Dr. Ajmal Manzoor📚 @ajmalmanzoor Channel on Telegram

Dr. Ajmal Manzoor📚

@ajmalmanzoor


فہم سلف کی روشنی میں کتاب وسنت پر عمل پیرا ہونے والا سلفی چینل ہے

Dr. Ajmal Manzoor 📚 (Urdu)

موجودہ دور میں فہم سلف اسلامی علوم اور تاریخ کے حوالے سے عام طور پر کم سنا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، فہم سلف زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالنے کا مقصد رکھتا ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے میں مدد ملتی ہے اچھی کتب اور سنت کی تلاش سے۔ اگر آپ بھی اس مقصد کو پورا کرنے کی تلاش میں ہیں تو پھر 'Dr. Ajmal Manzoor 📚' چینل آپ کے لیے بہترین مکان ہے۔nn'ajmalmanzoor' چینل فہم سلف کی روشنی میں کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے والا ہے۔ یہاں آپ کو معتبر اور قابل اعتماد معلومات ملیں گی جو آپ کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کریں گی۔nn'ajmalmanzoor' چینل میں آنے والے مواد کو پڑھ کر آپ اپنی فہم کو بڑھا سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو اسلامی روشنی میں چمکا سکتے ہیں۔ یہاں شامل ہونے کا فائدہ ان لوگوں کو بھی ہے جو فہم سلف کے حوالے سے نیا ہیں یا جنہوں نے اس موضوع پر کبھی مطالعہ نہیں کیا۔nnاپنی فہم کو بہتر بنانے کے لیے 'Dr. Ajmal Manzoor 📚' چینل کو فوراً سبسکرائب کریں اور انتہائی معلوماتی اور مفید مواد سے بھرپور ہوئے رہیں۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

21 Feb, 13:23


یہ بلاد توحید ہے، جہاں ان شرکیہ جھنڈوں کو اکھاڑ پھینکا جا رہا ہے جنہیں سیاہ لباس اور سڑیل دل والوں نے چپکے سے لگایا ہوا تھا.....

Saudi Arabia is the land of Monotheism🇸🇦 where call only Allah.
Al Ahsa cemeteries Eastern Providence municipality raid and leveled the graves and removed polyatheist flag. May Allah bless this land and preserve its rulers and people.
#saudiarabia 🇸🇦
#saudi

Dr. Ajmal Manzoor📚

18 Feb, 14:53


سیرت سے دو واقعات اور دو الگ الگ نبوی رد عمل!

پہلا واقعہ:
بحرین سے مال غنیمت مدینہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے، ایک دیہاتی نے آکر آپ کی چادر کو بڑی سختی سے کھینچا اور سخت لہجے میں کہا کہ اے محمد! یہ مال تمہارے باپ دادا کا نہیں ہے بلکہ اللہ کا ہے مجھے بھی اس میں سے دے دو! صحابہ کرام غصہ ہو گئے مگر آپ نے سب کو خاموش کر دیا اور کہا کہ اسے دے دو جتنا یہ چاہے۔

دوسرا واقعہ:
مقام جعرانہ میں حنین کے مال غنیمت کو آپ تقسیم کر رہے تھے ذو الخویصرہ نامی ایک خارجی نے آکر کہا کہ اے محمد! تم انصاف سے کام نہیں لے رہے ہو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ تیری بربادی ہو اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟!
جب وہ جانے لگا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر کے فرمایا: اس کی نسل سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دیکھنے میں تو بڑا دیندار ہوں گے مگر ان کی عبادتیں ان کے گلوں سے نیچے نہیں اتریں گی، یہ کافروں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے، ان کے ہاتھوں مرنے والے بہت ہی خوش نصیب ہوں گے، اور اس کی نسل کے لوگ دنیا کی بدترین مخلوق ہوگی، اگر میں انہیں پا جاؤں گا تو قوم عاد کی طرح انہیں مار کر ہلاک و برباد کر دوں گا، ان میں سے کوئی بھی گروہ جب بھی اور جہاں بھی نکلے گا ان کا قلع قمع کر دیا جائے گا، انہیں کبھی بھی پائیداری حاصل نہیں ہوگی، ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔

نوٹ : آپ غور فرمائیں پہلے واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کا مظاہرہ کیا اور اس دیہاتی کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور اسے من چاہا مال عطا کر دیا جبکہ دوسرے واقعے میں آپ نے اس خارجی کے ساتھ سخت لہجہ اپنایا بلکہ اس کی نسل کے بارے میں اپنی امت کو آگاہ بھی کر دیا اور انہیں دنیا کی سب سے بدترین مخلوق قرار دیا۔ اس سے ہمیں یہ سیکھ ملتی ہے کہ ذو الخویصرہ کی نسل خارجیوں کے بارے میں ہمیشہ خبردار کرتے رہنا چاہیے؛ کیونکہ یہ قیامت تک پائے جاتے رہیں گے اور اسلام کے سخت ترین دشمن رواف_ض اور صہیونیوں کے ہاتھوں ٹیشو پیپر کی طرح استعمال ہوکر امت اسلامیہ میں تباہی اور قتل و ریزی پھیلاتے رہیں گے۔ دوسرے واقعے سے یہ پتہ چلا کہ خوارج کی نسل مسلمانوں کے امام وقت کو نشانہ بنانے کو اپنا نصب العین سمجھتی ہے!

Dr. Ajmal Manzoor📚

18 Feb, 09:43


🎓 شیخ مقبل بن ہادی الوادی رحمہ اللہ نے کہا:

✍️ ہم نہ اپنا دین بیچنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اپنی دعوت کو ہم بیچ سکتے ہیں،

👈🏻 یہاں تک کہ اگر ہمیں پورا یمن دے دیا جائے تب بھی اسلام کی دعوت ہمارے لیے اپنی جان سے، اپنے اہل و عیال اور اپنی دولت سے بھی زیادہ قیمتی ہوگی۔

👈🏻 ہم کچھ بھی کھانے کو تیار ہیں حتی کہ ہم خاک پر گزارہ کر لیں گے لیکن ہم اپنے مذہب اور اپنے ملک سے غداری نہیں کریں گے، اور اپنا دین ومنہج نہیں بدلیں گے۔

✍️ رنگ بدلنا اہل السنہ کی پہچان نہیں ہے۔

📚 [الباعث على شرح الحوادث، ص57]۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

15 Feb, 18:56


"فقہ" اس عالم سے حاصل کریں جو آپ کو اہل حدیث کے طریقہ پر تفقہ سکھاتے ہوں - یعنی صرف ایک مذہب کی فقہ سکھانے پر اکتفا نہ کرتے ہوں، اور نہ ہی صرف ایک مذہب کی تقلید کا حکم دیتے ہوں - کیونکہ باجماع اہل الحدیث والفقہاء والاصولیین حق صرف ایک مذہب میں محصور نہیں، بلکہ راجح بات یہی ہے کہ حق مذاہب اربعہ میں بھی محصور نہیں - دور حاضر میں شیخ سلیمان الرحیلی، شیخ عبد السلام السحیمی، شیخ وصی اللہ وغیرہم حفظہم اللہ ہیں، نیز ماضی قریب میں نواب صدیق حسن خان، شمس الحق عظیم آبادی، عبد الرحمن مبارکپوری، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثيمين، شیخ البانی اور شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہم اللہ وغیرہم اسی "فقہ اہل الحدیث" کے مناد تھے، اسی طریقہ فقہ کی نشر و اشاعت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی کی، اور امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اسی "فقہ اہل حدیث" کی بنیاد کو مضبوط کیا، اور "فقہ اہل حدیث" کی بنیاد اور حجر اساس ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے رکھی جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اس کی تعلیم دی تھی.
خلاصہ کلام یہ کہ: اگر آپ مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک ہی مذہب کا التزام کرتے ہیں تو یقینی طور پر کئی امور میں آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، صحابہ کرام کی اور سلف صالحین کی مخالفت کرنی پڑے گی، اور اگر "فقہ اہل حدیث" کا التزام کرتے ہیں تو ہمیشہ اتباع کتاب و سنت اور فہم سلف کی راہ پر کاربند رہیں گے، گرچہ اس سے بعض اہل علم کے بعض اقوال کی مخالفت ہوگی..
یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ تمذہب اختیار کرکے اور اپنے آپ کو صرف ایک مذہب کا پابند بنا کر، کتاب، سنت، صحابہ کرام اور سلف صالحین کی مخالفت کریں یا فقہ اہل حدیث سیکھ کر کتاب و سنت اور سلف صالحین کے راستہ پر چلیں.

نوٹ: یہاں تمذہب اختیار کرنے اور صرف ایک مذہب کے التزام کی بات ہو رہی ہے، فأتوا البيوت من أبوابها.

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

Dr. Ajmal Manzoor📚

14 Feb, 19:29


💣 مفلس دھوکے باز اخوانی جب لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ غزہ کو فتح ہوئی ہے،

🏷️ اور جب اپنے بینک اکاؤنٹ کو بھرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ غزہ مصیبت میں ہے، وہاں زندگی اجیرن ہے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

12 Feb, 17:06


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خواہش پرست اور ہوائے نفس کی پیروی کرنے والوں کو ان کی خواہشات اندھا اور بہرا بنا دیتی ہیں، چنانچہ کسی عمل کو انجام دینے میں وہ حقوق اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پیش نظر نہیں رکھتے، اور ایسے لوگ نہ ہی اللہ کیلئے خوش ہوتے ہیں اور نہ اللہ رب العالمین کی خاطر غصہ و ناراض ہوتے ہیں، (بلکہ ان کی خوشی و ناراضگی کا دار و مدار ان کی خواہشات نفس پر ہوتا ہے) چنانچہ خواہش نفس کے مطابق انہیں جو چیز حاصل ہو جائے وہ اس پر خوش ہوتے ہیں، اور جو چیز خواہشات نفس کے خلاف ہو وہ اس پر غصہ و ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، اور طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے لوگ اپنے اس طرز عمل کو دین سے بھی جوڑ دیتے ہیں، چنانچہ انہیں یہ بھی زعم ہوتا ہے کہ جو وہ کر رہے ہیں وہی سنت اور وہی حق ہے (یعنی ان کی ہوائے نفس کی پیروی ہی حق ہے).

[منہاج السنۃ (5/ 256)]

ایک دوسرے مقام پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سلف صالحین فرمایا کرتے تھے کہ: دو قسم کے لوگوں کے فتنہ سے بچو، ایک ہوائے نفس اور خواہشات کی پیروی کرنے والے سے جسے اس کی خواہشات نے اندھا کر دیا ہو، اور دوسرا دنیا پرست جسے اس کی دنیا پرستی نے اندھا کر رکھا ہو، اور سلف صالحین فرمایا کرتے تھے کہ: فاجر عالم اور جاہل عابد کے فتنے سے بچو، کیونکہ یہ دونوں قسم کے افراد ہر شخص کیلئے فتنہ ہوتے ہیں، فاجر علما یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں کیونکہ وہ حق جانتے ہوئے اس کی پیروی نہیں کرتے، اور جاہل عابد نصاری کے رہبان سے مشابہت رکھتے ہیں کیونکہ وہ بغیر علم کے ہی عبادت کرتے ہیں.

[اقتضاء الصراط المستقیم (1/ 119)]

واللہ المستعان

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

Dr. Ajmal Manzoor📚

11 Feb, 10:33


📝 سلف صالحین نے قصہ گو واعظین سے تحذیر کیوں کی ہے؟

✍️ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (إِنَّ بني إِسْرَائِيل لمَّا هَلكُوا قَصُّوا)

👈🏻 ترجمہ : بنی اسرائیل جب ہلاکت میں پڑ گئے تو قصہ گوئی کرنے لگے۔

🎓 امام البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

👈🏻 بنی اسرائیل کی ہلاکت کا سبب یہ تھا کہ ان کے اندر جو قصہ کو واعظین پائے جاتے تھے وہ قصہ کہانیوں اور حکایتوں کا بڑا اہتمام کرتے تھے،

✍️ فقہ دین اور علم نافع سے دور ہوتے تھے کہ جس کے ذریعے لوگوں کو ان کا دین سکھایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پر لوگ نیک عمل کرتے ہیں،

✍️ لیکن جب وہ قصہ کہانیوں میں پڑ گئے تو ہلاکت ان کا مقدر بن گئی۔

👈🏻 اور یہی حال آج ہمارے زمانے کے بہت سارے ان قصہ گو واعظین کا ہے جو اپنی وعظ و نصیحت کی باتوں میں اکثر اسرائیلی روایتوں، قصہ کہانیوں اور صوفیا کے کشف وکرامات والی حکایات کو بیان کرتے رہتے ہیں۔

📕 (السلسلۃ الصحيحة :4/ 248)

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Feb, 19:01


فکری دہشتگردی!!

شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ کہتے ہیں:.
سید قطب کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، بہت ساری کتابیں موصوف کی زندگی پر آچکی ہیں جو مبالغہ آمیزی سے پر ہیں، اگر کہیں پر بعض غلطیوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے تو دوسری طرف تعظیم و تقدیس اور مدح سرائی کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے ہیں، اور کم سے کم یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے یہ کوئی امت کے بہت بڑے مجتہد گزرے ہوں۔
جبکہ اگر ہم غیر جانبداری سے سید قطب کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ انہوں نے امت مسلمہ کی تکفیر کی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن و تشنیع کی ہے، صفات باری تعالی کا انکار کیا ہے، خلق قرآن کا عقیدہ رکھتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی کلام نہیں کرتا ہے، اس کا کلام تو مجرد ارادے سے عبارت ہے، وہ حلول، وحدت الوجود اور جبر کے قائل تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ روح ازلی ہے، وہ غالی اشتراکیت کا عقیدہ رکھتے تھے، اللہ کے دشمنوں سے محبت کرتے تھے، انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ مسلمانوں کی مسجدیں جاہلی عبادت خانے ہیں، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو ہلکا بنا کر پیش کرتے تھے، خبر آحاد ہی نہیں بلکہ متواتر حدیثوں تک کا انکار کیا ہے، ان کے علاوہ بھی ان کی بہت ساری گمراہیاں ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔
ان سب گمراہیوں کے باوجود سید قطب کے مقام و مرتبہ کے اندر ذرا بھی فرق نہیں پڑتا ہے، آخر ایسا کیوں؟! اس خصوصیت کا کیا راز ہے؟! کیا اس خصوصیت کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی وحی نازل ہوئی ہے جس کی روشنی میں دیگر تمام اہل بدعت کے درمیان انہیں مستثنی کر دیا گیا ہے؟! اور اسی لیے دوسروں کے مقابلے ان کی کچھ زیادہ ہی تقدس کی جاتی ہے؟! آخر جب کوئی دوسرا کہے کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ اہل السنہ کے دائرے سے خارج ہو جائے اور بدعتی فرقوں اور معتزلہ کی جماعت میں شامل ہو جائے خواہ وہ کوئی بھی ہو اور خواہ وہ کسی بھی زمانے کا ہو گرچہ وہ قرون مفضلہ ہی کا کیوں نہ ہو لیکن جب سید قطب خلق قرآن کا عقیدہ رکھیں اور اللہ کے کلام کرنے کا انکار کریں، مسلم معاشرے کی تکفیر کریں اور اس کے ساتھ دیگر بڑی اور سنگین بدعتوں کا ارتکاب کریں لیکن پھر بھی انہیں بدعتی کہنا محال ہے آخر ایسا کیوں؟!
اس لیے کہ فکری دہشت گردی کی تلواریں انہیں تحفظ فراہم کرتی ہیں، باطل اور اتہامات کے نیزے ہر اس شخص کے سینے پر وار کرتے ہیں جو سید قطب کے بارے میں ایسا کہنے کے لیے ذرا بھی سوچتا ہے، اگرچہ حق خاک آلود ہو جائے، اگرچہ اسلام، اس کے واضح نصوص، اس کے قواعد اور اس کے عقیدے و منہج کو سخت نقصان پہنچ جائے اور اسے سخت خطرہ لاحق ہو جائے، یہ سب سید قطب کے حق میں یہ برداشت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

📖مطاعن سید قطب فی أصحاب رسول اللہ

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Feb, 18:55


اخوانی حزبیوں کا منہج ہی الگ ہے، یہ سلفیوں سے کہتے ہیں کہ تم اہل قبور (مشرکوں اور بدعتیوں) سے مقابلہ کرو ہم تو اہل قصور (حکام) سے مقابلہ کر رہے ہیں!!!!
سوال یہ ہے کہ کیا ان کا منہج ان انبیاء کے منہج سے زیادہ بہتر ہے جنہوں نے پوری زندگی بت پرستی شرک اور گمراہی کا مقابلہ کیا، توحید کی طرف دعوت دی؟!!
نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی، انہیں شرک اور بت پرستی اور دیگر گمراہیوں سے
روکا!!!!

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Feb, 18:40


صحابہ کی وکالت

رو@اف_ض اور دیگر دشمنان صحابہ کی بات نہیں ہے بلکہ کچھ اہل سنت بلکہ بعض اہل حدیث بھی یہ کہنا شروع کر دیئے ہیں یہ تمام صحابہ کو جنتی نہیں کہہ سکتے صرف انہی کو کہہ سکتے ہیں جن کے بارے میں صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے....
حالانکہ نصوص کتاب و سنت کی روشنی میں یہ چیز صحیح نہیں ہے بلکہ صحابہ کے تعلق سے قرآن و حدیث کے اندر ان کے جو فضائل اور مناقب بیان کیے گئے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کے لیے جو وعدے کیے گئے ہیں نیز عقیدے کی کتابوں میں ان کے تعلق سے جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان سے راضی ہیں اور ظاہر سی بات ہے اللہ کی رضا جوئی ہی کی صورت میں جنت حاصل کی جا سکتی ہے جب پہلے سے صحابہ کے بارے میں یہ بتا دیا گیا اور یہ معلوم ہے کہ اللہ صحابہ سے راضی ہے اور متعدد آیتوں میں اور حدیثوں میں اس کی صراحت ہے تو پھر انہیں جنتی کیوں نہیں کہہ سکتے؟!
ایک آیت کے اندر تو واضح طور پر آیا ہے (وکلا وعد اللہ الحسنی) یہاں پر حسنی سے مراد جنت ہے کہ اللہ تعالی نے ہر دو گروہوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے یعنی وہ صحابہ جو فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے یا وہ صحابہ جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے...
اب ظاہر سی بات ہے کہ جب اللہ تعالی وعدہ کر رہا ہے ان کے لیے جنت کا عمومی پیمانے پر تو ہم اب اس میں وسوسہ اور شکوک و شبہات کیوں پیدا کریں؟! ہاں اللہ کے نبی نے خصوصی طور پر کچھ لوگوں کے بارے میں جنتی ہونے کی خوشخبری سنا دی ہے کچھ اسباب کو بیان کر کے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جن کے بارے میں خصوصی طور پر خوشخبری نہیں سنائی ہے ان کا معاملہ دیگر عام مسلمانوں کی طرح سے ہے بلکہ صحابہ کو ایک خاص درجہ اور ایک خاص مقام حاصل ہے جو کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا ان کے لیے اللہ کی رضامندی اور اس کی خوشنودی کی سرٹیفیکیٹ ملی ہوئی ہے جبکہ غیر صحابی کو یہ سرٹیفیکیٹ نہیں ملی ہے دوسروں کا معاملہ امید پر ہے جب کہ صحابہ کا معاملہ گارنٹی کا ہے، ھذا ما عندی واللہ بالصواب

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Feb, 18:33


دنیا و آخرت کے اندر خیر و بھلائی اور عزت و کامیابی کی بنیاد عقیدے ومنہج کی سلامتی پر ہے

ارشاد باری تعالی ہے:(وَأَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقًا) (الجن:16)۔
ترجمہ : اور (اے نبی یہ بھی کہہ دو) کہ اگر لوگ راه راست (طریقے اور منہج) پر سیدھے رہتے تو یقیناً ہم انہیں بہت وافر پانی پلاتے۔
مزید اللہ تعالی نے فرمایا:(وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ) (الاعراف:96)۔
ترجمہ : اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔
معلوم ہوا کہ خیر و بھلائی اور عزت و کامیابی کا دار ومدار عقیدے پر استقامت اختیار کرنا ہے، اسی جانب یہ صحیح حدیث اشارہ کر رہی ہے جس کے اندر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:(أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ) ترجمہ : سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔ (صحیح بخاری :52)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح دین کے اصلاح کا اہتمام کرتے تھے بالکل اسی طرح لوگوں کی دنیا کی بھی اصلاح کی کوشش میں رہتے تھے لیکن آپ کی یہ ساری کوششیں توحید اور صرف اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے بعد ہوتی تھیں، اور یہی وہ چیز ہے جس سے اکثر لوگ یا تو نابلد ہیں یا پھر تجاہل برتتے ہیں۔
پھر اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ اس امت کی اکثریت سنت سے اعراض کر جائے گی جس کے سبب اس کے اندر کمزوری، ذلت اور دنیا کی محبت بیٹھ جائے گی، پھر اس کے بعد اسے عزت و تمکنت اور مجد و کامیابی اسی وقت مل پائے گی جب یہ خالص اللہ کے دین کی طرف لوٹے گی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ) ترجمہ : جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے گایوں بیلوں کے دم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔ (سنن ابی داؤد :3462)۔
(بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے عمرو کے ہاتھ ایک تھان کپڑا ایک ہزار روپے میں ایک مہینہ کے ادھار پر بیچا، پھر آٹھ سو روپیہ نقد دے کر وہ تھان اس نے عمرو سے خرید لیا، یہ بیع سود خوروں نے ایجاد کی ہے۔ مترجم)۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس امت کے لیے یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ وہ ترقی کھ مقام پر فائز ہو، قوت دوبارہ حاصل کرے، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر سکے اور ذلت و رسوائی سے باہر آسکے مگر اسی وقت جب یہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے گی، سلف صالحین کے منہج پر چلے گی اور اپنی دنیا کو دین کے ذریعے سنوارے گی برخلاف دوسری کافر قوموں کے جن کی دنیا سنور سکتی ہے، کامیابی کے منازل دنیا کے اندر وہ طے کر سکتے ہیں، تہذیب و تمدن میں وہ آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا؛ چنانچہ معلوم ہونا چاہیے کہ اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے کی یہ خصوصیت ہے بلکہ یہ نمایاں خاصیت ہے کہ یہی عقیدہ ہر اس شخص کے لیے کامیابی، نصرت الہی اور عزت و تمکنت کا ایک اہم سبب ہے جو اسے قائم کرے، جو اسے مضبوطی سے تھامے اور سچے دل، عزم و حوصلے اور صبر و شکر کے ساتھ اس کی طرف دعوت دے۔ چنانچہ وہ طائفہ اور گروہ جو اس عقیدے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے یعنی اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے کو، یہی وہ طائفہ اور گروہ ہے جو ہمیشہ غالب رہے گا، نصرت الہی جس کے ساتھ رہے گی، جس کی مخالفت کرنے والے اور جس سے دشمنی رکھنے والے تاقیامت اس کا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بارے میں خبر دی ہے؛ چنانچہ ارشاد نبوی ہے: (لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَخْذُلُهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ) ترجمہ : میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی، ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے۔ (سنن ترمذی :2229)۔

📖مقدمات وقواعد فی منہج السلف فی العقیدہ، ص 99

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Feb, 18:32


🎓 قال شیخ صالح اللحیدان رحمہ اللہ تعالی:

✍️ "واللہ! میرے پاس عدلیہ اور کبیر علما کی کمیٹی میں تیس سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے،

✍️ واللہ! ہم سے کبھی نہیں کہا گیا کہ ہم کسی کی خواہشات کے مطابق فتویٰ دیں، بلکہ ہم ہمیشہ وہی فتویٰ دیتے ہیں جو ہمیں حق نظر آتا ہے۔"

📚 [رؤية شرعية للأحداث التفجيريه للشيخ إبراهيم المحيميد|صـ49
]

Dr. Ajmal Manzoor📚

09 Feb, 15:03


عقیدہ توحيد کے اثرات فرد اور معاشرے پر

مہاراشٹر کے رتنا گیری ضلع میں کھیڈ کا علاقہ جو شرک وتقلید سے گھرا ہوا ہے، اس پر آشوب خطے میں توحيد وسنت کا چراغ جلانے کیلئے مرکز الدعوۃ الاسلامیہ والخیریہ کو قائم کیا گیا ہے، جہاں توحيد وسنت اور عقیدہ ومنہج کی نشر واشاعت کا کام ہو رہا ہے اور خطہ ہذا توحید سے معمور ہو رہا ہے، اسی مرکز میں آج میرا خطاب تھا.... دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پورے خطے کو توحید سے مالا مال فرما دے... آمین...

https://www.youtube.com/live/jjsJULrBgwM?si=F_bhXOH7dJCuvfaH

https://www.facebook.com/share/p/14gQzFgP6D/

Dr. Ajmal Manzoor📚

06 Feb, 18:32


📝 حاکم وقت کی سمع وطاعت اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ

✍️ کوفہ کے گورنر نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو فتوی دینے سے روک دیا،

🏷️ ایک دن کا واقعہ ہے آپ اپنے گھر میں تھے، اس وقت آپ کے ساتھ آپ کی بیوی اور آپ کے لڑکے حماد اور آپ کی ایک بیٹی تھی،

✍️ آپ کی بیٹی نے سوال کیا : میں روزے سے ہوں، میرے دانت سے خون نکل آیا ہے، میں نے اسے تھوک دیا یہاں تک کہ تھوک سفید ہو گیا، اب اس پر خون کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا، اب اگر میں اس تھوک کو نگل جاؤں تو کیا میرا روزہ ٹوٹ جائے گا؟

👈🏻 تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اس کے بارے میں اپنے بھائی حماد سے پوچھو؛ کیونکہ گورنر نے مجھے فتوی دینے سے روک دیا ہے۔

📖(وفیات الاعیان لابن خلکان: 4/ 180)۔

💥نوٹ:
حاکم وقت کی اس قدر سمع وطاعت کی بنیاد پر کیا اخوانی تحریکی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو بھی مدخلی مدخلی کہیں گے؟!

Dr. Ajmal Manzoor📚

05 Feb, 04:38


جماعت اسلامی اپنا آئیڈیل خومینی کے منہج کو مانتی ہے ۔۔۔۔
یہ جماعت بلا شبہ ایرانی ایمپورٹیڈ ہے۔۔

جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ اپنا منہج اور کارنامہ واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ترجمان القرآن پرچے میں مولانا مودودی نے امام (ملعون خومینی ) کے انقلاب (خومینی بغاوت) کی تائید کی تھی جسکی وجہ سے پرچے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ جب انقلاب (خمینی بغاوت) کامیابی کے منزل پر تھا، امام( ملعون خومینی) جو فرانس سے طہران کی طرف سفر کر رہے تھے، اس سے پہلے انہوں(خمینی ) نے ایک وفد پاکستان بھیجا، یہ وفد امام (خومینی) کی ہدایت پر مولانا مودودی سے ملنے آیا تھا، میں پنجاب یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا میں ناظم اعلی تھا، مودودی کی ہدایت پر میں نے اس وفد کا لاہور ائیر پورٹ پر استقبال کیا، اور انہیں لیکر مولانا (مودودی) کی رہائش گاہ اچہرے میں آیا، اس طرح انہوں نے اس انقلاب (خمینی بغاوت) کو اسلامی تحریک (جماعت اسلامی) سے جوڑ دیا۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امام(خومینی) نے ہمیں ریاست کے نظام کو چلانے کیلئے قرآن و سنت کی روشنی میں جو ایک شاندار پیغام اور نظام دیا ہے پورے عالم اسلام اور دنیا کو اس کے پیچھے چلنا ہوگا، اور مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں نے امام (ملعون خومینی) سے تین بار ملاقات کی ہے، انقلاب کے بعد (مبارکبادی دینے کیلئے) جو ہمارا پہلا وفد ایران گیا تھا اس میں بھی امام سے زیارت اور ملاقات کا موقع ملا، ان (خومینی ) کے کلام میں وہ تاثیر تھی جو دلوں کو فتح کر لیتی تھی۔۔۔

نوٹ: یہ ہے تحریکیوں کا اصل منہج ۔۔ جب کوئی اس رافضی منہج کو ایکسپوز کرتا ہے تو بیچارے تلملانے لگتے ہیں۔۔۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

04 Feb, 19:40


Shirk Karne Wala Jannat Mein Nahi jayega |Shaykh Abu Rizwan Muhammadi
https://youtube.com/shorts/F5j1O5yXdbE

https://linktr.ee/daruttauheed

Dr. Ajmal Manzoor📚

03 Feb, 12:43


🎓 علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا کہ

✍️ حق کی دعوت پورے طور پر باطل کی دعوت کی مخالف ہے،

✍️ یہ بالکل درست نہیں ہے کہ حق بولنے میں لوگوں کے جذبات کی رعایت کی جائے،

✍️ اور کھل کر حق بات کہنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے جذبات کا خیال کیا جائے جب تک کہ وہ اسلوب برحق ہو۔

📚 |[ سلسلة الهدى والنور (713) ]|

Dr. Ajmal Manzoor📚

02 Feb, 08:57


حماس کے ہاتھوں غازہ کی تباہی؟

حماس کے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کے حملہ سے قبل غازہ میں سوا لاکھ سے کچھ زیادہ باشندے بلاشبہ کیمپوں میں رہنے تھے۔ لیکن حماس کے ۷ اکتوبر کے حملہ کے بعد نصف جنوری ۲۰۲۵ ، یعنی جنگ بندی کے معاہدہ تک ڈسپلیسس، بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً دو ملین کے قریب ہوگئی ہے۔ ان کے گھر بار ہی نہیں بلکہ ان کا سب کچھ تباہ ہوچکا ہے۔ جبکہ اس جنگ سے قبل ۱۹ لاکھ لوگ اپنے بہترین گھروں میں اوسطا اچھی زندگی گذار رہے تھے۔ عربوں کے پیسوں سے تعمیر شدہ شاندار، خوبصورت ، قابل دید عمارتوں میں رہتے تھے۔ محاصرہ کے باوجود وہاں اتنا امن ضرور تھا کہ ایک لاکھ سے زائد غازہ کے باشندے اسرائیل کے زیر حکومت علاقوں میں روزانہ چیک پؤانٹ کو عبور کرکے جاتے ، دن بھر کام کرکے روزی کماتے اور شام کو بحفاظت اپنے گھروں کی طرف لوٹ آتے تھے۔ چھوٹے بڑے ہزاروں مدارس اور جامعات میں تعلیم جاری تھی۔ نہ صرف بچے بلکہ بچیاں بھی اعلی تعلیم حاصل کرکے گریجویٹ ہورہی تھیں۔ ساحل سمندر پر تفریح گاہیں غازہ کے باشندوں سے آباد تھیں۔ ریسٹورنٹ ، قہواہ خانے کام کر رہے تھے۔ شہروں میں خوشنما پارک بچوں اور بڑوں کو فرحت بخشتے تھے۔ بڑی چھوٹی سیکڑوں مساجد عبادت گذار بندوں سے بھری رہتی تھیں۔ اہل غزہ پُر امن طریقہ سے پانچوں نمازیں مساجد میں ادا کرتے تھے۔ بڑی بڑی مارکیٹس میں تجارتیں ہورہی تھیں۔ منظم معیاری اور عالیشان بلڈنگوں سے شہر کے شہر آباد تھے۔ سڑکوں پر کاریں اور دیگر سواریاں چل رہی تھیں، محصور رہنے کے باوجود غازہ کے باشندے بیرونی ممالک کا سفر کرتے تھے ان کی آمد ورفت برابر جاری تھی۔ غازہ کی حکومت اور اس کے کارندوں اور ملازموں کو عالمی فنڈز اسرائیلی گورنمنٹ ہی کے ذریعہ یعنی ان ہی کے ہاتھوں ملتے تھے۔ انہی فنڈز سے غازہ کی حکومت چلتی تھی، ملازمین کی تنخواہیں دی چاتی تھیں۔ محکمہ پولس اور داخلی عدالتیں کام کر رہی تھیں۔ حکومت ان کی تخواہ ادا کرتی تھی۔ حکومت چلانے کے سارے فنڈز اسرائیلی حکومت ہی کے ذریعہ سے حماس کی حکومت کو ملتے تھے۔ غازہ کے باشندوں کی روز مرہ کی زندگی حسب معمول بلکہ داخلی طور پر پر امن طور پر چل رہی تھی۔ لیکن اب جب کہ جنگ رکی ہے، غازہ کے باشندے خوش گمان ہوکر اپنے اپنے گھروں ، محلوں اور شہروں کی طرف (اکثر پیدل ہی)لوٹ رہے ہیں تو انہیں نہ گھر ملا، نہ سڑک ملی، نہ ان کے بچوں کو ان کا مدرسہ ملا اور نہ سکول اور نہ کالجز اور نہ ہی یونیورسٹیاں ملیں اور نہ ہی ان کو وہ ہسپتال ملے جہاں وہ ۷ اکتوبر سے پہلے اپنا اور اپنے عزیزوں کا علاج کرواتے تھے۔ ان کا گھریلو ساز و سامان اور ان کی تجارتیں وغیرہ سب کچھ برباد ہوچکی تھیں۔ انہیں مٹی، ریت اور پتھروں کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ ان میں کے ہزاروں خاندان اپنے ہزاروں چہیتوں کو کھو چکے تھے یہ غم الگ، لاکھوں اپاہج اقربا کو سنبھالنے کی ذمہ داری ان کے سر آگئی ہے۔ ۷ اکتوبر سے پہلے کے حالات آج سے لاکھ درجہ بہتر تھے۔ ملبوں پر مبھوت نگاہوں سے دیکھنے اور پریشان دکھنے والی ماؤں، بہنوں اور بچوں کو اب دیکھا نہیں جاتا۔ کہنے اور لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن دل مغموم ہے قلم آگے اور لکھنے سے قاصر ہے۔ عبرت کے لئے یہاں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اس تباہی کے اصل ذمہ دار آخر کوں لوگ ہیں؟ اس تباہی کا سبب کون بنے ؟ کن لوگوں کے کہنے پر حماس نے ۷ اکتوبر کا حملہ کیا؟ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں جواب سب کے سامنے ہے۔ اللہ ان کو صحیح سمجھ دے ، انہیں آستین کے سانپوں کو پہچاننے کی توفیق دے، جو اہل السنہ کو ختم کرنے، انہیں نقصان پہنچانے کے ایجنڈوں پر عمل کے لئے انہیں استعمال کر رہے ہیں اللہ ان کے مکر وفریب سے اہل السنہ کو بچائے، اللہ تعالیٰ غازہ کے باشندوں کی مدد فرما اور ان کے گھروں اور بستیوں کو دوبارہ انہی جگہوں پر آباد فرمادے جہاں وہ پہلے رہتے تھے۔ آمین۔
شیرخان جمیل احمد عمری

https://www.facebook.com/share/p/1BHT8kkMjC/?mibextid=wwXIfr

Dr. Ajmal Manzoor📚

31 Jan, 11:58


📜 آپ تحریک طالبان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

🎓 امام مقبل بن هادي الوادعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

✍️ ان کے بارے میں ہم توقف اختیار کرتے ہیں، ان سے ہمارا دل مطمئن نہیں ہے، یہ لوگ وہابیت پر کلام کرتے ہیں، ان کی تحریک کوئی عام تحریک نہیں ہے

اللہ تعالی فرماتا ہے: {وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ}

ترجمہ : اور ان دنوں کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں

✍️. ضرور دوسرے ملکوں کی طرف سے ان کی مدد کی جاتی ہے، اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی

👈🏻 یہ باقی ماندہ طاقتور مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں، یہی چیز سامنے دکھائی دے رہی ہے

✍️ اہم یہ ہے کہ ہمیں ان کے بعض ظاہری چیزوں کو دیکھ کر دھوکہ نہیں کھانا چاہیے

اللہ تعالی فرماتا ہے: {ليْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ}

ترجمہ : یہ نہ تم لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہے، اور نہ ہی اہل کتاب کی خواہشات کے مطابق، جو کوئی برائی کرے گا، اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا

📓| (أسئلة شباب المحويات)

https://t.me/DRR_9_9/486

Dr. Ajmal Manzoor📚

30 Jan, 07:17


Sahaba Se Bhugz Rakhne Wala Kafir Hai | Shaykh Ajmal Manzoor Madani

https://linktr.ee/daruttauheed

Dr. Ajmal Manzoor📚

23 Jan, 06:48


بنو امیہ کا کام... اور سید قطب ،مودودی اور اسرار کا گمراہ کن پروپیگنڈا..

🎓 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اموی خلافت کے متعلق لکھتے ہوئے کہتے ہیں :

✍️ "بنو امیہ میں جہاد کا علم بلند و بالا تھا، ان کا کام ہی یہی تھا، ان کے دورِ خلافت میں مشرق و مغرب،بر و بحر چہار سو اسلام کا بول بالا تھا، انہوں نے کفر اور کفار کو ہیچ اور نیچ کر دیا تھا،

✍️ مشرکین مسلمانوں کا نام سنتے ہی کانپنے لگتے تھے، مسلمان جس خطے کی جانب بھی رخ کرتے وہاں سے فتح یاب ہو کر واپس ہوتے،

🏷️ مسلمانوں کے معسکروں اور لشکروں میں علمائے کرام، اہل علم، اولیائے کرام اور تابعین عظام شامل ہوتے تھے، ہر فوجی مہم میں ان کے ساتھ ایسے لوگ ہوتے تھے جن کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح یاب فرماتا تھا"

📕 (البدایہ والنہایہ:9/ 87)

Dr. Ajmal Manzoor📚

22 Jan, 07:04


🎓 شیخ زید بن محمد بن ہادی المدخلی رحمہ اللہ نے کہا:

✍️ "مبارک ہو وہ شخص جو اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کو انکے دین کے معاملات سکھانے کا حریص ہو، اس حال میں کہ وہ ایک درست عقیدہ اور صحیح سلفی منہج پر عمل پیرا ہے

✍️ اور اسے یہ مبارکبادی کیوں نہ دی جائے جب کہ اس عظیم اور بابرکت کام میں اس کا رول ماڈل اللہ کے معزز رسول اور اس کے عظیم انبیاء ہیں؟!!

📚[ نصيحة غالية وكنز ثمين(12)
]

Dr. Ajmal Manzoor📚

21 Jan, 18:28


🖊شیخ عبدالسلام بن برجس رحمہ اللہ نے کہا:

✍️ نفس پرست اہل بدعت تفرقہ باز ہوتے ہیں جو اہل السنہ کے سماج میں آتے ہیں جہاں عام لوگ اپنے حکمرانوں اور اپنے علماء سے جڑ کر رہتے ہیں۔

✍️ یہ جماعت جسے اللہ تعالیٰ نے اتفاق اور اتحاد سے نوازا ہے وہ ان کے لوگوں کی صفوں میں آکر تفرقہ پیدا کرتے ہیں؛

✍️ چنانچہ یہ حاکم کو رعایا سے متنفر کرتے ہیں،

✍️ اسی طرح علماء کو عوام کی نگاہ میں اور عام لوگوں کو علماء کی نگاہ میں متنفر کرتے ہیں۔

👈🏻 یہی بدعتیوں کی لازمی پہچان ہے

📚[الجرح والتعديل عند السلف(58
)]

Dr. Ajmal Manzoor📚

17 Jan, 08:35


🎓 شیخ محمد امان جامی رحمہ اللہ نے کہا:

✍️ اہل علم کے بقول سب سے اچھی عزت و کرامت یہ ہے کہ اللہ اپنے بندے کو اس کے دین پر استقامت کی توفیق دے دے

👈🏻 اور وہ اسی استقامت پر باقی رہے یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کر لے۔

📕 (شرح قرۃ عیون الموحدين، ص 20)

Dr. Ajmal Manzoor📚

16 Jan, 10:19


دنیا و آخرت کے اندر خیر و بھلائی اور عزت و کامیابی کی بنیاد عقیدے ومنہج کی سلامتی پر ہے

✍️ ارشاد باری تعالی ہے:(وَأَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقًا) (الجن:16)۔

🏷️ ترجمہ : اور (اے نبی یہ بھی کہہ دو) کہ اگر لوگ راه راست (طریقے اور منہج) پر سیدھے رہتے تو یقیناً ہم انہیں بہت وافر پانی پلاتے۔

✍️ مزید اللہ تعالی نے فرمایا:(وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ) (الاعراف:96)۔

🏷️ ترجمہ : اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔

💡 معلوم ہوا کہ خیر و بھلائی اور عزت و کامیابی کا دار ومدار عقیدے پر استقامت اختیار کرنا ہے،

✍️ اسی جانب یہ صحیح حدیث اشارہ کر رہی ہے جس کے اندر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:(أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ)

🏷️ ترجمہ : سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔ (صحیح بخاری :52)۔

✍️ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح دین کے اصلاح کا اہتمام کرتے تھے بالکل اسی طرح لوگوں کی دنیا کی بھی اصلاح کی کوشش میں رہتے تھے لیکن آپ کی یہ ساری کوششیں توحید اور صرف اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے بعد ہوتی تھیں،

👈🏻 اور یہی وہ چیز ہے جس سے اکثر لوگ یا تو نابلد ہیں یا پھر تجاہل برتتے ہیں۔ "

✍️ پھر اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ اس امت کی اکثریت سنت سے اعراض کر جائے گی جس کے سبب اس کے اندر کمزوری، ذلت اور دنیا کی محبت بیٹھ جائے گی،

✍️ پھر اس کے بعد اسے عزت و تمکنت اور مجد و کامیابی اسی وقت مل پائے گی جب یہ خالص اللہ کے دین کی طرف لوٹے گی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ)

🏷️ ترجمہ : جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے گایوں بیلوں کے دم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔ (سنن ابی داؤد :3462)۔

(بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے عمرو کے ہاتھ ایک تھان کپڑا ایک ہزار روپے میں ایک مہینہ کے ادھار پر بیچا، پھر آٹھ سو روپیہ نقد دے کر وہ تھان اس نے عمرو سے خرید لیا، یہ بیع سود خوروں نے ایجاد کی ہے۔ مترجم)۔

✍️ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس امت کے لیے یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ وہ ترقی کھ مقام پر فائز ہو، قوت دوبارہ حاصل کرے، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر سکے اور ذلت و رسوائی سے باہر آسکے مگر اسی وقت جب یہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے گی، سلف صالحین کے منہج پر چلے گی اور اپنی دنیا کو دین کے ذریعے سنوارے گی برخلاف دوسری کافر قوموں کے جن کی دنیا سنور سکتی ہے، کامیابی کے منازل دنیا کے اندر وہ طے کر سکتے ہیں، تہذیب و تمدن میں وہ آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا؛

✍️ چنانچہ معلوم ہونا چاہیے کہ اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے کی یہ خصوصیت ہے بلکہ یہ نمایاں خاصیت ہے کہ یہی عقیدہ ہر اس شخص کے لیے کامیابی، نصرت الہی اور عزت و تمکنت کا ایک اہم سبب ہے جو اسے قائم کرے، جو اسے مضبوطی سے تھامے اور سچے دل، عزم و حوصلے اور صبر و شکر کے ساتھ اس کی طرف دعوت دے۔ چنانچہ وہ طائفہ اور گروہ جو اس عقیدے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے یعنی اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے کو،

✍️ یہی وہ طائفہ اور گروہ ہے جو ہمیشہ غالب رہے گا، نصرت الہی جس کے ساتھ رہے گی، جس کی مخالفت کرنے والے اور جس سے دشمنی رکھنے والے تاقیامت اس کا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بارے میں خبر دی ہے؛ چنانچہ ارشاد نبوی ہے: (لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَخْذُلُهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ)

🏷️ ترجمہ : میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی، ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے۔ (سنن ترمذی :2229)۔

📖مقدمات وقواعد فی منہج السلف فی العقیدہ، ص 99

Dr. Ajmal Manzoor📚

16 Jan, 08:27


🎓 ابن عساکر رحمہ اللہ نے کہا کہ

🏷️ جو علماء کی عیب جوئی کرتا ہے

👈🏻 اللہ تعالی مرنے سے پہلے اس کے دل کو مردہ کر دیتا ہے۔

📕 (المجموع للنووی:1/ 24)

Dr. Ajmal Manzoor📚

14 Jan, 08:59


ایک خارجی اور شیخ ربیع

💣 خارجی: طواغیت کے ساتھ کیا کریں۔
✍️ شیخ ربیع: کون سے طاغوت؟

💣 خارجی: حکمران۔
✍️ شیخ ربیع: پھر کیا کرتے؟

💣 خارجی: ان سے جنگ جہاد کرتے ہیں۔
✍️ شیخ ربیع: کتنوں کو قتل کیا؟

💣 خارجی: اب تک ایک بھی نہیں۔
✍️ شیخ ربیع: پھر کون مر رہے ہیں؟ کیا بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو نہیں قتل رہے ہو؟

💣 خارجی: جی، وہی مر رہے ہیں۔
✍️ شیخ ربیع: کیا جہاد اسی کو کہتے ہیں؟
کیا تم ایسا کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل رہے ہو؟ وہ پہلے لوگوں سے کلمہ پڑھاتے تھے، کیا تم پہلے دعوت پیش کرتے ہو؟

💣 خارجی: بالکل نہیں۔
✍️ شیخ ربیع: یہ ٹھیک نہیں ہے، اگر تم جہاد ہی کرنا چاہتے ہو، اور تمہارے پاس طاقت ہے، تو کافر ملکوں میں جاؤ ، پہلے انہیں دین اسلام کی طرف بلاؤ، اگر انکار کریں تو جزیہ طلب کرو، اگر جزیہ بھی دینے پر راضی نہ ہوں، تو پھر ان سے جہاد کرو، ہاں، بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور کمزوروں کو قتل نہ کرنا، صرف اسی کو مارنا جو تم سے لڑنے آئے گا۔ پھر کسی کے خلاف ظلم وزیادتی بھی نہ کرنا۔

🏷️ خارجی: جزاک اللہ۔
✍️ شیخ ربیع: آج کے خوارج کا حال یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور کافروں سے تعلقات بناتے ہیں، آج کے خوارج صرف مسلمانوں کیلئے فتنہ ہیں۔ مزید ان اقلیتی مسلمانوں کیلئے بھی بڑا خطرہ ہیں جو غیر مسلم ملکوں میں رہتے ہیں۔

🏷️ انہیں آپ دیکھیں گے یورپ اور امریکہ میں عیش کرتے ہیں، کافر حکومتوں کے دستور کی پابندی کا عہد کرتے ہیں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہہ کر عوام کو ان کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔
اسی لئے حدیث میں ہے کہ خوارج سے بری مخلوق دنیا میں کوئی نہیں ہے۔

📗حوالہ: كشف الستار عما تحمله بعض الدعوات من أخطار". للشيخ ربيع بن هادي المدخلي [ص/81-84]

✍️ نوٹ: آج کے مارڈرن خارجی مسلم حکمرانوں کو طاغوت کہتے ہیں۔ جوکہ کافر سے بھی برا لفظ ہے۔
کیونکہ کافر مسلمان کے مقابلے میں ہے جبکہ طاغوت سیدھا اللہ تعالی کے مقابلے میں ہے۔
یہ مارڈرن خارجی اسے قرآنی آیت ( فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ) سے استدلال کرتے ہیں۔۔ اس لئے ضروری ہے کہ طاغوت کے ڈھکوسلے کو زیادہ سے زیادہ ایکسپوز کیا جائے۔۔ تاکہ مارڈرن خارجیوں کا اصلی چہرہ سامنے آئے۔۔ آیت کے اندر طاغوت سے مراد: شیطان، بت یا اللہ کے علاوہ جس کی بھی کفار پوجا کرتے ہیں۔۔ دیکھیں تفسیر کی کتابیں سورہ بقرہ آیت نمبر 256 کے تحت

Dr. Ajmal Manzoor📚

13 Jan, 18:54


🏷️ ایک عالم کی نصیحت

✍🏼️ سنت کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، نرمی اور حکمت کو لازم پکڑ لو،

✍️ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور تقوی کی بنیاد پر تعاون کرو؛

👈🏻 اگر کسی سلفی سے کوئی غلطی ہو جائے تو عام خاص ہر مجلس میں اس کی غلطی کی تشہیر نہ کرو؛

👈🏻 کیونکہ اگر وہ حقیقی معنوں میں سلفی ہوگا تو سنت ضرور اسے صحیح راستے پر لگا دے گی۔

📕 (مجموعہ رسائل للعلامہ عبید الجابری، ص 163)

Dr. Ajmal Manzoor📚

13 Jan, 07:15


🎓 امام ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

✍🏼️ میں نے دیکھا علم قراءت میں سب سے زیادہ ماہر عاصم بن ابی النجود ہیں تو میں نے ان سے پڑھنا شروع کیا۔ اور تین سال تک لگا تار حتی کہ سردی گرمی اور بارش میں بھی بلا ناغہ ان کی خدمت میں جاتا رہا۔


🏷️ اور جب فقہ کا علم سیکھنا چاہا تو دیکھا کہ مغیرہ بن مقسم علم فقہ میں سب سے بڑے ماہر ہیں، تو ان سے پڑھنا شروع کیا۔

📕 (سیر اعلام النبلاء: 495/8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات سے پتا چلتا ہے کہ اہل علم کے یہاں طلب علم کا طریقہ اور منہج کیا تھا۔
پہلی بات یہ کہ علم شرعی چند ماہ یا سال دو سال کے ڈپلومے کرنے یا شارٹ کورسز سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے سالہا سال علماء ومشایخ کے پاس جانا اور پڑھنا پڑتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ عہد سلف اور ائمہ حدیث کے یہاں طلب علم کا یہ منہج تھا کہ ہر فن اس کے ماہر سے پڑھا اور سیکھا جائے، تبھی اس علم میں مہارت ہوتی اور علمی رسوخ پیدا ہوتا ہے۔


https://www.facebook.com/share/p/1EFZBxY3bv/?mibextid=wwXIfr

Dr. Ajmal Manzoor📚

12 Jan, 14:10


📝 کچھ قیمتی الفاظ، اگر آپ ان پر عمل کریں گے تو آپ کو نفسیاتی سکون ملے گا اور آپ کو رب کی طرف سے بھی اجر ملے گا، ان شاء اللہ۔

🖊شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ نے فرمایا:

✍🏼️ جو تم سے بغض رکھے، تم سے دشمنی کرے اور تم سے دوری اپنائے

✍🏼️ تو تم اس کے ساتھ اسکے برعکس سلوک کرو تاکہ ثواب حاصل ہو، اور نیک کردار کے مالک بن جاؤ، بعجلت تمام دل کی تسلی میسر ہو، اور شاید دشمنی کی فکر سے بآسانی چھٹکارا حاصل ہو جائے،

✍🏼️ ممکن ہے ایک دشمن دوست اور ایک نفرت کرنے والا محبت کرنے والا بن جائے، جیسا کہ یہی حقیقت ہے۔

✍🏼️ سو انکی غلطیوں کو اللہ کی خاطر معاف کر دو؛ کیونکہ جو بندوں کو معاف کر دے گا، اللہ اسے معاف کر دے گا،

✍🏼️ اور جو ان سے در گزر کرے گا، اللہ اسے در گزر کر دے گا،

✍🏼️ اور جو ان کے ساتھ سخاوت کرے گا، اللہ اس کے لیے سخاوت کرے گا، اور یہی اصول ہے کہ بدلہ اسی عمل سے ملتا ہے۔

📚[الرياض الناضرة: 190]

Dr. Ajmal Manzoor📚

08 Jan, 19:09


🎓 شیخ عبدالرزاق البدر حفظہ اللہ نے کہا کہ

✍🏼️ جب بعض اہل بدعت اور اہل ضلالت اہل علم وفضل میں سے کسی کی عیب جوئی یا ان پر طعن و تشنیع کرنا چاہتے ہیں یا انہیں بدنام کرنا چاہتے ہیں

✍🏼️ تو اس کے بارے میں لوگوں کے درمیان جھوٹے پروپیگنڈے پھیلانا اور اس پر جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں

✍🏼️ تاکہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور اس کی طرف توجہ نہ دیں،

✍🏼️ بہت سارے ائمہ علم و فضل کو اس آزمائش سے گزرنا پڑا ہے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

08 Jan, 19:08


(28) سروری منہج ایک ایسا منہج ہے جس نے عوام الناس کو مسلم حکام سے توڑنے اور قطع تعلق کرنے کا کام کرتا ہے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

08 Jan, 19:08


سروری منہج ایک خطرناک پراسرار منہج ہے!

سروری منہج اس وقت طلبہ اور علماء پر ایک پر اسرار خطرہ اور چیلنج بن چکا ہے، سو اب ضروری ہو گیا ہے کہ اسکے مغالطہ آمیز اصول ومنہج کو ایکسپوز کیا جائے اور شرعی دلائل کی روشنی میں علم و حکمت اور بصیرت کے ذریعے سروری اخوانیوں کو ننگا کر دیا جائے تاکہ لوگ انکے سنگین خطرات سے آگاہ ہوسکیں، اسکے لئے انکے درج ذیل منحرف اصولوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :

(1) سروری منہج یہ اخوانی قطبی فکر کا ملغوبہ ہے۔

(2) سروری منہج ظاہر میں سلفی منہج اور باطن میں اخوانی منہج ہے۔

(3) سروری منہج کے پیروکار علمائے اہل سنت کا نام لے کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں؛ تاکہ انہیں اخوانی منہج کے قریب لا سکیں۔

(4) سروری منہج دراصل محمد سرور زین العابدین کے ہاتھوں پروان چڑھا ہے جس کے اندر یہ کوشش ہوتی ہے کہ حسن بنا کی سیاسی فکر اور عقیدہ سلف کے درمیان تطبیق کی کوشش کی جائے جیسا کہ محمد سرور کا گمان ہے۔

(5) سروری منہج کے مطابق اہل بدعت اور مخالفین اہل سنت پر رد کرنا اور انہیں ایکسپوز کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ یہ اس اخوانی قاعدے کے خلاف جاتا ہے جسے حسن بنا نے گڑھا ہے کہ متفقہ امور میں ہم ایک دوسرے کا تعاون کریں گے اور مختلف فیہ امور میں ہم ایک دوسرے کو معذور سمجھیں گے۔ اور یہ قاعدہ معذرت اور تعاون والے اصول سے معروف ہے۔

(6) سروری منہج کے مطابق مسلم حکام کے لیے سمع و طاعت کا مسئلہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

(7) سروری منہج کے مطابق مسلم حکام کے خلاف خروج و بغاوت کرنا جائز ہے؛ کیونکہ ان کے یہاں یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔

(8) سروری منہج ایک ایسا منہج ہے جس کی دعوت توحید حاکمیت پر قائم ہے نہ کہ توحید الوہیت پر۔

(9) سروری منہج کے مطابق شیعہ روافض کا مقابلہ اس مقصد کے لیے کیا جاتا ہے جس سے لوگ یہ سمجھیں کہ ان کا تعلق اہل سنت والجماعہ سے ہے اور لوگ انکے قریب آسکیں۔

(10) سروری منہج نے بعض طلبہ کی تربیت بعض علماء اہل سنت کی نگرانی میں اخوانی منہج کے مطابق کرتا ہے تاکہ وہ طلبہ سروری بن کر کے نکلیں۔

(11) سروری منہج کا مقصد اونچے عہدوں تک پہنچنا اور علمائے اہل سنت کے جانے کے بعد ان کی سیٹوں کو پر کرنا ہے تاکہ دینی عہدوں پر اخوانی مکتبہ فکر سے نمائندگی کی جائے۔

(12) سروری منہج عوام الناس کو علماء سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے یہ گھٹیا دعوی کرتے ہوئے کہ علماء کی زبان عوام الناس کے لیے مناسب نہیں ہے۔

(13) سروری منہج کے پیروکاروں کو آپ کبھی بھی اخوانیوں، قطبیوں اور تکفیریوں پر نکیر کرتے ہوئے نہیں پائیں گے۔

(14) سروری منہج کے پیروکار ٹیلی ویژن پر مختلف فریبی اسلوبوں کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں چنانچہ یہ ایک طرف قتل و خوریزی کا انکار کریں گے مگر ان لوگوں پر کبھی بھی نکیر نہیں کریں گے جو اسلام کے نام پر قتل خونریزی مچاتے ہیں۔

(15) سروری منہج کے فریبی اسلوبوں میں سے ایک فریبی اسلوب یہ بھی ہے کہ یہ سمع وطاعت کو تسلیم کرتے ہیں مگر مسلم حکام کے لیے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے مرشد کے لیے یا پھر خلافت عامہ کے لیے۔

(16) سروری منہج اس وقت تعلیمی اور تربیتی منہج ہوتا ہے جب تک انہیں خروج و بغاوت اور خونی انقلاب برپا کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے اور یہ انقلابی منہج ہو جاتا ہے اس وقت جب یہ خروج و بغاوت اور خونی انقلاب برپا کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔

(17) سروری منہج کے افراد اپنے منہج کو علمی سلفی منہج یا اخوانی سلفی منہج یا کٹر سلفی منہج کا نام دیتے ہیں جب کہ سلف ان سے بری ہیں۔

(18) اخوانی منہج کا خطرہ اگر سنگین ہے تو سروری منہج کا خطرہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

(19) سروری منہج کے پیروکار بظاہر یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا منہج تعلیمی اور پرامن ہے جبکہ حقیقت میں یہ بھڑکاؤ اور خونی انقلابی منہج ہے۔

(20) سروری منہج کے مطابق مدارس کے اندر بظاہر اہل سنت کی کتابوں کو پڑھایا جاتا ہے مگر اسے سروری فکر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(21) سروری منہج کے بعض افراد اہل سنت والجماعہ کے ہاتھوں لکھی گئی عقیدے کی کتابوں پر نقد کرتے ہیں اور انہیں بے وقعت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(22) سروری منہج کے اکثر سرغنے اور پیروکار اخوانی مرشدوں اور سرغنوں کی مداح سرائی کرتے ہیں۔

(23) سروری منہج کے پیروکار علمائے اہل سنت پر طعن وتشنیع کرتے ہیں اور انہیں برے القاب سے نوازتے ہیں۔

(24) سروری منہج ایک ایسا منہج ہے جو نوجوانان امت کو غیر شرعی جہاد کی تربیت دیتا ہے۔

(25) سروری منہج نوجوانان امت کو حکام کی اجازت کے بغیر ہجومی جہاد کے لیے فتنوں کی جگہوں پر بھیجتا ہے۔

(26) سروری منہج تحفیظ قرآن اور علمی مسابقوں کے مراکز کے نام پر نوجوانان امت اور نونہالان قوم کو تکفیری تربیت دیتا ہے۔. (27) سروری منہج ایک حزبی منہج ہے جو کتمان راز اور اور پراسراریت پر مبنی ہے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

06 Jan, 15:45


صراط مستقیم کانفرنس

صوبائی جمعیت اہلحدیث ممبئی اور جامع مسجد اہلحدیث مومن پورہ کے زیر اہتمام بتاریخ 5/جنوری بروز اتوار بمقام جھولا میدان بعد نماز عصر "صراط مستقیم کانفرنس" زیرصدارت شیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ (امیر صوبائی جمعیت اہلحدیث ممبئی)منعقد ہوئی اور 10/بجےشب کو اختتام پذیر ہوئی۔پہلی نشست دورۂ علمیہ صبح مسجد میں منعقد ہوئی اور ظہر سے پہلے اختتام پذیر ہوئی۔یہ نششت علماء,ائمہ و دعاۃ کے لئے خاص طور پر رکھی گئی تھی۔دورۂ علمیہ کے محاضریں کا انتخاب ان کے علمی و منہجی شعور اور خدمات کے پیش نظر ہوا تھا۔کانفرنس کا یہ موضوع(صراط مستقیم) سورہ فاتحہ کی آیت "اھدنا الصراط المستقیم"سے ماخوذ تھا،یعنی اے اللہ مجھے سیدھے رستے کی ہدایت فرما۔
کانفرنس کے ذیلی موضوعات اس مرکزی عنوان کے گرد گھوم‌ رہے تھے،عنوانات انتہائی گرانقدر اور بصیرت پر مبنی تھے،مقصد اس عظیم شاہراہ کی نشاندہی اور کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے اصول و ضوابط کو مبرہن کرنا تھا۔خطباء نے دلائل و براہین کی روشنی میں اپنے موضوع کے حوالے وقیع معلومات اور گرانقدر نصائح ارشاد فرمائیں جن کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں،توحید "صراط مستقیم" کی اساس ہے،یہ شریعت کا مہتم‌ بالشان مسئلہ ہے جس کی صحت و پختگی زندگی میں خیر و برکت کی بہار لاتی ہے،یہ کامیابیوں و کامرانیوں کی شاہ کلید ہے۔امت انتشار اور افتراق کے بدترین دور سے گذر رہی ہے،باہمی اختلافات روز افزوں ہیں،نفرت کی خلیج بڑھتی اور وسیع ہوتی جارہی ہے،اس کی وجہ اس حقیقی راہ سے اعراض و برگشتگی ہے جس پر امت مسلمہ کا اولین قافلہ چلا تھا،ہمارے سلف کا غیر معمولی اتحاد صراط مستقیم پر چلنے کےسبب رب کی طرف سے عطا و بخشش تھی۔اس کے بغیر جو اتحاد وجود میں آئے گا وہ ایک ہلکی ٹھوکر سے پارہ پارہ ہوجائے گا۔سررشتۂ دین جب سے ہاتھوں سے پھسل گیا مسائل و مشکلات کے گرداب میں یہ امت ڈوبتی چلی گئی،اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام‌رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معیار حق بنایا تھا اور کتاب و سنت کے نصوص اس کی طرف ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔صحابہ کا اسوہ ہوتے ہوئے امت اندھیروں میں ٹانک ٹویئے مار رہی ہے،صحابہ کے طریقے سے زیادہ اقرب الی الصواب طریقہ کس کا ہوسکتا ہے جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں اپنی صبح و شام گذاری اور آپ کی رہنمائیوں میں اپنے عقیدہ و عمل کو استوار کیا۔
امت کی ایک بہت بڑی بدنصیبی بدعات و محدثات ہیں،جب صراط مستقیم سے قدم‌ بہکتے ہیں تو بدعتوں کے خارزار میں الجھتے ہیں۔یہ قدرت کی سزا ہے جو طریقۂ سلف کی ناقدری میں انسان کو ملتی ہے۔
ان تمام بربادیوں سے نجات کی واحد راہ جادۂ مستقیم ہے جس کا سوال ہر مسلمان سورہ فاتحہ کی قرات میں کرتا ہے۔صراط‌ مستقیم توحید اور اتباع پر مبنی ہے،جو توحید کے صحیح شعور ہمکنار ہوگا اور اتباع رسول کی ڈگر پر چلےگا وہ عقیدہ و عمل کی حقیقی نعمت سے ہمکنار ہوگا۔
حق و ہدایت کی وہ روشن شاہراہ کئی دائروں میں منقسم نہیں ہے،یہ صرف ایک دھوکہ ہے کہ حق کئی خانوں میں بٹا ہوا ہے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ۔
ترجمہ:یہ میرا سیدھا راستہ ہے،اسی کی پیروی کرو دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو وگرنہ راہ حق سے بھٹک جاؤگے،اللہ تعالیٰ اس سیکولر سوچ کی نفی کی ہے جس کے ظاہر فریب بیانیے سے آج لوگ دھوکہ کھارہے ہیں،صراط مستقیم ہر زمانے اور ہر دور میں ایک رہا ہے،جس طرح طائفہ منصورہ اور فرقۂ ناجیہ ایک ہے۔
یہ گرانقدر باتیں اور اعلی و ارفع نصیحتیں کانفرنس میں مدعو‌ معزز اور بلند پایہ علماء کرام و خطباء عظام نے پیش کیں،فضیلۃ الدکتور عبدالقیوم بستوی،فضیلۃ الشیخ ظفر الحسن مدنی،فضیلۃ الشیخ ابو رضوان محمدی،فضیلۃ الاخ ابو زید ضمیر،فضیلۃ الشیخ یاسر الجابری،فضیلۃ الشیخ محمد رحمانی،فضیلۃ الشیخ عبدالحکیم مدنی حفظہم اللہ اس موقر کانفرنس کے خطباء تھے جو ملک و جماعت میں اپنے حسن خطابت اور علمی رسوخ کے لئے جانے جاتے ہیں،درمیان میں کانفرنس کے صدر محترم حفظہ اللہ کے صدارتی کلمات اور زریں نصائح مبنی ایک خطاب ہوا جسے بہت پسند کیا گیا۔نظامت کے فرائض فضیلۃ الشیخ ظہیر سنابلی اور فضیلۃ الشیخ انصار زبیر محمدی حفظہما اللہ نے ادا کئے۔جھولا میدان‌میں جذبوں کا سیلاب موجیں ماررہا تھا،سامعین کثیر تعداد میں دور دراز سے تشریف لائے ہوئے تھے،ہمہ تن گوش ہوکر تمام خطباء کو سن رہے تھے۔خواتین کا پنڈال بھی فل ہوچکا تھا۔صوبائی جمعیت ممبئی اور جامع مسجد مومن پورہ کے ذمے داران از اول تا آخر کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے دل و جان سے لگے رہے اور کانفرنس ہرسال کی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی،اللہ تعالی سب کی کاوشوں کو قبول فرمائے آمین۔

https://www.facebook.com/share/p/1BTszxnn1w/?mibextid=wwXIfr

Dr. Ajmal Manzoor📚

03 Jan, 15:36


صوبائی جمعیت ممبئی کا دورۂ علمیہ

علمی مجالس زندہ قوموں کی ضرورت ہیں،کسی مجلس میں علماء کا اجتماع ایک ایساسنگم ہے جہاں علم،تجربہ،تحقیق،معرفت،رہنمائی ایک ساتھ جمع ہوجاتی ہیں،جہاں افادہ اور استفادہ کا چلن ہوتا ہے وہاں علمی مناسبات بیدار مغز شخصیات کی ترجیح ہوتی ہیں،سلف اس روایت کے پاسدار تھے،بالخصوص اکابر علماء کی رفاقت کے چند لمحے بھی ان کے نزدیک درہم و دینار سے زیادہ قیمتی ہوتے تھے،ان کے گداز صحبتوں کی خنک چھاؤں میں انہیں روحانی سکون ملا کرتا تھا،ان کے علمی حلقوں میں علوم و فنون کی جوئے رواں بہتی تھی،ان کی مجالس میں ہزاروں کی تعداد میں علم کے جویا شریک ہوتے تھے،امام بخاری رحمہ اللہ کی مجلس میں میلوں سفر طے کرکے علم کے شائقین آیا کرتے تھے،امام شافعی امام مالک کی مجلس کی زینت اور امام احمد بن‌حنبل امام شافعی کے درس حدیث میں شریک ہوتے تھے،قلوب نکھرتے اور اذہان نتھرتے تھے،علوم کا ساکن‌ دریا ٹھاٹھیں مارتا تھا،حرم پاک میں‌ آج بھی شیوخ کے علمی حلقوں میں علماء کثیر تعداد میں ہوتے ہیں،صوبائی جمعیت اہلحدیث ممبئی کا دورۂ تدریبیہ اسی علمی روایت کا تسلسل ہے جو زمین پر علمی ستاروں کا ایک کہکشاں سجا دیتا ہے،علم و تحقیق کے شناور حکمت و دانائی کے موتی رولتے ہیں،"صراط مستقیم کانفرنس" کے ساتھ نصف یوم کی یہ تربیتی مجلس ایک پورے علمی نصاب پر مشتمل ہے بالخصوص منہج سلف پر اس کے چمکتے دمکتے موضوعات اس مجلس کی قدر و قیمت کو دوبالا کردیتے ہیں۔تفصیل اشتہار میں دیکھی جاسکتی ہے۔👇👇👇

Dr. Ajmal Manzoor📚

03 Jan, 15:01


حذيفة بن اليمان رضی اللہ عنه فرماتے ہیں:

ایسا زمانہ آئے گا کہ تین چیزیں نادر الوجود ہوں گی:

1- ایسا مخلص دوست اور بھائی جس کی ہم نشینی اور رفاقت باعث انس و سکون ہو.

2- حلال روزی.

3- سنت پر عمل کرنا.

[مكارم الأخلاق للخرائطي (246/1)]

https://www.facebook.com/share/p/2SimYPqyvzjncnPB/?mibextid=wwXIfr

Dr. Ajmal Manzoor📚

01 Jan, 07:00


✍🏼️ مسلمان‌ ہوکر عقیدہ و عمل میں صحیح راہ پر نہ ہونا ساحل پر کھڑے ہو کر پیاسا رہنے جیسا ہے۔

✍🏼️ جو لوگ دین کو ہلکے میں لیتے ہیں اور دین کے معاملے میں تساہل برتتے ہیں،

✍🏼️ گرد و پیش میں نظر آنے والے لگے بندھے طریقوں پر جم جانے کو کافی سمجھ لیتے ہیں

✍🏼️ ان کا دینی شعور اور فکری آگہی ظاہری اور سطحی معیار کا ہوتا ہے،

✍🏼️ دل میں اٹھنے والے سوالات کو دل میں دبا دیتے ہیں،روح پر چبھنے والے شک کے کانٹوں پر دھیان نہیں دیتے۔

✍🏼️ ابرہیم علیہ السّلام کی طرح ستارے کے بعد چاند اور چاند کے بعد سورج اور سورج کے بعد حقیقی رب تک رد و قبول کا سفر طے نہیں کرتے،جامد ذہنوں پر فکر کی ضرب نہیں لگاتے۔

✍🏼️ سچی جستجو کے رخ پر ایک دو قدم چلنا بغاوت خیال کرتے ہیں،وہ کبھی دین کی صحیح راہ تک نہیں پہونچ سکتے۔

✍🏼️ مناہج کثیرہ میں منہج حق کی یافت ایک خاص کیفیت اور ٹھہراؤ کا نام ہے جس کے بعد ضمیر خود حق کی شہادت دیتا ہے،

✍🏼️ جب فکری سفر اس مقام پر قدم‌ رکھتا ہے جہاں روح میں یقین کا سرور اور دل میں اطمینان کی ٹھنڈک اترنے لگے،

✍🏼️ جہاں آپ کو دل میں اٹھنے والے سوالات کے جواب ملنے لگیں،آپ کے باطن سے یہ صدا اٹھے کہ "ان ھذا لھو حق الیقین"۔۔۔۔تب سمجھ لیں کہ آپ حق کی پناہ میں آچکے ہیں۔تلاش حق کا سفر تمام‌ ہوچکا ہے۔

✍🏼️ "صراط مستقیم"پر آپ کے قدم پڑچکے ہیں۔یہ سعادت ان کو ملتی ہے جو تلاش حق کا جوکھم اٹھاتے اور قبول حق کی قیمت چکانے کا جگر رکھتے ہیں۔

https://www.facebook.com/share/p/1Dm46kEZqCBAdhz8/?mibextid=wwXIfr

Dr. Ajmal Manzoor📚

31 Dec, 11:27


شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله خواج وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عام طور پر جتنے بھی فتنوں کا ظہور ہوتا ہے اس کا دو بنیادی سبب ہے:
1 - کم علمی و جہالت.
2 - بے صبری و جلد بازی.
[المستدرک علی مجموع الفتاوی (5/ 127)]


https://www.facebook.com/share/p/DkbjkxwS7TvYwsun/?mibextid=wwXIfr

Dr. Ajmal Manzoor📚

31 Dec, 05:16


🎓 شیخ محمد امان الجامی - رحمہ اللہ - نے فرمایا:

✍🏼️ شرک سے حفاظت عزیز ہے لیکن اس کا ادراک وہی لوگ کر سکتے ہیں جو توحید کی حقیقت اور شرک کی حقیقت کو جانتے ہیں۔

🎙️ [[شرح قرة عيون الموحدين الشريط (١٠ الشرح ٢)]
.

Dr. Ajmal Manzoor📚

26 Dec, 11:35


🎓 شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے کہا:

✍🏼️عثمانی حکومت یعنی ترکوں کے پاس خرافات اور مزاروں کی بھرمار تھی،

✍🏼️ ان کے یہاں تصوف اور بدعات کا جھمیلا تھا؛

✍🏼️ اسی لیے انہیں ڈر ہوا کہ کہیں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت ان کے ملکوں تک نہ پہنچ جائے؛

✍🏼️ اسی لیے انہوں نے سعودی حکومت سے جنگ کیا۔

📕 (الإجابات الفاصلہ، ص 39)

Dr. Ajmal Manzoor📚

26 Dec, 05:37


🎓 شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

✍️ توحید ہی اصل دین ہے اور اسی پر ملت اسلامیہ کی بنیاد ہے،

✍️ یہ سب سے عظیم اور افضل عمل ہے یہ سارے اعمال کی اساس ہے،

✍️ بغیر توحید کے کوئی بھی نیک عمل مقبول نہیں ہے،

✍️ جس عمل میں توحید خالص نہیں ہو وہ عمل باطل اور مردود ہے یعنی کوئی بھی نیک عمل اسی وقت قابل قبول ہے جب توحید اور عقیدہ درست ہو،

✍️ اگر عقیدہ توحید درست نہیں ہے تو پھر چاہے کتنا ہی نیک عمل کیوں نہ کر لیا جائے وہ قابل قبول نہیں ہے۔

📕 ("کتاب التوحید" کے درس کے دوران شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا قول)

✍️ اردو مفہوم: عابد جمال الدین سلفی

Dr. Ajmal Manzoor📚

22 Dec, 06:27


📝 فہم سلف کی ضرورت و اہمیت

✍️ نصوصِ شریعت کے فہمِ صحیح کے لزوم پر عمل کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ شر و برائی اور نقصان نیز افتراق وانحراف کا بنیادی سبب نصوص کا صحیح فہم حاصل نہ کرنا ہے۔

✍️ اور نصوص شریعت کا صحیح فہم سلف صالحین کے پاس ہے اور یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں جنہوں نے بلا واسطہ نصوصِ شریعت کا فہم شارع اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا ہے،

👈🏻 سو لازم ہے کہ ہم شریعت اسلامیہ کو اسی طرح سمجھیں جیسا کہ صحابہ کرام نے سمجھا ہے، اور انہیں کے فہم کی روشنی میں اسکی طرف دعوت بھی دیں،

🎓 شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

✍️ ''اکثر بدعات کے وجود کا سبب یہی تھا کہ لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو صرف اپنے ہی دعووں پر محمول کرنا شروع کردیا کہ یہ ان کے دعوے پر دلالت کرتا ہے، حالانکہ بات یہ نہ تھی۔''
📕 (مجموع الفتاوی : 7/ 116

Dr. Ajmal Manzoor📚

22 Dec, 04:51


✍️ ابو الحسن ندوی کی حقیقت!

🎓 علامہ حماد انصاری رحمہ اللہ نے کہا کہ

✍️ ابو الحسن ندوی ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے سربراہوں میں سے ہیں، نقشبندی صوفی سلسلے سے منسلک ایک متعصب حنفی اور فصیح اللسان (قلمکار) ہیں،

✍️ ہندوستان کے اپنے سفر میں میری ملاقات ان سے ہوئی تھی... وہ بڑے ہی چالاک اور چتر انسان ہیں۔

📕 (المجموع، ص 601)

Dr. Ajmal Manzoor📚

21 Dec, 14:25


كان الرجال يغارون على وجوه نسائهن ،بل حتى أسمائهن
أمّا اليوم فالبعض لا يغارون حتى على اجسامهن .



✍️ نقاب یعنی شرعی پردے کی قدر وقیمت صرف دو ہی لوگ سمجھ سکتے ہیں :

👈🏻 ایک غیرت مند مرد اور دوسرے با وقار اور پاکدامن عورت۔

✍️ پہلے کے لوگ اپنی عورتوں کے چہروں پر ہی نہیں بلکہ ان کے ناموں پر بھی غیرت دکھاتے تھے

✍️ مگر آج کل بعض لوگ ان کے جسموں پر بھی غیرت نہیں دکھاتے ہیں۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

19 Dec, 20:12


📝 جاہل اس مکھی کی طرح ہے جو صحت مندوں کو چھوڑ کر بیماریوں پر بیٹھتی ہے۔ (منہاج السنہ : 2/ 438)۔

✍️ چنانچہ جس طرح ایک مکھی کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں ہوتی ہے اسی طرح ایک جاہل کو بھی حق اور باطل کی تمیز نہیں ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی جہالت کی وجہ سے باطل اور غلط چیزوں ہی میں واقع ہوتا ہے۔

✍️ اس سے ہمیں یہ سیکھ ملتی ہے کہ دین کا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اسے اچھی طرح سیکھیں اور اس کا حقیقی علم حاصل کریں تاکہ صحیح سے اس پر عمل کر سکیں اور دوسروں کو بھی اس کی طرف دعوت دے سکیں ورنہ مکھی جیسی حالت ہوگی
۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

17 Dec, 16:41


🎓 علامہ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ

✍️ علامہ البانی رحمہ اللہ نے دین اسلام کی وہ خدمت انجام دی ہے کہ جو کئی ممالک مل کر نہیں انجام دے سکتے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

16 Dec, 06:59


https://youtu.be/obdAzyr-i1Q

🔰Fb Link
https://www.facebook.com/share/v/14ibeQ83zr/

Dr. Ajmal Manzoor📚

16 Dec, 05:06


عقیدہ_توحید_کی_چند_بنیادیں_دکتور_عبد_اللہ_الشریکہ_مترجم_دکتور_اجمل.pdf

Dr. Ajmal Manzoor📚

15 Dec, 16:01


🎓 امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ابراہیم بن ادہم کے پاس آتے اور کہتے کہ

✍️ اے ابراہیم! دعاء کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ توحید پر کرے۔

📕 (الثبات عند الممات لابن الجوزی، ص 80)۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

15 Dec, 08:44


https://youtu.be/2OMBXKSaIOo

🔰Fb Link:
https://www.facebook.com/share/v/15SkPHJ3Wk/

Dr. Ajmal Manzoor📚

15 Dec, 00:08


خوارج عصر داعش کے اصول.pdf

Dr. Ajmal Manzoor📚

13 Dec, 16:35


🇸🇦 ’’بنی نوع انسان کی اہم ترین ضرورت توحید ہے۔

✍️ اس کو توحید کی ضرورت ہوا، پانی اور غذا سے بھی زیادہ شدید ہے۔

✍️ ہوا، پانی، غذا اس کے جسم کی زندگی کے لئے ضروری ہیں جبکہ توحید اس کے قلب کی زندگی اور دنیا و آخرت میں اس کی سعادتوں کے لئے ضروری ہے۔

✍️ ہوا، پانی اور غذا نہ ملے تو انسان صرف دنیا کھو بیٹھتا ہے لیکن جس کا دل توحید سے خالی ہو، اس کی دنیا و آخرت سب برباد ہے۔‘‘

🎓 فضیلتہ الشیخ عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر حفظہ اللہ
ترجمہ: ام امامہ

Dr. Ajmal Manzoor📚

11 Dec, 21:00


https://archive.org/details/deen-ke-3-buniyadi-usool

Dr. Ajmal Manzoor📚

11 Dec, 18:54


میں نے پہلے ہی دن کہا تھا کہ سیریا دوسرا لیبیا بن سکتا ہے (لا قدر اللہ)، اور بالکل وہی ہونے والا ہے، ناٹو ممالک جن کی پلاننگ سے سابق حکومت اور فوج اور دیگر ملیشیاؤں کو ہٹا کر مسلح گروپوں کو اقتدار سونپا گیا ہے یہ سارے ممالک سیریا کے نیچورل ریسورسیز پر قبضہ کریں گے اور بانٹ کر اپنے اپنے ملک سپلائی کریں گے، دوسری طرف تاکہ سیریائی حکومت کسی کے خلاف کای طرح کا کوئی ایکشن نہ لے سکے پہلے یی سے اس کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے چنانچہ جدید ٹیکنالوجی کے جتنے وسائل اور طاقت کے سامان ہوسکتے ہیں ان سب کو ایک ایک کرکے خسراییل تباہ کر رہا ہے کچھ علاقوں پر قبضے بھی کر رہا ہے بلکہ خبر تو یہ بھی ہے کہ خسراییلی ٹینک دمشق کے قریب پہونچ چکے ہیں، ترکی کچھ علاقوں پر قبضہ کرے گا، کرد ملیشیائیں شمالی سیریا پر قبضے جما رہی ہیں امریکی تحفظ میں، مسلح خارجی گروپوں میں سے کچھ گروپ لاذقیہ اور دیگر علاقے پر قبضہ جما رہے ہیں، اس طرح سیریا کا مکمل سیناریو لیبیا جیسا ہوتا جا رہا ہے.. اللہ خیر کرے...

Dr. Ajmal Manzoor📚

29 Nov, 02:38


علامہ اسماعیل سلفی گجرانوالہ رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ "جب بھی یہ شخص علم کی معروف شاہراہ پر چلا تو بٹھک گیا ہے "حقائق اس بات پر حرف بحرف صادق آرہے ہیں کہ صاحب نے تفسیر لکھی اور تفسیر بالرائے کی بدترین مثال قائم کی ،منکرین حدیث پر رد کرنے چلے تو تعقل پسندی کا شکار ہوکر سنت میں تشکیک اورانکارکے چور دروازے کھولے ،صحابہ کرام کی خلافت وملوکیت پر لکھنا شروع کئے تو ان کے دشمنان کے پالے میں جاکر ان کی عظمتوں کو مٹاتے ہوے ان پر اتہامات واعتراضات کا اسقدر بازار گرم کرتے ہیں کہ دشمن خوش ہوکر شاباشی دیتا ہے ،فروعی مسائل میں تقلید کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوتے ہیں چنانچہ رفع الیدین کو برحق اور ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھتے ہیں لیکن برصغیر میں حنفی مسلک کی کثرت کے باعث اقامت دین کاخواب دیکھنے کے باوجود وہ رفع الیدین جیسے فرعی مسئلہ پر عمل کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کون سے پیر ومرشد ہیں؟

Dr. Ajmal Manzoor📚

28 Nov, 06:43


✍️ مودودی نے اپنی تفسیر میں جابجا "استوی علی العرش" کا ترجمہ "اللہ تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوا"یا اسی سے ملتے جلتے الفاظ سے کیا ہے،

✍️ یہ ترجمہ ان کے اسلام کے سیاسی تصور سے میل کھاتا ہے اور "استواء"کے ان کے گمراہ کن نظریے کی رعایت بھی کرتا ہے،

✍️ استواء کا معنی علماء سلف نے "ارتفع و علا" سے کیا ہے یعنی اللہ عرش پر بلند ہوا،دوسرے معانی و مفاہیم صفات کے باب میں تشبیہ و تکییف کے راستے پر لے جاتے ہیں جو سراسر گمراہی ہے۔

✍️ مترجم‌ و مفسر کس طرح قرآن‌ کے ترجمے و تفسیر میں ڈانڈی مارتا ہے؟

✍️ اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں،پورے تفہیم القران کے بین‌السطور میں اسی قسم کے انحرافات کی بجلیاں کوند رہی ہیں،

✍️ جان لیجئے کہ اس قسم کی تلبیسات و اغلوطات کو علماء ہی پکڑسکتے ہیں لہذا اس قسم کی کتابوں سے تحذیر ہونی چاہیے،

✍️ فتنوں کے دور میں علماء کی نگرانی میں رہنے کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ ایمان خطروں سے محفوظ رہے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

28 Nov, 02:36


🎓 شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا کہ

✍️ علماء اور دعاۃ کو چاہیے کہ وہ لوگوں سے توحید الوہیت کی حقیقت بیان کریں،

✍️ اور اسی طرح توحید الوہیت اور توحید ربوبیت و توحید اسماء و صفات کے درمیان فرق واضح کریں؛

✍️ کیونکہ غیروں سے پہلے مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ اس سے نابلد ہیں۔

📕 (مجموع الفتاوی :7/ 45

Dr. Ajmal Manzoor📚

27 Nov, 14:38


منہج سلف کوئی چیستاں نہیں ہے جو فہم و ادراک سے باہر کی چیز ہو،منہج سلف کوئی پہیلی نہیں ہے کہ ہر لال بجھکڑ اپنے دماغ سے اس کا مطلب طے کرے گا،یہ کوئی فلسفہ بھی نہیں ہے کہ رازی و غزالی کی تلقین کی ضرورت پڑتی ہے،یہ کوئی سائنسی تھیوری نہیں ہے کہ سٹیفن ہاکنگ اور آئن سٹائن کی تشریحات کی طرف ہم کو رجوع ہونا پڑے گا،جس طرح دین کا فہم آسان ہے بالکل اسی طرح منہج سلف بھی‌آسان فہم ہے،یہ "لیلھا کنھارھا" کے مصداق ہے،اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے،اس کا سیدھا اور بلاکم‌ و کاست مفہوم یہ ہے کہ کتاب وسنت کو صحابہ کے فہم کی روشنی میں سمجھنا ہے اور دین پر صحابہ کے طریقے کےمطابق عمل کرنا ہے،یہی صراط مستقیم بھی ہے،شریعت کی یہ کسوٹی کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتی ہے،موتیوں کو خزف ریزوں سےجدا کرتی ہے،انحرافات و تلبیسات کے اس پر آشوب دور میں یہی دین صحیح کی حقیقی تعبیر ہے،اس کا دامن تھام لینے کے بعد تقلید،تشیع ،تصوف،تجدد،تعقل، تشکیک اور الحاد کی پرخار راہ سے ہمارا راستہ خود بخود الگ ہوجاتا ہے۔

رشید سمیع سلفی

Dr. Ajmal Manzoor📚

24 Nov, 09:13


توحید ہماری زندگی کی متاع گرانبہا ہے جو زندگی کے ہر تقاضے پر مقدم ہےلیکن عقیدوں میں اس کا زور باقی نہ ہو تو ایک کنارے سے سے دوسرے کنارے تک پوری فضا سرد نظر آئے گی،توحید کی سرشاری کا منظر الگ ہوتا ہے،بادۂ ایمان کے متوالوں کی ادائیں نرالی ہوتی ہیں،ان کو بازی جیتنے سے زیادہ سر کو کھونے کا جنون ہوتا ہے،ہمارا ہر عمل و کردار توحید کا آئینہ دار ہوتا ہے،ہماری نقل و حرکت بتاتی ہے کہ توحید کی حرارت ہمارے باطن میں کس ڈگری پر ہے؟ہماری قومی پسپائی کی ایک بہت بڑی وجہ جذبۂ توحید کی سرد مہری اور ناقدری ہے،جب تک توحید سود و زیاں سے آدمی کو بے نیاز نہ کردے،جب تک اللہ کا حوالہ ہر حوالے سے مقدم نہ ہوجائے،جب تک توحید سے بامراد ہونے کی خوشی موت کے ڈر سے زیادہ طاقتور نہ ہوجائے،تب تک انسان توحید کے لطف و لذت کا ادراک نہیں کرسکتا ہے،توحید اللہ کا دیا ہوا وہ نسخۂ کیمیا ہے جہاں زندگی کی ساری الجھنیں سلجھ جاتی ہیں،جہاں ساری پیچیدہ گتھیاں کھل جاتی ہیں۔

جو ایک اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں،جو شک اور اس کے مظاہر سے سخت متنفر ہوتے ہیں،جو کوتاہیوں پر شرمسار اور عقیدے کی مٹتی قدروں کے غمگسار ہوتے ہیں،توحید کا جوش ان کے مساموں سے ابلتا ہے،جسم‌ و روح کے خلیوں میں مچلتا ہے،ایک اللہ کا شعور ان کی کل کائنات ہوتا ہے وہی اس بھری پڑی دنیا میں توحید کے اصل رکھوالے ہوتے ہیں اور دعوت توحید کے علمبردار بھی۔

آپ کی بلیغ تجزیہ نگاری،منظر نگاری،ادبی پر کاری،قلم کی ابر بہاری سب کو حیران‌ و ششدر کردے گی مگر یہ سب کچھ صرف ظہور فرزانگی کے ایک تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،توحید ان لفظی جمع خرچیوں سے بہت اعلی و ارفع شئی ہے،اللہ کی دی ہوئی زبان‌ و قلم پر جب اس کے مدھر نغمے چھڑتے ہیں تو نعمتوں کا شکر ادا ہوتا ہے،اس کی احسان مندیوں کا خراج ادا ہوتا ہے،اس حقیقت عالیہ کو سمجھنے کیلئے زاویۂ نظر کو درست کرنے اور مضغۂ قلب کو وحی کی آنچ سے نرم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

https://www.facebook.com/share/p/JJLmGG6t2nYhLLSU/?mibextid=WC7FNe

Dr. Ajmal Manzoor📚

19 Nov, 21:50


🎓 علامہ زید مدخلی رحمہ اللہ نے کہا:

✍️ ایسے شخص کے تئیں بدگمانی جائز ہے جسکے یہاں اس کے اسباب پائے جاتے ہوں:

1- جیسے کہ وہ شخص جسکے سامنے اگر کسی بدعتی پر کلام کیا جائے اور اس سے عمومی تحذیر کیا جائے تو وہ غصہ ہو جائے۔

2- یا ایسے قرائن اور شواہد پائے جائیں جن سے یہ واضح ہو کہ وہ اہل السنہ کے منہج کو بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

تو پھر اس کی تشہیر نہ کریں اور نہ ہی اس سے حصول علم کی کسی کو ترغیب دیں۔

3- یا آپ پر واضح ہو جائے کہ وہ اہل بدعت کا وفادار ہے، چنانچہ وہ بدعتیوں کو پروموٹ کرتا ہو اور ان کی مذمت نہ کرتا ہو ، لہٰذا اس سے بچو اور دوسروں کو بھی اس سے بچاؤ۔

سچ کہا ہے ایک شاعر نے :
ومهما تكن عند امرئ من خليقة
وإن خالها تخفى على الناس تُعْلَمِ

✍️ ترجمہ : کوئی بھی عادت واخلاق کسی بھی شخص کے پاس ہو وہ اسے کتنا ہی چھپانے کی کوشش کرے لوگوں کو پتہ چل ہہ جاتا ہے۔

📕[الأجوبة الأثرية: ص 96]

Dr. Ajmal Manzoor📚

18 Nov, 19:10


📝 نسأل_الله_العافية_والسلامة

🎓 سیدنا ابن عباس ﺭضی ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ نے کہا :

✍️ دنیا کو قیامت کے روز ایک ایسی کھوسٹ بوڑھی عورت کی شکل میں لایا جائے گا

✍️ جس کے دانت باہر نکلے ہوں گے اور اس کی خلقت مسخ ہوگی،

👈 اسے ساری مخلوق کے سامنے پیش کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا:

👈🏻 کیا تم لوگ اسے پہچانتے ہو؟

✍️ تو لوگ کہیں گے: ہم اس کی معرفت سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں!

✍️ پھر کہا جائے گا: یہ دنیا ہے جس کی بنیاد پر تم نے آپس میں لڑائیاں کیں،

👈🏻 اور جس کی خاطر تم نے رشتہ داریاں کاٹیں

👈🏻 اور جس کی وجہ سے تم نے آپس میں ایک دوسرے سے حقد وحسد اور بغض رکھا،

👈🏻 اور تم جس کے دھوکے میں پڑے رہے۔

✍️ پھر اس دنیا کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا تو وہ پکارے گی:

✍️ اے میرے رب! میرے پیروکار اور میرے پیچھے چلنے والے کہاں ہیں؟

✍️تو اللہ عزوجل کہے گا: اس کے پیروکاروں اور اس کے پیچھے چلنے والوں کو بھی اس کے ساتھ کر دو۔

📕 ﻣﻮﺳﻮﻋﺔ_ﺍﺑﻦ_ﺃﺑﻲ_ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ 5/ 72

Dr. Ajmal Manzoor📚

18 Nov, 18:20


عون الباری للشیخ ربیع حفظہ اللہ
شرح
شرح السنہ للامام البربہاری رحمہ اللہ

درس نمبر 18

اللہ عز وجل کے اسماء وصفات کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ اہل الحديث کا عقیدہ اور دیگر گمراہ فرقے.... دوسرا حصہ

https://www.facebook.com/share/v/15QUkbMtAD/

Dr. Ajmal Manzoor📚

16 Nov, 06:35


🎓 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا کہ

✍🏼️ اللہ کے نزدیک توحید سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہے

✍🏼️ اور شرک سے بڑھ کر کوئی چیز مبغوض نہیں ہے۔

📕(الاستقامة، ص 364)۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

11 Nov, 12:17


عون الباری للشیخ ربیع
شرح
شرح السنہ للامام البربہاری

درس نمبر 11

بدعت کی سنگینی
https://www.facebook.com/share/v/1XZ8ETZPVy/

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Nov, 13:50


واٹساپ چینل پر ملیں
https://whatsapp.com/channel/0029Vaurw1TDDmFRDlR4fM0g

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Nov, 12:04


تعليقات على لامية ابن تيمية رحمه الله
للشيخ زيد بن فالح الربع الشمري
ترجمہ : د/ اجمل منظور المدنی

Dr. Ajmal Manzoor📚

10 Nov, 12:01


https://www.facebook.com/profile.php?id=61559968794261&mibextid=ZbWKwL


Live now by Dr Farooq Abdullah Narayanpuri

Dr. Ajmal Manzoor📚

09 Nov, 09:23


عرض مترجم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلين وبعد.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے، آپ نے دین اسلام اور منہج وعقیدے کی جو لا زوال خدمت کی ہے اسے رہتی دنیا یاد رکھے گی، عقیدے میں آپ نے بہت ساری چھوٹی بڑی کتابیں اور رسالے تصنیف کی ہیں انہیں کے بیچ میں "لامية ابن تيمية" کے نام سے ایک چھوٹا سا منظوم رسالہ بھی ہے جس میں کل 16/ ابیات ہیں، اختصار کے ساتھ جس میں اہم ضروری عقائد آپ نے منظوم شکل میں پیش کردیا ہے۔
اس منظومے کی کئی شرحیں کی گئی ہیں مگر ان میں سب سے مختصر شرح شیخ زيد بن فالح الربع الشمری حفظہ اللہ کی ہے، آپ سعودی عرب کے سلفی عالم دین اور ایک فعال داعی ہیں، العویقیلہ علاقے میں هيئة الامر بالمعروف والنهي عن المنكر کے صدر ہیں، علاقے میں دینی، دعوتی اور عقدی ومنہجی سطح پر آپ کی کوششیں قابل قدر ہیں، دعوت وخطابت کے ساتھ آپ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی سرگرم ہیں، اس منظومے کی شرح کے علاوہ عقیدے ومنہج پر آپ کی چند کتابوں اور رسالوں کے نام یہ ہیں :
1- ثمار التغريد على كتاب التوحيد۔
2- المختصر المفيد على كتاب التوحيد
3- عقيدة المسلم۔
4- الجامع في محاسن الإسلام۔
5- المشتاقون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم۔
6- كنوز قرآنية، بہت ہی عمدہ رسالہ ہے۔
7- فواىد متنوعة ودرر منثورة۔ اس کتاب میں عقیدے اور منہج پر بہت ہی عمدہ فوائد جمع کر دئیے ہیں۔
عقیدے پر مختصر منظوم کلام اور اسکی مختصر شرح کو دیکھتے ہوئے اردو زبان میں بھی اسے لانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ اسکا فائدہ عام ہو جائے۔
اور خوشی کی بات یہ ہیکہ اس ترجمے پر جماعت کے ایک عظیم دانشور سلطان القلم شیخ عبد المعید مدنی حفظہ اللہ کے ہاتھوں لکھی گئی تقریظ بھی زینت بن گئی ہے جس سے اس کتابچے کی اہمیت دو بالا ہوگئی ہے، اللہ شیخ کی علمی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر جمعیت اہل حدیث بھونڈی کا شکریہ ادا نہ کروں جسکی کوششوں سے یہ کتاب زیور طبع ہو کر آپ احباب کے ہاتھوں تک پہونچی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کو نفع بخش بنائے اور اسے منظر عام تک لانے میں جن احباب نے تعاون کیا انہیں اللہ اسکا عمدہ صلہ عطا فرمائے اور اسے ذخیرہ آخرت بنائے، آمین۔
کتبہ
د/ اجمل منظور المدنی

Dr. Ajmal Manzoor📚

05 Nov, 14:09


السلام علیکم ورحمة الله وبركاته،

حالات حاضرہ پر یہ ایک نہایت ہی اہم مضمون ہے۔

اسے خود بھی پڑھیں اور ممکنہ حد تک لوگوں -بالخصوص طلبہ اور دعاۃ- سے شیئر کریں۔

وفقنا الله وإياكم لما يحبه ويرضاه
.

Dr. Ajmal Manzoor📚

04 Nov, 10:49


اگر بندہ سب کچھ جان لے اور اپنے رب کو نہ جانے تو گویا اس نے کچھ نہ جانا۔

أبو حسان المدني
استاذ: Markaz Imam Bukhari Taloli

Dr. Ajmal Manzoor📚

04 Nov, 08:58


راہ سلف سے بھٹکنے کے دو اہم اسباب

امام ابن بطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میرے بھائیو! میں نے اس تعلق سے غور وفکر کیا کہ آخر کس شے نے قوموں کو اہل سنت والجماعت سے نکال کر بدعت جیسے قبیح امر میں مبتلا کر دیا اور جس بنا پر ان کے دلوں پر آفات کے نزول کا باب کھل گیا اور حق کو دیکھنے سے ان کی نگاہیں عاجز رہ گئیں تو میں نے دو چیزوں کو اس کا سبب پایا:

❶ بحث ومباحثہ کرنا، باتوں کو بلا وجہ کریدنا اور لا یعنی امور سے متعلق بکثرت سوالات کرنا۔ سچ یہ ہے کہ عقل مند شخص کو اس کا عدم علم مضر نہیں ہے اور مؤمن کو اس کا جاننا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔

❷ جس کے فتنے سے انسان مامون نہ ہو اور جس کی صحبت دلوں کو خراب کرتی ہو اس کی مصاحبت اختیار کرنا۔
[الابانہ لابن بطہ: ١/ ٣٩٠]

ترجمہ: حافظ علیم الدین یوسف

┈┉┅━━━❁━━━┅┉┈ ‏

Dr. Ajmal Manzoor📚

01 Nov, 18:08


بدعت باقی گناہوں سے بد تر کیوں؟!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونس بن عبید رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو ایک بدعتی کے پاس سے نکلتے ہوئے دیکھا تو کہا: بیٹا! میں تجھے ایک مخنث کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھوں، یہ میرے لیے اتنا تکلیف دہ نہیں جتنا تمھارا ایک بدعتی کے پاس بیٹھنا میرے لیے تکلیف دہ ہے!
ایسے کئی آثار ائمہ سلف سے کتب اصول میں مروی ہیں جن میں بدعت کو معصیت سے بد تر عمل گردانا گیا ہے۔ کیونکہ بدعتی شخص اپنی بدعت کو کار ثواب سمجھ کر اسے نہ صرف چھوڑتا نہیں ہے، بلکہ اس پر کاربند رہتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے اور ان کا دین وایمان برباد کر دیتا ہے۔
جبکہ گناہ اور معصیت میں مبتلا شخص اپنے عمل کو کم از کم گناہ ضرور سمجھتا ہے، اس لیے ندامت اور توبہ کی طرف اس کا رجوع کرنا آسان ہوتا ہے۔
مگر آج عامی ذہن اس فرق کو نہیں سمجھ پاتے ہے۔ اس کے نزدیک شراب پینا زیادہ بڑا گناہ ہے جبکہ کسی بدعت کا ارتکاب اسے اتنا گھناونا عمل معلوم نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ ایک زانی شرابی کو بہت نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا اور اسے اپنے قریب نہیں آنے دے گا، مگر ایک بدعتی اور منحرف کو اپنی مجلسوں میں بلانے اور دوستانے لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔
یہی سوچ آج عام ہے اور اسی کا نقصان ہے کہ بدعات عام ہو رہی ہیں اور بدعتی طبقہ عوام بلکہ خواص کے ہاں بھی مقبولیت پا جاتا یے، کیونکہ وہ اس کی شناعت اور سنگینی سے لا علم یا تجاہل عارفانہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
حالانکہ بدعت اس قدر ضرر رساں شے ہے جو انسان کو ک ف ر تک لے جاتی اور اس کے ایمان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ معروف ہے کہ ایک مرتبہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے شاگردوں نے ان سے کہا کہ استاد جی! آپ ہمیں زیادہ تر عقیدہ توحید ہی کی تعلیم دیتے رہتے ہیں، دوسرے علوم بھی پڑھایا کریں!
یہ سن کر وہ خاموش رہے۔ لیکن اگلے دن تشریف لائے تو کہنے لگے: ایک شخص نے شرک کا ارتکاب کیا ہے اور غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا ہے۔
شاگرد یہ بات سن کر کچھ متعجب تو ہوئے لیکن خاص فکر مند نہ ہوئے اور ایک معمولی بات کی طرح اسے نظر انداز کر کے سبق پڑھنے لگے۔
بعد ازاں شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اصل میں بات جانور ذبح کرنے کی نہیں تھی بلکہ اس شخص نے ایک محرم عورت سے بدکاری کا ارتکاب کیا تھا۔
جوں ہی ان شاگردوں نے یہ بات سنی، بہت لال پیلے ہوئے اور اس شخص پر لعن ملامت کرنے لگے۔۔۔۔ جس پر شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دیکھو! جب تم نے ایک شخص کے شرک اکبر کے متعلق سنا تو تمھیں اتنا غصہ نہیں آیا جتنا زناکاری کی بات سن کر طیش میں آئے، حالانکہ زنا کے باوجود وہ شخص مسلمان ہی رہا، جبکہ شرک اکبر سے تو ایمان ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لہذا ابھی تمھیں عقیدہ پڑھنے کی مزید ضرورت ہے۔

✍🏼 حافᷦــͥــᷫــᷧــⷩـــظ شاہͩــͥــͪــⷶــͪــᷤــد رفیᷭــͥــᷫــⷶــᷢـــق

Dr. Ajmal Manzoor📚

01 Nov, 04:10


سہولت کاروں کا ایک عظیم مغالطہ!

یہ بیچارے سہولت کار، بے پیندی کے لوٹے جب سلفیوں کے خلاف کچھ نہیں پاتے تو یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ انکا امام محمد العیسی اور بن سلمان ہے، جب کہ ان سہولت کاروں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ سلفی تو ائمہ اربعہ کو اپنا امام نہیں مانتے تو آج کے بن سلمان یا محمد العیسی کس کھیت کے مولی ہیں؟! ویسے بھی یہ دونوں دینی اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، اگر ائمہ دعوت میں سے کسی کو کہتے تو کسی حد تک بات سمجھ میں آتی جیسے محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ، یا دیگر معاصر سعودی سلفی علماء جیسے ابن باز، ابن العثيمين، الفوزان، الجامی، اللحيدان اور المدخلی وغیرہ، مگر سلفی ان کبار علمائے کرام کو بھی حرف آخر نہیں مانتے، یہ الگ بات ہیکہ سلفی انہیں ائمہ دعوت اور کبار سلفی علماء کی وجہ سے سعودی عرب سے محبت کرتے ہیں، مگر جن سہولت کاروں کا دین اور منہج ہی اخونجی تحریکیوں کی طرح حکومت واقتدار سے جڑا ہوتا ہے وہ اپنی اسی خارجی فکر کو سلفیوں پر بھی منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں..
قارئین کرام! ایسے سہولت کاروں کے مغالطے اور فریب سے دھوکہ نہ کھائیں، سلفیوں کا منہج سلف صالحین،صحابہ کرام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہج اور طریقے پر استوار ہے، کتاب وسنت اور صحابہ کرام کا دفاع نیز شرک وبدعات اور منحرف افکار وشخصيات پر نکیر اور تردید انکا شیوہ ہے، جسکا واحد مقصد امت کو شرک وبدعات اور انحرافات وخرافات کی کھائی میں گرنے سے بچانا ہوتا ہے، سلفی اپنا عقیدہ اور منہج اخونجیوں اور سہولت کاروں کی طرح کبھی کسی حاکم یا وزیر سے جوڑ کر نہیں دیکھتے، اور نہ ہی کسی حاکم یا وزیر کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں، سلفیوں کے آئیڈیل ہمیشہ کبار ربانی سلفی علماء رہے ہیں خواہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے.. مگر دور حاضر جو کہ گمراہ کن میڈیائی دور ہے اس میں باطل پرست نئے نئے چٹکلوں اور چورن کے ساتھ آتے ہیں اور سلفیوں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرتے ہیں.. آپ دیکھیں گے کہ یہی بے پیندے کے لوٹے سہولت کار سلفیوں کیلئے منہجی اور مدخلی جیسے القاب اخونجی تحریکیوں سے بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں.. مگر اب یہ بے پیندے کے لوٹے اچھی طرح ایکسپوز ہوچکے ہیں، سلفی نوجوان کافی حد تک ان سہولت کاروں سے ہوشیار ہو گئے ہیں، بلکہ ان سہولت کاروں کو تحریکی اخونجیوں سے بھی زیادہ خطرناک زہر ہلاہل َسمجھنے لگے ہیں۔
یہ سہولت کار اس وقت اخوانیوں، تحریکی مودودیوں، قطبیوں، سروریوں، بردروں اور داعشیوں تک کی سہولت کاری پر میدان میں اتر گئے ہیں... مطلب کوئی سلفی جیسے ہی ان منحرفین میں سے کسی کو ایکسپوز کرتا ہے فورا سے پیشتر ان منحرفین کی جماعت سے پہلے یہ بیچارے مساکین سہولت کار میدان میں آکر دور ازکار اپنے شبہات وتلبيسات کے ساتھ جواب دینے پہونچ جاتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے.
ان تلبیس کاروں کے بارے میں ایک چیز اور یہ یاد رکھنے کی ہے کہ یہ سعودی عرب کے سلفی علماء میں سے چند ایک کا نام برائے نام لیتے ہیں جیسے کہ شیخ ابن باز اور ابن عثیمین وغیرہ جب کہ دیگر سلفی علماء کا نام یہ نہیں لیتے ہیں کیونکہ یہ ان کے خلاف بغض رکھتے ہیں جیسے کہ شیخ محمد امان جامی، شیخ ربیع بن ہادی مدخلی ، شیخ عبید جابری، شیخ محمد تویجری، شیخ احمد نجمی، شیخ عبداللہ قرعاوی، شیخ عمر بازمول، شیخ عبد السلام برجیس، شیخ زید مدخلی اور دیگر کبار سلفی علماء ، کیونکہ ان علماء نے موجودہ منحرف تنظیموں اور بدعتی شخصیات پر رد کیا ہے جیسے کہ ان سہولت کاروں کے محبوب سید قطب، حسن بنا، سید مودودی، سید قرضاوی اور دیگر منحرف اخوانی تحریکی سرغنے.. اور انکی یہی سب سے بڑی تکلیف ہے، اور یہ بیچارے اپنی اس تکلیف کا اظہار بن سلمان اور محمد العیسی کو قربانی کا بکرا بنا کر کر لیتے ہیں۔ جبکہ سلفیوں کے یہاں کسی حاکم یا وزیر کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے، انکے یہاں مذکورہ کبار سلفی علماء کی اہمیت ہے۔ دین کو انہی جیسے کبار سلفی علماء سے سیکھتے ہیں۔ نہ کہ سہولت کاروں کی طرح بردروں اور خارجیت زدہ اسکالروں اور فتنہ پرور علماء سے سیکھتے اور انہیں پروموٹ کرتے ہیں۔

نوٹ : شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ کہہ رہے ہیں کہ ہم حکمرانوں کی گمراہیوں سے اپنی براءت کا اظہار کرتے ہیں اور انکے باطل امور کی کسی طور بھی تائید نہیں کرتے بلکہ جس قدر ممکن ہوتا ہے اس پر نکیر کرتے ہیں..

https://www.facebook.com/share/v/1WDSHXz14L/

Dr. Ajmal Manzoor📚

31 Oct, 17:14


Dras Will be Live on
https://www.facebook.com/treacherousalliance

Dr. Ajmal Manzoor📚

30 Oct, 17:28


🖼️سہولت کاری نہ کرکے اہل بدعت کو ایکسپوز کریں!

💥علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا :
آپ کی پوری یہ کوشش ہو کہ اہل بدعت کو غضبناک کرکے اللہ اور اسکے رسول کو راضی کریں، ان اہل بدعت کی درباری کرکے ان کو خوش کرنے کی کوشش نہ کریں، انکی مذمت اور ملامت کرنے نیز ان سے بغض رکھنے میں کوئی پرواہ نہ کریں، کیونکہ یہی آپ کے کمال ایمان کی دلیل ہے۔ (بدائع الفوائد لابن القيم :2/ 275)۔

📖إجمــاع العلمـاء علی الھجر والتحذير من أهل الأهواء، ص 100

Dr. Ajmal Manzoor📚

30 Oct, 13:02


طاقت اور کمزوری کا ضابطہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا کہ مسلمانوں پر ہمیشہ دو طرح کے حالات رہے ہیں: ایک طاقت کے اور دوسرے کمزوری کے اور یہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے سے ہے۔ چنانچہ مکی زندگی کمزوری سے عبارت ہے جبکہ مدنی زندگی طاقت سے ۔

چنانچہ وہ سارے نصوص جن کے اندر صبر و تلقین کرنے کا حکم ہے اور تکلیفوں کو برداشت کر کے دعوت و تبلیغ جاری رکھنے کا حکم ہے ان سب کو کمزوری کی حالت پر منطبق کیا جائے گا

جبکہ وہ سارے نصوص جو انتقام لینے قتال کرنے حملہ کرنے اور دعوت کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں سے قتال کرنے کا حکم ہے ان سارے نصوص کو طاقت کی حالت پر محمول کریں گے

اور یہ دونوں صورتیں بسا اوقات ایک ہی زمانے میں مسلمانوں پر مختلف جگہوں پر منطبق ہو سکتی ہیں؛

چنانچہ کہیں پر مسلمان طاقت کی حالت میں ہوں گے اور ممکن ہے کہیں پر کمزوری کی حالت میں ہوں

چنانچہ وہ خطے جہاں پر مسلمان کمزوری کی حالت میں ہوں وہ لوگ اپنے اوپر ان نصوص کو محمول کریں گے جو صبر کی تلقین پر دلالت کرتے ہیں اور جہاں پر مسلمان طاقت کی حالت میں ہوں گے وہاں پر لوگ ان نصوص کو اپنے اوپر محمول کریں گے جو طاقت کے استعمال کرنے پر دلالت کرتی ہیں اور یہ صورت بھی تاریخ اسلام میں بار بار پائی گئی ہے

اور یہ طاقت دینا یعنی اقتدار دینا اللہ رب العالمین کی طرف سے ایک نعمت ہے جب اللہ تعالی اپنے بندوں سے خوش ہوتا ہے تو انہیں طاقت اور اقتدار عطا کرتا ہے اور جب ناراض ہوتا ہے تو انہیں کمزور کر دیتا ہے اور دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے

اور اللہ تعالی خوش اس وقت ہوتا ہے جب بندے اس کے احکام کو بجا لاتے ہیں موحد ہوتے ہیں شرک اور بدعت سے دور رہتے ہیں برائیوں سے اجتناب کرتے ہیں لیکن جب شرک و بدعت کے ساتھ دیگر بداعمالیوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور دشمنوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے

لہذا اگر اللہ رب العالمین کی اس نعمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم شرک و بدعت کے ساتھ دیگر بد اعمالیوں سے توبہ کریں توحید کو اپنائیں اور اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کریں اور اس سے دعا کریں

اللہ تعالی کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا ہے جب تک کہ وہ خود اپنے اپ کو نہیں بدلتی ہے

نوٹ: یہ بہت ہی اہم ضابطہ ہے اگر ہم اس ضابطے کو نہیں سمجھیں گے اور نبوی دور سے لے کر اج تک کی مسلمانوں کی حالت کا جائزہ نہیں لیں گے تو ہم کچھ بھی اول فول بکتے رہیں گے...

🖋️ د/ اجمل منظور المدنی
حفظہ اللہ من کل سوء و مكروه

Dr. Ajmal Manzoor📚

30 Oct, 13:01


(٨) ڈاکٹر صاحب کو یہ بھی شکایت ہے کہ سلفی حضرات اپنے مولویوں کی باتوں کی تاویل کرتے ہیں جبکہ اسی طرح کی غلطیوں کی وجہ سے دوسروں پر چڑھ دوڑتے تھے! حالانکہ ہم بار بار ذکر کرتے رہتے ہیں کہ سلفیوں اور بدعتیوں کی غلطیوں کے ساتھ تعامل میں فرق کرنا ہی سلفی منہج ہے، لہٰذا یہ شکایت ہی بیجا ہے کیونکہ ایک عالم جن کی سنت سے محبت اور بدعت کی مخالفت معروف ہے اور ایک بدعتی جس کا انحراف مسلم ہے کسی ایک غلطی کی بنا پر دونوں کو ایک جیسا قرار دینا ظلم ہے "أفنجعل المسلمين كالمجرمين؟"

ہم یہ باتیں ڈاکٹر صاحب کو سمجھانے کے لیے نہیں لکھ رہے ہیں کیونکہ وہ خود اپنی حقیقتوں سے آگاہ ہیں بلکہ ہمارا مقصد صرف ان سادہ ذہن احباب کی منہجی وفکری حفاظت ہے جو لوگوں کی لفاظی اور جملہ بازی کے نرغے میں آ سکتے ہیں ورنہ ہزاروں غم ہیں زمانے میں ایک ڈاکٹر کے سوا۔

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی
۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

30 Oct, 13:01


حافظ محمد زبیر صاحب

ہم نے ڈاکٹر زبیر کے بارے میں اس وقت لکھنا شروع کیا جب وہ قدرے حجاب میں رہ کر اہل حدیثوں کو نشانہ بناتے تھے، اور منہجیوں کی آڑ میں تمام سلفیوں پر حملہ آور ہوتے تھے، اس وقت بہت سارے احباب شکوہ کناں تھے کہ یہ بے جا شدت ہے لیکن آج الحمد للّٰہ انہیں بھی احساس ہو گیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اسی کے مستحق تھے۔
حالیہ تحریروں میں ڈاکٹر صاحب ایسی چیزوں کی بنا پر اہل حدیثوں کا مواخذہ کرنا چاہتے ہیں جو اصحابِ علمِ وعقل کے نزدیک کسی طور پر قابل مواخذہ نہیں ہیں، بلکہ محض تلبیس و تدلیس وتخلیط کا شاخسانہ ہیں، اس لیے میرے خیال میں اب ڈاکٹر صاحب کی تلبیسات کا جواب دینا محض وقت کا ضیاع ہے۔
البتہ توضیح المسائل اور دفع التلبیس کے قبیل سے چند باتیں درج ذیل ہیں:
(١) اہل حدیث قرآن اور صحیح حدیث کے علاوہ کسی کتاب کی مکمل اور ہر ہر حرف کی صداقت و حقانیت کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے ہر ہر لفظ کے دفاع کا دعویٰ کرتے ہیں خواہ صحیحین ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ان میں احادیث نبویہ صحیحہ کے علاوہ صحابہ وتابعین کے بعض مرجوح اقوال بھی ہیں، امام بخاری کے اپنے اجتہادات بھی ہیں، بعض شاذ الفاظ اور منسوخ احادیث بھی ہیں، (ہاں منجملہ دونوں کتابوں کا اور ان میں وارد محکم و مرفوع احادیث کی صحت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کا دفاع ضرور کرتے ہیں) اس لیے کسی سلفی عالم کی کسی کتاب میں واقع غلطیوں کو اہل حدیثوں کے خلاف بطور حجت پیش نہیں کیا جا سکتا یہ الزام ما لا یلزم ہے۔

(٢) رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے علاوہ اہل حدیثوں کا کوئی ایسا امام نہیں ہے جس کے ہر ہر قول وفعل کے وہ جوابدہ ہوں، چنانچہ وہ علمائے اہل سنت کی تعریف تعظیم و تکریم اور دفاع کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں پر ادب کے ساتھ رد بھی کرتے ہیں، خواہ امام مالک، امام شافعی، احمد بن حنبل، امام بخاری، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب ہی کیوں نہ ہوں، اس لیے اہل حدیث کبھی کسی بابے کو بچانے کے چکر میں نہیں رہتے ہیں کیونکہ رسول اللّٰہ کے سوا ان کوئی بابا نہیں، البتہ اگر کوئی ان کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو اس پر سختی کے ساتھ رد وتنقید کرتے ہیں کیونکہ یہ ان علماء کا حق ہے۔

(٣) اگر کوئی صاحب علم کوئی کتاب لکھتا ہے اور اس میں احادیث وآثار بالاسناد ذکر کرتا ہے تو وہ ان کے مدلولات سے بری الذمہ ہو جاتا ہے، چنانچہ محدثین کہتے ہیں:"من أسند فقد أحالك" جس نے سند بیان کر دی اس نے آپ کو سند کے حوالے کر دیا لہٰذا اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تحقیق کریں اور صحت وضعف معلوم کر کے قبول کریں یا رد کریں، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ عصر الروایہ کے اہل علم کی کتابوں میں بہت ساری ضعیف منکر اور موضوع روایات بھی ہوتی ہیں حتیٰ کہ عقائد کی کتابوں میں بھی متعدد ایسی روایات ہوتی ہیں جو بظاہر عقیدہ سلف کے مخالف ہوتی ہیں اور فرق باطلہ انہیں اپنے دلائل کے طور پر ذکر کرتے ہیں، اس کے باوجود علمائے اسلام نے ان محدثین واصحاب کتب پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ہے الا یہ کہ صاحب کتاب نے صحت کی شرط لگا رکھی ہو، البتہ اگر بطور احتجاج ذکر کرتے وقت سند ذکر نہیں کرتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ ان احادیث وآثار کا حکم بیان کرے ورنہ وہ قابل گرفت ہوگا۔

(٤) اہل علم کسی مسئلہ کے اثبات میں صحیح روایات ذکر کرنے کے بعد بالاسناد ضعیف بلکہ بسا اوقات سخت ضعیف ومتروک روایات بھی ذکر کر دیتے ہیں جیسا کہ امام دارمی ابنِ خزیمہ آجری اور بیہقی وغیرہ کی عقائد کی کتابوں میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جس سے اہل علم بخوبی واقف ہیں اور یہ ائمہ کے نزدیک کوئی بہت زیادہ معیوب امر نہیں ہے جو رد وتنقید کا باعث ہو۔

(٥) ڈاکٹر صاحب کو امام لالکائی سے مسئلہ صرف ان کی کتاب میں موجود بدعتیوں کے خلاف اقوال سے ہے، جس کے لیے وہ امام لالکائی اور ان کی کتاب کو سرے سے بے اعتبار کرنا چاہتے ہیں حالانکہ امام لالکائی کی کتاب میں بدعتیوں کے تعلق سے سلف صالحین کے جو اقوال منقول ہیں وہ امام دارمی، عبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل، ابو بکر خلال، حرب الکرمانی، ابنِ ابی عاصم، ابو بکر آجری، بربہاری، ابنِ وضاح، ابنِ بطہ، ابن البناء، ابو نعیم اصفہانی، ابن عبد البر، خطیب بغدادی، بیہقی، ابو اسماعیل الہروی، ابن عساکر، ابنِ الجوزی، ابنِ ابی یعلیٰ، شاطبی، ابن تیمیہ، ذہبی اور ابن مفلح وغیرہم کی کتابوں میں موجود ہیں اور نادر ہی ایسا ہے کہ کوئی قول امام لالکائی کی کتاب میں ہو اور اسے ان علماء نے یا ان میں سے کسی نے نقل نہ کیا ہو۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

30 Oct, 13:01


(٦) ڈاکٹر صاحب کو یہ تکلیف ہے کہ بریلوی حضرات نے امام لالکائی کی کتاب کا ترجمہ وتشریح کی ہے اس کا مطلب ہے وہ ان کے بھی امام ہیں اور ان کی کتابوں میں موجود عقائد بریلوی عقائد ہیں؟ تو عرض ہے کہ خواہش پرستوں کی یہ عادت ہے کہ وہ مجمل نصوص سے اپنے مطلب کا استدلال کرتے ہیں اور اپنی مرضی کا مسئلہ مستنبط کرتے ہیں جیسا کہ نصوص کتاب وسنت کے تئیں تمام فرق باطلہ کا رویہ ہے، چونکہ امام لالکائی کی اس کتاب میں اہل بدعت سے قطع تعلق کرنے اور ان سے دور رہنے کے تعلق سے دو سو سے زائد ائمہ سلف کے اقوال منقول ہیں اس لیے بریلوی حضرات انہیں اپنی مرضی کے بدعتیوں پر منطبق کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض لوگ بھی اس کا ترجمہ وتشریح کرتے ہیں، حالانکہ اس میں صفات کی تاویل، ارجاء، عمل ایمان کا حصہ ہے، ایمان میں کمی وزیادتی اور ان شاء اللّٰہ کہنے سے متعلق مسائل میں بھی بدعتیوں پر سخت ردود موجود ہیں جو خود ان بریلویوں کے خلاف ہیں۔۔۔!!! اب چونکہ ڈاکٹر صاحب کو امام لالکائی کے تعلق سے اپنے پرانے موقف کو جسٹیفائی کرنا تھا سو انہوں نے کچھ بھی لکھ دیا ورنہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ معاملہ ہر گز ویسا نہیں ہے جیسا انہوں نے باور کرانے کی کوشش کی ہے۔۔ اب بریلوی قرآن اور بخاری ومسلم کا ترجمہ وتشریح کرے تو یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب ان کی کتابیں ہیں ایسا تو کوئی مجنون ہی کہہ سکتا ہے!!!

(٧) امام لالکائی نے حسن بصری کا ایک قول نقل کیا جس میں آپ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ بدعتیوں کی نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ قبول نہیں کرتا ہے اس قول کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر صاحب نے حسن بصری رحمہ اللّٰہ کو تبدیعی وتکفیری فکر کا موجد قرار دیا ہے حالانکہ اس طرح کے اقوال دیگر ائمہ سے بھی ثابت ہیں اور ڈاکٹر صاحب کو کیا پتہ کہ اس قول میں حسن بصری کے نزدیک بدعتیوں سے مراد بدعت مکفرہ کے مرتکبین ہوں؟ جن کے اعمال کے مردود ہونے پر علما کا اتفاق ہے! نیز صحیح بخاری کی ایک حدیث سے بھی حسن بصری رحمہ اللّٰہ کے اس قول کی تائید ہوتی ہے علی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:"الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ." صرف اور عدل کا معنی اکثر شراح حدیث نے جن میں ابن هبيرة، ابن الملقن، ابن رسلان، زكريا الأنصاري، عینی، ابن بطال، قاضی عیاض، کرمانی، قسطلانی، ابن علان، خلیل احمد سہارنپوری، محمد الامین الہرری اور علامہ عبد العزیز الراجحی وغیرہم ہیں "فرض اور نفل" بیان کیا ہے بعض نے صرف یہی معنی لکھا ہے اور بعض نے اس کے ساتھ ساتھ دوسرے معانی بھی ذکر کئے ہیں جیسے بدلہ عوض وغیرہ...!!!
شیخ الحدیث عبید اللّٰہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں:"واختلف في تفسيرهما فعند الجمهور الصرف الفريضة والعدل النافلة، ورواه ابن خزيمة بإسناد صحيح عن الثوري وعن الحسن البصري بالعكس،" ان دونوں لفظوں کی تفسیر میں شراح حدیث کا اختلاف ہے جمہور کے نزدیک "صرف" کا معنی فرض اور "عدل" کا معنی نفل ہے، امام ابن خزیمہ رحمہ اللّٰہ نے صحیح سند سے اس معنی کو سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اور حسن بصری سے اس کے برعکس یعنی صرف کا معنی نفل اور عدل کا فرض نقل کیا ہے۔ صرف اور عدل کے الفاظ خود بخاری کی روایت میں موجود ہیں جو حسن بصری نے استعمال کئے ہیں اور جہاں تک نماز روزہ حج زکوٰۃ کی بات ہے تو اگر اکثر شراح حدیث اور سفیان ثوری وحسن بصری کے قول کے مطابق "صرف وعدل" کا معنی فرض اور نفل بیان کیا جائے تو یہ یہ ساری چیزیں فرض میں شامل ہیں، لہٰذا ایسی صورت میں خود حدیث نبوی اس مفہوم کی وضاحت کر رہی ہے کہ بدعتی کی نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ کوئی بھی عمل قبول نہیں ہوتا ہے، اب کیا اس سے مراد ہر قسم کا بدعتی ہے اور کیا سرے سے قبول ہی نہیں ہوتا ہے یا قبول مع الرضا مراد ہے؟ ان چیزوں کی تفصیلات شراح حدیث نے اس معنی میں وارد حدیثوں کی شرح میں بیان کی ہیں۔
اب ایک انسان پڑھنے کے بجائے صرف عمومی معلومات اور اپنی عقل کا استعمال کرے تو پھر حسن بصری کے ساتھ ساتھ سفیان ثوری کو بھی تبدیعی فکر کا موجد قرار دے سکتا ہے جیسا کہ شیخ الحدیث کے مطابق صحیح سند سے دونوں سے یہ مفہوم ثابت ہے کہ اللّٰہ بدعتی کا فرض ونفل عمل قبول نہیں کرتا ہے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

29 Oct, 04:51


‏قال ابن بطة رحمه الله:
"إن الفتن والأهواء قد فضحت خلقاً كثيراً،
وكشفت أستارهم عن أحوال قبيحة ." [الإبانة الكبرى](٥٩٦/٢).

امام ابن بطہ رحمہ اللہ نے کہا کہ نفس پرستی اور فتنوں کے دور میں بہت سارے لوگ ایکسپوز ہو جاتے ہیں اور ان کی گمراہیوں سے پردے اٹھ جاتے ہیں...

Dr. Ajmal Manzoor📚

26 Oct, 18:47


نے اپنے آقا اور سسر سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ تاریخ اسلام میں اس قدر احسان و خیر خواہی کرنے کے بعد اس قدر مظلوم شاید کوئی اور شخصیت نا ہو۔ تین دن تک لاش بے گورو کفن پڑی رہی، پھر ایک رات چپکے سے بقیع کے باہر اپنے محبوب، اپنے سسر، اپنے دونوں دوستوں سے دور دفن کر دیا گیا۔
یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت و قدرت سے ان تینوں کے بعد انھیں کی قبر کو خلائق کی زیارتوں اور دعاؤں کا مرکز بنا دیا۔
پھر ہمارے اس دور کا کوئی بد نصیب آئے، جسے نا شریعت کا علم ہو، نا سلف کے منھج سے واقفیت، نا عربی زبان سے آشنائی ہو، نا فقہ و عقیدہ میں دسترس، ایسا شخص اس عثمان عظیم کی برگزیدہ شخصیت کو برا بھلا کہے، آپ پر نکیر کرے، آپ پر نقد کو فکری شکل دیکر اسے تحریری شکل میں کتاب کا حصہ بنائے، اور ایک بھیڑ کو پیچھے لگا دے جو نہ صرف اس باطل فکر کی ترویج کرے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر مبارک ساتھیوں پر جن کے قیامت تک اسلام اور اہل اسلام پر عظیم احسانات ہیں؛ طعن و تشنیع کرے، انھیں برا بھلا کہے۔ اس کی تحریریں پورے برصغیر اور اس سے باہر فتنے کا دروازہ کھولیں، خارجیت و تکفیر کو جنم دیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر طعن وتشنیع اور نقد کا نہ بند ہونے والا دروازہ کھولیں، رافضی فکر کی ترویج کا سبب بنیں، وہ گنڑ دُلّے بھی جو طہارت کا صحیح طریقہ تک نہیں جانتے وہ بھی کہنے لگ جائیں کہ صحابہ بھی ہماری طرح انسان تھے، وہ معصوم تھوڑی تھے، “انصاف” کا تقاضا ہے کہ ان کی بھی کمیاں ذکر کی جائیں، اور پھر ان برگزیدہ نفوس کے تئیں وہ اسی بہانے اپنے دل کی گندگیاں اور خبث باطن باہر نکالیں۔
میں سوچتا ہوں کہ پھر ایسے شخص کی میں بر سر منبر تعریف کروں، اسٹیج سے اس کی مدح سرائی کروں، سر عام اس کی حمد وثنا کے گیت گاؤں؛ تو میں درحقیقت روشن خیال، کشادہ ظرف، اور انصاف پسند قرار پاؤں گا؟ یا پھر ڈھٹائی، بے شرمی، بے ایمانی اور منافقت کا علمبردار کہلاؤں گا؟
میں تو سوچ سوچ کر تھک گیا ہوں، سوچتا ہوں اب اور کتنا سوچوں؟ اس لئے سوچا کیوں نا آج آپ ہی لوگوں سے پوچھ لوں!
::::::::::::::::/:::::::::::::::::/::::::::::::::::::::

https://www.facebook.com/100003098884948/posts/4583289278450990/

Dr. Ajmal Manzoor📚

26 Oct, 18:47


بھٹکے ہوئے آہو کو
پھر سوئے حرم لے چل
✍️: وسيم المحمّدي

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے والد محترم کو گالی دے، انھیں برا بھلا کہے، صرف زبانی ہی نا کہے، بلکہ اسے اپنی کتابوں میں لکھے، ایک فکر کی طرح اسے لانچ کرے، پوری ایک بھیڑ کو ان کے پیچھے لگادے جو انھیں نہ صرف برا بھلا کہیں بلکہ اسے درست اور جائز بھی سمجھیں۔
خاص طور سے ایسی حالت میں جب میرے والد کا معاشرے میں بہت بڑا مقام ہو، سارے مسلمانوں میں ان کی عزت ہو، امت پر ان کے احسانات ہوں، لوگ انھیں نیک و صالح اور بہت ہی سخی فیاض اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتے ہوں۔
میں سوچتا ہوں کہ کیا میں ایسے شخص کو جوابا برا بھلا نہیں کہوں گا؟
کیا میرا ظرف اتنا کشادہ ہوسکے گا کہ میں اسے کچھ نا بولوں؟
سوچتا ہوں اگر میرا ظرف اتنا کشادہ ہو بھی جائے کہ میں اسے کچھ نا کہوں، تو پھر کیا اتنا بھی کشادہ ہو جائیگا کہ میں اس کی منبر و محراب سے تعریف بھی کروں گا، اسٹیج سے اس کی مدح سرائی کروں گا؟ اس کی منقبت کا نغمہ سناؤں گا، اس کی حمد و ثنا کے گیت گاؤں گا؟
میں سوچتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے ہی برا بھلا کہے، وہ نہ صرف میری بے عزتی کا سامان کرے، بلکہ اسے فکر کی شکل میں کتابوں میں ڈال دے، اور خلق اللہ کی ایک جماعت کو میرے پیچھے لگا دے جو نہ صرف مجھے برا بھلا کہے، بلکہ اسے جائز اور درست اور بسا اوقات باعث ثواب بھی سمجھے؛ تو کیا اسے بھی میں کچھ نہیں کہوں گا؟ اچھا ممکن ہے میرا ظرف اتنا کشادہ ہوجائے کہ میں اسے کچھ نا کہوں، تو کیا میں اس کی بر منبر تعریف اور مدح سرائی بھی کروں گا؟
میں تو اتنا کمزور ہوں کہ اپنے ایک موقف کا رد نہیں برداشت کرپاتا، کوئی میرے کسی موقف کو غلط بتانے لگے تو میں بلبلا اٹھتا ہوں، بے قرار ہوجاتا ہوں، کوئی صاف شفاف آئینہ بھی دکھانا چاہے تو پہلے تو اس آئینہ کو ہی توڑنے کی کوشش کرتا ہوں، نہ کر سکوں تو اپنے چہرے کی دھول آئینہ پر مل کر آئینہ ہی کو پراگندہ کردیتا ہوں، کوئی کتنی بھی اچھی دلیل دے الٹے سیدھے دلائل سے اس کا بھرپور رد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
نہ تو میں نے ابن خلال، ابن أبي عاصم اور بربہاری کی السنۃ پڑھی ہے، نہ ہی ابن مندہ کی کتاب الإيمان اور کتاب التوحید، نہ ہی میں نے ابن بطہ کی الإبانة پڑھی ہے، نہ ہی امام شاطبی کی الاعتصام، نا ہی میں نے لالكائي کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة پڑھی ہے، اور نا ہی ابن تیمیہ کی کتاب الإيمان اور اقتضاء الصراط المستقيم، نہ ہی امام طحاوی کی عقیدہ طحاویہ اچھے سے پڑھی ہے، نہ ہی ابن أبي العز حنفي کی مایہ ناز شرح، نہ ہی شيخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب کی كشف الشبهات اور کتاب التوحید صحیح سے پڑھی ہے، اور نہ ہی مجھے نواقض ایمان کا پختہ علم ہے، ارے میں نے تو معاصر اہل علم نے ان اصول سے ماخوذ توحید و ایمان اور منھج و اعتقاد کے جو چیدہ چیدہ مباحث یکجا کردیئے ہیں انھیں بھی نہیں پڑھا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بنارس دلی ممبئی کراچی لاہور فیصل آباد ڈھاکہ میں موجود دینی اداروں میں پڑھائی جانے والی عقیدہ کی چھوٹی بڑی نہایت مفید کتابیں بھی میں نے صحیح سے نہیں پڑھی ہیں، کبھی پڑھی بھی دو چار دس بیس پچاس صفحہ پر ہی کہانی ختم ہوگئی، وہ بھی تعلیم کم ترجمہ زیادہ۔
میرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کبھی اصول و اعتقاد کی کوئی کتاب پڑھنی پڑ جائے تو اولا تو وہ مجھے سمجھ میں نہیں آتی، خاص طور سے اگر وہ عربی میں ہے، اور کسی قدیم مولف نے لکھی ہے تب تو میرا سر ہی درد کتنے لگتا ہے، اور اگر سمجھ میں آئے بھی تو بہت جلدی بور ہونے لگتا ہوں، کیا وہی ہر چار لائن بعد قرآنی آیات اور احادیث، اور پرانے علماء کے اقوال، وہی قدامت اور دقیانوسی، نہ کوئی فلسفہ نا منطق نہ عقلانیت، نہ مو شگافی، نہ قیاس نہ رائے۔
کسی مُلّے نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ جب دل میں ایمان کی حلاوت ختم ہونے لگے، نفس خواہشات کی اسیری قبول کرنے لگے، قلب و جگر اور عقل وشعور کی کمزوری نماز و قرآن اور ذکر واذکار کی شیرینی کو محسوس کرنے سے معذرت کرنے لگیں، بے عملی ڈیرہ جمانے لگے، عمل بھی ہو تو فارمیلٹی سے زیادہ اس کی حیثیت نہ رہ جائے، تب یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے، پھر آیات سے زیادہ فلسفے، احادیث سے زیادہ موشگافیاں، اور قدیم اہل علم کے اقوال سے زیادہ فکاہتیں اپیل کرتی ہیں۔ مگر اس مُلّے کی بات کو میں نے اپنے مخصوص انداز میں یوں اڑا دیا۔
لیکن ہاں اگر کسی معاصر مفکر کی کتاب مل جائے، بھلے ہی شرعی اعتبار سے اس میں انحراف اور کجی ہو، مگر وہ عقلانیت سے لبریز اور موشگافی سے پر ہو، تو اسے نہ صرف پڑھتا ہوں بلکہ اسے پلکوں پر سجاتا ہوں، اس کے حرف حرف کو نصوص کی طرح اہمیت دیتا ہوں، اور اس کے منحرف فکر و فلسفے اور موشگافیوں تک کو اس طرح دل میں بٹھاتا ہوں کہ وہی حرف آخر ہے، پھر اسے مانتا ہی نہیں اس کا بھرپور دفاع بھی کرتا ہوں، چاہے اس فلسفہ کا کیچڑ کسی بدبودار نالے سے ہی کیوں نا مستعار لیا گیا ہو۔ کتاب میں خامی بہت واضح ہو تو اس پر پردہ ڈالنے

Dr. Ajmal Manzoor📚

26 Oct, 18:47


یا اس کو ہلکا کرنے، اور سیدھے سادے قاری کو گمراہ کرنے کے لئے اس کے اسلوب پر مر مٹتا ہوں، اور اس کے شیریں بیانی کا چہار سو نقارہ بجاتا ہوں۔
یہی میری اصل کائنات ہے، جس کے دم پر میں کبھی اس ڈال کبھی اس ڈال چھٹکتا کودتا ہوں، اور ہر جگہ اسٹیج سجانے اور اسٹیج پانے کے چکر میں رہتا ہوں، اس چکر میں بھلے ہی مجھے عقل و شعور اور فہم و فراست کا ہر سودا کرنا پڑے، میں خوشی سے گنگناتے ہوئے کرتا ہوں۔
مختصرا یوں سمجھ لیں کہ اس باب میں میری علمی حیثیت ایسی ہے کہ کوئی ڈنڈی مار چالاک اور بھٹکا ہوا راہی اگر توحید کی تعریف اور اس کی اساسی تقسیم ہی میں ہیرا پھیری کرنے لگے تو میں وہ بھی نہیں سمجھ پاتا، میں تو بے ساختہ اس کی ہر تھاپ پر تھرکنے اور ہر تال پر تال ملانے لگتا ہوں؛ ہاں مگر عقیدہ، منھج اور سلف کی بات آجائے تو میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلی پوسٹ میں ہی لگاؤں، پھر اپنی وہ رائے جو میرے ہوائے نفس کی اسیر ہوتی ہے اسے سدھ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہوں۔
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ میں ہر جگہ کود پڑتا ہوں، دو ڈاکٹر کسی طبی مسئلہ پر بحث کر رہے ہوں تو میں ہونقوں کی طرح چپ چاپ ان کا منہ تکتے رہتا ہوں، چار انجینئر کسی پرجیکٹ پر گفتگو کر رہے ہوں تو ٹکر ٹکر ان کا چہرہ دیکھتے رہتا ہوں، مگر ادھر کوئی شرعی مسئلہ چھڑا ادھر میں اپنے پورے حواس کے ساتھ حاضر اور پوری منطق کے ساتھ شریک ہوجاتا ہوں، بالکل ویسے ہی جیسے گاؤں کے لوگ چائے کی دوکانوں پر سیاسی بحث کرتے ہیں۔ میں شرعی مسائل پر گفتگو اور چائے خانوں کے مباحثوں میں زیادہ فرق نہیں کرتا، بسا اوقات تو صرف ہنسی مذاق اور چکلس میں اللہ تعالی کی طرف سے ملی ہوئی اپنی زندگی کے دس بیس گھنٹے یوں ہی قربان کردیتا ہوں، اور یہ بھی نہیں سوچتا کہ روز قیامت سب سے پہلے اسی کا حساب دینا ہے۔
نہ تو میں قواعد فقیہ جانتا ہوں، نہ تو فروق فقہیہ کا مجھے علم ہے، اور نہ ہی سیاسہ شرعیہ کی مجھے شد بد، مگر میں شرعی مسائل کے شفاف پانی کو حالات و ظروف اور مسالک ومذاھب کے کیچڑ میں ڈال کر ایک نیا سمپل تیار کرکے اسے پرموٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اور من موافق مکی مدنی زندگی کا ایسا درس دیتا ہوں کہ صاحب فن سر پیٹتا رہ جائے، سب کچھ کرتا ہوں، مگر میں اتنا کمزور ہوں کہ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ پاتا، تہی دامنی کی وجہ سے جب مجھ سے کچھ بھی نہیں بن پاتا تو اپنے دل میں موجود خلش، انا اور ھوائے نفس کی تسکین کے لئے دوسروں کی من موافق تحریریں ہی جم کر شیئر کرتا ہوں، مگر اپنے موقف سے نا پیچھے ہٹتا ہوں، نہ ہی اس کی مخالفت برداشت کر پاتا ہوں۔ اتنے ہی پر میں بس نہیں کرتا، بلکہ اپنی نایاب ثقافت اور بعض مفکرین کی چند کتابوں کے ذاتی مطالعہ کے بل بوتے جن کا بھلے ہی شریعت سے تعلق نا کے برابر ہو، یا عقیدہ و منھج میں وہ زیرو بلکہ بسا اوقات اس کے مخالف ہی ہوں؛ انھیں کے بل بوتے ہر مناقشہ اور ہر مباحثہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوں، اور اہل علم اور ماہرین فن کسی بھی فن میں بات کر رہے ہوں، چاہے میں اس کے ابجد سے ناواقف رہوں، مگر میں بھرپور مشارکہ کرتا ہوں، وہ خالص شرعی اصولی اور منھجی مباحث جن پر میرا حاصل مطالعہ چند صفحات کا بھی نہیں ہے، ان پر بھی کہیں اہل فن بحث کرنے لگیں تو میں بھانڈ کی طرح ان کے بیچ کودتا ہوں، اور ہاں صرف کودتا نہیں ہوں، زبردستی اپنی بات منوانے کی بھی پوری کوشش کرتا ہوں، اور “عنزة ولو طارت” کا ورد کبھی نہیں چھوڑتا۔
میں سوچتا ہوں کہ جب میں اتنا کمزور ہوں کہ کچھ نا ہوتے ہوئے بھی اپنے کسی موقف کی مخالفت نہیں برداشت کر پاتا تو بھلا میں ایسی کشادہ ظرفی کیسے دکھا پاؤں گا کہ کوئی مجھے برا بھلا کہے، میرے والد یا میرے کسی عزیز کو گالیاں دے، اور میں اسے کچھ نا کہوں؟ اس پر مستزاد میں اس کی مدح سرائی بھی کروں، اور اس کی منقبت کے لئے اسٹیج بھی سجاؤں؟ بھلا میں ایسی کشادہ ظرفی اپنے اندر کیسے پیدا کر پاؤں گا؟
عثمان بن عفان رضي الله عنه خلفائے راشدین کی تیسری کڑی ہیں، وہ خلفائے راشدین جن کی سنت حجت ہے، آپ کو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیاں عقد میں دیں، آپ حکما وہ بدری صحابی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے کہا کہ جاؤ آج کے بعد جو چاہو کرو تم لوگوں کو میں نے معاف کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو تقریبا بیس بار انفرادی طور پر تعیین کے ساتھ جنت کی خصوصی بشارت دی، شاید اتنے بار کسی اور شخص کو خصوصیت اور تعیین کے ساتھ جنت کی خوش خبری نہیں ملی، ایک موقع پر تو آپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ عثمان آج کے بعد جو چاہیں کریں انھیں کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ جس سے فرشتے شرماتے تھے، جس نے اپنی مال و دولت سے جس قدر اسلام کی ابتدائی زندگی میں جب وہ کسمپرسی کا شکار تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور السابقون الاولون کی مدد کی ویسا کوئی نہیں کر سکا، قرآن آپ کے سینے میں محفوظ تھا، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے روزے کی حالت میں آپ شہید ہوئے، شھید ہونے سے پہلے آپ

Dr. Ajmal Manzoor📚

25 Oct, 06:57


امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کافروں کو قیامت کے دن اللہ کے دیدار سے محروم کیا جائے گا، جبکہ اہلِ ایمان کو اس شرف سے نوازا جائے گا۔

*❾ عقیدے کی اصلاح:*
شیخ نے اس پر بہت زور دیا کہ دین میں کامیابی کا دارومدار صحیح عقیدے پر ہے، اور اس میں کسی قسم کا شک یا تاویل پیدا کرنا گمراہی اور بے دینی کا سبب بنتا ہے۔
شیخ نے کہا کہ: ’’اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء یعنی مومنین کو اپنے دیدار کے شرف سے نوازے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، جس طرح اللہ چاہے گا۔ یہ اللہ کا خاص فضل و کرم اور اس کا بے پناہ احسان ہوگا۔ اس موضوع پر بے شمار دلائل موجود ہیں، جو واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ اللہ رب العالمین کا دیدار اہل سنت و جماعت کے اصولوں میں ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔
آپ میں سے کچھ لوگ شاید کہیں گے کہ اس پر اتنا وقت کیوں لیا گیا؟ جی ہاں، اس موضوع پر زیادہ وقت لیا گیا، کیونکہ یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ان عقائد کو آپ نے غیر اہم سمجھا، اور ان کا انکار کیا، تو آپ کا ایمان ہی درست نہیں ہے، پھر اس کی نماز اور روزے کا کیا حال ہوگا؟ واللہ اعلم۔

اور یہی تو وہ چیز ہے جسے لوگ دنیا داری میں مشغول ہو کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دین دار ہیں، لیکن انحرافات کی وجہ سے آج ہم عزہ میں مارے جا رہے ہیں، بہرائچ میں فسادات ہو رہے ہیں، کوئی سننے والا نہیں۔ حالیہ واقعات میں اینکاؤنٹر ہوا، دو لوگ مارے گئے، اور اللہ جانے کیا کیا ہو رہا ہے۔
یہ مستقل زخم ہیں، لیکن اس زخم کا علاج قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ ہمیں توحید کو اپنانا چاہیے، سنت کی پیروی کرنی چاہیے، اصل دین کو اپنانا چاہیے۔ ہم اصلاح معاشرہ کی باتیں کرتے ہیں، فضائل پر زور دیتے ہیں، لیکن عقائد کی اصلاح پر توجہ نہیں دیتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ درخت کے پتوں کو توڑتے رہیں لیکن جڑ پر وار نہ کریں، کبھی بھی اصلاح نہیں ہو گی۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے عقیدے کی اصلاح کی ویسے ہی ہمیں کرنا ہوگا۔
اور جسے ہم غیر اہم سمجھتے ہیں، یہی سب سے اہم ہے‘‘۔

*❿ دعائیہ کلمات:*
شیخ نے دعا کی کہ اللہ رب العالمین ہمیں صحیح عقیدہ اور دین کی سچی سمجھ عطا فرمائے، ہمیں دین کی بنیادوں کو درست کر کے پورے دین کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی برکت سے دنیا کے فتنوں اور ہر قسم کے عذاب سے ہمیں محفوظ رکھے، اور آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔

*✺ خلاصہ:*
شیخ نے اس خطبہ میں دیدارِ الہی کے عقیدے کو اپنے مخصوص اور پر تاثیر انداز میں وضاحت کے ساتھ پیش کیا، جس میں انہوں نے قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں اس مسئلہ کو بیان کیا۔ اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ وہ کسی بھی شخصیت کی عقیدت میں آ کر دین کی بنیادی تعلیمات سے دور نہ ہوں اور ہمیشہ کتاب و سنت کو اپنی زندگی کا محور بنائیں۔

*✍🏻 اہتمام: الطاف الرحمن سلفی*

https://youtu.be/LnqHXKOgQnQ?si=3021ICh2n_6HzA_1
┈┉┅━━━❁━━━┅┉┈

Dr. Ajmal Manzoor📚

25 Oct, 06:57


*خطبۂ جمعہ ’’دیدارِ الہی کا عقیدہ اور ڈاکٹر ذاکر نائک‘‘ کی تلخیص*

*🎙: شیخ ابو رضوان محمدی حفظہ اللہ*
•─════﷽════─•
شیخ ابو رضوان محمدی حفظہ اللہ کا ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کا حالیہ خطبہ اُس حساس اور عظیم عقیدے پر روشنی ڈالتا ہے جسے اہلِ سنت والجماعت نے اپنے دلوں کی گہرائیوں میں محفوظ رکھا ہے، یعنی "دیدارِ الہی کا عقیدہ"۔
یہ عقیدہ صدیوں سے اسلامی عقیدہ کا حصہ اور اساس رہا ہے اور قیامت کے دن اہلِ ایمان کے لیے سب سے بڑی سعادت یقینی طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

*❷ اسلام کی حقیقی روح:*
شیخ ابو رضوان محمدی نے اپنے خطبے میں اسلام کی اصل اور اس کی بنیاد پر نہایت بصیرت افروز گفتگو فرمائی۔ اور یہ واضح کیا کہ دینِ اسلام کسی انسانی فہم و شعور یا فسلفے کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ براہِ راست رب العالمین کی طرف سے بذریعہ وحی نازل کردہ دین ہے۔جو انسانیت کو اللہ کے نبی ﷺ کے ذریعے عطا کیا گیا۔ یہی دین دنیا اور آخرت میں کامیابی کی اصل بنیاد ہے۔
اور قرآن اور سنت وہ بنیادی مآخذ ہیں جن سے دین کا ہر حکم مستنبط ہوتا ہے، اور ان کے بعد کسی بھی انسانی رائے، تجربات، قیاس وغیرہ کی پیروی کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
شیخ نے اپنے خطبے میں قرآن و سنت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دین کا اصل انحصار وحی الٰہی پر ہے، نہ کہ کسی انسان کی ذاتی رائے یا فکری اجتہاد پر۔
مولانا نے وحی کے مقام کو بیان کرتے امام بخاری رحمہ اللہ کی مثال دی، اور بتایا کہ انہوں نے اپنی مشہور کتاب "صحیح بخاری" کی ابتدا ’’کتاب الوحی‘‘سے کی، تاکہ دین کی بنیاد وحی پر ہونے کی اہمیت واضح ہو۔ اوردین کا فہم اور اس کے اصول صرف وحی الہی پر موقوف ہیں، اور اس میں کسی اور رائے یا قیاس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

*❷ اندھی تقلید اور اس کی تباہ کاری:*
شیخ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان اندھی تقلید کے خطرے سے آگاہ رہیں، خواہ وہ دنیا کے عظیم شخصیات ہوں یا مشہور و معروف علماء، ان کی عظمت یا شہرت کبھی اس بات کا جواز نہیں کہ ہم ان کی بات کو قرآن و سنت پر فوقیت دیں۔ دین کے ہر مسئلے میں ہماری رہنمائی صرف اللہ کی کتاب اور نبی ﷺ کی سنت سے ہونی چاہیے۔
ہر وہ قول جو قرآن و سنت کے مخالف ہو، چاہے کہنے والا کتنا ہی معروف اور محبوب کیوں نہ ہو، وہ ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ مسلمان کا دین حقائق پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ محض انسانی آراء پر۔

*❸ دیدارِ الہی کا واضح تصور:*
شیخ نے قرآن و سنت کی روشنی میں یہ حقیقت بڑے واضح الفاظ میں پیش کی کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان کو جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا۔ اس عظیم نعمت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے، اور نبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں۔ یہ عقیدہ دینِ اسلام کا ایسا بنیادی جزو ہے جسے اہلِ سنت والجماعت نے ہمیشہ بالاجماع قبول کیا اور اختیار کیا ہے۔

*❹ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا موقف اور اس کی تردید:*
شیخ ابو رضوان محمدی نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اس بیان کو سختی سے رد کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’جنت میں صرف اعلیٰ درجے کے لوگوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہوگا، جبکہ عام جنتی اس سعادت سے محروم رہیں گے‘‘۔
شیخ نے قرآن و سنت کے دلائل پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ مؤقف اہلِ سنت کے متفقہ عقیدے کے خلاف ہے، اور ہر مومن، چاہے وہ کسی بھی درجے کا ہو، جنت میں اللہ کا دیدار کرے گا۔

*❺ قرآن و سنت کے بعض مستند دلائل سے رؤیت باری تعالیٰ کا ثبوت:*
سورہ قیامہ کی مشہور آیت "وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ" کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ نے کہا کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان اپنے رب کا دیدار کریں گے۔
مزید یہ کہ نبی کریم ﷺ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا کہ جس طرح تم چودھویں کے چاند کو بے جھجھک دیکھتے ہو، اسی طرح جنت میں تم اپنے رب کو دیکھو گے۔

*❻ گمراہ فرقوں کی مخالفت:*
شیخ نے ان فرقوں کا ذکر کیا جو دیدارِ الہی کا انکار کرتے ہیں، جیسے جہمیہ، معتزلہ، اور خوارج۔ ان فرقوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کس طرح یہ گروہ ہمیشہ اہلِ سنت کے صحیح عقائد کے خلاف کھڑے رہے ہیں اور قرآن و سنت کے واضح اور صاف ستھرے احکام کی تاویل کرتے رہے ہیں۔

*❼ عقیدے کی گمراہی اور اس کے نتائج:*
شیخ نے زور دیا کہ دیدارِ الہی کا انکار نہ صرف ایک فکری گمراہی ہے بلکہ یہ ایمان کو متاثر کرنے والا سنگین مسئلہ ہے۔ انکار کرنے والے دراصل دین کے حقیقی فہم سے محروم ہیں، اور یہ محرومی ان کے دنیاوی اور اخروی حالات پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔

*❽ سلف صالحین کے اقوال:*
شیخ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے اقوال نقل کیے، جن میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اہلِ ایمان کو جنت میں اللہ کا دیدار نصیب ہوگا اور یہ اہلِ سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

24 Oct, 09:10


🎓 شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ نے کہا کہ :

✍🏼️ (پھر جو مرتبے میں ان کے بعد ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں) سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جو دعوت الی اللہ میں رسولوں کے منہج پر چلتے ہیں،

✍🏼️ اللہ کی توحید اور ہر قسم کی عبادت کو اسی کے لئے خاص کرنے کی دعوت دیتے ہیں،

✍🏼️ اس کی ذات وصفات میں شرک کرنے سے روکتے ہیں،

✍🏼️ انہیں بھی اسی طرح تکلیفیں اور اذیتیں پہونچیں گی جس طرح کہ انبیاء علیہم السلام کو پہونچی تھی۔


✍🏼️ اسی لئے آپ اکثر مبلغین اور داعی کو دیکھیں گے کہ وہ اس سخت اور پر خطر منہج سے کتراتے ہیں

✍🏼️ کیونکہ انہیں اس مشکل راہ پر چلنے سے اپنے والدین بہن بھائی، دوست واحباب اور معاشرہ وسوسائٹی کا مقابلہ کرنا پڑے گا ان اذیتیں، طعنے، ٹھٹھے سہنے پڑیں گے۔

👈🏼 اسی لئے وہ اس دشوار گزار مصائب وآلام سے بھرپور راستے کو چھوڑ کر اسلام کی ایسی تعلیمات کی تبلیغ میں زور صرف کرتے ہیں جن کے پیش کرنے میں نہ مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں اور نہ ذلت ورسوائی، ٹھٹھے اور مذاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

✍🏼️ بلکہ امت ایک بڑا طبقہ لپک کر ان کا استقبال کرے گا، حقارت کے بجائے انہیں عزت واحترام کے اعلی مراتب پر فائز کرے گا اور حکومت بھی ان کا تعاون کرے گی اور حکمرانوں کا سایہ عافیت ان پر اس وقت تک رہے گا جب تک کہ وہ ان پر نکتہ چینی نہیں کریں گے اور ان کا فریق نہیں بنیں گے۔

✍🏼️ لیکن جب یہ ان کے مقابلے پر آجائیں گے تو حکمران ان کے ساتھ سختی کا معاملہ کریں گے کہ گویا وہ ان کا کوئی مد مقابل ہو جو انکی حکومت اور تخت وتاج کے لیے خطرہ ہو۔ اور حکمران اس معاملے میں نہ تو رشتے دار کی پرواہ کرتے ہیں نہ دوستوں کی، نہ ہی مسلمانوں کی اور نہ ہی کافروں کی۔


✍🏼️ ایسے داعیان اور مبلغین جب اسلام کا نام لے کر واویلا اور شور مچاتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ ذرا تم اطمینان رکھو اور ہوش میں آؤ، اپنے آپ کو سنبھالو آپ اللہ کے منہج اور اس کے صراط مستقیم کی اس شاہراہ سے ہٹ چکے ہو جس پر انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین گامزن تھے جنہوں نے اللہ کی توحید اور اس کے دین کو اسی کے لیے خالص کرنے کی دعوت حق پیش کی تھی۔

✍🏼️ بلند بانگ دعوؤں اور مادی وسائل کی بہتات کے باوجود انبیاء علیہم السلام کے منہج پر تم چل نہیں سکتے؛

✍🏼️ کیونکہ تمہاری دعوت اور منہج الگ ہے،

👈🏼 تم مقصد کو چھوڑ کر وسائل کے پیچھے پڑے ہوئے ہو،

👈🏼 سو ان مادی وسائل کی کیا قدر و قیمت ہوگی جن کا مقصد ہی ناپید ہو؟!

👈🏼 مزید افسوس تو اس بات پر ہے کہ تم لوگ اللہ کے عطا کردہ اور پیغمبروں کے مقرر کردہ منھج سے ہٹ کر اپنی ان پگ ڈنڈیوں کو اپنانے پر مصر ہو جنہیں خود تم نے وضع کیا ہے اور انبیاء کے منہج کے مقابلے میں اپنے بھڑکیلے نعروں اور بلند بانگ جھوٹے دعووں نے جاہلوں اور نادانوں کی عقلوں کو اڑا لیا ہے۔


✍🏼️ تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت توحید اور اس کے نتیجے میں انہیں لاحق ہونے والی آزمائشوں اور تکلیفوں کی خونریز داستان یہاں مفصل ذکر نہیں کی جا سکتی،

✍🏼️ ہم صرف پانچ انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور اس سلسلے میں انہیں لاحق ہونے والی آزمائشوں کا مختصر ذکر کریں گے جو اہل بصیرت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں،

✍🏼️ اور یہ چیز ہمیں ایسی روشن راہ پر کھڑا کر دے گی جس سے پھر کوئی ہلاک ہونے والا ہی منحرف ہو سکتا ہے

مصدر : منهج ال
أنبياء في الدعوة إلى الله

Dr. Ajmal Manzoor📚

23 Oct, 20:07


📜 روافض اور باطنی نصیریوں سے تعاون لینے کی حرمت!

🎓 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا:

✍🏼️ "جہاں تک معاملہ روافض اور باطنی نصیریوں سے تعاون طلب کرنے کا ہے بطور خاص مسلمانوں کے کسی سرحدی علاقوں پر یا مسلمانوں کے کسی قلعے کی حفاظت یا اسلامی فوج میں تو یہ ایک کبیرہ گناہ ہے؛

✍🏼️ یہ تو ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی بکری چرانے کے لیے بھیڑیے کو رکھ لے؛

✍🏼️ کیونکہ یہ روافض اور باطنی نصیری عام مسلمانوں اور ان کے حکام کے تئیں سب سے زیادہ دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں،

✍🏼️ یہ ملک اور حکومت کے اندر سب سے زیادہ فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والے ہوتے ہیں،

✍🏼️ یہ ان شراب پلانے والے سے کہیں زیادہ برے ہوتے ہیں جو فوج کے اندر ہوتے ہیں،

✍🏼️ ایسے لوگوں کا کچھ نہ کچھ خاص مقصد ہوتا ہے جسکے لئے وہ کام کرتے ہیں ؛

✍🏼️ کبھی فوج کے امیر کے ساتھ یا کبھی دشمن کے ساتھ،

✍🏼️ جبکہ ان روافض اور باطنی نصیریوں کی دشمنی سیدھا ملت اسلامیہ کے ساتھ ہوتی ہے،

✍🏼️ اس امت کے نبی، اس کے دین، اس کے حکام، اس کے علماء اور اس کے عام خاص سبھی لوگوں سے ہوتی ہے،

✍🏼️ یہ تو پوری خواہش رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے قلعے دشمنوں کے حوالے ہو جائیں،

✍🏼️ یہ چاہتے ہیں کہ فوج اور حاکم کے درمیان بگاڑ اور اختلاف پیدا ہو جائے اور فوج حاکم وقت کی بیعت توڑ کر الگ ہو جائے۔

✍🏼️ سو حاکم وقت پر واجب ہے کہ وہ ان روافض اور باطنی نصیریوں کا نام فوج کے دفاتر سے خارج کر دے،

✍🏼️ انہیں کہیں بھی اسلامی سرحدوں پہ نہ رکھا جائے اور اس کے علاوہ بھی کسی اہم ذمہ داری پر انہیں نہ لگایا جائے،

✍🏼️ اسلامی سرحدوں پر ان کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے،

✍🏼️ بلکہ ان کے بدلے ایسے لوگوں کو رکھا جائے جو دین اسلام کے تئیں مخلص اور لائق اعتماد ہوں،

✍🏼️ وہ اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے حکام اور عام رعایا کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہوں۔

✍🏼️ آخر ایک حاکم جب ایسے کسی شخص کو ذمہ داری نہیں دیتا ہے جو اس کے ساتھ غداری کرے گرچہ وہ مسلمان ہو تو پھر کسی ایسے شخص کو ذمہ داری کیسے دے سکتا ہے جو تمام مسلمانوں کے ساتھ غداری کرنے والا ہو؟؟!

✍🏼️ اور یہ بھی جان لیں کہ اس طرح کے روافض اور باطنی نصیریوں کو ذمہ داری سے ہٹانا واجب ہے،

✍🏼️ جس قدر ممکن ہو ایسے لوگوں کے ہٹانے میں تاخیر نہ کی جائے،

✍🏼️ اور اگر کسی ذمہ داری پر ایسے لوگ مامور ہوں تو جتنا جلد ہو سکے انہیں اس ذمہ داری سے ہٹا کر خیر خواہ اور قابل اعتماد لوگوں کو رکھا جائے".

📕 انتهى من مجموع الفتاوى (35/ 155
)

Dr. Ajmal Manzoor📚

22 Oct, 07:13


اپنے دین وایمان کو جانچنے کا پیمانہ

شیخ عبد السلام سلفیؔ حفظہ اللہ
(امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)
•─════﷽════─•
اللہ کے دین، یعنی دین اسلام میں سب سے بڑا خیر اور سب سے بڑی بھلائی توحید ہے۔ اس دین کی سب سے اہم اور بنیادی اساس توحید ہے۔ اسی طرح اس توحید کی ضد شرک ہے۔
ہر مسلمان، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس بات کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھے کہ دینِ اسلام میں سب سے بڑا خیر توحید ہے اور سب سے بڑا شر اور سب سے بڑی برائی شرک ہے۔ یعنی ایک ایمان والے مسلمان کے دل میں سب سے زیادہ محبت توحید سے ہونی چاہیے اور سب سے زیادہ نفرت شرک سے ہونی چاہئے۔
یہی وہ پیمانہ ہے جس سے ہمارے اور آپ کے دین اور ایمان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ محبت توحید سے ہے اور سب سے زیادہ نفرت اور بیزاری شرک سے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا ایمان اور دین صحیح سالم ہے اور درست اصولوں پر قائم ہے۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے دل میں توحید کی کیا قدر و قیمت ہے؟ ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے دل میں دنیا کی سب سے قیمتی چیز توحید ہی ہے یا اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز؟

[خطبۂ جمعہ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۴ سے ایک اقتباس]
┈┉┅━━━❁━━━┅┉┈

Dr. Ajmal Manzoor📚

22 Oct, 07:10


✍🏼️ وحید الدین خان کا علمی و فکری سرمایہ مودودی و اخوانی فکر کے رد عمل میں تھا،

✍🏼️ مودودی و اخوانی فکر نوجوانوں میں شورش،انقلاب و ہنگامہ آرائی کو پروان چڑھاتی ہے اور اورجہاں حالات سازگار ہوتے ہیں وہاں نوجوانوں کو تصادم کی راہ پر ڈال دیتے ہیں اور جان و مال کی ہولناک تباہی وجود میں آتی ہے،

✍🏼️ مگر آپ وحید الدین خان کو پڑھیں گے تو آپ از اول تا آخر صبر و اعراض کی تلقین پائیں گے،

✍🏼️ یہاں تک کہ مدعا کو ثابت کرنے کیلئے تاویلات و تحریفات کے ذریعے ایسا بیانیہ وجود میں لایا ہےجس سے اسلام بزدلی،کم‌ ہمتی،لاچاری اور پسپائی کی تعلیم پر مبنی دین نظر آنے لگتا ہے۔

✍🏼️ ایک صلح حدیبیہ کو بار بار پیش کرتا ہے اور دوسرا قرآن کی آیت "ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون"کو بار بار پیش کرتا ہے،

✍🏼️ دونوں‌ تاویلات و تحریفات کے جنگل میں لوگوں کو بھٹکا دیتے ہیں،

✍🏼️ جبکہ اسلام ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر مبنی نظریہ ہے،

✍🏼️ وہ تشدد و انتہاء پسندی کو حرام قرار دیتا ہے اور بزدلی اور کم‌ ہمتی کو ہلاکت قرار دیتا ہے،

✍🏼️ وہ تربیت و تزکیہ پر یقین رکھتا ہے اور تربیت و تزکیہ کے ذریعے انسان کیلئے خلافت و حکومت کی راہ کو ہموار کرتا ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیا تھا

رشيد سلفي

Dr. Ajmal Manzoor📚

21 Oct, 08:34


🎓 امام بربہاری(متوفی۳۲۹ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

✍🏼️ اور جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو خاصا عبادت گزار، پابند اور عبادت میں غرق رہنے والا ہے، لیکن وہ بدعتی ہے، تو نہ اس کی صحبت اختیار کرو، نہ اس کے ساتھ بیٹھو، نہ اس کی باتیں سنو اور نہ اس کے طریقے پر چلو، مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہیں اس کا طریقہ اچھا لگے اور تم بھی اس کے ساتھ برباد ہو جاؤ۔
📕 (شرح السنۃ للبربہاری)

Dr. Ajmal Manzoor📚

20 Oct, 12:57


📜 کیا یہی وہ جہاد ہے جس کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے؟!

🎓 شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ نے کہا کہ

✍🏻️ تم کسی یہودی پر ایک پتھر پھینک دو پھر وہ دس بیس مسلمانوں کو ذبح کر دے اور ہزاروں مسلمانوں کو رسوا کرے اور انہیں لے جا کر جیل میں ڈال دے،

👈🏼 کیا اسی کا نام جہاد ہے؟!

✍🏽️ یہ لوگوں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

✍🏼️ دراصل کچھ لوگ اسی طرح کے جہاد کو روزی روٹی کا ذریعہ بنا رکھے ہیں اور مسلمانوں کی عقلوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔

📕 شريط : سبيل النصر والتمكين

Dr. Ajmal Manzoor📚

20 Oct, 08:55


🖼️سلفیت کا لبادہ اوڑھ کر سلفیوں کو توڑنے والے!

🎓شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ نے فرمایا:

✍️ اگر علماء امت اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے کوئی قول نقل کرتے ہیں اور سلف کے فہم کو منتقل کرتے ہیں تو ان کی باتوں کو قبول کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ صحیح رائے کے مطابق وہ مسلمانوں کے اولیائے امور (سربراہان) میں سے ہیں اور دین کے معاملات میں یہی مرجع ہیں، بلکہ دین کے مسائل، اس کے عقائد اور اس کے طریقہ کار اور منہج میں حکام کے لیے بھی مرجع ہیں؛ سو حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ علماء کی بات سنیں اور جو کچھ وہ اللہ کے دین حق کے بارے میں کہتے ہیں اسے قبول کرلیں؛ کیونکہ اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے الحمد للہ۔

✍️ سلفیوں کی صفوں میں گھسنے والے بدعتی اور گمراہ علماء اور ان کے پیروکاروں نے انکے اس عظیم حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ ان پر طعن وتشنیع بھی کرتے ہیں، یقینا یہ ایسے لوگ ہیں جو سلفیوں کی صفوں میں گھس کر نوجوانوں کے دلوں میں ان علمائے امت کی حیثیت کو مجروح کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے نوجوانوں میں سے بہت سے انکے انہیں مذموم حرکتوں کی وجہ سے علماء سے منہ موڑ لیتے ہیں،
چنانچہ آپ سلفیوں کے بیچ میں ان خبیثوں کو سلفیت کا لبادہ اوڑھے اور سلفیت کا جھوٹا دفاع کرتے دیکھیں گے، بلکہ سلفیت کے دفاع میں انہیں کبھی کبھار ناٹک کرتے ہوئے بھی دیکھیں گے، جبکہ یہ حقیقت میں سلفیت کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں اور سلفیت کا لبادہ اوڑھ کر سلفیوں کو توڑنے اور ان کے نوجوانوں کو منتشر کرنے میں وہ سب کرتے ہیں جو بدترین دشمن نہیں کر سکتے؛ اس لیے سلفیت کے ان دشمنوں سے اور ان کی چالوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔

📖اللباب من مجموع نصائح الشيخ ربيع للشباب، ص
129

Dr. Ajmal Manzoor📚

19 Oct, 19:38


الفوائد العقدية والقواعد المنهجية المستنبطة من تأصيلات أصول السنة للإمام أحمد السلفية
ص٨٣

Dr. Ajmal Manzoor📚

18 Oct, 15:46


https://youtu.be/QhzBYZQcKZg

Dr. Ajmal Manzoor📚

17 Oct, 13:48


خوارج جیسی فکر رکھنے والی رافضیت نواز جماعت امت کا کبھی بھلا نہیں کر سکتی.

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں ان کے ذریعہ کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوا، اور نہ ہی کبھی انہوں نے کفار کے ملک کی ایک بستی بھی فتح کی، اور نہ ہی وہ کبھی اسلام کی رفعت وبلندی کا سبب بنے، گمراہ فرقے ہمیشہ نظامِ مسلم کی تخریب میں لگے رہتے ہیں، مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، اور روئے زمین پر فساد مچاتے ہیں".
الفصل في الملل والنحل (١٧١/٤)؛

شیخ عبد السلام السحیمی حفظہ اللہ ابن حزم رحمہ اللہ کے مذکورہ کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
"ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام عصر حاضر کے گمراہ کن فرقے جیسے اخوان المسلمین اور اس کوکھ سے جنم لینے والی جماعت، قطبیہ، سروریہ، القاعدہ، داعش، نصرہ، حماس وغیرہ پر منطبق ہوتا ہے.
یہ تمام جماعتیں اہل سنت ہونے کا دعوی کرتی ہیں جب کہ وہ خوارج ہیں، ان کے نام تبدیل ہو گئے لیکن معنی باقی رہ گیا.
اسی طرح بدترین گمراہ فرقہ روافض اور اس کی گود میں پلنے والی جماعتیں جیسے، الحرس الثوری، فیلق القدس، حزب الشیطان، الحشد الشعبی اور حوثی وغیرہ پر بھی ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام پورہ طرح منطبق ہوتا ہے.
عقائد میں اختلاف کے باوجود اخوان المسلمین اور روافض کی ان جماعتوں کے درمیان باہمی تعاون وہمدردی اور اتفاق واتحاد کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، ان کو ان کی بدعتوں نے متحد کیا ہوا ہے، کیوں کہ ان دونوں فرقوں کا بانی اور مؤسس ایک ہی ہے اور وہ عبد اللہ بن سبأ ہے، چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ کی بات ان پر پوری طرح فٹ آتی ہے".

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

Dr. Ajmal Manzoor📚

17 Oct, 03:43


غلبہ دین کی کوشش کیلئے نہیں توحید کی دعوت کیلئے ہمیں مکلف بنایا گیا ہے!!!
دین اسلام غالب ہوچکا ہے...

دین کو غالب کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے...
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ دین اسلام کا غلبہ ہو چکا ہے...
یہاں غلبہ سے مراد حجت و براہین کے ذریعے دین اسلام کا تمام ادیان باطلہ پر غالب آنا اور اپنی سچائی اور ہدایت کے ذریعے پورے عالم پہ چھا جانا ہے...
اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوگی جیسا کہ اخونجی تھریکیوں کا کہنا ہے....
اس سے تو یہ لازم ائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی طرح خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام غالب نہیں ہوا ہے،،، نعوذبااللہ گویا اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر غلبہ دین کے چلے گئے،،، اسی طرح سے خلفائے راشدین کے دور میں بھی غالب نہیں آیا....
یہ بدترین عقیدہ اور سوچ ہے، کسی نبی کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں رہا ہے کہ وہ ساری دنیا پر حکومت کرے، تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد توحید کا پیغام پہنچانا تھا وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پرستش کر رہے تھے انہیں اللہ کی عبادت کی طرف لانا مقصد تھا، اور اس مقصد میں ہر نبی کامیاب تھا، ٹھریکیوں اسراریوں کی طرح نہیں جو انبیاء کے بارے میں کہتے ہیں کہ کسی کو ناکامی ہوئی کسی کو تھوڑی کامیابی ہوئی کسی کو پوری کامیابی... استغفراللہ نعوذ باللہ
داعی کبیر بھی انہیں تینوں آیتوں کی طرف. اشارہ کرکے یہی سوچ پھیلا رہے ہیں.....

Dr. Ajmal Manzoor📚

16 Oct, 06:01


🎓 شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ نے کہا کہ

✍🏻️ اہل السنہ والجماعہ جب کتاب اللہ، سنت رسول الله اور سلف کے کلام کو پڑھتے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کا دیدار کریں گے

✍🏻️ تو انکے دلوں کو راحت اور انکی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے،

✍🏻️ کیونکہ دیدار الہی میں انکا ایمان ہوتا ہے

✍🏻️ اسی لئے اللہ عز وجل کی دیدار کیلئے وہ مشتاق ہوتے ہیں اور اسی لئے وہ نیکی کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں

✍🏻️ تاکہ دیدار الہی سے وہ فیض یاب ہو سکیں۔

📕 (البیان والایضاح، ص 8)
۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

15 Oct, 12:26


منہج حق کے محافظ

#خواطر

اللّٰہ کی قسم اگر ہر دور میں منہج سلف صالحین کی اتباع کرنے والے کچھ بنیاد پرست افراد جنہیں احباب شدت پسندی اور منہج کی ٹھیکداری کا طعنہ دیتے ہیں کتاب وسنت کے صحیح سلفی فہم کی نشر و اشاعت اور باطل افکار کے رد وتنقید میں مصروف نہ رہتے بلکہ متساہلین کی روش اپنا کر خاموشی اختیار کئے رہتے اور "ٹھیک ہے" "چلے گا" "گنجائش ہے" "مصلحت کا تقاضا ہے" "چھوڑیے جانے دیجیے اتنی سختی بھی مناسب نہیں ہے" وغیرہ کا سہارا لیتے تو آج دین اپنی اصل شکل میں ہرگز باقی نہ رہتا، بلکہ ان مصلحتوں کے نیچے دب کر اپنی شناخت کھو دیتا، اس لیے یہ رد وتنقید کرنے والے گرچہ متساہل طبیعتوں پر گراں گزرتے ہوں لیکن پھر بھی برداشت کر لیجیے، اسی قسم کے لوگوں نے خالص دین کو ہم تک پہنچایا ہے اور یہی لوگ آنے والی نسلوں کے لیے بیجا مصلحتوں اور غیر ضروری حالات کے تقاضوں سے بے نیاز ہو کر صحیح منہج اور حقیقی دین کی حفاظت کر رہے ہیں، ہماری تاریخ پر نظر ڈالئے تو بیشمار ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ ان واقعات کو اگر آج کے مزعوم اعتدال پسندوں کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ بیجا شدت اور تنفیری حرکت قرار پائیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اسی تعامل کی وجہ سے ہم تک خالص دین پہنچ پایا ہے، امام مالک سے کسی شخص صرف یہ پوچھ لیا کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ"الرحمٰن علی العرش استوی" رحمن عرش پر مستوی ہوئے "فكيف استوى" تو یہ بتائیے کیسے مستوی ہوئے؟ بس یہ جملہ سننا تھا کہ امام مالک غصے سے لال ہو گئے اور کہا کہ تم بدعتی ہو، اور پھر اسے مجلس سے نکال باہر کرنے کا حکم دیا! اعتدال پسندوں کی نظر سے دیکھیے تو یہ ایک معمولی سوال تھا جو ممکن ہے جہالت یا غلط فہمی کی بنیاد پر زبان پر آ گیا ہو، اس میں اس قدر بپھرنے کی تو کوئی بات نہیں تھی، یہ کیا بات ہوئی کہ محض ایک سوال کرنے پر بدعت کا سرٹیفکٹ بانٹ دیا جائے اور ذلیل کر کے مجلس سے نکال دیا جائے!!!
اسی طرح خلق قرآن کے مسئلہ میں امام ابو حاتم رازی اور ابو زرعہ رازی اپنے دور کے ائمہ وعلمائے دین کا متفقہ عقیدہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"جو یہ عقیدہ رکھے کہ قرآن مخلوق ہے، تو وہ اللّٰہ العظیم کا منکر اور ایسے کفر کا مرتکب ہے جو دین سے خارج کر دیتا ہے۔
اور جو ایسے کسی شخص کے کافر ہونے میں شک کرے اور وہ سمجھتا بھی ہو جاہل نہ ہو تو وہ بھی کافر ہے ۔
اور جو کلام الٰہی کے (مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کے) بارے میں شک کرے، اور اس سلسلے میں تردد کا شکار ہو کر توقف اختیار کرے اور کہے کہ "مجھے نہیں معلوم مخلوق ہے یا غیر مخلوق" تو وہ "جہمی" ہے۔
اور جو جہالت اور لا علمی کی وجہ سے قرآن کے بارے میں توقف کرے، اسے سکھایا جائے گا اور بدعتی قرار دیا جائے گا، لیکن اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
اور جو کہے کہ "لفظي بالقرآن مخلوق" وہ جہمی ہے، یا یہ کہے کہ "القرآن بلفظي مخلوق" وہ بھی جہمی ہے۔"
یہاں سہولت کاروں کے اصول و قواعد کو منطبق کیا جائے تو یہ اعتراضات اٹھیں گے کہ جو بیچارہ قائلین خلق قرآن کو کافر نہیں سمجھتا وہ کیونکر کافر ہوا؟! جس نے توقف کیا وہ کیسے جہمی ہو گیا اس نے بھلا کون سا جرم کر دیا؟ اور جو جہالت کی بنیاد پر توقف کرتا ہے اس کی بھی تبدیع! کیا یہ انتہا پسندی نہیں ہے؟!
امام احمد نے مامون اور معتصم وغیرہ کے خوف سے خلق قرآن کے مسئلہ میں توقف اختیار کرنے والے اہل علم سے بات چیت بند کر دی تھی جن میں یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی جیسے اساطین علم بھی شامل تھے، ان حضرات کی تاویل یہ تھی کہ وہ حالت اکراہ میں ہیں لہٰذا جان بچانے کے لیے سکوت اختیار کرنا جائز ہے، لیکن اس کے باوجود امام احمد نے ان کا عذر قبول نہیں کیا کیوں کہ یہ حضرات ائمہ وعلماء تھے جن کی طرف لوگ دیکھتے تھے اور ان سے دین سیکھتے تھے لہٰذا ان کی خاموشی عام لوگوں کی خاموشی سے مختلف تھی!!

امام ابن تیمیہ نے فخر الدین رازی، تقی الدین سبکی، اور ابن عربی وغیرہ پر خوب تنقیدیں کیں، ان کے خلاف کتابیں لکھی، اشاعرہ وماتردیہ اور فلاسفہ وعقلانیون جن کی جڑیں اس وقت مسلمانوں میں مضبوط ہو چکی تھیں، آپ نے ان سبھی کے رد میں کئی کئی مجلدات لکھے، حالانکہ اسی دوران آپ تاتاریوں سے جنگ بھی لڑ رہے تھے اور شاید وہ دور تاریخ اسلامی میں مسلمانوں کا سب سے بدترین اور کمزور ترین دور تھا، اس کے باوجود مصلحتوں کے تابع ہو کر آپ احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دینے سے پیچھے نہیں ہٹے، آج لوگ حالات کی خرابی کی دہائی دیتے ہیں، اور مصلحت کے تقاضے یاد دلا کر غلطیوں اور گمراہیوں پر خاموشی کا مطالبہ کرتے ہیں، اور رد وتنقید کو تفرقہ بازی کا سبب قرار دیتے ہیں، لیکن وہی لوگ امام مالک، احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کو ائمہ دین اور مجددین ملت تسلیم کرتے ہیں، اور انہی کے نقش قدم پر چلنے والوں کو ٹھیکے دار اور متشدد قرار دیتے ہیں!!!

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی۔

Dr. Ajmal Manzoor📚

15 Oct, 05:10


أهل سنت اور أهل بدعت میں فرق

🎓 قال الامام ابن القيم رحمه الله:

✍🏻️ الفرق بين أهل السنة و أهل البدع، أن أهل السنة يتركون أقوال الناس لأجل السنة و أهل البدع يتركون السنة لأجل أقوال الناس

🎓 امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

✍🏻️ اہل سنت اور اہل بدعت میں یہ فرق ہے کہ اہل سنت ، سنت کی وجہ سے لوگوں کے اقوال چھوڑ دیتے ہیں اور اہل بدعت لوگوں کے اقوال کی وجہ سے سنت چھوڑ دیتے ہیں۔

📖الصواعق المرسلة ج٤/ص ١٤٠٣

Dr. Ajmal Manzoor📚

14 Oct, 19:15


Ahle Sunnah Kiya Hai| Shaykh Abdus Salam Salafi
https://youtu.be/k3qECOukI9s

https://linktr.ee/daruttauheed

Dr. Ajmal Manzoor📚

13 Oct, 07:57


Tauheed Sab Se Behtareen| Shaykh Abdus Salam Salafi
https://youtube.com/shorts/-EcQQZmv8bM

https://linktr.ee/daruttauheed

Dr. Ajmal Manzoor📚

13 Oct, 06:17


🎓 شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ نے کہا کہ

✍🏻️ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں کہ

✍🏻️ الہی! مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا لے۔

✍🏻️ جب کہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ کی اولاد میں کثرت سے انبیاء ہوں گے اس کے باوجود آپ خوف کھاتے تھے،

✍🏻️ پھر ہم کیسے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ بیٹھے ہیں؟

📕 (المجموع :4/ 106)

Dr. Ajmal Manzoor📚

12 Oct, 15:01


اسی طرح کلدانیوں کے بادشاہ نمرود نے اپنی خدائی کا اعلان کیا اس نے اپنے باطل معبودوں -جنہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا- کے انتقام کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو زندہ آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا، ادھر ہندوستان اور ایران کے بادشاہوں نے بتوں اور آگ کی پرستش کی، ماضی میں شاہان روم اور دور حاضر میں یورپ اور امریکہ کے متعدد حکمران صلیب اور سیدنا عیسی علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کے مجسموں اور تصویروں کی پرستش کر رہے ہیں، ادھر دور ماضی اور حاضر کے کتنے مسلم حکمران ہیں جو قبر پرستی میں مبتلا ہو کر صالحین کی قبروں کو پختہ کر رہے ہیں اور ان کے دل ان اصحاب قبور کی محبت، امید اور خوف سے بھرے ہوئے ہیں، اور اسی گناہ عظیم کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کا خدشہ رحمۃ للعالمین علیہ الصلاۃ والسلام نے امت پر محسوس کیا تھا اور اس سے خبردار فرمایا تھا۔
اس سے آپ پر انبیاء علیہم السلام کے منہج کی اہمیت، بتوں اور قبروں کے خلاف ان کے حتمی موقف کی عظمت اچھی طرح آشکارہ ہو گئی ہوگی، اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حکمت اور ان کی فکر کی گہرائی کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا جبکہ انہوں نے ایک ایسی صدا بلند کی جو آفاق عالم اور نسل انسانی میں قیامت تک گونجتی رہے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے : (وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ[35] رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) [ابراہیم :36]۔
ترجمہ : (ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن واﻻ بنادے، اور مجھے اور میری اوﻻد کو بت پرستی سے پناه دے۔ [35] اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راه سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری تابعداری کرنے واﻻ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے واﻻ ہے۔
آپ یہاں پر ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام جو کہ مکمل حق اور راہ صواب پر تھے حکمرانوں کے خطرات سے جو کہ اگرچہ فساد و خطرات کے لحاظ سے بڑے جسیم ہیں مگر آپ ان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنے کے بجائے بتوں اور اصنام کے خطرات سے اللہ تعالی کی پناہ طلب فرما رہے ہیں!!

📖منہج الأنبياء فی الدعوۃ الی اللہ
🖋️شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ


https://www.facebook.com/share/p/3nGqbHbXfRP3jJgg/?mibextid=WC7FNe

Dr. Ajmal Manzoor📚

12 Oct, 15:01


🖼️اصلاح عقائد اور مخالفت شرک ہی عقل و حکمت کا تقاضہ ہے

عقل و حکمت اور فطرت کا یہی تقاضا ہے کہ شرک کے خطرے کا سب سے پہلے سد باب کیا جائے اور یہ کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کے پیروکار کی شرک کے خلاف دعوت برابر جاری رہے یہاں تک کہ شرک اپنے تمام شکلوں اور مظاہر کے ساتھ ختم ہو جائے۔
اگر کسی قوم کے عقیدہ توحید، اقتصادی اور سیاسی حالت پر بیک وقت مصائب ٹوٹ پڑیں تو عقل و حکمت کس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ سب سے پہلے کس کا علاج کیا جائے؟
جہاں تک انبیاء علیہم السلام کا تعلق ہے تو انہوں نے سب سے پہلے عقیدہ توحید پر آئی مصیبت کا علاج سب سے پہلے کیا اور پوری قوت سے کیا؛ کیونکہ تمام عقلمند اس بات پر متفق ہیں کہ خطرناک بیماری کا علاج سب سے پہلے ہو۔
سو اگر کسی عقل مند نے یہ دیکھا کہ اس کے جسم پر بیک وقت سانپ اور چیونٹی دونوں رینگ رہے ہوں تو اس شخص کی دانائی اس بات کا تقاضہ کرے گی کہ وہ سانپ کے زہر قاتل کا احساس کرتے ہوئے فورا اسے دور کرنے کی کوشش کرے، اس سلسلے میں ایک کیا ہزاروں چیونٹیوں کی بھی وہ پرواہ نہ کرے۔
اگر چند عقلمندوں نے دیکھا کہ ان پر پھاڑ کھانے والا شیر اور چوہوں کی ایک بڑی جماعت دونوں حملہ کرنے کے لیے مستعد تیار ہیں تو وہ اپنی ساری توانائیاں شیر کے حملے کو پسپا کرنے پر لگا دیں گے، چوہوں کو وقتی طور پر فراموش کر دیں گے چاہے ان کے ساتھ مینڈکوں کی بھی بھاری جمعیت ہو۔
اگر چند مسافروں نے دیکھا کہ ان کا راستہ دو ایسے خطرناک راستوں میں بٹ گیا ہے جن میں سے کسی ایک پر چلنا ان کے لیے لازمی وضروری ہے، ان دونوں راستوں کی کیفیت یہ ہے:
پہلا راستہ: جس پر دہکتے آتش فشاں ہیں جس سے لپکتے شعلے درختوں اور پتھروں تک کو بھسم کر رہے ہیں۔
دوسرا راستہ: جس میں کانٹے سنگلاخ چٹانیں اور تپتا میدان ہے۔
ایسی حالت میں عقلمند مسافر وہی ہوں گے جو پہلے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کریں گے۔
جب ہم سیاسی معاشرتی اور اقتصادی مفاسد پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ان تمام میں سب سے بڑا فساد بظاہر حکمرانوں کا فساد معلوم ہوتا ہے، لیکن آئیے ہم حکمرانوں کے فساد کا عقیدے کے فساد سے موازنہ کر کے دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں اللہ تعالی اور انبیاء علیہم السلام کی میزان عدل میں برابر ہیں یا ان میں سے کسی ایک کا فساد اپنی خطرناکی اور انجام کی ہولناکی میں دوسرے سے بڑھا ہوا ہے؟!
سو معلوم رہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں اللہ تعالی اور انبیاء علیہم السلام کی نگاہ میں سب سے بڑا خطرہ جس پر قدغن لگانا ضروری سمجھا گیا وہ شرک اور اس کے مظاہر کا خطرہ ہے، اس فساد کے آگے دنیا کا ہر فساد ہیچ ہے؛ اس لیے ہم مکرر یہی کہیں گے کہ اسی وجہ سے تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی دعوت کا آغاز اصلاح عقیدہ، شرک اور مظاہر شرک کے خلاف محاذ آرائی سے کیا، اور یہی عقل و حکمت کا تقاضا بھی ہے جیسا کہ درج ذیل امور اس پر دلالت کرتے ہیں :
1- شرک، ضلالت اور خرافات کی برائیاں جو لوگوں کے عقیدے سے جڑی ہوئی ہیں حکمرانوں کے بگاڑ سے لاکھوں گناہ بڑی ہیں، اگر ہم نے یہ تسلیم نہیں کیا تو گویا ہم تمام انبیاء علیہم السلام کو لاشعوری طور پر معاذ اللہ! نادان قرار دے رہے ہیں جنہوں نے اپنی دعوت کا آغاز اصلاح عقیدہ سے کیا!!
یہ برائیاں حاکم اور محکوم دونوں کو شامل کر لیتی ہیں، حکمران ہر جگہ ہر زمانے میں -سوائے مومن حکمرانوں کے- بتوں، پتھروں اور قبروں کے آگے جھکتے ہوئے چلے آرہے ہیں، وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان بتوں میں وہ زبردست غیبی طاقت موجود ہے جو ہماری ظاہری مادی سلطنت سے کہیں زیادہ طاقتور ہے، وہ اپنی غیبی قوت اور مخفی سلطنت سے انہیں فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں یا کم از کم ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اللہ سے سفارش کر سکتے ہیں۔
حکمرانوں کے بتوں کے آگے جھکے رہنے کی واضح مثال روئے زمین پر اللہ کے سب سے زیادہ سرکش اور طاغوت فرعون کی ہے جس نے اکڑ کر کہا تھا:(أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى) [النازعات :24]۔ ترجمہ : میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں۔
مزید اس نے کہا:(مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي) (القصص:38)۔ ترجمہ : میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔
اللہ تعالی نے فرعون کی قوم کے اس قول کو نقل کیا ہے جس میں وہ اسے اپنے معبودوں کی خاطر حمیت اور غیرت اپناتے ہوئے مشورہ دے رہے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:(وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ) [الاعراف :127]۔ ترجمہ : اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا، تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے؟
اس سے معلوم ہوا کہ فرعون جہاں ایک طرف خدائی دعوے کرتا تھا وہیں پر دوسری طرف اوثان اور بتوں کا پرستار بھی تھا اور انہیں اپنا معبود سمجھتا تھا،

Dr. Ajmal Manzoor📚

11 Oct, 13:35


https://whatsapp.com/channel/0029Va8zENN7Noa3pfFnDh3c/634

Shaykh Abu Rizwan Muhammadi👇👇👇👇


https://whatsapp.com/channel/0029Va47zes60eBnn6NFvE33/431