مسائلِ زبیر الندوی @masaile_zubair_nadwi Channel on Telegram

مسائلِ زبیر الندوی

@masaile_zubair_nadwi


اس چینل میں استاذی محترم مفتی محمد زبیر الندوی حفظہ اللہ کے تمام مسائل جمع کئے جاتے ہیں
شاگرد عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی

ٹیلی گرام چینل کی لنک
https://t.me/Masaile_Zubair_Nadwi
براؤزر ویب سائٹ
https://t.me/s/Masaile_Zubair_Nadwi

مسائلِ زبیر الندوی (Urdu)

مسائلِ زبیر الندوی ایک ٹیلی گرام چینل ہے جہاں استاذی محترم مفتی محمد زبیر الندوی حفظہ اللہ کے تمام مسائل جمع کئے جاتے ہیں۔ اس چینل میں محمد زکریّا اچلپوری الحسینی شاگرد عاجز بھی موجود ہیں۔ اگر آپ مسائل کی تفصیل میں تلاش کر رہے ہیں تو یہ چینل آپ کے لیے ایک معلوماتی مرکز کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ اس ٹیلی گرام چینل کا لنک یہ ہے: https://t.me/Masaile_Zubair_Nadwi۔ آپ چینل کو براؤز کر کے مختلف مسائل، فتاویٰ اور دیگر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید معلومات کے لیے ویب سائٹ کا لنک یہ ہے: https://t.me/s/Masaile_Zubair_Nadwi۔ جلد ہی اس چینل کو شامل ہو جائیں اور اپنی مذہبی تعلیمات کو بڑھانے کا فرصت ہاتھ سے نہ گزاریں۔

مسائلِ زبیر الندوی

21 Oct, 17:25


ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانان ہند سے صاف صاف باتیں
از قلم : مفتی محمد زبیر ندوی
👇👇
https://msuffah.com/saf-saf-baten/

▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
  مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
  ♡ ㅤ    ❍ㅤ     ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ  ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ  ˢᵃᵛᵉ  ˢʰᵃʳᵉ

مسائلِ زبیر الندوی

20 Oct, 06:13


آپ کتابوں کا مطالعہ کیسے کریں؟ - مکتب الصفہ
آپ کتابوں کا مطالعہ کیسے کریں؟
(ایک مفید تجرباتی تحریر)
از قلم: مفتی محمد زبیر ندوی
مرکز البحث والإفتاء ممبئی انڈیا
علم و مطالعہ کا صحیح ذوق ایسی خدائی نعمت ہے جو کم ہی خوش نصیبوں کو ملتی ہے، یہ ذوق انسان کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے علم و فنون میں روز بروز اضافہ کرے اور نت نئے جواہر پاروں سے دامن ظرف کو بھرتا جائے؛ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ...👇آگے

https://msuffah.com/mutala/



▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
  مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
  ♡ ㅤ    ❍ㅤ     ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ  ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ  ˢᵃᵛᵉ  ˢʰᵃʳᵉ

مسائلِ زبیر الندوی

17 Oct, 05:55


*⚖️سوال وجواب⚖️*

🖋️مسئلہ نمبر 1915🖋️

(کتاب البیوع، باب المرابحۃ)

*فلیٹ خرید کر بلڈر سے زائد رقم میں بیچنا*

سوال: زید نے زمین خریدکر اس کا لے آؤٹ بنایا ہے، جہاں سائٹس بناکر فروخت کیے جائیں گے ایک یا دو جتنی مرضی ہے خریدار لے سکتاہے، البتہ ابتداء میں کچھ مزید فنڈ کی ضرورت کی خاطر یہ بات طے کی ہے کہ کوئی پانچ سائٹس خریدتاہے تو اسکے لئے کچھ قیمت اور کم کرلی جائے گی ایک اسکوائر فٹ کی قیمت پانچ سو روپیے ہے، مشتری کواختیار ہے کہ سائٹس خریدنے کے بعد چاہے تو رجسٹر کرالے ( جب کہ رجسٹر کاخرچ ایک سائٹ پر تقریبا ۶۰ ساٹھ ہزار روپیے آئے گا) اور چاہے تو جی پی اے G.P.A یا اور کوئی کاغذی کاروائی جو کم خرچ میں قابل اعتباراور قابل اعتماد ہو کرالے، اسکے بعد مشتری کو اختیار رہے گا کہ جسکو چاہے وہ زمین فروخت کرے، اگر واپس زید ہی کو دینا چاہے تو زید بارہ ماہ بعد اس زمین کو لینے کے لئے تیار ہے مگرقیمت متعین کردی ہے کہ مشتری نے پانچ سو میں خریدا تھا اب اس سے زید ۶۰۰ میں واپس خریدےگا، خواہ زمین کی کچھ بھی قیمت ہو، ممکن ہے وہاں پانچ سو سےگھٹ کر ساڑے چارسو ہوجائے یا بڑھکر ۷۰۰ ہوجائے بہر صورت صرف ۶۰۰ روپیے سے ہی زید واپس لےگا، تویہ ۱۰۰ روپیے کا متعینہ اضافہ ازروئے شرع کیا حکم رکھتاہے؟ تجارت کی یہ صورت جائز ہے؟ ازروئے شرع جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں جزاکم اللہ خیراواحسن الجزاء۔ (محسن ممبئی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

زمین کی پلاٹنگ کرکے کم و بیش قیمت میں فروخت کرنا جائز ہے، اور رجسٹری کرائے بغیر بھی صرف ایجاب وقبول سے زمین کی ملکیت شرعاً منتقل ہوجاتی ہے؛ کیونکہ خرید وفروخت کے معاملے میں اصل ایجاب و قبول ہے، ایجاب وقبول کے بعد بیع ہوجاتی ہے اور پھر آدمی کم و بیش قیمت کے ساتھ اس کو کسی سے بھی بیچ سکتا ہے؛ لیکن زبردستی ایک ہی قیمت طے کرنا اور مشروط انداز میں اتنی ہی قیمت میں بیچنا درست نہیں ہے، چنانچہ مذکورہ صورت میں خریداری کرتے وقت ہی متعینہ قیمت میں بیچنے کی شرط لگانا درست نہیں ہے یہ شرط فاسد ہے(١)۔

البتہ اگر مطلقا خرید وفروخت ہو اور بعد میں متعینہ قیمت طے کرلی جائے تو یہ درست ہے؛ کیونکہ ملکیت میں آجانے کے بعد آدمی کو حسب منشا قیمت میں بیچنے کا اختیار ہوتا ہے(٢)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) البيع مبادلة المال بالمال و ينعقد بايجاب و قبول (ملتقى الابحر مع مجمع الانهر ٤/٣ كتاب البيوع)

ينعقد بايجاب و قبول بصيغة الماضي و بكل لفظ يدل على معناهما و بالتعاطي مطلقا في الأصح. (مجمع البحرين و ملتقي النيرين ص ٢٥٨ كتاب البيوع. دار الكتب العلميه بيروت)

ﻓﺈﻥ اﻹﻗﺎﻟﺔ ﻓﺴﺦ ﻓﻲ ﺣﻖ اﻟﻤﺘﻌﺎﻗﺪﻳﻦ ﺑﻴﻊ ﻓﻲ ﺣﻖ ﻏﻴﺮﻫﻤﺎ، ﻭﻫﺬا ﺇﺫا ﻛﺎﻧﺖ ﺑﻠﻔﻆ اﻹﻗﺎﻟﺔ. ﻓﻠﻮ ﺑﻠﻔﻆ ﻣﻔﺎﺳﺨﺔ ﺃﻭ ﻣﺘﺎﺭﻛﺔ ﺃﻭ ﺗﺮاﺩ ﻟﻢ ﺗﺠﻌﻞ ﺑﻴﻌﺎ اﺗﻔﺎﻗﺎ ﻭﻟﻮ ﺑﻠﻔﻆ ﺑﻴﻊ ﻓﺒﻴﻊ ﺇﺟﻤﺎﻋﺎ ﻛﻤﺎ ﻳﺄﺗﻲ ﻓﺘﻨﺒﻪ ﻟﺬﻟﻚ (رد المحتار 114/3)

(٢) للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 11/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

15 Oct, 03:44


*⚖️سوال وجواب⚖️*

🖋️مسٔلہ نمبر 1914🖋️

(كتاب الزكاة باب التمليك)

*کھاتے پیتے شخص کا ایجوکیشن کے لیے زکوۃ لینا*

سوال: بعض لوگوں کی کمائی اتنی ہے کہ وہ کھا پی سکتے ہیں؟ لیکن وہ اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتے، ان کی فیس ادا نہیں کر سکتے، کیا ایسے لوگوں کو زکوۃ کی رقم دے کر ان کے بچوں کو پڑھایا جا سکتا ہے؟ (مولانا کامل ندوی بریلی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

زکوٰۃ کے جو مستحقین ہیں قرآن مجید میں ان کی فہرست بتا دی گئی ہے، اس فہرست میں فقراء ومساکین بھی داخل ہیں کہ وہ زکوٰۃ کی رقم لے سکتے ہیں، فقیر سے مراد وہ لوگ ہیں جو نصاب کے بقدر مال کے مالک نہ ہوں، ایسے لوگ خواہ اپنی بنیادی ضروریات لباس خوراک پورا کرلیتے ہوں مگر وہ مزید اخراجات مثلاً تعلیم وغیرہ کے ضرورت مند ہوں تو زکوٰۃ کی رقم لے کر اپنی یہ ضروریات پوری کرسکتے ہیں؛ لیکن اگر وہ اتنی رقم رکھتے ہیں خواہ سونا چاندی کی شکل میں یا دونوں ملاکر یا روپے کی شکل میں تو وہ خود صاحب نصاب ہوجائیں گے اور فقراء ومساکین کی لسٹ میں نہیں آئیں گے اور ان کے لیے زکوٰۃ کی رقم درست نہیں ہوگی، اس اصول کی روشنی میں وہ صاحب خود اپنی حیثیت طے کرسکتے ہیں آیا وہ زکوۃ کی مستحق ہیں یا نہیں؟ اسی طرح اگر ان کے بچے جو زیر تعلیم ہیں اگر وہ عاقل بالغ ہیں اور بقدر نصاب رقم کے مالک نہیں ہیں تو خود ان بچوں کو بھی دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بلوغت کے بعد وہ خود بھی زکوۃ دینے اور لینے کے اہل ہوجاتے ہیں(٢)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة 60)

ويشترط أن يكون الصرف تمليكا لا إباحة. (الدر المختار مع رد المحتار ٢٩١/٣ كتاب الزكاة، باب الصرف، زكريا)

ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً (در مختار) فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ․ (رد المحتار ۳/۲۹۱ زکریا دیوبند)

(٢) إلى صبيان أقاربه أي العقلاء و إلا فلا يصح إلا بالدفع الى ولي الصغير. (رد المحتار على الدر المختار ٢٧٧/٣ كتاب الزكاة ملط في الحوائج الأصلية قبيل باب صدقة الفطر، زكريا)

لو دفع إلى صبي لا يعقل الأخذ لا يجوز إلا إذا قبضه من يقبض له. (الفتاوى السراجية ص ١٥٣ باب مواضع الصدقات)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 10/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

15 Oct, 03:14


*⚖️سوال وجواب⚖️*

🖋️مسئلہ نمبر 1913🖋️

*کتاب الزکاۃ، باب التملیک*

*چیک سے تنخواہ دینے میں تملیک کی صورتیں*

سوال: نوٹ بندی کے بعد سے بہت سے مدارس اب چیک سے تنخواہ دیتے ھیں، پہلے جب کیش کی شکل میں تنخواہ ہوتی تھی تو اس کی تملیک کرلی جاتی تھی؛ کیونکہ مدرسہ میں مختلف مد کی رقمیں آتی ہیں۔

اب جبکہ چیک سے تنخواہ دی جاتی ہے اس کی تملیک کی کیا شکل ہوگی؟واضح رہے کہ چیک پر جس کو تنخواہ دی جارہی ھے اس کانام لکھا ہوتاہے چند شکلیں جو تملیک کی ہوں اسے لکھکرممنون فرمائیں؟ (امین بلڈانہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

یہ بات درست ہے کہ زکوٰۃ کی رقم تنخواہ کے مد میں صرف نہیں کی جاسکتی ہے؛ کیونکہ وہ فقراء ومساکین کا حق ہے جو تبرعا دیا جاسکتا ہے بطورِ اجرت نہیں؛ اس لیے اس کی یہی ایک شکل ہے کہ تملیک کرکے تنخواہوں میں دی جائے، پہلے جب چیک کا طریقہ نہیں تھا تو اس سے منتظمین کو قدرے آسانی ہوتی تھی کہ وہ خود تملیک کرکے دیتے تھے، اب تھوڑی مشکل ہے؛ لیکن اس مشکل کو کئی طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔

(١) ایک طریقہ یہ ہے کہ مدرسین کو اس اکاؤنٹ سے تنخواہ دی جائے جس میں صرف عطیات اور امداد کی رقم ہو زکواۃ والے اکاؤنٹ سے نہ دی جائے اور اگر دونوں کا اکاؤنٹ ایک ہی ہو تو دونوں طرح کی رقوم کا حساب صحیح صحیح رکھا جائے اور جب تک امداد کی رقم رہے اسی سے تنخواہیں دی جائیں اور اساتذہ کو بتا دیا جائے کہ یہ تنخواہ زکوٰۃ کی رقم سے نہیں ہے۔

(٢) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر صرف زکوٰۃ کی رقم ہو تو مدرسہ کا ذمہ دار خود اس کی تملیک کرانے کے بعد اکاؤنٹ میں رقم جمع کرے اور پھر اس سے تنخواہیں دی جائیں۔

(٣) تیسری صورت یہ ہے کہ اگر مدرسہ کے ذمہ دار یہ سارے کام نہ کر رہے ہوں حالانکہ یہ انکی ذمہ داری ہے تو تنخواہ ملنے کے بعد مدرس خود بھی ذاتی طور پر کسی سے تملیک کراکے استعمال کرسکتا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

*📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً (در مختار) فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ․ (رد المحتار ۳/۲۹۱ زکریا دیوبند)

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ : " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ ". (صحيح البخاري رقم الحديث ١٤٩٥ كِتَابٌ : الزَّكَاةُ | بَابٌ : إِذَا تَحَوَّلَتِ الصَّدَقَةُ)

أَوْ لِرَجُلٍ كَانَ لَهُ جَارٌ مِسْكِينٌ فَتُصُدِّقَ عَلَى الْمِسْكِينِ، فَأَهْدَاهَا الْمِسْكِينُ لِلْغَنِيِّ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ١٦٣٥ كِتَابُ الزَّكَاةِ | بَابٌ : مَنْ يَجُوزُ لَهُ أَخْذُ الصَّدَقَةِ وَهُوَ غَنِي)

( ولنا هدية ) ‏ ‏فبين أن العين الواحدة يختلف حكمها باختلاف جهات الملك (حاشية السندي على النسائي رقم الحديث ٣٤٤٧ كِتَابُ الطَّلَاقِ | بَابٌ : خِيَارُ الْأَمَةِ)

والحيلة لمن أراد ذلك أن يتصدق ينوي الزكاة على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون لصاحب المال ثواب الصدقة و لذلك الفقير ثواب الصرف (الفتاوى التاتارخانية ٢٠٨/٣ كتاب الزكاة زكريا جديد)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 9/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

15 Oct, 02:15


*⚖️سوال وجواب⚖️*

🖋️مسئلہ نمبر 1912🖋️

(کتاب البیوع باب العیب فی المبیع)

*مبیع میں بائع عیب کو قبول نہ کرے تو کیا حکم ہوگا*

سوال: ایک شخص ایک موبائل لایا ہے جس میں اسے کچھ خرابی نظر آرہی ہے، اس نے بیچنے والے کو یہ کہہ کر واپس کرنا چاہا کہ یہ عیب شدہ تھا، بائع اس کو نہیں لے رہا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ یہ عیب دار تمہارے پاس ہوا ہے تو کیا ہونا چاہیے؟ (لقمان صدیقی، ممبئی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ صورت میں جب دونوں ایک دوسرے کے پاس عیب دار ہونے کے دعویدار ہیں تو خریدار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعوے پر دلیل پیش کرے؛ کیوں کہ اصل یہی ہے مدعی کے ذمہ بینہ ہوتا ہے اور مدعی علیہ کے ذمہ قسم ہوتی ہے (١) دوسری وجہ یہ ہے کہ جب کوئی نئی بات پیش آتی ہے تو اس کو قریب ترین وقت سے جوڑا جاتا ہے(١)؛ اس لیے بظاہر وہ عیب مشتری کے پاس ہونا مانا جائے گا، چنانچہ اگر وہ بینہ یا اس کے پاس موجود ہوتے عیب پیدا ہونے پر دلیل نہیں پیش کرسکتاہے تو بائع کی بات درست ہوگی۔ اور اگر پیش کردیتا ہے تو بائع (seller) کے لیے موبائل واپس لینا ضروری ہوگا(٣)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ : " الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ " (سنن الترمذي رقم الحديث 1341 أبواب الأحكام)

(٢) الأصل إضافة الحادث إلى أقرب أوقاته. (مجلة الاحكام العدلية مادة ١١)

(٣) ما لو اشترى إنسان شيئاً ثم جاء ليرده بعيب فيه مدعياً أنه كان موجوداً فيه عند البائع، وقال البائع : لا بل حدث العيب عندك بعد القبض، وكان العيب مما يحدث مثله، فإن القول قول البائع والبيئة على المشتري. أما لو كان العيب مما لا يحدث مثله كالإصبع الزائدة في العبد وكالخيف في الفرس - وهو أن تكون إحدى عينيه سوداء والأخرى زرقاء ـ فإن البائع يلزم به ر: الدر المختار كتاب البيوع، باب خيار العيب). (شرح القواعد الفقهيه 128)

ومنها : إذا ظهر في المبيع عيب، وهو عند المشترى، فزعم البائع حدوثه بعد قبض المشترى، وادعى المشتري وجوده قبل القبض اعتبر حادثاً عند المشترى، فليس له فسخ لبيع بالعيب حتى يثبت أنه قديم عند البائع عملاً بهذه القاعدة (القواعد الكلية عثمان شبير 155)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 8/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

11 Aug, 06:05


*⚖️سوال وجواب⚖️*

🖋️مسئلہ نمبر 1911🖋️

(کتاب النکاح، نکاح مسیار کی شرعی حیثیت)

*نکاح مؤقت کی حقیقت و ائمہ اربعہ کی آراء*

سوال نمبر ۸۔ اسی پس منظر میں دریافت طلب ہے کہ نکاح موقت کی حقیقت کیا ہے اور اس کے حکم کے بارے میں ائمہ اربعہ اور صاحبین کا کیا نقطہ نظر کیا ہے؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نکاح موقت، متعہ ہی کی ایک صورت ہے نیز نکاح موقت و نکاح متعہ دونوں باطل اور حرام ہے، اور اس کے حرام ہونے پر امت کا اجماع ہے، ائمہ اربعہ و صاحبین کے نزدیک یہ نکاح باطل ہے، خواہ نکاح موقت کی مدت کم ہو یا زیادہ، اسی طرح ائمہ اربعہ اور صاحبین سے منقول تفصیلات کے مطابق دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

البتہ تعبیری اعتبار سے دونوں میں صرف اتنا فرق پایا جاتا ہے کہ متعہ میں لفظ نکاح یا تزویج کی بجائے متعہ کے مادہ سے کوئی لفظ استعمال ہوتا ہے، اور موقت میں مدت کی صراحت کے ساتھ نکاح یا تزویج کا لفظ استعمال ہوتا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) أن رسول الله نهى عن متعة النساء يوم خيبير وعن أكل لحوم الحمر الإنسية ( بخاری ۰۵ ۱۷۲ء الشرح امبار ب ۲۴۹/۱۲) ۔

"النكاح المؤقت وهو نكاح المتعة، وأنه نوعان : أحدهما أن يكون بلفظ التمتع، والثاني: أن يكون بلفظ النكاح والتزويج وما يقوم مقامهما ( بدائع الصنائع ۲۷۲/۲) ۔

قال شيخ الإسلام في الفرق بينه (أى النكاح المتعة) وبين النكاح المؤقت أن يذكر مؤقت بلفظ النكاح والتزويج، وفي المتعة أتمتع أو استمتع، يعنى ما اشتمل على مادة متعة، والذي يظهر مع ذلك عدم اشتراط الشهود في المتعة وتعيين المدة، وفي المؤقت الشهود
وتعيينها (فتح القدير، الشاملة ٢٣٦/٣، الموسوعة الفقہیہ ۱۳/ ۳۲۰)

" اتفق المالكية، والشافعية والحنابلة على أنه لا فرق بين الاثنين، فالنكاح المؤقت هو نكاح المتعة، والمشهور عند الحنفية أن نكاح المتعة يشترط فيه أن يكون بلفظ المتعة كأن يقول لها : متعيني بنفسك، أو تمتع بك، أو متعتك بنفسي) ولكن بعضهم حقق أن ذلك لم يثبت، وعلى هذا يكون نكاح المتعة هو نكاح المؤقت ، بلا فرق عند الجميع ( كتاب الفقه على المذاہب الاربعه ۸۳/۵، کتاب النکاح، النكاح المتوقت أو النكاح المعدة )

" وأما نكاح المتعة : فهو أن يقول : زوجنى فلانة لمدة كذا، أو يتفق معها على الزوج لمدة معينة، أو بالعقد عليها شهر أو شهرين، وهو النكاح الموقت شهراً أو شهرين، أو سنة أو سنتين وهو باطل عند أهل العلم " (الافهام فى شرح عمدة الاحكام، کتاب النكاح للشيخ عبد العزيز بن باز ٦٢٢)

"فلايجوز النكاح المؤقت، وهو نكاح المتعة ... والمتعة منسوخة وصار هذا الا يصح، ولا يقال : يصح وتبطل الإضافة، لأن المالتي به نكاح مضاف وأنه يصح كذا (الروض المربع ۲۷۲/۲ البہوتی ) ۔

" قال المازري : قد تقرر الإجماع على منعه أى نكاح المتعة ، ولم يخالف فيه إلا طائفة من المبتدعة وما حكى عن ابن عباس من أنه كان يقول بجوازه فقد رجع عنه " ( حاشيه الدسوقي ۲۳۹/۲)

" والحاصل أن النكاح لأجل له صورتان : الأولى : زوجنى بنتك عشر سنين بكذا ، والثانية : زوجنى بنتك مدة إقامتي في هذا البلد . فإذا سافرت منه فارقتها ، فالعقد فاسد فيهما ويفسخ أبداً ... قرب الأجل أو بعد بحيث لا يدركه عمر أحدهما ..... وهو المسمى بنكاح المنعة ( حاشيه الدسوقي علی الشرح الکبیر ۲۳۸/۲)

ونكاح المتعة المنهى عنه : كل نكاح كان إلى أجل من الأجال قرب أو بعد، وذلك أن يقول الرجل للمرأة نكحتك يوما أو عشراً أو شهرا، أو نكحتك حتى أخرج من هذا البلد أو نكحتك حتى أصبك فتحلين لزوج فارقك ثلاثاً، أو ما أشبه هذا مما لا يكون فيه النكاح مطلقاً لا زما على الأبد، أو يحدث لها فرقة ( كتاب الام للشافعي كتاب النكاح، النكاح الملل والنكاح المتعه ٧٩/٥)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 7/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

05 Aug, 07:04


أما لو أضمر الزوج في نفسه أن يتزوجها ما دام في هذه الليلة أو مدة سنة، ثم يفارقها، فلا يضر ولو فهمت المرأه من حاله ذلك الفقه الاسلامی وادلته ۶۵۵۱/۹ ، شرح المجله للاتاسی ۳۱۵/۲)

" ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته، بل إلى مدة معينة ينتهى العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دام معها إلى أن يتصرف عنها فلا عقد، فيدخل فيه بمادة المتعة والنكاح المؤقت أيضاً، فيكون من أفراد المتعة، وإن عقد بلفظ التزوج وأحضر الشهود " ( رد المحتار ۵۱/۳)

"إذا شرط وقت العقد أن يطلقها بعد شهر، فإن النكاح صحيح، والشرط باطل، ولا فرق بينها وبين ما فيه وأجيب بأن الفرق بينهما ظاهر، لأن الطلاق قاطع للنكاح، فاشتراط بعد شهر لينقطع به دليل على وجود العقد مؤبداً، ولهذا لو مضى الشهر لم يبطل النكاح فكان النكاح صحيحاً .... والشرط باطلاً، وأما صورة النزاع فالشرط إنما هو في النكاح لا في قاطعه (الحانيت افتح ۲۵۰/۳) ۔ " (قوله : وإن جهلت المدة كأن يتزوجها إلى أن ينصرف عنها كما تقدم) (قوله : أو طالت في الأصح) كأن يتزوجها إلى مائتي سنة وهو ظاهر المذهب وهو الصحيح، كما في المعراج، لأن التأقيت وهو المعين لجهة المتعة، بحر “ ( رد الحتار ٥١/٣)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 6/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

05 Aug, 07:04


⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1910🖋️

(کتاب النکاح، نکاح مسیار کی شرعی حیثیت)

*نکاح مسیار کیا نکاح مؤقت کے دائرے میں‌آئے گا*

سوال نمبر ٧۔ بہت سے عرب طلبہ مغربی ملکوں میں جاتے ہیں اور ان کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے طویل عرصہ وہاں مقیم رہنا پڑتا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان ملکوں کا ماحول اتنا خراب ہے کہ ایک جوان شخص کا تجرد کے ساتھ پاکدامنی کی زندگی گزارنا بہت دشوار ہوتا ہے، ان حالات میں وہ وہاں نکاح کر لیتے ہیں، یہ نکاح ان کے لئے عفت و پاکدامنی کا ذریعہ بھی بنتا ہے، اور اس سے خاندانی زندگی کی سہولتیں بھی حاصل ہوتی ہیں، بہت سے نکاح کرنے والوں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ دس پندرہ سال جب تک اس ملک میں ان کا قیام رہے گا، وہ اس رشتے کو باقی رکھیں گے اور جب وہاں سے ہمیشہ کے لئے اپنے وطن کو واپس ہوں گے تو طلاق دے کر رشتہ ختم کر دیں گے تاکہ عورت کےلئے دوسرے نکاح میں کوئی دشواری نہ ہو اور مرد کو بھی نئی زندگی شروع کرنے میں پریشانی نہ ہو کیوں کہ اگر پہلے سے کوئی عورت نکاح میں ہو تو کوئی دوسری عورت عام طور پر اس سے نکاح کے لئے تیار نہیں ہوتی، کیا نکاح کی اس صورت پر نکاح موقت کا اطلاق ہوگا ؟ اگر دل میں یہ بات رکھے ہوئے ہو کہ ایک مقررہ یا غیر مقررہ وقت کے بعد وہ اس رشتہ کو ختم کر دے گا تو کیا یہ نکاح مؤقت کے دائرہ میں آئے گا ؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

نکاح مسیار کا اطلاق، نکاح مؤقت پر نہیں ہوگا ، اس لئے کہ نکاح موقت توقیتی ہوتا ہے، اس میں وقت کی تعیین ہوتی ہے اور لفظوں میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے، جبکہ نکاح مسیار تابیدی ہوتا ہے، اور تمام ارکان وشرائط نکاح شرعی کے پائے جاتے ہیں، نیز طلاق دینے کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی اور نہ ہی نکاح میں اس کا ذکر ہوتا ہے، البتہ وطن واپسی، یا سفر اور قیام کے اختتام پر دل میں شوہر یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اس رشتہ کو ختم کر دے گا، شوہر کا طلاق کی نیت رکھنا یہ مقاصد نکاح کے خلاف ہے جو مکروہ ہے، اس سے احتراز کرنا چاہئے اور تادم حیات رفاقت نبھانے کی نیت رکھنی چاہئے، غرض کہ نکاح کے وقت شوہر کے دل میں طلاق کی نیت رکھنے کی وجہ سے نکاح مسیار کو نکاح مؤقت کے زمرے میں نہیں لایا جاسکتا، ہاں اس طریقۂ کار کی حوصلہ شکنی کی جائے گی(١) ۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) ذهب الفقهاء إلى أن النكاح عقد مؤبد لا يقبل التأقيت، فلا يصح توقيته، سواء كان بلفظ المتعة أم بغيره من ألفاظ النكاح، وسواء أكانت التأقيت بمدة طويلة، أم قصيرة معلومة أو مجهولة" (الموسوعة الفقھیۃ الكويتية (۳۹۱/۳۱)

"أما إذا كانت التأقيت مضمرا في نفس الزوج غير مصرح به، فقد اختلف الفقهاء فيه، فذهب الجمهور إلى صحة النكاح، ونص على ذلك الحنفية والمالكية على الراجح والشافعية غير أنهم قالوا بكراهة، وهو رأى عند الحنابلة، حكى بقيل: وقال الحنابلة: إنه لا يصح، وهو الصحيح من المذهب عندهم، وهو قول بهرام من المالكية (الموسوية المقهية (۲۱۹/۳) ۔ قال شيخنا العراقي في شرح جامع الترمذي : نكاح المتعة حرام إذا ذكر التوقيت فيه وإذا كان في نية الطلاق أنه لا يقيم معها إلا سنة أو شهراً أو نحو ذلك ولم يشترط ذلك، فإنه نكاح صحيح ( حاشيه ھدایہ قبيل باب في الأول بالا کفاء / ۳۳۳)

أما لو تزوج وفي نيته أن يطلقها بعد مدة نواها صح ( فتح القدير ١٥٢/٣ )

صرح الحنفية والشافعية بأنه لو تزوج، وفي نيته أن يطلقها بعد مدة نواها صح زواجه، لكن الشافعية قالوا: بكراهة النكاح، إذ كل ما صرح به أبطل يكون إضماره مكروها عندهم، كما قال المالكية: إن الأجل إذا لم يقع في العقد، ولم يعلمها الزوج بذلك، وإنما قصده في نفسه و فهمت المرأة أو وليها المفارقة بعد مدة، فإنه لا يضر وهذا هو الراجح، وإن بهرام صدر في شرحه وفي شامله بالفساد إذا فهمت منه ذلك الأمر الذي قصده في نفسه، فإن لم يصرح للمرأة ولا لوليها بذلك، ولم تفهم المرأة ما قصده في نفسه، فليس نکاح متعة، أما الحنابلة فقد صرحوا بأنه لو تزوج الغريب بنية طلاقها إذا خرج، فإن النكاح يبطل، لأنه نكاح متعة، وهو باطل، ولكن جاء في المغنى : وإن تزوجها بغير شرط، إلا أن في نيته طلاقها بعد شهر أو إذا انقضت حاجته في هذا البلد، فالنكاح صحيح في قول عامة أهل العلم، إلا الأوزاعي، قال : هو نكاح متعة، والصحيح أنه لا بأس به، ولا تضر نيته ( الموسوعة الفقھية الكويتية ٣٢/٢ )

وليس منه ما لو نكحها على أن يطلقها بعد شهر أو نوى مكثها معها مدة معينة، ولا بأس بتزويج النهاريات (قوله وليس منه)؛ لأن اشتراط القاطع يدل على انعقاده مؤبداً و بطل الشرط بحر - (قوله أو نوى) ؛ لأن التوقيت إنما يكون باللفظ بحر (قوله : ولا بأس بتزويج النهاريات) وهو أن يتزوجها على أن يكون عندها نهار أدون الليل فتح ( شامی ۳۱۹/۲)

مسائلِ زبیر الندوی

05 Aug, 05:11


⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1909🖋️

(كتاب النكاح، نکاح مسیار کی شرعی حیثیت)

*نکاح مسیار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی سماجی حیثیت وٹ نفقہ کے ذمہ داری کا حکم*

سوال نمبر 6- زواج مسیار کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی سماجی حیثیت کیا ہوگی؟ ان کے نفقہ کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ اس کے مثبت ومنفی پہلوؤں اور فوائد و نقصانات کی بھی نشان دہی کریں۔ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق

نکاح مسیار کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی وہی حیثیت ہوگی جو نکاح عرفی سے پیدا ہونے والے بچوں کی ہوتی ہے؛ یعنی بچہ ثابت النسب ہو گا، باپ کی جائداد میں وراثت کا حقدار ہوگا اور اسکا نفقہ باپ کے ذمہ واجب ہوگا ہے کیونکہ نکاح وسیار میں اگر نکاح کے شرائط و ارکان یعنی ایجاب و قبول اور گواہان وغیرہ موجود ہیں تو شرعا وہ نکاح معتبر ہوتا ہے اور اس نکاح کے وجہ سے منقوہت سے خراش کا تعلق قائم ہو جاتا ہے اس لیے وہ اسی کا بچہ ہوگا اور تمام ذمہ داریاں اس پر عائد ہوں گی(١) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

📚والدليل على ما قلنا📚

(١) الولد للفراش وللعاهر الحجر (البخاری حدیث نمبر 2053)

والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير دعوة ولا ينتفى بمجرد النقي و إنما تنتفي باللعان (الہندیہ ۵۳۷/6)

نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة" ( ہندیہ ،کتاب النفقات 560/1) -

" والحاضنة أما أو غيرها أحق به أى بالغلام حتى يستغنى عن النساء، وقدر بسمع، و به يفنى (إلى) وغيرهما أحق بها حتى تشتهى و قدر يتسع و به يفتي ( إلى) وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك، وبه يفتي " (الدر المختار مع ردالمحتار / 695/2)

"قال القرضاوى : " ولا أنكر هذا، وإن هذا النوع من الزواج ليس هو الزواج الإسلامي المثالي المنشود، ولكنه الزواج الممكن، والذي أوجبته ضرورات الحياة وتطور المجمتمعات وظروف العيش" (انواع المسيار ۱۰)

" اتفق الفقهاء أيضاً على أنه إن جاءت المرأة بولد في نكاح المتعة لحق نسبه بالواطى سواء اعتقده نكا حا صحيحا أو لم يعتقده، لأن له شبهه العقد و المرأة تصير به فراشاً، وتعتبر مدة النسب من وقت الدخول عند محمد من الحنفية، وعليه الفتوى عند الحنفية" (موسوعة فقهية 341/41)

" واتفقوا كذلك على أنه يحصل بالدخول في نكاح المتعة حرمة المصاهرة بين كل من الرجل والمرأة وبين أصولهما وفروعهما" (حوالہ سابق)

" والسادس إذا كان إلى أجل في معنى المتعة فيفسد في قول أبي حنيفة ومحمد، وفي قول زهر النكاح جائز و الشرط فاسد إذا وقنا وقتأ يدرك، وإن وقتا وقتا لا يدرك فالنكاح جائز، فإذا لم يكن معه وطؤ لا يوجب شيئاً من هذه الأحكام التي ذكرناها في النكاح الصحيح، فإن كان معه وطق فإنه وتوابعه خمسة من الحقوق .... والثالث حق الفراش وثبوت نسب الولد منه" (النکاح الفاسد 268/1)

"الأصل في نفقة الوالدين والمولودين القرب بعد الجزئية دون الميراث، كذا في الفتح أي تعتبر أولا الجزئية أي جهة الولاد اصولاً أو فروعا ( در مختار 281/5)

لما تعذر إثبات النسب من النكاح الصحيح، فإثباته من الفاسد أولى من الحمل على الزنا هكذا في البدائع " ( هنديه 1 / ۵۳۸)

و أما النكاح الفاسد فلا حكم له قبل الدخول، وأما بعد الدخول فيتعلق به أحكام منها : ثبوت النسب، ومنها : وجوب العدة، وهو حكم الدخول في الحقيقة، ومنها : وجوب المهر، وفي النكاح الفاسد بعد الدخول لحاجة الناكح إلى درا الحد وصانة مالة عن الضياع بثبات النسب ووجوب العدة، وصيانة البضع المحترم عن الاستعمال من غيره غرامة ولا عقوبة توجب المهر، فجعل منعقداً في حق المنافع المستوفة لقاعده الضروره ولا ضروره قبل استيفاء المنافع وهو ما قبل الدخول فلا يجعل منعقدا قبله (بدائع الصنايع 659/2)

وقال عنه الشيخ عبد الله بن منيع : الذي أفهمه من زواج المسيار وأبنى عليه فتواه أنه زواج مستكمل لجميع أركانه وشروطه، فهو زواج يتم فيه إيجاب وقبول، وبشروطه المعروفة من رضا الطرفين والولاية والشهادة والكفاءة، وفيه الصداق المتفق عليه، ولا يصح إلا انتفاء موانعه الشرعية، وبعد تمامه تثبت لطرفيه جميع الحقوق المترتبة على عقد الزوجية من حيث النسل والنسب والإرث والعدة والطلاق واستباحة البضع، والسكن والنفقة وغير ذلك من الحقوق والواجبات إلا أن الزوجين قدار تضيا واتفقا على أن لا يكون للزوجة حق في بن الميت أو القسم المختار في زواج المسيار، الفصل الثاني المبحث الأول / ۰۸ الله كتور عبد العزيز بن محمد الجبيلان )

"إن تزوج الرجل امرأة فجاءت بولد لسة أشهر فصاعداً يثبت نسبه منه اعترف به الزوج أو سكت ، لأن الفراش قائم والمدة تامة (هدایه ۴۱۲/۲) ۔

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 5/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

05 Aug, 04:49


(١١) ورد في الفقرة الأولى من المادة الرابعة عشرة من قانون الأحوال الشخصية السوري ما نصه : إذا قيد عقد الزواج بشرط ينافي نظامه الشرعي ، أو ينافي مقاصده ويلتزم فيه ما هو محظور شرعاً كان الشرط باطلاً ، والعقد صحيحاً (شرح مدونة الأحوال الشخصية السوري للسباعي ص ١٢٤ المختار في زواج المسيار 215)

ورد في الفقرتين ( أ ، ب ) من المادة الأربعين من قانون الأحوال الشخصية الكويتي ما نصه : ( (أ) إذا اقترن عقد الزواج بشرط ينافي أصله بطل العقد، (ب) إذا اقترن بشرط لا ينافي أصله ولكن ينافي مقتضاه أو كان محرماً شرعاً بطل الشرط ، وصح العقد » ) .

القانون بدولة الإمارات العربية المتحدة :

صرح الدكتور أحمد الكبيسي رئيس اللجنة المكلفة بإعداد مشروع قانون الأحوال الشخصية أن المشروع يتضمن السماح بتسجيل عقود زواج المسيار في المحكمة وفق شروط معينة ينبغي للزوج والزوجة الالتزام بها ، وقال الكبيسي لصحيفة (البيان) إن مواد المشروع أجازت تطبيقه بأثر رجعي ما لم يصدر حكم من محاكم الدولة يتعارض مع هذا التطبيق ، حيث يترك تقدير تطبيق الأثر الرجعي لحالات وظروف القضايا أو المسائل الفقهية التي تعرض على الجهات المختصة للفصل بها .
وقال الكبيسي : إنه بالنسبة لعقد زواج المسيار فقد ناقشت اللجنة شروط وضوابط إجازته وفق إطار شرعي مستمد من تعاليم شريعتنا الإسلامية السمحاء، وهذا العقد تتمتع فيه الزوجة بكافة حقوقها الزوجية من ميزات ، وتلتزم بالواجبات الزوجية إلا أنه من حقها أن تتنازل عن طيب خاطر عن بعض حقوقها في النفقة والسكن والمبيت . (المختار في زواج المسيار 217)

جاء في الفقرة الثالثة من المادة التاسعة عشر من قانون الأحوال الشخصية الأردني ما نصه : « إذا قيد العقد بشرط ينافي مقاصد عقد الزواج ، أو يلتزم فيه بــا هو محظور شرعاً كأن يشترط أحد الزوجين على الآخر ألا يُساكنه ، أو ألا يعاشره معاشرة الأزواج ، أو أن يشرب الخمر ، أو أن يقاطع أحد والديه كان الشرط باطلاً ، والعقد صحيحاً (مستجدات فقهية في قضايا الزواج والطلاق للأشقر ص ۲۰۲)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 4/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

05 Aug, 04:49


علامہ ابن باز کی اس سلسلے میں یہ رائے ہے کہ یہ نکاح شریعت مطہرہ کے خلاف ہے اور نکاح شرعی صرف وہی ہوتا ہے جو علی الاعلان ہو اور ارکان نکاح پر مشتمل ہو اور یہ نکاح عموما علی الاعلان نہیں ہوتا ہے اس لیے جائز نہیں ہے(٩)

ھیئۃ کبار العلماء السعودیہ کا موقف

ھیئۃ کبار العلماء السعودیہ کی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ نکاح مسیار فی نفسہ حلال ہے بشرطیکہ اس میں عدل اور عورت کے حقوق دیے جانے کی نیت پائی جاتی ہو، اگر یہ نیت نہ ہو تو یہ خواتین کے ساتھ دھوکہ ہوگا اور ان کے حقوق کو ضائع کرنا ہوگا جو شرعاً درست نہیں ہے(١٠)

ج: نکاح مسیار سے متعلق مسلم حکومتوں کے نظام و قوانین

مسلم حکومتوں کے نظام و قانون میں باضابطہ نکاح مسیار کے الفاظ یا اس کی تعبیر اختیار کر کے کوئی نظام و قانون نظر سے نہیں گزرا اور ناہی تلاش بسیار کے باوجود اس سلسلے میں کوئی قانون مل سکا، البتہ ملک شام مملکت اردن اور متحدہ عرب امارات کے قوانین میں اس طرح کی باتیں اور شرطیں مذکور ہیں جن سے اس کے حکم کی جانب اشارہ ملتا ہے، بنیادی طور پر ان میں یہ باتیں ہیں کہ اگر عقد زواج میں ایسی شرط پائی جاتی ہو جو نظام شریعت کے خلاف یا شادی کے مقاصد کے منافی ہو تو پھر وہ شرط باطل ہوگی اور فی نفسہ عقد صحیح ہوگا، اسی طرح مرد و خواتین کے ذمے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا ضروری ہوگا، چنانچہ اگر کوئی خاتون بطیب خاطر اپنے حقوق یعنی نان و نفقہ سے تنازل اختیار کر لے تو اس کا اختیار کرنا درست ہوگا، لیکن بعد میں اگر اس کا مطالبہ ہوتا ہے تو شوہر پر اس کی ادائیگی ضروری ہوگی، کویتی قانون کویتی قانون میں بھی اسی طرح کی باتیں ملتی ہیں(١١) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

*مصادر ومراجع و دلائل*

(١) دار الافتاء دار العلوم دیو بندفتوی نمبر ۲۳۸۵ ، تاریخ اجراء کی ۱۶ ستمبر ۲۰۰۷

(٢) جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی فتوی نمبر۲۴۲۵۰

(٣) دار الافتاء دارالعلوم کراچی ۱۳۲۷/۸/۲۰

(٤) بعض من عارضه كره الأمر، وأنا معه أكره الأمر، أرى أنه مباح مع الكره لا نقول إنه : وأحب ، نقول: إنه حلال، ولكنه لا يحبذ ولا يستحب ، ويخشى أن يكون من ورائه الأضرار وخلافه (مستجدات فقبیه ۱۷۵)

"فهذا الزواج إذن يتم بعقد، وشهود، ولكنه يعفى الزوج من أمور منها : إعفاءه من النفقة الزوجية، والسكن الشرعي، والقسمة العادلة ينها وبين غيرها من نسائه، فالزوجة تنازل عن هذه الأمور بإرادتها مقابل حل مشكلتها الشخصية، وأحياناً تتنازل عن حقها في المبيت دون النفقة، فهي بكامل حريتها و اختيارها تنازلت عن بعض حقوقها ( زواج المسيار مجلة الجتمع الكويتية شماره: ۱۹۷۷/۵/۲۶۰۱۳۰۱ ص: ۳۱)

(٥) ظهر لنا حصول بعض المفاسد التي تنافى مقصود النكاح، وأن الحامل له والله أعلم - هو مجرد المتعة التي تنتهي بالطلاق“ (ثمرات التدوين من مسائل این عثیمین ار ۱۰۹ مسئلہ نمبر ۳۵۲ ، مؤلف ڈاکٹر احمد بن عبد الرحمن قاضی ٤١ /۷)

(٦) زواج المسيار حلال، وكان الدكتور على جمعة مفتى الجمهورية مصر السابق أكد على أن زواج المسيار الذي يستوفي الأركان والشروط الشرعية مباح، ولا يحمل أن لون من امتهان كرامة المرأة أو الرجل، مؤكداً على أن مجمع البحوث الإسلامية التابع للأزهر أجاز زواج المسيار طالما فيه شهود وإشهار وولى، والمرأة وافقت على ذلك برضاها ۔

(٧) أرى تحريم نكاح المسيار سداً للذرائع، لأن كل ما أدى إلى الحرام فهو حرام، والسياسة الشرعية، وهذه النتائج متوقعة تقع عادة (مستجدات فقہیہ / ۱۸۰ ) ۔

"هذا الزواج صحيح غير مرغوب فيه شرعاً ... لأنه يفتقر إلى تحقيق مقاصد الشريعة الإسلامية في الزواج من السكن النفسي، والأشراف على الأهل والأولاد، ورعاية الأسرة بنحو أكمل، وتربية أحكم (مستجدات فقهیه فی قضا یا الزواج والطلاق ۲۲۱)

(٨)و" إن هذا الزواج جائز إذا توافرت فيه الأركان والشروط والإعلان الواضح، وذلك حتى لا يقعان في تهمة وما شابه ذلك، وما اتفقا
عليه فهم على شروطهم " ( زواج المسيار دراسته فقهیه و اجتماعیة / ۱۱۳ ) ۔

(٩) الواجب على كل مسلم أن يتزوج الزواج الشرعي وأن يحذر ما يخالف ذلك، سواء سمى "زواج المسيار “ أو غير ذلك، ومن شرط الزواج الشرعي الإعلان، فإذا كتمه الزوجان لم يصح، لأنه، والحال ما ذكر أشبه بالزنا ( فتاوی الشیخ بن باز ۳۳۱/۲۰-۳۳۲) ۔

نسمع عن الزواج السرى، والزواج العرفى، وزواج المتعة، وزواج المسيار، فما حكم الشرع في هذه الزواجات؟ هذه الأنواع كلها لا تجوز لكونها مخالفة للشرع المطهر، إنما النكاح الشرعي هو المعلن المشتمل على أركان النكاح، ولا المعتبرة شرعاً والله أعلم ( مجموع فتاوی و مقالات متنوعه ۳۲۸/۲۰)

(١٠) أفتى عضو هيئة كبار العلماء السعودية عبد الله المطلق بجواز نكاح المسيار الذي لا توجد إحصاءات دقيقة بشأنه في المملكة، وقال في تصريح إن هذا الزواج حلال، إذا كان بنية العدل وإعطاء المرأة حقوقها، أما إذا كان بنية خداع النساء وتضييع حقوقهن فلا يجوز ( ٹوئٹر ہینڈل ھيئة كبار العلماء )

مسائلِ زبیر الندوی

05 Aug, 04:49


⚖️سوال وا جواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1908🖋️

(کتاب النکاح نکاح مسیار کی شرعی حیثیت)

*نکاح مسیار سے متعلق علماءِ ہند و عرب کی آراء اور ملکی قوانین*

سوال 5: الف: نکاح مسیار کے متعلق آپ کے علم میں علماء ہند کی آراء ہوں تو ان کو تحریر کیا جائے۔

ب: نکاح مسیار سے متعلق ممتاز علماء عرب کی آراء پر بھی روشنی ڈالی جائے۔

ج: نکاح مسیار سے متعلق اگر مسلم حکومتوں کے کسی نظام وقانون کاعلم ہو سکے تو اس کوبھی سامنے لایا جائے۔ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

الف: علماء ہند کی آراء

دار العلوم دیوبند کا فتویٰ:

اگر شرعی طریقے پر کم از کم دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہوتا ہے اور مانع نکاح کوئی سبب نہ ہوتا ہو، نکاح کے وقت کسی مدت کی تحدید نہیں کی جاتی ، مثلاً ۲/ سال کے لئے نکاح کر رہے ہیں، بلکہ مطلق طور پر نکاح کیا تو ایسا نکاح درست و صحیح ہے، البتہ مہر سے دست بردار ہونے بات درست نہیں ہے ، دست بردار ہونے کے باوجود شوہر پر کم از کم دس درہم ہیں، جو دینا واجب ہو گا بحق شرع ، ہاں اگر نکاح ہو جانے کے بعد پھر مہر کو معاف کردے، اس سے دست بردار ہو جائے سعودی عرب اور مصر کے علماء کے فتوی منسلک کر کے سوال کرنا چاہئے تھا (١)

جامعہ بنوریہ عالمیہ کے دارالافتاء والقضاء کا فتوی:

( الجواب ) مذکورہ نکاح مسیار ا گر مدت کی تصریح کے ساتھ ہو تو یہ نکاح موقت یا اس کی ایک قسم ہونے کی وجہ سے شرعاً نا جائز اور حرام ہے، اس لئے اس سے احتراز لازم ہے، جبکہ ایسا قانون بنانا بھی درست نہیں، اور اگر بوقت عقد مدت کی صراحت نہ ہو لیکن فریقین یا دونوں میں سے کسی ایک کے دل میں یہ نیت ہو کہ ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد طلاق کے ذریعہ علاحدگی اختیار کرلی جائے گی تو اس صورت میں اگر چہ فقہاء کی تصریحات کے مطابق نکاح منعقد ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کی طرح رہنا حرام نہیں ہوتا؛ لیکن اس ارادہ کے ساتھ نکاح کرنا بھی بہت سے مقاصد و مصالح نکاح کے خلاف ہونے کی وجہ سے شرعاً مکروہ ہے، اس لئے حتی الوسع اس سے احتراز کرنا چاہئے (٢)


دارالعلوم کراچی کافتوی:

" ہمارے علم کے مطابق مسیار نکاح کی ایک قسم ہے، جس میں نکاح ہونے کے بعد بیوی اپنے حقوق ( جیسے نفقہ سکنی وغیرہ ) شوہر کو معاف کر دیتی ہے، وہ اپنے والدین کے ہاں یا کسی اور جگہ رہتی ہے اور شوہر کی رہائش کسی اور مقام پر ہوتی ہے، عام طور پر اس نکاح کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور جب کبھی میاں بیوی کو باہم ملنے کی خواہش ہوتی ہے تو وہ جمع ہو کر حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ بعض مالدار لوگ جنھیں ملکوں میں سفر در پیش ہوتے ہیں، وہ بعض ملکوں میں نکاح مسیار کر لیتے ہیں، جب تک وہاں رہنا ہوتا ہے، منکوحہ اپنے پاس رکھتے ہیں، پھر واپس اپنے وطن آتے ہیں اور عورت وہیں رہ جاتی ہے، اگر نکاح مسیار کی حقیقت وہی ہے جو او پر بیان ہوئی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں نکاح کے منعقد ہونے سے متعلق تمام شرعی شرائط موجود ہیں، مثلاً باقاعدہ ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کیا جائے، کم از کم دو گواہ بھی موجود ہوں، اور لڑکالڑکی کا کفو ہو، نیز مہر بھی مقرر کیا جائے تو اس سے گو نکاح منعقد ہو جائے گا؛ لیکن ایسا کرنا خلاف سنت اور مقاصد شرعیہ کے منافی ہے، اور نکاح کی شرعی ذمہ داریوں سے راہ فرار بھی ہے، خصوصاً اس طرح پوشیدہ نکاحوں سے کئی فتنوں کا دروازہ کھل سکتا ہے، اس لئے اس طرح نکاح کرنا نا پسندیدہ ہے، اس سے اجتناب کیا جائے' (٣) ۔

ب: ممتاز علماء عرب کی آراء

شیخ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا فتوی

شیخ علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی رحمۃ اللہ علیہ بھی نکاح مسیار کو کراہت کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں، اور اس کے پیچھے بہت سے اضرار و مفاسد کی وجہ سے بہتر نہیں سمجھتے ہیں(٤)

شیخ صالح بن عثیمین کی رائے

شیخ صالح بن عثیمین کی اس سلسلے میں یہ رائے ہے کہ نکاح مسیار چونکہ بہت سے ایسے مفاسد پر مبنی ہے جو مقصود نکاح کے خلاف ہے اور ایک طریقے سے یہ نکاح متعہ کے زمرے میں آتا ہے جس کی انتہا بالاخر طلاق پر ہوتی ہے؛ اس لیے وہ اس کو بہتر نہیں سمجھتے(٥)

ڈاکٹر علی جمعہ کا فتوی

نکاح مسیار کے سلسلے میں ڈاکٹر علی جمعہ کی رائے یہ ہے کہ نکاح مسیار فی نفسہ حلال ہے بشرطیکہ اس میں نکاح کے ارکان و شرائط کی رعایت کی جائے (٦)

شیخ وہبہ زحیلی کی رائے

ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی یہ رائے ہے کہ سدذریعہ کے طور پر نکاح مسیار کی حرمت ہونی چاہیے؛ کیونکہ ہر وہ چیز جو حرام تک لے جانے والی ہو وہ بھی حرام ہوتی ہے اور چونکہ اس کے نتائج درست نہیں ہوتے؛ اس لیے یہ بھی ممنوع ہوگا(٧)

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ مفتی اعظم سعودیہ عربیہ کی رائے

شیخ عبد العزیز کی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ نکاح مسیار میں اگر ارکان و شرائط پائی جائیں اور نکاح کا واضح اعلان کیا جائے تو یہ جائز اور درست ہے؛ کیونکہ اس میں کسی طرح کا شبہ یا تہمت پیدا نہیں ہوتی ہے(٨)

شیخ علامہ ابن باز کا فتوی

مسائلِ زبیر الندوی

01 Aug, 17:15


" واستشكل هذه المسئلة بما إذا شرط وقت العقد أن يطلقها بعد شهر، فإن النكاح صحيح، والشرط باطل، ولا فرق بينهما وب وبين ما فيه، وأجيب بأن الفرق بينهما ظاهر، لأن الطلاق قاطع النكاح، فاشتراط بعد شهر لينقطع به دليل على وجود العقد مؤبداً، ولهذا لو مضى الشهر لم يبطل النكاح، فكان النكاح صحيحاً .... والشرط باطلاً، وأما صورة النزاع فالشرط إنما هو في النكاح، لا في قاطعه (العنایة علی ہامش فتح القدیر ۲۵۰/۳)

"مالا یدرک کله لا یترک کله - " لا حرج في ذلك إذا استوفى العقد الشروط المعتبرة شرعاً، وهي : وجود الولى ورضا الزوجين، وحضور شاهدين عدلين على إجراء العقد، وسلامة الزوجين من الموانع لعموم قول النبي الله أحق ما أو فيتم من الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج" وقوله : "المسلمون على شروطهم فإذا اتفق الزوجان على أن المرأة تبقى عند أهلها أو على أن القسم يكون لها نهارا لا ليلاً، أو في أيام معينة، أو ليالي معينة، فلا بأس بذلك بشرط إعلان النكاح وعدم إخفائه ( فتاوی علماء البلد احرام ۳۵۰)

المجمع الفقهي الإسلامي برابطة العالم الإسلامي الدورة الثامنة عشرة المنعقدة بمكة المكرمة نظرا لمجمع في موضوع عقود "المجمع المستحدثة، وبعد الاستماع إلى البحوث المقدمة والمناقش اقشات المستفيضة قرر ما يأتي : يؤكد المجمع أن عقود الزواج النكاح المـ المستحدث حدثة، وإن اختلفت أسماؤها وأوصافها وصورها لابد أن ن تخضع لقواعد الشريعة المقررة وضوابطها من توافر الأركان لك العقود المبينة أحكامها فيما يأتي : وط و انتفاء الموانع .... وقد أحدث الناس في عصرنا الحاضر بعض تلک والشروع رام عقد زواج تتنازل فيه المرأة عن السكن والنفقة والقسماً سم أو بعض منها ، وترضى بأن يأتي الرجل إلى دارها في أي وقت شاء 1 - إبرام عقد من ليل أو أو نهار، ويتناو تناول ذلك أيضاً .. إبرام عقد زواج. ج على أن تظل الفتاة في بيت أهلها ، ثم يلتقيان متى رغبا في بيت أهلها ، أو في : ك لا يتوافر سكن لهما ولا . أي مكان آخر حيث : لهما ولا نفقة، هذان العقدان وأمثالهما صحيحان إذا توافرت فيهما أركان الزواج وشروطه ولكن ذلك خلاف الأولى ( المجمع الفقهي الإسلامي الخمیس ۱۵ ربیع الاول ۱۳۲۷ ۰ - ۳ ر پر یا ۱۳۲۷ ه - ۱۳ اپریل ۰۲۰۰۶)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 3/12/1443
رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

مسائلِ زبیر الندوی

01 Aug, 17:15


⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1907🖋️

(کتاب النکاح، نکاح مسیار کی شرعی حیثیت)

*نکاح مسیار کی شرعی حیثیت و انعقاد کا حکم*

سوال نمبر ۴۔ کیا شریعت کے جو مقاصد نکاح سے متعلق ہیں ، زواج مسیارے پورے ہوتے ہیں، اگر نہیں تو ایسی صورت میں نکاح مسیار کا کیا حکم ہے؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق

نکاح کے اہم ترین مقاصد میں سے عفت و عصمت کی حفاظت، عورت کی حفاظت ، زنا سے مرد و عورت دونوں کی حفاظت، نسب کی حفاظت ، پاکدامنی، زوجین کے درمیان محبت و مودت، زوجین کے لئے سکون وراحت کا حصول ، مضبوط خاندان کی تعمیر، نسل انسانی کی بقاء اور اولاد کا حصول نیز اس کی پرورش و پرداخت ، مردو خواتین دونوں کے تادم حیات عفت و شرافت کی صیانت اور دونوں کو بے راہ روی سے بچائے رکھنا اور زوجین کا باہمی ہمدردی ، تعاون اور الفت ومحبت کے ساتھ مل کر زندگی کے مقاصد کو حاصل کرنا ہے، یہ بنیادی طور پر نکاح کے مقاصد میں سے ہیں، اور نکاح مسیار میں بہ چیزیں کلی طور پر یا بہت حد تک مفقود ہوتی ہیں، نیز اس کا مقصد محض لذت اندوزی ہے ، وہ تصور جو اسلام کا نکاح شرعی سے ہے اس کا فقدان ہے۔

اس طرح کے نکاح سے معاشرتی طور پر بہت سے مفاسد کا چونکہ اندیشہ ہے، اس لئے نکاح مسیار اگرچہ اس میں ارکان و شرائط پائے جانے کی وجہ سے منعقد ہو جاتا ہے، لیکن ناپسندیدہ مکروہ ہے، بلکہ اس سے احتراز بھی لازم ہے اور سد للذریعہ ہر ممکن اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) ثم يتعلق بهذا العقد أنواع منا ن المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول وتحقيق مباهاة الرسول بهم، كما قال : "لناكحوا تناسلوا، فإنى مياه مياه بكم بكم الأمم الأمم يوم يوم القيامة القـ وسببه تعلق لق البقاء المقدور به إلى وقته، فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء، وهذا التناسل التناسل عادة الا لا يكون يكون إلا إلا بين بـ الذكور والإناث، ولا يحصل ذلك بينهما إلا بالوطأ، فجعل الشرع طريق ذلك الوطؤ النكاح، لأن في التغالب فسادا وفى الأقدام بغير ملك ملكـ اشتباه الأنساب، وهو سبب لضياع النسل لما بالإناث آدم من العجز عن التكسب والإنفاق على الأولاد، فتعين الملك طريقاً طر له، حتى يعرف من يكون منه الولد، فيوجب عليه الثلا يضيع، وهذا الملك على ما عليه أصل حال الآدمى من الحرية لا يثبت إلا بطريق النكاح، فهذا معنى قولنا إنه تعلق به البقاء من بنی آدم من نفقته لئلا المقدور به إلى و وربه إلى وقته " (الميسور المسرحسی ۴/ ۱۹۲ - ۱۹۳ کتاب النکاح ) ۔

و حكمة مشروعيته: إعفاف المرأ نفسه وزوجه عن الوقوع في الحرام، وحفظ النوع الإنساني من الزوال والانقراض راض بالانجاب والتوالد توالد، وبقاء النسل وحفظ النسب، وإقامة الأسرة التي بها يتم تنظيم المجتمع، وإيجاد التعاون بين أفرادها ، فمن ن المعروف أن الزواج تعاون بين عاون بين الزوجين لتحمل أعباء الحياة وعقد مؤدة وتعاضد بين الجماعات، وتقوية روابط الأسر، وبه يتم الاستعانة على المصالح (الفقه الاسلامی وادلته ۹ - ۲۵۱۵-۱۵۱۶)

" إنما إذا كانت التأقيت مضمر في نفس الزوج غير مصرح به، فقد اختلف الفقهاء فيه، فذهب الجمهور إلى صحة النكاح، ونص على ذلك الحنفية والمالكية على الراجح والشافعية غير أنهم قالوا بكراهته، وهو رأى عند الحنابلة، حكى بقيل، وقال الحنابلة أنه لا يصح، وهو الصحيح من المذهب عندهم، وهو قول بهرام من المالكية (الموسوية الفقھیۃ (۳۱۹/۳) ۔

سواء علمت المرأة أو وليها بهذه النسبة، أم لا ، وذلك لخلو هذا العقد من شرط يفسده ولا تفسد بالنية، لأنه قد ينوى ما لا يفعل، ويفعل ما لا ينوى، ولأن التوقيت إنما يكون باللفظ (الموسوية الفقهيہ ۳۳۳/۳۱) ۔

" وذهب الحنفية وهو قول عند كل من الشافعية والحنابلة إلى أن النكاح بشرط الطلاق صحيح، فلو تزوجها على أن يطلقها بعد شهر مثلاً جاز النكاح؛ لأن اشتراط القاطع يدل على انعقاد النكاح مؤيداً وبطل الشرط، كما لو شرط أن لا يزوج عليها، أو أن لا يسافر بها (حوالہ سابق ۱ ۲/ ۴۴۴) ۔

" أما لو تزوج وفي نيته أن يطلقها بعد مدة نواها صح (فتح القدير ٢٢٩/٣) -

صرح الحنفية والشافعية بأنه لو تزوج وفي نيته أن يطلقها بعد مدة نواها صح زواجه (الموسوعۃ الفقہیہ ۳۲/۲۰)

وليس منه (أي المتعة والنكاح المؤقت) ما لو نكحها على أن يطلقها بعد شهر أو نوى مكنه معها مدة معينة (ردالمحتار على الدر النار ۵۱/۳)

مسائلِ زبیر الندوی

31 Jul, 17:48


⚖️سوال و جواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1906🖋️

(کتاب النکاح، نکاح مسیار کی شرعی حیثیت)

*نکاح مسیار پر اولیاء کو حق اعتراض اور معاف شدہ حق کی واپسی کا حکم*

سوال نمبر ۳۔ نکاح مسیار کی بعض صورتوں میں خواتین اپنے حقوق سے دستبردار ہوجاتی ہیں بعض دفعہ اپنے نکاح کو خفیہ رکھتی ہیں، ان صورتوں میں ان کے اولیاء اپنے لیے ہتک محسوس کر سکتے ہیں اس پس منظر میں کیا نکاح مسیار میں ولی کو حق اعتراض ہوگا؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق

اگر انعقاد نکاح کے لئے شریعت میں مطلوب ارکان و شرائط نکاح مسیار میں پائے جا رہے ہیں، اور نکاح منعقد ہو چکا ہے، تو اگر شوہر ہمسر اور ہم مثل ہو تو محض نکاح کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے ولی کو اس نکاح پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ اس میں اولیاء کے لئے عار اور ہتک عزت محسوس کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ اس کو معاشرتی سوچ اور آداب و اخلاق کے خلاف کہا جا سکتا ہے، کیونکہ فقہ حنفی کی ظاہر الروایہ کے مطابق اولیاء کی رضامندی کے بغیر بھی عاقلہ بالغہ کے نکاح کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔

جہاں تک حقوق معاف کرنے کی بات ہے تو خواتین کا اپنے شوہر کے ذمہ واجب ہونے حقوق سے دست بردار ہونا یہ ذاتی معاملہ ہے، اس لئے یہ تو اولیاء کو حق اعتراض فراہم نہیں کرتا؛ ہاں غیر کفومیں اپنی مرضی سے اور اولیاء کی رضامندی کے بغیر یا مہرمثل سے کم مہر پر نکاح کر لینے پر اولیاء کو حق اعتراض ہوسکتا، بشرطیکہ اولیاء اس نکاح کو باعث خفت و شرمندگی محسوس کرتے ہوں(١)۔

چنانچہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اپنے ایک فیصلے میں یہ تجویز لکھی ہے:

عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے نکاح میں کفاءت یا مہر کے مطلوبہ معیار کا لحاظ نہ کرے تو اولیاء کو قاضی کے ذریعہ تفریق کا حق حاصل ہوگا“

اسی طرح شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں:

”وہ لڑکا قومی اور خاندانی اعتبار سے ولی کا کفو نہیں ہے، یعنی ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کرنے کو عرفاعار اور عیب سمجھتا ہو تو پھر ولی کو اعتراض ہونا چاہئے، اگر ایسا نہیں تو پھر اعتراض نہ ہوگا"

اسی طرح اگر کوئی عورت اپنی خوشی سے نکاح کرے اور نکاح کی بنا پر شوہر پر اس کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کو معاف کر دے تو چونکہ عورت اپنی ذات اور اپنے حقوق کے بارے میں خود مختار ہے، اس لئے اس کا معاف کرنا معتبر ہوگا؛ البتہ اگر بعد میں کسی وجہ سے بیوی اس شوہر سے اپنے ان حقوق کا مطالبہ کرنا چاہے تو اس کو اس کا حق ہوگا اور مطالبہ کے وقت شوہر ان حقوق کو ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

📚والدليل على ما قلنا📚

(١) ولو نقصت من مهر مثلها فللولى أن يفرق أو يتم مهرها ..... ولأبي حنيفة أن الأولياء يتفاخرون بغلاء المهر، ويتعيرون بنقصانه، فصار بمنزلة عدم الكفاءة، بل أولى، لأن ضرره أشد من ضرر عدم الكفاءة، لأنه عند تقادم العهد يعتبر مهر قبيلتها بمهرها، فيرجع الضرر على القبيلة كلها، فكان لهم دفعه ( تبين الحقائق ۵۲۲٫۲ لعثمان الزیلعی )

إذا ثبت اعتبار الكفاءة بما قدمنا، فيمكن ثبوت تفصيلها أيضاً بالنظر إلى عرف الناس فيما يحقرونه، ويعرفون به ( فتح القدير ٢٨٦/٣) ۔

للولى الاعتراض في غير كفؤ " (البدایه ا/ ۱۹۱، درر الحکام ا/ ۳۳۵) ۔

ولو نكحت بأقل من مهرها، فللولى العصبة الاعتراض حتى يتم مهر مثلها، (أو يفرق) القاضي بينهما دفعاً للعار “ (رد المحتار ٩٤/٣) -

" وما أضر بالعشيرة ثبت للولى الاعتراض فيه كعدم الكفاءة (التجريد للقد دوری ۴۴۰۰/۹ ، رقم المسئلة : ۲۱۴۰۲) ۔

" فإذا ثبت الاعتراض فلأن يثبت للشين و الضرر أولى (التجريد للقدوری ۴۳۳۱٫۹، رقم المسئلة: ۲۱۰۵۲ )

ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفؤ صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبى حنفية رحمه الله تعالى، وهو قول أبي يوسف رحمه الله آخراً، وقول محمد رحمه الله تعالى، آخرا أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض، وفى البزازية : ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولى، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق، ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي، أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما (الفتاوی الہند یه ا/ ۲۹۲، کتاب النکاح، الباب الخامس في الاكفاء فی النکاح )

(٢) نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے ۱۵۱ - ۱۵۲ ، دفعہ ۴، گیارہواں فقہی سمینار پٹنہ

(٣) فتاوی عثمانی ۲/ ۲۹۳ مفتی تقی عثمانی شیخ الاسلام

*کتبہ العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 2/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

30 Jul, 11:10


۵۔ مرد میں بیوی کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہ ہونا۔

٦- والدین اور اولیاء کی طرف سے لڑکیوں کے مہر زیادہ رکھنا۔
٧- شادی بیاہ میں اخراجات کا زیادہ آتا۔

٨-دوسری شادی کرنے والے شخص کو بیوی بچوں اور سماج کی طرف سے حقارت سے دیکھا جاتا، شہوت پرستی اور عورتوں کا رسیا ہونے کا الزام عائد کرنا۔

۹ - حالات یا افراد خاندان کی سرد مہری کی وجہ سے عورتوں کا، تجرد کی زندگی گزار نے پر مجبور ہونا۔

۱۰۔ عورت کا مطلقہ یا بیوہ ہو جاتا ، اور اس کی شادی کا بندوبست نہ ہونا۔

۱۱۔ والدین کا مفلس اور غریب یالا چار ہونے کی وجہ سے بچیوں کی شادی نہ کر پاتا۔

۱٢۔ بیوی کا کوئی عذر نہ ہونے کے باوجو در خصت ہو کر شوہر کے پاس نہ جانا۔

۱۳۔ بیوی کا جسمانی اعتبار سے معذور ہو جانا، اور گھر سنبھالنے کے لائق نہ رہنا۔

۱۴ - عورت کا صاحب حیثیت و ثروت ہونا۔

۱۵۔ عورت کا با مجھ پن یا کسی بیماری کی وجہ سے تولیدی صلاحیت سے محروم ہوتا۔

۱۶۔ نکاح مسیار کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ چونکہ اس میں عورت اپنے حقوق سے دست بردار ہوتی ہے، اس لئے مرد اس میں دلچسپی دکھاتے ہیں، اور فور اختیار ہو جاتے ہیں۔

۱۷۔ بعض عورتیں خود یہ چاہتی ہیں کہ وہ شوہر کے گھر نہ جائے اور شوہر اس کے یہاں آتا جاتا رہے، یا مستقل شوہر عورت کے گھر سکونت اختیار کرلے۔

۱۸۔ عورتوں کی مجبوری ، مردوں کی مجبوری اور معاشرتی مجبوری۔

۱۹۔ طلاق کی کثرت ، اور بیوگی کی وجہ سے تجرد ۔

۲۰ - لذت پسندی ، اور ذمہ داری سے فرار کارجحان۔

۲۱۔ عورتوں میں شادی شدہ زندگی کی الجھنوں سے آزادی کارجحان۔

۲۲۔ بچیوں کا اعلی تعلیم حاصل کرنے کا شوق یا کوئی ایسی ملازمت جس میں شادی ذمہ داریاں رکاوٹ بنتی ہوں اور مرد و عورت ازادانہ طور پر رہنا چاہتے ہوں،(١) ان کے علاوہ بھی متعدد اسباب اس کے ہو سکتے ہیں البتہ مذکورہ والا اسباب اس نکاح کے زیادہ محرک ہیں اور کئی علماء نے ان کو ذکر کیا ہے اس لیے انہیں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

📚والدليل على ما قلنا📚

(١) المسيار في اللغة على وزن مفعال، صيغة مبالغة إسم الفاعل من سار، يسير سيراً ومسيراً، والمسيار هو : الرجل الكثير السير،
فنقول : رجل مسيار وسيار “ ( زواج المسيار والزواج العرفي: دکتور فارس العزاوي على موقع الالوكة ) ۔

و فى نظرى ومن خلال كلام بعض الفقهاء يتجلى أن هذا النوع قديم بصورته معاصر بمسماه ، حيث تكلم بعض الفقهاء السابقين عما يسمى بنكاح النهاريات و الليليات ، وهو زوج المرأة على أن يأتيها متى شاء في النهار أو في الليل (المختار في زواج المسيار لدكتور عبد العزيز الحجيلان ۱۱۲)۔

وقد يكون زواج المسيار سراً ، فما حكمه إذا كان كذلك، أقول : اختلف العلماء في هذه المسئلة على قولين : القول الأول : ذهب جمهور العلماء من الحنفية والشافعية والحنابلة في قول لهم إلى جواز نكاح السر مع الكراهة القول الثاني : ذهب المالكية، وأحمد في رواية عنه إلى بطلانه ( عقود الزواج المستجد / ۲۳)

أن الأسباب التي أدت إلى ظهور هذا النوع من الزواج متعددة منها : أ- كثرة عدد العوانس والمطلقات، والأرامل، وصواحب الظروف الخاصة ب- رفض كثير من الزوجات لفكرة التعدد، فيضطر الزوج إلى هذه الطريقة، حتى لا تعلم زوجته الأولى بزواجه ج- رغبة بعض الرجال فى الإعفاف والحصول على المتعة الحلال مع ما يتوافق، وظروفهم الخاصة د. تهرب البعض من مسئوليات الزواج وتكاليفه، ويتضح ذلك في أن نسبة كبيرة ممن يبحث عن هذا الزواج هم من الشباب صغار السن ( كتاب الفقه الميسر ۵۰/۱۱ الشاملة )

" ما الذي دعا إلى ظهور زواج المسيار ؟ إن الذى أدى إلى ظهور زواج المسيار عدة من الأسباب، منها ما يأتي : ازدياد نسبة المطلقات والأرامل والنساء اللواتي تقدم بهن العمر بلازواج، رفض ظاهرة التعدد واستنكارها مما يدفع الرجال إلى هذا الزواج لسهولة إخفائه عن الزوجة الأولى، رغبة البعض في إعفاف أنفسهم من غير حرمة، وبما يتوافق مع ظروفهم، رغبة في التهرب من تكاليف الزواج ومسئولياته، وهناك نسبة كبيرة ممن يبحث عن هذا الزواج هم من الشباب صغار السن ( ما حوزواج المسيار للدكتورة سندس المومنی، موقع: سطور ڈاٹ کوم)

وأما الأسباب التي تتعلق بالرجال فمنها : أولاً : حاجة الرجل الفطرية إلى أكثر من زوجة، فهناك كثير من الرجال لا تكفيهم امرأة واحدة، ولديهم شفق شديد، ورغبة جامحة، فيلجؤون إلى زواج المسيار، ثانياً : رغبة بعض الرجال بزيادة الاستمتاع، فقد تكون
الزوجة الأولى كبيرة في السن، أو مشغولة بأولادها وبيتها، ولا يجد الرجال عندها رغبته فيتزوج مسياراً، ثالثاً : عدم رغبة بعض الرجال في تحمل مزيد من الأعباء والتكاليف، رابعاً : خوف بعض الرجال من إعلان زواجه الثاني، لعلمه ما ستسببه زوجته الأولى لو

مسائلِ زبیر الندوی

30 Jul, 11:10


⚖️سوال و جواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1905🖋️

(کتاب النکاح، نکاح مسیار کی شرعی حیثیت)

*قدیم فقہاء کے ہاں نکاح مسیار کا ذکر اور صورتیں*

سوال: آج کل عالم عرب میں وہاں کے سماجی حالات کے تحت نکاح کی ایک خاص صورت رائج ہو گئی ہے جس کو نکاح مسیار کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی عدالت عظمی میں بھی ایک مقدمہ نکاح مسیار کے خلاف دائر کیا گیا ہے جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتا ہے، اس میں مدعی نے نکاح مسیار کو سنی مسلمانوں کی طرف اور متعہ کو شیعہ مسلمانوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

نکاح مسیار کی صورت عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ مرد کسی عورت سے شریعت میں معتبر تمام ارکان و شرائط کی رعایت کے ساتھ عقد نکاح کرتا ہے لیکن اس نکاح میں عورت اپنی مرضی سے اپنے بعض حقوق نفقہ سکنی شب گزاری وغیرہ سے دست بردار ہو جاتی ہے اس نکاح کے وجود میں آنے کے مختلف اسباب ہیں مثلا:

الف: عالم عرب میں خصوصا اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی غیر شادی شدہ کنواری اور متعلقہ خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اس کی ایک وجہ تو طلاق کی کثرت ہے اور دوسری وجہ عورت کے ولی کی طرف سے مہر کی کثیر رقم کا مطالبہ ہے اس صورتحال میں خواتین اس بات پر راضی ہو جاتی ہیں کہ کوئی مرد ان سے پہلی بیوی رکھتے ہوئے نکاح کر لے اور شوہر کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔

ب: بعض اوقات نکاح کی خواہش من خواتین مختلف اسباب کے تحت اپنے والدین کے گھروں میں رہنا پسند کرتی ہیں مثلا اس لیے کہ وہ تنہا والدین کی دیکھ بھال کرتی ہیں اگر وہ شوہر کے حسب منشا دوسری جگہ رہیں تو والدین کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

ج: کبھی اس لیے کہ انہیں پہلے شوہر سے بچے ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو لے کر اس دوسرے شوہر کے یہاں منتقل نہیں ہو سکتی اس لیے وہ شوہر سے صرف زن و شوق کا خصوصی تعلق چاہتی ہیں۔

د: بعض شادی شدہ مرد اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے یہ نکاح کرتے ہیں کیونکہ ایک بیوی سے ان کی ضرورت پوری نہیں ہوتی بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی عورت تجرد کی زندگی گزار رہی ہے اور خود اس کے حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس کو پاکیزہ زندگی عطا کرنے کے لیے اس سے نکاح کر لیا جائے اور اس پر کوئی مالی ذمہ داری بھی عائد نہ ہو۔

ہ: بعض اوقات شوہر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی دوسری شادی کو اپنی پہلی بیوی کے سامنے ظاہر نہ کرے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ وہ اس سے ان کے درمیان تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

ط: مرد کثرت سے کسی خاص ملک کا سفر کرتا ہے اور وہاں طویل مدت رہتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہاں بیوی کے ساتھ رہنے میں اس کے لیے زیادہ حفاظت ہے۔

اس پس منظر میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

ا۔کیا قدیم فقہاء کے یہاں نکاح مسیار کا کوئی ذکر ملتا ہے؟

٢۔ نکاح مسیار کی کیا صورتیں اختیار کی جاتی ہیں اور کن اسباب کے تحت اس کی نوبت آتی ہے معاصر اہل علم کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے وضاحت فرمائیں؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

قدیم فقہاء کے یہاں اس نام سے صراحتاً کسی بھی نکاح کا تذکر نہیں ملتا، یہ ایک جدید اصطلاح ہے، جو عصر حاضر میں سامنے آئی ہے، البتہ اس سے ملتے جلتے نکاح کا ذکر ضرور فقہاء کے یہاں موجود ہے، جیسے زواج النہاريات ، زواج اللیلیات، اسی طرح شوہر سے نفقہ سکنی اور کسوہ وغیرہ ساقط کئے جانے کی شرط پر نکاح ، بیوی کے رخصت ہو کر شوہر کے گھر نہ جانے کی شرط پر نکاح ، اس طرح کے نکاحوں کی تفصیلات فقہ وفتاوی کی کتابوں میں موجود ہیں۔

فقہ کی بعض قدیم کتابوں میں نکاح کی درج ذیل صورتیں بھی ملتی ہیں:

ا۔ نکاح الرایات: فاحشہ عورتیں اپنے دروازے پر جھنڈے لگایا کرتی تھیں، تا کہ لوگ اس کے گھر آئیں اور اپنی جنسی ضرورت پوری کریں۔

۲ ۔ نکاح الاستبضاع : ( نعوذ باللہ من ذلک ) اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ شوہر خود اپنی بیویوں کو معاشرے کے رؤساء اور سرداروں کے گھر بھیج دیتے تھے، تاکہ اس سے جو بچہ پیدا ہو اس کے اندروہی سرداری کی اور رئیسا نہ صفت پیدا ہو۔

٣-نكاح الرھط : زمانہ جاہلیت میں دس دس لوگ ایک ہی عورت سے ایک ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے تھے ، اور جو بچہ پیدا ہوتا تھا ان میں سے کسی ایک کی طرف عورت اس کو منسوب کرتی تھی، اور وہ بچہ اس کا کہلاتا تھا۔

٤- نکاح التحلیل : حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا۔

۵۔ نکاح الشغار : جسے ہمارے ملک بھارت میں گولٹ شادی کہا جاتا ہے۔

٦- نكاح المتعہ : ایک متعین مدت کے لئے نکاح ، جسے نکاح موقت بھی کہا جا سکتا ہے۔

٧۔ نکاح الخدن: خفیہ طور پر تعلق قائم کرنے کے لئے نکاح ہے (Live in relationship) کہا جاتا ہے۔

نکاح مسیار کے اسباب:

ا لڑکیوں کی عمر کا زیادہ ہو جانا۔

۲۔ تعدد ازدواج میں خواتین، ماحول، معاشرہ، یا دوسرے ذرائع کا مانع بننا۔

٣۔ والدین کی خدمت یا پہلے شوہر سے بچے کی پرورش کے مقصد سے بیوی کا شوہر کے گھر جانے سے انکار کرنا۔

٤-لمبے عرصہ تک مرد کا گھر سے دور رہنا۔

مسائلِ زبیر الندوی

30 Jul, 11:10


علمت بهذا الزواج من ويلات و مصائب، وخراب للبيوت وأما الأسباب التي تتعلق بالمجتمع، فمنها : أولاً : غلاء المهور وارتفاع تكاليف الزواج ثانياً : نظرة المجتمع بشئى من الاستغراب والازدراء للرجل الذى يرغب بالتعدد ( زواج المسيار والزواج العرفي: دكتور فارس العزاوي على موقع الألوكة)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 1/12/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

مسائلِ زبیر الندوی

26 Jul, 10:17


⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1904🖋️

(کتاب القضاء، دارالقضاء کی آن لائن بعض کاروائیاں)

*آن لائن بھی اگر کاروائیاں ممکن نہ ہوں تو قیام عدل اور دفع نزاع کا کیا طریقہ ہوگا*

سوال نمبر ۱۰۔ مذکورہ بالا تمام سوالات ان حالات سے متعلق ہیں جب کرونا جیسی وبا کی وجہ سے دار القضاء کی کاروائی معمول کے مطابق نہیں چل سکتی ، اگر اس طرح کے حالات میں بھی دار القضاء کی کارروائیاں آن لائن انجام نہیں پا سکتیں تو سوال یہ ہے کہ قاضی قیام عدل، رفع ظلم اور دفع نزاع کا فریضہ کس طرح انجام دے گا؟ کیا وہ ان حالات میں معطل رہے گا یا اپنی بعض ذمہ داریاں کسی شکل میں ادا کرے گا؟ اس سلسلہ میں اگر کوئی لائحہ عمل اور خاکہ شرعی حدود میں آپ کے ذہن میں ہو تو اس کو تحریر فرمائیں؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق

ان حالات میں جب دارالقضاء کی کارروائی عند القاضی ممکن نہ ہو تو ایک صورت جو زیادہ احوط ہے وہ یہ کہ عدالت سے متعلق تمام کاموں کے لیے قاضی اس جگہ پر جہاں کا مقدمہ ہے اپنا نائب بنا دے، بشرطیکہ امیر شریعت یا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے اسے نائب بنانے کا حق تفویض کیا گیا ہو، پھر وہ مقام مخاصمت پر کاروائی مکمل کر کے قاضی کو ارسال کردے اور قاضی اسی بنیاد پر فیصلہ کرے، یہ صورت "کتاب القاضی الی القاضی" کے قریب ہے اور اس میں دھو کہ کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب دارالقضا کے دروازے کسی بھی مصلحت کی وجہ سے بند ہو جائیں اور وہاں مدعی، مدعی علیہ اور شاہدوں کی حاضری ممکن نہ ہو اور دوسرے مسلک پر عمل کے لئے ذہن تیار نہ ہو تو فریقین اپنے معاملات کو ثالث کے حوالہ کر دیں، یہ ثالث فرد بھی ہو سکتا ہے اور جماعت بھی، فریقین زبانی یا تحریری طور پر اس فرد یا جماعت کے سامنے اپنے معاملات پیش کریں اور اس کے فیصلے پر راضی ہونے کا اقرار کریں، جس شخص یا جماعت کو حکم بنایا گیا ہے وہ اس ذمہ داری کو قبول کر کے کسی نتیجہ پر پہونچے اور فیصلہ سنادے، پریشانی اور حرج سے بچنے کی یہ بھی ایک شکل ہے جو کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے(١)۔

*📚والدليل على ما قلنا📚*

"التحكيم ( جعل أحد حكما برضا الفريقين به لأن يحكم بينهما) جائز بالكتاب والسنة وإجماع الأمة - ولأنه إذا لم يجز ضاق الأمر على الناس (معین احکام: ۲۷)

" ولا بأس بأن يقضى في منزله وحيث أحب لأن عمل القضاء لا يختص بمكان ولأنه في كونه طاعة لا يكون فوق الصلوة (مبسوط السرخسی ۸۲/۱۲)

" ولا بأس أن يجلس في بيته ويأذن للناس ولا يمنع أحدا من الدخول عليه ( معين الحكام / ۲۰ ، دیکھئے: اسلامی عدالت / ۲۹۰)

" وإذا نهى الإمام القاضي عن الاستخلاف لم يكن له أن يستخلف وإن أذن له فيه استخلف على منا الإذن " (معين الحكام ٢٦ )

" لا يجوز للقاضي الاستخلاف إلا بإذن الإمام ( مبسوط السرخسی ١١٠/١٦)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 30/11/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

1,273

subscribers

21

photos

5

videos