ماندگان بالخصوص اہلیہ محترمہ کو صبر جمیل بخشے۔ آمین

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

05 Jan, 18:53


ایک فنکار اور محنتی شخصیت
جناب مولانا کاتب اسرار احمد قاسمی ؒ


بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

https://telegram.me/ilmokitab

یکم جنوری کی صبح
مؤرخہ یکم جنوری ۲۰۲۵ء کی صبح وفات کی دو خبریں موصول ہوئیں، ایک تو شہر سہارنپور کی ادبی و صحافتی شناخت رکھنے والے جناب شبیر شاد صاحب کی اچانک رحلت کی خبر آئی جن سے مجھے تھوڑی بہت مناسبت سوشل میڈیا پر اُن کی معتدل تحریروں کی وجہ سے تھی، جب کہ دوسری خبر دیوبند میں سالہا سال سے مقیم ، والد مرحوم کے ہم عصر اور رفیق، ایک زمانے میں ہم پیشہ و ہم مجلس، محترم جناب مولانا کاتب اسرار احمد قاسمی گورکھپوریؒ کی جوارِ رحمت میں منتقل ہونے کی اطلاع ملی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
کاتب اسرار صاحب
راقم نے انھیں اپنے بچپن سے جوانی تک محلّہ ابوالبرکات میں واقع ایک قدیم منزل کے بالائی حصے میں دیکھا تھا، اسی منزل میں ایک طویل زمانے تک دارالعلوم وقف کا مطبخ تھا، اسی منزل کے کچھ مکانات میں دارالعلوم وقف کے کچھ دیگر اساتذہ کا بھی قیام تھا، باہر کی جانب دارالعلوم وقف کا ایک ڈپو بھی یاد آتا ہے جہاں اساتذہ و طلبہ کو اُس زمانے میں راشن کا کچھ ضروری سامان مثلاً چینی، مٹی کا تیل وغیرہ ملتا تھا۔ یہ میرے زمانۂ ناظرہ و حفظ کی بات ہے، یعنی ۱۹۹۴- ۱۹۹۶ء کے آس پاس کی۔
والد گرامی کی زبانی ’’کاتب جی‘‘ کا لفظ بارہا سنا اور اس کی مراد کاتب اسرار صاحب ہی ہوتے تھے، کاتب صاحب سادہ مزاج شخصیت کے حامل تھے، سر پر چھوٹی سی دوپلی ٹوپی، عموماً لنگی اور کرتا، آنکھوں پر عینک، ٹھوڑی پر داڑھی۔ یہ تھے کاتب اسرار صاحب قاسمی!
مختصر تعارف
اہل خانہ سے معلوم ہوا کہ کاتب صاحب کی وفات تقریباً ۷۱؍سال کی عمر میں ہوئی، جس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کا سن ولادت ۱۹۵۳- ۱۹۵۴ء رہا ہوگا، والد مرحوم حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کا سن ولادت بھی یہی ۱۹۵۴ء ہے۔ کاتب صاحب کے اجداد میں محترم جناب مولانا عبدالعزیز صاحب علیہ الرحمہ کا ذکر ملتا ہے جو اپنے آبائی وطن گورکھپور (یوپی) سے دیوبند حصولِ تعلیم کی غرض سے آئے تھے، لیکن اُس وقت کی مشہور چیچک کی وبا کی زد میں آکر مزارِ قاسمی میں سپردِ خاک ہوئے تھے۔
کاتب اسرار صاحب کا آبائی وطن گورکھ پور ضلع کا ایک گاؤں اسوجی بازار ہے، جہاں سے وہ حصولِ علم کی خاطر مغربی یوپی آئے، مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور ضلع سہارنپور میں عربی ہفتم کی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۷۳ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی، اس کے بعد تقریباً چھ ماہ مادرِ علمی کے ایک دفتر میں ملازمت بھی کی۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد
اسی دوران دیوبند میں مشہور کاتب محترم جناب مقبول صاحب سے انھوں نے کتابت سیکھی اور پھر اسی کو ذریعۂ معاش بنا لیا۔ راقم کے والد مرحوم حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ بھی چوں کہ خطاط تھے، اور الداعی میں اُن کا تقرر بطور معاون مدیر و خطاط ہی ہوا تھا ، کاتب اسرار صاحب کے استاذ محترم جناب مقبول صاحب سے بھی والد مرحوم کے گہرے رابطے تھے شاید اسی مناسبت سے کاتب اسرار صاحب بھی اُن کے رفیق ہوگئے، جو رفاقت تاحیات رہی، بالخصوص جس زمانے میں جامع مسجد میں دارالعلوم وقف کا نظام جاری تھا اُس وقت والد گرامی کا کاتب صاحب کے پاس آنا جانااور نشست و برخاست بہ کثرت ہوتی۔
دیوبند میں اسکرین پرنٹنگ کا معتمد نام ’’شاداب پرنٹرس‘‘
کاتب اسرار صاحب نے اپنی فنی صلاحیتوں کے سبب دیوبند میں بطور کاتب ایک اچھی شناخت بنائی، وہ بہترین فن کار تھے۔ البتہ کچھ سالوں بعد ہاتھ میں کسی تکلیف کے سبب انھوں نے مجبوراً کتابت ترک کر دی، اتنے میں اُن کے بڑے فرزند برادرم مسعود صاحب ۱۹۹۲ء میں اُن کا سہارا بن گئے، جنھوں نے اسکرین پرنٹنگ کا کام سیکھا اور پھر رفتہ رفتہ دیوبند میں وہ اس حوالے سے سب سے معتمد، معیاری اور مشہور ’’اسکرین پرنٹر‘‘ ثابت ہوئے۔ کاتب صاحب نے اپنے ایک بیٹے ’’شاداب‘‘ کے نام پر اس کام کو آگے بڑھایا۔

گرافکس ڈیزائننگ
اُدھر دیوبند میں کمپیوٹر کی آمد ہوئی اور کاتب اسرار صاحب نے رفتہ رفتہ اُس پر ڈیزائننگ سیکھی۔ کورل ڈرا کی کمانڈس حل کیں اور ’’شادی کارڈ، وژٹنگ کارڈ، لیٹر پیڈ، بل بک، رسیدات، تعارف نامے، کیلنڈر‘‘ وغیرہ بڑی مہارت کے ساتھ ڈیزائن کرتے اور ان کے فرزند اسے بہترین انداز میں چھاپتے۔
دارالعلوم دیوبند و دیگر مدارس کے معتمد
کاتب اسرار صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ نہایت امانت دار اور اصول پسند تھے، چناںچہ ایک طویل زمانے تک دارالعلوم دیوبند کی اسناد، رسیدات اور نہایت اہم کاغذات وہی چھاپتے اور اس حوالے سے کبھی کوئی داغ ان کے دامن پر نہ لگا۔ بلاشبہ یہ اُن کی دیانت داری کی ایک بڑی دلیل ہے۔

علم و کتاب

05 Jan, 14:23


سنو سنو!!

مزاج کو اپنے تابع کیجیے

(ناصرالدین مظاہری)

https://telegram.me/ilmokitab

آپ نے اپنے مکان میں نئے دروازے لگوائے ہیں ،دھیان دیجیے اس وقت ان دروازوں کا مزاج کیسا ہے ؟ رفتہ رفتہ دھوپ، پانی ہوا اور مختلف لوگوں کے زیر استعمال آنے کی وجہ سے یہ دروازہ اپنا مزاج تبدیل کرتا جائے گا، دروازہ تو بڑی چیز ہے آپ اپنے تالے کو ہی دیکھ لیجیے شروع میں اس کا مزاج کچھ ہوتا ہے پھر دھیرے دھیرے بدلتا چلاجاتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ بالکل ہی بدل جاتا ہے اس سے بھی کمال کی بات یہ ہے کہ آپ اس کے بدلتے مزاج کو پڑھتے بھی ہیں سمجھتے بھی ہیں اور اسی کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں چنانچہ مکمل طور پر مزاج کے تبدیل ہونے کے بعد اگر آپ کسی اجنبی کو چابی دیدیں تو اس سے نہ تو تالہ آسانی سے کھل پاتا ہے نہ دروازہ صحیح سے بند اور کھل پاتا ہے۔

تالے اور دروازہ کے اس بدلتے مزاج سے میں نے یہ سیکھا کہ ہمارا حال بھی ہمارے جسم کی طرح ہے ہمارا مزاج ہمارے تابع ہونا چاہئے ناز نخرے اور شور شرابہ کہولت اور بچپن میں ہی اچھا لگتا ہے ذرا ذرا سی بات پر روٹھنا اور پھر اپنی ضد پوری کرانے کےئے زمین پر لوٹ جانا یہ بچوں ہی تک اچھا لگتا ہے۔

اطباء کے نزدیک مزاج کی تعریف یوں کی گئی ہے:

" وہ کیفیت جو عناصر اربعہ کے باہم ملنے سے پیدا ہوتی ہے، جب یہ عناصر ٰآپس میں ملتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کی کیفیت گرمی و سردی اور خشکی و تری کے باہم ملنے سے اور ان کے فعل و افعال سے ان کی تیزی دور ہو جاتی ہے اور ایک نئی متوسط کیفیت پیدا ہو جاتی ہے یہی مزاج ہے"

بچپن اور لڑکپن کا مزاج اور ہوتا ہے جوانی اور بڑھاپے کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ، سورج چاند کا طلوع وغروب ، آسمان کی بدلتی رنگت، زمین کی گردشیں، حالات کی تبدیلیاں، سمندروں کا تموج ، ہواؤں کی رفتار، فصلوں کی تبدیلیاں ، کھیتوں اور جنگلوں کی ہریالیاں ، شہروں اور بستیوں کی گرتی بنتی اور آسمان کو چھوتی عمارتیں یہ ساری چیزیں گواہی دیتی ہیں کہ ساری ہی چیزیں بدلتی رہتی ہیں ، پہاڑ کھسکتے رہتے ہیں ، ویران جگہیں آباد اور آباد شہر ویران ہوتے رہتے ہیں ان چیزوں سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے کہ ہم بھی خود کو بدلیں ، برے ہیں تو نیک بنیں ، غلطیوں کو سدھاریں ، غلط کاریوں سے بچیں ، حالات سے سیکھیں ، اٹل ذات تو صرف اللہ کی ہے وہی ہے جس نے یہ کائنات سجائی ہے وہی ہے جو اس کائنات کا خالق ومالک ہے اٹل ہونا اسی کو زیب دیتا ہے۔
آپ بڑے طنطنہ کے ساتھ کہتے نظر آتے ہیں کہ میرا مزاج ایسا ہے یہ طنطنہ اور یہ غرہ ریت کے ذرات سے بھی کم حقیقت کے حامل ہیں آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک حالات سے لڑنا حالات سے جوجھنا اور حالات سے سیکھنا نہ چاہیں گے۔

طارق قمر جیسا شاعر چیخا:

مزاج اپنا ملا ہی نہیں زمانے سے
نہ میں ہوا کبھی اس کا نہ یہ زمانہ مرا

یہی چیز ناکامی کی بنیاد ہے ، کیا آپ نے شیخ سعدی کا فرمان نہیں سنا :

نیاموزد بہایم از تو گفتار
تو خاموشى بیاموز از بہائم

چوپائے (جانور)تجھ سے گفتگو کاہنر نہیں سیکھ سکتے تو پھر تو ایک کام کر کہ جانوروں سے تو خاموش رہنے کا فن اور ہنر سیکھ لے۔

ہمارا بھی کیا مزاج اور کیا حیثیت ، کیا پسند اور کیا ناپسند ، وقت آنے پر انسان کو اپنے مزاج کی خلاف ورزی کرنے میں ہی اپنی عافیت بلکہ عاقبت محسوس ہوتی ہے ، مثلا آپ کو میٹھا بہت پسند ہے لیکن ڈاکٹروں نے اگر کہہ دیا کہ تجھے شوگر ہے اس لئے تمام تر شیرینیوں سے بچنا ہے تو اب اس شخص کو مزاج کی خلاف ورزی کرنے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے ، آپ کا مزاج آپ کے تابع ہو جائے تو سمجھو کہ زندگی کا لطف حاصل ہوگیا اور آپ مزاج کے تابع رہے تو سمجھو کہ قدم قدم پر آپ کو ٹینشنوں ، الجھنوں ، خلاف مزاج واقعات اور مواقع پیش آئیں گے اور اس طرح آپ بہت جلد اپنے ہی گردوپیش میں چڑچڑے ، بد اخلاق ، بد مزاج مشہور ہوکر عضو معطل بن جائیں گے۔ آپ کو گوشت پسند ہے لیکن بعض حالات ایسے آجاتے ہیں کہ آپ کو اپنی پسند کو قربان کرنے میں ہی لطف ولذت ملتی یے۔

عبدالہادی کاوش کو کہنے دیجیے:

مزاج یار کا عالم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
دل مجروح کا مرہم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

نرالی شان ہے ہر آن ہر پل میرے دلبر کی
مثال شعلہ یا شبنم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

کوئی سمجھے تو کیا سمجھے کوئی جانے تو کیا جانے
بدلتا رنگ ہے پیہم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

آپ کبھی کوئی کام اپنے والدین ،اپنے اساتذہ اپنے بڑوں ، اپنے بزرگوں اور مخلص ساتھیوں کے مزاج کے مطابق بھی عمل کرکے دیکھیں سچ کہتا ہوں بالکل نئے پرکیف اور کیف آور تجربہ سے سابقہ پڑے گا۔

مزاج اپنا کچھ ایسا بنالیا میں نے
کسی نے جو بھی کہا، مسکرادیا میں نے

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

05 Jan, 12:41


*ذات پات کا جنون اور اسلام*
نجم الدین انبہٹوی

https://telegram.me/ilmokitab

آج ہمارے معاشرے میں ذات پات برادری کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہر صاحب بصیرت مؤمن دکھی ہوتا ہوگا۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ عوام وخواص سب برادری اور ذات پات کی اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ تفریق میں مبتلا ہو گئے. علماء کا طبقہ جن سے امید تھی کہ وہ عوام کو اس لعنت کے بارے میں متنبہ کریں گے وہ خود بھی اس مرض میں سر سے پیر تک ملوث پائے گئے.
ہمارے مدارس میں اس مرض نے جو طوفان بدتمیزی برپا کیا اسکی مثال زمانہ ماضی کے جہلا میں سننے کو ملتی تھی
پہلے اس تعصب کی بناء پر مدارس مساجد قائم کئے جاتے ہیں پھر اسی بنیاد پر انمیں تقرر ہوتا ہے علاوہ ازیں برادری کے نام پر تنظیمیں بنائیں جاتیں ہیں اور کبھی تو حد سے آگے بڑھ کر اسکا نام بھی برادری کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے
بڑے مدارس بھی اس فتنے سے محفوظ نہیں انکے بارے میں یہاں تک سننے کو آیا کہ وہاں تقرر کے لئے وجہ ترجیح برادری ہے۔ افسوس صد افسوس
ہمارے مدرسوں میں ہونے والے جلسوں کے اشتہارات ہوں یا اسٹیج کیا مجال ہماری برادری سے باہر کا کوئی فرد ہو۔
بعض علماء تو اپنے نام کے ساتھ گور، رانا، گوجر، علوی، سلمانی، سیفی ،انصاری ،عباسی وغیرہ کے ذریعے تعارف کرانا ضروری سمجھتے ہیں
اپنے اس عمل سے ہم اپنی نسل کی کیا ذہنی تربیت کررہے ہیں؟
۔اے علمائے کرام اللہ کے واسطے اس پر توجہ دیں۔
میں نے اپنے جد امجد حضرت مولانا عظیم الدین انبہٹوی رح کو یہ کہتے ہوئے بار بار سنا ہے کہ یہ برادری کا بھوت ہمیں جہنم کے گڑھے میں ڈال کر رہے گا۔
اگر انکے اس ملفوظ کو حقیقت کے ترازو میں تولا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم اس بیماری کی وجہ نہ جانے کیسی کیسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔
حالانکہ ہم اس مذہب کے پیرو کار ہیں، اس نبی کے نام لیوا ہیں جنہوں اس پر بہت سختی سے قدغن لگائی تھی اور اس عالمگیر گمراہی کی اصلاح کی جس سے دنیا میں ہمیشہ گمراہی پھیلی ہے اور جس سے ظلم و زیادتی کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں۔ وہ یہی موذی مرض تھا نسلی، قومی، وطنی، لسانی اور رنگ کا تعصب۔ قدیم زمانے سے انسانوں نے انسانیت کو چھوڑ کر اپنے اردگرد کچھ دائرے کھینچے ہیں جن کے اندر بسنے والوں کو اس نے اپنا اور باہر والوں کو بیگانہ سمجھا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی یا اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقیہ پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ مثلا، ایک قبیلے یا خاندان میں پیدا ہونا۔ کسی خاص خطہ زمین پر پیدا ہونا، کوئی خاص زبان بولنا، کسی خاص رنگ و نسل سے متعلق ہونا وغیرہ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی اگر اس میں صرف یہ ہوتا کہ اپنوں سے نسبتاً زیادہ محبت ہوتی، ان سے زیادہ ہمدردی ہوتی، ان سے زیادہ حسن سلوک کیا جاتا تو بات بری نہ تھی۔ مگر اس تمیز نے دوسروں سے نفرت، عداوت، تحقیرو تذلیل کی بدترین صورتیں اختیار کیں۔ اس کے لئے فلسفے گھڑے گئے، مذہب ایجاد ہوئے، قوانین بنائے گئے، اخلاقی اصول وضع کئے گئے، قوموں اور سلطنتوں کی اس پر بنیاد رکھی گئی، صدیوں تک اس پر عمل ہوا اور ہو رہا ہے۔ چنانچہ یہودیوں نے اسی بناء پر بنی اسرائیل کو خدا کی برگزیدہ مخلوق ٹھہرایا۔ اور مذہبی معاملات تک میں دوسری قوموں کو اپنی قوم سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں درم آشرم کو اسی خیال نے جنم دیا، جس کی رو سے برہمنوں کو باقی قوموں پر برتری حاصل ہوئی۔ اونچی ذا ت والوں کے مقابلے میں تمام انسان ہیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے۔ شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔
یاد رکھیں ہمارے معاشرے میں جو کچھ چل رہا ہے اسکے بہت خطرناک نتائج ہوسکتےہیں
قرآن کہتاہے
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ
لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (سورۃ الحجرات: 13)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﻨﺎﺱ، ﺃﻻ ﺇﻥ ﺭﺑﻜﻢ ﻭاﺣﺪ، ﻭﺇﻥ ﺃﺑﺎﻛﻢ ﻭاﺣﺪ، ﺃﻻ ﻻ ﻓﻀﻞ ﻟﻌﺮﺑﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﺠﻤﻲ ، ﻭﻻ ﻟﻌﺠﻤﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﺮﺑﻲ، ﻭﻻ ﺃﺣﻤﺮ ﻋﻠﻰ ﺃﺳﻮﺩ، ﻭﻻ ﺃﺳﻮﺩ ﻋﻠﻰ ﺃﺣﻤﺮ، ﺇﻻ ﺑﺎﻟﺘﻘﻮﻯ
لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ (آدم) ایک ہے. سنو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے. کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،سوائے تقوی کے. (مسند احمد: 23489 صحيح)

علم و کتاب

05 Jan, 12:41


اس کے علاوہ بہت بڑا ذخیرہ ہے اس عنوان پر۔ یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک محدود نہیں رہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر دی جس میں رنگ ونسل‘ زبان‘ وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہ تھی جس میں اونچ نیچ‘ چھوت چھات اور تفریق وتعصب کا کوئی تصور نہ تھا۔ جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ کسی نسل وقوم اور ملک ووطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرہ میں عملی طور پر تشکیل دیا گیا ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام نے پیش نہ کی۔ صرف اسلام وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

05 Jan, 03:46


کچھ سہیل وحید کے بارے میں

معصوم مرادآبادی

https://telegram.me/ilmokitab

اپنے لائق دوست سہیل وحید کا قصہ شروع کرنے سے پہلے اردو کے البیلے ادیب اور صحافی ظ۔ انصاری کا ذکر کرنا چاہوں گا، جن سے میں نے ایک باربمبئی میں ان کے نام کا پس منظرمعلوم کیا توانھوں نے دلچسپ جواب دیاتھا ”بھائی میرا اصل نام’ظل حسنین زیدی‘ہے اور میں سہارنپور کے’محلہ انصاریان‘ میں پیدا ہوا تھا۔ جب لکھنا لکھانا شروع کیا تو مجھے اپنا نام غیرشاعرانہ محسوس ہوا، لہٰذا میں نے اپنے نام کے پہلے لفظ ’ظ‘ کے ساتھ محلہ انصاریان کی مناسبت سے ’ظ۔ انصاری‘ لکھنا شروع کردیا اور یہی میری شناخت بن گیا۔“ حالانکہ اس واقعہ کا کوئی تعلق سہیل وحید سے نہیں ہے۔ نہ تو ان کے نام میں ’ظ‘ ہے اور نہ ہی سیتا پور کے اس محلہ کا نام انصاریان ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ دہلی سے بچھڑنے کے برسوں بعدجب لکھنؤ کے محکمہ اطلاعات میں ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی نیم پلیٹ دیکھ کر ضرورت تعجب ہوا تھا۔ اس پر لکھا تھا ”سہیل وحید انصاری“۔ اس نیم پلیٹ کو دیکھ کر ہمیں ان کے کمرے میں داخل ہونے پر کچھ تامل تھا،لہٰذا ہم نے انھیں باہر کھڑے ہوکر ایک بار پھر فون کیا کہ یہ تو کسی انصاری صاحب کا کمرہ ہے، کہیں ہم غلط جگہ تو نہیں آگئے۔ اس پر انھوں نے اپنے مخصوص لکھنوی لہجے میں کہا کہ ”اماں، یہی ہے۔اندرآجاؤ، چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔“ کمرے میں داخل ہوکر ہم نے ان کا جائزہ لیا کیونکہ دہلی کے زمانہ طالب علمی میں ان سے جب ملاقاتیں ہوتی تھیں تو انھوں نے اپنی اس نسبت کو چھپائے رکھا تھا۔
ہمیں ان کی نیم پلیٹ دیکھ کر ایک واقعہ یاد آیا۔ جس زمانے میں ہم ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ میں کام کررہے تھے تو میرٹھ میں خوفناک فساد برپا ہوگیا۔فسادزدگان کی مدد کے لیے ایک ریلیف فنڈ قایم کیا گیا اور قارئین سے تعاون کی اپیل کی گئی۔ یہ اپیل اتنی کارگر ہوئی کہ بھدوہی سے اخبار کے ایک قاری نے ایک لاکھ روپے کا ڈرافٹ بھیجا۔ڈرافٹ بھیجنے والے نے یہ تاکید کی تھی کہ”میرا نام اخبار میں نہ چھاپا جائے۔“ اس ہدایت کے مطابق ہم نے ایک اخباری نوٹ میں لکھا کہ ”نئی دنیا کے ایک ’قاری‘نے ایک لاکھ کا روپے کا ڈرافٹ بھیجا ہے، اس سے دیگر لوگ بھی تحریک حاصل کریں۔“ اس پر ڈرافٹ بھیجنے والے نے ناراضگی سے بھرا خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ ”میں نے آپ سے نام نہ چھاپنے کی التجا کیا تھی مگر آپ نے میرا نام چھاپ دیا اور مجھے ’قاری‘ لکھا ہے جبکہ میں ’انصاری‘ہوں۔
خیر یہ تو ایک تمہید تھی جو زیب داستاں کے لیے لکھی گئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دوست سہیل وحید بڑی لائق وفائق شخصیت کے مالک ہیں۔اردو میں ایسے لکھاریوں کی تعداد بہت کم ہے جو اردو سے زیادہ ہندی ادب و صحافت میں بھی عمل دخل رکھتے ہوں ۔انھوں نے ’آؤٹ لک‘ اور’نوبھارت ٹائمز‘جیسے بڑے ہندی اخبارات و جرائد میں سلگتے ہوئے مسلم مسائل پر لکھ کر داد وتحسین وصول کی ہے۔ہندی والوں میں ان کا جلوہ اردو سے زیادہ ہے۔ اردو میں یوں بھی لوگ اپنے سوا کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم سہیل وحید کی صلاحیتوں کے اس لئے قائل نہیں ہیں کہ ہم جب کبھی لکھنؤ جاتے ہیں تو وہ ہماری تواضع میں بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور چوک کی اس تنگ وتاریک گلی میں جانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے، جہاں ٹنڈے کبابی کی اصل دکان ہے۔ یہاں ایک بار صفدر امام قادری کے ساتھ مل کر ہم نے ان کی خاصی جیب ڈھیلی کرادی تھی۔
سہیل وحیدسے ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں اردو پڑھ رہے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ یونیورسٹیز کے اردو شعبوں میں اردو کے علاوہ سب کچھ پڑھایا جاتا ہے، لیکن سہیل وحید کی خوبی یہ تھی کہ وہ پڑھنے لکھنے میں بڑے چاق وچوبند تھے اور انھوں نے پروفیسر قمررئیس کی سرپرستی میں وہاں ادب وصحافت کا خاصا گیان حاصل کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی پہلی کتاب ’صحافتی زبان‘ شائع ہوئی تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہ دراصل ان کا تحقیقی مقالہ تھا جو انھوں نے پروفیسر قمررئیس کی نگرانی میں مکمل کیا تھا اور غالباً اردو صحافت میں زبان کے استعمال سے متعلق پہلی کتاب تھی جو جنوری 1996 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی پہلی اشاعت کمپیوٹر کی کمپوزنگ سے ہوئی تھی، لیکن اشاعت میں تاخیر کے لیے انھوں نے کاتب کو ذمہ دار قراردے کر غلطیوں کی ساری ذمہ داری اس کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دی تھی۔ پہلے زمانے میں یہی ہوتا تھا کہ ادیب اپنی خامیوں کے لیے بے چارے کاتبوں کو ہی ذمہ دار قرار دیتے تھے۔انھوں نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ
”یہ کتاب ڈیڑھ برس پہلے ہی چھپ جانی چاہئے تھی۔لیکن بھلا ہو حضرت کاتب کا جنھوں نے اس کی کتابت کی۔گزشتہ ڈیڑھ برس سے ان کے لکھے ہوئے جملوں کی اصلاح کئی دوسرے کاتب کرتے رہے۔ اس کے باوجود ڈھیروں غلطیاں اس کتاب میں باقی ہیں، لیکن اب میری ہمت جواب دے چکی ہے۔کاتبوں نے بھی اردو پر کم احسان نہیں کیا۔“

علم و کتاب

05 Jan, 03:46


ظاہر ہے جب کاتب کے لکھے ہوئے کی اصلاح ایک نہیں کئی دوسرے کاتبوں سے کرائی جائے گی تو اس میں غلطیاں تو باقی رہیں گی ہی اور اس کام میں مصنف کی ہمت بھی جواب دے جائے گی،جیسا کہ سہیل وحید کی جواب دے گئی۔دراصل یہ اس دور کی بات ہے جب مصنّفین اپنی غلطیوں کا سہرا بھی کاتبوں کے سرباندھتے تھے۔اپنی غلطیوں کا دوش سہیل وحید کسی کاتب کے سرنہیں ڈال سکتے۔انھیں ان غلطیوں کی ذمہ داری تو بہرحال قبول کرنی ہی ہوگی۔اس طرح کی غلطیاں ہر کتاب میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے کاتب سے زیادہ خود صاحب کتاب ذمہ دار ہوتا ہے ۔
صحافت کے فن سے انھیں ہمیشہ لگاؤ رہا ہے۔ انھوں نے اپنا ایم فل کا مقالہ بھی”عصری اردو صحافت“ کے موضوع پر لکھا تھا۔
سہیل وحید کی ایک خاص ادا یہ ہے کہ انھوں نے پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود اپنے نام کے ساتھ کبھی ’ڈاکٹر‘ کا لاحقہ استعمال نہیں کیا۔وہ بھی ایک ایسے دور میں جب اردو ادب کے مریض بھی اپنے نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ انھیں اندیشہ تھا کہ کہیں لوگ واقعی ’ڈاکٹر‘ سمجھ کر انھیں اپنی نبض دکھانا شروع نہ کردیں۔ سہیل وحید کا پہلا عشق صحافت تھا اور انھوں نے اس میں کمال بھی حاصل کیا۔ وہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں کی صحافت میں مہارت رکھتے ہیں۔ان کا پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہیں بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنا کیریر 1987میں روزنامہ ’قومی آواز‘ سے شروع کیا تھا،جہاں انھیں اپنے عہد کے جید صحافیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد وہ ہندی کے سب سے بڑے اخبار ’نوبھارت ٹائمز‘ سے جڑے۔ پھر وہ ریڈیو جرمنی کی اردو نشریات سے وابستہ ہوکر جرمنی چلے گئے اور وہاں سے خاصے صاف ستھرے ہوکر واپس آئے۔ بعدازاں وہ اترپردیش حکومت کے محکمہ اطلاعات میں آگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی جگہ ان کا دل نہیں لگااور ہر چیز میں کچھ نہ کچھ کمی کا احساس انھیں ستاتا رہا۔انھیں دیکھ کر مجھے اکثر شہریار کا یہ شعر یاد آتا ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
سہیل وحید کی ادبی صلاحیتوں اور مدیرانہ چابک دستی کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب انھوں نے یوپی حکومت کے ادبی جریدے ماہنامہ ”نیا دور“ کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ان کی ادارت میں ’نیادور‘ میں جو نیا پن ہمیں محسوس ہوا، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ " نیادور " واقعی نئے دور کا ترجمان بن گیا تھا۔
انھوں نے نہ صرف ادارتی سطح پر اس کا معیار بلندکیا بلکہ طباعت کے معاملے میں بھی اسے یکتا بنادیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کسی سرکاری جریدے کا مدیر فن کارانہ صلاحیتوں کا حامل ہو تو وہ اس میں بھی چارچاند لگاسکتا ہے۔ مگر ان کی یہ ادا لوگوں کو پسند نہیں آئی اور لکھنو کی ادبی سیاست کا شکار ہوئے۔جلدہی وہاں سے ان کا تبادلہ کرادیا گیا۔اس دوران انھوں نے کئی خصوصی شمارے بھی شائع کئے، جو ان کی صلاحیتوں کے گواہ ہیں۔اس میں ایک خصوصی شمارہ ’لکھنؤ کی عزاداری‘پر بھی تھا، مگر وہ بھی ان کے کام نہ آسکا۔
سہیل وحید کی ایک اور خوبی ہمیں عزیز ہے اور وہ ہے بڑے بڑے خواب دیکھنا۔ وہ ہمیشہ اونچی منصوبہ بندی کرتے ہیں، لیکن مور کی طرح اپنے پاؤں دیکھ کر شرمندہ ہوجاتے ہیں۔انھوں نے فکشن میں بھی زورآزمائی کی ہے۔ان کی کہانیوں کے مجموعہ ’پرستش برق کی“ کے تین اڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔جرمنی کے سفرنامے پر مبنی ان کی کتاب ’یادوں کی بارات‘ بھی شائع ہوچکی ہے(اس کتاب کا کوئی تعلق جوش کی آپ بیتی سے نہیں ہے)۔’شموئل احمد کی تخلیقات‘کے عنوان سے ان کی ایک کتاب گزشتہ سال منظرعام پرآئی تھی۔وہ بیک وقت اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں لکھنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ ’مسلم معاشرے میں ذات پات کی تفریق‘ ان کا خاص موضوع ہے، جس پر وہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں کافی ماتھا پچی کرچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس تفریق اور تعصب میں کوئی کمی واقع نہیں کرپائے ہیں ۔ خدا انھیں ہمیشہ خوش رکھے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Jan, 18:34


دوسرا نام میرے استاذ گرامی حضرت مولانا جعفر صاحب کا ہے، ان سے متعلق بھی دورہ حدیث کا سبق رہا ہے، ممکن ہے کہ ان کا نام اس لیے شامل نہ کیا گیا ہو کہ وہ غالباً مستقل استاذ نہ تھے بلکہ معین مدرس کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے.

بہرحال! چونکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو آگے چل کر دارالعلوم وقف کے ہر قدیم و جدید فاضل کے لیے ایک اہم مرجع ہوگی اس لیے ہر اس شخص کا ذکر اور اسناد ضروری معلوم ہوتے ہیں جنھوں نے کبھی بھی دورۂ حدیث کا درس دیا ہو. مجھے امید ہے کہ یہ کمیاں آئندہ ایڈیشن میں درست کر لی جائیں گی، مشمولات کی اہمیت، اسناد کی صحت وغیرہ تسلیم، لیکن اگر اگلے ایڈیشن سے قبل کتاب کی زبان و انداز بیان پر بھی گہری نظر کرا لی جائے تو یقیناً اس کی افادیت اور مقبولیت میں اضافہ ہوگا. ان شاء اللہ. وما ذلک علی اللہ بعزيز

بلاشبہ مصنف کتاب سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد منظر عام پر آنے والی اس کتاب کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے تاکہ وہ کتابوں کے درمیان رہ کر نسل نو کے لیے اس طرح کے مختلف الانواع علمی گلدستے تیار کر سکیں جن کی خوشبو سالہا سال بلکہ نسلاً بعد نسلٍ باقی رہنے والی ہے. و ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء

کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں. مولانا انعام الحق قاسمی، ناظم کتب خانہ دارالعلوم وقف دیوبند
9997711132

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Jan, 18:34


تذکرہ و اسناد حدیث : مشائخ دارالعلوم وقف دیوبند
کتاب اور صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف

تحریر: بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

https://telegram.me/ilmokitab

خوش نصیب ہیں وہ ادارے اور درس گاہیں جنھیں علوم و فنون کی ماہر شخصیات کی خدمات میسر آئیں، خلوص و للہیت سے پُر جن کی حیات مستعار کا ہر ہر گوشہ نسل نو کے لیے مشعل راہ بنے، وفا شعاری اور فنائیت جن کی پہچان ہو اور مشکل سے مشکل حالات میں صبر و قناعت اور زباں پر کلمات شکر جن کا امتیاز ہو. بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے دارالعلوم وقف دیوبند کو ایسے ماہرین، جہاں دیدہ، تجربہ کار اور اعلی ترین نسبتوں کے حامل افراد کی ایک کہکشاں 22 مارچ 1982ء کی اُس صبح سے ہی عطا فرمائی جو جملہ وابستگانِ دیوبند کے لیے نہایت کرب انگیز اور افسوسناک تھی.
کاروانِ حکیم الاسلام کے یہ 85 افراد ہی در اصل دارالعلوم وقف کی بنیاد تھے، جس قافلے کا ہر ہر فرد اس کی بنا میں شریک رہا، جس نے اپنی اپنی صلاحیتوں کو ایسے ادارے کے لیے وقف کر دیا جس کا مستقبل اس وقت موہوم، حالات سخت ترین، بدگمانی اور الزام تراشی کا دور دورہ، نہ عمارت، نہ چھت، نہ چٹائیاں اور نہ تپائیاں، لیکن انھوں نے وفا شعاری اور اخلاص و للہیت کی وہ مثال قائم کی جسے ماضی قریب میں چشم فلک نے نہ دیکھا تھا. ان کا سارا سرمایہ توکل علی اللہ اور قاسمی، شاہی و عثمانی خانوادے کی عظیم نسبی و علمی نسبتیں تھیں.
دیوبند کی مرکزی جامع مسجد میں کئی سالوں تک حالات کا شکار رہے اس ادارے کے حالات قدرے بہتر ہونے کو ہوئے تو ایک قیامت اور ٹوٹی کہ جامع مسجد سے انخلاء، پھر چند ماہ اس بے سر و سامانی میں بھی گزرے کہ خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی، فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خورشید عالم دیوبندی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندی، شارح ہدایہ حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی، درویش صفت حضرت علامہ حسن باندوی، والد گرامی شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہم الرحمہ جیسے جبال علم نے صبر و استقامت اور عزم و حوصلے کی وہ مثال قائم کہ کچھ درسگاہیں ظہیر منزل میں، کچھ طیب منزل میں، بعض کا نظم آدینی مسجد میں تو کوئی جماعت عثمانی مسجد کے صحن میں.
تاریخ دیوبند میں 24 جون 1994ء کا دن بھی ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہیے جب یہ بے سہارا قافلہ بارہ سالوں تک ادھر ادھر بھٹکتے ہوئے اور ابتلاء و آزمائش کے موقع پر عزم و حوصلے کی داستان رقم کرتے ہوئے بالآخر ایک وسیع و عریض زمین پر فروکش ہوا اور یہاں علماء، صلحاء، دانشوران قوم و ملت اور جاں نثارانِ حکیم الاسلام نے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی کو دارالحدیث کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے دیکھا.
اپنی زمین پر ہونے کے بعد مسائل کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا، بس آزمائش کی نوعیتیں تبدیل ہو گئی تھیں، دارالعلوم وقف کو "مکتب" کا طعنہ دینے والوں کی زبان پر اب "جنگل، وادئ غیر ذی زرع، ریلوے پلیٹ فارم، بریکٹ والا مدرسہ" وغیرہ جیسے الفاظ جاری تھے، اسباب و وسائل کی قلت اور بشری تقاضوں کے تحت ہونے والی ذرا ذرا سی بد نظمی یا خطاؤں کو ملی و سماجی گناہ بنا کر پیش کیا جاتا. لیکن سلام ہے ان جبالِ استقامت پر کہ انھوں نے سب کچھ جھیلا، مصائب و آلام کو جیا، طعنے برداشت کیے اور بفضل الہی سال بہ سال یہ مسائل رفتہ رفتہ کم ہوتے گئے. طلبۂ عزیز کے لیے مسائل دوسری نوعیت کے ہوتے، رہائش گاہ کی کمی اور امدادی داخلے محدود، جہاں ضروریات کی تکمیل نہ ہو وہاں سہولیات کا کیا گزر!!! ایسے مشکل ترین حالات میں ان کا سرمایہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور توکل و قناعت کے بعد فقط اپنے عظیم ترین اساتذۂ کرام اور مشائخ حدیث کی اعلی ترین نسبتیں، ان کی ارفع و عالی اسناد تھیں جن کے حصول کے لیے انھیں ہر سرد و گرم نشیب و فراز برداشت تھا.

مجھے یاد پڑتا ہے، غالباً 2006/2007 میں راقم کا عربی ششم کا سال تھا، ادارے کے قدیم رکن حاجی اسعد صدیقی لائبریری کی ترتیب و تکمیل اور انتقالِ کتب میں شبانہ روز مصروف تھے، پھر آئندہ تعلیمی سال کے آغاز پر فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کی وہ آخری اجتماعی گفتگو سننے کو ملی جو اسی لائبریری "المکتبۃ القاسمیہ" کے افتتاح کے موقع پر ہوئی تھی، جس میں بیماری کے آثار ان کے جسم اور خطاب میں نمایاں ہو رہے تھے. بہر حال لائبریری کا نظام شروع ہو گیا، کچھ ماہ بعد ہمیں حاجی اسعد صاحب کے معاون کے طور پر ایک نئے فاضل مولوی انعام الحق لائبریری میں نظر آئے، جن کا وطنی تعلق راقم کے آبائی صوبے جھارکھنڈ سے تھا، خاموش صفت، مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں منہمک، انھوں نے ادارے میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی اور رفتہ رفتہ طلبہ و اساتذہ انھیں "صوفی انعام" کہنے لگے.

علم و کتاب

04 Jan, 18:34


والد مرحوم شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی سوانح "کیا شخص زمانے سے اٹھا" کی دوسری جلد میں شائع مضمون میں مولانا انعام الحق صاحب نے لکھا ہے کہ جب وہ دارالعلوم وقف میں تقرری کے بعد ان سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو والد مرحوم نے انھیں نصیحت کی تھی :
"کتب خانہ کتابوں کے درمیان علمی مشغلہ جاری رکھنے کی بہترین جگہ ہے. "
شاید اسی نصیحت نے ان کے پڑھنے لکھنے کے ذوق کو مہمیز کیا اور وہ ہزاروں کتابوں کے درمیان استفادے اور حاصل مطالعہ یا حاصل گفتگو کی جمع و ترتیب وغیرہ میں مصروف ہو گئے.
کچھ سالوں پہلے حاجی اسعد صاحب ادارے سے علاحدہ ہوئے تو لائبریری کی مکمل ذمہ داریاں مولانا انعام پر ہی آ گئی،
انھوں نے کتابوں کی ترتیب، تنظیم، فن کے اعتبار سے جملہ کتابوں کی فہرست سازی وغیرہ کو بہت ہی سلیقے سے انجام دیا، مستفیدین کی سہولت کے لیے نظام کو اپڈیٹ یعنی کمپیوٹرائزڈ کرنے کا وقت آیا تو خود کمپیوٹر سیکھا، اور ہزارہا کتب کا اندراج کر ڈالا، انتظامیہ نے قدیم ترین مخطوطات اور نایاب کتب کو محفوظ کرنے کا ارادہ کیا تو عمدہ انداز میں صفحہ بہ صفحہ کتابوں کو اسکین کر کے محفوظ بھی کیا، اس دوران مستقل مہمانوں کا ورود ہوتا تو خندہ پیشانی سے سب سے ملاقاتیں، مزاج پرسی اور اگر دارالعلوم وقف کے فیض یافتہ ہوں تو سن فراغت اور دورہ حدیث کے اساتذہ کی تفصیلات بھی معلوم کر کے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کرتے. چناں چہ رفتہ رفتہ انھوں نے محافظ خانے، دفتر تعلیمات کے تمام تر ریکارڈ اور سینکڑوں فضلاء سے رابطہ کر کر کے مشائخ دارالعلوم وقف پر اچھا خاصا مواد محفوظ کر لیا جو آج ہمارے سامنے "تذکرہ و اسناد حدیث مشائخ دارالعلوم وقف دیوبند" کے نام سے موجود ہے.

320 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں قیام دارالعلوم وقف دیوبند سے تا حال اساتذۂ دورۂ حدیث کا مختصر تعارف اور ان کی جملہ متداول کتبِ حدیث کی اسناد کو مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بیان کیا گیا ہے.
سرورق کی پیشانی پر عبد اللہ ابن المبارک کا یہ قول "الإسناد من الدین و لو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء" اور کتاب میں مصنف کا 17 صفحات پر مشتمل تفصیلی مقدمہ دین میں سند حدیث کی اہمیت کو شاندار انداز میں بیاں کرتا ہے.
کتاب پر حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی، حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی اور برادر محترم جناب مولانا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی کی تائیدات اسے اعتبار بخشتی ہیں.

کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں دارالعلوم وقف کے ان 14 مشائخ حدیث کا تذکرہ اور سندیں ہیں جو جوار رحمت میں منتقل ہو چکے ہیں. ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی، فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خورشید عالم دیوبندی، حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندی، حضرت مولانا مفتی سید احمد علی سعید بجنوری، حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی، حضرت علامہ رفیق احمد بھیسانوی، حضرت مولانا مفتی محمد واصف صاحب دیوبندی، حضرت علامہ سید حسن باندوی، والد گرامی شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی، حضرت مولانا محمد حنیف صاحب مظفرنگری، امام الفرائض حضرت مولانا مفتی انوار الحق صاحب دربھنگوی اور بحر العلوم حضرت مولانا غلام نبی کشمیری علیھم الرحمہ

دوسرے باب میں موجودہ 12 اساتذۂ کرام کا تذکرہ ہیں جو دورہ حدیث وغیرہ میں احادیث کی متداول کتب کا درس دے رہے ہیں.

تیسرے باب میں سال رواں (1445-1446ھ) کے اساتذہ کی متعلقہ کتب کی سند بیان کی گئی ہے، سب سے اخیر میں مہتمم ادارہ حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی کی سند مسلسلات بھی ذکر کی گئی ہے.

صفحہ نمبر 20 پر مصنف کتاب رقم طراز ہیں :
"میں اس کتاب کو حرف آخر نہیں مانتا، یہ تو نقش اول ہے اور نقش اول میں بہت ساری کمیاں رہتی ہیں، سو اس میں بھی ہوں گی، مجھ امید ہے کہ آئندہ کوئی صاحب قلم جب اس موضوع پر کام کرنا چاہے گا تو اسے چیونٹی کے منہ سے دانہ دانہ جمع کرنے کے مراحل سے نہیں گزرنا ہوگا."

سرسری طور پر کتاب کو دیکھنے کے بعد دو تسامحات میرے سامنے بھی آئے، ایک تو شارح ہدایہ حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی کا تذکرہ شامل کتاب نہیں ہے، ممکن ہے کہ ان کی عمر کے اخیر حصے کا اعتبار کیا گیا ہو کہ سن 2000ء سے تا وفات وہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہو گئے تھے، لیکن اس پر علمی اشکال باقی رہتا ہے کہ اگر اعتبار اخیر کا ہی کیا گیا ہے تو پھر حضرت مولانا محمد حنیف صاحب مظفرنگری کا ذکر بھی کتاب میں نہیں ہونا چاہیے تھا جنھوں نے حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کے سانحہ ارتحال کے بعد دیگر مدارس میں خدمت تدریس انجام دی.

علم و کتاب

04 Jan, 17:01


سنوسنو!!

صحت کی حفاظت کیجیے

(ناصرالدین مظاہری)

https://telegram.me/ilmokitab

الترغیب والترہیب میں علامہ منذری نے ایک مشہور روایت نقل فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے
اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے
اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے
اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے
اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘

اس میں نمبر دو پر صحت کی حفاظت کا حکم ہے ، ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم نہ تو صحت کے دنوں میں اپنی صحت کے لیے فکر مند ہوتے ہیں نہ اپنے بال بچوں کی صحت کے بارے میں ہم کبھی سنجیدہ ہوتے ہیں، میں اکثر دیکھتا ہوں کہ اطباء اور علماء ہمیشہ اپنے اہل تعلق کو خوب سمجھاتے ہیں کہ بازاری چیزیں مت کھاؤ ان کا نقصان ان کے فائدوں پر بھاری ہے لیکن مجال ہے کہ ہم کان دھریں ، ہمارے بچے چیز کی ضد کرتے ہیں اور ہم بے تکلف دکان پر پہنچ کر انھیں پسند ناپسند کا اختیار سونپ دیتے ہیں کہ جو مرضی ہو اٹھا لو بچہ نہایت ہی چٹ پٹی ، اٹ پٹی اور عجیب وغریب چیزیں لے لیتا ہے ، پرچون کی دکان پر بچوں کے کھانے پینے والی تقریبا ننانوے فیصد چیزیں نہایت گھٹیا رکھی جاتی ہیں کیونکہ خریدار عموما بچے ہوتے ہیں چاکلیٹ ، ٹافیاں ، کرکرے اور دیگر چیزیں نہایت گھٹیا تیل اور چیزوں سے تیار کی جاتی ہیں معیار بڑھے گا تو خریدار گھٹیں گے اور دکانداروں کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کسی کی صحت خراب ہوتی یا کوئی بیمار ہوتا ہے ان کاحال تو یہ ہے کہ

دریاکو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کی پار ہو یا درمیاں رہے

نفع خوری اور بسیار فروختگی کے مزاج نے صحت کا بیڑہ غرق کردیا ہے ، دوسری طرف ہمارے چٹور پن نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، بریانی ، حلیم ، تیاری ، نہاری ، پائے ، قلچے، جلیبی ،رس ملائی ، لسی ، چائے وغیرہ کہاں کی مشہور ہے یہ ہم میں سے اکثر لوگ بتالیں گے لیکن نماز میں تلاوت کون سی مسجد میں زیادہ اچھی ہوتی ہے ، کس استاذ کی تعلیم زیادہ عمدہ ہے ، کس بزرگ کا فیض زیادہ عام ہے یہ بتانے والے پوروں پر نہیں انگلیوں پر بھی شمار کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ہر حکیم اور ہر ڈاکٹر نصیحت کرتے نظر آتایے کہ ملاوٹی دودھ ، ملاوٹی غذائیں آپ کے لئے زہر قاتل ہیں لیکن کون سنتا ہے ،یہ زبان بھی اتنی چٹوری ہے کہ اس کو سادی چیزیں پسند ہی نہیں آتی ہیں، مرغن ملین ملون چیزیں ہی مرغوب و مطلوب ومحمود و محبوب ہیں۔

کھانے پر کھانا کھانے کی ہماری عادت ہے ، سرد و گرم اور رطب و یابس چیزیں لپیٹنے کا ہمارا مزاج ہے ، جو کچھ بھی مل جائے سب ہضم ہے۔

انڈے کے ساتھ دسترخوان پر موجود کلفی ، دہی ، تھمس اپ اور دودھ کے ساتھ لیمو پانی بصد ذوق و شوق استعمال کرتے ہوئے بہت سوں کو آپ نے بھی دیکھا ہوگا ، جس طرح بعض دوائیں بعض دواؤں کے ساتھ نقصان دہ ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ہرقسم کی رطب و یابس خشک وتر اور گرم و بارد غذائیں بھی آپس میں مخلوط ہوکر نظام انہضام کے لئے نقصان دہ ہوجاتی ہیں۔

گرمی کے موسم میں لیمو نہایت مفید ہےلیکن سردی میں لیمو کا استعمال سوچ سمجھ کر اور اطباء سے پوچھ پاچھ کر ہی کریں۔ کیونکہ موسم کے بدلتے ہی اشیاء کا مزاج بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Jan, 16:58


"نہج الکتابۃ"
تالیف و تحقیق:محمد حسن،
ناشر:ورلڈ ویو پبلشرز لاہور،
صفحات:208، قیمت:1000 روپے ،
برائے رابطہ :03049254242
تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

https://telegram.me/ilmokitab

خطاطی دنیا کے قدیم ترین فنون میں سے ایک ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ چھاپے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ،اہلِ فن خوش نویسی و خطاطی کی بہت قدر کرتے تھے۔خوش نویسی تہذیب و شائستگی کا جزو لاینفک خیال کی جاتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں خوش نویسی سیکھنا ہر صاحبِ کمال کے لیے ضروری تھا ۔ دوسرے علوم و فنون کی طرح اس کی بھی مشق و تعلیم ہوتی تھی۔ اس کے بغیر تعلیم مکمل نہ سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ امیر اور شریف لڑکوں کے علاوہ بادشاہ اور شہزادے بھی خوش نویسی سیکھتے تھے اور اس کی مشق جاری رکھتے تھے۔
فنِ خطاطی نے خصوصاً عروجِ اسلام میں زیادہ ترقی کی۔ کوفی اور مکی خطوط اس دور کے بہترین نمونے سمجھے جاتے ہیں۔ پھر عباسی، ایوبی اور مملوک دور میں اس نے مزید عروج پایا۔ آخر میں عثمانیوں نے اس فن کو بہت نکھارا اور اسے ایک خاص ترک انداز دیا۔ اسی طرح صفوی دور میں نستعلیق خط اور دیگر مشرقی اور مغربی خطوط مشہور ہوئے۔
پیشِ نظر کتاب "نہج الکتابۃ" مبادیاتِ کتابت سے جمالیاتِ خطاطی تک فن ِ خطاطی کی تاریخ، اصول و قواعد اور اسرار و رموز کی ایک دلآویز جھلک ہے ۔اس کتاب کے مولف و محقق جناب محمد حسن سیال ہیں۔جن کا تعلق شورکوٹ (پنجاب ) سے ہے۔ محمد حسن بائیولوجیکل سائنسز کے طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ شاعراور ادیب بھی ہیں جب کہ فنِ خطاطی سے فطری مناسبت رکھتے ہیں۔فنِ خطاطی سے محبت ان کے لہو میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی سطر سطر اور ورق ورق سے ان کی اس فن سے عقیدت اور ذوق و شوق نمایاں ہے۔
فاضل محقق و مولف فنِ خطاطی سے اپنی وابستگی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : "جہاں ا س فن سے میری ذاتی وابستگی کا تعلق ہے تو یہ وابستگی کوئی حادثاتی یا اتفاقی نہیں بلکہ فطری و روحانی ہے۔البتہ اس دلچسپی کے برائے تسکین قلبی چند ایک فکری مدارج ضرور ہیں۔ جن میں ایک درجہ اس فن کے ذوق ودلچسپی کا وراثتی طور پر نسل در نسل منتقل ہونا ہے جو شے آپ کے خمیر میں شامل اور خو ن میں دوڑ رہی تو اس کے پیغام کو آپ اپنے داخل میں واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں ۔ میرے پر دادا حضرت مولانا علی محمد ؒ کی پونے سوسالہ پرانی قلمی بیاض میں نستعلیق کا نمونہ ان کے خوش خط اور خوش ذوق ہونے پر گواہ ہے۔ یہ احساس ہر ایک دیگر عملی تربیت سے مقدم ہے جہاں کسی کو اس فن کی تحصیل کے لیے فکری میلان طبع کی بجائے مشقی سرگرمیوں میں سرکھپانا اور وقت لگانا پڑتا ہے۔ مثلِ معروف ہے کہ گزرتا ہوا پانی اپنی جگہ آپ بنالیتا ہے۔ فن ِخطاطی سے میری فکری دلچسپی بھی اسی نوعیت کی ہے جو میرے ماحولیاتی اورسماجی فکری رجحان سے بے نیاز، میرے اندر جاری ساری، اپنا رستہ آپ بناتی جارہی ہے۔ اس فن سے میری تخلیقیت کا سارا تعلق داخل سے خارج کی طرف ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے کسی روحانی سفریا خودشناسی کے مراحل میں رب کی نشانیاں پہلے انفس یعنی اپنی داخلی ذات اور پھر آفاقی یعنی مظاہر قدرت میں نظر آتی ہیں۔"
پیش ِ نظر کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ فصلِ اول: بعنوان " تاریخ فن خطاطی" کے ضمن میں ابجدی ترتیب سے الفبائی ترتیب اختیار کرنے کے اسباب ، خط نویسی( ابتداء وارتقاء)، عربی رسم الحظ کے متعلق ابن خلدون کی آرا کا محاکمہ ، حجاز ِعرب میں خط نویسی کے منتقل ہونے کی کہانی: بلاذری کی زبانی ، خلافت راشدہ اور خلفاء بنوامیہ و بنوعباس کے ادوار میں خطاطی کا فروغ، فن خطاطی، فضیلت و مرتبت، مدارسِ خطاطی ، وزیر محمد بن علی مقلہ ، ابوالحسن علی بن بلال المعروف ابن البواب اور خطاطی کے ارتقاء پر ایک طائرانہ نظرکے عنوانات کے تحت گفتگو کی گئی ہے۔
فصل دوم بعنوان: "اصنافِ خط" میں خط کی چند معروف اقسام ، خط کوفی (کوفی البسیط ، کوفی مورق)، خط نسخ، خط ثلث، خط رقعہ ، خط رقاع ، خط ریحانی ، خط دیوانی ، خط توقیع اور خط الا جازۃ ، خط المغربی ، خط ا لمبسوط ، خط مجوہر ، خط المسند یا خط زمامی ، خط سنبلی ، خط سیاقہ ، خط طغراء اور فن خطاطی پر تحقیق کے لیے چند اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
فصل سوم بعنوان: "ابنِ مقلہ کا نظامِ خطاطی" میں مشہور خطاط ابن مقلہ شیرازی (جنھیں اہلِ مغربProphet of Calligraphy کہتے ہیں) کی مہارت اور خط نسخ کی دریافت ، ابن مقلہ کے نزدیک اقسام کتاب اور مکتوب نگاری کی درجہ بندی ، حسن کتابت، حسن تشکیل ، حسن الوضع اور ابن مقلہ کے نظام خطاطی کو بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ چوتھی فصل بعنوان: "فنِ خطاطی کے ابتدائی قواعد" میں ابن مقلہ کے رسالۃ فی علم الخط و القلم کا متن اور اردو ترجمہ، اورابن قتیبہ کے رسالۃ الخط والقلم کا متن اور اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں عکسیات اور چند کراسات دیے گئے ہیں۔

علم و کتاب

04 Jan, 16:58


پروفیسر ڈاکٹر خالد ندیم(سابق صدر شعبہ اردو ،یونیورسٹی آف سرگودھا) رقم طراز ہیں:" جناب محمد حسن کی زیر نظر تصنیف پاکیزگی قلب اور طہارتِ نظر کا عملی اظہار ہے ۔ انھوں نے سرروق کی تحریر سے مصادر و مراجع تک جس صوفیانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اس کتاب کو فن ِخطاطی سے بلند تر کردیتا ہے۔ خطاطی کی قدیم تاریخ، خطاطی کے ادوار، خطاطی کے مدارس، معروف خطاطین، خط کی اقسام کے بیان کے ساتھ ساتھ فن ِخطاطی سے محدثین، شعرا، ادبا، صوفیہ، علما اور شاہان وقت کی وابستگی کے بعض دلچسپ و سبق آموزواقعات کو بیان کرکے کتاب کی دلچسپی میں اضافہ کردیا ہے۔ مزید برآں ، اس فن ِشریف کی برکات اور استاد شاگرد کے تعلقات کی صوفیانہ توجیح سے اس کتاب کی سرحدیں تصوف، تذکرہ نگاری اور تاریخ نویسی سے جاملتی ہیں۔ فاضل محقق و مولف نے ابن مقلہ کے فن پر خصوصی باب اور فنِ خطاطی پر ان کے رسالۃ فی علم الخط و القلم اور ابن قتیبہ کے رسالۃ الخط والقلم کا متن اور اردو ترجمہ شامل کرکے اس کی اہمیت سہ چند کردی ہے۔"
بلاشبہ "نہج الکتابۃ" فنِ خطاطی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک نہایت عمدہ تحفہ ہے۔ورلڈ ویو پبلشرز (لاہور)نے اسے بڑے سلیقے سے شائع کیا ہے اور قیمت بھی بہت مناسب ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Jan, 16:57


کی کوئی گنجائش نہ ہوتی ، بسا اوقات گزشتہ دروس کی تقریروں پر جاری درس کی تقریر کو “ معطوف “ فرماتے ہوئے اپنے منفرد ودلکش انداز میں گویا ہوتے “ آج کی تقریر کو کل والی تقریر “ سے ملالینا ( من غير لفظه )۔ درسی مباحث میں عطف ومعطوف کا عملی مشاہدہ وتجربہ ہمارے لئے حیران کن لطف کا باعث تھا ، اس سے زائد از ضرورت، اطناب نما اور لاطائل بحثوں سے اجتناب میں آپ کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ساعت اولی میں مسلم شریف جلد اول کا درس ہوتا ، گرمی کے موسموں کی مختصر راتوں اور مطالعہ ومذاکرہ میں انہماک واشتغال کے باعث نیند پوری نہ ہونا، طبعیت میں انہیار اور آنکھوں میں بے خوابی کے آثار جھلکنا طبعی امر ہے ، حضرت معمولی جھپکیوں کو تو نظر انداز فرما دیتے ؛ لیکن سامنے بیٹھ کر باضابطہ “منامی اشغال ومراقبہ” کرنے والے طلبہ کو تربیتی نقطہ نظر سے “ الف “ ہوجانے (کھڑے ہوجانے )کا حکم فرماتے ۔
حضرات اکابرین و اسلاف سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، درمیان درس طلبہ کے سامنے اکثر و بیشتر حضرات اکابر و اسلاف کے طرز زندگی اور ان کی اولو العزمی ، سنت نبوی سے ان کی والہانہ وابستگی کے واقعات سناتے اور ان کے نقوش زندگی سے سبق لینے کی ترغیب دیتے ، مسلم شریف اور نسائی شریف کے دروس میں ہم نے دیکھا کہ اختلافی مسائل میں حضرت تھانوی ،حضرت مدنی ، مفتی عزیز الرحمن عثمانی ، علامہ بلیاوی ، مفتی کفایت اللہ دہلوی اور علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرھم (رحمہم اللہ اجمعین ) کے اقوال اور ان کے دلائل بھی پیش فرماتے۔

*امتیازی خصوصیات* :
آپ تدریس کو صرف علم کی ترسیل تک محدود نہیں رکھتے تھے ؛ بلکہ طلبہ کی اخلاقی اور فکری تربیت پر بھی زور دیتے تھے۔ ان کے دروس ومواعظ طلبہ کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
منتظم اور مدرس ہر دو حیثیتوں سے آپ کی شخصیت میں شفقت اور تحمل کا عنصر غالب ونمایاں تھا، جو طلبہ کو آپ سے قریب رکھنے اور ایک مثبت تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں ممد ومعاون ہوا کرتا تھا۔ دارالاقامہ یا شعبہ تعلیمات کے مختلف انتظامی ادوار میں طلبہ کی مشکلات کو نہایت توجہ سے سنتے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ آپ کی یہ خصوصیت جہاں طلبہ کو آپ سے بے تکلف ہونے اور علمی سوالات پوچھنے کا حوصلہ فراہم کرتی تھی، وہیں اس مشفقانہ رویے نے تدریس کو ایک خوشگوار اور مؤثر عمل بھی بنا دیا تھا۔
الغرض حضرت الاستاذ کی شخصیت گوناگوں علمی کمالات ومحاسن اور اعلی روحانی نسبتوں کی حامل تھی ، اس کے علی الرغم جلالت وشوکت کی بجائے متانت ووقار، حدت کی بجائے شفقت وملاطفت کے پیکر تھے ، تربیت آپ کا شعار اور اتباع سنت آپ کی روح کی پکار تھی ۔
آہ !آسمان علم ومعرفت کا یہ قمر منیر ٨٦ سال کی عمر میں ۲۲دسمبر ۲۰۲۴ع ۱۹ جمادی الأخری ۱۴۴۶ہجری کو ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا !
حضرت رحمہ اللہ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے کا تنہا صدمہ نہیں ؛ بلکہ پورے علماء دیوبند کا اجتماعی صدمہ ہے ، وہ پورے حلقہ دیوبند کا قیمتی سرمایہ تھے ، ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام ابناے دیوبند کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے ، ان کی رحلت ان کے خانوادے اور دار العلوم دیوبند کے لئے عالم اسباب میں بظاہر ناقابل بھرپائی خلاء ہے ؛ کیونکہ ان کی وفات سے دارالعلوم نے اپنا ایک بے مثال مدرس ومحدث کھودیا ہے ، جس پہ ہم مرحوم کے خانوادہ کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کو بھی تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
*شکیل منصور القاسمی
شمشیر حیدر قاسمی*
مركز البحوث الإسلامية العالمي
( جمعہ 2 ؍رجب المرجب 1446ھ 3؍جنوری 2025ء)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Jan, 16:57


حضرت الاستاذ علامہ قمر الدین احمد صاحب گورکھپوری رح——یادوں کے نقوش
(ولادت 2 فروری 1938ء – وفات22 دسمبر 2024ء)

از : شکیل منصور القاسمی
شمشیر حیدر قاسمی

https://telegram.me/ilmokitab

گہوارۂ علم و فن مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی نورانی فضا ہمیشہ سے بافیض علمی شخصیات سے منور رہی ہے، گرچہ نیرنگیِ زماں نے بارہا اس کاخِ فقیری سے ٹکرانا چاہا ؛ مگر خود ہی پاش پاش ہوکر رہ گیا ، کئی مرتبہ موجِ تند جولاں نے اس کی حسین زلفوں سے الجھ کر اس کی رونق اور خوب صورتی سے کھیلنا چاہا ؛ مگر ناکام رہا، زمانۂ قیام سے اب تک اس کی رونقیں قائم ہیں، اور ان شاء اللہ یوں ہی قائم رہیں گیں، افراد آتے جاتے رہیں گیں ، یہ چمن یوں ہی آباد رہے گا، علم و معرفت کے اس فردوسِ بریں میں نوع بہ نوع کے گل و لالہ مسکراتے رہیں گے ، نسرین و نسترن کی باہمی سرگوشیاں جاری رہیں گیں، شبنمی قطرے حسین و جمیل پھولوں کے پنکھڑیوں پر موتی بن کر رقص کرتے رہیں گے، خلوص وللّٰہیت کے سانچے سے تیار شدہ نظام اپنے اصول و دستور کے مطابق چلتا رہے گا (ان شاء اللہ)
تاہم وہ شخصیتیں جن کے دم سے اس گلشن علمی کی شادابی قائم رہی ، جن کے فیوض و برکات نے یہاں کے ذروں کو تابانی بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ، ان کے چلے جانے پر باوجودیکہ کاروبارِ گلشن اپنے نظام کے مطابق چلتا رہا ؛ مگر نگاہ اہل بصیرت کو یہاں کی کلیوں کی مسکراہٹوں اور بلبلوں کی رقصوں میں غیر معمولی اداسی محسوس ہوئی، اور بھلے ہی بلا توقف مسند تدریس کی وہ رونقیں لوٹ آتی ہوں ؛ مگر ان جانے والوں کی حسین یادوں کے چراغ سے خانۂ دل ہمیشہ روشنی حاصل کرتا رہا ہے، استاذ محترم حضرت العلامہ قمرالدین احمد قدس سرہ کی وفات حسرت آیات پر اداسی کا یہ احساس یقیناً بہت گہرا ہے، ان کی پاکیزہ یادیں اور بصیرت افروز باتیں ہم تشنگانِ علوم اور عقیدتمندوں کے دلوں کو ہمیشہ عشق الٰہی کی گرمی سے سرشار کرتی رہیں گی۔
علامہ قمرالدین احمد گورکھپوری قدس سرہ پاکیزہ صفات کے حامل روشن دل عالم دین، باکمال مشفق استاذ، نہایت مخلص مربی ، سنت نبوی کے شیدا شیخِ طریقت ، اور باہمت وبا حوصلہ دور اندیش وکامیاب منتظم تھے، حضرت کے زمانۂ نظامتِ تعلیمات (1994-1995ء)میں ہم دارالعلوم کے مدرسہ ثانویہ (دارالشفاء کی عمارت ) میں پڑھتے تھے، درسگاہ ثانویہ کی پر شکوہ عمارت کا افتتاح ہمارے چہارم عربی کے سال بہ تلاوت فدائے ملت حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی قدس سرہ ہوا ، کئی مواقع ایسے آئے کہ براہ راست حضرت علامہ کی خدمت میں دفترِ تعلمیات درخواست لیکر جانا ہوا، حضرت نے نہایت ہی سنجیدگی سے ہماری درخواست کو پڑھا، اور مسئلہ حل فرمادیا، طلبہ کی تربیت پر بہت گہری نظر رکھتے تھے، نہ صرف درسگاہ بل کہ بیرون درسگاہ بھی طلبہ کی نقل و حرکت پر ان کی کڑی نظر ہوتی تھی، یہ دور ان کی صحت وتوانائی کا تھا ، عصا تھامے اکیلے ہی گشت فرماتے رہتے، آپ کی عصا بھی “مآربُ أُخرٰى" کی حامل تھی ، بازار جاتے ہوئے اگر راستے میں کسی طالب علم کو طالب علمانہ شان کے خلاف کسی کام میں مشغول دیکھتے تو بر وقت فوری اور پوری تنبیہ فرماتے ، اس کام کے لئے عصا کے معمولی اشارتی استعمال سے بھی دریغ نہ کرتے ، ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن کے قریب چائے خانے میں چند طلبہ بیٹھے ٹیلیویژن پر کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے، اُس وقت اسمارٹ موبائل کیا ؟ نارمل سادہ موبائلز کی بھی آج کی طرح عمومی ترویج وافراط نہ تھی ، حضرت کو کسی سفر میں جانا تھا ، یا شاید سفر سے واپسی ہو رہی تھی ، ٹیلیویژن کے گرد مجتمع ان طلبہ پر حضرت کی نظر پڑگئی، بس پھر کیا تھا ؟ حضرت نے وہیں ان پر لاٹھی چارج کردی، سارے طلبہ بے تحاشا بھاگ پڑے۔
وہ بہ ظاہر ایک روایتی “عالِم دین “ تھے ؛ لیکن بہ باطن اپنی ذات میں ایک “ عالَمِ بے مثال “ تھے ۔ علماء دیوبند کے اقدار وروایات کے حسین ورثہ اور ان کی شناخت کا ایک معتبر حوالہ تھے ، عالمانہ متانت ، عظمت ووقار ، تہذیب وشائستگی اور استغناء وخود داری کے پیکر تھے ، دنیاوی جاہ وحشمت سے کوسوں دور تھے ، انتہائی گہری نظر اور آفاقی فکر وشعور کے حامل تھے ، ہمیں ان کی شخصیت کو لمبے عرصے تک بہت قریب سے پڑھنے کا موقع ملا ، چھ سالہ دور طالب علمی میں ہم نے کبھی ان کے لہجے یا اسلوب میں سطحیت ، جذباتیت یا ابتذال کا ابال نہیں دیکھا ، ان کی باتیں اور ادائیں مصنوعی تکلف وتموج سے عاری وخالی ضرور ہوتیں؛ لیکن بڑی سبک گامی سے چپ چاپ دل میں اُتر کر دل کی دھڑکنوں کی ہم آہنگ ہو جاتیں اور پورے وجود میں ایک روحانی کیف وسرمستی کی پُراسرار فضا خلق کر دیتیں ، سنہ 1999 عیسوی میں مسلم شریف جلد اول اور سنن نسائی ان سے پڑھنے کی ہمیں سعادت ملی ہے، تدریس حدیث میں آپ منفرد اسلوب رکھتے تھے۔ آپ کا اندازِ تدریس نہایت مدلل، واضح، اور گہرائی پر مبنی ہوتا تھا، مضامین کی پیچیدگیوں کو آسان زبان میں سمجھانے میں مہارت رکھتے تھے، ناپ تول کر حسبِ ضرورت اور قدرِ ضرورت ہی کلام فرماتے ، زائد لفظوں یا بحثوں

علم و کتاب

02 Jan, 02:39


آپ کا شبیر شاد "

مجھے واقعی شبیر شاد کی فرمائش ان کی زندگی میں پوری نہ کرپانے کا ہمیشہ قلق رہے گا۔ خدا ان کی قبر کو نور سے بھردے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

28 Dec, 09:27


*غلطی ہائے مضامین*

*صحتِ زبان پر اتنا اصرار کیوں؟*
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

ایک سوال ہے اور بہت دلچسپ سوال ہے کہ
‘‘صحتِ زبان پر آخر اِتنا اصرار کیوں؟زبان کا اصل مقصد تو ابلاغ ہے۔’’
ابلاغ کی مثال بھی دی گئی ہے کہ فرض کیجیے پروفیسر شمس الدین نے فرمایا:
‘‘مجھے دماغ تو کھپانا پڑا مگر بات اُس کی سمجھ میں آگئی۔’’
اوریہی بات اگر شمسو بھائی نے یوں بتائی کہ
‘‘میرے کو اُس کے ساتھ دماغ پچی تو کرنی پڑی لیکن اگلے کو بات کی سمجھ لگ گئی۔’’
توصاحب! دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اپنی بات کا اظہار و ابلاغ کر دیا۔اب آپ کوکیا مسئلہ ہے؟’’
غالباًکہنا یہ چاہتے تھے کہ ‘‘آپ کو کیا تکلیف ہے؟’’
بھائی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رواج ہے، دو آدمی بات کر رہے ہوں تو تیسرے آدمی کو لازماً کوئی نہ کوئی تکلیف ہوجاتی ہے اور اُس سے ‘دخل در مکالمات’ کیے بغیر رہا نہیں جاتا۔ دوسری بات یہ کہ صحیح، صحیح ہے اور غلط، غلط ہے۔ صحیح کو بہر حال غلط پر فوقیت ہے۔
‘صحت’ کے جن معنوں کو عوام فوقیت دیتے ہیں وہ ہیں بیماری سے نجات، شفا اور جسم کا ٹھیک ہونا یعنی ‘تن دُرستی’۔یہاں برسبیلِ تذکرہ یہ بات پوچھتے چلیں کہ جو لوگ ‘دُرستی’ کو ‘درستگی’ لکھنے کے عادی ہیں اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں،وہ اپنی ‘تن درستگی’پر توجہ کیوں نہیں فرماتے؟
تن دُرستی کے معنوں سے ماخوذ، ہمارے ہاں حفظانِ صحت، خرابیِ صحت اور صحت بخش جیسی کئی صحت مند تراکیب رائج ہیں۔
لغت کے مطابق ‘صحت’ اسمِ مؤنث ہے۔اس کا مطلب صحیح ہونا، درستی اور ٹھیک ہونا ہے۔یعنی عیب یا نقص سے پاک ہونا اور غلطی سے مبرا ہونا ۔ ‘صحتِ زبان’ سے بھی یہی مرادلی جاتی ہے کہ زبان درست ہو اور ٹھیک بولی یا لکھی جائے۔ تحریر اور بیان میں عیب یا نقص نہ ہو۔ قواعد کے لحاظ سے غلطی نہ کی جائے۔مگر یہاں تو سوال یہ ہے کہ صحتِ زبان پر اتنا اصرار کیوں ہے؟
صاحب! اصرار سے کسی کو کیا تکلیف ہے؟ اگر ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور مفتی منیب الرحمٰن جیسے معالجین کو صحتِ زبان پر اصرار ہے تو کئی اتائیوں کو خرابیِ زبان پر بھی اتنا ہی اصرار ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مصر ہیں۔ اب فیصلہ آپ کیجیے کہ زبان کا درست ہونا درست ہے یا خراب ہونا؟
اہلِ عقل و دانش یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی کام اس قابل ہے کہ کیا جائے تو یقینا وہ اس قابل بھی ہوگا کہ حسن و خوبی اور خوش اسلوبی سے کیا جائے۔لہٰذا اگر آپ نے اُردو میں ابلاغ کرنے یعنی اُردو میں لکھنے یابولنے کا کام سنبھال ہی لیا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اس کام کو بہتر طریقے سے کر کے اپنا بہتر تاثر بنائیں، بجائے اس کے کہ اپنا کام بُری طرح کر کے ‘‘دنیابھر میں جگ ہنسائی’’ کروالیں۔
‘صحتِ زبان’ سے کام لینے کا کام دو سطحوں پر ہوتا ہے۔یا تو ہم زبان کا استعمال روز مرہ گفتگو یعنی عام بول چال میں کرتے ہیں یا اپنے خیالات کا لکھ کر اظہار کرتے ہیں۔تیسری صورت آج کل یہ بن گئی ہے کہ برقی ذرائع ابلاغ پر لکھے ہوئے افکار و خیالات زبانی بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ املا کی غلطیاں نہ ہوں، تلفظ کی ہوں۔
لکھنے والے ہوں یا بولنے والے، دونوں صورتوں میں اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ نے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے کیسا اُسلوب اختیار کیا ہے۔ یہ تو آپ نے یقینا محسوس کیا ہوگا کہ الفاظ کے برموقع استعمال سے بات میں جان پڑ جاتی ہے اور بے محل یا بھونڈے استعمال سے آپ کی کہی ہوئی اچھی سے اچھی بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ لیکن اثر زائل ہوتا ہے تو ہوتا رہے، پیسے زائل نہ ہوں۔
‘زائل’ کے معنی ہیں ضائع ہوجانا، برباد ہوجانا اور بے نام و نشان ہو جانا۔ ‘زوال’ میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ زوال کی علامتوں میں سے ایک علامت ‘بے زبان’ ہو جانا بھی ہے۔ انیسویں صدی میں جب کینیڈا کو باقاعدہ برطانوی کالونی بنا لیا گیا تو ہماری طرح وہاں کے لوگوں کو بھی زبردستی انگریزی پڑھائی گئی۔علاقائی زبان بولنے پر سزاؤں کا نفاذ کیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ آج کینیڈا کے اصلی اور نسلی لوگوں کو معلوم بھی نہیں کہ اُن کے آبا و اجداد کی زبان کیا تھی، تہذیب کیا تھی، تمدن کیا تھا اور ثقافت کیا تھی۔زبان کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت بھی رخصت ہو گئی۔ کچھ اسی سے مماثل نتائج ترکی میں بھی برآمد ہوئے جب وہاں صرف رسم الخط بدل دیا گیا۔ ترکی زبان کا رسم الخط قریب قریب یہی تھا جو آج اُردو زبان کا رسم الخط ہے اور ‘خطِ چَغتائی’ کہلاتا تھا۔ محض رسم الخط سے محروم کردینے کی وجہ سے آج ترک لڑکے لڑکیاں اپنے آبا و اجداد کی لکھی ہوئی کتابیں، اپنی تاریخی عمارتوں پر کندہ تحریریں اور اپنے بزرگوں کے مزارات کے کتبے پڑھنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔وہ اپنی تاریخ ہی سے نہیں اپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور اقدارکے علمی اور ادبی ذخائر سے بھی ناواقف ہو گئے ہیں۔رسم الخط کی تبدیلی کی وجہ سے ہم بھی ترکی زبان سے کٹ گئے۔ ‘اُردو’ خود ترکی زبان کا لفظ ہے ۔ہوا، چاقو، چقماق، چقندر، قینچی، چوغہ اور چغد جیسے کتنے ہی ترکی الفاظ ہماری زبان پر رواں ہیں،مگر ہم ترکی زبان اس طرح پڑھ بھی

علم و کتاب

28 Dec, 09:27


نہیں سکتے جس طرح عربی یا فارسی زبان کم از کم پڑھ تو لیتے ہیں۔ یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ ثقافتی اور تمدنی اقدار ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور اپنی تہذیبی شناخت کی حفاظت کرنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔
زبان کی حفاظت کے لیے اس کے الفاظ کی حفاظت بھی ضروری ہے۔اس کے قواعد اور انشا کی حفاظت ضروری ہے۔ اگرچہ برصغیر میں بھی انگریزی اور انگریزی ذریعۂ تعلیم کا نفاذ اُسی طاقت اور قوت سے کیا گیا جس شدت سے دیگر برطانوی مقبوضات میں کیا گیا ، مگر اُردو زبان نے نہ صرف اپنا وجود بلکہ اپنا رسم الخط بھی بچا لیا۔آج اُردو کو عالمی زبانوں کی صف میں باوقار مقام حاصل ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے دستور میں اُردو کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ سو یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اُردو کے معیار کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی جاری رکھیں۔ آج اُردو تمام برقی ذرائع ابلاغ پر موجود ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ دوسری زبانوں کے مقابلے میں ابھی جن چیزوں کی کمی ہے اُس کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔لکھتے اور بولتے ہوئے اپنی زبان کے معیار کو گرنے نہ دیں۔
لکھنے اور بولنے والی زبان کے معیار اور صحتِ زبان پر اصرار کی ایک وجہ یہ ہے کہ اچھی زبان استعمال کرنے سے اچھی شخصیت بنتی ہے۔اپنے بچوں کی تعمیر سیرت کے لیے بھی صحتِ زبان پر اصرار ضروری ہے۔ زبان شخصیت کے مکمل پس منظر کا اظہار کر دیتی ہے۔ایک شگفتہ مزاج دوست نے پچھلے دنوں ایک پُر لطف واقعہ بیان کیا۔کیوں نہ آج کے سنجیدہ کالم کا اختتام اسی پُر مزاح قصے پر کیا جائے۔ فرماتے ہیں:
ایک عزیز کے گھر کچھ لوگ اُن کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے۔لڑکا خیر سے انجینئر ہے۔والد صاحب کا بڑا کاروبار ہے۔لڑکی والے ابھی گفتگو کرنا ہی چاہتے تھے کہ لڑکے کے والد صاحب کا فون بج اُٹھا۔فون پر قبلہ نے بہ آوازِ بلند جو خطاب فرمایا وہ سب نے سنا:
‘‘بھائی بشیر! لڈّن سے صاف صاف کہہ دیجوکہ میرا حساب چکتا کرے۔چھے مہینے سے میرا ناواں دبائے بیٹھا ہے۔آج کل، آج کل کیے جا ریا ہے۔ دیکھو! جس دن میرا متھا گھوم گیا اُس دن سسرے کو وہ چار کی چوٹ ماروں گا کہ تھوبڑا سوج جائے گا’’۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس طرزِ کلام کے بعد لڑکی اور اس کے اعزہ کا کیا رد عمل ہوگا۔
٭٭
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Dec, 16:18


والد کا کتب خانہ ان کے تخلیقی سفر کا سب سے بڑا نمونہ ہے۔ دور دراز کے شہر شارلوٹز وِل (ورجینیا)میں بیٹھ کر اس کے بارے میں سوچتے اور لکھتے ہوئے میرے ذہن میں اس کمرے کی شروع سے آخر تک کی بہت سی تصویریں ابھر رہی ہیں ۔ سب سے قدیم ڈرائنگ روم(جو ڈائننگ روم بھی تھا)کی ہے، جس میں بریلی کا ’صوفہ سیٹ‘ اور تین سیٹوں والا بنچ تھا، جسے ماں نے اپنی مرضی کے مطابق تیار کروایا تھا۔ ایک معمولی سا کشمیری اخروٹ کی لکڑی کا سینٹر ٹیبل اور ایک سرے پر کشمیری نیسٹنگ ٹیبل، وہاں کوئی قالین نہیں تھا؛ کیونکہ والد نے فرش کو ایک کلاسک بلیک اینڈ وائٹ پیٹرن پر ڈیزائن کیا تھا۔
کمرہ ہمیشہ سردیوں میں ٹھنڈا اور گرمیوں میں بہت گرم محسوس ہوتا تھا۔ کھانے کی میز پرانے طرز کی پتری دار تھی، جس کے گرد چھ مضبوط کرسیاں رکھی ہوتیں۔ یہ اکثر میرے لیے ایک متبادل مطالعے کی میز کے طور پر کام کرتی۔ ہم ڈرائنگ روم صرف رسمی مہمانوں کے لیے استعمال کرتے، عموماً آرام دہ کرسیوں والے دو کشادہ برآمدوں پر ہی مہمانوں کا خیرمقدم کیا جاتا ۔
لائبریری ملحقہ برآمدے تک پھیل گئی تھی۔ والد کے سب سے حیرت انگیز کتابی ذخیرے’ داستانِ امیر حمزہ‘ کی 45 جلدوں کا مکمل سیٹ ایک سٹیل کی الماری میں رکھا گیا ۔ والد کی ذاتی ادبی تخلیقات و تصانیف اتنی زیادہ تھیں کہ انھیں خود اپنی کتابوں کے لیے ایک مکمل الماری کی ضرورت تھی۔’ شب خون‘ کے شماروں کا ذخیرہ بھی یہیں رکھا گیا، جریدے کے چالیس سالہ شمارے مجلد بندھے ہوئے ہیں اور ہارڈ کاپی میں محفوظ ہیں۔
مختلف شہروں لکھنؤ، دہلی، پٹنہ وغیرہ میں والد کی پوسٹنگ کے دوران یہ کمرہ کبھی کبھی کھانے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔عموماً میری چھوٹی بہن اور میں والدہ کے ساتھ ان کے کمرے میں کھانا کھایا کرتے ۔ جب کھانے کی میز کو لائبریری کے لیے جگہ بنانے کے لیے برآمدے میں منتقل کیا گیا، تب سے اسے کھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
کمپیوٹر ڈیسک ان دنوں کوئی خریدی جانے والی چیز نہیں تھی، ایک پرانی میز اس کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی۔ مجھے کمپیوٹر اسکرین کے قریب رکھا کی بورڈ اب بھی یاد ہے،بھاری بھرکم سی پی یو فرش پر رکھا گیا تھا، پرنٹر کے لیے جگہ نہیں تھی؛ اس لیے اس کے لیے الگ سے انتظام کیا گیا اور اسے ایک چائے کی میز پر رکھا گیا۔ کچھ سالوں بعد ایک سکینر خریدا گیا اور قریبی میز پر رکھا گیا۔ان کی تاریں اکثر الجھ جاتی تھیں؛ کیونکہ انٹرنیٹ راؤٹر بھی ڈیسک پر ہی تھا۔
لائبریری کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک صوفہ تھا۔ پہلے تو زائرین صوفے پر بیٹھتے ہوں گے؛ لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی کتابوں سے بھر گیا تھا۔ یہ وہ کتابیں تھیں جو تقریباً روزانہ بڑی تعداد میں مختلف مصنفین ، شاعروں ،مضمون نگاروں اور فکشن نویسوں کی جانب سے پہنچتی تھیں،ان میں شعری مجموعوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔
جریدۂ ’شب خون‘ کے کے بند ہونے کے بعد اس کی جگہ ’خبرنامہ‘ نے لے لی۔ ’خبرنامہ‘ اپنے نام کے مطابق مشمولات کے ساتھ زندہ رہا، یہ نئی کتابوں کی رپورٹس، تبصروں اور خطوط وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ والد ایک عظیم مکتوب نگار بھی تھے، انھوں نے اپنے زمانے کے ادباکو اپنے ہاتھ سے ہزاروں خطوط لکھے ہوں گے۔ کچھ خطوط شائع بھی ہو چکے ہیں؛ لیکن ان کے مکاتیب کا ایک بڑا ذخیرہ غیر مطبوعہ ہے ،جنھیں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
’خبرنامہ‘ بھی اکیلے نہیں نکالا جا سکتا تھا؛اس لیے ایک سیکرٹری کی ضرورت تھی۔ اب خالی جگہ میں ایک تیسرا ڈیسک رکھا گیا ۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ کتابوں کی شیلفیں فرش سے چھت تک دیواروں سے لگی ایستادہ تھیں، بھاری بھرکم ریک ہٹا دیے گئے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس بڑے سے کمرے میں اور بھی چیزیں ایڈجسٹ ہوتی رہیں ۔ کمرے کا بوسیدہ سیاہ و سفید فرش لینولیم سے ڈھکا ہوا تھا اور جب وہ کھردری ہو گئی، تو مخصوص قسم کے قالینوں سے کمرہ روشن ہوگیا۔
اپنے آخری سالوں میں، والد کو اس بڑے مسئلے کا سامنا تھا کہ ان کی پیاری لائبریری کا کیا کرنا ہے؟ کتابیں کسی آرکائیو لائبریری کو عطیہ کردی جائیں یا انھیں اِسی جگہ اسکالرز کے مصدر و مرجع کے طور پر محفوظ رکھا جائے؟ ان کا خواب یہ تھا کہ کتابوں کا یہ ذخیرہ کسی ایک جگہ پر رکھا جائے اور ممکنہ طور پر اسے ایک دارالمطالعہ میں تبدیل کردیا جائے، جو محققین کے لیے کھلا رہے۔ ہم( ان کی بیٹیوں) نے انھیں یقین دلایا کہ ہم اس لائبریری کی دیکھ بھال کریں گےاور اسے ایک ریسورس لائبریری بنانے کے ان کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
میری بہن باراں نے کتابوں کی فہرست سازی کے لیے پچھلے دنوں ریٹائر ہونے والے ایک پروفیشنل لائبریرین کی خدمات حاصل کرکے اس پروجیکٹ کا سنجیدگی سے آغاز کیا ۔ کئی وجوہات(جنھیں یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں) کی بنا پر یہ کام آسان نہیں تھا؛ لیکن بہرحال یہ منصوبہ اب تکمیل کے قریب ہے۔ اگلا قدم اس لائبریری کو اس طرح زندہ و شاداب رکھنا ہو گا کہ وہ شمس الرحمن فاروقی کے ادبی وژن سے منور

علم و کتاب

27 Dec, 16:18


گفتگووں اور لیکچرز کی بھی جگہ ہو۔

علم و کتاب

27 Dec, 16:18


*میرے والد کی لائبریری*

تحریر : مہر افشاں بنت شمس الرحمٰن فاروقی

ترجمہ:نایاب حسن

میں کتابوں سے بھرے گھر میں پلی بڑھی،جہاں ہر کمرے میں کتابیں ہی کتابیں تھیں، کتابیں ہی ہماری شناخت اور تعارف کا وسیلہ تھیں، میری والدہ ماہر تعلیم تھیں اور والد سول سروینٹ اور ایک ابھرتے ہوئے ادیب و ناقد تھے۔ وہ اپنی مصروف زندگی سے جتنا وقت نکال پاتے، اسے پڑھنے لکھنے میں صرف کرتے؛البتہ ان کے مطالعے یا ادبی مصروفیات کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی؛ کیونکہ ہمارا گھر اتنا بڑا نہیں تھا۔
ایک چھوٹی بچی کے طور پر میری سب سے پیاری یادیں والد کے ساتھ کتابوں کی بڑی سی دکان’ یونیورسل بک کمپنی‘ جانے اور وہاں بچوں کے حصے میں گھنٹوں گزارنے کی ہیں، اس دوران والد ادبی تخلیقات سے معمور بک شیلف کھنگالتے رہتے اور بالآخر وہ وہاں سے کتابوں کا ایک بنڈل خریدتے اور ہمیشہ میرے لیے بھی کچھ کتابیں لیتے۔
1964 میں ’شب خون‘ کے اجرا کے بعد ہمارے گھر میں اردو جرائد کثیر تعداد میں آنے لگے۔ان میں کچھ ادبی مجلات تھے جیسے ’نقوش‘، ’فنون‘، ’سیپ‘، ’شاعر‘، ’تحریک‘،’ کتاب‘ اورکچھ ’ بیسویں صدی ‘اور’ شمع‘ جیسے رسائل تھے۔ ان میں سے بہت سے لاہور اور کراچی سے آتے تھے؛ لیکن زیادہ تعداد ممبئی، پٹنہ، لکھنؤ اور حیدرآباد سے آنے والے رسائل کی تھی۔ میں اردو جریدے ’کھلونا‘ کی آمد کا بطور خاص انتظار کیاکرتی، جسے میں لطف لے کر پڑھتی تھی۔
جب والد کا ٹرانسفر الہ آباد سے لکھنؤ ہوا، تو ان کے سامان میں زیادہ تر کتابیں ہی تھیں (وہ کالی داس مارگ پر ایک فرنشڈ سرکاری گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے)۔ آخر میں وہ ریور بینک کالونی کے ایک مکان میں منتقل ہوگئے تھے اور وہاں ان کی کتابوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہونے لگا۔
لکھنؤ میں کتابوں کی دکانیں الہ آباد سے کہیں زیادہ تھیں، پرانے شہر میں اردو کتابوں کی دکانیں تھیں، مجھے یاد ہے کہ اردومکتبوں میں ایک قسم کی سنجیدگی ہوا کرتی تھی، میرے جیسے نوعمروں کے لیے وہاں کا ماحول دلچسپ نہیں تھا۔ اردو کے نوعمر قارئین کے لیے شاید ہی وہاں کتابیں ہوں گی۔ (والد نے مجھے وہیں سے پریم چند کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ’ پریم پچیسی‘ خریدکر دیا تھا)۔
لکھنؤ میں مستعمل کتابوں کی بھی بہت سی دکانیں اور کتابیں مستعار دینے والی لائبریریاں بھی تھیں۔ حضرت گنج، لکھنؤ کے کی ایلیٹ مارکیٹ میں، ایک پسندیدہ مقام ’ہابی کارنر‘ تھا، وہاں’کوچۂ محبت ‘ نامی دلچسپ گلی کے عین بیچ میں مستعمل کتابوں کی ایک دکان تھی۔ ’کوچۂ محبت‘ ایک تنگ سی گلی تھی، یہ ایک مسقف بازار ، گڑبڑ جھالا کا ایک اعلیٰ ورژن تھا، جو خریداروں سے بھرا ہوتا تھا،وہاں کی فضا بازار میں بکنے والی عطریات سے معطر رہتی تھی۔
کندن جیولری چمکتے ہوئے شیشے کے کیسوں میں نظر آتی، چکن کری کے کرتے ہینگروں میں لٹکتے رہتے اور ایک غیر متوقع مقام پر ملبوسات کے سامانِ آرایش کی دکان کے علاوہ ایک لکڑی کی سیڑھی بھی ٹکی ہوتی ۔ ایک شخص کمزور سے جنگلے پر لٹکی اس سیڑھی پر چڑھتا اور کتابوں کے عجائبستان میں پہنچ جاتا۔ وہاں سے آپ اپنی پسند کے مطابق کتابیں دیکھ سکتے، خرید اور ادھار لے سکتے تھے۔
ہر اتوار کو پرانے شہر کے نخاس میں مستعمل کتابوں کا بازار لگتا تھا، ہم وہاں جاتے،وہاں کتابیں پرانی چادروں، کبھی جوٹ کے تھیلوں اور ترپالوں پر رکھی ہوتی تھیں۔ اگر کسی کو بہت سی کتابیں خریدنی ہوتیں ،تو انھیں دیکھنے، منتخب کرنے اور مول بھاؤ کے لیے وہیں کسی کتاب فروش کے بیٹھنے کی جگہ پر ٹکنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھار کسی کو کوئی قیمتی چیز مل جاتی، جیسے کسی کتاب کا پہلا ایڈیشن یا کوئی پرانی کتاب جو اب نہیں چھپتی ۔
ریور بینک کالونی والے گھر میں کتابیں بڑے بڑے ڈھیرکی شکل میں جمع ہونے لگیں؛ کیونکہ کتابوں کے لیے مناسب تعداد میں الماریاں نہیں تھیں۔ یہ کراے کا مکان، جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے، پوری طرح تیار بھی نہیں تھا۔ اس بار جب والد کا تبادلہ ہوا، تو کتابیں پیک کرنے میں ہفتوں لگ گئے۔
دیو نگر ، دہلی والا گھر کافی بڑا تھا۔ میری والدہ نے پنچکوئیاں روڈ سے دیگر فرنیچر کے ساتھ کتابوں کی الماریاں بھی خریدیں،مگریہ الماریاں بہت جلد کتابوں کے لیے کم پڑنے لگیں۔ والد کا ذخیرۂ کتب وسیع و عریض تھا ،ان میں ادبی تنقید، شعری اور افسانوی مجموعے (اردو اور انگریزی)، ناول، جاسوسی کہانیاں، کلاسیکی ادبی سیریز، انسائیکلوپیڈیا، نادر ونایاب لغات ہر قسم کی کتابیں تھیں۔
انھیں جاسوسی(اور کچھ عرصے تک دہشت ناک) کہانیاں پڑھنا پسند تھا ۔ دوسرے سنجیدہ شائقینِ کتب کی طرح انھوں نے بھی ہر قسم کی کتابیں جمع کیں۔ پھر فاضل کتابیں الہ آباد والے گھر بھیجی جانے لگیں اور وہاں کی الماریاں بھی ان کتابوں سے بھر گئیں۔

علم و کتاب

27 Dec, 16:18


یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ والد صاحب کے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کا وقت آگیا۔اس کے بعد وہ سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہتے تھے کہ ان کی ذاتی لائبریری ہو؛چنانچہ الہ آبادوالے گھر کی پہلی منزل پراس کی تعمیر شروع ہوئی،ان کامنصوبہ یہ تھا کہ یہ لائبریری دو کمروں اور ایک ہال پر مشتمل ہوگی۔ پہلا کمرہ دارالمطالعہ ہوگا، دوسرا مہمانوں کے لیے ہوگا اور ہال میں صف بستہ کتابوں کے ریک ہوں گے۔
کتابوں کو اوپر پہنچانا ایک مشقت بھرا کام تھا؛ لیکن یہ بھی ہو گیا۔ دفتر کو منظم انداز میں تیار کیا گیا اور الہ آباد کی شدید گرمیوں سے نمٹنے کے لیے اے سی لگایا گیا۔ لائبریری کے باب الداخلہ پر خوب صورت اردو میں لکھا ہوا والدصاحب کا نیم پلیٹ چسپاں کیا گیا۔
گفتگو کے اصل نقطے پر پہنچنے کے لیے میں یہاں کچھ تفصیلات سے گریز کرتی ہوں۔ والد اگرچہ اس وقت 58 سال کے تھے، مگر دل کی بیماری میں مبتلا تھے، وہ دن میں کئی بار سیڑھیاں چڑھنے سے تھک جاتے، اے سی کے باوجود گرمیوں میں کمرہ کافی گرم ہو جاتا ، ہال ناقابل برداشت حد تک گرم ہوجاتا، گوکہ پنکھا چلتا رہتا۔ گرمیوں میں دھول دھکڑ کے ساتھ چلنے والی ’لو‘ کھڑکیوں سے زور آزمائی کرتی اور ہر چیز پر دھول کی تہیں جم جاتیں،غسل خانے میں پانی کا مسئلہ بھی تھا۔
بالآخر والدہ جو والد کی صحت کے تئیں فکرمند رہا کرتی تھیں،انھوں نے اصرار کیا کہ وہ نیچےآ جائیں اور ڈرائنگ روم(جو ڈائننگ ہال بھی تھا) کو اپنی لائبریری بنالیں۔ ایک بار پھر کتابوں کو منتقل کیا گیا ،البتہ اس اقدام سے والد صاحب کو ایک موقع ملا کہ وہ کتابوں کے بہت بڑے ذخیرے میں سے کچھ منتخب کرلیں؛چنانچہ فکشن، جاسوسی ناول اور دیگر کم ادبی اہمیت کی چیزیں اوپر والے ہال میں رہنے دی گئیں۔ کتب خانوں اور اُن افراد کو اچھی خاصی تعداد میں کتابیں عطیہ کی گئیں، جو ان کے خواہش مند تھے اور انھیں پاکر خوش ہوئے۔
والد کی میز سابقہ ڈرائنگ روم میں لگادی گئی ، مضامین کے مطابق احتیاط سے کتابیں مرتب کی گئیں، ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے معاونین کا انتظام ہمیشہ والدہ نے کیا۔ والد بہت جلد کمپیوٹر استعمال کرنے لگے تھے، ان کے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے ساتھ ایک علیحدہ ڈیسک نصب تھا۔ اب ان کے پاس ایک ایسی جگہ تھی ،جہاں وہ اپنی محبوب کتابوں سے گھرے رہتے اور یہ ان کے لیے موزوں تھی، ایک بڑی دیواری الماری میں لغات کا ڈھیر لگا ہوا تھا، کم از کم 50 کتابیں تو ہوں گی، کچھ بہت پرانی اور نایاب اردو و فارسی زبانوں کی لغات بھی تھیں۔ ایک اور بڑا حصہ غالب کے لیے وقف تھا، ایک اقبال کے لیے،ایک بڑا شیلف میر کے لیے اور اسی طرح دیگر بڑے شعرا و ادبا سے مخصوص گوشے تھے۔ادبی تنقید کی کتابیں ایک پوری دیوار پر قابض تھیں۔
والد نے خالی دیوار پر اپنے پسندیدہ آرٹس، تصاویر اور خطاطی کے نمونے فنکارانہ انداز میں چسپاں کر رکھے تھے، ان کی میز پر مختلف اسفار سے لائے ہوئے انتہائی دلچسپ نوادرات رکھے ہوتے، ان کی میز پر ان کے بچپن کی ایک تصویر بھی ہوتی(اب بھی ہے)، جب وہ بمشکل پانچ سال کے ہوں گے، جس میں وہ اپنے والد کے قریب، دو دگر بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لائبریری کا ماحول علمی؛ لیکن دوستانہ ہوتا۔
یہ لائبریری گھومنے پھرنے کی پسندیدہ جگہ بن گئی، والد صاحب وہیں مہمانوں کا استقبال کرتے۔ دارجلنگ کی چائے ایک خوبصورت ٹی پاٹ میں تیار کی جاتی اور مساوی سائز کے کپوں میں دن بھر یہاں آنے والوں کو متعدد بار پیش کی جاتی۔ خاص خاص موضوعات پر گفتگو اور انٹرویوز یہیں ہوا کرتے ۔
چونکہ والد صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد الہ آباد میں دوبارہ مقیم ہوگئے تھے ؛اس لیے گھر اورخصوصاً لائبریری ادبی گفتگو کا مرکز بن گئی تھی۔ ایک بار پھریہاں کتابوں کا ذخیرہ بڑھنے لگا۔ فرش سے چھت تک کتابوں کے ریک تیار کروائے گئے ،اس طرح لائبریری نے بالکل نئی شکل اختیار کرلی۔ یہیں بیٹھ کر والد نے اپنا مشہور ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ لکھا۔
2007 میں میری والدہ کا انتقال اس لائبریری کی تاریخ کا ایک اہم سانحہ تھا۔میری والدہ ،والد کی تمام ترمساعی کی سب سے بڑی مداح اور معاون تھیں۔ حادثاتی طور پر گرنے اور اس کے نتیجے میں سرجری کے بعد کی پیچیدگیوں کی وجہ سے غیرمتوقع طورپر ان کا انتقال ہم سب کے لیے دل دوز سانحہ تھا۔ ایک بیٹی کے لیے اس نقصان کے اثرات کا تصور بھی مشکل ہے ، میرے والدین کالگ بھگ 50 سال کا ساتھ تھا ، دونوں مکمل ہم آہنگی کےساتھ بوڑھے ہو رہے تھے۔
ماں بلا کسی رکاوٹ کے گھر چلاتی تھیں، انھوں نے والد کو اپنی ادبی مصروفیات کے لیے لامحدود اسپیس دیا، ’شب خون‘ کے آغاز کے دوران جدوجہد کے سالوں میں ان کی معاونت کی ، انھوں نے ایک کامیاب کیریئر کے ساتھ الہ آباد میں اپنے گھر کے نظم و نسق کو سنبھالا، والد کے ساتھ مل کر وہاں لائبریری بنائی۔

علم و کتاب

27 Dec, 13:23


جھارکھنڈ جیسے اہم لوگوں کے مضامین و تأثرات کے ساتھ اہلیہ محترمہ ، صاحبزادوں ، صاحبزادیوں ، بہووں، بھتیجوں ، بھتیجوں اور پوتوں پوتیوں کی جذباتی تحریروں نے کتاب کو انتہائی مؤثر اور پر لطف بنا دیا ہے ، ان مضامین کو پڑھنے والا شائد ہی اپنی آنکھوں پر قابو رکھ سکے ،، طباعت دیدہ زیب ، کا غذ معیاری اورٹائٹل جاذب نظر ہے ، اسکے ساتھ مولانا مرحوم کی کی یا انکے بارے میں پانچ تصنیفات کا بھی اجراء ہوا ، ،،چند مقتدر شخصیات ، نگارشات اسلام ، دارالعلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفر ،مقالات حکیم الاسلام اور شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمّد اسلام قاسمی -زندگی کے کچھ پہلو ، ،
اس موقع پر ان طلبہ کو بھی انعامات سے نوازا گیا جنہوں نے مولانا مولانا مرحوم کے اوپر
منعقد مقابلۂ مضمون نگاری میں حصہ لیا تھا ، مولانا اسلام صاحب قاسمی کی شخصیت متعدد پہلوؤں سے اہمیت کی حامل تھی ، یہ کتاب صرف مولانا مرحوم ہی کی سوانح حیات نہیں ہے بلکہ سیکڑوں بڑوں اور چھوٹوں کا تعارف نامہ بھی ہے ،،،، آفتاب ندوی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Dec, 13:23


فخر جھارکھنڈ مولانا اسلام قاسمی اور ان کی سوانح حیات
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
از- آفتاب ندوی جھارکھنڈ
°°°°°°°°°°°°°°°°°°

https://telegram.me/ilmokitab

کل بتاریخ 25/دسمبر 2024بروز بدھ ایک کتاب کے رسم اجراء کے ایک ایسے پروگرام میں شریک ہونے کا موقع ملا جو کئ اعتبار سے بڑی بڑی اہمیت کا حامل اور جسے بہت دنوں تک یاد رکھا جائیگا ، یہ پروگرام دیوبند کے جامعہ الامام محمد انور شاہ کشمیری کے ایک خوبصورت ہال میں بعد نماز مغرب تقریبا چھ بجے دارالعلوم دیوبند وقف کے شیخ الحدیث مولانا احمد خضر شاہ مسعودی بن مولانا انظر شاہ کشمیری کی سرپرستی میں شروع ہوا اور ساڑھے نو بجے ختم ہوا ، وقف دارا العلوم دیوبند کے سینیر استاد حدیث و ادب مولانا محمد اسلام قاسمی کی حیات و خدمات پر مولانا مرحوم کے لائق فرزند مولانا بدر الاسلام قاسمی کی تصنیف و تالیف ( کیا شخص زمانے سے اٹھا دو جلدوں میں ) کے اجرا کے لیے اس پروگرام کا انعقاد ہوا تھا ، دیوبند کے اہل علم کے علاوہ کشمیر اور جھارکھنڈ جیسے دور دراز کے خطوں سے بھی مولانا کے محبین اور متعلقین شریک محفل ہوئے ،جھارکھنڈ سے راقم کے علاوہ معروف سماجی کارکن مفتی محمد سعید صاحب مظاھری رسم اجراء کے اس پروگرام میں شامل ہوئے، شرکاء میں مولانا کے معاصرین بھی تھے اور تلامذہ بھی ، زیادہ تعداد ان علماء ا ور اہل قلم کی تھی جنہوں نے انکے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا ، تمام لوگوں نے مولانا مرحوم کے اخلاق کریمانہ ، اساتذہ اور بزرگوں کے ساتھ انکے سعادت مندانہ اور وفادارادنہ اور دوستوں اور معاصرین کے ساتھ مخلصانہ وبرادرانہ تعلقات اور چھوٹوں اور شاگردوں سے مشفقانہ و ہمدردانہ برتاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئےصاحبزادۂ گرامی بدر الاسلام قاسمی کو مبارکباد پیش کی کہ مولانا کی وفات کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے کہ حیات و خدمات پر دو ضخیم جلدوں میں کتاب چھپ کر آگئ ، پہلی جلد مکمل بدر الاسلام سے قلم سے ہے ، جس میں علاقہ کا تعارف ، خاندانی پس منظر ، دادا دادی ، والد والدہ ،نانا نانی اور بھائی بہن کے حالات پر روشنی ڈالی گئ ہے ، ان تمام لوگوں پر کوئی کتاب ہے نہ کوئی مضمون ، ایسے لوگوں پر لکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے امانت دار اہل قلم جانتے ہیں ، پھر مولانا مرحوم کے تعلیمی سفر کا تذکرہ کیا گیا ہے ، مکتب کی تعلیم سے لیکر دارالعلوم دیوبند میں کتابت و افتاء تک کی اعلی تعلیم کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے ، جامعہ حسینیہ گریڈیہ ، اشرف المدارس کلٹی ، مظاہر علوم سہارنپور ، دار العلوم دیوبند اور انکے اساتذہ کے اسمائے گرامی انکے احوال کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں ، جن شخصیتوں سے مولانا مرحوم نے استفادہ کیا تھا ان میں سے حکیم الاسلام قاری طیب رح اور محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رح کے بارے میں بھی مولانا کے تأثرات شامل کتاب کئے گئے ہیں ، یہ باب خود مولانا مرحوم کے قلم سے ہے ، وفات سے پانچ سال پہلے مولانا کی یہ کتاب ،، میرے اساتذہ ، میری درس گاہیں :درخشاں ستارے ،، کے عنوان سے منظر عام پر آئی تھی ،اجلاس صد سالہ کے بعد دارالعلوم دیوبند میں جو انقلاب آیا اور جس کے نتیجہ میں قاری محمد طیب رح کی سرپرستی میں وقف دارالعلوم کا قیام ہوا اور کن پریشانیوں اور مشکلات سے وقف کے بانی ، اساتذہ ، معاونین اور رفقاء کو گزرنا پڑا اسکے احوال بھی اختصار سے آگئے ہیں ، بیرون ملک کے علمی اسفار ، تدریسی و تحریری خدمات ، الداعی کی کتابت وتزئین ، عربی الثقافہ کی ادارت، معروف تلامذہ ، اداروں کی تاسیس و سرپرستی ، تنظیموں سے وابستگی ، مطبوعہ وغیر مطبوعہ کتابوں کا تعارف اوراخلاق فاضلہ و اوصاف حمیدہ جیسے عناوین کے تحت زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی گئ ہے ، یہ جلد 565 صفحات پر مشتمل ہے ، زبان سلیس و شگفتہ ، ترتیب فطری اور عمدہ ا ور اسلوب سہل و مؤثر ہے ، ،
د وسری جلد 673صفحات پر مشتمل ہے اور تقریبا ڈیڑھ سو علماء ، اہل قلم ، اعزہ و اقارب اور شعراء نے نظم و نثر میں فخر جھارکھنڈ مولانا محمد اسلام قاسمی کو خراج تحسین پیش کیا ہے ، مولانا محمد سفیان قاسمی ، مولانا احمد خضر شاہ مسعودی ، مولانا بدر الحسن قاسمی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،مولانا ندیم الواجدی ، مولانا عتیق احمد بستوی ، ڈاکٹر تابش مہدی ، مولانا فرید الدین قاسمی ،مفتی احسان قاسمی ،مولانا انیس الرحمان قاسمی ،قاری ابو الحسن اعظمی ،مفتی ثناء الھدی قاسمی ،مولانا عطاء الرحمان قاسمی ،مولانا عبد المتین منیری بھٹکلی ، مولانا حسان قاسمی کویت ، مولانا ثمیر الدین قاسمی انگلینڈ ، خالد اعظمی کویت ، مولانا عبد الباسط ندوی ، مولانا قمر الزماں قاسمی ، نایاب حسن قاسمی مفتی امتیاز قاسمی ، قمر الزماں ندوی ، مفتی جمیل اختر جلیلی ، مفتی ناصر الدین مظاھری ، مولانا محمد سعیدی ناظم مظاہر علوم ،ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند وقف ، مولانا شمشاد رحمانی ، جناب حفیظ الحسن وزیر حکو مت

علم و کتاب

27 Dec, 12:52


سنو سنو !!

فصلوں کا بیمہ

(ناصرالدین مظاہری)

https://telegram.me/ilmokitab

ابھی ابھی حکومت کے کسی ادارہ کی طرف سے واٹسپ پر ہندی زبان میں پیغام ملا کہ

प्रधानमंत्री फसल बीमा योजना (PMFBY) के तहत अपनी फसलों को सुरक्षित करें! अपनी आजीविका को अनिश्चित जोखिमों से बचाने के लिए अंतिम तिथि से पहले पंजीकरण कराएं।

اس کا اردو میں صاف سا مطلب یہ ہے کہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (PMFBY) کے تحت اپنی فصلوں کی حفاظت کریں! اپنی روزی روٹی کو غیر یقینی خطرات سے بچانے کے لیے آخری تاریخ سے پہلے رجسٹر کریں۔

سہارنپور کے ایک گاؤں دبکورہ کی ایک مسجد میں جانا ہوا لوگوں نے کچھ کہنے کی فرمائش کی تو میں نے عرض کیا کہ آپ سب لوگ کسان ہیں اللہ تعالی رزق پوری دنیا میں کسانوں کے ذریعہ پہنچا رہاہے ، زراعت کے سوا تمام کاروبار میں سود کے خطرات ہیں ، کسی نہ کسی طرح انسان سود میں ملوث ہوہی جاتا ہے آپ لوگ محنت کرتے ہیں بیج ڈالتے ہیں فصل اگتی ہے اناج پیدا ہوتاہے وغیرہ وغیرہ۔

بعد میں ایک صاحب نے بتایا کہ ہم کسان لوگ بھی سود سے بچ نہیں سکتے کیونکہ اپنے پاس جو پرانا بیج ہے اس سے فصل میں پیداوار کم ہوتی ہے سرکاری بیج سے پیداوار زیادہ ہوتی ہے ، حکومت سے اگر آپ نقد بیج لینا چاہیں تو بالکل نہیں دیتی ہے قسط وار ادائیگی ضروری ہے اور اسی قسط وار میں سود بھی جوڑ دیا جاتا ہے ، جیسے آپ کار وغیرہ نقد لینا چاہیں تو بہت مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا ، قسطوں پر ادا کریں تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن سود ضرور جڑ جاتا ہے۔

مجھے یاد آیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بہت پہلے پیشین گوئی فرمادی تھی کہ

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئےگا، کہ کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جس نے سود نہ کھایا ہو اور جو سود نہ کھائے، اسے بھی سود کا غبار لگےگا۔"( ابن ماجہ)

ایک اور جگہ سود کی قباحت اور شناعت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

"جس شب مجھے (معراج میں) سیر کرائی گئی، میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے، ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے کہ سود خور ہیں۔" (ایضا)

حکومت کی طرف سے جب یہ میسیج ملا تو میں سوچ میں غرق ہوگیا کہ سود کیسے پوری دنیا پر حکومت کرنے لگایے ، حکومتی یا غیر حکومتی ادارے سود پر چل رہے ہیں۔

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھاکہ

"بیمہ پالیسی میں سود اور جوا دونوں پائے جاتے ہیں۔ قرآن میں ان دونوں کی مذمت اور برائی بیان کی گئی ہے، اسے ناپاک اور شیطانی عمل فرمایا گیا ہے، اس لئے کھیت کی فصل کا بیمہ کرانا جائز نہیں۔ "

سوچیں سود کی شروعات جب بیج سے ہی ہو جائے گی تو پھر اس کی شاخیں کہاں تک جائیں گی۔علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ

ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Dec, 12:50


سکھائے خوب اس نے ’بدر‘ کو آدابِ فرزندی

محمد نوشاد نوری قاسمی
استاد دارالعلوم وقف دیوبند

https://telegram.me/ilmokitab

حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی ؒ کی وفات کے معًا بعد، کسی دن جنا ب مولانا بدر الاسلام قاسمی (استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند) نے بتلایا تھا کہ وہ اپنے والد صاحب کی سوانح حيات اور ان کے مقالات پر کام کررہے ہیں، میں نے دستور کے مطابق خوشی کا اظہار کیا؛ لیکن اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ خواب، اتنی تیزی سے شرمندہء تعبیر ہوجائے گا؛ عام طور سے بڑے علما کی وفات کے بعد، ان کے اخلاف وتلامذہ ایسی باتیں کہتے نظر آتے ہیں؛ مگر سالہا سال تک یہ ارادے عملی شکل نہیں لے پاتے؛ مگرجناب مولانا بدر الاسلام قاسمی صاحب اپنے کام میں سنجیدہ اور مخلص تھے، انہوں نے نئی نسل کو اپنے والد کی حقیقی خدمات اوران کی زندگی کے مد وجزر سے متعارف کرانے کا، اپنے سر میں سودا سمایا، اس کے لیے مطلوبہ یکسوئی اختیار کی، شب وروز ایک کیے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل صرف سوانح حیات نہیں؛ بلکہ ان کی نگارشات بھی، ان کے دیگر علمی افادات اور تصنیفات بھی، ان کی حیات وخدمات پر ہونے والے مسابقے کے منتخب مقالات بھی؛ یہ تمام کتابیں،معیاری طباعت اور دیدہ زیب سرِورق کے ساتھ، اس قلیل عرصے میں منظر عام پر آگئیں فللہ الحمد والمنۃ۔
گزشتہ ہفتے جب کتابوں کی رسم اجرا کی باوقار تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو دعوت نامے کی خوب صورت ڈیزائننگ، عمدہ خطاطی اورکتابوں کی فہرست نے سب کو محو ِحیرت کردیا، اس موقع پر چھ کتابوں کی رسم اجرا عمل میں آئی، ۱۔ کیا شخص زمانے سے اٹھا(دو ضخیم جلدیں)،۲۔چندمقتدر شخصیات، ۳۔ دار العلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ، ۴۔ نگارشات اسلام، ۵۔ مقالات حکیم الاسلام، ۶۔ حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی، زندگی کے کچھ پہلو۔
رسم اجرا کی تقریب جو 25 دسمبر2024ء بروز بدھ بعد نماز مغرب، جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے وسیع ہال میں، حضرت مولانا سید احمد خضرشاہ مسعودی دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند ومہتمم جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کی زیر سرپرستی عمل میں لائی، اپنے تنوع کی وجہ سے صرف رسم اجرا کی تقریب نہ رہی، وہ آج کل کے عرفی معنی میں، حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمیؒ کی حیات وخدمات پر مستقل سیمینار ثابت ہوئی، دیوبند اور بیرونِ دیوبند سے بڑی باوقار اور علمی شخصیات نے شرکت کی اور حضرت مولانا مرحوم پر اپنے قیمتی تاثرات پیش فرمائے جس سے مرحوم کی شخصیت کے متعدد مخفی گوشے سامنے آئے اور سامعین کی معلومات میں خوب اضافہ ہوا۔
اس پروگرام سے جناب مولانا بدر الاسلام صاحب قاسمی کی علمی، قلمی اور انتظامی صلاحیتيں بھي نكھر كر سامنے آئيں، ثابت ہوا کہ وہ دھن کے پکے، محنتی، جفاکش اور کام کے آدمی ہیں، انہوں نے اپنے والد مرحوم کی شخصیت اور آثار کو بہترین شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا،جو دیگر اکابر علماء کے اخلاف کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے، یہ بجائے خود حضرت مولانا محمد اسلام قاسمیؒ کی بہترین تربیت کی دلیل ہے، وہ سنوارنے کا فن جانتے تھے، وہ جس طرح اپنی خطاطی سے، حروف ونقوش کو سنوارا کرتے تھے، اسی طرح اپنی اولاد اور تلامذہ کو سنوارکر کندن بنانے کا ہنرجانتے تھے، مولانا بدر الاسلام کی شخصیت میں، ان کی فنکاری کا بانکپن محسوس کیا جاسکتا ہے، علامہ اقبال کی زمین میں مجھے کہنے دیجیے:
یہ ہے اسلام کی فکر فروزاں کی حنابندی
سکھائے خوب اس نے ’’بدر‘‘ کو آداب فرزندی
میں اس عظیم تصنیفی وتالیفی خدمات پر، دل کی گہرائیوں سے جناب مولانا بدر الاسلام صاحب قاسمی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالے ان خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں مزید علمی کاموں کی توفیق ارزانی فرمائے آمین۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Dec, 12:49


"جمال ِ رسولﷺ" کے تناظر میں/ پروفیسر دلاور خان، 13۔ جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کی سیرت نگاری کے صوفیانہ اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ/ ڈاکٹر شاکر حسین خان، 14۔ صوفیانہ ادب میں سیرت نگاری کے رجحانات/ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس، 15۔ عربی ادب میں صوفیہ کی مولود نگاری کی روایت/ پروفیسر دلاور خان۔
سیرتی ادب میں صوفیہ کے کردار اور ان کی علمی خدمات کے حوالےسے یہ ایک عمدہ کوشش ہے۔ جس کے لیے فاضل مدیر اور جملہ اراکین شاہد ریسرچ فاؤنڈیشن پاکستان لائقِ تحسین و قابلِ مبارک باد ہیں۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Dec, 12:49


"شش ماہی شاہد انٹرنیشنل" (صوفیہ کی سیرت نگاری)
مؤسس و مدیر:پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان ،
ناشر:شاہد ریسرچ فاؤنڈیشن کراچی، صفحات:294،
قیمت:درج نہیں ، برائے رابطہ :03222413267
تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
https://telegram.me/ilmokitab

سیرت النبی ﷺ ایک ایسا لامتناہی سمندر ہے جس کی حدود، گہرائی اور گیرائی کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کے سیرت نگاروں میں امہات المومنین، اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، آئمہ کرامؒ، محدثینِ عظامؒ، علماء ، صوفیہ، ادباء ، شعراء حتی ٰ کہ غیر مسلم افراد بھی شامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیرت نگاری کے متعد د مناہج اور اسالیب ہیں۔ جن میں محدثانہ، مورخانہ، فقیہانہ، متکلمانہ، مناظرانہ ، ادیبانہ،اور مولفانہ اسالیب زیادہ معروف ہیں۔ ان ہی مناہج و اسالیب میں ایک اہم منہج صوفیائے کرام کا بھی ہے۔ جسے صوفیانہ منہجِ سیرت نگاری یاروحانیت ِسیرت کا نام دیا جاسکتا ہے۔
صوفیانہ سیرت نگاری یا روحانیت ِسیرت سے مراد بنیادی طور پر تزکیہ نفوس کے سلسلے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی دی ہوئی ہدایات ہیں۔ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی یہ ہدایات شریعت، حدیث اور سنت کا حصہ ہیں لیکن سیرت کےباب میں بھی ان کا تذکرہ آتا ہے۔ سیرت کے موضوع سے براہِ راست تعلق تزکیہ نفس کےان اقدامات کا ہے جو حضورﷺ نے لوگوں کی روحانی پاکیزگی اور تربیت کے لیے اختیار فرمائے۔
سیرت طیبہﷺ پر شائع ہونے والے معروف تحقیقی مجلے شش ماہی "شاہد" انٹرنیشنل کا پیشِ نظر خاص نمبر "صوفیہ کی سیرت نگاری" پر مشتمل ہے اور راقم الحروف کی معلومات کی حد تک صوفیہ کی سیرت نگاری پر یہ کسی بھی تحقیقی مجلےکا پہلا خاص نمبر ہے۔ شاہد کے موسس و مدیر ممتاز ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان (پرنسپل ، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن، ایجوکیشن سٹی ملیر، کراچی) ہیں۔ جب کہ معاون مدیر ڈاکٹر فیاض شاہین (لیکچرار، ہمدرد یونیورسٹی ، کراچی) ہیں۔
صوفیہ کی سیرت نگاری کے منہج و اسلوب کے بارے میں فاضل مدیر رقم طراز ہیں: "جمہور صوفیہ کی سیرت نگاری کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انھوں نے دیگر سیرت نگاروں کی طرح سیرت نگاری میں مطول، شرح ، تہذیب اور تلخیص کی بجائے 'منہجِ اختصار' کو اختیار کیا۔ جس سے مختصرات سیرت النبی ﷺ کا عظیم الشان ذخیرہ معرضِ وجود میں آیا، جس کا تسلسل تاحال جاری ہے۔ یہاں ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر صوفیہ نے مختصرات النبی ﷺ کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ : جب سیرت نگار سیرت نگاری کا فریضہ سر انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے اس بات کا اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے کس طبقے کے لیے لکھ رہا ہے اس کی ذہنی و علمی سطح کیا ہے ؟ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھ کر وہ سیرت النبی ﷺ کے مقاصد، اسلوب، متن اور منہج کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ وجہ ہے اگر سیرت نگار اہلِ علم و دانش کے لیے سیرت نگاری کا فریضہ سرانجام دینے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ محدثانہ، ادبی ، کلامی اور فلسفیانہ اسلوب ومنہج اور متن کا انتخاب کرے گا اور اس کی ہیئت مفصل و مطول ہوگی۔ اس کے برعکس اگر وہ عوام الناس اور مشغولیت میں گھرے افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے سیرت نگاری کرناچاہتا ہے تو اسے اس طبقے کی ذہنی و علمی کیفیت و سطح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مفصل و مطول کی بجائے مختصر سیرت نگاری کو قلم بند کرنا پڑے گا۔ صوفیانہ سیرتی ادب میں ہمیں اکثر مفصل اور مطول کی بجائے مختصر سیرت نگاری کی ہیئت ملے گی، جو سوانحی، بیانیہ اسلوب اور عام فہم ہوگی۔ تاکہ کم وقت اور کم عبارت میں سیرت کے اصل جوہر کو مریدین اور عوام الناس کے ذہن نشین کرایا جاسکے۔ "
پیشِ نظر خصوصی شمارے میں درجِ ذیل مقالات شامل ہیں: 1۔ مولد النبی ﷺ سید عبدالقادر الجیلانی الحسینیؒ "جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند"/ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی، 2۔ کشف المحجوب میں مباحثِ سیرت اور سید ہجویریؒ کا منہج و استدلال، 3۔ "کشف المحجوب" اور پیغامِ اطاعتِ رسولﷺ/ ڈاکٹر سلیم اللہ جندران، 4۔ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے صوفیانہ سیرت نگاری کے منہج کا مطالعہ/ پروفیسر دلاور خان، 5۔ مطالعہ سیرت النبی ﷺ، لطائفِ اشرفی کی روشنی میں/ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، 6۔ حضرت مخدوم سمنانی ؒ کی سیرت نگاری کے اسالیب کا تجزیاتی مطالعہ/ پروفیسر دلاور خان، 6۔ مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ بحیثیت سیرت نگار نبی الامی ﷺ/ ڈاکٹر شاکر حسین خان، 7۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے سیرت نگاری کے منہج و اسلوب کا مطالعہ/ ڈاکٹر افتخار احمد خان، 8۔ ذکرِ رحمت للعالمین ﷺ بزبانِ سلطان العارفینؒ/ لئیق احمد، 9۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ بحیثیت سیرت نگار (تفسیرِ مظہری کا خصوصی مطالعہ)/ حافظ نوید اقبال و محمد ہمایوں عباس، 10۔ شمائل نبوی ﷺ/ پیر سید مہر علی شاہؒ، 11۔ صلحِ حدیبیہ: آقا کریم ﷺ کی سیاسی بصیرت اور اثرات/ سید شاہ آلِ مصطفیٰ سید میاںؒ، 12۔ یک لفظی سیرت النبی ﷺ کے منہج کا مطالعہ

علم و کتاب

27 Dec, 06:59


"سنوسنو"

ناصر الدین مظاہری
https://telegram.me/ilmokitab

کل جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کی دارالحدیث میں حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی کے صاحب زادے مولانا بدرالاسلام قاسمی کی ترتیب دادہ چھ کتابوں کے اجراء کے موقع پر مجھے بھی شرکت کی دعوت اور سعادت ملی۔اناؤنسر مولانا اظہارالحق قاسمی صاحب نے جب مجھے دعوت سخن دی تو شروعات ہی "سنوسنو" سے کی۔

جب میں مائک کی طرف بڑھا تو حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری مدظلہ نے مجھ سے فرمایا کہ لوگ اب تک سنو سنو پڑھتے تھے آج سنیں گے۔😂😂😂
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

26 Dec, 10:12


ہمیں ان کی ذاتی زندگی اور فیصلوں پر سوال قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کے جنازے کا حال آنکھوں سے دیکھ کرکچھ اچھا نہیں لگا۔ ڈاکٹر محمد حسن کے جنازے کے ساتھ وہ رسمی معاملات بھی نہیں ہوئے جو ایک گم نام اور بے حیثیت انسان کے جنازے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ بس یونہی ایک رسم ادا کی گئی اور وہ بھی عجلت کے ساتھ۔یہ سطریں اسی تکلیف کا برملا اظہار ہیں۔
(زیرتکمیل خودنوشت سے)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

26 Dec, 10:12


ایک ترقی پسند دانشور کا سفرِ آخرت

معصوم مرادآبادی

https://telegram.me/ilmokitab

25 اپریل 2010 کی دوپہر جب ڈاکٹر محمد حسن کے انتقال کی خبر ملی تو میں دہلی اردو اکیڈمی کے ممبران کی ایک ٹیم کے ساتھ مشرقی دہلی میں اردو خواندگی مراکز کا جائزہ لے رہا تھا۔ خبر ملتے ہی ہم لوگوں نے گاڑی کا رخ واپس اردواکیڈمی کے دفتر کی طرف موڑ دیا جہاں ڈاکٹر محمدحسن کی قبر پر چڑھانے کیلئے ایک گل دائرہ تیار ہورہا تھا۔ اسی اثناء میں انیس اعظمی یہ کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے کہ فرحت رضوی فون پر بتارہی ہیں کہ کئی اردو والے دہلی گیٹ قبرستان پرڈاکٹر محمد حسن کے جنازے کا انتظار کررہے ہیں لیکن یہاں تو ان کے لئے کوئی قبر نہیں کھودی گئی ہے۔ سوال یہ تھا کہ کہیں ان کی تدفین کسی اور قبرستان میں تونہیں ہوگی؟ کچھ دیر کی کشمکش کے بعد عقدہ کھلا کہ پٹھان والی مسجد (مال روڈ) کے امام صاحب نے قبرستان کے منتظم کو فون کرکے محض اتنا کہا تھا کہ ایک میت کیلئے قبر کھود دیں۔ امام صاحب نے قبرستان کی منتظمہ کمیٹی کو یہ نہیں بتایا تھا کہ اس قبر میں ہمارے عہد کے ایک بڑے اردو ادیب اور دانشور کو دفن کیا جائے گا۔
ہم لوگ ابھی اردو اکیڈمی کے دفتر ہی میں تھے کہ ایک دیگر ذریعے سے یہ اطلاع ملی کہ پٹھان والی مسجد میں ڈاکٹر محمد حسن کی نماز جنازہ میں شرکاء کی تعداد بہت کم ہے لہٰذا آپ لوگ یہیں آجائیں۔ لہٰذا ہم نے گاڑیوں کا رخ مال روڈ کی طرف موڑ دیا لیکن درمیان میں پھر یہ خبر آئی کہ وہ لوگ نماز جنازہ پڑھ کر دہلی گیٹ قبرستان کیلئے روانہ ہوچکے ہیں لہٰذا آپ بھی سیدھے دہلی گیٹ قبرستان ہی پہنچیں۔بعد کو معلو م ہوا کہ ڈاکٹر محمدحسن کا جسد خاکی سول لائن کے سنت پرمانند اسپتال سے ان کے گھر لے جانے کی بجائے سیدھے پٹھان والی مسجد لے جایاگیا تھا جہاں میت کو غسل دینے کے بعد کفن پہنایاگیا۔
تپتی ہوئی دوپہر تھی۔ قبرستان جاکر دیکھا تو اردو کے کئی بزرگ ادیب ڈاکٹر محمد حسن کے جنازے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم لوگوں نے طے کیا کہ قبرستان کے باہر والی سڑک پر جنازہ کاندھوں پر لے لیں گے تاکہ سب کو کاندھا دینے کا موقع مل جائے۔ کچھ دیر بعد ایک ماروتی وین (ایمبولینس) آتی ہوئی دکھائی دی۔خیال تھا کہ ڈاکٹر محمد حسن کا جنازہ کسی بڑی گاڑی میں آرہا ہوگا لیکن جونہی چھوٹی سی ایمبولینس قبرستان کے باہر والی سڑک پر آکر رکی تو پتہ چلا کہ اس میں ڈاکٹر محمد حسن کا جنازہ ہے۔ پچھلا دروازہ کھلا تودیکھا کہ جنازہ ایک اسٹریچر پر رکھا ہوا ہے۔ یا الٰہی اسٹریچر کو کیسے کاندھے پر اٹھایا جائے گا۔کچھ لوگوں نے فوراً جنازے کی چار پائی کا مطالبہ کیا۔ کچھ لوگ دوڑتے ہوئے قبرستان میں گئے تو معلوم ہوا کہ یہاں ایک ہی چار پائی ہے اور وہ کسی دوسرے جنازے کو لانے کیلئے لے جائی گئی ہے۔بحالت مجبوری اسٹریچر کوکاندھے پر اٹھالیاگیا۔ اسٹریچر کو پکڑنے والے ہتھے بھی سالم نہیں تھے۔ اس لئے اسے کاندھے پر اٹھانے میں خاصی پریشانی ہورہی تھی لہٰذا کسی نہ کسی طرح ہم لوگ جنازے کو کاندھے پر اٹھائے ہوئے قبرستان کی طرف چل دئے۔ ابھی قبرستان کے دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ کچھ لوگ کہیں سے ڈھونڈکر چار پائی لے آئے تو جنازہ اسٹریچرسمیت چار پائی پر رکھ دیا گیا۔اس طرح کچھ بزرگ اور عمر رسید لوگوں کو کاندھا دینے میں آسانی ہوئی۔ان میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، کمال احمد صدیقی، ڈاکٹر شارب ردولوی،زبیر رضوی،ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر اسلم پرویز کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ بزرگان ادب قبرستان میں جو باتیں کررہے تھے انہیں سن کر احساس ہوا کہ ہم جیسے دنیا پرست، جاہ پسند، اور شہرت کے شوقین لوگوں کو قبرستان جاکر ہی سہی موت کی یاد آتی تو ہے۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ ابھی لوگ تدفین سے فارغ بھی نہیں ہوپائے تھے کہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے غیر معمولی سرگرم صدر اپنے ادارہ کے’جشن زریں‘ کا دعوت نامہ جنازہ کے شرکاء میں بڑی مستعدی سے تقسیم کرتے ہوئے نظر آئے۔
ڈاکٹر محمد حسن کا جنازہ قبرستان میں داخل ہوا اور ہم لوگ قبر تک پہنچنے کیلئے آگے بڑھتے رہے لیکن یہ راستہ خاصا طویل محسوس ہوا کیوں کہ ہم چلتے چلتے قبرستان کے آخری سرے تک پہنچ گئے۔معلوم ہوا کہ ڈاکٹر محمد حسن کے لئے قبرستان کے سب سے آخری حصہ میں تقریباً ایک کلومیٹر دور ویران جگہ پر قبر کھودی گئی ہے۔ ابھی دوہفتہ قبل جب ہم یہاں نورجہاں ثروت کو دفنانے آئے تھے، تو انہیں قبرستان کے بالکل شروع کے حصے میں ہی جگہ ملی تھی۔ یاخدا قبرستان کے اتنے ویران حصے میں ڈاکٹر محمد حسن کے لئے جگہ کیوں چنی گئی ہے۔ ان کی شخصیت تو ایسی تھی کہ انہیں جامعہ نگر کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جاتا جہاں ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے لے کر قرۃ العین حیدر تک پیوند خاک ہیں ۔ لیکن پتہ چلا کہ یہ سب تیاری عجلت میں ہوئی تھی اور ڈاکٹر محمد حسن کے سب سے قریبی دوست پروفیسر عبدالحق دہلی میں موجود نہیں تھے۔ اگر وہ دہلی میں ہوتے تو شاید کچھ بہتر انتظام ہوتا۔ یہ جان کر زیادہ افسوس ہوا کہ ڈاکٹر

علم و کتاب

26 Dec, 10:12


محمد حسن کی نماز جنازہ میں ایک درجن لوگ بھی نہیں تھے کیوں کہ دہلی کے جس علاقے میں ڈاکٹر محمد حسن کی رہائش تھی وہاں مسلمانوں کا کوئی گذر بسر نہیں ہے۔ انہوں نے تمام عمراسی غیر علاقے میں گزاری ۔ہاں 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ڈاکٹر محمد حسن مسلم اکثریتی علاقہ جامعہ نگر میں مکان کی تلاش میں سرگرداں نظرآئے تھے۔ پروفیسر قمر رئیس مرحوم بھی ان دنوں جامعہ نگر میں مکان لینا چاہتے تھے کیوں کہ وہ بھی غیر مسلموں کے علاقے وویک وہار میں قیام پذیر تھے۔ پروفیسر قمر رئیس کے جنازے کے ساتھ بھی عجیب معاملہ ہوا۔ لوگ ان کے گھر پر جنازے کا انتظار کرتے رہے لیکن ان کے داماد جنازہ لے کر سیدھے اسپتال سے شاہجہاں پور چلے گئے اور دہلی کے وہ ادیب اور دانشور جن کے درمیان انہوں نے شب وروز بسر کئے تھے، ان کے آخری دیدار سے بھی محروم رہے،جس کا سبھی کو قلق تھا۔
انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے۔ اس لئے انسان کی قدروقیمت اس کے اپنے سماج اور معاشرہ میں ہی ہوتی ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور اور بڑے ادیب سماج سے کٹ کر زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن اور پروفیسر قمر رئیس ترقی پسند تحریک کے قافلہ سالاروں میں تھے اوران کے ہاں مذہب کا تصوربہت دھندلا تھا لیکن ہمارے سماج میں انسان کی پیدائش اور موت کی رسومات آخر اس کے مذہب کے مطابق ہی ادا کی جاتی ہیں۔
دنیا کے دوسرے مذاہب کا حال تو نہیں معلوم لیکن اسلام نے احترام آدمیت پر جتنا زور دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتقال کے بعد بھی اسی جذبہ کے تحت پورے احترام اور عقیدت کے ساتھ میت کی آخری رسوم پوری کی جاتی ہیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ علی گڑھ میں میت کے آخری سفر کے دوران کتنے آداب واحترام ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ ہمارے دانشور دراصل اپنی جڑوں سے کٹ جانے ہی کو دانشوری کی معراج قرار دیتے رہے ہیں جبکہ یہی ان کا سب سے بڑا المیہ رہا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ’آخر شب کے ہمسفر‘میں لکھا ہے کہ آخری عمر میں انسان اپنی جڑو ں کی طرف لوٹتا ہے لیکن ہمارے یہ ترقی پسند دانشور اپنی جڑوں سے کٹ کر اتنی دورنکل جاتے ہیں جہاں انہیں کوئی جانتا ہے اور نہ پہچانتا ہے اوران کی شخصیت ایک لاوارث لاش کی طرح ہوجاتی ہے۔دراصل پروفیسر محمد حسن اور پروفیسر قمر رئیس کی موت آج کے ترقی پسند دانشوروں کیلئے ایک درس عبرت ہے۔
ڈاکٹر محمد حسن بنیادی طو رپر باغیانہ ذہن کے انسان تھے۔وہ مرادآباد کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ راقم الحروف کو مرادآباد میں ان کے ماموں مولوی محمد عزیز حسن (علیگ) سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ وہ بڑی ذی علم شخصیت تھے اور درجنوں غیر مطبوعہ تصنیفات انہوں نے ورثے میں چھوڑی ہیں۔ وہ اکثر ڈاکٹر محمد حسن کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حسن طالب علمی کے زمانے میں مرادآباد سے تن تنہا لکھنؤ چلے گئے تھے جہاں انہوں نے علی سردار جعفری اور اسرارالحق مجاز کے ساتھ برسوں ترقی پسند تحریک کی آبیاری کی۔ انہوں نے لکھنؤ میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وہیں انگریزی روزنامہ’پائنیر‘ سے اپنے کیرئر کا آغازسب ایڈیٹر کے طور پر کیا۔ڈاکٹر محمد حسن بے پناہ صلاحیتوں کے انسان تھے۔ وہ محقق نقاد،ڈرامہ نگار اور صحافی کے علاوہ ایک معتبر دانشور بھی تھے۔ ان کی تحریروں میں بلا کی گیرائی اور گہرائی ہوتی تھی۔یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ برصغیر ہند۔پاک میں اس وقت ان کے پایہ کا دوسرا ادیب اور نقاد موجود نہیں تھا لیکن اگر ان کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ اوائل عمری میں ہی اپنے والدین سے کٹ گئے تھے اور برسوں مرادآباد نہیں آتے تھے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریس کے دوران انہوں نے اپنی پسند سے شادی کی لیکن وہ تمام عمر اس فیصلے پر پچھتاتے رہے کیوں کہ ان کی اہلیہ ہمیشہ ان کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنی رہیں ۔طالب علمی کے زمانے میں والدین اور خاندان والوں سے کٹ کر اور دہلی کے زمانہ قیام میں انہوں نے سماج سے کٹ کرزندہ رہنے کوترجیح دی۔ یہ تمام فیصلے ان کے اپنے تھے۔
پروفیسر محمد حسن کا قول تھا کہ ”آج نظریاتی خود مختاری کا دور ہے۔“ یہ صحیح ہے لیکن نظریاتی خود مختاری انسان کے سماجی اور معاشرتی رشتوں میں حد سے زیادہ داخل ہوجائے تو وہ انسانی شرف وسعادت کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔ یہی صورتحال ڈاکٹر محمد حسن کو بھی پیش آئی۔ ڈاکٹر محمد حسن یہ بھی کہا کرتے تھے کہ انسان کو اپنی پسند کے مطابق زندگی گذارنا چاہئے۔ یہی صحیح ہے۔ ڈاکٹر محمد حسن نے اپنی پسند کے مطابق زندگی گذاری لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی 84سالہ زندگی کی کمائی تقریباً رائیگاں چلی گئی کیوں کہ ان کی دانشوری کی اس روایت کو پسند کرنے والے اتنی تعداد میں بھی نہیں تھے کہ ان کے جنازے کو کاندھا دے کر آخری منزل تک پہنچاسکتے۔

علم و کتاب

26 Dec, 10:02


سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 282-278

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

https://t.me/shamail255

علم و کتاب

26 Dec, 03:29


سلسلہ نمبر: 251
انتخاب مطالعہ
تحریر: *سید صباح الدین*

*ہندوستانی پھول*

ہندوستان میں اُس زمانے میں جتنے پھول تھے ان کے نام اؔمیر خسرو نے لکھے ہیں،ان میں سے کچھ یہ ہیں: سوسن،سمن، بنفشہ، کبود، بیلا، گل زریں، گل سرخ،ریحان، گل کوزہ،گل لالہ، گل سفید،سپر غم،صدبرگ، نسترن، یاسمین،دونا،کرنا،نیلوفر،ڈھاک، چمپا،جوہی، کیوڑا، سیوتی، گلاب،مولسری وغیرہ ان پھولوں کی تعریف کرتے ہوئے اؔمیر خسرو لکھتے ہیں کہ: بنفشہ، یاسمن،نسترن تو ایران سے ہندوستان میں لائے گئے،ورنہ اور تمام پھول ہندوستانی ہیں ان میں بعض پھولوں کی تعریف دل کھول کر کی ہے، مثلا: گل کوزہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اس میں پانی کی سی لطافت ہے ؛ لیکن خود پانی نے اپنی لطافت اس پھول سے دریوزہ گری کی ہے،بؔیلا کے متعلق لکھتے ہیں کہ: اس کی پیشانی بڑی کشادہ ہوتی ہے اور ایک پھول میں سات پھول ہوتے ہیں،اس کی خوشبو میں دلربائی ہے ؛ اس لیے عاشقوں کے دل میں جگہ پاتی ہے،کؔیوڑے کے متعلق لکہتے ہیں کہ: معشوقوں کی پوشاک اس سے باہی جاتی ہے اور دو برس بعد بھی اس کی خوشبو ایسی ہی باقی رہتی کہ کپڑا پھٹ بھی جائے تو اس کی خوشبو نہیں جاتی ہے،رؔائے چمپا کو امیر خسرو نے پھولوں کا بادشاہ قرار دیا ہے، کہتے ہیں کہ: اس کی خوشبو ایسی ہوتی ہے جیسے شراب میں کسی نے مشک ملا دیا ہو،یہ چنبیلی جیسے بدن والے معشوق کی طرح نازک ہوتا ہے،اس میں زردی عاشقوں کے چہرے کی طرح ہوتی ہے، اس سے جو تیل نکالا جاتا ہے وہ سر میں مشک سے زیادہ اثرکرتا ہے ۔
مؔولسری کے متعلق لکہتے ہیں کہ اس کی پتیاں باریک اور چھوٹی ہوتی ہیں،لیکن دیکھنے میں بہت چست معلوم ہوتی ہیں اور ہر شخص کو پسند ہیں، اس کے پھول معشوق کی گردن کے حمائل ہیں،دؔونہ کو امیر خسرو ”ریحان ہند “کہتے ہیں اور اس کی خوشبو کو پسندیدہ بتاتے ہیں،امیر خسرو کو کؔرنہ بہت پسند تھا،وہ لکھتے ہیں کہ اس کی خوشبو پھیلتی ہے تو گھر اور کوچے معطر ہوجاتے ہیں،سؔیوتی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بِھڑ اس کے لیے جان دیتی ہے اور مرنے کے بعد بھی اس سے لپٹی رہتی ہے، معشوق عاشق کی طرح اس کے لیے سرگرداں رہتے ہیں، یہ پھول معشوقوں کا معشوق ہے ۔
ہندوستانی پھولوں کی عام تعریف کرتے ہوئے امیر خسرو لکہتے ہیں کہ یہ دنیا کے تمام پھولوں سے بہتر ہیں،بہشت میں بھی ایسے ہی پھول ہوں گے،اگر یہاں کے ایسے پھول روم اور شام میں ہوتے تو وہاں کے لوگ ان کی تعریف دنبا میں کرتے پھرتے۔

(*ہندوستان امیر خسرو کی نظر میں،صفحہ: 23،طبع:دار المصنفین،اعظم گڑھ*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

25 Dec, 19:49


وفیات مورخہ: ۲۶ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
پروین شاکر 26/دسمبر/1994ء
ضمیر الدین احمد 26/دسمبر/1990ء
علاء الدین احمد، پروفیسر 26/دسمبر/1975ء
غفور احمد، پروفیسر(عبدالغفور) 26/دسمبر/2012ء
فرید الحق ، پروفیسر سید شاہ 26/دسمبر/2011ء
وجد چغتائی (مرزا محمد ایوب چغتائی) 26/دسمبر/1993ء
وجیہ الدین، حاجی محمد 26/دسمبر/1963ء
مولانا محمد شمیم 26/دسمبر/2001ء
دل شاہجہانپوری 26/دسمبر/1959ء
پروفیسر عبد الغفور احمد 26/دسمبر/2012ء
سکندر حیات خان 26/دسمبر/1942ء
قاری مصطفی اسماعیل 26/دسمبر/1978ء
ریاض کھوکر 26/دسمبر/2023ء

علم و کتاب

25 Dec, 16:33


مولانا ندوی کوہم سے جد اہوئے برسوں بیت گئے،یہی قانون قدرت ہے، ماہ وسال اس طرح گذرجاتے ہیں،مولانا کودیکھنے والے بھی اب بھٹکل میں بہت کم رہ گئے ہیں، لیکن مولانا کی یادوں کی قندیل دلوں میں اب بھی روشن ہے،مولانا نے بھٹکل میں آنکھ کھولی نہ یہاں پرخاک نشین ہوئے ، نہ آپکا یہاں پرکوئی خون کارشتہ پایاجاتاہے لیکن مولانانے جوشمع روشن کی ، جودیپ جلائے ان کی ضوفشانی جاری ہے،دیوں سے دئے جل اٹھے اورذات خداوندی سے امید ہے کہ روشنی پھیلانے کا یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا، بارگاہ یزدی میں اسے قبولیت نصیب ہو اورمولاناکی بلندی درجات کاذریعہ بنے ۔
٭٭٭

علم و کتاب

27 Nov, 19:49


مولانا عاشق الہی بلند شہری(وفات ۲۸ نومبر) تحریر: مولانا ندیم الواجدی

علم و کتاب

27 Nov, 19:39


وفیات مورخہ: ۲۸/نومبر
https://telegram.me/ilmokitab

بشیر احمد غازی آبادی، حافظ 28/نومبر/1987ء
رضوی، اے اے (اختر عالم) 28/نومبر/2010ء
صفیہ صدیقی 28/نومبر/2012ء
طورسم خان 28/نومبر/1979ء
پروفیسر نورالحسن ہاشمی 28/نومبر/2000ء
مولانا عاشق الہی بلند شہری 28/نومبر/2001ء
یس یم منیر 28/نومبر/2022ء
عبد البہاء 28/نومبر/1921ء
ڈاکٹر غلام علی الانا 28/نومبر/2020ء
بیرندرناتھ سرکار(فیلم ڈائرکٹر) 28/نومبر/1980ء
مبارک الصباح 28/نومبر/1915ء
سید حسن عسکری (مورخ) 28/نومبر/1990ء

علم و کتاب

27 Nov, 07:29


دیوبند کی مختصرحاضری اوریادگارلمحات

( آج سے ایک سال پہلے 27/ نومبر 2023 کو قلم بند کی گئی داستان سفر)

محمدساجدکُھجناوری
مدیرماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ
https://telegram.me/ilmokitab

اپنی دیرینہ خواہش کے باوجود یادوں کی نگری " دیوبند " حاضری کا اتفاق کم ہی ہوتا ہے ، جبکہ دیوبند گنگوہ کی مسافت بھی چالیس پینتالیس کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے مگراپنی بے ہنگم مصروفیات اور کام سے کام رکھنے کی عادت کے سبب کہیں آنے جانے کیلۓ کئی بارسوچنا پڑتا ہے۔
اس کے باوصف دیوبند ایک ایسا مرکزعقیدت ہے جہاں کی حاضری کا شوق کبھی پورا نہیں ہوتا۔جس کی بنیادی وجہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند اوروہاں کےاپنے اساتذۀ ذی شان ہیں جن کے سایہ میں بیتے اپنی طالب علمی کے وہ دس سال ہیں جنھیں اپنی حیات عزیز کا قیتمی سرمایہ سمجھتا ہوں ، آج اگر کسی بھی حیثیت سے ہلکی پھلکی اپنی کوئی شناخت ہے یا قلم وکتاب سے براۓ نام ہی سہی کچھ تعلق ہے تووہ دیوبند کا فیضان ہے جس کے چشمۀ صافی سے حسب توفیق استفادہ رہا ہے والحمدللہ علی ذالک۔
کل 26 /نومبر 2023 اتوار کی شام " ہیراگارڈن " دیوبند میں حضرة الأستاذمولاناعبدالخالق سنبھلی مرحوم سابق استادحدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے بیٹے عزیزی محمدزبیرسلمہ کے عقدمسنون
کے بعد دعوت ولیمہ کی تقریب تھی جس میں شرکت کیلۓ برادرعزیز مفتی عزیرعبدالخالق سنبھلی مدرس مفتاح العلوم جلال آباد نے ازراہ تعلق بندۀ ناچیزکو بھی دعوت نامہ بھیج کرکچھ رفقا کی معیت میں حاضری کا پابند کررکھاتھا، مع ھذا ہمارے ایک مشفق دوست قاری محمدامجد قاسمی ان دنوں ریاض سے دیوبند آۓ ہوۓ ہیں جن سے علیک سلیک کا وعدہ بھی مؤخرہورہا تھا اس لۓ موقعہ کو غنیمت جانتے ہوۓ اپنے دوسرے احباب جناب قاری محمدطالب ہریانوی اور مولانامحمدادریس رشیدی ندوی اساتذۀ جامعہ اشرف العلوم رشیدی کے ہمراہ عصر سے ذرا پہلےدیوبند کیلۓ رخت سفر باندھ لیا ، عصر کی نماز قصبہ نانوتہ میں اداکرلی تھی ، چنانچہ ایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ دیوبند میں تھے ۔
چوں کہ تین چارروز پہلے ہی مشفقم مولانامفتی عمران اللہ قاسمی زیدمجدھم استاذ دارالعلوم دیوبند کافون آیاتھا کہ اگردیوبند آنا ہوا تو ملاقات کی کوئی سبیل ضرور نکالنا اس لۓ بندہ نے سہولت کی خاطردیوبند سے پہلے ہی ایک عدد کال کے ذریعہ اپنا نظام بتاکرمولانا سے مغرب کے بعد کا وقت لے لیا تھا ، بنابریں احباب کا مشورہ ہوا کہ نماز مغرب چھتہ مسجد میں اداکرکے آپ کے گھرپردستک دی جاۓ چنانچہ یہی ارادہ تھا لیکن افریقی منزل قدیم کے دروازہ پر جیسے ہی پہنچے تو معلوم ہوا کہ استاذمکرم بحرالعلوم حضرت مولانانعمت اللہ اعظمی دامت برکاتھم سردروازہ اپنے حجرہ میں تشریف رکھتے ہیں ، حضرة الأستاذ سے ملاقات ہوۓ یوں بھی ایک زمانہ گزرگیاتھا ،سوچا کیوں نہ زیارت کرکے ڈھیرساری دعائیں لے لیں ،دروازہ کھلاہواتھا ہم لوگ اشارہ ملتے ہی حاضرخدمت ہوۓتو اس وقت غالبا آپ کچھ وظائف واوراد پڑھ رہے تھے ، لیکن سلام وتعارف ہوا تو مہربان سے ہوگۓ بلکہ اشرف العلوم کے احوال وکوائف بھی دریافت کۓ ، کچھ توقف کرکےبندہ نے حضرت کی اس تحریر کا تذکرہ بھی کیا جو چندروز پہلے ہی آپ نے فلسطین کے شاہینوں کو مخاطب کرکے مرتب فرمائی تھی تو چہرہ روشن ہوگیا بولے کیا ہماری یہ تحریر وہاں تک پہنچ گئی ہوگی ؟۔ الجزیرہ وغیرہ پر تو کچھ نہیں ہے ۔
میں نے کہا کہ مولانافضل الرحمان قاسمی صاحب پریس سکریٹری جمعیة علماء ہند نے اسے عربی اور انگریزی وغیرہ کے قالب میں ڈھال کر آگے بڑھادیا ہے جو ان شاءاللہ اپنے اہداف تک پہنچے گی ، جس وقت یہ گفتگو جاری تھی حضرت پر ایک خاص کیفیت طاری تھی یوں محسوس ہورہا تھا کہ آپ کا دل مشرق وسطی میں اٹکا ہوا ہے اور قلب مضطر سے آپ وہاں کے شاہینوں کو ظفریابی کی دعا دے رہے ہیں ، پھر بندہ نے آپ کے ترجمۀ قرآن کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اب لوگوں میں قدردانی کا جذبہ محسوس نہیں ہوتا حقیقت یہ ہے کہ آپ کے قرب میں بیٹھنے اور علمی باتیں سننے کا مزہ ہی الگ تھا بہرکیف رخصتی کی اجازت چاہی تو فرمایا کہ" شرح معانی الآثار " کو ضرور دیکھنا اس سے فائدہ ہوگا محبت اور اخلاص سے بھری یہ نصیحت سننے کے بعد ہم لوگ افریقی منزل کے اوپری حصہ کی طرف بڑھ گۓ جہاں مولانا مفتی عمران اللہ قاسمی صاحب ہمارے منتظر تھے ۔
مفتی عمران اللہ صاحب کے دردولت پر حاضرہوۓ تو آپ نے چاۓ وغیرہ سے ضیافت فرمائی اور دلچسپی کے کئی ایک موضوعات پر اپنی معلومات سے شادکام فرمایا ، آپ تدریس کے ساتھ قلمی کاموں میں بھی اشتغال رکھتے ہیں سردست " نگارشات مولاناسیدمحمدمیاں دیوبندی " ترتیب وتھذیب کے مرحلہ میں ہے جبکہ" تذکرہ مولاناعبدالباری فرنگی محلی" زیورطبع سے آراستہ ہوکر شائقین کے ہاتھوں میں ہے ، اس موقعہ پر آپ نے" احاطہ دارالعلوم دیوبند میں اکابرعلماء کےپیش کردہ خطبات کا دوجلدوں پر مشتمل مجموعہ بنام " خطبات دارالعلوم دیوبند " ماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ " میں تعارف وتبصرہ لکھنے کیلۓ پیش فرمایا جس کی

علم و کتاب

27 Nov, 07:29


یقین دہانی کے بعد ہم لوگوں نے باہر کی راہ لی ۔
افریقی منزل سے نکلے تو قاری محمدامجد قاسمی دیوبند میں اپنے مکان پر لے گۓ اور مدینہ منورہ کی کھجوروں اور مغزیات سے ضیافت کی یہاں قاری صاحب سے کچھ دیر باتیں کرکے عشا کی نماز پڑھی اور پھر ہیرا گارڈن کا رخ کرلیا جہاں عشائیہ تناول کرنا تھا پہنچے تو اچھا خاصا رش نظرآیا ، دارالعلوم کے اساتذۀ کرام کے علاوہ دوسرے مدارس ومقامات کے بہت سے معزز اہل علم پروگرام کی رونق تھے ، یہاں حضرت مولانامحمدسلمان بجنوری نقشبندی ، حضرت مولانامفتی عبداللہ معروفی ، حضرت مولانامفتی محمدمزمل مظفرنگری ، حضرت مولانامفتی محمدسلمان منصورپوری ، حضرت مولاناخضرمحمدکشمیری حضرت مولاناقاری آفتاب عالم امروہوی حضرت مولانامحمدعثمان غنی ہاؤڑوی حضرت مولانامفتی فہیم الدین بجنوری حضرت مولانامفتی اشرف عباس قاسمی حضرت مولاناعارف جمیل مبارک پوری حضرت مولاناتوحیدعالم بجنوری حضرت مولانامفتی محمداللہ خلیلی وغیرھم تشریف رکھتے تھے جن میں بعض سے مصافحہ اور معانقہ بھی ہوا ، اسی طرح مکرمی مولاناندیم الواجدی مولانامفتی ریاست علی رام پوری مفتی عزیرسنبھلی ، مولانامفتی رئیس احمددہرادون ، مولاناقاری اجمل بلندشہری ، قاری محمداعظم قاسمی مفتی بلال احمد دیوبندی ، مفتی ذکوان احمدبجنوری ، مولانایادالہی میرٹھی مولاناحذیفہ نجم تھانوی مولاناقاری شعیب احمدمحمدپوری اور قاری محمدانعام تھانوی سے بھی ملاقات رہی۔
اس تقریب مذکور میں شرکت کے بہانے بہت سے نۓ پرانے احباب واکابرسے ملاقات ہوگئی ، دل چاہتا تھا کہ دونوں دارالعلوم سے وابستہ اپنے بعض بے تکلف دوستوں سے بھی رابطہ کرکے شفاہی ملاقات کی جاۓ مگر لیلاۓ شب کی زلفیں دراز ہواچاہتی تھیں اس لۓ دوبارہ حاضری کی تمنا دل میں بساۓ گنگوہ کیلۓ اپنی کار میں بیٹھ گۓ ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Nov, 04:02


سلسلہ نمبر: 244
انتخاب مطالعہ
تحریر: *محمد حنیف نؔدوی*

*تو اُن سا یقین پیدا کر*

بات یہ ہے کہ عقیدہ و الٰہیات کے حقائق کی تشریح کا تعلق در اصل اس چیز سے ہے کہ کوئی شخص ایمان کے کس درجے پر فائز ہے یا وہ کس حد تک قرآن کے لطائفِ بیان سے آگاہ اور اس کے ذوق استدلال سے واقف ہے۔
مثلا: صحابہؓ کے مقدس اور پاکباز گروہ کو کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ وہ توحید باری، اثباتِ نبوت اور معاد کے مسائل پر استدلال و قیاس کی بوقلمونیوں کی روشنی میں غور کریں ؛ اس لیے کہ انہوں نے آفتاب نبوت کی جلوہ آرائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ریاضِ رسالتؐ کی شبنم آرائیوں سے بغیر کسی وساطت کے قلب و ذہن کو مہکانے کی سعادت حاصل کی تھی ۔
ان کے نزدیک آنحضرتؐ کی زندگی،آپ کا اسوۂ حسنہ،کردار و سیرت کی عظمت اور روز مرہ زندگی کی تابانیاں دلائل و براہین تھے، جن کے ہوتے ہوئے کسی مصنوعی منطق کی حاجت ہی نہیں تھی یعنی یہ نفوس قدسیہ ایمان و عشق کی اس منزل پر فائز تھے،جہاں بقول ابوسلیمان المنطقی کے ”لِمَ“ (کیوں) ساقط ہوجاتا ہے، ”کیف“ ( کس طرح) باطل ٹہرتا ہے، ”ھلا“ ( کیوں نہیں) زوال و فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے اور ”لو“( کاش کہ ایسا ہوتا) کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

( *عقلیات ابن تیمیہ، صفحہ:161،طبع: ادارہ ثقافت اسلامیہ،کلب روڈ،لاھور*)

https://telegram.me/ilmokitab


https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Nov, 02:38


آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في فاکهة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 204-201

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

https://t.me/shamail255

علم و کتاب

26 Nov, 14:21


جلوہ ہائے پابہ رکاب ( ۲۸ )۔۔۔ بر صغیر میں موصوف پر سے ” ال “ حذف کرنے کی عادت
ڈاکٹر ف عبد الرحیم #DR_F_Abdrurahim

ہائی اسکول کے زمانے میں مجھے عربی زبان کے بنیادی قواعد کا علم ہو چکا تھا۔ عربی سے دلچسپی کی وجہ سے میں علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا۔ ایک امام صاحب تھے جن سے میں بہت زیادہ ملا کرتا تھا، وہ اردو میں اصلاحی رسالے لکھ کر شائع کرتے تھے اور ان کو عربی سے بھی خاص لگاؤ تھا۔
ان سے بار بار ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے پاس عربی کی مشہور ڈکشنری ))المنجد (( ہوتی تھی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ ایک دن میں نے ان سے کہا: لفظ ))هر قل(( غیر منصرف ہے نا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر میں نے کہا: کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عجمی علم ہے ؟ وہ اس بات سے بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دیں۔
ایک دن انہوں نے اپنا تازہ رسالہ عنایت فرمایا۔ میں نے اس کا پیش لفظ پڑھا۔ اس کے آخر میں لکھی ہوئی ایک عبارت نے مجھے چونکا دیا۔ صفحے کے آخر میں ان کا نام لکھا ہوا تھا، اور نام سے پہلے یہ عبارت تھی ((عبد الفقير)) ۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا: مولانا یہاں ایک چوک ہو گئی ہے۔ ((عبد الفقیر)) سے پہلے جو «ال» ہونا چاہیے وہ لکھا نہیں گیا ہے۔ صحیح عبارت تو((العبد الفقير)) ہے نا؟ آپ " فقیر بندہ " کہنا چاہ رہے ہیں۔ «ال» کے بغیر اس کا مطلب ہو جائے گا "فقیر کا بندہ " جو بالکل غلط ہے۔ میری اس بات سے امام صاحب خفا ہو گئے، بولے: یہاں «ال» کی کوئی ضروت نہیں میں نے عرض کیا: مولانا یہاں «عبد» موصوف ہے اور موصوف اور صفت کے در میان مطابقت چاہیے جو یہاں مفقود ہے، اس حذف کی وجہ سے «عبد» موصوف نہیں رہا، بلکہ مضاف بن گیا اور عبارت کا مطلب ہوا " فقیر کا بندہ" جو غلط ہے۔ اب امام صاحب کی خفگی بڑھ گئی، انہوں نے کہا کہ میں فلاں مشہور اسلامی درسگاہ کا فارغ التحصیل ہوں، اور میری تحریر میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔ میں ان کی محفل سے مایوس ہو کر نکل گیا، شہر کے بعض علماء سے ملاقات کی، اور اس موضوع پر ان سے مشورہ کیا۔ ان سب نے کہا: امام صاحب عالم ہیں، جس کو تم غلط سمجھ رہے ہو، ان کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی تاویل ہو گی۔ بر صغیر میں موصوف پر سے «ال» گرانے کی غلطی بہت عام ہے۔ جیسے صراط المستقيم باقيات الصالحات، إخوان المسلمين وغيره۔
ایک بار میرے پاس بر صغیر کے ایک صاحب آئے، ان کو ایک کتاب خریدنے میں مدد چاہیے تھی۔ انہوں نے چٹھی دکھائی جس پر کتاب کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ نام اس طرح لکھا ہوا تھا: ((بحر الرائق)) میں نے کہا: یہ نام غلط ہے، صحیح نام اس طرح ہے: «البحر الرائق»۔ انہوں نے کہا: یہ چٹھی مدرسے کے بڑے استاذ نے لکھی ہے۔ میں نے کہا: سوال لکھنے والے کا نہیں، یہ نام جس نے بھی لکھا ہے غلط لکھا ہے۔
یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ زبان سیکھنے کے لیے دو چیزیں درکار ہیں: پہلی چیز یہ کہ زبان کا جو مسئلہ آپ سمجھنا چاہتے ہیں، اس کا قاعدہ سمجھ جائیں۔ لیکن یقین جانیے کہ قاعدہ کو سمجھنا سیکھنے کے عمل کا صرف آدھا حصہ ہے۔ دوسرے حصے کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جس قاعدہ کو ابھی آپ نے سمجھا ہے، اس کی مشق کریں۔ ماہرین تعلیم نے ہر قاعدہ کے لیے مختلف مشقیں تیار کی ہیں۔ مشقوں پر محنت کرنا اور وقت لگانا ضروری ہے۔ قاعدہ سمجھنے میں اگر آپ کو پانچ منٹ لگے ہیں تو قاعدہ کی مشقوں پر آپ کو کم از کم بیس منٹ لگانا ضروری ہے۔ میں نے اپنی ایک کتاب میں اس مسئلے کو اس طرح بیان کیا ہے قليل من التقعيد، وكثير من التمرين يعنی قاعدہ کو مختصر طور پر سمجھانے پر اکتفا کرنا، اور مشقوں پر کافی وقت لگانا۔ بر صغیر کے مدارس میں طلبہ نحو کی بڑی بڑی کتابیں پڑھنے کے باوجود اگر وہ قواعد میں سنگین غلطی کرتے ہیں تو اس کی وجہ مشق کا فقدان ہے۔
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

26 Nov, 10:36


لمحوں کی خطا

https://telegram.me/ilmokitab

حجرہ نمبر اٹھارہ احاطہ مطبخ کی فوقانی منزل میں طالب علمی کے دو سال گزرے ہیں میرے حجرہ کے ایک ساتھی نے پلیٹ میں پانی ڈال کر کھنگالی اور دروازے کی وہ پانی بیٹھے بیٹھے اچھال دیا ، اتفاق کی بات ہے ٹھیک اسی وقت مطبخ کے نگراں حضرت مولانا نذیر احمد مظاہری گزر رہے تھے وہ پانی مولانا کے اوپر گرا اور یوں مولانا سردی کے موسم میں بڑھاپے کی حالت میں ڈیوٹی پر تعینات اس ناگہانی پریشانی سے محض ایک طالب علم کی حماقت کی وجہ سے تر بتر ہوگئے۔
مولانا نے مزاج میں سختی کے باوجود کچھ نہیں کہا لیکن اس کا احساس اس طالب علم بے انتہا ہوا بعد میں حضرت سے معافی بھی مانگی اور ہمیشہ اس واقعہ کو دہرا کر شرمندہ ہوتا رہا۔

میری بڑی بھابھی کھانا پکا رہی تھیں کسی سبزی کا گرما گرم پانی اپنے پیچھے دیکھے بغیر پھنکنے کی نیت سے اچھال دیا ٹھیک اسی وقت ان ہی کا بڑا بیٹا محمد لئیق کھیلتا ہوا آگیا اور یہ گرم پانی اس معصوم پر گر کر اچھی خاصی تکلیف میں مبتلا کرگیا۔

میں ایک دن دارقدیم سے دفتر یا دفتر سے دارقدیم آرہا تھا کہ ایک صاحب نے پڑیا کی پچکاری سڑک پر چلتے چلتے اپنے دائیں جانب ایسے پھینکی کہ میرے سفید براق کپڑے اس پڑیا کے نشانات سے آلودہ اور ابلق ہوگئے حال یہ تھا کہ سڑک رواں دواں بھیڑ اچھی خاصی اور طلبہ کے ہجوم سے گزر کر آنا پڑا۔

ایک دن مسجد بہادران کے پاس ایک نالی سے ایک کتابرآمد ہوا، گرمیوں کا موسم تھا اور میں چند منٹ پہلے ہی کپڑے تبدیل کئے تھے شاہید میری ہی نظر ان کپڑوں پر لگ گئی ہوگی کہ عین کتے کے پہلو سے جب گزر رہا تھا تو کتے نے کمال مہارت وفنکاری سے ایک تیز جھر جھری لی اور نالی کی کیچڑ اس جسم سے اچھل کر میرے کرتے پاجامے کو داغدار کرگئی۔

مجھے اپنی غلطی پر تنبہ تو ہوا لیکن دیر میں ہوا میں نے سوچا تھا کہ سیکنڈوں میں گزر جاؤں گا لیکن وہاں تو لمحوں کی بات تھی۔ میرے ذہن میں مشہور مصرع گونج اٹھا کہ
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
واقعی انسان کی حماقتیں اسے مدتوں یاد رہتی ہیں۔

ناصرالدین مظاہری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

26 Nov, 08:04


مولانا شوکت علی

معصوم مرادآبادی
https://telegram.me/ilmokitab

آج مولانا محمد علی جوہر کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے آج ہی کے دن 26 نومبر 1938 کو دہلی کے قرول باغ علاقہ میں وفات پائی۔ افسوس دیگر مجاہدین آزادی کی طرح ہم نے انھیں بھی فراموش کردیا ہے۔ وہ نہایت بے باک اور جری رہنما تھے۔
علی برادران کے نام سے معروف تحریک خلافت کے ہیروز مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی
دونوں اپنے دور کی عظیم المرتبت شخصیات تھیں۔ لیکن بیشتر لوگ ان دونوں بھائیوں میں مولانا محمد علی سے ہی زیادہ واقف ہیں۔
مولانا شوکت علی ، مولانا محمد علی سے بڑے تھے ۔ انھوں نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ علی گڑھ سے اعلا تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمت کی لیکن جلد ہی مستعفی ہوگئے۔ انجمن خدام کعبہ قائم کی اور تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ان کا انتقال 26 نومبر 1938 کو دہلی کے قرول باغ میں ہوا اور تدفین شاہجہانی جامع مسجد کے پہلو میں درگاہ ہرے بھرے شاہ کے احاطے میں عمل میں آئی۔ علی برادران کی والدہ محترمہ بی اماں کی قبر بھی دہلی میں درگاہ شاہ ابوالخیر کے احاطے میں ترکمان گیٹ کے نزدیک واقع ہے جبکہ مولانا محمد علی جوہر فلسطین میں مدفون ہیں-
مولانا شوکت علی کی پیدائش دس مارچ 1873 کو مغربی یوپی کے نجیب آباد ( بجنور)میں ہوئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دوران تعلیم انھیں کرکٹ کا شوق ہوا اور یونیورسٹی کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے۔ انھوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد یوپی سول سروس میں اودھ اور آگرہ میں سترہ سال خدمات انجام دیں۔ بعدازاں ملازمت چھوڑ کر اپنے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ خلافت تحریک میں شریک ہوئے۔ نہایت جرأت مند انسان تھے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

26 Nov, 08:03


سنو سنو!!

حرمین شریفین میں سم کارڈ کی خریداری

(ناصر الدین مظاہری)
https://telegram.me/ilmokitab

حرمین شریفین بلکہ جدہ ائیرپورٹ پہنچتے ہی ہر شخص پہلی فرصت میں اپنے اہل خانہ کو اطلاع دینا چاہتا ہے کہ وہ خیر و عافیت کے ساتھ پہنچ گیا ہے ، بتاتا چلوں کہ سعودیہ عربیہ ایک امیر ملک ہے زبردست معیار زندگی ہے اس کے باوجود یہاں ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد اپ کو سم کارڈ اور انٹرنیٹ ڈاٹا کے معاملے میں انڈیا کی بہت یاد آئے گی کیونکہ انڈیا میں ساڑھے تین ہزار میں پورے سال کا ریچارج کرا لیتے ہیں اور جیو کمپنی آپ کو روزآنہ خرچ کرنے کے لیے دو ڈھائی جی بی ڈاٹا دیتی ہے جو آپ رات دیر گئے تک استعمال کر سکتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ سعودیہ عربیہ پہنچیں گے تو سب سے پہلے آپ کو سم کارڈ لینا ہوگا ویسے تو بہت ساری سم کارڈ کی کمپنیاں اپنے ورکروں ، نوکروں اور ڈیلروں کے ذریعے ایئرپورٹ پر ہی سم کارڈ فروخت کرتی مل جائیں گی جن میں سے ریڈ بل، موبائلی ، زین وغیرہ چھ سات کمپنیاں سعودی میں متحرک ہیں ان کے سم کارڈ آب خرید سکتے ہیں لیکن میرے خیال سے سعودی عربیہ میں سب سے اول نمبر پر موبائلی کمپنی ہے ، دوسرے نمبر پر زین اور تیسرے نمبر پر ایس ٹی سی وغیرہ ہیں یہ درجہ بندی کوئی معنی نہیں رکھتی آپ کو سم کارڈ خریدتے وقت صرف اس بات کا دھیان رکھنا ہے کہ جو سم کارڈ آپ خرید رہے ہیں اس کی زندگی بمشکل 15 سے 20 دن ہے ، اس کے بعد یہ سم کارڈ ختم ہو جائے گا اس کی معیاد پوری ہو جائے گی اور آپ کو ان 15 سے 20 دن کے لیے جس کمپنی کا سم چاہیے خوب تحقیق کر لیجئے کتنے جی بی ڈاٹا آپ کو ملے گا وہاں انڈیا جیسا خوبصورت اور سستا انتظام سم کارڈ کے معاملے میں بالکل نہیں ملے گا ،

زیادہ ریال میں بہت کم G,B ڈاٹا ملے گا اسی ڈاٹا کو آپ انٹرنیٹ کے ذریعہ کالنگ میں اور سرچنگ و سرفنگ میں بڑی احتیاط کے ساتھ اس ترتیب سے خرچ کریں کہ واپسی کے وقت ایئرپورٹ تک کام چل جائے اس لئے آپ کم سے کم فون کریں ، کم سے کم ڈاٹا استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ اپنے اوقات کو عبادات میں مصروف رکھیں، میں نے کئی بار سفر کے دوران یہ تجربہ کیا ہے کہ انڈیا کا کوئی بھی سم کارڈ اگر اپ انٹرنیشنل رومنگ ریچارج کرا لیتے ہیں تو یہ کافی مہنگا ہوتا ہے اور یہ صرف مجبوری میں ٹورآپریٹر کراتے ہیں یا وہ لوگ کراتے ہیں جن کی انکم اور آمدنی بہت زیادہ ہے ٹور آپریٹروں کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ انہیں سعودیہ عربیہ میں رہ کر بھی بھارت سے مسلسل رابطے میں رہنا ہوتا ہے ۔ بعض لوگوں نے ایئرٹیل کمپنی کا سم کارڈ خریدا اور رومنگ کا واؤچر ریچارج کرا لیا اب جب وہاں پہنچے تب پتہ چلا کہ یہ جگاڑ وہاں کے نظام سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہوا۔

اگر اپ حرم شریف کے قرب و جوار میں سم خریدنا چاہیں تو عام طور پر ہر طرف سم کارڈ بھیجتے ہوئے یا سم کارڈ بیچتی ہوئی باپردہ خواتین مل جائیں گی، سم خرید کر وہیں اپنے موبائل میں ڈال کر ایکٹیویٹ کرانا نہ بھولیں۔

اگر آپ کو سم کارڈ حرمین شریفین کے قرب و جوار میں مثلا 50 ریال کا مل رہا ہے تو اپ یہی سم کسی مول سینٹر میں یا مین برانچ میں کچھ کفایت کے ساتھ بھی مل سکتا ہے ۔

بعض حضرات وہاں پہنچ کر سم کارڈ نہیں خریدتے اور اپنے ساتھیوں سے وائی فائی یا ہوٹس اسپورٹ کے ذریعہ کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ انکار کرسکتا ہے اور اس کے انکار سے آپ کو تکلیف ہوسکتی ہے لیکن تکلیف بالکل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کی ایک ایک ایم بہت قیمت سے ملی ہے آپ مفت یہ سروس چاہتے ہیں۔ ایک بات اور اگر وقت سے پہلے آپ کا ڈاٹا ختم ہوگیا ہے تو اس کو ریچارج کرانا نیا سم کارڈ لینے سے بھی مہنگا ہے اصل میں وہاں کی چند کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے دولت بٹور رہی ہیں ۔ سعودیہ حکومت کو اس سلسلہ میں کچھ انقلابی اقدام کرکے زائرین ومعتمرین اور حجاج کو سہولت پہنچانی چاہیے۔

حرمین شریفین میں عام طور پر ہر اچھے ہوٹل کی طرف سے وائی فائی سروس مہیا کرائی جاتی ہے لیکن یہ وائی فائی سروس آپ کو اپ کے کمروں میں اکثر نہیں ملے گی بلکہ اس کے لیے آپ کو استقبالیہ کاؤنٹر پر مہیا کرائی جاتی ہے لیکن ایک انار سو بیمار والا حال ہوتا ہے لوگ بہت ہوتے ہیں اور وائی فائی میں اتنی قوت اور وسعت نہیں ہوتی کہ وہ اتنے سارے لوگوں کے بوجھ کو برداشت کر سکے اس لیے بسا اوقات موبائل نیٹ ورک بہت کمزور اور سست روی کا شکار ہو جاتا ہے، اپ کوشش کریں کہ کوئی ایسا سم کارڈ خریدیں جو اپ کے لیے کفایت اور رعایت کے ساتھ ہر جگہ اپ کا ساتھ دے سکے۔

میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ سعودی عربیہ اپنے حسن انتظام اپنے رکھ رکھاؤ، صفائی اور سہولت رسانی کے معاملہ میں باقی دنیا میں امتیازی شان کا حامل ملک ہے لیکن موبائل کے سم کارڈ اور انٹرنیٹ ڈاٹا کے معاملے میں سعودی عربیہ میں بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے کمپنیاں بہت مہنگے سم کارڈ فروخت کرتی ہیں اسی طرح بہت مہنگا ڈاٹا ملتا ہے اس کے علاوہ لوکل بات کرنے کے لیے بھی جو منٹ دیے جاتے ہیں وہ

علم و کتاب

26 Nov, 08:03


بہت کم ہیں ، انٹرنیشنل کال کے لئے بھی کچھ منٹ دینا چاہیے۔

بتاتا چلوں کہ وہاں واٹسپ کے ذریعہ ویڈیو کال یا آڈیو کال نہیں کرسکتے اس کالنگ پر پابندی ہے ۔ ایک ایپلی کیشن ہے جس کانام IMO ہے اس کو آپ پلے اسٹور سے ڈاؤنلوڈ کرلیں اور جن کو فون کرنا چاہتے ہیں اس کے موبائل میں بھی یہی ایپلی کیشن ڈاؤنلوڈ کردیں تو بات آسانی کے ساتھ ہوسکتی ہے ۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


تمیم بن حمد الثانی (امیر قطر) کی سرپرستی میں لائبریری عوامی استفادے کے لئے کھول دی گئی۔ اس وقت اس لائبریری میں دس لاکھ سے زیادہ کتابیں عربی، انگریزی، فرانسیسی، جرمنی اور دنیا کی دوسری زبانوں میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں پانچ لاکھ سے زائد ڈیجیٹل کتب کا ذخیرہ بھی اس لائبریری کی شان و شوکت میں اضافہ کئے ہوئے ہے۔
قطر لائبریری کی خوبصورت عمارت ایجوکیشن سٹی کے قلب میں واقع ہے۔ لائبریری پینتالیس ہزار اسکوائر میٹر کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اکیسویں صدی کی جدید اطلاعاتی سہولیات کے تناظر میں لائبریری میں تمام چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس میں داخل ہونے اور نکلنے کے لئے ازخود کھلنے، بندہونے والے دروازے موجود ہیں، جو کسی بھی شخص کے اندر داخل ہونے یا باہر نکلنے پر خودبخود کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔لائبریری میں کوئی بھی شخص استفادہ کرسکتا ہے۔ مطالعہ کے لئے آرام دہ نشستیں، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ وغیرہ موجود ہیں۔ لائبریریوں کے اندر ہر چیز صفائی و سلیقہ کے ساتھ رکھی ہوئی ہے۔ نماز کے لئے مسجد، آرام کے لئے ایزی چیئرز، ریستوران کے لئے سبھی کچھ سہولیات حاصل ہیں۔ لائبریری کے اندر بچوں کا سیکشن الگ سے موجود ہے، جس میں بچوں کی دلچسپیوں کے سامان کے علاوہ ہر موضوع پر مشتمل کتابیں ہیں جو قطر میں موجود کوئی بھی شخص اپنا رجسٹریشن کراکے ایک وقت میں چار پانچ کتابیں اکیس دن کے لئے بسہولت حاصل کر سکتا ہے۔
قطر ایجوکیشن سٹی
قطر کے ریّان میونسپل علاقہ میں بنایا گیا قطر ایجوکیشن سٹی، ایک تعلیمی و تحقیقی مرکز ۱۲؍کلو میٹر اسکوائر کا احاطہ کئے ہوئے ہے، جس میں مختلف تعلیمی ادارے بشمول سیٹیلائیٹ کیمپس (جو انٹرنیشنل یونیورسٹیز سے ملحق ہے) بھی واقع ہے۔
قطر ایجوکیشن سٹی کی بنیاد قطر فائونڈیشن کے تحت قطر فائونڈیشن نے ۱۹۹۷ء میں امریکہ کی معروف اورمعیاری یونیورسٹی ورجینا کامن ویلتھ یونیورسٹی کامپلیکس قائم کرکے رکھی گئی تھی۔
گزشتہ دو دہائیوں قبل یہ ادارہ ایک اسکول کے ذریعہ وجود میں آیا تھا جو آج ترقی کرکے یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکا ہے، جس میں اس وقت پچاس ممالک سے زیادہ کے طلباء و طالبات مختلف کورسز میں تعلیمی و تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایجوکیشن سٹی میں سائنسی اور تحقیق کے شعبوں کے بہت سے مراکز ہیں جن میں ایک قطر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک ہے۔ یہ پارک 45000 اسکوائر میٹر کے ایریا میں بنایا گیا ہے، جس میں علاقائی اور بین الاقوامی تکنیکی ایجاداتی نظام سے انکیوبیشن فنڈنگ، تربیت، رہنمائی اور رابطے کی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ قطر نیشنل ریسرچ فنڈ، مسابقتی امتحان میں کامیاب طلباء و محققین کو ریسرچ کے لئے مالی معاونت فراہم کرتاہے۔
سدرہ میڈیکل ریسرچ سینٹر بھی قطر ایجوکیشن سوسائٹی سے ملحق ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ایجوکیشن سٹی نے خود کو ایک مکمل کمیونٹی میں تبدیل کرلیا ہے۔ اس کے تحت ۲۱۹؍بیڈ روم کا پریمیئر ان ہوٹل، بین الاقوامی معیار کا ایک فٹ بال اسٹیڈیم، ۳۳؍ہول والا گولف کورس (گولف کلب)، سٹی مسجد، قطر نیشنل لائبریری اور آکسیجن پارک کے علاوہ الشقاب (گھوڑ سواری کا مرکز) سٹی ایجوکیشن سوسائٹی جیسے اہم مقامات کام کر رہے ہیں۔
خطبۂ عرب کا سب سے بڑا گھوڑوں کی تعلیم و گھوڑ سواری مرکز ’’الشقاب‘‘ قطر کے ضلع ’’الشکوب‘‘ میں واقع ہے جو ۱۹۹۲ء میں قطر کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی نے قائم کیا تھا۔ ۲۰۰۴ء میں اسے قطر فاؤنڈیشن میں شامل کردیا گیا۔ اس ادارہ میں عرب گھوڑوں کی افزائش نسل اور ان کی حفاظت و تحفظ کا انتظام معقول پیمانے پر ہے۔ دس لاکھ مربع میٹر پر محیط اس مرکز میں چار سو سے زیادہ گھوڑوں کے اصطبل موجود ہیں۔
ایجوکیشن سٹی مسجد
یہ مسجد اپنے طرزِ تعمیر کے اعتبار سے بہت خوبصورت، وسیع، کشادہ اور جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔ یہ مسجد پانچ ستونوں پر قائم ہے،جو اسلام کے بنیادی پانچ ستونوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس میں بہت بڑے خوش خط الفاظ میں جن قرآنی آیات کو نقش کیاگیا ہے وہ جاذبِ نظر ہیں۔ اس میں ایک ستون پر سورۃ النساء کی آیت اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰباً مَّوْقُوْتًا۔ دوسرے پلر پر حج سے متعلق سورۃ آل عمران کی آیت وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔ ایک ستون پر شہادت کے سلسلے میں قرآنی فرمان سورۂ محمد کی آیت فَاعْلَمْ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ۔ایک اور ستون پر سورہ بقرہ کی روزوں سے متعلق آیت یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنِ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن۔۔ایک اور ستون پر سورہ توبہ کی آیت خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


عَلِیْمٌ۔مسجد کے احاطہ میں جگہ جگہ قرآن کریم کی متبرک آیات بہت خوبصورت رسم الخط میں نقش ہیں جو قرآن کریم کی عظمت کو ثابت کرتی ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں کوئی ستون نہیں ہے۔
مسجد سے ملحق وضوخانہ میں آٹومیٹک ٹیپ ہیں، مردوں کی طرح عورتوںکے لئے بھی وضو اور نماز کا الگ الگ انتظام ہے۔ مسجد میں تلاوت کے لئے قرآن کریم کے ہزارہا نسخے رکھے ہوئے ہیں جو مختلف طباعت و اشاعت کے نمونے ہیں۔ مختلف زبانوں کے تراجم و تفاسیر بھی مطالعہ کے لئے موجود ہیں۔ مسجد سے قریب خوبصورت کیفے بھی ہے، جہاں آپ اپنے ذوق اور جیب کے مطابق جو کچھ کھانا پینا چاہیں کھا پی سکتے ہں۔ مسجد سے نیچے اور باہر پارکنگ ایریا ہے، جس میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔ پارکنگ سے متصل چھوٹا سا میٹرو اسٹیشن ہے جو پوری طرح ایئر کنڈیشنڈ ہے۔ یہاںچھوٹی سی میٹر و آتی ہے، جو آپ کو ایجوکیشن سٹی کے مختلف مقامات پر لے جاتی ہوئی اصل میٹرو اسٹیشن تک لے جاتی ہے، جہاں آپ قطر کے دیگر اسٹیشنوں تک بسہولت سفر کر سکتے ہیں۔
مسجد کے اندرونی ہال میں تقریباً دو ہزار اور بیرونی حصہ میں مزید ایک ہزار افراد بسہولت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں خواتین کی باجماعت نماز کا بھی معقول انتظام ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


اس سے یہ بات نکل کر آتی ہے کہ کچھ متعصب افراد کی مفسدانہ سوچ نے آزادای کے بعد اس ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنے اور صرف ایک طبقہ کی اجارہ داری کے تصور نے ڈرامائی انداز پر جس طریقہ سے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کیا وہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے ورنہ اس ملک میں ہی نہیںدنیا کے ہر علاقے میں ہمارے ملک کے باشندوں میں جو پیار محبت پایا جاتا ہے وہ انسانیت کی بنیاد پر ہے اور یہ ’’انسانی کیمسٹری‘‘ کا ایسا جزء ہے جو کہیں پر بھی ختم نہیں ہوتا۔
عرب ملک میں جب کوئی ہندوستانی شہری نظر آتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا قبیلہ سے ہو اس کو دیکھ کر خوشی ومسرت کا جو احساس ہوتا ہے اسے الفاظ کے جامہ میں سمویا نہیںجاسکتا۔
اخوت و بھائی چارہ کی مثالیں ان ممالک میں جس کثرت سے ملتی ہیں افسوس کہ وطنِ حقیقی میں اتنی تعداد میں نظر نہیںآتیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ برادرانِ وطن جو ان ممالک میں مذہب اسلام کے پیروکاروں کے ساتھ خوش گوار اندازمیں برادرانہ تعلقات کے علمبردار نظر آتے ہیں وہ وطنِ اصلی کی طرف آکر اس کام میں ڈھیل ڈال دیتے ہیں جس کے نتیجے میں تعلقات میں وہ خوش گواری نہیں رہ پاتی جو انسان اور انسانیت کا مقصد عظیم ہے۔
بات ہورہی تھی قطر کے سرکاری انتظام و انصرام کی، آئین و قوانین کی پابندی اور عدل و انصاف فراہم کرنے کی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہوں نے اس سمت میں جو اقدامات کئے ہیںوہ قابل تقلید اور مثالی ہیں جس میں خوشی و مسرت پنہاں ہے۔
اس موقع پر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قطر کی چند تاریخی، تہذیبی عمارتوں کی تفصیلات بھی قارئین کے سامنے رکھ دی جائیںجن میں کچھ کا مختصر تذکرہ ذیل میںدیا جارہا ہے۔
قطر کا قومی عجائب گھر (نیشنل میوزیم آف قطر)
۲۸؍مارچ ۲۰۱۹ء کو عوامی دیدار کے لئے کھولا جانے والا قطر کا نیشنل میوزیم، دنیا کے عجائبات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس میوزیم کی تعمیر اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان واقع یہ خلیجی عرب ریاست ایک ثقافتی سپر طاقت بننے کے راستے پر گامزن ہے۔یہ میوزیم دوحہ میں ۵۳؍ہزار مربع میٹر اسکوائر کے رقبہ پر تعمیر کیا گیا ہے، اس عجائب گھر کے قریب میں شیخ عبداللہ بن جاسم الثانی کا تاریخی محل واقع ہے۔ قطر کا یہ قومی عجائب گھر دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے صحراء میں سورج کی بہت تیز دھوپ نکلی ہوئی ہے اور اس کے درمیان گلاب کھل رہا ہے۔ عمارت کا ڈیزائن اس انداز کا بنایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دھوپ میں ’’صحرائی گلاب‘‘ کھل رہا ہے۔
میوزیم میں داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوتا ہے، جو پچاس قطری ریال فی فرد کے حساب سے خریدا جاتا ہے۔ اندر جانے کے بعد اس محیر العقول میوزیم کی مختلف راہ داریاں در راہداریاں ہیں، جن میں قدیم و جدید تہذیب و ثقافت کے نمونوں کو بہت حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
ا س عجائب گھر کا طرزِ تعمیر بھی دلکش و جاذب نظر ہے جس میں ایک طرف مشرقی تہذیب کے عناصر کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف مستقبل کے تعمیراتی رجحان کا عکس بھی نظر آتا ہے۔
میوزیم میں نوادرات و عجائبات کا خزانہ ہے جو حکومت کے حسنِ سلیقہ و شائستگی کی دلیل ہے۔ میوزیم کے اندر دو آڈیٹوریم ہیں، ایک بڑا آڈیٹوریم ہے جس میں بہ یک وقت دو سو سے زائد افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک چھوٹی نشست بھی جو ستر پچھتر افراد کے بیٹھنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ تکان دور کرنے کے لئے خوبصورت ریستوران اور کیفے بھی ہیں۔ استطاعت رکھنے والے حضرات کے لئے یہاں حلال ماکولات و مشروبات کا معقول، صاف ستھرا انتظام ہے۔
اس عجائب گھر کا ڈیزائن فرانسیسی ماہر تعمیرات ’’ژاں نوویل‘‘ نے تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ عجائب گھر زائرین کو صحرا اور سمندر دونوں کا احساس دلاتا ہے۔ اس میوزیم کی تعمیر کی منظوری ۲۰۱۱ء میں مل گئی تھی، لیکن اس کا کام قدرے تاخیر سے شروع ہوا۔ اس کی تعمیر پر پانچ سو ملین ڈالر (پچاس کروڑ ڈالر) کے اخراجات ہوئے۔ ۲۸؍مارچ ۲۰۱۹ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں قطرکے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ ساتھ کویتی امیر شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح اور فرانسیسی وزیر اعظم ایڈورڈ فلیپ بھی شریک ہوئے۔
قطر نیشنل لائبریری
قطر کے ثقافتی ورثہ کی حفاظت کے لئے قطر نیشنل لائبریری کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ یہاں سے طلباء بھی مستفید ہوسکیں اور قطر کے سلسلے میں جو حضرات تحقیق کرنا چاہیں انہیں بھی سہولیات فراہم ہوسکیں۔ چنانچہ نومبر ۲۰۱۲ء کی ۱۹؍تاریخ کو محترمہ موزہ بنت ناصر صاحبہ چیرپرسن قطر فاؤنڈیشن کی صورت میں لائبریری پروجیکٹ کا منصوبہ تشکیل ہوا اور محض چند سالوں کے اندر (قطر لائبریری کے خطہ) ایک وسیع و عریض احاطہ میں جدید ترین تمام سہولیات سے مزین بہت ہی خوبصورت، دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوگئی جو ’’قطر نیشنل لائبریری‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس عمارت کی تکمیل کا کام ۲۰؍مارچ ۲۰۱۸ء کو ہوا اور ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء سے محترم شیخ

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


قبرستان کو اتنے سلیقہ سے چلانا حکومتی سطح پر ہی ہوسکتا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ انسان اپنی آخری منزل سے بے خبر رہتا ہے، لیکن ہر ایک کو اس مٹی میں لوٹ کر جانا ہے جس سے اس کو پیدا کیا گیا اور جہاں سے وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اقبال بھائی کی والدہ مرحومہ دو ہفتہ قبل ہی اپنی بیٹیوں سے ملنے کی غرض سے قطر تشریف لائیں تھیں، کسے معلوم تھا کہ وہ وقت موعود پر اپنی آخری آرام گاہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا اور ایسا ہی ہوا۔ انسان اپنے آپ سے کتنا بے خبر ہے، اُس کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اُس کا آخری ٹھکانہ کب اور کہاں ہے؟ قرآن کریم کے الفاظ ’’وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْت‘‘ کی صداقت ایسے مواقع پر سامنے آکر انسانوں کو غفلت سے بیدار ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
حکومت قطر اس بات کے لئے مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے اپنے ملک میں رہنے والے دنیا کے تمام باشندوں خواہ اُن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سب کو یکساں حقوق فراہم کر رکھے ہیں۔ عوام پر آمد و رفت، خورد و نوش، رہن سہن، لباس وغیرہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ سبھی کو ہمہ وقت امن و سکون حاصل ہے۔ ہندوستانی شہری بڑی تعداد میںآباد ہیں، جن میں اکثریت جنوبی صوبوںکے غیرمسلموںپر مشتمل ہے۔ ان کو اپنے مذہبی روایات و اقدار کو انجام دینے میں کسی بھی طرح کی کوئی ممانعت نہیں ۔ جنوبی ہند کے برادرانِ وطن کے لباس بالعموم اسلامی روایات سے میل نہیں کھاتے۔ مرد و خواتین کو لباس و خوراک کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ساحلی علاقوں، پارکوں، ہوٹلوں، ریستورانوں، دوکانوں،آبادیوں، سیر و سیاحت کی جگہوں پر جوان، بوڑھے، بچے،مرد، عورت سب اپنے اپنے طرز پر زندگی جی رہے ہیں۔ سڑکوں پر رات، دن کے کسی بھی حصہ میں ایسی جوان لڑکیاں بہ کثرت نظر آتی ہیں جنہیں اپنے لباس کی کوئی فکر نہیں ہوتی، لیکن کوئی بھی شخص کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ دو ماہ کے دورانیہ میں رہزنی، لوٹ، چوری، بدنظری، چھیڑخوانی کا کوئی تذکرہ بھی سننے کو نہیں ملا۔ قوانین کی پابندی ہر ایک کے لئے لازم ہے، خواہ وہ قوانین شہری حقوق کے ہوں یا آمد و رفت کے، ان میں ذرا بھی کسی قسم کی کوئی کوتاہی ناقابل برداشت ہے۔ فوری طور پر جرم کے حساب سے سزا کا تعین ہوتا ہے۔ اس میں کوئی رعایت نہیں کی جاتی، غرضیکہ ضابطے بہت سخت ہیں۔ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی بھی ٹریفک کی ضابطہ شکنی کرے اور وہ جرمانہ ادا نہ کرے۔
مذہبی طور پر کون شخص کس طرح رہ رہا ہے، یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے۔ ہر کالونی، کیمپس و کمپائونڈ میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد ہے، جن کو سبھی لوگ پیار محبت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کسی قسم کی عصبیت، تنگ نظری یا بدنیتی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اپنے ملک میں گزشتہ چند برسوں میں سیاسی گلیاروں کے لوگوں نے یہاں کے امن و سکون کو جس طرح غارت کردیا ہے اس کا ازالہ عرب ریاستوں نے بڑی حد تک کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں رہنے والے غیر مسلم افراد کو کبھی یہ احساس بھی نہیں ہوتاکہ وہ اپنے وطن سے دور ایسے وطن میں رہ رہے ہیں جو ان کی تہذیب و ثقافت اورمذہبی اقدار سے جدا ہے۔
راقم اس پر غور کر رہا تھاتو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلمانوں کے خمیر میں یہ بات شامل ہی نہیں ہے کہ وہ دوسرے مذہب والوں کے ساتھ کسی قسم کی تنگ نظری کا برتائو کریں کیوںکہ مذہب اسلام اس بات کو تو ضرور کہتا ہے کہ تمام مذاہب میں اس سے بہتر کوئی مذہب نہیں۔ اس کی بنیاد توحید (اللہ کو ایک ماننے) پر ہے جو ہر چیز کا مالک و قابض، مختار و فرماں رواں ہے۔ یہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر کوئی کسی قسم کی قدغن نہیں لگاتا، اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کو ماننے پر مجبور نہیں کرتا۔ یہ رواداری آج نہیںبلکہ ہمیشہ سے ہے۔ وطنِ عزیز پر سینکڑوں برس حکومت کرنے والے مسلم حکمرانوں نے کوئی بھی ایسا قانون جاری نہیں کیا جس میںغیر مسلموں کو مذہب تبدیل کرنے پرمجبور کیا گیا ہو۔ باہمی عدل و انصاف،حاکمیت کامعیار رہا، جس کی مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔مسلم حکمرانوں کی یہی خصوصیات اس وقت اسلامی حکومتوں میں نظر آتی ہیں بلکہ کچھ ریاستوں کے حکمراں تو اس سلسلے میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوںنے اپنی مذہبی حدود کو پامال کردیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی حکمراں (خواہ وہ ماضی کے وطن عزیز کے حکمراںہوں یا موجودہ اسلامی حکومتوںکے امراء و شیوخ) کے پیش نظر اسلام کی تبلیغ و اشاعت یا بالجبر اسلام کی طرف مائل کرنا نہیںرہا، ان کا اصل مقصد اپنا اقتدار بچانا رہا خواہ اس کے لئے انہیں اپنے برادرِ حقیقی کو ہی سولی کی نذر کیوں نہ کرنا پڑے۔

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


اس کے بارے میں کچھ گفتگو کرلی جائے۔
سدرہ اسپتال بچوں کے علاج کے لئے قطر کا مشہور اسپتال ہے جس میں مریض بچوں، بچیوں اور اُن کے تیمار دارسرپرستوں کی خدمت بہت خندہ پشانی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اسپتال کیا فائیو اسٹار ہوٹل سے بھی زیادہ آسانیوں کا مرکز ہے۔ میلوں میں پھیلی ہوئی، اسپتال کی کثیر منزلہ بلڈنگ، یہاں کے دفاتر، لیباریٹریز، آپریشن تھئیٹر، او پی ڈی، نشست گاہیں، ویٹنگ رومز، لابی، راہداریاں، غرضیکہ کون سی ایسی چیز ہے جو قابل دید و جاذب نظر نہ ہو۔بیسمنٹ میں پارکنگ کا علاقہ ہی درجنوں بلاکس پر مشتمل ہے۔ ہر بلاک میں اے سے زیڈ تک اور پھر اس میں شماریاتی اعداد بلامبالغہ ہزار سے زائد گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش رکھتا ہے۔ گاڑیوں کو کھڑا کرنے پر کوئی فیس نہیں، نہ ہی کوئی پابندی، لیکن ہر آدمی اس کے نظم و ضبط اور اصول و قواعد کو ذہن میں رکھ کر گاڑیوں کو اس طرح کھڑی کرتا ہے جس سے کسی دوسرے آنے جانے والے کو کوئی تکلیف نہ ہو اور گاڑیوں کی آمد و رفت میں کسی بھی طرح کا کوئی خلل واقع نہ ہو۔کافی جستجو کے بعد گاڑی کو آرام کا موقع ملا، تو ہم اسپتال کی بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ پہلے فلور تک برقی سیڑھیوں اور پھر وہاں سے الگ الگ یونٹس میں مختلف منزلوں پر جانے کے لئے لفٹ کا استعمال کرنا پڑا۔ اسپتال ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملک عزیز میں واقع کسی سیون اسٹار ہوٹل میں آگئے ہوں۔ ہر چیز انتہائی معیاری، بچوں و بڑوں کے بیٹھنے کی نشستیںایسی کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔ استقبالیہ سے لے کر تجربہ گاہ تک بیسیوں ڈاکٹرز، اُن کے معاون اسٹاف، نرسز اور دیگر کارکنان کا خاموش طریقہ پر خندہ پیشانی کے ساتھ کام کرنے کا انداز، اسپتال کی بلڈنگ میں ہر جگہ پر بیسیوں افراد موجود، نہ کوئی شور، نہ کوئی غل، نہ دھکا مکی، نہ کوئی دھینگا مشتی، ہر آدمی اپنے وقت کا منتظر۔ جب اس کا نمبر آئے تو اس کی تسلی و تشفی کے لئے اسپتال کا عملہ ہر کام کے لئے حاضر۔ ہمیں بہت سے افراد سے اپنے کام کے سلسلے میں ملناہوا۔ ہر ایک نے خندہ پیشانی اور متبسّم چہروں سے ہمارا استقبال کیا، جوکچھ دریافت کیا اس کا تسلی بخش جواب دیا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے میں ہر قسم کی معاونت کی۔ اسپتال میں بچپن میں سنی ہوئی کہانی ’’کھل جا سِم سِم اور دروازہ کھل گیا‘‘ کو پوری طرح سمجھنے کا موقع ملا، کیوںکہ ہر جگہ جا کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ جگہ اسپتال کا انتہائی مقام ہے، لیکن جب دروازہ کھلتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی تو آغاز ہے، اس کے اندر پھر اتنے ہی دروازے ہیں، کوئی بھی دروازہ خود نہیں کھل سکتا۔ اسپتال کے ملازمین یا تو اندر سے کوئی بٹن دباتے ہیں یا دروازہ پر اپنی انگلیوں کے نشانات ثبت کرنے ہوتے ہیں تب دروازہ کھلتا ہے۔ بہرحال اسپتال کی ہر چیز مقناطیسی کشش لئے ہوئے تھی۔ مسرت و کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی بھیڑ نہیں، کوئی شور و شغب نہیں، حالاںکہ جیسے اوپر بتایا گیا کہ گاڑیوں کی تعداد بتا رہی تھی کہ اس میں ہزارہا افراد موجود ہیں لیکن Pin Drop Silence کا ایسا مظاہرہ نہ اس سے قبل کبھی کسی شفا خانہ میں دیکھا اور نہ ہی کسی اسپتال میںایسا تصور، اس پر مستزاد یہ کہ مریضوں اور تیمارداروں کی ہر قسم کی خبرگیری مرد و خواتین ملازمین کا لازمی شیوہ، ہمیں اپنے متعلقہ کاموں میں مختلف لیباریٹریز میں متعدد ڈاکٹرس سے ملنے کا اتفاق ہوا، کسی کے چہرے پر ہمارے ملنے سے نہ تو کسی کو کوئی تھکن کا احساس ہوا اور نہ ہی کسی نے ہم سے ملنے میں آنا کانی کا مظاہرہ کیا۔ ہر ایک کی خواہش یہ ہوتی کہ کسی طرح ہم پر کام کا کوئی بار محسوس نہ ہو، اسٹاف کا برتائو بہت ہی ہمدردانہ تھا، ملازمین کا ہر قسم کا طبقہ، ہر ممکن تعاون، ہمدردی، دل جوئی اور خوش اخلاقی کے ساتھ کسی بھی کام کرنے پر خوشگواری محسوس کرتا۔
بہرحال دو تین گھنٹے ہمارے اسپتال میں صرف ہوئے لیکن کسی بھی مرحلہ پر ہمیں تکان کا احساس نہیں ہوا اور لطف کی بات یہ ہے کہ بچہ کی سرجری کئی دن پہلے ہوئی تھی، اسے اُسی دن رخصت بھی کردیا گیا تھا، بعد میں بل آیا، اس بل کی ادائیگی بھی ہمارے کاموںمیں شامل تھا۔ بل قطری ریال کے حساب سے 26900/- قطری ریال، ہندوستانی کرنسی میں 613000/- سے زائد تھا، لیکن چوںکہ بچہ کا اسپتال میں پہلے سے رجسٹریشن تھا اور وہ اس کے مرکز حمد اسپتال کے ذریعہ یہاں پر آیا تھا، اس لئے ہمیں کل دو سو بارہ قطری ریال (یعنی کل 4800/- ہندوستانی روپئے) ہی ادا کرنے پڑے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس ملک میں بچوں کی نگہداشت، اُن کا علاج معالجہ اتنے عمدہ، اعلیٰ پیمانے پر تقریباً مفت ہوتا ہے۔ بہرحال اسپتال کی یہ خوبصورت یادیں دل و ذہن میں نقش ہوگئیں تو ہم عین خالد کی طرف رواں دواں ہوئے۔

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


مرحومہ کو قبرستان لے جانے سے قبل ہی اقبال بھائی سے جنازہ کی نماز کا وقت معلوم کرلیا گیا تھا اور لوکیشن بھی لے لی گئی تھی، مسیمر علاقہ میں قطر کا قبرستان واقع ہے، جس کے حدود کی تعیین کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قبرستان کی چہار دیواری کے ایک ہی جانب سے ہماری گاڑی تقریباً چھ سات منٹ تک پوری رفتار پر چلتی رہی، تب قبرستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ اندر کافی دور چلنے کے بعد لوکیشن میں دی گئی مسجد پر پہنچے۔ کئی سو گاڑیاں ، ہر چہار سو، پارکنگ کے احاطہ کو گھیرے ہوئے تھیں اور ابھی مغرب کی نماز میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، نمازی جہاں تہاں پارک کرکے مسجد پہنچے جہاں سیکڑوں نمازی تلاوت و ذکرمیں مشغول تھے۔ معلوم ہوا کہ قطر میں صرف یہی قبرستان ہے جو دوردراز تک پھیلا ہوا ہے۔ قبرستان کی طرح مسجد بھی بہت بڑی، دلکش، صاف ستھری، اپنی زبان سے اپنی تعریف خود بیان کر رہی تھی۔ اللہ کی حمد و ثنا اور عبادت کے لئے اتنی صاف ستھری، کشادہ مسجدیں بنانے کا عربوں کا ذوق بہر طور قابل تعریف ہے جو ہر جگہ یکساں دیکھا جاتا ہے۔ قطر میں وفات پانے والے حضرات و خواتین کے لئے قبرستان وزارت اوقاف کے زیر انتظام ہے۔ ہر نماز میں موجود جنازوں کی نماز مسجد میں ایک ساتھ ہی ادا کی جاتی ہے۔ سخت گرمی کے باعث اس موسم میںظہر اور عصر کی نماز کے بعد جنازوں کی نماز نہیں ہوتی۔ مسجد سے متصل عقبی حصہ میں اس وقت کے جنازے، غسل اور تجہیز و تکفین کے بعد رکھ دئیے جاتے ہیں۔ غسل وغیرہ کا اہتمام بھی وزارت اوقاف کی طرف سے مسجد کے عقبی حصہ میں ہوتا ہے۔ ہر نماز میں کئی کئی جنازے ہوتے ہیں جن کے متعلقین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اقبال بھائی کی والدہ کا جنازہ بھی وہیں رکھا ہوا تھا۔ قطر میں نماز جنازہ پڑھنے کا پہلا اتفاق تھا۔ کئی جنازے ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے مجمع کافی تھا۔ کیوںکہ ہماری ملاقات صرف اقبال بھائی سے تھی کسی اور سے ہم واقف نہیں تھے۔ ادھر قطر اور سوڈان کے کافی لوگ جمع تھے جو اپنے اپنے جنازوں کے ساتھ تھے، کسی نہ کسی طرح ایک صاحب سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اقبال بھائی کے بہنوئی ہیں۔ اقبال بھائی مسجد سے ملحق اس کے عقبی حصہ میں میت کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں جہاں صرف ورثاء ہی بیٹھ سکتے ہیں۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی عرب حضرات دستور کے مطابق نفلوں کی ادائیگی میں مشول ہوگئے۔ دس پندرہ منٹ بعد مغرب کی نماز ہوئی تو مسجد نمازیوںسے پوری طرح بھری ہوئی تھی، جو ہزاروں افراد پر مشتمل تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد جنازہ کی نماز کا اعلان ہوا جس سے معلوم ہوا کہ اس وقت مسجد میں سات جنازے ہیں جن میں دو خواتین اور پانچ مرد ہیں۔ امام صاحب نے میت کے آداب، دعائے مغفرت کی فضیلت کے ساتھ ہی میت کے ورثاء کو صبر کی تلقین کی۔ نماز جنازہ کے وقت عقبی حصہ (جہاں جنازے رکھے ہوئے تھے) کا دروازہ کھول دیا گیا۔ امام صاحب نے مسجد میں ہی کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کرائی، اس کے بعد ورثاء اپنے اپنے جنازوں کو گاڑی پر لے جانے کے لئے لپکے۔ ا س موقع پر اقبال بھائی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں تعزیت پیش کی، موصوف نے اپنی والدہ کے جنازے کو کاندھا دینے کا موقع دیا۔ اس کے بعد تدفین کے لئے بذریعہ گاڑی میت قبر کی طرف لے جائی گئی۔
قبرستان کا نظم بڑا منصوبہ بند ہے، قبرستان کے متعدد بلاکس ہیں، ہر بلاک بڑے بڑے پلاٹس کی شکل میں ہے۔ کچھ پلاٹس میں پرانی قبریں ہیں جو ہموار نظر آتی ہیں، کچھ بلاکس میں تھوڑی سی قبریں ابھری ہوئی قبر کی شکل میں نظر آتی ہیں، یہ قبریں دو تین ماہ قبل دفن ہونے والوں کی ہیں، جس پلاٹ میں موجودہ میتوں کو دفن کرنا تھا وہاں سیکڑوں قبریں پہلے سے ہی کھدی ہوئی ہیں، ہر قبر کے سرہانے سیمینٹ کا تین فٹ لمبا لٹھا لگا ہوا ہے جس پر بلاک نمبر اور قبر نمبر کندہ ہے۔ مثلاً 68/28 (یعنی بلاک نمبر اڑسٹھ کی اٹھائیسویں قبر) یہ سیمنٹڈ علامتی لٹھا صرف ان قبروں پر لگا ہوا ہے جو گزشتہ چند ماہ کے درمیان بنی ہیں۔ قدیم قبروںکو ایک وقت متعینہ کے بعد برابر کردیا جاتا ہے۔ قبرستان کے نظام کو چلانے کے لئے ایک بڑا عملہ موجود ہے، جس کا کام میت کو گھر یا اسپتال سے قبرستان تک لانے، غسل و تجہیز و تکفین اور آخر میں تدفین کے انتظامات کو آخری شکل دینا ہے۔ جے سی بی مشین سے قبریں پہلے سے تیار ہوتی ہیں، جنازہ پیوند خاک کرتے وقت اس میت کے چند ورثاء کو نیچے اتارا جاتا ہے جو اپنے دستور کے مطابق میت کو صحیح طریقہ سے قبرمیں رکھتے ہیں، پھر اس پر اوپر سے تختے رکھ کر گیلی مٹی سے ان تختوں کو جما دیا جاتا ہے، پھر ورثاء باہر نکل آتے ہیں۔ مٹی دینے کی رسم کی تکمیل ہوتی ہے اور پھر جے سی بی مشین سے قبرپر مٹی ڈال کر پانی چھڑک کر دعاء و فاتحہ ہوجاتی ہے۔

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


عین خالد ایک علاقہ کا نام ہے جو قطر کا مضافاتی علاقہ کہا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہاں پروگرام کے مطابق مفتی رضی سے ملاقات اور اس مسجد میں عصر کی نماز پڑھنی تھی۔ ہم عصر سے تقریباً آدھ گھنٹہ قبل مفتی صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچے، جو مسجد کی طرف سے فراہم کردہ ہے۔ بہت بڑے علاقہ میں مرکز واقع ہے، جس میں امام صاحب اور دیگر اسٹاف کے چھ بڑے بڑے مکانات ہیں، انہیں میں سے ایک میں مفتی رضی صاحب کا قیام ہے۔ مرکز میں داخل ہونے کے لئے گیٹ نمبر دو سے اندر پہنچے، معلومات کرنے پر پہرے دار نے دروازہ کھولا۔ مفتی صاحب سے بہت ہی بے تکلفی کے ساتھ ملاقات ہوئی، کچھ کھانے پینے کا دور چلا، اس کے بعد مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجدبہت کشادہ ہے، مسجد کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ اندرونی ہے جو صرف جمعہ کے دن یا کسی اہم اجتماع کے موقع پر کھلتا ہے، اس کے اندرونی حصہ میںٰ دس بارہ ہزار افراد اطمینان سے نماز پڑھ سکتے ہیں۔بیرونی حصہ میں دو حصے ہیں ایک قدرے بڑا ہے، دوسرا اس سے چھوٹا، چھوٹا والا حصہ بھی عام طور پر بند رہتاہے۔ درمیانی حصہ جس میں پانچوں وقت کی نماز ہوتی ہے اس میں بھی بہ یک وقت آٹھ سو سے زیادہ افراد نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ عصر کی نماز میں بشمول ہمارے چند افراد تھے جن کی تعداد بیس بھی نہیں تھی۔ اتنی بڑی مسجد میں اتنے کم نمازی دیکھ کر تعجب ہوا لیکن تفصیل معلوم کرنے پر راز یہ کھلا کہ چوںکہ یہ مسجد عام آبادی سے ہٹ کر بنائی گئی ہے، اس لئے اس میں نمازی کم ہوتے ہیں۔ جمعہ و عیدین کے موقع پر مسجد کے تینوں حصے بھر جاتے ہیں اور جب کبھی تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوتا ہے اس وقت نہ صرف یہ کہ تینوں حصے بلکہ باہر کا وہ میدان جو مسجد کے تینوں حصوں کی پیمائش سے کم از کم دوگنا ہے وہ بھی بھر جاتاہے۔ مسجد کے کشادہ ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد کے بیرونی احاطہ میں چار ہزار گاڑیوں کی پارکنگ اور بائیس سو بیت الخلا ء کا انتظام ہے۔ جن دنوں یہ مرکز تبلیغی جماعتوں کی قیام گاہ کے طور پر کام کرتا تھا اُن دنوں امیر مرکز کی جو تقریر عربی میں ہوتی تھی اس کے کم و بیش پندرہ زبانوںمیں ترجمے بیان کئے جاتے تھے، جس کے لئے پندرہ ہال مسجد کے بیرونی احاطہ میںبنے ہوئے ہیں۔ ہر ہال میں اس زبان کو سمجھنے والوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہمہ وقت جماعتوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ چوںکہ مسجد ’’مرکز کی مسجد‘‘ کہلائی جاتی ہے، جس کی تعمیر و توسیع حکومت نے خود کرائی ہے، اس لئے اس میں ہر اہم ضرورت کا پورا خیال رکھاگیا ہے۔ کھانا بنانے کے لئے بہت بڑی بلڈنگ ہے، کھانا کھانے کے لئے باہری حصہ، جماعتوں کے ٹھہرنے کے لئے مسجد سے باہر بڑے بڑے دو ہال، اُسی کے مطابق واش روم وغیرہ بنائے گئے ہیں۔ شاہی گھرانوں کے بہت سے افراد اپنا وقت جماعت میں لگاتے تھے۔ قطر میں تبلیغی جماعت کا کام بڑے وسیع پیمانے پر جاری تھا، مرکز کی اس جگہ یومیہ بہت سے وفود آتے تھے حالاںکہ اس وقت وہاں نہ تو زیادہ آبادی ہے اور نہ ہی فی الحال اس کے امکانات۔ یہ مرکز وہاں کے شاہی گھرانوں سے وابستہ اسلام پسند طبقہ نے منصوبہ بند طریقے سے پچاسوں سال کے بعد کے حالات کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ مرکز کی یہ مسجد کووڈ۱۹ سے قبل تک مستقل طور پر جماعتوں کی آمد ورفت کی وجہ سے آباد تھی، لیکن کووڈ اور ہندوستان کی تبلیغی جماعت کے اختلافات سے یہاں کا کام بھی متاثر ہوا۔ اب صرف جمعرات کو ہی اجتماع ہوتا ہے۔ جو صرف خطاب تک ہی محدود ہے۔ قیام و طعام کی سہولیات اس پیمانے پر میسر نہیں ہیں جن کے پیش نظر اسے بنایا گیا تھا۔
۶؍جولائی کی شام کو سوشل میڈیا پر یہ اطلاع موصول ہوئی کہ بمبئی کے مشہور سماجی خدمت گار اور عالم دین اقبال بھائی چونا والا کی والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی ہے، جنہیں ابھی دس روز قبل ہی اقبال بھائی قطر میں موجود اپنی بہنوں کے ساتھ رہنے کے لئے چھوڑ کر گئے تھے۔ طبیعت کی خرابی نے انہیں فوراً قطر آنے پر مجبور کردیا تو وہ ۶؍جولائی کی رات میں کسی وقت قطر پہنچ گئے۔ صبح کو اقبال بھائی سے فون پر عیادت کی گئی تو معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ حمد اسپتال میں داخل ہیں اور انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھی گئی ہیں۔ ۷؍جولائی کی رات میں اقبال بھائی نے سوشل میڈیا پر یہ اطلاع دی کہ والدہ کا سایہ سر سے رخصت ہوچکا ہے اور اب ان کی تدفین کے لئے قطر کی ہی سرزمین کا انتخاب کیا گیا ہے، جس کے لئے ۸؍جولائی مغرب کی نماز کے بعد کا وقت متعین ہوا۔ اقبال بھائی ملّی دردمند افراد میں شمار ہوتے ہیں، ممبئی میںسماجی کام کرنے والوں میں سرفہرست ہیں، ہمارے انتہائی عزیز، ہم خیال، صالح فکر کے حامل، نیز سبھی ’’دوستوں کے دوست‘‘ ہیں، اس لئے یہ گوارا نہ ہوا کہ قطر میں رہتے ہوئے مرحومہ کے جنازے میں شرکت نہ کی جائے۔

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


بخشتے ہیں۔ صاف ستھرا ، مترنم آواز میں اپنا کلام آج بھی اُسی انداز سے پیش کرتے ہیں جو کبھی جوانی کی شناخت تھا۔یوسف کمال صاحب سے ملاقات کے بعد مغرب کا وقت قریب تھا اور ہمیں گھر آنے کی جلدی، کیوںکہ رات میں بچوں کے ساتھ منترہ پارک جانے کا پروگرام بناگیا تھا۔ پروگرام کے مطابق ہم لوگوں نے پارک کی سیر کی، یہ پارک بھی بہت بڑا پارک ہے، جو عوامی تفریح گاہ ہے۔ جگہ جگہ نشستیں لگی ہوئی ہیں، ٹہلنے کے لئے بڑے بڑے میدان ہیں، جن میں مخملی گھاس بچھی ہوئی ہے۔ بچوں کے کھیلنے کے لئے مناسب انتظامات ہیں۔ غرضیکہ رونق و دلچسپی کے جتنے سامان ہوسکتے ہیں وہ سب یہاں پر مہیا ہیں۔
دوسرے عرب ممالک کے مقابلہ میں قطر میں کافی حد تک مذہبی آزادی پائی جاتی ہے۔ یہاں عوامی اجتماعات بھی ہوتے ہیں، ائمۂ مساجد اپنے مذہبی بیانات میں دنیا کی صورتِ حال کے تناظر میں مسلم مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کی ترقی و کامرانی کے لئے دعائوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت کی تعلیم بھی ہوتی ہے، تشکیل بھی ہوتی ہے اور جماعتیں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتی جاتی بھی ہیں۔ جس علاقہ میں (یزدان ۱۳) میں ہم مقیم ہیںوہاں کی وسیع و کشادہ مسجد میں ایک مرتبہ قطر میں مقیم ہندوستانیوں کی جماعت آئی، مخاطب چوںکہ بیشتر اردو داں طبقہ تھا، اس لئے اس جماعت نے اظہار بیان کے لئے اردو زبان کو ذریعہ بنایا۔ ایک مرتبہ قطر یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء کی جماعت آئی تو اس نے انگریزی زبان میں تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ ایک مرتبہ قطر میں مقیم مختلف عرب ممالک کا ایک تبلیغی وفد اسی مسجدمیں آیا جو اپنا پیغام عربی زبان میں سامعین تک پہنچاتا رہا۔
اس طریقہ پر تبلیغی جماعت کے سہ لسانی پروگرام سننے کا اتفاق ہوا، جن کا بنیادی مقصد عوام کو اللہ کے پیغام کی دعوت و تبلیغ دینا، تبلیغی جماعت کی طرف مائل کرنا اور اس کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور توحید و رسالت کے پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جانے کے لئے مائل کرنا رہتا ہے۔ تبلیغی جماعت عالمی پیمانے پر اپنے اس مقصد میں کامیاب ہے۔ اس جماعت کا طریقہ کار اخلاص و للہیت پر مبنی ہے، جس نے امت کو ایک لڑی میں پرونے کا کام کیا ہے۔ واقعتاً یہ ہر لحاظ سے مستحسن ہے، لیکن یہ سوچنا کہ مسلمانوں کے جو طبقات اس مشن سے متفق نہیں ہیں اور دوسرے طریقہ پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی خدما ت کو یکسر انداز کرنا اور صرف اس طریقہ کو دین کی خدمت سمجھ لینا اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ہمیں معلوم ہوا کہ علی گڑھ سے ایک تبلیغی جماعت محیضر علاقہ کی مسجد میں مقیم ہے۔ یہ علاقہ ہماری رہائش سے تقریباً پینتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے،لیکن ہم وطنوں سے ملاقات کی کشش دوری میں مانع نہیں ہوئی، چنانچہ ۵؍جولائی کو جمعہ کی نماز وہیں پڑھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ نمازِجمعہ وہیں پڑھی گئی، مسجد اگرچہ زیادہ بڑی نہیں تھی، تاہم نمازیوںسے مکمل بھری ہوئی تھی۔ قطر میں مقیم علی گڑھ کے بہت سے احباب بھی یہاں پہنچ چکے تھے۔ بعد نماز جمعہ امیر جماعت مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی (مدرس مدرسہ تعمیرملت، دودھ پور، علی گڑھ) سے ملاقات ہوئی، ان کا بیان ہوا، علی گڑھ سے چھ افراد پر مشتمل اس وفد کا تقریباً ایک ماہ قطر میں اور ایک ماہ سعودیہ میں وقت لگانے کا پروگرام ہے۔ اس وفد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ سول انجینئرنگ کے استاذ ڈاکٹر محمد عادل، ڈاکٹر محمد ندیم اور دیگر تین حضرات تھے۔ بیان کے بعد مشروبات و فواکہات سے خاطر مدارات ہوئی، اس درمیان ایسا معلوم ہوا گویا ہم علی گڑھ میں واپس آگئے ہوں۔
قطر آنے کے بعد یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ہمارے سرپرست ساتھی مولانا اجتباء الحسن کاندھلویؒ کے صاحبزادے مفتی ارتضاء الحسن رضی صاحب کسی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ موصوف کے والد رحمۃ اللہ علیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ امام کے منصب پر فائز رہے تھے اور ہماری سرپرستی فرماتے رہتے تھے۔ علاوہ ازیں بڑے بھائی مولانا اصطفاء الحسن صفی مدظلہ العالی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء و معاون مدیر تعمیر حیات لکھنؤ)ہمارے دیرینہ دوست ہیں۔ اس لئے ان سے ملاقات پروگرام میں شامل ہوگیا۔ تحقیق و تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ موصوف عین خالد مقام میں واقع تبلیغی مرکز کی مسجد میں امام ہیں، اُن سے ملنے جانا اگرچہ ’’کارے دارد‘‘ تھا لیکن عزیزم منیب غازی تو بے چارے مستقل حکم کے منتظررہتے تھے۔ ان کے سامنے ذکر ہوا تو انہوں نے چلنے کی حامی بھرلی اتفاق یہ کہ تین چار دن قبل ہمارے نواسے عزیزم حماد غازی کی ایک معمولی سی سرجری سدرہ اسپتال میں ہوئی تھی، اس کے Followup کے سلسلے میں ڈاکٹر سے مشورے کے لئے ۷؍جولائی کو سدرہ اسپتال کا پروگرام طے تھا۔ منیب نے موقع بہتر جانتے ہوئے ہمیں بھی ساتھ لے لیا۔ پہلے اسپتال گئے ۔ اس موقع پر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قطر میںانسانوں بالخصو ص بچوں کی صحت پر کس طرح دھیان مرکوز رکھا جاتاہے،

علم و کتاب

26 Nov, 07:59


شوکت علی، نازؔ وغیرہم وہ ادیب و شعراء ہیں جنہوں نے قطر میں اپنی موجودگی سے اردو کی زندگی کو جلا بخشی ہے۔ جہاں تک ہندوستانی ادباء و شعراء کا تعلق ہے،ان میں حیدرآباد دکن کے بزرگ شاعر جناب یوسف کمال صاحب کے علاوہ جناب عتیق انظر صاحب (بنارس)، افتخار راغب صاحب، عزیز نبیل صاحب، پھر فیاض بخاری صاحب، صاحب دیوان شعراء میں شامل ہوگئے تو ڈاکٹر عطائوالرحمن صاحب، ندیم ماہر صاحب، رفیق شاد اکولوی صاحب، مبصر ایمان صاحب، عامر شکیب صاحب، عرشی ضیاء وغیرہ اُن متحرک و فعال افراد میں ہیں جو تصنیف و تحقیق کے میدان میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ اس فہرست میں نئی نسل کے بہت سے وہ جوان بھی ہیں جن کے ناموں سے راقم پوری طرح وقف نہیں ہے، لیکن ان کی خدمات کو نظر انداز کرنا ممکنات میںسے نہیں ہے۔ بہرحال سبھی حضرات قابل مبارک باد ہیں جو اردو کی مشعل روشن کئے ہوئے ہیں۔
۱۹۹۲ء میں حلقہ ادب اسلامی قطر کا قیام عمل میں آیا، جس کے بانیوں میں سید شکیل انور ، فائق اخلاص، احمد علی سروری، محمد رفیق، شاد اکولوی ندوی اور جاوید احسن فلاحی مرحوم جیسے حضرات تھے۔ فروری ۹۳ء میں حلقہ ادب اسلامی نے قطر میں موجود تمام ادبی انجمنوں و تنظیموں سے وابستہ اردو شعراء و ادباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا کام کیا اور تہذیب نو سے متاثر مخرب اخلاق چیزوں سے ادب کو دور رکھ کر پاکیزہ بنانے کی کوشش کی۔ تنظیم کو متحرک و فعال رکھنے کے لئے ہر ماہ کی دوسری جمعرات کو کہیں نہ کہیں مل بیٹھ کر ادباء و شعراء کی منثور و منظوم کاوشوں کو ایک دوسرے تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو تاہنوز جاری ہے۔ گزشتہ سال اس کے صدر جناب فتح اللہ شریف صاحب تھے۔سالِ رواں میں یہ ذمہ داری محترم مظفر حسین نایاب صاحب نبھا رہے ہیں۔ حلقہ ادب اسلامی کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا استقلال ہے۔ گزشتہ بتیس سالوں سے تواتر کے ساتھ ہر ماہ کی دوسری جمعرات کو حلقہ کے پروگرام کا انعقاد اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اگر ان بتیس سالوں کو مہینوں میں تبدیل کیا جائے تو ایک محتاط انداز کے مطابق چار سو سے زائد پروگراموں کا انعقاد بڑا کارنامہ ہے۔ کورونا کے وبائی دنوں میں بھی حلقہ کا ماہانہ پروگرام آن لائن شکل میں بدستور چلتا رہا، جس کے لئے اس کے منتظمین قابل مبارکباد ہیں۔ اس کو سرگرم رکھنے میں مظفرنایاب صاحب، محسن حبیب صاحب، رفیق شاد صاحب، ڈاکٹر عطاء الرحمن، مصطفی مزمل صاحب، عامر شکیب صاحب، بشیر عبدالمجید صاحب، فیاض بخاری صاحب، افتخار راغب صاحب، سفیر ایمان صاحب وغیرہم کا اہم رول ہے۔ علاوہ ازیں اس حلقہ کے پلیٹ فارم سے ’’مطالعہ فکر اقبال‘‘ کے عنوان سے اپریل ۹۵ء میں سہ روزہ سیمینار بھی منعقد کیا گیا، جس میں ہندوپاکستان کے بڑے بڑے ادباء و شعراء نے شرکت فرما کر اس سیمینار کو قطر کے مقبول ترین سیمیناروں میں بنایا۔ اس سیمینار کے منتظمین میں ا س وقت صدر حلقہ حیدر علی، محمد رفیق شاد اکولوی، امجد علی سرور وغیرہ پیش پیش رہے۔
انڈو قطر اردو مرکز بھی قطر کے ان ادبی اداروںمیں ہے جن کا شمار اردو کے قابل قدر ادروں میں ہوتا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد نئی نسل میں اردو کی ترویج و فروغ تھا، جس کے لئے اس نے عملی اقدامات کئے۔ گزشتہ صدی میں اس ادارہ کے زیر اہتمام جامعہ اردو علی گڑھ کا سینٹر قائم کیا گیا، جس میں بہت سے طلباء و طالبات نے جامعہ کے ادیب، ادیب ماہر، ادیب کامل کے امتحانات پاس کئے۔ ۱۹۹۴ء میں اس ادارہ نے عالمی اردو اعزاز کا سلسلہ شروع کیا۔۱۹۹۳ء میں انڈین آئیڈیل اسکول میں اردو کی ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی، جو اب پتہ نہیں کس حال میں ہے۔
۱۹۹۵ء میں ڈاکٹر خلیل الرحمن راز صاحب نے ’’انجمن شعرائے اردو ہند‘‘ کی بنیاد ڈالی،اس وقت ان کے رفقاء میں محمد سلیمان دہلوی، جلیل نظامی، عتیق انظر، محمد رفیق شاد وغیرہ تھے۔بہرحال کل ملا کر دیکھا جائے تو اردو کی شگفتگی و حُسن کو نکھارنے میں یوں تو دنیا کے سبھی گوشوں میں لیکن بطور خاص قطر میں اردو کا مستقبل بہت روشن ہے۔
صاحبِ مقالہ ڈاکٹر عطاؤ الرحمن صاحب نے پی ایچ ڈی کے علاوہ بہت سے مضامین تحریر کئے ہیں۔ موصوف کی شادی دارالعلوم دیوبند کے سابق مبلغ مولانا سید ارشاد احمد صاحب فیض آبادی مرحوم کی تیسری بیٹی سے ہوئی ہے۔اس طریقہ پر آپ مولانا محمود مدنی کے ہم زلف ہیں۔ کافی دیر تک یہاں قطر کی ادبی صورت حال پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد ایک اور ادبی شخصیت جناب یوسف کمال صاحب کی دعوت پر جانا ہوا، یوسف کمال صاحب حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ قطر میں شاید اس وقت سب سے سینئر ہندوستانی ہیں۔ ۱۹۶۲ء سے قطر میںمقیم ہیں۔ قطر کی تمام تعمیر و ترقی کے عینی شاہد ہیں۔ شاعری کا شوق ہے، تمام اصنافِ شاعری میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ سیکڑوں غزلیں، ہزارہا قطعات، رباعیات، مثنوی، نعت، حمد، نظم، طنز و مزاح کوئی ایسی صنف نہیں ہے جہاں موصوف نے اپنی موجودگی کا احساس نہ دلایا ہو۔اس وقت موصوف کی عمر پچاسی سال ہے، لیکن اُسی امنگ و ترنگ کے ساتھ ادبی نشستوں کو رونق

علم و کتاب

25 Nov, 18:53


مولانا شوکت علی(وفات ۲۶ نومبر) تحریر مولانا عبد الماجد دریابادی

علم و کتاب

25 Nov, 18:43


وفیات مورخہ: ۲۶/ نومبر
Https://telegram.me/ilmokitab
رشید احمد، سید 26/نومبر/2005ء
شجاع احمد زیبا، پروفیسر 26/نومبر/1995ء
عرش تیموری(مرزا حمد سلیم شاہ) 26/نومبر/1964ء
کمال جبلپوری 26/نومبر/1983ء
محمد حسن پال، میجر جنرل 26/نومبر/1993ء
مولانا شوکت علی 26/نومبر/1939ء
حافظ سعید احمد پالن پوری 26/نومبر/2019ء
مولانا عبد اللہ محدث غازی پوری 26/نومبر/1918ء
ثمرچھپرپوی، عبد الحفیظ صدیقی 26/نومبر/1974ء
مولانا عبد اللہ محدث غازی پوری 26/نومبر/1918ء
چاند عثمانی (ایکٹرس) 26/نومبر/1989ء

علم و کتاب

25 Nov, 18:35


صور من حياة الصحابة. نعيم بن مسعود الأشجعي. بصوت الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا رحمه الله

علم و کتاب

25 Nov, 08:32


حرمین شریفین سے واپسی

(ناصرالدین مظاہری)

حج یا عمرہ سے فارغ ہوکر آپ وطن واپسی کے لئے جب تیاری کریں تو درج ذیل باتوں پر ضرور دھیان دیں۔

سب سے پہلے اپنے ٹکٹ پر بیگ کی تعداد اور وزن دیکھ لیں پھر اسی کے لحاظ سے خریداری کریں۔ بہت لوگ ڈھیر سارا سامان خرید لیتے ہیں پھر ایئرپورٹ پر ضابطہ سے زیادہ سامان پھینکنا پڑتا ہے۔ کھانا یا ناشتہ کا وقت ہو تو یہیں سے فارغ ہوکر ائیرپورٹ جائیں اگر ایئرپورٹ پہنچ کر کھانے کا وقت ہونے کا امکان ہو تو اپنے ٹور ٹریول والے سے صاف صاف کہئے کہ کھانا پیک کرکے دیدے تاکہ ائیرپورٹ پر کھایا جاسکے۔

ایک صاحب کا آٹھ کلو سامان زیادہ تھا سامان پھینکنا منظور نہیں تھا اس لئے ساڑھے تین سو ریال دے کر رسید حاصل کی۔

ایک دوست نے ہینڈ بیگ میں چودہ کلو سامان رکھ لیا حالانکہ سات کلو کی اجازت ہے نتیجہ یہ ہوا کہ سات کلو سامان وہیں چھوڑ دینا پڑا۔

ہینڈ بیگ اگر حجم کے اعتبار سے بڑا دکھائی دے گا تو ایئرپورٹ والے وزن کرلیتے ہیں اس لئے ہینڈ بیگ میں ایسا سامان رکھیں جو وزنی تو ہو لیکن جگہ کم گھیرے مثلا آپ کھجور رکھ لیں ، کھجور جگہ کم گھیرے گی اور حجم بھی محسوس نہیں ہوگا۔

ایئرپورٹ والوں سے الجھنا بالکل نہیں ہے نرمی اور سادگی پر وہ بہت شفیق ہو جاتے ہیں سختی اور بداخلاقی پر وہ پتھر دل بن سکتے ہیں۔

جدہ ائیرپورٹ پر پہنچنے سے پہلے اپنا ٹرمنل چیک کریں ،سب سے پہلے ٹرالی لے کر اپنا سامان لوڈ کرلیں۔

جدہ کا ٹرمنل بہت بڑا ہے آب اے بی سی کے حساب سے اپنا گیٹ نمبر چیک کرلیں ، آپ کے گیٹ کے سامنے ہی بیرونی حصہ میں زمزم کی پانچ لیٹر بوتل فی پاسپورٹ ساڑھے بارہ ریال میں حاصل کرلیں دھیان رہے یہ پانی خادم الحرمین شریفین کی طرف سے گفٹ ہے ، ساڑھے بارہ ریال پانی کی اجرت نہیں ہے اس کی پیکنگ اور سروس چارج اور ٹرانسپورٹ کا صرف ہے، اسی لئے پانی وزن میں شامل نہیں ہے۔

ٹرمنل پر اپنے مقررہ گیٹ سے اندر پہنچ کر اپنی ائرلائن کے کاؤنٹر کو تلاش کریں اور لائن میں لگ کر آگے بڑھیں کاؤنٹر پر آپ کا پاسپورٹ ٹکٹ ویزہ چیک ہوگا بڑا سامان جو لگیج میں جانا ہے وہ لے لیا جائے گا پانی کی بوتل بھی لے لی جائے گی اور یہ سامان آپ کو آپ کے ملک کے ایئرپورٹ کی بیلٹ پر ملے گا۔اس لئے آپ اپنے سامان پر کوئی ایسی واضح علامت لگالیں جو وہاں دور سے پہچاننے میں آسانی ہو۔

یہاں بورڈنگ پاس مل جائے گا اب اپنے کاغذات لے کر آگے بڑھیں ایک جگہ آپ کی اور آپ کے ہینڈ بیگ کی اسکیننگ ہوگی ، اس سامان میں پانی ، سیال اشیاء، نوک دار یا دھار دار اور غیر قانونی چیزیں بالکل نہ رکھیں ورنہ پریشانی ہوسکتی ہے۔

اب آپ بورڈنگ پاس میں اپنا گیٹ نمبر دیکھ کر گیٹ تک پہنچیں اور کرسیوں پر بیٹھ کر جہاز کے عملہ کے آنے اور کام شروع ہونے کا انتظار کریں۔

یہاں آپ کا بورڈنگ پاس دیکھا جائے گا اور جہاز میں بٹھانے کے لئے بس یا ریمپ کا انتظام کیا جائے گا۔

اپنے جہاز میں اپنی ہی سیٹ پر بیٹھیں اور اپنا ہینڈ بیگ اپنے سر کے اوپر والے کیبن میں ایسی جگہ رکھیں جہاں سے کچھ نکالنا ہو تو نکال سکیں۔

جہاز دو طرح کے ہوتے ہیں بعض کھانا و ناشتہ دیتے ہیں بعض کچھ نہیں دیتے اگر آپ کا ٹکٹ سستا خریدا گیا ہے تو کھانا ناشتہ تو دور پانی ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔بہتر ہے کہ اپنا کھانا اپنے ساتھ لائیں کیونکہ ویسے بھی جہازوں میں جو کھانا ملتا ہے وہ عموما انڈین کو پسند نہیں آتا ہے۔

ائیرپورٹ پر اگر نمازگاہ تک رسائی ہو جائے تو قضا یا ادا نماز ادا کرلیں ورنہ دو رکعت شکرانے کی پڑھ لیں۔

اپنے ملک پہنچ کر صرف ایک کاؤنٹر پر آپ کا پاسپورٹ چیک ہوگا، فنگر کا نشان لیا جائے گا اور بس ۔اب آپ بیلٹ سے اپنا سامان وپانی لے کر باہر آجائیں۔

علم و کتاب

25 Nov, 08:26


آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في قول رسول الله ﷺ قبل الطعام و بعد مایفرغ منه

روایت نمبر : 198-195

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

https://t.me/shamail255

علم و کتاب

25 Nov, 07:39


عزم و ہمت کا نسخہ

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

میں نے ایک دفعہ ١٩٢٦ء میں خلافت کانفرنس دہلی کے صدارت نامہ میں، جو جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ کے درمیان والے میدان میں منعقد ہوئی تھی، یہ کہا تھا کہ اگر شاہ جہاں کی طرح، لال قلعہ کے تختِ طاؤس پر بیٹھنے کی ہوس ہے، تو پہلے بابر کی طرح، بارہ برس ترکستان و افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکراؤ، بدر و حنین کے بغیر فتوحاتِ فاروقی سے لطف اٹھانے کا خیال، خوابِ شیریں سے زیادہ نہیں۔

شذراتِ سلیمانیؒ/حصہ سوم/صفحہ: ٢٢٩/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

25 Nov, 01:58


آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في قول رسول الله ﷺ قبل الطعام و بعد مایفرغ منه

روایت نمبر : 194-192

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

https://t.me/shamail255

علم و کتاب

25 Nov, 01:57


سلسلہ نمبر: 242
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ڈاکٹر محمد امین*

*صنعت*

مغرب کی پالیسی یہ رہی ہے کہ مسلمان ممالک میں بنیادی اور اہم صنعتیں مثلا: بھاری مشینری اور اسٹیل کے کارخانے الیکٹرونکس اور کمپیوٹر وغیرہ کی صنعتیں پروان نہ چڑھنے دی جائیں۔
مسلم ممالک کو صنعتوں کا بنیادی ڈھانچہ ( انفراسٹرکچر) اور بنیادی مہارتیں نہ مہیا ہونے دی جائیں؛ تاکہ مسلم ممالک صنعتی ترقی میں خود کفیل نہ ہوجائیں ؛ بل کہ ان سے خام مال خرید لیا جائے اور انہیں تیار شدہ چیزیں بیچی جائیں ؛ تاکہ مغربی پروڈکٹس کو مارکیٹیں ملتی رہیں اور ان کی اشیاء مہنگے داموں بکتی رہیں، ان کے کارخانے چلتے رہیں، ان کے مزدور روزگار پر لگے رہیں اور مسلم ممالک محض صارف (Consumers) کا کردار ادا کرتے رہیں ۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے مغرب اور یہود کی دور رس پالیسی یہ رہی ہے کہ مسلم ممالک کو آئی - ایم -ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے قرضوں کے جال میں جکڑدیا جائے،ان کی معیشت کو برباد کردیا جائے، سیاسی عدم استحکام کے ذریعے حکمرانوں کو اپنے ماتحت رکھا جائے اور مسلم ممالک میں ایسے لوگ برسر اقتدار لائے جائیں جو اقتدار میں رہنے کے لیے مغربی آشیرواد اور حمایت کے محتاج ہوں،جو مغرب کے پڑھے ہوئے اور تربیت یافتہ ہوں،اس کی تہذیب کے رسیا ہوں،اس کی ترقی سے مرعوب ہوں،ان کے ماہرانہ مشوروں کو اہمیت دیں اور ان کی ترقیاتی حکمت عملی کو سینے سے لگائیں۔
مغرب کی یہ پالیسی کامیاب رہی ہے اور آج کوئی مسلم ملک بھی کامیاب صنعتی ملک نہیں ہے،کوئی مسلمان ملک بھی بنیادی صنعتوں میں خود کفیل نہیں ہے ؛ بل کہ ہر مسلم ملک اپنا قیمتی زرمبادلہ مغرب سے چھوٹی چھوٹی اشیاء در آمد کرنے میں لگادیتا ہے ۔
اس کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک میں ایسے آزاد علمی و تحقیقی ادارے ( تھنک ٹینک) نہیں ہیں جہاں ایسے آزاد ذہن ہوں جو مغربی پالیسیوں کا تنقیدی اور تحلیلی مطالعہ کرسکیں اور مسلم عوام اور حکمرانوں کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرسکیں اور بالفرض کوئی اکا دکا دانشور،محقق یا سیاستدان اس طرح کی باتیں کرے بھی تو وہ ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں،ان کو بے وزن بے تکا بے وقت کی راگنی وغیرہ قرار دیدیا جاتا ہے اور اس کی آواز خاموش کرادی جاتی ہے۔

( *اسلام اور تہذیبِ مغرب کی کشمکش،صفحہ: 196،طبع: بیت الحکمت،لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

24 Nov, 08:13


سنو سنو!!

مٹی کے برتن

(ناصرالدین مظاہری)

https://telegram.me/ilmokitab

پہنچنا وہیں ہے جہاں سے شروعات ہوئی تھی ، نوعیت اور ماہیت کتنی ہی بدل لیں، نام بدل لیں ، کام بدل لیں ، جام و سبو بدل لیں ، خم و خمخانہ بدل لیں، مث ومے خانہ بدل لیں، گھر سے مٹی کے گھڑے ، مٹی کے کوزے ، مٹی کی کوٹھیاں اور مٹی کے برتن جدیدیت اور نئی نئی دولت کے زعم میں نکال باہر کریں مگر ایک وقت آتا ہے جب انسان پرانی چیزوں کی افادیت کو بدرجہ اتم سمجھ لیتا ہے تو پھر واپس اپنی اصل پر پہنچ جاتا ہے۔ خود ہی دیکھ لیجیے دھوپ سے بچنے کے لئے چھپر بنا چھپر کے بعد مٹی کی چھت بنی یہ مٹی کی چھت پختہ بنی، پختہ چھت میں سلنگ کی جدت پیدا کرلی پھر پنکھے کولر اور اخیر میں اے سی کی جگمگ اور آمد کے بعد جب جسم انسانی نے طبعی موسم وماحول سے متاثر ہونا شروع کیا تو ڈاکٹروں کے چکر اور کل شئی یرجع الی اصلہ یعنی پہنچا وہیں پہ خاکی جہاں کا خمیر تھا یعنی ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ جناب آپ کو روزانہ صبح خیزی کرنی ہے، ننگے پاؤں گھاس پھونس پر پیدل دوڑنا ہے دوپہر میں دو تین گھنٹے دھوپ میں بیٹھنا ہے ، کھانے میں بہت ہی ہلکی پھلکی سبزیاں اور سادہ زندگی غذائیں لینی ہیں، کپڑے ململ ومخمل کے نہیں پہن سکتے، بالکل سادہ کھدر اور کاٹن کا ہونا چاہیے ، بجلی سے دوری بنائیں، قدرتی ماحول اور موسم میں سانس لیں ، مٹی کے برتنوں میں کھانا پکوائیں ، مٹی کے برتنوں میں کھانا کھائیں ، مٹی کے بنے ہو، مٹی میں ملو گے ،مٹی سے دوری اختیار مت کرو ، مٹی کو چہرے پر ملنے سے چہرہ نکھرتا ہے ، مٹی جسم پر ملنے سے جسم کے فاسد مادے نکلتے ہیں، مٹی پر چلنے اور مٹی پر سونے کے بے شمار فوائد ہیں ، مٹی مٹی ہے چاہے ملتانی ہے چاہے ہندوستانی ہو لیکن ہاں کنکر پتھر کو تو جسم سے رگڑا نہیں جاسکتا اس لئے جسم کے لئے جہاں اچھی چکنی یا غیر چکنی مٹی ہے وہ ہی مفید ہے اور جہاں مٹی نہیں ہے تو وہاں جھرنوں پہاڑوں کے آبشاروں اور جھیلوں کا پانی بہت مفید ہے۔

میرے والد ماجد تو مٹی کو زخم کے علاج کے لئے تیر بہدف بتاتے تھے ، زخم کے بہتے خون پر مٹی ڈال لیتے تھے ، پھوڑے پھنسی کے لئے مٹی بہت مفید ہوتی ہے، ٹشو پیپر کی جگہ مٹی سے ہاتھ دھوتے تھے، مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا تو ماضی قریب تک خوب ہوتا تھا اور تو اور میری ماں خدا جانے کہاں سے مٹی بٹور لاتی تھیں اور اس مٹی سے کپڑے دھولیتی تھیں ، مٹی کھانا حرام ہے لیکن اس کے بیرونی استعمال سے جسم کو آرام ہے۔

میں نے خود گاؤں کی مسجد میں مٹی کے لوٹے رکھے دیکھے ہیں جن کو علاقہ میں بدھنا کہا جاتا تھا ، میرے گھر میں میری والدہ مٹی کے بڑے بڑے گھڑے بنالیتی تھیں جن میں چاول اور آٹا رکھا جاتا تھا ، مٹی کی کوٹھیوں میں کچا غلہ رکھا جاتا تھا ، شادی بیاہ میں میں نے بھی مٹی کی رکاپی میں کھانا کھایا ہے اور یہ خوب یاد بھی ہے۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال میں مٹی اور مٹی کے برتنوں کا ذکر ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشہ ، لکڑی وغیرہ کے برتن تو استعمال فرمائے ہی ہیں مٹی کے برتنوں کا استعمال بھی فرمایا ہے۔

مٹی کے برتن جن گھروں میں ہوتے ہیں وہاں بناوٹ نہیں ہوتی ، وہاں دکھاوا نہیں ہوتا ، وہاں اپنی دولت و ثروت کی تحسین اور جھوٹی تعریف کے پل نہیں ہوتے ، مٹی والے گھر کل بھی خود دار تھے ، آج بھی خود دار ہیں، جلال پور کے انور شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

سوتے ہیں بہت چین سے وہ جن کے گھروں میں
مٹی کے علاوہ کوئی برتن نہ ملے گا

ویسے تو آپ کہہ سکتے ہیں دنیا میں نظر آنے والی ہر چیز مٹی سے نکلی ہے اور اس کا انجام پھر وہی ہے کل تک ورلڈ ٹریڈ سینٹر آسمان کو دیکھ کر مسکراتا تھا آج برج خلیفہ نے اس کی جانشینی اختیار کرلی ہے ممکن ہے کل جدہ ٹاور برج خلیفہ کا جانشین بن جائے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہیں ہے ، یہ اونچے اونچے محل اور محلات در اصل مٹی ہی کے ذرات ہیں ان کی اصل پر دھیان دیجیے تو جسم پر جھر جھری طاری ہوجاتی ہے۔

کامیاب وہی ہے جو مٹی میں ملنے کی تیاری کرلے جو موتوا قبل ان تموتوا پر عمل پیرا رہے کیونکہ یہ مٹی وہ مٹی ہے جو ہر چیز کوماں کی آغوش کی طرح اپنے اندر سمو لیتی ہے۔

کیوں نہ خوئے خاک سے خستہ رہے میری انا
پا بہ گل ہوں اور خمیر معتبر مٹی کا ہے

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

24 Nov, 06:01


’’ ظؔ انصاری کے اِجمالی قول و عمل کا ایک نمونہ اُنکایَک حرفی نام ’ ظ‘ بھی ہے‘‘: خالد اگاسکر
خلافت ہاؤس(ممبئی) میں ندیم صدیقی کی کتاب ’ ظ: ایک شخص تھا‘ کی خالص ادبی تقریبِ رونمائی

ممبئی: (اعظم شہاب) آج ذرائع ابلاغ کی نجانے کس کس نام سے شکلیں ہمارے سامنے ہیں اور اکثر لوگ صحافی کا کردار ادا کرنےمیں سبقت لے جانے کی سعیٔ بلیغ کی’ ضد ‘ بنے ہوئے ہیں اس کے بر عکس سنجیدہ طبع لوگ ’ اچھی گفتگو‘ کے لیے ترستے ہیں۔ اس پس منظر میں اسی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ مغرب کے مشہور فکشن نگار اور پنڈت نہرو کے دوست فارسٹرؔ کو بھی یہ شکوہ تھا کہ بات بنانے والے تو افراط ہیں مگر اچھی گفتگو کرنے والوں سے ہمارا معاشرہ خالی محسوس ہوتا ہے۔
اسی تقریر میں اپنے وقت کے ممتاز مارکسسٹ دانشور اقبال احمد کو بھی یاد کیا گیا کہ’’ جب یہ کامریڈ امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنے وطن(پاکستان) گئے تو اُس وقت کے صحافیوں نے اُن سے تفصیلی انٹرویو کیا جس میں اُ س زمانے کے حالات پر سوا ل کیے تو جواب میں مارکسسٹ اقبال احمد شاکی تھے کہ یہاں کچھ لوگ مجھے مذہب کی طرف کھیچنا چاہتے ہیں تو بعض حضرات سیاست کے جوہڑ میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر عام آدمی کے حالات پر کوئی گفتگو نہیں کرتا، جس کے لیے مَیں ترس رہا ہوں اور اچھی گفتگو تو جیسے عنقا ہو رہی ہو۔‘‘
گزشتہ سنیچر16 نومبر کی شام ممبئی کی ایک تاریخی جگہ ’ خلافت ہاؤس‘ میں ندیم صدیقی کی کتاب ’ ظ: ایک شخص تھا‘کی’ ایکسس سافٹ میڈیا ڈاٹ کام‘ کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب ِ رونمائی میں ممبئی کے ممتاز اُستاد اور مقبول کالم نگار پروفیسر سید اقبال نے مندرجہ بالا باتیں کیں تو شروع میں لوگوں نے محسوس کیا کہ پروفیسر موصوف جلسے کے اصل موضوع سے دور ہورہے ہیں مگر انہوں نے جب اپنی اس گفتگو کو ڈاکٹر ظ انصاری کی خوش بیانی سے جوڑا تو خلافت ہاؤس کا پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ پروفیسرسید اقبالؔ نے ظ ؔانصاری سے اپنی پہلی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ مَیں نے انھیں اپنی درس گاہ سینٹ زیوئرس کالج میں سنا تھا ، عجب دلکش اندازِ گفتگو تھا کہ پورا مجمع جیسے اُن کی گفتگو میں بہہ گیا تھا، تقریر کے بعد جب مَیں اُن سے ملا تو انہوں نے نہایت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے یونی ورسٹی کلب ہاؤس (چرچ گیٹ۔ ممبئی)میں واقع فارن لینگویج کےشعبے میں آنے کو (واضح رہے کہ ظ انصاری مذکورہ شعبے کے صدر تھے) کہا تو کئی بار اُن سے مستفیض ہونے کےلیے مَیں نے اُن کی کلاس میں حاضری دِی۔
کامریڈ ظؔ انصاری کے آخری دنوں میں مارکسزم سے رجوع ہونے کی روداد بھی ( ضمناً) اس جلسے میں بیان ہوئی، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پروفیسر سید اقبال نے جس سلیقے سے اپنی گفتگو کو ظ صاحب کی’ توبہ‘ سے جوڑا، جس پر تمام حاضرین نہ صرف لطف اندوز ہوئے بلکہ میرے قریب بیٹھےہوئے ایک سامعاور مشہور صحافی محمد رفیع خان نے ہم سے کہا
کہ ’ اچھی گفتگو‘ کسے کہتے ہیں سید اقباؔل نے اپنی تقریر میں اس کی بہترین جھلک بھی حاضرین کو دِکھلا دِی۔ پروفیسرسید اقبال کی گفتگو بلکہ ’ اچھی گفتگو‘ کسے کہتے ہیں کا ایک نمونہ بھی حاضرین کے سامنے رکھ دِیا:
’’۔۔۔ روز ِ حشر ،سب اپنے اپنے اعمال کے ساتھ خدا کے سامنے ہونگے مثلاً جب سرسید احمد خان کی پیشی ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور یہ کہیں کہ مَیں کچھ اور تو نہیں لایا ، مگر مَیں نے الطاف حسین حاؔلی سے مسدسِ مدو جزر لکھوائی تھی شاید میرے حق میں وہ ربِ کریم کی خوش نودی کا سبب بن جائے، اسی طرح جب بیگم سلطان جہاں( نواب آف بھوپال) کی حاضری ہوگی تو وہ کہیں گی، اے میرے ربِ کریم ! مَیں کچھ نہیں کر سکی مگر شبلی سے میں نے’ سیرت النبی‘ لکھوا لی اور نواب حامد اللہ یہ کہتےہوئے سنے جائیں گے کہ مَیں نے علامہ اقبال سے’ضربِ کلیم‘ کہلوائی تھی اسی طرح یہ ہماری زبان کے ہمہ جہت ادیب و خوش بیان خطیب ڈاکٹر ظ ؔانصاری یہ کہتے ہوئے محشر میں نظر آئیں گے کہ’ میری تیس سے زاید ترجمہ شدہ کتابیں، روسی اُردو ۔۔۔ اُردو روسی لُغَت کی دو جِلدیں،متعدد اخباروں کی فائلیں، روزنامہ انقلاب(ممبئی) کے مقبولِ عام اداریوں کا مجموعہ’ کانٹوں کی زبان ‘ میرے ایڈیٹ کردہ رِسالوں کے شمارے تو اللہ کے حضورکسی اعتنا کے حامل نہیں ہو سکتے مگر مَیں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے اور مارکسی نظریے سے تائب ہوگیا ہوں اور مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ مارکسی نظام ایک فریب ہے اور اس نظام سے مَیں الگ ہو گیا ہوں، یہ دُنیا دھوکے کی ایک ٹٹّی ہے اور مَیں(مارکسز م سے متعلق) اپنی تمام تحریروں سے رُجوع کرتاہوں۔‘

علم و کتاب

24 Nov, 06:01


پروفیسر سید اقبال نے اپنی ’ اچھی گفتگو ‘اس حسنِ ظن پر تمام کی کہ یقین ہے ڈاکٹر ظؔ انصاری کی تجدیدِ ایمانی کی یہ چھوٹی سی گواہی اللہ کو پسند آجائے اور وہ اُن کی مغفرت کردے ۔
اس پروگرام کو ’تقریبِ رونمائی‘ کا نام دیا گیا تھا، جس پر مہمان خصوصی عبد المعید پھولپوری نے ندیم صدیقی سے سوال کیا کہ اس تقریب کا نام تو ’تقریبِ اجرا‘ ہونا چاہیے تھا تو ندیم صدیقی نے بتایا کہ میرے کرم فرما اور شہر کی ایک مشہور سماجی و فلاحی شخصیت کے حامل محترم علی ایم شمسی کو فون پر اس کتاب کی اجرا کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے اپنی کِبرِ سِنی اور ضعف کے سبب خلافت ہاؤس آنے سے معذرت کر لی تھی ، چونکہ شمسی صاحب سے میرے(ندیم صدیقی کے) کوئی پچاس برس کے بے لوث مراسم اور تعلقات ہیں تو مَیں نے یہ کیا کہ ایک شب بلا اطلاع شمسی صاحب کے ’ کنجِ عافیت‘ پر دستک دیدی، ملاقات ہوئی اور اس گھریلوملاقات کو مَیں نے ایک ’اجرائی تقریب ‘میں یوں بدل دیا کہ مذکورہ کتاب(ظ: اک شخص تھا) کو زرّیں کاغذ میں سجا کر شمسی صاحب کو پیش کی اور انہوں نے اخلاص ِ شمسی کے ساتھ سنہرے کاغذ میں لپٹی ہوئی کتاب کا’ کنجِ عافیت‘ میں اجرا کیا جس کو باقاعدہ ڈاکٹر ظہیر انصاری نے فوٹو لے کر مستند کر لیا، رخصت کے وقت شمسی صاحب کہنے لگے : ندیم میاں! آپ نے غیر متوقع طور پر میرے یہاں آکر صحیح کیا اور اب مَیں آپ کی کتاب کی تقریب میں ضرور آؤں گا، اور وہ آئےاخیر تک تقریب کا وقار بنے رہے۔ کسی بھی کتاب کا اجرا ایک ہی بار ہو نا چاہیے لہٰذا خلافت ہاؤس کی عوامی تقریب کو’ رونمائی‘ کا نام دیا گیا اور ایک خاص بَینر نما کے ذریعے حاضرین کے سامنےکتاب کے جاذب نظر سرورق کی نمائش کی گئی۔
ممبئی کے معروف اُستاد ، بینکر اورفکشن کے نامور شخص، ’ کتھا‘ جیسی کتاب کے مصنف، ساہتیہ اکادیمی کے اعزاز یافتہ خالد اگاسکر جو اِدھر ایک مدت سے اپنی علالت کے سبب گوشہ نشین تھے انھیں بھی کسی طور اس تقریبِ رونمائی میں شرکت پر آمادہ کیا گیا تھا، موصوف نے اپنی تقریر میں ظ صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا :’’ لوگ ظ صاحب کے جتنے مداح تھے تو اتنے ہی ان سے شاکی بھی رہتے تھے کہ وہ برسرِ عام کھوٹے کو کھوٹا اور کھرے کو کھراکہنے کا وصفِ جرأت رکھتے تھے۔ ظ صاحب کی تحریر اِجمال میں تفصیل کی ایک بہترین تصویر ہوتی تھی وہ کم سے کم لفظوں میں سماجی ، سیاسی ادبی صورتِ حال پر اپنا تاثر ایک شگفتگی کے ساتھ بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے جس سے ملت و قوم اور ادبی صورت ِحال واضح ہو جاتی تھی، اُن کے اِجمالی قول و عمل کا ایک نمونہ اُن کایک حرفی نام ’ ظ‘ بھی ہے جو موصوف کی شخصیت کا بہت خوب مظہر ہے۔
ظ صاحب کم از کم ممبئی جیسے شہر میں لفظ و معنیٰ کے جیسے پارکھ تھے وہ بھی ایک یکتائی ہے، اسے حسنِ اتفاق کہا جائے کہ ندیم صدیقی جواِس کتاب کے مصنف یا مؤ لف ہیں اُن کے ہاں بھی یہ قدر، مشترک ہے۔ یہ کتاب ظؔ صاحب جیسے شخص کے تعلق سے ایک حوالے کی کتاب ہے، جو لوگ ریسرچ ورک کرتے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اس کتاب میں دیکھیں کہ اِجمال میں ریسرچ کیسے کی جاسکتی ہے، پوری ذمے داری کےساتھ کہہ رہا ہوں
ہے کہ’ ظ شناسی‘ جیسے موضوع پر ندیم صدیقی کی یہ کتاب ریسرچ کرنے والوں کی راہیں روشن کر نے کا خاصا مواد رکھتی ہے۔‘‘
تقریب کی ابتدا ڈاکٹر ظہیر انصاری نے اپنی تحریر سے کی جس میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے تعلق سے باتیں کی گئیں، اُن کے بعد شہر کے معروف شاعر اور اُستاد سید ریاض رحیم نے بھی اپنی لکھی ہوئی باتیں حاضرین کو سنائیں ، دور ِ حاضرجس میں ہمارے لکھنے پڑھنے والے بھی فلمی لوگوں کی طرح اپنےنام ونمود کے خواہاں نظر آتے ہیں، ا س تقریب میں اس کے بر عکس ایک بات ایسی ہوئی جس کو راقم ہی نہیں سنجیدہ اشخاص نے بھی نوٹ کیا، وہ بات یہ تھی کہ ناظم تقریب عرفان جعفری کو صاحبِ کتاب ندیم صدیقی نے چند لمحے کےلیے مائیک سے دور کرتے ہوئے تمام مقررین و حاضرین سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی کہ یہ کتاب اوریہ جلسہ ڈاکٹر ظ انصاری سے منسوب ہے، بیشک یہ کتاب مَیں نے پیش ضرور کی ہے مگر چاہتا ہوں کہ ہمارے مہمان مقرر حضرات، ظ صاحب اور ظ صاحب ہی سے متعلق اس کتاب پرگفتگو کریں میرے تعلق سے زحمت نہ فرمائیں کہ ہم سب آج ظ صاحب کو یاد کرنے اور اُن کے محاسن کےبارے میں سننے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
مسلم حلقوں میں ایک امتیازی تشخص کے حامل جو ماضی قریب میں شہر کے اکثر ادیبوں اور شاعروں کے دوست بلکہ’ خیاباں پبلی کیشنز‘ کے روح رواں بھی رہے ہیں جنہیں لوگ مولانا ظہیر عباس رضوی کے نامِ نامی اسم گرامی سے یاد کرتے ہیں موصوف کی شرکت بھی اس تقریب کی مظہر ِ روشن بنی ہوئی تھی، مولانا موصوف نے ممبئی کے مکتبہ جامعہ کے اُس سنہرے زمانے کو یاد کرتے ہوئے ظ صاحب سے ملاقاتوں کو اپنی تقریر میں تصویر کرنے کی سعیٔ ظہیر کی اور بتایا کہ وہ میرٹھ کے مشہور شیعی دِینی درس گاہ’ منصبیہ

علم و کتاب

24 Nov, 06:01


پوری’مومن برادری‘ شاداں و فرحاں ہو گئی، ظ صاحب کی تمام تقریر’ سٗوت‘ اور سٗوت سے متعلق برادری پر محیط تھی کاش اُس زمانے میں بھی موبائیل ہوتا اور ظ صاحب کی’ سٗوتی تقریر ‘ریکارڈ بن جاتی، نہیں بن سکی مگر بھائی ندیم صدیقی کی اس کتاب میں یہ سٗوتی واقعہ ایک تاریخ کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کےلیے درج ہوگیا ہے ۔
خلافت ہاؤس میں منعقد ہونے وا لی اس تقریب کے معاونین میں شہر کے ممتاز روزنامہ’ ہندستان ‘کے مدیر سرفراز آرزو کا کردار بھی شامل حال تھا ، انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ظ صاحب کو اپنے طالب ِعلمی کے دور میں بارہا سنا اور پھر انقلاب میں اُن کے اداریوں کو سبقاً سبقاً پڑھا ہے، یہ اسباق میرے لیے آج بھی مینارۂ نور سے کم نہیں ، سچ تو یہ ہے کہ میری عمر کے اکثر صحافیوں کو انھیں اپنا اُستاد ماننا چاہیے۔
روزنامہ’ ممبئی اُردو نیوز‘ کے ایڈیٹر شکیل رشید نے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع تو میسر نہیں ہوا مگرظ صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی یا انھیں کہیں سنا تو اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا، اُن کے اداریے میں نے بھی ایک نصاب کی طرح پڑھے ہیں، اُن کے مشفقانہ کردارکو میں فراموش نہیں کر سکتا۔
اس تقریب کےصدر ، جو بہت سی فلموں کے رائٹر بھی ہیں یعنی جاوید صدیقی کو ادبی دُنیا’ روشن دان‘ ۔۔۔ لنگر خانہ اور’ مٹھی بھر کہانیاں ‘ہی نہیں ’اجالے‘ جیسی کتابوں کے حوالے سے نہ صرف جانتی ہے بلکہ اُن کی خاکہ نگاری کے سبب دل کی گہرائیوں سے انھیں مانتی بھی ہے، موصوف نے ظ انصاری کی ’ادبی ضد‘ اور ان کے علم و فضل پر کلام کرتے ہوئے اس تہنیتی تقریب کی صدارتی تقریر کو’ تنقیدی رنگ‘ دیتے ہوئے ظؔ صاحب سے مارکسی نظریات سے تائب ہونے پر اپنے اختلاف کا واضح اظہار بھی کیا اور کہا کہ مارکسی حکومت یقیناً ناکام ہو گئی یا ہو سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مارکسی نظریات ناکام ہوگئے۔ موصوف نے ندیم صدیقی کی کتاب کے نام سے بھی اختلاف کیا کہ اس کتاب کا نام’ ظ کی شخصیت اور شخصیت‘ ہونا چاہیے تھا اسی کے ساتھ جاوید صدیقی نے یہ بھی کہا کہ’ ندیم میاں نے اپنی پنسل ٹارچ سےظ صاحب پر وہ روشنی ڈالی ہے، جو بڑی بڑی سرچ لائیٹ والے بھی نہ ڈال سکے۔‘
اس تقریب کے اوّلین دعوت نامے میں مدعومقررین کی جو فہرست شائع ہوئی تھی اُس میں محترمہ رفیعہ شبنم عابدی کا نامِ نامی اسم گرامی بھی شامل تھا مگر تقریب میں وہ اپنی گھریلو مجلس کے سبب نہ آسکیں، ظاہر ہے مجلس ِ عزاکا ثواب، ادبی محفل تو نہیں دے سکتی۔ کاش وہ ہوتیں تو ظ صاحب کے بارے میں ایک بہن کی زبان سے ہم کچھ اور محاسنِ ظوئے سنتے۔!!
اس تقریب کی نظامت شہر کے ممتاز شاعر عرفان جعفری نے اپنے دلچسپ انداز سے کی کہ اس نظامت میں انہوں نے تکلم عرفانی سے حاضرین کےلبوں پر ٔتبسم کے گُل کھلانے کی سعیٔ جعفری کا بھی خوبی سے مظاہرہ کیا ۔
مفتی عزیز الرحمان فتح پوری جو ایک پُر گو شاعر بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ظ صاحب کے دورِ ادارت ہی میں انقلاب میں میرے فتوے کا کالم شروع ہوا تھا جو ابتک جاری وساری ہے بعدہٗ مفتی صاحب نےایک قطعے میں ظؔ صاحب کو اس طرح یاد کیا:
کینہ تھا، کدورت تھی نہ دلآزاری
اس شخص کی ہر بات رہی معیاری
دُنیائے ادب کے لیے اِک نقشِ جمیل
کہتے ہیں کہ’ اِک شخص تھا ظ انصاری‘
مفتی عزیز الرحمان کی دُعائے قلبی کے بعد تمام حاضرین کےلیے عشائیے کے اہتمام پر یہ شاندارتقریب اختتام کو پہنچی۔🌟

علم و کتاب

24 Nov, 06:01


عربک کالج کے فاضل تھے اور اس درس گاہ سے یقیناً بڑے بڑے علما کا تعلق رہا ہے مگراس مدرسے کے سابق طالب علم کی حیثیت سے ادبی دُنیا میں امتیازی تشخص بنانے وا لا واحد نام ’ ظ انصاری‘ ہے ۔
ظ انصاری اُس دور میں جب ایک سے ایک جید اہل ِادب موجود تھا اپنے ادبی اوصاف میں یکتا تھے، اُن کی تحریر ، اُن کی تقریر میں کوئی بُعد نہیں تھا وہ جیسا پر کشش لکھتے تھے ویسی پُرکشش اُن کی تقریر بھی ہوتی تھی، یہ وصف کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔
مَیں اس کا عینی گواہ ہوں کہ انہوں نے واقع قلابہ میں اپنی رہائش ’ شیریں‘ میں مارکسسٹ نظریات سے توبہ کی ۔
یہ امر باعثِ خوشی ہے کہ اُن کی رِحلت کے کوئی تیس برس بعد ظ صاحب کے شایانِ شان برادرِ عزیز ندیم صدیقی نے دنیائے ادب کے سامنے ایک
کتاب ’ ظ: اک شخص تھا‘پیش کردی اور سید منظر زیدی نے اس قدر شاندار تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ ہر چند کہ اس طرح کے ادبی جلسے اب معدوم سے ہوگئے ہیں میرا گمان تھا کہ اس تقریب میں کوئی تیس چالیس افراد ہی جمع ہوپائیں گے مگر حیرت ہے کہ خلافت ہاؤس کی تمام نشستوں پر شائقین نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئےگھنٹے سے متحرک تصویر بنے ہوئے ہیں،یہ ’ ظ ‘ مرحوم سے لوگوں کی اُنسیت و محبت کا ایک نتیجہ بھی کہی جاسکتی ہے، ایک مدت بعد ایک خالص ادبی تقریب میں شرکت کر کے مجھے انتہائی مسرت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی ساری کریڈٹ ظ مرحوم کے اخلاص کو دی جانی چاہیے کہ ادب کے اپنے مشمولات میں ان کاخلوص انتہا پر تھا ، ظ صاحب کی ادبی نگارشات اور یہ تقریب اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ خدا کسی کی سعی کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔‘‘
ڈاکٹر ظؔ انصاری کے فرزند سوئم’ علی انور‘ بھی اس تقریب میں شریک تھے تو دوحہ قطر کے مشہور اُردو دوست حسن چوگلے نے بھی جلسے کو حسنِ شرکت بخشا۔
کتاب کی رونمائی کرنے والوں میں مرکزی کردار پونے سے آنے والے فارسی کے اُستاد راجندر جوشی تھے، جنہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ظ صاحب کو انہوں نے پونے کے ملٹری کالج میں سنا تھا جہاں وہ اکثر لکچر کے لیے مدعو کیے جاتے تھے اُن کی لفظ شناسی کا شگفتہ اظہار مثالی تھا، ان کے مذکورہ لکچر ملٹری کالج(پونے) کے آثارِ قدیمہ میں یقیناً ہونگے کاش کوئی انھیں حاصل کر کےکاغذی پیرہن دیدے تو ظ صاحب کا ایک بیش قیمت تقریری مواد یادگار ہوجائے گا جو ہماری آئندہ نسل کے کام آسکتا ہے۔ ظ صاحب کےتراجم اُردو زبان میں ایک گراں قدر سرمایہ ہیں اگر ان کا ایک کلیات چھپ جائے تو تراجم کے شعبے میں ایک اچھا اضافہ ہوگا۔
محترم علی ایم شمسی نے بھی حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ظ صاحب سے اپنی ملاقاتوں کو یاد کیا اور کہا کہ’’ قیصر الجعفری کی ایک شعری کتاب کی اجرائی تقریب میں انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ، شمسی صاحب !ہم یوپی والوں کے ہاں دُلہن جب سسرال آتی ہے تو اسے منہ دکھائی دی جاتی ہے، ہم لوگ تو لکھنے پڑھنے والے قلاش لوگ ہیں اور آپ بینک سے وابستہ ہیں اور آپ کے پاس کھنکتے ہوئے سِکّے ہیں تو آج آپ کو کتاب کی منہ دکھائی دینی چاہیے۔ جس پر نہرو سینٹر حاضرین کی تالیوں سے گونج اُٹھا تھا، ظ صاحب کا بات سے بات کرنے کا انداز منفرد تھا، اب یہ خوبی نظر نہیں آتی، جس پر کلمۂ استرجاع پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
اس تقریب میں دور درازمالیگاؤں سے بھی شائقین ادب نے بہ نفسِ نفیس شرکت کی جس میں شکیل حسن مومن ، ڈاکٹر سعید فارانی اور جواں سال صحافی امتیاز خلیل اور پونے سے آنے والے انقلاب کے سابق رکن عظمت اللہ صدیقی بھی شامل تھے، امتیاز خلیل نے اپنی تقریر میں ’ظلِ حسن زیدی‘ سے ظ انصاری بننے پر اپنے انداز سے روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ زمانہ جب کہ ہمارے مسلم معاشرے میں بھی ذات پات کی تفریق’ اشراف و اجلاف‘ کے تصور کے ساتھ موجود تھی، ایک سید زادے ظل ِ حسن زیدی نے طبقۂ اجلاف سے تعلق (یعنی انصاری بننے )کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ اپنی عمر کے آخر آخر تک ’ انصاری‘ ہونے پر اٹل رہے ،جس کی پتھریلی گواہی قبرستانِ
رحمت آباد( ممبئی) میں انکی قبر کا کتبہ آج بھی دے رہا ہے۔
برہانی کالج کے سابق اُستاد ، شاعر اور شہر کی اکثر تقریبات کے مثالی ناظم ڈاکٹر قاسم امام نے بھی ظ صاحب سے متعلق کتاب کی ورق گردانی کی روداد سناتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ اس کتاب نے مجھے باخبر کیا کہ ظ صاحب بر جستہ گوئی پر کس درجہ قادر تھے کہ(برسہا برس قبل جب) ممبئی کےمومن پورے میں کپڑا بُننے والےمارکسٹوں نے ’ عوامی ادارہ‘ قائم کیا تو اُس وقت کے تمام جیّدترقی پسند مارکسسٹ شاعروں ادیبوں کو بھی مدعو کیا اور اُن سب کی گُل پوشی نہیں بلکہ اُن کے گلے میں سٗوت کے ہار ڈالے گئے ، اُس تاسیسی جلسے کے مقررین میں ڈاکٹر ظؔ انصاری بھی شامل تھے، سٗوت کے ہار ایک غیر متوقع پیش کش تھی اور اس غیر متوقع واقعے کو جس طرح ظ انصاری نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس احساس کا عجب برمحل اظہار کیا کہ مومن پورے کی

علم و کتاب

23 Nov, 21:21


وفیات مورخہ: ۲۴ / نومبر
Https://telegram.me/ilmokitab

اردشیر کاؤس جی 24/نومبر/2012ء
افضل الفت 24/نومبر/2007ء
جمال زبیری 24/نومبر/2013ء
طاہر شیخ 24/نومبر/2001ء
عبدالجلیل بسمل، محمد 24/نومبر/2009ء
عبرت الٰہ آبادی(سید ظفر حسن) 24/نومبر/1963ء
فاروق نثار 24/نومبر/2004ء
مجید احمد فاروقی 24/نومبر/1990ء
نعیم امجد سلیمی، مولانا 24/نومبر/2005ء
شاہ اسد الرحمٰن قدسی 24/نومبر/1979ء
فضیلۃ الشیخ عبد الله العزام 24/نومبر/1989ء
مولانا محمد طاہر کلکتوی 24/نومبر/1994ء
 تاب حیدر آبادی، عبداللہ بن احمد 24/نومبر/1973ء
ابراہیم ڈیسائی، مولانا 24/نومبر/1980ء
علی ابراہیم سمنی، مولانا 24/نومبر/1980ء
عمر آدم دہالوی، مولانا 24/نومبر/1980ء
بھائی عبدالرشید 24/نومبر/1980ء
مولانا یعقوب صاحب 24/نومبر/1980ء
فصیح بخاری 24/نومبر/2013ء
شیخ محمود الطحان 24/نومبر/2022ء
شاہ اسماعیل صفوی ثانی 24/نومبر/1517ء
شیخ عبد اللہ السالم الصباح(الکویت) 24/نومبر/1965ء

علم و کتاب

23 Nov, 21:08


سچی باتیں (۶؍اکتوبر۱۹۳۳ء)۔۔۔ دنیا کی بے ثباتی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی


۲۸؍سال اُدھر،ہنگریؔ کے ملک میں، ایک وزیر سلطنت کے گھر میں ایک صاحبزادی تولد ہوئیں۔ حُسن وجمال کی تصویر، رعنائی ونزاکت میں نے نظیر، اُٹھتی جوانی، قدردانوں کی کثرت، دار الحکومت میں ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ ہرسوسائٹی میں ان کی مانگ، ہر کلب میں ان کے چرچے، ہر اونچے ہوٹل میں ان سے زینت۔ گھر بار چھوڑ ،ہوٹلوں میں مستقل قیام، انگریزی، فرنچ، جرمنی، ہرزبان میں برق۔ کمالاتِ رقص کی ماہر۔ ۲۴سال کی عمر میں شادی کی، چند ہی روز بعد طلاق! لندن تشریف لائیں، سارا لندن گرویدہ۔ پھر پیرس چلی گئیں، سارا پیریس فریفتہ۔ بڑے بڑے مبصر اس بیان پر متفق، کہ ایسا حُسن وجمال تو خود پیرس کے پرستان میں بھی عنقا ! ۲۵۔ ۲۶سال کی عمر میں زندگی سے ایسا اُکتائیں، کہ زہر کھالیا۔ ڈاکٹروں کی دوڑ دھوپ جان بچانے کا بہانہ بن گئی۔ اٹھائیسویں سال، قلب پر پھر یاس کا دورہ پڑا۔ اعلیٰ لباس پہن، ہوٹل سے نکل بھاگیں۔ چوتھے دن معلوم ہوا ، کہ جہاں شہر کے اپاہج اور ٹکڑ گڈے پڑے رہتے ہیں، اُن کے محلہ میں کچھ کھاکر ہمیشہ کے لئے سو گئیں!……واقعہ اسی اگست ۳۳ء کا ہے۔ حسن وجمال ، نازوادا، کا آخری انجام آپ نے دیکھ لیا؟
جنگ عمومی میں، فرانسؔ اور برطانیہؔ، اور ان کے سارے حلیفوں کو، امریکہ کی شرکت کی کیسی کیسی آرزوئیں تھیں، کیا کیا تمنائیں تھیں! بیری کالنزؔ پہلا امریکی تھا،جو جنگ میں شریک ہوا۔ ایک دھوم مچ گئی۔ برطانیہ اور فرانس، اور بلجیم اور اٹلی اور سرویا، بلکہ خود امریکہ میں ہرزبان پراسی محبت وطن جانباز کا نام! ہر اخبار میں اس کی تصویر۔ سرویہؔ نے انعام دیا، فرانسؔ نے تمغہ سے سرفراز کیا۔ لڑائی ختم ہوئی، اور رفتہ رفتہ کالنزؔ کی شہرت وناموری بھی۔ جس کو سب جانتے تھے، وہ اب گمنام تھا! نوکری چھُٹی، روزی گئی۔ فرانس سے ایک خاتون بیوی بن کر آئی تھیں، وہ بھی رخصت ہوئیں، ایک معذور اپاہج کا آخر کہاں تک ساتھ دیتیں! یونیورسٹی کا گریجویٹ، محبِ وطن جانباز، ۱۷ء کا ہیرو، اب بے روزگارتھا، بے معاش تھا! حکومت آخر کتنوں کا پیٹ بھرسکتی ہے؟ نوبت فاقہ کشی کی آئی، اور اسی اگست کے مہینہ میں دیکھاگیا، کہ اُس نامور گمنام کا لاشہ، بے گوروکفن ، بوسٹنؔ کے ایک غریب محلہ میں پڑاہواہے!……جاہ وشہرت، عزت وناموری، وطن پرستی اور جانبازی کی منزلوں کا آخری انجام، نظر کے سامنے آیا؟
مارکوئیس آف پینڈو، اٹلی کا امیر کبیر، ہوابازی اور ہوابازوں کا بادشاہ، اپنے مخصوص طیارہ پر سوارہوا، اسی اگست کے آخر میں ، امریکہ سے بغداد ، طویل مسافت کی اُڑان کا ریکارڈ توڑنے، اوراپنا ’’ریکارڈ‘‘ قائم کرنے روانہ ہوا۔ طیّارہ زمین پر گھسٹتاہوا، دوہزار فت تک گیا، اور پھر ایک سرکاری عمارت سے، زور سے ٹکراکررہا۔ معًا آگ لگ گئی، طیارچی نے کودنا چاہا، نہ ممکن ہوا۔ دُور دُور کے لوگ، بے تحاشا چیخوں کی آواز سُن کردوڑے، پہونچے، تو طیارہ جل کر خاک ہوہی چکاتھا، خود مارکوئیس کا لاشہ بھی جلے ہوئے کوئلہ کے ڈھیر سے زائد نہ تھا!……دماغ کی خوش تدبیریاں، عقل کی بلند پروازیاں، سائنس کی فلک پیمائیاں، سب ’’مقررہ گھڑی‘‘ کے ٹالنے میں شاید ابھی تک ویسے ہی بے بس ہیں، جیسے عوام بیچاروں کی عقلین ہوتی ہیں!عقل انسانی کیسی کیسی بودی چیزوں کاآسرا پکڑتی ہے، اور کیسی بے ثبات اور بے حقیقت چیزوں میں ثبات وپائداری ڈھونڈتی ہے
علم وکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

23 Nov, 07:18


سلسلہ نمبر: 241
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ڈاکٹر محمد مظفر الدین فاروقی*

*اس گھر کو آگ لگ گئ*

ہندوستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ جہاں ہزاروں افراد نے آزادیٔ وطن کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دی وہیں سینکڑوں ایسے غدار بھی پیدا ہوئے جنہوں نے دولت و اقتدار کی ہوس میں دشمنوں سے ساز باز کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کی _ اؔلہی بخش انہی میں کا ایک سیاہ باطن کردار ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے غاصبانہ اقتدار اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لیے جن لوگوں نے تلوار اٹھائی ان میں جہاں سراج الدولہ، حیدر علی، ٹیپو سلطان، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد ﷲ شاہ،جنرل بخت خان،نانا صاحب،تانیتا ٹوپے، شہزادہ فیروز شاہ،مولانا فضل حق خیرآبادی،مولوی عظیم ﷲ خان، علی نقی خان،بیگم حضرت محل اور رانی جھانسی جیسے جانباز موجود تھے،وہاں ہر دور میں غداروں کا ایسا طائفہ بھی موجود رہا جو آستین کے سانپ کا کردار ادا کرتا رہا ہے _ خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی میں اگر غداروں کی جماعت ایک طرف براہ راست انگریزوں کی عسکری مدد اور دوسری طرف شاہی دربار اور مجاہدین کا اعتماد حاصل کرکے ان کی جنگی مشاورتی کونسل میں شامل ہوکر ان کے منصوبوں کی اطلاع انگریزوں کو فراہم نہ کی ہوتی تو اس جنگ کا نقشہ شاید کچھ اور ہی ہوتا۔
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ اپنی عسکری قوت کی برتری کی بنا پر نہیں کیا ؛ بل کہ سازشوں اور جاسوسی کے بہتر نظام کے بل پر کیا تھا، خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی کامیابی میں چند بااثر اور بہتر قوت والے دیسی والیان ریاست کی مدد اور غداروں کی ٹولی کا بہت بڑا ہاتھ ہے __ والیان ریاستوں میں پنجاب کی ریاستیں،کشمیر کے ڈوگرا حکمران، گلاب سنگھ ابتداء ہی سے انگریزوں کی مدد کرتے رہے، بعض نے انگریزوں کا پلڑا بھاری ہونے کے بعد ان کا ساتھ دیا جیسے: جیاجی راؤ سندھا،نواب رام پور،وسط ہند کے رجواڑے اور حیدرآباد دکن کے نواب افضل الدولہ اور ان کے وزیر سالار جنگ_ متعدد انگریز مؤرخوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر پنجاب وسط ہند گوالیار اور دکن انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو کمپنی بہادر کی حکومت 1857 میں ختم ہوجاتی۔
غداروں کی ٹولی اور اس کے شرمناک جاسوسی کارناموں کے بارے میں ایک اہم کتاب 1993 میں منظر عام پر آئی ہے،جناب سلیم قریشی اور مشہور شاعر عاشور کاظمی صاحبان نے انڈیا آفس لائبریری سے غداروں کے خطوط جمع کرکے ''اس گھر کو آگ لگ گئ ''کے عنوان سے کتاب شائع کی ہے،جس سے 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کا نیا زاویۂ نظر سامنے آتا ہے،
اس کے ایک اقتباس سے غداروں کے شرمناک کارناموں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ___ میر صادق،میر غلام علی،قاسم علی اور دیوان پورنیا جیسے غدار نہ ہوتے تو ناممکن نہ تہا کہ ٹیپو سلطان ہی اپنی فوجی طاقت اور حکمت عملی کے بل پر پوری انگریزی فوج کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ۔
1857 میں انگریزوں کو فتح اپنی طاقت کے بل پر نہیں ؛ بل کہ مرزا الہی بخش، مولوی رجب علی،گوری شنکر،جیون لال، تراب علی، مان سنگھ، لطافت علی،جواہر سنگھ،امی چند،میر محمد علی،محبوب خان،ہرچند،پربھو،میگھ راج، رستم علی،راجن گوجر وغیرہ کی جاسوسی اور وطن دشمنی کی وجہ سے ہوئی۔
عاشور کاظمی صاحب نے سرجان ولیم کے کی کتاب (Sepoy War In India) سے ایک اقتباس پیش کیا ہے جس میں 1857 کے انقلاب کو ناکام بنانے میں غداروں کے رول کا اعتراف کرتے ہوئے جان ولیم نے لکھا ہے: ”حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں ہماری بحالی کا سہرا ہندوستانی پیروکاروں کے سر ہے،جن کی ہمت و جسارت نے ہندوستان کو اپنے ہم وطنوں سے لے کر ہمارے حوالے کردیا“۔

( *ہندوستان میں مسلم دور حکومت کا خاتمہ،صفحہ: 78، طبع: ایم آر پبلیکیشنز،گلی کالے خاں،کوچہ چیلان،دریا گنج،دہلی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

23 Nov, 05:15


اشرف البلاد کو ارذل البلاد میں بدلتے دیکھنے کا دُکھ

مولانا عمیر الصدیق ندوی دریابادی صاحب مدظلہ، رواں ماہ کے شذراتِ معارف میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

"ہمارے بزرگوں نے تقسیمِ ملک کے بعد، اقلیتی قوم کی دو نسلوں کے فرق کی طرف اشارہ کیا کہ نئی نسل کو اپنے دین و مذہب، عقائد و اعمال، اپنی تاریخ و تہذیب اور تمدن و ثقافت سے کوئی واسطہ نہیں رہ گیا، بلکہ ایک ایسی نسل سامنے آنے لگی، جس کے لیے اپنی روایات، قومی و ملی تشخص، اپنی تعلیم اور سب سے بڑھ کر اپنی زبان ہی بیگانہ ہوگئی۔ معارف نے اس دور کو "ظلمتِ ایام" کا نام دیا، جہاں راتیں ہی سیاہ نہیں، دن بھی کالے ہوگئے۔ پھر اس تاریکی اور سیہ بختی میں اپنی تعمیر و ترقی کی تدبیریں، مذہبی و گروہی اختلافات کے خاتمہ کی سبیلیں، تعلیم کے ذریعہ بلند مقاصد کو پانے کی راہیں اور سیاسی شعور و بصیرت اور وقت کے مطابق صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیتیں کیا نظر آئیں۔ قیادت کے نام پر مذہب وملت کی خیر خواہی کے چند جملوں کی مدد سے جہاں دیکھئے، کوئی طالع آزما، زبان و بیان سے اپنا تعارف یوں کراتا ہے کہ اس کو خود قتیل شیوۂ آزری اور ہلاک جادوئے سامری ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ دوسری جانب جو لوگ اشک سحر گاہی سے وضو کرتے اور دعائے نیم شبی میں لبوں کو لرزشِ مخفی و جلی سے آشنا کرتے ہیں، وہ ملت کے مزید انتشار کے خدشے سے لبوں کو سی لینے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ دل کا درد ایسا کہ وہ اپنے وجود کا اعلان بھی نہیں کرپاتے۔ یہ وہ اہل نظر ہیں، جن کو اپنی آبرو کی فکر ہے، دوسری طرف ہر بوالہوس کو دعوائے حُسن پرستی ہے۔ وقتی، مقامی اور محدود مفادات کی حریص سیاست نے جو رنگ دکھائے، اس کا خمیازہ صرف ایک قوم کو بھگتنا پڑتا تو بھی اتنا غم نہ ہوتا، دکھ اس سے زیادہ اشرف البلاد کو ارذل البلاد میں بدلتے دیکھنے کا ہے۔"

معارف، نومبر: ۲۰۲۴ء/صفحہ: ۴/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

23 Nov, 02:03


آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في قول رسول الله ﷺ قبل الطعام و بعد مایفرغ منه

روایت نمبر : 194-192

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

https://t.me/shamail255

علم و کتاب

23 Nov, 01:52


خوب دھیان رکھیں کہ آپ جس کے پاس جارہے ہیں اس کی مصروفیات کیاہیں ؟ اگر آپ نے اپنے وقت کو ملحوظ رکھ کر وہاں جانے کی کوشش کی تو ممکن ہے ملاقات نہ ہو، ملاقات ہوبھی گئی توممکن ہے بات چیت نہ ہو اوران کے آرام وراحت میں خلل اوردخل کا باعث آپ ہی ہوں گے۔

مثلاً آپ دینی مدارس کے اساتذہ اورذمہ داران ہی کو لے لیجئے یہ لوگ فجرسے پہلے اٹھتے ہیں ،فجر کے بعدسے پڑھانا شروع کردیتے ہیں ،یہ لوگ مسلسل چھ سات گھنٹے پڑھاکرتھک کونڈھال ہوجاتے ہیں اور جب دوپہرمیں ان کو تھوڑا سا وقت آرام اورقیلولہ کے لئے ملتاہے ٹھیک اس وقت آپ انٹری مارتے ہیں سوچیں ان کے دل پرکیاگزرے گی ؟دنیامیں وہی کامیاب شخص ماناجاتاہے جودوسروں کی راحت رسانی کاذریعہ بن کراپنے لئے راحتوں اورمسرتوں کے اسباب تلاش کرلیتاہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کل قیامت کے دن وقت کی بابت بھی سوال ہوگا کہ کہاں خرچ کیا، دنیامیں سب سے زیادہ وقت کی ناقدری ہم مسلمان کرتے ہیں ،میزان عدل مسلمانوں کے لئے ہی لگایاجائے گا،جنت مسلمانوں کے لئے ہی بنائی گئی ہے ، اورجنت میں صرف وہی شخص جاسکے گا جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکامات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق گزار کر رضائے الٰہی کامستحق ٹھہرا ہو۔

اپنے وقت کو پہچانئے ، اس کی قدر کیجئے ، نہ اپنا وقت ضائع کیجئے نہ دوسروں کا،اپنی افادیت ثابت کیجئے ،یہ رازیؒ، غزالیؒ، گنگوہیؒ ونانوتویؒ، تھانوی ؒو سہارنپوریؒ ، کشمیریؒ و مدنیؒ، بخاریؒ و کاندھلویؒ و غیرہم یوں ہی نہیں چمکے ،ان کودنیا سے گئے ہوئے زمانہ گزر گیا ہے پھربھی یہ لوگ اپنی مکمل خدمات اور کارناموں کے ساتھ ہمارے درمیان میں کیوں زندہ ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وقت کی قدردانی نے اِن لوگوں کو زندہ و جاوید کردیا ہے۔

علم و کتاب

23 Nov, 01:52


*سنوسنو!!*

*بے کار مباش کچھ کیا کر*

*ناصرالدین مظاہری*

یہ ایک مستقل کہاوت ہے، کہاوت کا دوسرا حصہ ہے کہ ’’کپڑے ادھیڑ کر سیا کر‘‘یعنی کسی انسان کو خالی بیٹھ کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے ،اسی کو فارسی میں کہاجاتا ہے ’’بے کار مباش ہرچہ خواہی کن‘‘یعنی بے کارمت رہو جو چاہے کرو۔

اِس زمانے میں جوں جوں بے روزگاری اور تعلیم سے دوری بڑھتی جارہی ہے، لوگ سمع خراشی اور وقت گزاری کے لئے پورے طور پر فارغ ہوتے جارہے ہیں ، خالی اور ٹھالی لوگ ہی مفید اور کارآمد لوگوں کی سمع خراشی کا زیادہ تر ذریعہ بنتے ہیں یعنی ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ لوگوں کے پاس اس قدر فالتو وقت اور فرصت ہے کہ وہ آپ کے پاس گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر ضائع کردیں گے۔

*اپنے والدین کے پاس*

میں فالتو بیٹھنے کا بس اتنا قائل ہوں کہ انسان اگر فالتو ہی بیتھنا ہے تو اپنے والدین کے پاس بیٹھے کیونکہ والدین کے پاس بیٹھنا موجب رحمت تو ہے ہی خود والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد بلاکسی لالچ اور دباؤ کے اپنی مرضی سے میرے پاس آکر بیٹھے ،بولے چالے ،حال احوال لے اور اپنا حال چال بتائے اور اس طرح ایک دوسرے کے احوال سے آگہی اور آگاہی کے بعدکچھ نئے مشورے اورکچھ نئی راہیں نکل آتی ہیں۔

*اپنے اساتذہ کے پاس*

اگر بیٹھنا ہی ہے کہ تو اپنے اساتذہ کے پاس ان کے خالی وقت میں جائیں اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں ،سچ کہتاہوں یہاں آپ کو ایسے ایسے تجربات اور ایسی ایسی راہیں ملیں گی جوآپ کو نہ کتابوں میں ملی ہیں نہ کہیں اورملنے کی توقع ہوسکتی ہے۔


*اساتذہ کا طبقہ*

اساتذہ کا طبقہ آپ کے لئے سب سے زیادہ مخلص ہوتاہے ، یہی طبقہ ہے جس کے اندر آپ کے لئے کوئی بھی حسد نہیں ہوتا ہے، یہی طبقہ ہے جو آپ کے لئے دن رات دعائیں کرتا ہے ،یہ طبقہ آپ کو اپنے سے بھی زیادہ ترقی اورعہدے پردیکھنا چاہتا ہے ،یہ طبقہ آپ کے لئے آپ کے کہے بغیر دست بہ دعا رہتا ہے ،یہ وہ طبقہ ہے جس کی نظروں میں آپ ہمیشہ چھوٹے اور لاڈلے رہتے ہیں ،اس طبقہ سے آپ کوکبھی دھوکہ نہیں مل سکتا، فریب نہیں مل سکتا، یہ ہمیشہ آپ کو نوازتا ہی رہتا ہے ،مشوروں کے ذریعہ،دعاؤں کے ذریعہ اور اپنے اہل تعلق سے آپ کے لئے گفگتوکے ذریعہ۔یہاں سے آپ کبھی بھی ناکام اور نامراد نہیں لوٹ سکتے ہیں ہمیشہ کامیاب اور فائزالمرام ہی واپس ہوں گے۔


*اکابر اہل اللہ کے پاس*

اگر آپ کوسمع خراشی کرنی ہی ہے توکسی بزرگ اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کیجئے، ان کی صحبت کو لازم پکڑیئے ، ان کے پاس بیٹھئے اوران کے اقوال وملفوظات اوران کے تجربات ومشاہدات سے فائدہ اٹھایئے ،یہ طبقہ آپ کودینی اورروحانی ہی نہیں آپ کے کاروبارکے لئے ایسامشورہ دے گاجوآپ کے لئے بہترہو،استفاضہ بھی ،استفادہ بھی اورافادہ بھی ۔

ہر کہ خواہد ہم نشینی باخدا
او نشیند .. در حضور اولیاء

ترجمہ: جو بهی خدا کی ہم نشینی چاہتا ہے اسکو کہو کہ اولیاء کے حضور بیٹھا کرے۔

بیں کہ اسرافیل وقت اند اولیاء
مردہ را ذی شان حیات است ونما

ترجمہ: یاد رکهو کہ اولیاء اپنے وقت کے اسرافیل ہوتے ہیں، مردہ قلوب میں روح پهونک کر زندہ و تابندہ کر دیتے ہیں جیسے اسرافیل صور پهونک کر مردہ جسدوں کو زندہ کرتے ہیں۔
.
مسجدے کو اندرون اولیاء است
سجدہ گاہے جملہ است آنجا است

ترجمہ : ه مسجد جو اولیاء کے اندر ہے وہ تمام مخلوقات کی سجدہ گاہ ہے کیونکہ وہاں خدا موجود ہے۔

مولانا روم ہی کا مشہور شعر ہے :

یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

*کارخانوں میں جائیں*

اگر آپ کوبیٹھنا ہی ہے توکسی کارخانے پہنچیے اور وہاں کی تکنیک اور طریقہ کو سمجھنے کی کوشش کیجیے، فیکٹری پہنچیں اور کام کی راہیں تلاش کریں، کسی ماہر تجربہ کار کے پاس جائیں اوراس سے زندگی کو خوش گوار بنانے کے گُر اور حکمتیں سیکھیں ،جس سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوسکتا ہو وہاں جائیں تو یقین جانیں ایسے لوگوں کی ہر نشست آپ کے لئے کسی محاضرہ اور کسی سبق سے کم نہیں ہوگی۔ اپنے وقت کو بے کاری اوربے گاری میں ضائع کردینے والے دنیامیں کچھ کرتونہیں سکتے بس حسدکرسکتے ہیں،جل بھن کرکباب ہوسکتے ہیں،آپ کی ترقی دیکھ کردشمنی پر آمادہ اور ایذا رسانی پر کمربستہ ہوسکتے ہیں، یہ لوگ اس لائق ہوتے ہی نہیں کہ آپ ان کو اپنی مجلس یااپنے پاس بیٹھنے دیں ،کیونکہ یہ زمین کابوجھ توہیں ہی آپ کے لئے بھی بوجھ بن سکتے ہیں۔

*دھیان رکھیں*

آپ دھیان رکھیں جب تک کسی کی مجلس میں آپ کی باتیں توجہ اوردلچسپی کے ساتھ سنی جاتی رہیں اسی وقت تک وہاں رہیں اورجیسے ہی محسوس ہوکہ آپ کی باتوں سے لوگوں کو دلچسپی نہیں رہی ،یالوگ اپنے موبائل یا کسی اورچیزمیں مصروف ہونے لگے تو آپ کی عزت کی سلامتی اسی میں ہے کہ آپ چپ چاپ وہاں سے رخصت ہوجائیں ۔

علم و کتاب

08 Nov, 14:15


انتخاب مطالعہ/۲۱۶
انتخاب: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
تحریر: مولانا حفیظ الرحمن عمری

*شیخ ناصر الدین البانی(۲)*

ہم شیخ سے ملاقات کی خواہش کرتے تو دوشنبہ کی عصر کا وقت بتاتے، کیوں کہ اس روز حرم نبوی کے کتب خانہ "مکتبہ شیخ الاسلام عارف حکمت" کے لیے چھٹی رہتی تھی، شیخ کی باتیں، یادیں بہت ہیں، ہر ماہ ایک دو بار آپ کی قیادت و اشراف میں طلبہ کے ساتھ آپ کا رحلہ ہوتا تھا، دن رات قریب رہ کر آپ کی ایک ایک نیکی، خوبی، جفاکشی اور طلبہ سے آپ کی محبت و ہمدردی کی زندہ مثالیں دلوں میں نقش ہو جاتی تھیں، آپ البانیہ یورپ کے باشندے تھے، سرخ گال، سفید بال، نیلی آنکھیں، صحت وہمت سے بھر پور تنومند جسم، بڑی جیبوں والا گردن سے پنڈلی تک کوٹ، جس میں چھوٹی موٹی کئی ایک کتابوں کا وزن۔ رحلہ میں ریت اور صحرا میں جہاں بھی، جیسی بھی جگہ مل جاتی آرام سے بیٹھ جاتے، رات آتی لیٹ جاتے، سجدوں میں پیشانی خاک آلود ہو جاتی تو اس کا بھی ایک حسین منظر نکھر کر آجاتا، طلبہ کو فرش خاک میں اٹھنے بیٹھنے میں کچھ تکلف ہوتا تو ناصر السنہ حدیث رسول سنانے لگتے:
*اياك و التنعم، فان عباد الله ليسوا بالمتنعمين (احمد، بیہقی ، حسن ) اللہ کے بندو! عیش و عشرت کے مظاہر سے بچو، اللہ کے محبوب ناز و نعم کے دل دادہ نہیں ہوتے“۔*
شیخ بڑے سادہ مزاج تھے، اونچی تنخواہ ہونے کے باوجود آپ کے رہن سہن اور لباس پوشاک میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ تنخواہ کا ایک حصہ مدینہ کے غریب غربا اور طلبہ میں بڑی خاموشی سے تقسیم کر دیتے تھے، کار کے لیے ڈرائیور بھی نہیں رکھا، خود ہی چلاتے تھے، راستے میں کوئی بھی طالب علم ملتا تو اس کو ضرور اپنی گاڑی میں بٹھا لیتے، ہمیشہ آپ کی گاڑی طلبہ سے بھری رہتی۔
مکتبہ ظاہر یہ ملک شام میں مخطوطات کے عظیم ترین نادر ذخیرے کا مرکز ہے، چوں کہ آپ کے والد کا کتب خانہ آپ کی جولان گاہ کے لیے ناکافی تھا، اس لیے آپ نے مکتبہ ظاہریہ کارخ کیا، دمشق کا یہ مکتبہ آپ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، آپ ہر دن صبح دو تین گھنٹے اپنی گھڑی سازی کی دکان میں کام کرتے، جب گھر کا معمولی خرچ نکل جاتا تو پیسے گھر بھیج دیتے، اور آپ مکتبہ کا رخ کرتے، شروع میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک مطالعے میں مصروف رہنے لگے تھے، آپ کی جاں فشانی اور انہماک دیکھ کر مکتبے کے ذمے داروں نے آپ کے لیے ایک کمرہ مخصوص کر دیا، اور مکتبہ کی چابیاں بھی آپ کے حوالے کر دیں، اس کے بعد آپ بارہ بارہ گھنٹے یہاں مطالعے میں گزارنے لگے۔
علم مخطوطات کتنا مشکل فن ہے، اس کا اندازہ اسی کو ہوگا جو اس میدان میں کچھ شد بد رکھتا ہو، آپ نے یہاں سب سے زیادہ جو پڑھا وہ مخطوطات ہی سے تھا، آپ فرمایا کرتے تھے:
*مخطوطات کے مطالعے کے دوران میرے ساتھ ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ اگر میں بیان کر دوں تو لوگ انھیں کرامات سمجھنے لگیں، کبھی ایسا ہوتا کہ میں کوئی مخطوطہ پڑھتے پڑھتے کسی مشکل لفظ پر رک جاتا، حل کرنے کی کوشش میں گھنٹوں گزر جاتے مگر گتھی نہ سلجھتی، آخر اسی دھن میں گھر جا کر سو جاتا، رات خواب میں مجھے وہ لفظ بتا دیا جاتا، بعض اوقات وہ لفظ صبح میرے ذہن سے نکل جاتا تو دوسرے دن خواب میں مجھ سے کہا جاتا کہ یہ لفظ لکھ لو، تو میں کاغذ پر لکھ کر سوجاتا، صبح جب اپنا لکھا ہوا پا تا تو خود مجھے حیرانی ہوتی کہ کب میں نے اسے لکھا، اور پھر اسی لفظ کے ساتھ پڑھتا اور آگے بڑھتا، اس میں میرا کوئی ہنر یا کمال نہیں، یہ خالص اللہ کا فضل ہوتا۔*
۱۴۱۹ھ / ۱۹۹۹ء کے سال رواں میں مؤسسة الملك فيصل الخيرية “ نے خدمات حدیث پر شاہ فیصل ایوارڈ کے ذریعے آپ کو اعزاز بخشا مگر شیخ اس اعزاز واکرام سے بہت بلند و بالا اور بے نیاز تھے، اس ایوارڈ سے آپ کی شخصیت میں مزید اضافہ تو نہیں ہوا، البتہ ایوارڈ کو اس کا ایک صحیح حق دار دارمل گیا۔ میں یہ بات اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ آپ سے پہلے دکتور محمد مصطفیٰ اعظمی (استاذ جامعة الامام محمد بن سعود، ریاض) جنھیں حدیث نبوی کو کمپیوٹریز کرنے پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا، تو انھوں نے اس خوشی کے موقع پر بڑے درد سے کہا تھا کہ *یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مجھے حدیث نبوی کی معمولی خدمت پر انعام دیا جا رہا ہے، جب کہ ایک بے مثال و بے نظیر حدیث نبوی کا ماہر اس روے زمین پر موجود ہے۔*
شیخ البانی طویل عرصے سے بیمار تھے۔ آخر ۲۲ / جمادی الاخری ۱۴۲۰ھ / ۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو مالک حقیقی سے جاملے۔ تدفین شہر عمان میں عمل میں آئی۔ آپ کی موت معمولی انسان کی نہیں، بلکہ:
سورج کی موت، چاند ستاروں کی موت تھی
وہ ایک کی نہیں تھی ، ہزاروں کی موت تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اساتذہ/۱۵۷. ۱۶۵

https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

08 Nov, 10:34


9 نومبر یوم اقبال کی مناسبت سے یہ کاوش آپ کی خدمت میں

،،اقبال نامہ ،،

سنو پیارے بچو کہانی سنو
یہ اک داستاں جاودانی سنو

کہانی ہے اک شہر پنجاب کی
کہانی ہے اقبال نایاب کی

خدا دار ایک شیخ جنت مقام
کہ نور محمد ہوا جن کا نام

خدا کی عطا ان کے دو لال تھے
کلاں تھے"عطا "خرد "اقبال" تھے

بلندی پہ تھا بخت اقبال کا
ستارہ منور تھا اس لال کا

اٹھارہ کا سن تھا ستتر کا سال
کہ پیدا ہوا یہ سراپا کمال

تھے استاد اک مولوی میر حسن
لیا آپ نے ان سے درس کہن

لگائی جو رہوار ہمت پہ چوٹ
چلے آئے لاہور از سیالکوٹ

تشفی کے لیکن بجھے جب دیے
تو لاہور سے کیمبرج چل دیے

براؤن ، نکلسن ، ٹگرٹ ، سارلی
نمایاں ملے ان کو استاد بھی

تھےسر آرنلڈ ان میں سب سےشہیر
وہ دنیاۓ علم و ادب کے امیر

بڑھی اور جب علم کی تشنگی
گئے بہر تعلیم تا جرمنی

رقم کی وہاں فلسفے پر کتاب
تو اس پر ملا ڈاکٹر کا خطاب

مگر تشنگی اور بڑھتی گئ
تو لندن سے کی پاس بیرسٹری

رہے شہر لندن میں ایسے مقیم
کہ دربار فرعون میں جوں کلیم

ولایت سے جب ڈاکٹر ہو گئے
نوازا حکومت نے ، سر ہوگئے

وہ انیس سو پانچ سے آٹھ تک
رہے ارض یورپ پہ بن کر فلک

مگر جب کھلے اس تمدن کے عیب
وہ حاضر کی دنیا یہ دنیائے غیب

ہوئے جب عیاں بھید سب ناشکیب
تمدن تفنن کے جھوٹے فریب

تو بیزار مغرب ہوئے اسقدر
پلٹ کر نہ دیکھا ادھر عمر بھر

اثر تھا یہ مغرب کے طوفان کا
مسلماں کو جس نے مسلماں کیا

غرض جب کھلاحق ، ہوئےشرمسار
کلام الٰہی پڑھا اشکبار

کھلے دل پہ اسرار ہائے ازل
تو پھر بحر عرفاں میں ڈوبی غزل

تو پھر عارض و زلف و لب کھوگئے
روایات کہنہ کے ڈھب کھو گئے

ہوئی شاعری پھر بلوغ المرام
قلم سے لیا تیر و نشتر کا کام

وہ پیغام مشرق زبور عجم "
رموز خودی بیخودی " کا علم

سنائی زمانے کو بانگ ‌ درا
کہ بیدار ہو نیند سے قافلہ

بتایا ہر اک راز تفصیل سے
اڑے عرش تک بال جبریل سے

خوشا ! ضرب مومن وہ ضرب کلیم
ہوجس ضرب سےقصر باطل دو نیم

دیا قوم کو ارمغان حجاز
وفا کا ترانہ محبت کا ساز

غرض کیا بتاؤں وہ کیا شخص تھا
وہ افکار قرآں کا اک عکس تھا

بالآخر ہوئی عمر اکسٹھ برس
بجا موت کے کارواں کا جرس

یہ خورشید انیس سو اڑتیس کو
چھپا صبح اپریل اکیس کو

قفس سے اڑا عندلیب حجاز
سوئے خلد ، مشرق کا دانائے راز

چراغ خودی کا نگہباں گیا
قلندر تھا اک شعلہ ساماں گیا

جو کہتا تھا لوگو مکاں اور ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور ہیں

وہ کہتا تھا تم صقر و شاہین ہو
تو پھر کیوں غلام سلاطین ہو

کہاں فکر عصفور شاہیں کہاں
خدا کا جہاں سب تمہارا جہاں

وہ کرتا تھااس ضرب مومن کی بات
گریں منھ کےبل جس سےلات و منات

روایات شیخ و برہمن سے بیر
وہ من کا مسافر حرم ہو کہ دیر

وہ تن کی رفاقت سے بیزار سا
وہ من کی تمازت سے تلوار سا

وہ دستور منصور و سرمد کا پاس
وہ ملبوسئ فقر سے خوش لباس

سکھائی زمانے کو نکتے کی بات
خودی کیا ہے بیدارئ کائنات

سپر عقل ہے عشق شمشیر ہے
یہ دنیا تو مومن کی جاگیر ہے

کہا جس نے بیباک انداز سے
" لڑا دو ممولے کو شہباز سے "

دعا کی کہ اے خالق بحر و بر !
جوانوں کو دے میری آہ سحر

عطا کر انھیں وہ جنون عمل
ہوں شق ان کی ٹھوکر سے دشت و جبل

نظر عشق و مستی میں سرشار کر
خرد کے تماشوں سے بیزار کر

وہ رستہ دکھا ان کو پروردگار
چلے جس پہ تیرے اطاعت شعار

ترا ہو کے رہنے کی توفیق دے
" دل مرتضی سوز صدیق دے"

خدا رحم فرمائے اقبال پر
جو روتا رہا قوم کے حال پر

محبت میں بزمی نے جو کچھ کہا
کہو پیارے بچو وہ کیسا لگا

سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان انڈیا
09772296970

علم و کتاب

08 Nov, 07:34


آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عیش رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 141-139

عربی متن آڈیو ماخوذ از:  Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

علم و کتاب

08 Nov, 06:54


*غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ منہ میں مانگے کی زباں... احمد حاطب صدیقی*

ایک عربی مقولہ ہے:’’النّاسُ عَلیٰ دِینِ مُلُوکِھِم‘‘(لوگ اپنے ملوک کے طریقے پرچلتے ہیں)

اب ملوک تو رہے نہیں۔ بچے کھچے کچھ رہ بھی گئے ہیں تو وہ ملوک کم اور ’غلام‘ زیادہ ہیں۔ مگرصاحب! ملوکیت خوب پھل پھول رہی ہے۔ جو بندہ جس جگہ ہے وہیں بادشاہ ہے۔ کہنے کو یہ سلطانیِ جمہور کا زمانہ ہے مگرجمہور ہر جگہ مقہور ہیں۔ ایک سے ایک ’قاہر‘ جمہوریت کا ماہر بن کر ہمارا سلطان بنا بیٹھا ہے۔ ہر ’جمہوری بادشاہ‘ چاہتا ہے کہ باقی سب بادشاہ بس اُسی کی بادشاہی کے آگے سر جھکائیں۔ اقبالؔ تو اِس جمہوری تماشے کو ’دیوِ استبداد کی پاکوبی‘ ہی قرار دیتے رہے، ایسے دیوکا رقص، جو جمہور کی کمائی بالجبر ہتھیاکر خود ہڑپ کر جاتا ہے، وہ کہتے ہیں:

مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

کسان کے کھیت کی پیداوار کھا جانے والا ہی ’سلطان‘ ہے، خواہ یہ’کھاؤ ُ پیر‘ خسرو پرویز جیسا قاہربادشاہ ہو یا ’مجلسِ ملت‘ (پارلیمنٹ) جیسا قہرمان ’جمہوری ادارہ‘۔ حاصل کلام یہ کہ … ’وہ تیری صف میں ہو یا میری صف میں … مَیں ہر ظالم پہ لعنت بھیجتا ہوں‘۔

ملوک کا ذکر آہی گیا ہے تو کالم کی مناسبت سے ’کلامِ ملوک‘ کا بھی کچھ تذکرہ ہوجائے۔ عربی کا ایک اور مقولہ ہے: ’’کَلامُ المُلوک مُلوکُ الکلام‘‘۔ ’بادشاہوں کا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے‘۔ مگر ہمارے بادشاہ تو عجب بادشاہ ہیں۔ خواہ وہ حکومت کے بادشاہ ہوں، سیاست کے بادشاہ ہوں، صحافت کے بادشاہ ہوں یا سمعی و بصری ابلاغیات کے بادشاہ… ہمارے زمانے میں سب سے پست اور سب سے ناقص کلام اِنھیں بادشاہوں کا ہوتا ہے۔


پہلے زمانے میں بادشاہت کے منصب پر فائز ہونے والے حسنِ کلام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ یہ احساس رکھتے تھے کہ ان کا مقام بلند ہے، لہٰذا ان کا کلام بھی بلند ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے ہاں بھی ‘King’s English’ مثالی اور معیاری انگریزی مانی جاتی تھی۔ سرکار دربار میں قواعد و اِنشا ہی کا نہیں، لب و لہجے کا خیال رکھنا بھی آدابِ شاہی میں داخل تھا۔ برطانیہ کا چار بار وزیراعظم رہنے والا ولیم ایورٹ گلیڈ اسٹون اپنے وقت کا بہترین خطیب اور صاحبِ علم شخص تھا۔ جب وہ ملکہ وکٹوریہ سے تنہا ملاقات کے لیے جاتا تو ملکہ سے خوشامدانہ لہجے کے بجائے اپنے مخصوص عالمانہ اور خطیبانہ لہجے میں گفتگوکیا کرتا۔ اس پر ملکہ نے جو دلچسپ شاہانہ تبصرہ کیا وہ آج بھی ضرب المثل بنا ہوا ہے:

“He speaks to Me as if I was a public meeting.”

’’وہ مجھ سے ایسے خطاب کرتا ہے ، جیسے میں کوئی جلسۂ عام ہوں‘‘۔

جلسۂ عام سے خطاب کرنا ہو تو ہمارے سب بادشاہ اُردو بولنے لگتے ہیں،چاہے آئے یا نہ آئے۔ ورنہ وطنِ عزیز کے بگڑے بادشاہ بس انگریزی کو بادشاہوں کی زبان سمجھ کر بزعمِ خود انگریز بادشاہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں منہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے، مگر انگریزی بگھارتے ہیں خواہ آئے یا نہ آئے۔ پوری قوم کو آئے دن یہ تماشے دیکھنے پڑتے ہیں۔ قوم تو ’انگریزی تماشا‘ نہیں دیکھنا چاہتی:

پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا

خدا جانے ہمارے بادشاہوں کی بدقسمتی ہے یا ہماری خوش قسمتی کہ ہمارا کوئی بادشاہ ہمارا کالم نہیں پڑھتا۔ ہمارے عزت مآب وزیر اعظم شہبازشریف کے نامِ نامی، اسمِ گرامی میں ’شہ‘ کا لفظ شامل ہے جو ’شاہ‘ کا مخفف ہے۔ ’شاہ‘ بادشاہ کا متبادل ہے۔ خفت ہمیں اُس وقت ہوتی ہے جب ہمارے وزیراعظم انگریزی بولتے ہیں۔کیا ضرورت ہے انگریزی بولنے کی؟ اُن کی اُردو اُن کی انگریزی سے کہیں بہتر ہے۔ شعری ذوق بھی رکھتے ہیں۔ حبیب جالبؔ کی نظمیں لہک لہک کر گاتے ہیں۔ اُردو ہماری قومی زبان ہی نہیں، آئین کی رُو سے ہماری سرکاری زبان بھی ہے۔ سرکار کو سرکاری زبان بولنے میں کیا امر مانع ہے؟ ایک مضحکہ خیز منظر دیکھ کر تو ہم اور بھی خفیف ہوجاتے ہیں۔ جب چین، ایران یا ترکی سے آئے ہوئے مہمان ہمارے ملک میں آکر اپنی اپنی قومی زبان میں خطاب کرتے ہیں اور ہمارے حکمران (کوٹ میں پھنس کے اور ٹائی کس کے) اُن کے خطاب کا جواب اُنھیں امریکی یا برطانوی زبان میں دیتے ہیں۔ مہمان تو مروتاً پوچھ نہیں پاتے، ہم پوچھے لیتے ہیں کہ

’’یور ایکسی لینسی! کیا پاکستان بے زبان ہے؟‘‘

لگے ہاتھوں یہ بھی پوچھ لینا چاہیے کہ ’’کیا پاکستان بے لباس ہے؟‘‘ قائداعظم محمد علی جناح، قائدِ ملت لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشترؔ سمیت پاکستان کے تمام ابتدائی حکمران ایک خاص قومی لباس پہنا کرتے تھے۔ کچھ دنوں تک وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاتے وقت قومی لباس پہن کر اس روایت کی پابندی کی گئی۔ پھر آزادی اور تحریکِ آزادی کے اس علامتی لباس کو بھی ترک کردیا گیا، کیوں کہ اس لباس سے آزادی کی خوشبو پھوٹتی تھی، بوئے غلامی نہیں آتی تھی۔

علم و کتاب

08 Nov, 06:54


اپنا پہناوا پہننے، اپنے ذہن سے سوچنے اور اپنی زبان میں اظہارِ خیال کرنے والا مردِخود آگاہ اپنے آپ کو جس قدر آزاد اور خودمختار محسوس کرتا ہوگا اتنا اعتماد اُس شخص کے دعوائے دانشوری میں نہیں ہوسکتا، جس کے متعلق پاک فضائیہ کے شاعر رحمٰنؔ کیانی مرحوم نے فرمایا تھا:

ذہن میں غیروں کی باتیں، منہ میں مانگے کی زباں
اس پہ دعویٰ یہ کہ صاحب ہم بھی فرزانوں میں ہیں

ذہنی، فکری، تہذیبی، ثقافتی، لسانی اور عملی آزادی کی مثال لینا ہو تو ’افاغنہ‘ سے لیجے۔ افغانی برطانیہ کے غلام رہے، نہ روس کے غلام ہوئے، نہ امریکہ کے غلام بنے۔ یہ مردانِ آزاد اپنے ذہن سے سوچتے ہیں، اپنی زبان بولتے ہیں، اپنا لباس پہنتے ہیں اور اپنی مرضی کرتے ہیں۔ آزاد اور خودمختار ہیں۔ اُنھیں کسی سے مانگا ہوا قرض ادا کرنے کی معذوری ہے نہ کسی سے بھیک مانگ کر ’ڈکٹیشن‘ لینے کی مجبوری۔ ہمارے حکمران اور دانشور جس کا کھاتے ہیں اُس کا گاتے ہیں۔ مگر وہ چوں کہ اپنا کھاتے ہیں، اس لیے اپنا ہی گاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جوبھی اُنھیں پھانسنے آیا وہ خود پھنس گیا، اور جو بھی اُنھیں پیٹنے آیا وہ اپنا ہی منہ پِٹا کر اور پٹ پٹا کر سرپٹ بھاگا۔

کل یومِ اقبالؔ ہے۔ اقبال کا کلام ملت کو غیرت و خودداری کے ساتھ دنیا میں سربلند ہوکر جینے کا طریقہ بھی سکھاتا ہے اور حسنِ کلام کا سلیقہ بھی۔ اہلِ کلام یہ کہتے ہیں کہ اقبالؔ کا کلام بھی ’کلاموں کا بادشاہ‘ ہے۔ مگر اِس کلام سے کچھ سیکھنے کے لیے ’گیسوئے اُردو‘ کی چھاؤں کو تعلیمی اور نشریاتی اداروں تک بڑھانے کی ضرورت پڑے گی۔ پر یہاں تو ’گیسوئے اُردو‘ کی حجامت بنائی جارہی ہے۔ حجاموں کی اکثریت برقی ذرائع ابلاغ پر بیٹھی دونوں قسم کی قینچیاں چلا رہی ہے۔ ان میں شاہی حجام بھی ہیں اور نوکر شاہی حجام بھی۔ شاہی بھی کیا؟ یہ خود کسی ’شاہ‘ سے کم ہیں؟ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ ابلاغ کے بادشاہ اگر ’عوام‘ کو واحد مؤنث قرار دے ڈالیں تو عوام پورے ملک میں ’واحد مؤنث ہوجاتی‘ ہے۔ یہ اگر ’اقدام اُٹھانا‘ شروع کردیں تو حکومت سمیت سب ہی ’اقدام کرنے‘ سے باز آجاتے ہیں۔ ہزار بار ہزار لوگوں کو سمجھایا، مگر کسی کی ’’سمجھ میں نہ آیا‘‘ [کیوں کہ ان اداروں میں کسی کو ’’سمجھ نہیں آتی‘‘] کہ قدم اُٹھایا جاتا ہے اور اِقدام کیا جاتا ہے۔ اِقدام کا مطلب ہے ’پیش قدمی‘۔ اقدام ضد ہے پسپائی کی۔ اور یہ کہ عوام جمع مذکر ہیں، لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں صرف عوام پس رہی ہے۔ درست تو یہ ہے کہ اس ملک میں صرف عوام پس رہے ہیں۔ باقی سب بادشاہ ہیں۔ چکی پر بیٹھے عوام کو پیس رہے ہیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل

علم و کتاب

08 Nov, 06:43


پیشِ نظر کتاب کے ہر باب کی ابتدا میں مضامینِ باب کا تعارفی خاکہ لکھا گیا ہے اور ہر باب کے ابتدائی عنوانات قرآنی تعلیمات سے شروع ہوتے ہیں اور باب کے آخر میں خلاصۂ باب موجود ہے۔ فاضل مؤلف نے موزوں اشعار بھی لکھے ہیں تاکہ ذوقیاتِ رسول ﷺ کے بیان میں کلامی تزئین کا عنصر شامل ہوجائے۔ کتاب کے آخر میں ماخذ و مراجع درج ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے سیرتِ نبویﷺ کے ضمن میں نئے مضامین سامنے آتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ

حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اِک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے
فرائیڈے اسپیشل

https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

08 Nov, 06:43


رسول اللہ ﷺ کا ذوقِ جمال
- ڈاکٹر محمد سہیل شفیق -November 8, 2024


کتاب : رسول الله صلى لها السلام کا ذوق جمال
تحقیق وتخریج : مولانا محمد اسلم زاہد
تخریج کتاب : رسول الله قیمت : درج نہیں
صفحات : 352 ناشر : معارف ادب اسلامی پاکستان
www.adbeislami.com



خالقِ کائنات نے اپنی ساری مخلوقات میں انسان کو موزوں، بہترین اور حسین ترین ساخت میں پیدا کیا۔ اور انسانوں میں سب سے حسین و جمیل سرورِ دوعالم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو تخلیق کرکے نہایت نفیس ذوق سے نوازا۔ آپﷺ صاحب ِجمال ہی نہیں صاحب ِتجمیل بھی تھے… صاحبِ حسن ہی نہیں، صاحب ِتحسین بھی تھے، یعنی انسان کے ہر قول وفعل کو اللہ کے رنگ میں رنگنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس ماہ ِ کامل (ﷺ) نے قیامت تک کے لیے روشنی پھیلادی۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس کے سامنے سرِتسلیم خم کرکے اپنے قلب و جاں کو منور کریں۔ ایک امتی کے دل میں جب نبی کریمﷺ کی یہ شان واضح ہوجائے تو وہ اپنی دنیا اور دین کے سب کاموں میں نکھار لانے کے لیے سنت ِرسولﷺ کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی اتباعِ سنت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے سارا حسن و جمال اور کمال رکھا ہے۔

پیشِ نظر کتاب ’’رسول اللہﷺ کا ذوقِ جمال‘‘ ماہِ کامل (چودھویں کا چاند) کی نسبت سے درجِ ذیل 14 ابواب پر مشتمل ہے:


1۔ قرآن اور حسنِ کائنات میں نبیِ محترمﷺ کا تفکر، 2۔ انسانی آرائش و حسن ِ سنتِ رسولﷺ کے مظاہر، 3۔تطہیر و عبادات میں حضورﷺ کا ذوق ِنفیس، 4۔ حسنِ صورت و جمالِ سیرت کا خوبصورت امتزاج، 5۔اخلاقیات و نفسیات میں تحسینِ رسولﷺ، 6۔ تخلیق ِجمال اور اجتماعیات (ماحولیات کی خوشگواری میں اسوہ رسولؐ)، 7۔ تفریحات و ثقافت میں رحمت ِدو عالمﷺ کی جمال آرائی، 8۔ اقتصادیات میں حضورﷺ کا حسنِ تصور، 9۔ لسانیات وابلاغیات میں معلمِ انسانیتﷺ کی اصلاحات، 10۔ عطریات و خوشبویات اور حضور انورﷺ کا ذوقِ سلیم، 11۔ ملبوسات و مفروشات میں سنتِ رسولؐ اور حکمتِ الٰہی، 12۔ آرائشِ گیسو میں نبی اکرم ﷺ کا نفیس مزاج، 13۔ نسائیات وزیورات میں رسول اللہﷺ کا حسنِ خیال، 14۔ ماکولات و مشروبات میں سیرتِ مقدسہ کے دروس۔

صاحبِ کتاب مولانا محمد اسلم زاہد (رئیس التحریر، معارفِ ادبِ اسلامی پاکستان) رقم طراز ہیں:

’’دل کی بات یہ ہے کہ ذوقیاتی امور کا یہ مبارک موضوع اور سیدِ دوعالم ﷺ سے منسوب شوقی اعمال و اخلاق کی تلاش میرے لیے بہت مشکل کام تھا، لیکن جب شروع کیا تو اس کی وسعت پر نظر گئی اور متنوع دریچے کھلے تو اندازہ ہوا کہ ہر اسوہ رسولﷺ اور حکمِ حبیبﷺ کی انتہا میں حسن اور نور ہی نور دکھائی دیتا ہے ؎

داستانِ حُسن جب پھیلی تو لامحدود تھی
اور جب سمٹی تو تیرا نام ہو کر رہ گئی

آج سے چند سال پہلے مختلف جرائد میں احقر نے سیرت کے اس پہلو پر لکھنا شروع کیا، بعض احباب نے ان مضامین کو جمع بھی کیا، اس طرزِ نگارش کو پسند کیا گیا، اس لیے اب یہ کاوش کی کہ جمالِ یار کی یہ چند جھلکیاں ایک کتاب کی صورت میں ان کے ماننے والوں کو دکھائوں اور چند کلیاں ان کے عاشقوں کے لیے پیش کردوں جن کی خوشبو و عطر بیزی کے سہارے گلستانِ سیرت کے پھولوں تک وہ خود پہنچ جائیں گے اور انھیں بھی مصنف کی طرح ہر طرف نورِ محمدﷺ سے اجالا نظر آئے گا۔


بلاشبہ محبوب کی ہر ادا روشن قندیل ہے، جس کا ضیا بار نور آج بھی اپنا وجود منوا رہا ہے۔ اسی کو پھیلانے کے لیے یہ حقیر سی کوشش ہے جس کا موضوع یقیناً منفرد ہے، لیکن کسی بھی زبان میں مؤلف کو اتنا مواد یکجا نہ مل سکا، اس لیے اس نے کئی سال میں جو کچھ جمع کیا، اسے امتِ رسول کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔‘‘

ان مضامین کا ماخذ قرآن وسنت اور سیرتِ طیبہ کی مستند کتابیں اور ان میں موجود صحیح، حسن اور سیرت میں قابلِ قبول حدیثیں ہیں۔ اور طرزِ استدلال یہ ہے کہ سیدنا حضرت محمدﷺ قرآنی تعلیمات سے اللہ کے مقصود ِجمال کوکس طرح کشید کرتے اور کس انداز میں اپنے اسوہ حسنہ کا حصہ بنا لیتے تھے، اور بعض جگہ یہ منفرد ودلآویز نظریۂ تفکر قاری کا راہنما ہوگا کہ سیدنا محمدﷺ میں فطرتِ انسانی کے تمام محاسن اور خوبیاں ابتدائے عمر سے جمع تھیں جن کی بے شمار جھلکیاں لوگ اعلانِ اسلام سے پہلے دیکھ چکے تھے۔ طلوعِ اسلام کے بعد قرآنی آیتیں آپﷺ کی حسین و جمیل اداؤں کی تائید میں اتریں…

مثلاً: حضور اکرمﷺ اپنے بچپن اور عہدِ شباب میں ہمیشہ طوافِ کعبہ کے لیے جانے سے پہلے اپنے لباس اور جسم کو خوب صاف کرتے۔ قرآن کریم نے جب مساجد کے آداب بتانا شروع کیے تو ان میں یہ آیت بھی اتری: یٰبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: 31) (اے آدم کے بیٹو! تم ہر مسجد (یا عبادت) کے لیے جاؤ تو زینت اختیار کرو۔) یہ آیت خصوصی اوقات (عبادت) کے ساتھ دیگر اوقات میں بھی جمال و کمال ﷺ کی طرف راہنماہے۔

جمالِ دو عالم تیری ذاتِ عالی
دو عالم کی رونق تیری خوش جمالی

علم و کتاب

08 Nov, 04:38


اگر غلط ہے مگر دین سے متعلق نہیں تو خاموش رہو) (إحیاء علوم الدین،دار المعرفۃ، بیروت، ج۳، ص۱۱۷)، یعنی اگر دین سے متعلق ہو تو صحیح بات کو سامنے لانا ضروری ہوگا لیکن نیک نیتی سے صرف کوشش کی جائے گی، ڈنکے کی چوٹ پر خم ٹھونک کرسامنے والے سے منوا لینا ضروری نہیں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہے: "لا تمار أخاك فإن المراء لا تفهم حكمته، ولا تؤمن غائلته، ولا تعد وعداً فتخلفه" (اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو؛اس لیے کہ جھگڑے میں اچھی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی، اس کے شر وفساد سے اطمینان نہیں کیا جاسکتا، اور جھگڑا نہ کرنا ایسا بھی نہیں کہ تم نے کوئی وعدہ کیا تھا جس کو توڑ رہے ہو )(جامع الأصول، ابن الأثير، الكتاب الثاني من حرف الجيم في الجدال والمراء، حدیث نمبر: ۱۲۶۲)حضرت ابو درداءؓ کا قول بھی اسی حکمت کی تائید کرتا ہے: "لا تكون عالماً حتى تكون مُتعلِّماً، ولا تكون بالعلم عالماً حتى تكون به عاملاً، وكفى بك إثماً أن لا تزال مخاصماً، وكفى بك إثماً أن لا تزال ممارياً، وكفى بك كذباً أن لا تزال محدثاً في غير ذات الله" (تم عالم نہیں بن سکتے جب تک کہ تم متعلم (سیکھنے والے) نہ بنو، اور علم کے ذریعہ عالم نہیں بن سکتے جب تک کہ اس پر عمل نہ کرو، تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑالو بنے رہو، اور تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ مباحثوں میں پڑے رہو، اور تمہارے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ ذات باری تعالی کو چھوڑ کردوسرے موضوعات پرباتیں کرتے رہو) (سنن الدارمي، كتاب العلم، باب من قال: العلم الخشية وتقوى الله، دار البشائر، بیروت، ص۱۵۷)۔

سچی بات یہ ہے کہ بحث ومباحثہ ایک ایسا زہر ہے جو انسان کو حقیقی علم اور حکمت سے دور کر دیتا ہے، ایک عالم کی زبان میں شائستگی اور گفتگو میں عاجزی ہونی چاہیے، آج کے دور میں، جب باتوں کو رد counter کرنے کا کلچر عام ہو چکا ہے، ہمیں سلف صالحین کے ان اقوال سے رہنمائی لینا چاہیے، علم کا مقصد دلوں میں محبت پیدا کرنا اور دانش وحکمت کو فروغ دینا ہے، نہ کہ بے جا بحث ومباحثہ میں الجھ کر اپنی علمی چابک دستی intellectual prowess کا اظہار کرنا، علم و دانش وہ زیور ہے جو انسان کو بہتر انسان بناتا ہے اور اسے دوسروں کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والا بناتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اپنی گفتگو کو حکمت، سچائی اور اخلاص سے مزین کریں، اور اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے محبت اور شفقت کے چراغ روشن رکھیں، یہی علم کی اصل روح ہے اور یہی حقیقی کامیابی کا راز بھی، اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

08 Nov, 04:38


علم ودانش اور بحث ومباحثہ

ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
https://telegram.me/ilmokitab

انسانی طبیعت میں بحث و مباحثہ کا جذبہ اکثر اوقات ایک ناخوشگوار شکل اختیار کر لیتا ہے،حرف گیری، نکتہ چینی، باتوں کو بڑھانا، اور خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے زبان کا بےجا استعمال کرنا آج کی دنیا میں نہ صرف عام ہو چکا ہے، بلکہ "علم" اور"دانش" کا معیار بھی بن گیا ہے، خصوصاً وہ لوگ جو غیر مستند مآخذ سے کچھ تھوڑا بہت سیکھ کر "نیم مولوی" بن جاتے ہیں، یا خوان علم پر طفیلی ہوتے ہیں، ان میں بحث پر اترنے کا زیادہ جذبہ ہوتا ہے، اور وہ اہل علم کے ساتھ دنگل میں اتر کر دو دو ہاتھ کے لیے برجستہ تیار رہتے ہیں، اگر اہل علم بھی ان کی سطح پر اترآئیں تو یہ رویہ نہ صرف ان کا قد اور قدر گھٹا دے گا بلکہ ایسے کم علم لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے اور دلوں کی دنیا میں بھی نفرت و کدورت پیدا ہوگی، جس سے اصلاح کے بجائے دوریاں بڑھیں گی؛ اس لیے اصلاح کی نیت سے صحت مند تبصروں، ثمر آور مناقشوں اور مذاکروں کے آداب متعین ہیں جن کی رعایت عالمانہ وقار کا تحفظ کرتی ہے اور بدکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے میں مددگار ہوتی ہے، جہاں تک بحث و مباحثہ کا تعلق ہے، جسے عربی میں "المِراء" کہا گیا ہے، درحقیقت اس کی ایسی صورت ہے جس میں انسان حقیقت کو قربان کر کے کر اپنی جھوٹی برتری کا مظاہرہ کرتا ہے، دنیا میں اپنی برتری کے اظہار کا یہ طریقہ ان نادانوں کا شیوہ ہے جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں جیسا کہ حفیظ میرٹھی نے کہا تھا:
پوچھے ہے یاں کون میاں ارباب علم ودانش کو
جو چلّا کر بولے ہے وہ محفل پر چھاجائے ہے

تاہم یہ خیال رکھنا بقول غالب ضروری ہے کہ:
گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی

جب مقصد حقائق کی تلاش نہ ہو بلکہ صرف اپنی علمی برتری intellectual superiority ثابت کرنا ہو، تو ایسے مباحثے انسان کی روحانی پاکیزگی کو تباہ کر دیتے ہیں،نبی کریمﷺ نے بھی اس بارے میں تنبیہ فرمائی ہے، ارشاد ہوا: "مَن طلب العلمَ ليُجاري به العلماء، أو ليُمَارِي به السُّفهاء، أو يصرف به وجوه النَّاس إليه، أدخله اللهُ النَّار" (جو شخص علم اس نیت سے حاصل کرے کہ علماء سے مناظرہ کرے، جاہلوں سے بحث کرے، یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے، اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا) (سنن الترمذي: أبواب العلم، باب ما جاء فيمن يطلب بعلمه الدنيا، حدیث نمبر: ۲۶۵۴) علم کا مقصد دل کی روشنی اور کردار کی درستی ہے، نہ کہ لوگوں کے سامنے برتری کا جھوٹا اظہار، یہ حدیث ان لوگوں کے لیے ایک سنگین انتباہ ہے جو علم کو اپنی انانیت کا ہتھیار بنا لیتے ہیں، علم تو محبت، فروتنی، اور دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ ہے، اور جب انسان ان اوصاف سے عاری ہو جائے تو یہی علم نما جہل انسان کو باطنی زوال کی طرف لے جاتا ہے، حضرت عمر بن خطابؓ کا حکیمانہ قول ہے: "لا تتعلم العلم لثلاث، ولا تتركه لثلاث: لا تتعلَّمه لتماري به، ولا لتتباهى به، ولا لتُرائي به، ولا تتركه حياءً من طلبه، ولا زهادةً فيه، ولا رضاً بالجهل منه" (علم اس نیت سے مت حاصل کرو کہ لوگوں سے جھگڑا کرو، اپنی بڑائی دکھاؤ، یا ریاکاری کرو، اور نہ ہی علم کو چھوڑو محض اس لیے کہ شرم آتی ہے یا اس سے بے رغبتی ہے یا جہالت میں سکون ہے) (إحیاء علوم الدین،دار المعرفۃ، بیروت، ج۳، ص۱۱۷)۔

یہ الفاظ ہمیں یادلاتے ہیں کہ علم کا حقیقی مقصد دل کو نرم اور زبان کو شیریں بنانا ہے، علم ہمیں اپنی حقیقت اور اپنی کمزوریوں کا ادراک عطا کرتا ہے، نہ کہ ہمیں دوسروں کو زیر کرنے پر آمادہ کرتا ہے، انسان جتنا علم حاصل کرتا ہے اسے اس بات کا ایقان ہوتا جاتا ہے کہ یہ ایک بحر نا پیدا کنار ہے جس سے بوس و کنار تو ممکن ہے اس کی شناوری اور غواصی بڑے حوصلہ مند لوگوں کا کام ہے، نابغۂ روزگار علماء محسوس کرتے تھے کہ علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے سامنے موج زن ہے اور وہ اس کے ساحل پر خزف ریزے چن رہے ہیں، ابھی سرِ دامن بھی نہیں بھیگ سکا، جگن ناتھ آزاد نے کہا تھا:
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت

علم حقائق کا سنجیدہ اظہار سکھاتا ہے جس میں دلیلوں کا وزن ہو نہ کہ چیخ وپکار، چیلنج اور للکار، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "أنا زعيمٌ بِبَيتٍ في رَبَضِ الجنة لمن ترك المِرَاءَ وإن كان مُحِقّاً" (میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں گھر دیے جانے کی ضمانت لیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے) (سنن أبي داود: کتاب الأدب، باب في حسن الخلق، حدیث نمبر: ۴۸۰۰)، امام غزالیؒ نے "احیاء العلوم" میں بڑی بلیغ بات کہی ہے:" وترك المراءِ بترك الإِنكار والاعتراض، فكلُّ كلام سمعتَه: فإن كان حقّاً، فصدِّق به، وإن كان باطلاً كاذباً، ولم يكن متعلقًا بأمور الدِّين، فاسكت عنه" (جھگڑا چھوڑنے کا مطلب اعتراض اور تنقید سے باز آنا ہے، اگر کوئی بات سچی ہے تو اس کی تصدیق کرو، اور

علم و کتاب

07 Nov, 20:07


2024-11-08 - أمثال_العرب​ _ العين بصيرة واليد قصيرة - قصة هذا المثل العربي الشهير!! - 25

علم و کتاب

07 Nov, 19:41


جون ایلیا (وفات ۸ نومبر) پر مشتاق احمد یوسفی مرحوم کی زبانی آپ کی تحریر https://www.youtube.com/watch?v=GDwSTxVb0PE&list=PLjseW6sQdLXGON5OOR0gDfE4Ka86vJckh&index=5

علم و کتاب

07 Nov, 14:16


ضیاء محی الدین۔ نئے سال کی ایک شام

علم و کتاب

07 Nov, 05:38


ہمیں یاد آیا کہ جامعہ آنے سے پہلے آپ کی مؤلفات میں آپ کے نام کے ساتھ "الساعاتی“ لکھا رہتا تھا، یعنی گھڑی ساز ،( ساز کہاں ، صرف مرمت اور درست کرنے والے )
جامعہ اسلامیہ میں جن لوگوں نے شیخ کی زندگی دیکھی، وہ سوچ بھی نہیں سکتے، وسیع وعریض مکان کے مکین، چمچماتی کار کے مالک و مسافر، ضرورت مند طلبہ کے مادی اور علمی معاون و مددگار، سب چھوڑ چھاڑ کر بازار دمشق کی ایک گم نام دکان میں گھڑی مرمت کرکے آل و اولاد کو روزگار میسر کرنے جارہے ہیں، تو کل و استغناء کی شان زبان و بیان سے نہیں چہرے مہرے سے بھی عیاں تھی۔
جامعہ چھوڑنے کے اندرونی اسباب کچھ بھی رہے ہوں، اخباروں نے اشاروں میں لکھا: انه خالف الامام احمد و شیخ الاسلام ابن تيميه في ثلاثين مسئلة۔ انھوں نے امام احمد اور شیخ الاسلام سے تیسں مسائل میں اختلاف کیا “۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اساتذہ/ ۱۵۵ تا ۱۶۶

https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

07 Nov, 05:38


انتخاب مطالعہ/ ۲۱۵
انتخاب: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
تحریر: مولانا حفیظ الرحمن عمری

شیخ ناصر الدین البانی

مہینہ اور سنہ تو مجھے یاد نہیں، تاریخ اور دن بھی اس وقت ذہن میں نہیں، وہ جنوری ۱۹۶۲ء کا کوئی خوش گوار دن تھا، صبح بڑی سہانی تھی، ملک شام کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ہوائیں ہڈیوں سے مزاج پرسی کر رہی تھیں، ہم کچھ ساتھی دھوپ سینکنے کے لیے درجے سے نکل کر برآمدے میں ٹھہرے ہوے تھے، دور سے ایک نئی شان دار (Opel) کار آئی اور درجے سے ذرا فاصلے پر رک گئی، جو شخصیت اس کار کو چلاتے ہوے آئی وہ بڑی دیدہ زیب تھی، قد و قامت بلند و بالا ، لباس پوشاک عربی مگر اس پر طویل اوور کوٹ (Chester)، جس میں بڑی بڑی بھری بھری جیبیں، چال ڈھال میں تمکنت تھی اور رفتار بڑی باوقار ، جب وہ شخصیت قریب آتی گئی تو اس کے خدو خال زیادہ نمایاں اور واضح ہوتے چلے گئے، سفید ڈاڑھی، بڑی بڑی مونچھیں، سرخ و سپید رنگت، نیلی آنکھیں تبسم برلب، ہمارے پرانے ساتھی انھیں دیکھ کر درجے میں داخل ہو گئے، ہم نئے ساتھی حیرت و استعجاب کی تصویر بنے انھیں دیکھتے رہے، ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون ہو سکتے ہیں، ہر طرح سے وہ انگریز ہی لگ رہے تھے، جب وہ بھی درجے میں داخل ہوئے تو ہم ان کے پیچھے داخل ہو گئے، ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب وہ استاد کی کرسی سنبھال کر خالص عربی لہجے میں خطبہ مسنونہ پڑھنے لگے، خطبے کے بعد اپنی بڑی بڑی جیبوں سے کتابیں نکالنا شروع کیں، کسی میں بلوغ المرام تھی، کسی میں سبل السلام اور کسی میں بہت سارے نوٹس، اس دوران ہم نے اپنے ساتھیوں سے اشاروں میں دریافت کیا تو پتا چلا کہ یہی ہمارے حدیث کے استاذ ہیں، جن کا نام نامی ہے: شیخ ابو عبد الرحمن محمد ناصر الدین الالبانی، اور جنھیں علمی دنیا ”ناصر السنہ“ کہتی ہے,
یہ تھا پہلا دیدار اس عظیم ہستی کا۔ ۱۹۹۹ء میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے میرے اچھے اساتذہ میں سے یہ بھی ایک عظیم اور نا قابل فراموش استاذ تھے، جن کی باتیں اور یادیں میرا سرمایۂ حیات ہیں۔
ہوش سنبھالنے کے بعد شیخ نے اپنے والد محترم سے گھڑی مرمت کرنے کا کام سیکھ لیا، جو مستقبل میں آپ کا مستقل ذریعہ معاش ثابت ہوا، خود فرمایا کرتے تھے:
*اللہ تعالیٰ نے مجھ پر دو بڑے احسان کیے، ایک میرے والد کا ملک شام کی طرف ہجرت کرنا، جس کی وجہ سے میں نے عربی زبان سیکھی ، اور دوسرے: میرے والد کا مجھے گھڑی مرمت کا ہنر سکھانا ، جس کی بدولت علوم کتاب وسنت کے لیے وقت نکالنا میرے لیے آسان ہو گیا“۔*
آپ کا وجود علمی سرمایہ ہی نہیں عمل و اخلاق کا سراپا تھا، بہت ساری پند و نصائح میں ایک بات یہ بھی فرماتے کہ حالات جیسے بھی ہوں، مومن کو شکوہ کی جگہ شکر ہی کا پہلو تلاش کرتے رہنا چاہیے، طلبہ نے پوچھا بھی: کیا یہ ہر حالت میں ممکن ہے؟ فرمایا: تجربہ کرکے دیکھو۔ بات آئی گئی۔ ایک رات جامعہ کے لکچر ہال میں طلبہ، اساتذہ سب تھے، کیمپس کے باہر وادی عقیق کے پل پر زور دار دھماکے کی آواز آئی، گھبرا کے سب دوڑے، دیکھا تو شیخ البانی کے صاحب زادے عبدالمصور کی کار حادثے کا شکار ہو گئی تھی، کار کا حال ابتر تھا، لڑکے کا حال بہتر تھا، مصاحبین نے شیخ سے افسوس کا اظہار کیا تو آپ نے اپنی وہی پرانی بات دہرائی کہ شکر کا پہلو دیکھو، بچہ ہر طرح محفوظ ہے، اللہ کا بڑا شکر ہے، ساتھیوں میں ایک نے پوچھ ہی لیا کہ بچہ بھی ختم ہو جاتا تو شکر کا پہلو کہاں؟ سوال سخت بھی تھا اور نا معقول بھی، مگر شیخ کا فوری جواب سنیے، فرمایا:*” بچے کو بھی کچھ ہو جاتا تو میں شکریہ ہی ادا کرتا کہ لکچر ہال میں میرے تین بچے تھے، صرف ایک کے ساتھ حادثہ ہوا اور دو کو اللہ نے بچالیا* ایمان و عمل کا یہ نمونہ اور فکر و نظر کا یہ احساس و انداز کتنے اہل علم کی زندگیوں میں جھلکتا اور چھلکتا ہوگا۔
طلبہ آپ سے بہت مانوس تھے اور آپ کو تھوڑی دیر بھی تنہا نہیں چھوڑتے تھے، ہمیشہ کسی نہ کسی حدیث پر گفتگو چلتی ہی رہتی تھی، تین سال کی بھر پور اور نا قابلِ فراموش خدمات کے بعد شیخ دمشق واپس جارہے تھے، ہم لوگ رخصت کرنے گئے، وہی مانوس و متبسم چہرہ، حزن و ملال اور فکر مآل کا کوئی اثر نہیں ہے۔
نہ گلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ
پوچھا: واپس پہنچ کر کیا کریں گے؟ فرمایا: وہی جو یہاں آنے سے پہلے کرتا تھا، آنے سے پہلے کیا کرتے تھے؟ فرمایا: *” گھڑی کی میری ایک چھوٹی دکان ہے، سویرے پہنچ جاتا ہوں، دو تین گھڑیاں آجاتی ہیں تو مرمت کر کے پیسے گھر بھیج دیتا ہوں اور دمشق کی مشہور زمانہ مخطوطات کی لائبریری مکتبہ ظاہریہ کا رخ کرتا ہوں*

علم و کتاب

07 Nov, 05:37


*دلیپ کمار، ایک تبلیغی کارگزاری*

مولانا احمد لاٹ صاحب مدظلہ نے فرمایا:

سورت سے کوئی آٹھ کلومیٹر دور ایک جگہ ہے، جس کا نام ہے، "اون"۔ اور وہاں ایک نوجوان، انگریزی کالج میں پڑھتا تھا، مگر اب جو اسے آگے پڑھنا تھا تو اس کی فیس بہت زیادہ تھی، اس کے پاس اتنی حیثیت نہیں تھی۔ دلیپ کمار (یوسف خان) اللّٰه اس کی مغفرت فرماوے۔ وہ اس لڑکے کو بمبئی ساتھ لے گیا۔ اپنے آفس میں لے جاکر مینجر سے کہا کہ اس لڑکے کی جب تک پڑھائی ہوگی، ہر مہینے اس کو اتنا دیتے رہنا، بمبئی میں تبلیغی مرکز ہے، دلیپ کمار نے اسے ایک نصیحت کی تھی کہ میری بات سن لے، کبھی جمعہ رات ناغہ مت کرنا، جمعہ رات کے اجتماع میں ضرور جانا، اس کی وجہ سے نوجوان نے ساری ڈگریاں بھی پاس کیں۔ اس کے بعد چار مہینے، چلّے اور نہ جانے کیا کیا۔ اللّٰه کی شان، ایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں جہاں صُفّہ ہے، جہاں صحابہ بیٹھا کرتے تھے، اس نوجوان نے بتایا کہ مجھے بہت تعجب ہوا، ہم حج میں تھے تو دلیپ کمار (یوسف خان مرحوم) بھی آیا ہوا تھا اور وہ صُفّہ پر بیٹھا ہوا تھا اور رو رہا تھا۔ اللّٰه کے رسول، اللّٰه کے رسول۔ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔

مورخہ ۱/۱۱/۲۰۲۴ء بعد از مغرب، رائے ونڈ، سالانہ تبلیغی اجتماع سے خطاب/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

علم و کتاب

07 Nov, 05:33


سلسلہ نمبر: 231
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا منظور نؔعمانیؒ*

*خون جلا کر شرح اس کی کرتے رہے*
*تیرے سچے صحیفے میں جو تھا رقم*


آپ امت میں کسی بڑے سے بڑے امام کو ایسا نہ پائیں گے کہ اہل ہوٰی و ہوس نے اس کی مخالفت و ایذا رسانی کی کوشش نہ کی ہوگی ۔
علامہ تاج الدین سؔبکیؒ ”طبقات الشافعیہ“ میں فرماتے ہیں: ما من امام الا وقد طعن فیہ طاعنون وھلک فیہ ھالکون
”کوئی امام ایسا نہیں ہے کہ: زبان درازوں نے اس کے حق میں زبان درازی نہ کی ہو اور تباہ ہونے والے اس کے بارے میں ہلاک نہ ہوئے ہوں،“ بالخصوص ﷲ کے جس نیک بندے نے لوگوں کی نفسانی خواہشات اور رواج یافتہ بدعات کے خلاف کبھی جہاد کیا ہے، اس پر تو بندگان ہوٰی و ہوس اور فریفتگانِ بدعت و ضلالت نے ایسی ایسی افتراء پردازیاں اور بہتان طرازیاں کی ہیں کہ بس الامان و الحفیظ۔
حاملِ لواء سنت، ماحی بدعت و ضلالت،امام علامہ ابواسحاق شؔاطبی غرناطیؒ ( متوفی 790ھ) اپنی کتاب ”الاعتصام“ میں خود آپ بیتی لکھتے ہیں کہ: ”جب میں نے سنت کی ترویج و حمایت اور بدعت کی تردید و مخالفت میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو ابنائے زمانہ نے مجھ پر ایک قیامت برپاکردی،مجھ پر ملامتوں کی بارش اور عتاب کی بوچھار شروع ہوگئ،مجھے گمراہ اور بد مذہب کہا جانے لگا،مجھے جاہل اور احمق بتایا گیا اور بسا اوقات میرے نیک مقصد کے خلاف ایسی ایسی افتراء پردازیاں کی گئیں کہ جن سے دل لرزتا ہے اور میری مذہبی پوزیشن خراب کرنے کے لیے بے خطر جھوٹی شہادتیں دی گئیں، جو یقینا ﷲ کے فرشتوں نے لکھی ہیں اور ضرور بالضرور قیامت میں ان کے متعلق ان کذابوں سے باز پرس ہوگی ... العظمۃ للہ کبھی مجھے صحابہؓ کا دشمن اور رافضی بتلایا گیا اور کبھی باغی اور خارجی کہا گیا اور چونکہ میں نے بعض بدعتی صوفیوں کی گمراہیوں سے لوگوں کو آگاہ کیا تھا ؛ تاکہ وہ ان کے فریب میں نہ آئیں ؛ اس لیے میرے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ یہ اولیاء ﷲ کو نہیں مانتا اور ان کا دشمن ہے اور یہ بھی اڑا گیا کہ یہ اہل سنت و جماعت کا مخالف ہے _ اور ﷲ کو علم ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا اور بے اصل وہم _ اور اس وقت میری حالت مشہور امام حافظ الحدیث عبد الرحمن بن بطہؒ کی سی تھی وہ خود ناقل ہیں کہ:
میں مختلف مقامات پر جتنے لوگوں سے ملا ان میں سے اکثر نے مجھے کچھ نہ کچھ بناڈالا، اگر کسی کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے میں نے کہاکہ: قرآن و حدیث میں اس کے خلاف وارد ہوا ہے تو جھٹ اس نے مجھے خارجی بنادیا اور اگر میں نے مسائل توحید میں کوئی حدیث پڑھی تو اس نے مجھے بے دریغ مشبِّہ میں سے کہہ دیا اور اگر ایمان کے متعلق میں نے اظہار خیال کیا تو اس نے مرجیہ میں داخل کردیا اور اگر اعمال کے بارے مِیں مَیں نے کچھ کہا تو مجھے قدریہ بنادیا گیا اور ابوبکرؓ و عمرؓ کے فضائل میں میں نے کوئی حدیث پڑھی تو مجھے خؔارجی اور نؔاصبی کہہ دیا گیا اور جب اہل بیت کے فضائل کا میں نے اظہار کیا تو مجھے رافضی بتایا گیا ___ علی ہذا... کبھی مجھے ظؔاہری کہا گیا،کبھی بؔاطنی،کبھی اؔشعری،کبھی مؔعتزلی، غرض جو جس کے منہ میں آیا اس نے بے دریغ وہ کہہ ڈالا اور حال یہ ہے کہ وانی متمسک بکتابﷲ والسنہ واستغفر ﷲ الذی لا الہ الا ھو وھو الغفور الرحیم ( الاعتصام ص:12) الحمد للہ میں کتاب و سنت سے وابستہ ہوں اور ﷲ وحدہ لاشریک سے بخشش چاہتا ہوں اور وہی غفور رحیم ہے ۔“
درحقیقت حق گوئی اور امر بالمعروف ایسی ہی چیز ہے کہ جس نے اس فریضے کو کما حقہ انجام دیا اس کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوئے ۔

( *حضرت شاہ اسماعیل شؔہیدؒ اور معاندین اہل بدعت کے الزامات،صفحہ: 9،طبع: الفرقان بکڈپو،لکھنؤ*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://telegram.me/ilmokitab



https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

06 Nov, 19:02


گلبرگہ سے یہ افسوس ناک خبر آرہی ہے کہ مولانا ڈاکٹر سید خسرو حسینی کچھ دیر پہلے وفات پاگئے. إنا للہ وانا الیہ راجعون.
وہ خانقاہ حضرت خواجہ بندہ نواز کے سجادہ نشین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر تھے. نہایت باوقار شخصیت کے مالک تھے. وہ ایک عظیم مرشد، مصنف، شاعر اور سنجیدہ فکر کے حامل مربی تھے. انھوں نے درگاہ کے تحت خواجہ بندہ نواز یونی ورسٹی قائم کرکے ملک بھر کی درگاہوں کے لیے مثالی نمونہ قائم کیا. کئی درجن تعلیمی، دینی اور ملّی اداروں کی سرپرستی بھی فرمائی.
اراکین بزم سے اپنے اپنے طور پر دعائے مغفرت کی گزارش ہے.
اجمل فاروق

علم و کتاب

06 Nov, 18:47


مولوی ذکاء اللہ(وفات: ۷ نومبر) تحریر: ضیاء الدین احمد برنی

علم و کتاب

06 Nov, 18:38


وفیات مورخہ: ۷/ نومبر
Https://telegram.me/ilmokitab

ابراہیم خان فنا ناگپوری 7/نومبر/1994ء
ایم بی نقوی (محمد باقر) 7/نومبر/2009ء
بہادر شاہ ظفر 7/نومبر/1862ء
ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری 7/نومبر/1918ء
راؤ عبد الرشید 7/نومبر/2007ء
شمس الحسن ، سید 7/نومبر/1981ء
فہمی الٰہ آبادی 7/نومبر/2005ء
کرار حسین، پروفیسر 7/نومبر/1999ء
مفتی محمد عبد اللہ ٹونکی 7/نومبر/1920ء
مہابت خانجی سوم رسول خانجی، نواب سر محمد) 7/نومبر/1995ء
مولانا غلام نبی کشمیری 7/نومبر/2019ء
مولانا محمد مجاہد الحسینی 7/نومبر/2014ء
مولوی ذکاء اللہ 7/نومبر/1910ء
نورالدین سلیم جہانگیر 7/نومبر/1627ء

علم و کتاب

06 Nov, 18:13


سچی باتیں (۸؍ستمبر ۱۹۳۳ء)۔۔۔ ترقی کا معیار
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
ڈسٹرکٹ بورڈ، اور پھر آزاد ، یعنی سرکاری افسروں کی صدارت سے آزاد، ڈسٹرکٹ بورڈ، سواراج کے ہراول، اور حکومت خود اختیاری کے مقدمۃ الجیش ہیں۔ پچھلے سرکاری سال یعنی ۳۱ء تا ۳۲ء میں، صوبۂ متحدہ کے اندر، ہردوئی، شہاجہانپور، بلیا، میرٹھ، بجنور، بلند شہر، بنارس، سہارنپور، مین پوری، اتنے شہروں کے ڈسٹرکٹ بورڈوں میں ہرطرح کی بے ضابطگیاں پائی گئیں، اور شاہجہاں پور، میرٹھ، سہارنپور، بجنور، بلند شہر،بہرائچ، بدایوں، بستی، اٹاوہ، پیلی بھیت، اتنے مقامات میں تو پوری طرح غبن ثابت ہوا! یہی نہیں، بلکہ جن کارکنوں پر خیانت بالکل ثابت ہوئی بھی ، اُنھیں صاف بچادیاگیا، یا برائے نام سز ا ملی۔ اور قاعدہ قانون کے خلاف، ہر جگہ من مانی کارروائیاں ہوتی رہیں، خود غرضیوں کا زور رہا، ہرجگہ دودو پارٹیاں رہیں، اور ساری قوت باہمی کشمکش اور سازشوں کی نذر ہوتی رہی۔
یہ خلاصہ ہے اُس سرکاری بیان (گورنمنٹ رزولیوشن) کا ، جو صوبہ کے ڈسٹرکٹ بورڈوں سے متعلق ابھی شائع ہواہے۔ ڈسٹرکٹ بورڈوں ہر پر منوسپل بورڈوں کو بھی قیاس کیجئے، اور صوبہ کو سارے ہندوستان کا نمونہ سمجھئے۔ اختیارات، تھوڑے یا بہت، جو کچھ بھی آپ کو ملے، اس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا؟حکومت، ایک محدود پیمانہ پر ، جس حد تک بھی آپ کے ہاتھ میں آئی، اسے کس طرح آپ نے برتا؟ بددیانتی اور خیانت، غبن اور تغلب، خودغرضیاں اور سازشیں، پارٹی بازیاں اور بے ضابطگیان، یہ کُل حاصل نکلا آپ کے کارناموں کا! اسی کا نام ’ترقی‘ ہے؟ سالہا سال کی انگریزی تعلیم کا یہی ثمرہ نکلاہے۔ اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ پڑھ کر یہی آپ نے سیکھا؟ عربی تعلیم سے، تو اب تک یہ سناتھا، کہ آدمی نکمّا، کاہل، بیکار اور سُست ہوجاتاہے، انگریزی تعلیم کے فیوض، برکات، تجربہ ومشاہدہ سے کیا ثابت ہورہے ہیں؟
شخصی وذاتی محاسن کو چھوڑئیے۔ یہ تو آپ سے مدت ہوئی رخصت ہوچکے۔ عفت، حیاء، ایثار، قناعت۔ وغیرہ شخصی اوصاف (Private Virtue) توآپ خود تسلیم کرتے ہیں، کہ ’صاحب‘ کے قدم آتے ہی، آپ کے درمیان سے اُٹھ چلے، البتہ قومی محاسن (Public Morals) میں آپ کا دعویٰ تھا، کہ یورپ آپ سے کہیں آگے بڑھا ہواہے، اور مدتوں آپ کو سبق سکھاسکتاہے۔ لیکن اب ارشاد ہو، کہ اس معیار سے بھی یورپی تعلیم کہاں تک نتیجہ خیز وبابرکت ثابت ہوئی؟ بس یہی نہیں، کہ جعلسازی کے نئے نئے طریقے معلوم ہوگئے، رشوت کی گرم بازاری ہوگئی، سود کا چرچا گھرگھر ہونے لگا، بددیانتی کا رواج عام ہوگیا، اور غبن وخیانت کے واقعا ت روزمرہ صادر ہونے لگے!……دوسروں نے جو کچھ بھی لیاہو، یہ ارشاد ہو کہ آپ کی قسمت میں یورپ کے (Public Morals) کے سیکھنے اور اُس کی راہ پر چلنے سے کیا آیا؟
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

05 Nov, 03:38


https://telegram.me/ilmokitab

سلسلہ نمبر: 229
انتخاب مطالعہ:
تحریر: *عؔلامہ سید سلیمان ندویؒ*

*آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاء داری*

کسی حسین اور محبوب چیز کی نسبت اگر اس کے عاشقوں اور محبت کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ اس کی کونسی ادا تم کو پسند آئی ؟ اس کے کس حصے میں تم کو حسن و جمال کا مظہر نظر آتا ہے؟ اس کے کس حسن و خوبی نے تم کو فریفتہ کیا ہے؟ تو یقینًا پوری جماعت کا ایک ہی جواب نہ ہوگا ؛ کوئی کسی حصے کا نام لے گا،کوئی کسی ادا کی تعریف کرے گا،کوئی کسی خوبی کا اپنے کو شیدا بنائے گا،اسی طرح دنیا میں جو پیغمبرؑ آئے وہ کئی قسم کے تھے: ایک وہ جن کی آنکھوں کے سامنے خدا کے صرف جلال و کبریائی کا جلوہ تھا اور اس لیے وہ صرف خدا کے خوف و خشیت کی تعلیم دیتے تھے،مثلا: حضرت نوحؑ اور حضرت موسیٰؑ، دوسرے وہ جو محبت الٰہی میں سرشار تھے اور وہ لوگوں کو اسی خمخانۂ عشق کی طرف بلاتے تھے، مثلا : حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ۔
لیکن ان پیغمبروں میں ایک ہستی آئی،جو برزخِ کبریٰ،منبع جلال و جمال اور جامع مستی اور ہوشیاری تھی ،یعنی محمد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم
ایک طرف آپ کی آنکھیں خوف الہی سے اشک آلود رہتی تھیں، دوسری طرف آپ کا دل خدا کی محبت اور رحم و کرم سے مسرور تھا، کبھی ایسا ہوتا کہ ایک ہی وقت میں یہ دونوں منظر لوگوں کو نظر آجاتے،چنانچہ جب راتوں کو آپ شوق اور ولولے کے عالم میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے قرآن مجید کی لمبی لمبی سورتیں زبان مبارک پر ہوتیں ہر قسم اور معنی کی آیتیں گزر جاتیں،جب کوئی خوف و خشیت کی آیت آتی، پناہ مانگتے اور جب کوئی مہر و محبت اور رحم و بشارت کی آیت آتی تو اس کے حصول کی دعا مانگتے۔

(*سید سلیمان نؔدویؒ کے چند نادر خطبات و رسائل کا مجموعہ، صفحہ: 100، طبع:مجلس نشریات اسلام،کراچی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Nov, 09:38


*فلسفہ اور علومِ نبوت میں بنیادی فرق*

حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: فلسفۂ یونان اور فلسفۂ یورپ وغیرہ سب تخیلات کا مجموعہ ہیں اور کچھ نہیں۔ حقائق پر مبنی پیغمبروں کے علوم ہوتے ہیں اور فلسفہ و علومِ نبوت میں فرق و تمیز کرنا ضروری ہے۔ جو فلسفہ کے پورے حاذق نہیں ہوتے، وہ اکثر ہر دو میں فرق نہیں کرتے۔

افاداتِ علامہ کشمیریؒ و علامہ عثمانیؒ/صفحہ: ۵۱/انتخاب: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Nov, 04:12


" ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جن کو دین حاصل ہوگیا اور اہلٍ دین کی صحیح معنوں میں صحبت نصیب ہوگئی، ان میں تو تہذیب پیدا ہوجاتی ہے، ورنہ اس کے پیدا ہونے کا اور کوئی ذریعہ نہیں، اور یہ جو آج کل کے بد دینوں کی تہذیب ہے، اس کو میں کہاں کرتا ہوں کہ یہ سب تہذیب نہیں، تعذیب ( عذاب، سزا ) ہے، بڑی تکلیف ہوتی ہے " ۔

( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 7، صفحہ نمبر: 100 ) ۔

علم و کتاب

04 Nov, 03:50


سلسلہ نمبر: 228
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا عبید ﷲ سندھی*


*توکل اور صبر کیا ہے*

ہم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا ہے اور اس وجہ سے ہماری حالت خراب ہوگئ ہے ،تو خود قرآن مجید کے الفاظ کے مفہوم ہی بدل گئے ،مثال کے طور پر میں توکل اور صبر کو پیش کرتا ہوں:

*توکل کیا ہے؟*
آج کل ہمارے یہاں توکل کے معنی ہیں ”ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانا اور کچھ کام نہ کرنا ،اس کو کہتے ہیں توکل“
اس کے لیے ایسے قصے بھی مشہور ہیں کہ :ایک صاحب نے اس طرح توکل کیا کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہے اور خدا سے کہا: میں خود کھانا نہیں کھاؤں گا کہ جب تک خود بخود کہانا میرے منہ میں نہ آجائے گا، اس طرح وہ کچھ عرصے تک بیٹھے رہے،اس کے بعد کھانے کا ایک خوان ان کے سامنے موجود ہوگیا،وہ سمجھے بس کام ہوچکا اور اپنے ہاتھ سے کھانے لگے، اتنے میں آواز آئی تو جلدی کرگیا ،اگر کچھ دیر اور منتظر رہتا تو خود بخود تیرے منہ میں کھانا پہنچ جاتا اور چونکہ قرآن میں توکل کی تعریف ہے ؛ اس لیے نکموں کی تعریف کی جاتی ہے کہ فلاں صاحب تو کچھ کام نہیں کرتے، گھر سے باہر نہیں نکلتے وہ بڑے متوکل ہیں ۔
حالانکہ قرآن مجید میں تو توکل کا مفہوم یہ ہے کہ :”نہایت مشکلات کی حالت میں پوری ہمت سے کام کرنا اور نتیجے کی طرف سے خائف ہوکر کام نہ چھوڑنا ؛ بلکہ نتیجے کے بارے میں خدائے تعالی سے کامیابی کا بھروسہ رکھنا“...

*صبر کا مفہوم*
صبر كے معنی آج کل یہ لیے جارہے ہیں کہ :”اگر کسی نہ کسی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے تو غم کا اظہار نہ کریں! نیز یہ کہ ذلتیں برداشت کریں اور چپ بیٹھے رہیں، پٹتے جائیں اور اف تک نہ کریں!“ ایسے نالائقوں اور بے حمیتوں کی تعریف کی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عامل ہیں اور قرآن میں صابروں کی تعریف ہے ؛ لہذا ایسے اصحاب کی بھی تعریف اور وقعت ہونی چاہئے حالانکہ قرآن مجید میں صبر کا مفہوم ہے کہ ”صحیح اصول پر کام کرنے میں جو دقتیں پیش آئیں ان کو برداشت کرنا اورکام جاری رکھنا اور نباہنا اور دقتوں سے گھبراکر کام کو نہ چھوڑنا“... کلام مجید میں صابروں سے توقع کی جاتی ہے کہ ”کم سے کم اپنی دوگنی قوت پر وہ غالب ہوجائیں گے“۔

( *قرآن کا مطالعہ کیسے کیا جائے،صفحہ: 71،طبع: سندھ ساگر اکیڈمی،لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://telegram.me/ilmokitab


https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

04 Nov, 02:34


انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۱۹
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق قرآن مجید کی ایک ایسی آیت ہے جو مولانا دریابادی کی نظر میں پورے کا قرآن کا لبّ لباب ہے ۔ اس آیت کے بارے میں مولانا کے جو دلی جذبات تھے وہ انھوں نے بڑے موثر انداز میں تفسیر ماجدی کے درج ذیل اقتباس میں بیان کیے ہیں۔
انشائے ماجدی

”دین کے مطالبات میں بس ایک ایمان ہی کا مطالبہ ایسا ہے جو ہمہ وقتی اور ہمہ حالی ہے ورنہ اعمال جتنے بھی ہیں، سب حالات کے تابع ہیں اور حالات خود تغیر پذیر ہیں۔ ضمناً اہلِ کتاب کو بھی فہمائش ہو رہی ہے کہ تم جس دین کو نیا اجنبی اور انوکھا سمجھ کر اس سے بدکتے اور بھڑکتے ہو ،وہ نو پیدا نہیں وہ تو عین تمہارے ہی بزرگوں کا تعلیم کیا ہوا دین و آئین ہے( راقم میںسطور نامہ سیاہ سے اگر فرمائش کی جائے کہ سارے قران مجید سے کسی ایک آیت کا اپنے لیے انتخاب کر لے تو اس کی نظر ِانتخاب اسی آیت بلکہ اس کے آخری جز پر پڑے گی اِنّ اللہ اصطَفیٰ لَکُم الدّینَ فَلَا تَمُو تَنّ وَ اَنتُم مُسلِمُونَ۔جی میں ہے کہ زندگی کی ہر ساعت میں یہی آیت وردِ زبان رہے اور دل میں اسی کے معنی کا استحضار رہے، موت کے وقت یہی دل و زبان پر جاری ہو اور بعد موت یہی کفن پر لکھ دی جائے اور قبر کے کندھے پر بھی کندہ کر دی جائے۔بارہا اس آیت پر وجد طاری ہو چکا ہے ،بارہا اس آیت پرآنسو جاری رہ چکے ہیں اور دل یہ کہتا ہے کہ احکام کی حد تک سارے قرآن مجید کا لبّ لباب یہی آیت ہے۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اول ،صفحہ نمبر۲۵۶)

علم و کتاب

04 Nov, 02:34


کیا ہم مسلمان ہیں (٣١ ) ۔۔۔ ہمیں دنیا نہیں محمد ﷺ چاہیے (دوسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی

دُعا کی ، ان سفّاک انسانوں کے لیے جو خُدا کی زمین کو بہترین انسانوں کے خون سے رنگین کرنے پر کمربستہ تھے ، دعا کی ان ظالموں کے لیے جن کے جذبات میں پتھروں کی سی بے حسی اور فولاد کی سختی تھی ، دعا کی ان خونخواروں کے لیے جو پیغمبرﷺ کے لہو سے نفرت وانتقام کی ہولی کھیلنا چاہتے تھے انسانی ستم کاریوں پر عفو و درگُزر سے مُسکرانے والے دعا کی ۔ جلنے والوں کے لیے خدا کے آگے رونے والے نے دعا کی۔ جو محمدﷺ کے لیے زمین تنگ کرنے کی قسم کھا رہے تھے مُحَمَّد(ﷺ) ان کے لیے خُدا سے اِلتجا کر رہا تھا کہ ان کو وہ جنّت عطا کر جس کی وسعتوں میں آسمان و زمین کی پنہائیاں ذرّوں کی طرح گُم ہو جائیں ۔
آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے مجاہد جوشِ انتقام میں چیخ اُٹھے تھے اور بد دعا کی درخواستیں کر رہے تھے اور آپ ﷺ ہاتھ پھیلائے دامن پسارے ہوئے خالقِ کائنات سے کہہ رہے تھے:
"اے خُدا ، ثقیف کو سیدھا راستہ دکھا اے خُدا ان کو میرے نہیں اپنے دین کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کر دے"
جان دے دینا! کسی بڑے مقصد کے لیے جان دے دینا بہت مشکل اور بڑا حسین کام ہے لیکن جان لینے والوں کی بلائیں لینا اس سے بھی کہیں زیادہ دشوار اور دل کش ادا ہے __ کمانوں سے نکلے ہوئے زہر یلے تیر اپنے بہترین تیراندازوں کو مایوس کر چُکے تھے لیکن زبان دل سے چھوٹا ہوا یہ "ناوکِ دعا" خالی نہ جاسکا ٹھیک ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور دو ہی سال کے بعد یہ دعا ایک شان دار حقیقت بن کر تاریخ کے سامنے آگئی ۔
حُنین کے محاذ پر خُدا کا رسول ﷺ ایک ولولہ انگیز جلال بن کر نظر آیا تھا تو طائف میں یہ شخصیت پیکرِ جمال کے قالب میں ڈھل گئی ۔ اور اب وہ جعرانہ کے تاریخی مقام پر تھا جہاں یہ جلال اور جمال کی مقدس ادائیں مل کر ایک حسین ترین منظر پیش کرنے والی تھیں ۔
جعرانہ کے مقام پر وافر ترین مالِ غنیمت کے ڈھیر تقسیم کیے جا رہے تھے ۔ ان میں چھ ہزار قیدی تھے _ چوبیس ہزار اونٹ تھے _ چالیس ہزار بکریاں تھیں ۔اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی ۔ انسانیت کا بہترین دردشناس خُدا کا پیارا رسول ﷺ ان دشمن قیدیوں کی طرف درد و گداز کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ آپ ﷺ کا جی چاہتا تھا کہ یہ لوگ انسانی قید سے نکل کر اپنے مالک کی حلقہ بگوشی قبول کر سکیں ۔ آپ ﷺ ان کو آزاد کر کے اسلام کے سینے میں جوش مارتی ہوئی خدا کی رحمت دُنیا کو دِکھانے کے لیے بے تاب تھے ۔ مالِ غنیمت کی تقسیم مُلتوی کردی گئی اور کئی دن تک یہ انتظار کیا گیا کہ ہوازن اور ثقیف کے سردار اپنے ان اسیروں کو چھڑانے کے لیے آئیں۔ لیکن حق سے ٹکرانے والے شکست کا زخم کھا کر ایسے گرے کہ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کا فرض بھی بروقت نہ ادا کر سکے ۔ آخر یہ مالِ غنیمت اسلامی لشکر پر تقسیم کیا گیا۔
اس تقسیم کے وقت بھی انسانی جذبات کی پاس داری ملحوظ تھی ۔ اس میں سے ان نو مسلموں کو دل کھول کر کثیر حصہ دیا گیا جو ابھی نئے نئے آغوش اسلام میں آتے تھے اور اس کی فیّاضی اور دل جوئی کی شان سے ناواقف تھے ۔ یہ جہادان کا پہلا جہاد تھا۔ اس لیے جاں نثاری کی یہ پہلی کوشِش فطری طور پر دل جوئی اور ہمت افزائیوں کا نفسیاتی تقاضا کر رہی تھی ۔
اپنی بدترین شکست پر شکست کھانے والا شیطان تیزی سے حرکت میں آیا منافقوں کو آلۂ کار بناکر انصار کے کچھ نوجوانوں کے دماغ میں یہ فتنہ ساماں شوشہ چھوڑ دیا کہ ” مال غنیمت کی تقسیم میں رسول خدا ﷺ نے مکّے کے مقابلے میں مدینے کو نظر انداز فرما دیا _ مکّے کے نو مسلموں کو مدینے کے پرانے جاں نثاروں پر ترجیح دی!___"
آخر کچھ انصار نوجوان بے قابو ہو کر کہ اُٹھے:
"یہ وہی تو مکّے والے ہیں جنھوں نے مسلمانوں کاخون بہایا اور یہ خون ابھی تک ان کی تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن پھر بھی انعام ان کے لیے اور مشکلات ہمارے لیے! نفع اٹھانے کے وقت وہ ہیں اور مشقّت اٹھانے کے لیے ہمیں یاد کیا جاتا ہے!____"

یہ جذباتی آواز یں بھٹکتی ہوئی رسول خدا ﷺ کے کانوں تک پہنچیں ایک انتہائی بے لوث محسن اپنے بہترین دوستوں کی طرف سے آخری درجہ کی دل آزاریوں کی زد میں تھا ۔ لیکن آدمیوں کی کمزوریوں پر ترس کھانے والے انسانِ کامل ﷺ نے اپنے مجروح جذبات کا گلہ گھونٹ دیا _آپ خون جگر کے خونیں آنسو پی گئے ۔ اور سکون ومتانت کی ایک درد بھری آواز میں انصار کو آواز دی ۔
"جانتے ہو آج میرے متعلق لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟"
"اے خدا کے رسول ﷺ !" انصار کے بزرگ گڑ گڑائے "یہ چند نا پختہ کار لونڈوں کی جذباتی حرکت ہے جس کے ساتھ ہمارے بزرگوں اور سر برا ہوں میں سے کوئی نہیں!"

علم و کتاب

04 Nov, 02:34


آپ ﷺ یہ جواب سن کر خیمے سے باہر نکلے تو جلال و جمال کی ایک عجیب نیرنگی نے آپ ﷺ کے سراپا میں عظمت و دل کشی کی انتہائیں سمیٹ دی تھیں ۔ اور جب سب لوگ آپ ﷺ کے چاروں طرف پروانہ وار جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے الفاظ میں حقیقت اور جذبات کو اس طرح اُنڈیلنا شروع کیا:
"کیا یہ سچ نہیں کہ تم بھٹکتے پھر رہے تھے تو خدا نے تمہیں میرے ذریعے سیدھی راہ دکھائی ؟
کیا تم سب کا شیرازہ بکھرا ہوا نہ تھا اور خدا نے تمہیں میرے ذریعے محبّت اور اخوت کی نعمت عطا کی ؟ کیا تم لوگ نادار نہ تھے اور خدا نے تمہیں میرے ذریعے دولتِ دنیا بھی عطا فرمائی ؟"
آپ ﷺ درد میں ڈوبی ہوئی آواز سے یہ فرمارہے تھے اور ہر بار انصار کی طرف سے عجز و عقیدت سے سرشار یہ پکار بلند ہوتی رہی "بے شک خدا کا رسول ﷺ سچ کہتا ہے____ ہمارے سر خدا کے رسول ﷺ کے احسانات سے جھکے ہوئے ہیں۔"
"نہیں" یکا یک آپ ﷺ کا حسین چہرہ مقدس جذبات سے تمتما گیا ”نہیں“ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اے محمد ﷺ ! جب تجھ کو لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے تیری بات مانی _جب لوگوں نے تیرا ساتھ چھوڑا تو ہم تیرے دوش بدوش رہے _ تو خالی ہاتھ آیا تھا تو ہم نے تیری دست گیری کی ____"
یہ جذبات کا نقطہ عروج تھا حضور ﷺ کو اس طرح دل چیر کر دکھاتے ہوئے دیکھ کر رسالت کے پروانے بے قرار ہو گئے ؟ سیکڑوں دل کانپ رہے تھے سیکڑوں سینے ضبط کی کوشش سے پھٹے جا رہے تھے ، سیکڑوں آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں تھیں ۔ جذبات کے طوفانی تھپیڑے کھاتی ہوئی اس چند لمحاتی خاموشی کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اور اب آپ ﷺ کی آواز میں جوش نہیں سوز تھا تلاطم نہیں پُر سکون ٹھیراؤ تھا _
"تم لوگ یہ کہتے جاؤ اور میں یہ کہتا جاؤں گا کہ ہاں تم سچ کہتے ہو؟____
لیکن _ اے انصاریو ! سچ بتاؤ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اور لوگ مالِ غنیمت کے اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم محمد ﷺ کو لے کر اپنے گھر جاؤ ؟!_" محمد عربیﷺ کے یہ آخری الفاظ تھے۔ ان آخری الفاظ کی ابھی گونج بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ اسلامی لشکر کی طرف سے ایک اور آواز آئی۔ یہ فرطِ غم سے سینے پھٹ جانے کی آواز تھی۔ یہ عقیدت وشوق کی شدّت میں دلوں نے زبان پر آکر چیخ ماری تھی ۔ یہ رُوحیں تڑپ گئیں تھیں ___نوجوان آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اُٹھائے ہوئے کھڑے کھڑے تھر تھرا رہے تھے۔ بڑے بڑے سردار حضور ﷺ کے قدموں کو پیار کرنے کے لیے زمین پر ڈھیر ہوگئے تھے۔ بڑھے بچوں کی طرح ہوک مار کر رو رہے تھے۔ داڑھیاں سچ مچ آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ دل کی دھڑکنیں سچ مچ اتنی تیز ہوئیں کہ پورےجسم کپکپا نے لگے۔
اور محمدﷺ کے بہترین چاہنے والے یہ جاں باز، جاں نثار اشک آلود آنکھیں ، کانپتے ہوئے ہاتھوں اور تھر تھراتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ محمد ﷺ کے جاں نواز بشرے پر وارفتگی سے نظر جمائے ہوئے پُکار اُٹھے:
""ہمیں کچھ نہیں محمد ﷺ چاہیے! محمد ﷺ ! صرف محمد ﷺ !!
اگلے دن جب ثقیف و ہوازن کا وفد قیدیوں کو چھڑانے کے لیے آیا تو آپ ﷺ نے اپنے حصے کے قیدی آزاد کر دیے اور "محمد ﷺ صرف محمد ﷺ " کے ان چاہنے والوں نے اپنے اپنے ہزاروں قیدیوں کو آزاد کر کے مالِ غنیمت کا وہ حصّہ بھی اس شخصیتِ جمیل ﷺ کےایک اشارے پر لُٹا دیا جس میں کبھی اضافے کی مانگ کی جارہی تھی کیسی دل کش ، کیسی کارگر کتنی دل رُبا اور بے پناہ تھی یہ شخصیت جس کے اشارے پر ان انسانوں کے جذبات حرکت کرتے تھے جنھوں نے صدیوں تک بغاوت، وحشت اور لوٹ مار کی گود میں پرورش پائی تھی!__ کون ہے جو اس تاریخ کو پڑھے اوربے تابانہ پُکار نہ اُٹھے "میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد عربی ﷺ خُدا کے بہترین اور آخری فرستادہ تھے!
میں گواہی دیتا ہوں کہ اسلام زمین کی کوئی انقلابی تحریک نہیں آسمان کا خالص آسمانی پیغام ہے؟ _ میں گواہی دیتا ہوں کہ زندگی وہی ہے جو محمد عربی ﷺ کے نقشِ قدم اپنے خون دل و جگر سے اُجا گر کرتی ہوئی چلے __چلتی رہے اور اسی حالت میں موت اسے اپنے آغوش میں لے لے ۔
ہم یہی گواہی دینے کے لیے اس دُنیا میں بھیجے گئے تھے ۔ ہم اسی بات کی عملی گواہی دے نہ سکنے کے سب سے بڑ ے مجرم ہیں۔
اور ہم _"مسلمان" ہیں ؟ خدارا ایک بار __ صرف ایک بار تو سوچیے "کیا ہم مسلمان ہیں ؟"

Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

03 Nov, 19:13


وفیات مورخہ: ۴ نومبر

https://telegram.me/ilmokitab

احمد مقصود حمیدی 4/نومبر/2007ء
سید اشتیاق اظہر 4/نومبر/1999ء
اقبال جعفری 4/نومبر/2010ء
انور دہلوی(محمد انوار الحسن ) 4/نومبر/1994ء
بلخ شیر مزاری 4/نومبر/2022ء
ڈاکٹر سید عبد اللطیف 4/نومبر/1971ء
عبد الستار افغانی 4/نومبر/2006ء
غلام قادر وانی 4/نومبر/1998ء
قطب الدین ایبک 4/نومبر/1210ء
مولانا سید احمد ہاشمی 4/نومبر/2001ء
مولانا سید محمد مرتضٰی مظاہری 4/نومبر/1995ء
نثار احمد فاروقی، پروفیسر 4/نومبر/2004ء

علم و کتاب

03 Nov, 10:40


صحافت" (تین جلدیں) ، "تحریکِ ختمِ نبوت 1974ء"، "غازیانِ ناموسِ رسالت" اور "مرزا قادیانی حاضر ہو" (مرزا قادیانی کے مقدمات کی روداد) بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے ۔ آمین

علم و کتاب

03 Nov, 10:40


"اخبار الوفیات" (1870ء تا 1970ء)
تحقیق و تالیف : محمد ثاقب رضا قادری،
ناشر:ورلڈ ویو پبلشرز لاہور، صفحات: 624
قیمت:3000 روپے، رابطہ نمبر:03333585426
تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

وفیات نگاری (دنیا سےگزرے ہوئے لوگوں کی باتیں، گزرجانے والے دوست احباب بالخصوص مشاہیر کا ذکر) کا شمار تاریخ کے اہم ماخذ میں ہوتا ہے۔وفیات نگار ی کی روایت کا آغاز عربی زبان میں ہوا اور اس نے دوسری زبانوں فارسی، ترکی اور اردو کو بھی متاثر کیا۔ اسلامی تاریخ میں وفیات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو حاصل ہوئی وہ ابوالعباس شمس الدین احمد المعروف ابن خلکان (م۶۸۱ھ/ ۱۲۸۲ء )کی وفیات الاعیان وانباء الزمان ہے۔ ابن خلکان نے اس کتاب میں مختلف طبقات الناس ، علماء ، شعراء اور وزراء کے حالات جمع کیے ہیں۔ علاوہ ازیں وفیات کے عنوان پر لکھی جانے والی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے جن سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں۔
مسلمانوں کی اس علمی روایت کوآگے بڑھانے میں اردو کے علمی ودینی جرائد نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جرائد میں شائع ہونے والی وفیات کی مدد سے تاریخ کی اس صنف پر بہت سی کتابیں مرتب و مدون ہوئی ہیں۔ایسی ہی ایک کتاب "اخبار الوفیات" پیشِ نظر ہے۔اخبار الوفیات میں معاصر اخبارات اور جرائد و رسائل سے ماخوذ برصغیر پاک و ہند کے پانچ سو سے زائد مشاہیرکی وفیات سے متعلق اطلاعات،نظمیں اور قطعاتِ تواریخ جمع کیے گئے ہیں۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بعض ایسی شخصیات جن کی تاریخِ وصال کے بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی یا کتب ِ تاریخ و تذکرہ میں تاریخِ وصال کا غلط اندراج ہوگیا ہے، اس کی تصحیح و تعین بارے مستند شواہد میسر آگئے ہیں ۔جس کی کئی مثالیں فاضل محقق نے اپنے "افتتاحیہ" میں درج کی ہیں۔
بعض ایسی شخصیات کا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے جن کے احوال کسی دوسری کتاب میں درج نہیں ہیں یا اگر کہیں مذکور بھی ہیں تو بالکل مختصر۔ مثلاً: مولانا عبیداللہ پائلی ( مصنف تحفۃ الہند) کے کوائف بہت کم ملتے ہیں، جس قدر ان کی تالیف معروف ہے اتنا ہی ان کے احوال کم کم میسر ہیں، اندریں حالات ان کے وصال کی خبر اور مختصراحوال بھی اہم اور غنیمت ہیں۔اسی طرح خلیفہ حمید الدین لاہوری(بانی انجمن حمایت اسلام لاہور و مدرسہ حمیدیہ لاہور) کا مفصل تعارف معروف کتب ِ تذکرہ میں نہیں ملتا ۔ اس کتاب میں انجمن حمایت اسلام کے ماہواری رسالے سے ان کے وصال کی خبر اور تعارف وغیرہ شامل کیا گیا ہے جس سے خلیفہ حمیدالدین لاہوری کے بارے میں مزید معلومات کے حصول میں رہنمائی مل سکتی ہے۔ بعض مشاہیر کے خاندان کی خواتین کی وفیات بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
اخبار الوفیات کے بنیادی ماخذ ہفت روزہ سراج الاخبار (جہلم)، ہفتہ روزہ اخبار اہل فقہ (امرتسر)، ہفت روزہ اخبار الفقیہ(امرتسر)، روزنامہ پیسہ اخبار(لاہور)، روزنامہ زمیندار (لاہور)، منشور محمدی (بنگلور)، ہفت روزہ دبدبہ سکندری (رام پور)، ہفت روزہ اودھ اخبار (لکھنو)، اخبار الہدایت (دہلی) ، ماہنامہ انوارالصوفیہ (لاہور)، ماہنامہ الرضا (بریلی)، ماہنامہ تحفہ حنفیہ (پٹنہ)، ماہنامہ السواد الاعظم(مراد آباد)، ماہنامہالہدیٰ (لاہور)، انجمن نعمانیہ کا ماہواری رسالہ (لاہور)، انوار الصوفیہ (سیال کوٹ، لاہور) اور روزنامہ انقلاب (لاہور) وغیرہ ہیں۔پہلی خبر 1870ء جب کہ آخری خبر 1970ء کی ہے۔
اس کتاب کی تحقیق وتالیف کا فریضہ نوجوان محقق محمد ثاقب رضا قادری (پ:1984ء) نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ فاضل محقق و مولف نے کہیں کہیں مختصر لیکن مفید حواشی بھی تحریر کیے ہیں اور جن شخصیات کے حالات کسی کتاب یا رسالے میں دستیاب ہیں ، حاشیے میں اس کی نشاندہی بھی کی ہے۔624 صفحات پر محیط یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ زمانہ ماضی قریب کے کتنے ہی اہلِ علم و دانش اور نابغہ روزگار شخصیات ، آج جن کے ناموں سےبھی لوگ واقف نہیں ہیں، کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔ امید ہے وفیات پر یہ کتاب تاریخ کا ایک اہم ماخذ ثابت ہوگی اورمستقبل کے مورخ کے لیے حوالے کا کام دے گی۔
محمد ثاقب قادری دینی و عصری علوم سے آراستہ ہیں اور بہت سنجیدگی، خاموشی اور مستقل مزاجی سےکام کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ اس سے قبل متعدد اہم علمی و تحقیقی نوعیت ے کے کام انجام دے چکے ہیں جن میں"رسائلِ حسن"(حضرت حسنؔ بریلوی کے نثری رسائل کا مجموعہ)، "کلیات حسن"(حضرت حسنؔ بریلوی کی منظومات کا مجموعہ)، "رسائل محدث قصوری" (مفتی غلام دستگیر قصوری کے 16 رسائل کا مجموعہ)، "مفتی سید غلام معین الدین نعیمی(حیات و خدمات)"، "احوال و آثارِ فیضی" (مولانا محمد حسن فیضی کے احوال و آثار اور تحقیقی مقالات و منظومات کا مجموعہ)، "حسن رضا بریلوی۔ فن اور شخصیت"، "تاریخ مباحثہ لاہور" (پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی اور مرزا غلام قادیانی کے مابین طے پانے والے مناظرے کی مستند تاریخی روداد)، "تحریکِ ختمِ نبوت اور نوائے وقت"، "ردِ قادیانیت اور سنی

علم و کتاب

03 Nov, 08:11


*مانگے کا اجالا*
ﺁﺝ ﮐﻞ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﮑﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ - ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮯ ﺗﮑﻠﻔﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﮧ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺑﻨﺪﮦ سمجھ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺷﺨﺺ ﻣﯿﺎﮞ ﮨﮯ ﯾﺎ کچھ ﺍﻭﺭ -
ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺑﻮﻟﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ " ﺍﯾﺎﺯ " ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﮞ . ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ - ﺍﺗﻨﺎ ﮔﻨﺪ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺣﺸﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ -
ﮨﻢ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ " ﺑﺲ ﺟﯽ ﺁﺝ ﮐﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﮯ ﮨﯽ ﻧﮑﻤﯽ " -
ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺑﮕﮍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯿﮟ " ﮨﺎﺋﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﯾﺎﺯ ، ﺍﻭﻻﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ ﮨﯿﮟ " -
ﺁﭖ ﮨﯽ ﺑﺘﺎؤ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺟﻮ ﻟﮕﺎ , ﺳﻮ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ -
ﺁﺝ ﮐﻞ ﻣﯿﺎﮞ ، ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﻻﮈ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ -
ﻣﺎﺋﯽ ﺑﮯﺑﯽ ، ﻣﺎﺋﯽ ﻣﻮﻧﺎ ، ﻣﺎﺋﯽ ﺳﻮﺋﭩﻮ ، ﺷﻮﻧﻮ ﻣﻮﻧﻮ
ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ
" ﺑﮯﺑﯽ ﺗﻢ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎؤ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ "
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩیکھ ﮐﺮ ﺍﺯﺭﺍﮦ ﮨﻤﺪﺭدﯼ ﮐﮩﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ " ﺑﮯﺑﯽ " ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ -
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺎ ﭘﮍﺍ ۔ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ۔
ﺟﺐ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺁﺋﯽ ﺗﻮﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﻥ صاحب ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻔﺘﮧ ﭘﮩﻠﮯ ہی ﮨﻮﺋﯽ تھی۔
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

03 Nov, 03:42


سلسلہ نمبر: 227
انتخاب مطالعہ


*طلبہ سے باتیں*

DEAR

عزیز طلبہ! یہ عنوان دیکھ کر آپ چونک گئے ہوں توآپ کا چونکنا غلط نہیں ؛ مگر ہم نے اسے عنوان اس لیے بنایا ہے ؛ تاکہ آپ کو بتاسکیں کہ اگر اسے مختلف طور پر استعمال کریں تو اس کا ”لانگ فارم“ یہ ہوسکتا ہے :« Drop Everything And Read» ”یعنی اپنی تمام مصروفیتوں کو بالائے طاق رکھ کر مطالعہ کیجیے“ ۔
واضح رہے کہ یہاں Read کہاگیا ہے Study نہیں کہا گیا، ان دونوں الفاظ کا فرق آپ جانتے ہیں،ریڈ کا معنی ہے پڑھو! یعنی ایسی کتاب پڑھو جس سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہو،جس سے ذہن کو روشنی ملے، جس سے بشاشت اور خوشگواری کا احساس ہو،یعنی پڑھ کر اچھا لگے اور آپ کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیت نیز علم میں اضافہ ہو۔
اسٹڈی کا جہاں تک تعلق ہے، اس کا مفہوم روز مرہ کی پڑھائی اور امتحان کی تیاری سے ہے،اس اعتبار سے دیکھیں تو اسٹڈی بہت اہم ہونے کے باوجود معنویت اور افادیت کے اعتبار سے ریڈنگ یعنی مطالعہ کا تقابلی مقابلہ نہیں کرسکتی، اسٹڈی ایک عمر تک ہی ہوتی ہے، ریڈنگ زندگی بھر جاری رہتی ہے،اسٹڈی ایک خاص مقصد ( جیسے امتحان دینا ) ہی کے لیے ہوتی ہے،ریڈنگ کئی مقاصد کے لیے ہوتی ہے،اس کے علاوہ بھی اسٹڈی اور ریڈنگ میں کئی فرق ہیں جن پر روشنی ڈالنا اس تحریر کی طوالت کا باعث ہوگا؛اس لیے ہم مزید کچھ لکھنے سے قاصر ہیں اور پھر ہمیں DEAR پر مزید روشنی بھی ڈالنی ہے ۔
عزیز طلبہ! کیا آپ نے سوچا کہ: DEAR میں ریڈ یا ریڈنگ ہی کی بات کیوں کہی گئ ہے؟ ”ڈراپ ایوری تھنگ اینڈ ریسٹ“ (Drop Everything And Rest بھی کہا جاسکتا تہا ؛ مگر وہ نہیں کہاگیا؛ کیونکہ ریڈ کا وقت تو طے ہوتا ہے،انسان ریسٹ نہ کرے تو دوسرے دن کی سرگرمیاں قاعدہ سے انجام نہیں دے سکتا ؛ اس لیے یہ بالکل فطری ہے،ریڈ اس لیے کہا گیا ہے کہ:انسان اپنی دن بھر کی مصروفیتوں میں اس قدر کھوجاتا ہے کہ ریڈنگ کے لیے وقت نہیں نکال پاتا،آج کے دور میں بہت سے طلبہ نے ”نیٹ سرفنگ“ کو ریڈنگ کا نعم البدل سمجھ لیا ہے،وہ سمجہتے ہیں کہ سرفنگ کے دوران جہاں جہاں پڑھنے کے لائق کوئی تحریر نظر سے گزرتی ہے وہ ہم پڑھ لیتے ہیں اور اس طرح ہمارا نالج بڑھتا رہتا ہے،پھر کتاب کا مطالعہ کیوں کریں؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ: انسان بازار جائے اور بہت سی اشیاء دیکہتا رہے،پھر کچھ سمجھ میں آئے تو خرید لے اور سمجھ میں نہ آئے تو خالی ہاتھ واپس آجائے،تو آپ اس عمل کو کیا کہیں گے ؟ اس کے برعکس انسان سوچ سمجھ کر کہ اسے کیا اور کہاں سے خریدنا ہے، بازار جائے تو وہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے گا،یہی فرق ہے موبائیل کی سرفنگ اور کتاب کے مطالعے میں، ایک گھنٹے تک موبائیل کی سرفنگ سے اکثر اوقات کچھ نہیں ملتا،جبکہ آدھ گھنٹہ کتاب کا مطالعہ بہت کچھ عطا کرتا ہے،چلتے چلتے بتادیں کہ مطالعہ سے جو حاصل ہوتا ہے اسے حاصل مطالعہ کہتے ہیں۔


( *روزنامہ انقلاب،صفحہ: 2، تاریخ: 01 نومبر 2024، جمعہ*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صديقي

https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

03 Nov, 03:05


گفتگو کا ماحصل یہی رہا ہے کہ انسانی ذہانت سے بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا ہے، لیکن جو انسان مصنوعی ذہانت سے بے نیازی ظاہر کرے گا مستقبل میں وہ ماضی کا انسان بن جائے گا۔

فاضل محاضر نے معہد کے طلبہ کی ٹیکنالوجی سے واقفیت اور ان کے ریلونٹ سوالات پر تحیر آمیز خوشی کا اظہار کیا اور ایک پورے ہفتہ پر محیط ورکشاپ کا وعدہ کیا جس کا انعقاد ان شاء اللہ حضرت ناظم صاحب کے ایما اور حکم کے مطابق جلد ہی کیا جائے گا، واللہ من وراء القصد۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

03 Nov, 03:05


رپورتاژ:
"مصنوعی ذہانت ورکشاپ" – اسلامی تحقیق میں جدید ٹیکنالوجی کا سنگ میل
📝 ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
https://telegram.me/ilmokitab

حیدرآباد، 29 ربیع الثانی 1446ھ / 02 نومبر 2024ء – المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کی علمی فضاء میں ایک نیا باب کھلا، جب ایک شاندار اور کار آمد محاضرہ بہ عنوان "مصنوعی ذہانت: ایک تعارف" پیش کیا گیا، بعد نماز مغرب ہونے والے اس مختصر ورکشاپ کا مقصد اسلامی علوم میں جدید تکنیکی وسائل کے مؤثر استعمال اور علمی تحقیقات کو وسعت دینے کے امکانات پر روشنی ڈالنا تھا۔

اس بامقصد نشست کے انعقاد کو حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد اور مولانا محمد عمر عابدین قاسمی مدنی نائب ناظم المعہد کی اس سلسلہ میں توجہات نے ممکن بنایا، جو ایسے پروگراموں کے لیے ہمیشہ فکر مند اور کوشاں رہتے ہیں، معہد کے مؤقر اساتذہ کرام، بشمول مولانا احسان الحق مظاہری، مولانا ناظر انور قاسمی، مولانا محمد انظر قاسمی، اور مولانا محمد ارشد قاسمی وغیرہ نے سو سے زائد طلبہ کے جھرمٹ میں اپنی شرکت سے مجلس کو وقار بخشا۔

جناب سید شہباز صاحب، جو ٹیک زون اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں، نے مصنوعی ذہانت کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی، انہوں نے TensorFlow، PyTorch، OpenCV اور GEMINI جیسے جدید AI ٹولز کے استعمال کو اسلامی تحقیق میں نئی جہات عطا کرنے کے ضمن میں گفتگو کی اور اس کی عملی اہمیت پر زور دیا، پروگرام میں ان کے ہمراہ ایک تکنیکی ٹیم بھی موجود تھی، جس نے عملی طور پر مکمل تعاون فراہم کیا، اس پروگرام کا ایک دلچسپ پہلو Google Colab اور Jupyter Notebooks پر AI کے عملی استعمال کی مشق تھی، جس نے طلبہ کو براہ راست ان ٹولز کے استعمال کا تجربہ دیا، اس مشق نے بحث وتحقیق میں مصنوعی ذہانت کی طاقت کو مزید اجاگر کیا اور طلبہ کے لیے اسلامی تعلیم وتحقیق میں جدید تکنیکی وسائل سے استفادہ کے نئے امکانات روشن کیے۔

محاضرہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کس طرح مصنوعی ذہانت اسلامی اسکالرز کے لیے نئے راستے کھولتی ہے، مثلاً، خطبات اور دروس کو آڈیو میں تبدیل کرکے پوڈکاسٹ کی صورت میں نشر کیا جا سکتا ہے، جس سے علم کی ترویج میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، آڈیوز اور ویڈیوز کو خودکار طریقہ سے تحریر میں منتقل کرنے کے ٹولز کے ذریعے اسکالرز اپنی تقریروں اور خطبات کو فوری طور پر تحریری شکل دے سکتے ہیں، جو تحقیق اور تراجم کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتی ہے، اسی طرح، پاورپوائنٹ اور دیگر پریزینٹیشنز بنانے اور گرافکس میں بھی AI کا استعمال اسلامی اسکالرز کو تعلیمی اور تحقیقی مواد کے پیش کرنے میں آسانی فراہم کر سکتا ہے، تصنیف وتالیف اور ترجمہ وتعلیق میں تو اس کا استعمال حیران کن نتائج کا حامل ہے۔

فاضل محاضر نے بتایا کہ کس طرح جدید AI ٹیکنالوجی، جیسے NLP، قرآنیات کے تجزیے، احادیث کی درجہ بندی، جدید فقہی مسائل کی تحقیق اور دینی متون کے متعلقات کو ممکن بناتی ہے، AI پر مبنی تصویری اور ویڈیو پروڈکشن ٹولز کے ذریعہ اسکالرز اسلامی تعلیمات کی مؤثر انداز میں ترویج کے لیے بہترین مواد تیار کر سکتے ہیں۔

محاضرہ کے اختتام پر Techzone academy کی جانب سے ایک نئی ویب سائٹ اور ایپ کے بہت جلد آغاز کا اعلان بھی کیا گیا، جس کا نام "AI Buddy" ہے، جس میں مصنوعی ذہانت کے متعلق جامع معلومات فراہم کی جائیں گی، یہ ایپ مصنوعی ذہانت سے متعلق ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا اور علم کے نئے دروازے وا کرے گا، یوں یہ مجلس ایک علمی اور فکری پیش رفت ثابت ہوئی، جس نے اسلامی تعلیم وتحقیق میں جدید علوم سے استفادہ کی راہیں کھول دیں، ڈاکٹر محمد اعظم ندوی نے اینکر کے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی تعارفی گفتگو میں کہا:
"مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسان کی نقل کرتے ہوئے اس جیسی ذہانت اور فہم کا حامل ایک زبردست سسٹم وجود میں لانے کی کوشش کرتی ہے، یہ ٹیکنالوجی کمپیوٹرز اور مشینوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ انسانوں کی طرح سوچ سکیں، فیصلہ کر سکیں، اور کچھ کام خود بخود انجام دے سکیں، مصنوعی ذہانت کی مختلف شاخیں ہیں، جیسے:
1. مشین لرننگ - جس میں کمپیوٹر خود سے سیکھتا ہے اور نئے تجربات سے نتائج اخذ کرتا ہے۔
2. ڈیپ لرننگ - جو اعصابی نظام کی نقل کرتے ہوئے پیچیدہ فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
3. نیچرل لینگویج پروسیسنگ (NLP) - جس کے ذریعہ کمپیوٹر زبان کو سمجھتے اور جواب دیتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے فوائد بے شمار ہیں، جیسے صحت، تعلیم، صنعت، اور کاروبار کے شعبوں میں انقلاب برپا کرنا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جیسے انسانی روزگار پر اس کا اثر، اور اخلاقی سوالات کہ کیا ایسی ذہانت انسان کی مرضی کے تابع رہے گی یا نہیں"۔

علم و کتاب

02 Nov, 18:58


سنو سنو!!

طواف ، مطاف اور مطوِّف

(ناصرالدین مظاہری)

’’گارے میں اٹے ہوئے اور بدبو دار سڑی ہوئی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے سُوَرسے ٹکراجانا توگوارا کیاجاسکتاہے لیکن یہ گوارا کرنے کی بات نہیں ہے کہ کسی مرد کے شانے کسی اجنبی عورت سے ٹکرائیں‘‘

رونگٹے کھڑے کردینے والے یہ الفاظ میرے نہیں ہیں بلکہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک حدیث شریف ہے۔

فروری ۲۰۲۳ میں حرمین شریفین حاضری کی سعادت ملی ، مطاف میں طواف کے لئے ایک دوست کاساتھ ہوگیا، وہ دوست میرا ہاتھ پکڑ کر بڑی تیزی کے ساتھ مجمع میں گھستا چلا جاتا، میں خواتین سے بچنے کی کوشش کرتا اور وہ میرا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کرتا ،مجھے خطرہ ہونے لگتا کہ کہیں کسی خاتون سے نہ ٹکراجاؤں اس لئے میں نے ان سے کہا کہ میرا ہاتھ چھوڑدیں ،مجھے طواف آرام سے آہستہ آہستہ کرنا ہے ،میرا ہاتھ کھینچنے کی وجہ سے مجھے خطرہ ہونے لگتا ہے کہ کسی خاتون کاجسم میرے جسم سے نہ ٹکرائے ، وہ بولے کہ اس طرح تو بہت وقت لگ جائے گا۔میں نے کہاکہ آپ اپنا کام پورا کرکے میرا انتظار کئے بغیر چلے جانا میں خود ہی آجاؤں گا۔

کچھ لوگ طواف اتنی جلدی جلدی کرتے ہیں کہ لگتا ہے اپنے سر سے بوجھ اتار رہے ہیں حالانکہ خود اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ واتموا الحج والعمرۃ للہ ،یعنی حج وعمرہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرو۔(بقرہ)

طبرانی کی روایت ہے کہ حج اور عمرے کے لئے جانے والے خدا کے خصوصی مہمان ہیں وہ خدا سے دعا کریں توخدا قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے ۔

سوچیں اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفرکے دوران تقویٰ کو ہی بہترین زاد سفر فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے وتزدوا فان خیرالزاد التقویٰ ۔ اور زاد راہ ساتھ لو اوربہترین زاد راہ تو تقویٰ ہے۔

اس کے باوجود اگر ہم مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران کسی اجنبی مرد یا عورت کو دیکھیں،کسی اجنبی مرد یاعورت سے بات کریں ، کسی غیر محرم مرد یا عورت سے طواف یا سعی یا کسی اور موقع پر دیدہ و دانستہ لمس اور مس کی کوشش کریں تو نہ تو ہمارا حج حج ہے نہ ہمارا عمرہ عمرہ ہے بلکہ یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ بہت سے لوگ اِن بابرکت مقامات پرجانے سے پہلے کم گنہ گار ہوتے ہیں اور وہاں پہنچنے کے بعد ایسی ذلیل حرکتوں اور غلط کاریوں کے باعث پہلے سے زیادہ گنہ گار ہوکر واپس ہوتے ہیں۔جس طرح ان مقدس مقامات میں ہرنیکی بڑھ جاتی ہے ،ہرنماز کاثواب بڑھ جاتاہے توجان بوجھ کرکیاجانے والا ہرگناہ بھی بڑھ جاتاہے۔

اپنے ہوٹل میں ہوں یا راستوں میں،بیت اللہ میں ہوں یا مدینہ منورہ میں ہرجگہ عورتوں کے اختلاط ورنہ کم ازکم عورتوں کے جسم سے ٹچ ہونے سے سو فیصد بچنے کی کوشش کریں۔

میں نے دیکھا ہے کہ لوگ طواف کے بعد دو رکعت واجب طواف کی ادائیگی کے لئے مقام ابراہیم کی طرف ایسی جگہ نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں جن کے دائیں بائیں آگے پیچھے عورتوں کی بھیڑ ہوتی ہے سوچیں جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجنبی عورتوں کے پاس نماز پڑھنے سے منع فرمایاہے تویہاں یہ عمل کیسے جائز ہوسکتا ہے اور کیونکر آپ کی یہ دورکعت عنداللہ وہ مقام حاصل کرسکتی ہیں جومطلوب ہیں۔

آپ حرم محترم میں ہوں اورا کڑ کرچلیں، یا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ایک دوسرے کو پچھاڑتے اور دھکے مارتے ہوئے چلیں یا آپ کے چلنے سے کسی اور کو کوئی تکلیف پہنچے یا آپ کے اس چلنے کی وجہ سے راہ گیروں کو پریشانی اور تکلیف کاسامنا کرنا پڑے تویاد رکھیں یہ سب چیزیں سنت نبوی کے خلاف ہیں جس کی وجہ سے آپ نیکیاں نہیں برائیاں اپنے نامۂ اعمال میں بڑھارہےہیں۔

مکہ مکرمہ تجلیات ربانی کامرکز ہے یہاں توچلتے وقت ہمارے جسموں پرلرزہ طاری ہونا چاہئے،ہماری نظریں اعتراف ذنوب وقصور میں جھکی ہونی چاہئیں، ہم تکلیف دہ چیزوں کواٹھا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈالتے چلیں، مسنون دعائیں پڑھتے ہوئے آگے بڑھیں، غلط کام کرنے والوں کوقرآن کریم یاحدیث نبوی سناتے چلیں، کمزوروں، ضعیفوں اور مصیبت کے مارے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے چلیں، اپنی عورتوں کو تاکید کرتے رہیں کہ بھیڑ میں گھسنے سے بچیں، مسنون طریقے پرچلیں، وہ اسلامی ملک ہے وہاں چلنے کے لئے دائیں راستے کواختیار کرنے کاحکم ہے اس لئے مخالف سمت میں چل کرڈسپلن شکنی نہ کریں ،حتی الامکان پردے کااہتمام رکھیں،حالت احرام میں بھی مخصوص قسم کاہیٹ بازار سے ملتاہے اس کوپیشانی پر رکھ کر اپنے چہرے کے سامنے پردہ ڈال لیں تاکہ پردہ چہرے سے مس نہ ہو، یوں کھلم کھلا طواف کرنا، کھلے چہرہ کے ساتھ محابا کہیں بھی گھس جانا،خاص کرحجر اسود، مقام ابراہیم، ملتزم اور حطیم میں بے دھڑک مردوں کودھکے مارتے ہوئے جانا اور نیکیاں کمانا یہ کہاں کی تعلیم ہے۔ سچ کہتاہوں حجر اسود کے بوسہ کے وقت ہماری بہنوں کی جس قدر بے پردگی ہوتی ہے اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا اورحال یہ ہے کہ حجر اسود کابوسہ لینا نہ فرض ہے ،نہ واجب ہے،نہ موکدہ ہے ، ایک مستحب کی خاطر لوگوں کو اپنی

علم و کتاب

02 Nov, 18:58


ذات سے تکلیف پہنچانا تو ویسے بھی حرام ہے۔ بہت سے لوگوں کے احرام پھٹ جاتے ہیں، نیچے والی چادر ہٹ جاتی ہے ،بے پردگی ہوجاتی ہے ، لوگوں کی گردنیں گھُٹ جاتی ہیں، عجیب نفسانفسی کاعالم ہوتا ہے ۔ایسا بوسہ نہ تومحبوب ہے نہ محمودہے نہ ہی خیرالقرون میں اس کی کوئی نظیرپیش کی جاسکتی ہے۔

اخیرمیں ایک اہم حدیث شریف پیش کرکے اپنی بات کوختم کرتاہوں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے نکلتے وقت ایک دعا کی تعلیم فرمائی کہ اللهم إنا نعوذ بك أن نَضِل أو نُضَـل أو نَذِل أو نُــذَل أو نَظْلِم أو نُظْلم أو نَجهل أو يُجهل علينا۔ (میں نے اللہ تعالیٰ کے نام سے گھرسے باہرقدم رکھا) اسی پرمیرا بھروسہ ہے ،اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے ہم لغزش کھاجائیں یا کوئی اور ہمیں ڈگمگا دے، ہم خود بھٹک جائیں یا کوئی اور ہمیں بھٹکادے،ہم خود کسی پر ظلم کر بیٹھیں یا کوئی اور ہم پر زیادتی کر بیٹھے ،ہم خود نادانی پر اتر آئیں یا کوئی دوسرا ہمارے سا تھ جہالت کابرتاؤ کرے۔ (ترمذی)

اگرآپ غور کریں تو سفرحج وعمرہ کے دوران رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سراپا رشاد میں وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جن کا امکان ہے ۔اس لئے بہتر ہے کہ یہ دعا یادکرلی جائے،دعا یادنہ ہو تو کم ازکم اردو میں ہی ان الفاظ کودہرالیاجائے اورہمیشہ دھیان رکھا جائے کہ آپ کسی پکنک پوائنٹ پرنہیں بلکہ حرمین شریفین پہنچے ہوئے ہیں جہاں کا چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عظمت وکبریائی اورجبروت کاشاہداورمرکزتجلی ہے۔یہاں پہنچ کربڑے بڑوں کے پتہ پانی ہوگئے ہیں،انبیائے کرام، صحابہ اور اولیاء واتقیاء نے یہاں رو رو کر آنکھیں خشک کرلی ہیں اور ہم ہیں کہ ہمیں بے پردگی کے ساتھ مارکیٹوں، شاپنگ سینٹروں، سیاحتی جگہوں اورخوان وپکوان اور تعیش سے ہی ہمیں فرصت نہیں ملتی۔فیاللعب

(30/ربیع الثانی 1446ھ)

علم و کتاب

02 Nov, 06:20


یاد رکھو، زندگی میں کوئی سبق مفت نہیں ملتا، ہر سبق کی قیمت چکانی پڑتی ہے ،،،، ایک دانا سے استفسار کیا گیا:
"آپ اس عظیم فہم و شعور کے مقام تک کیسے پہنچے؟
کون سی کتابوں نے آپ کو یہ فکری بلندی عطا کی؟"
دانا نے جواب دیا:
"میں نے کتابوں سے نہیں، بلکہ زندگی کے نشیب و فراز سے سیکھا ہے۔
پچاس زخموں کی گہرائی میں اتر کر، ستر جھگڑوں کی سختیوں میں گِھر کر اور بے شمار مصیبتوں کے بوجھ تلے دب کر شعور کی منازل طے کیں۔
اپنوں کی آنکھوں میں جب غداری کی جھلک دیکھی، تو احتیاط کا ہنر سیکھا۔
جن سے محبت کی، ان کی نظروں میں جب بے دردی دیکھی، تو خاموشی اختیار کرنا سیکھا۔
دوست کہلانے والوں کے ہاتھوں بے وفائی کا زخم کھایا، تو رخصت ہونے کا ہنر اپنایا۔
اور جب بار بار اپنے پیاروں کو سپردِ خاک کیا، تو یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی کہ محبت وہ اثاثہ ہے جسے جینا لازم ہے۔
اگر سیکھنا ہے تو دنیا کو پڑھو؛ یہ وہ کتاب ہے جس کی وسعتیں لامحدود ہیں۔
یاد رکھو، زندگی میں کوئی سبق مفت نہیں ملتا، ہر سبق کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔"
(منقول )

علم و کتاب

01 Nov, 19:15


*بہترین صاحب قلم بننے کا طریقہ*

*مولانا علی میاںؒ* نے آج سے چالیس سال قبل اس ناچیز(مولانا عبدالمتین عثمان منیری صاحب) كے استفسار پر بتایا تھا كہ ایك بہترین صاحب قلم بننے كا بہترین طریقہ یہ ہے كہ قاری مطالعاتی زندگی كے آغاز میں كسی عظیم صاحب قلم كی جملہ كتابیں پڑھنے كی كوشش كرے، اس سے لا شعوری طور پر وہ اس مصنف كے فكر اور اسلوب كو اپنے ذہن و دماغ میں سمو لےگا اور چونكہ چند ایك اسالیب اور معلومات كی تكرار ہوتی رہے گی تو یہ حافظے میں محفوظ رہ جائیں گے، انہیں خاص طور پر ازبر كرنے كی محنت نہیں كرنی پڑے گی اور عبارتوں كو ازبر كرنے كا وہ فائدہ نہیں ہوتا ہے جو اس طرح پر سكون حالت میں مواد كی تكرار سے ہوتا ہے۔
اس طرح كوئی آسان اسلوب میں لكھی ہوئی مؤثر كتاب ایك طالب علم نقل كرے تو اس كے بھی اسلوب و تحریر پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔(یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ, ص:45)
https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

01 Nov, 11:17


مانگے کا اجالا: ایک جواں سالہ بیوہ خاتون اپنے اکلوتے بچے کے حوالے سے سکول میں شکایات کا انبار لے کر تشریف لائیں.

اسکول سٹاف جب خاتون کو مطمئن نہیں کر پایا تو انہیں پرنسپل صاحب کے پاس بھیج دیا جو کہ ایک پروفیسر تھے.

خاتون اندر آئیں اور غصے میں شروع ہو گئیں ‏خوب گرجی ،برسیں اور اپنے بچے کو سکول میں درپیش مسائل کا بے باکانہ اظہار کیا.
پروفیسر صاحب پرسکون بیٹھ کر خاتون کی گفتگو سنتے رہے اور ایک بار بھی قطع کلامی نہیں کی.

جب خاتون اپنی بات مکمل کر چکیں تو پروفیسر صاحب کچھ یوں گویا ہوئے :

دیکھئے خاتون
مت سمجھئے گا کہ میں آپ کے حسن کے ‏رعب میں آ گیا ہوں، یا یہ کہ آپ کے چاند جیسے چہرے نے مجھ پر جادو کر دیا ہے،
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں آپ کی جھیل جیسی نشیلی آنکھوں میں کھو گیا ہوں، اور نا ہی آپ کی ناگن جیسی زلفوں نے میرے دل کو ڈسا ہے.

آپ یہ سوچئے گا بھی مت کہ آپ کے گال کے کالے تل نے میری دل کے تار بجا دئیے ‏ہیں، اور آپ کی مترنم آواز نے میری دھڑکنیں تہہ و بالا کر دی ہیں.
میں غالب نہیں ہوں جو آپ کے شیریں لبوں سے گالیاں کھا کر بد مزہ نہ ہوں اور نہ ہی میں میر ہوں کہ آپ کی لبوں کی نازکی کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے دوں.

نہ ہی میں نے آپ کی تمام تر گفتگو اس نیت سے سنی کہ آپ کو بولتے ہوئے ‏سنتا رہوں، اور کچھ دیر آپ کو اپنے سامنے بٹھا کر تکتا رہوں.

میرا یہ مزاج نہیں ہے کہ میں کسی خاتون کو متاثر کرنے کی کوشش کروں. میں اپنے سٹاف سے پوچھوں گا کہ ایک حسین و جمیل خاتون کو برہم کیوں کیا گیا ؟.

خاتون جو اتنی دیر سے پروفیسر صاحب کو غور سے سن رہی تھی, خاموشی سے اٹھی اور ‏باہر چلی گئیں.

آج وہ خاتون پروفیسر صاحب کی بیوی ہیں اور اسکول کی وائس پرنسپل ہیں.

بندہ ایویں ہی پروفیسر نہیں بن جاتا.
https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

01 Nov, 04:50


*اپنی چال ہی بھول گیا*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

فضیلۃ الشیخ ثناء اللہ عبدالرحیم بلتستانی جب بھی پکارتے ہیں تو’’اے ابونثر! اے ادیبِ لبیب کالزّبیب!‘‘کہہ کر پکارتے ہیں۔ ’ادیب‘ کا لفظ سن کر تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ایک ’شیخ الشرع‘ نے ہمیں ’ادیب‘ قرار دے ڈالا۔ مگر ’لبیب اور زبیب ‘کے القاب سن کر ذرا سہم، بلکہ سکڑ جاتے ہیں کہ ’’یااللہ یہ کون سی دو بلائیں ہیں، جو حضرت ہمارے نام کو لگائے ہیں؟‘‘

لغت سے رجوع لائے تو معلوم ہوا کہ ’لبیب‘ تو عقل مند اور دانا کو کہتے ہیں، لیکن ’زبیب‘کہتے ہیں کشمش کو۔ ’کالزّبیب‘ (تلفظ: ’کَزَّبِیب‘) کے معنی ہوئے ’کشمش جیسا‘۔ نہ جانے شیخ نے یہ لقب ہماری تحریروں کی مٹھاس سے متاثر ہوکر دیا ہے یا ہمارا چُرمُر چہرہ دیکھ کر۔

شیخ کی بات یوں یاد آئی کہ کل ایک اور صاحب ہمیں ادیب کہہ بیٹھے۔ یہ صاحب محقق ہیں اور ایک سرکاری جامعہ سے اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں دیکھا تو دیکھتے ہی فرمایا:

’’قبلہ! آپ تو ادیب ہیں۔ ذرا یہ بتائیے کہ اُردو میں ‘Deduction’کے لیے بھی کوئی لفظ ہے یا نہیں؟‘‘

’’ہاں ہاں، ہے کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے کمیاب مال بیچنے والے دُکان داروں کی سی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔

پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘

کہا: ’’استخراج!‘‘

بلبلا کر بولے: ’’اس سے تو ‘Deduction’ ہی بہتر ہے‘‘۔

حیرت سے استفسار کیا: ’’وہ کیسے؟‘‘

فرمایا: ’’نامانوس لفظ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بولتے ہی قے ہوجائے گی‘‘۔

عرض کیا: ’’قے کو ’استفراغ‘کہتے ہیں۔ رہا نامانوس ہونے کا معاملہ، تواُردوکے لیے ‘Deduction’ کون سا مانوس لفظ ہے؟‘‘

صاحبو! الفاظ اور اصطلاحات کو بول بول کر مانوس بنایا جاتا ہے۔ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد ’بریکنگ نیوز‘ بول بول کر اسے سامعین و ناظرین کے لیے مانوس بنانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔ جب کہ ’تازہ خبر‘کو باسی جان کر استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، اس وجہ سے یہ عام فہم ترکیب نامانوس ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ابلاغی دانش وروں کے پاس شاید اب ذاتی عقل و دانش نہیں رہی۔ وہ محض نقال بن کر رہ گئے ہیں۔ نقال کتنی ہی اچھی نقل کیوں نہ اُتارنے لگے، رہے گا نقال کا نقال۔ موجد نہیں بن سکتا۔ اِنھیں نقالوں کی وجہ سے وہ زمانہ لد گیا جب کوّے ہنس کی چال چلا کرتے تھے۔ اب تو ہمارے راج ہنس ہی پھدک پھدک کر کوّوں کی چال چل رہے ہیں۔

’استخراج‘ ہمارے محققِ محترم کو کیوں نامانوس لگا؟ فقط یہ بات کہ قومی زبان سے اُنسیت دیدہ و دانستہ ختم کی جارہی ہے۔ ہمارے قومی رہنما، قوم کے معزز منصفین اور قومی قانون ساز ہی نہیں، معلمینِ قوم سمیت سب ہی پاکستان میں، پاکستانیوں سے برطانوی زبان بول بول کر اپنی گردن اکڑاتے ہیں۔ شاید اب یہ قومی زبان بول بھی نہیں سکتے کہ محاورہ کہتا ہے:’’…اپنی چال بھی بھول گیا‘‘۔

’استخراج‘ کا لفظ خارج ہوا ’خَرَجَ‘ سے۔ ’خَرَجَ‘ کے معنی ہیں ’وہ نکلا‘۔ اس ایک لفظ سے بہت سے ایسے الفاظ نکل آئے جو اُردو میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اِخراج یعنی نکال دینا۔ خراج یعنی محصول یا لگان، جو یوں تو بالجبر وصول کیا جاتا ہے، لیکن اگر ہمیں کسی کی کوئی بات اچھی یا حسین لگے تو اُسے راضی خوشی’خراجِ تحسین‘ پیش کرتے ہیں۔ کسی سے عقیدت ہوجائے تو اُسے ’خراج عقیدت‘ پیش کیا جاتا ہے۔ خارج کا لفظ بھی بہت سے معنوں میں عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی دائرے، حلقے یا حدود سے باہر، الگ، بیرونی، داخل کی ضد یا وہ جو شامل نہ ہو۔ اسی برصغیر میں جب کسی کو شہر بدر کیا جاتا تھا تو اُسے ’خارج البلد‘ قرار دیا جاتا تھا۔ عربوں کے ہاں غیر ملکی کو بھی خارجی کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحاً وہ لوگ ’خارجی‘ ہیں جو سیدنا علیؓ کی خلافت کو برحق نہیں مانتے۔ ان کی جمع خوارج ہے۔ خارجہ کا لفظ بھی بہت بولا جاتا ہے۔ اُمورِ خارجہ، وزارتِ خارجہ اور وزیرِ خارجہ۔ ان سب کا تعلق خارجی یعنی غیرملکی معاملات سے ہے۔ مخرج کا لفظ بھی خوب استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں نکلنے کی جگہ۔ جمع اس کی مخارج ہے۔ خروج باہر نکلنا یا ظاہر ہونا۔ ’تحقیق‘ سے ہم مانوس ہیں، لیکن ’تخریج‘ سے نہیں، جس کا مطلب ہے نصوص سے احکام اخذ کرنا یا حوالہ نکالنا۔ ہر وقت استعمال کرنے کی وجہ سے لفظ ’استعمال‘ نامانوس نہیں رہا کہ استعمال کا مخرج ’عمل‘ ہے، یعنی کسی چیز کو عمل یا مصرف میں لانا اور برتنا۔ لیکن ’استخراج‘ کو نہ جانے کیوں نامانوس کہا گیا جس کے معنی ہیں اخذ کرنے کا عمل، نتیجہ نکالنے کا عمل یا استنباط کرنے کا عمل۔ ایک دلچسپ بات آپ کو اور بتاتے چلیں کہ عربی میں ’ر‘ ساکن کے ساتھ ’خرج‘ بولا جاتا ہے جو اُردو میں آکر ’خرچ‘ بن گیا ہے اور خرّاج [بہت زیادہ خرچ کرنے والے] شخص کو ہم بھی ’خرّاچ‘ کہنے لگے ہیں۔

علم و کتاب

01 Nov, 04:50


محترم گلزار احمد صاحب نے حاصل پورمنڈی، بہاول پور سے ہمیں ایک نہایت طویل خط بھیجا ہے۔ خط کیا لکھا ہے، ’خطِ استوا‘ لکھ دیا ہے، جو پورے کرۂ ارضی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس خط سے ہم اپنی اور اپنے قارئین کی اصلاح پر مشتمل ایک مختصر اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، کہ ان کالموں کا مقصد ہی ’غلطی ہائے مضامین‘ کی اصلاح ہے :

’’۱۸؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو شائع ہونے والا ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ بہ عنوان ’الفاظ کے سر پر نہیں اڑتے معنی‘ حسب سابق معلومات کا ذخیرہ تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ میں لفظ ’بالکل‘ کا املا جس تیزی سے ’بلکل‘ رواج پا رہا ہے، اس کی اصلاح کے لیے ہر صاحبِ علم کو اپنا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ وطنِ عزیز میں اس وقت جو کھلواڑ اُردو کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہماری ’فیس بک‘ کے علم سے ’نشو و نَما‘ پانے والی نوجوان نسل مستقبل میں ’بلکل‘ ہی کو سند قرار دینے پر مصر دکھائی دے۔ آپ کا یہ لکھنا کہ ’ال‘ تخصیص کے لیے آتا ہے ‘The’کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ بے شک و شبہ درست ہے، مگر بالکل میں ’ال‘ تخصیص کے لیے استعمال نہیں ہوا، بلکہ یہ ’ال‘ تعریفی ہے، جو حرفِ جر ’بِ‘ کو ،کُل کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے: بالقرآن، بالقلم، بالکتاب، بالتفصیل، بالعموم اور بالخصوص وغیرہ میں۔ ان الفاظ (قلم، کتاب، تفصیل، عموم اور خصوص) کے شروع میں ’ال‘ لگا کر انھیں اسمِ مَعرِفَہ نہیں بنایا گیا، بلکہ عربی زبان کا اُصول یہ ہے کہ جب کسی اسم کے ساتھ کوئی بھی حرفِ جر ملایا جاتا ہے تو اُس اسم سے پہلے ’ال‘ لگایا جاتا ہے۔ بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے، پڑھنے اور بولنے یعنی تینوں صورتوں میں آواز دیتا ہے اور بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے میں تو آتا ہے مگر بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد اٹھائیس ہے۔ (بعض ہمزہ کو شامل کرکے اس کی تعداد اُنتِیس شمار کرتے ہیں، مگر ہمزہ حرفِ اصلی نہیں ہے۔ کیوں کہ جب الف پر زبر، زیر یا پیش آجائے تو عربی میں اُس ’الف‘ کو ہمزہ پڑھا جاتا ہے) ان اٹھائیس حروفِ تہجی میں سے چودہ حروف قمری ہیں اور چودہ شمسی۔ قمری حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں آتا ہے، جیسے القمر، الکاتب اور الحق وغیرہ، مگر شمسی حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا، جیسے الشمس، الرشید اور الثاقب وغیرہ۔ کسی ادیب نے ’’حق کا خوف عجب غم ہے‘‘ کَہ کر ان حروفِ قمری کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یعنی اس جملے’حق کا خوف عجب غم ہے‘ میں چودہ حرف استعمال ہوئے ہیں، جو کہ قمری حروف ہیں۔ ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا بھی جائے گا اور پڑھا بھی، جب کہ باقی رہ جانے والے چودہ حرف شمسی ہیں، ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا اور پڑھا نہیں جائے گا۔ لفظ’بالکل‘ میں یہی اصول کارفرما ہے۔ یعنی ’الکل‘ میں ’ک‘حرفِ قمری ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لیے ’ال‘ لکھا گیا ہے،جوحرفِ جَر ’ب‘ لگانے کے بعد (بالکل) بولنے اور پڑھنے میں آرہا ہے۔ جب کہ ’تفصیل‘ میں ’ت‘ حرفِ شمسی ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لیے ’ال‘ لکھا گیا ہے،جوبولنے اور پڑھنے میں (بالتفصیل)کی آواز دے رہا ہے۔ یعنی ’ل‘ لکھا ہونے کے باوجود (لام) کی آواز پیدا نہیں ہورہی۔ پس جان لیجیے کہ’بالکل‘ میں’کُل‘ سے پہلے ’ال‘ تعریفی ہے، تخصیصی نہیں‘‘۔
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

31 Oct, 19:31


راحت وسکون پہنچانے کے لئے ہمارے اسلاف مدینہ منورہ میں خریداری کیا کرتے تھے تاکہ اس کے منافع سے صحابۂ کرام کی اولاد کو آسانی میسر ہو اور ان کی خوش خالی میں اضافہ ہوسکے۔
نو دس دن تک یہاں قیام رہا جب کوچ کا وقت ہوا؛ تب احساس ہوا کہ ابھی توقیام سے سیری ہی نہیں ہوئی ہے، ابھی تو مسجد نبوی، روضۂ نبوی، ریاض الجنۃ اور دیگر مقامات سے نظروں کو آسودگی حاصل نہیں ہوئی ہے، الرحیل الرحیل کے اعلان نے دل کی کفیت بد ل کر رکھ دی، بادلِ ناخواستہ بس میں سامان رکھا گیا، بے بسی کے ساتھ بس میں جاکر بیٹھ گیا، پوری بس بھری ہوئی تھی، آنسو تھے کہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہے، میرے بغل میں محمد سلیم بنگلوری بیٹھے تھے انھوں نے مجھے دیکھا میں نے انھیں دیکھا اور پھر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، مدینہ کی جدائی پر خوب رویا، ہچکیوں کے ساتھ رویا، سسکیوں کے ساتھ رویا، رویا کیونکہ رونا ہی زندگی ہے، ہماری بس رینگنے لگی، میری نظریں مسجد نبوی کے گنبد و مینار پر مرکوز ہوگئیں، بس چل پڑی تھی، کبھی مسجد نظر آ جاتی کبھی عمارات کی اوٹ میں ہو جاتی اور اس طرح تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مدینہ منورہ سے باہر نکل کر شاہ راہ عام پر ہمارا قافلہ رواں دواں ہو گیا۔ دل مدینہ میں رہ گیا، جو بس میں خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

31 Oct, 19:31


سنوسنو!!

مدینہ منورہ: پہلی بارکی حاضری

(ناصر الدین مظاہری)
https://telegram.me/ilmokitab

۲۰۱۸ میں زندگی میں پہلی بار حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوا،یہ میرا پہلا سفر عمرہ تھا ،مکہ مکرمہ میں کچھ دن قیام کے بعد مدینہ منورہ حاضری ہوئی تھی، مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے زیادہ دن قیام کی سعادت ملی، خوب یاد ہے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے روانگی ہوئی تھی تو دل مکہ مکرمہ کی جدائی پر رونے کے بجائے مدینہ منورہ کی زیارت اورباشتیاق میں بے قرار ہو رہا تھا، میں الحمدللہ دوران سفر کسی سے بھی چند منٹ میں بے تکلفی پیدا کرلیتا ہوں، میں نے بس میں سب سے آگے ڈرائیور کے بغل والی سیٹ پر اسی لئے قبضہ کیا تھا کہ سب سے پہلے مسجد نبوی کے گنبد و مینار پر میری نظر پڑے اور اس منظر کو اپنی آنکھوں کے ذریعہ دل میں بسا سکوں۔

چار پانچ گھنٹے کے بعد ہمارے یمنی ڈرائیور نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دیکھو مسجد نبوی شریف کے مینار نظر آ رہے ہیں آہ!کیابتاؤں، کیا کشش تھی ان میناروں میں، کس دلکشی اور رعنائی تھی مسجد نبوی کے گنبدوں میں، ابھی روضۂ نبوی کا دیدار نہیں ہوا تھا کیونکہ مسجد نبوی کے مینار کی اونچائی بہت زیادہ ہے جب کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گنبد کافی نیچے ہے، تھوڑی ہی دیر میں مسجد نبوی اور ہمارے درمیان بلند و بالا عمارتیں حائل ہوگئیں ،رات کا وقت تھا، یہی کوئی تہجد کے بعد کا وقت رہا ہوگا، ہماری بس الکرم ہوٹل کے سامنے رکی، سامان وغیرہ اتارا گیا، کمرے وغیرہ پہلے سے طے تھے اپنے کمرے پہنچ کر سامان رکھا اور بیتابانہ و مشتاقانہ وضو کے لئے تیاری کرنے لگا، مجھ سے میرے ایک بنگلوری دوست نے کہا کہ کیا ابھی مسجد نبوی چلو گے؟ میں نے کہاکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ارادہ ہی نہیں ہے، نہ کھانے کا فکر نہ چائے پانی کا احساس،چنانچہ وضو کرکے ہم ہوٹل سے نکل پڑے، بنگلوری دوست ہمارے ساتھ تھا وہ پہلے بھی حاضر ہو چکا تھا اس لیے رہنمائی ملتی رہی ،ہماری رہائش باب السلام گیٹ نمبر سات کے بالکل سامنے پل کے نیچے الکرم ہوٹل میں تھی ،خوشی کی بات یہ تھی کہ بمشکل دس منٹ کا پیدل راستہ رہا ہوگا۔
ہم دونوں تیر کے مانند ناک کی سیدھ چلتے رہے یہاں تک کہ اس لائن میں شامل ہوگئے جو جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں صلوۃ وسلام کے لئے بنی ہوئی تھی، دھیرے دھیرے ہم روضۂ رسول سے قریب ہوتے گئے یہاں تک کہ بالکل مواجہ شریف پر پہنچ کر غایت ادب اور رقت کے ساتھ سلام پیش کیا، اس وقت ہٹو بچو کا سلسلہ نہیں تھا، لوگ بڑے سکون سے صلوۃ وسلام پیش کرکے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہاں سے فارغ ہوکر مسجد نبوی میں داخل ہوا، تہجد کی اذان ہونے پر نماز تہجد پڑھ کر کافی دیر اذانِ فجر کا انتظار کیا، بھوک کی بیتابی آتشِ شوق میں شکست تسلیم کر چکی تھی، نماز پڑھ کر واپس ہوٹل پہنچا اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر آرام کیا۔

مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے لیے وہ وہ دعائیں اللہ تعالیٰ سے مانگی ہیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے مانگی تھیں، بلکہ مدینہ منورہ کے لیے مکہ مکرمہ سے بھی زیادہ فضل مانگا، تسلیم و رضا مانگی، بخار سے پناہ مانگی، برکات مانگیں، انوارات مانگے، اللہ تعالیٰ سے اس کے رزق کے خزانے مانگے، یہ فرمایاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کوحرم قرار دیا تھا میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔

مدینہ منورہ اسلام کا قبلہ، ایمان کا گھر، ہجر کی زمین،حلال و حرام کے علم حاصل کرنے کا ٹھکانہ ہے ،یہ وہ شہر بابرکت ہے جوسب شہروں کو کھا جائے گا،یہاں منافق نہیں ٹھہر سکے گا، کفر نہیں رک سکے گا،قرب قیامت ایمان سمٹ کرمدینہ منورہ میں جمع ہو جائے گا، یہ شہر کفار کو اس طرح اپنے سے دور کردے گاجس طرح آگ لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے، ایک بڑا طبقہ ان بدنصیبوں کا بھی ہوگا جو فقر و فاقہ اور شدائد سے تنگ آکر مدینہ منورہ سے کوچ اختیار کرلیں گے حالانکہ انھیں معلوم نہیں کہ مدینہ منورہ دوسروں شہروں کی بہ نسبت ان کے لئے زیادہ بہترتھا۔

یہ شہر وہ چھلنی ہے جس سے منافق اس طرح چَھن جائیں گے جیسے آٹا چَھن جاتاہے، چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ قیامت سے پہلے زلزلے کے تین جھٹکے محسوس ہوں گے، دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا لیکن دجال کے ماننے والے خود ہی مدینہ منورہ سے نکل کر دجال کے پاس چلے جائیں گے۔

ہمیں اس شہرکی عزت اورعظمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، یہ وہ شہر ہے جوجناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جسم کی خوشبو اور قدم مبارک کی عظمت ودولت سے مالامال ہے، یہاں بڑے بڑے اولیائے کرم نے تاعمر ریاضتیں کی ہیں، محدثین نے درس حدیث دیاہے، اسلاف نے عبادات کی ہیں، اسلام کاپایۂ تخت رہا ہے، میں تو یہی کہتاہوں کہ مدینہ منورہ سراپا نور ہے، یہاں کے مکین صحابۂ کرام کی اولاد ہیں، ان کی اولاد کو

علم و کتاب

31 Oct, 12:28


شادیوں پر سہرے لکھے اور لکھوائے جاتے ہیں.چھپوا کر تقسیم کئے جاتے ہیں. شادی کارڈ کیلئے بھی شعر تلاش کئے جاتے ہیں.
ختنے، طہور، سنت یا مسلمانی کو بھی چھوٹی شادی کہا جاتا ہے.ایک صاحب نے بیٹے کی اس چھوٹی شادی کے کارڈ چھپوانا چاہے تو اس پر شعر کیلئے ایک شاعر سے درخواست کی. خاصا مشکل کام تھا لیکن شاعر کے ذہنِ رسا نے دیکھیں کیا خوب بر محل شعر تخلیق کیا...
بزمِ شادی رچے اِرم ہوکر
شاخ پھولے پھلے قلم ہوکر
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

31 Oct, 04:36


سلسلہ نمبر: 226
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا عبد الباری نؔدویؒ*

*محکوم مسلمان اپنی ایمانی سیرت سے حاکم قوم پر اثر انداز ہوسکتے ہیں*

اسی طرح کم و بیش تمام چھوٹے بڑے غیر مسلم ملکوں اور حکومتوں میں مسلمان ایک بین الاقوامی قوم کی حیثیت میں اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ محکومی کی معذوریوں کے ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ اسلام کے خدا پرستانہ انفرادی و معاشرتی معاملات و اخلاق کا حق ادا کرکے نہ صرف خود حاکموں کے لیے اسلامی تفوق و برتری کے عملی گواہ بن سکتے تھے ؛ بل کہ دنیوی زندگی کے اعتبار سے بھی ہرجگہ ذلت و کمتری کے بجائے خود حکومت و حاکم قوم کے دلوں میں عزت و وقعت کی جگہ حاصل کرسکتے ہیں ؛ ہو نہیں سکتا کہ بڑی سے بڑی و حکومت میں پھنس کر بھی مسلمان اگر مقدور بھر اپنی انفرادی و اجتماعی یا سماجی زندگی میں خدا و آخرت کے ایمان پر مبنی صالح زندگی کے معاملات و اخلاق اور معاشرت میں عملاً اسی طرح گواہی دیتے رہیں کہ گھر میں بھی مومن صالح ہوں اور باہر بھی، اپنوں میں بھی اور پرایوں میں بھی، دوستوں میں بھی دشمنوں میں بھی، کچہری میں بھی دفتر میں بھی،اسکول و کالج میں بھی دکان و بازار میں بھی، تو کیا متعصب سے بھی متعصب اکثریت و حکومت بھی ان سے مسلسل غیر متاثر رہ سکتی یا ان کو مستقلا نظر انداز کرسکتی ہے؟
جس قوم و ملک کے لوگوں کو بھی دن رات یہ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ مسلمان نام ہی اس کا ہےجو دنیا کے نفع و ضرر سود و زیاں سے کہیں زیادہ اپنی زندگی خدا کی رضا و ناراضی یا آخرت کی فلاح و خسران کے ماتحت بسر کرتا ہے اور اس لیے اس کو دنیا کی حکومت اس کے قانون و عدالت فوج و پولیس قید و بند کا خوف ہو نہ ہو وہ کُھلے چھپے،اندھیرے اجالے، شہر ویرانے،کہیں کسی حال میں بھی راستی و راست بازی،حق پسندی و فرض شناسی کی راہ سے منحرف ہونا گوارا نہ کرے گا،اس کو چار و ناچار مسلمانوں پر اعتماد و اعتبار اور لازماً خود ان کی اور ان کے دین دونوں کی عزت و رعایت کرنے پر دیر سویر مجبور ہونا پڑے گا۔

( *نظام صلاح و اصلاح، صفحہ: 49، طبع:ادارہ مجلس علمی، کراچی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B


https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

30 Oct, 03:44


سلسلہ نمبر: 225
انتخاب مطالعہ
تحریر: *محمد انس عبد الرحیم، مدیر صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر*

*ذہنوں کو فتح کرنے کا حربہ*

گزشتہ دور اونٹوں اور گھوڑوں کا تھا،موجودہ دور ہوائی جہاز اور ٹینک توپوں کا ہے،پچھلے ادوار میں تیر و تلوار میں مہارت قوت کا معیار تھا، دور حاضر میں ایٹمی طاقت ہونا قوت اور مضبوط دفاع کی علامت ہے،ماضی میں تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دار و مدار جن علوم و فنون پر تھا عصر حاضر میں ان علوم و فنون کی وہ اہمیت نہیں رہی؛ آج کے دور میں سائنس ٹیکنالوجی اور فنون جدیدہ کے حصول کو علم و تہذیب کی کسوٹی اور معیار قرار دے دیا گیا ہے۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جن سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا،یہی صورت حال جدید ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی ہے،عصر حاضر میں ترقی یافتہ اقوام کی دوڑ میں داخل ہونے کے اور علم و تہذیب کا شہ سوار بننے کے لیے میڈیا اور پیغام رسانی کے جدید ذرائع کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے ؛ کیونکہ جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی حاصل کرکے ہم کچھ بھی بن جائیں ؛ لیکن ہمارے خیالات و نظریات ہماری فکر اور پیغام دوسری قوموں میں تب ہی سرایت کریں گے جب رفتار ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے ہم اقوام عالم کے عوام و خواص اور گھر گھر تک انہیں پہنچانے کے اقدامات کریں گے۔
مغربی تہذیب کے افکار کی مثال سب کے سامنے ہے کہ وہ کس تیزی سے دنیا کے ذہنوں میں جگہ بناکر انہیں متاثر کر رہے ہیں،جو جس قدر میڈیا کو طریقے سے استعمال کر رہا ہے وہ اس قدر لوگوں کے دل و دماغ کو اپنے خیالات و افکار کے تابع بنارہا ہے، الغرض! جدید میڈیا ایک جنگ ہے،جس کے ذریعے آپ لوگوں کے ذہنوں کو فتح کرسکتے ہیں۔

( *اندھیروں سے اجالے تک، صفحہ: 270،طبع: سلام کتب مارکیٹ،بنوری ٹاؤن،کراچی*)


✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی


https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

29 Oct, 18:03


خواجہ غلام السیدین اور جامعہ کے دیگر اکابرین کی قیام گاہیں تھیں۔مکتبہ جامعہ کی عمارت کی تعمیر کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جس زمانے میں ٹیچرزٹریننگ کالج کی عمارت بن رہی تھی تو مکتبہ جامعہ کے لئے بھی ایک مستقل عمارت کی ضرورت محسوس کی گئی۔ لیکن اس وقت جامعہ کے پاس فنڈ کی قلت تھی۔ ٹیچرز ٹریننگ کالج کے بلڈر رائے پرتھوی راج نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر جامعہ تیار ہوتو وہ ٹیچرز ٹریننگ کالج کی عمارت کی تعمیر سے بچے ہوئے سامان سے مکتبہ جامعہ کی عمارت تعمیر کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے صرف جامعہ کو مزدوری کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور اس طرح مکتبہ جامعہ کو ایک مستقل عمارت مل گئی۔
مکتبہ جامعہ پر پہلا ستم یہ ہوا کہ پروفیسر مشیرالحسن کے دور میں مکتبہ کی اس عمارت پر بلڈوزر چلاکر یہاں ارجن سنگھ کے نام پر فاصلاتی تعلیم کا ایک ادارہ قائم کردیا گیااور مکتبہ کی کتابیں جامعہ کالج کے پیچھے جھونپڑوں میں منتقل کردی گئیں۔ مکتبہ جامعہ پر دوسرا ستم یہ ہوا کہ اس کے انتہائی مخلص سربراہ شاہدعلی خاں کے لئے ایسے حالات پیدا کردیے گئے کہ انھیں مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ شاہدعلی خاں جنھوں نے مکتبہ جامعہ کو بام عروج تک پہنچانے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کی تھیں ، وہ اچانک اس سے جدا ہو گئے۔حقیقت یہ ہے مکتبہ جامعہ کا زوال اسی روز شروع ہوگیا تھاجس روز مکتبہ سے شاہد علی خاں کی علیحدگی ہوئی تھی ۔ان کے چلے جانے کے بعدمکتبہ جامعہ کے دونوں جریدوں’کتاب نما‘اور ’پیام تعلیم‘کی بھی حالت دگر گوں ہوگئی۔ شاہد علی خاں کے بعد اس تاریخ ساز اشاعتی ادارے کی باگ ڈور جن لوگو ں کو سونپی گئی ،وہ اس کے اعزازی ذمہ دار تھے اور اشاعتی صنعت سے ان کا دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی کے لفظوں میں:
’’شاہد علی خاں کے الگ ہونے کے بعد مکتبہ جامعہ کے گویا برے دن آگئے۔یکے بعد دیگرے جن لوگوں کو زمام کا رسونپی گئی وہ رسالہ نکالنے کا بھی تجربہ نہ رکھتے تھے ‘چہ جائے کہ پریس ‘طباعت اور کاغذاور مطبوعات کی خرید فروخت کے معاملات اور کسی اشاعتی ادارے کی سربراہی کاا نہیں کچھ موہوم ساعلم بھی ہو۔بہر حال اردو کے اشاعتی اداروں میں مکتبہ جامعہ کی مرکزی حیثیت اسی دن ختم ہوگئی جب شاہد علی خاں وہاں سے الگ ہوئے۔‘ ‘(’’شاہد علی خاں :ایک فرد‘ایک ادارہ ‘‘مرتب نصیر الدین ازہر‘صفحہ 17)
مکتبہ جامعہ کی عمارت جن جھونپڑوں میں منتقل ہوئی تھی وہاں ان قیمتی کتابوں کو بری حالت میں دیکھاگیا۔ اس کے بعد مکتبہ انصاری ہیلتھ سینٹر کی عمارت میں منتقل ہوا اور اس طرح وہ ایک یتیم بچے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آج ہزاروں قیمتی کتابیں شائع کرنے والا یہ تاریخ ساز ادارہ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔ شاہدعلی خاں کی مکتبہ سے رخصتی کے بعد اس ادارے نے کوئی ترقی نہیں کی اور اس کی حالت یہ ہوئی کہ چند سال قبل قومی اردوکونسل (این سی پی یو ایل)نے اس تاریخ ساز ادارے کی دوسونایاب کتابیں اپنے صرفہ پر شائع کیں۔ یہ کسی اشاعتی ادارے کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عروج وزوال دنیا کا دستور ہے اور آج اردو اشاعتی صنعت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ لوگوں میں کتابیں خریدنے اور انھیں اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا رواج دم توڑرہا ہے۔ لیکن بہرحال وہ ادارے ترقی ضرور کررہے ہیں جن کی وابستگی مستحکم اور مضبوط اداروں کے ساتھ ہے۔ مکتبہ جامعہ ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس کی وابستگی جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی مرکزی دانش گاہ کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے مکتبہ جامعہ کو نئی زندگی دینے کے لئے جامعہ کو ایک ٹھوس منصوبہ بنانا چاہئے۔ فوری طور پر جامعہ کے تمام اشاعتی کام ، اسٹیشنری کی فراہمی اور دیگر چیزیں مکتبہ جامعہ کے ذمہ کردی جانی چاہئے تاکہ جامعہ کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی پھل پھول سکے اور جامعہ پر یہ الزام نہ آئے کہ وہ اپنے ایک تاریخ ساز ادارے کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اگر فوری طور پر مکتبہ جامعہ کی صحت وتندرستی پر توجہ نہیں دی گئی توایک صدی تک لوگوں کے ذہنوں کو منور کرنے والا یہ تاریخی ادارہ دم توڑدے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان علم ودانش کو پہنچے گا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

29 Oct, 18:03


جامعہ میں جشن مکتبہ میں سناٹا

معصوم مرادآبادی

(نوٹ: آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کا یوم تاسیس بڑے جوش وخروش سے منایا جارہا ہے۔ میں نے جامعہ کے ذیلی ادارے مکتبہ جامعہ کی زبوں حالی پر یہ مضمون اب سے چارسال پہلے جامعہ کے صد سالہ جشن کے موقع پر لکھا تھا۔المیہ یہ ہے کہ آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے، اس لئے اس مضمون کو دوبارہ شیئر کررہا ہوں۔)

مرکزی دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے حال ہی میں اپنے قیام کے سو برس مکمل کئے ہیں۔ صدی کا یہ سفر جامعہ کی تاریخ میں بڑے معنی رکھتا ہے۔ جن اکابرین نے اس عظیم ادارے کی بنیاد ڈالی تھی ، وہ عجیب وغریب جذبوں سے سرشار تھے۔ آج کی دنیا میں ایسے دیوانوں کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سوسالہ سفر نشیب وفراز کی ایک عجیب وغریب داستان ہے ۔ اس کے بہت سے کردار آج ہماری نظروں سے اوجھل ضرور ہیں مگر ان لوگوں نے جس اخلاص سے اس تعلیمی ادارے کی آبیاری کی وہ تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔جامعہ کی داغ بیل ڈالنے والے وہی لوگ تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی اور خود مختاری کی راہیں متعین کی تھیں۔ ان کی نگاہ بلند اور سخن دلنواز تھی۔ جامعہ کے قیام اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا سفرایک ساتھ طے ہوا۔ اس ادارے کا قیام برطانوی نظام تعلیم کے بائیکاٹ کی صورت میں ہوا تھا۔ گاندھی جی، مولانا محمدعلی جوہر، ڈاکٹر مختار احمدانصاری ، حکیم اجمل خاں ، ڈاکٹر ذاکر حسین،مولانا محمود حسن اور عبدالمجید خواجہ وغیرہ نے جہاں اس کی تعمیر وتشکیل میں حصہ لیا ، وہیں بعد کے دنوں میں اس ادارے کے گیسو سنوارنے والوں میں پروفیسر محمدمجیب، مسعودحسین خاں، پروفیسر شفیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر عابد حسین ، سعید انصاری اورمولانا عبدالملک جامعی کے نام آتے ہیں۔ 1920میں علی گڑھ میں قائم ہونے والے اس تعلیمی ادارے نے دہلی کے قرول باغ میں تمام تربے سروسامانی کے ساتھ کرائے کے مکانوں میں اپنا سفر شروع کیا تھا ۔ آج یہ دانش گاہ عالیشان بلڈنگوں کا ایک مرقع ہے اور اس کا تعلیمی وتدریسی سفر جاری وساری ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ملک کی دس مرکزی یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل کیا گیاہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ایک اور ادارے کی بھی داغ بیل ڈالی گئی تھی جسے لوگ مکتبہ جامعہ کے نام سے جانتے ہیں۔مکتبہ جامعہ کے قیام اور جدوجہد کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی۔جامعہ جہاں درس وتدریس کا ادارہ تھا تو وہیں مکتبہ جامعہ لوگوں کو روحانی غذا فراہم کرنے کا ذریعہ تھا۔ یہ محض کوئی کاروباری اشاعت گھر نہیں تھا بلکہ اس نے انتہائی قیمتی اردو کتابیں نہایت ارزاں قیمت میں شائع کیں اور لاکھوں لوگوں کے ذہن وشعور کو سیراب کیا۔مکتبہ جامعہ نے خلاق ذہنوں کی اہم تصنیفات کے علاوہ طلبا ء کی نصابی ضرورتوں کے مطابق درسی کتابیں بھی شائع کیں۔’ معیاری سیریز‘ کے عنوان سے مختصر مگر جامع کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اہل علم ودانش اور طلباء مکتبہ جامعہ کی مطبوعات سے تعلق خاطر رکھتے ہیں ۔ درس گاہوں اور دانش گاہوں میں اس کی مطبوعات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جامعہ کے ساتھ ساتھ مکتبہ جامعہ نے بھی ترقی کی منزلیں طے کیں اور یہ جامعہ کے بازو کے طور پر ایک ایسا ادارہ بن گیا جو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم تھے۔جامعہ کی لائبریری کو بھی مکتبہ جامعہ سے بہت تقویت حاصل ہوئی ۔ اس مکتبہ نے اشاعتی صنعت میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کرایا۔دہلی کے علاوہ بمبئی اور علی گڑھ جیسے شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں جو تشنگان علم وادب کا ایک اہم مرکز قرار پائیں۔لیکن آج جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کاصد سالہ جشن منایا جارہا ہے اور چراغاں ہورہا ہے تو مکتبہ جامعہ میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔کیونکہ گزشتہ ایک عرصہ سے مکتبہ جامعہ کا اشاعتی کاروبار ٹھپ ہے۔ نہ تو وہاں سے کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے اور نہ ہی اس ادارے کے تاریخ ساز جریدوں ’ کتاب نما‘ اور ’پیام تعلیم‘ کی اشاعت باقی رہی ہے۔ کتابوں کے وہ پرانے ٹائیٹل جن کی اردو والوں میں ہمیشہ مانگ رہی ہے اور جو مکتبہ جامعہ کی شناخت سمجھے جاتے ہیں ، ناپید ہیں اور دور دور تک ان کی اشاعت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
جو لوگ کتابوں کی دنیا کے شیدائی ہیں ، انھیں مکتبہ جامعہ کے حوالے سے ایک نام ضرور یاد ہوگاجس میں جامعہ کے بانیوں کی روح محلول کرگئی تھی اور جس نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے اس ادارے کو بام عروج تک پہنچانے کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا۔یہ شخصیت ہے شاہد علی خاں کی جو کسی زمانے میں مکتبہ جامعہ کے منیجر ہوا کرتے تھے اور مکتبہ کے دفتر میں واقع ان کی چھوٹی سی میز پر ہر مشکل کو آسان کرنے کا نسخہ موجود تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مکتبہ جامعہ کا دفتر تکونہ پارک کے نزدیک اسی گل مہر ایونیو کی شاہراہ پر ہوا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں ڈاکٹرذاکر حسین،ڈاکٹر عابدحسین،

علم و کتاب

29 Oct, 17:59


دینی مدارس کے نظام و نصاب کا تجزیاتی مطالعہ

محمد رضی الاسلام ندوی
https://telegram.me/ilmokitab

آج کل مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے مختلف مظاہر پر حملے ہو رہے ہیں تو دینی مدارس بھی ان کی زد میں ہیں - ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہی جارہی ہیں - ان میں سے ایک یہ کہ ان کا نصاب فرسودہ ہے ، وہ زمانے کا ساتھ دینے کے قابل نہیں ہے - عرصہ پہلے جب اس کا نصاب تیار کیا گیا تھا اس وقت اس کی افادیت رہی ہو ، لیکن اب وہ موجودہ زمانے کی ضروریات کی تکمیل نہیں کرتا -

مدراس کے نصاب کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت بہت پہلے محسوس کی تھی - بعض دانش وروں اور ماہرینِ تعلیم نے اس کے لیے تحریک چلائی - گزشتہ نصف صدی سے اس پر کانفرنسیں ، سمینار ، مجالسِ مذاکرہ اور ورک شاپس منعقد ہورہے ہیں - نصاب کے ماڈلس بنائے گئے ہیں - بعض تعلیمی ادارے بھی نئے جامع نصاب کے دعوے کے ساتھ قائم کیے گئے ہیں ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس میدان میں اب تک مطلوبہ کام یابی نہیں مل سکی ہیں - قدیم اور تاریخی مدارس طرزِ کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور وہ قدیم نصاب میں خاطر خواہ تبدیلی لانے پر تیار نہیں ہیں -

مولانا اشہد رفیق ندوی سکریٹری ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کو دینی مدراس کے نظام و نصاب سے دل چسپی رہی ہے - انھوں نے اس کے مطالعہ و جائزہ کو ایک مشن کی طرح لیا اور اس کے لیے اپنی تحریری صلاحیتیں وقف کیں - اس موضوع پر منعقد ہونے والے سمیناروں میں شرکت کی اور اپنا حاصلِ مطالعہ و جائزہ پیش کیا - زیرِ نظر کتاب انہی سیمیناروں میں پیش کیے گئے مقالات پر مشتمل ہے -

یہ کتاب تیرہ (13) مقالات پر مشتمل ہے - قدیم ترین مقالہ 2002 کا تحریر کردہ ہے ، جب کہ زمانی اعتبار سے آخری مقالہ 2012 میں لکھا گیا تھا - اس میں مدراس کے نصاب میں قرآن ، اصولِ تفسیر و علوم قرآن ، حدیث ، فقہ اور دعوتِ دین کی تدریس کا جائزہ لیا گیا ہے - موجودہ دور میں مدارس کی اہمیت ، اس کے نصاب میں عصری تقاضوں سے تبدیلی کی ضرورت ، تکثیری معاشرہ کے تقاضے کی تکمیل ، مدارس کا نظام تربیت اور موجودہ حالات میں مدارس کے تحفظّ اور ارتقا کی تدابیر جیسے موضوعات بھی زیر بحث آئے ہیں - جائزہ میں عموماً ملک کے بڑے مدارس مثلاً دار العلوم دیوبند ، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ ، جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور کو شامل کیا گیا ہے - نصاب کے تجزیہ کے ساتھ اس کی بہتری کے لیے تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں -

دینی مدراس پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ، لیکن ان میں ان کے نصاب کا عموماً تقابلی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے - اس اعتبار سے یہ کتاب انفرادیت رکھتی ہے - امید ہے ، دینی مدارس کے نظام و نصاب سے دل چسپی رکھنے والوں کے درمیان اسے بھرپور مقبولیت حاصل ہوگی -
_________
نام کتاب : دینی مدارس کا نظام و نصاب : ایک تجزیاتی مطالعہ
مصنف : اشہد رفیق ندوی
صفحات : 182 ، قیمت : 150 روپے
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی
رابطہ نمبر (واٹس ایپ)
+91-7290092403

یہ کتاب ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے مکتبے سے بھی منگوائی جاسکتی ہے -
رابطہ نمبر (واٹس ایپ)
+91- 9027445919

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

29 Oct, 07:09


خوبی یہ ہوتی ہے کہ سینسر لگا ہوتا ہے یعنی اگر آپ لفٹ کے درمیان میں موجود ہیں تو لفٹ ہرگز بند نہیں ہوگی حتی کہ اگر لفٹ کا دروازہ بند ہونے لگے اور آپ اپنے جسم کا کوئی بھی حصہ ہاتھ یاپاؤں دروازے کے سامنے کر دیں تو دروازہ کھلا رہے گا اِن باریکیوں اور لفٹ کے نظام کو سمجھ کر استعمال میں لایا جائے تو بہت فائدہ ہوتا ہے ورنہ لفٹ اور لیفٹ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔

بہت سارے حضرات وہاں پہنچ کر اپنے کمرے کی چابی کو لے کر پریشان ہوتے ہیں، اصل میں وہاں پر چابیاں نہیں ہوتی بلکہ انہیں کارڈ جیسی ایک چیز دی جاتی ہے اسی کارڈ جیسی چیز سے دروازے کھلتے ہیں اسی سے دروازے بند ہوتے ہیں ،کمرے کی لائٹ کا سسٹم بھی اسی سے مربوط ہوتا ہے اگر آپ کا کارڈ آپ کے کمرے کے اندر رکھا ہوا رہ گیا اور آپ باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا تو پھر آپ سمجھیں کہ اب گھنٹوں کے لیے آپ آزمائش میں مبتلا رہیں گے کیونکہ آپ کے کمرے کی چابی اندر رہ گئی ہے کمرہ لاک ہو چکا ہے اب آپ کاؤنٹر پر جائیں گے، اپنی رپورٹ کریں گے ،وہاں دنیا بھر کی بھیڑ پہلے سے ہوتی ہے ،ان کے پاس دنیا بھر کے کام ہوتے ہیں ، کاؤنٹر والے آپ کے کمرے کی دوسری چابی یعنی دوسرا کارڈ آپ کے حوالے کرنے میں تاخیر بھی کر سکتے ہیں ،آپ اس درمیان میں پریشان بھی ہو سکتے ہیں ممکن ہے نماز کا وقت ہو اور آپ کی نماز بھی چھوٹ جائے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کہیں اور جانا چاہتے ہوں گاڑی باہر کھڑی ہو ساتھی گاڑی کے اندر موجود ہوں اور آپ اپنے کمرے کی چابی کو لے کر پریشان ہوں ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کے تمام کمرے والے پریشان ہو جائیں ،اِن تمام پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہمیشہ بیدار مغزی کا ثبوت دیں، پریشان نہ ہوں۔

حرمین شریفین میں پہنچ کر آپ کو ہر چیز نئی محسوس ہوگی، حتی کہ پانی کی ٹونٹیاں، وضو خانے ، غسل کھانے ، بیت الخلے ،سب کچھ نہایت ہی جدید ترین اور نہایت ہی معیاری نظر آئے گا ہم انڈیا جیسے ملک میں رہ کر جب وہاں پہنچتے ہیں تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں عام طور پر کمروں میں سادے بیت الخلے نہیں ہوتے کموڈ کا سسٹم بھی جدید ترین ہوتا ہے ایسی صورت میں لوگ طرح طرح کی نا تجربہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔آپ جو کچھ نہیں جانتے وہ جانکاروں سے معلوم کیجئے ہر چیز کا حل موجود ہے ۔

ہر ہوٹل میں نماز پڑھنے کی ایک جگہ مخصوص ہوتی ہے اسی طرح ہر ہوٹل میں کھانا کھلانے کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہیں، ہر ہوٹل میں ہر چیز کے لیے مکمل نظام ہوتا ہے آپ کو اپنی ڈائری میں یا اپنے کارڈ پر لکھ لینا چاہیے کہ ہوٹل میں کھانا کون سے حصے میں کون سی منزل پر کھلایا جائے گا، اسی طرح جس حصے میں کھانا کھلایا جاتا ہے وہاں پر بہت سے ٹور آپریٹروں کا نظام ہوتا ہے ،آپ خوب پہچان کر اپنے ہی ٹور والے کے حصے میں پہنچ کر کھانا کھائیں کسی دوسرے کے حصے اور دوسرے کی میز پر پہنچنے کی حماقت نہ کریں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ۔

بہت سی خواتین اور مرد حضرات کپڑے دُھل کر جب وہ ان کو خشک کرنے کے لیے لفٹ کے ذریعے اوپرجائیں تو خوب دھیان رکھیں کہ آپ اپنے گیلے ہاتھوں سے لفٹ کے بٹن کو چھونے کی کوشش نہ کریں کیونکہ پورا سسٹم بجلی کے ذریعے سے چلتا ہے اگر خدانخواستہ بجلی کا اثر پانی کی وجہ سے بٹن پر ظاہر ہو گیا تو کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے ،بعض مرتبہ اس غلطی کی وجہ سے خواتین اور مرد حضرات کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

29 Oct, 07:09


سنوسنو!!

حرمین شریفین کی لفٹوں کے بارے میں

(ناصرالدین مظاہری)
https://telegram.me/ilmokitab
ہم انڈیا والے اکثر وبیشتر تو جانتے ہی نہیں کہ لفٹ کیسے چلتی ہے اس کا ضابطہ کیا ہے، اس کے قواعد کیا ہیں، اب جب ہمیں حرمین شریفین جانے کی سعادت ملتی ہے تو وہاں کثیر منزلہ عمارتوں اور پلازوں سے سابقہ پڑتا ہے بیس پچیس منزلوں پر مشتمل مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عمارتوں میں رہائش ملتی ہے، کئی کئی لفٹیں ہوتی ہیں، بعض لفٹیں نیچے سے بالکل اوپر تک جاتی ہیں اور بہت سی لفٹیں ایسی ہوتی ہیں جو درمیان میں ہی ختم ہو جاتی ہیں ،معتمرین ،زائرین اور حجاج کرام کو خاص طور پر لفٹوں کے تعلق سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر لینی چاہئیں ورنہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے ہی ہوٹل کی لفٹوں کے جال اور جنجال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں ، اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر آتے جاتے رہتے ہیں ، انہیں پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کس منزل پر اترنا ہے ،کدھر کو جانا ہے ،چاروں طرف ایک جیسی لفٹیں ،ایک جیسی عمارتیں، ایک جیسے ڈیزائن ،ایک جیسے لوگ، ایسی صورت میں لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں۔

میں نے ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں اپنے ایک ساتھی کو دیکھا جو لنگی اور بنیان میں پریشان پھررہے تھے، میں نے ان سے پوچھا خیریت تو ہے ؟ آپ لنگی اور بنیان میں یہاں پر کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا اجی تین گھنٹے ہو گئے ،مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ میرا کمرہ کون سا ہے ، لفٹ رکی اور میں نکل پڑا نتیجہ یہ ہوا کہ میں بھٹک گیا اب جدھر جاتا ہوں ایک ہی طرح کے کمرے، ایک ہی انداز کی راہداریاں ،کیا کروں کیا نہ کروں؟ کس سے پوچھوں ؟ میں نے کہاکہ سب سے پہلے تو یہی بتائیے کہ آپ لنگی بنیان میں کیوں گھوم رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اصل میں میں نے احرام دھلا تھا ،احرام کو اوپر کی چھت پرخشک کرنے کے لئے گیا، اب جب واپس کمرے آنا چاہا تو مجھے نہ تو کمرہ ملا نہ لفٹ ملی، زینے کے ذریعے کچھ دور نیچے آیا اور پھر لفٹ کا سہارا لیا لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ میں اپنے کمرے تک پہنچ ہی نہیں سکا، کافی دیر سے میں یہاں سے وہاں وہاں سے یہاں پھر رہا ہوں ۔میں نے انھیں بتایا کہ آپ اپنے ہوٹل کے دوسرے حصے میں آگئے ہیں اِدھر ہم لوگوں کی رہائش ہی نہیں ہے۔ اندازہ یہ ہوا کہ اوپر سے جب نیچے آنے لگے تو لفٹ بدل گئی جس کی وجہ سے لفٹ نے اُن کو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھما دیا۔

بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ کثیر منزلہ عمارت ہونے کی وجہ سے اپنے کمرے کا نمبر بھول جاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لیے کاؤنٹر پر باقاعدہ کارڈ موجود رہتے ہیں آپ اپنے ٹور والے کارڈ پر اپنے کمرے اور اپنی منزل کا نمبر ضرور نوٹ کر کے رکھیں کیونکہ حرمین شریفین کے ہوٹل عالمِ اصغر سے کم نہیں ہوتے ،وہ چھوٹی دنیا محسوس ہوتے ہیں ۔

ایک دفعہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ اجیاد روڈ کے شرکاء الخیرمیں ٹھہرا ہوا تھا،لفٹوں کے ذریعے سے ہی آمد و رفت ہوتی تھی ،ہم دونوں نیچے جا رہے تھے ایک جگہ لفٹ رکی میرے منہ سے نکلا یہاں والے نکل جائیں لیکن اُن لوگوں کے ساتھ میری اہلیہ جو بالکل آگے کھڑی تھی وہ بھی نکل گئی اور لفٹ چل پڑی، اب میں پریشان ہو گیامیری اہلیہ چودہویں منزل کی لفٹ سے باہر نکلی تھی۔میں واپس جانے کے لیے لفٹ کا سہارا لیتا تو کافی دیر ہو جاتی کیونکہ جمعہ کے دن لفٹوں میں بڑی بھیڑ بہت ہوجاتی ہے، میں زینے کے ذریعہ اوپر پہنچا تو وہاں کا منظر بدلا ہوا تھا پتہ یہ چلا کہ ہوٹل انتظامیہ اپنے کمروں اور اپنی عمارتوں کی ترتیب میں ایک خاص نظام رکھتی ہے بہت سی منزلیں ایسی ہوتی ہیں جو رہائش کے لیے نہیں بلکہ پارکنگ کے لیے، بجلی کے سسٹم کے لیے یا اور دیگر ضروریات کے لیے زیر استعمال آتی ہیں ،میں زینے کے ذریعے 14 منزلیں تو چڑھ گیا لیکن وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا نہ لوگ تھے اور نہ ہی وہاں رہائش گاہ تھی مجبورا ایک دوسری لفٹ کے ذریعے میں پھر نیچے آیا اور اپنی لفٹ میں سوار ہو کر چودہویں منزل پہنچا تو وہاں پر ایک صوفے پر محترمہ آرام وسکون کے ساتھ تشریف فرما تھیں، انہیں کون بتائے کہ اُن کی اِس جلد بازی کی وجہ سے مجھے کتنے جوکھم جھیلنے پڑے۔

بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو لفٹ میں پہلے آگے کر دیتے ہیں اور پھر خود سوار ہوتے ہیں اِدھر کسی نے لفٹ کا بٹن دبا دیا بچہ اندر ہے اور اس کے والدین باہر ہیں اور لفٹ چل پڑی یہ بھی نہیں پتہ کہ لفٹ نیچے جا رہی ہے یا اوپر جا رہی ہے ،جانا کہاں ہے ؟ایسی صورت میں والدین تو پریشان ہوتے ہی ہیں معصوم بچہ اور بھی زیادہ پریشان ہوتا ہے کیونکہ اتنی بڑی عمارت میں بچہ کہیں بھی اتر سکتا ہے اور پھر گھنٹوں کے لیے بچہ غائب ہو سکتا ہے ،اگرچہ وہاں پر نظام بڑا چست اور درست ہوتا ہے ہر چیز کیمرے کی نظر میں ہوتی ہے لیکن تاتریاق اذعراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود والا معاملہ ہو جاتا ہے، آپ ہمیشہ لفٹوں میں چڑھتے وقت اپنے بچے کا ہاتھ تھام کر رکھیں، وہاں کی لفٹوں میں ایک خاص

علم و کتاب

29 Oct, 03:24


سلسلہ نمبر: 224
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا افتخار صاحب قؔاسمی،سؔمستی پوری*


*قلم ایک خاموش زبان ہے*


اس دنیائے رنگ و بو میں ہر لمحہ تخلیق و ایجاد کا عمل ہوتا رہتا ہے،دن بدن نِت نئی چیزیں وجود میں آتی رہتی ہیں،کہیں تنکا تنکا جوڑ کر کشتی بنائی جاتی ہے اور کہیں پُرزہ پرزہ ملا کر جہاز تیار کیا جاتا ہے۔
انسان عدم سے وجود میں آیا ہے اور وجود میں لانے کی صلاحیت سے معمور کیا گیا ہے،
وہ محسوسات کی حسی دنیا میں بھی اپنی صلاحیت کے جوہر دکھاتا رہتا ہے اور فکر و خیال کی باطنی دنیا میں بھی کچھ نئی چیزیں گھڑتا رہتا ہے اور انہیں الفاظ و تعبیرات کے پیرایے میں پیش کرتا رہتا ہے۔
حرف حرف کو جوڑ کر لفظ بنتا ہے،لفظ لفظ جوڑ کر جملہ بنتا ہے اور جملہ جملہ مل کر کوئی مضمون یا مقالہ تیار ہوتا ہے،پھر مقالہ نگار اگر اپنے مقالے میں خونِ جگر شامل کردے تو اس کا مقالہ محض مقالہ نہیں ؛ بل کہ تحریر و انشاء کا شاہ کار بن جاتا ہے۔
”قلم ایک خاموش زبان ہے ؛ مگر بسا اوقات بولتی زبان سے کہیں زیادہ افادیت و اثر آفرینی کا حامل ثابت ہوتا ہے ؛ زبان کی افادیت محدود ہے اور قلم کا دائرۂ کار وسیع، زبان صرف سامع کو متاثر کرتی ہے اور قلم کا اثر دور دراز تک پھیلا ہوتا ہے، زبان کا بول خواہ کتنا ہی انمول ہو اسے محفوظ کرلینے کا اگر معقول انتظام نہ ہو تو وہ بولنے والے کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے ؛ مگر قلم سے نکلی ہوئی تحریر انمٹ نقوش بن کر سدا کے لیے زندہ اور پائندہ رہتی ہے“۔

( *قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشاتِ فلاحی،صفحہ: 15، طبع: مکتبہ السلام،جامعہ اکل کوا،مہاراشٹر*)

مؤلف: *مولانا عبد الرحیم صاحب فؔلاحی استاذ جامعہ اکل کوا*
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

29 Oct, 00:24


آپ تو ہمارے لیے بھگوان بن کر آئے ہو

طہ جون پوری
28-10- 2024
____
https://telegram.me/ilmokitab

*ممبئی* میں اس وقت درجہ حرارت 31 ہے اور یہاں اتنا مشکل معلوم ہونے لگتا ہے اور پھر جب ڈائریکٹ سورج کی تپش میں ہوں، تو جہاں شدت پیاس بڑھتی ہے، وہیں جسم کا عرق گلاب بھی اپنا رنگ دکھانے لگاتے ہے، ایسے میں جو احساس ہوتا ہے، وہ ایک پیاسا محسوس کرسکتا ہے.

میں بھی فون پر ایک دوست سے بات کرتے ہوئے جا رہا تھا اور دوست بھی ایسا کہ اس کی باتیں شراب کہن تھیں جو سماعتوں میں رس گھول رہی تھیں، ان سب کے بیچ *سائن سرکل* سے جیسے ہی برج / پل پر آیا، تو دیکھا کہ ایک ایکٹیوا، کھڑی ہے اور ڈرائیور اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دیوار سے کنارے اس کی عورت بھی تھی. میں اس کے پاس گیا، اور *تکلف برطرف* پر عمل کرتے ہوئے اس سے کہا: میں آپ کی مدد کروں. وہ پریشان حال شخص کچھ ہچکچایا، کیوں کہ ویسے بھی آج کل گودی میڈیا نے اور راجا نے اپنی مخصوص پرجا کے بارے میں کہ رکھا ہے، کہ *ان کو کپڑوں سے پہچا نو* اس لیے وہ تھوڑا پس و پیش میں تھا، کہ: *یہ سفید پوش کہاں ٹپک پڑا* دوبارہ پھر میں نے کہا: آپ کو پش کرکے لے چلوں؟ اس نے کہا: ٹھیک ہے. پھر کیا تھا، لوگ ڈرائیور بن کر چلاتے ہیں، میں اپنی گاڑی چلاتے ہوئے اس کو تین کیلو میٹر سے زائد پش کرتے ہوئے لایا. برج سے اترا تو سوچا کہیں، مستری مل جائے، تو کچھ کام ہو، لیکن کہتے ہیں کہ *مرحلہ کھنچتا رہا، جوں جوں پش کرتا رہا* اس لیے یہ سلسلہ جاری رہا، . پھر کچھ یوں ہوا کہ اس نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی اور ہو بھی گئی. میں نے سوچا پچاس سو میٹر ساتھ چلوں، تاکہ اطمینان ہوجائے. اور پھر آگے بڑھنے لگا، اب کیا تھا، میاں بیوی دونوں کہنے لگے: آپ کو جانا نہیں ہے. میں گاڑی بڑھا رہا ہوں، تو وہ آگے آجا رہے ہیں اور کہنے لگے: آپ پانی پی کر، جاؤ، میں نے کہا: نہیں ہوسکتا. پھر بضد ہوگئے کہ: ٹھنڈا پی لیں. میں نے انکار کا ہی سہارا لیا. اور کہا: ایسا نہیں ہوسکتا. مجھے جانے دیں. میاں بیوی بیک زبان کہنے لگے: *آپ تو ہمارے لیے بھگوان بن کر آئے ہو* میں اس جملے کو سن کر سر جھکا لیا. ان کا شکریہ انگریزوں کی تہذیب میں ادا کیا. ان کو بڑا سا تھمب دکھایا. ویسے یہ عیب نہیں. اب اس کی الگ پہچان ہے. اور آگے بڑھ گیا.

سچ ہے. کسی نے کہا ہے:

*یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی* اس دور میں بھی اس ملک کے اندر، دشمن عناصر کو چھوڑ کر ایسے افراد ضرور ہیں، جو اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہیں. ہر شخص کو اپنے حصے کے بقدر اسلامی روشنی کو روشن کرنے کی ضرورت ہے. اور ہم سب کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے. ان شاء اللہ وہ وقت ضرور آئے گا، جب چیزیں تبدیل ہوں گی. جو لوگ یا تنظیمیں اس طرح کے کاموں میں مصروف عمل ہیں، رب کریم ان کی خدمات کو قبول فرمائے. اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اسلام کی تئیں نرم فرمائے. خدا پر ایمان اس کا مقدر ہو، خدا کرے وہ بجائے مجھ حقیر کے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں لفظاً ہی سہی اتنی بڑی بات کہنے کے بجائے حقیقی معنوں رب کو پہچان لے، اس کے دل میں ہم تمام انسانوں کے پیدا کرنے والوں کی عظمت پیدا ہوجائے اور وہ بھی ایمان کی عظیم نعمت سے بہرہ ور ہوجائے.


آمین ثم آمین یا رب العالمین.
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

28 Oct, 15:31


خدمات، ایک سنہری تاریخ ہے، جن سے آنکھیں چُرانا کسی کور باطن ہی کا کام ہوسکتا ہے، منصف مزاج کا ہرگز نہیں۔ لہٰذا کلمہ گو نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ہوش و فہم، اپنی سوچنے اور سمجھنے کی قوت کو فاسد فکروں کا اسیر نہ بنائیں، بے نشان تیر مارنے والوں کو نشانہ باز نہ کہیں، صرف ناموں اور اصطلاحوں کی شہرت میں علمِ حقیقی کو پیٹھ پیچھے نہ چھوڑ دیں۔ علم کی راہ بڑی پُر خطر ہے، اگر اس میں آدمی تھوڑا سا بھی بہک گیا تو سمجھو ڈوب گیا۔ اس لیے دھیان رکھنا چاہیے کہ علم و سائنس کے نام پر اگر کوئی آپ کو اپنے دین سے، قرآن و حدیث سے، اسلامی شعائر سے، اپنے علماء سے، اپنی تاریخ و تمدن سے دور کرکے بدظن بنا رہا ہے تو فوراً سنبھل جائیے کہ وہ علم دوست نہیں، بلکہ ایک بہروپیا ہے، جو آپ کی عقلی ذہانتوں کو آپ سے چھین کر آپ کو بے عقلی کی راہ پر لگانا چاہتا ہے اور کوئی بھی صاحبِ بصیرت عقل و دانش رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بے عقلی کا عبرت کدہ نہیں بناسکتا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

28 Oct, 15:31


علماء کی قدر کریں

از: طارق علی عباسی

علماء کی قدر کرنا سیکھیں، یہ الفاظ کہنے کو تو عام اور سادہ سے ہیں، مگر شاید غور نہ کرنے کی وجہ سے بے معنیٰ سے معلوم ہوتے ہیں۔ علماء، جنہوں نے خود کو خدمتِ اسلام کے لیے سپرد کردیا ہے، اپنی خواہشوں کو قربان کرکے سب کے لیے خیر خواہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، بے لوث ہوکر دینی تعلیم و اقدار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں اور اسی عظیم القدر فریضہ کو نبھانے کے لیے وہ اپنا لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا تک نشاور کردیتے ہیں، شریعت کے احیاء اور اس کی حفاظت و ترقی اور قومی فلاح و بہبود کے لیے پیش پیش رہتے ہیں، ہر وقت اسلامی تعلیمات کی ترویج اور مسلمانوں کی درستی و اصلاح کے کاموں میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ علماء ہوتے ہیں۔ کوئی عالم ایسے ہی عالم نہیں بن جاتا ہے، بلکہ وہ کانٹوں سے سجی ہوئی قربانیوں کی سیج پر سے گزر کر ہی عالم بنتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس راہِ علم و حکمت میں اپنی جان کی قربانی دے دیتا ہے، مگر علم و حکمت کے جھنڈے کو باطل کے پاؤں میں روندنے نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے سماج میں آج کی نئی نسل کو غور کرنا چاہیے کہ ان کی دینی اقدار سے اس قدر جو دوری پیدا ہوگئی ہے تو اس کے پیچھے معاشرہ میں موجود علماء کی بے قدری، ان کی خدمات سے اغماز برتنا، ان کی اہمیت کو گھٹانا، انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دشمن خیال کرنا وغیرہ جیسے کئی ایسے نارَوا افعال کار فرما ہیں کہ جن کے جھانسے میں آکر، نوجوان نسل، اپنے ہی مخلصین علماء سے بدظن ہورہی ہے۔ علماء سے بدظنی انہی نوجوانوں کو ایسے ایسے شنیع کاموں میں دھکیل کر مبتلا کر رہی ہے کہ انسانیت شرما جائے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ نوجوانوں کے لیے علم و تحقیق کا منبع و ماخذ جب فیسبوک، یوٹیوب اور محض گوگل وغیرہ ہی بن جائے تو انہیں کون یقین دلائے کہ دُم کٹی ہوئی باتوں کا صحیح و مستند سراغ، آپ کو کتابوں میں ملے گا، جہاں سے آپ، گمراہ کرنے والے عناصر کی چالاکیوں کو بھانپ کر اور ان کی مکاریوں کے بھیانک نتائج کو معلوم کرکے اپنے سمیت دیگر نوجوانوں کو بھی مکر و فریب کی ان پیوندکاریوں سے بچاسکتے ہیں۔ مگر جب نئی نسل، کتابوں کے شائق محققین علماء ہی سے بغض و عناد رکھتی ہو تو ایسے افراد میں کتاب دوستی کیوں پروان چڑھے گی؟

ہمارے نوجوانوں کا ماجرا بھی کچھ عجیب سا ہے، وہ دینی تعلیمات کو اسکول و کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے الحاد میں مبتلا استادوں، بے دین پروفیسروں اور یوٹیوبروں وغیرہ سے سیکھ کر یا ان کی طرف سے بتائی ہوئی متعصب انگریز مفکروں کی کتابوں کا مطالعہ کرکے دین کو ویسا سمجھنے لگتے ہیں، جس کی جانب بہت عرصہ پہلے توجہ دلاتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ معارف جولائی 1931 کے شذرات میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں: اصلی مرض کیا ہے؟ یہ ہے کہ ہمارے دلوں سے خود ہمارے علماء، مصنفین اور مؤرخین کی قدر و منزلت گر گئی ہے۔ آج ہم کو قرآن کی کسی آیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کی صحت کا یقین اس وقت تک نہیں آتا، جب تک اس کی تائید میں کسی گولڈ زیہر، کسی انگریزی (پی ایچ ڈی، پروفیسر) ڈاکٹر، کسی ڈاکٹر ٹائلر کا قول نظر سے نہ گزرے، یہی حال آج اسلام کی تاریخ و تمدن کا بھی ہے کہ وہ جب تک نولدیک، زاخاؤ، ڈوزی، نکلسن اور مارگولیوتھ کے قلم سے نہ نکلے، مسلّم نہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ دشمنوں کے گھر سے زہر کے بجائے نوشدارو (یعنی فرحت بخش معجون) ملنے کی توقع کرنا کس قدر بے سود ہے۔

یہ ہمارے نوجوانوں کا اصل مسئلہ ہے، پڑھنے والوں کو اس اقتباس میں موجود نام اجنبی سے معلوم ہوتے ہوں گے، مگر آج کل گمراہی میں جن اشخاص کی پیروی کی جاتی ہے، وہ دراصل ان ہی جیسوں کی باتوں کو لیکر نئی نسل کو ورغلاتے ہیں۔

معاشرہ میں سے جب نیکی و بدی کا احساس ہی مٹ جائے اور گناہ سے عار ہی محسوس نہ تو حقائق و واقعات کو ہلکے میں لیا جاتا ہے، پھر ہوتا یوں ہے کہ طرزِ معاشرت میں نیکی و بدی آپس میں خلط ملط ہوکر اپنا تشخص کھو دیتی ہے۔ یہی حال آج کل ہمارے نوجوانوں کا بھی ہے کہ بڑی ہوشیاری سے انہیں علماء سے اتنا بدظن کیا گیا ہے کہ اب وہ اسلام ہی پر ٹیڑھے میڑھے سوالات کھڑے کر رہے ہیں، اسلامی شعائر پر اپنے لایعنی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دراصل ایسا کچھ ان کا اپنی عقلوں کو کُند بنانے سے ہوا ہے، اگر وہ اپنی عقلوں سے صحیح سوچ سمجھ کا کام لیں تو انہیں ہر چیز، اپنے اپنے دائرہ کار میں نظر آئے اور انہیں علماء کی محنتوں کا پتہ بھی چلے کہ کہاں کہاں پر اور کیسے کیسے اَنہونے اور انوکھے طریقوں سے ان کی مخلصانہ محنتیں، اپنا کام کر رہی ہیں اور اپنا اثر بھی دکھا رہی ہیں۔ جو لوگ علماء پر اور دین پر طرح طرح کے اشکالات اور بے سروپا اعتراضات کر رہے ہوتے ہیں، انہی پر یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ ان کے یہ اشکالات کن لوگوں کی پیروی ہے؟ جو لوگ علم و سائنس کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے مقابلہ میں علماء کی دینی، قومی و سماجی

علم و کتاب

28 Oct, 09:20


ڈالنے کا موقع نصیب ہوا۔ان چیزوں سے ہوتا تو کچھ بھی نہیں کیوں کہ انجام کا دار و مدار اعمال صالحہ پر ہے ،لیکن دل و دماغ کو یہ سکون حاصل ہو جاتا کہ ہم نے اپنے’’ جبل علم‘‘ دوست کو اپنے ہاتھوں سے اس قبر میں اتارا ھے جو بظاہر ایک ''گڈھا'' ہے لیکن اللہ والے نیک دل لوگوں کے لئے اسکی وسعتیں زمین کو آسمان سے ملا دیتی ہیں۔ مجھے یک گونہ یہ اطمینان ضرور حاصل ہو گیا کہ امریکہ(ورجینیا)میں مقیم میرے بیٹے (عزیزم احمد رضا عثمانی سلمہ اللہ تعالیٰ) نے میرے اور مولانا کے تعلق کا خیال کرتے ہوئے اپنے دوستوں عنایت صاحب ' (داماد مفتی سلیمان ظفر) اور شیراز احمد کے ساتھ گیارہ گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ایلجین پہونچ کر نماز جنازہ اور تدفین میں شامل ہو کر ہماری نیابت کا حق ادا کر دیا' اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطافرمائے آمین۔اللہ تعالیٰ مولانا کی تمام نیکیوں کو قبول فرمائے
لغزشوں اورسیآت سے درگذر فرمائے ان کی قبر پر تا قیامت رحمت کے پھولوں کی بارش فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل کی توفیق عطافرمائے آمین!

(ڈاکٹر) عبید اقبال عاصم
وادیٔ اسماعیل، دوہرہ معافی
علی گڑھ۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۲۴؁
موبائل نمبر +919358318995
Email. [email protected]

https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

28 Oct, 09:20


مولانا ندیم الواجدی دادھیالی نانیہالی اور سسرالی تینوں ہی اعتبار سے علم وفضل کے ان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھی جو ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است'' کا مصداق تھے ان کے پردادا سخاوت حسین نے بجنور سے ترک وطن کر کے بچوں کی دینی تعلیم دلانے کی خاطر دیوبند کو وطن ثانی بنایا اس کے نتیجہ میں ان کے بیٹے مولانا احمدحسن (مولانا ند یم الواجدی کے دادا) مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث کے عہدہ تک پہنچے۔ مولانا ندیم الواجدی کے والد مولانا واجد حسن ،مفتاح العلوم جلال آباد میں درس حدیث دینے کے علاوہ ڈابھیل کے شیخ الحدیث بنے. مولانا کے ماموں مولانا شریف حسن دیوبندی دارالعلوم کے شیخ الحدیث کے منصب پرفائز رہتے ہوئے اپنے علمی کمالات کے ہنر ہزاروں شاگردوں میں منتقل کر گئے۔مولانا کے خسر محترم (مولانا قاری عبد اللہ سلیم صاحب مدظلہ العالیٰ) دارالعلوم دیوبند کے فاضل' وہاں کے شعبہ قرأت کے سابق صدر' رہے اب گذشتہ چار دہائیوں سے ''شکاگو'' (امریکہ) میں اپنے علم وفضل کے جلوے بکھیر رہے ہیں جس کی ظاہری شکل ’’دیار غیر‘‘ میں وسیع وعریض احاطہ میں موصوف کا قائم کردہ وہ دارالعلوم ھے' جو ’’مادر علمی‘‘ (دارالعلوم دیوبند) کے مترادف کے طور پر پورے امریکہ میں مشہور ومعروف ھے. قاری صاحب موصوف دیوبند کے ایسے عثمانی گھرانے کے چشم وچراغ ہیں جہاں شریعت اسلامیہ کے امور سے کما حقہ واقفیت رکھنے والے علمائے کرام کے ساتھ ساتھ طریقت کے ''سربستہ رازوں'' پر عبور رکھنے والی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے ’’روحانی مریضوں‘‘کی ’’تطہیر‘‘ کا فریضہ بھی انجام دیا اور جسمانی امراض میں مبتلا انسانوں کے امراض کو دور کرنے کی مقدور بھر کوششیں کر کے ’’شافی مطلق‘‘ کے حوالے کر نے کا کام بھی انجام دیا۔ قاری عبد اللہ سلیم صاحب کے والد مولانا محمد نعیم(متوفی جنوری ۲۰۰۸)(شکاگو'امریکہ)دارالعلوم دیوبند کے معروف استاذ حدیث تھے ، دادا حکیم محمد منعم دیوبند کے معروف معالج تھے تو ان(حکیم محمد منعم)کے والد حکیم محمد بشیر صاحب اپنے وقت کے صاحب نسبت بزرگ۔ گویاکہ ندیم بھائی تینوں ہی حیثیتوں سے من جانب اللہ ایسے ''سلسلۃ الذہب'' کی کڑی تھے جسے ''وہبی'' کہا جا سکتا ھے' مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ اس ’’وہبی سلسلہ‘‘ پر ’’پدرم سلطان بود‘‘کہتے ہوئے اکتفا کر کے نہیں بیٹھے بلکہ کسبی طور پر اپنی محنت وریاضت ولیاقت سے اس سلسلہ کو مضبوط ترین کیا اور آگے کے لئے بھی ’’آہ سحر گاہی ‘‘و’’دعائے نیم شبی‘‘ کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والے اپنے لائق و فائق فرزند (مولانا یاسر ندیم الواجدی) کی تعلیم وتربیت اس انداز سے کر گئے کہ اللہ نے انہیں بھی ’’قیمتی گوہر‘‘ بنا دیا،الحمدللّٰہ موصوف کم عمری میں ہی عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے نہ صرف واقف ہیں 'بلکہ ان کو پیش نظر رکھ کر اسلام کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں میں پیدا شدہ اور اسلام مخالف طاغوتی سازشوں سے پیدا کردہ شکوک وشبہات کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں، پائیدار تصنیفی مطبوعہ علمی سرمایہ کے علاوہ، ذرائع ابلاغ کی ترقی یافتہ شکلوں بالخصوص’’ سوشل میڈیا‘‘ پر جدید تعلیم یافتہ طبقے کے سوالات کے اطمینان بخش جوابات دے کر یاسر ندیم اپنی علمی صلاحیتوں سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کر نے میں لگے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس سلسلہ کو حق و ثابت قدمی کے ساتھ تا قیامت باقی رکھے' آمین، المختصر یہ کہ ہمارے دوست مولانا ندیم الواجدی صاحب اللہ رب العزت کے بلانے پر ان کے حضور حاضر ہوگئے اور اپنے پیچھے وہ تینوں چیزیں(علم نافع ،صدقۂ جاریہ اور اولاد صالح ، جن کو احادیث میں ذخیرۂ آخرت بتایا گیا ہے )چھوڑ گئے ہیں۔’’علمی سرمایہ‘‘ کی شکل میں اپنی تصنیفات کا ایک ذخیرہ،’’ صدقہ ٔ جاریہ‘‘ کی شکل میں طالبات کا دینی ادارہ( معہد عائشہ) اور’’ اولاد صالح‘‘ کی صورت میں مولانا یاسر ندیم الواجدی ایساسرمایہ چھوڑ گئے ہیں جو ان شاء اللہ ان کے نام کو طویل مدت تک زندہ رکھنے والا اور قیامت میں ذخیرۂ آخرت کی شکل میں کام آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جملہ
پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے آمین۔کسی شاعر نے مولانا جیسے لوگوں کے لئے کہا تھا کہ ؎
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں جن کے زمانے سے نقش کبھی
۲۳/ جولائی۱۹۵۴ کو عالم آب و گل میں کھلنے والا یہ پھول بحالت ہوش وحواس زندگی کی ستر بہاریں دیکھنے کے بعد امریکہ کے دور دراز علاقہ ایلجین (نزد شکاگو) کے قبرستان میں پیوند خاک ہو گیا اور ہم جیسے لوگوں کو تعزیتی اجلاس منعقد کرنے اور یادداشتوں کو قلمبند کرنے کے لئے چھوڑ گیا، مجھے یہ افسوس تو ضرور ہوا کہ ہم جیسے مولانا کے لاتعداد چاہنے والوں کو نہ تو مرحوم کا آخری دیدار نصیب ہوا اور نہ ہی شانوں کو ان کی میت رکھی ’’چارپائی کا لمس‘‘ نصیب ہوا ،اور نہ ہی’’ منھا خلقنکم‘‘ و’’فیھا نعیدکم ‘‘و’’منھا نخرجکم تارۃ اخری‘‘ کہتے ہوئے تین مشت خاک

علم و کتاب

28 Oct, 03:39


سلسلہ نمبر: 223
انتخاب مطالعہ
تحریر: *حبیب ﷲ خؔان*


*نسلی تعلقات*

انسان دنیا میں میل ملاپ کے لیے پیدا ہوا ہے،اکیلا اور تنہاء رہنے کی کیفیت مخلوق کی دوسری اقسام نباتات،حیوانات، معدنیات میں پائی جاتی ہیں ؛ لیکن اس مخلوق کے مابین بھی:
؏ کند ہم جنس باہم جنس پرواز
مجلس و مصاحبت کی خصوصیات کسی حد تک موجود ہیں؛ بنا بریں ایک انسان کے ساتھ جب تک کوئی دوسرا انسان موجود نہ ہو اکیلے انسان کا گزارہ مشکل اور زندگی دوبھر ہوجاتی ہے،اگرچہ تخلیق انسانی کے ابتدائی مدارج میں کئی ایک انسان ایسے گزرے ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں تن تنہاء جنگلوں،صحراؤں اور دنیا کی عمیق غاروں میں گزاردیں ؛ لیکن ان ایام میں غالبا عقل و شعور کی ترقی اور پختگی اس قدر نہ تھی اور نہ ہی ضروریات زندگی اتنی وسیع تھیں کہ انسان اپنے ہم جنس کی ضرورت محسوس کرتا،انسان بذات خود جنگلی جانوروں کی طرح وحشی قدرتی لباس میں ملبوس صرف شکم پروری اور ہوس نفس کے باطنی احساس تک محدود تھا ۔
اس تنہائی سے نکل کر اجتماع کی سب سے پہلی بنیاد افراد و خاندان پر قائم ہوئی اور کششِ موانست کی ابتدائی زنجیر رشتۂ خون اور نسلی تعلقات پر وضع کی گئ ؛چنانچہ جب خاندان روزی کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے تو یہی زنجیر افراد خاندان کو ایک دوسرے سے وابستہ جگہ جگہ کشاں کشاں لیے پھرتی رہی۔

( *تقسیمِ ہند،صفحہ: 84، طبع:انفائن بک سینٹر، پٹیالہ گراؤنڈ، لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://telegram.me/ilmokitab


https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

28 Oct, 02:12


رسُولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جلالِ ایمانی کی ایک بے پناہ قوت کے ساتھ پکارا :
" "اے گروہ انصار!
دائیں طرف سے وہی بے قرار آواز سُنائی دی ” ہم حاضر ہیں ۔ یا رسول اللهﷺ ! ہم حاضر ہیں!"
آپﷺ نے بائیں طرف رُخ کیا اور پھر مسلمانوں کو آواز دی __ اس بار اس سے بھی زیادہ بے تاب و پُر شوق جواب ملا " ہم حاضر ہیں ۔ اے خدا کے پیغمبر ﷺ! ہم حاضر ہیں!"
آپﷺ نے مُٹّھی بھر انسانوں کا یہ جواب سُنا اور ایک زلزلہ انگیز جوش کے عالم میں اپنی سواری سے نیچے اتر پڑے ۔ اور آپﷺ کے یہ الفاظ میدانِ جنگ میں پوری قوت سے گونج اُٹھے:
"میں ہوں خُدا کا بندہ اور اُس کا پیغمبر! __میں عبد المطلب کا فرزند ہوں !" اِدھر آپ ﷺنے یہ آواز بلند کی اُدھر آپ کے بلند بانگ محترم چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پسپا ہوتی ہوئی فوج کو للکارا۔
"او انصار کے گروہ ؟ اور اے وہ لوگو! جنھوں نے اسلام پر جان دینے کا مُقدس عہد کیا ہے ! بڑھو! آگے بڑھو!_"
یکایک اسلامی لشکر میں جذبات کی ایک نئی روح دوڑ گئی وہ فوج جو پسپا ہو رہی تھی اس قدر جوش خروش سے آگے بڑھی کہ اگر سواری نے اس جوش آمیز رفتار کا ساتھ نہ دیا تو سوار سواریوں سے کود پڑے اور بجلی کی طرح آگے بڑھے۔ شہادت کے متوالوں نے موت سے آنکھیں چار کرنے کے لیے دفاعی سامان کے بوجھ اور زرہیں اُتار کر پھینک دیں اور تیروں کی بارش میں اس طرح نعرۂ جہاد بُلند کرتے ہوئے طوفانی رفتار سے پیش قدمی کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کُفر کی صفیں زیر و زبر کر کے رکھ دیں کمانوں کے ٹکڑے کر دیے کافروں کی لوہے میں ڈوبی ہوئی فوج کو کائی کی طرح پھاڑ دیا۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد ہوازن اور ثقیف کے سُورماؤں کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ جنگ کا دوسرا مورچہ طائف کا مضبوط قلعہ تھا ۔
یہاں ہوازن قبیلہ کے بھاگے ہوئے سپاہی قبیلۂ ثقیف کے ساتھ آملے تھے ۔ وہ قبیلہ ثقیف جو خود کو قریش کا ہم سر و ہم پلہ سمجھتا تھا۔ جذبۂ جہاد کے متوالوں نے حُنین کے میدانِ کارزار میں کافروں کے چھکے چُھڑا دیے تھے اس لیے غنیم کے پاس اس کےسوا چارہ نہ رہا کہ قلعہ کے اندر پناہ لے کر ادھر سے تیر اندازی کرے ۔ وہی فوج جو حُنین کےمیدان میں تیروں کی پہلی باڑھ سے بکھر نے لگی تھی وہ آج تیروں کی بارش میں قلعہ پر پڑاؤ ڈالے ہوئے پڑی تھی ۔ اور کئی دن تک مسلسل حملوں کے باوجود جب قلعہ نہ کُھل سکا تو سہمے ہوئے دشمنوں کو قلعہ میں بند چھوڑ کر اسلامی لشکر نے جعرانہ کے مقام پر آکر پڑاؤ ڈالا ۔
مسلمان قلعہ سے ہٹ گئے تھے مگر اللہ کا رسولﷺ طائف کی ان فضاؤں میں دعاؤں کا سوز بکھیر آیا تھا ، ٹھیک اس وقت جب خونخواری کی بدترین بے حسی اور بے رحمی کے ساتھ قلعے کے درودیوار تیر افگنی میں مشغول تھے ۔ جب مُجاہدوں نے خُدا کے دشمنوں کی حق کشی اور سینہ زوری سے تنگ آکر حضورﷺ سے بددعا کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺنے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور بددعا نہیں دعا کی ۔
(جاری)
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

28 Oct, 02:12


کیا ہم مسلمان ہیں (٣١ ) ۔۔۔ ہمیں دنیا نہیں محمد ﷺ چاہیے (پہلی قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
حجاز کا پایۂ تخت مکّہ اسلامی اقتدار کے آگے جُھک چکا تھا۔ سچائی اور طاقت کو قدم ملائے ہوئے دیکھ کر وہ لوگ بھی ایمان لارہے تھے جو کبھی تنہا سچائی کو اس کے سادہ لباس میں نہ پہچان سکے تھے سچائی جو کبھی ایک انسان کی آواز تھی اب ہزاروں آوازوں کی شان دار گرج میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ جس آواز سے پورا ماحول گونج اُٹھا تھا اب اس کی چوٹ تنگ و تاریک سینوں اور زنگ خوردہ دلوں تک جا پہنچی تھی ۔
لیکن ابھی تک مکّے کے چند ہم سایہ علاقوں پر وہی اندھیارا چھایا ہوا تھا۔ وہاں وہی طاقت کا جُنون اور اِنتقام کا بھوت سوار تھا ۔ وہ سچ اور جُھوٹ کا فیصلہ دلوں کے بجائے تلواروں سے کرنا چاہتے تھے ۔ وہاں کا انسان اب تک یہ بدترین احمقانہ خواب دیکھ رہا تھا کہ مسلّح آدمی خدا سے لڑ سکتا ہے!
اِس آخری بغاوت کی کوشِش میں ہوازن اور ثقیف قبائل آگے آگے تھے ۔ ان لوگوں نے مکّے کا سقوط دیکھ کر جلدی جلدی آس پاس کے قبیلوں میں نفرت و انتقام کی آگ بھڑکانی شروع کی ۔ ترکش پر ترکش بھرے گئے ۔ تلواروں پر تلواریں سونتی گئیں اور حُنین کے میدان کے کارزار میں شیطان کی آخری طاقت نے اللہ کی فوج کو للکارا ۔
اگر چہ اسلامی صفوں میں بارہ ہزار نفوس تھے لیکن ان میں ایک بہت بڑی تعداد مکّے کے ان نئے نئے مسلمانوں کی تھی جنھوں نے سچّائی کو اس کی بے سرو سامانیوں کے زمانے میں نفرت سے ٹھکرایا اور عروج وسطوت کے دور میں سینے سے لگایا تھا، کہا نہیں جا سکتا تھا کہ وہ اس وقت کہاں تک جم سکیں گے جب موت کا بھیانک خطرہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ سوال کرے گا کہ " کیا تم مسلمان ہو ؟"
ادھر ہوازن کا قبیلہ تیراندازی کی ہولناک مشق میں یگانۂ روزگار تھا ۔ تیراندازی کا یہ کمال اپنے آخری جو ہر دکھانے کے لیے نکلا تو ایک ساتھ ہزاروں کمانیں دوہری ہو گئیں اور تیر __ زہر یلے نوکیلے تیر ایک زبردست باڑھ کی شکل میں پوری فضا میں سنسنا گئے۔ تیروں کی اس اندھا دُھند بوچھاڑ میں پہلے ہی قدم پر ایسی بدحواسی چھائی کہ مُجاہدوں کا لشکر ہل گیا اور لشکر کا بہت بڑا حصّہ اس طوفان کے تھپیڑے کھاتا ہوا پیچھے کی طرف بہہ نکلا۔
لیکن ٹھیک اس وقت جب زمین و آسمان میں موت کی باڑھ سے کہیں پناہ نظر نہ آتی تھی جب تیروں کی گھٹا ٹوپ بوچھاڑ میں ہزاروں شیر نر بےاختیار مُنہ پھیر بیٹھے تھے ۔ جب مرگ و ہلاکت کے آدم خور عفریت اپنے جبڑے کھولے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ محمد عربی ﷺکے قدم اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے آپ نے ایک طرف اس خوفناک طوفان کو پھیلتا بڑھتا اور دوسری طرف اپنے دست و بازو مُجاہدوں کو بدحواس ہو کر پیچھے ہٹتا ہوا دیکھا ــــــ مگر خُدا کا پیغمبرﷺ پھر بھی اپنی جگہ چٹان کی طرح سینہ سپر تھا۔ آپ ﷺ کے چہرے سے خوف نہیں ایک زبردست جلال ٹپک رہا تھا ـــــــ جیسے آپﷺ کو دُکھ نہ تھا کہ محمد (ﷺ) کو جان سے زیادہ پیار کرنے والے آج محمد(ﷺ) کو اکیلا چھوڑ کر پسپا کیوں ہو گئے ؟ جیسے آپﷺ کو حیرت نہ تھی کہ شہادتِ حق کی بہترین آرزو میں سربکف مُجاہدوں کو یہ کیا ہوا ہے ؟ نہیں ! ـــــــ اس وقت آپﷺ کے دل میں اس جذبۂ یقین کے سوا کوئی شے موجزن نہ تھی کہ آپﷺ خدا کے بالکل سچّے رسول ہیں۔ رسالت کا یہی یقین اس وقت لمحہ بہ لمحہ ایک جلال کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ یہ جلال ایک بہترین حُسن تھا۔ یہ حُسن ایک ناقابلِ شکست طاقت تھی ! یہ طاقت ایک ایسے یقین و ایمان ایسے صبر و سکون __ ایسے توکّل اور طمانیت کا سرچشمہ تھی جو کبھی خشک نہیں ہوتا ۔
پسپائی خواہ کسی وجہ سے ہو نو آموز مُجاہدوں کی ناتجربہ کاری یہ رنگ لائی ہو یا خون کی جبلّت نے بے ساختہ سر اُٹھایا ہو سوال یہ تھا کہ کیا طوفان کے ریلے میں بہہ جانے والے رسالت کے اس جلالِ یقین کے سہارے ایک بار پھرطوفان میں قدم جما سکیں گے ؟ کیا ایک بار پھر محمد ﷺکے جاں نثار محمد عربی ﷺ_رسولِ عربیﷺ پر پروانہ وار قربان ہونے کے لیے پلٹ پڑیں گے ؟ کیا ایک بار پھراُحد کا وہ منظر تاریخ دیکھ سکے گی جہاں رسالت کے اس حسین ترین وجود کو بچانے کے لیے محمدﷺ کے "دیوانوں" نے گرتی ہوئی ننگی تلواروں کو ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا ۔ اور سینوں کو ڈھال بنا کر ترکش کے ترکش اپنے سینوں پر خالی کرائے تھے _ جہاں کمز ور عورتوں نے ایمان کے جوش میں زخموں سے چور ہو ہو کر حملہ آور فوجوں پر جست کی تھی۔ جہاں پیغمبر ﷺکے رخساروں کی آہنی کڑیاں نکالنے کے لیے فدا کار مرد نے اپنے دانت ریزہ ریزہ کر ڈالے تھے ۔ جہاں رسالت کی شمع پر وجد کرتے ہوئے پروانوں کو موت ! یقینی موت ہزاروں تیروں اور تلواروں سے ڈرانے کی کوشش میں بُری طرح ناکام ثابت ہوئی تھی ۔ جہاں انسان کے لیے انسانوں کی ایک ایسی اتھاہ عقیدت دکھائی دی تھی جس کے لیےانسان کی جذباتی زبان میں کوئی بھی لفظ موجود نہیں ۔

علم و کتاب

27 Oct, 10:47


انتظار نعیم ۔ اجالوں کے علمبردار رہئے۔
https://youtu.be/5QMRN80aaVM?si=PqE7J1OKOqtHT9Wz

علم و کتاب

27 Oct, 09:39


احساسات جو دل کو چھو جائیں ، دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے وہ الفاظ جو جذبات کو جھنجھوڑتے ہیں ، تربیت کے نمونے ، اعجاز رحمانی صاحب کا برِوقت موقع و محل کی مناسبت سے اشعار کا بہترین انتخاب ، قوم کے لیے ان کا درد اور اس کا اثر اشعار میں جو آنکھوں میں آنسو بھر دیتا ہے ۔ حضرت! اللہ پاک آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ۔ہم آپ کی تحریروں سے بہت ہی استفادہ کرتے ہیں
والسلام
*سلیم احمد گلبرگہ*

علم و کتاب

27 Oct, 08:19


کسی عظیم ، مشہورومعروف شخصیت ( شاعر ، ادیب ، مصنف یا عالم وغیرہ ) کا ذکر ہو تو مولانا منیری صاحب یادوں کی تلاش میں گزرے ہوئے زمانے کی سردیوں کی گلابی رات ، گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر ، موسم بہار کی مہکتی ہوئی صبح یا پھر خزاں رسیدہ شام کے مناظر میں کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہیں ، ماضی کے ادھ کھلے دریچوں میں گم نظر آتے ہیں ،

اور پھر تلاش بسیار کے بعد وہ یوں کامیاب و کامران واپس ہوتے ہیں کہ قابل ذکر شخصیت بھی حال کے مزے لوٹنے انہیں کے ساتھ چلی آتی ہے ،

اس بار 1980 میں ہونیوالے مشاعرے سے وہ اعجاز رحمانی کو دعوت سخن دیتے ہوئے اپنے ساتھ لے آئے ،

دوستوں یہاں اس بات کا قوی احساس ہوتا ہے کہ یاد ماضی عذاب نہیں ثواب ہے ، نعمت ہے ، عطائے خداوندی ہے جو کسی کسی کے حصہ میں آتی ہے ،

پورا مضمون پڑھئے ، یہاں سیکھنے اور سمجھنے کے بیشمار مواقع موجود ہیں ، ایک مشاعرہ کی روداد نظر آئیگی ، رپورتاژ نظر آئیگا ، شخصیت سازی کے طریقے نظر آئیں گے ، صاحب مضمون کی تمام ادبی خوبیاں نظر آئینگی ، ان کی تصانیف اور ان پر تبصرے نظر آئینگے ، یادوں کو کس طرح سمیٹا جاتا ہے وہ نظر آئے گا ، خاکہ نگاری کی طریقے نظر آئینگے ،
ڈھونڈنے والوں کو مشاعروں کی بدلتی ہوئی ہیئیت نظر آئیگی ،
اعجاز رحمانی پر دوڑتی ہوئی انگلیوں کا اعجاز نظر آئیگا ،

میں دست بستہ منیری صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ماضی کے صحراوں میں بکھرے ہوئے دوستوں کو یکجا کریں اور باری باری انھیں جادوئی انگلیوں کے توسط سے گروپ پر سجاتے رہیں ،
منیری صاحب کے مضمون سے اعجاز رحمانی کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں :

یہ رنگ و نور کی بارش یہ خوشبوؤں کا سفر
ہمارے خون کی تحریک ہی سے جاری ہے

جگائیں اپنی سوئی ہوئی قوم کو اعجاز
تمام اہل قلم کی یہ ذمہ داری ہے

چپ رہنے میں جاں کا زیاں تھا ، کہنے میں رسوائی تھی
ہم نے جس خوشبو کو چاہا ، وہ خوشبو ہرجائی تھی

امن و اخوت، عدل، محبت وحدت کا پرچار کرو
انسانوں کی اس نگری میں انسانوں سے پیار کرو

آگ کے صحرائوں سے گزروخون کے دریا پار کرو
جو رستہ ہموار نہیں ہے اس کو بھی ہموار کرو

دین بھی سچا ،تم بھی سچےسچ کا ہی اظہار کرو
تاریکی میں روشن اپنی عظمت کے مینار کرو

نفرت کے شعلوں کو بجھادو پیار کی ٹھنڈک سے
ہمدردی کی فصل اگائو صحرا کو گلزار کرو
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

27 Oct, 03:58


سلسلہ نمبر: 222
انتخاب مطالعہ
تحریر: *حؔجة الاسلام الإمام محمد قاسم نانوتویؒ*


*آمدنی کے حلال اور حرام ہونے کی بنیاد*

رزق( آمدنی ) اپنی حلت و حرمت میں ان اسباب کا تابع ہوتا ہے جن کے وسیلے سے وہ رزق حاصل ہو،اگر وہ اسباب حرام ہوں تو وہ رزق بھی حرام رہے گا اور اگر اسباب حلال و مباح ہوں تو وہ رزق بھی حلال و مباح سمجھا جائے گا،مثلا: اگر رزق تجارت،کھیتی،کھانے پکانے، سینے پرونے کی مزدوری سے میسر آئے یا اس مال کے عوض مول لیا جائے جو اسباب مذکورہ سے ہاتھ آئے تو اس رزق کو حلال ہی کہیں گے اور اگر سود،زنا،چوری،غصب سے -مثلا- ہاتھ لگے تو اس کو حرام ہی کہیں گے،جب تک کہ صاحب مال بطیبِ خاطر اجازت نہ دے اور مباح نہ کرے،حلال و مباح نہیں کہہ سکتے۔
اور وجہ اس کی یہی ہے کہ ”جو شے جس راہ سے آتی ہے اس کی کیفیت اس کے ساتھ لاحق ہوجاتی ہے“ __ دیکھئے! نور اگر آئینۂ سبز،زرد،سرخ،سیاہ وغیرہ میں ہوکر آتا ہے تو ان آئینوں کی سبزی،زردی،سرخی، سیاہی وغیرہ اس کے نور کے ساتھ آئی ہیں،__ آدمی کے نطفے سے آدمی ہی کی شکل کا بچہ ہوتا ہے، تو اسی وجہ سے کہ وہ نطفہ اسی بدن سے آیا ہے اور گیہوں،چنے وغیرہ کے بیج پر اور انبہ،جامن وغیرہ کے تخم پر اگر ویسا ہی اناج اگتا ہے یا ویسا ہی پھل لگتا ہے تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ”اجزائے زمین اس بیج یا تخم کی راہ سے نکل کر باہر آتے ہیں“۔
الغرض! جو شے کسی شے پر موقوف ہو یعنی بے اس کے اس شے کے وجود کی کوئی صورت ہی نہ ہو،تو اس شے کا اثر اس دوسری شے میں ضرور ہوگا۔( فیوض قاسمیہ ص___ ٣٤ و ٣٥)

( *مؔاہنامہ الفرقان،لکھنؤ، جمادی الاولی ١٣٩٣ھ،صفحہ: 14*)

تسہیل: *مفتی سعید احمد صاحب پؔالنپوری قدس سرہ*

✍🏻...محمد عدنان وقار صدیقی
https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Oct, 03:54


مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر فیصلے کی گھڑی

معصوم مرادآبادی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندرچوڑ آئندہ ہفتہ سبکدوش ہونے والے ہیں۔ سبکدوشی سے قبل انھیں جن مقدمات پر اپنا فیصلہ صادر کرنا ہے، ان میں ایک اہم مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا بھی ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ اس فیصلے کی آمد سے پہلے علی گڑھ برادری میں خاصا تجسس پایا جاتا ہے، کیونکہ مودی سرکار نے اس حلف نامہ کو واپس لے لیا ہے، جو پچھلی یوپی اے سرکار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے، اس لیے سب کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مرکوز ہیں۔ اس دوران راجیہ سبھا میں سماجوادی پارٹی کے سرکردہ ممبر رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ دسمبر1981میں مرکزی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پاس کئے گئے ایک ترمیم شدہ آرڈی نینس کے توسط سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا گیا تھا، لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے 2005 میں اپنے ایک فیصلے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو خارج کردیا۔ عدالت عالیہ نے 1967 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا۔ رام جی لال سمن کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے پیش کیا گیا بل دراصل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں نے چونکہ انگریز سرکار کو تیس لاکھ روپے کی رقم جمع کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قایم کی تھی، اس لیے یہ واضح ہے کہ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ قایم کی گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1977 اور1979 کے لوک سبھا چناؤ کے جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت باجپئی اور اڈوانی سمیت بی جے پی کے بیشتر لیڈران جنتا پارٹی کے ممبر تھے۔اگر عدالت نے اپنا فیصلہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف صادر کیا تو یہاں سے ایک عجیب وغریب صورتحال جنم لے گی۔ وقف ترمیمی ایکٹ سے جوجھ رہے مسلمانوں کے سامنے ایک نیا چیلنج ہوگا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے۔عظیم مسلح قوم سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ اس دانش گاہ کی اہمیت وافادیت پوری دنیا پر عیاں ہے۔ اس کا وسیع وعریض کیمپس ہرشخص کو متاثر کرتا ہے۔ یہاں اتنی کشش ہے کہ اسے دیرتک دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔درحقیقت اتنا روحانی سکون کسی اور کیمپس میں نہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔یہ ان عظیم انسانوں کی قربانیوں کا فیض ہے جنھوں نے قوم کی تعلیم وتربیت میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ سرسیداحمد خاں اس کے سرخیل تھے،جنھوں نے اب سے ڈیڑھ سوسال پہلے اس دانش گاہ کا خواب دیکھا تھا۔آج ان کا یہ خواب ایک زندہ جاوید تعبیر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ سرسید کے بنائے ہوئے اس ادارے کو نقصان پہنچانے اور ختم کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں، لیکن تمام یورشوں کے باوجود سرسید کا یہ چمن لہلاتا رہا ہے۔
میں نے گزشتہ ہفتہ یوم سرسید کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی روز قیام کرکے وہاں کی رونقوں کا مشاہدہ کیا اور میں یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس دانش گاہ سے مسلمانوں کو جو جذباتی لگاؤ ہے وہ کسی اور دانش گاہ سے نہیں ہے۔اس لیے مسلمان یہاں کی ہر نقل وحرکت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے اقلیتی کردار کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی آمد سے قبل مسلمانوں میں پھیلی ہوئی تشویش کی لہر کو خوب محسوس کیا۔یہ ایک ایسی مرکزی یونیورسٹی کے جس کے کیمپس مرشدآباد(معربی بنگال)کشن گنج (بہار)اور ملاپورم (کیرل)میں بھی موجود ہیں۔یہ صرف مسلمانوں کو ہی تعلیم نہیں دیتی بلکہ یہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم طلباء اور طالبات بھی زیرتعلیم ہیں۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں تو غیر مسلم طلباء کی اکثریت ہے۔
واضح رہے کہ 1965 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے وزیرتعلیم عبدالکریم چھاگلہ کے ذریعہ اسے ختم کرایا تھا۔علی گڑھ برادری نے اس کے خلاف ایک تحریک منظم کی جو پورے ملک میں 1980تک چلی۔اس تحریک کے نتیجے میں دسمبر1981 میں مرکزی حکومت نے ایک آرڈی نینس کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا، لیکن بدقسمتی سے 2005میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کودوبارہ ختم کردیا۔دراصل 2005میں مسلم یونیورسٹی نے اپنے میڈیکل کورسز میں مسلم طلباء کے لیے پچاس فیصد سیٹیں مختص کی تھیں۔ اس کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر نریش اگروال بنام حکومت ہند(2005)میں چیلنج کیا گیا، جس نے مسلم یونیورسٹی کی

علم و کتاب

27 Oct, 03:54


ریزرویشن پالیسی کو رد کردیا۔ اس وجہ سے مسلم یونیورسٹی اور مرکزی حکومت نے2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔
اس معاملے میں 2016میں اس وقت ایک موڑ آیا جب2014میں نریندر مودی کی قیادت میں بنی این ڈی اے سرکار نے2016 میں اس فیصلے کے خلاف یوپی اے حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل واپس لے لی، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے متعلق دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ جاری رکھا۔2019 میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بینچ نے اس معاملے کو سات ججوں کی بینچ کے روبرو نظرثانی کے لیے بھیجا۔12/اکتوبر2023چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے سات ججوں کی بنچ تشکیل دی۔سماعت9/جنوری 2024کو شروع ہوئی۔ یکم فروری 2024کو سپریم کورٹ نے آٹھ دن کی سماعت کے بعدمسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔ سات ججوں کی دستوری بینچ اس بات پر غور کررہی ہے کہ کیا مسلم یونیورسٹی دفعہ 30کے تحت اقلیتی ادارے کے طور تسلیم کئے جانے کااہل ہے۔ دستور کی دفعہ ۰۳ کہتی ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قایم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کے حق دار ہیں۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بینچ 1967کے دستوری بینچ کی طرف سے عزیزباشا بنام ہندوستانی حکومت پر دئیے گئے فیصلے پر بھی دوبارہ غور کررہی ہے، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل نہیں ہے کیونکہ اس کا قیام برطانوی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آرڈی نینس 1920کے ذریعہ کیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ1981میں مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال کرتے ہوئے آرڈی نینس میں جو تبدیلی کی گئی تھی اس میں واضح طورپر یہ کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ”ہندوستانی مسلمانوں“ نے کیا تھا۔ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے کہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی ترقی کے ارادے سے 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹیل (ایم اے او)کالج قایم کیا تھا۔اے ایم یو آرڈی نینس 1920کے پاس ہونے کے بعد اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدل دیا گیا۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد مسلم یونیورسٹی نے اپنا اقلیتی کردار چھوڑ دیا۔ انھوں نے دلیل دی ہے کہ مسلمانوں نے یونیورسٹی کا کنٹرول برٹش سرکار کو سونپ دیا، اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے بانی برٹش سرکار کے تئیں وفادار تھے اور انھوں نے اپنا مذہبی درجہ انگریزوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کے مطابق کئی اداروں نے برٹش سرکار کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا،جنھیں مسلم یونیورسٹی کے برخلاف آج اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہے۔سالیسٹر جنرل نے اپنی بات کے حق میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مثال دی۔ حکومت ہند نے عزیزباشا فیصلے پر بھی اعتماد کیا، جس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اے ایم یو آرڈی نینس کے ذریعہ اے ایم یو میں تبدیل ہونے کے بعد ایم اے او نے اپنی مذہبی حیثیت کھودی ہے۔

علم و کتاب

27 Oct, 03:08


انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۱۷
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق یہود و نصاریٰ کے ایک اہم جرم یعنی عصمت انبیاعلیہ السلام کے حوالے سے ان کی گستاخی سے ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں انبیائے سابقین کا ذکر آیا ہے قرآن نے ان کی نصرت و حمایت کا فرض ادا کیا ہے ۔
انشائے ماجدی

”یہود و نصاریٰ نے اہل کتاب ہونے اور نبوت وسلسلہ ءوحی پر ایمان رکھنے کے باوجود اپنے نوشتوں میں کوئی کسر عصمت انبیاء علیہ السلام کے داغدار بنانے میں اٹھا نہیں رکھی، اس لیے قرآن مجید جہاں جہاں انبیاء سابق کا ذکر کرتا ہے اکثر ان حضرات کی اخلاقی وروحانی عظمت پر بھی زور دیتا ہے اور اس طرح انبیائے برحق کی نصرت و حمایت کا فرض توریت و انجیل کی عائد کی ہوئی فرد جرم کے مقابلے میں ادا کرتا جاتا ہے ۔یہ عجیب و غریب اہل کتاب، نبی اور نبوت کے قائل گویا ان الفاظ کے صرف لفظی معنی میں تھے یعنی نبی وہ ہے جو کاہنوں،جوتشیوں کی طرح غیب کی خبریں دے سکے اور اس سے انہیں کوئی بحث ہی نہ تھی کہ اس کے اخلاق کا کیا عالم تھا ،اس کے روحانی کمالات کس درجے کے تھے، اس کی تعلیمات کیا تھیں وقس علیٰ ھذا۔ ابراہیم علیہ السلام خلیل تو اکثر انبیاء علیہ السلام کے ابو لآبا ہیں ۔آپ کی عصمت کے تحفظ کا تو قرآن میں اور زیادہ اہتمام رکھا ہے۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اول ،صفحہ نمبر۲۵۳)

علم و کتاب

27 Oct, 03:08


کیا گیا، جس نے مسلم یونیورسٹی کی ریزرویشن پالیسی کو رد کردیا۔ اس وجہ سے مسلم یونیورسٹی اور مرکزی حکومت نے2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔
اس معاملے میں 2016میں اس وقت ایک موڑ آیا جب2014میں نریندر مودی کی قیادت میں بنی این ڈی اے سرکار نے2016 میں اس فیصلے کے خلاف یوپی اے حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل واپس لے لی، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے متعلق دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ جاری رکھا۔2019 میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بینچ نے اس معاملے کو سات ججوں کی بینچ کے روبرو نظرثانی کے لیے بھیجا۔12/اکتوبر2023چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے سات ججوں کی بنچ تشکیل دی۔سماعت9/جنوری 2024کو شروع ہوئی۔ یکم فروری 2024کو سپریم کورٹ نے آٹھ دن کی سماعت کے بعدمسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔ سات ججوں کی دستوری بینچ اس بات پر غور کررہی ہے کہ کیا مسلم یونیورسٹی دفعہ 30کے تحت اقلیتی ادارے کے طور تسلیم کئے جانے کااہل ہے۔ دستور کی دفعہ ۰۳ کہتی ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قایم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کے حق دار ہیں۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بینچ 1967کے دستوری بینچ کی طرف سے عزیزباشا بنام ہندوستانی حکومت پر دئیے گئے فیصلے پر بھی دوبارہ غور کررہی ہے، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل نہیں ہے کیونکہ اس کا قیام برطانوی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آرڈی نینس 1920کے ذریعہ کیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ1981میں مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال کرتے ہوئے آرڈی نینس میں جو تبدیلی کی گئی تھی اس میں واضح طورپر یہ کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ”ہندوستانی مسلمانوں“ نے کیا تھا۔ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے کہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی ترقی کے ارادے سے 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹیل (ایم اے او)کالج قایم کیا تھا۔اے ایم یو آرڈی نینس 1920کے پاس ہونے کے بعد اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدل دیا گیا۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد مسلم یونیورسٹی نے اپنا اقلیتی کردار چھوڑ دیا۔ انھوں نے دلیل دی ہے کہ مسلمانوں نے یونیورسٹی کا کنٹرول برٹش سرکار کو سونپ دیا، اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے بانی برٹش سرکار کے تئیں وفادار تھے اور انھوں نے اپنا مذہبی درجہ انگریزوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کے مطابق کئی اداروں نے برٹش سرکار کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا،جنھیں مسلم یونیورسٹی کے برخلاف آج اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہے۔سالیسٹر جنرل نے اپنی بات کے حق میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مثال دی۔ حکومت ہند نے عزیزباشا فیصلے پر بھی اعتماد کیا، جس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اے ایم یو آرڈی نینس کے ذریعہ اے ایم یو میں تبدیل ہونے کے بعد ایم اے او نے اپنی مذہبی حیثیت کھودی ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

27 Oct, 03:08


مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر فیصلے کی گھڑی

معصوم مرادآبادی
https://telegram.me/ilmokitab
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندرچوڑ آئندہ ہفتہ سبکدوش ہونے والے ہیں۔ سبکدوشی سے قبل انھیں جن مقدمات پر اپنا فیصلہ صادر کرنا ہے، ان میں ایک اہم مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا بھی ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ اس فیصلے کی آمد سے پہلے علی گڑھ برادری میں خاصا تجسس پایا جاتا ہے، کیونکہ مودی سرکار نے اس حلف نامہ کو واپس لے لیا ہے، جو پچھلی یوپی اے سرکار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے، اس لیے سب کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مرکوز ہیں۔ اس دوران راجیہ سبھا میں سماجوادی پارٹی کے سرکردہ ممبر رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ دسمبر1981میں مرکزی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پاس کئے گئے ایک ترمیم شدہ آرڈی نینس کے توسط سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا گیا تھا، لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے 2005 میں اپنے ایک فیصلے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو خارج کردیا۔ عدالت عالیہ نے 1967 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا۔ رام جی لال سمن کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے پیش کیا گیا بل دراصل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں نے چونکہ انگریز سرکار کو تیس لاکھ روپے کی رقم جمع کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قایم کی تھی، اس لیے یہ واضح ہے کہ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ قایم کی گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1977 اور1979 کے لوک سبھا چناؤ کے جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت باجپئی اور اڈوانی سمیت بی جے پی کے بیشتر لیڈران جنتا پارٹی کے ممبر تھے۔اگر عدالت نے اپنا فیصلہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف صادر کیا تو یہاں سے ایک عجیب وغریب صورتحال جنم لے گی۔ وقف ترمیمی ایکٹ سے جوجھ رہے مسلمانوں کے سامنے ایک نیا چیلنج ہوگا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے۔عظیم مسلح قوم سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ اس دانش گاہ کی اہمیت وافادیت پوری دنیا پر عیاں ہے۔ اس کا وسیع وعریض کیمپس ہرشخص کو متاثر کرتا ہے۔ یہاں اتنی کشش ہے کہ اسے دیرتک دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔درحقیقت اتنا روحانی سکون کسی اور کیمپس میں نہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔یہ ان عظیم انسانوں کی قربانیوں کا فیض ہے جنھوں نے قوم کی تعلیم وتربیت میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ سرسیداحمد خاں اس کے سرخیل تھے،جنھوں نے اب سے ڈیڑھ سوسال پہلے اس دانش گاہ کا خواب دیکھا تھا۔آج ان کا یہ خواب ایک زندہ جاوید تعبیر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ سرسید کے بنائے ہوئے اس ادارے کو نقصان پہنچانے اور ختم کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں، لیکن تمام یورشوں کے باوجود سرسید کا یہ چمن لہلاتا رہا ہے۔
میں نے گزشتہ ہفتہ یوم سرسید کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی روز قیام کرکے وہاں کی رونقوں کا مشاہدہ کیا اور میں یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس دانش گاہ سے مسلمانوں کو جو جذباتی لگاؤ ہے وہ کسی اور دانش گاہ سے نہیں ہے۔اس لیے مسلمان یہاں کی ہر نقل وحرکت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے اقلیتی کردار کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی آمد سے قبل مسلمانوں میں پھیلی ہوئی تشویش کی لہر کو خوب محسوس کیا۔یہ ایک ایسی مرکزی یونیورسٹی کے جس کے کیمپس مرشدآباد(معربی بنگال)کشن گنج (بہار)اور ملاپورم (کیرل)میں بھی موجود ہیں۔یہ صرف مسلمانوں کو ہی تعلیم نہیں دیتی بلکہ یہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم طلباء اور طالبات بھی زیرتعلیم ہیں۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں تو غیر مسلم طلباء کی اکثریت ہے۔
واضح رہے کہ 1965 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے وزیرتعلیم عبدالکریم چھاگلہ کے ذریعہ اسے ختم کرایا تھا۔علی گڑھ برادری نے اس کے خلاف ایک تحریک منظم کی جو پورے ملک میں 1980تک چلی۔اس تحریک کے نتیجے میں دسمبر1981 میں مرکزی حکومت نے ایک آرڈی نینس کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا، لیکن بدقسمتی سے 2005میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کودوبارہ ختم کردیا۔دراصل 2005میں مسلم یونیورسٹی نے اپنے میڈیکل کورسز میں مسلم طلباء کے لیے پچاس فیصد سیٹیں مختص کی تھیں۔ اس کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر نریش اگروال بنام حکومت ہند(2005)میں چیلنج

علم و کتاب

26 Oct, 19:51


ابھی تعلیم جاری ہی تھی کہ تقسیم ہند کا واقعہ پیش آیا، گھر کے حالات اچھے نہیں تھے، نانِ شبینہ کی ضرورت پوری نہیں ہورہی تھی، نوزائیدہ مملکت کی شہرت سن کر گھر میں کسی کو بتائے بغیر 1954ء میں پاکستان کا رخ کیا۔ یہاں آپ کو چند سال تلاشِ معاش کے لیے جدوجہد کرنی پڑی، جس کے بعد 1958ء میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں آپ کو ملازمت ملی۔ اس ملازمت میں آپ نے پچیس سال گزارے۔ تنخواہ اچھی تھی، زندگی خوش و خرم گزر رہی تھی، گھر کی تربیت بھی اچھی تھی، اسکول میں ٹیچر بھی بہترین اور ہمدرد ملے تھے، وہ تعلیم و تربیت کے ہنر سے آگاہ تھے، ان میں آپ کی دادی کی ماموں زاد بہن قمر جہاں بھی تھیں، جو اسکول میں نمازوں اور وضع قطع وغیرہ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ان کے اندازِ تربیت کی ایک مثال یہ تھی کہ ایک مرتبہ ڈرل کا کوئی مظاہرہ تھا، آپ کے کرتے کا بٹن ٹوٹا ہوا تھا، قمر جہاں صاحبہ نے ایک روپیہ اس بچے کو دے کر بٹن بنوانے کو بھیجا،چالیس کی دہائی میں یہ بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ ایسی ہی تربیت تھی کہ سگریٹ فیکٹری میں طویل ملازمت کے باوجود کبھی آپ نے سگریٹ منہ کو نہیں لگایا، حالانکہ مفت میں معیاری سگریٹ یہاں بہت دستیاب تھے۔
انہی دنوں آپ نے کراچی سے اردو فاضل کا امتحان پاس کیا، شاعری کی لت انڈیا ہی میں لگ چکی تھی، جہاں آپ فلمی طرز پر کلام پڑھتے تھے، کراچی میں آپ کے والد کے ماموں فلاح جلالوی صاحب، عالم فاضل آدمی تھے، انہوں نے آپ کو مشاعروں میں کلام پڑھنے پر آمادہ کیا، اور اُس دور میں اردو کے اعلیٰ پائے کے استاد شاعر قمر جلالوی سے کلام کی اصلاح کے لیے ملوایا۔ کچھ مدت یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن پھر اس کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ شعری ملکہ اللہ نے گھٹی میں ڈال رکھا تھا۔ قمر جلالوی صاحب کا انتقال 1968ء میں ہوا، جس کے بعد آپ کے کئی شاگردوں نے اصلاح کے لیے آپ سے رجوع کیا۔ اعجاز رحمانی کا پہلا مجموعہ کلام استاد کی رحلت کے پانچ سال بعد 1973 ء میں ”اعجازِ مصطفیٰ ؐ“کے نام سے منظر عام پر آیا۔1970ء میں الیکشن کے موقع پر آپ کی فکری وابستگی جماعت اسلامی سے ہوئی، 1972ء میں جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو اعجاز رحمانی جماعت اسلامی کی زبان بن گئے، اُس وقت ان کے کئی اشعار زبانوں پر عام ہوئے جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا:
جھوٹے ہیں سب دعوے ان کے، طوفان کا رخ موڑیں گے
دل تو ہمارا توڑ رہے ہیں کیا وہ ستارے توڑیں گے
اعجار رحمانی نے غزل، نظم سمیت ہر صنفِ سخن میں مشق آزمائی کی اور کامیاب ہوئے۔ آپ کی نظموں اور غزلوں کو مشاعروں میں ہمیشہ پذیرائی ملی۔ آپ نے بڑے بڑوں کی موجودگی میں خود کو منوا لیا، مثلًا1980ء میں ابوظہبی کانٹی نینٹل ہوٹل کے افتتاح کے موقع پر جو مشاعرہ ہوا تھا، اُس میں میزبان انہیں اہمیت نہ دے کر کنارے کررہے تھے، نعت کا مشاعرہ ہونے کے باوجود آپ کو موقع نہیں مل رہا تھا، اُس وقت آپ نے آگے بڑھ کر اپنی نظم پیش کی تھی، جس نے مشاعرے میں دھوم مچائی اور باربار اسے پڑھنے کی درخواست کی گئی تھی، اس کا مطلع یوں تھا:
چپ رہنے میں جاں کا زیاں تھا، کہنے میں رسوائی تھی
ہم نے جس خوشبو کو چاہا، وہ خوشبو ہرجائی تھی
آپ نے کامیابیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ ”خوشبو کا سفر“، ”سلامتی کا سفر“، ”لہو کا آبشار“، ”جذبوں کی زبان“، ”آخری روشنی“، ”پہلی کرن“، ”اعجازِ مصطفیٰؐ“،” کاغذ کے سفینے“،”افکار کی خوشبو“ ، ”غبارِ انا“، ”لمحوں کی زنجیر“،”چراغِ مدحت“، ”گلہائے سلام ومنقبت“ کے عنوان سے نعتوں اور غزلوں مجموعے شائع ہوئے، اور حمد و نعت اور کلام کی کئی کلیات شائع ہوکر مقبول ہوئیں۔ آپ کے ترانوں کو بھی بڑی مقبولیت ملی۔ آپ نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منظوم پیرائے میں ڈھالا، اور سیرت پر ایک ضخیم کتاب لکھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منظوم سیرت ”رفیقِ رسولؐ“، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ”دعائے رسولؐ“، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ”ضیائے رسولؐ“ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ”برادرِ رسولؐ“ کے عنوان سے مرتب کیں۔ امہات المومنین کی منظوم سیرت پر کام جاری تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کئی سو بند تیار ہوگئے تھے۔ بعد میں اس کی اطلاع نہیں ملی۔ہمیں ایک طویل عرصے تک اعجاز صاحب سے ملاقات کا موقع نہیں ملا، البتہ جسارت وغیرہ میں آپ کے قطعات پر نظر پڑتی تھی، لیکن 1986ء میں نشتر پارک کے اجلاس میں پڑھی ہوئی نظم نے ہمیں آپ کا گرویدہ بنایا، اس کے ابتدائی بند کو ہماری ترتیب کردہ ویڈیو سیریز کی نمبرنگ میں بطور ٹائٹل استعمال کیا گیا ہے۔ نظم یہ تھی:
امن و اخوت، عدل، محبت
وحدت کا پرچار کرو
انسانوں کی اس نگری میں
انسانوں سے پیار کرو
آگ کے صحرائوں سے گزرو
خون کے دریا پار کرو
جو رستہ ہموار نہیں ہے اس کو بھی ہموار کرو
دین بھی سچا ،تم بھی سچے
سچ کا ہی اظہار کرو
تاریکی میں روشن اپنی عظمت کے مینار کرو
نفرت کے شعلوں کو بجھادو
پیار کی ٹھنڈک سے
ہمدردی کی فصل اگائو
صحرا کو گلزار کرو
سچے روشن حرف لکھو

علم و کتاب

26 Oct, 19:51


یہ ظلمت خود کٹ جائے گی
اپنے قلم کو تیشہ کرلو
لہجے کو تلوار کرو
عزت، عظمت، شہرت یارو
دامن میں اسلام کے ہے
وقت یہی ہے سنگ زنوں کو آئینہ کردار کرو
دنیا ہویا دین کی منزل
یکجہتی سے ملتی ہے
وحدت کا پیغام سنا کر
ذہنوں کو بیدار کرو
انسان کو راحت نہ ملے گی
دنیا بھر کے ازموں سے
اس دنیا میں نافذ لوگو
حکم شہِ ابرار کرو
سرخ سمندر والی لہریں
دور بہا لے جائیں گی
ہوش میں آئو
سبز ہلالی پرچم کو پتوار کرو
سورج بننا مشکل ہے تو
جگنو ہی بن جائو تم
بھائی ہوتو بھائی کی خاطر
اتنا تو ایثار کرو
کچھ تو اپنے ہم سائے پہ
پیار کا رشتہ رہنے دو
اعجاز اپنے گھر کی اونچی
اتنی مت دیوار کرو
اعجاز رحمانی صاحب 1988ء میں ڈاکٹر سید انور علی مرحوم کے انٹرنیشنل اسکول ابوظہبی کے منعقد کردہ مشاعرے میں ایک طویل عرصے بعد نظر آئے، اس میں آپ کے ساتھ حفیظ میرٹھی، سحر انصاری، اور انتظار نعیم نے خوب رنگ جمایا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بھٹکلی احباب کی کسی مجلس میں وہ تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد وہ جب بھی آئے اپنائیت کا مظاہرہ کیا، اور ان کی محفلوں کو خوب گرمایا۔ وہ یہاں 1991ء میں ڈاکٹر اطہر علی زیدی کے عالمی عرب اردو مشاعرے میں آئے تو اُس وقت بھٹکل کے استاد شاعر محمد حسین فطرت بھی موجود تھے، خوب مجلسیں رہیں۔ اس کے بعد ستمبر 2001ء میں بھی ان کی خوب مجلس رہی۔ ان مجالس میں حمد و نعت، غزلیات اور نظموں پر مشتمل 40 سے زیادہ کلام ریکارڈ محفوظ کرنے کا ہمیں موقع ملا، جو اردو آڈیو ڈاٹ کام www.urduaudio.com پر محفوظ ہیں۔
مورخہ 6جنوری 2014ء کو آخری مرتبہ آپ سے ملاقات نصیب ہوئی، اس روز ایک مختصر نشست رکھنا نصیب ہوا تھا، اُس وقت دل کا دورہ پڑنے کے ایک عرصے بعد تشریف لائے تھے، اس کے بعد وہ خاصے کمزور ہوگئے تھے۔ وہ شخص جو دو تین گھنٹے پوری توانائی اور رعنائی کے ساتھ کلام پڑھ کر نہیں تھکتا تھا اب خاصا ضعیف ہوچکا تھا، ایک نظم پڑھنے ہی میں سانس اکھڑنے لگتی تھی۔ اُس وقت آپ سے بڑی پیاری باتیں ہوئی تھیں۔
اعجاز رحمانی کے اس دنیا سے کوچ کرنے کی خبر سے دل کو بڑا صدمہ پہنچا، وہ ایسے آدمی نہیں تھے کہ آسانی سے انہیں بھلا دیا جائے، اخلاق ان کی سیرت میں رچا بسا تھا، وہ ایک ملنسار انسان تھے، ان کی شخصیت بڑی انس اور محبت رکھنے والی تھی، ایسے لوگوں کی زندگی کے نقوش دل پر پتھر کی لکیر بن جاتے ہیں۔
اعجاز صاحب کو احساس تھا کہ انہیں اپنوں سے وہ پذیرائی نہیں ملی جو انہیں دوسروں سے ملی، جس تحریک سے ان کا دلی لگائو تھا، یہ تحریک بنیادی طور پر ادبِ اسلامی کی بھی تحریک تھی، اور اس کے لیے انہوں نے اپنی توانائیاں صرف کی تھیں، اب وہاں پر ادب سے لگائو ختم ہوتا جارہا ہے، آپ کے جانے کے بعد ایک خلا محسوس ہورہا ہے۔ ایسا شاعرو ادیب جو محبوب بھی ہو، اس کا کلام دلچسپی سے ہر محفل میں سنا جاتا ہو، دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ مرنے والے کی تعریفیں تو بہت کی جاتی ہیں، لیکن ایسی تعریف کس کام کی جب مرنے والے کی جلائی ہوئی شمع بجھ جائے، اور اس سے دوسری شمع نہ جل سکے۔ اعجاز صاحب کا جب تذکرہ ہوتا ہے، یا ان کی یاد آتی ہے تو ان کی جو بے شمار نعتیں اور نظمیں کانوں میں گونجنے لگتی ہیں، ان میں آپ کی یہ نظم بھی شامل ہے:۔
ہم اجالوں کے پیغام بر ہیں
روشنی کی حمایت کریں گے
جو دیئے ہم نے روشن کیے ہیں
ان دیوں کی حفاظت کریں گے
اپنے سورج کو بجھنے نہ دیں گے
چاند روشن رہے گا ہمارا
یہ اندھیرے جو ہیں نفرتوں کے
ان اندھیروں کو رخصت کریں گے
جو تعصب کی کرتے ہیں باتیں
وہ تو اپنے دشمن ہیں یارو
ہم محبت کے پیغام بر ہیں
ہم تو سب سے محبت کریں گے
طالب علم ہو یا کہ تاجر
ہو وہ مزدور یا کہ ہاری
یہ وطن سب کا پیارا وطن ہے
سب ہی مل کے خدمت کریں گے
بادِ نفرت مٹا دے گی سب کچھ
آتشِ گل جلا دے گی سب کچھ
کیا رہے گا چمن میں بتائو
پھول ہی جب بغاوت کریں گے
ہر حکومت تو ہے آنی جاتی
ہے محبت مگر جاودانی
تخت اور تاج تم کو مبارک
ہم دلوں پر حکومت کریں گے
امن ہے جان سے ہم کو پیارا
اتحاد اپنا اعجاز نعرہ
بھائی سے بھائی کو جو لڑائے
ہم نہ ایسی سیاست کریں گے
شاید ان کی زندگی کا پیغام بھی یہی ہے، جس کے لیے وہ جیے، اور جس کی وہ تمنا عمر بھر کرتے رہے۔ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ کی شناخت بنی، شاید اس کا محور بھی یہی پیغام ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آپ کا نام تادیر زندہ رہ کر سوئے ہوئے دلوں کو جگاتا رہے گا، اللہ مغفرت کرے، اور درجات بلند کرے۔

علم و کتاب

26 Oct, 19:51


*اعجاز رحمانی قوم کو جگانے والا شاعر*
(وفات مورخہ : ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء پر لکھی گئی ایک تحریر)

*تحریر: عبدالمتین منیری*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

یہ 1980ء کے موسم سرما کی ایک ٹھنڈی شام تھی، دبئی کریک پر واقع عالیشان ہوٹل شیرٹن کے وسیع و عریض ہال میں دبئی کی تاریخ کے پہلے عالمی اردو مشاعرے کی محفل سجی تھی،اس میں اُس وقت کے برصغیر کے مایہ ناز اور بزرگ شعراء شریک تھے، ان میں کلیم احمد عاجز، حفیظ میرٹھی، جگن ناتھ آزاد، فنا نظامی کانپوری، شاعر لکھنوی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی، اقبال صفی پوری، احمد ندیم قاسمی، دلاور فگار، سید اقبال عظیم جیسے عظیم شاعر حاضر تھے۔ یہ مشاعرے کی تاریخ کا ایک ایسا معیاری مشاعرہ تھا، جس کے بعد نہ صرف یہاں بلکہ شاید برصغیر میں بھی ایسی کہکشاں دوبارہ نہیں سجی، کیونکہ چند سال میں یہ کہکشاں ٹوٹنے لگی، اور اس محفل کو رونق بخشنے والے یہ شاعر جہاں ایک طرف اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے مشاعروں میں شرکت سے معذور ہونے لگے، تو دوسری طرف ان کی بڑی تعداد ایک عشرے کے اندر دارِ فانی سے کوچ کرگئی۔ اس مشاعرے کی نظامت قادرالکلام اور استاد شاعر حضرت راغب مرادآبادی کے حصے میں آئی تھی، جن کی برجستہ گوئی اور عروض پر قدرت کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے، وہ بروقت شعراء کے نام پر مشتمل اشعار ڈھال کر انہیں دعوتِ سخن دے رہے تھے۔ حفظِ مراتب کو دیکھتے ہوئے میزبان مقامی شعراء کے کلام سے اس محفل کا آغاز ہوا۔ اردو مشاعرے کی روایت اس سے پہلے دبئی میں کہاں تھی! حاضرین میں سے ایک بڑی تعداد کو معلوم بھی نہیں تھا کہ مشاعرے کی بھی کوئی تہذیب ہوا کرتی ہے۔ اب آوازے کسے جانے لگے، ایسی ہوٹنگ ہونے لگی کہ الامان الحفیظ۔ ہڑبونگ ایسی مچی کہ منتظمینِ مشاعرہ آئندہ ایسی کوئی محفل سجانے سے توبہ کرلیں۔ اور جب یہ بے ہودگی اپنے عروج پر تھی اور کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ایسے میں ناظمِ مشاعرہ نے ایک ایسے شاعر کو آواز دی جس کی عمر چالیس سے کچھ ہی متجاوز تھی، چہرے مہرے پر جوانی کے آثار نمایاں تھے، اور غالباً مہمان شعراء میں وہ سب سے کم عمر تھے، یہ تھے اعجاز رحمانی، جن کا مکمل نام سید اعجاز علی رحمانی تھا۔ ناظمِ مشاعرہ نے سامعین کی آوازوں کی گونج میں مہمان شاعر کے بارے میں ایک شعر پڑھ کر صرف اتنا بتا یا کہ کراچی سے آئے ہیں، اور شاعرِ موصوف نے بغیر کسی تمہید ، دا د طلبی ، یا شاعرانہ تکلفات کے اپنی غزل پیش کردی، جس کے پہلے ہی شعر نے سامعین کو چوکنا کردیا، اور یک لخت ہوٹنگ بند ہوکر واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مشاعرے کا رنگ یکسر بد ل گیا۔ اعجاز رحمانی نے اپنی باری اس غزل سے شروع کی تھی:۔
جنوں کا رقص تو ہر انجمن میں جاری ہے
فرازِ دار پہ لیکن سکوت طاری ہے
مزید عرضِ تمنا کا حوصلہ ہے کسے
ابھی تو پہلی نوازش کا زخم کاری ہے
یہ رنگ و نور کی بارش، یہ خوشبوئوں کا سفر
ہمارے خون کی تحریک ہی سے جاری ہے
نصیب سایہ گل ہے جنہیں وہ کیا جانیں
ہمارے پائوں کی زنجیر کتنی بھاری ہے
سحر کو رنگ ملا ہے اسی کے صدقے میں
ستونِ دار پہ ہم نے جو شب گزاری ہے
ہمیں نے کل بھی بچایا تھا شیش محلوں کو
ہمیں پہ آج بھی الزامِ سنگ باری ہے
کسی کو پرسشِ احوال کی نہیں فرصت
وہ کون ہے جسے احساسِ غم گساری ہے
جگائیں سوئی ہوئی اپنی قوم کو اعجاز
تمام اہلِ قلم کی یہ ذمہ داری ہے
اپنی عمر کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ قوم کو جگاکر یہ شاعر 26اکتوبر 2019ء کو کراچی میں ابدی نیند سوگیا۔
آپ نے اس دنیا میں 21 فروری 1936 ء کو شہر علی گڑھ کے محلہ اسرا میں آنکھ کھولی تھی،اس حساب سے آپ نے عمرِ عزیز کے 83سال اس دنیائے فانی میں گزارے۔آپ کے والدِ ماجد کا نام سید ایوب علی تھا، ابھی آپ کی عمر دو سال کی تھی کہ سایہ پدری سر سے اٹھ گیا ، آپ عمر کے نو یںسال میں تھےکہ والدہ نے بھی داغِ مفارقت دے دیا، اور آپ اپنی دادی ماں کے سایہ آغوش میں آگئے ، جو کہ بڑی باہمت خاتون تھیں، انہوں نے آپ کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بڑی حوصلہ مندی کا ثبوت دیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ پرائمری اسکول میں ہوئی۔ آواز بڑی خوبصورت پائی تھی، بچپن ہی سے اسکول میں نظمیں پڑھنے کے لیے پیش ہونے لگے، یہاں علامہ اقبال کی نظموں ”چین و عرب ہمارا“ وغیرہ کا بہت چلن تھا، جس سے بچپن ہی میں شاعری کا چسکا لگ گیا، اور گیارہ سال کی عمر ہی میں ایک مصرع تخلیق پا یا جو یوں تھا:
رواں دواں ہے میری نائو بحرِ الفت میں

علم و کتاب

26 Oct, 10:52


سے اور بھی اساتذہ دوچار تھے ، آج حالت قدرے بہتر ہے ، مولانا کے ایک صاحب زادے نے بچپن میں سکہ نگل لیا اور یہی موت کا بہانہ بن گیا ,مولانا اور اہلیہ محترمہ کو سخت صدمہ ہوا ، ندوہ میں ایسے موقع پر میت کے گھر کھانا بھیجنے کا رواج ہے لیکن اسکا طریقہ یہ ہیکہ مطبخ میں لکھوا دیا جاتا ہیکہ اتنے کھانے میری طرف سے بھیج دیئے جائیں ، میت کے گھر والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہیکہ کس نے بھیجوایا ، یہ سلسلہ کئ روز تک چلتا ہے ،اس وقت ندوہ کے بڑے اساتذہ میں بھی مشیخیت نہیں ہوتی تھی ، شیخ الحدیث مولانا ضیاء الحسن صاحب اور مولانا عارف صاحب سنبھلی جیسے سینیر اساتذہ اپنا سودا سلف بازار سے خود لاتے ، ڈالی گنج پل پر ایک مرتبہ مولانا ضیاء الحسن صاحب ندوی رح کو دیکھا ایک ٹھیلے والے سے کچھ خرید رہے ہیں ، میں پیچھے کھڑا ہوگیا ، مول تول کے بعد ٹھیلے والے نے سامان تول دیا ، مولانا نے کہا دوسرے پلرے میں رکھکر تولو ، اس نے اسی طرح کیا ، اس بار سامان والا پلرا اوپر اٹھ گیا ، مولانا نے تیز نظروں سے ٹھیلے والے کو دیکھا ، اسکی پریشانی دیدنی تھی ،اس ترکیب سے میں نے بھی متعدد مرتبہ فائدہ اٹھا یا ہے ، مولانا کا انتقال چھٹی میں ہوا ، بقرعید کا موقع تھا ، جسکی وجہ سے زیادہ تر طلبہ کاندھا نہیں دے سکے ، والدین کی نیکی کا فائدہ اولاد کو ملتا ہے ، مولانا کے پاس نہ گھر تھا ، نہ گھر کیلیے زمین ، تنخواہ سے روز مرہ کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوتے تھے ، زمین کہاں سے خریدتے اور مکان کس طرح بنواتے ،انتفال کے بعد اللہ نے ندوہ سے متصل گھربھی بنوا دیا اور وہی گھر گزر اوقات کا بھی ذریعہ بن گیا ، استانی صاحبہ کی ہمت کو سلام کہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ بھی کیا اور تینوں بیٹوں اور چار بیٹیوں کی شادی سے بھی فارغ ہوگئیں ، اور اب استانی صاحبہ مادر مہربان کے ساتھ ساس ، دادی اور نانی کی ذمہ داریاں بھی کامیابی سے نبہا رہی ہیں ،‌ صرف چھوٹی صاحبزادی کا عقد باقی ہے ، چھوٹے صاحبزادے سالم برجیس سلمہ اللہ کا ابھی حال میں عقد نکاح ہوا ، یہی مولانا رح کے معنوی جانشین بھی ہیں ، ندوہ سے فراغت کے بعد علیگڑھ کے ادارۂ تحقیقات اسلامی میں تصنیف وتالیف کی تربیت حاصل کر رہے ہیں ، لکھنے کا اچھا ذوق ہے ، ہزاروں شاگرد اور یہ نیک اولادیں مولانا کیلئے صدقۂ جاریہ ہیں ، اللہ مولانا کے درجات بلند کرے اور بچوں اور انکی والدہ کو دونوں جہان کی نعمتوں سے خوب خوب نوازے ،
---------------------
آفتاب عالم ندوی دھنباد
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

26 Oct, 10:52


گاہے گاہے باز خواں
-------------------------------------
استاد جو طلبہ کو گھول کر پلادینے کا گر جانتا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
https://telegram.me/ilmokitab
کتاب تھی ھدایۃ النحو ، اورعبارت تھی بالکل شروع کی , لئلا تشوش ذہن المبتدی عن ،، عن کے معنی کی ایسی تشریح کی کہ دوری مجسم ہوکر سامنے آگئ ، پڑھانے میں سرشاری کی کیفیت طاری ہوجاتی ، وہ بھی اس طرح کہ طلبہ اسکو محسوس ہی نہیں کرتے بلکہ نظروں سے بھی دیکھتے ، قد بھی چھوٹا ، جسم بھی مختصر ، ٹوپی دیوبندی جو اب تقریبا نایاب ہوگئ ہے ، کرتا بھی لمبا نہیں ، شکل وصورت بھی بارعب نہیں ، لیکن طلبہ انکی تدریس کے دیوانے تھے ، پڑھانے میں انہیں ایسی لذت ملتی کہ آواز کبھی جوش میں تیز ہوجاتی ،‌ کبھی مدھم ، کبھی تپائی سے چپک جاتے ، کبھی پہلو بدلتے ، مفہوم و مدعا کو اس طرح مختلف انداز سے بتاتے کہ طلبہ کے ذہن میں وہ نقش ہوجاتا ، مولانا کے ذمہ علوم آلیہ میں خصوصا ادب کی تدریس ہوتی تھی ، خوبصورت تعبیرات اور نادر تشبیہات کی خوب مزے لیکر تشریح کرتے ، ھر طالبعلم کی خواہش ہوتی کہ اسکا نام اس سیکشن میں آجائے جس میں مولانا کا گھنٹہ ہو , یہ خوبیاں ندوہ کے جس مثالی استاد کی بیان ہورہی ہیں اسکا نام ہے مولانا برجیس ، ھر اعتبار سے سیدھا سادہ انسان ، ذمہ داروں کے یہاں حاضری دیتے کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، اساتذہ کی میٹنگ میں بلائے جاتے تو شریک ہوجاتے ، کینٹن میں چائے کیلئے پابندی سے آتے اور اپنے مخصوص احباب ہی کے ساتھ بیٹھتے ، چائے میں الگ سے دو تین چمچ شکر ڈال کر پیتے , بازار بھی اپنے احباب ہی کے ساتھ جاتے ، ویسے گھر کی ذمہ داریوں اور بکھیڑوں سے استانی صاحبہ انہیں بے فکر کئے ہوئے تھیں ، وطن دربھنگہ بہار تھا ,دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوکر اپنے بڑے بھائی مولانا ادریس قاسمی رح کے ساتھ ندوہ آئے تھے ،ندوہ میں ادب کا دوسالہ کورسں کیا اور ندوہ ہی میں پڑھانے کیلئے تقرری ہوگئ ، خاص احباب میں مولانا یعقوب صاحب ندوی اور مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی رح تھے جو انہی کی طرح انتہائی باصلاحیت ، کئ زبانوں کے ماھر ، متواضع اور ہر وقت شاگردوں کو کچھ بنا دینے کی فکرکرنے والے تھے ،ا ستاد محترم مولانا برجیس صاحب رح کو لکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھے ، شائد زندگی میں کبھی کچھ نہیں لکھا ، وہ اول و آخر مدرس تھے ، مولانا کو تفہیم کا عجیب وغریب ملکہ حاصل تھا ، مولانا نے سوم عربی میں ایک کتاب شروع کروائی ، فن اور کتاب کے بارے میں ضروری باتیں بتاتے ہوئے مقدمہ ، موضوع اور غرض وغایت کے بارے میں طلبہ سے پوچھا ، میں یہ سب چیزیں مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ سے پڑھکر آیاتھا ، میں نے ہر ایک کی تعریف کردی ، مقدمہ مقدمہ الجیش سے ماخوذ ہے ، ،،،، اسی طرح موضوع اور غرض و غایت کی رٹی ہوئی تعریف بھی سنادی ، مولانا نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں ، طلبہ ان سے پڑھنے کے اتنے مشتاق رہتے تھے کہ ‌ انہیں مطالعہ اور حاضری کیلئے تنبیہ ا ور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں پڑتی ، دوسرے گھنٹے طلبہ چھوڑدیتے لیکن مولانا کے گھنٹے میں ذوق و شوق سے حاضر رہتے ، ندوہ میں تنخواہ بقدر ضرورت نہیں بقدر کفاف ملتی ہے ، اور یہی حال کم وبیشہ تمام مدارس دینیہ کا ہے ،‌ روز مرہ کی ضروریات کے علاوہ کوئی ضرورت پیش آجائے تو تنخواہ سے اسکی تکمیل بہت مشکل ہوتی ہے ، بڑے مدارس کے بہت سے اساتذہ کو لوگ تبرکا یا پروگراموں میں تقریر کیلئے مدعو کرتے ہیں ،اس سے بھی ان اساتذہ کو تھوڑا بہت مالی فائدہ ہوجاتا ہے ، ندوہ میں ہدیوں کا بھی رواج نہیں ہے ، مولانا برجیس صاحب کیلئے تنخواہ ہی سب کچھ تھی ، مدارس کے اساتذہ اور ملازمین میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو مدارس کو چھوڑکر اچھی تنخواہوں کی ملازمت کرسکتے ہیں ،‌ سرکاری مدرسوں میں بھی جاسکتے ہیں ، ‌ندوہ میں اس وقت کئ اساتذہ ایسے ہیں جنہیں سرکاری مدرسوں میں ملازمت کی پیشکش کی گئ ، لیکن انہوں نے ندوہ نہیں چھوڑا ، کئ تو سرکاری مدرسوں کو چھوڑکر آئے ہیں ، انکے اخلاص میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے ، خود مولانا سید محمد رابع صاحب اور مولانا واضح صاحب رحمۃ اللہ علیہما گھر سے ندوہ رکشہ سے آتے اور گیٹ پر اترکر دونوں بھائی شروانی کی جیب سے اپنے حصہ کا کرایہ نکال کر رکشہ والے کو دیتے ، جبکہ مولانا واضح صاحب آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت چھوڑکر آئے تھے ، دہلی میں انہیں لے جانے اور چھوڑنے کیلئے گاڑی آتی تھی ، دونوں بھائیوں میں سے کسی کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اپنے ساتھ اپنے محبوب بھائی کا بھی کرایہ ادا کرے ، جہاں ذمہ داروں کی یہ حالت ہو وہاں کے عام ملازمین اور اساتذہ کی کیا بات کی جائے ، مولانا برجیس صاحب ایک خوددار و باغیرت انسان تھے ، ، تنخواہ سے قرض اور ادھار پہلے نمٹائے جاتے ، نتیجتا مہینہ پورا ہونے سے بہت پہلے تنخواہ ختم ہوجاتی ، لیکن کبھی زبان پر حرف شکایت نہیں ، اور اس صورت حال

علم و کتاب

26 Oct, 03:51


ملاقات اور ذاتی تعارف ہوا تھا، ان کا ملائم اور مہذب انداز ہمیں بہت اچھا لگا، تو ہم نے جرات کرکے ان سے کہا کہ آپ سے ملاقات سے قبل آپ کے بارے میں ہمارا تاثر مختلف تھا، لیکن اب ملاقات کے بعد تعجب ہوتا ہے کہ آپ جیسی شخصیت کی سرپرستی میں عوام الناس کے سامنے ایسی باتیں کیوں کر ہوگئیں، توآپ نے جواب دیا کہ یہی کانفرنسیں انہیں لے ڈوبیں۔
یہ کہنا کہ سب مدارس کا ماحول ایسا ہی ہے ایک خلاف حقیقت بات اور ان کے ساتھ بڑا ظلم ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ بالٹی بھر دودھ میں ایک مینگنی پڑجائے تو پورا دودھ نجس ہوجاتا ہے۔ اس طرح کا کوئی ایک واقعہ پورے طبقہ مدارس کو بدنام کردیتا ہے، کوئی واقعہ اچھلتا ہے تو ہزاروں لاکھوں تک پہنچتا ہے، لیکن جب اس کی صفائی ہوتی ہے تو اس کا حال جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والا ہوجاتا ہے، عشر عشیر تک بھی وضاحت نہیں پہنچ پاتی، اور اگر وضاحت پہنچتی بھی ہے تو کسے اس میں دلچسپی ہوتی ہے؟
ہمیں امید ہے کہ ہمارے ذمہ داران سنجیدگی سے ان امور پر غور کریں گے، اور مدارس دینیہ کے خلاف ابھرنے والے اس ماحول میں ان کے تدارک کے لئے موثر اقدام کی طرف متوجہ ہونگے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ واللہ ولی التوفیق
2024-10-26

علم و کتاب

26 Oct, 03:51


*بات سے بات: عمامہ بھی فرض ہے*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

دو روز قبل ((ٹوپی کافی نہیں عمامہ بھی فرض ہے)) کے عنوان سے ایک ویڈیو ہماری بزم علم وکتاب پر پوسٹ ہوئی تھی۔ ابھی اس کے ڈیلیٹ کرنے کا ذہن بن ہی پارہا تھا کہ سوشل میڈیا میں اس مسئلہ پر ایک طوفان برپا ہوا، اور بالآخر کراچی کے متعلقہ مدرسے کے استاد حدیث کی متاثر طالب علم سے معافی مانگنے اور معاملہ رفع دفع ہونے کی ویڈیوآگئی۔
جہاں تک ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے خیال کا تعلق ہے تو ہماری ایک طویل عرصہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ جو شخصیات اور ادارے دینی وملی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے خلاف جذباتی ماحول پیدا کرنے والے جملہ مواد کو پھیلانے سے ہمیں گریز کرنا چاہئے۔
لیکن جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا تعلق کسی ایک ادارے اور فرد سے نہیں بلکہ یہ ہمارے دینی نظام تربیت و تعلیم میں پائی جانے والی ایک وسیع کھائی کی نشاندہی کررہا ہے، جسے پاٹنے کی ہمیں فورا فکر کرنی چاہئے، اسے دشمنوں کی سازش کہ کر ہلکے میں نہیں لینا چاہئے۔اس ضمن میں ہمیں دینی مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کا موازنہ عصری نظام سے دیانتداری کے ساتھ کرنا چاہئے، اگر اس پر بروقت توجہ نہیں دی گئی تو خدا نخواستہ مدارس دینیہ کے ساتھ دین کی وقعت بھی لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گی، اور جنہیں ہم دین کے قلعے کہتے کہتے نہیں تھکتے خدا نخواستہ وہ ہمارے سامنے ڈھتے ہوئے نظر آئیں گے۔
۔ اس واقعے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مدرس نے طالب علم سے معافی مانگی، اور اپنے بڑکپن کا مظاہرہ کیا، اور طالب علم نے بھی شرافت کا ثبوت دیا، اس روئیے کی تعریف ہونی چاہئے، ساتھ ہی یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہئے، مدرس اور طالب علم کا جو شریفانہ رویہ اس واقعہ کے بعد سامنے آیا ہے، وہ ان دونوں کی مجبوری بھی ہوسکتا ہے، اگردونوں یہ رویہ نہ اپناتے تو پھر معاشرے میں ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا تھا۔ اور اس مسئلہ کو تادیر میڈیا میں زندگی مل سکتی تھی۔
۔ دونوں ویڈیوز کے دیکھنے کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ہمارے دینی اداروں میں اب بھی طالب علموں کوڈاڑھی نکلنے اور دورہ حدیث کی عمر کو پہچنے کے بعد ڈسپلن شکنی پر ڈنڈوں سے سزا دی جاتی ہے، جو بڑے شرم کی بات ہے۔
۔ اگر یونیفارم ڈرس کوڈ کی حیثیت سے عمامہ کو کسی ادارے میں لازمی کردیا جاتا ہے تو پھر اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں، لیکن ڈنڈے اور طاقت سے کسی تعلیمی ادارے میں اس کا نفاذ عمل میں آتا ہے تو پھر آج کے مہذب معاشروں میں اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ خاص کر پرائیویٹ عصری تعلیمی اداروں میں کس طرح یونیفارم کا نفاذ ہمارے دینی اداروں سے بہتر انداز میں بغیر جسمانی سزاؤوں کے کیا جاتا ہے، اور طلبہ اور سرپرست کس طرح بے چون وچرا اس کی پابندی کرتے ہیں۔
۔ ہمارے دینی تعلیم ادراروں میں تربیت کا ذکر بہت آتا ہے، لیکن ان میں تدریسی عملہ خود روپودوں کی طرح ہوتا ہے، تدریسی تربیت اور بچوں کی نفسیات سے کورے فارغین کو تعلیمی و تربیتی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں، جو اب بھی پچاس ساٹھ سال پرانے تعلیمی وتربیتی فلسفہ پر چلتے ہیں جس میں کہا جاتا تھا کہ طالب علم کی ہڈی اور چمڑی اس کی ہے، باقی سب استاد کا، آج کے زمانے میں تعلیم وتربیت کا یہ تصورنہ صرف فرسودہ ہوچکا ہے۔ بلکہ یہ بہت سے مہذب اور خوشحال گھرانوں کے نونہالوں کو دینی مدرسوں میں داخلہ سے مانع بھی ہورہا ہے۔
۔ ہمارے معتد بہ مدرسین کی زبان میں ادبی مہارت وتہذیب کی کمی محسوس ہوتی جارہی ہے، درس کے دوران ان کی بھونڈی مثالیں وقتا فوقتا سامنے آتی رہتی ہیں، جو طلبہ کے لئے مستند اور نمونہ بن جاتی ہے۔ جس کا نمونہ کبھی کبھار آپ کی اس بزم میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
کبھی یہ حضرات کسی مسلک کے خلاف ہوتے ہیں تو زبان درازی میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کی زبان سے کسی معتبر اور عظیم امام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ چند سال قبل بنگلور میں ایک بڑا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا تھا، جس میں ہزارہا ہزار افراد شریک ہوئے تھے، یہ اجلاس بنیادی طور پر غیر مقلد حضرات کے خلاف تھا، ہمارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے چند سینیر اساتذہ بھی اس میں شریک ہوئے تھے، ان سے اس اجلاس کے سلسلے میں تاثرات دریافت کرنے پرپتا چلا کہ کہ ایک بڑے معتبر دارالعلوم کے شیخ الحدیث نے بھرے جلسے میں کہا کہ یہ مادہ منویہ کو پاک کہتے ہیں، اگر یہ پاک ہے تو بریڈ میں لگا کر اسے کھائیں،اس اندازبیان سن کر یہ حضرات ششدر رہ گئے کہ اتنے عظیم علمی ودینی مرجع کو پتہ چلنا چاہئے تھا کہ کئی سارے مسائل جن کی نسبت غیر مقلدین کی طرف کی جاتی ہے، یہ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے معتمد فیہ مسائل میں سے ہیں، اور اس قسم کے استہزائی انداز کی زد ایک عظیم امام پر پڑتی ہے۔ اس اجلاس کے منتظم بڑے محترم عالم دین تھے، ان سے ہماری اس کانفرنس کے بعد

علم و کتاب

26 Oct, 03:30


سلسلہ نمبر: 221
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا عبد الرحمن کؔیلانیؒ*

*الیکشن کا کاروبار*


الیکشن کا کاروبار بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے زیادہ طلسماتی ہے،دو ڈھائی لاکھ کی آبادی میں سے صرف ایک مائی کا لال منتخب ہوتا ہے،بے زبان کاشت کاروں،مزارعوں،مزدوروں کی یہ آبادی سینکڑوں مربع میل کے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے، یہاں نہ زیادہ ریڈیو ہیں نہ اخبار پڑھے جاتے ہیں اور یوں بھی آمد و رفت کے وسائل بیل گاڑیوں، چھکڑوں اور مسافروں سے اٹا اٹ بھری ہوئی اِکّا دُکّا بسوں سے آگے نہیں بڑھے ۔
چنانچہ ایک عام سیدھا سادا امن پسند دیہاتی شادی،غمی اور دیگر بلاہائے ناگہانی کی مجبوریوں کے علاوہ یونہی خواہ مخواہ سفر وسیلۂ ظفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کا عادی نہیں ہوتا، عوام جو گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ بکھرے ہوئے ہیں اپنے ذاتی ماحول اپنے آس پاس کے چند ہمسایوں اور اپنے دکھ درد کے ساتھیوں کے علاوہ باقی دنیا سے نہ تو شناسا ہیں اور نہ اس قسم کی شناسائی پیدا کرنے کے وسائل ان کو میسر ہیں ۔
دو ڈھائی لاکھ گدڑیوں میں چھپا ہوا ایک لعل ڈھونڈ نکالنا جو ان کی نمائندگی کا حق ادا کرسکے ہرگز ہرگز ان کے بس کا روگ نہیں۔

( *خلافت و جمہوریت،صفحہ: 211،طبع: مکتبہ السلام، لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی


فائدہ: *ہندوستان میں ممبر آف پارلیمنٹ کی تنخواہ و الاؤنس*

یہ رپورٹ Indian teach & Infra کے حوالے سے معلوم ہوئی ہے:
ہندوستان کے اندر ممبر آف پارلیمنٹ کو ملنے والی سہولیات :
1) بنیادی تنخواہ ماہانہ : ایک لاکھ روپے
2) فون و انٹرنیٹ کے لیے سالانہ ڈیڑھ لاکھ
3) سالانہ ڈومیسٹک ہوائی سفر 34 مرتبہ مفت
4) ریل میں درجۂ اول میں سفر کی سہولت بالکل مفت
5) سالانہ پچاس ہزار بجلی یونٹ کی مفت سہولت
6) سالانہ 4 ہزار لیٹر پانی مفت
7) آفس الاؤنس ماہانہ باسٹھ ہزار روپے
8)ماہانہ ہاؤسنگ الاؤنس 2 لاکھ روپے
9) پینشن ماہانہ 25 ہزار ہوگی
10) ممبر اور اس کے اہل خانہ کا مفت علاج ۔


https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

25 Oct, 19:01


کامطالعہ کرکے اتنے دن میں بتاؤکہ کتاب میں کیا لکھا گیاہے اوربہتر تو یہ ہے کہ دس دس بیس بیس طلبہ کی جماعت کسی باذوق استاذ کی نگرانی میں کردی جائے کہ اپنے مطالعہ کے سلسلہ میں ان سے رہنمائی لیتے رہنا۔

موبائل کی اس چکاچوند اور ناقابل علاج لت کے زمانے میں میرا نظریہ کچھ ایسا ہوگیاہے کہ اب طلبہ کوخارجی کتابوں میں کسی ادیب اورافسانہ نگارکی ادبی کتابیں پڑھنے کی اجازت دیدینی چاہئے ،میرے زمانے میں تونسیم حجازی ، التمش ،صادق حسین اورالیاس سیتاپوری وغیرہ کی کتابیں اورہرقسم کے اخبارات پڑھنے پربھی پابندی تھی۔

اگرآپ طلبہ کوکتابیں دے رہے ہیں تواچھی کتابیں دیجئے خانہ پری تونہ کیجئے کیونکہ اس سے آپ کامقصدبھی پورانہ ہوگااوران کی سمع خراشی کے باعث بھی آپ ہی بنیں گے۔
میرے طالب علمی کے زمانے میں چارسال تک مدرسہ سے جوکتب انعامیہ ملی تھیں ان میں کئی کتابیں مکررہوگئی تھیں ،اس سلسلہ میں بھی دست بستہ عرض ہے کہ آپ کے پاس توطلبہ کو دی جانے والی ہرکتاب کی تفصیل موجودہے پھرکتاب مکررکیسے ہوگئی ، میں نے جب متعلقہ افرادسے اس سلسلہ میں عرض کیاتو روکھاساجواب ملاکہ اگرہم کتابیں اسی طرح بدلنے لگے اورحسب منشاء دینے لگے توہمارا کام بڑھ جائے گا۔نتیجہ یہ ہواکہ بہت بعدمیں مکرر کتابیں کسی ضلعی انجمن میں دے کرکمرہ کابوجھ ہلکا کیا تاکہ ان کی جگہ دوسری کتابوں کورکھاجاسکے۔
https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

25 Oct, 19:01


سنوسنو!!

کتب انعامیہ یا مری بھیڑ خواجہ کے نام؟

(ناصرالدین مظاہری)

برصغیر کے دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات کو مختلف مواقع پرہونے والے پروگراموں ،فنکشنوں اور امتحانات میں پاس ہونے پرنہ صرف نقدانعامات دئے جاتے ہیں بلکہ بطورانعام کتابیں بھی دینے کامعمول ہے۔یہ دینی مدارس کے ذمہ داران کی طرف سے تشجیعی اورحوصلہ افزائی کے طور پردیاجانے والا انعام بچوں اور بچیوں کو مزید آگے بڑھنے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ،طلبہ ان انعامات کوبہت شوق اوردوق کے ساتھ سنبھال کررکھتے بھی ہیں اور کتابیں چونکہ ان کے پاس اُس عمرمیں بہت کم ہوتی ہیں اس لئے فرصت کے مواقع پرپڑھتے بھی ہیں ۔

اس سلسلہ میں میرا نظریہ تھوڑاسامختلف ہے ،میراماننایہ ہے کہ طلبہ کوانعامات اُن کے ذوق اوروجدان کومدنظرکھتے ہوئے دیناچاہئے ،مثلاً سائنس کے طالب علم کوآپ سائنسی کتابیں دیجئے،حدیث کے طالب علم کوحدیث اور اس سے متعلقہ کتابیں عنایت فرمایئے اسی طرح جو بچے بہت کم سن اور کم عمر ہیں انھیں آپ ابتدائی ،اخلاقی اور قصے کہانیوں والی دینی کتابیں انعام میں دیجئے۔

ہمارے دینی مدارس ماشاء اللہ انعامات کی تو بوچھار کردیتے ہیں لیکن نہ توطلبہ کی ذہنی اورفکری رعایت ملحوظ رکھی جاتی ہے نہ ہی ان کاذوق اورمزاج کبھی دیکھااور پرکھا جاتاہے کہ تمہارا ذہن اورفکردین کے کن موضوعات کی طرف چلتاہے ۔عموماً ہوتایہ ہے کہ ہرطالب علم کاذہن اوراس کاپسندیدہ موضوع الگ الگ ہوتاہے مثلاً بعض طلبہ تاریخ میں دلچسپی لیتے ہیں توبہت سے طلبہ کوسیرت سے لگاؤ ہوتاہے ،بعض درسیات اور شروحات سے محبت رکھتے ہیں توبعض تفاسیر اور احادیث سے عشق کی حدتک تعلق رکھتے ہیں۔اگر آپ حدیث کے طالب علم کو سائنس کی کتاب تھمادیں یاسائنس کے طالب علم کوفلسفہ کی گرہ پکڑادیں تووہ کس کام کی ہے۔

میں خوداپناواقعہ بیان کرتاہوں مجھے تقسیم کنندگان نے ’’مولانا علی میاں کی متصاد تصویریں‘‘نامی کتاب انعام میں دیدی،مجھے بڑاعجیب لگا،میں یہ کتاب لے کراپنے کرم فرما حضرت مولانامفتی محمد خبیر ندوی مدظلہ کی خدمت میں حاضرہوا، اور پوری بات بتائی تومفتی صاحب نے نہایت سختی اور تاکیدکے ساتھ اس کتاب کو پڑھنے سے منع کردیا اوریہ بھی فرمایاکہ لوگوں کو شعورہی نہیں ہے کہ کس طالب علم کوکس عمرمیں کون سی کتاب انعام یاہدیہ میں دینی چاہئے،یہ بھی فرمایاکہ ابھی آپ طالب علم ہیں آپ ہرمصنف کی مثبت کتاب پڑھئے کسی بھی مصنف کی کوئی بھی منفی کتاب مت پڑھئے ورنہ دماغ شروع ہی سے اپنارخ بدل لے گااور آگے چل کراپنے ماحول اورمعاشرہ میں ’’عظومعطل‘‘ بن کررہ جاؤگے۔چنانچہ آج تک اس کتاب کوکھول کرنہیں دیکھا۔

عام طورپردینی مدارس میں طلبہ کوانعام میں دی جانے والی کتابوں کی حالت’’مری بھیڑ خواجہ کے نام‘‘والی ہوتی ہے ،نہ توطلبہ سے کبھی پوچھا جاتاہے کہ تمہیں کون کون سی کتابیں مطلوب ہیں نہ ہی ان کامزاج معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اکثرکتابیں ضائع ہوجاتی ہیں نہ طلبہ کوان کتابوں سے کوئی مناسبت ہوپاتی ہے نہ اہل مدرسہ کوکبھی توفیق ملتی ہے کہ فرادیٰ فرادیٰ طلبہ سے پوچھیں کہ آپ کوجوکتاب انعام میں دی گئی تھی اس کامطالعہ کیایانہیں اگرکیاہے توکیاحاصل کیا،مصنف کون ہے،اسلوب کیساہے،موضوع کیاہے،کیااچھی چیزلگی وغیرہ وغیرہ۔

دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ویسے بھی درسیات کے بوجھ سے باہرنہیں نکل پاتے انھیں اتناموقع بھی نہیں مل پاتاہے کہ خارجی کتابوں کامطالعہ کرسکیں پھربہت سے مدارس میں اساتذہ نے کچھ ایسامزاج پہلے سے ہی بنایاہوا ہوتاہے کہ وہ درسیات کے علاوہ تمام ترکتابوں کے بارے میں ایسامنفی نظریہ بنادیتے ہیں کہ پھرطالب علم درسیات تک ہی محدود ہوکررہ جاتاہے ،حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ درسیات کا تعلق صرف ادارہ کی چار دیواری تک ہے یہاں سے نکلنے کے بعدآپ کوتقریریں کرنی پڑیں گی،تحریریں لکھنی پڑیں گی،کتابیں لکھنی ہوں گی اوریہ سب چیزیں خارجی کتابوں کے بغیرممکن نہیں اس لئے بچوں کوکنویں کامینڈک توبالکل نہیں بناناچاہئے انھیں تھوڑا تھوڑا ہر موضوع سے مناسبت ضروری ہے تاکہ بغلیں نہ جھانکیں، کہیں مارنہ کھائیں ،کہیں احساس کمتری کاشکارنہ ہوں اور ہرجگہ اپنے ادارہ اوراپنے اساتذہ کی تعلیم وتربیت کامظاہرہ کرسکیں۔

اس سلسلہ میں پہلے تودی جانے والی کتابوں کو’’بوجھ‘‘نہ سمجھاجائے ،جوچیزاپنے لئے پسندکی جائے وہی ان کے لئے بھی پسندکی جائے بلکہ ان کے لئے توخوب سے خوب ترکی تلاش میں رہاجائے،نورانی قاعدہ کے طالب علم کوآپ سراجی کی شرح تھمائیں گے توآپ اپنی حیثیت کھوئیں گے ،اسی طرح مفتی بننے والے طالب علم کوآپ شاہکارتقریریں یا منتخب تقریریں دیں گے توادارہ کی بدنامی کاذریعہ آپ بنیں گے۔کوشش کی کیجئے کہ پہلے طلبہ کے فکراورمستوی ٰ کومدنظرکھتے ہوئے طلبہ کی درجہ بندی کی جائے پھرکتابوں کی فہرست بنائی جائے ، پھر کتابوں کی خریداری کی جائے اورپھرطالب علم کووہ کتاب اس شرط اورصراحت کے ساتھ دی جائے کہ اس

علم و کتاب

25 Oct, 17:09


انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۱۷
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق یہود و نصاریٰ کے ایک اہم جرم یعنی عصمت انبیاعلیہ السلام کے حوالے سے ان کی گستاخی سے ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں انبیائے سابقین کا ذکر آیا ہے قرآن نے ان کی نصرت و حمایت کا فرض ادا کیا ہے ۔
انشائے ماجدی

”یہود و نصاریٰ نے اہل کتاب ہونے اور نبوت وسلسلہ ءوحی پر ایمان رکھنے کے باوجود اپنے نوشتوں میں کوئی کسر عصمت انبیاء علیہ السلام کے داغدار بنانے میں اٹھا نہیں رکھی، اس لیے قرآن مجید جہاں جہاں انبیاء سابق کا ذکر کرتا ہے اکثر ان حضرات کی اخلاقی وروحانی عظمت پر بھی زور دیتا ہے اور اس طرح انبیائے برحق کی نصرت و حمایت کا فرض توریت و انجیل کی عائد کی ہوئی فرد جرم کے مقابلے میں ادا کرتا جاتا ہے ۔یہ عجیب و غریب اہل کتاب، نبی اور نبوت کے قائل گویا ان الفاظ کے صرف لفظی معنی میں تھے یعنی نبی وہ ہے جو کاہنوں،جوتشیوں کی طرح غیب کی خبریں دے سکے اور اس سے انہیں کوئی بحث ہی نہ تھی کہ اس کے اخلاق کا کیا عالم تھا ،اس کے روحانی کمالات کس درجے کے تھے، اس کی تعلیمات کیا تھیں وقس علیٰ ھذا۔ ابراہیم علیہ السلام خلیل تو اکثر انبیاء علیہ السلام کے ابو لآبا ہیں ۔آپ کی عصمت کے تحفظ کا تو قرآن میں اور زیادہ اہتمام رکھا ہے۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اول ،صفحہ نمبر۲۵۳)
https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

25 Oct, 17:06


چنانچہ انکی تصنیفات میں یہ ساری خصوصیات نمایاں ہیں
انہوں نے فقہ اسلامی کو زبان اور ترتیب و صیاغت کے لحاظ اس طرح پیش کیا ہے جو عصر حاضر سے ہم آہنگ اور موجودہ عقلی رجحانات اورذہنی تقاضوں کے مطابق ہے
دیکھیے انکی تصنیفات میں :
١ المدخل الفقهي العام
٢ نظرية العقد في الفقه الاسلامي
٣ نظرية الاهلية والولاية
٤ نظرية العرف
٥ نظرية الالتزام
٦ العقود المسماة في الفقه الاسلامي
٧ عقد الاستصناع
٨ الفعل الضار.
٩ المصالح المرسلة وغيره
بلا شبہ ڈاکٹر مصطفی الزرقا عصر حاضر کے فقہاء میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے انکے معاصر شیخ محمد ابو زھرہ فقہ میں مہارت کے ساتھ اپنے حافظہ کی قوت میں بے مثال تھے
جبکہ شیخ مصطفی الزرقا نےفقہ کے قانون کو بھی اپنے اصل اختصاص کا موضوع بنا یا تھا اسلئے انمیں جزئیات تک رسائی مسائل کے تحلیل وتجزیہ اور اسکی روشنی میں نئے پیداہونے والے مسائل کے احکا م کے استخراج کی صلاحیت بے پناہ تھی
لیکن ڈاکٹر مصطفی الزرقا کی اس تعریف اور مدح سرائی کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ ان کا ہر فتوی قابل اعتماد اور انکی ہر تحقیق صحیح ہے بلکہ جیساکہ میں نے اپنے مضمون "مقبول شخصیتوں کی ناقابل قبول باتیں "
میں واضح کردیا تھا کہ" لكل جواد كبوة ولكل صارم نبوة ولكل عالم هفوة " والی مثل کو سامنے رکھتے ہوئے
کسی بھی عالم کے شاذ قول یا جمھور کی رائے سے الگ فتوی اور ایسی تحقیق کو مستند مسئلہ کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا اور عام امت کو اس پر عمل کرنے کی دعوت بھی نہیں دی جاسکتی جیسا کہ
علامہ قاسم بن قطلوبغا کا اپنے استاذ محقق ابن الھمام کے بارے میں یہ کہنا کہ "اما شواذ اقوال شیخنا فلا تعتمد للفتوی "
کمال علم اور غایت تحقیق کے وصف کے باوجود " ہمارے شیخ کے شاذ اقوال فتوی کیلئے قابل اعتماد نہیں ہیں "
ڈاکٹر مصطفی الزرقا سے جن مسائل میں اتفاق نہیں کیا جاسکتا انمیں سب سے اہم مسئلہ تأمين یعنی انشورنس کی تمام صورتوں کے جواز کا ہے حتی کہ لائف انشورنس کے بھی وہ جواز کے قائل ہیں اور اسکے لئے انہوں نے متعدد دلائل بھی دیے ہیں
اور مفصل کتاب بھی لکھی ہے
کانفرنس کے دوران انکے نظریہ کی دلائل کےساتھ مکمل تردید شیخ محمد ابو زھرہ نے کی لیکن شیخ مصطفی الزرقا اپنی رائے پر قائم رہے اور انمیں ذرا بھی تزلزل پیدا نہیں ہوا
شیخ ابو زھرہ نے باطل کو دلائل کے ذریعہ حق کی شکل میں دلائل کیساتھ پیش کرنے کی اسے نادر مثال قرار دیا
دو نوں ہی بلندپایہ فقیہ تھے لیکن اس مسئلہ میں ہم شیخ ابو زھرہ کے مؤید ہیں اور شیخ مصطفی الزرقا کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے گو کہ انہوں نے اپنی رائے کی تائید میں دلائل جمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے
دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں ہمیں شیخ مصطفی الزرقا کی رائے سے اتفاق نہیں ہے وہ ہجری مہینوں کے اثبات میں فلکی حساب پر ان کا کلی اعتماد ہے چنانچہ مکہ مکرمہ کی اکیڈمی پھرجدہ کی بین الاقوامی فقہ اکیڈمی نے چاند کے اثبات میں صرف حساب پر اعتماد نہ کر نے سے متعلق قرارداد منظور کی تو اس سے اختلاف کرنے والے تنہا ڈاکٹر شیخ مصطفی الزرقا ہی تھے چنانچہ ایک صاحب نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ شیخ "انت وحید المجمعین "
متعدد مسائل میں بھی انکی رائے دوسرے علماء سے مختلف ہے جیسے
ہوائی جہاز سے مکہ مکرمہ آنے والوں کیلئے جدہ کو میقات قرار دینا کیونکہ انکے نزدیک فضاء میں میقات کا کوئی تصور نہیں ہے اور اپنے وطن سے احرام باندھ کر آنا شدید حرج کا باعث ہے
یہی رائے قطر کے سابق مفتی شیخ عبد اللہ بن زید آلمحمود کی بھی تھی
جسکی شیخ عبد اللہ بن حمید نے تردید کی ہے اور مستقل رسالہ لکھا ہے
مفتی محمد شفیع صاحب اور مولانا محمدیو سف بنوری نے بھی اپنا یہ رجحان ظاہر کیا تھا لیکن پھر فتوی سے رجوع کرلیا
امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم لوگوں کیلئے بینک سے سودی قرض لیکر مکان خریدنے کے جواز کے بھی بعض شرائط کے ساتھ وہ قائل ہیں
کرایہ دار کیلئے بدل الخلو کو بھی وہ جائز سمجھتے ہیں
شیخ مصطفی الزرقا کی عجیب رایوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مشہور حدیث " من راني في المنام فقد راني"
کو عہد نبوی کے ساتھ خاص مانتے ہیں اور سب سے آخری صحابی کی وفات کے بعد کسی کے خواب کی وہ حیثیت نہیں مانتے
اپنی اس رائے کی تائید میں انکو ابن جزی الغرناطی کا یہ قول بھی مل گیاکہ
ان رؤيا النبي صلي الله عليه وسلم لاتصح الا لصحابي رآہ وحافظ علي صفته
فقہ میں عورت کی دیت کا مسئلہ ایک معمہ کی حیثیت رکھتاہے چنانچہ
"عقل المرأة مثل عقل الرجل حتي يبلغ الثلث من ديته وما زاد فعلي النصف "
جسکی بنیاد پر جمھور کی رائے یہ ہے کہ کسی نےعورت کی تین انگلیاں کاٹ لیں تو مرد کی طرح اسکی دیت 30 اونٹ ہوگی

علم و کتاب

25 Oct, 17:06


لیکن اگر چا ر انگلیاں کاٹ لیں ابدیت 20 اونٹ ہو جا ئے گی
ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ عقلی طور پر عجیب سا معلوم ہوتاہے جس پر استعجاب کا اظہار امام مالک کے شیخ ربیعة الرائ نے بھی کیا ہے
شیخ الزرقا کے دماغ نے اس کا ایک نیا حل نکالا ہے
انکی رائے میں حدیث کا مفہوم یہ ہوگا تین انگلی کاٹنے پر 30 اونٹ لیکن چار انگلیاں کاٹنے پر زائد کا نصف یعنی 35 اونٹ ہوجائیگا
شیخ کی اس توجیہ سے جمھور کے مسلک پر اعتراض کرنے والوں کے مزاج کی حدت اور اعتراض کی شدت میں ایک حد تک شاید کمی ہو جائے
اس طرح شیخ مصطفی الزرقا کی زندگی کے نمایاں کارناموں میں
فقہ اسلامی کی عصری زبان میں تدوین احوال شخصیہ کے قوانین کی ترتیب فقہی قواعد اور پیچیدہ مالیاتی مسائل کی وضاحت کے
علاوہ جدید مسائل کے حل کیلئے انفرادی فتووں پر بھروسہ کر نے کے بجائے اجتماعی بحث وتحقیق کے ادارے کے قیام اور فقہ اکیڈمیوں کی تاسیس و تشکیل بھی ہے
فقہی انسائیکلو پیڈیا کی تدوین کی کوشش وہ پیش پیش رہے اور کویتی موسوعہ فقہیہ کا خاکہ بھی انہوں نے ہی تیار کیا اور اسکے لئے تمہیدی ابحاث اپنی نگرانی میں لکھوائیں
اس کے علاوہ اور بھی انکے کام ہیں جو اپنی جدت ندرت اوردقت کے لحاظ سے امتیاز رکھتے ہیں
انکے فتاوی کا مجموعہ فتاوی الزرقا کے نام سے مجد مکی صاحب نے مرتب کیا ہے اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے انک فرمائش پر اس کا مقدمہ لکھا ہے
انکےفتاوے اہم اور قیمتی ہیں لیکن انکے ہر فتوے سے اتفاق نہ ممکن ہے اور نہ ضروری
شیخ ڈاکٹر مصطفی احمد الزرقا شام کے شہر حلب کے ایک علمی گھرانے میں 1907 ء میں پیدا ہوئے تھے باپ اور دادا دونوں نامور فقیہ تھے انہوں نے شام اور مصر میں تعلیم کی تکمیل کی دمشق اور اردن یونیور سیٹیوں میں پروفیسر رہے الراجحی کمپنی کے ایڈوائزر رہے اور فقہی موضوعات پر تحقیقی کتابیں لکھیں اورفیصل ایوارڈ کے کے مستحق قرار پائے اور بھرپور علمی زندگی گزارنے کے بعد جولائی 1999ء میں اردن میں وفات پائی رحمه الله رحمة واسعة
انکے اساتذہ میں سرفہرست خود انکے والد شیخ احمد الزرقا شیخ محمد راغب الطباخ شیخ ابراھیم السلقینی اور محدث شام شیخ بدر الدین الحسینی وغیرہ ہیں
انکے مشہور اور نامور شاگردوں میں
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ڈاکٹر محمد فوزی فیض اللہ ڈاکٹر محمد ادیب الصالح ڈاکٹر احمد الحجی الکردی ڈاکٹرعبد السلام العبادی ڈاکٹر محمد نعیم یاسین ڈاکٹر محمد الزحیلی اور ڈاکٹر انس الزرقا وغیرہ ہیں
انکے معاصرین میں نامور ادیب شیخ علی الطنطاوی ڈاکٹر معروف الدوالیبی اور ڈاکٹر مصطفی السباعی وغیرہ شمار ہوتے ہیں
انکے تفصیلی حالات کیلئے دیکھئے
محمد المجذوب کی :
"علما ء ومفکرون عرفتہم "
د محمد رجب البيومي کی
النھضة الاسلامية في سير اعلامها المعاصرین
د عبد الناصر ابو البصل کی کتاب
مصطفی احمد الزرقا فقیه العصر وشيخ الحقوقيين وغيره

https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

25 Oct, 17:06


فقہی انسائیکلو پیڈیا ( المو سوعہ الفقہیہ )کی تدوین کا مبارک سلسلہ بھی شیخ مصطفی الزرقا کا مرھون منت ہے اسکی منصوبہ بندی میں انکی شرکت شروع سے رہی ہے
ڈاکٹر مصطفی الزرقا اپنے رفیق ڈاکٹر معروف الدوالیبی کے ساتھ فرانس کی سوربون یونیور سٹی کی طرف سے 1951ء میں منعقد ہونے والے اسلامی فقہی سیمینار میں شریک ہوئے جس میں بعض مشہور مستشرقین بھی موجود تھے اسکی سیمینارکی قرارداد میں فقہ اسلامی کو آسان زبان میں پیش کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا گیا تھا تاکہ اسلامی قانونی ذخیرہ سے ساری دنیا مستفید ہوسکے اور مشکل فقہی اصطلاحات اس میں حائل نہ ہو ں اس ضرورت کی تکمیل کیلئے انہوں
نے اپنے دوسرے رفقاء ڈاکٹر مصطفی السباعی ڈاکٹر معروف الدوالیبی شیخ محمد المبارک وغیرہ کے ساتھ اسکو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی اور دمشق یونیور سٹی میں کلیة الشريعة کے 1954ءمیں آغازکے بعد باقاعدہ کام شروع کیا اور تمہیدی ابحاث لکھیں پھر جب 1958 ء میں مصر اور شام کو متحدہ جمہوریہ کی حیثیت دی گئی تو مصر کے علماء بھی اس میں شامل ہوگئے اور 1960ء میں موسوعہ کی پہلی جلد نمونہ کے طور پر شائع ہوئی لیکن1961 ء میں دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد ختم ہوجانے کے بعد کام آگے نہیں بڑھ سکا
موسوعہ کی تیاری کی دوسری کوشش مصر میں شروع ہوئی تھی جو اب تک جاری ہے اور اسکی تکمیل نہیں ہوسکی ہے
مصر کا موسوعہ آٹھوں فقہی مذاہب
(حنفی مالکی شافعی حنبلی ظاھری زیدی جعفری اباضی ) پر مشتمل ہے اسکی تکمیل کے لئے وقت بھی زیادہ درکار ہے
1966ء میں جب کویت کی وزارت اوقاف و مذہبی امور نے فقہی انسائیکلو پیڈیا ( الموسوعة الفقہیہ) کی تیاری کا کام اپنے منصوبہ میں شامل کرلیا
تو اس مشروع کی تنفیذ اور تکمیل کیلئے ڈاکٹر مصطفی الزرقا ہی کو منتخب کیا چنانچہ وہ کویت آگئے اسکی خاکہ بندی کی اور اس کام کی انجام دہی کیلئےمساعدین کے طور پر فقہاء کی ایک جماعت کو طلب کیا فقہی اور مصادر ومراجع پر مشتمل ایک لائبریری کی بھی بنیاد ڈالی اور فقہی مصادر کا نہایت ہی قیمتی ذخیرہ جمع کیا جس میں ڈاکٹر مصطفی السباعی کے ذاتی کتبخانہ کی کتابیں بھی شامل ہیں
پھر انہوں نے الفبائی ترتیب سے قطع نظر کچھ اصطلاحات پہلے ان بڑے علماء کے پاس استکتاب کیلئے بھیجیں جنکے دنیا سے جلد چلے جانے کا اندیشہ تھا تاکہ انکے علم سے فائدہ اٹھایا جاسکے
بحث لکھنے کیلئے تفصیلی خاکہ اور ہدایت نامہ بھی بھیجا گیا
جس میں بحث کی ترتیب اورفقہی مذاھب کو انکے اصلی مصادر سے نقل کرنے بحث کے نتائج اور موضوع سے متعلق نئے مسائل کاذکر کرنے حوالوں اور مصادر کے ذکر کا پورا التزام کرنے اور بحث کی ترتیب و صیاغت میں زبان کی صحت وسلامتی اور تعبیر کی سہولت و وضاحت کا لحاظ رکھنے پر زور دیا گیا تھا
ظاہر ہے کہ ان تمام شروط کے ساتھ بحث لکھنا آسان نہیں تھا لیکن شخصیات بھی اسکے لئے ویسی ہی منتخب کی گئیں تھیں چنانچہ شیخ مصطفی الزرقا کے اشراف کے زمانہ میں پچاس فقہی ابحاث لکھی گئیں جنکو مثالی بحثیں کہنا چاہیے
پھر انکو دوسرے فقہاء کے پاس بھیج کر انکے بارے میں رائے لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا لیکن
1971ء میں منتخب ہونے والے وزیر نے موسوعہ فقہیہ کے پروگرام کو موقوف کردیا شیخ مصطفی اردن چلے گئے
پھر 1975ء میں منتخب ہونے والے نئے وزیر نے منصوبہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دوبارہ اسے شروع کرنے کا فیصلہ کیا
ڈاکٹر مصطفی الزرقا جو کویت چھوڑ چکے تھے دوبارہ انکو بلانے کی کوشش ہوئی لیکن وہ اردن یونیور سٹی کی تدریس چھوڑ کر آنے پر آمادہ نہیں ہوئے
چنانچہ اس مشروع کیلئے دوسرے علماء لائے گئے اور کام مسلسل جاری رہا اور 45 جلدوں میں تقریبا 35 سال کے بعد اسکی تکمیل ہوئی
لیکن اسے صرف چار مذاھب حنفی مالکی شافعی اور حنبلی تک محدود محدودکر دیا گیادیگر مذاھب ظاہری زیدی اباضی اور جعفری سے اس میں تعرض نہیں کیا گیا ہے
تمہیدی پچاس بحثیں جو شیخ مصطفی الزرقا نے لکھوائی تھیں انکے لکھنے والوں میں علامہ الطاھربن عاشور انکے بیٹے الفاضل بن عاشور اور ڈاکٹر ابراھیم عبد الحميد جیسے فطاحل علماء شامل تھے اور ان میں سے بعض ابحاث پر خود ڈاکٹر مصطفی الزرقا کی نہایت بصیرت افروز اور گرانقدر تعلیقات بھی ہیں مثال طور پر دیکھیے
الحوالہ اور القسمہ وغیرہ کے عنوان سے لکھی جانیوالی بحثیں
ڈاکٹر مصطفی الزرقا کے رگ وریشہ میں فقہ قانون اور قواعد و اصول اس طرح سرایت کئے ہوئے تھے کہ انکو بجا طور پر" فقیہ النفس" کہا جاسکتاہے
انکی دوسری خصوصیت زبا ن وبيان پرانکی غیر معمولی قدرت اور لغت وادب کا ایسا ملکہ ہےکہ انکی تعبیر میں جزالت و فصاحت اور تحریر میں اعلی درجہ کی بلاغت وسلاست انکو اوروں سے ممتاز ہے

علم و کتاب

25 Oct, 17:06


ڈاکٹر شیخ مصطفی الزرقا نامور فقیہ ماہر قانون داں بلند پایہ ادیب اور روشن دماغ عالم
***
بدر الحسن القاسمی

" ان الفقيه الذي لاحظ له من الادب واللغة لايستحق النفقة من بيت المال وريعه المختص للفقهاء "
(القنية للامام الزاهدي)
ایسا فقیہ جسکو زبان وادب سے کوئی مناسبت نہ ہو وہ فقہاء کیلئے بیت المال میں مخصوص وقف کی جائیداد اور اسکے منافع سے نفقہ لینے کا مستحق نہیں ہے "
علامہ مصطفی الزرقا اپنے یونیورسٹی میں محاضرہ کےدوران ایک نکتہ کے طور پر اس کا ذکر کیا کرتے تھے تاکہ طلبہ میں ادب اور لغت میں مہارت حاصل کرنے کاشوق ہو
وہ خود فقیہ ہونےکےساتھ بلند پایہ ادیب بھی تھے چنانچہ عنفوان شباب میں ہی وہ ہزاروں اشعار کے وہ حافظ تھے اور ادب میں نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے اور طالب علمی ہی کے زمانہ میں ادب کی تین کتابیں ایڈٹ کرکے شائع کیں :
١. کفاية المتحفظ
٢. مختصر الوجوه في اللغة
٣. المذكر والمؤنث
مصطفی الزرقا اچھے شاعر بھی تھے اپنی دوسری اہلیہ جن سے تعلق خاطر زیادہ تھا اسکے مرثیہ میں فرماتے ہیں :
بقيت وغبت !بعدك ماالبقاء
فديتك لو يتاح لي الفداء
ولكني بفقدك عدت طفلا
اضاع البيت اذ حل المساء
فليس لديه غير الدمع نطق
ولا صبر لديه ولا اهتد اء
اس بچہ کی پریشانی کا تصور کیجئے جو شام کے وقت بچھڑگیا ہو اور اسے اپنے گھر کا نام وپتہ بھی بتانے کا ہوش نہو اب کس مپرسی کےعالم میں اسکے لئے سوائے رونے اور آنسو بہانے کے چارہ کار ہی کیا رہ جاتا ہے
شیخ اپنی گزر جا نے والی اہلیہ کی جدائی کے بعد اپنی مثال اسی بے سہارا غم سے نڈھال بچہ کی پیش کر رہے ہیں
غم فراق کی تصویر اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے ؟
اسی طرح اپنے جواں مرگ بیٹے نوفل کی وفات پر اسے خطاب کرکے کہتے ہیں :
كان التيتم للصغار بفقد هم
اباءهم فاذا الامور تبدل
فاليوم فقدك يابني اضاعني
واراك قد يتمتني يا "نوفل "
یعنی ابتک تو یتیم کا لفظ ان بچوں کیلئے استعمال کیا جاتا تھا جنکے باپ کا انتقال ہو گیا ہو لیکن اب یہ اصطلاح بھی بدل رہی ہے
میرے پیارے بیٹے نوفل تمہارے انتقال سے میں بے سہارا ہوگیا ہوں اور تم نے مرکر مجھے "یتیم " بنادیا ہے
مصطفی الزرقا صرف کتابوں کے ہی عالم اور فقیہ نہیں تھے اپنی زندگی کے تمام معاملات اور اہل خانہ اوردوسرے لوگوں کے ساتھ برتاو میں بھی فقیہ تھے
ناخن کاٹنے بال رکھنے اور تراشنے گھر کے چھوٹے بڑے ہر کام کے انجام دینے میں بھی انکی شان فقیہانہ ہوتی تھی اورہر طرح کے اوزار نہایت سلیقہ سے اپنے گھر میں رکھتے اور انکا استعمال کرتےتھے
شیخ ابو زھرہ جو خود نامور فقیہ اور تامین کے مسئلہ میں انکے سخت ناقد تھے وہ بھی فرماتے ہیں :
لقد كان الشيخ الزرقا فقيها في كل شئ في بيته في طعامه وشرابه في تدريسه في كلامه في فتاواه "
شیخ مصطفی الزرقا کے والد احمد الزرقا اور دادا محمد الزرقا دونوں اپنے وقت کے نامور فقیہ تھے فقہ حنفی میں انہیں امامت کادرجہ حاصل تھا
شیخ احمد الزرقا کی شرح القواعد الفقہیہ معروف ومتداول ہے
شام کے فقہائے احناف علامہ ابن عابدین شامی کی رد المحتار کو لفظ بلفظ ہضم کرنے کی کو شش کرتے ہیں اور بالا ستیعاب اسے پڑھتے اور حرز جان بنائے رکھتے ہیں
بدائع الصنائع اورالبحر الرائق وغیرہ دیگر مصادر پر نظر ضرور رکھتے ہیں لیکن ان کا اصل سرمایہ حاشیہ ابن عابدین اور تنقیح الفتاوی الحامدیہ ہی ہوتا ہے
شیخ مصطفی الزرقا کو فقہ میں مہارت تو گھر میں ہی حاصل ہوئی انکے والد انکے ساتھ ایک ہی کمرہ میں سوتے اور انکے ساتھ فقہی دقائق پر بحث کرتے مشکل مسائل حل کرتے انکے ساتھ بحث و مناقشہ کرتے تھے
انہوں نے یونیور سٹی میں قانون پڑھا اور اس میں پوری مہارت حاصل کی
فرانسیسی زبان انہوں نے بچپن میں ہی سیکھ لی تھی
بعد میں وہ قاضی بھی رہے دو مرتبہ وزیر عدل و انصاف کے منصب پر بھی فائز ہوئے پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے قانون سازی کے میدان میں بھی نام کمایا قانون الاحوال الشخصیہ مرتب کیا اور دوسری قانونی کتابیں لکھیں
وہ یونیور سٹی کے پروفیسر بھی رہے اور ہزاروں طلبہ کو فقہ و اصول اور فقہی قواعد کی تعلیم دی ایم اے اور ڈاکٹریٹ کے رسالے اپنی نگرانی اور اشراف میں تیار کرائے اسکے
علاوہ ا نہوں نے فقہ اکیڈمیوں کی ب
تاسیس میں حصہ لیا مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت
قائم المجمع الفقہی الاسلامی اوراسلا می ملکوں کی تنظیم تعاون
کونسل کے ماتحت قائم بین الاقوامی فقہ اکیڈمی کی تاسیس میں شرکت کی اور انکے سب سے فعال رکن رہے انکو ترقی دی اور نئے مسائل کے حل میں حصہ لیا اور اپنی رائے پوری قوت اور بھر پور دلائل کے ساتھ پیش کئے اور کسی کی موافقت یا مخالفت کی پرواہ کبھی پرواہ نہیں کی

علم و کتاب

25 Oct, 07:25


*ہماری خامہ فرسائی*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

کراچی سے برادر عنایت اللہ اسمٰعیل ادیبؔ پوچھتے ہیں:”لفظ’خامہ فرسائی‘ کے لغوی معنی کیا ہیں؟ یہ لفظ منفی ہے یا مثبت؟“
بھائی!’خامہ فرسائی‘ لفظ نہیں، دو الفاظ کا مرکّب ہے۔’لَفَظَ‘ کے لفظی معنی ہیں ’منہ سے پھینکنا،نکالنا یا تھوکنا‘۔کلمات چوں کہ منہ ہی سے پھینکے جاتے ہیں،اس وجہ سے ’لفظ‘کہلاتے ہیں۔ بولنے، بات کہنے یعنی کوئی لفظ منہ سے ادا کرنے کا عمل ’تلفظ‘کہلاتا ہے۔ بہت بک بک کرنے، مبالغہ آمیز باتیں کرنے یا چن چن کرشیریں اور مرصع و مقفیٰ و مسجع الفاظ استعمال کرنے کو ’لفّاظی‘کہتے ہیں۔ ڈینگیں مارنے والا اور طرح طرح کی باتیں بنانے والا ’لفّاظ‘ کا لقب پاتا ہے۔ حروف ملانے سے لفظ بنتا ہے، اس طرح دو حرفی، سہ حرفی، چہار حرفی اورپنج حرفی الفاظ وجود میں آتے ہیں۔مشہور مزاح نگار کرنل شفیق الرحمٰن کے محبوب کو ایک بار چھے حرفی لفظ استعمال کرنا پڑ گیا تو:
پہلے اُس نے ”مُس“ کہا، پھر ”تَق“ کہا، پھر ”بِل“ کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے
’خامہ فرسائی‘ دو الفاظ پر مشتمل ہے، لہٰذا’خامہ فرسائی‘ کو لفظ نہیں ’ترکیب‘ کہیں گے۔’ترکیب‘ کے لغوی معنی ہیں کئی چیزوں کو ملانا،بناوٹ، ساخت، تناسب،ارکان،مختلف اجزا کی آمیزش۔ اسی وجہ سے دو الفاظ کایہ آمیزہ بھی ’ترکیب‘ کہلائے گا۔’ترکیب‘ کے کئی اوربھی معانی، مفاہیم اور بہت سی اقسام ہیں۔لیکن اگرہم اس وقت آپ کو ترکیبیں بتانے بیٹھ گئے تو اصل موضوع ’غَت ربود‘ ہو جائے گا۔’غَت ربود‘ بھی’ترکیب‘ ہی ہے۔ اِسے بہت سے لوگ ’غَتَر بود‘ پڑھتے اور بولتے ہیں۔جیسے ”غٹرغوں“ کر رہے ہوں۔تلفظ کی یہ غلطی محض اس وجہ سے ہونے لگی ہے کہ ’غت ربود‘ کو ہمیشہ ملا کر ہی لکھنے کا رواج رہا ہے۔اِس غریب ’غت ربود‘ کے پردۂ غیب سے نمودار ہونے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ شیخ شرف الدین مصلح سعدیؔ شیرازی کی ”بوستان“ میں ایک نظم کا عنوان ہے”ذکرِ محامد اتابک ابوبکر بن سعد زنگی طاب ثراہٗ“۔ اس نظم کا ایک شعر ہے، جس میں شیخ نے اپنا اتا پتا بتاکر محققین کی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی ہے:
کہ سعدیؔ کہ گوئے بلاغت ربود
در ایّامِ بوبکر بن سعد بود
”وہ سعدیؔ کہ جو بلاغت کی گیند اُچک لے گیا،سلطان ابوبکر بن سعد زنگی کے زمانے میں ہوا کرتا تھا“۔
’گوئے‘ فارسی میں گیند کو کہتے ہیں۔گیند پر چوکے چھکے لگانے والے جس شخص کو ہمارے ہاں ’بلّے باز‘ کہا جانے لگا ہے، اُسے اہلِ فارس ’گوئے باز‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔’ربودن‘ کا مطلب ہے’اُچک لینا، چھین لینا، خراب کر دینا‘۔ گیند اُچک لینایعنی’سبقت لے جانا‘۔
کسی دن کسی بوجھ بجھکڑشاگردسے کسی استاد نے پوچھا:”میاں!یہ شعر سمجھ میں آیا؟“
فرماں بردار شاگرد نے جواب دیا:”جی اُستاد جی! شعر تو سمجھ میں آگیا، لیکن ’غَت ربود‘ سمجھ میں نہیں آیا“۔
اُس بونگے نے ’بلاغت‘ کے دو ٹکڑے کیے۔ پھر ’بَلا‘ کو ’گوئے‘ سے اور ’غَت‘کو’ربود‘سے جوڑکرشعر ہی ’غت ربود‘ کردیا۔ بس اُسی دن سے گڈ مڈ کر دینے، گڑبڑ کر دینے، ملاجُلا دینے، خلط ملط کردینے، خراب کر دینے یا جدید اصطلاح میں ’وَڑجانے‘ کے معنوں میں ’غت رَبُود ہو جانا یا کر دینا‘ بولا جانے لگا۔فارسی میں بھی ’غت ربود کردن‘ یا ’غت ربود شدن‘ بولا جاتا ہے، مگر لکھتے وہ بھی ’غتربود‘ ہی ہیں۔
’خامہ‘ بھی فارسی لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے قلم۔’فرسائی‘ کا لفظ ’فرسودن‘ سے مشتق ہے اور ’فرسودن‘ کا مطلب ہے گِھسنا، رگڑنایا گھسیٹنا۔ گھسی پٹی، پُرانی چیز کو اُردو میں بھی ’فرسودہ‘ کہا جاتا ہے۔’خامہ فرسائی‘ کا لغوی مطلب ہوا ’قلم گِھسنا‘یا ’قلم گھسیٹنا‘۔نئی نسل کو، جو تختۂ کلید پر اُنگلیاں گِھستی رہتی ہے،معلوم ہو کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب لکھنے والے کاغذ پر قلم گِھستے رہتے تھے۔یعنی بڑی محنت سے لکھتے رہتے تھے۔اس محنت پر انھیں بچپن ہی سے لگا دیا جاتا تھا۔ تختی لکھوائی جاتی تھی، خوش خطی سکھائی جاتی تھی اور تلقین کی جاتی تھی کہ
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
اگر تم چاہتے ہو کہ خوش خط اور خوش نویس بن جاؤ تو لکھے جاؤ، لکھے جاؤ، لکھے جاؤ۔اسی کو ’خامہ فرسائی‘ کہتے ہیں۔اصطلاحی معنے ہیں تحریر کرنا، تصنیف کرنا۔کاغذ پر قلم سے خواہ نثرمیں کوئی چیز تحریر کی جائے یااشعار لکھیں، دونوں صورتوں میں قلم گِھسنا پڑتا ہے۔ قلم گِھسنے کی آواز بھی آتی ہے۔ اس آواز کو ’صریرِ خامہ‘ کہتے ہیں۔ غالبؔ بھی اپنے اشعارتحریر کرتے وقت قلم ہی گھسا کرتے تھے۔ مگراُن کا دعویٰ تھا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
’سروش کہتے ہیں فرشتے کو۔ غالبؔ کے حیطۂ خیال میں غیب سے جو مضامین نازل ہوتے تھے، انھیں گویا فرشتہ خود لے کر آتا تھا۔ غالبؔ کا ’صریرِ خامہ‘ محض قلم گِھسنے کی آواز نہ تھی۔ اُس فرشتے کی آواز تھی جو غیب سے آنے والے خیالات انھیں املا کروایا کرتا تھا۔

علم و کتاب

25 Oct, 07:25


لکھتے وقت اگر ہم کسی حیرت میں مبتلا ہو جائیں یا سوچ میں پڑ جائیں تو اپنے دانتوں تلے اپنا قلم داب لیتے ہیں۔ مگر غالبؔ حیران ہوتے تو اُن کا قلم ہی اپنے دانتوں تلے انگلیاں داب کر بیٹھ جاتا یا لیٹ جاتا تھا:
خامہ انگشت بدنداں ہے اِسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے
ہمارے زمانے میں تو کوئی بھی اپنے گریبان میں سر نہیں ڈالتا، خواہ ناطقہ ہویا نفسِ ناطقہ۔
رہا یہ سوال کہ ’خامہ فرسائی‘ کی ترکیب مثبت ہے یا منفی؟ تو صاحب یہ تو آپ کے لہجے پر منحصر ہے۔ مولانا ماہرؔ القادری کا فتویٰ ہے:
شکریہ پُرسشِ احوال کا، لیکن اے دوست!
صرف لہجے سے بھی مفہوم بدل جاتا ہے
پُرسشِ حال یا پُرسشِ احوال کے لیے اکثر یہ فقرہ بولا جاتا جاتا ہے:”اب آپ کو آرام ہے؟“
پوچھنے والا اگرہمدردی بھرے لہجے میں دریافت کرئے تویہ ہمدردانہ پُرسشِ حال ہے۔ لیکن اگر طنزیہ لہجے میں پوچھا جائے تو صاحب مفہوم ہی بدل جاتا ہے۔ کچھ یہی حال ’خامہ فرسائی‘ کی ترکیب کے استعمال کا بھی ہے۔اگر کہا جائے کہ
”اطہرہاشمی مرحوم زندگی کے آخری ایّام تک اصلاحِ زبان کے موضوع پر خامہ فرسائی کرتے رہے“۔
تو یہ اُن کی خدمات کا اعتراف ہوگا۔تاہم اگر ہم یہ عرض کریں کہ
”ہم کیا اور ہماری تحریریں کیا؟ بس یوں ہی کچھ خامہ فرسائی کر لیتے ہیں“۔
تو ہر چند کہ یہ اظہارِ حقیقت ہوگا،مگر جی یہی چاہے گا کہ اس فقرے کو آپ ہمارے انکسار کا اظہار سمجھیں۔جھٹ یقین نہ کر لیں۔
لیکن اگر کوئی مبصر یہ تبصرہ کر بیٹھے کہ ”ابونثرؔ نے کالم تو خیر کیا لکھاہے، بس خامہ فرسائی کی ہے“۔
تو ایسا ’روح فرسا‘ (روح کو گھسیٹنے یعنی اذیت دینے والا) تبصرہ پڑھ کر جی چاہے گا کہ مبصر صاحب ہی کو ”ناصیہ فرسا“ کر دیا جائے۔’ناصیہ فرسائی‘ کے معنی کسی مستند لغت میں دیکھ لیجے۔آج ہم نے بہت خامہ فرسائی کرلی۔ خدا حافظ۔
٭٭
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

25 Oct, 05:30


ایک عورت اپنی سہیلی کو ملنے گئی جنہوں نے نیا نیا گھر شفٹ کیا تھا ۔۔۔
دوران ملاقات مہمان نے پوچھا کیسا لگا نیا گھر ۔۔۔؟
میزبان خاتون بولی ویسے تو بہت اچھا ہے مگر میں سامنے والے ہمسایوں کی وجہ سے بہت پریشان ہوں.
مہمان خاتون نے پوچھا وہ کیوں ؟
میزبان بولیں,
بس اس سامنے والے مکان میں دو نئے نویلے میاں بیوی رہتے ہیں جب دیکھو ان کے " چونچلے" جاری رہتے ہیں, میاں نے اپنی بیوی کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا ہوا, ہر وقت ناز برداریاں, لاڈ پیار، ہنسی مذاق ۔۔۔۔
مہمان بولی یار اس طرح میاں بیوی کو سب کے سامنے تو نہیں کرنا چاہیے ۔۔۔
اتنا کہہ کر مہمان خاتون نے کھڑکی کھول کے پڑوسیوں کے گھر جھانکنا چاہا تو میزبان خاتون بولی ۔۔
کھڑکی سے نظر نہیں آۓ گا ۔۔ یہ ٹیبل دیوار کے ساتھ لگاؤ , اس پہ سٹول رکھ کے روشندان سے دیکھو, روشندان سے🙄🙄

علم و کتاب

25 Oct, 03:11


وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ" (التحریم:۳) یعنی نبی کریم ﷺ نے بعض باتوں کی وضاحت کی اور بعض باتوں کو نظرانداز کیا اور انہیں ٹال گئے، جب رسول اللہ ﷺ نے شہد نہ کھانے کی قسم کھائی تو حضرت حفصہؓ سے خواہش کی کہ اس کا کہیں ذکر نہ کرنا کہ اگر یہ خبر مشہور ہوئی اور حضرت زینبؓ کو معلوم ہوئی تو ان کو تکلیف ہوگی ؛ لیکن حضرت حفصہؓ نے اس کا تذکرہ حضرت عائشہؓ سے کردیا ، گویا پہلے تو ایسی تدبیر اختیار کی کہ حضور ﷺ شہد کے کھانے سے رُک جائیں اور پھر آپ نے جس بات کو راز رکھنے کا حکم دیا ، اس عہد کو بھی پورا نہیں کیا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس واقعہ سے مطلع فرمادیا ، اب اگر آپ یہ ساری باتیں حضرت حفصہؓ سے بتاتے کہ تم لوگوں نے حضرت زینبؓ کے یہاں شہد پینے سے روکنے کی کیا تدبیر کی، اور پھر تم نے اس راز کو کس کے پاس فاش کردیا ؟تو ان کو اور ندامت ہوتی ؛ اس لئے تنبیہ کی غرض سے وعدہ خلافی کا ذکر فرمایا اور دوسری باتوں کو ٹال دیا، حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ظلم وستم کا کون سا رویہ ان کے ساتھ روا نہیں رکھا! یہاں تک کہ شاہی پیالہ کے معاملہ میں بنیامین کوایک طے شدہ تدبیر کے طور پر روک لیا گیا تو بھائیوں نے حضرت یوسف کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ’’‌إِن ‌يَسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ أَخٞ لَّهُۥ مِن قَبۡلُۚ‘‘(يوسف: ۷۷) (اگر اس نے چوری کی تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی)، لیکن حضرت یوسف نے اسے اپنے دل میں چھپائے رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا، قرآن کہتا ہے: ’’فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفۡسِهِۦ وَلَمۡ يُبۡدِهَا لَهُمۡۚ‘‘(يوسف: ۷۷)،اس طرح یہ اخلاق کریمانہ کا بھی ایک بڑا مظہر ہے کہ حضرت یوسف اتنی بڑی بات پر ضبط کر گئے اور کچھ ظاہر نہیں کیا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ کتنا بڑا بہتان ہے۔
📂📂📂
تجاہل عارفانہ سے نہ صرف رشتوں میں قربت پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس سے ایک مثبت اور خوش گوار ماحول بھی پیدا ہوتا ہے، اس طرح کا رویہ ایک پر سکون اور تعمیری ماحول کو فروغ دیتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور اعتماد کے ساتھ رہ سکتے ہیں، تجاہل عارفانہ کا فائدہ سوشل میڈیا پر اٹھایا جاسکتا ہے کہ غیر ضروری کومنٹس سے گریز کرتے ہوئے اپنے روز مرہ کے اصل کاموں پر توجہ ہو، ہر اعتراض کا جواب دے کر بات کو طول نہ دی جائے، بس سمجھانے کی اپنی سی کوشش کرلی جائے،اور خصوصاً دوستوں کے معاملہ میں دار وگیر سے بچتے ہوئے آگے بڑھا جائے، اپنے دور کے امام الشعراء، پیدائشی طور پر بصارت سے محروم لیکن صاحب بصیرت شاعر بشار بن برد (و:۱۶۸ھ) نے کہا تھا:
إذَا كُنْتَ فِي كُلِّ الأُمُورِ مُعَاتِبًا خَلِيلَكَ لَمْ تَلْقَ الذي لا تُعَاتِبُهْ
فَعِشْ وَاحِدًا أَوْ صِلْ أخاكَ فإنَّهُ مُقَارِفُ ذَنْبٍ مَرَّةً وَمُجَانِبُهْ
إذَا أنْتَ لَمْ تَشْرَبْ مِرَارًا علَى القَذَى
ظَمِئْتَ وأَيُّ النَّاسِ تَصْفُو مَشارِبُهْ
(وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ابن خلکان، دار صادر، بیروت، ج۱، ص۴۲۳)
(اگر تم ہر معاملہ میں اپنے دوست سے شکوہ کرتے رہو گے تو تمہیں کبھی ایسا دوست نہیں ملے گا جس سے شکوہ نہ کرنا پڑے؛لہٰذا، تنہا زندگی بسر کر لو یا اپنے بھائی کے ساتھ اچھی طرح نباہ لو؛ کیوں کہ وہ کبھی غلطی کرے گا اور کبھی اس سے بچا رہے گا،اگر تم گردوغبار کے ساتھ کبھی کبھی پانی نہیں پیو گےتو تم پیاسے رہ جاؤگے، اور کون ہے جس کا مشروب بالکل صاف ہو؟)۔

https://telegram.me/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

25 Oct, 03:11


کا یہ معمول ہوتا ہے کہ وہ معمولی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور سنگین نوعیت کے تربیتی مسائل کے سلسلہ میں فوری حرکت میں آجاتے ہیں، یہ اصول بچوں کی تربیت میں کارگر ثابت ہوتا ہے، جب والدین یا اساتذہ بچوں کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، تو اس سے بچوں کو اپنی غلطیوں پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے اور ان کی خود احتسابی کی صلاحیت بڑھتی ہے۔
📂📂📂
معاشرتی تعلقات کو مضبوط رکھنے کے لیے تجاہل عارفانہ ایک لازمی رویہ ہے، روزمرہ کی زندگی میں ناخوشگوار یا بار خاطر ہونے والی باتوں کا پیش آنا ایک عام بات ہے، اگر ہم ہر چھوٹی بات پر اعتراض کریں یا فوری ردعمل دیں، تو اس سے رشتے خراب ہو سکتے ہیں اور تعلقات میں دراڑیں پڑ سکتی ہی؛ اس لیے یہی طرز تغافل اختیار کرنا پڑتا ہے، امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے: "العافية ‌عشرة أجزاء، كلها في التغافل" (عافیت کے دس حصے ہیں، اور وہ سب تغافل میں پوشیدہ ہیں) (شعب الإیمان، بیہقي، مکتبۃ الرشد، ممبئی، ۲۰۰۳ء، ج۱۰، ص۸۰۲۸) یعنی اچھے اخلاق کا زیادہ تر حصہ یہی ہے کہ چھوٹی باتوں کو نظر انداز کیا جائے، عربی شاعر نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
لولا التّغافلُ عَن أشياءَ نَعْرِفُها
ما طابَ عَيشٌ ولا دامت مَوَدَّاتُ
یعنی اگر ہم بعض ایسی باتوں کو نظر انداز نہ کریں جنہیں ہم جانتے ہیں، تو نہ زندگی کا لطف ممکن ہے اور نہ ہی محبتیں قائم رہ سکتی ہیں۔
📂📂📂
لیکن اگر بے خبری اور تغافل کی عادت بنالی جائے تو بسا اوقات تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے، بیخود دہلوی (و:۱۹۵۵)نے اس رویہ کی اسی نوعیت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
انہیں تو ستم کا مزا پڑ گیا ہے
کہاں کا تجاہل! کہاں کا تغافل!
یہاں شاعر ایک طنزیہ انداز میں معاشرتی رویہ کو پیش کرتا ہے جہاں تجاہل اور تغافل کے پردہ میں دانستہ ظلم اور حق تلفی کو عادت بنالیا جاتا ہے، اس شعر میں تجاہل عارفانہ کے مثالی رویہ کے بجائے شعوری ستم کا ذکر ہے، جو اس عمل کے کسی مفید پہلو تک رسائی کے برعکس انسانی رشتوں کو مزید پیچیدہ بناتا ہے،دانستہ طور پر کسی کو نظر انداز کرنا، اس کے مسائل سے پہلو تہی اور غفلت، اور صرف اپنے مطلب کی حد تک روابط، یہ وہ تجاہل عارفانہ ہے جو ناقابل قبول اور منفی ہے، اور اصل مسئلہ سے بے تعلقی کی دلیل ہے، مثلاً تمام تر مسائل کے لیے وقت ہو لیکن امت کے جو اہم مسائل ہیں لیکن ان کو ڈیل کرنے میں رسک زیادہ ہے، ان پر سکوت یا لاعلمی کا اظہار ہو، یا دعوت واصلاح کی ذمہ داریوں سے غفلت کی حد تک کنارہ کشی اختیار کی جائے، یا اپنے ماتحتوں کے ساتھ انجانا سا رویہ رکھا جائے، خواہ وہ ایک ذمہ دار اور خدمت گزاروں کا مسئلہ ہو، استاد شاگرد اور امام مقتدی کا تعلق ہو یا ساس بہو کے مابین رشتہ ہو یا تعلقات کی اور جہتیں، یہ رویہ ناپسندیدہ ہے کہ:
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
📂📂📂
تجاہل عارفانہ نہ صرف معاشرتی تعلقات میں بہتری لاتا ہے، بلکہ یہ انسان کے ذہنی سکون اور جذباتی استحکام کا بھی ایک ذریعہ ہے، جب ہم دوسروں کی معمولی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں، تو ہم غیر ضروری تنازعات اور ذہنی دباؤ سے بچ جاتے ہیں، اس طرح یہ ایک حکیمانہ انداز ہے، کسی صاحب نظر کا قول مشہور ہے: ’’العقل ثلثه فطنة وثلثاه تغافل‘‘ یعنی، عقل کا ایک تہائی حصہ ذہانت میں اور دو تہائی حصہ چشم پوشی میں ہے، حقیقیت ہے کہ جو لوگ چھوٹی اور غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں وہ زیادہ متوازن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں، اس سے آپسی احترام ومحبت میں بہتری آتی ہے، اور یہ ایمانی تقاضہ بھی ہے، ابن مبارک(و:۱۸۱ھ) فرماتے ہیں: "المؤمن يطلب المعاذير والمنافق يطلب العثرات"( مومن دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے اوران کی طرف سے عذر ڈھونڈھتا ہے، جب کہ منافق دوسروں کی لغزشیں تلاش کرتا ہے) (إحياء علوم الدين، دار المعرفة، بيروت، ج۲، ص۱۷۷)، ایک صاحب منصب کے لیے یہ رویہ اور زیادہ ضروری ہے، عربی شاعر ابو تمام (و:۲۳۱ھ) نے کیا خوب کہا ہے:
لَيسَ الغَبِيُّ بِسَيِّدٍ في قَومِهِ
لَكِنَّ سَيِّدَ قَومِهِ المُتَغابي
( ایک نادان شخص اپنی قوم کا رہنما نہیں ہو سکتا، البتہ وہ شخص جو دانستہ طور پر چھوٹی باتوں سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کرتا ہے، وہی قوم کی قیادت کا اہل ہوتا ہے) (الموازنة بين شعر أبي تمام والبحتري، حسن بن بشر الآمدي، دار المعارف، ومکتبۃ الخانجي، ۱۹۹۴، ج۳، ص۲۴۸) اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکمت اور بردباری سے معاملات کو سنبھالنے والا شخص ہی قوم میں عزت و مرتبہ پاتا ہے، کامیاب رہنما ہمیشہ اپنے ماتحتوں کی چھوٹی غلطیوں پر ردعمل دینے کے بجائے ان کی بڑی کامیابیوں اور کارکردگی پر توجہ دیتے ہیں اور غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، قرآن مجید بھی اس حکمت عملی کی تائید کرتا ہے، جیسا کہ سورۂ تحریم میں نبی کریم ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا: "عَرَّفَ بَعْضَهُ

علم و کتاب

25 Oct, 03:11


تجاہل عارفانہ: ایک کامیاب حکمت عملی

📝ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
( استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد)

ادب وبلاغت میں’’تجاہل عارفانہ‘‘ ایک نہایت لطیف صنعت ہے، جس کا مطلب بہ ظاہر سادہ مگر انتہائی عمیق ہے، لغوی اعتبار سے یہ ترکیب ’’عمداً غفلت برتنے‘‘ یا’’جان بوجھ کر انجان بننے‘‘ کے معنی رکھتی ہے، عربی ادب میں اس صنعت کو "تجاهل العارف" کہتے ہیں، جو علم بلاغت کی ایک شاخ بدیع کے تحت آتی ہے اوراسی کی ایک قسم’’ المحسّنات المعنویۃ‘‘ ( تحسین معنوی کے ذرائع) کی مثالوں میں شمار ہوتی ہے، اس کا مقصد کسی معلوم حقیقت کو اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے گویا وہ غیر معلوم ہو،یوسف سکّاکی(و:۶۲۶ھ) اس صنعت کی تشریح یوں کرتے ہیں:"سوق المعلوم مساق غیره" ( ایک معلوم حقیقت کو اس انداز میں پیش کرنا کہ وہ غیر معلوم محسوس ہو) (مفتاح العلوم، یوسف السکاکي، دار الكتب العلمية، بيروت، ۱۹۸۷، ص۴۲۷)، اور ایسا کسی خاص مقصد سے کیا جاتا ہے جیسے زجر وتوبیخ یا چھپے ہوئے انداز میں اظہار ناراضگی وغیرہ، تجاہل اور تغافل کا ذکر ہماری کلاسیکی شاعری میں خوب ہے کہ محبوب کو عاشق کی بے قراری اور دوری ومہجوری کے سبب دردو کرب کی پوری خبر ہے، پھر بھی وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے کچھ پتہ ہی نہیں، گویا اصطلاح میں تجاہل عارفانہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی شے یا حقیقت سے خوب واقف ہونے کے باوجود شعوری طور پر اس طرح لاعلمی کا اظہار کرے، جیسے وہ حقیقت اس کی نگاہ میں پوشیدہ ہے، یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعہ انسانی احساسات کو پردۂ غفلت میں چھپا کر ایک مختلف انداز میں بیان کیا جاتا ہے، غالبؔ کا مشہورِ زمانہ شعر اس کی ایک بہترین مثال ہے:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!
یہاں غالبؔ اپنی شناخت سے بخوبی آگاہ ہیں، مگر شعوری طور پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ذات کو اس قدر گہرائی میں چھپا دیتے ہیں کہ گویا ان کی حقیقت کو بیان کرنا ممکن نہیں، وہ اپنے وجود کی پیچیدگی کو مخاطب کے سامنے اس طرح رکھتے ہیں کہ ان کی شخصیت کی وسعتوں کا ادراک کوئی اور کرے، یہی تجاہل عارفانہ کا کمال ہے کہ ایک معروف اور جیتی جاگتی حقیقت کو اس طرح پیش کیا جائے جیسے وہ پوشیدہ اور خاموش ہو بالکل اس طرح جیسے ایک روشن شمع کسی فانوس میں روپوش ہو۔
📂📂📂
لیکن یہاں ہماری مراد تجاہل عارفانہ سے وہ کیفیت ہے جسے عربی میں "تغافل" اور "تغاضي" کہا جاتا ہے، اردو میں اسے چشم پوشی یا اغماض نظر بھی کہ سکتے ہیں، اور انگریزی میں Strategic Ignorance کہا جا سکتا ہے، یہ ایک ایسی تربیتی اور سماجی حکمت عملی ہے جس کے تحت انسان دانستہ طور پر دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کرتا ہے اور ان پر گرفت کرنے سے گریز کرتا ہے، یہ رویہ معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانے اور ذہنی سکون کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوتا ہے، اس رویہ کو عموماً اساتذہ، والدین، بڑوں اور دوستوں کے مثبت کردار اور حکیمانہ رہنمائی کے تناظر میں استعمال کیاجاتا ہے، بلخ کے ایک بڑے عالم اور صاحب دل بزرگ حاتم الاصم(و:۲۳۷ھ) تھے، جن کو اس امت کا لقمان حکیم کہتے تھے،ان کے پاس ایک خاتون کسی مسئلہ کی بابت کچھ دریافت کرنے آئی، عورت سے دوران گفتگو غفلت میں طبعی آواز نکل گئی، انہوں نے کہا: کیا کہہ رہی ہو! زور سے کہو؛ تاکہ وہ سمجھے کہ ان کی توجہ گفتگو پر ہے، کسی اور جانب نہیں، اور انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں، جب وہ اس کی گفتگو نہیں سن سکے تو کوئی اور آواز کہاں سنی ہوگی؟ اس نے سکون کی سانس لیتے ہوئے کہا: یہ تو ’’أصمّ‘‘ (بہرے) ہیں یا اونچا سنتے ہیں، جب کہ انہوں نے دانستہ اس کو سبکی اور شرمندگی سے بچا لیا تھا(طبقات الأولياء، ابن الملقن، مكتبة الخانجي، مصر، ۱۹۹۴، ص۱۷۸) ان کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کبھی کبھی دوسروں کی غلطیوں اور خود ان کو آپ شرمسار کرنے والی حرکتوں پرتجاہل عارفانہ کا رویہ ان کی عزت نفس کا تحفظ کرتا ہے، حضرت حسن بصریؒ (و:۱۱۰ھ) فرماتے ہیں: ’’ما استقصی کریمٌ قط‘‘( کوئی شریف النفس انسان کسی سے استفسار میں یا اپنے گردو پیش کی باتوں میں بال کی کھال نہیں نکالتا) (تفسير البغوي، دار طيبة للنشر والتوزيع، ۱۹۹۷، ج۸،ص۱۶۴)۔
📂📂📂
تربیت کے میدان میں تجاہل عارفانہ ایک بہترین طریقہ ہے، بچوں کی فطرت ہے کہ وہ دنیا کو تجربات کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس عمل میں اکثر خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں، اگر ہر غلطی پر فوری گرفت کی جائے تو بچہ کی خود اعتمادی متاثر ہو سکتی ہے اور وہ سیکھنے کی صلاحیت کھو سکتا ہے، ایک طرز تربیت تھا جس کوہیلی کاپٹری پرورش Helicopter parenting کہتے ہیں، جس میں والدین بچوں کے مسائل پر کافی قریبی توجہ دیتے ہیں، یعنی ہیلی کاپٹر کی طرح تعاقب یا نگرانی کرتے ہیں، جس میں اولاد کی زندگی کے ہر واقعہ کا مسلسل احاطہ کرنا شامل ہوتا ہے، اس کے بالمقابل وہ والدین جو چھپے ہوئے حرکیاتی والدین ہوتے ہیں، اس دور میں وہ زیادہ موثر ہیں؛ کیوں کہ ان

علم و کتاب

24 Oct, 18:21


*جلوہ ہائے پابہ رکاب (25) تاریخ پڑھانے کا انوکھا طریقہ*
*تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
میں پانچویں کلاس میں پڑھ رہا تھا، تاریخ کی گھنٹی شروع ہونے والی تھی۔ استاذ آئے، وہ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی تھے۔ اس لیے طلبہ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ بیٹھنے کے فورا بعد کہنے لگے : تم نے لوگوں کو سگریٹ پیتے دیکھا ہو گا، ہو سکتا ہے تمہارے کچھ رشتہ دار بھی سگریٹ پیتے ہوں۔ اب مجھے تم لوگ کچھ مشہور سگریٹ کے نام بتاؤ۔ طلبہ دنگ رہ گئے کہ یہ کیسا سوال ہے ؟ اور استاذ آج سگریٹ کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ طلبہ خاموش رہے، تو انہوں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس زمانے میں جو سگریٹ بہت مشہور تھا وہ تھا Passing Show ، طلبہ نے یہ نام بتایا۔ استاذ نے اور نام بتانے کو کہا۔ ان دنوں ایک اور سگریٹ مشہور تھا جس کا نام تھا اکبر "۔ اس کا پیکٹ زرد رنگ کا ہوتا تھا اور اس پر ایک بادشاہ کی تصویر بنی رہتی تھی۔ کچھ طلبہ نے اکبر سگریٹ کا نام بتایا۔ استاذ بہت خوش ہوئے، اور اس نام کو بڑے حرفوں میں بورڈ پر لکھ دیا اور کہا: ہمارا آج کا سبق شہنشاہ اکبر ہے۔ یہ واقعہ کچھ ۷۵ سال پہلے کا ہے، لیکن یہ سبق میرے ذہن میں اتناہی تازہ ہے کہ جیسے استاذ نے اسے کل ہی پڑھایا ہو۔ اور اس کی وجہ استاذ کا وہ انوکھا طریقہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے شہنشاہ اکبر کا تعارف کرایا تھا۔ ذہن اکیلی بات کو بھول جاتا ہے لیکن جو بات اپنی سہیلیوں کے ساتھ آتی ہے اس کو آسانی سے بھولتا نہیں ہے۔

علم و کتاب

24 Oct, 18:04


ساحر لدھیانوی (وفات ۲۵ اکتوبر) تحریر حافظ لدھیانوی

علم و کتاب

24 Oct, 17:54


وفیات مورخہ ۲۵؍ اکتوبر
https://telegram.me/ilmokitab
انور کیف 25/اکتوبر/2012ء
پروفیسر حیدر عباس رضوی 25/اکتوبر/2013ء
ساحر لدھیانوی 25/اکتوبر/1980ء
ضیاء الحق قاسمی 25/اکتوبر/2006ء
ضیاء گوگ الپ 25/اکتوبر/1924ء
محمود اعظم فاروقی 25/اکتوبر/1997ء
علامہ موسیٰ جار الله 25/اکتوبر/1949ء
مولانا افتخار فریدی 25/اکتوبر/1918ء
مولانا عبدالرشید بستوی 25/اکتوبر/2018ء
مولوی محمد عباس انصاری(کشمیر) 25/اکتوبر/2022ء
ہادی مچھلی شہری(سید محمد ہادی) 25/اکتوبر/1961ء
وراثت مرزا 25/اکتوبر/1991ء

علم و کتاب

24 Oct, 14:21


*علمِ نبوت اور نورِ نبوت*

حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: اس دور میں اہلِ علم، علمِ نبوت تو حاصل کرلیتے ہیں اور نورِ نبوت اللّٰه والوں کے سینوں سے ان کی صحبتوں میں رہ کر نہیں حاصل کرتے، اسی سبب سے اعمال اور اخلاق میں کوتاہیاں طاری رہتی ہیں اور فرمایا کہ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اللّٰه والوں کی مَحبّت کا سوال اس طرح فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ عَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ (جامع ترمذی: ۳۴۹۰)۔ (اے اللّٰه! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں، جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کا بھی سوال کرتا ہوں، جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔) اس دعا میں تین محبتوں کا سوال ہے، (۱) اللّٰه تعالیٰ کی محبت، (۲) عاشقانِ حق کی محبت، (۳) ان اعمال کی محبت، جو محبتِ الہٰیہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا کہ دنیا میں حق تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اس سے آسان اور لذیذ تر اور قریب تر راستہ کہ اہل اللّٰه سے محبت کی جائے، میرے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں ہے۔

اہل اللّٰه کی صحبت کی افادیت/صفحہ: ١٩٦/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

علم و کتاب

24 Oct, 09:26


عمامہ اور ٹوپی
موجودہ قضیے میں ذیل کا اقتباس نظر سے گزرا تو ہمیں بھی اپنا ایک واقعہ یاد آگیا۔اج سے کوئی 20 برس قبل پنجاب کے کسی علاقے میں ہم موجود تھے،ظاہر ہے کہ مسافر تھے۔ مغرب کا وقت ہوا تو ہمارے ساتھ موجود مقامی حضرات نے ہمیں ایک چھوٹی سی مسجد میں امامت کے لیے آگے کر دیا اصرار اس قدر زیادہ تھا کہ ہم بھی مصلے پر کھڑے ہو گئے، لیکن اقامت سے قبل وہاں کے موذن صاحب جلدی سے اپنا میلا کچلا رومال لے کر اگے بڑھے اور ہمیں کہنے لگے کہ اسے باندھ لیجیے، ایک تو نہ جانے کس ظالم نے اس رومال کو عمامے کا متبادل قرار دے رکھا ہے، چلیے اگر علامتی طور پر اسے عمامے کا متبادل قرار دے بھی دیا جائے تب بھی عمامے کا کچھ تو تقدس ہوگا، وہ رومال جو دنیا جہان کی ضرورتوں کی تکمیل میں ہم سے تعاون کرتا ہے،آخر اسے کیسے اس سر کی زینت بنا لیا جائے جو ابھی خداوند قدوس کے حضور عبودیت کی سب سے بڑی رسم کی ادائیگی میں جھکنے والا ہے۔ خیر ہم نے منع کر دیا، انہوں نے تھوڑاسا اصرار کیا تو ہمیں بھی طرارہ آگیا اور کھڑے کھڑے کہہ دیا کہ اب نماز یا تو اسی طرح ہوگی یا نہیں ہوگی، اور اگر اب اس لمحے کے بعد کسی اور نے اصرار کیا تو اب کوئی اور صورت نہیں نماز بھی ہمیں پڑھائیں گے اور ننگے سر پڑھائیں گے۔یہ واقعہ پڑھ کر اطمینان ہوا کہ ہمارے اس عمل کو اس قدر بڑے اور جید بزرگوں کی تائید حاصل ہے۔الحمدللہ
اب واقعہ پڑھیے:

میاں نذیر حسین راوی ہیں کہ شاہ عبدالعزیز نے شاہ اسحاق کو اپنے یہاں نماز کی امامت پر مامور کر دیا تھا۔ایک افغانی نے اس پر شاہ عبدالعزیز سے اعتراض کیا کیا وہ بغیر امام کے نماز کی امامت کرتے ہیں تو انہوں نے بات ٹال دی۔ چند روز بعد افغانی نے پھر اعتراض کیا تو شاہ عبدالعزیز کو جلال آگیا اور انہوں نے فرمایا کہ ابھی تک وہ (شاہ اسحاق) بغیر عمامے کے نماز پڑھاتا ہے۔ اب میں اس سے کہوں گا کہ بغیر ٹوپی کے نماز پڑھا۔

(حکیم سید محمود احمد برکاتی۔حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی:ص 33)
سید عزیز الرحمن
Https://telegram.me/ilmokitab

علم و کتاب

24 Oct, 06:41


تبلیغی جماعت کا کام بھی یہاں مضبوط ہے، اور اس کی وجہ سے یہاں دینی مزاج نظر آتا ہے۔ یہاں علماء کی بھی بڑی تعداد ہے، جن میں پچیس سے تیس صرف ندوی فضلاء ہوں گے۔ ان میں بزرگ ندوی فاضل مولانا عبدالعزیز صاحب ندوی اور ممتاز فاضل مولانا ابودجانہ عثمانی ندوی سجادہ نشیں خانقاہ سملہ ضلع اورنگ آباد کا وجود غنیمت ہے، مولانا موصوف ندوہ میں استاد بھی رہ چکے ہیں۔
مولانا عبدالعزیز صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی اور انہوں نے یہاں کے علمی وتعلیمی حالات تفصیل سے بتائے۔ ہمارے دیرینہ کرم فرما مولانا زاہد ندوی بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ شہر سے دوررہتے رہیں اس لیے ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔
مسلمان مجموعی حیثیت سے یہاں خوش حال ہیں، لیکن ضرورت ہے کہ اتنی بڑی تعداد کی دینی وفکری رہنمائی کا نظم بھی ہو اور دینی شعور کے ساتھ ان کی فکر وثقافت بھی بلند ہو۔ کیوں کہ مسلم تمدن ایسے ہی جگہوں پر فروغ پاتا ہے۔ اس کے لیے اہل علم کو اس شہر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہاں کے اہل علم کو خاص طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

علم و کتاب

24 Oct, 06:41


جمشید پور دار السرور کی سیاحت
طلحہ نعمت ندوی
مسلمانوں کی تمدنی وثقافتی روایات کا بھی کیا کہنا، وہ اس جہاں میں مانند خورشید جیتے ہیں، کبھی ایک شہر ان کے تمدنی وثقافتی آثار سے سرفراز ہوتا ہے تو کبھی دوسرا شہر، زمانہ کی گردشیں جب انہیں ایک جگہ سے محروم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو دوسری جگہ ان کے لئے آمادہ خیر مقدم ہوتی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں نہ جانے کتنے ایسے شہر وجود میں آئے جن کو مسلمانوں نے کبھی جنت نظیر کہا کبھی شیراز ہند کہا، کبھی شادی آباد کے نام سے موسوم کیا، کبھی خیر البلاد سے تعبیر کیا، اور کبھی دار السرور کے لقب سے نوازا۔ چنانچہ رامپور اور برہانپور اور اس وزن کے کئی شہروں کو جہاں مسلم وتمدن وثقافت کو فروغ ملا دار السرور کے نام سے موسوم کیا گیا، جن میں دار السرور برہانپور کو سب سے زیادہ شہرت ہوئی۔
دور حاضر میں اگر یہی لقب نئے شہروں میں جمشید پور کو بھی دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ اس شہر کی تاریخ ایک پارسی تاجر جمشید جی سے شروع ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت سے ہم آہنگی کی وجہ سے یہ مسلمان نام معلوم ہوتا ہے اور یہ سچ ہے کہ پارسی سے زیادہ مسلمان ہی یہ نام رکھتے ہیں۔ ایران میں ایک چھوٹی سی بستی جمشید آباد کے نام سے اب بھی موجود ہے۔
بہر حال جمشید جی کے نام پر اس شہر کا نام جمشید پور پڑا اور ان کی مشہور کمپنی ٹاٹا کی وجہ سے اسے ٹاٹا نگر بھی کہا جاتا ہے ، اسٹیشن پر یہی نام نظر آتا ہے۔ لوہے کے کارخانوں کی وجہ سے اسے شہر آہن کا لقب بھی دیا گیا ہے،جو اپنی ادبیت ومعنویت میں اس کے لیے بالکل موزوں ہے ۔۔ ۱۹۱۹ میں ساکچی نامی ایک چھوٹی سی بستی میں جمشید جی نے ایک اسٹیل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی پھر لوہے کے کاروبار کا آغاز کیا، اس وقت یہ بستی جو اب شہر کی مرکزی جگہ ہے ضلع سنگھ بھوم میں تھی، اور اس کا ایک حصہ کالی ماٹی کے نام سے مشہور تھا۔ ٹاٹا صاحب کو معدنیات کے ذخائر کی وجہ سے یہ جگہ پسند آئی اور انہوں نے اس کو آباد کیا اور دیکھتے دیکھتے یہ ایک آباد شہر میں تبدیل ہو گیا۔
راقم کو اس ہفتہ اسی شہر میں چار دن گذارنے کا موقع ملا اور علمی وتعلیمی حالات سے واقفیت حاصل ہوئی۔
جھارکھنڈ کا علاقہ جو انگریزوں کے دور میں چھوٹا ناگپور کے نام سے مشہور رہا مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ یہاں بہت قدیم نہیں ہے، خود رانچی کو انگریزوں نے ترقی دی تھی اور خوشگوار موسم کی وجہ سے اسے عہد سرما میں صوبہ کا دارالحکومت بنایا تھا۔
بہر حال جمشید پور میں ستر کی دہائی میں سخت فساد بھی ہوا، اس وقت یہاں مسلمانوں کی اتنی تعداد نہیں تھی لیکن اس کے بعد الحمد للہ اس شہر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ یہاں کے معروف اہل علم جناب عبدالکبیر صاحب تھے جنہیں اس شہر کا سرسید کہا جاتا ہے، انہوں نے کبیریہ ہائی اسکول کی بنیاد رکھی پھر نسواں کالج اور مسلم اسکول بھی قائم کیا، اور سب سے بڑھ کر الکبیر ٹیکنیکل ادارہ قائم کیا جو آج ملک کے اہم مسلم تکنیکی تعلیم کے اداروں میں شامل ہے، اس کا نظم ونسق ہر طرح قابل تعریف ہے۔ مسلم کالجز میں کریم سٹی کالج بہت مشہور ہے، اس کے علاوہ یہاں اٹھارہ کالج ہیں۔ کئی اہم اسکول ہیں، ایک مدرسہ حسینیہ اور ایک مدرسہ مدینۃ العلوم بھی ہے۔ جس میں اب ایم او اکیڈمی کے نام سے ایک اسکول قائم ہے، اور شہر میں مسلمانوں کا بہت ہی اہم اسکول ہے،اس کے بالائی حصہ میں علامہ سید سلیمان ندوی ہال بھی ہے۔ اس کے بانی سید حسن عثمانی تھے جو سملہ ضلع اورنگ آباد کے مشہور علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور شہر کے ان بزرگوں میں ہیں جنہوں نے یہاں تعلیم کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیاہے، پہلے انہوں نے مدرسہ قائم کیا تھا پھر اس اسکول کی بنیاد ڈالی۔
ان کے چچا زاد بھائی مولانا شاہ علی احمد عثمانی نے یہاں خانقاہ الشرف کی بنیاد رکھی اور ایک مدت تک لوگوں کو فیض یاب کرتے رہے، اور شہر کے بہت سے لوگ سے ان سے وابستہ ہوکر دینی تربیت حاصل کرتے رہے۔ اب بھی یہ خانقاہ آباد ہے۔
کبیریہ ہائی اسکول کے سابق ہیڈ ماسٹر الحاج سید مظفر حسین صاحب جن کا آبائی وطن سیوے ضلع جموئی تھا اس شہر میں اس اسکول کے حسن انتظام کی وجہ سے مشہور رہے اور یہاں تعلیم کے فروغ میں ان کا بہت ہی اہم حصہ تھا۔ انہوں نے مخلوط تعلیم کے بجائے یہاں لڑکے لڑکیوں کے درمیان پردہ کا ایسا نظم کیا تھا جو اس دور میں کہیں اور نہیں نظر آتا۔
شہر میں ایک مسلم لائبریری بھی ہے لیکن وہ اہتمام سے نہیں کھلتی۔
اس کے علاوہ یہ شہر مسجدوں کے شہر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہاں کئی اہم مساجد ہیں جو اس دور میں مسلمانوں کے عہد ترقی کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ چنانچہ ساکچی کی جامع مسجد جو شہر کی سب سے بڑی مسجد ہے بہت پرشکوہ ہے، اسی طرح دھتکی دیہ کی مسجد کی بھی بہت شہرت ہے لیکن اسے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ پچاسوں اہم مساجد ہیں، جو یہاں کے مسلمانوں کے ہی تعاون سے تعمیر ہوئی ہیں۔

علم و کتاب

23 Oct, 04:45


سلسلہ نمبر: 219
انتخاب مطالعہ
تحریر: *فؔتح ﷲ گولنؒ*

*آپﷺکو ہر معاملے میں درجۂ کمال حاصل تھا*

بعض لوگ خاص میدانوں میں صف اول کے لوگوں میں شامل ہوتے ہیں ؛ لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں ہم انہیں پچھلی صفوں میں پاتے ہیں، چنانچہ ہم میدان جنگ کے کامیاب سالار کو دیکھتے ہیں کہ جنگی فنون میں چاہے اسے کتنی ہی مہارت حاصل کیوں نہ ہو وہ بعض اوقات شفقت، نرم دلی اور فہم میں ایک معمولی چرواہے کے مرتبے کو بھی نہیں پہنچ پاتا ؛ بل کہ اس کے برعکس قتل کا عادی ہونے کی وجہ سے عام طور پر ایک رحم دل انسان ثابت نہیں ہوتا،اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کثرت سے جنگ و قتال میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس کے احسانات و جذبات کی لطافت و حساسیت ختم ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ کسی انسان کو قتل کرتے وقت کسی قسم کے رحم کے جذبات کو محسوس نہیں کرتا ۔
بعض اوقات ایک سیاست دان سیاست کے میدان میں جس قدر کام یاب ہوتا ہے، سچائی سے اسی قدر دور ہوتا ہے اور بعض اوقات تو انسانی حقوق کی بھی پاسداری نہیں کرتا، سیاست کے میدان میں کام یابی کے باوجود سچائی و مروت سے دوری اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات ایک حیثیت سے رفعت اور دوسری حیثیت سے پستی بیک وقت پائی جاتی ہیں۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے بعض انسان اثباتی فلسفے (positivism) سے متاثر ہوکر ہرچیز پر تجربات کرنے لگتے ہیں ؛ لیکن روحانی اعتبار سے بالکل صفر ہوتے ہیں ؛ بل کہ بعض لوگ عقلی اعتبار سے ماؤنٹ ایوریسٹ کی چوٹی کو چھو رہے ہوتے ہیں ؛ لیکن روحانی اعتبار سے بحر مردار (جس میں قوم لوط غرق ہوئی تھی) کی پستیوں میں گرے پڑے ہوتے ہیں،کتنے ہی لوگوں کی عقل ان کی آنکہوں میں آجاتی ہے،جس کے نتیجے میں انہیں مادی چیزوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، وہ الہامی حکمت کے سامنے احمقوں کی طرح حیران کھڑے رہتے ہیں اور ان کی آنکھیں حقیقت کو دیکھنے سے محروم ہوجاتی ہیں ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگ خاص خاص میدانوں میں کامیابی حاصل کرتے ہیں،تو دیگر زیادہ اہم شعبوں میں ناکام بھی رہتے ہیں، گویا انسان میں موجود متضاد صفات ایک دوسرے کے خلاف کام کرتی ہیں،جب ایک صفت میں وسعت و قوت پیدا ہوتی ہے تو دوسری صفات سے اس کو نقصان پہنچتا ہے اور جب ایک صفت میں نشو نما ہوتی ہے تو دوسری صفات ضعف کا شکار ہوجاتی ہیں۔
لیکن رسول ﷲﷺکی شخصیت میں یہ بات نہیں پائی جاتی ؛ آپؐ جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شفیق بھی تھے، ماہر سیاست ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی با مروت اور با ضمیر بھی تھے،مادی اور تجرباتی امور کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ روحانیت میں اعلٰی ترین مقام پر فائز تھے، جنگ احد و غیرہ کے واقعے میں اس کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں .......

( *محمد نور سرمدی فخر انسانیت، صفحہ: 334، طبع: ہارمنی پبلیکیشنز، اسلام آباد*)

مترجم: محمد اسلام
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

علم و کتاب

22 Oct, 18:59


وفیات مورخہ: ۲۲؍ اکتوبر
https://telegram.me/ilmokitab

اوج بدایونی 22/اکتوبر/1992ء
آ صف علی اصغر علی فیضی 22/اکتوبر/1981ء
پرتو لکھنوی 22/اکتوبر/1982ء
پروفیسر خواجہ حمید الدین شاہد 22/اکتوبر/2001ء
حکیم سید شمس اللہ قادری 22/اکتوبر/1953ء
خواجہ ناظم الدین 22/اکتوبر/1964ء
سموئیل فیضی رحمین 22/اکتوبر/1964ء
علی احمد فضیل 22/اکتوبر/2022ء
قیصر افغانی 22/اکتوبر/1994ء
محمد مسعود عالم، حکیم قاضی 22/اکتوبر/1968ء
مولوی عنایت اللہ دہلوی 22/اکتوبر/1943ء
مولانا عبد القادر(صوا بی) 22/اکتوبر/1969ء
شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سند یلوی 22/اکتوبر/1995ء
مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری 22/اکتوبر/1986ء
مولانا محمد میاں دیوبندی 22/اکتوبر/1975ء
وجیہ الدین فضلی ساحر، محمد 22/اکتوبر/1979ء

علم و کتاب

22 Oct, 15:45


علامہ سید سلیمان ندویؒ کی شرافت طبعی اور ایک تکلیف دہ واقعہ پر صبروتحمل
https://telegram.me/ilmokitab
-----
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
آخری چیز جو ان[علامہ سید سلیمان ندوی] کی پوی زندگی میں نمایاں رہی وہ ان کی طبیعت کی شرافت ومروت تھی وہ باکل بے آزار اور غیر منتقمانہ طبیعت کے آدمی تھے ان کے لئے ظالم کے بجائے مظلوم بننا بہت آسان تھا ، ان کی یہ صفت اس درجہ تک پہونچی ہوئی تھی جو کمزور ی سے تعبیر کی جاتی تھی ، ایک ایسی سوسائٹی میں جو اس طر ح کی صفات کی قدر کرنے کی عادی نہیں ان کو اپنی اس افتاد طبع کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی اور اپنی رضا مندی کے خلاف بہت سے فیصلے کرنے پڑے، اس طویل زندگی اور وسیع تعلقات میں شاید کوئی ایسا شخص مل سکے جو بیان کرے کہ سید صاحب نے اس کو کبھی نقصان پہونچایا یا اپنی ذات کا انتقام لیا ۔
(پرانے چراغ، ج:۱ ، ص: ۵۱)

رجحان اور ذوق کی تبدیلی اور عمر کی ترقی کے ساتھ ساتھ سید[سلیمان ندوی ] صاحب کا دار العلوم[ندوۃ العلماء] کے بارے میں ذوق ورجحان بھی خاصہ بدل گیا تھا، اب وہ اس کو محض ایک علمی ادارہ اور پڑھنے پڑھانے اور علوم جدیدہ سے بقدر ضرورت واقفیت کا مرکز سمجھنے پر قانع نہ تھے، دوسرے مختصر وبلیغ الفاظ میں وہ’’ لسان العصر‘‘ اکبر الہ آبادی کی اس تعریف کو پسند نہیں کرتے تھے جو انھوں نے فضلائے ندوہ کا امتیاز بیان کرنے کے لئے خود سید صاحب کی نوجوانی میں کی تھی ؎
اور ندوہ ہے زبان ہوشمند
وہ ندوہ کو قلب درد مند، ذہن ارجمند اور زبان ہوشمند ، تینوں کا مجموعہ دیکھنا چاہتے تھے، اور اسی ترتیب وتناسب کے ساتھ کہ پہلا مقام قلب درد مند کا ، دوسرا ذہن ارجمند کا اور اس کے بعد ان کی ترجمانی کے لئے زبان ہوشمند ہو، ندوہ میں دینی شخصیتوں اور دینی مرکزوں سے جو بیگانگی عرصہ سے چلی آرہی تھی، اس میں کچھ کمی تو خود سید صاحب کے اس جدید تعلق اور رجحان سے پیدا ہوئی جس کا اوپر تذکرہ ہوا، اور کچھ کمی مولانا الیاس صاحبؒ کے اس ہفت روزہ قیام سے جو ندوہ ہی کے مہمان خانہ میں تھا، اور جس میں انہوں نے اس ماحول کو پورے طور پر اپنے سوزِ دروں اور اپنی روح اور اپنے جسم کی بے تابی سے بے چین اور متحرک رکھا، لیکن سید صاحب اس سے زیادہ چاہتے تھے۔(پرانے چراغ، ج:۱ ، ص: ۳۲)

سید صاحب کے ان نئے رجحانات نے طلباء میں وہ مقبولیت اور کامیابی حاصل نہیں کی جو ان کے مقام کے لحاظ سے متوقع تھی بلکہ اس سے ایک ذہنی کشمکش پیدا ہوئی، اس کا نقطۂ عروج وارتقاء طلباء کی وہ اسٹرائک تھی جو ۱۹۴۳؁ء میں پیش آئی ، آغاز اس کا اگرچہ کچھ انتظامی معاملات سے ہوا، لیکن اس کے اندر بے اطمینانی اور کشمکش کی یہی روح کام کررہی تھی اس اسٹرائک کی قیادت ہمارے بعض عزیز شاگرد کررہے تھے ، جو دار العلوم[ندوۃ العلماء] کے بہترین طلباء تھے، اور ان سے ہم نے اور دار العلوم نے بڑی بڑی توقعات قائم کی تھیں ، ان میں سب سے زیادہ نمایاں میرے عزیز ترین شاگرد علی احمد کیانی تھے مجھے اپنے دس سال کے تدریسی دور میں اور اس کے بعد بھی جب میں نے بحیثیت نائب معتمد اور معتمد کے کام کیا اس نوجوان سے زیادہ ذہین ، ذی استعداد اور سلیم الطبع طالب علم نہیں دیکھا، دوسرے اورتیسرے ہی درجہ سے اس کا یہ حال تھا کہ صرف ونحو کی غلطی اس سے ہونی بہت مشکل تھی، میرے بعض عربی مضامین کا ترجمہ بھی کیا تھا، وہ اسٹرائک کے بعد جب کراچی گئے تو اپنی نو عمری کے باوجود کراچی کی علمی مجلسوں میں علامہ کیانی کے نام سے مشہور ہوئے، جیسا کہ طلباء کے ہنگاموں میں ہواکرتا ہے، وہ طوعاً وکرہاً طلباء کے نمائندہ اور اسٹرائک کے قائد بن گئے۔ ان کے سب استادوں کو اور بالخصوص مجھے ان کے اس ہنگامہ میں نہ صرف شریک ہونے بلکہ قائد بننے سے سخت قلق تھا، زیادہ تر اس وجہ سے کہ اس اسٹرائک کی زد سید صاحب کی شخصیت اور ان کی معتمدی پر پڑتی تھی، بلکہ وہ اس وقت ندوہ کے حقیقی مربی اور سرپرست اور اس کے لئے سینہ سپر تھے، سید صاحب کے دل کو بھی اس ہنگامہ سے بڑی چوٹ لگی ان کے دل میں ندوہ کی خدمت اور طلباء کی تربیت کی بڑی بڑی امنگیں تھیں ، ان کو اس سے اپنی تمنائوں کا خون اور اپنی کوششوں کی ناکامی کا منظر نظر آیا اور بہت دل شکستہ اور افسردہ ہوگئے، انھیں دنوں میں علی احمد مرحوم پر جنون کا دورہ پڑا اور حالت یہاں تک پہونچی کہ ان کو گھر والوں نے رسیوں سے باندھ دیا ان کے بھائی میرے برادر معظم داکٹر سید عبد العلی صاحب مرحوم کو ان کو دکھانے کے لئے گھر لے گئے ، میں بھی خصوصی تعلق کی بناء پر ساتھ ہوگیا، مرحوم کو جب رسیوں سے باندھا ہوا دیکھا تو آنکھ میں آنسو آگئے کہ یہ نوجوان جو اپنی ذکاوت اور صحیح الدماغی میں اپنے ساتھیوں کے لئے بھی قابل رشک تھا، اس حالت میں ہے ، بھائی صاحب نے نسخہ لکھا اور تشریف لے آئے، سید صاحب اس زمانہ میں اتنے دل برداشتہ تھے کہ دار العلوم میں قیام بھی نہیں فرمایا، ہمارے ہی گھر میں مقیم تھے، میں نے ایک مرتبہ تنہائی میں موقع

علم و کتاب

22 Oct, 15:45


پاکر عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ علی احمد کی زبان سے آپ کی شان میں کوئی لفظ نکل گیا، اس طوفان بے تمیزی میں کچھ بعید نہیں کہ ان پر جذباتیت غالب آئی ہو اور ناگفتنی کا ارتکاب کیا ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے ، ’’من اٰذیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب‘‘ اور آپ تو ان کے محسن اور مربی بھی تھے،سید صاحب نے اس کے جواب میں تواضع اور فروتنی کے الفاظ فرمائے اور کہا کہ میں کیا چیز ہوں میں نے دوبارہ عرض کیا اور دعا کی درخواست کی ، سید صاحب نے اس پر سکوت فرمایا، دوسرے یا تیسرے دن مجھ سے فرمایا کہ مولوی علی صاحب میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کردی، اب اس واقعہ کو سید صاحب کی کرامت سمجھا جائے یا اس کو کسی اور بات پر محمول کیا جائے کہ عزیز موصوف بالکل اچھے ہوگئے، اور جہاں تک مجھے علم ہے یہ دورہ پھر کبھی نہیں پڑا ، افسوس ہے کہ یہ شعلۂ مستعجل بالکل نو عمری میں ۱۹۵۰؁ء میں گل ہوگیا۔
(پرانے چراغ، ج:۱ ، ص: ۳۵)

حضرت سید صاحب ؒ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے نام ایک خط میں اس حادثہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
جو شخص اس فتنہ کا بانی ہے۔ چند ماہ پہلے تک میں نے ہمیشہ اس پر بھروسہ کیا، بڑھایا اور توقعات قائم کیں ، لیکن دفعتہ تھانہ بھون کی نسبت کے بعد اس نے [؟وہ] ایسے طریقے سے حملہ آور ہوا جو میرے گمان میں بھی نہ تھا، ان کی گربہ مسکینی جو مجھ پر سالہا سال تک ذریعہ شفقت ومحبت بنی رہی۔ ۱۰؍ اگست ۱۹۴۳؁ء [مولانا عبدالماجد صاحب حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں :یہ اشارہ غالباً ایک ایسے ندوی کی طرف ہے جو بعد کو پاکستان چلے گئے تھے اور وہیں اب کئی سال ہوئے کہ ان کا انتقال ہوگیا اس وقت طلباء میں ممتاز تھے ۔ عبدالماجد]
(مکتوبات سلیمانی، ج:۲ ، ص: ۱۴۰)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

22 Oct, 03:33


سلسلہ نمبر: 218
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا امین اؔصلاحیؒ*


*داعیٔ حق کی ذمہ داری*

ایک داعی حق کے کام کی صحیح مثال ایک دؔہقان کے کام سے دی جاسکتی ہے، جس طرح اس کا مقصد صرف اتنی سی بات سے حاصل نہیں ہوسکتا کہ کچھ بیج کسی زمین میں ڈال کر فارغ ہو بیٹھے،اسی طرح ایک داعیٔ حق کا کام بھی صرف اتنے سے انجام نہیں پاسکتا کہ وہ لوگوں کو کچھ وعظ سنا کر سو رہے ؛ بل کہ اس کے مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر اپنی پھیلائی ہوئی دعوت کے ساتھ وہی لگاؤ ہو جو ایک فرض شناس کسان کو اپنے بوئے ہوئے بیج کے ساتھ ہوتا ہے،جس طرح کسان نگرانی کرتا ہے کہ بیج زمین میں جڑ پکڑے،اس کو صحیح وقت پر پانی ملے، موسم کی ناسازگاریوں سے محفوظ رہے،صحیح طور پر نشو نما پائے،بیگانہ سبزے اس کی ترقی میں مزاحم نہ ہوں، فضا کے پرندوں اور زمین کے چرندوں کی تاخت سے وہ سلامت رہے اور جب ایک مدت تک اس دھن میں اپنے دن کے اطمینان اور رات کے سکون کو وہ درہم برہم رکہتا ہے،لگاتار محنت اور مسلسل نگہداشت کرتا ہے،تب جاکر کہیں اپنی محنت کا پھل پاتا ہے،اسی طرح ایک داعیٔ حق کو بھی اسی صورت میں پھلتے پھولتے دیکھنا نصیب ہوتا ہے،جب وہ دعوت کے ساتھ ساتھ تربیت کی جانکاہیوں کے ایک طویل سلسلے کو جھیلنے کی قابلیت اور ہمت رکھتا ہو،ورنہ جس طرح ایک غافل کسان کے بوئے ہوئے بیج زمین اور موسم کی بے مہریوں اور چرند پرند کی ترکتازیوں کی نذر ہوجاتے ہیں، اسی طرح ایک داعی کی دعوت بھی صدا بصحراء ہوکے رہ جاتی ہے۔

( *دعوت دین کی اہمیت اور اس کے تقاضے،صفحہ: 32، طبع: دعوت اکیڈمی،اسلام آباد*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

علم و کتاب

22 Oct, 00:50


*بات سے بات: فتح اللہ گولن ، ہیرو یا ویلن*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B


آج ترک مفکر وداعی فتح اللہ گولن کی وفات کی خبر پر ہماری اس بزم علم وکتاب میں منفی و مثبت ، تائید ومخالفت دوںوں انداز کے تبصرے موصول ہوئے ہیں، ان تبصروں پر ہمیں کچھ کہنا نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ممبران اہل علم ہیں وہ خود کسی نتیجہ پہنچنے کی صلاحیت ہم سے بہتر رکھتے ہیں۔ باوجود اس کے اس تعلق سے اپنے بھی چند تاثرات بیان کرنے میں حرج نہیں۔
۔ کسی تحریک کے مثبت یا منفی پہلؤوں پررائے قائم کرنے سے پہلے ان تحریکوں کے آغاز اور ان کے وابستگان پر گذرنے والے حالات کا غیر جذباتی اور سنجیدہ انداز سے تجزیہ ہونا ضروری ہے۔

۔ برصغیر میں ایک بڑی اور موثر تحریک گذری ہے جو مہدوی تحریک کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے، اس کے بانی محمد جونپوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑے مخلص اور پابند شریعت انسان تھے۔ اور مغلیہ دور سلطنت میں پنپنے والی بدعات اور خرافات اور ظلم وزبردستی کے خلاف یہ ایک اصلاحی تحریک تھی، لیکن اس کے ماننے والوں پر اتنا ظلم وتشدد ہوا کہ اس تحریک کی شبیہ ہی بدل گئی، اور آہستہ آہستہ یہ تحریک گمراہی کے دلدل میں پھنستی چلی گئی، اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے مغلوں اور مسلمان سلطنتوں کے مقابلے میں انگریزوں کا ساتھ دیا، اور اس کے بدلے میں انہیں جائدادیں اورجاگیریں ملیں، کوئمبتور کے قریب پالگھاٹ میں ان کی ایک آبادی اورمسجد دیکھنے کو ملی، سننے میں آیا کہ ٹیپو سلطان کے خلاف ان کے آباء واجداد نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا، اور یہ آبادی اس زمانے میں ان کی چھاونی تھی۔
۔ ہمیں یہ بات فتح اللہ گولن کی وفات پر یاد آئی، دراصل ہم برصغیر کے مسلمان جذباتی اور شخصیت پرست واقع ہوئے ہیں، ہم بڑے لوگوں کو ان کی لغزشوں سمیت قبول کرتے ہیں، ہم ان کی غلطیوں کو بھی اچھائی سمجھتے ہیں، اور ان کے دفاع میں اپنی جملہ توانائیاں صرف کرنے کو نیکی، لہذا انصاف کا دامن ہمارے ہاتھوں سے بار بار چھوٹ جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ، اردوگان اور گولن پر ہمارے پڑھے لکھوں کے تبصروں سے ان دانشوران اور اہل علم کا یہی رویہ سامنے آتا ہے۔
۔ سلطنت عثمانیہ ہویا گولن اور اردوگان ان پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ترکی قوم بنیادی طور پر قوم پرست واقع ہوئی ہے، یہی صورت حال سلطنت عثمانیہ کے دور میں خاص کر آخری دور میں بھی تھی، طورانی تحریک اسی دور میں شروع ہوئی تھی، اس وقت عراق، شام، اور لبنان کی حیثیت باجگذار قوموں جیسی تھی، ان ممالک کی اس دور میں دفتری زبان عربی کے بجائے ترکی تھی، پریس پر سخت سنسرشپ عائد تھی، اور جمال پاشا جیسے عثمانی گورنر مخالفین کے خلاف سولیاں گاڑے ہوئے تھے، عرب قوم پرستی کی تحریک کچھ یوں ہی کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ ممکن ہے ترکوں کے سلسلے میں اطلاعات میں کچھ مبالغہ آرائی ہوئی ہو، لیکن آواز تالی کے بجے بغیر نہیں آتی ہے۔
۔ اردوگان کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، وہ قوم پرست ترک ہیں، انہوں نے کردی شناخت ختم کرکے اس علاقے کو غیرفوجی بفر زون علاقہ بنانے کی غرض سے شام کے سنیوں کو حکومت کے خلاف ابھارا، اور خود کو بشار الاسد حکومت کا شدید دشمن ثابت کرنے کے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ہمیں اچھی طرح یاد ہے اس وقت فلسطینی صحافی عبد الباری عطوان نے لکھا تھا کہ آپ اردوگان کی بشار سے سخت دشمنی کے اظہار پر نہ جائیں، اردوگان حکومت کا سیاسی مفاد ہوگا تو چند دنوں میں بشارسے گلے ملتے ہوئے اسے آپ دیکھیں تو تعجب نہ کریں۔ اور حالات نے عطوان کی ایک عشرے پہلے کہی ہوئی بات کو درست ثابت کردیا۔
۔ آج فتح اللہ گولن سے ہماری ناراضگی کی بنیادی وجہ اردوگان سے ان کے اختلافات ہیں۔ہم اردوگان کو ہیرو سمجھتے ہیں لہذا اس کے میڈیا کی تمام باتوں کو درست سمجھ کر گولن کے خلاف نتھنے پھلا ئے رہتے ہیں، ہمارا یہ انداز فکر درست نہیں ہے، ہمیں کوئی رائے قائم کرتے ہوئے مسئلہ کے تمام پہلؤوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا﴾
یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ اور کمال مصطفی اتاترک کے ترکیہ پر مکمل قبضے کے بعد یہ ناممکن تھا کہ کوئی دینی فکر کا شخص سیاسی میدان میں داخل ہو، اور وہ اسلامی نظام حکومت کی طرف دعوت دے، اس وقت بدیع الزمان نورسی نے سیاست سے خود کو دور رکھا، اور اس سے نفرت اور تصوف سے محبت کو اپنی دعوت کا شعار بنایا،اس پالیسی سے نورسی کو اپنی دعوت پھیلانے میں بڑی مدد ملی، ، نورسی کوئی بہت بڑے عالم و فقیہ نہیں تھے، برصغیر کے قدیم بزرگان دین کی طرح احادیث و آثار پر ان کی دسترس کمزور تھی، لیکن ان کے فکر وتدبر کی صلاحیت خدا داد تھی، ہمارے برصغیر میں مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کو اگر تصوف کا تڑکا لگتا تو شاید فکر وتدبر میں نورسی ان کی مثال ہوتے۔

علم و کتاب

22 Oct, 00:50


نورسی کے بعد اس تحریک سے تین دھارے نکلے، ایک مختصر ساحلقہ جو خود کو نورسی کا سو فیصد جانشین سمجھتا ہے، دوسرا فتح اللہ گولن کا حلقہ جس نے نورسی کی تعلیمات اور ان کے لٹریچر کو سب سے زیادہ پھیلایا،فوج ، پولیس اور سول سروس کے حلقوں میں بڑے گہرائی تک چلے گئے، میڈیا پر اس فکر کو عام کیا، ملکوں ملکوں میں اپنے مدرسے اور تعلیم گاہیں قائم کیں ، جس طرح برطانوی دور میں جہاد سے اظہار براءت پر قادیانیوں کا مقابلہ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی، اسی طرح سیاست سے دوری اور روحانیت کے دعوے نے ان کی دعوت کے لئے دنیا بھر میں راہیں بڑی آسان کردیں، اور تیسرا حلقہ رفاہ تحریک کا تھا، جسے نجم الدین اربکان نے قائم کیا تھا، اور جس کے بطن سے اردوگان جیسے قائدین نکلے تھے۔ انہوں نے نورسی سے عقیدت کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریکات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی نظام سیاست کی فکر کو بھی اپنا لیا تھا۔
۔ فتح اللہ گولن ترکیہ میں لادین فوج کے غلبہ کے شدید مخالف تھے، اربکان اور اردوگان بھی اسی فکر کے حامل تھے، لہذا جب اردوگان کی جماعت مضبوط ہونے لگی، تو اس وقت فتح اللہ گولن نے فوج کی کمر توڑنے کے لئے اردوگان کا ہاتھ بٹایا، اور یہ تقریبا ناممکن تھا کہ گولن کے تعاون کے بغیر اردوگان بر سرحکومت آتے، لیکن بعد میں اردوگان کے داماد اور اس کے ساتھیوں کی مالی بے ضابطگیوں اور اس سلسلے میں ارووگان کے دہرے معیار کی وجہ سے ان میں دوریاں پیدا ہوئیں جسے گولن سے وابستہ میڈیا نے چھپانے کی کوشش نہیں کی، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد اردوگان نے فتح اللہ گولن کی تحریک کو کچلنے لئے بڑاظالمانہ اور غیر منصفانہ برتاو اپنایا، پاکستان جیسے زیر اثر ملکوں میں گولن کے اداروں اور مدرسوں کو بند کروایا، اس طرح دنیا بھر میں لاکھوں طلبہ دینی تعلیم سے محروم ہوگئے۔
ممکن ہے گولن کے افکار وخیالات سوفیصد درست نہ ہوں، چونکہ دنیا بھر میں جس میں برصغیر بھی شامل ہے، ان میں مزارات اور بدعتی تصوف ترکیہ ہی سے درآمد ہواہے، لہذا ہمارے یہاں وقتا فوقتا مزارات کے سجادہ نشینوں اور مجاوروں سےجو خیالات اور امن ودوستی کے پیغامات میڈیا پر آتے رہتے ہیں اور ان کی سیاست سے دوری کا جو پروپیگنڈہ ہوتے رہتا ہے، گولن کے افکار وخیالات بھی اس کی عکاسی کرتے ہوں، اور مہدوی تحریک پر ظلم وتشدد کے نتیجے میں یہ تحریک جس طرح بے راہ روی پر مائل ہوئی یہاں بھی رد عمل میں یاپھر ضرورتا کچھ ویسا ہی ہوا ہو۔ایسی کسی بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اردوگان کے میڈیا سیل نے گولن کے بارے میں جو پروپیگنڈا کیا ہے انہیں صد فیصد درست نہیں مانا جاسکتا۔ فلسطین کے مسئلہ پر اردوگان نے ہمیشہ آنکھ مچولی کھیلی ہے، اس کی سیاست کو ہم جس طرح غلط نہیں کہ سکتے، اور اسے بد نیت نہیں قرار دے سکتے، اسی طرح بہت ممکن ہے، گولن کی رائے بھی دانشمندی یا ضرورت کی عکاس ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گولن کو اردوگان کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کریں، ان کی تحریک میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، کاش گزشتہ صدی میں عالم اسلام میں اٹھنے والی تحریکات پر معروضی انداز میں غیر جانبدارانہ سنجیدہ اور تحقیقی کام کی شروعات کی جائیں، اس موضوع کے ساتھ ابھی تک ہمارے یہاں انصاف نہیں ہوا ہے۔
2024-10-22

علم و کتاب

21 Oct, 16:56


نام کتاب: مرآۃ العاشقین
ملفوظات: خواجہ محمد شمس الدین سیالوی رحمہ اللہ مؤلف: سید محمد سعید سیالوی
ترجمہ: پیر محمد معظم الحق معظمی
ناشر: خانقاہ معظمیہ، معظم آباد۔ ضلع سرگودھا، پاکستان۔
اشاعت اول: 1885ء
اشاعت دوم: 2024ء
صفحات: 315
https://telegram.me/ilmokitab
حضرت شمس العارفین خواجہ محمد شمس الدین سیالوی رحمہ اللہ کی پیدائش 1799ء میں سیال شریف میں ہوئی ۔قسمت نے یاوری کی تو آپ تونسہ شریف میں حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی رحمہ اللہ کی زیارت اور نسبت سے مشرف ہوئے۔ آپ 6 جنوری 1883ء میں دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔
آپ کی مجالس سے استفادہ کرنے والوں میں ایک سعادت مند بزرگ سید محمد سعید رحمہ اللہ بھی تھے، انہوں نے اہتمام اور دل چسپی کے ساتھ آپ کے ملفوظات کو جمع کیا جو اسی نام سے پہلی بار فارسی میں آج سے مدت پہلے شائع ہوئے۔
اب اس کا اردو ترجمہ جناب پیر محمد معظم الحق معظمی، سجادہ نشین خانقاہ معظمیہ، معظم آباد، ضلع سرگودھا کی محنت سے شائع ہوا ہے،جسے شائع کرنے کا شرف بھی اسی خانقاہ کو حاصل ہو رہا ہے۔
ہمارے ہاں ہندوستان اور پاکستان میں بزرگوں سے وابستہ خانقاہوں کی تعداد شمار سے باہر ہے، لیکن ان میں چیدہ چیدہ خانقاہیں ہی اسلاف کی یادوں کو روشن کرنے میں مصروف ہیں۔ خصوصا ان کے علمی تراث کو محفوظ کر کے آگے منتقل کرنے کا فریضہ انجام دینے والی خانقاہوں کو شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر بھی آسانی سے گنا جا سکتا ہے۔ان حالات میں کسی بھی خانقاہ سے کوئی ایسی خدمت سامنے آتی ہے تو دل خوش ہوتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کا تعارف بڑے حلقے تک پہنچانے میں اپنا حصہ شامل کیا جائے۔
اس کتاب کا پہلے پہل تذکرہ سماجی روابط کے کسی نیٹ ورک پر دیکھنے کا موقع ملا تھا، وہیں ہم نے اپنے اشتیاق کا اظہار کیا تو ایک اور بزرگ زادے جناب صاحب زادہ قمر الحق، جامعہ محمد شریف نے یہ قیمتی کتب عنایت فرمائی اور دستخط کے ساتھ یہ نسخہ ڈاک کے توسط سے عطا فرمایا۔ ان کی عنایت ہے۔خدا انہیں سلامت با کرامت رکھے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ کتاب ملفوظات پر مشتمل ہے اور اس میں مرتب نے بزرگ وار محترم کی 40 مجالس ذکر کی ہیں، جن میں متفرق علمی اور صوفیانہ مباحث بیان کیے گئے ہیں۔ہمارے ہاں عام طور پر تصوف کو شریعت کے بالمقابل سمجھا جاتا ہے، جس کا ایک بڑا سبب تصوف کے بعض وابستگان کی جانب سے عمومی دینی تعلیمات سے عدم واقفیت اور ان کے عمل میں علانیہ کوتاہی ہے۔ صاحب ملفوظات عبادت کے حوالے سے کیا کہتے ہیں دیکھیے،مرتب کا بیان ہے: بندے نے عرض کیا کہ بعض جاہل صوفی اللہ تعالی کی عبادت خصوصا نماز روزے سے محروم رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اہل عرفان کا عبادت سے کیا تعلق؟ معرفت اور چیز ہے عبادت اور چیز۔ خواجہ شمس العارفین رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ تمام انبیائے کرام اور اولیائے صالحین اول سے آخر تک اللہ کے اس فرمان کے مطابق عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
ومخلقت الجن۔۔۔ (الذاریات: 56)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اور وہ اللہ کے فرمان کے بہ موجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ایک بال کے برابر بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔(ص: 145)
ایک اور مقام پر بولنے اور خاموش رہنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ علما کے لیے بولنا افضل ہے اور درویش کے لیے خاموش رہنا افضل ہے، کیوں کہ قیامت کے دن ہر ایک سے اس کے اعمال کے متعلق سوال ہوگا، علما سے علم سکھانے کے متعلق سوال ہوگا اور صوفیہ سے خاموشی اور پردہ پوشی کے متعلق سوال ہوگا۔(ص: 188)
کتاب نہایت سلیقے سے جلی اور روشن طباعت کے ساتھ عمدہ کاغذ پر شائع ہوئی ہے۔ سرورق بھی جمالیاتی ذوق کا آئینہ دار ہے اور جلد بھی مضبوط ہے۔ تصوف اور صوفیہ کے ملفوظات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے یہ کتاب ایک نہایت قیمتی تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام کرنے والے تمام حضرات تحسین و تبریک کے مستحق ہیں۔
سید عزیز الرحمن
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب

21 Oct, 04:44


جو عالم یا مفکر اپنے ماحول و معاشرے سے بیگانہ ہو وہ کبھی اپنی قوم کی رہ نمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔
اور کسی بھی عالم یا مفکر کو اس کے ماحول و معاشرے سے الگ کرکے نہیں جانچا جا سکتا۔

کچھ کی سوچ و فکر محلاتی سطح کی ہوتی ہے جنھیں قومی و عالمی سطح پر نہیں دیکھا جا سکتا اور کچھ کی فکر کا زاویہ وسیع ہوتا ہے جسے محدود نگاہیں نہیں پاسکتیں۔

آج کی دانش وری کا سب سے بڑا المیہ ان حقائق کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے۔

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

علم و کتاب

21 Oct, 03:52


سلسلہ نمبر: 217
انتخاب مطالعہ
تحریر: *سید سعادت ﷲ حؔسینی*

*سوشل میڈیا اسلام اور مسلمان*

انٹرنیٹ کے شروع کے سالوں میں مسلمانوں نے انٹر نیٹ پر تیزی سے اچھی جگہ بنالی تھی، گزشتہ دہے کے ختم تک بھی کئی اسلامی سائٹس دس مقبول ترین مذہبی سائٹس میں شامل ہوتی رہی ہیں،اسلامی تحریک سے وابستہ نوجوانوں نے بھی انٹرنیٹ پر فعال سرگرمی شروع کردی تھی ؛ لیکن پھر اس کے بعد منظر نامہ تیزی سے بدلنے لگا،انٹرنیٹ پر نہایت متعصب اسلام دشمن سائٹس بڑے وسائل کے ساتھ سرگرم ہونے لگیں،آج صورت حال یہ ہے کہ: اسلام سے متعلق کسی بھی موضوع کو آپ سوچ کرتے ہیں تو بڑی تعداد میں پہلے صفحے پر اسلاموفوبک سائٹس ہی نظر آتی ہیں، نیوز پیپر، ڈسکشن فورم یا سوشل میڈیا میں اسلام سے متعلق کوئی بھی موضوع چھڑتا ہے تو آنا فانا شدید مخالفانہ پوسٹوں کا سیلاب آجاتا ہے،مغلظات اور گالی گلوچ سے لے کر سنجیدہ ؛ لیکن سخت تنقیدوں تک ہر سطح کی مخالفانہ پوسٹ آنے لگتی ہیں،یہ صورتحال عالمی سطح پر بھی ہے اور ہمارے ملک میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے منظم نیٹ ورک لگے ہوئے ہیں،اس کے مقابلے میں اہل اسلام کی سوشل میڈیا سرگرمی کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر درج ذیل اقسام سے متعلق ہے:

1) *غیر سنجیدہ سرگرمی*: یہ وہ لوگ ہیں جو لطیفے عام تصویریں وغیرہ پوسٹ کرتے ہیں،اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، آپ کی مصروفیات میں خلل ڈالتے رہتے ہیں اور ڈاٹا مائنرز کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔

2) *فارورڈ سرگرمی:*
یہ لوگ ہر پوسٹ کو ہر جگہ فارورڈ کردنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور اکثر پوسٹ دیکھے بغیر اور پڑھے بغیر بھیجتے رہتے ہیں،لگتا ہے ان کی انگلیاں فارورڈ بٹن پر جام ہوگئ ہیں،تمام سوشل نیٹ ورکس کے لیے یہ سر درد ہیں۔

3) *معذرت خواہانہ سرگرمی*: اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئ ہے جو اسلام پر چوطرفہ حملوں سے پریشان ہوکر معذرت خواہانہ اور مدافعانہ انداز اختیار کرنے لگے ہیں،اسلام کے بنیادی اصولوں پر سیریس مصالحت، حد سے زیادہ مرعوبیت اور مداہنت اس رد عمل کی نمایاں خصوصیات ہیں،ان کی مضحکہ خیز سطح کی معذرت خواہی اسلام کے وقار کو مجروح کرتی ہے،اسلام مخالفین کے تاثر کو مستحکم کرتی ہے اور اسلام کی دعوت کے کام کو نقصان پہنچاتی ہے۔

4) *انتہاء پسندانہ جوابی اشتعال*:

ایسے لوگ بھی اب تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو گالی کے جواب میں اور موٹی گالی دیتے ہیں، نہایت انتہاء پسندانہ خیالات کا اظہار کرنے لگتے ہیں،غیر شرعی تشدد کی حمایت کرتے ہیں، مسلکی تشدد اور فقہی آراء میں عدم برداشت کے رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مجموعی طور پر اسلام کی وہی ترجمانی کرتے ہیں جو اسلام کے دشمن چاہتے ہیں،یہ لوگ بھی بالآخر اسلام کی دعوت اور اس کی امیج کو نقصان ہی پہنچاتے ہیں ۔

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا سرسری تجزیہ بھی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام کی حمایت میں اٹھنے والی معقول، تعمیری، مبنی بر اعتدال اور اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والی آوازیں بہت کم ہیں اور مذکورہ چار طرح کی آوازوں کی نائیس (Noise) میں پوری طرح دبی ہوئی ہیں، یہ اس وقت اہل اسلام کے لیے بڑا چیلنج ہے،جس کا بھرپور طریقے سے سامنا کرنے کی اور صورتحال کو جلد از جلد بدلنے کی کوشش ہم سب پر فرض ہے ۔
ہمارے نوجوانوں کی ایسی تربیت ہونی چاہئے اور ایسا آن لائن کلچر فروغ پانا چاہئے کہ ہمارے نوجوان مذکورہ چار رجحانات سے بچیں اور آخر میں مذکور تعمیری رجحان کو پوری قوت کے ساتھ فروغ دیں!۔


( *سائبرستان سوشل میڈیا اور مسلم نوجوان، صفحہ: 23*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

علم و کتاب

20 Oct, 18:46


پھر جب اُسامہؓ گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کے لیے روانہ ہوئے تو اقتدار اور گھمنڈ کی ماری دنیا کی آنکھیں عشقِ رسولﷺ کا ایک ایسا جذبہ دیکھ رہی تھیں جس کو دیکھ کر رقّت طاری ہو جائے ۔ اُسامہؓ کو رخصت کرنے کے لیے خلیفۂ وقتؓ ایک غلام کی طرح پیادہ پا چلا آرہا تھا ۔ ایک "غلام" کا بیٹا سردار کی شان سے گھوڑے پر سوار تھا اور ایک مرد آزاد ___محمد عربیﷺ کے بعد سب سے بڑا مسلمان اس کو خراجِ عقیدت دینے کے لیے اپنے کپڑوں اور قدموں کو غُبار آلود کر رہا تھا ___ یہ منظر دیکھ کر حضرت اُسامہؓ کانپ گئے اور کہا :
"اے رسولِ خُداﷺ کے جانشین ! یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ یا تو آپ سوار ہو جائیں ورنہ اُسامہؓ بھی فرشِ خاک پر اُتر آئے گا ۔"
لیکن خلیفۂ وقتؓ کو عشقِ رسولﷺ کی محویت میں سرافرازی و سرافگندگی کے مسائل پر غور کرنے کی فرصت کہاں تھی ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اس وقت ماضی کی وہ یا دیں جلوہ افروز تھیں جب حضورﷺ زندہ تھے۔ جب انہوں نے کبھی یہ دیکھا تھا کہ حضورﷺ کے ایک زانو پر حضرت حسنؓ ہیں اور دوسرے پر اُسامہؓ لیٹے ہیں ___ اور آں حضرتﷺ ان کو اسی طرح لوری دے رہے ہیں " اے خدا ! میں ان سے پیار کرتا ہوں ، آپ بھی انھیں اپنی محبت کے سائے میں رکھیے گا___
کبھی چھوٹے سے اُسامہؓ اس حالت میں آپﷺ کے سامنے آتے ہیں کہ ان کی ناک بہہ رہی ہے تو خدا کا رسولﷺ بہ نفسِ نفیس ان کی ناک صاف کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ حضرت عائشہؓ یہ صورتِ حال دیکھ کر تڑپ جاتی ہیں ___ "اے خدا کے رسولﷺ ! میرے ہوتے ہوئے آپﷺ یہ تکلیف نہ فرمائیں ....." لیکن رسولِ خدا ﷺپلٹ کر دلی جراہت اور دل سوزی کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ "اے عائشہؓ میں ان سے محبّت کرتا ہوں۔ تم بھی ان سے محبّت رکھو ۔"
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی اس محویت کو جب اُسامہؓ کے اصرار نے توڑا تو آپ نے جواب دیا:
"نہیں اچّھے اُسامہؓ ! ___ تم اسی طرح بیٹھے رہو گے! میں اسی طرح اپنے قدموں کو غبار آلود کرنا چاہتا ہوں ___ اے اُسامہؓ !___ یہ تو خدا کی راہ کا گردو غبار ہے۔ یہ عشقِ رسولﷺ کی گردِ راہ ہے ___ اس میں کیا حرج ہے اگر یہ گرد و غبار مجھے لت پت کردے !___ اے اُسامہؓ کیا یہ وہی حسین راہ نہیں جس پر ایک قدم اٹھانے کا انعام سات سو نیکیاں ہیں۔ مجھے اس راہ کی گرد سےاَٹتا ہوا دیکھ کر تمہیں غمگین نہیں خوش ہونا چاہیے۔"

----------***--------

علم و کتاب

20 Oct, 18:46


*کیا ہم مسلمان ہیں (٣٠ ) ۔۔۔ سید نا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ( تیسری قسط )*
*تحریر: شمس نوید عثمانی*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

کیسا بے کراں تھا یہ تعلق یہ باہمی تعلق جو ایمان اور صداقت کی بنیاد پر دو انسانوں میں قائم ہوا تھا:
زیدؓ بہر حال ایک زرخرید غُلام کی حیثیت سے حضورﷺ کی زندگی میں داخل ہوئے تھے۔ چپٹی ناک ، گندمی رنگ اور پست قد کے اس "غلام" کو بھولے سے بھی یہ گُمان نہ ہوا ہو گا کہ مکّے کی انسانیت سوز اور انسانیت فروش آبادی میں کوئی انسان اس کو سینے سے لگا لے گا__ ان کی آواز سنتے ہی بے اختیار گھر سے نکل آیا کرے گا اور ان کی پیشانی کو، غلامی سے داغ دار پیشانی کو اپنے پاک ہونٹوں سے چُوم لیا کرے گا اور اس طرح ان کو یقین دلادے گا کہ ”غلام“ اور ”آقا“ دونوں خُدا کے غلام اور بندے ہیں ___
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب کبھی زیدؓ باہر سے آتے اور دروازے پر حضورﷺ کو پکارتے تو آپﷺ خواہ کسی حال میں ہوں فوراً اس پکار پر دوڑتے تھے اور زیدؓ کی پیشانی کو فرطِ شفقت سے بوسے دے کر ان کی عافیت معلوم فرماتے تھے ۔ ایک "غلام" میں جوہرِ انسانیت کی آب و تاب دیکھ کر حضورﷺ نے جس ذرّہ نوازی، قدر افزائی اور دردمندی کا مظاہرہ فرمایا تھا یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ زیدؓ حضورﷺ پر دل و جان سے نثار ہو گئے تھے۔
ایک طرف زیدؓ تھے جنھوں نے توحید ورسالت کی گرویدگی پر گھر بار، ماں باپ اور وطن کی پُوری دنیا قربان کر دی تھی ، تو دُوسری طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنھوں نے ایک زر خرید "غلام" کو اپنی حقیقی پھوپی زاد بہن حضرت زینبؓ سے بیاہ کر عرب کی نسل پرستی کے بُت پاش پاش کر دیے تھے ایک طرف زیدؓ تھے جو طائف کی نازک گھاٹی میں اس وقت حضورﷺ کے آگے سینہ سپر تھے جب کُفر کی بے رحم طاقتیں حق و صداقت کے نور پر بدترین پتھراؤ کر رہی تھیں تو دوسری طرف حضورﷺ تھے۔ جنھوں نے جس فوجی مُہِم پر زیدؓ کو روانہ کیا اس کی سپہ سالاری کا تاج زر نگار اپنے اسی غُلام کے سر پر رکھا۔ آخری معرکہ غزوۂ موتہ میں بھی جہاں حضرت زید رضی اللہ عنہ خدا کی راہ میں شہید ہوئے۔ تین ہزار جاں بازوں کی کمان ان کے ہاتھوں میں دی جا رہی تھی تو حضرت جعفرؓ نےحضورﷺ سے کہا تھا ۔
"میرا خیال تھا کہ اس دستے میں مجھے دیکھ کر اس کی باگ ڈور آپ مجھے دیں گے زیدؓ کو نہیں۔۔۔۔۔"
"چپ رہو ! زیدؓ کی عظمت کو شک سے دیکھنے والے کو خدا کے رسولﷺ نے تنبیہ کی تھی " تم نہیں جانتے کہ خدا کے نزدیک کون زیادہ بہتر ہے۔"
پھر جب یہ "بہتر بندۂ خدا" شہید ہوگیا اور اس کی شہادت کی خبر حضورﷺ تک پہنچی تو آپﷺ بے اختیار اشک بار ہو گئے اور گلو گیر آواز میں یہ دعا آپ ﷺکے ہونٹوں پر جاری تھی کہ "اے خدا زیدؓ کو بخش دے ..... اے خدا زیدؓ کو بخش دے!!"
عشقِ رسولﷺ کے سوز بے کراں نے زیدؓ کو کن بلندیوں پر پہنچا دیا تھا ؟ انھوں نے حضورﷺ کو اس طرح چاہا کہ خود حضورﷺ آپ کو ایک محبوب ___ ایک لخت جگر ___ ایک بیٹے کی طرح چاہنے لگے ؟ اور پھر دنیا کو یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا کہ کون چاہنے والا _____________اور کس کو چاہا جا رہا ہے ! محبت اور محبت نوازی کی یہ تاریخ ایک ایسی بے مثال تاریخ ہے جو توحید و رسالت کے سوا دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے ۔
یہ تاریخ حضورﷺ اور زیدؓ کی وفات کے بعد بھی حضورﷺ کے ان چاہنے والے صحابہؓ نے پوری شان سے زندہ رکھی جو نہ صرف یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے "دیوانے" تھے بلکہ ہر اس انسان اور ہر اس شے کو بھی دل و جان سے پیار کرتے تھے جس پر حضورﷺ کی محبت بھری نگاہ پڑ گئی ہو ____ چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس وقت معرکۂ شام کو جانے والی فوج کا سپہ سالار حضرت زیدؓ کے صاحب زادے حضرت اُسامہؓ کو بنانے کا اعلان کیا تو دنیا حیرت سے گنگ ہو گئی ! ___بڑے بڑے ہوشمندوں کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کم سن لڑکے کو یہ نازک ذمہ داریاں کیوں سونپی جارہی ہیں ۔ خلیفۂ وقت نے جب لوگوں کے اعتراض کا جواب دیا تو معلوم ہوا کہ عشقِ رسولﷺ کا جذبہ بے کراں اس فیصلہ کے پس منظر میں کام کر رہا تھا ابو بکر صدیقؓ کی نظر میں اُسامہؓ کی عظمت کے لیے یہ بات کافی تھی کہ اللہ کے پیارے رسولﷺ نے ان کو محبت کی خاص نظر سے دیکھا تھا ۔ اور یہ کہ اُسامہؓ اس انسان کے بیٹے تھے جس نے عشقِ رسولﷺ کے آگے حیاتِ دنیاکے حسین ترین تعلقات پر ٹھو کر مار دی تھی جس کو رسول اللہﷺ نے سردار بنا دیا ہو ۔ خلیفۂ وقتؓ نے شدتِ جذبات میں اعلان کیا "تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں اس کی سرداری چھین لوں ! " ___ رسالت کی اتھاہ محبت سے دہکتے ہوئے سینے اس نعرۂ شوق پر تیزی سے دھڑکنے لگے اور عشقِ رسولﷺ کے مشترک جذبے نے اُسامہؓ کی سرداری کا فیصلہ دل و جان سے تسلیم کر لیا ۔

علم و کتاب

20 Oct, 18:18


وفیات مورخہ: ۲۱؍ اکتوبر
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا عبدالغفار سلفی 21/اکتوبر/1977ء
عظمت علی خان 21/اکتوبر/2012ء
محمد اسماعیل پڈھیار 21/اکتوبر/2005ء
محمد اصغر حسنی 21/اکتوبر/1988ء
الحاج شمس الدین اعظمیؒ 21/اکتوبر/2008ء
مرزا محمد ہادی رسوا 21/اکتوبر/1921ء
مخفی، صالحہ بیگم 21/اکتوبر/1972ء
شیخ الحدیث مولانا محمد مالک کاندھلوی 21/اکتوبر/1988ء
محمد ایوب کھوڑو 21/اکتوبر/1980ء

علم و کتاب

20 Oct, 06:57


---------------------------

*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*

*پیکرِ علم وحلم*
_*حضرت مولاناسید نظام الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ*_
_*تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی*_
( سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں)

امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منتﷲ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ خوبیوں کے انسان تھے ،پاک طینت ، پاک نفس ، رجال شناس اور مردم گر ! ان کے زیر سایہ بہت سے افراد پروان چڑھے ، اور ان میں سے کئی ایک ملک وملت کے نگہبان اور ملت اسلامیہ کی کشتی کے ناخدا اور کھیون ہاربنے ، انہی میں سے ایک نام امیر شریعت سادس حضرت مولانا سیّد نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ(سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ) کا ہے ، وہ خودجوہر قابل تھے اور پھر امیر شریعت رابع رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت میں رہ کر ان میں خوب نکھار پیدا ہوا ، اور ملت اسلامیہ کی رہبری و رہنمائی کی لیاقت وقابلیت ان میں پیدا ہوئی ، اپنے رہبر و مربی کی راہ پر چلتے ہوئے حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی ملت اسلامیہ کی خدمت کے لیے وقف کر دی ،زندگی کی آخری سانس تک وہ قوم و ملت کی سرفرازی و سرخروئی کے لیے سرگرم عمل اور کوشاں رہے ، عمر کے اس مرحلے میں جب کہ لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ضعف و پیرانہ سالی کی وجہ سے عملی سرگرمیوں سے دست کش ہو جاتے ہیں،اس وقت بھی مولانا مرحوم پوری جواں ہمتی کے ساتھ آمادہ عمل رہتے تھے ،اور طول طویل سفر سے بھی گریز نہیں فرماتے تھے ، ان کا یہ مجاہدانہ جذبہ اور مخلصانہ طرز و عمل ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
پہلے پہل ان کی زیارت مہاراشٹر کی عظیم و قدیم دینی درسگاہ معہد ملت کے سالانہ اجلاس میں ہوئی ، وہ ختم بخاری شریف کے لیے تشریف فرما ہوئے تھے ، معہد ملت کا امارت شرعیہ سے پرانا اور مخلصانہ رشتہ ہے ، امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یہ رشتہ قائم ہوا ، وہ برابر یہاں تشریف لایا کرتے تھے اور کبھی ان کے ساتھ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ(سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ ) ہوتے ، اور کبھی حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت رفیق سفرتشریف لاتے ، کئی سفر میں مرشد گرامی حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ والدبزرگوار کے ساتھ تشریف لائے تھے ، پھر جب حضرت امیر شریعت رابع رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہو گیا تو حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کے آمد و رفت کا سلسلہ استقلال کے ساتھ جاری ہوا ، ان دونوں بزرگوں کو بھی معہد ملت سے بڑا تعلق اور انسیت تھی،معہد ملت ہی کے سالانہ اجلاس میں پہلی مرتبہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ کو سننے کا موقع ملا ،معلوم ہوا کہ یہ بزرگ بڑے عالم دین امارت شرعیہ کے امیر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں، اس پہلی گفتگو کاتاثر تو یاد نہیں البتہ شکل و شباہت اور بزرگانہ ادائیں ذہن میں محفوظ ہیں، تصنع اور تکلف سے پاک ، سادگی اورانکساری کا مجسم پیکر، اکابراور اسلاف کی طرح علم میں پختگی اور مزاج میں فروتنی ،اس کے بعد بار بار انہیں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جلسوں اور میٹنگوں میں شرکت ہونے لگی تو برابر ان کی زیارت ہوتی تھی ، اور ان کی گفتگو سننے کا بھی موقع ملتاتھا، وہ حالات سے پوری طرح باخبر رہتے تھے اور ملت اسلامیہ پر کی جانے والی ہر یلغار پر ان کی نگاہ رہتی تھی، وہ ان علماء میں سے نہیں تھے جو احوال زمانہ سے بے خبر صرف در س و تدریس کی دنیا تک محدود رہتے ہیں، ان کاشماران جہاں دیدہ اور سرد گرم چشیدہ لوگوں میں تھاجو زمانہ اور زندگی کے چیلنجز سے پوری طرح واقف و باخبر رہتے ہیں ، اور بروقت اور مناسب حال رہنمائی کافریضہ انجام دیتےہیں،ان کی اس خوبی میں ان کے مربی حضرت مولانا سیدشاہ منت اللہ رحمانیؒ کی تربیت کاخاص دخل تھا، اور حضرت امیرشریعت رابعؒ کو یہ خوبی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ(بانی امارت شرعیہ) سے حاصل ہوئی تھی ،سچائی یہ ہے کہ ایمانی فراست ، دور بینی و دوراندیشی ، احوال زمانہ پر گہری نظر اور ملت اسلامیہ کےلیے بروقت صحیح اورمناسب حال رہنمائی پیش کرنے میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کاکوئی ثانی نہیں، ان کے اندر جو قائدانہ صفات تھیں وہ عام طریقے پر ایک ساتھ کسی ایک شخصیت میںکم جلوہ گر ہوتی ہیں، ان کی خوبیوں سے حضرت مولانا شاہ منت اللہ رحمانیؒ کوپوراپور احصہ ملا ، ان کی شخصیت پر حضرت سجاد کی گہری چھاپ تھی ،پھر حضرت امیرشریعت رابع کی صحبت میں رہنے والوں نے بقدر ظرف ان کی قائدانہ صفت وصلاحیت سے حصہ لیا ،حضرت مولانا سید نظام الدینؒ نے بھی خاص اس باب میں حضرت امیر شریعت رابعؒ سے فیض پایا تھا ،جس کا اظہار ان کے اقدام وعمل اور ان کے خطاب وگفتگو سے ہوتا تھا ،یہی وجہ ہے کہ امیر شریعت رابع حضرت مولانا شاہ

علم و کتاب

20 Oct, 06:57


کے لیے ضروری ہے۔
حضرت مولانا سید نظام الدینؒ قیادت کی راہ پر چلے اور چلتے گئے ، پہلے مرحلے میں امارت شرعیہ اور پھر بورڈ اور امارت شرعیہ دونوں اداروں میں خدمت انجام دیتے رہے اور ان دونوں اداروں کو آپس میں مربوط رکھنے کی کامیاب کوشش انہوں نے کی ،امارت شرعیہ بڑا ادارہ ہے اور بورڈ ملکی سطح پر امارت ہی کی سوچ کے پیش نظر قائم کیا جانے والااجتماعی ادارہ ہے ،حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے ملکی سطح پر امارت قائم کرنے کی کوشش کی تھی ، جو بوجوہ ممکن نہ ہوسکی،پھر انہوں نے ریاست بہارکی سطح پر امارت قائم کی اور کامیابی کے ساتھ اس کو چلا کر دکھایا ، حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ نے اپنے دور امارت میں بھی یہ چاہا تھا کہ امارت ملکی سطح پر قائم ہوجائے ،مگر وہ ملک کے حالات سے بھی بخوبی واقف تھے اور ملت کے اندرونی انتشار اور خلفشارسے بھی بخوبی واقف تھے ،انہوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کسی ایک شخص کی امارت اور قیادت پر اب لوگوں کا جمع ہونا بظاہر ممکن نظر نہیں آرہا ہے اور ایسی کسی کوشش کا کامیاب ہونا بھی بظاہر حال مشکل ہے ،اس لیے فرد کی قیادت وامارت کی بجائے ایک اجتماعی قیادت تشکیل دی جائے اور اس میں تمام مسالک ومکاتب فکر کی شمولیت رہے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اسی تخیل کی عملی شکل اور اسی خواب کی حسین تعبیر ہے ،کوئی شبہ نہیں کہ حضرت امیر شریعت رابعؒ کے خلوص ،للہیت اور ان کی دینی وایمانی حمیت وغیرت نے ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو جمع کردیا ،اور ایک اجتماعی قیادت وجود میں آئی ،چونکہ امارت شرعیہ کا بورڈ سے علاوہ اور رشتوں کے بہت مضبوط فکری رشتہ بھی ہے ،اس لیے ان دونوں اداروں میں ہمیشہ توافق اور تعائون رہا ہے اور رہنا بھی چاہیے ،حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحبؒ نے بھی ان دونوں اداروں کے آپس کے رشتے کی مضبوطی کی فکر کی اور بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امارت شرعیہ کے امیر کی حیثیت سے ان دونوں اداروں کو ایک دوسرے کا معین ورفیق بنائے رکھا ،اور ان دونوں اداروں کی تقویت اور اس استحکام کا باعث بنے،یہ بھی ان کا بڑا کارنامہ ہے ،مولانا سید نظام الدین ؒ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اور امارت شرعیہ کے بینر تلے زیادہ تر فکری،عملی اور انتظامی کام انجام دیئے اور وہی بڑے پیمانے پر ان کی نیک نامی کا باعث ہوئے مگر یہ بات نہ بھلائی جانے والی ہے کہ اصلاً وہ ایک ذی استعداد عالم دین اور منجھے ہوئے مدرس تھے ،مدرسہ ریاض العلوم بالاساتھ میں ان کا تدریس کا زمانہ خوشگوار اور یاد گار زمانہ تھا ،ان کے علم کی خوشبو پھیل گئی تھی اور تدریسی مہارت کا شہرہ تھا ،اگر وہ تدریس کی دنیا ہی سے منسلک رہتے تو ملک کے ممتاز اور باکمال مدرسین و اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا ،لیکن پھر خدمت کے دوسرے میدانوں میں انہوں نے قدم رکھا اور اپنے حسن انتظام اور قائدانہ صفت وصلاحیت کا سکہ جمایا ،علم وفضل وکمال کے ساتھ ساتھ ان میں اخلاق ومروت اور وضع داری اور شرافت جیسی بلند پایہ خوبیاں بھی تھیں ،مزاج میں فروتنی اور انکساری تھی ،تصنع وتکلف اور ظاہری ٹیپ ٹاپ سے وہ کوسوں دور تھے ،کھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے اور زندگی کے ہر مرحلے میں سادگی کوعزیز رکھتے تھے ؎
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگرسادگی کے مارے ہیں
حضرت مولانا سید نظام الدین ؒ خوش فکر شاعر بھی تھے ،جب معہد ملت کے جلسوں میں تشریف لاتے تھے تو ان کی کہی ہوئی نظمیں ہمارے استاذ حضرت مولانا زبیر احمد ملی طلبہ سے پڑھوایا کرتے تھے ،جس سے سامعین وحاضرین کے ساتھ خود حضرت مولانا بھی لطف لیا کرتے تھے ،اشعار تو اب بھی کتابوں اور رسالوں کی زینت ہیں،البتہ شعر کہنے والاشخص زیر زمین جاچکا ،اب تو ان کی باتیں اور یادیں ہی باقی رہ گئیں ،دیکھتے دیکھتے ان کی رحلت پر تقریباً نو،دس سال گزر گئے ،آج ان کی یاد میں پھر یہ بزم سجائی گئی ہے ،یہ ان کا ہم لوگوں پر حق بھی تھا اور قرض بھی !اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد الواحد ندوی اور ان کے رفقاء کار کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے حضرت مرحوم کی یاد میں یہ بزم سجائی اور یہ محفل برپا کی ،جس سے ان کی یادیں تازہ ہورہی ہیں اور ان کے زندگی کے الگ الگ پہلو سامنے آرہے ہیں ،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے ،ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش کو زندہ اور تابندہ رکھنے کی ہمیں توفیق بخشے۔
(آمین یارب العالمین بحرمۃ سید المرسلین وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین)

٭٭٭٭٭

علم و کتاب

20 Oct, 06:57


منت اللہ رحمانیؒ وصال کےبعد آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ جیسے باوقار اور معتبر پلیٹ فارم کے کلیدی منصب پر انہیں فائز کیا گیا اور وہ تاحیات بورڈ کے جنرل سکریٹری رہے اور اس کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی پورا کرتے رہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی ذمہ داری نبھانا آسان چیز نہیں ،مختلف الخیال لوگوں کو ملت کے کاز کے لیے متحد رکھنا اور الگ الگ صلاحیت کے لوگوں سے کام لینا’’کارِشیشہ و آہن ہے‘‘،پھر مختلف مرحلوں میں حکومتوں کومخاطب کرنا اورحکومت کے چشم وابرو کے اشاروں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا اور اس پر ڈٹ جانا یہ بھی مشکل کام ہے ،سب جانتے ہیں کہ سمندر کی موجوں سے کھیلنا آسان نہیں اور عافیت کے ساحل پربیٹھ کر تماشہ دیکھنے میں ہے،مگر قیادت کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور بورڈ کے پلیٹ فارم سے ایک طرف حکومت کو پیغام دینا اور دوسری طرف ملت اسلامیہ کو رخ دینا دونوں کام مشکلات سے لبریز اور دشواریوں سے پر ہےجس کی ہمت وہی لوگ کرتے اور کرسکتے ہیں جو عافیت گاہوں کو چھوڑ کرمشکلات سے پنجہ آزمائی کا ہنر رکھتے ہوں ،اور ملی مسائل کے حل کے لیے قربانی دینے کا ذہن وذوق ان میں موجود ہو،کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ ایسے ہی بلند ہمت انسانوں میں شامل تھے ،انہوں نے نازک اور مشکل وقت میں بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملت کی رہنمائی کی اور متعدد تحریکات کو اپنے رفقاء کے تعائون سے کامیاب بنایا ،یہ بھی ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ایسے رفقاء کار میسر آئے جو ملت کے لیے کچھ کرنے اور کرگزرنے کا حوصلہ رکھتے تھے ،ان میں نمایاں نام ان کے بعد بورڈ کے جنرل سکریٹری منتخب ہونے والےعظیم عالم دین ان کے مربی کے فرزند جلیل اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم قائد حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ تھے ،جو حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کی جنرل سکریٹری شپ کے زمانے میں سکریڑی کے عہدے پر فائز رہے ،انہوں نے اپنی خصوصی دلچسپی سے بورڈ کے بینر تلے کئی اہم تحریکات چلائیں جونہایت کامیاب رہیں،داڑھی ٹوپی کے مسئلے میں جس بہادری ،دینی غیرت اور ایمانی حمیت کے ساتھ تحریک چلائی گئی اور اس کا جو اثر ظاہر ہوا وہ نہ صرف بورڈ کی بلکہ ملت اسلامیہ کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا،سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے اپنا فیصلہ واپس لیا اور اپنے تبصرے کے لیے علی الاعلان معافی مانگی ،یہ بورڈ کی اجتماعیت کا اثر اور حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانیؒ کی دانش مندی اور مسلسل محنت کا نتیجہ تھا،داڑھی ٹوپی والی مہم میں گردکارواں کی طرح میں بھی شریک رہا ہوں ،جو کچھ نشیب وفراز آئے اور جس طرح جسٹس مارکنڈے کاٹجو سےمختلف مرحلوں میں ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے ضمن میں وزیر اعظم من موہن سنگھ سے تاریخی اور یادگار ملاقات یہ سب مرحلے نگاہ کے سامنے ہیں،اس سلسلے میں حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانیؒ کا کردار ناقابل فراموش ہے اور یہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی جنرل سکریٹری شپ کے زمانے کابورڈ کا نمایاں کارنامہ ہے ،آج کل وقف ترمیمی بل کا مسئلہ جو آتش فشاں بناہوا ہے وہ جس وقف ایکٹ سے متعلق ہے اس میں بھی مناسب مضبوط اور مفید ترمیم ۲۰۱۳ء میں ان ہی کے جنرل سکریٹری شپ کے زمانے میں ہوئی ،بڑی حد تک محفوظ اور مضبوط قانون وقف کے سلسلے میں بنا ،اسی طرح من موہن سنگھ کے وزرات عظمی کے دور میں ہی ہم جنس پرستی کے معاملے میں بورڈکی طرف سے کامیاب پیروی کی گئی ،اسی ضمن میں حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحب ؒ کے سربراہی میں بورڈ کے ایک مؤقر وفد نے من موہن سنگھ سے ملاقات بھی کی تھی یہ اوراس جیسی متعدد کوششیں بورڈ کی جانب سے کی گئیں اور ان میں حضرت مولانا سیدنظام الدینؒ کا دماغ اور ہاتھ دونوں کارفرما تھا۔
بورڈ کے جلسوں میں ملاقات کے علاوہ ان سے بہت خوشگوار ملاقات خانقاہ رحمانیہ مونگیر میں ہوئی ،موقع تھا جامعہ رحمانی کے سالانہ اجلاس اور خانقاہ رحمانی کے سالانہ فاتحہ کا ،اس موقع پر خانقاہ رحمانی کے متوسلین الگ الگ علاقوں سے بڑی تعداد میں آتے ہیں ،قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کے دور سے یہ سلسلہ چلا آرہاہے،حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحبؒ خانقاہ رحمانی کے فیض یافتگان میں تھے ،ان کااصلاح واسترشاد کا تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنیؒ سے تھا ،لیکن عملی زندگی کی تربیت انہوں نے خانقاہ رحمانی کے صاحب سجادہ حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ سے حاصل کی تھی ،اس لحاظ سے خانقاہ رحمانی ان کا مرکز تربیت تھی ،یہاں سے ان کی بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں ،اسی لیے جب وہ خانقاہ رحمانی حاضر ہوتے تھے تو ان کی طبیعت میں شگفتگی و تازگی آجاتی تھی ،خانقاہ رحمانی کی مسجد سے اتر جانب متصل مہمان خانے میں حضرت مولانا کاقیام تھا، اطلاع کر کے میں حاضر ہوا،متعدد افراد ان کی خدمت میں حاضر تھے ، ایک حلقہ سا لگا ہوا تھا اور مولانا مرحوم بڑی شگفتگی اور انبساط کے ساتھ گفتگو فرمارہے تھے

علم و کتاب

20 Oct, 06:57


،چہرے پر تھکن کے آثار تھے ،ضعف وپیرانہ سالی نے جسم کو مضمحل کررکھا تھا ،لیکن اپنی جگہ اپنوں میں آکر ان کی طبیعت کھل اٹھی تھی ،خانقاہ کے بزرگوں کا ذکر چھڑا ہوا تھا اور وہ اپنے حافظے کے ورق الٹ رہے تھے ،عمر کا آخری حصہ تھا ،اور باتوں میں حافظہ متاثر ہوگیا تھا لیکن جو یادیں جسم وجان سے جڑی ہوئی تھیں،انہیں وہ کیوں کر فراموش کرسکتے تھے یا انہیں ان باتوں سے متعلق حافظہ کیسے دغا دے جاتا ،کئی برس کے بعد وہ خانقاہ آئے تھے، درمیانی مدت میں کچھ دوری سی ہوگئی تھی اور کچھ معاملات ومسائل ایسے تھے جن کی وجہ سے کچھ بعد پیدا ہوگیاتھا ،ہرجگہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فاصلوں کو کم کرنے کے بجائے انہیں بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،اور کبھی کبھی کچھ غلط فہمیاں بھی دل کی پھانس بن جاتی ہیں ،اب نہ حضرت مولانا سید نظام الدینؒ رہے اور نہ حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی قدس سرہ بقید حیات ہیں ،اس لیے نہ ان باتوں کو ذکر کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اس کی تفصیل کے اظہار کی حاجت!صرف پس منظر کے بیان کے لیے اوپر کے جملے لکھے گئے ہیں ،تا کہ اس وقت کی صورت حال کا کچھ اندازہ رہے ،تلخی کے بعد آپس کی ملاقات مزہ دے جاتی ہے ،گلے ملنے سے بہت سے گِلےدور ہوجاتے ہیں ،جس وقت کا ذکر کررہا ہوں وہ ایسا ہی مرحلہ تھا ،برف پگھل چکی تھی ،اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیےپیش رفت دونوں طرف سے ہورہی تھی ،مولانا سید نظام الدین صاحبؒ بڑے تھے اور ان کی بڑائی ہی کی یہ بات تھی کہ وہ خود اپنے مرکزتربیت حاضر ہوئے ،دونوں بزرگوں میں کیا گفتگو ہوئی ،کیا گلے شکوے ہوئے یہ تو نہیں معلوم البتہ نگاہوں نے یہ ضرور دیکھا حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانیؒ بنفس نفیس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی قیام گاہ پر تشریف فرماہوئے،بیش قیمت تحفے ان کی خدمت میں پیش کیے ،اور رات کے اجلاس میں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نےبھی بڑے بلند الفاظ میں اپنے مخدوم زادے کا ذکر فرمایا،ان کی قائدانہ بصیرت اور ایمانی فراست کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا ،یہ بھی فرمایا کہ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں پر رشک آتا ہے اور وہ بجا طور پر حضرت امیر شریعت رابعؒ کے جانشین کہلانے کے حقدار ہیں ،اب پوری طرح یاد نہیں لیکن شاید اس موقع پر حضرت مولانا کا خانقاہ رحمانی میں دو دن قیام رہا ،جامعہ رحمانی کے اجلاس میںحضرت مولاناسید نظام الدین صاحبؒ کے بعد مجھے بھی کچھ عرض کرنے کا موقع ملا تھا،میں نے اپنی تقریرمیں حضرت مرحوم کے خطاب کے بعض حصوں کو نقل کر کے اس کی مزید توضیح کی ،یہ میرے لیے سعادت اور نعمت کی بات تھی۔حدیث شریف میں یہ بات آئی ہے کہ ”إنما العلم بالتعلم، والحِلم بالتحلّم“، (علم سیکھنے سے آتا ہے اوربردباری کوشش کے بعد پیدا ہوتی ہے) علم کے ساتھ حلم کا اجتماع مبارک ہے، کبھی کبھی علم کی کثرت انسان کو فخر وتعلی یا علو اور غلومیں مبتلا کردیتی ہے، البتہ جس انسان کا ظرف بلند ہو اور اس میں بردباری کی صفت ہو وہ علم کی کثرت کے باوجود راہِ ہدایت پر قائم رہتا ہے اور توازن اور اعتدال کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، شاید اسی لیے حدیث شریف میں علم اور حلم کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہےاور یہ اشارہ بھی کردیا گیا ہے کہ بیٹھے بٹھائے یہ نعمتیں ہاتھ نہیں آتیں، علم کے لیے بھی پتّا پانی کرنا پڑتا ہے اور حلم اور بردباری کے حصول کے لیے بھی محنت وکاوش کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے، مشقت کے مرحلے سے گزر کر اور شمع کے مانند اپنے آپ کو پگھلا کر علم اور حلم کی دولت حاصل کی جاتی ہے، مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ میں علم بھی تھا، انہوں نے دار العلوم دیوبند جیسی دینی دانش گاہ میں رہ کر اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جیسی عبقری اور نابغہٴ روزگار شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے اپنے سینے کو علوم ومعارف کا گنجینہ بنایا تھا اور پھر عملی میدان میں اکابر کے زیرِ سایہ رہ کر اپنے اندرحلم، تحمل اور متانت پیدا کی تھی، علم اور حلم کے اجتماع نے ان کی شخصیت کو انفرادیت بخشی تھی، بڑے اداروں میں مسائل بھی بڑے ہوتے ہیں، ان بڑے مسائل کو صرف علم کی روشنی میں حل نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے حلم کی بھی ضرورت پڑتی ہے، اور یہ دونوں نعمتیں مولانا مرحوم کو حاصل تھیں، اسی لیے مشکل مراحل میں بھی انہوں نے ملت کے اجتماعی اداروں کی آبرو پر حرف نہ آنے دیا اور نفسانیت کی آنچ سے ملی اداروں کی آن بان کو نقصان نہیں پہونچایا، وہ بھی انسان تھے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ خامی اور غلطی ان سے ہوئی ہوگی، کبھی کبھی ارد گرد کے لوگ بھی رائی کا پربت بناکر پیش کرتے ہیں اور بشریت کے تقاضے سے انسان بعض غلط باتوں سے بھی متأثر ہوجاتا ہے اور وہم وگمان کو یقین کا درجہ دے دیتا ہے، لیکن بہ حیثیت مجموعی ان کا کردار بلند اور روشن رہا ہے اور علم اور حلم کے اجتماع نے ان کی شخصیت کو ہمیشہ باوقار بنائے رکھا، یہ وہ خوبی ہے جو ہر ایک قائد ملت اور رہبر ورہنما

علم و کتاب

20 Oct, 04:12


میرزا یاسؔ یگانہ چنگیزی کا ایک شعر
جو اُنہوں نے ۱۹۱۶ میں کہا تھا، آج بھی کئی لوگوں پر فِٹ بیٹھتا ہے

یاسؔ اب ذلیل ہی کو سمجھتے ہیں سب عزیز
کانٹے چمن کے تُلتے ہیں پھولوں کے ہار سے

علم و کتاب

20 Oct, 03:30


سلسلہ نمبر: 216
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مفتی عبید الرحمن صاحب،مردان*

*فکری جنگ کے طرز اور مسلم معاشرے پر اس کے اثرات*

دین اسلام کے خلاف جو نظریاتی جنگ شروع ہوئی ہے وہ مختلف پینترے بدلتی رہی ہے، چنانچہ پہلے پہل تو دین اسلام یا اس کے کچھ احکامات اور تعلیمات پر اعتراضات ہوا کرتے تھے، وہ اعتراض بھی اسی اعتراض ہی کے نام و عنوان سے ہوا کرتے تھے اور اسی شکل و انداز میں ہوا کرتے تھے،اس کا نتیجہ یہ ہوتا تہا کہ مسلمانوں میں رد عمل کے نفسیات آڑے آجاتی تہیں اور اس کی برکت سے ایک طرف عام مسلمان کا دین و ایمان محفوظ رہ جاتا تہا اور دوسری طرف اہل علم اور ذمہ داران امت کے لیے جواب کی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہونا بھی کوئی مشکل نہ ہوتا تھا ؛ لیکن بعد کے ادوار میں جب سرد جنگ کے محاذ زیادہ کیے گئے تو زیادہ چالاکی یہ دیکھنے کو ملی کہ دین اسلام کے حوالے سے پہلے جو چیزیں اشکال و اعتراض کی صورت میں پیش کی جاتی تھیں وہ اب اس ڈھنگ میں پیش نہیں ہوتیں ؛ بل کہ پہلے ان کے سانچے میں دین اسلام کو ڈھالا جاتا ہے اور پھر اسی ترمیم شدہ اور مسخ شدہ چیز کو دین اسلام کے نام پر پیش کیا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں ؛ بل کہ اس کو دلکش جاذب نظر عنوانات کے ساتھ اس کی خصوصیات و امتیازات میں جگہ دی جاتی ہے اور دلیل کے انداز میں انہی باتوں کو بنابنا کر پیش کیا جاتا ہے جو در حقیقت اعتراضات تھے ۔

فکری جنگ کے اس پرفریب انداز سے عوام مسلمانوں کا بہب خوب نقصان ہوا اور اہل علم کو بھی مشکلات کی پٹری سے گزرنا پڑا، عوام کا نقصان تو یہ ہوا کہ ان کی خاصی مقدار نے مختلف عناصر کی وجہ سے ان ہی مسخ شدہ چیزوں کو اسلام سمجھنا شروع کردیا،اس کے انوکھے انداز کی وجہ سے انہوں نے ان چیزوں کو دشمن کے ہاتھ کا تیر نہیں سمجھا کہ اس سے دور رہنے کا اہتمام کیا جاتا ؛ بل کہ اس کو متاع عزیز سمجھ کر اس کو دل و جان سے قبول کیا اور ان نیے تعلیمات کو ایسے ہی جوش و خروش کے ساتھ قبول کیا جس طرح کوئی مخلص شخص حقیقی دین کو گلے لگاتا ہے ۔
اہل علم کے لیے مشکل یہ پیش آئی کہ ہر نئی آواز کو پرکھنا اس کے درست اور نادرست پہلؤوں کو الگ الگ کرنا اور پھر امت کے قصر ایمان کو اس سے بچائے رکھنا ان کے لیے بہت مشکل اور صبر آزما کام بن گیا۔

( *نظام زندگی میں دین و مذہب کی واقعی اہمیت اور حقیقی قدر و مقام،صفحہ: 145،طبع: مکتبہ دار التقوی، مردان*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

7,759

subscribers

1,137

photos

61

videos