انوار الفقھاء الحنفیہ

@anwarulfuqaha


تحقیقی مسائل اور فقہ حنفی کامجموعہ انوار الفقھاء
جسمیں آپ حضرات کو الحمد للہ فقھاء کی عبارات سےمزین مسائل روزآنہ بطور استفادہ حاصل ھونگے
اللہ تعالی ھماری اس سعی ومحنت کو قبول فرماکرذخیرہ آخرت بنائیں
لنک شیر کرکے صدقہ جاریہ میں شامل ھوں
جزاکم اللہ خیرا

انوار الفقھاء الحنفیہ

18 Sep, 17:10


عنوان: حرم شریف میں قضاء نماز پڑھنے کی فضیلت
(356-No)
سوال: مفتی صاحب! سنا ہے کہ حرم شریف میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے، اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا حرمین شریفین میں قضاء نماز پڑھنے پر بھی یہ فضیلت ہے؟

جواب: حرم شریف میں جو نماز کی فضیلت ہے، وہ صرف ادا نماز یا نوافل کے ساتھ خاص ہے، ادا نماز خواہ جماعت کے ساتھ ہو یا بغیر جماعت کے، البتہ جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں جماعت کا ثواب الگ سے ہوگا، جبکہ منفرد پڑھنے کی صورت میں جماعت کے ثواب سے محرومی ہوگی، قضا نماز میں حرم شریف کی مذکورہ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

انوار الفقھاء الحنفیہ

31 Aug, 00:34


سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر اعضا رکھنے کی ترتیب
سوال
نماز میں جب رکوع سے سجدہ کرتے ہیں تو پہلے کیا چیز زمین پر رکھیں پیر یا ہاتھ؟ مہربانی فرما کر حدیث بھی بیان فرما دیجیے گا!

جواب
نماز میں سجدہ میں جانے اور سجدہ سے کھڑے ہونے کی کیفیت یہ ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے سب سے پہلے وہ عضو رکھے جو زمین سے زیادہ قریب ہے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے وہ عضو سب سے پہلے اٹھائے جو آسمان سے زیادہ قریب ہے، لہذا سجدہ میں جاتے ہوئے سب سے پہلے پاؤں کے گھٹنے رکھے پھر ہاتھ اور پھر چہرہ، اور چہرہ میں بھی پہلے ناک اور پھر پیشانی، اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے اس کے بالکل برعکس پہلے چہرہ اٹھائے پھر ہاتھ اور پھر گھٹنے، اور جمہور علماءِ کرام کا یہی مذہب ہے کہ سجدہ کرنے والا پہلے زمین پر گھٹنے رکھے گا اور پھر اس کے بعد ہاتھ رکھے گا، اور جب سجدہ سے اٹھے گا تو پہلے ہاتھ اٹھائے گا اور پھر گھٹنے۔

حدیث مبارک میں ہے؛ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : "میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب وہ سجدہ کرتے تھے تو اپنے ہاتھوں سے پہلے پاؤں کے گھٹنے رکھتے تھے ، اور جب سجدہ سے اٹھتے تھے تو پاؤں کے گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"۔

"عن وائل بن حجر، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد يضع ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه»". (سنن الترمذي 2/ 56)

ذکر علماؤنا في كيفية السجود والقيام منه: أن يضع أولاً ما كان أقرب إلى الأرض عند السجود ، وأن يرفع أولاً ما كان أقرب إلى السماء ؛ فيضع أولاً ركبتيه ثم يديه ثم وجهه، ويضع أنفه ثم جبهته، والنهوض بعكسه. وذهب أكثر أهل العلم إلى أن يضع الساجد ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه ... قال أبو حنيفة والشافعي وأحمد بوضع اليدين بعد الركبتين في السجود ، وهو مذهب الثوري ، وإسحاق ، وعامة الفقهاء، وسائر أهل الكوفة وهي رواية عن مالك ، وبه قال عمر الفاروق وابن مسعود، ومن التابعين : مسلم بن يسار وأبو قلابة، وابن سيرين. وقال مالك بعكس ذلك ، وهو مذهب الأوزاعي ورواية عن أحمد.

واستدل الجمهور بحديث وائل بن حجر أنه قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد يضع ركبتيه قبل يديه ، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه». وقد أخرج هذا الحديث الترمذي وأبو داؤد وابن ماجه والنسائي وأحمد والدارمي وابن خزيمة وابن حبان وصححه، وابن السكن والدار قطني والحاكم وصححه على شرط مسلم، وسكت عليه الذهبي. وقال الترمذي : «هذا حديث حسن غريب، لا نعرف أحداً رواه غير شريك.» والشريك هو ابن عبد الله النخعي أبو عبد الله الكوفي القاضي روى له مسلم في صحيحه في المتابعات، كما ذكره الذهبي في الميزان، (1۔446) والحافظ في التهذيب (4۔337) وأخرج له الأربعة، وصرحوا بأن تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة أي بعد قضائه بواسط، وسماع المتقدمين منه صحيح ليس فيه تخليط.

ورجح هذه الرواية الخطابي ، والبغوي ، والطيبي ، وابن سيد الناس اليعمري بأنه أصح وأثبت ، ووجهه ابن حجر كما في "المرقاة" : قال ابن حجر: ووجه كونه أثبت أن جماعة من الحفاظ صححوه، ولا يقدح فيه أن في سنده شريكاً القاضي، وليس بالقوي؛ لأن مسلماً روى له، فهو على شرطه على أن له طريقين آخرين فيجبرهما". (مستفاد از معارف السنن (3/29) فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143909200998

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

انوار الفقھاء الحنفیہ

21 Aug, 11:08


اس اسکیم سے بھی مسلم طلبہ کو دور رہنا چاہیے؛ اس لیے کہ سود میں یہ بھی داخل ہے اور اگر کوئی طالب علم یہ قرض لے لے تو اس طرح جائز ہوگا کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد بلاتاخیر اس کو ادا کردے؛ تاکہ سود دینے کی نوبت نہ آئے، سود کی حرمت قرآن پاک میں واضح ہے۔

تعلیم کے فروغ کے لیے بینک کی تعاون اسکیم

اَکسِزْ بینک(Axis Bank) نے تعلیم کے فروغ کا ہرا باغ دکھاکر ایک تعاون اسکیم جاری کیا ہے کہ بچے کے والد یا سرپرستان پانچ سال تک سالانہ ایک ایک لاکھ روپے جمع کریں، پانچ لاکھ جمع کرکے بے فکر ہوجائیں، اس سے غیرمتعین نفع ملتا رہے گا، یعنی نفع کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی؛ لیکن نقصان نہیں ہوگا۔

یہ اسکیم بھی بینک نے اپنے فائدے میں جاری کیا ہے، پانچ لاکھ روپے سے وہ منافع حاصل کرتا رہے گا، اس میں سے تھوڑا اس غریب کو بھی دے گا، اس کی بجائے اگر یہ آدمی اپنی رقم کسی اور تجارت میں لگائے تو بھی اس کو اچھے خاصے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، بینک کی یہ شکل قرض سے نفع حاصل کرنے کی شکل ہے، مضاربت نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس میں نقصان کا ذکر نہیں ہے۔ قرض سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں، کل قرض جر منفعةً فہو ربا․ (اعلاء السنن ۱۴/۴۹۸)

مویشی پالن اسکیم

مویشی خریدنے کے لیے سرکار مدد کی غرض سے کسی کو ایک خطیر رقم مثلاً دس لاکھ روپے دیتی ہے، اس میں سے صرف آدھی رقم یعنی پانچ لاکھ روپے سود کے ساتھ واپس لیتی ہے، اگر کوئی جانور مرجاتا ہے تو بتانے پراس کی خرید میں صرف ہوئی رقم دوبارہ دیتی ہے۔ یہ اسکیم بہت اچھی اور جائز حد کے اندر ہے، یہ معاملہ قرض معاف کرنے کے قبیل سے ہے، مبسوطِ سرخسی میں ہے:

اذا أقرض الرجلُ الرجلَ الدراہم ثم صالحہ منہا علی أقل من وزنہا فہو جائز․ (مبسوط سرخسی ۱۴/۳۸)

پانچ لاکھ کی واپسی میں اگر سود دینے کی نوبت آئے اور وہ کل قرض (دس لاکھ) سے آگے نہ بڑھے تو معاملہ حرام نہ ہوگا۔ جیساکہ بے روزگار نوجوانوں کے تعاون والی صورت میں بتایا جاچکا۔

”ڈرا بیک“ پالیسی

ملکی مصنوعات کو دوسرے ممالک بھیجنے کو ایکسپورٹ (برآمد) کہا جاتا ہے، سرکار ہر مصنوع کے ایکسپورٹ پر الگ الگ فی صد کے حساب سے ”ڈرابیک“ (واپسی اِضافی رقم) دیتی ہے، جیسے ایک تاجر نے پیاز ایکسپورٹ کیا تو سرکار اس تاجر کو پیاز کی قیمت کا تین فی صد اپنی طرف سے حوصلہ افزائی کے لیے دیتی ہے۔ اس پالیسی سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، یہ حکومت کا انعام ہے، ملکی معیشت کے فروغ کے لیے حکومت یہ اقدام کرتی ہے۔

”ڈبیٹ کارڈ“ استعمال کرنے پر منافع اسکیم

بعض بینک اپنے صارفین کو ڈبیٹ کارڈ استعمال کرکے خریداری کرنے پر پانچ فی صد نقد واپس کرتی ہے، یہی کارڈ اگر پلین کے اندر یا ایئرپورٹ پر استعمال کیا جائے تو بیس فی صد نقد واپس کرتی ہے، مثلاً سو روپے کا سامان خریدا تو اسی روپے ہی صرف ہوتے ہیں۔ بیس روپے واپس آجاتے ہیں۔

اس کے لینے اوراستعمال کرنے میں بھی حرج نہیں؛ اس لیے کہ بینک کو اس کمپنی کی طرف سے جس کا سامان خریداگیا ہے نفع حاصل ہوتا ہے، اسی نفع میں سے صارفین کو کچھ فی صد ملتا ہے، اسے حوصلہ افزائی کی تدبیر اورانعام کہا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ بات الگ ہے کہ اگر مجبوری نہ ہوتو اس کارڈ کو خریدکے لیے استعمال نہ کیا جائے؛ اس لیے کہ یہ سودی نظام کے فروغ واستحکام کا حصہ ہے۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8، جلد:106‏، محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق اگست-ستمبر 2022ء

انوار الفقھاء الحنفیہ

21 Aug, 11:08


چند نفع بخش اسکیموں کے شرعی احکام

از: ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

انسانی ہمدردی کے پیش نظر سرکار مختلف اسکیمیں جاری کرتی ہے، ان کا مقصد پس ماندہ طبقات کو ا وپر اٹھانا ہوتا ہے، ان کے ذریعے تعلیم، صحت، علاج، مکان، تجارت اورزراعت وغیرہ میں عام آدمی کو فائدہ ہوتاہے۔ بینک اور غیرسرکاری کمپنیاں بھی اس میدان میں سرگرم نظر آتی ہیں، اُن میں بعض صورتیں جائز اور اختیار کرنے کے لائق ہوتی ہیں؛ جب کہ بعض صورتوں سے احتراز کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ذیل میں چند صورتیں اور ان کے شرعی احکام لکھے جاتے ہیں:

بچیوں کی پیدائش پر حکومت کی تعاون اسکیم

ہمارے ملک کے اکثر حصوں میں لڑکی کی شادی میں بڑے خرچے ہوتے ہیں، بعض علاقے میں دینے کا شوق اور بعض میں کھل کر یا دبی زبان سے مانگنے کا رواج ہے، اس طرح بچی کی شادی کو گراں باری کا سبب سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہزاروں بچیاں بلا نکاح بڑھاپے کو پہنچ جاتی ہیں اور بہت سی بچیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردیا جاتا ہے؛ جب کہ بہت سی بچیاں خودکُشی کا اقدام کربیٹھتی ہیں اور بعض مرتد ہوکر غیرمسلم سے نکاح کرلیتی ہیں۔
(الف)- غرض یہ کہ انھیں صورت حال کے پیش نظر حکومت نے تعاون کی ایک اسکیم بنائی ہے کہ بچیوں کی ولادت کے بعد متعلقہ محکمہ سے فارم کی خانہ پوری کی جاتی ہے، پھر حکومت اس بچی کے نام پر بینک میں دس ہزار روپے جمع کرتی ہے اور پندرہ سال بعد کھاتے میں ایک لاکھ روپے جمع کردیے جاتے ہیں، شروع میں یا درمیان میں بچی یا اس کے والدین کی طرف سے کچھ جمع نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی اس مدت میں کوئی اس کھاتے سے رقم نکال سکتا ہے، یہ اسکیم بہت اچھی ہے مسلمانوں کو بھی اس سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں؛ اس لیے کہ ابتدائی دس ہزار پر بچی کی ملکیت تام نہیں ہوتی؛ اس لیے اس پر اضافے کو سود نہیں کہا جاسکتا۔ سود کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی۔ یہ عطیہ اور ہبہ ہے، پوری رقم سرکاری تعاون ہے، اس سے استفادہ جائز ہے، اس کی نظیر پراویڈنٹ فنڈ ہے کہ اس پر ملنے والا اضافہ تنخواہ کا حصہ بن کر تعاون اور ہبہ کے زمرے میں آتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاویٰ محمودیہ ۱۶/۳۹۴ ڈابھیل، رحیمیہ ۵/۱۵۱، احسن الفتاویٰ ۷/۳۵)

الربا ہو فضلٌ خالٍ عن عوضٍ مشروط لأحد المتاقدین في المعاوضة فلیس الفضلُ في الہبة بربا․ (ردالمحتار ۷/۳۹۸ زکریا)

(ب) تعاون کی ایک شکل یہ ہے کہ بچی کی ولادت کے بعد اس کے نام پر بینک میں کھاتا کھول کر ہرماہ متعین رقم جمع کی جاتی ہے، پھر جب لڑکی اٹھارہ سال کی ہوتی ہے تو جمع شدہ رقم کی تین گنی مقدار حکومت کی طرف سے اس کے کھاتے میں جمع کردی جاتی ہے، مثلاً دولاکھ ہوتو چھ لاکھ حکومت جمع کراتی ہے۔ یہ تعاون کی شکل ہے؛ مگر ناجائز ہے؛ اس لیے کہ اس پر سود کی تعریف صادق آتی ہے، نقد پر اضافہ مل رہا ہے۔

بے روزگار نوجوانوں کے لیے تعاون اسکیم

آج بہت سے نوجوان پڑھ لکھ کر بے کار بیٹھے ہیں، ان کوکوئی نوکری نہیں ملتی، ایسے افراد کے لیے حکومت کی طرف سے تعاون کی ایک شکل یہ اپنائی جاتی ہے کہ حکومت طلب گار کو حسبِ شرائط ایک لاکھ روپے دیتی ہے، جس میں اسی ہزار روپے تعاون کے طور پر دیے جاتے ہیں، اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں ہوتا؛ البتہ بیس ہزار روپے بہ طور قرض ہوتے ہیں، اس کی واپسی میں جتنی تاخیر ہوگی اُتنی ہی سود بڑھے گی۔

مسلمانوں کو اولاً تو سود میں کسی طرح سے پڑنا نہیں چاہیے؛ اس لیے کہ ایسے معاملات میں برکت نہیں ہوتی، سودی ادارے ہراباغ دکھاکر کہیں نہ کہیں ضرور اپنا فائدہ آگے رکھتے ہیں۔ پھر بھی اگرکوئی نوجوان اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کراہت کے ساتھ اٹھاسکتا ہے، وہ کوشش کرے کہ سود دینے کی نوبت نہ آئے، اگر نوبت آجائے تو بیس ہزار پر آنے والا سود اسی ہزار سے آگے نہ بڑھے، جب تک اسّی کے اندر اندر رہے گا اس پر شرعی سود کی تعریف صادق نہیں آئے گی اگرچہ حکومت اسے سود کہے؛ اس لیے کہ بیس ہزار ایک لاکھ کا حصہ ہی تھا دونوں کا معاملہ ایک ہے۔

اگر کوئی نوجوان اس سے استفادہ کرتا ہے تو اس کو اس وقت تک جائز کہا جائے گا جب تک کہ بیس پر سود کا اضافہ اسّی ہزار کے اندر اندر رہے۔ حضرت الاستاذ مفتی محمدنظام الدین اعظمیصدر مفتی دارالعلوم دیوبند نے ”منتخبات نظام الفتاویٰ“ (۳/۱۸۳) میں اسی انداز کی بات لکھی ہے اور مفتی احمد خان پوری مدظلہ العالی نے بھی محمود الفتاویٰ (۲/۳۳) میں اس کی تائید فرمائی ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے قرض اسکیم

تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت بینک سے طالب علم کو قرض دلاتی ہے، دورانِ طالب علمی اس پر عائد ہونے والا سود حکومت خود ادا کرتی ہے، طالب علم کو ادا نہیں کرنا پڑتا؛ البتہ تعلیم کی تکمیل کے بعد اگر طالب علم قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے تو اس کو اصل قرض پر سود دینا پڑتا ہے۔

انوار الفقھاء الحنفیہ

21 Aug, 11:07


(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية،ج:1، ص:210، ط:المطبعة الخيرية)

6- حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہو، (احتیاطی) ریزرو کے طور پر نفع کا کچھ حصہ محفوظ نہ کیا جاتا ہو، پس جو کمپنی کل منافع کو تمام شیئر ہولڈرز میں تقسیم نہ کرتی ہے، بلکہ منافع میں سے کچھ فیصد مثلاً 20 فیصد مستقبل کے ممکنہ نقصان کے خطرہ کے پیشِ نظر اپنے پاس محفوظ کرلیتی ہو، اور منافع کا بقیہ 80 فیصد شیئر ہولڈرز میں تقسیم کرتی ہو، اس کمپنی کے شیئرز خریدنا جائز نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌أما ‌شركة ‌العقود ‌فأنواع ‌ثلاثة: شركة بالمال، وشركة بالأعمال وكل ذلك على وجهين: مفاوضة وعنان، كذا في الذخيرة. وركنها الإيجاب والقبول ... وشرط جواز هذه الشركات كون المعقود عليه عقد الشركة قابلا للوكالة، كذا في المحيط وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع. وحكم شركة العقد صيرورة المعقود عليه وما يستفاد به مشتركا بينهما، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة، ج:2، ص:301/302، ط:دار الفكر)

7- خریدے گئے شیئر کی وصولی اور اس کی قیمت کی ادائیگی دونوں ادھار نہ ہوں، یعنی مثال کے طور پر خریدار زبانی شیئر آج کی قیمت پر خریدے، اور قیمت کی ادائیگی اور شیئر کی وصول ایک ہفتہ بعد طے کرے، تو صورت بھی جائز نہیں۔

جواہر الفتاوی میں ہے:

"یہ خرید و فروخت دونوں طرف سے ادھار ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

نهي رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم عَن بيع الكالئ بالكالئ.

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کی بیع ادھار سے منع فرمایا ہے۔

اس واسطے مذکورہ طریقے پر شیئرز کی خرید و فروخت نا جائز ہے۔"

(ج: 3 ، ص:70، ط: اسلامی کتب خانہ)

- شیئرز کی خرید و فروخت میں جوے کی صورت نہ ہو، بعض مرتبہ شیئر کے خریدار کا مقصد ڈیفرینس برابر کرنا ہوتا ہے، یعنی اس کا مقصد کمپنی کا حصہ دار بن کر سالانہ منافع حاصل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد کم قیمت پر خرید کر قیمت بڑھتے ہی فروخت کرنا ہوتا ہے، اس غرض سے شیئرز کی خرید و فروخت کرنے والے شیئرز پر شرعی قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کر دیتے ہیں، جس میں اصل رقم کے بڑھنے اور ڈوبنے دونوں کا خطرہ ہوتا ہے، جسے شریعت کی اصطلاح میں جوا کہا جاتا ہے۔

أحكام القران للجصاص میں ہے:

"‌وحقيقته ‌تمليك ‌المال ‌على ‌المخاطرة. وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار."

(سورۃ المائدة، ‌‌مطلب: في تأويل ما ورد عنه عليه السلام من أنه۔۔۔الخ، باب تحريم الخمر، ج:4، ص:127، ط:دار احياء التراث العربي)

وفیہ ایضاً:

"‌ولا ‌خلاف ‌بين ‌أهل ‌العلم ‌في ‌تحريم ‌القمار وأن المخاطرة من القمار; قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه. وقد خاطر أبو بكر الصديق المشركين حين نزلت {الم غلبت الروم} [الروم: 1 -2] وقال له النبي صلى الله عليه وسلم: "زد في الخطر وأبعد في الأجل" ثم حظر ذلك ونسخ بتحريم القمار. ولا خلاف في حظره."

(سورۃ البقرة: 219، باب تحريم الميسر، ج:2، ص:11، ط:دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144502101808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

انوار الفقھاء الحنفیہ

21 Aug, 11:07


سوال
کیا اسلامی میوچل فنڈز میں پیسے انویسٹ کرنا حلال ہے،یہ ہم سے پیسے لیتے ہیں اور ایسی کمپنیوں میں انویسٹ کرتے ہے، جو شریعت کے مطابق ہوں؟

جواب
واضح رہے کہ مروجہ اسلامی میوچل فنڈز کے طریقہ کار کا خلاصہ یہ ہے کہ :
انویسٹر بطور مؤکل کے اپنی رقم فنڈز والوں کو پیش کرتا ہے۔ فنڈز والے انویسٹر کی رقم اور اس کی ضروریات کے مطابق مختلف شعبوں میں سے کسی ایک شعبہ کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

فنڈز والے اس کی رقم کو بطور وکیل کے کل پانچ مدات میں لگاتے ہیں:
(1):-اسٹاک ایکسچینج
(2):-اسلامی بینکوں کے منافع بخش اکاؤنٹس
(3):-گورنمنٹ کے صکوک
(4):-پرائیویٹ کمپنیوں کے صکوک
(5):-سونا اور چاندی کی مارکیٹ
اس خدمت کے عوض یہ ادارے فیس وصول کرتے ہیں۔

(بحوالہ فتوی نمبر: ۸۱۴۷، جاری شدہ از دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، مورخہـ:۱۳-۰۴-۱۴۳۸ھ،۲۰۱۷-۰۱-۱۲ء )

ان اداروں میں سرمایہ کاری کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ اسلامی بینکو ں کے منافع بخش اکاؤنٹس، اور صکوک میں سرمایہ کاری کرنادرست نہیں، اس لیے کہ اس میں ایسے طریقوں اور حیلوں کو استعمال کیا جاتا ہے جن کو اسلامی کہنا یا سود سے پاک کہنا درست نہیں۔
البتہ پہلی مد جس میں کہ یہ ادارہ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرکے شیئرز کی خرید و فروخت کرتا ہے، اس میں کاروبار کرنے کے لیے شیئرز کے کاروبار کے سلسلے میں جو شرائط بیان کی جاتی ہیں ان کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔

جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے،وہ دلائل کے ساتھ ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:

1- جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود آچکا ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو؛ یعنی اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی نے اپنے کچھ جامد اثاثے بنا رکھے ہوں، جیسے کمپنی کے لیے بلڈنگ بنالی ہو، یا زمین یا مشینری خرید لی ہو یا اس کے پاس تیار یا خام مال موجود ہو۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌وأما ‌شرائط ‌المعقود ‌عليه فأن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه وأن يكون مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم ... وخرج بقولنا وأن يكون ملكا للبائع ما ليس كذلك فلم ينعقد بيع ما ليس بمملوك له، وإن ملكه بعده."

(كتاب البيع، شرائط النفاذ، ج:5، ص:279/280، ط:دار الکتب الإسلامی )

2- کمپنی کا سرمایہ جائز و حلال ہو، اور اس کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کا سرمایہ شامل نہ ہو، یعنی وہ شیئرز نہ تو کسی بینک کے ہوں، اور نہ کسی انشورنس کمپنی کے ہوں، اور نہ ہی اس کمپنی میں بینک، یا انشورنس یا جوا یا شراب یا کسی اور حرام چیز کا کاروبار کرنے والے اداروں کا سرمایہ شامل ہو۔

3- اس کمپنی نے بینک سے سودی قرضہ نہ لیا ہوا ، وجہ اس کی یہ ہے کہ کمپنی کے ذمہ داران تجارت و سرمایہ کاری کرنے میں شیئر ہولڈرز کے شرعًا وکیل ہوتے ہیں، جس طرح سے خود سود پر قرضہ لینا جائز نہیں اسی طرح کسی کو اس کام کے لیے وکیل بنانا بھی جائز نہیں۔

الفقه الإسلامي و ادلته میں ہے:

"وأما الموكل فيه (محل الوكالة): فيشترط فيه ما يأتي: ....

أن يكون التصرف مباحاً شرعاً: فلا يجوز التوكيل في فعل محرم شرعاً، كالغصب أو الاعتداء على الغير."

(کتاب الوكالة، شروط الوكالة، الموكل فيه، ج:4، ص:2999، ط:دار الفكر)

4- کمپنی کا کاروبار جائز و حلال ہو، یعنی وہ کمپنی حرام اشیاء کے کاروبار نہ کرتی ہو، اور اس کا کاروبار نہ صرف حلال اشیاء پر مشتمل ہو، بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق و شرائط فاسدہ وغیرہ سے پاک ہو، جوئے، سٹے، شراب، سودی کاروبار میں ملوث نہ ہو، اس لیے کہ جس طرح حرام کاروبار خود کرنا ناجائز ہے، اسی طرح حرام کاروبار میں کسی اور کی معاونت کرنا، یا کسی کو اپنے وکیل بنانا بھی ناجائز ہے۔

فقه المعاملات میں ہے:

"يشترط في الموكل به - لصحة الوكالة - ثلاثة شروط:

(أحدها) أن يكون إتيانه سائغًا شرعًا.

وعلى ذلك فلايصح التوكيل بالعقود المحرمة والفاسدة والتصرفات المحظورة شرعًا؛ لأنّ الموكل لايملكه، فلايصحّ أن يفوضه إلى غيره، و لأن التوكيل نوع من التعاون، و التعاون إنما يجوز على البر والتقوى لا على الإثم والعدوان."

(کتاب الوكالة، المؤكل به، ج:1، ص:1067)

5- شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔ (مثلاً: شیئرز خریدنے کے بعد وہ مکمل طور پر خریدار کی ملکیت میں آجائیں، اس کے بعد انہیں آگے فروخت کیا جائے، خریدار کی ملکیت مکمل ہونے اور قبضے سے پہلے شیئرز آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح فرضی خریدوفروخت نہ کی جائے)،اور آج کل سی ڈی سی میں نام پر آنے کے بعد قبضہ شمار کیا جائے گا۔

الجوهرة النيرة میں ہے:

ومن ‌اشترى ‌شيئا ‌مما ‌ينقل ‌ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) مناسبة هذه المسألة بالمرابحة والتولية أن المرابحة إنما تصح بعد القبض ولا تصح قبله."

انوار الفقھاء الحنفیہ

14 May, 05:35


کنڈوم (Condom) استعمال کرنا کیسا ہے؟


واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے ایک اہم مقصد توالد وتناسل ہے، اور اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور کنڈوم کے استعمال کا مقصد مرد کے مادہ منویہ کو رحم میں پہنچنے سے بچانا ہوتا ہے، جو کہ عزل ( یعنی صحبت کے دوران منی کا اخراج بیوی کی شرم گاہ سے باہر کرنا) کی ہی ایک جدید صورت ہے، اور بلا عذر عزل کرنا ناپسندیدہ ہے، البتہ اگر عذر ہو تو بیوی کی اجازت سے عزل کرنا بلاکراہت جائز ہوگا، اور بعض حالات میں بیوی کی اجازت کے بغیر بھی اس کی گنجائش ہے۔

-----------------

جماع کے وقت کنڈوم استعمال کرنے کا حکم

بیوی کی صحت کے پیش نظر یا اولاد کی مناسب تربیت جیسے کسی عذر کے پیش نظر ایسا کرنے میں حرج نہیں صححھ۔ کوئی خاص وجہ نہ ہو، تو بیوی کی اجازت کی صورت میں جائز اور اجازت کے بغیر مکروہ ہوگا۔
حوالہ جات
قال الإمام الکاسانی رحمہ اللہ: ويكره للزوج أن يعزل عن امرأته الحرة بغير رضاها؛ لأن الوطء عن إنزال سبب لحصول الولد، ولها في الولد حق، وبالعزل يفوت الولد، فكأنه سببا لفوات حقها، وإن كان العزل برضاها لا يكره؛ لأنها رضيت بفوات حقها بدائع الصنائع :2/ 334)

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة، يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. (رد المحتار:3/ 176)

واللہ سبحانہ و تعالی أعلم
مجيب
اسلام الدین صاحب
مفتیان
مفتی فیصل احمد صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
-----------------


بلا وجہ کنڈوم کا استعمال اچھا نہیں ، اور اگر
کوئی ضرورت داعی ہو، مثلاً پہلا بچہ ابھی دودھ پی رہا ہو یا عورت صحت کے اعتبار کمزور ہو تو ایسی صورت میں کنڈوم استعمال کرسکتے ہیں، اس صورت میں کنڈوم کے استعمال میں شرعاً کچھ حرج نہیں۔


واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

-------------------

کنڈوم کااستعمال
سوال
اگر ایک عورت کا اپریشن کے ذریعہ بچہ پیدا ہو جائے،اور اس کے بعد میاں بیوی کی خواہش ہوکہ ابھی فی الحال دوسرا حمل نہ ہو،تو کیا مباشرت کے دوران بیوی کی اجازت سے شوہر کے لیے عزل کرنا یا کنڈوم استعمال کرناجائز ہے یا نہیں ؟

جواب
فقہائے کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ عزل کرنا خواہ کنڈوم کے ذریعہ ہو یا کوئی اور مانع حمل تدبیر اختیار کرنے کی صورت میں ہو،اگر بیوی کی اجازت سے ہو یا کسی شرعی عذر کی بنا پر ہوتو جائز ہے، مثلاً:عورت کمزور ہو نے کی وجہ سے حمل کی متحمل نہ ہو ،یا پہلا بچہ ابھی دودھ پی رہا ہواور حمل کی وجہ سے اس کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

صورت مسئولہ کے مطابق اگر بیوی کاآپریشن ہو چکا ہو اور دوبارہ حمل کی متحمل نہ ہو تو عزل کرنے اور کنڈوم استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔

فتویٰ نمبر : 4907/297/328

دارالا فتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

انوار الفقھاء الحنفیہ

19 Mar, 07:30


عادت سے زیادہ خون آنے کی صورت میں نماز کا حکم
سوال
ایک عورت کی حیض کی عادت پانچ دن ہے، لیکن اب اس کا خون پانچ دن کے بعد بھی جاری رہا تو کیا اب وہ غسل کر کے نماز پڑھے یا نہیں ؟ کیونکہ معلوم نہیں کہ یہ حیض ہوگا یا استحاضہ۔

جواب
جس عورت کی عادت پہلے سے مقرر ہو اگر کہیں ا سے عادت کے ایام سے زائد خون آئے تو وہ عورت فی الحال نمازنہیں پڑھے گی ، بلکہ انتظار کرے گی اگر خون دس دن سے زیادہ جاری رہا تو ایام عادت سے زائد ایام استحاضہ کے شمار ہوں گے اور ان دنوں کی نماز وں کی قضا لازم ہوگی اور اگر دس دن یا اس سے پہلے خون رک گیا تو یہ تمام ایام حیض کے شمار ہوں گے۔

لہذا صورتِ مسئولہ کے مطابق جس عورت کی عادت پانچ دن ہو اور پانچ دن کے بعد بھی اس کا خون جاری رہے تو جب تک اس کا خون دس دن سےتجاوز نہ کرے تو وہ نماز نہیں پڑھے گی۔



تتمة اختلفوا في المعتادة هل تترك الصلاة والصوم بمجرد رؤيتها الزيادة على العادة قيل لا لاحتمال الزيادة على العشرة وقيل نعم استصحابا للأصل وصححه في النهاية والفتح وغيرهما وكذا الحكم في النفاس۔(ردالمحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص499)

وأما إذا زاد على عادتها المعروفة دون العشرة فقد اختلف فيه المشايخ فذهب أئمة بلخ إلى أنها تؤمر بالاغتسال والصلاة ؛ لأن حال الزيادة متردد بين الحيض والاستحاضة ؛ لأنه إن انقطع الدم قبل العشرة كان حيضا ، وإن جاوز العشرة كان استحاضة فلا تترك الصلاة مع التردد. وقال مشايخ بخارى : لا تؤمر بالاغتسال والصلاة ؛ لأنا عرفناها حائضا بيقين ، ودليل بقاء الحيض هو رؤية الدم قائم ولا يكون استحاضة حتى تستمر فيجاوز۔(العناية، كتاب الطهارة، باب الحيض والاستحاضة، ج:1، ص:150)

فتویٰ نمبر : 8923/297/321

دارالا فتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

انوار الفقھاء الحنفیہ

25 Jan, 02:15


بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں – دیوبند آن لائن
https://deobandonline.com/ur/archives/3918

انوار الفقھاء الحنفیہ

25 Oct, 12:02


مسلمان نائی کا کسی غیر مسلم کی داڑھی کاٹنے کا حکم؟
سوال
کیا کوئی مسلم نائی کسی غیر مسلم کی داڑھی کاٹ سکتا ہے، اس کا حکم کیا ہے؟

جواب
واضح رہے کہ جمہور علماءِ امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔ نیز اجارہ کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے کہ جس کام پر عقدِ اجارہ ہورہا ہے وہ شرعًا جائز ہو، حرام، مکروہ نہ ہو ؛لہذا داڑھیکاٹنا چوں کہ ایک ناجائز فعل ہے؛ اس لیے کسی مسلماننائی کے لیے کسی غیر مسلم کی داڑھیکا ٹنا بھی حرام ہے۔ اجرت کے عوض ناجائز کام کرنے کے بارے میں فقہاءِ كرام نے مسلم اور غیر مسلم کا فرق نہیں کیا ہے۔

”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة.“

(العرف الشذي، کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، (4/ 162)، دار الکتب العلمیة)

”کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالك، والشافعي، وأحمد وغیرهم -رحمهم الله تعالیٰ-“.

(المنهل العذب المورود، کتاب الطهارة، أقوال العلماء في حلق اللحیة واتفاقهم علی حرمته: (1/ 186)، موٴسسة التاریخ العربي، بیروت، لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثه الرجال فلم يبحه أحد اهـ ملخصًا."

(حاشية رد المحتار، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده مطلب في الأخذ من اللحية(2/ 418)،ط. سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك."

(المحيط البرهاني: كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز (7/ 482)،ط. دار الكتب العلمية، بيروت ، الطبعة: الأولى، 1424 هـ - 2004 م )

فقط، واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144205201138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

انوار الفقھاء الحنفیہ

05 Sep, 14:41


*مقتدی کے تکبیر تحریمہ کہنے کے وقت امام سلام پھیر دے تو اقتداء درست ہوگی یا نہیں؟*


سوال:۔ (۳۲۴)
اگر مسبوق مقتدی کے تکبیر تحریمہ کے وقت قعدۂ اخیرہ میںشریک ہونے سے پہلے امام سلام پھیر دے تو اس صورت میں شرکت فی الجماعت کا حکم لگا یا جائے گا یا نہیں؟بصورت شق ثانی پھر مقتدی کیا کرے اسی نیت پر بنا کرے یا استیناف کرے ،پھر سے نیت باندھے؟بینوا توجروا

الجواب:۔حامداً و مصلیاً و مسلماً : *صورت مسئولہ سے پہلے دو قانون کا جاننا ضروری ہے :*

امام کے السلام کہہ دینے سے ہی اقتدا کا وقت ختم ہوجاتا ہے.

قال في التجنیس: الإمام إذا فرغ من صلا تہ فلما قال:’’ السلام‘‘ جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول ’’علیکم‘‘ لا یصیر داخلاً في صلاتہ؛لأن ہذا سلام۔(شامي:۱؍۳۱۴)


*اقتدا کے فاسد ہونے کے بعد شروع فی الصلاۃصحیح نہیں اور جب شروع فی الصلاۃ صحیح نہیں تو ازسرِ نو تحریمہ ضروری ہے ۔*

متیٰ فسد الاقتداء لا یصح شروعہ في صلاۃ نفسہ علی المذہب؛ لأنہ قصد المشارکۃ وہي غیر صلاۃ الانفراد ۔(سکب الٔانہر:۱؍۹۳)

*لہذا اگر مقتدی مسبوق نے امام کے سلام اول کےلفظ’السلام‘‘ کہنے سے پہلے تکبیر تحریمہ کہہ لیا تو شروع فی الصلاۃ صحیح ہے اور اقتداء صحیح ہے اور اگر السلام کے بعد علیکم سے پہلے اقتداء کی تویہ اقتداء صحیح نہیں ، لہذا از سرِ نو تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرے۔*

واللّٰہ أعلم بالصواب
کتبہٗ:حبیب القاسمیؔ غفرلہ
الجواب صحیح: محمدحنیف غفرلہٗ

انوار الفقھاء الحنفیہ

30 Jul, 00:51


(امرأة) أي شابة أو عجوزة (إلا ومعها محرم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال ابن الملك فيه دليل على عدم لزوم الحج عليها إذ لم يكن معها محرم، وبهذا قال أبو حنيفة وأحمد، وقال مالك - رحمه الله تعالى يلزمها إذا كان معها جماعة النساء، وقال الشافعي - رحمه الله - يلزمها إذا كان معها امرأة ثقة اهـ. وقال الشمني مذهب مالك إذا وجدت المرأة صحبة مأمونة لزمها الحج لأنه سفر مفروض كالهجرة، ومذهب الشافعي إذا وجدت نسوة ثقات فعليها أن تحج معهن۔
محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

18/ رجب المرجب 1441ھ

انوار الفقھاء الحنفیہ

30 Jul, 00:51


حوالہ جات
الكافي في فقه أهل المدينة (2/ 1134) أبو عمر يوسف بن عبد الله النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) مكتبة الرياض الحديثة، الرياض، المملكة العربية السعودية:
ولا تسافر المراة الا مع زوج أو مع ذي محرم منها إلا سفرها إلى الحج خاصة فإنها إذا لم يكن لها ذو محرم من الرجال خرجت مع جماعة النساء۔
التفريع في فقه الإمام مالك بن أنس (2/ 416) عبيد الله بن الحسين بن الحسن أبو القاسم ابن الجَلَّاب المالكي (المتوفى: 378هـ) دار الكتب العلمية، بيروت:
فصل في خلوة الرجل بغير ذات المحرم وسفر المرأة ولا يخلو الرجل بامرأة ليست منه بمحرم ولا تسافر المرأة إلاّ مع ذوي محارمها إلاّ سفر الحج وحده فإنها تسافر في جماعة النساء إذا لم يكن لها ذو محرم من الرجال.
مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (2/ 522) شمس الدين أبو عبد الله محمد بن محمد بن عبد الرحمن الطرابلسي المغربي، المعروف بالحطاب الرُّعيني المالكي (المتوفى: 954هـ):
أن المرأة إذا أسلمت في بلد الحرب لزمها الخروج منها إلى بلد الإسلام وإن لم يكن معها ذو محرم خلافا لأهل العراق في قولهم: إن فرض الحج يسقط عنها بعدم المحرم.
وقول مالك أصح؛ لأنه يخصص من عموم الحديث الهجرة من بلد الحرب بالإجماع وحج الفريضة بالقياس على الإجماع انتهى، وقال التلمساني في شرح جامع الجلاب وأما سفر الحج فإنها تسافر مع جماعة النساء إذا لم يكن لها محرم قال الأبهري: لأنها لو أسلمت في دار الحرب لوجب عليها أن تخرج من غير ذي محرم إلى دار الإسلام وكذا إذا أسرت وأمكنها أن تهرب منهم يلزمها أن تخرج من غير ذي محرم فكذلك يلزمها أن تؤدي كل فرض عليها إذا لم يكن لها ذو محرم من حج أو غيره انتهى.
ونقله القرافي في شرحه أيضا وذكر ابن عرفة في الزنا على القول بتغريب المرأة إن لم يكن لها ولي تخرج في جماعة رجال ونساء كحج الفرض وإلى هذا أشار المصنف بقوله: كرفقة أمنت بفرض أي فإن لم يكن لها محرم ولا زوج فيجب عليها الخروج للحج الفرض في رفقة مأمونة، لكن ظاهر كلام المصنف يقتضي أن المطلوب في حقها وجود زوج أو محرم أو رفقة مأمونة فمن وجد من الثلاثة خرجت معه۔
المختصر الفقهي لابن عرفة (2/ 127) محمد بن محمد ابن عرفة الورغمي التونسي المالكي، أبو عبد الله (المتوفى: 803 هـ) الناشر: مؤسسة خلف أحمد الخبتور للأعمال الخيرية
[باب شروط الحج على المرأة]
والمعروف شرطه على المرأة بصحبة زوج أو محرم: الموطأ: جماعة النساء كالمحرم. اللخمي: قول ابن عبد الحكم: لا تخرج مع رطل دونه أحسن من قول مالك: تخرج مع رجال أو نساء لا بأس بهم. وروى ابن رشد: جماعة الناس كالمحرم. وفيها: من ليس لها ولي تخرج مع من تثق به من الرجال والنساء. الباجي: لا يعتبر في كبير القوافل وعامر الطرق المأمونة. الشيخ: روى ابن حبيب لها أن تخرج للفرض بلا إذن الزوج, وإن لم تجد محرمًا ولا بد في التطوع من إذنه والمحرم. وسمع القرينان لا تخرج مع ختنها دون جماعة الناس.
الحاوي الكبير للعلامة الماوردی(4/ 363) دار الكتب العلمية، بيروت:
فأما إن كان الحج تطوعا، لم يجز أن تخرج إلا مع ذي محرم، وكذلك في السفر المباح، كسفر الزيارة والتجارة، لا يجوز أن تخرج في شيء منها إلا مع ذي محرم، ومن أصحابنا من قال: يجوز أن تخرج مع نساء ثقات، كسفر الحج الواجب، وهو خلاف نص الشافعي، وقال مالك: يجوز أن تخرج من الفرض مع نساء ثقات، لكن لا يجوز أن تخرج مع امرأة واحدة، وقال أبو حنيفة: لا يجوز أن تخرج في الفرض والتطوع إلا مع ذي محرم۔
المجموع شرح المهذب (7/ 86) دار الفكر، بيروت:
(وإن كانت امرأة لم يلزمها إلا أن تأمن على نفسها بزوج أو محرم أو نساء ثقات قال في الإملاء أو امرأة واحدة وروى الكرابيسي عنه إذا كان الطريق آمنا جاز من غير نساء وهو الصحيح لما روى عدي بن حاتم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال (حتى لتوشك الظعينة أن تخرج منها بغير جوار حتى تطوف بالكعبة قال عدي فلقد رأيت الظعينة تخرج من الحيرة حتى تطوف بالكعبة بغير جوار) ولأنها تصير مستطيعة بما ذكرناه ولا تصير مستعطيعة بغيره)
صحيح البخاري (رقم الحدیث: 3006) دار طوق النجاة:
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن أبي معبد، عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلون رجل بامرأة، ولا تسافرن امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبت في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجة، قال: «اذهب فحج مع امرأتك»
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1743) دار الفكر، بيروت:
(وعنه) أي عن ابن عباس (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يخلون) أكد النهي مبالغة (رجل بامرأة) أي أجنبية (ولا تسافرن) أي مسيرة ثلاثة أيام بلياليها عندنا

انوار الفقھاء الحنفیہ

30 Jul, 00:51


سوال
ایک عمر رسیدہ خاتون پر حج فرض ہے، اس کا خاوند فوت ہو چکا ہے، اس کا کوئی اور محرم بھی ساتھ جانے کو تیار نہیں ہے، وہ اپنی بہن، بہنوئی، بھانجی اور ایک اورخاتون کے ساتھ حج پرجانا چاہتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ایسی عورت کے لیے ان خواتین کے ساتھ حج پرجانا جائز ہے؟ جبکہ اس خاتون کی عمر تریسٹھ سال ہے اور اس کے ساتھ جانے والی دو خواتین کی عمر بھی پچاس سے اوپر ہے، البتہ بھانجی کی عمر اٹھارہ سال ہے۔

o
حنفیہ کے اصل مذہب کے مطابق عورت کا بغیر خاوند اور محرم کے سواستتر (77.24)کلومیٹر یا اس سے زیادہ مسافت کا تنہا سفر کرنا جائز نہیں، خواہ حج و عمرہ کا سفر ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور سفر۔ بہر صورت یہی حکم ہے، کیونکہ شریعت میں عورت کو تنہا سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا حنفیہ کے مذہب پر ایسی عورت کو حج کے لیے تنہا سفر کرنا جائز نہیں، بلکہ اس کو محرم میسر ہونے کا انتظار کرنا ضروری ہے اور زندگی بھرمحرم نہ ملنے کی صورت میں حج کی وصیت کرنا واجب ہے۔

البتہ حضراتِ مالکیہ رحمہم اللہ کے نزدیک عورت درج ذیل شرائط کے ساتھ سفرِ حج کر سکتی ہے:

محرم کے علاوہ دیگر شرائط کے اعتبار سے عورت پر حج فرض ہو چکا ہو۔
اس کا خاوند یا کوئی محرم شخص اس کے ساتھ حج پر جانے کے لیے میسر نہ ہو۔
جماعة النساء یعنی باعتماد عورتوں کی جماعت سفر میں ساتھ موجود ہو، تاکہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
واضح رہے کہ مالکیہ کی اکثر کتبِ فقہ میں عورت کے بغیر محرم حج کے لیےجانے کی صورت میں خواتین کی جماعت کے ساتھ سفرکرنے کی قید لگائی گئی ہے اور ان کے نزدیک ایسی صورت میں خواتین کی جماعت کو محرم کے قائم مقام شمار کیا گیا ہے۔

نیز بعض اکابر رحمہم اللہ کے فتاوی میں بھی بوڑھی عورت کو بغیر محرم کے سفر حج کی گنجائش دی گئی ہے، چنانچہ حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب نوّر اللہ مرقدہ عمررسیدہ خاتون کے سفرِحج سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

"بعض مشائخ سے جواز کی روایتِ فقہیہ بعض معتبرات میں موجود ہے، قال الشامی من الحظر والاباحة، فصل البیع وفیہ اشارة الی أن الحرة لاتسافر ثلاثة أيام بلامحرم واختلف فيما دون الثلاثة، قيل إنها تسافر مع الصالحين والصبي والمعتوه غير محرمين كما في المحيط قهستاني۔ اور فصل حداد ميں يہ عبارت بھی قابلِ لحاظ ہے، قال في الدرالمختار ولابد من سترة بينهما في البائن لئلا يختلي بالاجنبية ويمكن أن يقال في الاجنبية كذلك وإن لم تكن معتدته إلا أن يوجد نقل بخلاف۔ بحر۔ اور بعض وقائع صدرِ اول کے مثلا: مہاجرات حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی زید بن حارثہ اور جلّ من الانصار کے ساتھ مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ تک اور اس کے بھی امثال قابلِ لحاظ ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وقائع میں ایک ضربِ اجتہاد سے کام لینا پڑتا ہے۔ قال فی الفتح من الخلع والحق أن علی المفتی أن ینظر فی خصوص الوقائع۔"

(فتاوی دارالعلوم دیوبند:ج:6ص:328)

اسی طرح فتاوی دارالعلوم زکریا میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ سے ایسی عورت کے لیے سفرِ حج کا جواز نقل کیا گیا ہے:

"حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ75سالہ بوڑھی عورت بااعتماد خواتین کے ساتھ حج کے لیے جا سکتی ہے یا نہیں؟ تو حضرت رحمہ اللہ نے اس کی اجازت دی اور دلیل میں یہ عبارت نقل فرمائی:

فی الدر المختارأما العجوز التي لا تشتهي فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها ويخلو إذا أمن عليه وعليها، وإلا لا.ج:5ص:362۔ (فتاوی دارالعلوم زکریا:ج:3ص:356)


نیز حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ نے ایک سوال کے جواب میں عمر رسیدہ خاتونکوتنہا سفر کرنے کی اجازت دی ہے:

"فی الدر المختارأما العجوز التي لا تشتهي فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها ويخلو إذا أمن عليه وعليها، وإلا لا.ج:5ص:362، میں نے شاید درمختار کے اسی جزئیہ پر کہا ہو گا، گو اچھی طرح یاد نہیں، بہر حال گنجائش ضرورہے۔"

(امداد الفتاوی :ج:4ص:201، مکتبہ دارالعلوم کراچی)

البتہ چونکہ سفرِحج میں صرف سفر نہیں، بلکہ حرمین شریفین میں کئی دن تک باقاعدہ قیام بھی ہوتا ہے،اس لیے صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت پر مالی استطاعت کی رُو سے حج فرض ہو چکا ہے اور واقعتاً کوئی محرم ساتھ جانے کو تیار نہیں، یا تیار تو ہے مگر اس شخصکے پاس سفری اخراجات کے لیے رقم نہ ہو اور عورت بھی اس کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہرکھتی ہو تو ایسی صورت میں فرض حج کی ادائیگی کے لیے عمررسیدہ خاتون چند صالح اور باعتمادخواتین (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) کے ساتھ مالکیہ کے مذہب کے مطابق سفرِ حج کر سکتی ہے، بشرطیکہ پورے سفر کے دوران کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔

انوار الفقھاء الحنفیہ

25 Jun, 18:44


جواب نمبر: 612051
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa: 893-377/TD-Mulhaqa=11/1443

صورت مسئولہ میں حکم یہی ہے کہ قربانی کے جانور میں اگر کئی افراد شریک ہوں تو گوشت کی تقسیم وزن کرکے کرنا ضروری ہے، اندازے سے تقسیم جائز نہیں ہے، خواہ تمام شرکاء اندازے سے تقسیم کرنے پر راضی ہوں ؛ البتہ اگر باہمی رضامندی سے تقسیم میں دیگر اعضاء، مثلا:کلہ(سری) پائے، کلیجی وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ کرلیا جائے اور ہر شریک کے حصے میں ان چیزوں میں سے کچھ نا کچھ آجائے تو خلاف جنس ہونے کی وجہ سے اندازے سے بھی تقسیم کرنا جائز ہوجائے گا ۔

قال الحصکفی : لا جزافا إلا إذا ضم معه من الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.قال ابن عابدین: (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية۔ ( الدر المختار مع ردالمحتار: ۶/۳۱۷، ۳۱۸، دار الفکر، بیروت ) لو أنہم اقتسموا لحمہا جزافا وحلل کل واحد منہم لأصحابہ الفضل لایجوز، لأن الربا لایحتمل الحل بالتحلیل … اقتسموا اللحم جزافا وفی نصیب کل واحد منہم شیئ مما لا یوزن کالرجل والرأس لا بأس بہ إذا حلل بعضہم بعضا۔ (فتاوی قاضیخان: ۳/۲۴۷، زکریا، دیوبند ، جدید،نیز دیکھیے:فتاوی محمودیہ:۲۶/۳۳۲، میرٹھ)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

انوار الفقھاء الحنفیہ

25 Jun, 18:41


الجواب حامداًومصلیاً
اس صورت میں قربانی صحیح ہوگئی،مگر تول کرتقسیم نہ کرنے سے احتمال ربوٰ کی وجہ سے وہ شرکاء جواس تقسیم سے راضی تھے، گنہگار ہوئے ، اگرتقسیم میں کسی کی طرف سری پائے اورکھال بھی لگادی مثلاً کچھ گوشت اورکچھ حصہ پائے کاایک حصہ میں اورکچھ گوشت اورپائے یاسری یا کھال ایک کے حصہ میں آگئی ،توچونکہ ہرایک کے حصہ میں جوچیز آئی ہے ، وہ غیرجنس کے مقابلہ میں قر اردیجاسکتی ہے ، اسلئے اس صورت میں گناہ نہیں ۔۱؂ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہ العبدمحمودغفرلہٗ داراعلوم دیوبند

انوار الفقھاء الحنفیہ

25 Jun, 17:46


اگر اذان سے پہلے بچہ انتقال کر جائے تو
سوال: بچہ پیدا ہوا ایک ہفتہ زندہ رہا لیکن اسکے کان میں اذان اور تکبیر نہیں کہی گئی اور وہ فوت ہوگیا اب کیا حکم ہے؟ اسے غسل دیا جاے نماز جنازہ پڑھی جاے یا نہیں؟

المستفتی: بندہ خدا۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

اگر بچہ ولادت کے بعد کچھ دیر زندہ رہا اور پھر کانوں میں اذان واقامت کہے جانے سے پہلے انتقال کرگیا تو اب انتقال کے بعد اس کے کانوں میں اذان واقامت نہیں کہی جائے گی۔ (جامع الفتاوی 5/ 279، بحوالہ فتاویٰ مفتاح العلوم غیر مطبوعہ)

اس لئے حدیث شریف میں اذان کا جو مقصد بیان کیا گیا ہے (یعنی سب سے پہلے کان میں اللہ کا نام پڑے، اسی طرح ام الصبیان (بچوں کی مرگی کی بیماری) اور شیطان سے حفاظت وغیرہ) وہ فوت ہوچکا ہے۔

البتہ ایسے بچے کا نام رکھا جائے گا، غسل دیا جائے گا اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔

نوٹ: بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو بچہ یا بچی زندہ پیدا ہو، اور اس کے کان میں اذان دینے سے پہلے ہی وہ مرجائے، تو اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، اُن کا یہ خیال صحیح نہیں ہے، بلکہ شریعتِ اسلامیہ کا حکم یہ ہے کہ جو بچہ یا بچی زندہ پیدا ہو، خواہ اس کے کان میں اذان دی گئی یا نہیں، اس کے مرنے پر اس کا نام بھی رکھا جائے، غسل بھی دیا جائے، اور اس پر نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے، اور اگر کسی کو بغیر نمازِ جنازہ پڑھے دفن کردیا گیا، تو اس کے پھولنے پھٹنے سے پہلے اس کی قبر پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل
رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ قَالَ: إذَا اسْتَهَلَّ الْمَوْلُودُ سُمِّيَ وَغُسِّلَ وَصُلِّيَ عَلَيْهِ. (بدائع الصنائع 1/ 302)

ومن استهل بعد الولادة سمى وغسل وصلي عليه؛ لقوله ﷺ: إذا استهل المولود صلي عليه وإن لم يستهل لم يصل عليه. (الهداية 1/ 91)

قال السنوي: فیرفع المولود عند الولادة علی یدیه مستقبل القبلة ویؤذن في أذنه الیمنی ویقیم في الیسری، ویلتفت فیهما بالصلاة لجہة الیمین وبالفلاح لجہة الیسار. (تقریرات رافعي علی الشامي کراچی1/ 45، زکریا 2/45)

عن حسین بن علی رضی الله عنہما قال قال رسول الله ﷺ: من ولد له مولود فأذن في أذنه الیمنی و أقام في أذنه الیسری لم یضرہ أم الصبیان. (عمل الیوم واللیلة لإبن السني، باب ما یعمل بالولد إذ ولد، مؤسسة علوم القرآن 1/578، رقم: 623، مسند أبي یعلی الموصلي، دار الکتب العلمیة بیروت 6/32، رقم: 6747، وهکذا فی المعجم الأوسط، دار الفکر 6/414، رقم: 2950، مصنف عبد الرزاق، المجلس العلمي 4/336، رقم: 7985، شرح السنة للبغوی بیروت 11/273، رقم: 2822، شعب الإیمان، دار الکتب العلمیة بیروت 6/389، حاشیة مشکاة 2/363)

فیرفع المولود عند الولادة علی یدیه مستقبل القبلة ویؤذن في أذنه الیمنی ویقیم في الیسری ویلتفت فیہا بالصلاة لجہة الیمین وبالفلاح لجہة الیسار وفائدة الأذان في أذنه أنه یدفع أم الصبیان عنه. (تقریرات رافعي، زکریا 2/45، کراچی 1/45، مرقات، امدادیہ ملتان 8/160)

قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: {وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]. قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله ﷺ: “إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين”. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2691)

یسن الأذان فی أذن المولود حین یولد. (الموسوعة الفقهیة 2/373)

ذوالله أعلم

تاريخ الرقم: 26- 5- 1441ھ 22- 1 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

انوار الفقھاء الحنفیہ

26 May, 14:24


جائے ملازمت میں قصر
سوال
میں سرکاری استاذ ہوں، ہمارا سکول ہمارے گاؤں سے تقریباً 70کلو میٹر دور ہے، میں وہاں ہفتہ گزارتا ہوں اور اتوارکو گھر آتا ہوں، کیا وہاں سکول میں قصر نماز پڑھوں گا یا پوری؟

جواب
واضح رہے کہ شرعی مسافتِ سفر سوا ستتر کلومیٹر ہے، اس سے کم سفر کی صورت میں آدمی شرعاً مسافر نہیں کہلاتا، لہٰذا اگر آپ کا اسکول آپ کے گاؤں سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے تو یہ شرعی مسافتِ سفر نہیں ہے، اس صورت میں آپ دونوں جگہ پوری نماز پڑھیں گے۔

اور اگر آپ کا اسکول آپ کے گاؤں سے کم از کم سوا ستتر کلومیٹر دور ہے اور آپ اسکول جاکر صرف ہفتہ گزار کر واپس آجاتے ہیں اور ایک مرتبہ بھی آپ پندرہ دن وہاں نہیں ٹھہرے تو آپ اسکول میں تنہا نماز پڑھتے ہوئے یا امامت کراتے ہوئے چار رکعات والی فرض نماز میں قصر کریں گے۔ البتہ اگر آپ ایک دفعہ بھی اسکول میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہر گئے تو اسکول والا گاؤں آپ کا وطنِ اقامت بن جائے گا، پھر جب تک نوکری کے سلسلے میں وہاں آپ کا آنا جانا لگا رہے اور آپ کا ضروری سامان وہاں موجود رہے تو ہر مرتبہ پندرہ دن کی نیت سے ٹھہرنا ضروری نہیں ہوگا، بلکہ جب تک سامان اٹھا کر آپ وہاں سے منتقل نہیں ہوتے اس وقت تک آپ وہاں ہمیشہ پوری نماز پڑھیں گے، چاہے تین، چار دن کا قیام ہی کیوں نہ ہو۔

بصورتِ مسئولہ آپ اپنے گاؤں اور اسکول کے درمیان مسافت کی تحقیق کرکے مذکورہ تفصیل کے مطابق عمل کیجیے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 147):

"كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ... وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر". (باب صلاۃ المسافر ،ج:۴/ ۱۱۲ ،ط:سعید ) فقط والله أعلم

فتوی نمبر : 144106201037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

انوار الفقھاء الحنفیہ

16 Mar, 04:20


مروجه قرآن خوانی کا حکم
سوال: کسی کے انتقال کے بعد بچوں سے قرآن خوانی کرواتے ہیں جس میں مرحومین کے ورثاء قرآن خوانوں میں شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ جواب مرحمت فرمائیں۔

المستفتی: مفتی عبد الماجد رشیدی، خود کاشتہ سرائے میر اعظم گڑھ

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

میت کو ثواب پہنچانے کے لئے قرآن خوانی کرنا یا کروانا فی نفسہ جائز اور درست ہے، البتہ اگر اس مبارک عمل کے لئے لوگوں کو کرایہ پر لایا جائے یا معاملہ بلا اجرت ہو لیکن بعد میں کچھ کھلانے یا دینے کا رواج ہو قرآن پڑھنے والوں کو جس کے حصول کا علم ہو یا قرآنی خوانی کے ساتھ دیگر رسوماتہوں تو یہ شرعا درست نہیں ہے، خواہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی، اس سے میت کو کوئی ثواب نہیں پہنچے گا۔

اس لئے خود جتنا ہوسکے قرآن مجید پڑھ کر ایصال ثواب کریں، یہ اسلاف کے طریقہ کے مطابق ہے، اور اس میں اخلاص بھی ہوتا اور ان شاء اﷲ مردہ کو فائدہ ہوگا، رسمی قرآن خوانی اسلاف سے ثابت نہیں، علامہ شامی رحمة اللہ علیہ اس قسم کی قرآن خوانی اور رسمی تقریبات کے متعلق معراج الدرایہ سے نقل فرماتے ہیں کہ: یہ سارے افعال محض دکھاوے اور نام و نمود کے لئے ہوتے ہیں، لہذا ان افعال سے احتراز کرنا چاہئے ۔ اس لئے کہ یہ صرف شہرت اور نام ونمود کے لئے ہوتا ہے، رضا ء الٰہی مطلوب نہیں ہوتی۔

اسی طرح جو لوگ قرآن خوانی میں شرکت کرتے ہیں عموماً ان میں بھی اخلاص نہیں ہوتا بہت سے لوگ اس لئے شرکت کرتے ہیں کہ اگر نہیں جائیں گے تو اہل میت ناراض ہوں گے اور بہت سے لوگ صرف شیرینی اور کھانے کی غرض سے حاضری دیتے ہیں، تو جب اخلاص ہی نہیں ہے تو ثواب کہاں ملے گا؟ اور جب پڑھنے والا ہی ثواب سے محروم ہے تو پھر ایصال ثواب کس طرح ہوگا؟اسی طرح علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے شرح عقود رسم المفتی میں تحریر فرماتے ہیں قرآن خوانی کرانے والے کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ مروجہ قرآن خوانی سے میت کو ثواب نہیں پہنچتا تو وہ پڑھنے والوں کو ایک ٹھیکرا بھی نہیں دے گا۔

اس لئے ایسی قرآن خوانی سے پرہیز ضروری ہے ہاں اگر جو لوگ بلا اجرت اور بلا شرط از خود جمع ہوجائیں اور قرآن پڑھ کر میت کے لئے ایصال ثواب کردیں اور بعد میں گھر والا بلا کسی رسم کے لوگوں کی چائے وغیرہ سے ضیافت کردے تو کوئی حرج نہیں. واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل
ھذه الأفعال کلھا للسمعة والریا فیحترز عنھا لأنھم لا یریدون بھا وجه ﷲ تعالیٰ. (رد المحتار/الجنائز، مطلب فی کراھیة الضیافة من أھل المیت 2/ 270).

إن القرآن بالأجرة لایستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري. (شامی زکریا 9/ 77).المعروف کالمشروط. (الأشباه والنظائر 152/1).

وقال تاج الشریعة في شرح الهدایة: إن القرآن بالأجرة لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري. ویمنع القاري للدنیا والاٰخذ والمعطي اٰثمان. (شامی کراچی 56/6، زکریا 77/9).

وصار القارئ منهم لا يقرأ شيئا لوجه الله تعالى بل لا يقرأ إلا للأجرة، وهو الرياء المحض الذي هو إرادة العمل لغير الله تعالى فمن أين يحصل له الثواب الذي طلب المستأجر أن يهديه لميته، وقد قال الإمام قاضيخان: إن أخذ الأجرة في مقابلة الذكر يمنع استحقاق الثواب، ومثله في فتح القدير في أخذ المؤذن الأجر، ولو علم انه لا ثواب له لم يدفع له فلسا واحدا، فصاروا يتواصلون إلى جمع الحطام الحرام بوسيلة الذكر والقرآن، وصار الناس يعتقدون ذلك من أعظم القرب وهو من أعظم القبائح. الخ (شرح عقود رسم المفتي ص: 38-39 مكتبه سعيديه سهارن فور).

والله أعلم

تاريخ الرقم: 11/1/1440ه 22/9/ 2018م السبت

انوار الفقھاء الحنفیہ

15 Aug, 05:41


سوال
کیا قومی پرچم کے سامنے جھک کر سلامی دینا جائز ہے؟

جواب
جھنڈے کے سامنےکھڑا ہونا یا سلامی پیش کرنا ایک قومی یا فوجی عمل ہے، اس کی اجازت ہے۔ البتہ جھکنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ شریعت میں جھک کر تعظیم سے روکا گیا ہے۔لیکن اسے مشرکانہ فعل نہیں کہا جاسکتا۔ فتاویٰ شامی میں ہے:

’’وفي المحیط أنه یکره الانحناء للسلطان وغیره‘‘. [ردالمحتار: ٦/ ٣٨٣]

مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ جھنڈے کو سلامی مسلم لیگ بھی کرتی ہے اور اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتی ہے، وہ ایک قومی عمل ہے، اس میں اصلاح ہوسکتی ہے، مگر مطلقاً اس کو مشرکانہ فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے‘‘۔ (کفایت المفتی:٩/ ٣٧٨)
مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ یہ محض سیاسی چیز ہے اور حکومتوں کا طریقہ ہے، اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتا ہے، بچنا اچھا ہے، اگر فتنہ کا ڈر ہو تو بادلِ ناخواستہ کرنے میں مواخذہ نہیں ہوگا‘‘۔(فتاوی رحیمیہ۱۰/۱۸۰) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144104200165
تاریخ اجراء :03-12-2019