لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم آمدم بر سر مطلب، بتانا یہ ہے کہ ان کے اخلاق و کردار کے ایسے نمونے وقتا فوقتا دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ایسا ہی ایک واقعہ سننے کو ملا جس نے آپ کی شخصیت کے اس رنگ کو اور گہرا کر دیا اور مناسب معلوم ہوا کہ آپ قارئین تک اسے پہنچا دیا جائے، کیا پتہ چراغ سے چراغ جل اٹھیں۔ پتہ چلا کہ شیخ عبد الرزاق البدر ابھی جولائی کے مہینہ میں ہندوستان آکر واپس لوٹے ہیں جس میں آپ کی پوری کوشش تھی کہ آپ کی آمد کی کسی کو اطلاع نہ ملے، ان کے اس سفر کا واحد مقصد اپنے ایک سابق ہندوستانی “عامل” یا “خادم ” کی عیادت کرنا تھا ، بڑے لوگ بڑوں کی عیادت کرتے ہیں ان سے ملاقات کے لیے سفر بھی کرتے ہیں، چھوٹوں کے لیے بہت ہوا تو حال چال پوچھ لیتے ہیں، لیکن اپنے ایک خدمتگار کی بیمار پرسی کے لیے کوئی مدینہ سے اڑ کر ہندوستان پہنچ جائے یہ بات ہمارے تصور سے پرے ہے خاص طور پر تب جب مسجد نبوی میں آپ کے یومیہ دروس کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ سعودی عرب میں بحیثیت عامل یا سائق خاص جانے والے بعض حضرات کے تجربات بسا اوقات بہت تلخ ہوتے ہیں، حتی کہ بعض اہل علم و فضل کے پاس کام کرنے والے افراد بھی نالاں رہتے ہیں۔ اس صورت حال کو بعض بدخواہ لوگ بدنامی کی حد تک لے جاتے ہیں اور سعودی عرب یا مسلم ممالک اور بسا اوقات اسلام کی بدنامی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کرتے ہیں، جیسا کہ ماضی قریب میں ایک فلم (دی گوٹ لائف The Goat Life) میں دکھلایا گیا ۔ شیخ عبدالرزاق البدر کے اس واقعہ کو اس تناظر میں بھی دیکھیں تو ایک طرف شیخ کے کردار کی عظمت جھلکتی ہے تو دوسری طرف سعودی عرب کی تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھائی دیتا ہے۔ واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ صوبہ آندھرا پردیش، ضلع وجے واڑہ کے مضافات میں ایک قصبہ ہے پڑنہ، اس قصبہ کے ایک صاحب شیخ عبدالرزاق کے فیملی ڈرائیور کی حیثیت سے بیس سال تک خدمت انجام دیتے رہے ہیں ، ابھی تقریبا تین سال قبل اپنی درازی عمر اور گرتی صحت کی وجہ سے ہندوستان واپس لوٹ آئے اور یہیں رہنے لگے ۔ ان کے فرزند کا کہنا ہے کہ تب سے مہینہ میں دو یا تین بار اپنے اس “خادم ” کو کال کرنا اور حال چال پوچھتے رہنا شیخ عبدالرزاق البدر کا معمول رہا ہے ۔ اللہ کی مرضی کہ اسی سال مئی کے مہینہ میں یہ خدمتگار برین ہیمبرج کا شکار ہو گئے، ان کے فرزند نے کچھ لوگوں کے ذریعے دعا کی درخواست شیخ عبدالرزاق البدر تک پہنچائی، شیخ نے فرزند کو فون کیا دعائیں اور تسلی دی۔یہ حادثہ 8 مئی 2024 ء کو پیش آیا تھا، اس کے بعد شیخ اور ان کے معاون ساتھی فرزند کے مسلسل رابطہ میں رہے، ایک دن اس معاون ساتھی نے اطلاع دی کہ 23 مئی کو شیخ کی طرف وعدہ وہ سے عیادت کے لیے کوئی وجے واڑہ پہنچ رہے ہیں ان کو لینے ایئر پورٹ پہنچ جائیں، حسب وعد ، ایئر پورٹ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس نمائندہ کے ساتھ شیخ بذات خود چلے آئے ہیں ۔ خوشگوار حیرت سے دوچار فرزند نے شیخ کا استقبال کیا تو شیخ نے کہا اگر والد محترم کو تکلیف نہ ہو تو ان کی عیادت کے لیے جانا چاہتا ہوں، فرزند کے لیے یہ صورت حال غیر متوقع تھی، شیخ کی آمد کی پیشگی کوئی اطلاع نہیں، مدینہ سے وجے واڑہ بھی پہنچ چکے ہیں اور صرف عیادت کے لیے آئے ہیں اور اب ف اجازت بھی طلب کر رہے ہیں، وہ فورا تیار ہو گئے اور قافلہ ہسپتال پہنچا، شیخ نے بیمار کے کمرے میں پہنچ کر بیمار کے سر کا بوسہ لیا پھر تنہائی کی درخواست کی اور دیر تک دعائیں پڑھ کر دم کرتے رہے اور وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے والد محترم شیخ عبدالمحسن العباد سے بذریعہ فون بات کروائی اور دعائیں دلائیں اور اپنے خاندان کے دیگر افراد سے بھی بات کروائی، یہ سلسلہ کافی دیر تک چلا، یہ سارا منظر کچھ ایسا تھا جیسے مریض یہاں سے اڑ کر وہاں خود اپنے حقیقی گھر والوں کے درمیان جا پہنچا ہو۔ کافی دیر بعد شیخ وہاں سے سے رخ رخصت ہوئے، یہ سارا ماجرا دیکھ کر اس خدمتگار کے فرزند نے جذبات تشکر سے مغلوب خود کو اور اپنے والد کو ممنون کرم دیکھتے ہوئے اس غیر متوقع عنایت پر شیخ عبدالرزاق البدر کا شکریہ ادا کیا تو جواب میں کہنے لگے : "آر : آپ کے والد محترم نے جس قدر ہماری خدمت کی ہے ہم اس کا دس فیصد حق بھی ادا نہیں کر سکے ۔ " شیخ واپس لوٹ گئے اور فرزند کے مطابق ابھی بھی مسلسل رابطہ میں ہیں اور خبر گیری کرتے رہتے ہیں۔
آدمی ایسی مجسم اخلاق شخصیات کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لے تب بھی اکثر یقین نہیں کر پاتا اور اگر کسی طالب علم کو ایسے کردار کے حامل علماء و اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقعہ مل جائے تو یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
👍🏽 ✍🏻 📩 📤
┄┈•※ ✤✤ ※•┄┈۔
📕اردو نصیــــحتیں🌸
┄┈•※ ✤✤ ※•┄┈۔
فيــــس بـــك
https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیــــلی گـــــرام
https://t.me/UrduNaseehaten