ریختہ @urdurekhta Channel on Telegram

ریختہ

@urdurekhta


اردو چینل

ریختہ (Urdu)

ریختہ چینل، جوکہ اردو زبان میں ہے، ایک معلوماتی ٹیلیگرام چینل ہے جو اردو زبان کے شوقینوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس چینل کا مقصد اردو زبان اور ادب کی ترویج کرنا ہے اور مختلف مواضوعات پر معلومات فراہم کرنا ہے۔ ریختہ چینل پر آپ کو اردو زبان کی شاعری، نظم، ناول، اور مختلف لطیفے ملیں گے۔ یہاں آپ کو معلوماتی مضامین، تاریخی ورثے، اور اردو زبان کی خوبصورتی سے متعلق خبریں بھی ملیں گی۔nریختہ چینل میں آپ کو اردو زبان کے محبین سے متعلق دلچسپ و معلوماتی مواد فراہم کیا جائے گا۔ اس چینل میں ہر روز نیا مواد اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے جو آپ کو اردو زبان کی روشنی میں رکھتا ہے۔ اگر آپ اردو زبان کے شاعری، ادب، یا تاریخ سے محبت رکھتے ہیں تو ریختہ چینل آپ کے لئے ایک معلوماتی و مزیدار منصوبہ ہو سکتا ہے۔

ریختہ

27 Oct, 08:48


اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے
جو قاتل تھے مقتول ہوئے جو صید تھے اب صیاد ہوئے

پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس
سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے

پہلے بھی طواف شمع وفا تھی رسم محبت والوں کی
ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصورؔ ہوئے فرہادؔ ہوئے

اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا
اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے

فیضؔ نہ ہم یوسفؔ نہ کوئی یعقوبؔ جو ہم کو یاد کرے
اپنی کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

فیض احمد فیضؔ

ریختہ

08 Oct, 09:21


ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺷﮩﺮِ ﺳﺘﻢ ﮔﺮﺍﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺷﻨﺎﺱ ﺁﺋﮯ
ﻭﮦ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺭ ﭼﮭﻠﮑﮯ
ﻟﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﺱ ﺁﺋﮯ ,

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺩِﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﻮﺍ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﯿﮟ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﺪﻧﺼﯿﺐ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ
ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﻧﮧ ﺭﺍﺱ ﺁﺋﮯ ,

ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﻣﻨﺎﺩﯼ ﮐﺮﺍ ﺩﻭ صاحب‌‌‌‌
ﺟﺴﮯ ﻃﻠﺐ ﮨﻮ ﻣﺘﺎﻉِ ﻏﻢ ﮐﯽ
ﻭﮦ ﮨﻢ ﻓﻘﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁئے ___!!!

محسن نقوی

ریختہ

23 Sep, 13:36


چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

میں نے دل کی بات رکھی اور تونے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری

ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہربلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری

مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسن
ہم نے ساری عمر نبھائی اپنی پہلی مجبوری

محسن بھوپالی

ریختہ

18 Sep, 16:08


عہد پُختہ کیا رِندوں نے یہ پیمانے سے
خاک ہو جائیں گے نِکلیں گے نہ میخانے سے

میرے ساقی ہو عطا مُجھ کو بھی پیمانے سے
فیض پاتا ہے زمانہ ترے میخانے سے

یک بہ یک اور بھڑک اُٹھتا ہے سمجھانے سے
کوئی کیا بات کرے آپ کے دیوانے سے

رِند مِل مِل کے گلے روئے تھے پیمانے سے
جب مری لاش اُٹھائی گئی میخانے سے

مُجھ سے پُوچھے کوئی کیا مُجھ پہ جُنوں میں گُزری
قیس و فرہاد کے قِصّے تو ہیں افسانے سے

واعظِ شہر کی توبہ نہ کہیں ٹوٹی ہو
آج "ہُو حق" کی صدا آتی ہے مے خانے سے

كون يہ آگ لگا ديتا ہے، معلوم نہيں
روز اٹھتا ہے دھواں سا مرے كاشانے سے

ترکِ ثابت قدمی ایک قیامت ہو گی
اور گھِر جاؤ گے آلام میں گھبرانے سے

پا لیا آپ کو اِقرارِ محبت نہ کریں
بن گئی بات مری آپ کے شرمانے سے

رِند کے ظرف پہ ساقی کی نظر رہتی ہے
اِسے چُلّو سے پلا دی، اُسے پیمانے سے

شیخ کے ساتھ یہ رِندوں پہ قیامت ٹُوٹی
پینے والے بھی نِکالے گئے میخانے سے

باغباں پھونک، مگر شرط يہ ہے گلُشن ميں
آگ پھولوں پہ نہ برسے ميرے خَس خانے سے

اس سے بہتر نہ ملے فرشِ سكينت شايد
ہم پُكاريں گے اُنہيں بيٹھ كے ويرانے سے

بات سُنتے جو نصیرؔ آپ تو اِک بات بھی تھی
بات سُنتے نہیں کیا فائدہ سمجھانے سے

بے سہارا ہوں بُڑھاپے میں کہاں جاؤں نصیرؔ
اب تو جنازہ ہی اُٹھے گا مرا میخانے سے

نصیر الدین نصیرؔ

ریختہ

11 Sep, 16:20


دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے

مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سر نیاز
کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے

جگر مراد آبادی

ریختہ

11 Sep, 16:20


اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے
میں تھک کے چھاؤں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے

میں دے رہا تھا سہارے تو اک ہجوم میں تھا
جو گر پڑا تو سبھی راستہ بدلنے لگے

میں پالتا رہا جن کو جلا کے سُرمہءجاں
ہوا ضعیف تو آنکھیں چُرا کے چلنے لگے

بڑے خلوص سے آئے تھے تخت پر عفریت
بڑے وثوق سے دھرتی مری نگلنے لگے

نہ مارتے ہیں مجھے اور نہ جینے دیتے ہیں
یہ کسے زخم مری آستیں میں پلنے لگے

کبھی کبھی ذرا خود کو گلے لگایا کر
اور اس سے پہلے کہ جیون تجھے نگلنے لگے

تھی سرد مہری ِ یاراں بھی کیا عجب فرحت
تپش بغیر مرے جسم و جاں پگھلنے لگے

فرحت عباس شاہ

ریختہ

26 Aug, 16:53


سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ھمیں
اور ھم بھول گئے ھوں تجھے ایسا بھی نہیں

بات یہ ھے کہ سکون دل وحشی کا مقام
کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں

ارے صیاد ھمِیں گل ھیں ھمِیں بلبل ھیں
تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش
آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں

یہ بھی سچ ھے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ھے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں

یوں تو ھنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں

فطرت حسن تو معلوم ھے تجھ کو ھمدم
چارہ ھی کیا ھے بجز صبر سو ھوتا بھی نہیں

منہ سے ھم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ
ھے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

فراق گورکھپوری

ریختہ

11 Aug, 16:52


وہ دِل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مِرا علاج مِرے چارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مِرے لیے کوئی شایانِ التماس نہیں

تِرے جلو میں بھی دِل کانپ کانپ اُٹھتا ہے
مِرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گُزارے تھے
اب اُن دِنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں

گُزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دِیدہ و دِل
سَحر کی آس تو ہے ، زندگی کی آس نہیں

مجھے یہ ڈر ہے ، تِری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دِنوں سے طبیعت مِری اُداس نہیں

ناصر کاظمی

ریختہ

06 Aug, 16:21


اک خسارے نے بھرم توڑ دیے ضبط کے سب
اور پھر ہوتا گیا میرا زیاں تیرے بعد

پھر کسی دکھ کی, خوشی کی, نہ رہی کوئی تمیز
کس روانی سے چلی عمر رواں تیرے بعد

ریختہ

06 Aug, 05:49


برسے گا ٹوٹ ٹوٹ کر ابر محبتاں
ہم چیختے رہیں گے کہ حاجت نہیں رہی

اک روز کوئی آئے گا لے کر کے فرصتیں
اک روز ہم کہیں گے ضرورت نہیں رہی!!

"عائشہ شفق "

ریختہ

01 Aug, 08:13


‏صیاد آ گئے ہیں سبھی ایک گھات پر
اٹھنے لگی ہیں انگلیاں اب میری ذات پر

موسم کا لہجہ سرد ہے یادیں بھی تلخ ہیں
تنہائیوں کا بوجھ ہے ہر سمت رات پر

کیوں آج میری یاد بھی آئی نہیں تجھے
کل تک تو میرا تذکرہ تھا بات بات پر

ریختہ

01 Aug, 08:04


صدیوں سے راہ تکتی ھُوئی ، گھاٹیوں میں تم
اِک لمحہ آ کے ھنس گئے ، میں ڈُھونڈتا پِھرا

اُن وادیوں میں ، برف کے چھینٹوں کے ساتھ ساتھ
ھر سُو شرر برس گئے ، میں ڈُھونڈتا پِھرا

راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں
دِن دَلدلوں میں دَھنس گئے ، میں ڈُھونڈتا پِھرا

راھیں دُھوئیں سے بھر گئیں ، میں منتظر رھا
کرنوں کے رُخ جُھلس گئے ، میں ڈُھونڈتا پِھرا

تم پھر نہ آ سکو گے ، بتانا تو تھا مجھے
تم دُور جا کے بس گئے ، میں ڈُھونڈتا پِھرا

مجید امجد

ریختہ

20 Jul, 19:13


تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں

تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں ترے قدموں کے نشاں تک دیکھوں

صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن ترے حسن بیاں تک دیکھوں

میرے ویرانۂ جاں میں تری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں

وقت نے ذہن میں دھندلا دیئے تیرے خد و خال
یوں تو میں ٹوٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں

دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں

اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں

احمد ندیم قاسمی

ریختہ

19 Jul, 18:12


وہ تَہی دَست بھی کیا خوب کہانی گَر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا

ہنساتا تھا مجھ کو تو پھر وہ رُلا بھی دیتا تھا
کر کے وہ مجھ سے اکثر وعدے بُھلا بھی دیتا تھا

بے وفا تھا بہت مگر دل کو اچھا لگتا تھا
کبھی کبھار باتیں محبت کی سُنا بھی دیتا تھا

کبھی بے وقت چلا آتا تھا ملنے کو
کبھی قیمتی وقت محبت کے گنوا بھی دیتا تھا

تھام لیتا تھا میرا ہاتھ کبھی یوں ہی خود
کبھی ہاتھ اپنا میرے ہاتھ سے چھڑا بھی لیتا تھا

عجیب دھوپ چھاؤں سا مزاج تھا اُس کا
معتبر بھی رکھتا تھا نظروں سے گرا بھی دیتا تھا

ریختہ

18 Jul, 15:09


چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن

رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب
دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن

پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن

خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن

گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن

میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ

17 Jul, 09:16


آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں
اے جان سخن میں تیرا چہرہ بھی تو دیکھوں

دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے لگی ہے
اس حبس میں بارش کا یہ جھونکا بھی تو دیکھوں

صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئیں آنکھیں
دکھ کہتا ہے میں اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں

یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں

اب تک تو مرے شعر حوالہ رہے تیرا
اب میں تری رسوائی کا چرچا بھی تو دیکھوں

اب تک جو سراب آئے تھے انجانے میں آئے
پہچانے ہوئے رستوں کا دھوکا بھی تو دیکھوں

پروین شاکر

ریختہ

14 Jul, 06:35


سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہنر یار کے رکھ دیتے ہیں

شاید آ جائیں کبھی چشم خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں

تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں

اب کسے رنج اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گل و گلزار کے رکھ دیتے ہیں

ذکر جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسئلے بے کار کے رکھ دیتے ہیں

وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہل دل بھی
طاق نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں

زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں

ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھ دیتے ہیں

احمد فراز

ریختہ

08 Jul, 12:54


زور سے ہاتھ جھٹک ، یار مکمل کردے
تو مرے ھجر کو اس بار مکمل کردے

ان دنوں آدھے ادھورے ھیں تخیل سارے
بھیج وہ درد جو اشعار مکمل کردے

روٹھ جانے کی یہ تلوار ھٹادے سر سے
ورنہ رستے کی یہ دیوار مکمل کردے

ایک چُھٹی تو مِرے ساتھ مَنا گاؤں میں
کوئی خوش بخت سا اتوار مکمل کردے

کردے اعلان مسخر ھوئی کومل جوئیہ
جیتنے والے مِری ھار مکمل کردے

کومل جوئیہ

ریختہ

08 Jul, 10:25


کیا کہیں راز حسن و الفت کے
لوگ ملتے نہیں طبیعت کے

خاک اُڑتی ہے دل کی راہوں میں
لٹ گئے قافلے محبت کے

ہم نے کائی ہیں ہجر کی راتیں
ہم پہ گزرے ہیں دن قیامت کے

دل میں عہد وفا کی امیدیں
جل رہے ہیں چراغ تربت کے

ریختہ

28 Jun, 15:27


میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا

کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اذن رہائی نہیں دیتا

چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوار بدن پر
اور دست ستم گر بھی دکھائی نہیں دیتا

آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا

اب اپنی زمیں چاند کے مانند ہے انورؔ
بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا

انور مسعود

1,686

subscribers

964

photos

83

videos