ادارہ کھف الایمان @muftiabubakarjaberqasmi Channel on Telegram

ادارہ کھف الایمان

@muftiabubakarjaberqasmi


مفتی ابوبکر جابر صاحب قاسمی حفظہ اللہ

ادارہ کھف الایمان (Urdu)

ادارہ کھف الایمان کا مطلب ہے ایمان کی گہرائیوں اور اہمیت کو سمجھنا اور بیان کرنا۔ یہ چینل مفتی ابوبکر جابر صاحب قاسمی حضرت کی سرپرستی میں ہے، جنہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں علم اور سماجی معاملات پر غوروفکر کیا ہے۔ این کے ادبی معنی ہیں "کھف الایمان"، جو یقین کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ہمیں امید دیتا ہے کہ ہم جلد ہی اپنے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ یہ چینل مختلف اسلامی تربیتی، فقہی، اور تاریخی موضوعات پر تبادلہ خیال فراہم کرتا ہے۔ مفتی ابوبکر جابر صاحب قاسمی حفظہ اللہ ایک نامور عالم اور تعلیم یافتہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی علمی استعداد اور تجربے کے ذریعے اسلامی معاملات پر عمومی آگاہی بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی محافل علم کو بڑھانے کیلئے یہ چینل ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ادارہ کھف الایمان کا مقصد ایمانی اور علمی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ یہاں آپ اپنے ایمانی تعلیم میں اضافہ کر سکتے ہیں اور دیگر مواد کو سامنے یاب کر اپنی سوچوں کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک انسان ہیں جو علمی ترقی اور ایمانی بنیادوں پر مشتمل مواد جاننا چاہتے ہیں تو ادارہ کھف الایمان چینل آپ کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔ اور مفتی ابوبکر جابر صاحب قاسمی حفظہ اللہ کی رہنمائی میں آپ اپنے ایمانی سفر کو مزید مضبوط بنا سکتے ہیں۔

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 14:08


🔹 *دوسری بات* گھر کی عورتوں میں ، علم کی کمی ہو کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن نرمی اور حلم ، محبت ، اپنائیت آنے والوں کا دل جیت لینا بہت ہونا چاہیے ، ایک واقعہ ہے ، ایک صاحب کی شہد کی دکان تھی ، اور دوسرے صاحب کے سامنے ہی سرکہ کی دکان تھی ، سرکہ بہت کڑوا ہوتا ہے ، بہت تیز ہوتا ہے ، دوائیوں میں ڈالا جاتا ہے ، سب ضرورت پر استعمال کرتے ہیں ، شہد تو شہد ہے ، آمنے سامنے سرکہ اور شہد کی دکان ہے ، لوگ سرکہ بہت خریدنے آتے تھے ، شہد خریدنے نہیں آتے تھے ، تو شہد کی دکان والے نے جا کر ، سرکہ کی دکان والے سے پوچھا ، کہ آپ نے کیا تدبیر اپنائی ہے ، کہ گاہک آپ کے پاس امنڈ پڑھتے ہیں ، حالانکہ سرکہ زیادہ ضرورت کی چیز نہیں ہے ، اور میرے پاس شہد جو بہت ضرورت کی چیز ہے ، لیکن میرے پاس کم آتے ہیں ، کیا وجہ ہے ؟ تو سرکہ بیچنے والے نے سامنے والے کو نصیحت کی ، کہ میں سرکہ ہی بیچتا ہوں ، لیکن میری زبان میٹھی ہے ، اور تم شہد بیچتے ہو ، لیکن تمہاری زبان سرکہ ہے ، میں سرکہ بیچتا ہوں ، لیکن میری زبان شہد ہے ، اور تم شہد بیچتے ہو ، لیکن تمہاری زبان سرکہ ہے ، اس لیے تمہارے گاہک کم ہو گئے ، اور میرے خریدنے والے زیادہ ہو گئے ، ہم ترکیسر گئے ایک مرتبہ ، قاری احمد علی فلاحی صاحب دامت برکاتہ ، ملک کے مشہور خطباء میں سے ہیں ، بڑی تقریریں لوگ سنتے ہیں ان کی ، وہ فرماتے ہیں کہ میں ترکیسر میں پڑھتا تھا ، قاری صدیق صاحب سانسرودی دامت برکاتہم کہتے ہیں ، کہ خالہ کے پاس چائی لیکر آؤ جا کر ، مدرسے سے گھر جا کر چائی لانا ہوتا تھا ، تو میں چائے لینے کے لیے جاتا تو خالہ امی مجھے پہلے چائے پلاتی ، اور تھرماس میں ڈال کر دے دیتی ، قاری صاحب کے لیے ، خدمت کے جذبے سے تو نہیں جاتا تھا گھر پے ، چائے پینے کے لیے جاتا تھا خالہ امی کے پاس ، بچوں کو پردیسی علاقوں میں استانی ماؤں کی محبت نے قدم جما دیے ہیں ، ناظم صاحب کی اہلیہ نے ، ناظم صاحب کی والدہ نے ، ناظم صاحب کی بہن نے ، وہ محبت دی ، کہ دور دور سے آنے والے علاقے کے طلبہ کے قدم جم گئے ، پردے کے پورے اہتمام کے ساتھ ، بہت دن کے بعد واقع یاد آیا ، حضرت مولانا مناظر حسن گیلانی رحمت اللہ علیہ ٹونک میں پڑھتے تھے ، ریاستِ ٹونگ یہاں سے قریب ہے ، راجستان میں ، تو حضرت مولانا مناظر حسن گیلانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ، کہ ہمارے استاد مولانا برکات احمد ٹونکی رحمت اللہ علیہ نے ہماری کفالت کر رکھی تھی ، کھلانا پلانا اور وہ کلینک چلاتے تھے ، کلینک چلا کر جو پیسے آتے ، اسی سے ہمارا مدرسہ چلتا تھا ، تو ایک مرتبہ کلینک کسی وجہ سے نہیں چل رہی تھی ، دواخانہ نہیں چل رہا تھا ، استانی ماں کو اندازہ ہو گیا ، کہ استاد جی کے پاس پیسے نہیں ہیں ، تو ہم بچوں کو اکیلے میں بلایا ، اور بلا کر کنگن نکال کر دیے ، اور کنگن دیکر کہا ، کہ اسے بیچ آؤ ، استاد جی کو نہ بتانا ، گھر میں غلہ چاول ختم ہو گیا ہے ، اب وہ تم کو واپس تو نہیں کریں گے ، کھلا بھی نہیں پائیں گے ، اس وجہ سے میں کہتی ہوں ، کہ غلہ خرید کر لاؤ ، چاول گیہوں خرید کر لاؤ ، تاکہ تمہاری خدمت جاری رہے ، مناظر حسن گیلانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ، امی جان کی ، استانی ماں کی ، اس خدمت کو اس عمر میں کیسے بھلایا جا سکتا ہے ، عورتیں تو بہت ہے دنیا میں ، اپنے زیوروں پر ، کپڑوں پر مرنے والیاں ، لیکن ایسے حوصلے والی ، ہمارے پاس بہت بڑے بزرگ ہیں ، حضرت مولانا عبدالقوی صاحب دامت برکاتہم ، ان کو ایک معاملے میں جیل میں ڈال دیا گیا ، حضرت شاہ ہردوئی رحمت اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ ، جن کو امی جان ہی کہا جاتا تھا ، وہ مولانا کی گرفتاری پر بے قرار ہو گئی ، دعاؤں میں لگ گئی ، وظائف کرنے لگ گئی ، بچپن میں جو شاگرد پڑا تھا ، اس شاگرد سے ، شاگرد کے بڑھاپے میں ایسا دلی تعلق ، اور اس کے مسائل سے ایسے دلچسپی ، اصل کمال نہیں ہے ، ہم نے اسکول پڑھا ہے چوتھی تک ، ہماری بڑی ٹیچر ، جب بھی میں بات کرتا ہوں تو ہماری بڑی ٹیچر یاد آتی ہیں ، واقعی اتنی نرمی ہے ان کی طبیعت میں ، ایک دو بچیاں معذور ، اتنے چیخ و پکار کے پورا محلہ پریشان ، دماغی توازن درست نہیں ، لیکن جتنے لوگوں نے ان کے پاس اسکول میں پڑھا ہے ، میری بہن بیمار تھی ، تو وہ بڑی ٹیچر ، آج بہن کئی بچیوں کی ماں ہے ، اس کے باوجود وہ بڑی بی خیر خیریت لینے کے لیے آگئی ، بیٹا کیسی ہے طبیعت ، کیسی ہیں حالات ، صبر کی تلقین کرنے لگ گئی ،
🔹 *پہلی بات* میں نے یہی عرض کیا ، کہ اپنے آپ کو ہم عام عورتوں کی طرح نہ سمجھے ،

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 14:08


🔹 *دوسری بات* میں نے عرض کیا ، کہ ہمیں محبوب بن کے چلنا ہے ، مسلط بن کے نہیں چلنا ہے ، ہمیں اپنے اندر ایسی مقناطیسیت پیدا کرنا ہے ، ایسی کشش پیدا کرنا ہے ، ایسا خدمت کا جذبہ پیدا کرنا ہے ، قاری صدیق صاحب رحمت اللہ علیہ کی اہلیہ ، اسی طرح کے گاؤں میں ، قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ وفاداریاں کیں انہوں نے ، بھیگی ہوئی لکڑیاں جلا کر پکانا ، طلباء کو ضرورت کا کھانا بنا کر دینا ، آج وہ مدرسے تناور ہو گئے ، ہزاروں طلباء پڑھنے لگ گئے ، سوّوں فارغین پوری دنیا میں پھیل گئے ، لیکن حضرت کی اہلیہ کی قربانی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
🔹 *تیسری بات* جو بہت زیادہ اہم ہے ، اپنے فارغ اوقات کو استعمال کرنا ہے ، اپنے کان کاج کی لسٹ بنا لی جائے ، کپڑے دھونا ہے ، برتن دھونے ہیں ، روٹین کا کام ہے ، اس سے فارغ ہونے کے بعد ، فکر مندی ہونی چاہیے ، کہ اشراق ، تہجد ، اوابین ، تلاوت ، اور اسی طریقے سے اپنے شوہر سے ، یا آن لائن ، آف لائن بیانات سن کر لکھنا ، اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رہے ، ہمیں خوشی ہوگی ، کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم نے شادی کورس مکمل کر لیا ، ہم نے تجارتی کورس مکمل کر لیا ، ہم نے نورانی قاعدہ کورس مکمل کر لیا ، چھوٹے چھوٹے کورس فون میں سن کر ، یا کاغذ کتاب پرنٹ اؤٹ نکلوا کر ، پڑھ کر ، باقاعدہ طریقے سے ایک طالب علم کی طرح محنت کرتے ہوئے چلیں گے ، تو نکاح کے بعد بھی کتنی عورتوں نے عالمیت کا کورس کیا ہے ، ہمارے پاس علاقے میں ایک بہن ہے ، جب وہ مدرسے میں پڑھ رہی تھی ، تو گود میں ان کے بچہ تھا ، اس حال میں بھی انہوں نے پڑھا ہے ، پیر ذوالفقار صاحب دامت برکاتہ فرماتے ہیں ، ایک لڑکی کا نکاح ہوا ، نکاح کی رخصتی ہو گئی ، شوہر صاحب کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی ، شوہر کے آنے میں دیری لگی ، تو نحو صرف کی کتابیں یاد کرتے بیٹھ گئی ، شوہر آئے تو حیران ہو گئے ، کیا کر رہی ہیں آپ ، میں عالم کورس شروع کر چکی ہوں ، انجینئرنگ تو ہو گئی تھی ، عالم کورس میں شروع کر چکی ہوں ، آپ میرے اوپر ایک احسان کر دیجیے ، میں زندگی میں کوئی اور مطالبہ نہیں کروں گی ، شوہر نے کہا بتاؤ ، پہلی ملاقات ہے زندگی کی ، تو لڑکی نے کہا کہ ولیمے کے دوسرے تیسرے دن ، میرے عربی اول کا امتحان ہے ، عالمیت کا امتحان ہے ، آپ کسی طریقے سے امی سے اجازت دلوا کر ، میرے عالم کورس کا پہلا سال مکمل کروا دیجیے ، ایسے اپنی خوشیوں کو قربان کیا جاتا ہے ، اپنے دل کی رخ کو بدلا جاتا ہے ، اور ایسے کوشش کی جاتی ہے ، تو اللہ تعالی وقت میں برکت بھی دیتے ہیں ، چونکہ آئندہ ہمارے ذہنوں میں مدرسے کا جو خاکہ ہے ، وہ بہنوں کی عالم کورس بھی ہو ، مومنہ کورس بھی ہو ، بنات کا لیڈیز کا نظام بھی ہو ، آپ کا خاندان ، آپ کی پوری برادری میں ، آپ کے ذریعے سے دین کی اشاعت ہو ، تبلیغ میں بھی جائیں ، ملکوں میں بھی جائیں ، اللہ والوں سے اصلاحی تعلق بھی قائم کریں ، پٹری پر گاڑی رہے گی ، آج نہیں تو کل منزل پر پہنچ جائے گی ، رفتار تو کم زیادہ ہوتی ہے ، لیکن پٹری پر باقی رہے ، اسی طریقے سے علم کی پٹری طلب کی پٹری پر ہم باقی رہے ، آج نہیں تو کل منزل کو پہنچ جائیں گے ، اللہ تعالی آپ حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے ، بہت خوشی ہوتی ہے آپ کے گھرانے کو دیکھ کر ، خوب اللہ تعالی آباد فرمائیں ۔

🔚 *واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين*

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 14:08


🔘 *عالم کی گھر والی کیسی ہو*



🔊 *خطاب* 🔊
🎀 *حضرت مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب اطال اللہ عمرھم* 🎀


یہ عام طور پر انہیں اپنے بارے میں سمجھ لینا چاہیے ، کہ ہم دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہیں ، ہمارے ایمان کی سطح ، عمل کی سطح ، ہمارا پہنا جانے والا لباس ، ہماری زبان ، ہماری خدمت کے جذبے ، ہمارے پڑھنے پڑھانے کا مزاج ، ہمارے اندر صبر زیادہ ہونا چاہیے، دوسری عام عورتوں کے مقابلے میں ، ہمارے اندر نرمی زیادہ ہونا چاہیے ، دوسرے عام لوگوں کے مقابلے میں ، تو ایک تو سب سے پہلے یہ دھیان رہے ، کہ ہم عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں ۔

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 13:11


آپ کی اپنائیت ان کو لائے گی ہم سناتے ہیں شاہ عبدالغفور صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمت اللہ علیہ ادگیر میں مدرسہ چلتا تھا اس سے پہلے لاتور میں تھے تو ایسے بھی واقعات ہوئے کہ طلباء پر فاقے آگئے لیکن طلباء نے نہیں چھوڑا استاد کو دسیوں واقعات ہیں اکابر کے فاقے آگئے لیکن نہیں چھوڑا اساتذہ کو ابھی بھی نرسا پور میں ایک عالم دین ہے حافظ قطب الدین صاحب انہوں نے ہمیں سنایا ایک دن کھانا نہیں تھا شاہ عبدالغفور صاحب رحمت اللہ علیہ نے پورے طلباء کو دسترخوان پے بٹھایا سب کو برتن دے دیا اب اس کے بعد کہا بتاؤ کون کھلاتا ہے اللہ کھلاتا ہے بتاؤ کون کھلاتا ہے اللہ کھلاتا ہے بس یہی چل رہا ہےاور رتی بھر دانہ نہیں تھوڑی دیر کے بعد ایک صاحب بڑی ہانڈی لے کر آئے اور آکر کہا کہ حضرت یہ ہانڈی ہے آپ استعمال کرلیجیے تو جو بھی کیفیت ہونی تھی ہوئی پھر حضرت نے کہا ادھر آئیے آپ کیا ہم آپ کو پہچانتے ہیں کہ ہم پہلے سے آپ نے ہمیں اطلاع دی تھی کہ ہمارا آپ سے پہلے سے کوئی معاملہ تھا ان بچوں سے کہا کون پالتا ہے اللہ پالتا ہے کھانا تو بہت ملا زندگی میں یقین مل جائے رزق تو بہت ملا رزاق مل جائے توکل مل جائے ایک زندگی کا واقعہ دکھ جائے ایسا بس مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے ایک موقع پر حضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جب قلت ہو گئی غذاؤں کی مرکز میں طلباء سے جومیوات کے چند طلبہ رہتے تھے بہت وفادار جانثار کہا کہ بھئی میں تو لوگوں کو کھلا نہیں سکتا سفارش کر دوں گا دہلی کے دوسرے مدرسوں میں چلے جاؤ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بچوں نے کہا کہ حضرت ایسا تو نہیں ہو سکتاہے مرنا ہے آپہی کےساتھ مریں گے جائیں گے نہیں کسی اور جگہ میں
🔸 یہ آنے والے کیا دیکھ کر آتے تھے کیا وہ کشش رہتی تھی کہ وہ لوگ مرنا چاہتے تھے ساتھ میں مولانا الیاس رحمۃ اللہ فرمانے لگے اچھا ایسا ہے کہا ٹھیک ہے میں اندر جاتا ہوں دروازہ بند کرلیے جو کچھ کرنا تھا کرلیے باہر آئے اور یہ کہا کہ بیٹا آپ یہیں پر رہو اب فاقہ کبھی نہیں آئے گا
🔸 کچھ ایسے مواقع ہوتے ہیں اللہ سے معاملے کے بنانے کے فیصلے کے کروانے کے بچوں سے اس قدر اعتماد کا تعلق بنانے کے
میں نے آپ سے آخری بات یہی عرض کی نرم مزاجی ہو سخت مزاجی نہ ہو آپ کی شفقت آپ کے اخلاق آپ کی اپنائیت آپ کا ان بچوں کے دل کا جیتنا یہ جا کر آپ کی مارکیٹنگ کرے گا پورے خاندان میں چار بھائیوں کو لے کر آئے گا چار بہنوں کو لے کر آئے گا بستی کے بچوں کو لے کر آئے گا پھرنا نہیں پڑے گا آپ کو ویٹنگ میں رہنا پڑے گا
ہم ۔۔۔۔۔۔۔خیب میں گئے کچھ ہی دن پہلے ڈھائی سو بچے ویٹنگ میں ہے وہاں پر ایک علاقے میں ہم گئے وہاں پر 300 طلبہ کو واپس کر دیا جاتا ہے ہر سال کیا خوبی ہے
اساتذہ کی نرم مزاجی
اساتذہ کی شفقت
چھٹی میں یاد بھی آتی ہے وہ طالب علم کو کبھی استاد کی کمی تو محسوس کرتا ہوں کبھی سات مہینے ساتھ میں رہنے کے بعد
ملازمتی تعلق
نوکری کا تعلق
پیشہ وارانہ تعلق
بے جان تعلق
بے اثر تعلق
بے دلی کا تعلق
روکھا تعلق
بیکار ہے زندگی تف ہے ایسی زندگی پر کوئی مزہ نہیں ہے اللہ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق دے آمین


*تفصیل برائے خطاب*
17‌منٹ 18سکینڈ پر مشتمل بیان ہے
14 جولائی 2024
تحریری شکل: 9 اگست 2024 بشب رات 12:58 بجے

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 13:11


🔻🔺🔻🔺🔻🔺🔻🔺🔻🔺🔻

*انتظامیہ افراد دین کے ماحول سے فائدہ اٹھائیں*

*خطاب از: نمونۂ اسلاف محترم و مکرم حضرت مولانا مفتی ابو بکر جابر صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ*
(ناظم ادارہ کہف الایمان ٹرسٹ صفدر نگر بورہ بنڈہ حیدرآباد تلنگانہ)

*نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم* *اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*ومن جاھد فانما یجاھدلنفسہ*
*وقال تعالی: وان احسنتم احسنتم لانفسکم وان اسأتم فلھا*
(صدق اللہ العظیم)

ہم سب دین کے کام کرنے والوں کو ہمیشہ غور کرتے رہنا چاہیے کہیں ہماری حالت ایسی تو نہیں ہے کہ ہسپتال میں رہ کر آدمی بیمار جی رہا ہو میڈیکل میں رہ کر بیمار جی رہا ہو *ہوائی جہاز میں جب بھی بیٹھتے ہیں خیال آتے رہتا ہے کہ اسٹاف ہوائی جہاز کا پوری دنیا کے لوگوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچاتا ہے لیکن وہ اس ملک میں نہیں جاتا*

🔷 ہم نے دسیوں طلبہ کو قرآن تک پہنچا دیا اللہ تک پہنچا دیا ہم خود بھی پہنچرہے ہیں یا نہیں پہنچ رہے ہیں صرف پہنچانے کا کام ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر وہ بزرگ کو ادھر وہ بزرگ کو ادھر میں کسی تک نہیں پہنچا
🔸 اپنی ذات سے غفلت کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ بھی ہے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اپنی خلفاء کو نصیحت کرتے تھے *پارس کا پتھر مت بننا اس زمانے میں پارس کے پتھر کی خاصیت تھی پارس نام کا کوئی پتھر ہوتا تھا اس کی خاصیت تھی کہ دوسرا پتھر لگ جاتا تو وہ سونا بن جاتا لیکن وہ پتھر کا پتھر ہی رہتا*
✔️دوسرے لوگ میرے پاس آئے بااخلاق بن گئے میں بد اخلاق ہی رہ گیا
✔️ دوسرے تو سونا بن گئے میں پتھر ہی رہ گیا
✔️ دوسرے لوگ آئے میرے پاس نمازی بن گئے میں خود ہی بے نمازی رہ گیا
✔️دوسرے لوگ آئے تلاوت کے شوقین بن گئے ہیں خود ہی بے تلاوت رہ گیا
یہ اس آدمی کی مثال ہے جو پارس کا پتھر بن چکا ہے دوسرے آنے والے تو سونا بن جاتے ہیں لیکن وہ پتھر کا پتھر ہی رہتا ہے
ایک باپ نے بیٹے کو نصیحت کی چھلنی نہ بننا *لاتکن کالغربان* چھلنی نہ بننا تو بچے نے کہا سمجھ اباجی نصیحت سمجھ میں نہیں آئی لوگ یاد نہیں رکھتے بڑی بڑی نصیحتیں بھی جو زندگیوں کو بدل سکتی ہے نہایت عبرت آموز ہوتی ہیں اس کو یاد نہیں رکھتے تو باپ نے بیٹے سے کہا کہ چھلنی مت بننا تو بیٹے نے کہا سمجھ میں نہیں آئی بات کیا ہےبیٹا *چھلنی کی خاصیت ہی ہوتی ہے کہ وہ خالص چیز دوسروں کو دے دیتا ہے کچرا اپنے لیے رکھ لیتا ہے*
✔️ دوسروں کو ذکر دے دیا خود غافل ہے
✔️دوسروں کو علم دے دیا خود جاہل ہے
✔️ دوسروں کو صلہ رحمی دے دیا خود خطا رحمی میں ہے
✔️دوسروں کو اللہ کی معرفت دے دیا خود کو سجدے نصیب نہیں ہے
چھلنی بنا ہوا ہے دوسروں کو حلال لقمے کی نورانیت بتایا خود مشتبہ لقمے میں ہے حرام لقمے میں ہے چھلنی بن گیا
شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک جگہ پر مثال دی ہے اندھا ہے چراغ دیے دوسروں کو تو راستہ مل جائے گا یہ گڑھے میں ضرور گرے گا دوسروں کو تو راستہ مل رہا ہے لیکن میںگڑ ھے میں گر رہا ہوں میں مطبخ میں رہتا ہوں میں آفس میں رہتا ہوں
* میری اشراق
* میری تہجد
* میرے معاملات
* میری معاشرت
* یہ سب چیزیں اس ماحول میں رہ کر بھی اگر نہیں بن رہی ہے تو کہاں بنے گی ہمارے پاس ۔۔۔۔۔۔میں ایک بینک ملازم آئے مفتی عبداللہ صاحب ان رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بینک ملازم حضرت کی بینک کی ملازمت جائز ہے یاناجائز ہے کہدیا بھئی حرام ہے توبہ کرنا ہے حضرت میں نے توبہ کروں آج گزارہ کیسے کرو کہا اللہ ہی کھلائے گا حضرت نے سوچا تم لکھنا پڑھنا جانتے ہو ہاں اکاؤنٹڈ بن جاؤ ہمارا تو ہم نے اپنی نگاہوں سے اس ولی صفت شخص کو سنا کے 25 30 سال تک وہ ملازم رہا وہاں پر تو *غفلت کے ماحول سے آکر ذاکر بن رہا ہے میں ذاکر ماحول میں رہ کر غافل تو نہیں جی رہا ہوں* یہ بہت سوچنے کی چیز ہے وہاں پر رہ کر نگاہوں کو پاک کرنا چاہتا ہے وہ اس ماحول میں رہ کر بدکاری کی زندگی گزر رہا ہے وہاں پر رہ کر رال ٹپکاتا ہے کہ کاش میں اس ماحول میں ہوتا اور وہ کتنا بد نصیب ہے جو اس ماحول میں رہ کر رال ٹپکاتا ہے کہ کاش مجھے ان کی زندگی مل جاتی ہے وہ کھلا پن مل جاتا وہ تھوڑی سی آزادی مل جاتی ہے ویسی رنگ رنگینیاں مل جاتی کتنی بدقسمتی ہے انسان کے لیے یہ سب سے پہلی بات ہے میرے اور اپ کے لیے کہ اپنی ذات سے غافل ہو کر نہ چلیے

🔷عام طور پر ذہن کسی بھی ادارے میں دن گزرنے کے ساتھ تنخواہ کے معیار پر ہی جاتا ہے 10 سال سے ہوں کیا دیرہے یہ
▪️ تنخواہ کی مقدار اور رفتار کتنی رہی
▪️ معرفت کی رفتار کتنی رہی
▪️ تعلق مع اللہ کی رفتار کتنی رہی
▪️ تربیت کے اسالیب سیکھنے کی رفتار کتنی رہی
▪️ تدین کےرفتار میرے اندر دینداری کے بڑھانے کی رفتار کتنی رہی
🔸جو لوگ ویسی زندگی گزارتے ہیں ان کی ایک مثال سناتا ہوں

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 13:11


مولانا عبد القوی صاحب کے بہنوئی تھے میری سعادت ہے کہ میں نے ان کو بھی دیکھا ہے احمد علی بھائی نام تھا وہ فیض العلوم میں چاول مٹھی فنڈ وصول کرنے کا کام کرتے تھے چاول اصول کرنے کا کئیں علماء کے باپ ہیں ان سے مولانا عبد القوی صاحب نے بچے بہت ہے کثیرالعیال آدمی تھے مفتی عبد المغنی صاحب رحمت اللہ علیہ نے بہت قوت سے کہا بہت ناراضگی سے کہا کہ چھوڑ دیجیے یہ مٹھی فنڈکا تنخواہ ہی کتنی دیتے ہیں یہ لوگ گھر کا گزارہ کیسے ہوگا جو لوگ تنخواہوں کے معیار میں نہیں اقدار کی معیار میں تولتے ہیں اس عامی شخص نے کہا میں یہ ادارہ تو نہیں چھوڑ سکتا اس فیض العلوم کی بدولت بہترین شیخ حضرت ہردوئی کی طرح اس ادارے کی بدولت بہترین بیوی ملی میرے بچوں کی ماں میں تو نہیں چھوڑسکتا
اچھا!
یہ حال تو ان کی استقامت کا تھا اور پھر ان کی تدین کا معیار یہ تھا کہ بہو لاکر دودھ دیتی تھی تو وہ ہاتھ سے ہاتھ نہیں لیتے تھے وہ کہتے تھے یہاں رکھدو ہم لے لیں گے بہو سے ہاتھ لگا کر لینے میں اس کے بجائے یہاں پر رکھدو ہم لے لیں گے پی لیں گے تو میرے بھائی آپ صرف مدت کی سینئرٹی کو مت دیکھیے اپنے اندر پیدا ہونے والی قابلیتوں کو

🔸 دیکھیے میں استنبول بھی تھا تو مجھے بہت یاد رہتا ہے وہ واقعہ ہم ایک مسجد میں نماز پڑھ کے بیٹھے ہوئے تھے تو قطر کے کمپنی کا مالک ہے جماعت تھی تو بات کرنے لگا کہا کہ میں کمپنی چلاتا ہوں میرے پاس ایک ملازم آیا ایک سال میں نے اس کو مینیجر بنا دیا ایک سال تو گزشتہ 10 سال سے جو ملازم کام کر رہا تھا وہ ناراض ہو کر آیا میرے پاس اور آکر اس نے کہا کہ صاحب میں 10 سال سے کام کر رہا ہوں اور آپ نے مجھے یہ پروموشن یہ ترقی نہیں دی آپ نے اس شخص کو آپ نے ایک سال میں ترقی دے دی تو *میں نے اس شخص سے کہا کہ تمہارا جو پہلا سال تھا نا بعینہ دہراتے ہوئے اعادہ کرتے ہوئے دسواں سال بھی وہی تھا اور یہ جو شخص کے 12 مہینے تھے اس کا ہر مہینہ دوسرا مہینہ تھا اس کا ہر دوسرا مہینہ پہلے والے مہینے سے بہتر تھا*
▪️ کام کی پختگی میں
▪️سبجیکٹ پر کمانڈ میں
▪️ کمپنی کی ترقی کی فکر کرنے میں
▪️ تو محض میں تجھے ترقی دن کے گزرنے پہ نہیں دوں گا میں تجھے ▪️قابلیت کی ترقی پر دوں گا
▪️ادارے سے وفاداری پر دوں گا
▪️نئی تدابیر کرنے پر دوں گا
▪️ترقی کے میں مشوروں پردوں گا
▪️صرف کیلنڈر کی گنتیاں بڑھانے پر کوئی ترقی نہیں دی جائے گی

✓ پہلے دن جیسا قرآن پڑھتے تھے آج ویسے ہی پڑھرہے ہیں
✓پہلے دن اردو کی تحریر جیسی تھی آج بھی ویسی ہی ہے
✓پہلے دن عبادت کے جو معمولات ہیں آج بھی وہی ہے
✓پہلے دن جو معاشرت کا روکھا پن تھاآج بھی وہی ہے خاندان میں
{تو پہلی بات ہم نے آپ سے عرض کیا کہ اپنی ذات سے غافل ہو کر ہمیں دین کے کام میں نہیں چلنا چاہیے}
اور
{دوسری بات ہم نے اپ سے عرض کی کہ قدامت اور سینیرٹی حقیقت میں دن کے گزرنے سے نہیں ہوتی ہےصفات اور قابلیت کی ترقی سے ہوتی ہے}

اور تیسری بات آخری بات یہ ہے آدمی کھانا کھارا میں نے کھاکر احسان نہیں کیا پانی پیا پانی پی کر احسان نہیں کیا اپنے لیے پیا ہے ہم نے کام کیا
✔️ اللہ کے لیے کیا
✔️ اپنے لیے کیا
✔️ اپنی قبر کے لیے کیا
کسی پر احسان نہیں کیا نماز پڑھی کسی پر احسان نہیں کیا تو ہم نے خدمت کر کے کس پراحسان کردیا اپنی ذات کے لیے کرنے والے چاہیے اس کی فکر ہونی چاہیے کہ محض ملازمتی رخ ذہن میں نہ رہے بلکہ
▪️ اپنی ذات کے لیے کرنے
▪️اللہ کے لیے کرنے
▪️اپنے کام سے جذباتی وابستگی
▪️ اپنے کام سے جنونی وابستگی
▪️ اپنے کام سے دلی تعلق کا ہونا جب ہوتا ہے جب ہی آدمی کا کام بہتر ہوتا ہے
🔸 بے اثر رہتا ہے ملازمتی تعلق اپنا کام سمجھ کر کریں گے تو بچوں کا غم ہوگا فلانا بچہ کیوں نہیں آیا ناظم صاحب کا بچہ نہیں آیا مدرسے کے بچے کم ہو جا رہے ہیں میرے بچے کم ہو جائے بچوں کی تعداد کیسے بڑھے
آپ کی شفقت بچوں کو لائے گی ناظم صاحب کی شفقت نہیں لائے گی
آپ کی اپنائیت بچوں کو لائے گی کمیٹی کے اپنائیت نہیں لائیے گی
آپ کی سخت مزاجی ان کو بھگا دے گی ہمارے کھانے ان کو نہیں لائیں گے ہماری اے سی ان کو نہیں لائے گی

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 13:05


لے جائیے ، تین لاکھ ابھی ہم نہیں دیں گے ، ہم جو مسلم فنڈ کھولیں گے ، اسلام نے جب کانسپٹ بنا ہے ، ہمارے بڑوں نے جو عملی شکل بنائی ، آپ کے لیے غیر سودی قرض اور آپ کا رکھا ہوا پیسہ ، ہر وقت دیا جا سکتا ہے ، ایک بیٹا ماہر معیشت بن کر آیا ، ایک میرے خاندان کے اندر بیٹیاں ہیں ، یہ بیٹیاں تعلیم کے میدان میں پردہ بھی پورا ہو ، علم کی گہرائی بھی ہو ، پر دہ کے نام پر جاہل مت رکھو ، اور علم کے نام پر بے پردہ مت کرو ، پردے کے لیے خدمت سے جی نا چراؤ ، اور خدمت کے نام پر بے پردہ نہ کرو ، جس قوم کی عورتیں جاہل ہیں ان کی نسلوں میں علم نہیں آتا ہے ، حفصہ بنت سیرین رحمت اللہ علیہا ، محمد بن سیرین جب تفسیر کرتے ، تو ان سے سننے والے حفصہ بنت سیرین کے پاس آتے ، آکر کہتے ہیں ، کہ آج ابن سیرین نے یہ کہا ، تو بہن کہتی ہے ، کہ انہوں نے اس آیت کے ذیل میں یہ بات نہیں کہی ، محمد کو تو یہ بات بھی کہنا چاہیے تھا ، بہن تفسیر کی اتنی بڑی ماہر ، بداء الصنائع ہمارے پاس فتوے کی کتاب ہے ، علامہ کاسانی رحمت اللہ علیہ ، ان کے سسر تھے ، تحفۃ الفقہاء ، انہوں نے کہا کہ اس کی جو شرح لکھے گا ، اس کو میں اپنی بیٹی دوں گا ، پیمانے بھی عجیب تھے ، کیسے علم کی بلندیاں تھیں ، میری بیٹی اس کو دوں گا ، جو اس کی شرح اور گائیڈ اچھی لکھے گا ، علامہ کاسانی رحمت اللہ علیہ نے لکھی ، انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کیا ، جب کوئی فتوی پوچھا جاتا تو تین آدمی کی دستخط ہوتی تھی ، ایک علامہ کاسانی کی ، اور ایک بیوی کی ، اور سسر کی ، تینوں کی دستخت کے بعد فتوی نکلتا ، اپنی عورتوں میں علم کی ترقی ، بینگلور کے مدرسے ، مالگاؤں کے مدرسے ، گجرات کے مدرسے ، جہاں پر ہماری عورتوں کے علم کا پیمانہ بڑھے یا وہاں کی پڑھی ہوئی خواتین کو بہو بنا کر ، اپنی برادری میں جمایا جائے ، چولھے ، چکی ، کھانے پکانے ، دھونے دھلانے کی مصروفیت کو کم کروا کر ،گیارہ بجے سے لے کر دو بجے تک کے ، بالغات کے مکتب قائم کروائے جائیں ، تبھی تو فجر سورہ یاسین سے سنائی جائیگی ، تبھی تو شام سورہ واقعات سے ہوگی ، تبھی تو رات سورہ ملک اور سورہ سجدہ سے ہوگی ، تبھی تو عورتیں جھاڑو مارتے مارتے تلاوت کرے گی ، تبھی تو وہ دن نظر آئیں گے ، حضرت گنگوہی رحمت اللہ علیہ کے پاس جو دھوبی بیعت کیے ہوئے تھے ، وہ کپڑا زمین پر مارتے ہوئے *الا اللہ* ، کپڑا دھوتے ہوئے *الا اللہ* ، ہم نے مصر میں دیکھا ، ایک عورت کھیت میں کام کر رہی ہے ، برقعہ میں ڈوبی ہوئی ہے ، مجبوری نے اس کو باہر نکالا ہے ، لیکن برقعہ میں ڈوبی ہوئی ہے ، ہم نے مصر کے آخری گاؤں میں ، فجر کے بعد ایسی تلاوت کو سنا ہے ، کہ ہم جیسے لوگ بھی اتنی اچھی تلاوت نہیں کرتے ، اپنی عورتوں کی تعلیم پر توجہ اس کے لیے مستحکم ادارے ، مستحکم نظام ، اپنے خول میں بند رہنے سے علم اور عمل کی ترقی نہیں ہوتی ہے ، صرف ایک مثال سناؤں گا ، مالگاؤں میں دو مدرسے ہیں ، ایک مدرسہ ہے جہاں پر پورے گاؤں کا کچرا ڈالا جاتا تھا ، ایک عالم دین کو اللہ تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی اور اس کے بعد وہ عالم دین نے محنت کی ، آج اس مدرسے میں ، میں حاضر ہوا ہوں ، 1500 لڑکیاں پڑھتی ہیں ، کچرا چننے والی عورتیں ، قران اور حدیث کی عالمہ بن گئی ، کچرا ڈالے جانے کی جگہ علم کا سرچشمہ بن گیا ، تین ٹائم کا کھانے سے آدمی زندہ نہیں رہتا ، فکر کے زندہ رہنے سے آدمی زندہ رہتا ہے ، آدمی کی زندگی کھانے سے نہیں ، فکر سے جڑی ہوئی ہے ، میری بیوی میرے نکاح میں 15 سال سے ، 10 سال سے ہے ، کیا خدمت میں کمی کی ، 15 سال میں کس دن کس وقت کی چائے دینے سے اس نے انکار کر دیا ، اتنی وفاداریاں کی ہیں ، اور میں اس کو جاہل رکھا ہوا ہے ، میرے سے بڑا کوئی ظالم ہے ، میرے سے بڑا کوئی ظالم ہے ، میری ماں نے مجھے عالم بنایا ، میری ماں نے مجھے حافظ بنایا ، اور آج تک میں نے اس کی دعائیں قنوت نہیں سنی ہے ، آج تک میں نے اس کی التحیات نہیں سنی ہے ، مجھے اپنی والدہ کا غم نہیں ہے ، جلالین میں نے کئی مرتبہ پڑھ لی ، سورۃ النور میں نے کئی مرتبہ پڑھا ، لیکن اپنی عورتوں کو بٹھا کر میں نے سورۃ النور کی تفسیر نہیں کی ، صحابہ کی بیٹیاں سورۃ النور کے بغیر ، صحابہ کے بیٹے سورہ مائدہ کے بغیر بالغ نہیں ہوا کرتے تھے ، سورۃ النور پردے کے احکام ، سورہ حجرات جوڑ پیدا کرنے کے احکام ، سورہ مائدہ حقوق و حدود کی تفصیل ، سورۃ النساء ، سورۃ الطلاق ، اس میں معاشرتی زندگی کے مسائل ، میرے عزیزو ! بالغ اور بڑی عورتوں میں مکاتب کا پھیلانا ، اور ابتدائی بچیوں میں مدرسوں میں داخلہ دلا کر ، چاہے آپ مومنہ کورس پڑھائیں ، چاہے آپ عالمہ کورس کرائیں ، اکابر کا الگ الگ رجحان ہے ،

*واخر دعوانا عن الحمد لله رب العالمين*

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 13:05


بڑے مکان میں ، مشترکہ خاندان میں ، اچھی چیزیں کیا ہیں ، قابل اصلاح چیزیں کیا ہیں ، اور انفرادی خاندان میں ، انڈیویجول فیملی میں ، خوبیاں کیا ہیں ، خامیاں کیا ہیں ، ہماری 300 صفحے کی کتاب ہے ، مشترکہ خاندان شریعت و سماج کی روشنی میں ، یہاں پر اس مکان میں چچا رہتے ہیں ، تایا رہتے ہیں ، اور دوسرے دو چچا بھی رہتے ہیں ، کبھی بیوہ بہن پھوپھی بھی رہتی ہے ، اب کمانے کا نظام ان کے درمیان کیسے ہونا چاہیے ، اخراجات کی تقسیم کیسے تقسیم ہونا چاہیے ، چچازاد تایا زاد بھائی بہنوں کا پردہ کیسے ہونا چاہیے ، مامو زاد بھائی بہنوں کا پردہ کیسا ہونا چاہیے ، چولہا جیسے ایک رکھا گیا ، غلہ جیسے ایک رکھا گیا ، دل بھی ایک کیسے باقی رہے ، ہم میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے ، تو تقسیم میراث کی کوئی الجھن پیدا نہ ہو ، بیوہ بہو ، بیوہ بھتیجی ، بیوہ بھانجی ، بیوہ بھتیجیاں ، ان کے مالیاتی مسائل کیسے حل ہو ، جوائنٹ فیملی کے اندر ، مشترکہ خاندان میں اگر ساس پورے خاندان کو سنبھالتی ہے ، تو صدر خاندان سسر صاحب اپنی بہوؤں سے مشورہ ، اپنے بیٹوں سے مشورہ ، اینٹ ایک رکھنے سے گھر نہیں بنتا ، مشورہ ایک رکھنے سے گھر بنتا ہے ، روشنی لائٹوں سے نہیں آتی ، نفرتوں کا اندھیرا ختم کرنے سے آتی ہے ، بدگمانیوں کا اندھیرا ختم کرنے سے آتی ہے ، تو یہ ایک موضوع ہے ، کہ ہمارے دولہے اور دلہن کو ، لڑکے اور لڑکی کو ، ایک عالم صاحب طے ہو جائے ، کہ مولانا آپ کی ذمہ داری ہے ، کہ برادری کا کوئی نکاح جب بھی ہوگا ، آپ ان کی دو گھنٹے کے کلاس ، تین گھنٹے کی کلاس آپ لیں گے ، پہلے زمانے میں یہ تربیت پرانی بوڑھی عورتیں ، اپنی آنے والی نسل کو دے دیا کرتی تھیں ، اب وہ تربیت نہیں مل رہی ہے ، اس لیے مسائل ہے ، نکاح کا مسئلہ ، پوری علاقہ میں چکن کی دکانیں ہیں ، قریشی کاروبار ہے ، ذبیحہ کے مسائل کیا ہیں ، شرعی ذبیحہ کسے کہتے ہیں ، کیا ہم حلال گوشت کھا رہے ہیں یا حرام گوشت کھا رہے ہیں ، ہمارے علاقے میں ہم اپنی انکھوں سے دیکھتے ہیں ، منہ میں گٹکا ہیں ، کان میں فون ہے ، زبان پہ گالی ہے ، اور مرغی ذبح کی جارہی ہے ، اسی طرح حلال جانور کے حرام اعضاء کیا ہے ، قربانی کا زمانہ ہے ، کیا ہماری برادری میں خالی چار آدمی پر قربانی واجب ہے ، قربانی کے واجب ہونے کے لیے نصاب کیا ہے ، ہمارے آس پاس کے علاقوں میں قربانی دینے کا رجحان ، پوری دنیا سے 25 لاکھ حاجی جمع ہوتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اتنے حاجی تو صرف ہندوستان کے ہونے چاہیے ، اتنے حاجی تو صرف ایک صوبے کے ہونے چاہیے ، اتنے لوگوں پر حج فرض ہے ، حج کس پر فرض ہوتا ہے ، آج کل کے اعتبار سے ، زیادہ سے زیادہ سات آٹھ لاکھ روپیے ، پانچ چھ لاکھ روپیے ، جس کے پاس موجود ہے ، زمین کی شکل میں ، مکان کی شکل میں ، زائد مکان کی شکل میں ، کرائے کے مکان کی شکل میں ، اس پر حج واجب ہو جاتا ہے ، فرض حج کے سلسلے میں میرے خاندان میں کتنا شعور ہے ، ایک علاقے میں حاضری ہوتی ہے ، وہاں پر حج کی اہمیت ، حج کے فضائل ، عشق پیدا کرنے والے مضامین سنائے جاتے ہیں ، اس کے بعد تشکیل ہوتی ہے ، آئیندہ سال حج کے لیے کون جائے گا ، آئیندہ سال کون کون جائیں گے اپنی بیویوں کو لے کر ، سونا رکھا ہوا ہے ، بیگوں کی بیگے زمینیں رکھی ہوئی ہے ، حج کے بغیر مر رہے ہیں ، خلا ، جہاں پر خلا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ، نوجوان نسل ، میرے پورے ددیال ننیال میں نوجوان کتنے ہیں ، 50 نوجوان ہیں ، 100 نوجوان ، ان سو نوجوانوں کی کیریئر کونسلنگ ہونی چاہیے ، آج کل کے اصطلاحی الفاظ ہیں ، ان کی پرسنلٹی ڈیولپمنٹ ، اور شخصیت کے تعمیر کرنے کی کلاسس ہونی چاہیے ، سب عالم بن جائیں امت کا تقاضا پورا نہیں ہوگا ، سب حافظ بن جائیں ، حکومت کا تقاضا پورا نہیں ہوگا ، ہمیں ڈاکٹرز بھی چاہیے ، مسلمان ڈاکٹر چاہیے ، ہمیں لائر اور وکیل بھی چاہیے دینی مزاج والے ، ہمیں سی اے اور اکاؤنٹ ، کھاتے مینٹین کرنے والے بھی چاہیے ، ہمیں کریکٹرک تک پہنچنے والے بھی چاہیے ، ہمیں سپریم کورٹ ہائی کورٹ تک جانے والے بھی چاہیے ، ہمیں صحافت جنرل ازم میں پہنچنے والے بھی چاہیے ، ہمیں قاضی بھی چاہیے ، چار بیٹے میرے صرف عالم بن کر آگئے کافی نہیں ہے ، بیٹا آپ قضائت پر محنت کر کے آئیے ، یہاں پر آنے کے بعد قضا کے مسائل کو سنبھالئیے ، آپ بیٹے قرات کے ماہر بن کر آئیے ، قرات سبعہ اور حفص کو بڑھائیے ، آپ علمِ حدیث پر محنت کر کے آئیے ، اور آپ معاشیات پر محنت کر کے آئیے ، جائیے ملیشیا ، جائیے ملک کے مختلف حصوں میں ، اور جا کر اسلامک اکنامک سسٹم ، الاقتصاد الاسلامی پڑھکر آئیے ، سری لنکا جائیے ، اور جا کر دیکھ کر آئیے ، کہ کیسے آسانی کے ساتھ ہم لوگوں کو بغیر سود کے قرض دے سکتے ہیں ، ایک روپیہ کا چندہ نہیں چاہیے آپ کا ، بینک قائم ہو جائے گا ، جتنے بینک ہے لٹ سکتے ہیں ، ہم جو مسلم فنڈ کھولیں گے وہ کبھی نہیں لٹے گا ، وہ بینک آپ کو پیسے دینے سے انکار کر سکتے ہیں ، چار لاکھ ہے ابھی ایک لاکھ

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 13:05


تیسری بات میرے عزیزو ، ہم اپنی مسجدوں کو ، امامت کو ، اپنی جمعہ کی خطابت کو ، اپنے خاندان کے ایک ایک طبقے کو ، موجودہ زمانے کے فتنوں سے بچاتے ہوئے ، دین اور دعوت کے ایک ایک تقاضے پر کیسے کھڑا کر سکتے ہیں ، خلا ہے کہ ہماری عورتوں کو تجوید نہیں آتی ہے ، خلا ہے کہ میرے خاندان کی عورتیں عالمہ تو کیا ، بہشتی زیور کی بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتی ہے ، خلا ہے کہ میری عورتیں مسنون دعاؤں سے اس قدر ناواقف ہے ، کہ آسانی سے عاملوں کے چنگل میں پھس جاتی ہے ، اور عاملوں سے متاثر ہو جاتی ہے ، اب پورے خاندان کو بیٹھ کر ، کسی ایک مشیر اللہ والے کو سرپرست بنا کر ، کسی ایک اللہ والے کو ، تجربہ کار ماہرِ شریعت کو مشیر بنا کر ، اب منصوبہ بننا چاہیے ، کہ ہمارے خاندان کی آنے والی نسل اور موجودہ بڑی خواتین کے لیے ، دینی تربیت کا انتظام کیا ہو سکتا ہے ، دعوت و تبلیغ میں فضائل ہے ، دعوت و تبلیغ میں چھ نمبر ہے ، مسائل کا مرحلہ کب آئے گا ، تعلیم کا مرحلہ کب آئے گا ، اور بڑی خواتین کے مکاتب ، بڑی خواتین کے لیے ماہانہ پندرہ روزہ اصلاح معاشرہ کی مجلس ، حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آنے سے پہلے ، مستقل خطبات دیا کرتے ، مردوں اور عورتوں تک تیاری کرنے کی باتیں کہی جاتی ، ہر نیک اللہ کے مقبول بندوں کے گھر میں یہ معمول رہا ہے ، کہ ہر موقع پر ضرورت کی بات ، اب یہ بات ہونی چاہیے ، تاکہ رمضان کا جیسے استقبال ہو ، شریعت جیسا چاہتی ہے ، ویسے استقبال ہو ، ابھی ہم جنازے سے آرہے ہیں ، کرونا کے زمانے میں ، دسیوں لوگوں نے ، اپنی ماؤں کو نہلائے بغیر دفن کر دیا ، دسیوں علاقوں کی کارگزاری ہے ، کہ بہنوں کو نہلائے بغیر دفن کر دیا ، کیونکہ نہلانے کا طریقہ ، عملی مشق نہیں کروائی ، تین گھنٹے لگتے ہیں ، دو گھنٹے لگتے ہیں ، ابھی آپ کسی گھر میں جمع کر دیجیے ، ایک بہن ایک مجسمہ ، ایک گول تکیہ لے کر ، عورتوں کا کفن لے کر نہلانے کے آداب سنا دے ، کرنے کے نہ کرنے کے کام سنا دیں ، اور کفن کا کپڑا پہنا کر بتا دیں ،عملی مشق ہوگئی ، بہشتی ثمر سے مفتی بننے تک ، اگر عملی مشق نہیں ہوئی ، نہ میں نہلا سکتا ہوں ، نہ میری عورت نہلا سکتی ہے ، تجہیز و تکفین کا ایک عمل ، میرے خاندان میری برادری میں ، میری بستی میں ، کتنی خواتین ہے ، پیشاور غسّالائیں ، آپ کے پاس کیسے ہوتا ہے مجھے پتہ نہیں ، ہمارے ایک دوست مفتی صاحب ، ایک جنازے کے نہلانے میں شریک ہوئے تو حیران ہو گئے ، پانی ڈالنے سے پہلے دعا ، صابن لگانے سے پہلے دعا ، مفتی بن گیا ہوں ، اتنی کتابیں دیکھا ہوں ، اس پر تربیتی اجتماع کرواتا ہوں ، اس پر کتابیں لکھ چکا ہوں ، لیکن یہ سب تو پتہ ہی نہیں ہے ، جو ایک عام آدمی کر رہا ہے ، رسومات ہے ، رواج ہے ، جاہلانہ طریقہ ہے ، جنازہ اٹھ گیا گھر پر ، سنت یہ ہے ، جس کے گھر میں جنازہ ہو ، وہاں کھانا پہنچایا جائے ، وہاں پر کھانا انسانیت سے گری ہوی حرکت ہے ، حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ، آقا نے فرمایا ، جعفر کے گھر میں کھانا پہنچاؤ ، یہ سنت ہے ، ان پر غم آیا ہے ، آپ کا علاقہ میں نہیں جانتا ، ہمارے علاقے میں لوگ کھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں ، جس گھر میں جنازہ رکھا ہوا ہے ، تیسرے دن ، دسویں دن ، چالیسویں دن ، اب جنازے کے بعد برادری کو بٹھائیے ، خاندان کو بٹھائیے ، بتلائیے ، حقوق واجبات کیا ہوتے ہیں ، آج ہی تبدیلی آجائے ضروری نہیں ، تبدیلی کا پہلا قدم علم ہے ، پہلے علم آئے گا پھر عمل آئے گا ، اور اسی نسل میں آجائے ضروری نہیں ، آئیندہ کی نسل میں تبدیلی آئے گی ، لیکن صحیح تصویر ہو کہ جنازہ اٹھنے کے بعد یہ ناجائز رسومات ہیں ، اور کرنے کے کام یہ ہے ، قرض کا ادا کرنا ، مہر کا ادا کرنا ، میراث کی تقسیم کرنا ، ہم ایک علاقہ میں گئے ، اس علاقے میں ، جہاں پر دینی شعائر ماشاءاللہ بہت مضبوط ہے ، انہوں نے بتلایا کہ ہمارے خاندان کی ایک کمیٹی بنی ہوئی ، جس گھر میں شادی ہوتی ہے ، وہ کمیٹی پہنچ جاتی ہے ، پہنچ کر پوچھتی ہے ، آپ کیسے نکاح کروا رہے ہیں ، ذرا بتائیے ، شادی کیسے ہوگی ، ولیمہ کیسے ہوگا ، اگر کوئی ناجائز عمل خلاف شرع حرکت ہوتی ہے ، وہ خاندان کے ذمہ دار ، جس میں اہل علم علماء بھی ہوتے ہیں ، وہ سمجھاتے ہیں بھائی یہ چیزیں اب تک بھی نہیں ہیں ، نہیں ہونی چاہیے ، آپ اضافہ آپ ایسا کوئی حرام کام مت کیجیے ، آپ کوئی گندی رسم شروع مت کیجیے ، بلکہ ہونا یہ چاہیے ، کہ جس لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے ، جس لڑ کے کا نکاح ہونے والا ہے ، اس کو بٹھا کر شادی کورس کروایا جائے ، پیر ذوالفقار صاحب دامت برکاتہم نے ، اور ان سے پہلے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ، معاشرت اور ازدواجی زندگی پر اتنا لکھا ہے ، بٹھا کر سمجھائیے ، ایکسیڈنٹ کے بعد تو ڈرائیونگ سیکھنا چاہیے ، لوگ ایکسیڈنٹ کے بعد بھی ڈرائیونگ نہیں سکتے ، طلاق کے بعد بھی شادی کی زندگی نہیں سیکھتے ، آپ کے یہاں جوائنٹ فیملی کا رواج ہے ، مشترکہ خاندان ، پورے چار پانچ بھائی ایک

ادارہ کھف الایمان

31 Jan, 13:05


*خاندان کو دینی محنت کا حصہ بناؤ*


🔊 *خطاب* 🔊
🎀 *حضرت مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب اطال اللہ عمرھم* 🎀


*نحمده ونصلي على رسوله الكريم : اما بعد*


کل بھی جو دن بھر کا وقت آپ کے علاقے میں گزرا ، اور اس سے پہلے بھی جو حاضری ہوئی ، اور اس قسم کے علاقوں میں جہاں پر قریب قریب بستیاں ہوتی ہیں ، رشتہ داریاں ہوتی ہیں ، اور محض اللہ نے ہمارے خاندانوں پر اور بستیوں پر رحم کیا ، اور اب علماء کی کھیت پیدا ہو رہی ہے ، میری نوعیت بھی ایسی ہی ہے ، ہمارے خاندان کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے ، کہ 15 16 سال سے علماء ، عالمات ، اور حفاظ کرام ، اور خطباء ، اور مصنفین ، اور ادارے ، اور اسکول ، ملکی حالات کے تقاضے ، اکابر سے رابطہ ، دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ، دعوت و تبلیغ کی محنتیں ، یہ سب کام ابھی ابھی ہمارے خاندانوں میں 15 20 سال سے رفتار سے ہونے لگا ہے ، اللہ تعالی استقامت عطا فرمائے ، تا قیامت آباد فرمائے ، یہ بات ہمارے ذہنوں میں ، اور ہماری نسلوں کے ذہنوں میں رہنا چاہیے ، *نحن قوم أعزنا الله بالاسلام* ، عزت تو ہماری صرف اسلام سے ہے ، اسلام کے علاوہ ، دولت سے ، برادری سے ، قومیت سے ، ہمیں کوئی عزت نہ ملے گی ، نہ رہے گی ، نہ ایسی عزت ہمیں چاہیے ۔
دوسری بات ، انسان کی عادت ہے ، کہ وہ اس عضو کی درستگی اور علاج کی فکر کرتا ہے ، جو عضو بیمار ہے ، پورا جسم سلامت ہے ، انگلی کا ایک بال اکھڑ گیا ، پھوڑا بن گیا ، آدمی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ، کہ میرے اس عضو کا علاج کر دیجیے ، ایک آدمی کا پورا جسم سلامت ہے ، ناخن اکھڑ گیا ، ہمارے حضرت شاہ جمال الرحمان صاحب فرماتے ہیں ، آدمی پورے سلامتی والے جسم کو نہیں دیکھا ، وہ فکر مند رہتا ہے اس ناخن کی درستگی کے لیے ، علاج کے لیے ، مرہم کے لیے ، دوبارہ اُگ جائے ، صحیح لگ جائے ، بھدہ پن نہ رہے ، نفس نہ پیدا ہو جائے ، ایسے ہی میرے عزیزو ، ہم سب کو اپنے خاندان ، اپنی برادری ، اپنی مسجد میں جہاں خلا ہے ، اس پر محنت ہونی چاہیے ، جہاں مرض ہے وہاں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے ، اور جہاں کمی ہے اس کمی کو ختم کرنے کے لیے ، جو اسباب ہیں ، وہ اسباب اپنانا چاہیے ، ایسا تو نہیں ہو سکتا ہے ، کہ میرے والد نے تبلیغ سے جڑ کر بیسمنٹ بنایا ، دین کی ابتدائی طلب پیدا کی ، میں ان کا بیٹا ہوں ، میں بھی بیسمنٹ بناؤں ، اور اس کے بعد میرے بیٹے آجائے ، میرے والد کے پوترے آجائے ، اور وہ بھی صرف بیسمنٹ ہی بنائے ، عمارت کب کھڑی ہوگی ، مولانا الیاس صاحب رحمت اللہ علیہ کا یہ ملفوظ اچھی طرح سمجھنا چاہیے ، مولانا فرمایا کرتے تھے ، کہ میرا کام تو ابتدائی طلب پیدا کرنے کے لیے ہے ، تکمیل علماء اور مشائخ سے ہوگی ، میرا کام تو ابتدائی طلب پیدا کرنے کے لیے ہے ، تکمیل علماء اور مشائخ سے ہوگی ، چلّے کی جماعتیں پابندی سے نکلنی چاہیے ، چار مہینے سالانہ قربانی کی سطح ، مشورے سے جو بڑھا سکتا ہے بڑھانا چاہیے ، بیرون ملکوں کے سفر ہونے چاہیے ، مردوں کے سفر ہونے چاہیے ، عورتوں کے ہونے چاہیے ، لیکن تکمیل کی بھی فکر ہونی چاہیے ، کہ دین کے سارے شعبے زندہ ہو جائیں ، اور اصل جو خلاء نقائص ہے ، اس کی تلافی بھی ہو جائے۔

ادارہ کھف الایمان

30 Jan, 00:04


غریب ہوں مگر

ادارہ کھف الایمان

29 Jan, 18:08


عالمہ خاتون سے نکاح

ادارہ کھف الایمان

29 Jan, 08:10


دوسری نشست ادارہ کہف الایمان کے صدر مدرس اور مفتی ابوبکر صاحب کے معتمد *مفتی منیر قاسمی صاحب* نے سنبھالی، مفتی منیر صاحب کہف الایمان میں فقہ کے استاذ ہیں اور ساتھ ہی تدریس میں تحقیقی و تجدیدی ذوق بھی رکھتے ہیں، مفتی صاحب نے فقہ اور اصول فقہ کی تدریس کے رموز بتائے کہ معلم یا معلمہ کس تیاری کے ساتھ فقہ پڑھائے، اس بات پر بھی زور دیا کہ اداروں میں کتابوں میں تقسیم کے بجائے فن کی تقسیم ہونی چاہئے کہ فلاں فقہ پڑھائیں گے اور فلاں نحو اور صرف، اس طرزِ تقسیم کا نقد فائدہ تو یہ ہوگا کہ ایک ہی معلم یا معلمہ کے زیر نظر فقہ کا سارا نصاب رہے گا اور اسے یہ بھی پتہ رہے گا کہ طلبہ یا طالبات نے پچھلے درجوں میں کیا پڑھا تھا اور اب ان کی سطح کیا ہے، اس کا ایک دور رس اثر ادارے پر یہ بھی پڑے گا کہ ایک ہی فرد پڑھاتے پڑھاتے ماہر بن جائے گا اور ادارہ اس فن میں مکتفی بھی ہو جائے گا...

ناشتے کے بعد تیسری نشست منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا *بنات میں تفسیر و حدیث کی تدریس کیسی ہو؟* اس عنوان پر شرکاء کو تجربہ کار ادیب و قلمکار، صاحب ذوق و نسبت شخصیت *حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی صاحب دامت برکاتہم* نے مخاطب کیا، استاذ محترم دار العلوم حیدرآباد میں ایک عرصے سے تفسیر، حدیث اور ادب کے استاذ ہیں، ایک بڑا طبقہ حضرت کے باضابطہ تلامذہ میں شامل ہے اور اس سے بھی بڑا طبقہ حضرت کی تحاریر و تقاریر کے مستفیدین پر مشتمل ہے، ذوق اور تجربہ مل جائے تو کیسی نکھری اور واضح ہدایات سامنے آتی ہیں اس کا مشاہدہ حضرت کی نشست میں ہوا، ایک طرف علم دوسری طرف نسبتِ نقشبند اور ان دونوں کے امتزاج نے تفسیر و حدیث کے موضوع پر ہونے والی گفتگو کو جیسے دوآتشہ کردیا تھا وہ بیان سے باہر ہے، ایسے ایسے نکتے کہ سامعین عش عش کر رہے تھے، تفسیر کے سلسلے میں فرمایا کہ تراجمِ قرآن کے ساتھ ساتھ علوم القرآن بھی طلبہ وطالبات کو بتائے جائیں، جمعِ قرآن و تدوینِ حدیث کے مختلف مراحل سے بھی طالبانِ علوم نبوت کو آشنا ہونا چاہئے، جمع قرآن پر اعتراض کرنے والے آج بھی موجود ہیں اور بدلتے زمانے کے ساتھ اعتراضات بھی جدیدیت کا لبادہ اوڑھ کر آرہے ہیں...

نمونہ اسلاف *حضرت مولانا احمد عبید الرحمٰن اطہرصاحب دامت برکاتہم* بھی مدعو تھے اور حضرت کا عنوان تھا *نظامِ بنات میں تربیت کے ترجیحی امور*، حضرت خود کئی مدارسِ بنات کے ذمہ دار اور کئی اداروں کے مشیر و سرپرست ہیں، تقویٰ و للّٰہیت کے پیکر ہیں، طرز تکلم *اَز دِل خیزَد بَر دِل ریزَد* کا عنوان ہوتا ہے، حضرت نے حضرت مولانا سلمان منصورپوری صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مفتی سعید صاحب پالن پوری علیہ الرحمہ کے حوالے سے بتایا کہ بنات کے اداروں میں نظامِ درس و تدریس بھی خواتین کو ہی چلانا چاہئے، فرمایا کہ ایسے پڑھاؤ کہ ان کے اندر پڑھانے کی صلاحیت پیدا ہوجائے ورنہ وقت اور پیسہ دونوں یا تو ضائع ہو رہے ہیں یا درست جگہ نہیں لگ رہے، نیز فرمایا کہ ادارے میں نورانیت قرآنِ مجید کو درست پڑھائے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی، حلّ عبارت کے بغیر کسی کو عالمیت کا استاد نہیں بنانا چاہئے کہ یہی جڑ اور اصل ہے، بے صلاحیت معلم یا معلمہ کا تقرر کرکے طلبہ کو تختہ مشق نہیں بنانا چاہئے...

پانچویں نشست *حضرت مولانا شفیع الدین ندوی نقشبندی دامت برکاتہم* کی تھی، حضرت کا موضوع تھا *عالمی و ملکی انقلاب میں خواتین کا کردار*، مولانا نہ صرف نسبت نقشبندیہ کے حامل ہیں بلکہ خواص و عوام، مسلم و غیر مسلم سبھی میدانوں کے آزمودہ ہیں، حضرت نے اولاً تو ملکی و عالمی حالات سے خواتین کی بے خبری و ناآشنائی پر مشفقانہ تنبیہ کی پھر فرمایا کہ خواتین کس طرح حالات کی تبدیلی میں رول ادا کرسکتی ہیں، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کا واقعہ ذکر کیا کہ جب ہندوستان کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک گئےاور نوے لاکھ لوگوں نے اس سفر میں ہدایت حاصل کی تو خواجہ اجمیری کی والدہ نے فرمایا تھا معین الدین! یہ میرے دودھ کا اثر ہے کہ لوگ تمہارے ہاتھ پر توبہ کررہے ہیں اور اسلام قبول کرر ہے ہیں، دعا کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ کس طرح دعا صورتِ حال کا رخ بدل سکتی ہے اور بالخصوص خواتین اپنی فطری رقت کے باعث کیسے اس ہتھیار کو استعمال کرسکتی ہیں...

پانچویں نشست کے بعد نماز ظہر کا وقفہ تھا، نماز سے متصل *مفتی احمد نور عینی صاحب* استاذ المعہد العالی الاسلامی کا محاضرہ تھا، مفتی صاحب ایک علمی و کتابی شخصیت ہیں، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کے تربیت و صحبت یافتہ ہیں، عثمانیہ یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی بھی کرچکے ہیں، چھٹی نشست میں مفتی صاحب کو عنوان دیا گیا تھا *نحو، صرف اور ادب عربی کی تدریس کے اسالیب*، مفتی صاحب نے باضابطہ پریزینٹیشن بنا کر اس موضوع کے نکات بتائے کہ عربی زبان کی تدریس ہونی کیسے چاہئے، کھیل کے ذریعہ عربی کیسے سکھائی جائے اس سے بھی مفتی صاحب نے سامعین کو روشناس کروایا...

ادارہ کھف الایمان

29 Jan, 08:10


ظہرانے کے بعد دو نشستیں اور منعقد ہوئیں، اولاً مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب نے *خارجی مطالعہ اور ہم نصابی سرگرمیوں* پر گفتگو کی، مفتی صاحب کا طرزِ خطاب، الفاظ کا انتخاب، لہجے کا اتار چڑھاؤ، آواز کا زیر و بم، چہرے سے جھلکتا دل کا درد، زبان سے چھلکتی اندر کی کڑھن سامعین کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے، لطف یہ کہ بہت کم اپنی بات کہتے ہیں، بیشتر باتیں صحابہ، تابعین، اکابر کے نام لے کر ان سے منسوب کرکے بتاتے ہیں، مفتی صاحب نے عالمات و فاضلات کو ان کی مختلف ذمہ داریوں کا احساس دلایا، ذمہ دارانِ ادارہ جات سے خطاب کرکے فرمایا کہ اپنے اساتذہ سے امور تعلیم میں رائے لینی چاہئے، *جو ناظم رائے نہیں لے سکتا وہ کام کیسے لے گا*، نیز تنخواہ کے معاملے میں مفتی نوال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم کے حوالے سے فرمایا کہ *عملے کو وقت پر تنخواہ نہ دے کر توکل کی نصیحت کرنا بدتمیزی ہے*...

مفتی صاحب کے بعد آٹھویں اور آخری نشست بنات کے تعلیمی اداروں میں صف اول کی ممتاز بلکہ اس معاملہ میں قائدانہ کردار کی حامل شخصیت *حضرت حافظ نذیر الدین سبیلی صاحب دامت برکاتہم* کا وعظ و نصیحت، علم و تجربہ پر مشتمل مذاکرہ ہوا، حضرت حافظ صاحب فالج کے اٹیک سے متاثر ہیں، بنا سہارے کے چلا بھی نہیں جارہا تھا لیکن اس کے باوجود حضرت نے اپنا قیمتی وقت دے کر گویا مجلس کی رونق میں اضافہ کردیا، حضرت کا عنوان تھا *مابعد نکاح خدمتِ دین پر استقامت*، متعلقہ احباب جانتے ہیں کہ بہت اہم عنوان ہے، ایک آسان مثال سے بات سمجھائی کہ ہم نے ایک کار بنائی اور بہت اچھی بنائی لیکن اس کے چلنے کے لئے سڑک موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اچھا چلانے والا موجود ہے تو کار بن تو جائے گی مگر چلے گی نہیں، ایسے ہی فارغات کا معاملہ ہے کہ تعلیم دینا اور سندِ فراغت دینا آسان ہے لیکن کام اسی وقت کر سکیں گی جب کام کا ماحول ہوگا، حضرت نے اسی پر زور دیا کہ فارغات اپنا ماحول بنائیں، ساتھ والوں کو اپنی ہمنوائی پر تیار کریں تب ہی کام ہو پائے گا، حضرت ہی کی دعا پر اجلاس بوقت عصر اختتام کو پہونچا...

بعد نماز عصر اوپری منزل میں خواتین کے درمیان اکابر کے خانوادوں کے مذاکرے تھے، ایک نورانی محفل سجی تھی، راقم کی اہلیہ بھی شریک مجلس تھیں اور انہوں نے ان خوش نما تاثرات و کیفیات کا تذکرہ کیا جو اُن شرکاء کے چہروں سے اُن بزرگ خواتین سے مل کر پیدا ہوا رہی تھیں، بقول مفتی ابوبکر جابر صاحب جب تک بتائیں گے نہیں کہ بننا کیسے ہے تو بنیں گے کیسے؟ خواتین کے درمیان اس مختصر و مخصوص تربیتی نشست کی نظامت کی کاروائی محترمہ زکیہ صاحبہ صدر معلمہ جامعہ عائشہ نسواں، حیدرآباد نے چلائی...

نماز مغرب پڑھ کر سب وہاں سے رخصت ہونے لگے، معین آباد سے شہری آبادی تک آنے لئے معقول سواریوں کا نظم تھا، واپسی پر ڈبہ بند عشائیہ بھی شرکاء کو دیا گیا، اللّٰہ رب العزت مفتی صاحب کی ان محنتوں کوششوں کاوشوں کو قبول فرمائے، معاونین کو بھی اجر جزیل عطا فرمائے...

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


*16* *★سولہواں میدان* ہے ، وکالت اور قانون کی پڑھائی ، آپ نے دسویں پڑھا ہے ، بارہویں پڑھا ہے ، ہمارے عزیز دوست ہیں مفتی نوید صاحب ، انہوں نے ، حضرت مولانا عبدالقوی صاحب دامت برکاتہم کی گرفتاری کا معاملہ جب پیش آیا ،اور سب لوگ جذباتی تقریریں کر رہے تھے ، ہمارے علاقے کے بڑے زبردست قانون داں ، مجاہد حضرت مولانا عبدالرحیم قریشی رحمت اللہ علیہ نے گفتگو کی ، اور یہ کہا بھائی یہ جذباتی تقریروں سے کچھ نہیں ہوتا ، قانون سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے ، قانون کی روشنی میں بات کیجیے آپ ، تو ہماری عزیز دوست کہتے ہیں ، میرے دل پر چوٹ لگی ، میں نے ٹھان لیا ، مجھے وکالت پڑھنا ہے ، پڑھ لیا انہوں نے ، مولانا کلیم صدیقی صاحب ، اللہ تعالی انہیں رہا فرمائے ، عافیت دے دیں ، ہمارے دوست ہیں ، مولانا ابراہیم شعلہ پوری صاحب ، انہوں نے واقعہ کو سنا ، سننے کے بعد ٹھان لیا ، یہ ضمیر فروش وکیل کو درد ہی نہیں ہے ، حضرت کے چھڑانے ، مدعے کو صحیح پیش کرنے ، دلائل پر جراح کرنے ، درد میرا ہے ، زبان اور قانونی اس کے پاس ہے ، کیوں نہ زبان اور قانون بھی میرے پاس آجائے ، تو وہ خود انہوں نے پڑھ لیا ، زانبیا میں وکیل بن گئے ، یہاں کا وکالت بھی پڑھ لیا ، ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں محروسین کے مقدمے لڑے جائیں ، محبوسین کی رہائی کا انتظام کیا جائے ، کیا *فکّ رقبۃ* والی آیت قرآن میں نہیں ہے ، کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو رہا فرمانے ، یہ اس کو کار نبوت کیوں نہیں سمجھا جاتا ، اس کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا ، ذہن کا تبادر کیوں نہیں ہوتا ہے ، کہ یہ بھی تو کام ہے۔

*17* *★سترہواں میدان* ہے ، پی ایچ ڈی ، جس میدان میں کوئی نظر نہیں آرہا ہے ، اور سب وہ نوجوان ہے ، جو سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں ، سو ، دوسو ، ہزار دو ہزار روپے ، ضمانت کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے ، دینی تشخص کو بچاتے ہوئے ، اپنے حلیے بشرے کو بچاتے ہوئے ، عالمانہ وقار کو سنبھالتے ہوئے ، داعیانہ مزاج کے ساتھ یونیورسٹیوں میں جائیے ، پی ایچ ڈی کیجیے ، ماسٹرز کیجئے ، کر کے وہاں پر ماحول بنائیے ، کتنے ہو گئے بھائی میدان ؟ کتنے ہو گئے ؟ فرق ہو گیا
17 ہو گئے میں لکھا ہوا ہوں ، آپ لوگ شاید نہیں لکھ رہے ہیں۔

*18* *★اٹھارہواں میدان* ہے ، شرابیوں اور بری عادت اور لت میں پھنسے ہوئے کی ، شخصیت کو تعمیر کرنے ، ان کی قوتوں کو واپس لانے ، شراب امریکہ میں نہیں پھیل رہی ہے ، کشمیر میں نہیں ہے صرف ، آپ کے تلنگانہ کے ایک ایک گاؤں میں ہے ، ایک ایک تعلقہ میں ہے ، ففت کے بچے عادی ہیں سوکھے نشے کے ، حیدرآباد کے مختلف محلوں میں بیٹیاں عادی ہیں ، مختلف نشے کی ، دینداروں کی ، چار چار مہینے لگائے ہوئے کی ، علم سے تعلق رکھنے والوں کی ، اولاد نشے کی عادی ہے ، چل رہا ہے ٹرینڈ ، لوگ قتل کرنے کے مشورے کر رہے ہیں اپنی اولاد کو ، کیسے سنبھالا جائے ، یہ میدان ہے واقعتا میدان ہے ، کر رہے ہیں علماء ، لیکن بہت کم ، غیر مسلموں کے ریہیولییشنز سینٹرز کے ادارے ہیں ، اس کو سیکھنا ہے ، چیلنج ہے ، عظیمت والا کام ہے۔

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


*19* *★انیسواں میدان* ہے ، ملی و سیاسی کام ، ووٹر ریڈی کارڈ بنایا جائے ، الیکشن میں رہبری کی جائے ، ہم گئے آسام ڈیٹینشن کیمپ میں ، سڑ رہے ہیں لوگ ، کون ان کے مقدمے لڑے گا ، کون ان کے کاغذات ، کتنوں کی دعا مل جائے گی ، میں محدود تصور سے نکلیے ، تنگ نظریے سے نکلیے ، قید خانوں میں قیدیوں کی تربیت ، پہلے جماعتیں نکلتی تھی تو ایک میدان یہ بھی تھا ، کہ ہمیں قید خانے میں جانے دیجیے ، جیل خانے میں جانے دیجیے ، امریکہ میں لوگ مطالبہ کرتے تھے اچھے علماء سے ، کہ آپ ہمارے قید خانے میں آئیے آکر ہمارے قیدیوں کو موٹیویٹ کیجیے ، ہمارے ڈنڈوں نے ان کو نہیں بدلا ، تمہاری تقریروں نے بدل دیا ، تمہاری صحبتوں نے بدل دیا ، بہت اہم میدان ہے ، قیدی حکومتوں کے پاس اتنے ہوتے جا رہے ہیں ، کہ حکومتوں کا بجٹ بڑھتا جا رہا ہے ، قیدیوں پر خرچ کرنے کی وجہ سے ، عاجز آگئے ان کو سنبھالتے ہوئے ، ایک عالم دین ، بلکہ حافظ قران ، حافظ قران وہ سنانے لگے ، سعیدآباد میں ، بچوں کی جیل ہیں ، وہاں پر جاتے ہیں ، بچوں کو مکتب پڑھانے کے لیے اپنی فکر سے ، پولیس والا کہتا ہے ، 15 سال سے کم عمر میں قتل کر دیا ، 15 سال سے کم عمر میں ریپ کے واقعات پیش آگئے ، مولوی صاحب یہ آپ ہی کو سنیں گے ، ہمیں نہیں سنیں گے ، اللہ تعالی نے ہماری ساری بد عملیوں کے باوجود ، اور غلط نمائندگی کے باوجود ، ستاری کر رکھی ہے ، بھرم باقی رکھا ہے ، اللہ تبارک و تعالی نے ، ابھی بھی دینی قیادت پر زیادہ اعتماد ہے ، سیاسی قیادت کے مقابلے میں ، ہمارے بڑوں کی نیک نامی ، ہمارے بڑوں کے صلاح اور استغنا کا اثر ہے ، کہ اس حلیے بشرے کا احترام کیا جاتا ہے ، ٹریفک پولیس بھی احترام کرتا ہے ، عدالتوں کے باہر برقہ پوش عورتیں ہیں ، دارالقضا صرف آفس میں بیٹھنے کے لیے نہیں ، دارالافتاء صرف کمرے تک بند رہنے کے لیے نہیں ، ایسے دارالقضا میں تو صرف مکھیاں ہی مارے جائیں گے ، بس ایسے دارالقضا ایسے دارالافتاء کہ جو گراؤنڈ میں کام کرنے والے ہو ، جو عدالتوں کے باہر بہنوں سے ملے ، سمجھائیں ، آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا ، 10 سال سے پھر رہی ہیں آپ ، ایک مجلس ہمارے پاس بھی بیٹھ جائیے ، کونسلنگ کا ہمیں بھی موقع دیجیے ، تقسیم جائیداد کی کونسلنگ ، شادی کی زندگی کی کونسلنگ ، سمدھی اور سمدھن کی کونسلنگ ، بہت ضرورت ہے امت کو ، حکومت کا ڈر کم ہے ، ہماری جہالت کا ڈر زیادہ ہے ، حکومت سے رکاوٹیں کم ہیں ، ہماری ضد سے رکاوٹ زیادہ ہے ، حکومت اور سیاست کے کرنے کا کام 20 فیصد ہے ، 80 فیصد کم ہمارے کرنے کا ہے ، جتنی شریعت پر ہم چل سکتے ہیں چل کر بتائیں ، نوجوانوں میں کیسے کام کیا جائے ، اسپورٹس کے نام پر کام کیجئے ، کھیل منعقد کیجیے ان کے ، کھیل منعقد کیجیے ، اور نوجوانوں کو جوڑئیے ، پھر قبر آخرت سنائیے ، پہلے ہی دن میں قبر آخرت نہ سنائیے ، بچہ بولتا نہیں تھا ، ماں باپ پریشان تھے ، یہ بولتا نہیں ہے ، ایک دن بولنے لگا ، اما مرو باوا مرو ، تو ماں باپ نے کہا بھائی یہ نہیں بولتا تو ہی اچھا تھا ، کب کون سی بات بولی جائے ، پہلے انسیت پھر محبت پھر اطاعت ہوتی ہے ، عبدالباری ندوی فرماتے تھے ، یہ لا الہ پر ہے ، جب الا اللہ پر آجائیں گے تو اپنے سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گے ، یہاں پر تھے تو عملا کمزور تھے ، امریکہ گئے تو طاقتور ہو گئے ، وہاں کی بے دینی کو دیکھا ، اسلام کی قدر آئی ہے ، *ما عرف الاسلام الا من عاش الجاهلية* ، نوجوان طبقہ سب سے بڑا قابل رحم ہے ، ان پر ترس کھانے والا ، ان کو نزدیک کرنے والا ، بے غرض انہیں قریب کرنے والا ، ان کو روزگار میں رہبری کرنے والے ، ان کو بزنس میں رہبری کرنے والے ہیں ، ان کو روحانی ماحول دینے والے ، تزکیائی اللہ کی محبت کا ماحول دینے والے ہیں ، فتنوں کے دور میں ہے ، ابال ہے بے حیائی کا کیسے بچ پائے گا ، وہ ہم چار دیواری میں رہ کر بچ نہیں پاتے ہیں ، معزورین کے ادارے ، ماشاءاللہ ساؤتھ افریقہ کے بعد ، پونہ میں اندھوں کا مدرسہ ، میلویشارم میں اندھوں کا مدرسہ ، ہمارے پاس نرمل میں ، اللہ جزائے خیر دیں ایک مفتی صاحب کو ، اندھوں کا مدرسہ ، معزورین پر کام ، عیسائی کر رہے تھے ، تبلیغی جماعت کر رہی تھی ، ہمارا کوئی نہیں تھا ، پڑھانے والوں نے اندھوں کو پڑھا دیا ، بخاری بھی پڑھا دیا ، دعوت دینے والا بھی بنا دیا ، گونگے بہروں کے مدرسے ، آپ نے سنا ، حرم مکی مدنی میں ، سعودیہ میں ، گونگے بہروں کے مدرسے ، اسکول قائم کر دیے گونگے بہروں کے ، سائنس پڑھائی جا سکتی ہے ، قرآن نہیں پڑھا جا سکتا ، سہولت پسندی سے کام نہیں ہوگا ، تعیشات سے باطل چلے گا ، حق تو مجاہدے سے ہی چلتا ہے ، حق کی ابتدا مجاہدات سے ہوتی ہے ، انتہا فتوحات پر ہوتی ہے ، ابھی ہمارے پاس شنکر پلی کا اجتماع تھا ، ایک دوست سے ہماری ملاقات ہوئی ، اس سے پہلے بھی ہوئی ، سڑکوں پر جو پڑے رہتے ہیں پاگل ، نیم پاگل ، ان کی حجامت کرتا ہے ، جہاں لے جانا ہے انہیں لے جاتا ہے ، اولڈیج ہوم گئے ،

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے ، ان کو کلمے والی موت تو مل جائے ، محنت کی جائے ان پر ، آپ اتر جائیں گے ، میں نہیں بولوں گا تب بھی اتر جائیں گے ، عملیات کے میدان میں ، اور کتنے تو سیکھ رہے ہوں گے خفیہ طریقے سے ، حضرت حکیم اختر صاحب فرماتے تھے ، عامل کو نہیں کامل کو تلاش کرو ، عامل بننے سے روک نہیں رہا ہو ، لیکن پہلے کامل بن جاؤ ، عملیات کے ساتھ دعوت و ارشاد کے کام کو نہ چھوڑو ، عملیات کے ساتھ عمل سے نہ کاٹو ، اللہ سے جوڑو ، ذات سے نہ جوڑو ، طب یونانی ہے ، آخری بات ہے ، تجارت حرام نہیں ہے ، لیکن دنیا کو کیا تجارت کی کمی ہے ، یا تجارت کو حلال بنانے والوں کی کمی ہے ، کپڑے بیچنے والوں کی کمی ہے ، یا حیا سکھانے والوں کی کمی ہے ، اینٹ جوڑنے والوں کی کمی ہے ، یا اللہ سے جوڑنے والوں کی کمی ہے ، جزوی طور پر تجارت کرنے سے روکتے نہیں ہیں ، لیکن خدمت دین سے اتنی آسانی کے ساتھ محروم نہ کیجیے ، پھر آخر میں تجارت ہی خدمت پر غالب آکر رہ جائے گی۔

*20* *★ بیسواں میدان* ، نوجوانوں میں کام۔

*21* *★ اکیسواں میدان* ، معذورین کے ادارے۔

*22* *★ بائیسواں میدان* ، بزرگوں کے ادارے ( اولڈیج ہوم )۔

*23* *★ تئیسواں میدان* ، عملیات کے میدان میں کام کرنا۔

*24* *★ چوبیسواں میدان* ، تجّار میں کام کرنا۔

*25* *★ پچیسواں میدان* ، کسانوں میں کام۔

*26* *★ چھبیسواں میدان* ہے ، امامت وغیرہ کے ساتھ حکمت ، طبابت یونانی کرنا۔

*27* *★ ستائیسواں میدان* ہے ، طلاق ، خلع ، تقسیم جائیداد کی مفصل ہمدردانہ کونسلنگ کرنا۔

*28* ★ *اٹھائیسواں میدان* ، ختم نبوت میں کام۔

*29* *★ انتیسواں میدان ہے* ، غیر سودی مالیاتی اداروں کا قیام۔

*30* *★ تیسواں میدان ہے* ، جیلوں میں اصلاح کا کام۔

*31* *★ اکتیسواں میدان* ، محروسین کی رہائی۔

*32* *★ بتیسواں میدان* ، فساد زدہ علاقوں میں کام

*33* *★ تینتیسواں میدان* ، شادیاں کروانا

*34* *★ چونتیسواں میدان* ، دارالافتاء و القضاء کا قیام

*35* *★ پینتیسواں میدان* ، دارالیتامیٰ

*36* *★ چھتیسواں میدان* ، سڑکوں پر پڑے نیم پاگل لوگوں کی بازآبادی


اللہ تبارک و تعالی مجھے اور آپ کو قبول فرمائے ، قبول فرمائیں۔

*٭واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين٭*

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


*3* *★تیسرا میدان* ہے ، ذکور اور اناث کے مدارس میں موثر تدریس ، اصول تنخواہ والی تدریس نہیں ، تکمیل نصاب کی تدریس نہیں ، تسکینِ شوق کی تدریس نہیں ، 10 سال سے پڑھا رہا ہوں علم الصلاۃ ، ایک نئی کتاب نہیں دیکھا ، 20 سال سے پڑھا رہا ہوں شرح تہذیب ، فلسفہ جدیدہ کو نہیں پڑھا ، میبذی پڑھا رہا ہوں 25 سال سے ، الحاد اور مغرب کے رد کو نہیں سیکھا ، یہ بانجھ تدریس ہے ، بے اثر تدریس ہے ، شروع میں جب موقع نہیں ملتا ہے ، تو فارغین بہت پریشان رہتے ہیں ، پڑھانے کا موقع نہیں مل رہا ، اور جب پڑھانے کا موقع مل جاتا ہے ، تو ناظم کی اصلاح ، قلت تنخواہ کے شکوے میں مرے رہتے ہیں ، بس اپنی تدریس کو موثر بنانے کی کوئی فکر نہیں ہے ، کتنے میدان ہو گئے ؟

*4* *★چوتھا میدان* ہے، امامت کا ، قاری امیر الحسن صاحب رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے ، اس زمانے میں پیسے دے کر بھی امامت ملتی ہے تو بھی کرنا چاہیے ، کم سے کم اپنے فرائض محفوظ ہو جائیں گے ، مفتی اشرف علی صاحب باقوی قاسمی سعودی مہتمم سبیل الرشاد رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے ، فرماتے تھے ، کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں جو کار نبوت بہيئته باقی ہے ، وہ امامت کا کام بھی ہے ، امامت کا کام ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس خدمت کو انجام دیا کرتے تھے ، اب یہ امامت ایسی ہو کہ مقتدیوں کا محتاج بن کر ، ہمارے کالینا کے بزرگ گزرے ہیں بمبئی کے ، حضرت مولانا منیر صاحب رحمت اللہ علیہ ، ان کے بارے میں ایک عالم دین نے لکھا ، مقتدیوں سے ایسے تعلق رکھتے تھے ، جیسے کوئی شیخ اپنے مرید سے رکھتا ہو ، اتنی خیر خیریت ، اتنی اپنائیت ، زندگیاں بدل گئی مقتدیوں کی ، کئی اداروں کے ناظم بن گئے ، ان کے مقتدی 900 مکاتب ان کے ماتحت چلتے تھے ، ملک اور بیرون ملک میں ایک ، بمبئی کی چھوٹی سی مسجد کے امامت کے پلیٹ فارم سے ، بہت پابندی سے آتے تھے وہ ، شاہ وسیع اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ، بہت پابندی سے یو پی میں آتے تھے ، وہ حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب جونپوری رحمت اللہ علیہ کے پاس ، اپنی ذاتی فکر سے جاتے تھے تبلیغی جماعت میں ، ملک بھر بیرون ملک کا سفر ہوتا تھا ، کسی مدرسے کے ناظم نہیں تھے ، رسمی کوئی ان کے پاس کشش نہیں تھی ، بیان اور تقریر بھی زبان میں لکنت تھی ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم معہد کے ابتدائے سال میں دو دن کے لیے ، تزکیائی مجلس منعقد کرنے کے لیے ، حضرت مولانا منیر صاحب کالینا رحمۃ اللہ علیہ کو بلایا کرتے تھے ، امامت ایسی کہ کوئی مرتد نہ ہو محلے میں ، ایک ایک طبقے پر آدمی اثر انداز ہو جائے ، کتنے ہو گئے بھائی ؟؟؟ چار ہو گئے !۔

*5* *★پانچواں میدان* ہیں ، خطابت ، شہر یا دیہات ، جہاں پر سننے والے ملے اور جہاں پر سننے والے نہ ملے وہاں بھی خطابت کرنا ، ٹوپیاں رکھ کر بھی خطابت کر دی ہے اکابر نے ، پورا بیان کر دیا ، سننے والا پتہ چلا کہ بہرہ ہے ، لکھ کر پھر اس کو سمجھایا ، خطابت کے لیے کوئی مسجد اکبر ہی نہیں چاہیے ، کوئی مرکز نہیں چاہیے ، کوئی جامع مسجد سٹی بنگلور نہیں چاہیے ، خطابت ، ہمارے پاس قاضی سمیع الدین صاحب رحمت اللہ علیہ جلسے میں آئے ، سننے والا ایک ہی تھا ، تین گھنٹے اس کو سنائیں ، مجمعہ کا فرق ان کے سنانے پر نہیں آیا کرتا تھا ، مولانا یوسف صاحب رحمت اللہ علیہ ، مجمع 25 کا ہوتا ، 15 ہزار کا ہوتا ، گفتگو کے جوش و خروش میں کوئی فرق نہیں آتا ، خطابت میں اپنے لیے کر رہا ہوں ، میرا مطالعہ ہو جائے گا ، میری دعوت کا مجھے تو اثر ہو جائے گا ، *وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ* ،مومنین میں میں بھی ہوں ، میرا تو کم سے کم فائدہ ہو گیا ، اتنی دیر میں نے اللہ اللہ کہہ دیا ، اتنی دیر میں مجھے آخرت تو یاد اگئی ، اتنی دیر تو دھیان آگیا کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے ، آس پاس کے دیہات میں چلے جائیے خطابت کے لیے ، ددیال ننیال میں چلے جائیے، ویران مسجدوں میں چلے جائیے ، یہ سب کیا ہمارے اکابر نے ، خالی اسی لیے بیٹھے ہیں ، جمعہ بے فیض اسی لیے جا رہا ہے ، کہ بڑی مسجدوں کی تلاش ہے ، بڑے مجمعہ کی تلاش ہے ، نیت بھی خراب ہو گئی ، وقت بھی ضائع ہو گیا ، کتنے میدان ہوگئے بھائی ؟ پانچ۔

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


ے کا تقاضا ، ان تین چیزوں کے بعد طے کرنا چاہیے ، کہ مجھے اس میدان میں جانا ہے ، عام طور پر ہمارے ساتھی ، نہ اپنی اہلیت دیکھتے ہیں ، نہ اپنے مشیر اور مرشد کا مشورہ دیکھتے ہیں ، اور نہ ہی علاقے کے تقاضے کا ، کوئی اندازہ کرتے ہیں ، مجھے مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنا ہے ، ایک طالب علم کہتا ہے ، جو بیچارہ اپنے پڑھنے کے زمانے میں ، ضروری نحو صرف کو بھی قابو میں نہیں لا سکا ، ان تین مرحلوں سے گزرنے کے بعد ، میدان کا انتخاب ہوگا ، ایک آدمی کہتا ہے ، کہ مجھے اسلامک فائنانس پر محنت کرنا ہے ، واقعاتا ضرورت ہے ، لیکن علاقے میں ارتداد کا مسئلہ ہے ، علاقے میں اسلامک بینک نہیں کھولا جا سکتا ، غیر سودی چٹی چلائی جا سکتی ہے ، مسلم فنڈ کو لگا سکتا ہے ، غیر سودی بینک کھولا جا سکتا ہے ، تو مجھے سوچنا چاہیے کہ علاقے کا تقاضا الگ ہے ، میرے ذہن کا رجحان الگ ہے ، تو تین باتیں میں نے کہی ، کہ میدان کا انتخاب کرنے سے پہلے ؟ پہلے ؟ اہلیت ، اور دوسرا مشورہ ، تیسرا علاقے کا تقاضا ، ہمارے اکابر نے اپنے زندگی کے بڑے بڑے فیصلوں کو بدل دیا ، علاقے کے تقاضے کو لیکر ، کیا قاری صدیق صاحب رحمت اللہ علیہ بخاری پڑھانے کی صلاحیت یا موقع نہیں تھا ، گاؤں کا انتخاب کیا ، اپنے جنوب کے اکابر کی طرف آئیے ، ہمارے حضرت ، ہم سب کے مرشد ، حضرت شاہ جمال رحمان صاحب سالہا سال مکھتل میں ، حفظ کی جماعت کو سنبھالا ، ہمارے ترجمان اہل سنت والجماعت ، حضرت مولانا عبد القوی صاحب دامت برکاتہم کی ، کیا علمی قابلیت کم تھی ، سالہا سال مسجد اکبری میں نورانی قاعدہ پڑھایا ، فیض العلوم میں پڑھایا ، ایسے دسیوں مثالیں آپ کو قدیم اکابر میں ، موجودہ اکابر میں مل جائیں گی ، اب کام کے میدان نمبر وار میں گناتا ہوں ، سرسری طور پر بھی ، سرسری طور پر بھی کام کے میدان کی فہرست بنائی جائے تو 36 کام ہے ، سیرت کہتی ہے ، سوانح اکابر بتلاتی ہے ، زمانہ مطالبہ کرتا ہے ، امت پیاسی ہے ، ملک کے ترجیحی کاموں میں سے ہے ان میدانوں میں اترنا ، ہم کہیں گے تلنگانہ آندھرا کے تناظر میں۔

*1* *★سب سے پہلا میدان* تجوید و قرات کا ہے ، دو دن پہلے ہمارے سرپرست ، حضرت مولانا احمد عبید الرحمان اطہر صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ ، گنٹور کا سفر تھا ، حضرت سے میں نے کہا دیوبند جانے والا ہوں ، تو حضرت نے فرمایا ، کہ بھائی کوئی دلچسپی والا ، اچھی آواز والا ہو ، تو اس سے کہیے نا ، کہ وہ تجوید و قرأت پہ مہارت حاصل کرے ، حضرت مولانا عبد القوی صاحب اچھے قاری کے انتظار میں ہیں ، ہم دو سال سے فکر مند ہیں ، کہ جو قرات سبعہ ، قرات ثلاثہ کا فرض کفایہ ادا کرنے والے ہیں ، ذی استعداد قسم کے عالم مل جائے ، اچھی محنت کرائی جاتی ہے ، گجرات کے بعض مدارس میں ، اچھی محنت کرائی جاتی ہے ، بعض آرکاٹ اور بنگلور کے مدارس میں اچھی محنت کرائی جاتی ہے ، بعض انفرادی طور پر قراء کے پاس ، ہمارا مبلغِ علم صرف نورانی قاعدے کی تصیح نہیں ہے ، نورانی قاعدے کی تصحیح ، یہ تو ایک عام مسلمان کے لیے فرض عین کا درجہ قرار دیا جا سکتا ہے ، تو سب سے پہلا میدان تجوید و قرات۔

*2* *★دوسرا میدان* ، مکاتب کے اقسام اور استحکام ، اہم موضوع ہے ، مکتب کی تعلیم فرض عین کا درجہ رکھتی ہے ، ہلکا پن آنے نہ دیجیے ، نیت اسی سے بچے گی ، زبردست صدقہ جاریہ آپ کو مکتب کی تعلیم کے ذریعے سے ملے گا ، آپ کے سلوک کے مقامات کم نہیں ہو جائیں گے ، آپ کی علمی ترقی میں کوئی کمی نہیں آ جائے گی ، نور محمد صاحب جھنجانوی رحمۃ اللہ علیہ مکتب کے استاد تھے ، پڑھاتے تھے ، وہ اکابر مکتب میں ، لیکن ان کی علم تحقیق کا سفر بڑے بڑے شیخ الحدیثوں سے بھی آگے ہے ، مکتب بچوں کا بھی ہے ، مکتب بالغان کا بھی ہے ، مکتب بالغات اور بڑی خواتین کا بھی ہے ، نکاح کے بعد ، پختگی عمر کے بعد ، آدمی بالغات کے مکتب ، مستورات کے مکتب ، بڑا مدرسہ قائم کرنا ، عمارت بنانا ، یہ عام آدمی کے بس کا نہیں ہے ، ابتدا میں مناسب بھی نہیں ہے ، امت کو ضرورت بھی نہیں ہے ، ایکڑوں کے ایکڑ ، بڑی شاندار عمارتیں اس کے مقابلے میں ، غیر رسمی طور پر گھروں میں مکاتب کا قیام ، اور یہ تینوں قسم کے مکاتب ، کتنے میدان ہو گئے ؟

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


*9* *★نواں میدان* ، رفاہی کام ، چیرٹی کے کام ، ویلفیئر کام ، علمی مزاج کے ساتھ کیجیے ، صرف چندہ کر کے راشن تقسیم مت کیجیے ، علمی مزاج ، دینی ذہن سازی کیجئے ، مولانا الیاس صاحب فرماتے تھے ، کسی پر مادّی احسان بھی کرو ، تو اس کو دین سے جوڑنے کے ارادے سے کرو ، اسلام نے بیت المال پر انحصار کا طریقہ نہیں سکھایا ، یتیم کو اس کے خاندان سے ، بیواؤں کو اس کے خاندان سے ، جوڑنے کے بعد بیت المال سے مدد کی ہے ، یا جوڑتے ہوئے مدد کی ، پیسہ کتنا دیں گے آپ ، غربت کا دین سوال کرنا نہیں ہے ، غربت کا دین اپنے سوال کو چھپانا ہے ، غربت کا دین بھیک مانگنا نہیں ہے ، محنت کرنا ہے ، کسب معاش ہے غربت کا دین ، رفاہی کام جتنے بھی ہو رہے ہیں ، رمضان میں ہو رہے ہیں ، سیلاب زدہ علاقوں میں ہو رہے ہیں ، رفاہی کام ، سردی میں بلانکٹ کا تقسیم کرنا ، سروے اچھی طرح کر کے وظیفے جاری کرنا ، ٹن کے ایگزام لکھوانا ، گیارویں ، بارہویں کی رہبری کرنا ، تیھلا بنڈی بانٹنا ، غیر سودی چٹیاں چلانا ، یہ سب رفاہی کام ہے ، ضرور ہونے چاہیے ، سیکھ کر کیجیے ہر کام ، غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے مجرب لوگوں سے سیکھنا چاہیے ، مصارفِ زکوٰۃ ، سارے مصارف زکوۃ میں زکوۃ پہنچے ، اور واقعتا زکوۃ لینے والوں کو دینے والے بنا دے ، روزگار کے نئے میدان کیا ہے ، ایسے کورسز کیا ہیں ، جس کی وجہ سے امت برسرِ روزگار ہو جائے گی ، کیجیے کام یہ ، پہلے ملک کا سفر ، کیجیے علاقوں کا سفر ، کیجیے جو تنظیمیں کر رہی ہیں ، اس سے سیکھ کر کیجیے ، کتنے میدان ہو گئے ؟ نو میدان ہو گئے ! آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قوم کی خدمت کی ، پھر دعوت دی ، حضرت یوسف علیہ السلام نے صرف دعوت نہیں دی ، پورے ملک کی خدمت کر کے بتایا ، خدمت کا تصور دعوت سے پہلے ، پوری قوم کے سامنے بہت واضح تھا ، *إنك لتصل الرحم،* جو بیچارہ یہاں کی دکھائی دینے والی بھوک پر رحم نہیں کھاتا ، وہ جہنم کی بھوک سے کیا بچانا چاہے گا۔

*10* *★دسواں میدان* ہے ، اپنے اسلامی اسکول اور کالج کا قیام ، اسلامی سکول ، اسلامی کالج کا قیام ، مسلم اسکول مسلم کالج نہیں ، پہلے سے مدرسہ ہے ، آپ کیوں مدرسہ کھول رہے ہیں ، جب ضرورت نہیں ہے ، پہلے سے مکتب ہے ، آپ کیوں مکتب کھول رہے ہیں ، کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ، خلفاء راشدین نے ، عصری فنون پر محنت نہیں کی ، معیشت مضبوط ہو جائے ، ہر شعبہ حکومت میں مسلمان پہنچ جائے ، انصاف پسند پہنچ جائے ، کیا امت کو صرف مفتی اور قاضی کی ضرورت ہے ، کیا امت کو امانتدار انجینیئر کی ضرورت نہیں ہے ، انسانیت پسند ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ، مسلم کلیکٹر کی ضرورت نہیں ، اور سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے وکلا اور ججز کی ضرورت نہیں ، بالکل ضرورت ہے ، یونیورسٹیوں میں ، تدوینِ نصاب کا کام کرنے والے کا ، اپنے اسکول اور اپنے کالج کا قیام ، 1975 میں حضرت علی میاں ندی رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے ، مولانا خالد بیگ ندوی سے کہا ، فراغت کے وقت انہوں نے پوچھا ، حضرت مجھے نصیحت فرمائیے ، کہا اسکول قائم کرو ، انہوں نے اپنی 35 40 سال کی زندگی لگا دی ، مختلف نظام تعلیم کو سمجھنے میں ، اور اس کے اسلامائیزیشن میں ، اور چائلڈ سائکالوجی کے پڑھنے میں ، آج میری معلومات کے مطابق ، 50 ہزار طلباء ان کی شاخوں میں پڑھتے ہیں ، کچھ تو خلا پورا کیجیے ، کچھ تو بوجھ اٹھائیے ، تذبذب کب تک رہے گا ، چوراستے پر کھڑے کب تک رہیں گے ، میدان کی تعیین ہی نہیں ہوئی ، تو میدان کی تیاری کیسے ہوگی ، میدان کی تعین نہیں ہوئی ، میدان کی تیاری کیسے ہوگی ، کتنے ہو گئے دس!۔

*11* *★گیارہواں میدان* ہے ، اسکول ہم قائم نہیں کر سکے ، کالج قائم نہیں کر سکے ، اسکولوں کی اسمبلی میں بیان کیجیے ، اسکولوں کی اسمبلی میں بہت اہم کام ہے ، ارتداد کے تھامنے ، دینی ذہن بنانے ، علماء سے جوڑنے کے ، اسکولوں میں جائیں ، اخلاق اور انسانیت والے مضامین سنا ئیے ، لب و لہجہ مشفقانہ ہو ، اور قابل فہم ہو ، انگریزی کی بقدر ضرورت آمیزش ہو ، موٹی موٹی انگریزی میں سنا ئیے ، امت کا 98 فیصد طبقہ اسکول اور کالج میں ہے ، آخری درجہ یہی ہے ، کہ اسکول اور کالج کی اسمبلی میں بات کی جائے۔

*12* *★بارہواں میدان* ہے ، ٹیوشن سینٹرز ، ہمارے ملک میں 2020 کی نئی تعلیمی پالیسی ، کرونا کے زمانے میں بننے والی ، آپ جانتے ہیں ، کہ واقعتا 10 سال میں پوری نسل ضرور مشرک بن جائے گی ، اگر ہم نے اپنے ادارے قائم نہیں کیے ، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ، کم سے کم ٹیوشن سینٹر قائم کیجیے ، مکتب کے عنوان سے کوئی نہیں آتا ، ٹیوشن سینٹر کے عنوان سے بچوں کو جمع کیجیے ، ماڈرن سبجیکٹ پر ایکس سائز بھی کرائیے ، اور پھر اس کے بعد ان کو آپ اعتقادات بھی بتلائیے ، رد الحات پر بھی بات کیجئے ، رد مغرب پر بھی بات کیجئے ۔

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


*6* *★چھٹواں میدان* درس قرآن کا ہے ، درس قرآن ، درس قرآن کی فکر جب آتی ہے ہمارے پاس ، جب گمراہ فکر والا شخص درس قرآن شروع کرتا ہے ، جب تفسیر بالرائے کرنے لگتے ہیں ، تو تب ہمارے پاس خیال آتا ہے ، درس قرآن ہونا چاہیے ، جب کوئی منحرف فکر خاتون ، درس قرآن دیتی ہے آن لائن ، تب ہمارے پاس پوچھا جاتا ہے ، کہ درس قران ہمیں دینا چاہیے ، زندگی کا اڑنا بچھونا بنا لیجیے آپ ، مولا احمد علی لاہوری رحمت اللہ علیہ مفسر قرآن ، زندگی کھپادی ، سرفراز صفدر خان صاحب رحمت اللہ علیہ زندگی لگا دی ، عبدالحمید سواتی رحمت اللہ علیہ ، معارف العرفان ، زندگی کا حصہ بنایا ، ایک آیت کی تفسیر ہی صحیح ، دو آیت کی تفسیر ہی صحیح مجھے کرنا ہے ، یہاں پر قریب میں کاندھلا میں ، حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی رحمت اللہ علیہ ، دو تین بیٹھنے والے بوڑھوں کے لیے ، دو صف کی چھوٹی مسجد میں ، اس سے بھی چھوٹی ، تفسیر کیا کرتے تھے ، عمل کا ناغہ نہ ہو ، کئی قرآن ختم کر دیے ، اس زمانے کی مثال سناتا ہوں ، ایک عالم دین ہے ، حیدراباد سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ، بندے خدا نے معمول بنا کر رکھا ہے ، ترتیب سے قران پڑھوں گا ، فجر میں پاؤ پارہ مصلی بہت خوش ، تفسیر میں ایک قرآن ختم ہو گیا ، اس زمانے کا مولوی ہے ، اوڑھ لیا اس نے ، گھر والی نے کہا مجھے تفسیر سنائیے ، گھر میں ہی درس تفسیر شروع ہو گیا ، درس تفسیر کے لیے باہر کا مجمع نہیں چاہیے ، میری والدہ ہیں ، میرے والد صاحب ہیں ، میری بہنیں کافی ہیں ، چلو اللہ کا کلام ہم سن لیں ، زیادہ حق تو انہیں کا ہے ، ان کو نظر انداز کیوں کر دیا ، خدمت کا میدان جب سوچتے ہیں ، تو باہر کے لوگ کیوں لاتے ہیں صرف ، اپنے کیوں یاد نہیں آتے۔

*7* *★ساتواں میدان* درس حدیث ، جب رد غیر مقلدیت کی بات آتی ہے ، دفاعی کام سوچ رہے ہیں ، اقدامی کام نہیں سوچ رہے ہیں ، مولانا منظور نعمانی رحمت اللہ علیہ نے ، معارف الحدیث ، درس حدیث ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وقت گزر جائے گا ، ان کی مجلس میں وقت گزر جائے گا ، مشن بنا لیا کھڑے ہو گئے ، ایک حدیث سنا دی ، دو منٹ ، تین منٹ ، حدیث کا ترجمہ سنا دیا ، مولانا انعام الحسن صاحب رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے یہ نہیں ہو سکتا ، کہ ایمان والا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھیں ، اور اس کے ایمان میں اضافہ نہ ہو ، درس حدیث ، تذکیر کی احادیث بھی لیجیے ، احکام کی احادیث بھی لیجیے ، تاکہ امت کا اعتماد بڑھے ، اپنے مسلک پر ، تذکیر کی احادیث بھی لیجیے ، اشراط ساعت کی احادیث بھی لیجیے ، احادیث مہدی بھی لیجیے ، احادیث نزول عیسی بھی لیجیے ، تاکہ شکیلیت کا رد ہو جائے ، اقدامی کام ، مثبت کام ، کرنے کا ہمیشہ کا کام ہے ، مختلف شعبہائے دین ، ہمارے سامنے آ جائیں گے ، ملفوظات بے وزن نہیں ہے ، لیکن ملفوظات کی اہمیت احادیث سے زیادہ نہیں ہے ، وظائف بے وزن نہیں ہے ، لیکن وظائف کی اہمیت مسنون دعاؤں سے زیادہ نہیں ہے ، ہر چیز کو ، *أعط كل ذي حق حقه* کتنے میدان ہو گئے بھائی ؟ کتنے ہوگئے صاحب ؟ سات ہو گئے ! سات ہو گئے!۔

*8* *★آٹھواں میدان* درس عقائد ہیں ، آپ سن رہے ہیں قادیانیت کو ، سن رہے ہیں عیسائیت کو ، سن رہے ہیں تو فیاضیت کو ، جو بیماریاں ابل کر آ رہی ہیں ، صرف اس کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا ، صحت پھیلانے کی بھی تو محنت ہو ، حفظان صحت کے اصول بھی تو پہلے سے بتایا جائے ، درس عقائد لے کر بیٹھنا چاہیے ، ایک ایک عقیدہ سنانا چاہیے ، برزخ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے ، اہل قران کیا پھیلا رہے ہیں ، ایصالِ ثواب کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، سوشل میڈیا پر حضرت امیر معاویہ کو گالی دینے والے ہیں ، اہل بیت اور صحابہ میں تقابل کا ماحول بنانے والے ہیں ، ابو طالب کے بارے میں مختلف شبہات اچھالنے والے ، یہ سب چیزیں ہوتی رہیں گی ، جب تک ہم درس عقائد امت کے ایمان کو بچانے کے لیے ، ہم ایک غیر مسلم اکثریتی ملک میں رہ رہے ہیں ، توحید اور کفر کی سرحدیں واضح رکھنا ہے ، توحید اور کفر کی سرحدیں اگر ہم نے واضح نہیں رکھی ، ہماری نسل کفر کی طرف چلی جائے گی ، شرک کی طرف چلی جائے گی ، کلمات کفر کے احکام بتانا پڑے گا ، درس عقائد ضروری ہے بنات کے مدارس میں ، درس عقائد ضروری ہے اپنی مسجدوں میں ، ایمان کے فائدے کیا ہیں ، الحاد کا مقابلہ ہوگا درس عقائد سے ، خالق کا تعارف ہی نہیں کرایا ، تقدیر کا عقیدہ ہی نہیں بتلایا ، کتنے میدان ہو گئے ؟ آٹھ !۔

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


*13* *★تیرہواں میدان* ہے ( ارتداد زدہ لڑکیوں میں دعوت ) ، آج تک اس میدان میں کام کرنے والا سوائے ایک مولوی کے اور کوئی نہیں ملا ، ہمیں شکایت کرنے والے تو بہت ملتے ہیں ، بمبئی ہماری حاضری ہوئی ، ایک پالنپوری مولوی صاحب آ کر کہنے لگے ، کہ سوشل میڈیا پر جو لسٹ وائرل ہوتی ہے ، فلانی مسلمان بہن نے فلانے غیر مسلم سے نکاح کر لیا ، تو میں ان کے پاس جاتا ہوں کونسلنگ کرتا ہوں ، مشورہ دیا گیا اپنا قانونی تحفظ کیجیے ، اور اپنا پورا لیگل سیکیور ہو کر جائیے ، ویڈیو مت بنائیے ، نا امید مت کیجئے ، اس بیٹی کو جوڑ کر رکھیے ، سمجھائیے ، اس کے ماں باپ کو اور اس کے شوہر کو بھی مسلمان بنانے کی کوشش کیجیے ، ورنہ آخری درجے میں کہیے ، کہ ننیال میں آتے رہنا ، اور آخری درجے میں کہیے ، کہ خدانخواستہ تمہارا یہ شوہر تمہیں چھوڑ دے تو واپس آنا ، خودکشی نہ کرنا ، کٹوا نہ دینا ، برہنہ جسم کے ساتھ کسی سوٹ کیس میں نہ پھینکوا دینا ، ارتداد زدہ بہنوں میں کام کرنا ، جلسے بہت ہو رہے ہیں ، کتابیں بھی ہم لکھ رہے ہیں ، فیلڈ میں کام کرنے والے علماء نہیں ہیں ، ذہن سے نکالیے ، صرف بخاری پڑھانا دین نہیں ہے ، صرف مشکوۃ پڑھانے سے ہی صرف امت کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے ، ہزاروں لڑکیاں ، سب سن رہے ہیں ، عملی کام کرنے والے آئے۔

*14* *★چودہواں میدان* ہے ، مقامی زبان میں تصنیف و تالیف ، تیلگو میں لکھنے والے ، حضرت مولانا احمد عبید الرحمان اطہر صاحب ، حضرت مولانا عبدالقوی صاحب ، دیگر ہمارے حضرت علی میاں ندوی تو پہلے سے ہی بنگلہ دیش میں فرماتے تھے ، بھائی بنگالی زبان میں ادب تیار کرو اپنا ، کنڑ زبان میں ، گجراتی زبان میں ، لوگ لکھتے ہیں رمضان کے مسائل ، اردو میں لکھتے ہیں ، بھئی اردو کا کتب خانہ تو پہلے سے بھرا ہوا ہے ، آپ کیا لکھیں گے ، آپ مقامی زبان میں لکھئیے ، اسلام کا تعارف مقامی زبان میں لکھئیے ، لسانِ قوم میں لکھئیے ، اس کی ضرورت ہے ، اسلام پر اعتراضات کے جوابات ، آپ مقامی زبان میں ترجمہ کیجیے ، بہت بڑی دیوار حائل ہے ، اچھے فاصلے بن چکے ہیں ، ہمارے اور دوسرے اقوام میں ، مقامی زبان کے نہ جانے کی وجہ سے ، ہمارے جلسے ، ہمارے مدرسے ، ہماری تبلیغ ، یہ سب مسلمانوں کے درمیان ہے ، غیر مسلموں کے اور ہمارے درمیان زبان کا بھی حجاب ختم نہیں ہوا ، ابھی کام کا میدان کب بنیں گے ، وہ غیر مسلم۔

*15* *★پندرہواں میدان* ہے ، پیامِ انسانیت ، حضرت علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑا تاریخ ملک اکابر صحبت ، جہاں دیدہ کوئی شخص نہیں تھا ، پوری ذمہ داری کے ساتھ کہا جاسکتا ہے ، حضرت علی میاں نے جن بانیان نے تحریک کو دیکھا ، جتنے عالم کا سفر کیا ، عربی انگریزی اردو اور جو گہری نظر رہی ، واللہ اعلم کسی کی نظر نہیں تھی ، پوری محنت کرنے کے ساتھ ، دوسری محنتوں کی ناقدری کیے بغیر ، مدرسے کی محنت ، تبلیغ کی محنت ، تزکیہ میں تو نہ جانے کتنی خانقاہوں میں گئے ، اس کے باوجود بھی پیام انسانیت ، غیر مسلم بھائیوں میں اسلام کا تعارف ، رفاہی کام کرواتے ہوئے ، مسجد پریچے کا پروگرام کرواتے ہوئے ، نفرت کی فضا کیسے ختم کی جائے ، انٹلیکچول طبقے کے ساتھ کیسے بیٹھا جائے ، پولیس والے طبقے کی خدمت کی جائے ، شکریہ ادا کیا جائے ، اور پیام انسانیت ہر کام سیکھنا ہے ، سیکھیں بغیر اتریں گے تو پھر مایوسی پیدا ہو جائے گی ، ان کے کام کرنے والے ماہرین کے ساتھ رہو گے ، تو کارگزاریاں سن کر حوصلہ ملے گا۔

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


*نو فارغ علماء کرام کے 36 میدان*


🔊 *خطاب : طلباءِ دارالعلوم دیوبند* 🔊
🎀 *حضرت مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب اطال اللہ عمرھم* 🎀

*نحمده و نصلي على رسوله الكريم. اما بعد : اعوذ بالله من الشيطان الرجيم ، بسم الله الرحمن الرحيم.*
*انما يتقبل الله من المتقين ، صدق الله العظيم.*

*_٭میرے عزیزو !٭_*

ادارہ کھف الایمان

22 Jan, 10:23


طلباء سے خطاب اپنے ساتھیوں سے ، گفتگو اپنے ہی میدان سے ، تعلق رکھنے والے دوستوں سے ، کی جانے والی بات سارے مذاکروں میں بہت اہمیت رکھتی ہے ، پوری ذمہ داری کے ساتھ ، پوری درد مندی کے ساتھ ، بات کی جانی چاہیے ، جب اپنی آئندہ کی قائدانہ کردار رکھنے والی نوجوان نسل سے گفتگو کی جا رہی ہو ، یہ تقاضہ ہر وقت رہے گا ، زندگی کے ہر مرحلے میں رہے گا ، کہ ہمیں اپنے علم پر عمل کرنا ہے ، ہمیشہ ٹٹول کر دیکھنا ہے ، کہ ہماری معلومات کی مقدار کیا ہے ، اور ہمارے معمولات کی مقدار کیا ہے ، علامہ خطیب بغدادی رحمت اللہ علیہ کی کتاب ہے *اقتضاء العلم العمل* ، علامہ خطیب بغدادی رحمت اللہ علیہ نے روایتوں کو نقل کیا ، اکابر صوفیہ کے ملفوظات کو نقل کیا ، کہ علم عمل کا تقاضا کیسے کرتا ہے ، اللہ کو پڑھا ، محبت میں اضافہ نہیں ہوا ، جنت کو سنا ، شوق میں ترقی نہیں ہوئی ، جہنم کی روایات کو پڑھا ، بچنے کا درد ، 24 گھنٹے میں کبھی دل میں خیال بھی نہیں گزرا ، جتنی سنتیں جانتا ہوں وہ عمل میں کتنی ہے ، *أولَ مَن تُسعَّرُ بهم النارُ* جہنم کا افتتاح ہی ہوگا ، اس قاری سے جو ریاکاری کرتا ہے ، اس مجاہد سے جو دکھلاوا کرتا ہے ، اس سخی سے جس کے اندر اخلاص نہیں ہے ، وہ پوری روایتیں کبھی اپنے لیے پڑھنا چاہیے ، سنانے کے لیے نہیں ، اپنے لیے پڑھنا چاہیے ، کہ اہل علم سے جب ان کو جہنم میں دیکھا ، سخت سزا میں دیکھا ، قینچی سے زبان کاٹی جا رہی ہے ، آنت نکال کر گول گھمایا جا رہا ہے ، ان اہل دنیا ، جنتیوں نے پوچھا ، بھائی ! آپ ہی کی بات سن کر ہم جنت میں آگئے ، آپ یہاں پر ، ہم نے عمل نہیں کیا ، میرے بھائی ! یہ بات بہت اہم ہے ، کہ معلومات کا حاصل کرنا الگ ہے ، ذہنیت کا بدلنا الگ ہے ، قرآن کی معلومات ، حدیث کی معلومات ، تاریخ کی معلومات ، بہت سے یہودی پروفیسرز کے پاس شاید ہم سے زیادہ ہے ، بہت سے مستشرقین کے پاس ہم سے زیادہ ہے ، معلومات اسلامی ہیں ، ذہنیت یہودیت کی ہے ، معلومات نے انہیں دنیا اور آخرت میں فائدہ نہیں دیا ، مجھے اور آپ کو ٹٹول کر دیکھنا چاہیے ، کہ ہماری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے یا ذہنیت اور مزاج میں بھی تبدیلی آ رہی ہے ، کیونکہ تربیت کا علم صحبت کے بغیر نہیں آتا ، کمانے خرچ کرنے کا طریقہ کیا ہو ، معاشرت کی باریکیاں کیا ہو ، بڑے بھائی کے ساتھ برتاؤ کیسا ہو ، کمیٹیوں کے ساتھ نبھایا کیسے جائیں ، نرمی کی کون سی جگہ ہے ، سختی کی کون سی جگہ ہے ، انفرادی معمولات آدمی کے کیسے قابو میں آتے ہیں ، تربیت کا علم صحبت کے بغیر نہیں آتا ، تو پہلی بات ، علم ، تجمل اور تلذذ کے لیے نہ ہو جائے ، واقعتا علم سے فائدہ اٹھانے کے لیے ، عمل میں لانے کے لیے ہو جائے ، دوسری بات ہم دین کی خدمت پر جم نہیں سکتے ہیں ، جب تک کہ اپنے خاندان اور والدین کی ذہن سازی نہ کریں ، بہت بڑا احسان ہے ہمارے والد کا ، بہت بڑا احسان ہے اپنے بھائی کا ، کہ انہوں نے ہمارے لیے دین کے علم کا انتخاب کیا ، مدرسے کے ماحول کا انتخاب کیا ، واقعتا اگر والدین کا کوئی احسان نہ ہوتا ، سوائے اس احسان کے ، تو ہم ان کا بدلہ نہیں چکا سکتے ہیں ، دین بچ گیا ، ہمارا فرائض محفوظ ہو گئے ، ہمارے آخرت کچھ بننے کی امید بن گئی ، انتظاما ہی صحیح ، سنت والے حلیے بشرے پر رہ گئے ، اضطرارا ہی صحیح ، کچھ عمل کی توفیق مل گئی ، ہم اگر یہاں نہ ہوتے تو پتہ نہیں کہاں پر ہوتے ، تو ہم احسان مند ہیں اپنے ماں باپ کے ، ہم احسان مند ہیں اپنے بڑے بھائی کے ، لیکن ان کو اپنے اساتذہ سے جوڑنا چاہیے ، ان کو اپنے بڑوں سے جوڑنا چاہیے ، ان کو مشورہ لینے کا عادی بنانا چاہیے ، کہ ایک عالم کی معاش کیسی ہوتی ہے ، ایک عالم کی معاشرت کیسے ہوتی ہے ، ایک عالم سے قوم کو کیا ملتا ہے ، کیا امید رکھی جانی چاہیے دنیا میں ، اللہ تعالی کی تقسیم کا ضابطہ کیا ہے تربیت سے قسمت نہیں بنتی , دولت سے قسمت نہیں بنتی ، تربیت سے قسمت بنتی ہے ، حسی روزی ہی اصل روزی نہیں ہے ، معنوی روزی اس سے بڑی روزی ہے ، سونے چاندی سے بڑی روزی ہے ، حیا اور عفت ، جڑے ہوئے اینٹوں سے بڑی روزی ہے ، خاندانوں کا جوڑ ، اخلاق کا جہیز بڑی روزی ہے ، سامان جہیز کے مقابلے ، تو ماں باپ کی ذہن سازی کرنا ہوتا ہے ، اور ہم ان کی ذہن سازی کے بغیر دین کی خدمت پر نہ چل سکتے ہیں ، نہ دین پر جم سکتے ہیں ، نہ شادیوں کی رسمیں تھمیں گی ، نہ بیاج آنے سے رکے گا ، نہ ہماری دوسری بھابیوں اور دوسرے بہنوائ حضرات ماحول خراب کر دیں گے ، اگر ہم نے ان کو دینی محنت میں ، اور علم دین کے مزاج میں ، ان کو نہیں ڈھالا تو ، پہلی بات ، عمل کا مطالبہ ، اور دوسری بات ، دوسری بات ؟؟؟ خاندان اور والدین پر محنت ، تیسری بات ، میرے اور آپ کے سامنے یہ ہمیشہ چیلنج رہتا ہے ، ہر عالم دین کے سامنے ہوتا ہے ، کہ ہمیں کس میدان میں اترنا چاہیے ، کس تخصص کا انتخاب کرنا چاہیے ، بہت اہم سوال ہے ، سب سے پہلے اپنی اہلیت ، دوسرا اپنے شیخ کا مشورہ ، تیسرا اپنے علاق

ادارہ کھف الایمان

21 Jan, 12:13


بسم اللہ الرحمن الرحیم
*بیس روزہ دینی وتربیتی گرمائی کورس برائے خواتین 2024*

محترم ممبران !آپ حضرات کی خدمت میں زیراہتمام و انتظام
**مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ، صفدر نگر بورابنڈہ، حیدرآباد
بقام : جامع مسجد گنج شہیداں آصف نگر جھرّ۱ حیدرآباد**
میں منعقدہ گرمائی کورس میں علمائے کرام کے پیش کردہ علمی و تربیتی محاضرات یکجا پیش خدمت ہیں ۔

کورس سےفائدہ کیسے اٹھائیں
مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب
https://youtu.be/l6FK1esyH-E?si=6bQnohYamzk0Fp3l
_____________________
رد الحاد و عقیدہ توحید و عقیدہ رسالت عقل ونقل کی روشنی میں
مفتی محمد نعیم قاسمی صاحب
https://youtu.be/AIK_oz6MzCY?si=L2OruDyaNnTDIi5b
____________________
عقیدہ آخرت
مفتی محمد آصف صاحب قاسمی
https://youtu.be/7Lgxvea4ex8?si=EdK9ho73nzpbha5c
_____________________
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت
مفتی محمد عثمان صاحب
https://youtu.be/rujR2NsCaBQ?si=0iQCbLMXq5Rh_rTg
_____________________
نکاح ،طلاق، خلع، عدت کے مسائل
مفتی محمد ابوبکر جابر قاسمی صاحب
https://youtu.be/1glj5zWC7yg?si=C0sEigVN_E6MVwo_
____________________
خواتین کے علمی و عملی کارنامے
مفتی محمد منیر الدین صاحب قاسمی
https://youtu.be/BQOWljyeYX4?si=Xc0RreLyIAP3yGUg
_____________________
مستند علماء کرام سے استفادہ کی اہمیت
مفتی محمد سلمان صاحب قاسمی
https://youtu.be/LRssbNfjHtY?si=So60tQGGCGRNJFNu
_____________________
رجوع الی القرآن کی اہمیت و طریقہ
مفتی محمد ادریس صاحب قاسمی
https://youtu.be/756zbpdbBkg?si=YJWcxCiF1uVxxp--
_____________________
سورہ حجرات کا خلاصہ
(صلہ رحمی)
مفتی محمد تاج الدین صاحب قاسمی
https://youtu.be/RG0DcXzwiLA?si=b4nS8MeIISUQ85y7
_____________________
سسرال میں کیسے رہیں
مفتی محمد ابوبکر جابر قاسمی صاحب
https://youtu.be/OYwJq_UcMaw?si=96zX8n3poaeecskW
_____________________
نزول عیسٰی و مہدی و مسیح دجال
مولانا وجیہ الدین صاحب
https://youtu.be/a5Xq_xr7MgE?si=4Ut-ExVJG2Oq78VG
_____________________
گھریلو جھگڑوں سے کیسے نجات پائیں
مولانا محمد تاج الدین صاحب
https://youtu.be/5F5p4q249dk?si=8K3USOIuhn8q1MyX
_____________________
سورۃالنور کا خلاصہ (عفت وعصمت )
مفتی احمد اللہ نثار صاحب قاسمی https://youtu.be/TQwqlyJNGeM?si=yRMM0zYVZBBAhuXC
_____________________
عقیدہ تقدیر
مفتی محمد تجمل حسین صاحب
https://youtu.be/WC1KnQEHRG4?si=-B6PpPSSXFFUO9mW
_____________________
اسلام کے عورتوں پر احسانات
مفتی عبدالمعز الدین صاحب حسامی
https://youtu.be/87UOb8cnnP4?si=Z0fHMZpRlqcWBlMk
_____________________
پردے کے تفصیلی احکام
مفتی محمد ابوبکر جابر قاسمی صاحب
https://youtu.be/TF9OgkV-aLY?si=cc5GK5INFpQ-e3vW

https://youtu.be/bU6qD-I9AG8?si=7a7oEInXu1U2PYdW
_____________________

فضائل ومسائل زکوٰۃ
مفتی محمد خبیب قاسمی
https://youtu.be/yg79w8i1q18?si=vU87kT6AxQjjdMji
_____________________
فضائل ومسائل حج وعمرہ
مفتی محمد خبیب قاسمی
https://youtu.be/OcKTbfTpTB4?si=SWtIHiJC4QXk0IYc
_____________________
روزہ کے فضائل ومسائل
مفتی محمد خبیب قاسمی
https://youtu.be/6Dhx6Ea_DQA?si=xxR_L6vvgIJxJRB5
_____________________
مسائل زیب وزینت
مفتی محمد ابوبکر جابر قاسمی
_____________________

اس میسج کو محفوظ کرلیں اور صدقہ جاریہ کی نیت سے اپنے دوست و احباب میں عام کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں۔
جزاک اللہ!
🔹________________🔹

ادارہ کھف الایمان

02 Jan, 16:15


One day workshop
For industry professionals and businessmen

ادارہ کھف الایمان

02 Jan, 16:13


تربیتی اجلاس برائے تجار و دیگر
19/جنوری 2024
بروز اتوار

ادارہ کھف الایمان

22 Dec, 11:08


poster of school.pdf

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:35


سلسلہ خطبات

_🟡 ماتحتوں کے حقوق_*

🎀 *_حضرت مفتی ابوبکرجابر قاسمی صاحب اطال الله عمرهم_* 🎀

*نحمدہ ونصلي على رسول الكريم اما بعد*
*اعوذ بالله من الشيطان الرجيم ° بسم الله الرحمن الرحيم*
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا*
*صَدَقَ اللهُ الْعَظِيْم*
*وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم الصَّلاةَ الصَّلاةَ وَمَا مَلَكَتْ أيَمْاَنُكم*
* *او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم*

♦️ *میرے عزیزو اور دینی بھائیو*
🔷ذمہ دار اور مالک کو ذمہ داری کی فکر زیادہ ہونا چاہیے ، عہدے داری کے مقابلے میں ، میں خاندان کا صدر ہوں ، کمیٹی کا ذمہ دار ہوں ،تنظیم کا امیر ہوں ، کمپنی کا مالک ہوں ، بیوی کا شوہر ہوں ، بچوں کا باپ ہوں ، چودھراہٹ اور بڑے پن کے جذبات سے زیادہ حق ادا کرنے کی فکر ہونی چاہیے ، *كُلُّكُمْ راعٍ وكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عن رَعِيَّتِهِ.* جب کسی بھی طبقہ کو اسکی ذمہ داری سنائی جاتی ہے تو ذمہ داریاں سننا، responsilities سننا ، اچھا نہیں دکھتا ہے rights سننا اچھا دکھتا ہے ، ماں باپ کے سامنے ان کے فضائل سنایا جائے تو طبیعت بہت خوش ہوتی ہے ، ماں باپ کو اولاد کی تربیت کے اصول سنایا جائے ، بہت کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے ، یہ ہر طبقے کا یہی حال ہے ، اولاد یہ سننا چاہتی ہے کہ ماں باپ کی ذمہ داریاں سنائیے ہمیں ، ہمیں ماں باپ نے جو دینا چاہیے تھا ، جو سکھانا چاہیے تھا ، وہ نہیں سکھا یا ، اولاد یہ سننا نہیں چاہتی ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے کے سلف صالحین کے واقعات کیا ہیں ، اور واقعتا ہم نے کوتاہی کی ہے ،سچی بات یہی ہے کہ حق دینے والے کو حق ملتا ہے ، حق مانگنے والے کو حق نہیں ملتا ہے ، حق ماننا بری بات نہیں ہے ، لیکن شریعت کی روح یہ ہے ، شریعت کا زور اس پر ہے کہ حق ادا کیا جائے ، حضرت مولانا عمر صاحب پالنپوری رحمتہ اللہ علیہ بڑی عجیب بات فرماتے تھے ، مالک کا جذبہ یہ ہے کہ کام زیادہ لوں مزدوری کم دوں ، مزدور کا جذبہ یہ ہے کہ کام کم کروں تنخواہ پوری لوں ، فرماتے تھے کہ جو مزدور کا جذبہ ہے ، وہ مالک کا عمل ہونا چاہیے ، جو مالک کے جذبات ہیں ، وہ مزدور کا سلوک ہونا چاہیے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرماتے ہوئے ، جو آخری الفاظ فرمائے ہیں اس میں ہے *اَلصَّلاَةَ اَلصَّلاَةَ* نماز نماز ، اور دوسرا جملہ آپ کی مبارک زبان سے نکلا *وَماَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكم.*
تمہارے ماتحتوں کے حقوق ، تمہارے ماتحتوں کے حقوق ۔
🔹 ہم یہ احساس کرتے ہیں کہ واقعتا دنیا ، اللہ والے علم کو چھوڑ کر جب قانون سازی پر آتی ہے ، تو قانون کبھی عورت کے فیور میں ، کبھی قانون صرف مزدور کے فیور میں ، کہیں پر مالک کو دبایا جاتا ہے ، کہیں پر مردوں کو دبایا جاتا ہے ، اعتدال کی ضرورت ہے ، اور اعتدال سوائے اللہ کے دیے ہوئے نظام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بناۓ ہوے سسٹم کے علاوہ کسی اور میں نہیں ہے ،
🔹 تیسری بات قران کریم کی بڑی سورت بڑی آیت لکھو،
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ*
لکھت پڑھت کرو جب کسی نوکرانی کو رکھا جاتا ہے ، جب کسی مزدور کو اپوئنٹ کیا جاتا ہے ، تو جیسے لکھت پڑھت ہونی چاہیے ، ایگریمنٹ ہونا چاہیے ، کام کیا ہے ؟تنخواہ کیا ہے؟ کس کے سامنے جواب دہی ہے؟ ایگریمنٹ کب ختم ہو جائے گا ؟ ان سب جزئیات کو جیسے لکھا جانا چاہیے ، ویسے لکھا نہیں جاتا ، جیسے سمجھایا جانا چاہیے ،سمجھایا نہیں جاتا، حضرت شعیب علیہ السلام کی مثال قران کریم نے نقل کی ہے ، حضرت موسی علیہ السلام کو انہوں نے داماد بھی بنایا ، مزدور بھی بنایا ، اور اس وقت ان کے الفاظ قران نقل کرتا ہے، *إِنِّىٓ أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ٱبْنَتَىَّ هَٰتَيْنِ عَلَىٰٓ أَن تَأْجُرَنِى ثَمَٰنِىَ حِجَجٍ* ، تم سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتا ہوں ، اس کا مہر یا اس کی اجرت کے طور پر پیسے کما کر دیجیے ، آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چرائیے ، *فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ* دس سال اگر آپ کر لیتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے ، *وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ* ، میں تمہارے اوپر بوجھ بننا نہیں چاہتا ، حضرت شعیب علیہ السلام فرما رہے ہیں ، *سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ* آپ مجھے اس معاملے میں کھرا اور نیک پائیں گے۔
🔹مزدوری لینا کوئی عیب نہیں ہے ، دین کی خدمت پر بھی مزدوری لینا کوئی اخلاص اور توکل کے خلاف نہیں ہے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے ، کام دھندا انہوں نے چھوڑ دیا ، بیت المال سے مزدوری لی ، بخاری شریف کا واقعہ ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خوشحال صحابہ سے بھی فرمایا ، اپنی تنخواہ ، اپنے کام کا معاوضہ لے لیجیے ، مزدور کے لیے صرف تنخواہ کافی نہیں ہے ، مزدوری سے زیادہ عزت دینا چاہیے ، مزدوری سے زیادہ اکرام کرنا

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:35


چاہیے ، تنخواہ بڑی دے دی طعن وتشنیع ، کی تنخواہ بڑی دے دی عزت نفس کو مجروح کر دیا ، یہ ایمان والے کا طریقہ نہیں ہے *لَيْسَ الْمُؤمِنُ بِالطَّعاَنْ وَلاَ اللَّعَانْ وَلاَ الْفَاحِشْ* گالیاں دینا ، بدتمیزی کرنا ، ایمان والے مالک یا باس کا طریقہ نہیں ہو سکتا ہے ، دینے کا جذبہ ہونا چاہیے کاٹنے کا جذبہ نہیں ہونا چاہیے ، عمل پر ابھارنے کے لیے انعام کا طریقہ بھی ہو سکتا ہے ، مزدوری کا کاٹنا ، مزدوری نہ دینا ، مزدوری کو روک کر رکھنا ، یہ بہت بڑا جرم ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مزدور کی مزدوری نہ دی جائے ، اس کا میں قیامت کے دن مقدمہ لڑوں گا ، اس کے وکیل بن کر آئیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، *ثَلاثَةٌ أنا خَصْمُهُمْ يَومَ القِيامَةِ .*
بیویوں کو گھریلو خرچ کے علاوہ ، راشن پانی کے علاوہ ، جیب خرچ دینا ،حضرت حکیم الامت رحمتہ اللہ علیہ نے الگ سے عورتوں کا حق لکھا ہے ، جس میں بہت کوتاہی ہوتی ہے ، کتنا بڑا عمل ہے ، کتنا طاقتور عمل ہے ، پہاڑوں کو غاروں پر سے ہٹا دینے والا ، رکی ہوئی مدد کو اتروانے والا ، کہ مزدور کی مزدوری دیانت کے ساتھ دی جائے ، حدیث غار مشہور حدیث ہے ، تین بندے غار میں پھس گئے ہیں ، کوئی ذریعہ نہیں رہا ، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ، ایک نے یہی کہا ، اے اللہ ! ایک شخص نے مزدوری کی ، اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا ، میں نے اس کی معمولی مزدوری سے مکئی کا کھیت لگایا ، خوب غلہ اگا تو گائے میں نے خریدی ، بڑا ریوڑ تیار ہو گیا ، وہ عرصہ دراز کے بعد آیا ، بھائی میری مزدوری دے دو ، میں نے کہا یہ سب تمہارا ہی ہے ، اس نے کہا میرا مذاق نہ اڑاؤ ، میں نے کہا سچی بات یہی ہے یہ سب تمہارا ہی ہے ، وہ اپنی مزدوری ان جانوروں کی شکل میں ، انویسٹمنٹ کیے جانے کے بعد بڑی مقدار جو بن گئی تھی وہ لے کر چلا گیا ، اس بندے نے کہا ، آے اللہ اگر یہ عمل میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو اس چٹان کو ہٹا دیجیے اتنا طاقتور عمل ہے ، جہاں قدم پھسل جاتے ہیں ۔
جب دن بھر کا وقت لیا گیا ہے ، تو واقعتا اتنی اجرت دی جانی چاہیے ، جو آدمی کی کھانے پینے کی ضرورت ، ٹھکانے کی ضرورت ، علاج کی ضرورت ، اولاد کی تعلیم کی ضرورت ، اور ذاتی مکان کے خریدنے کا انتظام ہو جائے اتنا دینا تو ایک عام انسانی ضرورت کا تقاضا ہے۔
🔹 بہت کم مالک وہ ہے ، جو اس نقطے نظر سے اپنی ذمہ داری کو سوچتے ہیں ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی ہدایت دی ہے ، *إخْوانُكُمْ خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أيْدِيكُمْ، فمَن كانَ أخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ*، جس کا بھائی اس کی ماتحتی میں ہو *فَلْيُطْعِمْهُ ممّا يَأْكُلُ*، جو وہ کھاتا ہے وہ کھلائے ، *ولْيُلْبِسْهُ ممّا يَلْبَسُ*، جو وہ پہنتا ہے ، وہ اپنے مزدور کو پہنائے ، کمال اخلاق کا یہی ہے ، دینے کا ارادہ تو کیجیے ، اللہ تبارک و تعالی کا ضابطہ یہی ہے کہ جو اپنا وقت بچانے کا ادا کرتا ہے ، اللہ اس کا وقت بچاتے ہیں ، جو دینے کا ارادہ کرتا ہے ، اللہ انتظام کرتے ہیں ، *أنفِق يُنفِقِ اللَّهُ عليكَ* ، بعض مرتبہ نفل عمرے پر ، مسجد کی تعمیر پر ، غریبوں ، بیواؤں کے وظائف پر ، آدمی خرچ تو جی جان سے کرتا ہے ، تنخواہوں ، واجبی حقوق ، ماتحتوں کی مزدوری پر ، جی جان سے نہیں خرچ کرتا ہے ، مزدوروں کی کوتاہیاں وہ الگ موضوع ہے‌۔
🔹 مزدور کا حق ہے کہ اس کو دینی تربیت دی جائے ، دس سال سے ایک عورت نکاح میں ہیں ، میں نے قران بھی نہیں سنا ، اس کا کلمہ طیبہ بھی نہیں سنا ، دینی مجلس میں نہیں لے گیا ، ماتحتوں کی دینی تربیت ، ایک ڈرائیور ہے میرا ، ایک کام والی خادمہ ہے ، میں نے کبھی سنایا نہیں اللہ کون ہے ، کبھی سنایا نہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ، ماتحتوں کا اولین حق یہ ہے ، کہ ان کی دینی تربیت کی جائے، آمدنی خرچ کرنے کے ضابطے ، سود اور بیاج کے نقصانات ، وہ اپنے مستقبل کو اندھیرا کر رہے ہیں ، اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہو کر ، کہیں میری خاتون ملازمہ کام کرنے والی بہن ، طلاق اور خلاء پر جری تو نہیں ہو رہی ہے ، افراد خاندان ناجائز رسومات میں مبتلا تو نہیں ہے ، سب سے بڑی انتہائی بے رحمی محسوس ہوتی ہے کہ مالک کو صرف اپنا مطلب اور کام پورا کروانے کا جذبہ ہو ، لیکن اس کی زندگی میں دین لانے کا ارادہ نہ ہو ، برکت والے اعمال لانے کا ارادہ نہ ہو ، ملکی عالمی ذمہ داریوں کا احساس سکھانے کا ارادہ نہ ہو ، ماتحتوں کا حق یہ بھی ہے ۔
🔹 چونکہ مزدور کے اندر قابلیت اور امانت ، حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا *اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ .* آدمی کا کوالیفائیڈ ہونا ، آدمی کا انسٹ ہونا ، آدمی کا امانت دار ہونا ، آدمی کا ٹیکنیکل لیول پر کمانڈ رکھنا ، یہ دو صلاحیتیں ہیں ،جو ہر ملازم میں ہر وقت مطلوب ہے ، حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی نے بھی یہی دو وصف کا ذکر کیا ہے ، جتنا کچھ لکھا

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:35


جاتا ہے ، اس موضوع پر بولا جاتا ہے ، ان سب کا خلاصہ ہے یہ دو الفاظ ، قابلیت اور امانت ، اپنے کام کے ساتھ قابلیت کا تعلق ، امانت کا تعلق ،
🔹اس لیے ضروری ہے کہ فنی تربیت لیجیے فنی تربیت بھی دی جائے ، جو ٹیچر ہے جو سبجیکٹ اس کے متعلق ہے ، شاگردوں کی سرزنش کا طریقہ ، سزا دینے کے شرعی ، اخلاقی ، قانونی ، موثر انداز ، IT کی کمپنی میں ہے ، نئے جنرلز ، نئی ایجادات ، نئے تجربات ، کسی زبان کے سکھانے کا مسئلہ جڑا ہوا ہے اس ملازم کے ساتھ ، زبان کے سکھانے کے نئے method ، کیے جانے والے تربیتی اجتماعات ، ملازم کے حقوق میں سے ہے ، فنی تربیت کا کیاجانا ، ایک آدمی سے متعلق انتظام ہے ، تو اسکی انتظامی صلاحیتیں ایڈمنسٹریشن کو کامیاب کرنے کے حکیمانہ طریقے کیا ہوتے ہیں ، ٹیچر ٹریننگ ، اور ایمپلائیز کی تربیت کا انتظام نہیں کیا جاتا۔
🔹 دو حدیثیں سناتا ہوں ، اپنی گفتگو کے اختتام پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ، واقعتا ضمیر جاگ جائے گا احساس آدمی کا تازہ ہو جائے گا ، اپنے ماتحتوں کے حقوق ادا کرنے کے سلسلے میں ، حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ، کبر عجم کے کیڑے جھڑ جائیں گے ، اپنے مالک اور باس ہونے کا زعم اور نشہ اتر جائے گا ، حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو مار رہے تھے ، جیسے ہم بچوں کو بے رحمی سے چہرے پر بھی مار دیتے ہیں ، جانور کے چہرے پر اور ناجائز نہیں ہے ، اپنے غلام کو مار رہے تھے ، آقا نے پیچھے سے پکارا *اعْلَمْ أَبا مَسْعُودٍ*، جان لو اے ابو مسعود توجہ نہیں دی انہوں نے ، جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم قریب ائے ، پھر آپ نے فرمایا *اعْلَمْ يأَبا مَسْعُودٍ* ، اے ابو مسعود سن لو ، *أنَّ اللَّهَ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ على هذا الغُلامِ،* جتنی طاقت تم اس غلام پر رکھتے ہو ، اس سے زیادہ اللہ تم پر قدرت رکھتے ہیں ، اختیارات جتنے تم اس غلام پر رکھتے ہو ، اس سے زیادہ اللہ تم پر اختیار رکھتے ہیں ، انہوں نے فرمایا یا رسول اللہ *لا أَضْرِبُ مَمْلُوكًا بَعْدَهُ أَبَدًا.* مارنا صرف ہاتھ سے نہیں ہوتا ، لہجے سے بھی ہوتا ہے ، اختیارات کے غلط استعمال سے بھی ہوتا ہے ، پیشانی کے بل سے بھی ہوتا ہے ، حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، یا رسول اللہ میں نے تو اس کو اللہ کے لیے آزاد کر دیا ، *أَما لو لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْكَ النّارُ* ، اگر تم نے آزاد نہ کیا ہوتا ، تو ظلم کی آگ تمہیں آ لپیٹ لیتی ، مجھ پر اچانک بیماری کا حملہ ہو گیا ، مجھ پر اچانک کوئی بلا آفت لپٹ گئی ، زبردست نقصان ہو گیا ، توجہ جاتی ہے کالے دھاگے کی طرف ، توجہ جاتی ہے عاملوں کی چوکھٹ کی طرف ،کبھی توجہ گئی کہ سخت بول میں نے بہو سے بھی کہے تھے ، ظلم میں نے داماد پر بھی کیا تھا ، نظر انداز میں نے اپنے ملازم کو بھی کیا تھا ، خیانت میں نے اپنی خادمہ کے ساتھ بھی کی تھی ، ایک فرعون بدنام ہے ، ایک حجاج ظالم ہے ، کیا میں ظالم نہیں ہوں ؟ اپنے دار اختیار میں ؟ اپنے ماتحتوں کا حق ادا کرنے میں ؟
🔹امی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس ایک تابعی آئے عبدالرحمن بن شماسہ رضی اللہ عنہ مسئلہ پوچھنے کے لیے ، ان کے امیر جو حضرت معاویہ کے لشکر میں تھے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ان کے ہاتھوں پر قتل بھی ہوئے تھے ، انہوں نے اپنے امیر کی تعریف کی ، اور یہ کہا کہ اگر ہمارا کوئی غلام مر جاتا ہے تو وہ خادم دے دیتے ہیں ، اگر کوئی جانور مر جاتا ہے تو سواری دیتے ہیں ، امی جان نے باوجود یہ کہ ان کے امیر سے دلی ناراضگی تھی ، فرمایا کہ میں اپنی دلی ناراضگی کی وجہ سے ایک حدیث سنانے سے نہیں رکوں گی ، اور یہ حدیث تمہارے امیر کی فضیلت بتاتی ہے کہ میرے کمرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے دعا کی ایک موقع پر *اللهُمَّ مَنْ وَلِيَ من أمرِ أُمَّتِي شيئًا یا مَنْ وُلِِّيَ من أمرِ أُمَّتِي شيئًا فَرَفَقَ بِهمْ فارْفُقْ بِهِ.* آئے اللہ میری امت کا جو شخص جس کو کوئی ذمہ داری دی جائے اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ وہ نرمی کریں ، تو اے اللہ آپ بھی نرمی کیجیے اور اگر وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ سختی کریں ، اس سسر نے اپنی بہو کے ساتھ ، اس سسر نے اپنے داماد کے ساتھ ، اس بوس نے اپنے ملازم کے ساتھ ، سختی کی ہے ، اے اللہ آپ بھی اس کے ساتھ سختی کیجئے ، کتنی بڑی دعا کا آدمی مستحق بن جاتا ہے ، سہولت مل جاتی ہے اگر وہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کو ادا کرتا ہے ، اللہ تعالی ہر قسم کے ظلم سے ہم سب کو پناہ عطا فرمائے۔

▶️ *واخر دعوانا عن الحمدللہ رب العالمین*


*بروز : جمعہ*
*بتاریخ : ١٢ / جمادی الاولی/١٤٤٦ھ*
*مطابق : 15/ نومبر / 2024*
*بمقام : مسجد محمد غوث الدین گھٹالہ*

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:34


سلسلہ خطبات

🟢 *سیاسی میدان میں کام کیسے کریں*

🎀 *_حضرت مفتی ابوبکرجابر قاسمی صاحب اطال الله عمرهم_* 🎀

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*نحمده ونصلي على رسوله الكريم اما بعد*
*اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ° بسم اللہ الرحمن الرحیم*

* *اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ صدق الله العظيم ( الحج ) آیت ۴۱*

🔻 *میرے عزیزو دینی بھائیو*
🔷 بہت کم ایسے عمل ہیں ، جس عمل کے بارے میں بڑوں کی زندگی میں ، سلف کی زندگی میں ، گزرے ہوئے لوگوں کی زندگی میں کوئی نمونہ نہ ملتا ہو ، نمونہ موجود ہے ، ہمیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر کام کرنا چاہیے ، سیاست کا میدان اور ہمارے ملک وطن عزیز کی ہندوستان کی سیاست میں کام کیسے کیا جائے ، اکابر کے کچھ اہم تجربات ،بدلتے حالات کی روشنی میں ان کے قابل استفادہ افکار بہت زیادہ اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں ، ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ حضرت شیخ الہند محمود الحسن صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ ، ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اللہ علیہ ، مولانا ابوالمحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رحمتہ اللہ علیہ مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، ان سب اکابر کا علم ہم سے زیادہ اچھا تھا ، اور ان اکابر کا تقوی ہم سے زیادہ بہتر تھا ، انکی زندگیوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ🔹 *سب سے پہلی بات* جس کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے ، وہ یہ ہے کہ ہر عمل شریعت کی اساس پر ہوگا ، شریعت کو نظر انداز کر کے کوئی سیاسی منصوبہ ، کوئی سیاسی اقدام ، کوئی سیاسی معاہدہ نہیں ہونا چاہیے ہمارے جیسے ملکوں میں ۔
🔹 *دوسری بات* ہماری پوری سیاست کا مقصود قانون شریعت کا تحفظ ، قانون شریعت کا تحفظ ، شریعت ہماری جان ہے ، شریعت کے معاملے میں کمپرومائز نہیں کیا جائے گا ، ریزرویشنس ، تحفظات ، نوکریاں ، مواقع روزگار یہ دوسرے درجے میں ہے ، شریعت کا تحفظ سب سے پہلا درجہ ہے ۔
🔹 *تیسری بات* ہمارے وطن عزیز کی بنیاد متحدہ قومیت پر رکھی گئی ہے ، کہ ہم مسلمان ہم ہندو ہم سیکھ ہم عیسائی ایک قوم ہے ، مذہب الگ الگ ہے ، باعتبار وطن کے ایک قوم ہے ، متحدہ قومیت کی بنیاد پر اس وطن عزیز کی بنیاد رکھی گئی ، لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے بہت گہرائی کے ساتھ کہ قومی یکجہتی اور سیکولرزم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے مذہبی شعائر کو ، مذہبی تشخصات کو regious attended eco کو ،ختم کر دیا جائے، ضم کر دیا جائے ، سیاست ضرور ہوگی ، لیکن وطنی اور ملکی امور میں مذہبیات میں کوئی سیاست نہیں ہوگی ،مذہب اللہ کا بنایا ہوا محفوظ ترین ہے ، اس ملک میں یکجہتی ، سیکولرزم ، وطن سے محبت کے ختم کرنے کے لیے مذہبی فرق کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، کہ سب ہندو بن جائے ، سب عیسائی بن جائے ، سب بدھسٹ بن جائے ، مذہبی فرق کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ انسانی بنیادوں کو ، اخلاقی اقدار کو ، وطن سے وفاداری کو اور سب کے لئے انصاف کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ، وطن کی ترقی کے لیے کامل سول کوڈ نہیں ، وطن کی ترقی کیلیے امن کو زندہ کرنے ، امن کو باقی رکھنے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ، فرقہ واریت اس ملک کے لیے زہر ہے ، مذہبی منافرت اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردینے والا ہے ، حکومت بہر صورت غیر جانبدار ہونی چاہیے اگر حکومت کسی پارٹی کسی مذہب کیلیے جانب دار ہوجائیگی ، جھکاؤ رکھے گی ، رنگ چڑھا دے گی ، تو پھر یہ ملک تباہی کی طرف بڑھتے رہے گا۔
🔹 *چوتھی بات* حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد صاحب رحمتہ اللہ علیہ سیاست کے مجدد انہیں کہا گیا ، ابو المحاسن سجاد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے رواداری regious tolerance کے بہت اچھے اصول انہوں نے فرمایے ہیں ،
🔸 پہلا اصل یہ ہے کہ ایسا عقیدہ کہ جس کا پبلک مقامات پر اظہار ، اور ایسا عقیدہ کہ پبلک مقامات پر اس پر عمل انسانیت اور سائستگی کے خلاف نہ ہو ،🔸 اور اس کے اظہار کا طریقہ دوسروں کے لیے اشتعال انگیز نہ ہو ، اس طور پر دنیا اور ملک کے سارے مذہبوں کو رہنا چاہیے ،
🔸ایک مذہب والوں کے پاس گائے کا ذبح کرنا جائز ہے ، ایک مذہب والوں کے پاس گائے کا ذبح کرنا ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے ، تو طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ذبح کرنے والے چوراستے پر ذبح نہ کرے ، دوسرے مذہب والوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے بند جگہوں پر پبلک مقامات سے ہٹ کر وہ ذبح کرے ، اور جو اس کو اپنا خدا مانتے ہیں ، مقدس مانتے ہیں ، وہ اصرار نہ کریں کہ دوسرے لوگ بھی ذبح نہیں کرنا چاہیے ،

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:34


بلائیں ، میڈیائی مسائل میں الجھنا جواب دینے کی فکر میں رہنا ، ایسا ہے جیسے کہ دشمن کے میدان میں جانا ، میڈیا کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت ، میڈیا کو غربت کا خاتمہ ، میڈیا کو عورتوں کے تحفظ ، میڈیا کو اس ملک سے رشوت ستانی کا خاتمہ ، میڈیا کو امن و انصاف کے قیام کی طرف والے مسائل کو لانا ، یہ عقلمندی ہوگی ، یہ سمجھداری ہوگی ،
🔸 دیکھیے یہ بات ہمیشہ کہی جاتی ہے کہ انقلاب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف سیاسی انقلاب ہو اور دفعۃً کوئی انقلاب نہیں اتا ہے ، تعلیمی ، اخلاقی ، سماجی ، افراد سازی کی تیاری کے بعد جو ریگولیشن آتا ہے ، وہی پائیدار ہوتا ہے ، وہی باقی رہتا ہے ، وہی ملکوں کے رخ کو بدلتا ہے ، دفعۃً بغیر تیاری کے سال دو سال میں کوئی انقلاب آتا نہیں ، آتا ہے تو پائدار نہیں آتا ہے تو مفید نہیں حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں یہ اس ملک میں اہم مسئلہ ہے کہ ووٹر ائی ڈی کارڈ ہی نہیں رہتا ، ووٹ ڈالا ہی نہیں جاتا ، تیسرے نمبر پر ووٹ اگر ڈالا جاتا ہے تو دینی ذمہ داری ، ملی ذمہ داری ، کا جیسا شعور ہونا چاہیے ویسا شعور رکھ کر نہیں ڈالا جاتا ، ذاتی مفادات کو ملی مسائل کے لیے ، ملی مفادات کیلیے میں اپنی قریشی برادری میں ، اپنی انصاری برادری میں ، میرا اپنا دوست ایم ایل اے کو دیکھ کر ووٹ نہیں ڈالوں گا ، بلکہ میں قوم کی مصلحت ، ملک کی مصلحت اور اس پارٹی کے اپنے طے شدہ مسائل اس کے ریکارڈ اور اس کے مینوفیسٹو کو دیکھ کر میں ووٹ ڈالوں گا ، دینی ذمہ داری جب تک ہم نہیں سمجھیں گے اس وقت تک اس واجب کے ادا کرنے میں ہم سے کوتاہی ہوتی رہے گی ، بجائے اخبار بازی کے ، بجائے اس کے کہ ہاٹ دھڑا اپنے اپنے خول میں ، اپنے اپنے تنظیم میں ، اپنے اپنے ادارے میں ، بیان جاری کرے ، اس سے زیادہ بہتر اور موثر یہ ہوگا کہ انفرادی ملاقاتیں ، اور غیر رسمی بیٹھکیں ، اپنے افکار اور نظریات کو قریب کرنے کے لیے ہونے چاہیے ، جب اس طرح کی کوششیں ہوتی ہیں تو ضرور بے لوث ہو کر کرنا ،
🔸مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اللہ علیہ کی بہت سی باتوں میں ایک بات یاد آتی ہے کہ بے غرض کو موت نہیں آتی ، بے غرض زندہ جاوید ہو جاتا ہے ، اخلاص والے کے عمل اور کوشش کو اللہ تبارک و تعالی کبھی ضائع نہیں کرتے ہیں ، اپ اس کو ناکامی نہ سمجھیے ، اللہ تبارک و تعالی اخلاص اور اصول سے کیے جانے والے اجتماعی عمل کو بھی قبول کر لیتے ہیں اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

*واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
: جمعہ*
*بتاریخ : ١٢ / جمادی الاولی/١٤٤٦ھ*
*مطابق : 15/ نومبر/ 2024*
*بمقام : اے سی گارڈ جامع مسجد*

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:34


🔸دوسری مثال ایک مذہب ہے جو حضرت ابوبکر عمر کو گالی دینا ہی اپنے اپنی عبادت سمجھتا ہے اور ایک مذہب اہل سنت والجماعت کا کہ جو حضرت ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دینا بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے ، اب مذہبی رواداری کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ دونوں کو کھلا میدان دے دیا جائے ، بدامنی پھیل جائے گی اب جب اپ حضرت ابوبکر عمر کے بارے میں کچھ بولنا چاہتے ہیں اپنے امان باڑے میں بول لیجیے کوئی اپنی چہار دیواری میں بول لیجئے ، اور اگر کوئی دفاع کرنا چاہتا ہے ، اپنی علمی حلقے میں بول لیں ، لیکن پبلک مقامات پر اس کا اظہار کیا جائے گا تو پھر بد امنی پھیل جائے گی ۔
🔹 *پانچویں بات* اس ملک میں کام کرنے والے ، سیاسی میدان میں کام کرنے والے ، دوست اور احباب کو ذمہ داران کو چاہیے کہ ان کا علم مضبوط ہو، تفسیر کا علم ، حدیث کا علم ، سیرت کا علم ، اسلامی سیاست کا علم ، اسلامی معیشت کا علم ، بین الاقوامی تعلقات کا علم ، جو لوگ اس ملک کی سیاست میں کام کرنا چاہتے ہیں ، اس ملک کی تاریخ کا علم ، اس ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب اور اقوام اور سماجیات کا علم ، جب تک مضبوط نہیں ہوگا اس وقت تک اس ملک میں جو پرہیز کرنا چاہیے ، جن بدمزگیوں سے بچنا چاہیے ، اور قول و عمل کی بے احتیاطی سے رکنا چاہیے ، اس سے ہم رک نہیں پائیں گے ، اگر ہمارے یہاں علمی گہرائی نہیں ہوگی ، 🚫کبھی ایسا نہ ہو کہ آپ سیاسی میدان میں ملی میدان میں اتر کر ایمان والے بھائی کے بارے میں زبان کھولنے لگ جائے ، کبھی ایسا نہ ہو کہ کسی عالم دین کی شان میں گستاخی ہونے لگ جائے ، ہرگز ایسا نہ ہو کہ اپ اسلام اور مسلمانوں کی نام نہاد محبت کے نتیجے میں دوسروں کے خداؤں کو گالیاں دینے لگ جائیں ، یہ آپ کی محنت کو انتہائی نقصان پہنچانے والا اور اللہ کی مدد کو ہٹانے والا طریقہ ہے ۔
🔸جمہوریت اور شورائیت کا عمل طویل المدت منصوبہ بندی ، صرف ایک کونسلر بن جانے ایک ایم پی ، ایک ایم ایل اے بن جانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے ، ہمیں اپنا عملہ تیار کرنا پڑے گا ،ہمیں اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں تقوی ، طہارت ، ایمانی تربیت ، رشوت سے دوری ، اخلاق کی بلندی پیدا کرنا پڑے گا ، تب ہی ہماری پارٹیاں ، تبھی ہمارے کارکن ، مثالی نمونہ بن سکتے ہیں ورنہ اگر میرا ایم ایل اے میرا ایم پی میرا کونسلر یہ بھی ایسے ہی رشوت میں ملوث ہو ، یہ بھی ایسا ہی ظلم میں مبتلا ہو ، یہ بھی اپنی زندگی کے اندر غیر اسلامی حرکتیں ، مشرکانہ رسومات کرتا ہو تو اسلام کو ذبح کر کے اسلام کی کیا خدمت ہوگی ؟ دین کو چھوڑ کر دین کی کیا خدمت ہوگی ؟ ‌جو ایمان والے بھائی اس ملک کی سیاسی خدمت کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ دوسرے مذاہب ، دوسرے طبقات ، اور دوسری اقوام دوسرے پسماندہ طبقات ، مظلومین کا تعاون ، مظلومین کے ساتھ اتحاد ، تھوڑی بہت نا گواریاں ہوں گی ، بے وفائیاں ہوں گی ، معاہدہ شکنی ہوں گی ، کچھ منافقین پیدا ہوں گے ، لیکن جیسے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ، مدینہ منورہ میں ، دوسرے مذاہب اقوام مظلوم طبقات کو ساتھ میں لیا ویسے ہمیں بھی ساتھ میں لے کر مساویانہ ترقی کے علمبردار بن کے کام کرنا ہے ، مساویانہ ترقی کے علمبردار بن کر کام کرنا ہے ،
🔸جمعیت علماء ہند ہمارے اکابر کی بہت ہی مؤثر تنظیم ہیں ، جماعت اسلامی اور اسی طریقے سے عمارت شرعیہ ، جتنے بھی اس میدان میں کام کرنے والے ہمارے اکابر ہیں ان سب نے تبلیغ اسلام کو اپنی محنت کا حصہ بنایا ، اسلام کا شعبہ ہے ارتداد کی روک تھام ، اور دوسرے اکثریتی مذہب والوں کے اثرات سے بچنے کے لیے پیام انسانیت کا کام حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے کہ غیر مسلم بھائیوں میں صرف انسانی بنیادوں پر میڈیکل کیمپ لگایا جائے ، مذہبی جگہوں پر نہیں ، مذہبی تقریبات میں بھی نہیں ، religions functions میں ، religious places میں کرنے کے بجائے ، فنکشن ہال میں اسکول میں ایسے رفاہی کام کریں جس سے پھیلائی جانے والی نفرت کی دیوار گر جائے اور اسلام کی صحیح تصویر دوسری قوموں کے سامنے آئے، 🔸قوت گویائی بولنے کی صلاحیت واقعتا بڑا کمال ہے ، آنا چاہیے ، انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا، لیکن صرف قوت گویائی کافی نہیں ہے لفاظی صرف کافی نہیں ہے ، جب تک کے عملہ تیار نہ کیا جائے ، میدان کام نہ بتایا جائے ، grand reality سے تعلق بنایا نہ جائے ، اس ملک میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ اہم مسائل سے توجہ ہٹا کر ، غیر اہم مسائل میں الجھایا جاتا ہے ، ہر دم ہمیں اپنے ترجیحی مسائل ، اوقاف کا تحفظ ، فسادات کی روک تھام ، مسلمانوں کی شیرازہ بندی ، تعلیمی مشن ، اور فرقہ پرستوں کا مقابلہ ، یہ وہ اہم ترجیحی مشترکہ مسائل ہیں جو کسی قیمت پر ہماری توجہ دشمن کے ہٹانے پر ہٹنا نہیں چاہیے ، میڈیائی مسائل الگ ہیں ، حقیقی مسائل الگ ہے ، کامیاب مقابلہ کرنے والا وہ ہوتا ہے جو بجائے دشمن کے میدان میں جانے کے دشمن کو اپنے میدان میں

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:31


سلسلہ خطبات
دجال موجودہ نقشوں کی روشنی میں*

*خطاب از: نمونۂ اسلاف محترم و مکرم حضرت مولانا مفتی ابو بکر جابر صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ*
(ناظم ادارہ کہف الایمان ٹرسٹ صفدر نگر بورہ بنڈہ حیدرآباد تلنگانہ)


*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم (اما بعد)
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون (صدق اللہ العظیم)


جیسے ایک باپ کسی منزل پر اپنے بچوں کو پہنچانے کے لیے رہبری کرتا ہے کہ راستے میں اتنے لیفٹ آئیں گے
رائٹ آئیں گے
گڑھے آئیں گے
فلانی جگہ کھانا اچھا ملتا ہے
فلانے علاقے میں چور اچکتے رہتے
بچ کے چلنا
دھیان سے چلنا
ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک آنے والے فتنوں سے ہمیں واقف کروایا
*فتنہ* عربی زبان میں کہا ہی جاتا ہے
سونے کو پگھلانے کو کچرے کو الگ کرنا
خالص سونے کو الگ کرنا فتنے سے

🔺فتنے سے اپنے آپ کو کیسے بچایا جائے اس کی فکر ہونی چاہیے جب قیامت کا تذکرہ آتا ہے اور جب دجال کا تذکرہ آتا ہے تو لوگ بجائے عملی زندگی کو درست کرنے کے اور بجائے ان کی فتنوں سے بچنے کی تیاری کرنے کے ان سوالات میں لگ جاتے ہیں کہ قیامت کونسے سال میں آئے گی 2023 میں آئے گی ,2040 میں آئے گی دجال نکل گیا حضرت خلیفہ مہدی ظاہر ہو گئے
🔺 دجال کا فتنہ ہر نبی نے اس فتنے سے ڈرایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنے سے ڈرایا آپ کی دعاؤں میں مانگا گیا کہ اے اللہ مسیح دجال کے فتنے سے حفاظت فرما تو دجال کون ہے کہاں پر ظاہر ہوگا اس کی علامتیں اس کی شرارتیں اس سے بچنے کی تدابیر ہمارے علم میں ہونی چاہیے مسیح دجال کہا جاتا ہے تاکہ مسیح ابن مریم حضرت عیسی علیہ السلام سے فرق کرنے کے لیے مسیح کہتے ہیں ایک معنی سفر کرنا
مسح اور طواف کرنا
چونکہ پوری دنیا کا چکر لگائے گا سوائے مدینہ منورہ اور مکۃ المکرمہ کے اس لیے اس کو مسیح کہا جاتا ہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسیح ممسوح کے معنی میں ہے اس کی ایک آنکھ نہیں ہوگی اور اس پر چمڑی ہوگی صرف ایک آنکھ ہوگی ابھری ہوئی اسی لیے ممسوح جس کی ایک آنکھ دبی ہوئی ہو
علماء نے یہ بھی لکھا ہے اتنے بڑے فتنے کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیوں نہیں کیا خدائی کا دعویٰ کرے گا اتنا عیب والا ہونے کی باوجود اتنا عیب والا ہونے کی باوجود ناقص الخلقت ہونے کی موجود خدائی کا دعوی کرے گا لوگ اس کی خدائی کے دعوے کو مان لیں گے اتنا گھٹیا فتنہ ہے کہ قرآن میں ذکر کیے جانے کے قابل نہیں ہے فرعون تو سابقہ زمانے کا تھا اس لیے ذکر کر دیا گیا دجال مستقبل کے نہایت گھٹیا فتنوں میں سے ہے اس لیے اس کو قرآن میں ذکر کرنے کے قابل نہیں سمجھاگیا
🔷 *اس کا جسم* حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہے دجال سے متعلق روایتیں ہیں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے منقںول حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی بڑی تفصیلی روایت ہے سمندری سفر میں تھے گم ہوگیا ان کا راستہ بھٹک گئے ایک جزیرے میں پھر ان کی ملاقات ہوئی ایک شخص سے کہ جسے احادیث میں جساس کہاگیا اور پھر اس نے رہبری کہ پیچھے ایک اور شخص ہے جو حقیقت کے دجال تھا اس نے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے سوال کیا بہت سے سوالات کیے انہوں نے آکر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا اس کی جسامت اس کا جسم کیسا ہوگا ایسی سفیدی جو سرخی مائل ہو ایسا سفید رنگ جو لالی کی طرف مائل ہو کانا ہوگا *اعور* اور تمہارا رب کانا نہیں ہے گوشت کا موٹا ٹکڑا اس آنکھ کے حصے میں ہوگا جو اس آنکھ نہیں ہوگی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر یعنی کافر لکھا ہوا ہوگا جو ہر سچےایمان والا اسے پڑھ لے گا گھنے بال گھنگریالے بال سورانیوں کی طرح اولاد نہیں ہوگی حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے اس حال میں دیکھا کہ دونوں ہاتھ گردن سے بندے ہوئے ہیں اور گھٹنوں سے ٹخنوں تک زنجیریں حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اور دجال نے جو کچھ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے پوچھا آقانے تصدیق بھی کی اس نے ایک علامت پوچھی بیسان ایک علاقہ ہے بیت المقدس سے ایک 120 کلومیٹر پر بعیرہ کلیل کے پاس بیت المقدس سے 120 کلومیٹر پر وہاں کے کھجور کی طرف پھل دے رہے ہیں یا نہیں دے رہے ہیں جس دن وہ پھل دینا بند یا کم ہو جائیں گے میرے کھلنے اور ظاہر ہونے کا وقت آجائے گا انہوں نے پھل دینا چھوڑ دیا ہے قبرستان کا بحیرۂ طغریہ کا پانی سوکھا یا باقی ہے پانی کم ہو رہا ہے قریبی زمانے میں مسجد نبوی کے ایک امام صاحب نے نقشوں کے ساتھ گوگل میپ کی نشاندہی کے ساتھ اپنے آدمی کو بھیج کر ان علاقوں کا سروے کیا زغر کا چشمہ یہ ٹرسی بحرمیت کے کنارے ہے بیت المقدس سے 85 کلومیٹر پر اس چشمے کا پانی زراعت کے قاتل نہیں رہے گا کھیتی باڑی کے قابل نہیں رہے گا جب دجال کے ظاہرہونے کا وقت قریب آجائے گا دجال عربی زبان کا لفظ ہے دجل کہتے ہیں ملمع سازی کو

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:31


لوہے پر سونے کا پانی چڑھانا
جھوٹ کو سچ
سچ کو جھوٹ بتانا
اس کو دجل کہا جاتا ہے اس کو تلبیس کہی جاتی ہے
نیکی کو گناہ

گناہ کو نیکی کہاجائے
کہ دجال کی ذات الگ ہے دجالی فتنے الگ ہے دجال کی ذات اپنی جگہ پر اس کی علامتیں بتائی جا رہی ہیں اور ایک دجالی فتنے ہیں موجودہ زمانے میں حیا کو عیب بتانا ننگے پن کو تہذیب بتانا دجالی فتنہ ہی ہے دجال نہیں ہے
معروف کو منکر منکر کو معروف بتانا
سچ کو جھوٹ
جھوٹ کو سچ بتانا
سود کو حقیقت اور زکوۃ سے لوگوں کو روکنا
جانوروں پر توجہ دینا کہ انسانوں کے مقابلے میں
غلط پیمانے یہ سب دجالی اثرات ہیں ایک اور واقعہ دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے قسطنطنیہ استنبول جسے کہا جاتا ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی طاقتور روحانیت رکھنے والی فوج کے ذریعے سے اللہ اکبر لا الہ الا اللہ صرف تکبیر اور تحلیل کے ذریعے سے فتح ہو جائے گی ظاہر ہوگا خراسان میں ہر بحر قزوین ہے جسے کیاسپئنسین کہا جاتا ہے وہاں سے ظاہر ہوگا چونکہ سب سے زیادہ ماننے والے یہودی ہیں اور عورتیں ہوں گی اپنے یتیم کی کمزوری کی وجہ سے ظاہر ہے کہ جب اس کے کہنے پر زمین سے غلے اگنے لگ جائے اس کے اشارے پر آسمان سے بارش برسنے لگ جائے تو کتنے لوگ ہوں گے مجھے اور آپ کو ڈرنے کی ضرورت ہے کہ اپنا ایمان بچا پائیں گے اپنے ساتھ ایک طرف جنت ایک طرف جہنم یا دو نہریں آدمی جس کو آگ سمجھے گا حقیقت میں وہ باغ ہوگا اور جس کو وہ باغ سمجھے گا حقیقت میں وہ آگ ہوگی ظاہر سے دھوکے میں پڑنے والے چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے عارضی لذتوں پر مرنے والے آخرت کو بھلا کر زندگی گزارنے والے اپنے ایمان کا سودا کر لیں گے اصفہان ۔ عراق کا علاقہ ہے وہاں 70 ہزار یہودی کیلاسان خاص چادر ہوتی ہے اس کو پہنے ہوئے دجال کے متبع بن جائیں گے اس کے ظاہر ہونے کے وقت لوگ اس سے ڈر کر اپنے ایمان کو بچانے کے لیے پہاڑوں میں پناہ لیں گے روم جس کا کچھ حصہ ہی اٹیلی میں ہے کچھ حصہ ترکی میں ہے روم رومیوں سے جنگ کر کے مسلمان مال غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے اتنے میں آواز آئے گی کہ دجال آچکا ہے دجال آچکا ہے وہ اپنی اولاد اور عورتوں کو بچانے کے لیے گھروں کی طرح چلیں گے اللہ تبارک و تعالی نے مکہ مکرمہ کی مدینہ منورہ کی یہ خاصیت رکھی ہے کہ دجال صرف احد کے پہاڑ جرف تک آئے گا لیکن مدینہ پاک میں داخل نہیں ہو پائے گا اس وقت کا بہترین نیک مرد وہ ہوگا جو دجال کے سامنے کھڑے ہوگا اور یہ کہے گا کہ میں گوبہی دیتا ہوں کہ تو دجال ہی ہے اس وقت سب سے زیادہ طاقتور ایمان والا ہوگا چونکہ بہت زیادہ تیز رفتار ہوگا دجال کا سفر پوری دنیا کا 40 رات میں پوری دنیا 40 رات میں پوری دنیا کا مدینہ پاک میں تین زلزلے ہوں گے جن زلزلوں کی وجہ سے منافقت کے مزاج والے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر نکل جائیں گے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پہلا دن ایک سال کے برابر دوسرا دن ایک مہینے کے برابر تیسرا دن ایک ہفتے کے برابر اور باقی ایام عام دنوں کے برابر ہو تو گویا دجال کا قیام اور اس کی قیام کی مدت ایک سال ڈھائی ماہ بن جاتی ہے
🔺 حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو جامع دمشق جسے ڈمسکس کہا جاتا ہے شام اور سیریا میں وہاں پر اتارا جائے گا حضرت خلیفہ مہدی کے لیے اقامت کہی جا چکی ہوگی حضرت عیسی علیہ السلام پیچھے نماز پڑھیں گے اور حضرت خلیفہ مہدی کے ذریعے سے جو طاقتور ایمان والوں کی فوج ہوگی اس کو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام لے کر دجال کا مقابلہ کریں گے بیت المقدس سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر باب لد ہے وہاں پر دجال کا قتل کریں گے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا متعدد روایتوں میں سورہ کہف کی ابتدائی 10 ایتیں جو پڑھے گا اللہ تبارک و تعالی اسے دجال کے فتنے سے بچائیں گے بہت بڑے عالم ہیں حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمت اللہ علیہ انہوں نے کتاب لکھی سورہ کہف میں دجالی فتنوں کے اشارات انہوں نے مختلف پہلوؤں سے ثابت کیا سورت کی فضیلت کا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے سورت کے مضمون سے یہ سورت دجال کے کتنے سے بچا سکتی ہے اس سورت میں اصحاب کہف کا ذکر ہے انہوں نے غار میں پناہ لی زمانے کے کفر سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے حضرت موسی حضرت خضر کا واقعہ ہے حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر کی صحبت اپنائی اپنے علم میں پختگی پر اپنی تربیت لینے کے لیے ہمیں فتنوں سے بچنا بھی ہے اللہ والوں کی صحبت میں رہنا بھی ہے اور ذوالقرنین نے عدل کو قائم کیا انصاف کو قائم کیا ظلم کو ختم کیا اس قسم کی کوششوں میں بھی لگنا ہے
🔷میرے عزیزو فتنوں کے ذکر کرنے کا مقصود یہی ہے نبیوں نے ڈرایا حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ایک صحابی نے اپنے بچے سے پوچھا کیا تم نے نماز سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے دجال کے فتنے سے پناہ دے دیجیے نہیں میں نے دعا نہیں کی جاؤ دوبارہ دو رکعت نماز پڑھو اور دجال کے فتنے سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اللہ تعالی سے دعا مانگو کن کن چیزوں سے ڈالا جاتا ہے ایمان

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:31


پر حملہ کرنے والی چیزیں ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے فتنے اس کا مذاکرہ ہونا چاہیے حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ایک مرتبہ گھر کی عورتوں میں ایک نے کہہ دیا دجال آگیا دجال آگیا ایک صحابیہ جا کر گھر کی عورتوں میں ہماری ماؤں میں کونے میں چھپ گئی جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو وہ اندر چھپی ہوئی دبکی ہوئی صرف دل لگی میں کہہ دیا اتنا خوف خوف اس لیے نہیں کہ جان نہ چلی جائے خوف اس لیے نہیں کہ جائیداد نہ چلی جائے خوف اس لیے کہ ایمان نہ چلا جائے ہم کمزور ہیں کہیں ایمان کا سودا نہ کر بیٹھے اس لیے حضرات انبیاء علیہم السلام نے حضرات صحابہ نے امت کے مربیوں نے دجال کی ذات سے بھی ڈرایا تاکہ بزدلی کے بجائے بیداری آجائے اور دجالی فتنوں سے بھی واقف کیا
اللہ تبارک و تعالی ہر قسم کی فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے عذاب قبر کے فتنے سے حفاظت فرمائے نزع کی سختی سے اللہ حفاظت فرمائے علمی اور عملی فتنوں سے اللہ حفاظت فرمائے اور دجالی فتنے سے بھی ہم سب کو پناہ عطا فرمائے (آمین)

*وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین*


*تفصیل برائے خطاب*
20 منٹ 26 سکینڈ پر مشتمل بیان ہے
خطاب جمعہ | Jumuah Bayaan
2/3/1446 H. 6/8/2024 G.

جامع مسجد اے سی گارڈز ، حیدرآباد ، الہند
Jaame Masjid A.C. Guards , Hyderabad , India
تحریری شکل: 5:36 بوقت عصر ۔ 7ربیع الاول 1446 ۔ 11 ستمبر 2024

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:30


سلسلہ خطبات

*صوفیاء کرام کے سیاسی کارنامے*

*خطاب از: نمونۂ اسلاف محترم و مکرم حضرت مولانا مفتی ابو بکر جابر صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ*
(ناظم ادارہ کہف الایمان ٹرسٹ صفدر نگر بورہ بنڈہ حیدرآباد تلنگانہ)

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم (امابعد)
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
فَسْـَٔلُوٓاْ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (صدق اللہ العظیم)

اللہ تبارک و تعالی نے دین کے مختلف پہلوؤں کی حفاظت کے لیے
تفسیر کی حفاظت کے لیے مفسرین کو
حدیث کی حفاظت کے لیے محدثین کو
فقہ کی حفاظت کے لیے فقہاء اور مفتیان کرام کو
حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی حفاظت کے لیے سیرت لکھنے والوں کو پیدا کیا
اسی طرح حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے بپا کیے ہوئے سیاسی نظام کو باقی رکھنے کے لیے ہر زمانے میں سیاست پر اثر انداز ہونے والے شرعی تقاضے کے مطابق حصہ لینے والے علماء کو پیدا کیا
دل کی اصلاح اخلاق کی اصلاح کے لیے تصوف اور صوفیاء کو اللہ تعالی نے 1300 سال میں ان کے سلسلے کو چلایا
🔺 اس مجلس میں جو عرض کرنا ہے کہ صوفیا کرام خانقاہی نظام کا سیاست سے کیا تعلق رہا
تصوف سے مراد صوفیا سے مراد ہماری گفتگو میں وہ تصوف ہے جہاں پر اصطلاحات کی نہیں بلکہ حقائق کی اہمیت ہے جہاں وسائل کو نہیں مقاصد کو ترجیح دی جاتی ہے تصوف سے مراد ہماری لال پیلے کالے ہرے علامتی نشان رکھنے والے غیر شرعی حرکتیں کرنے والے طریقت کو شریعت سے کاٹنے والے وہ تصوف مراد نہیں ہے ہمارے یہاں ہماری اس گفتگو میں تصوف سے مراد صوفیا سے مراد وہ طبقہ ہے جو شریعت کے ظاہر کے ساتھ باطن پر بھی عظیمت کے ساتھ عمل کرتا ہے جزئیات میں اتباع سنت کا اہتمام کرتا ہے ہماری گفتگو میں سیاست سے مراد
مروجہ سیاست نہیں
منافقت والی سیاست نہیں
رشوت ستانی میں لے جانے والی سیاست نہیں
وہ سیاست جو رواداری کے نام پر کافر بنا دے
وہ سیاست ریلیجئس کانگریس کے نام پر مورتی پوجا بھی کرواتے وہ سیاست مراد نہیں ہے
🔺 وہ پولیٹکس اور سیاست جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہم نے دین کے
عبادات
معاملات
معاشرت
اخلاقیات کے پہلوکو تو کچھ نہ کچھ اہمیت دی لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب سیاسی قائدکی نظر سے نہیں دیکھا
نہیں پہنچایا
نہیں عمل کیا
سیرت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی آپ کی سیاست خارجہ اسٹرنل پولیٹکس آپ کی کیا تھی آپ کا جاسوسی کا نظام کیا تھا آپ کے انٹرنیشنل تعلقات بین الاقوامی تعلقات کیسے تھے
سیرت کوعبادات معاملات معاشرت دعوت عبادت کی چشمے کے ساتھ حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب قائد کامیاب سیاستدان کے نقطۂ نظر سے بھی پڑھنے کی ضرورت ہے
🔺ہمارے علاقے کے بڑے مفکر حمید اللہ حیدرآبادی رحمت اللہ علیہ اس موضوع پر لکھا
قاری محمد طیب صاحب رحمت اللہ علیہ بہت ہی مختصر جامع انداز میں شریعت طریقت اور سیاست کو لکھا شریعت اللہ کے احکام کا نام ہے طریقت اس تربیت کا نام ہے کہ جس سے شریعت پر چلنے میں سہولت ہوتی ہے اور سیاست اس محنت کا نام ہے جس سے باہر خارجی زندگی میں آنے والی رکاوٹیں ختم ہو جاتی ہے اور آسانی سے آدمی شریعت پر چل پاتا ہے جب سیاست کی بات ہوتی ہے ہمارے ملک میں تو ایک رجحان یہ بھی آتا ہے کہ بہت گندی چیز ہے واقعتا مروجہ بہت گندی چیز ہیں جو بازاری سیاست ہے بہت گندی چیز ہے سبھی عوام کے ننگے ہوتے ہیں سبھی شیطان ہوتے ہیں کوئی چھوٹا کوئی بڑا اور دوسرا ایک رخ جذباتی پرجوش نوجوانوں کی طرف زیادہ ہے اقامت خلافت اس ملک میں خلافت ہمیں یاد رکھنا چاہیے دارالامن الگ ہوتا ہے دارالاسلام الگ ہوتا ہے دارالحرب الگ ہوتا ہے حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ ساتھ جو پالیسیاں اپنائی وہ الگ ہے آپ نے ہجرت کرنے سے پہلے مدینہ پاک ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ ہے جو دارالحرب تھا آپ کی پالیسیاں الگ رہی مدینہ منورہ آنے کے بعد جب خلافت قائم ہوگئی توآپ کی پالیسیاں الگ تھیں حبشہ الگ ہے مدینہ پاک الگ ہے اور مکہ مکرمہ ہجرت سے پہلے الگ ہے جس ملک میں جو نوعیت ہوگی اس طرز عمل کو اپنایا جائے گا
اس طریقے کو اپنایا جائے گا
اس پالیسی کو اپنایا جائے گا
جو حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایاہے
🔺 ہمیں یاد کرنا چاہیے اگر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ
حضرت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ
ہمارے اکابر میں مولانا مناظر حسن گیلانی نے زبردست کام کیا
امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کی سیاسی زندگی 300/400 سے زیادہ صفحات پر کام کیا حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فقہاء کی ایک جماعت کو تیار کیا مسلمان ججیز کی ہزار تعداد کو بنایا

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:30


اسلامی قانون کو مرتب کیا
غیر سودی بینک اور عملا چلا کر بتایا
طلباء کی مدد کیا کرتے تھے
عبادت کا مقام بہت اونچا تھا
شروع میں انوالو پولیٹکس میں کھل کر حضرت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ نے گوارا نہیں کیا براہِ راست مقابلہ کرنے والوں کا ساتھ دیا بعد میں آپ پر تشدد بھی ہوا
آپ پرحملہ بھی کیا گیا
زہر بھی دیا گیا
شہید بھی ہوئے حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ
امام احمد بن حنبل کی سیاسی زندگی ہندوستان کی تاریخ میں انگریزوں کے زوال انگریزوں کی ابتدا اور مسلم دور حکومت کا زوال اس زمانے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے
اپنی حجۃ اللہ البالغۃ
اپنی تدریس
اپنی تصنیف
اپنے خانقاہ
پر تصوف کے نظام کے ساتھ ملک کے حالات کو دیکھا آنےوالی تبدیلیوں سے لا تعلق نہیں رہے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ کے بچوں کی اصلاح کی کوشش کی جو کافی نا سمجھ تھے اور شاہ عبدالعزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ نےانگریزوں کے اس ملک میں آہستہ آہستہ جڑ پکڑنے کو دیکھ لیا تھا سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ انہوں نے ہی دیا تھا انگریزوں کے خلاف اس ملک کی تاریخ میں شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ کے خاندان کی تو عظیم شخصیتیں ہیں
سید احمد شہید اور
سید اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ
حج کا قافلہ
انقلابی قافلہ
مجاہدوں کا قافلہ
محنت کرتے ہوئے توبہ کرواتے ہوئے علاقوں کو بدلتے ہوئے لوگوں نے بیعت کی گناہوں سے ولایت کے اونچے مقامات پر فائز ہو گئے تو انہوں نے اپنی صوفیانہ سرگرمیوں کے ساتھ اصلاحی کوششوں کے ساتھ سیاسی کوششیں بھی کی سیاسی طور پر بھی تبدیلی لانے کے سلسلے میں اپنے بس کا جو ہو سکتا تھا کیا اسی کا تسلسل ہے انہی محنتوں کا تسلسل ہے جو حضرت شیخ الہند محمود الحسن صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ
اور ایک جمیعت علماء ہند کا ایک پورا بڑا حلقہ ہے ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے اس ملک میں بھائی چارہ قائم رکھنے سیکولرزم کی بنیادوں کو باقی رکھنے دستوری حقوق کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتے رہیں ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ خالص علمی آدمی ہے لیکن انہوں نے بنگلہ دیش اورپڑوسی ملک کے حالات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں مولانا محمد علی جوہر رحمت اللہ علیہ اس ملک کی آزادی اور اس ملک میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہایت زہین شخص تھا بہت جری اور بے باک تھا علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پڑھا اور پھر اس کے بعد کیمریج جاکرانگلینڈ میں بھی پڑھا بڑی قربانی سے ان کے بھائی مولانا شوکت علی رحمت اللہ علیہ نے انہیں بھیجا ان کی والدہ بہت کم عمری میں 30 سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں بہت ہی جفاکش اس نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گی پانچ شوہراورایک بیوی کو سنبھالوں گی پانچ شوہر سے مراد پانچ بیٹے اور ایک بیوی سے مراد ایک بیٹی محمد علی جوہر رحمت اللہ علیہ ہندوستان کی آزادی پوری دنیا میں اسلام کی خود مختاری حرمین شریفین کی آزادی بیت المقدس کی آزادی اونچے مقصد کے لیے جینی والا یورپ جاکر اپنے معیارزندگی یورپ جاکک اپنی لائف اسٹیٹس یا اپنی معاشی ضرورتوں کا غم صرف ان کے زہن و دماغ پر نہیں تھا بلکہ اسلام کے احیاء اسلام کے غلبے کی کوششیں تصوف کا سیاسی کردار
علمائ نقشبند نے ترکی میں جب مصطفی کمال اتاترک اور اس ہندوستان شاہ غلام علی صاحب رحمت اللہ علیہ سمرقند اور بخارا اور شام کے علماء آئے ہیں ان سے استفادہ کرنے کے لیے اور شاہ غلام علی صاحب رحمت اللہ علیہ انہی کے سلسلے میں سید آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ اتنا بڑا حلقہ کہ ایک وقت کے دسترخوان میں ایک ہزار لوگ کھانا کھایا کرتے تھے سید آدم بنوری رحمت اللہ علیہ قافلہ نکلتاتو سینکڑوں کے لوگ سامنے ہوتے تھے اور پھر انہی کے سلسلے میں شیخ احمد سرہندی رحمت اللہ علیہ انہوں نے اکبر کی زندگی کو بدلنے اور اس کے کچھ اور شرک کو تھامنے کے سلسلے میں بہت ہی خاموشی کے ساتھ ٹھوس طریقے سے افراد کو تیار کرتے ہوئے بتدریج ٹھہر ٹھہر کر تبدیلی لانے کی حضرت مجدد الف ثانی رحمت اللہ علیہ نے کام کیا
🔺 سمجھانے کا مقصود یہ ہے کہ حضرات صوفیا کرام یا خانقاہی نظام جیسے اس نے دعوت اسلام کا کام کیا دعوت اسلام کا کام کیا انگریز مؤرخ لکھتا ہے جب تاتاریوں کا ظلم ہوا شیخ جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ رشید الدین یا ارشد الدین رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے تاتاریوں کے شہزادے کو اسلام کی دعوت دی اور تاتاری جو ظالم تھے وہ اسلام کے محافظ بن گئے جیسے صوفیاء کرام نے دعوت اسلام کا کام کیا اس ملک میں خواجہ معین الدین اجمیری رحمت اللہ علیہ چائنہ میں دعوت اسلام کا کام اور افریقہ میں ان صوفیاء کرام کے ذریعے سے دعوت اسلام کا کام اللہ تعالی سے عشق کی دعوت مقام انسانیت کی یاددہانی اللہ کی مخلوق کی پرورش ان کی لنگر ذات کے بغیر بھید بھاؤ کے بغیر چلتے تھے اس کو دیکھ کر لوگوں نے اسلام قبول کیا ذکر کی کثرت فکر کا اہتمام دنیا سے بے رغبتی حق گوئی کا جذبہ دینی جد جہد

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:30


گھنٹوں پڑھایا کرتے تھے بہت ساری تصنفیں لکھا م کرتے تھے
ایک مرتبہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جو خانقاہ کے ذمہ دار تھے ان کے پاس گئے حضرت میں تو بس ملت کے کاموں کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں مشغول رہتا ہوں آپ سے بیعت ہونے کے لیے آپ سے کچھ ذکر فکر کا تعلق رکھوں حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمت اللہ علیہ نے فرمایا جو آپ نے چند ہفتے اس ملک اور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے فلانے فسادات کے موقع پر گزارے تھے آپ مجھے وہ چند ہفتے دے دیجیے میں اپنی زندگی کے سارے اعمال آپ کو دینے کے لیے تیار ہوں وہاں پر قدردانی بھی ہوتی تھی اور ملی کاموں کی طرف متوجہ بھی کیا جاتا تھا تصوف و سلوک کا الہامی اور مسلمہ نظام اخلاق اور اخلاص پر پوری محنت کے ساتھ اپنے ملکی حالات پر توجہ کیسے اسلام کی حفاظت ہو کیسے مسلمانوں کی
🔺 میرے عزیزو اس ساری گفتگو کے ذریعے سے مقصود یہ ہے یہ علماء یہ صوفیاء کرام یہ اسلام کی داعی جن کی پوری زندگیاں پہلے سے ہی عبادت تقوی زہد فکر آخرت پر لگ رہی تھی پھر بھی ضرورت سمجھتے تھے اجتماعی کاموں میں حصہ لینے کی
🔺 ہمیں بھی چاہیے ہمارے ملک میں اوقاف کا مسئلہ نہایت سنگین ہو چکا ہے ہمیں چاہیے کہ علماء کرام کی طرف سے جو کہا جا رہا ہے کہ اپنا احتجاج درج کیا جائے باہر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے مختلف دیواروں پر آسان انداز میں اسکین کر کے اپنی درخواست کو حکومت تک پہنچانے کے سلسلے میں پروسیجر بتایا گیا ہمیں دعا کا اہتمام کرنا چاہیے اپنی زمینوں کی رجسٹری کرنا چاہیے اپنے اوقاف کو فعال اور موثر پروڈنشیل بنانے کی فکر کرنا چاہیے ہم خود اگر اوقاف کے کردار میں تو واجبی کریا دینے کی فکر کرنی چاہیے اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو پورے دین پر چلنے اور پورے دین کی طرف دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
*وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین*


*تفصیل برائے خطاب*
20 منٹ 41سکینڈ پر مشتمل بیان ہے
خطاب جمعہ | Jumuah Bayaan
2/03/1446 H. 6/08/2024 G.

جامع مسجد غوث الدین گھٹالہ ملے پلی ، حیدرآباد ، الہند
Jaame Masjid Ghausuddeen Ghataalah , Mallepalli , Hyderabad , India
تحریری شکل: 4:40 قریب العصر ۔ 7 ربیع الاول 1446 ۔ 11 ستمبر 2024

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:29


*ابردھا عنک بماء زمزم* آپ نے فرمایا زم زم کے پانی سے عام پانی سے بخار کی جن قسموں میں اور جن علاقوں میں پانی کا لگانا جسم پر ملنا پانی میں بھگا ہوا کپڑا لگانا مفید ہو سکتا ہے ضرور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ایک دوسری حدیث میں فرمایا
*الحم فی فیح جہنم* گرمی تو بخار بخار تو جہنم کی گرمی کا ایک حصہ ہے ایک مطلب یہ ہے کہ جہنم کی گرمی کچھ اللہ نے اتار دی ہے بخار کی شکل میں یا ایک مطلب یہ ہے کہ بخار کی گرمی جہنم کی گرمی یاد دلاتی ہے میں اس کو برداشت نہیں کر سکا میں جہنم کو کیسے بر داشت کر سکوں گا *ان عظم الجزاء ماعظم البلاء* کہ جتنی آزمائش بڑی ہوگی ثواب بھی اتنا ہی زیادہ ملے گا آپ کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے دعاؤں کا انتظام شکوے کے بول کے بجائے دعا پڑھیے نا حضرت جبرائیل آئے حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعا پڑھنے لگے *بسم اللہ عرقیک من کل شیئ یؤذیک من حسد حاسدومن کل عین اللہ یشفیک* ہمیںں یہ دعاء سکھائی گئی کتنی قیمتی دعا ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے تھے *اعوذ باللہ العظیم من شر کل عرق النار ومن شرحرالنار* ہمیں سکھایا گیا جس کی عیادت کے لیے جائے اور ہم یہ دعا پڑھے سات مرتبہ *اسئل اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک* اگر موت مقدر نہیں ہے شفا مل کر رہے گی موت مقدر نہیں ہے شفا مل کر رہے گی درد وغیرہ کے موقع پر سکھلایا گیا کہ تین مرتبہ بسم اللہ پڑھیں سات مرتبہ *اعوذ باللہ و قدرتہ من شر مااجد واحاذر* کیا کیا پڑھا ہے کتنے گھنٹے فون پر گزر جاتے ہیں حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں سے جیسے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے صدقہ دیجیے بلا ٹل کر نہیں آئے گی صدقے کے ڈبے رکھیے گھروں میں استغفار کیجیے اپنے گناہ کو یاد کر کر کے صفائی کا اہتمام ڈینگو بخار کے بارے میں اطباء نے لکھا ہے کہ ٹھہرے ہوئے صاف پانی سے وہ مچھر پیدا ہوتا ہے ٹھہرا ہوا صاف پانی ٹھہرا ہوا صاف پانی اس سے مجھ سے پیدا ہوتا ہے ڈینگو کا اس سے اچانک بخار 110/120 جو آدمی سنبھلتا نہیں ہے مہینوں سنبھلتا نہیں ہے صفائی کا اہتمام غذا کا اہتمام اور پھر ایک دوسرے کا خیال رکھنے عیادت کا کتنا بڑا ثواب ہے صبح میں عیادت کروں گا شام تک 70 ہزار فرشتے میرے لیے استغفار کریں گے کسی کا منہ بند کرنے کے لیے عیادت نہ کیجیے جواب اور ایکسچینج میں کیجیے صرف دکھلاوے کے لیے ایک روایت کی تکمیل کے لیے عیادت مت کیجیے حق ادا کرنے کے لیے عیادت کیجئے بندے نے بیمار تھا تو نے عیادت نہیں کی میری اگر عیادت کر لیتا تو مجھے وہاں پا لیتا اللہ کو پانے کے لیے عیادت کیجیے
اللہ تبارک و تعالی پوری انسانیت کو مہلک بیماریوں سے بچائے سارے بیماروں کو شفا عطا فرمائے جب بندہ مقبول ہوتا ہے تو اس کی بیماریاں اس کے درجات کو بلند کرتی ہیں دل اور زبان پر شکایت نہیں آتی جب بندہ گنہ گار ہوتا ہے تو پھر اس کی بیماریاں اس کے لیے کفارہ سیئات بنتی ہیں اور اتنا نافرمان کہ عبرت بھی نہ لے حس بھی نہ ہو زندگی بھی نہ بدلے تب بیماریاں اس کے لیے عذاب ہواکرتی ہے یا عذاب یاتو کفارہ سیئات یا تو رفع درجات حالات طبیعت کے خلاف ہوتے ہیں تربیت کے خلاف نہیں ہوتے تربیت لینا چاہیے اللہ مجھے اور آپ کو توفیق دے (آمین)
*وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین*

*تفصیل برائے خطاب*
23منٹ29سکینڈ پر مشتمل بیان ہے
خطاب جمعہ | Jumuah Bayaan
24/02/1446 H. 30/08/2024 G.
جامع مسجد اے سی گارڈز ، حیدرآباد ، الہند
Jaame Masjid A.C. Guards , Hyderabad , India
تحریری شکل: 3:40 دوپہر ۔ 7ربیع الاول 1446 ۔ 11 دسمبر 2024

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:29


مجھے جانا ہی ہے موت اور بیماری بیماری یا تو صحت پہ ختم ہوگی یا موت پر ختم ہوگی *مالی الیہ من حاجۃ الا ان یتوفنی اللہ علی الاسلام* مجھے دنیا کی کوئی ضرورت نہیں صرف ایک تمنا ہے کہ اللہ مجھے ایمان پر موت دے دے اللہ مجھے ایمان پر موت دے دے
🔺 ایسے دسیو واقعات ہیں بیماریاں اکثر و بیشتر غیر اختیاری ہوتی ہے میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میری بخار جلدی ختم ہو جائے میرے اختیار میں نہیں ہے فلانا مرض جلدی ختم ہو جائے فلانی تنگی جلدی ختم ہو جائے غیر اختیاری حالات میں وقت کا منصوبہ بنانا چاہیے کہ میں لیٹے لیٹے کیا تلاوت کر سکتا ہوں کیا ذکر کر سکتا ہوں کیا بیانات سن سکتا ہوں کونسی صلہ رحمی کر سکتا ہوں اپنی بیوی کو وقت نہیں دیتا تھا اپنے بچوں کا ہوم ورک چیک نہیں کرتا تھا اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ بیٹھتا نہیں تھا اب یہ غیر اختیاری حالات بن گئے ہیں اب مجھے گھر کا کونا یا بستر پڑے رہنا ہے تو مجھے گھر میں قیام کا فائدہ اٹھانا چاہیے میں ڈاکٹر صاحب سے دعوت کی بات کیا کر سکتا ہوں کام کرنے والی نرس بہنوں سے کیا پردے کی حیا کی بات کر سکتا ہوں کیا خیر خواہی میں پہنچا سکتا ہوں اپنے غیر اختیاری ان حالات میں اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرنا چاہیے طبیعتیں بہت بے حس ہو گئی ہے بڑے بڑے حالات بڑی بڑی بیماریاں عبرت نہیں لیتے ہیں بڑے بڑے حالات عبرت نہیں لیتے ہیں بخار ختم ہو گئی اب آپ نے کس نیکی کا افاقہ مل گیا کرونا سے
افاقہ مل گیا ہارٹ اٹیک سے
افاقہ مل گیا فلانی مہلک بیماری سے
اب آپ نے کونسی نیکی کا اضافہ کیا اپنی زندگی میں کونسے گناہ میں کمی کی کونسی غفلت کی رتی کم ہوئی ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی مثال دی *فیما عقل وفیما ترک یہ تو جانور ہے جس کو پتہ نہیں ہے کہ باندھا کیوں گیا تھا چھوڑا کیوں گیا ہے مجھے بیماری میں ڈالا کیوں گیا تھا مجھے نکالا کیوں گیا ہے بے حس ہوگئے ہیں لوگ کہتے ہیں اللہ نے مجھے کیوں بیمار کر دیا کونسا گناہ ہے جو میں نے نہیں کیا کر سکتا تھا میں نے نہیں کیا تعجب بیماری کے آنے پر نہیں ہے تعجب صحت کے ملنے پر ہے کہ کونسی صحیح نیکی کی ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی نعمتوں سے مجھے نواز رہے ہیں تعجب بیماری کے آنے پر نہیں ہے تعجب صحت کے ملنے پر ہونا چاہیے میں نے کون سی بڑی نیکی کر دی آج ناشتہ اچھا مل گیا کونسی بڑی نیکی کر دی اللہ نے سامنے والے کے دل میں میری محبت ڈال دی میرے گناہوں پر پردہ ڈال دیا ہمیں تو ہمیں تو یہ سوچنا چاہیے ہم شکایت کرنے سے بیماری میں اضافہ ہوتا ہے اللہ کے فیصلے پر ناراض رہنے سے فیصلہ نہیں بدلتا ملنے والا اجر بھی چھن جاتا ہے
ملنے والا اجر بھی چھن جاتا ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم انسان تھے عظیم انسان تھے بخار آپ کو بھی آتی تھی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ہاتھ لگایا بہت بخار تھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں دو آدمیوں کو جتنی بخار آتی ہے اتنا مجھ اکیلے بخار آتی ہے جن کے مقاماتت پہنچے ہیں جن کے درجات اونچے ہیں ان کی آزمائشیں بھی اونچی ہیں جو جتنا قریبی ہوتا ہے *مقربہ رابیش بودحیرانی* جو جتناقریبی ہوتا ہے اس کی اتنی پکڑ دکڑ یا اس کی نگرانی بھی اتنی ہی ہوا کرتی ہے صحابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تب تم کا اجر بڑھ جاتا ہوگا ہاں میرا اجر بھی بڑھ جاتا ہے
ایک آدمی راستے سے گزر رہا ہے ٹھوکر لگی سونے کا خزانہ مل گیا کوئی قیمتی ہیرا مل گیا آدمی کی کلفت چھوٹا بھول جاتا ہے ٹھوکر کی کلفت بھول جاتا ہے اس قیمتی ہیرے کے ملنے کی لذت میں قیمتی ہیرے کے ملنے کی لذت میں اگر آخرت کا دھیان واقعی ہو تو آدمی سوچتا ہے کہ بیماری بیماری پر جو اجر مل رہا ہے وہ اصل ہے بیماری کے ساتھ جو تکلیف ہے وہ تو ختم ہو جائے گی حدیث میں ہے جب صبر کا اجر آدمی قیامت کے دن دیکھے گا تو یہ تمنا کرے گا کاش میری چمڑی قینچیوں سے کاٹ دی جاتی اور مجھے وہ اجر مل جاتا جو اللہ تبارک و تعالی اب قیامت کے دن مجھے دکھا رہے ہیں ام سائب یا ام مسیب نامی صحابیہ ہیں ان کو بخار آگئی تو وہ بہت ناراض ہو رہی تھی بخار کو گالی دے رہی تھی برا بھلا کہہ رہی تھی گالی دینے کا مطلب برا بھلا کہ رہی تھی حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *لا تسبی الحم فانھا تذھب خطایابنی آدم کما یذھب الکیر خبث الحدید جیسےبھٹی لوہے کے زنگ کو ہٹاتی ہے ویسے بخار آدمی کے گناہ کو صاف کر دیتی ہے کپڑوں کے دھلنے کے وقت کا احساس ڈلسیس کے ہونے کے وقت کا احساس میری صفائی ہو رہی ہے میری صفائی ہو رہی ہے حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری حدیث میں فرمایا
*لا تزال الملیلۃ والصداع بالعبد والامۃ وان علیھما من الخطایا مثل احد فمن یدعھما وعلیھما مثقال خردلۃ* رتی باقی نہیں رہتی ہےجب آدمی بخار سے نکل جاتا ہے حضرت اقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ادارہ کھف الایمان

08 Dec, 00:29


سلسلہ خطبات

*وبائی امراض اور اسلامی ہدایات*

*خطاب از: نمونۂ اسلاف محترم و مکرم حضرت مولانا مفتی ابو بکر جابر صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ*
(ناظم ادارہ کہف الایمان ٹرسٹ صفدر نگر بورہ بنڈہ حیدرآباد تلنگانہ)

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم (اما بعد)
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (صدق اللہ العظیم) ہمارے علاقے میں ڈینگو بخار اور مختلف بیماریوں کی وبا چل رہی ہے دواخانے بھرے ہیں مدرسے خالی ہو رہے ہیں اسکول میں طلبہ کی تعداد کم ہے
پہلی بات یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا ہے جنت نہیں ہے یہاں
صحت اور بیماری
شادی اور جنازہ
تنگی اور مالداری
عالم ازداد ہے یہ
آتے رہتے ہیں آنا ہی ہے
نہ دھوپ ہمیشہ رہتی ہے
نہ سایہ ہمیشہ رہتا ہے
نہ عروج ہمیشہ رہتا ہے
نہ زوال ہمیشہ رہتا ہے
صبح اٹھ کر رہتی ہے
ہمیشہ اندھیرا نہیں رہتا
🔺دوسری بات بیماری کے زمانے میں صحت کی قدر ہوتی ہے قدر نعمت بعد زوال زوال کے بعد آدمی کو احساس ہوتا ہے کہ فلانی نعمت کا چیز تھی گردہ سالہا سال سے کام کر رہا ہے ڈالے سے اس کو دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کتنا بڑا فنکشن ہے کام ہے جو خاموش چل رہا ہے ایک دانت میں تھوڑی سی نا برابری آجاتی ہے تھوڑی سی حساسیت آجاتی ہے ٹھنڈا پانی چمکا دیتا ہے تو تب احساس ہوتا ہے کہ دانت کے سی نعمت ہے تو بیماری کی وجہ سے نعمتوں کا احساس
🔺 تیسری بات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسیوں جگہوں پر متوجہ فرمایا اپنی صحت کی قدر کرو بیماری سے پہلے
صحت کی قدر کرو بیماری سے پہلے بہت کم طبیعتیں ہیں جو اپنی صحت کے زمانے کی قدر کرتی ہے
صحت کی زمانے کی نیکیاں
صحت کی زمانے کے صدقہ خیرات
اللہ نے بیماری پر لگانے سے بچا دیا چلو اتنا مال اللہ کے راستے میں لگاؤں
دوا خانوں کے چکر کرنے وقت نہیں لگا اللہ کے گھر کو وقت دے دوں
رات میں بچوں کے لیے جاگنے میں وقت نہیں لگا
چلو دو سجدوں میں وقت دیدو ایسا سوچنے والےبہت کم باتوفیق لوگ ہے
🔺یاد رکھنا یہ ہے کہ مصیبت بڑی چیز نہیں ہے
بیماری حقیقت میں مصیبت نہیں ہے
معصیت بڑی مصیبت ہے
بیماری بڑی مصیبت نہیں ہے
معصیت گناہ بڑی مصیبت ہے
بیماری کی تکلیف ختم ہو جائے گی گناہ اور معصیت کی تکلیف ختم نہیں ہوگی
بیماری تو ثواب دلاتی ہے
بیماری تو اللہ سے قریب کرتی ہے
گناہ تو آدمی کو اللہ سے دور کرتا ہے لوگ بیماری کو مصیبت سمجھتے ہیں معصیت اور گناہ کو مصیبت نہیں سمجھتے ہیں معصیت سے بڑی کوئی مصیبت نہیں معصیت سے بڑی کوئی مصیبت نہیں حضرت شبلی رحمت اللہ علیہ جب کسی کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتے اتنی تکلیف ہوتی کہ پیشاب کے راستے سے خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے یہ اللہ کو ناراض کرنے کا کام کررہا ہے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے عجیب بات فرمائی *مصیبۃ تکمل بھاعلی اللہ خیر لک من نعمۃ تنسیق ذکر اللہ* وہ مصیبت جو تجھے اللہ سے قریب کر دے وہ مصیبت جو تجھے اللہ سے قریب کر دے اس نعمت سے بہتر ہے جو تجھ سے اللہ کو بھلا دے جو بلا تجھ کو اللہ سے قریب کرے وہ بلا نہیں ہے اللہ کی عطاء ہے کامیاب بیمار وہ نہیں ہے جس کی بیماری صحت سےبدل جائے کامیاب بیمار حقیقت میں وہ ہے جس کی بیماری اس کو اللہ سے قریب کر دے اللہ سے قریب کردے
🔺انسان بہت بہت نا شکراہے مہینوں سالوں صحت مند رہتا ہے تھوڑی سے ناگواری آجائے بیماری آجائے ناشکری کے بول بیزارگی کےبول اللہ کی شان میں بولنے لگ جاتا ہے اللہ نے کیوں بیمار کر دیا اسے کیوں کر دیا کیوں کر دیا محبت کا امتحان اللہ سے محبت کا امتحان نعمت میں نہیں مصیبت میں ہوتا ہےجیسےدوست بیوی شوہر کی محبت کا امتحان ناگوار حالات میں ہوتا ہے ناموافق حالات میں ہوتا ہے کہ یہ ان دنوں میں کتناوفاداری کرتی ہے کتنا ساتھ دیتا ہے یہ جب دنیا میں مجھے چھوڑ دیا ایمان والے کی سوچ یہ ہونی چاہیے اللہ تبارک و تعالی بندے کو بخار بیماری تنگی کے ذریعے سے دینا چاہتے ہیں اجردینا چاہتے ہیں آخرت کا درجہ دینا چاہتے ہیں *إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ* یہ صرف صبر کا اجر بتلایا گیا بے حساب دیتا ہوں یہ اجر صرف صبر کا بتلایا گیا یہ اجر صرف صبر کاہے شکر پر نعمت بڑھتی ہے صبر پر اللہ ملتے ہیں شکر پر نعمت بڑھتی ہے قرآن نے کہا اور صبر پر اللہ ملتے ہیں نے معیت ملتی ہے اللہ کی نعمت کے بڑھنے سے بڑا فائدہ ہے اللہ کا مل جانا ہے جب بیماری میں ادمی تڑپتا ہے جب بیماری میں آدمی تڑپتا ہے جب بیماری میں آدمی اللہ کو بلاتا ہے
🔺 حضرت علی بن حسن رحمت اللہ علیہ ایک آدمی سے ملاقات ہوئی آدھا جسم ناکارہ اکثر حصہ کچھ کام ہی نہیں کر رہا ہے حضرت علی بن حسن رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کیا حال ہے کیسی صبر اور تسلیم اور رضا اللہ کے فیصلے پر راضی رہنے کی کیسی مثال ہے *ملک الدنیا منقطع الی اللہ* اس نے کہا دنیا تو اللہ کے پاس ہی جاتی ہے آج نہیں تو کل

ادارہ کھف الایمان

04 Dec, 17:15


Safai e Mammlaat.inp

ادارہ کھف الایمان

30 Nov, 16:38


https://youtu.be/Cq1_XYR-CNo?si=SBlhF33OO281DpqC
Mufti Abu baker Jaber Qasmi Sab:
تجار میں مفصل گفتگو

ادارہ کھف الایمان

27 Nov, 08:45


*قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا ذکر بکثرت آیا ہے، علماء کے مطابق قرآنِ کریم کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ان ہی کے واقعات اور احوال پر مشتمل ہے، قرآن کریم میں واقعات بیان کرنے کا انداز عام تاریخی کتب سے مختلف ہے، کیونکہ قرآن کا بنیادی مقصد نصیحت، عبرت اور ہدایت فراہم کرنا ہے، نہ کہ صرف تاریخ بیان کرنا۔*
*حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے مختلف واقعات قرآنِ کریم میں متفرق انداز میں بیان کیے گئے ہیں، اور ایک طالب علم کے لیے ان کو ترتیب وار سمجھنا بسا اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔*
*ان شاء اللہ یہ نقشہ اور ترتیب وار چارٹ قرآن کریم کے طالب علموں کے لیے بے حد مفید ہوگا، ان واقعات کو جغرافیائی اور زمانی ترتیب میں سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا۔*

ادارہ کھف الایمان

27 Nov, 06:12


*مثبت اور اقدامی محنتیں غالب رہیں!*
*ابوبکر جابر قاسمی*
*27/نومبر 2024*
بلاشبہ مسلک میں تصلب ہونا چاہیے ، دعوت تو نہیں دفاع ہونا چاہیے ؛ لیکن *حضرت علامہ ابو الحسن علی ندوی رحمت اللہ علیہ پاکستان میں دیے گئے خطبات دعوت فکر و عمل کے آخر میں فرماتے ہیں کہ دفاعی اور منفی رخ بہرحال کم ہونا چاہیے رد اور تعاقب کے کاموں کے ساتھ غیر مسلموں میں تعارف و تذکرۂ محاسنِ اسلام ، درس قران، درس حدیث ، درس فقہ ، درس تصوف ، درس عقائد، محاضرات معیشت و تجارت، سماجی برائیوں (نشہ، رشوت ، طلاق و خلع کا بڑھتا ہوا رجحان، قطع رحمی، بھیک مانگنا) کی اصلاح کا کام تسلسل کے ساتھ چلتے رہنا چاہیے ، تمام مکاتب و مدارس کی قدر کے ساتھ ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کہ *"مدرسہ تعمیرِ شخصیت"* یعنی شراب وغیرہ سے متاثرین کی تربیتی ادارے خوب محلہ محلہ قائم کیے جائیں ،
*نو مسلموں مرد و خواتین کے تربیتی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں ، جہاں انہیں معاشرتی و قانونی امداد فراہم کی جاتی ہو،*
*منکرات و فرقہ ضالہ کی تردید شریعت کا اہم شعبہ ہے، کار نبوت کا ایک حصہ ہے ؛ لیکن ایک منکر کی تردید میں دوسرا منکر پیدا نہ ہو جائے یا اس کے ساتھ جڑے دوسرے معروفات کی دعوت نہ چھوڑ جائے،*
*ایک کھانا ایک میٹھا (شادی ولیمے میں) کی دعوت سربراہان قوم کی طرف سے بہت مبارک ؛ لیکن علماء کرام پر طعن و تشنیع کا دروازہ کسی بہانے نہیں کھلنا چاہیے ، ساتھ ہی ادائے مہر، حصہ میراثِ بہن ، تقسیم جائیداد کے احکام ، مشترکہ جوائنٹ فیملی کے مسائل، ساس بہوں میں محبت پیدا کرنے کے اسباب وغیرہ کی دعوت بھی ضرور آنی چاہیے،*
*تدریس، خطابت ، تصنیف وغیرہ میں دین کا اور دین کی محنتوں کا جامع تصور بار بار آتے رہنا، جزئیات کا استیعاب اور اصلاح میں اعتدال پیدا کر دیتا ہے*
۔ واللہ اعلم

ادارہ کھف الایمان

27 Nov, 06:11


*استقبال کے وقت سلف کا حال*
*ابوبکر جابر قاسمی*
27/نومبر 2024
اجتماعی زندگی میں آؤ بھگت، مصافحے ، گرم جوشی سے ملاقات وغیرہ کا سلسلہ رہتا ہے، ایسے مواقع پر اہل اللہ کا کیا حالِ دل ہوا کرتا تھا اس سے متعلق کچھ *واقعات و ملفوظات* :
◼️ *حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ* کی تعریف کی جاتی تو فرماتے:
*اللهم أنت أعلم مني بنفسي، وأنا أعلم بنفسي منهم، اللهم اجعلني خيرا مما يظنون، واغفر لي ما لا يعلمون، ولا تؤاخذني بما يقولون".*
اے اللہ آپ مجھے مجھ سے زیادہ جانتے ہیں اور میں اپنے آپ کو ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، ان کے گمان سے زیادہ اچھا بنا دیجیے، میری جو کوتاہیاں وہ لوگ نہیں جانتے اسے معاف فرما دیجیے ، جو کچھ میرے بارے میں کہہ رہے ہیں اس پر میری پکڑ نہ فرمائیے۔
◼️ *مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ* کا مجمع سے مصافحہ چل رہا تھا تو مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت یافتہ ایک شخصیت نے ان کے دل کے رخ کو صحیح کرنے کے لیے فرمایا : *مولوی یوسف یہ تمہارا نہیں ، کام سے مصافحہ ہے* تاکہ عجب و کبر پیدا نہ ہو جائے۔
◼️ مشہور آیت دوران خطابت یاد نہیں آرہی تھی تو *حضرت مولانا عمر صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ* خاص کیفیت میں فرمانے لگے : *عمر! تیرا رب تجھے بتا رہا ہے کہ تو نہیں بولتا تھا اللہ تعالی تجھ سے بلواتے تھے*،
اس طرح کا ایک واقعہ *عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ* کا بھی ہے۔
◼️ *حکیم اختر صاحب رحمتہ اللہ علیہ* فرماتے ہیں : اس طرح کے موقع پر دھوکہ کھانے والی کی مثال اس بے وقوف شخص کی طرح ہے جو اپنی مریل بکری بازار میں بیچنے کے لیے دلّال کے پاس گیا وہ دلال جھوٹی تعریفیں کرنے لگا، آسمان زمین کے قلابیں ملا دیے تو مالک نے کہا کہ اس میری بکری میں اتنی خوبیاں ہیں تو میں ہی اسے رکھ لیتا ہوں،
لوگوں کی تعریف و تحسین پر اپنی اصلی حقیقت بھول جانے والا ایسا ہی ناسمجھ ہے۔
◼️ یاد رکھنا وہ *ایاز کا واقعہ کہ محمود* ان سے کافی محبت کرتا تھا، وزراء کو حسد ہوا، ایاز کی ایک عادت تھی کہ وہ بند کمرے میں رکھے ہوئے ایک صندوق کو اہتمام سے دیکھ دیکھ کر رکھاکرتا تھا ، وزرا نے تہمت لگائی کہ اس صندوق میں واقعۃ کچھ رکھا ہوا ہے، کوئی بڑی دولت ہے جو لوگوں سے اتنا چھپا کر رکھی جاتی ہے، صندوق کو لایا گیا، ایاز نے راز فاش کرنا نہیں چاہا ، صندوق کھولا گیا تو ایک پرانا قمیص تھا، دربار والوں کی حیرت کی انتہاء نہیں رہی، آخر ماجرہ کیا ہے ؟!
ایاز نے حقیقت سنائی کہ میں در در کی ٹھوکر کھانے والا فقیر تھا ، بادشاہ محمود نے مجھے اعزاز بخشا اور وزارت کی کرسی پر بٹھایا ، میں اپنے نفس کو قابو میں کرنے کے لیے تنہائی میں جاتا ہوں، قد آدم کے برابر پرانا فقیری کے زمانے کا قمیص پہن کر اپنے ضمیر سے مخاطب ہوتا ہوں:
*ایاز قدرِ خود را بشناس*
ایاز اپنی پرانی اوقات، حقیقی حیثیت کو نہ بھولنا
◼️ ایک موقع پر *حضرت شاہ جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم* نے فرمایا :جیسے لاؤڈ اسپیکر صرف آواز پہنچا رہا ہے اس کا اپنا کمال نہیں ہے، اسی طرح اپنا حال سمجھنا چاہیے کہ خدا کی دی ہوئی اپنی آواز ، گلے وغیرہ سے پیغام پہنچا رہا ہوں ، میرا کیا کمال ہے ،
*نعمت کو خدا کی طرف سے سمجھنا شکر ہے ، نعمت کو ذاتی کمال سمجھنا عجب ہے*۔

ادارہ کھف الایمان

26 Nov, 03:24


khutbat makatib link.cdr

ادارہ کھف الایمان

26 Nov, 03:24


khutbat e makatib.inp

ادارہ کھف الایمان

26 Nov, 03:19


ملازمین کے حقوق.inp

ادارہ کھف الایمان

26 Nov, 03:19


ملازم کے حقوق-1.pdf

ادارہ کھف الایمان

23 Nov, 13:15


*مہاراشٹر کے الیکشن کے بعد*

*✍️مفتی ابوبکر جابر قاسمی*

20/جمادی الاولی 1446
23/نومبر 2024

الیکشن میں جو محنت اپنی سمجھ بوجھ اور قوم کی خدمت کے ارادے سے کی گئی وہ کامیابی ہی ہے اگر اخلاص و للہیت کے ساتھ ہوئی، الیکشن کے بعد دوسرے فریق کے بارے میں توہین و اہانت سے بچنا ہی شیطان کا کھلولنا نہ ہونا ہے
پارٹیاں اپنے مادی مفادات کی وجہ سے( باوجود الیکشن کے وقت اختلاف کے ) مصالحت کر لیتی ہیں، ہمیں اپنی ایمانی و اخروی مفاد اور دیگر کاموں میں باہمی تعاون رکھنے کے لیے باہمی دلی موافقت کرلینا چاہیے ؛ بہرحال اپنے اتحاد وہ اعتماد کو باقی رکھیں، وقتی سیاسی انقلاب کلّی ہمہ جہتی انقلاب نہیں ہو سکتا ، پوری قوم و ملک کو بدلنے کا سفر سینکڑوں سال کو چاہتا ہے، تعلیمی، سماجی بیداری اور رجال سازی کے بعد آنے والا سیاسی انقلاب مفید ہوتا ہے ورنہ وہ صرف انارکی و خانہ جنگی بن جاتا ہے۔
اپنا سوچا ہوا امیدوار جیت جائے یا ہار جائے ، مسلسل کام کی ضرورت باقی رہتی ہی ہے، اوقاف بچ جائیں، فسادات تھم جائے ، دستور کا تحفظ ہوجائے، ہر باشندے کو انصاف، امن ، تعلیم برابر ملے، منافرت و تشدد کا ماحول ختم ہو، کسان اور خواتین کو حفاظت ملے وغیرہ جزئیات پر افراد و اموال کی بہت صلاحیت جھونکنا پڑے گا ۔
منتخب ہونے والے امیدوار سے تعلق بڑھانا، حلقہ اسمبلی،حلقہ پارلمانی کے مسائل حل کروانا، مشترکہ اہم موضوعات پر تعاون لیتے رہنا بھی ایک ملی کام ہے۔
الیکشن کے بعد ممکنہ تدبیر کے بعد بندہ مومن تقدیر پر راضی ہوتا ہے، فتح یا شکست سے ضرور عبرت لیتا ہے ، اب کوئی ایسا تبصرہ ، تجزیہ، قلم بازی نہیں ہونی چاہیے کہ بچی کُچی محبت ختم ہو جائے ، مزید شیطان کے تقسیم و انتشار کے مشن کا آلہ کار بن جائے ، قوم و ملت کی خدمت کے بہت سے میدان اب بھی ہر ایک کے لیے کھلے ہیں، بلا مقابلۂ غیر ہم سب اس کے لیے اب فارغ ہو جائیں۔

ادارہ کھف الایمان

21 Nov, 13:08


Participation in the Global Educational Conference - Comments.pdf

ادارہ کھف الایمان

05 Nov, 05:14


ضدی بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟

خطاب  مفتی ابوبکر جابر قاسمی

ادارہ کھف الایمان

05 Nov, 05:12


چوتھی بات
حقیقت یہ ہے، بہت بڑی سچائی یہی ہے سب سے پہلی دوا یہی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو وقت نہیں دیتے ہیں، نہ ہم اپنی تربیت کے لیے وقت دیتے ہیں نہ بچوں کی تربیت کے لیے وقت دیتے ہیں، ہم سوچتے ہی نہیں ہیں کہ میں خود ہی انتہائی جاہل ہوں ،قرآن پڑھنا نہیں جانتی، میں خود ہی ناواقف ہوں شریعت کے علم سے، میں خود ہی دور ہوں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے، مجھے ہی کسی اللہ والے کی صحبت نہیں ملی، میں عقیقے اور شادی کے مسائل کو کبھی سنجیدگی سے پڑھا ہی نہیں، آج تک ایسا کوئی سرپرست نہیں ملا، ایسی کوئی ماں نہیں ملی ،ایسا کوئی باپ نہیں ملا جو آکر یہ کہتا ہو مولانا میری تربیت کیجئے تاکہ میں بچوں کی صحیح تربیت کر سکوں۔

پانچویں بات
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ ضد پوری کرنا عادت خراب کر دیتا ہے، جب کسی بچے کو یہ پتہ چلتا ہے کہ دروازے پٹخنے سے، برتن زمین پر مارنے سے، فلانا شیشہ توڑنے سے میرا مطالبہ پورا ہو جائے گا تو پھر وہ ہمیشہ اپنی ضد سے اپنے مطالبے کو پورا کرنے کا عادی ہو جاتا ہے، ضرور جائز خواہش پوری کیجیے، کھانے کی اچھی چیزیں مطالبے سے پہلے کھلائیے لیکن ضد پوری کرنے کی عادت مت ڈالیں، سارے ماہرین نفسیات نے اور سارے اکابر علماء نے لکھا ہے کہ ماں باپ اور خاندان کا انتشار بچے کو ضدی بناتا ہے، ماں باپ اور خاندان کا انتشار بچے کو ضدی بناتا ہے، گالیاں سیکھا کہاں سے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا تبھی تو، اپنے چچا اپنے دادا اپنی دادی کو کہتے ہوئے سنا تبھی تو، والدین اور خاندان کا انتشار ، بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے اوپر سے نیچے تک کالے دھاگے پہنا دیجئے، اپنی بداخلاقی کو نہ سدھاریے، اپنی ضد والی عادت کو ہرگز نہیں چھوڑے ، خوشحال اور اہل ثروت گھرانے بہت زیادہ سینسٹیو ہوتے ہیں، بچوں کو مکتب میں بھی بھیجنا نہیں چاہتے، ٹیوشن پڑھانا چاہتے ہیں میرا بچہ میرا بچہ میرا بچہ، معاشرے کے ساتھ انضمام کا موقع نہ دینا ، معاشرے میں گھلنے ملنے کا موقع نہ دینا، بچے کو دوستی کرنے دیجیے اچھی جگہ پر، خاندان میں صلہ رحمی کے عنوان پر ملاقات کے لیے لے جائیے، بیٹا ہم دادی کے پاس جا رہے ہیں، بیٹا ہم نانی کے پاس جا رہے ہیں، ہم بیمار کی عیادت میں جا رہے ہیں، ان کے جنازے کے بعد ہم تعزیت میں جا رہے ہیں، مسجد میں ساتھ میں جانے والے دوست، مکتب میں ساتھ میں جانے والے دوست، کلاس کا فلانا ساتھی بیمار ہے اس کے لیے دعا کیجئے، آپ کا فلانا ساتھی بیمار ہے اللہ اسے شفا عطا فرمائے، آپ ایک طالب علم کے لیے کھانا زائد لے جائیے تاکہ اگر کوئی ٹفن نہ لایا ہو تو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لو، معاشرے کے ساتھ انضمام کی عادت ڈالیں، سکیڑ کر رکھنا، باندھ کر اور مقید کر کے رکھنا، قید خانے میں بند کر دینا، اپنے خول میں جکڑ کر رکھنا یہ چیزیں بچے کو ضدی بنا دیتی ہے۔

والدین کی طرف سے احساسات کا تحفہ۔
یہ بہت اہم تحفہ ہے ، اپنے بچے کے اپنی بچی کے جب وہ کم عمر ہو خاص طور پر پیشانی کو بوسہ دینا، ہاتھ کو بوسہ دینا، اسکول سے رخصت کرتے وقت محبت و پیار سے سلام کے ساتھ رخصت کرنا،دروازے پر آکر رخصت کرنا، جب وہ اسکول سے واپس آرہا ہو ،مدرسے سے واپس آرہا ہو جی جان سے کھڑے ہو کر استقبال کرنا ،سلام کرنا۔ احساسات کا تحفہ اپنے قریب جب تک وہ کم عمر ہے سلانا، اٹھاتے وقت پیار کرتے ہوئے اٹھانا ،سلاتے وقت پیار کرتے ہوئے سلانا ،احساسات کا تحفہ بہت اہمیت رکھتا ہے، دوریاں کم ہوتی ہیں۔

بچوں سے اندھی محبت نہ ہو۔
بچے کے ضدی ہونے میں بڑا اثر ہوتا ہے والدین کے اندھے لاڑ سائیکل مانگی گئی دلا دیا گیا، فون مانگا گیا فون دلا دیا گیا، آئی فون مانگا گیا ائی فون دیا گیا، اتنی رقم کا مطالبہ کیا گیا اتنی رقم دے دی گئی، پہلے تو اندھا لاڈ کر دیا جاتا ہے پھر اس کے بعد پابند کیا جاتا ہے، جب وہ بے قابو ہو جاتے جب شاخ اور ڈالی سخت ہو جاتی ہے اندھا لاڑ سے بچیں۔
پیر ذوالفقار صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں نہ ہی غلام بناؤ نہ ہی سیٹ بناؤ اور بعض مربیوں نے لکھا کہ کھلاؤ سونے کا لقمہ، نگرانی کرو شیر کی طرح۔

اسلامی تعلیمات پہلے سکھائیں
عام طور پر ہم اپنی زندگی میں سکھائے بغیر ڈانٹ پٹ کرتے ہیں، ہم نے کب بٹھا کر سکھایا کہ چھینک آنے پر آواز کم کرنا چاہیے، اوپر ہاتھ رکھنا چاہیے، ناک سے نکلنے والی ریزش گندی ہوتی ہے اس کی صفائی کا اہتمام ہونا چاہیے، چھینک آنے پر الحمدللہ کہنا چاہیے، جواب دینے والے کو یہ یرحمک اللہ کہنا چاہیے، ہم نے کب سیکھایا مہمان کے استقبال کا طریقہ دسترخوان پر بیٹھنے کے انداز۔
میوزک واقعتا گناہ ہے، بے پردگی سے بچنا چاہیے نامحرموں سے اختلاط نہ ہو، مانگنا صرف اللہ سے ہے ،کسی کی جیب پہ نظر نہ رکھنا، سوال کرنے سے اللہ فقیری میں اضافہ کرتے ہیں، لینا اللہ سے ہے غیر اللہ کی جیب پر نظر نہ کرنا، خودداری غیرت سکھائے بغیر ہم ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، نصیحت کو پوری طلب سے سنا جائے، ناصح کو اپنا خیر

ادارہ کھف الایمان

05 Nov, 05:12


خواہ سمجھا جائے، درخت کے لیے جیسے پانی کی حیثیت ہے نصیحت کی آپ کی زندگی کے لیے وہی حیثیت ہے۔
سکھائے بغیر ڈانٹ ڈپٹ، دعوت میں جا رہے ہیں کھانے کا طریقہ طمع کے بغیر آدمی کھائے، گرے پڑے بغیر کھائے، دوسروں کی چیزوں کو دیکھ کر رال نہ ٹپکایے، اللہ کے دیے ہوئے پر راضی رہے، ناشکری کے جذبات پیدا ہونے نہ دیں۔
ڈانٹ ڈپٹ سکھائے بغیر غیبت کا گناہ، حسد کا گناہ ہم نے کب بٹھا کر سکھایا تو پہلے سکھائیے اور بار بار سکھائیے۔

ہمیشہ نصیحت ہو
تسلسل اور تحمل ہونا چاہیے نصیحت کرنے میں، غصے کا علاج بچہ کہتا ہے کہ مجھے غصہ آگیا، مجھے غصہ آجائے گا تو سمجھائیے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کے علاج کے طور پر فرمایا ،خاموش ہو جائے، وضو کر لے، پوزیشن بدل لے، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیں۔
فون کا غیر محدود استعمال، واقعتاً ما ں اور باپ کا، افراد خاندان کا غیر محدود استعمال، وہ لطیفہ ہر ایک کی زندگی کی تصویر معلوم ہوتا ہے کہ جس بچے نے لکھا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہو، فون کا اسکرین بننا چاہتا ہوں کہ میرے ماں باپ میرے بڑے جتنا فون دیکھتے ہیں اتنا مجھے دیکھ لیں، وہ لطیفہ بھی زندگی کی حقیقت محسوس ہوتا ہے کہ جب بچی نے لکھا کہ امی ہمیشہ پزا بریانی باہر سے نہ منگوائی ہے اپنے ہاتھ سے بھی کھلائیے۔
آپ کا پیٹ اور پیٹھ کو کھلا رکھنے والا لباس اچھا نہیں لگتا ہے ،آپ کا اللہ کے حکموں میں کوتاہی کرنا اچھا نہیں لگتا ہے، آپ کا نامحرموں سے کھل کھلا کر بات کرنا اچھا نہیں لگتا ہے۔

فزیکلی ورزش ہونا چاہیے، ضدی بچوں کی تربیت ہو یا عام بچوں کی تربیت ہو سچی بات یہی ہے کہ ہم نے فزیکلی ایکٹیوٹی کو ختم کر دیا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کن کن واقعات کو سنایا جائے، آپ اپنی کمر پر نواسوں کو لے کر کیسے کھیلا کرتے تھے،آپ امی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو لے کر دوڑ لگایا کرتے تھے، یہ کوئی بزرگی کے خلاف نہیں ہے، اس سے کوئی بے وقاری نہیں آجائے گی، اس سے کوئی آپ کا مقام نہیں گھٹ جائے گا ،جائز تفریح ہونا چاہیے، جائز کھلونے دلانا چاہیے، ساتھ کھیلنا چاہیے، دل لگی ہونی چاہیے، حضرت عمیر رضی اللہ عنہ سے حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم دلگی کرتے ہیں، حضرت انس سے دل لگی کرتے ہیں ۔

ہمیشہ حسن ظن بھی رکھنا غلط ہے اور ہمیشہ بدگمان ہونا بھی غلط ہے، نہ ہمیشہ اچھا گمان رکھیے میرا بیٹا ایسا نہیں کر سکتا میری بیٹی ایسا نہیں کر سکتی، ہمیشہ حسن ظن رکھنا اور ہمیشہ بدگمانی کرنا تم ہی نے کیا ہوگا ،تم ہی ایسا کر سکتے ہو، بچے کے اعتماد میں اضافہ کرنا چاہیے ،تعریف کیجئے، خوبیوں پر حوصلہ افزائی کیجئے، مقابلہ کروائیے لکھنے، پڑھنے میں، ذکر اور کھیل میں، درود شریف کے پڑھنے میں۔

بچے کے اعتماد میں اضافہ، اسے کام کی ذمہ داری دیں، صفائی کی ذمہ داری، چپلوں کے رائنک کے درست کرنے کی ذمہ داری، صاحب شعور ہیں برتن کے دھونے کی ذمہ داری، کپڑوں کو سلیقے سے رکھنے کی ذمہ داری، بچے کے اعتماد میں اضافہ کرنا کام اور ذمہ داری دے کر، بچے کے اعتماد میں اضافہ کرنا مشورے میں شریک کر کے، آپ کی کیا رائے ہے ہمارے ٹرین کا سفر ہے، آپ کی کیا رائے ہے ہمارا ہوائی جہاز کا سفر ہے ،کون سا سامان رکھا جائے کون کون سی ضروریات کو سمیٹا جائے، کتنے بجے نکلا جائے، چھوٹے بھائی بہن کی ذمہ داری سمجھا کر اعتماد میں اضافہ کرنا، آپ خاندان کے بڑے ہیں آپ خاندان کے پہلے ہیں، آپ تعلیمی اعتبار سے مقتدا بنیے، اخلاقی اعتبار سے مثالی بنیے، صبر و تحمل کے اعتبار سے نمونہ بنیے ،بچے کے اعتماد میں اضافہ کرنا۔
کہانیاں سنانا قرآن کہانیاں سناتا ہے، قدیم سماج میں کہانیاں سنائی جاتی تھیں، بہت موثر طریقہ ، زبردست کوتاہی ہے ہماری زندگی میں، کہانیوں پر کتابیں ہیں ،ویب سائٹس ہیں یوٹیوب پر چینل ہے سنیے سنائیے خود سنائیے ،مشین کے سنانے کی تاثیر کم ہے ہمارے سنانے کی تاثیر زیادہ ہے، کچھ نہ صحیح حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سنائیے۔

اہل اللہ کی صحبت میں لے جائیں
ضدی بچوں کی تربیت میں بہت سہولت ہوتی ہے ،اللہ والوں کے پاس لے جانا، تحنیک کروایا جاتا ہے پیدا ہونے کے بعد کہ کسی اللہ والے کا چانٹا ہوا، کھایا ہوا کھجور کا شیرہ بچے کے پیٹ میں پہلے جائے، اللہ والوں کے پاس لے جانا ،عقیقہ نہیں ہوا عقیقہ کر دیا جائے، کیونکہ حدیث کہتی ہے کہ عقیقہ کرنے سے الا بلا چلی جاتی ہے، اپنے معمولات میں شریک کرنا، ہم دعا کرنے کے لیے بیٹھے ہیں آجاؤ بیٹا آپ بھی دعا کیجیے، آپ کی دعا ہم سے زیادہ قبول ہوگی، نماز پڑھ رہے ہیں آجائیے نماز میں شریک ہو جائیے، ہم درود شریف پڑھ رہے ہیں آپ بھی آجائیے ،ہم واکنگ کے لیے جا رہے ہیں آپ بھی شریک رہیے،اپنے معمولات میں شریک کرنا چاہیے بہت موثر عمل ہے۔

ادارہ کھف الایمان

05 Nov, 05:12


ایک باپ آفس جاتا ہے، سفر میں جاتا ہے، اکثر اسفار میں رہتا ہے، ایسے کو بھی چاہیے کہ اپنے بچے کو اپنے عمل میں شریک کر لیں۔
تحفہ دینا اجنبیوں کے ساتھ بڑی ہمدردیاں اجنبیوں کے ساتھ بڑی دلچسپیاں، اپنے ان دلچسپیوں سے محروم آپ سوچیے میرے بچے کے لیے میں کیا تحفہ لے جاؤں، بیٹا میں نے فلانی جگہ پر دیکھا آپ کو یاد کیا آپ کے لیے تحفہ ہے،حدیث بھی کہتی ہے اصل تو حدیث ہی ہے کہ ہدیہ دلوں کے کینے اور دراڑوں کو ختم کرتا ہے، تحفے اور گفٹ کا جب لفظ آتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں سوائے شادیوں اور فنکشنز کے گفٹ کے اور کچھ نہیں آتا ہے، وہ تو بے جان اور بے تاثیر قسم کے گفٹ ہے جو تقابل اور ایکسچینج میں دیے جاتے ہیں، محبتوں میں اضافے والے تو یہ ہے۔

اولاد میں انصاف نہ کرنے سے بھی ان کے درمیان حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، غلط نوکرانی کا انتخاب، نوکریاں کرنے والے ماں باپ یا گھر میں نوکریاں رکھنے والے ماں باپ نوکرانی مختلف عادتیں خراب کر دیتی ہیں، کھلاتے ہوئے پہناتے ہوئے نہلاتے ہوئے جسم سے کھلواڑ کرتے ہوئے عادتیں خراب کر دیتی ہیں ،حقیقت یہی ہے کہ ہمیں عملی نمونہ بن کے بتانا ہے سو سنار کی ایک لوہار کی، یہی ہے کہ ہمیں عملی نمونہ بن کر بتلانا ہے، مولانا آپ اس کو سمجھائیے یہ سدھر جائے گا تو آپ کو سمجھائیں گے تو کیا آپ قبول کرنے تیار ہیں، مولانا کی اطاعت اسی وقت تک کی جائے گی جب تک کہ چھری ہماری گردن پر نہ چلے، خود مثالی نمونہ بنیے اطاعت میں، خود مثالی نمونہ بنیے اپنی جہالت کے ختم کرنے میں، خود مثالی نمونہ بنیے ساس کو نبھانے میں، خود مثالی نمونہ بنیے نندوں کی خدمت میں، خود مثالی نمونہ بنیے سویرے اٹھنے میں، خود مثالی نمونہ بنیے فون کے بے قابو استعمال سے بچنے میں، خود مثالی نمونہ بنیے ہر وقت کی دعاؤں کا اہتمام کرنے میں، ہم آپ سے بہت اعتماد اور یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ صبح شام کی دعائیں کسی سیکرٹسٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی، کوئی ہارمون کنٹرول کرنے والے ڈاکٹر کی ضرورت نہیں پڑے گی ،کسی کونسلر کی کونسلنگ کی ضرورت نہیں پڑے گی، آپ اپنے بچوں کے ساتھ صبح شام کی دعاؤں کا اہتمام کیجیے، شیطانی طاقتیں بچوں پر جلدی اثر انداز ہوتی ہیں، جیسا کہ ابن قیم نے لکھا ہے، صبح شام کی دعائیں ان شیطانی اثرات سے پاک رکھنے میں، دور رکھنے میں بہت مؤثر ہے، سوالات کے جوابات دینا چاہیے ان کے تجسس کی قدر کرنا چاہیے، آپ نے بہت اہم سوال کیا ہم موقع سے جواب دیں گے ابھی کام کر رہے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد جواب دیں گے پھر جواب دیجیے ان کے جذبہ تعلم اور جذبہ طلب کی قدر کیجیے ،واقعتا تھکا دیتے ہیں واقعتا مسلسل سوالات ہوتے ہیں لیکن کبھی تو دلچسپی لیجئے ،اہمیت دیجئے۔

اولاد کے لیے بددعا نہ کریں
بد دعا کرنے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے، عام طور پر مائیں اپنی ناواقفیت کی وجہ سے بچوں کے لیے بد دعائیں کردیتی ہے، غصہ ہلکا کرنے کے لیے دعا بھی تو دی جا سکتی ہے، اللہ آپ کا بھلا کر دے، اللہ آپ کو علم نافع دے دے ،ملیا میٹ ہو جائے، مٹی پڑ جائے، برباد ہو جائے، غصے میں یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے اللہ تمہارا نصیبہ سنوار دے، اللہ تمہارا مقدر روشن کر دے، مستقبل روشن کر دے ،لیکن بے قابو پن میں بد دعا دینا یہ بھی ضدی بچوں کے کی تربیت میں انتہائی نقصان دہ ہے۔

آخری بات
دعا کا اہتمام ،جب طبیعت بھر جائے، طبیعت پسیج جائے، اپنی بے تاثیری کا احساس ہو جائے کہ میرا کوئی اثر اس بچے پر نہیں ہو رہا ہے، اس وقت اللہ کے سامنے گڑگڑائیے، یہی وقت ہے اللہ کی طرف سے مدد کے اتروانے کا۔
اللہ تعالی ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

مرتب *سید آصف قاسمی استاد کہف الایمان*

ادارہ کھف الایمان

05 Nov, 05:12


*ضدی بچے کی تربیت کیسے کریں۔*

خطاب مفتی ابوبکر جابر قاسمی

ناظم کہف الایمان ٹرسٹ


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه
آج کی مجلس کا بہت ہی اہم اور ہماری زندگیوں کا نہایت ضروری،آئے دن پیش آنے والا مسئلہ آج کی مجلس کا عنوان بنایا گیا ضدی بچوں کی تربیت کیسے ہو؟ شرارت کرنے والے بچوں کی تربیت کیسے ہو؟

ہر ماؤں کو شکوہ ہوتا ہے، ہر باپ کو ناراضگی ہوتی ہے اور پتا نہیں کیا کیا کیاجاتا ہے ان بچوں کو سدھارنے کے لیے، بہت آسان ہے ہمارے معاشرے میں نام بدلنا ،مولانا نام کا اثر ہے کیا؟ کسی کا سایہ ہے کیا ؟کالا دھاگہ پیر میں پہنا دیا جائے، بہت ضدی ہے بچہ دعا پڑھ دیجیے، بہت ضدی ہے بچہ تعویذ لکھ دیجیے۔
ان سارے پہلوؤں کے علاوہ بہت سے اہم اسباب اور بہت سے طریقے بھی ہیں جن طریقوں سے ان ضدی بچوں کی تربیت کی جا سکتی ہے۔

اولاد بہترین نعمت ہے
سب سے پہلی بات اولاد کو اللہ تعالی کی انمول نعمت سمجھیے، کتنی دعائیں مانگی تھی اولاد کے لیے، کتنے خواب دیکھے تھے اولاد کے لیے، پھل درخت پر بوجھ نہیں ہوتا ہے، ہماری اولاد ہمارے اوپر بوجھ کیوں بن رہی ہے؟ شفقت مادری کی کمی ، محبت پدری کی کمی جیسے ماں کی محبت ہونی چاہیے جیسے باپ کی شفقت ہونی چاہیے، سچی بات یہ ہے کہ اس مشینی دور نے اس موبائل کے زمانے نے ان محبتوں اور شفقتوں کو ہماری طبیعت میں کم کر دیا، ختم کر دیا۔
باپ کی شفقت کے واقعات، ماں کی محبت کے واقعات کتابوں میں لکھے ہیں، اس زمانے میں زیادہ سمجھ میں نہیں آتے ہیں، جب ہماری اپنی اولاد سے دوریاں دیکھی جاتی ہیں ،تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ پہلا سبب ہے اولاد کو خدائی انمول نعمت اور تحفہ سمجھیے۔

دوسری بات
بچے کی پیدائش فطرت اسلام پر
اپنے ذہنوں کو تیار کر لیجئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل مولود ۔۔۔۔ یہ بچہ شیطان بن کے پیدا ہو گیا، یہ بچہ انتہائی رذیل اور کمینہ بن کے پیدا ہو گیا، ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، ماں باپ اس کو عیسائی بنا دیتے ہیں، ماں باپ یہودی بنا دیتے ہیں، ماں باپ مجوسی بنا دیتے ہیں، اللہ نے اس کو ایسا نہیں پیدا کیا ہے ۔

تیسری بات
بچوں کی شرارت نعمت ہے۔
حضرت مولانا قاری امیر حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نفسیات کے ماہرین نے بہت کچھ لکھا، اور کچھ پڑھنے کا موقع ہمیں بھی ملا لیکن اللہ والے کی یہ بات بہت باوزن محسوس ہوئی کہ قاری امیر حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ان کی شرارت کو نعمت سمجھیے، اگر یہ بچہ جسمانی اور ذہنی معذور پیدا ہو جاتا تو کونے میں پڑا رہتا، بستر پر لیٹا رہتا کیا آپ اس پر راضی ہیں؟ شرارت نعمت ہے شرارت بتلاتی ہے کہ یہ چاق و چوبند ہے، شرارت بتلاتی ہے کہ یہ متحرک ہے ،شرارت بتلاتی ہے کہ یہ ایک سے چارطرف سوچ سکتا ہے۔ ہمارے حضرت شاہ جمال رحمن صاحب فرماتے ہیں کہ شرارت بچوں کا حق ہے، پیر ذوالفقار صاحب فرماتے ہیں کہ بچوں سے وہ توقعات نہیں رکھنی چاہیے جو بوڑھوں سے توقعات رکھی جاتی ہیں، بچوں سے وہ امیدیں نہیں رکھنی چاہیے جو بڑی عمر کے لوگوں سے رکھی جاتی ہے، واقعتا اس ملفوظ میں غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم سے بڑی کوتاہی ہوتی ہے، بڑے بزرگ ہیں سید سلیم اللہ غوری صاحب دامت برکاتہم وہ فرماتے ہیں کہ قاری امیر حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا بیان چل رہا تھا اور وہ اپنے بچے کو روک ٹوک کر رہے تھے، ادھر مت جاؤ ،وہ خراب مت کرو تو قاری امیر حسن صاحب رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ بچہ ہے اسے چھوڑ دیجئے، آپ بچہ نہ بنیے ۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صاحب سے کہا کہ اپنے بچے کو میرے سے ملاقات کے لائیے، لکھنے پڑھنے کے کام کرتے کرتے ذہن پر بوجھ رہتا ہے، اپنے اپ کو بہلانا چاہتا ہوں اپنے بچے کو لائیے وہ اپنے بچے کو بہت سمجھا بجھا کر لائے، بادب بیٹھنا، ادھر ادھر ہاتھ مت لگانا، حضرت کے قریب نہ جانا حضرت نے کہا کہ بھئی آپ اپنے بچے کو نہیں لائے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت یہی تو میرا بچہ ہے، حضرت نے فرمایا یہ تو بوڑھا ہے مجھے تو بچہ چاہیے تھا کہ جو میرے کندھے پر چڑھتا، میری داڑھی نوچتا ،میری چیزیں گراتا آپ تو اس بوڑھے کو لائے۔ شرارت کو نعمت سمجھنا چاہیے اور شرارت کو ان کا حق سمجھنا چاہیے۔

چوتھی بات
خاندانی نظام کا سکڑ جانا
ہم یہ پہلو بھول جاتے ہیں کہ مکانات چھوٹے ہو گئے،اور ہم میں صبر کم ہو گیا ،خاندانی نظام سکڑ گئے، ہم نے آج سے 25 سال پہلے ،آج سے 30 سال پہلے جو کھیل کھیلے ہیں موجودہ زمانے کے بچے ان کھیلوں کے نام کو بھی نہیں جاتے، ماں باپ میں جو تحمل اور صبر ہونا چاہیے وہ کم ہوگیا،خاندانی نظام سکڑ گیا ، پہلے دادیاں، نانیاں خالائیں، چچیاں مامیاں یہ سب اپنے گودوں میں لیا کرتی، بہلایا کرتی اور مختلف لوریاں دیا کرتیں، لیکن موجودہ زمانے میں خاندانی نظام سکڑ گیا۔

ادارہ کھف الایمان

02 Nov, 16:09


*بچپن میں عظیم کارنامے*

22/ربیع الثانی 1446
26/اکتوبر 2024
از: *ابوبکر جابر قاسمی*
طلبہ اور بچوں میں علم و عمل کا جوش پیدا کرنے کے لیے *"مثالی بچپن"* جیسی کتابیں موجود ہیں، ایک عربی کتاب پیش نظر ہے *"عظماء فی طفولتہم"* *(دکتور محمد منسی قندیل)* میں *عمرو بن جاحظ، حسن بن ھیثم، ابو ریحان بیرونی، صلاح الدین ایوبی، ابن خلدون ، یاقوت حموی ، جابر بن حیان، شہاب الدین بن ماجد، عبدالحمید بن بادیس* وغیرہ کا ذکر کیا کہ بچپن سے ہی ان کی لیاقت و قابلیت کے آثار نظر آتے تھے، *"ہونْہار بِرْوا کے چِکنے چِکنے پات "* ایک سو تینتیس *(133) صفحات* میں کچھ غیر مسلم سائنسدانوں کے بچپن کے احوال کو بھی ذکر کیا ہے،

زمانے کے فتنے اور فون کے استعمال کے مضر اثرات اور خود ہماری کم توجہی کا حل یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس قسم کے مضامین سنائے جائیں۔
*کاش کوئی اہل قلم یا مترجم اس کام کی تکمیل کر لیتے!!*

ادارہ کھف الایمان

02 Nov, 16:09


*ابن غوری*
*میری نظر میں*

*ابوبکر جابر قاسمی*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
راقم نے پڑھنے لکھنے کا ذوق و ذائقہ ابن غوری میں دیکھا ، متقی و مسلّم اکابر سے دیوانگی کی حد تک تعلق رکھتے ہیں، پڑھی گئی کتاب پر تبصرہ، تلخیص، نوٹ، اہم مقامات پر نشان کی نایاب عادت کے حامل ہیں، دسیوں اخبارات و رسائل کے تراشے محفوظ رکھتے ہیں اور بر محل استعمال کرتے ہیں، اخبارات وغیرہ کے مراسلات میں دینی، سیاسی، سماجی ، مشکلات کی طرف مختصر، پر اثر، جامع، تعریضی گفتگو میں شرعی نقطہ نظر سے بھی رائے دی جاتی ہے، چاہے دنیا قدر کرے نہ کرے، اردو زبان کے پڑھنے پڑھانے اور سائن بورڈ میں اس کے استعمال کی طرف متوجہ فرماتے رہتے ہیں، اردو زبان کے نظم و نثر میں تضمین و اصطلاح گری کا عمل جاری رہتا ہے، زبان و فکر میں سطحیت ہرگز نہیں پسند بلکہ نہایت اعلی ذوق ایسا پایا ہے کہ حضرت علی میاں ندوی کی تحریروں پر قربان رہتے ہیں، تاریخ و ایجاد کی غیر معروف شخصیات کو تلاش کر کر کے ان سے نسل نو کو روشناس کراتے رہتے ہیں، پھر قلم کے ساتھ ساتھ قدم یعنی عملی محنت میں (تبلیغی جماعت میں)ابتداء سن شعور سے موجودہ عمر (80 سال) تک لگے ہوئے ہیں، تصنیف و تحقیق میں انتہائی انہماک رکھنے والی صالح اولاد *(مولانا عبدالماجد غوری صاحب حفظہ اللہ ،مولانا زکریا غوری دامت برکاتہم )* اللہ تعالی نے انہیں عطا فرمائی،
رقت و جرات ان کی طبیعت میں ہے، بے فکری کا گزر نہیں ، عمل میں عزیمت پر عامل رہنا چاہتے ہیں ، رواجی کام انہیں مائل نہیں کر سکتا، خوب پڑھتے ہیں، امت کو چھوٹے چھوٹے پمفلٹ سے پڑھوانا بھی چاہتے ہیں، اصلاحیات میں صرف شکوہ نہیں جواب شکوہ یعنی حل بھی پیش کیا جاتا ہے، تمام شعبہ ہائے شریعت کی اہمیت فرق مراتب کے ساتھ اس کی ضرورت کے داعی ہیں ،جمع کیا ہوا ان کا کتابی ذخیرہ کم از کم اس زمانے میں اہل علم کے درمیان بے مثال ہے، *آسان، مختصر مگر مستند چالیس احادیث (برائے اطفال ، تجار ، مستورات) جمع کیے ، کلیات اقبال کو حسب عنوان مرتب کیا، ان کی کتابیں "فکریے" "ابن غوری کے خطوط" اور "سب کے لیے" فکر و نظر کے نئے دروازے کھولتی ہیں۔*

ادارہ کھف الایمان

20 Oct, 05:16


ایک روزہ تربیتی اجلاس
براے ڈاکٹرس( مرد و خواتین)
27/اکتوبر 2024
23/ربیع الثانی 1446

ادارہ کھف الایمان

19 Oct, 16:32


⊙══════⊙══════⊙
محاضرہ علمیہ :  اسلامی تصوف
         از    :   مفتی محمد منیر قاسمی 
                  مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ  حیدرآباد 
⊙══════⊙══════⊙
❖  https://t.me/muftiAbubakarjaberqasmi   ❖

ادارہ کھف الایمان

19 Oct, 16:11


⊙══════⊙══════⊙
محاضرہ علمیہ :  شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
         از    :   مفتی محمد منیر قاسمی 
                  مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ  حیدرآباد 
⊙══════⊙══════⊙
❖  https://t.me/muftiAbubakarjaberqasmi   ❖

ادارہ کھف الایمان

19 Oct, 16:11


⊙══════⊙══════⊙
محاضرہ علمیہ : سرپرستوں کا اساتذہ سے تعلق کیسے ہو؟
         از    :   مفتی محمد منیر قاسمی 
                  مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ  حیدرآباد 
⊙══════⊙══════⊙
❖  https://t.me/muftiAbubakarjaberqasmi   ❖

ادارہ کھف الایمان

19 Oct, 16:10


⊙══════⊙══════⊙
محاضرہ علمیہ :  رویت ہلال؛ احکام و مسائل
         از    :   مفتی محمد منیر قاسمی 
                  مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ  حیدرآباد 
⊙══════⊙══════⊙
❖  https://t.me/muftiAbubakarjaberqasmi   ❖

ادارہ کھف الایمان

19 Oct, 16:09


⊙══════⊙══════⊙
محاضرہ علمیہ :  تدریب المعلمین و المعلمات
         از    :   مفتی محمد منیر قاسمی 
                  مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ  حیدرآباد 
⊙══════⊙══════⊙
❖  https://t.me/muftiAbubakarjaberqasmi   ❖

ادارہ کھف الایمان

19 Oct, 16:09


⊙══════⊙══════⊙
محاضرہ علمیہ :  زکوۃ کے اہم مسائل
         از    :   مفتی محمد منیر قاسمی 
                  مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ  حیدرآباد 
⊙══════⊙══════⊙
❖  https://t.me/muftiAbubakarjaberqasmi   ❖

ادارہ کھف الایمان

19 Oct, 16:06



محاضرہ علمیہ  : حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃاللہ علیہ
محاضر : مفتی محمد تمیم قاسمی 

✺  https://t.me/muftiAbubakarjaberqasmi ✺

1,566

subscribers

589

photos

486

videos