✾فخر ازھر چینل✾ @fakhreazhar Channel on Telegram

✾فخر ازھر چینل✾

@fakhreazhar


اس چینل میں مختلف گروپوں کے حل شدہ مسائل جمع کئے جاتے ہیں.
آپ بھی تشریف لائیں اور دیگر کو بھی شامل کریں

گروپ لنک
✧ @faizaneghaosokhaja ✧

مسائل وتجاویز کیلئے ایڈمین سے رابطہ کیلئے ⇩
✧ @Fakhreazharbot ✧

✾فخر ازھر چینل✾ (Urdu)

آپ کو کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں مل رہا؟ کیا آپ اس پریشانی سے نجات چاہتے ہیں؟ تو پھر آپ کے لیے ہمارا کام آیا! ✾فخر ازھر چینل✾ ایک چینل ہے جہاں مختلف گروپوں کے حل شدہ مسائل جمع کئے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو مختلف مسائل کا حل ملے گا اور آپ بھی اپنی مشکلات کو شیئر کر کے ان کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ یہاں آپ اپنی پریشانیاں بیان کریں اور دوسروں کی مدد بھی کریں۔

اگر آپ بھی یہ محفیل میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو فوراً ہمارے چینل میں شامل ہوں اور دیگر کو بھی بلائیں۔ اس کے علاوہ ، ہمارے گروپ لنک بھی موجود ہیں جہاں آپ مزید مسائل اور تجاویز کے لئے شامل ہوسکتے ہیں۔

تو بغیر کسی دیر کیئے اب ہمارے چینل کو جوائن کریں اور مسائل کے حل میں شریک ہوں۔ مل کر ہر مسئلے کا حل تلاش کریں۔

مسائل اور تجاویز کے لیے ہمارے ایڈمن سے رابطہ کرنے کیلئے ہمارے بوٹ کو استعمال کریں: ✧ @Fakhreazharbot ✧

✾فخر ازھر چینل✾

03 Nov, 14:50


⚪️ اسی سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ کچھ لوگ جو ناواقفی میں "جمادی الآخَرۃ"(خا کے فتحہ کے ساتھ) کہہ دیتے ہیں، یہ بھی صحیح نہیں۔ کیوں کہ آخری کا معنی دینے والے "الآخِر" کی مونث بھی خا کے کسرہ ہی کے ساتھ "الآخِرۃ" ہے۔ خا پر فتحہ دینا خطا ہے۔ اور اگر "آخَر/الآخَر"(بفتحِ خا) کو دیکھا جائے تو اس کی مونث "الآخَرۃ"(بفتح خا) نہیں آتی ہے بلکہ "اُخری" آتی ہے۔ اس لیے خا کے فتحے کے ساتھ "جمادی الآخَرۃ" کہنا بھی کسی طور سے صحیح نہیں بن رہا ہے۔

حاصل یہ کہ "جُمَادَی الآخِرۃ" کو "جمادی الأُخْریٰ" یا "جمادی الآخِر" یا "جمادی الثانیۃ" یا "جمادی الثانی" یا "جمادی الآخَرۃ" کہنا صحیح نہیں۔ اسی طرح "جمادی الأولی" کو "جمادی الأول" کہنا یا دونوں ناموں میں "جُمَادَی" (بروزنِ فُعَالَیٰ) کو اس کے وزن سے ہٹا کر "جُمَادِی" و "جَمادِی" کہنا بھی صحیح نہیں۔ نیز ربیع الآخِر کو ربیع الثانی کہنا درست نہیں۔

ہم فتاوی رضویہ کے اس جملے کو "حرفِ آخِر" کے طور پر درج کرتے ہوئے اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں کہ :
*"مہینے کا عَلَم "جُمادَی الآخِرۃ"ہے۔ اَعلام میں تصرف کیسا؟!"*
واللہ تعالی اعلم۔

*✍️ نثار مصباحی*
۱۲ فروری ۲۰۲۱ء (جمعہ)

✾فخر ازھر چینل✾

03 Nov, 14:50


- علامہ ابوالعباس احمد الفیومی المقری (متوفی ۷۷۰ھ-تقریباً) اپنی مشہور زمانہ اور مستند فقہی ڈکشنری "المصباح المنير" میں لکھتے ہیں:
"ربيع الشهور اثنان، قالوا: لا يقال فيهما إلاَّ (شهر ربيع الأوَّل، وشهر ربيع الآخر"
ترجمہ : مہینوں کے "ربیع" دو ہیں۔ علما فرماتے ہیں کہ: ان دونوں مہینوں کو "ماہِ ربیع الاول" اور "ماہِ ربیع الآخِر" کے سوا کچھ اور نہیں کہا جائے گا۔ (المصباح المنير)

⚪️ کچھ لوگ "جمادی" کی دال پر کسرہ دیتے ہوئے اسے "جَمادِی" یا "جُمَادِی" کہتے ہیں۔ یہ بھی صحیح نہیں۔ کیوں کہ مہینے کا نام "جُمَادَی" دراصل "فُعَالَیٰ" (مونث) کے وزن پر "جُمَادَی" ہے۔ جیسا کہ اوپر تصریحات ہم نے ذکر کی ہیں۔ اس لیے دال کو کسرہ دینے سے کلمہ اپنے وزن سے ہٹ جائے گا۔
علاوہ ازیں دال کو کسرہ دینے میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ کلامِ عرب میں مونث کے لیے "فُعَالِی" کا وزن بغیر ہا کے ہے ہی نہیں۔ یعنی اگر کلامِ عرب میں کوئی کلمہ فُعَالِی"(بکسر اللام) کے وزن پر آیا ہے تو اس کے آخر میں حرف ہا (گول تا/ۃ جو وقف کی صورت میں ہا ہوجاتی ہے) ضرور آیا ہے۔ جیسے "قُراسِیہ" "صُراحِیہ" اور "عُفارِیہ" وغیرہ۔ اور یہاں لفظ "جمادی" ہے "جمادیہ" نہیں ہے، اس لیے یہاں دال کو کسرہ دے کر "جُمادِی" نہیں کہا جا سکتا۔

- امامِ نحو، علامہ ابو بکر زبیدی اندلسی (متوفی ۳۷۹ھ) فرماتے ہیں:

“يقولون "جُمادِي الأولى" فيكسرون الدال. ﴿قال أبو بكر :﴾ والصواب “جُمادَى”، وليس في الكلام “فُعالِي” إلا والهاء لازمة نحو “قُرَاسِيّة” و “عُفَارِيّة” و “صُرَاحِيّة”۔

(التهذيب بمحكم الترتيب،(الجمع بين كتابي أبي بكر الزبيدي في لحن العامة) ، مولف : ابن شُہَید اندلسی، ص ٧٦، طبع : دار البشائر الإسلامية، ط اول، ١٤٢٢ھ/۲۰۰۲ء)

⚪️ "جُمادَی" کی صفت "الآخِرۃ" ہے۔ یہ خا کے کسرہ کے ساتھ ہے ، اور "آخِر" کی مونث ہے۔ "آخِر" اول کی ضد ہے۔ جس کا معنی پچھلا اور آخری ہے۔ قرآن کریم میں ہے : هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ (الحديد : ٣)
کہا جاتا ہے : الیوم الآخِر، آخری دن یعنی قیامت کا دن۔
اسی سے ملتا جلتا ایک لفظ "آخَر/الآخَر" ہے، خا کے فتحہ کے ساتھ۔ اس کی مونث "فُعلیٰ" کے وزن پر "أُخْریٰ" آتی ہے ۔اس کا معنی "ایک اور"، "دوسرا"، اور "غیر" ہے۔
کہا جاتا ہے:ثوبٌ آخَر۔ دوسرا کپڑا۔
یعنی "اُخری" اور "آخِرۃ" دو الگ لفظ ہیں۔ اور دونوں کا معنی بھی الگ ہے۔ "آخِرہ" یہ آخری کے معنے میں ہے اور "اول" کا مقابل ہے۔ جب کہ "اُخریٰ" صرف "ایک اور"، "غیر" اور "دوسرا" کے معنے میں ہے۔ یہ "اوّل" کا مقابل نہیں ہے۔ اور نہ ہی "آخری" ہونے پر یہ دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے :
وَ لِیَ فِیهَا مَـَٔارِبُ أُخۡرَىٰ [طه : 18]
وَلَقَدۡ مَنَنَّا عَلَیۡكَ مَرَّةً أُخۡرَىٰۤ [طه : 37]
وَمِنۡهَا نُخۡرِجُكُمۡ تَارَةً أُخۡرَىٰ [طه : 55]
وَٱضۡمُمۡ یَدَكَ إِلَىٰ جَنَاحِكَ تَخۡرُجۡ بَیۡضَاۤءَ مِنۡ غَیۡرِ سُوۤءٍ ءَایَةً أُخۡرَىٰ [طه : 22]
قَدۡ كَانَ لَكُمۡ ءَایَةࣱ فِی فِئَتَیۡنِ ٱلۡتَقَتَاۖ فِئَةࣱ تُقَـٰتِلُ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ وَأُخۡرَىٰ كَافِرَةࣱ [آل عمران : 13]
ان تمام آیات میں "اُخْرَیٰ" : "دوسرا"، اور "ایک اور" کے معنے میں ہے۔ کہیں بھی آخری ہونے پر اس کی دلالت نہیں ہے۔
بہت سے لوگ "جمادی الآخِرۃ" کو "جمادی الاُخریٰ" لکھتے اور بولتے ہیں۔ اگرچہ بعض کتابوں میں اسے صحیح کہا گیا ہے مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیوں کہ یہ نام میں تبدیلی بھی ہے اور یہ اول کے مقابل آخری کا معنی بھی نہیں دیتا جو اس مہینے کے نام میں مقصود ہے۔ اور جس فائدے کے لیے اہلِ عرب نے جمادی کے ساتھ "آخرہ" کا لفظ استعمال کیا ہے، "اُخریٰ" کہنے سے وہ فائدہ منتفی ہوجاتا ہے۔ "اُخریٰ" کا لفظ اس معنی و افادہ سے خالی ہے، وہ اولیت و آخریت پر دلالت ہی نہیں کرتا، بلکہ محض "ایک اور" پر دلالت کرتا ہے۔ جب کہ "آخرۃ" "آخری" کا معنی دیتا اور آخریت پر دلالت کرتا ہے۔ حاصل یہ کہ "اُخری" کہنے سے آخریت کا وہ فائدہ اور تخصیص حاصل نہیں ہوتی، جو "آخِرَہ" کہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ عَلَم میں تبدیلی بھی ہے، لہذا درست نہیں۔
- تاج العروس میں ہے :
"والآخَر: بفَتْحِ الخاءِ : أَحَدُ الشَّيْئين،بِمَعْنى غَيْرٍ، كقولكَ: رجلٌ آخَرُ، وثَوْبٌ آخَرُ
والأُنْثَى:أُخْرَى."
- مختار الصحاح میں ہے :
وَالْآخَرُ،بِفَتْحِ الْخَاءِ: أَحَدُ الشَّيْئَيْنِ وَهُوَ اسْمٌ عَلَى أَفْعَلَ. وَالْأُنْثَى:أُخْرَى"

- علامہ فیومی "المصباح المنير" میں لکھتے ہیں :
«و(جُمادى) من الشهور، مؤنَّثة، قال ابن الأنباري: وأسماء الشهور كلّها مُذَكَّرة إلا جُمادَيين، فهما مؤنثتان،................والأولى والآخرة: صفة لها، *فالآخرة بمعنى المتأخِّرة*، قالوا : *ولا يقال: جُمَادى الأُخرى؛ لأنَّ الأخرى بمعنى الواحدة، فتتناول المتقدمة و المتأخرة فيحصل اللبس، فقيل الآخِرة لتخَتصّ بالمتأخِّرة"*.

✾فخر ازھر چینل✾

03 Nov, 14:50


ترجمہ : لوگ "فِی جمادِی الأوّل"(دال کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں۔ جب کہ درست "جُمَادَی الأُولی"(دال کے فتحہ کے ساتھ) ہے، حُبَارَیٰ کے وزن پر۔ البتہ اسے "ی" کے ساتھ لکھا جائے گا، اور اس کا الف(مقصورہ) تانیث کے لیے ہے۔ مہینوں میں "جُمادَی" کے سوا کوئی مونث نہیں۔ اسی لیے اس کی صفت بھی مونث آئی، اور "جُمَادَی الأُولىٰ" و "جُمَادَی الآخِرَۃ" کہا گیا۔ اور (مذکر صفت کے ساتھ) "جمادی الأول" و "جمادی الآخِر" جائز نہیں۔ (تثقيف اللسان و تلقيح الجنان، ص ٢٢١)

⚪️ نیز "ربیع الآخِر" کو "ربیع الثانی" کہنا یا "جمادی الآخرۃ" کی صفت "الثانیہ" لگا کر "جمادی الثانیہ" کہنا درست نہیں (اگر چہ بعض اہلِ علم کے کلام میں یہ موجود ہے) کیوں کہ یہاں اگرچہ موصوف و صفت میں مطابقت ہے، مگر اہلِ عرب بغیر ثالث کے "ثانی" نہیں بولتے ، یعنی اگر "تیسرا" نہ ہو تو "دوسرا" نہیں بولتے ہیں۔ جب کہ یہاں نہ تو کوئی تیسرا "ربیع" ہے اور نہ تیسرا "جمادی"۔ اس لیے "الآخر" اور "الآخِرۃ" کی جگہ "الثانی" اور الثانیۃ" کا استعمال، وضع شدہ عَلَم اور طریقۂ عرب کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔
- اعلی حضرت امام احمد رضا قادری ایک نام نہاد عرب کی عربی پر گرفت فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں:
*"جمادی الثانی" ؟؟!!* مونث کی صفت مذکر؟؟!! حضرت نے "جمادی" کا کوئی تیسرا بھی دیکھا ہوگا، کہ عرب "ثانی" بے "ثالث" نہیں بولتے۔"(فتاوی رضویہ)
یعنی "جمادی الثانی" کہنے میں دو خرابیاں ہیں: پہلی یہ کہ جمادی مونث کی صفت "الثانی" مذکر لائی گئی ہے۔ جو درست نہیں۔ اور دوسری یہ کہ "الثانی"(دوسرا) وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی تیسرا بھی ہو، جب کہ یہاں کوئی تیسرا "جمادی" نہیں ہے۔
((نوٹ : یہ لحاظ کچھ حد تک ہماری اردو زبان میں بھی پایا جاتا ہے۔ اگر ہماری کوئی تحریر دو قسطوں میں ہوتی ہے تو ہم پہلی قسط کے لیے "پہلی قسط" کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور دوسری کے لیے "آخری قسط" یا "دوسری اور آخری قسط" لکھتے ہیں۔ صرف "دوسری قسط" نہیں لکھتے تاکہ ہر ناظر یہ جان لے کہ اس تحریر کی کوئی تیسری قسط نہیں ہے۔ اگر اس آخری قسط کو صرف "دوسری قسط" لکھا جائے تو ناظر کو تیسری قسط کے بھی موجود ہونے کا اِیہام ہوگا۔))

- ماضی قریب کے معروف عراقی زبان داں ڈاکٹر مصطفی جواد (متوفی ۱۹۶۹ء) نے اپنی کتاب *"قل، ولا تقل"* کے حصہ دوم میں لکھا ہے:
قل: جُمادى الأولى وجُمادى الآخرة۔
ولا تقل: جَماد الأول وجَماد الثاني،
لأن جُمادَى على وزن فُعالى هو الإسم الصحيح لهذا الشهر، والألف فيه للتأنيث، ولذلك قالوا : “الأولى” و “الآخِرة”۔ وجُمادى مثل قُصارى من أوزان الأسماء المفردة۔
للعرب جُماديان : الأولى والآخرة، وربيعان : الأول والآخِر، ولغيرهم كانونان : الأول والثاني، ولو كانوا عرباً لقالوا : “الآخِر”۔ ولهم تشرينان : الأول والثاني، ولو كانوا عرباً لقالوا “تشرين الآخِر”.
ولا يخفى ما في قول العرب “الآخِر والآخِرة” من فائدة، وذلك أنهم أرادوا أن يُفهموا السامع أنه ليس عندهم ربيع ثالث ولا جمادى ثالثة، على حين ان قول غيرهم “تشرين الثاني” لا يمنع أن يأتي “تشرين ثالث” وقولهم “كانون الثاني” لا ينفي أن يكون لهم “كانون ثالث”.

ترجمہ : "جُمادَى الأُولىٰ" اور "جُمَادَى الآخِرَۃ" کہو۔ "جَماد الأول" اور "جماد الثانی" نہ کہو۔ اس لیے کہ فُعَالَیٰ کے وزن پر جُمَادَیٰ ہی اس مہینے کا صحیح نام ہے۔ اس میں الف(مقصورہ) تانیث کے لیے ہے۔ اسی لیے اہلِ عرب نے (جُمَادَی کے ساتھ مونث صفت لاتے ہوئے) "الاُولیٰ" اور "الآخِرَۃ" کہا ہے۔
قُصارَیٰ کی طرح جُمادی اسماے مُفردہ کے اوزان سے ہے۔
اہلِ عرب کے یہاں دو "جمادی" ہیں: "الأُولىٰ" اور "الآخِرَۃ"۔ اور دو "ربیع" ہیں: "الأَوَّل" اور "الآخِر"۔ اور غیروں کے دو "کانون" ہیں: "کانون الأول"(دسمبر)، اور "کانون الثانی"(جنوری)۔ اسی طرح غیروں کے یہاں دو "تشرین" ہیں: "تشرين الأول"(اکتوبر) اور "تشرین الثانی"(نومبر)۔(یعنی انھوں نے "آخِر" کے بجاے "ثانی" کہا ہے) اگر یہ لوگ عرب ہوتے تو یہ لوگ ضرور "تشرین الآخِر" کہتے۔(تشرین الثانی نہ کہتے)۔
اہلِ عرب نے جو "الآخِر" اور "الآخِرَۃ" کہا ہے، اس کا فائدہ پوشیدہ نہ رہے۔ انھوں نے چاہا کہ سامع کو یہ سمجھا دیں کہ ان کے یہاں کوئی تیسرا "ربیع" نہیں، اور نہ ہی کوئی تیسرا "جُمادی" ہے۔ (اس لیے انھوں نے "ربیع الآخِر" اور "جمادی الآخرۃ" کہا۔ اگر وہ "ربیع الثانی" اور "جمادی الثانیۃ" کہتے تو یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اور تیسرے ربیع و جمادی کی نفی نہیں ہو پاتی۔) جب کہ غیروں کا قول "تشرین الثانی" کسی "تشرین ثالث" کی آمد کو نہیں روکتا، اور ان کا قول "کانون الثانی" کسی "کانونِ ثالث" کی نفی نہیں کرتا۔
(قل و لا تقل، حصہ دوم ص ۷۶)

✾فخر ازھر چینل✾

03 Nov, 14:50


- تاج العروس شرح قاموس میں ہے:
جُمَادَى ،كحُبَارى: مِنْ أَسْمَاءِ الشُّهُور العرَبيَّة. وهما جُمَادَيَانِ. فُعَالى من الجَمْد،
*مَعْرفَةٌ؛ لكَونهَا علَماً على الشَّهْر.* مُؤنَّثَة۔
سُمِّيَتْ بذالك لجمُودِ الماءِ فِيهَا عِنْد تسمِيةِ الشُّهُورِ.
قَالَ الفرَّاءُ: الشُّهُور كلّها مُذَكّرة إِلاّ جُمادَيَينِ فإِنّهما مُؤنّثان.
- لسان العرب میں ہے:
جُمَادَى الأُولى وَجُمَادَى الْآخِرَةِ، *بِفَتْحِ الدَّالِ فِيهِمَا*، مِنْ أَسماء الشُّهُورِ، وَهُوَ فُعَالَى منَ الجمد۔ ابْنُ سِيدَهْ: وَجُمَادَى مِنْ أَسماء الشُّهُورِ مَعْرِفَةٌ سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِجُمُودِ الْمَاءِ فِيهَا عِنْدَ تَسْمِيَةِ الشُّهُورِ؛ وَقَال الْفَرَّاءُ: *الشُّهُورُ كُلُّهَا مُذَكَّرَةٌ إِلا جُمَادَيَيْنِ فإِنهما مؤَنثان*۔

- امام فرّاء (متوفی ٢٠٧ھ) کی طرف منسوب کتاب *"الأیام و اللیالی والشہور"* میں ہے :
"الشهور كلها مذكرة، تقول: هذا شهر كذا، إلا جماديين، فإنهما مؤنثان. لأن جُمادَى جاءت على بنية فُعَالَى، و فُعَالَى لا تكون إلا للمؤنث. تقول: هذه جُمادَى الأُولى وَ هذه جُمَادَى الآخِرَة."

مذکورہ عبارات سے جہاں یہ واضح ہوا کہ صحیح و درست جُمادَی( جیم کے ضمہ اور دال کے فتحہ کے ساتھ )ہے ،وہیں یہ باتیں بھی معلوم ہوئیں:
◼️ جمادی الأولی اور جمادی الآخرۃ یہ دونوں عربی مہینوں کے عَلَم(نام) ہیں۔
◼️ دونوں ناموں میں "جمادی" کی دال پر فتحہ ہے۔ کوئی اور حرکت نہیں۔
◼️ "جمادی الأولی اور جمادی الآخرۃ" مونث ہیں۔ اور ان دونوں کے علاوہ سارے عربی مہینوں کے نام مذکر ہیں۔
◼️ جب ان مہینوں کے نام رکھے جا رہے تھے اس وقت عربوں کے یہاں سال کے پانچویں اور چھٹے مہینے میں سخت سردی کی وجہ سے پانی جم جاتا تھا اس لیے وہ ان دونوں مہینوں کو "جمادی" کہنے لگے۔ (ان دو مہینوں کی ایک اور وجہِ تسمیہ بھی بیان کی گئی ہے، جو بعض متعلقه کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔)

⚪️ واضح رہے کہ مہینوں کے نام اہلِ عرب سے جس طرح منقول ہیں اسی طرح لازم ہیں۔ ان کی صورت مسخ نہیں کی جا سکتی، اور نہ ہی قیاس کی بنیاد پر انھیں بدلا جا سکتا ہے۔ اگر قیاس کی بنیاد پر تبدیلی درست ہوتی تو امام فراء کے بقول: اگر جیم کے کسرہ کے ساتھ "جِماد"(بر وزنِ: عِطاش و کِسال) بھی وارد ہوتا تو بھی درست ہوتا۔ مگر اہلِ عرب سے یہ صرف "فُعَالَیٰ" کے وزن پر منقول ہے۔ اس لیے یہی لازم ہے۔
*"الأیام و اللیالی والشہور"* میں ہے :
*"قال الفراء : هكذا جاء عن العرب بضم الجيم، لا غير. و لو جاء جِماد بالكسر كان صوابا"*
(الأیام و اللیالی والشہور، ص ۴۲)

⚪️ ان چاروں مہینوں (ربیع الأول، ربیع الآخِر، جمادی الأولی، جمادی الآخِرۃ) کے نام دو-دو لفظوں سے مرکب ہیں، اور یہ سبھی مرکب توصیفی یعنی موصوف-صفت ہیں۔ موصوف و صفت کے بارے میں یہ ضابطہ سب کو معلوم ہے کہ اگر وہ وصف اسی موصوف کا ہو، اس کے کسی متعلق کا نہ ہو، تو تذکیر و تانیث میں موصوف و صفت دونوں کے درمیان مطابقت ضروری ہے۔ اور یہاں اول و آخر ہونا "ربیع" و "جمادی" ہی کا وصف ہے۔ اسی وجہ سے "ربیع" مذکر کے ساتھ "الأول" اور "الآخِر" مذکر صفتیں ہیں اور "جمادی" مونث ہے تو اس کے ساتھ "الاُولیٰ" اور "الآخِرۃ" مونث صفتیں ہیں۔ ("الأول" کی مونث "الاُولیٰ" ہے، اور "الآخِر" کی مونث "الآخِرۃ" ہے۔)
اسی سے ظاہر ہو گیا کہ جمادی کے ساتھ "الثانی" یا "الآخِر" لگا کر "جمادی الثانی" اور "جمادی الآخِر" کہنا، یا "جُمَادَیٰ الاُولیٰ" کو "جمادی الأول" کہنا درست نہیں۔ کیوں کہ یہاں موصوف و صفت کے درمیان تذکیر و تانیث میں مطابقت نہیں ہے۔
- تاج العروس میں ہے:
والآخِرُ: خلافُ الأَوَّلِ
وَهِي، أَي الأُنْثَى : الآخِرَۃ، بهاءٍ۔
- مختار الصحاح میں ہے:
وَالْآخِرُ: بِكَسْرِ الْخَاءِ بَعْدَ الْأَوَّلِ وَهُوَ صِفَةٌ تَقُولُ:جَاءَ آخِرًا، أَيْ أَخِيرًا۔
وَالْأُنْثَى : آخِرَةٌ۔
- ابن بَرّي المقدسي المصري (متوفی ۵۸۲ھ) اپنی کتاب *"غلط الضعفاء من الفقهاء"*(غلط الفقہاء-صفحہ ۲۸) میں ایک غلطی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"يقولون: (جُمَادى الأَوَّلِ) و (جُمادَى الآخِرِ) . والمشهورُ: جُمادَى الأُولى وجُمادَى الآخِرةُ، *لأَنَّ النعْتَ لجُمادَى، وهي مؤنثةٌ.*"

- امام ابن مکی الصقلی(ابو حفص عمر بن خلف النحوی) متوفی ۵۰۱ھ اپنی کتاب "تثقيف اللسان" میں لکھتے ہیں:
"يقولون : في جمادِي الأوّل۔
*والصواب : جُمادَى الأُولى بفتح الدال، على وزن حُبارى*. إلا أنها تكتب بالياء، و ألفها للتأنيث. و ليس في الشهور مؤنث سوى جمادى. ولذلك كان نعتها مؤنثا، فقيل: جُمادى الأولى وجُمادَى الآخِرة. *و لا يجوز "الأوَّل" و لا "الآخِر"*.

✾فخر ازھر چینل✾

03 Nov, 14:50


*"ربیع الآخِر، "جمادی الأُولیٰ" اور "جُمادَی الآخِرۃ"*

تحریر :
-مفتی نثار احمد مصباحی (خلیل آباد)
- مفتی محمد شاہد رضا مصباحی (جمشید پور)

(نوٹ: یہ تحریر تقریبا 20 دن پہلے (جنوری 2021) کی ہے۔ اس تحریر کی بنیاد اسی عنوان پر برادرِ گرامی مفتی شاہد رضا مصباحی (مرکزی دار القراءت، جمشید پور) کی ایک مختصر تحریر ہے، جس کا مسودہ انھوں نے میرے پاس از راہِ دوستی ایک نظر دیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔ خاکسار نے ان کی تحریر میں حذف و ترمیم کی، اسے آراستہ کیا، اور اصل تحریر سے بھی زیادہ مقدار میں اضافے درج کیے۔ اس طرح یہ مکمل تحریر سامنے آئی۔ اس تحریر میں فقیر کا حصہ ۷۵ فیصد بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس لیے انھوں نے ایثار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب یہ آپ ہی کے نام سے شائع ہوگی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سبقت اور تقدم انہی کے لیے ہے۔ خاکسار نے علمی امانت و انصاف اور برادر گرامی کے تقدم کی وجہ سے ان کا نام بھی لکھنا ضروری سمجھا۔....نثار مصباحی)

اسلامی قمری کیلنڈر کے ۶ مہینوں کے نام مفرد ہیں(محرم، صفر، رجب، شعبان، رمضان، شوال) اور باقی ۶ مہینوں کے نام مرکب ہیں۔(ربیع الأوّل، ربیع الآخِر، جُمادَیٰ الأُولى، جُمَادَیٰ الآخِرَۃ، ذی القعدۃ، ذی الحجۃ)۔
مرکب اسما میں"ربیع" اور "جُمَادَی" کے الفاظ دو-دو مہینوں کے درمیان مشترک ہیں۔ اسی لیے ان کے نام رکھنے میں "ربیع" کے ساتھ "الأول" اور "الآخر" (صفت) لگا کر دونوں مہینوں کو الگ نام دے دیا گیا، ("ربیع الأول" اور "ربیع الآخر"۔) اسی طرح "جمادی" کے ساتھ "الأولیٰ" اور "الآخرۃ" (صفت) لگا کر دونوں مہینوں کو الگ نام دیا گیا۔ یعنی "جمادی الأولیٰ" اور "جمادی الآخرۃ"۔ اسی خاص ہیئت و ترکیب کے ساتھ یہ ان مہینوں کے "عَلَم"(نام) ہیں۔
یہ چاروں مہینے اپنے ناموں کی ساخت کے معاملے میں باقی آٹھ مہینوں سے الگ ہیں۔
ان چاروں مہینوں میں "ربیع الاول" کا نام لکھنے اور بولنے میں لوگ کسی قسم کی غلطی نہیں کرتے۔ لیکن باقی تینوں میں کرتے ہیں۔
((نوٹ : بعض ائمہ نے ربیع الأول اور ربیع الآخِر کے لفظ "ربیع" پر تنوین کو درست اور اضافت یعنی بلاتنوین کو نادرست کہا ہے۔ مگر یہ اسی طرح عوام و خواص میں رائج ہونے کی وجہ سے اب نادرست نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ اب تنوین والی صورت بالکل نامانوس ہو چکی ہے۔))

⚪️ کچھ لوگ "ربیع الآخِر" کو "ربیع الثانی" کہہ کر ایک غلطی کرتے ہیں، جب کہ "جمادی الأولی" اور "جمادی الآخرہ" میں متعدد غلطیاں ہوتی ہیں۔
بےتوجہی کے سبب ان ناموں کو غلط لکھنے اور بولنے کی خامی بعض اہلِ علم میں بھی در آئی ہے۔
"جمادی" والے دونوں ناموں میں زیادہ غلطی "جمادی الآخرۃ" میں ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس مہینے کو *جمادی الثانی*، یا *جمادی الثانیۃ*، تو کچھ افراد *جمادی الآخِر*، تو بہت سے لوگ *جمادی الأُخْرَیٰ* بولتے اور لکھتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ صحت کے قریب مگر غلط *جمادی الآخَرۃ* بولتے ہیں۔ یوں ہی کچھ لوگ *"جمادی الأُولیٰ"* کو *"جمادی الأوّل"* کہہ دیا کرتے ہیں۔ بعض ناواقف لوگ ان دونوں ناموں میں *"جُمادَی"* کو *"جَمَادِی"* یا *"جُمادِی"* بولنے کی غلطی بھی کرتے ہیں۔
یہ سارے طریقے غلط ہیں۔
تفصیل یہ ہے:
⚪️ ربیع الاول کے بعد والے مہینے کا نام "ربیع الآخِر" ہے، ربیع الثانی نہیں۔ اور اس کے بعد والے مہینے کا نام "جُمادَی الاُولیٰ" ہے، جمادی الأوّل نہیں۔ یوں ہی "جُمَادی" والے دوسرے مہینے کا صحیح نام "جُمادَی الآخِرَۃ" ہے۔(جمادی لفظ کی جیم پر ضمہ اور دال پر فتحہ، اور آخر میں الف مقصورہ ہے۔ اور "الآخِرۃ" میں خا پر کسرہ ہے۔)، کچھ اور نہیں۔
*ربیع الآخِر، جُمادَی الأُولیٰ، جُمَادَی الآخِرۃ۔ یہی ان تینوں مہینوں کے ناموں کی درست صورت ہے۔ ان مہینوں کے یہی نام رکھے گئے۔ اور اصولوں کے مطابق یہی درست ہیں۔ اس لیے ان کے سوا اوپر مذکور سبھی صورتیں نادرست ہیں۔*
ان صورتوں کے صحیح نہ ہونے کی پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ عَلَم یعنی نام میں تبدیلی ہے، اور اعلام(ناموں) میں تصرف اور تبدیلی درست نہیں۔
امامِ اہلِ سنت اعلی حضرت فتاوی رضویہ میں اسی خطا کی اصلاح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"مہینے کا عَلَم "جُمَادَی الآخِرۃ" ہے۔ اَعلام میں تصرف کیسا؟"

⚪️ عربی زبان کی مشہور و مستند لغات: الصحاح، تاج العروس، اور لسان العرب، وغیرہ میں ہے:
جُمادَی فُعالَی کے وزن پر ہے۔جیسے حُبارَی۔ یہ جمد سے مشتق ہے، جس کا معنی جمنا،خشک ہونا، منجمد ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے:ظلت العین جُمادی: آنكھ منجمد ہوگئی، خشک ہو گئی۔
اس کی جمع : جُمادیات ہے۔
- الصحاح للجوہری میں ہے:
*جُمادَى الأولى وجُمادَى الآخِرة، بفتح الدال من أسماء الشهور، وهو فُعَالَى من الجَمْدِ.*

✾فخر ازھر چینل✾

03 Nov, 14:49


نیز یہ کہ اہل عرب لفظ "ثانی" کا استعمال وہاں کرتے ہیں جہاں اس کے لیے کوئی "ثالث" بھی ہو، اور چوں کہ "جُمادی" کا کوئی "ثالث" نہیں ہے؛ لہذا یہاں "جمادی" کے لیے "الثانی" کا استعمال بعید معلوم ہوتا ہے۔
فقیہ فقید المثال امام احمد رضا خان قدس سرہ نے فتاویٰ رضویہ شریف میں ایک جگہ کسی عرب صاحب کی خوب گرفت فرمائی ہے اور ان کی عربی دانی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
عرب صاحب نے اپنی تحریر میں ایک جگہ "جُمادی الثانی" لکھا تھا، اس پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ گرفت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
” جُمادی الثانی، مؤنث کی صفت مذکر! حضرت نے "جمادی" کا کوئی "تیسرا" بھی دیکھا ہوگا کہ عرب "ثانی" بے "ثالث" نہیں بولتے “
اس کے بعد تصحیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” مہینے کا علم "جمادی الآخرۃ" ہے، اعلام میں تصرف کیسا؟ (اگر زبر زیر اور آنکھ پر پھلی نہ ہو، فافھم۔)“
(فتاویٰ رضویہ غیر مترجم، ج: ١١، ص: ٣٤١، رضا اکیڈمی ممبئی۔)
"غیاث اللغات" میں ہے:
”و جمادی الثانی چنانکہ مشہور شدہ بہتر نیست، گویند کہ اطلاق لفظ "ثانی" آں جا باشد کہ برائے او بعد ازاں ثالث نیز بود۔“ھ
( غیاث اللغات، فصل: جیم مع میم، ص: ٢٠٨ )
"لغاتِ کشوری" میں ہے:
” "جمادی الثانی" کہنا معتبر نہیں ہے، اس لیے کہ استعمال عرب میں "جمادی الثانی" نہیں ہے۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ "ثانی" اس مقام پر آتا ہے جہاں اس کے بعد"ثالث" بھی ہو۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ "جمادی" کے آخر میں الف مقصورہ بصورت یاے تحتانی ہے جو کتابت میں رہتا ہے اور تلفظ میں بسبب اجتماع ساکنین کے گر جاتا ہے، پس جب الف مقصورہ کے سبب سے اس کی صورت مؤنث کی ہوگئی تو اس کی صفت بھی "اولی" اور "آخرہ" کے ساتھ آنی چاہیے تاکہ صفت و موصوف میں تطابق باقی رہے۔“ (لغاتِ کشوری، فصل: جیم مع میم ص: ١٣٢، مطبوعہ لکھنؤ۔)
ان مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے یہ ثابت ہوا کہ مہینے کا علم " جُمادی الآخرہ" ہے۔ اور چوں کہ اعلام میں تصرف و تغیر منع ہے؛ اس لیے "جمادی الأخری" یا "جمادی الثانی" لکھنا اور بولنا منع ہوگا۔ بہر صورت "جمادی الآخرۃ" ہی لکھنے اور بولنے کا التزام کیا جائے۔
فائدہ:
ان دونوں مہینوں کی وجہ تسمیہ سے متعلق لفظ "جمادی" کے تحت "معجم المعانی عربی اردو" میں ہے:
” جُمادي: (اسم) عربی مہینہ کے نام، ایک "جمادی الاولی" اور دوسرا "جمادی الآخرہ"۔ چوں کہ عربوں کے یہاں سال کے پانچویں اور چھٹے مہینوں میں کسی سردی کی وجہ سے پانی جم جاتا تھا، اس لیے وہ ان دونوں مہینوں کو "جمادی" کہتے تھے الخ۔“
نیز وجہ تسمیہ سے متعلق ایسا ہی "غیاث اللغات فارسی" میں ہے۔
ـــــــ
محمد شفاء المصطفی شفا مصباحی
٢٧ ؍ جمادی الآخرہ ١٤٤٢ھ
١٠ ؍ فروری ٫٢٠٢١۔

✾فخر ازھر چینل✾

03 Nov, 14:49


"جُمادی الآخرہ" یا "جُمادی الأخری" ؟؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پرانی تحریر:
محمد شفاءالمصطفیٰ شفا مصباحی۔
مدینۃ العلما باڑا شریف، سیتا مڑھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رواں مہینہ اسلامی اور قمری سال کے اعتبار سے چھٹا مہینہ ہے، جس کے آخری عشرہ سے ہم گزر رہے ہیں۔ اس کے حوالے سے اکثر ذہنوں میں یہ شبہ رہتا ہے کہ اس کا اصل و صحیح نام کیا ہے؟ کیوں کہ عام طور لوگ اس مہینے کے لیے دو طرح کے نام استعمال کرتے ہیں:
(١) جمادي الآخره.
(٢) جمادي الأخرى.
آئیے اس امر کی تحقیق کرتے ہیں کہ ان دونوں اسما میں کون صحیح ہے اور کون غلط؟ یا پھر یہ دونوں صحیح ہیں اور دونوں کا استعمال درست ہے۔
ظاہر ہے کہ اس نام کا تعلق عربی زبان سے ہے۔ لہذا اس کی بحث و تحقیق کے لیے بھی ہمیں عربی اصول و قواعد اور عربی لغات کا سہارا لینا ہوگا؛ تاکہ ہم کسی صحیح نتیجہ تک پہنچ سکیں۔ تو آئیے اس حوالے سے سب سے پہلے عربی لغات کا جائزہ لیتے ہیں۔
عربی لغات کا جائزہ لینے کے بعد کھلے طور پر یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ مہینے کا اصل نام "جمادی الآخرہ" ہے نہ کہ "جمادی الأخری"۔ کیوں کہ :
عربی لغات میں اس مہینہ کا نام ” جمادي الآخره “ درج ہے۔ اس سلسلے میں بساط بھر کوشش کی مگر کسی بھی عربی لغت میں اس مہینے کا نام ” جمادی الأخری“ نہ ملا ۔
چاہیں تو عربی زبان کی کوئی لغت اٹھا کر آپ بھی دیکھ لیں؛ ہر جگہ لفظ "جمادی" کے تحت آپ کو "جمادی الاولی" اور "جمادی الآخرہ" ہی ملے گا۔ کہیں بھی "جمادی الأخری" نہ ملے گا۔
عربی اصول و قواعد کی رو سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مہینے کا نام "جمادی الآخرہ" ہی ہو نہ کہ "جمادی الأخری"۔ کیوں کہ ”جمادي الآخرة“ میں جو لفظ" آخرہ" ہے یہ لفظ "اولی" کی ضد اور اس کے بالمقابل ہے۔ کیوں کہ جس طرح اس سے پہلے دو مہینے "ربیع الأول" اور "ربیع الآخر" میں "اول و آخر" ایک دوسرے کی ضد اور بالمقابل ہیں، اسی طرح یہاں "جمادی الاولی" اور "جمادی الآخرہ" میں "اولی و آخرہ" باہم متضاد و بالمقابل ہیں۔اور "اول" کی تانیث "اولی" آتی ہے کہ "اول" "افعلُ" کے وزن پر اسم تفضیل واحد مذکر کا صیغہ ہے؛ تو اس کی تانیث "اولی" آئے گی کہ اسم تفضیل واحد مؤنث کا وزن "فُعلی" ہے۔
اسی طرح "آخرة" یہ "آخِر" کی تانیث ہے کہ "آخِر" "فاعِلٌ" کے وزن پر اسم فاعل واحد مذکر کا صیغہ ہے، تو اس کی تانیث "آخِرةٌ" آئے گی کہ اسم فاعل واحد مؤنث کا وزن "فاعِلةٌ" ہے۔
اور "أخری" یہ "آخرِ" (بکسر الخاء) کی تانیث نہیں بلکہ "أخَر" (بفتح الخاء۔ بمعنی دوسرا، دو میں سے ایک، کوئی اور، غیر) کی تانیث ہے۔ جب کہ یہاں مقصود و مطلوب اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور وہ "آخِرة" ہے کہ یہی" اولی" کی ضد اور اس کے بالمقابل ہے۔
فرمان باری تعالیٰ:
﴿ و للآخرة خير لك مِنَ الأولى ﴾
[الضحى : ٤]
لہذا اس تفصیل سے بھی واضح ہوگیا کہ مہینے کا نام " جمادی الآخرہ" ہی ہے نہ کہ " جمادی الأخری"۔ لہذا"جمادی الأخری" لکھنے والوں سے اس پر نظر ثانی کی اپیل ہے ۔
اب رہی یہ بات کہ اگر کوئی "جمادی الأخری" ہی استعمال کرے تو آیا اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟۔
تو اس پر عرض یہ ہے کہ " جمادی الآخرہ" یہ علم ہے اور "اعلام" میں تغیر و تبدل منع ہے۔ لہذا لغوی اعتبار سے "جمادی الآخرہ" کے بجائے "جمادی الأخری" لکھنے اور بولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لیے بہر حال "جمادی الآخرہ" ہی لکھنے اور بولنے کا التزام کیا جائے کہ یہی صحیح و درست ہے۔
استاذی الکریم خطیبِ محقق حضرت علامہ محمد عبد الحق رضوی دام ظلہ ( استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔) اپنی مشہور و معروف کتاب" اذان خطبہ کہاں ہو؟" کے ابتدائیہ میں ایک تحریر اور صاحب تحریر پر تنقید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” جن کا مبلغ علم یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریر کے نیچے جو دستخط کیے ہیں تو مہینے کا نام "جمادی الأخری" لکھا ہے، جب کہ مہینے کا علم "جمادی الآخرہ" ہے۔ جس شخص کو اپنے عربی مہینوں کے نام بھی معلوم نہ ہوں، اور جو اعلام میں تغیر کرتا ہو اس کی لیاقت معلوم، صاف ظاہر ہے۔“
( اذان خطبہ کہاں ہو؟ ابتدائیہ، ص: ٣، ٤، دائرة البرکات، گھوسی مئو۔)
استاذی الکریم دام ظلہ کے اس تنقیدی تبصرے سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو "جمادی الآخرہ" اور "جمادی الأخری" کے بجائے"جمادی الثانی" لکھتے اور بولتے ہیں۔ جب "جمادی الأخری" کی اجازت نہیں تو "جمادی الثانی" کیوں کر روا ہوگا۔
پھر یہ کہ "جُمادی الثانی" یہ مرکب توصیفی ہے کہ "جمادی" موصوف اور "الثانی" صفت ہے۔ اور موصوف صفت کا قاعدہ یہ ہے کہ تذکیراً و تانیثاً دونوں میں مطابقت ہو، جب کہ مطابقت یہاں مفقود ہے کہ "جُمادی" مؤنث ہے اور "الثانی" مذکر؛ حالاں کہ یہاں"الثانی" کا بھی مؤنث ہونا ضروری تھا۔ لہذا اس قاعدے کی رو سے بھی "جمادی الثانی" کا غلط ہونا معلوم ہے۔

✾فخر ازھر چینل✾

11 Oct, 10:07


*🌹حی علی الصلوٰۃ و الفلاح پر منھ کیوں پھیرتے ہیں ؟🌹*

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسٔلہ کے بارے میں کہ حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح پر منھ کیوں پھیرتے ہیں ؟
اگل بغل اسکی کیا وجہ ہے ذرا وضاحت فرمادیں مہربانی ہوگی
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی محمد ارمان رضا ضیائی مقام بلرام پور*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
حی علی الصلوٰۃ ، الفلاح پر چہرہ دائیں بائیں اسلیے پھیرتے ہیں کہ یہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل رہا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس عمل سے صحابہ کو منع نہیں فرمایا یہی وجہ ہے اس فعل کو فقہاء نے مؤذنین کے لیۓمستحب قرار دیا ہے!

جیساکہ حدیث شریف میں ہے
*" عن ابي جحيفة، عن ابيه، قال اتيت النبیﷺ بمكة وهو في قبة حمراء من ادم، فخرج بلال فاذن، فكنت اتتبع فمه هاهنا وهاهنا، قال: ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه حلة حمراء برود يمانية قطري، وقال موسى: قال رايت بلالا خرج إلى الابطح فاذن، فلما بلغ حي على الصلاة، حي على الفلاح، لوى عنقه يمينا وشمالا ولم يستدر، ثم دخل فاخرج العنزة وساق حديثه "*
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ میں مکہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا، آپﷺ چمڑے کے ایک لال خیمہ میں تشریف فرما تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے پھر اذان دی، میں انکو اپنا منہ ادھر ادھر پھیرتے دیکھ رہا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ نکلے، آپ یمنی قطری چادروں سے بنے سرخ جوڑے میں ملبوس تھے، موسی بن اسماعیل اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ ابوحجیفہ نے کہا: میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ابطح کی طرف نکلے پھر اذان دی، جب «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں اور بائیں جانب موڑی اور خود نہیں گھومے پھر وہ اندر گئے اور نیزہ نکالا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی
*( 📕سنن ابوداؤد ، کتاب الصلاۃ ، ص٧٧ (زکریا بک ڈپو)*

علامہ ابوالبرکات عبداللہ المعروف حافظ الدین نسفی متوفی ٧١٠ھ تحریر فرماتے ہیں ۔۔
*" قوله ! ويلتفت يمينًا وشمالًا بالصلاة والفلاح لما قدمناه ولفعل بلال رضي الله عنه على ما رواه الجماعة ثم أطلقه فشمل ما إذا كان وحده على الصحيح لكونه سنة الأذان فلايتركه خلافًا للحلواني لعدم الحاجة إليه وفي السراج الوهاج "ـ*
*( 📗البحرالرائق شرح فی کنز الدقائق ، المجلد الأول ، کتاب الصلاۃ ، ص٤٤٩ (بیروت لبنان)*

اور فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے ۔۔
اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالنا اور حی علی الصلاۃ وحی علی الفلاح کہتے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنا مستحب ہے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی وجہ سے ان مستحبات کو نہ چھوڑے بلکہ انہیں بھی بجا لائے
*( 📕جلداول ، باب الاذان ، ص١٦٥ )*

خلاصہ کلام یہی ہے کہ حی علی الصلوٰۃ والفلاح پر چہرہ دائیں بائیں گھمانا یہ صحابہ کا عمل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم بھی عمل پیراں ہیں

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت مولانا عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*7 ربیع الآخر 1446ھجری بروز جمعہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی جابر القادری رضوی صاحب قبلہ جاجپور اڑیسہ
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منتظمین فیضان غوث.وخواجہ گروپ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

11 Oct, 09:51


*🌹قوالی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟🌹*

السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علماۓ اہل سنت اس مسئلہ میں کہ عرس میں عورت و مرد کا مقابلہ قوالی ہوتی ہے لوگ جلسہ کے نام پرچندہ اٹھاتے ہیں اور ایک چھوٹی محفل ہوتی ہے ایک موٹی رقم قوالی پر خرچ کرتے ہیں
اس میں پیسہ دینا کیسا ہے اس میں جانا کیسا اور قوال بلانے والے پر حکم شرع کیا ہے قرآن و حدیث کے رشنی میں جواب عنایت فرمائیں
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی محمد کلیم الدین رضوی چھپرہ بہار*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
مزامیر کے ساتھ قوالی نیز عورت کو غیر محرم کےسامنے لانا اور اس قسم کےدوسرے آلات سب کےسب ناجائز و حرام ہے!
آج کل مزارت اولیاء کے اعراس کے نام پر اس قسم کی غنڈہ گردی میلے ٹھیلے و دیگر تماشے کافی عروج پر ہیں حالانکہ اس طریقے کی حرکتیں کرنے والے بھی جانتے ہیں' یہ سب جہالت ہے اسلام کا اس سے کوئی بھی واسطہ نہیں مگر ان ظالموں کو نہ خدا کا خوف ہے نہ آخرت کی پرواہ در حقیقت یہ لوگ اسلام کو بدنام کرنےوالے ہیں!

حدیث شریف میں ہے اللہ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتےہیں
*" لیکونن من أمتی أقوام یستحلون الخزوالحریر والخمر والمعازف "*
میری امت میں وہ قومیں ہوں گی جو موٹے پتلے ریشم اور شراب، باجوں کو حلال سمجھ لیں گی۔
*(📗الصحیح البخاری، المجلد الثانی کتاب الاشربۃ ، ص٨٣٧ (مجلس برکات)*

فتاوی عالمگیری میں ہے
*" السَّمَاعُ وَالْقَوْلُ وَالرَّقْصُ الَّذِي يَفْعَلُهُ الْمُتَصَوِّفَةُ فِي زَمَانِنَا حَرَامٌ لَا يَجُوزُ الْقَصْدُ إلَيْهِ وَالْجُلُوسُ عَلَيْهِ۔۔۔۔۔۔۔*
سماع قوالی ناچ جو آج کل کے نام نہاد صوفیوں میں رائج ہے یہ حرام ہے اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے
*( 📒الفتاوی الھندیۃ ، المجلد الخامس ، کتاب الکراھیۃ ، ص ٤٣١ (بیروت لبنان)*

اور سیدی اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتےہیں

مزامیر کےساتھ قوالی سننا ناجائز ہے
*( 📔فتاویٰ رضویہ ، ج٢٤ ، ص٥١٠ (رضافاؤنڈیشن لاہور)*

صدر الشریعہ علیہ الرحمہ
تحریر فرماتے ہیں ۔۔
متصوفہ زمانہ کہ مزامیر کے ساتھ قوالی سنتے ہیں اور کبھی اوچھلتے کودتے اور ناچنے لگتے ہیں اس قسم کا گانا بجانا، ناجائز ہے، ایسی محفل میں جانا اور وہاں بیٹھنا ناجائز ہے ۔۔۔۔۔
مشایخ و بزرگانِ دین کے احوال اور ان متصوفہ کے حال و قال میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہاں مزامیر کے ساتھ محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، جن میں فساق و فجار کا اجتماع ہوتا ہے، نااہلوں کا مجمع ہوتا ہے، گانے والوں میں اکثر بے شرع ہوتےہیں، تالیاں بجاتے اور مزامیر کے ساتھ گاتے ہیں اور خوب اچھلتے کودتے ناچتے تھرکتے ہیں اور اس کا نام حال رکھتے ہیں ان حرکات کو صوفیہ کرام کے احوال سے کیا نسبت، یہاں سب چیزیں اختیار ی ہیں وہاں بے اختیاری تھیں۔
*( 📚بہار شریعت ، حصہ١٦ ، ص٥١١تا٥١٢ (مکتبہ مدینہ دھلی)*

لہذا دلائل مذکورہ سے ثابت ہوا کہ قوالی ڈھول تاشے مزامیر مرد و عورت مقابلے سب کے سب ناجائز و حرام ہے تو ایسے صورت میں ان امور میں چندہ وغیرہ دینا و دیگر قسم کی مدد کرنا بھی ناجائز و حرام ہے

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
*" وَلَاتَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ "*
اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے
*( 📕سورہ مائدہ ، آیت ٢ )*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*7 ربیع الآخر 1446ھجری بروز جمعہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ
اــــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ـــــــــــــــــــــــ
*🔸فخر ازھر گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917542079555
https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــ♻️❣️❣️ــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منجانب منتظمین فــخــر ازھـــر گــروپ*
اـــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

29 Sep, 06:53


*🌹علماء کی شان میں گستاخی کرنا کیسا ہے ؟؟🌹*

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اس مسئلے کے بارے میں کہ
ایک مفتی صاحب نے ایک جلسہ میں شرکت کی جو سنی کمیٹی سنی مسجد کی طرف سے ہوا
اس جلسہ میں چند وہابی شاعر بھی اۓ تھے اور انہوں نے اس میں نعت بھی پڑھی بعد میں سنی عالم دین مفتی صاحب نے تقریر کی اور انکے بیچ میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے و علم غیب مصطفٰی کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل خطاب فرمایا اور وہابیوں دیوبندیوں کے اعتراضات کا جواب بھی دیا
اسکے بعد چند لوگوں نے مفتی صاحب کو سور کھانے اور طاہر القادری سے تشبیہ دیتے ہوے کہا اتنا نقصان طاہر القادری سے نہیں جتنا ان مولویوں سے ہے
نوٹ
کہنے والے شخص سے ذاتی رنجش بھی ہے مفتی صاحب کو
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کیا وہ شخص ایک اہلسنت کے عالم دین کو ایسا کہہ سکتا ہے
اور مفتی صاحب نے جو شرکت ان پر کیا حکم لگے گا
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی محمد شعبان رضا قادری بہرائچ شریف یوپی الہند*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
مع ذاللہ یہ جتنے بھی قائلین جنہوں نے اتنے قبیج جملے علماء کی شان میں استعمال کیے ہیں اگر بطور رنجش کہے ہیں تو یہ سب کے سب بدبخت ، شقی القلب ، گناہ اکبر کے مرتکب و مستحق عذاب قہار ہیں اور اندیشہ ہے اس بات کا کہ ان کا خاتمہ بالخیر نہ ہو!
لہذا ان سب پر لازم ہے صدق دل سے تو بہ استغفار کریں اور ان مفتی صاحب سے صدق دل سے معافی مانگے!
اور یہ اگر ایسا نہ کریں تو وہاں کے لوگوں کو چاہیے ان کا حقہ پانی بند کریں!

اور اگر معاذ اللہ یہ سخت جملے بحیثیت علم کے کہے ہیں تب تو صریح کفر ہے یعنی کہنے والا دائر اسلام سے خارج ہو گیا اس کے سارے اعمال حسنہ اکارت ہو گئے اگر صاحب نکاح ہے تو اس کی بیوی نکاح سے جاتی رہی لہذا اس پر لازم ہے کہ تصدیق ایمان و تجدید نکاح کرے نیز توبہ استغفار معافی تلافی کرے!

جیسا ملا علی قاری حنفی متوفی ١٠٠١ ھ تحریر فرماتے ہیں ۔۔
*"- استخفاف العلماء کفر و ھو مستلزم لاستخفاف الانبیاء علیہم السّلام لان العلماء ورثۃ الانبیاء "-*
علماء کی توہین کفر ہے کیونکہ ان کی توہین سے انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین لازم آتی ہے اس لیے کہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں
*( 📔شرح الفقہ الاکبر ، ص١٥٩ (دارالکتب بمصر)*

امام ابو عبداللہ محمد فخر الدین رازی متوفی ٦٠٤ھ تحریر فرماتے ہیں
*-" من اھان العالم فقداھان العلم و من اھان العلم فقد اھان النبیﷺ ومن اھان النبی فقداھان جبریل ومن اھان جبریل فقداھان اللہ و من اھان اللہ اھانتہ یوم القیمۃ "-*

جس نے عالم کی توہین کی تحقیق اس نے علم دین کی توہین کی اور جس نے علم دین کی توہین کی تحقیق اس نے نبی کی توہین کی اور جس نے نبی کی توہین کی یقینا اس نے جبرائیل کی توہین کی اور جس نے جبرائیل کی توہین کی اس نے اللہ کی توہین کی اور جس نے اللہ کی توہین کی یقینا اللہ تعالی اس کو قیامت میں ذلیل و رسوا کرے گا
*( 📕التفسیر الکبیر ، المجلد الأول ، ص٦٠٦ (بیروت لبنان)*

علامہ عبدالرحمن بن محمد بن سلیمان کلیوبی دامادافندی متوفی ١٠٧٨ تحریر فرماتے ہیں
*- والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر "-*
*(📚مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ، المجلد الأول ، کتاب السیر ، ص٦٩٥ (بیروت لبنان)*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*25 ربیع الاول 1446ھجری بروز اتوار*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ
اــــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ـــــــــــــــــــــــ
*🔸فخر ازھر گروپ میں ایڈ کے لئے🔸*
https://wa.me/+917542079555
https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــ♻️❣️❣️ــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منجانب منتظمین فــخــر ازھـــر گــروپ*
اـــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

07 Jun, 13:36


*🌹حج و عمرہ میں سعی ترک ہوجاۓ تو کیا حکم ؟🌹*

السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر عمرہ کے دوران کسی سے سعی چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے ؟
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی نور الدین خان اکونہ بازار*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
ایسی صورت میں دم لازم ہوگا یعنی ایک بکری یا بکرا یا دنبہ یا پھر بڑے جانور اونٹ ، بھینس وغیرہ کا ایک حصہ دینا لازم ہوگا!

علامہ شیخ ابوبکر بن علی بن حداد متوفی ٨٠٠ھ تحریر فرماتےہیں ۔۔۔
*, ومن ترک السعی بین الصفا و المروۃ فعلیہ دم : لأن دم السعی من الواجبات عندنا فیلزمہ بترکہ الدم "*
یعنی جس نے صفا مروہ کی سعی کو چھوڑدیا اس پر دم ہے اس لیۓ کہ ہمارے (یعنی ہمارےامام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نزدیک سعی واجبات میں سے ہے تو پس اس کےترک پر قربانی دینا لازم ہے
*( 📒الجوھرۃ النیرۃ ، المجلد الأول ، کتاب الحج ، ص٤٠٩ (بیروت لبنان)*
*( 📚 ایساہی بہارشریعت حصہ ٦ میں ہے )*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*17 ذی قعدہ 1445ھجری بروز اتوار*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی عمیر رضا صاحب قبلہ
اــــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ـــــــــــــــــــــــ
*🔸فخر ازھر گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917542079555
https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــ♻️❣️❣️ــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منجانب منتظمین فــخــر ازھـــر گــروپ*
اـــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

07 Jun, 13:35


*🌹بعد قیامت ہر بندہ زندہ ہوگا خواہ وہ بندہ کسی حال میں کیوں نہ ہو🌹*

السلام علیکم
بعد سلام عرض ہے کہ کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ تم مر کر اگر ہیرا بن جاو تو بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ کر دیگا
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی سائل حسنین رضا*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
فی السوال زکر کردہ بعینہ الفاظ سےمرتب حدیث میری نظر سے نہ گزری نہ ہی میں نے کسی عالم کی زبانی سنا
البتہ ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی بروز حشر جب سے دنیا وجود میں آئی ہے یعنی حضرت ادم علیہ السلام سے لے کر کے اب تک اور اب سے لے کر کے قیامت تک جتنے بھی انسان ہیں سب کو جمع فرمائے گا خواہ کوئی انسان جل کر راکھ ہو گیا ہو اس کی راکھ دنیا کے چاروں کونے میں پھیلا دی گئی ہو یا سمندر میں بہا دی گئی ہو یا ہوا میں اڑا دی گئی ہو یا پہاڑوں میں دبا دی گئی ہو بحکم رب قدیر تمام اجزاء مل کر کے اس کا اپنا جسم بنے گا اور بارگاہ خدا میں کھڑا ہو جائے گا

جیساکہ اللہ تعالٰی قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔
*"- نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ ,"*
اور صُور پھونکا جائے گا تو بے ہوش ہوجائیں گے جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں مگر جسے اللہ چاہے پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گا جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے۔
*(📔 کنز الایمان ؛ سورہ زمر ؛ آیت ٦٨ )*

امام جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ھ تحریر فرماتےہیں۔۔
"*واخرج ابن عساکر عن یزید بن جابرالتابعی فی قولہ تعالیٰ (واستمع یوم ینادالمنادمن مکان قریب) "*
*( 📔سورہ ق آیت١١ )*
*" قال : یقف اسرافیل علی صخرۃ بیت المقدس فینفخ فی الشہر فیقول یاایتھاالعظام النخرہ والجلودالمتفرقۃ والاشعارالمتقطعۃ ان اللہ یامرک ان تجمعی لفصل الحساب و قدجمع اھل السنۃ علی ان الاجساد تعاد کما کانت فی الدنیا باعیانھاو اعراضھاوالوانھا و اوصافھا "*
ابن عساکر کہتےہیں حضرت یزید بن جابر تابعی رحمت اللہ تعالی علیہ اللہ تعالی کاقول بیان کرتے ہوۓ روایت کرتےہیں : اور کان لگا کر سنو جس دن پکارنے والا پکارے گا ایک پاس جگہ سے
مفسرین بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو بیت المقدس کے پتھر پر اٹھایا جائے گا وہ اٹھا کر کہے گا اے چورا چورا ہونے جانےوالی ہڈیوں اور اے گلے سڑے چمڑو اور اے ٹوٹے پھوٹے بالو بے شک اللہ تعالی حکم فرماتا ہے کہ تم فیصلہ و حساب کے لیے جمع ہو جاؤ
اہل سنت کا اتفاق ہے کہ روز قیامت تمام اجسام اس طرح لوٹائے جائیں گے جیسا کہ دنیا میں تھے بعینہ وہی اجسام ہوں گے ان میں ذرہ برابر بھی فرق نہ ہوگا وہی رنگ وہی اوصاف ہوں گے
*( 📕البدورالسافرۃ فی احوال الاخرۃ ؛ ص ٨٩تا٩٠ (بیروت لبنان)*

اور صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی متوفیٰ ١٣٦٧ھ تحریر فرماتےہیں ۔۔۔
جسم کے اجزا اگرچہ مرنے کے بعد متفرق ہوگئے اور مختلف جانوروں کی غذا ہوگئے ہوں، مگر اﷲ تعالی ان سب اجزا کو جمع فرماکر قیامت کے دن اٹھائے گا
*( 📚بہار شریعت ؛ حصہ١ ؛ ص١٣٠ (مکتبہ مدینہ دھلی)*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*29 ذی قعدہ 1445ھجری بروز جمعہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی عمیر رضا صاحب قبلہ
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منتظمین فیضان غوث.وخواجہ گروپ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

28 May, 04:23


*🌹کیا اللہ کے ذمہ کچھ واجب ہوتا ہے ؟؟🌹*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ ایک خطیب صاحب دوران تقریر یہ بول گئے کی جو شخص جنازے کو 40 قدم لے کر چلتا ہے اللہ پر واجب ہے کہ اللہ اس کی مغفرت فرمادے
ایسے مقرر پر کیا حکم شرع ہوگا؟
ہم انسانوں پر تو فرض واجب ہے کیا اللہ پر بھی کسی کام کو کرنا واجب ہوتا ہے؟ علمائے کرام قران و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کو حل فرمائے
اور خطیب صاحب پر شریعت کا کیا حکم ہوگا وہ بھی عنایت فرمائیں
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی محمد حیدر علی بلوآوی سیتامڑھی بہار*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
اولا یہ واضح رہے عقائد ضروریہ میں ایک عقیدہ یہ بھی کہ اللّٰہ تعالٰی پر ذمہ کچھ بھی واجب نہیں !
نہ ثواب کرنا نہ عذاب کرنا وہ جو چاہے کرے وہ مالک علی الاطلاق ہے ہاں ثواب کرے تو فضل ہے عذاب کرے تو عدل ہے

جیساکہ قرآن میں ہے
*- فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ -*
( تو جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا سزادے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے)
*(📒 کنزالایمان ، سورہ بقرہ ، آیت٢٨٤)*

علامۃ سعدالدین تفتازانی نسفی متوفی ٧٩١ ھ تحریر فرماتےہیں ۔۔۔
*- وما ھو الاصلح للعبد فلیس ذالک بواجب علی اللّٰہ تعالٰی )*
*(📕شرح العقائد النسفیۃ، ص٩٦ (بیروت لبنان)*

لہذا موصوف کا یہ جملہ کہ ("اللہ پر واجب ہے کہ بندے کی مغفرت فرما دے")
*ظن المومنین خیرا ،،* کے تحت فقیر بریلوی کا گمان ہے کہ موصوف سے سبقت لسانی صادر ہوئی ہے بہر حال ان کو چاہیے اصلاح و رجوع کریں اور آئندہ احتیاط کریں!

اور اگر معاذاللہ قصدا ایسا کہا تو یہ سراسر گمراہیت ہے!
لہذا ان پر واجب ہے علی الاعلان صدق دل سے رجوع و توبہ استغفار کریں!

اور ہاں وہ حدیث یوں ہے جو کسی جنازہ کو 40 قدم لے کر کے چلے گا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اس کے 40 گناہ کبیرہ مٹا دیے جائیں گے!
اور یہ بھی حدیث شریف میں ہے جو جنازہ کے چاروں پاؤں کو کندھا دے گا اللہ تعالی اس کی حتمی مغفرت فرما دے گا

علامہ شیخ ابوبکر بن علی بن حداد متوفی ٨٠٠ھ تحریر فرماتےہیں ۔۔۔
*, (فاذاحملوہ علی سریرہ اخذ بقوائمہ الاربع) وردت السنۃ ، قال علیہ السلام : من حمل جنازۃ بقوائمھا الاربع غفراللہ لہ مغفرۃ حتما !*
*و حمل جنازۃ عبادۃ فینبغی لکل احد ان یبادر فی العبادۃ فقد حمل الجنازۃ سید المرسلین ﷺ فانہ حمل سعدبن معاذ*
*( 📗الجوھرۃ النیرۃ ، المجلد الأول ، کتاب الصلوٰۃ ، ص٢٦٧تا٢٦٨ (بیروت لبنان)*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*17 ذی قعدہ 1445ھجری بروز اتوار*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ
اــــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ـــــــــــــــــــــــ
*🔸فخر ازھر گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917542079555
https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــ♻️❣️❣️ــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منجانب منتظمین فــخــر ازھـــر گــروپ*
اـــــــــــــــــــــ❣️♻️❣️ــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

23 May, 12:55


حکیم الامت دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی،چشتی)







عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھےاور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُن اللہ والوں کا وِصال ہوا۔(بوادر النوادر صفحہ 400 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)







اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائز ہے۔(بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)







حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہما الرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی،چشتی)







حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی ۔(اشرف السوانح جلد اول ،دوم صفحہ نمبر 226)۔مزید پڑھیں ۔







مزارات پر حاضری دینا زمانہ قدیم سے مسلمانوں میں رائج ہے بلکہ خود رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر برکات لُٹانے کیلئے تشریف لاتے تھے ۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضور سیّدِ دوعالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر ہر سال کے شروع میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی زیارة القبور،3/177،چشتی)

✾فخر ازھر چینل✾

23 May, 04:02


✾فخر ازھر چینل✾ pinned «السلام علیکم ورحمة الله وبركاته ایک ضروری اعلان 📢📢📢 *سائلین و مجیبین کے لئے ایک اہم پیغام "* گروپ ہذا کے سائلین سے گزارش ہیکہ اگر کسی سوال کے بارے میں جانکاری لینا ہے تو پہلے ٹیلی گرام پے *" فخر ازھر چینل "* میں کافی مسائل جمع ہوچکے ہیں جس کے متعلق سوال…»

✾فخر ازھر چینل✾

23 May, 04:02


السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
ایک ضروری اعلان
📢📢📢

*سائلین و مجیبین کے لئے ایک اہم پیغام "*

گروپ ہذا کے سائلین سے گزارش ہیکہ اگر کسی سوال کے بارے میں جانکاری لینا ہے تو پہلے ٹیلی گرام پے *" فخر ازھر چینل "* میں کافی مسائل جمع ہوچکے ہیں جس کے متعلق سوال کرنا ہے تو پہلے وہ اپنے سوال کے متعلق جواب تلاش کرے پھر جب وہ جواب نہ ملے تو اپنا سوال لکھ کر گروپ میں سینڈ کریں
مجیب حضرات بھی ایسا ہی کریں کہ اگر پوسٹ نہ ملے تو جواب لکھ دیں چونکہ میں بہت دن سے دیکھ رہا ہوں کچھ ایسے سوال ہوتے ہیں جو پہلے ہوچکے ہیں اسکا پوسٹ  تیار ہوا ہے اور پھر سائل وہی سوال کرتاہے تو مجیب حضرات اسکا بھی جواب لکھ دیتے ہیں تو اس سے ایک ہی گروپ کے نام سے ڈبل ٹبل پوسٹ تیار ہوجاتے ہیں یہ بہتر نہیں ہے !!! 
*فـخـر ازھـر چینل لنک ⇩*
https://t.me/fakhreazhar

پوسٹ تلاش کرنے کا طریقہ !!!
"اوپر داہنے طرف تین ... اس طرح سے تین بندی نظر آئے گی جب اسپے کلک کریں گے تو serhc تلاش لکھ کر آئے گا تو وہاں کلک کریں مثلا ہمیں تلاش کرنا ہے علم غیب یا طلاق کے متعلق تو طلاق یا علم غیب لکھ کر یا ok کریں گے تو جتنے بھی پوسٹ میں لفظ طلاق اور علم غیب کا لفظ ہوگا سب آجائے گا نیچے اوپر جانے کے لئے ایک تیر ہوگی اسپے کلک کرکے اور پوسٹ دیکھ سکتے ہیں
پھر سمجھ میں نہ آئے تو پرسنل پے رابطہ کریں !!!

بحکم منتظمین گروپ

✾فخر ازھر چینل✾

02 May, 11:29


*🌹ایک ملک میں عید کا چاند دیکھکر دوسرےملک میں پہنچا وہاں چاند نہیں ہوا تو کیا کرے؟🌹*

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام مسٔلہ ذیل کے بارے میں کہ زید رمضان سی ایک دن پہلے عمرہ کیلۓ نکلا جس دن ہندوستان واپس آیاتھا 30 رمضان تھا اور سعودی سے جس دن نکلا تھا وہاں عید کا دن تھا
دریافت طلب امر یہ ہے وہ روزے کا کیا کرے ؟
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی محمدامان رضاقادری ممبرا تھانے مہاراشٹر*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
زید پر روزہ رکھنا واجب ہے اگر چہ سعودی میں چاند دیکھ کر آیا لہذا اب اعتبار بھارت کا ہوگا جہاں پہنچا ہے!

جیساکہ قرآن مجید میں رب کا مطلقا حکم ہے

*فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ*
تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے *(البقرة:١٨٥)*
اور زید نے یہاں رمضان پایا تو بحکم خدا روزہ رکھنا فرض ہے

,اور علامة أحمد بن محمد بن إسماعيل طحطاوي حنفي متوفى ١٢٣١هـ تحریرفرماتے ہیں ۔۔
*، ومن رأی ھلال رمضان وحدہ أو ھلال الفطر وحدہ وردہ ای ردہ القاضی لزمہ الصیام لقولہ تعالی عزوجل فمن شھدمنکم الشھرفلیصمہ وقد راہ ظاھرا لقولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم صومکم یوم تصومون و فطرکم یوم تفطرون والناس لم یفطروا فواجب ان لایفطر۔۔۔۔۔*
*( 📘 حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ؛ کتاب الصوم ؛ ص٦٥١ (بیروت لبنان )*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*۱۹ رمضان المبارک ؁١٤٤٥ھ ۳۰ / مارچ ؁٢٠٢٤ء بروز سنیچر*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منتظمین فیضان غوث.وخواجہ گروپ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

31 Mar, 16:53


صورت دوم ، اگر وہ لوگ ناصر کے کفر جانتے ہوۓ اور اسکی کفریات کو برحق مانتےہوۓ اسکی حمایت کرتے ہیں تو وہ سب کے سب داٸراسلام سے خارج ہوۓ!
کیوں کہ کافر کو کافر نہ جاننا یا کسی کے کفر پر راضی ہونا یا حمایت کرنا بھی کفر ہے!
*-'' من یرضیٰ بکفرنفسه فقد کفر "-*
{المرجع السابق}

*" و ھکذا ، الرضاء بالکفر کفر "-*
کفر پر راضی رہنا یاہونا بھی کفر ہے!
*(فتاویٰ ھندیہ)*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*۱۹ رمضان المبارک ؁١٤٤٥ھ ۳۰ / مارچ ؁٢٠٢٤ء بروز سنیچر*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منتظمین فیضان غوث.وخواجہ گروپ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

✾فخر ازھر چینل✾

31 Mar, 16:53


*🌹کوٸی کہے کہ میں ملحد ہوں تو اس پر کیا حکم ہے ؟🌹*

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرمانے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میرے گاؤں میں ایک شخص ہے جس کا نام ناصر ہے اس نے ایک مدعا لیکر گاؤں کے ایک ذمہ دار شخص کو فون کیا اور کہنے لگا کہ ہم کو نہ مسجد سے مطلب ہے نہ گاؤں سماج سے مطلب ہے نہ مدرسہ سے مطلب ہے نہ مولوی حافظ سے مطلب کے فقط انہیں جملوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ آج سے ہم ناستک بیگ بن کر رہیں گے گے ( )नास्तिक( ان باتوں کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں نے ناصر کا بائیکاٹ کردیا دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسا ایسا جملہ کہنے والے ناصر پر کیا حکم ہے ؟ اور جو لوگ ناصر سے قطع تعلق کر لیے ان کا یہ قدم صحیح ہے یا غلط اور جو لوگ ناصر کی حمایت میں ہیں ان پر شریعت کا کیا حکم ہے ؟ اگر جو لوگ ناصر کی حمایت میں ہیں ان سے سلام کھانا پینا اور سماجی تعلقات کو قائم رکھیں اور ناصر سے سے دور نہ رہیں تو کیا جو لوگ ناصر کی باتوں سے ناراض ہیں ان کا کہنا یہ ہیکہ ہم لوگ ناصر کی حمایت کرنے والے لوگوں کے ساتھ سلام کلام کھانا پینا اور مسجد میں ساتھ میں نماز پڑھ سکتے ہیں ؟ پا نہیں اور ان لوگوں مسجد میں آنے دینا کیسا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
نوٹ: اگر ناصر سماج میں ملنا چاہے تو کیا حکم ہے ؟
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی محمد عالمگیر*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
برصدق مستفتی ناصر کافر ہوگیا
خصوصا یہ کہنا کہ ہم ،، *ناستک* ،، ہیں معاذاللہ صریح کفر ہے!
ناستک کے معانی ہوتے ہیں منکر ، بےدین ، ملحد ، وغیرھم
*(فیروزاللغات ، ص١٣٤٢)*
اسکے علاوہ یہ کہنا کہ ہمیں نہ مدرسے سے مطلب نہ مسجد سے نہ مولوی حافظ سے وغیرہ سب کے سب دین سے خارج کرنے والے جملے ہیں!

علامہ شیخ ملاعلی قاری حنفی متوفی ١٠٠١ ھ تحریر فرماتے ہیں۔۔
*"- و فی الخلاصة من قال انا ملحد کفر أی لان الملحد اقبح أنواع الکفرة و فی المحیط و الحاوی لان الملحد کافر و لوقال ماعلمت انھا أی ھذہ الکلمة کفر لایعذر بھذا أی فی حکم الظاھر۔۔۔۔۔۔*
*فی المحیط من قال فأنا کافر أو فأکفر یعنی فی الجزاء الشرطیة المبتدأة و مطلقا قال أبو القاسم ھو کافر من ساعته '-*
*( 📕الفقه الاکبر ، فصل فی الکفر صریحا و کنایة ، ص ١٦٩ { دارالکتب العربیة الکبریٰ بمصر}*

علامہ شیخ نظام الدین حنفی متوفی ١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے تحریر فرمایا ہے
*-" مسلم قال أنا ملحد یکفر و لوقال ماعلمت أنہ کفر لایعذر بھذا '-*
*(📂 الفتاویٰ الھندیة ، المجلدالثانی ، کتاب السیر ، ص ٢٩٨ {بیروت لبنان}*

مذکورہ عبارات جلیلہ کا خلاصہ یہ ہےکہ کوٸی مسلمان کہے کہ میں کافر ہوں یا ملحد ہوں یا مسلمان نہیں ہوں تو ایسی صورت میں کافر ہوجاۓ گا بعدہ قاٸل کہے کہ میں نے غصے میں یا کسی وجہ سےکہدیاتھا تو یہ عذر عذر شرعی نہیں!

لہذا صورت مسٶلہ میں ناصر ان اقوالِ کفریہ کہنے کی سبب کافر ہوگیا زید کے تمام اعمال حسنہ برباد ہوگۓ اگر بیوی والا ہے تو بیوی بھی نکاح سے جاتی رہی لہذا ناصر پر لازم ہے فورا تجدیدایمان و توبہ استغفار کرے اور اگر بیوی والا ہے تو تجدیدنکاح بھی کرے!

اور اگر ناصرایسا نہ کرے تو زید کا دینی و سماجی باٸیکاٹ لازم ہے یعنی ناصرسے تمام دینی و دنیاوی معاملات ختم کیے جاٸیں اور اگراسی حالت میں مرجاۓ تو غسل و کفن و نمازجنازہ کچھ بھی نہیں ہے!

لہذا ناصر کا جن حضرات نے دینی و سماجی باٸیکاٹ کیا وہ سب کے سب لاٸق تحسین و داد ہیں!
اور وہ لوگ جو ناصر کے حامی ہیں اسکی دوصورتیں ہیں !
صورت اول ، اگر وہ حمایت فقط اسلیے کرتے کہ ناصر گرچہ کافر ہوگیا ہے مگر انسان ہے ہمارا پڑوسی ہے لہذا ہم اسکے ساتھ ہیں تب یہ ناجاٸز ضرور ہے مگر کفر نہیں!

رب تعالی ارشاد فرماتا ہے!
*"- وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ '-*
اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک اور بات میں پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ
*( کنزالایمان ، سورہ انعام ، آیت٦٨ )*

علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی متوفیٰ٥١٦ھ فرماتےہیں ۔۔۔
*( فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين ) يعني إذا جلست معهم ناسيا فقم من عندهم بعدما تذكرت "-*
بھول کر ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ جاۓ ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہو جاؤ
*( 📘تفسیرالبغوی ، سورہ انعام ، ص٤٢٥ (بیروت لبنان)*

✾فخر ازھر چینل✾

31 Mar, 16:52


*🌹حمل کا فطرہ واجب ہے کہ نہیں ؟؟🌹*

السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ
سوال عرض ہے آج ایک صاحب فطرہ وصول کرنے آئے تھے۔ تو جو عورت حاملہ ہیں بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہے اسکا بھی فطرہ وصول رہے تھے کیا یہ صحیح و درست ہے ؟
جواب عنایت فرمائیں
*فخر ازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*المستفتی محمد معراج رضا نوری گونڈہ اترپردیش*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب بعون الملک الوہاب*
درست نہیں ہے!
یاد رکھیں حمل کا صدقہ فطر واجب نہیں!

علامہ شیخ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی متوفی ٧١٠ھ تحریرفرماتےہیں۔۔۔
*"- ولا (یخرج ای صدقة الفطر) عن الحمل "-*
اورنہ حمل کاصدقہ فطرنکالا جاۓ گا
*( 📕البحرالرائق شرح کنزالدقاٸق ، المجلدالثانی ، کتاب الزکوة ، ص ٤٤٢ بیروت لبنان)*

ہاں اگر بچہ عیدکی صبح صادق سےپہلے پیدا ہوجاۓ تو واجب ہے!

علامہ شیخ نظام الدین حنفی متوفی ١٠٩٢ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے تحریر فرمایا ہے
*"- ووقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثاني من يوم الفطر۔۔۔۔۔ ومن ولد أو أسلم قبله وجبت ومن ولد أو أسلم بعده لم تجب ۔۔۔۔*
*( 📘الفتاویٰ الھندیة ، المجلدالاول ، کتاب الزکوة ، ص٢١١ بیروت لبنان)*

لہذا صورت مسٶلہ میں ان مولانا صاحب کا مذکورہ عمل قطعا درست نہیں انکو چاہیے حمل کی وصول کردہ رقم واپس کریں اور شرع کے مطابق عمل کریں اور تلقیں کریں !

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*
*۱۹ رمضان المبارک ؁١٤٤٥ھ ۳۰ / مارچ ؁٢٠٢٤ء بروز سنیچر*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منتظمین فیضان غوث.وخواجہ گروپ*
اـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

2,229

subscribers

4

photos

7

videos