چمک ایسے نہیں آتی ہے خودداری کے چہرے پر
انا کو ہم نے دودو وقت کا فاقہ کرایا ہے
منور رانا کی بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اپنی تمام تر مقبولیت اور ہردلعزیزی کے باوجود کبھی نرگسیت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔انھوں نے کبھی اپنی گردن بھی ٹیڑھی نہیں کی۔ ان کے پاؤں ہمیشہ زمین پر رہے۔ان کے مزاج کا قلندرانہ پہلو انھیں صراط مستقیم پر رکھنے میں کامیاب ہوا۔منور رانا کو ملک زادہ کی طرح شاعری کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی عبور حاصل تھا۔وہ ایک کامیاب انشاء پرداز تھے اور ان کے کئی نثری مجموعے شائع ہوئے۔ان کے خاکے اور انشائیے بھی ان کے شعروں جیسا لطف عطاکرتے ہیں۔ ان کی نثر میں بلا کی ندرت، شگفتگی اور برجستگی ہے۔ناقدین ادب ان کی شاعری سے زیادہ ان کی نثر کو اہمیت دیتے ہیں۔
منور رانا اردو کے علاوہ ہندی میں بھی مقبول تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کی کتاب ”ماں‘‘ ہندی میں شائع ہوئی تو اس کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔یہی حال ان کی طویل نظم ”مہاجر نامہ“ کی مقبولیت کا بھی تھا۔ہجرت کے موضوع پر یہ نظم پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے اور پاکستا ن ہجرت کرنے والوں کے کرب کو بہترین پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ ایک موضوع پر اردو شاعری میں شاید ہی کسی نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔اس رزمیہ نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑآئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں
ہنسی آتی ہے خود اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں
مہاجر کہہ کے دنیا اس لیے ہم کو ستاتی ہے
کہ ہم آتے ہوئے قبروں میں شجرہ چھوڑ آئے ہیں
سیاست کے بنے ایک جال میں ہم پھنس گئے آخر
اگر ہم شاہ تھے تو کیوں رعایا چھوڑ آئے ہیں
’مہاجر نامہ‘ اردو دنیا میں پہلا تجربہ تھا، جسے منور رانا نے بڑی مہارت سے انجام دیا۔یہ ان کے تخیل کی ایسی اپج ہے، جس سے ان کے تخلیقی وفور کا پتہ چلتا ہے۔یہ انسانی دکھوں کی معراج ہے اور ایسا المیہ ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔”مہاجر نامہ“ ایک ایسا ادبی کارنامہ ہے جسے اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
منور رانا کے چلے جانے سے اردو شاعری کا جہاں اداس ہے۔ اب ان کے پائے کے دوچار شاعر بھی باقی نہیں ہیں۔ یہ اردو شاعری کا ہی نہیں خود ہماری تہذیب کا بھی المیہ۔ منور رانا کا جانا ہم سب کا غم ہے۔ انھوں نے بہت پہلے یعنی اپنی حقیقی موت سے بھی پہلے زمین کی خوراک ہوجانے کا سراغ دیا تھا۔ دو اشعار ملاحظہ ہوں
جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہوجائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہوجائیں گے ہم
مٹی کا بدن کردیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B