✍️: سمیع اللہ خان
متنازعہ پاکستانی انجینئر محمد علی مرزا کے پروگرام میں ہندوستان کے سنبھل سے ایک مسلمان لڑکے نے شرکت کی اور سنبھل مسجد کے واقعے پر سوالات کرکے ہندوتوادیوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک مدعا تھما دیا ہے، اس پر بحث جاری ہے ہندو آئی ٹی سیل نے اس لڑکے کو ملک کے لیے خطرہ بنادیا ہے اور سنبھل پولیس نے مستعدی کے ساتھ اس لڑکے کی تلاش میں دو دو ٹیمیں اتار دی ہیں ۔
اس لڑکے نے پاکستانی انجینئر کے پروگرام میں آن لائن شامل ہوکر یہ سوال پوچھا کہ سنبھل مسجد کا دفاع کرتے ہوئے جو مسلم نوجوان شہید ہوئے کیا انہیں شہید کہا جاسکتا ہے ؟
اس واقعے کے دو پہلو ہیں ۔
نمبر 1- انجینئر مرزا جیسے متنازعہ لوگوں کا اثر سوشل میڈیا کے ذریعے کس حد تک پھیلتا جارہا ہے یہ اس کا ثبوت ہے، اس پر بھارت کے علما کو تفہیمی انداز میں کام کرنا چاہیے، البتہ " خالص تردیدی اور مناظرانہ انداز " سے بچنا چاہیے کیونکہ انجینئر مرزا جیسوں کو سننے والے اور اس کو فالو کرنے والے کئی سارے نوجوان میرے بھی دوست ہیں اور یونیورسٹی سطح پر ایسے نوجوانوں کا بارہا تجربہ ہوا ہے نفسیاتی پہلو یہ سامنے آیا کہ مرزا کی غلط باتوں کو غلط بتانے کا " خالص مناظرانہ تردیدی انداز " ان نوجوانوں میں مرزا کی مقبولیت مزید بڑھا رہا ہے میں خاص طور پر پاکستانی علماء کے تردیدی انداز پر بات کررہا ہوں ۔ ہمارے یہاں کے علماء کرام تو اب الا ماشاءاللہ ہی کچھ مضبوط اور زمینی اثر رکھنے والے کام کرتے ہیں پھر بھی اگر کچھ علمائے کرام منظم اور مثبت انداز میں مرزا جیسے متنازعہ لوگوں کے اثر سے اس امت کے نوجوانوں کی حفاظت کرنا چاہیں تو یہ اشاریہ مشورہ ان کے لیے ہے، باقی تفصیلات عملی کام پر۔
دوسرا پہلو۔
یہ وہ فورم ہے ہی نہیں جس پر خالص مذہبی نوعیت کے سوالات بھی پوچھے جائیں، اور خاص طور پر جب سوال کسی سیاسی واقعے کی مذہبی تشریح سے متعلق ہو، یا مذہبی حیثیت متعین کرنے کے لیے ہو جیسے کہ اتر پردیش پولیس کے ذریعے سنبھل میں مسلمانوں کا سیاسی طور پر قتل تب تو ایسے فورم پر سوال کرنا مزید بچکانہ کام ہے۔
میں تو یہ بھی سمجھ نہیں پاتا ہوں کہ ایسے انتہائی متنازعہ پاکستانی اسکالرز کے پروگرامز میں شامل ہی کیوں ہونا ہے؟ بھارت میں ہمارے پاس ہزاروں علما ہیں۔ ایک عالم کے طور پر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ لوگ جو اترپردیش کی سنبھل پولیس کے ہاتھوں مارے گئے، وہ سچے شہید ہیں۔ ہمیں انہیں "شہداءِ سنبھل" کے طور پر ہی یاد رکھنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب لینے کے لیے پاکستان کے اسکالر کا رخ کیوں کرنا پڑا آپکو؟
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں ہماری نوجوان نسل اپنے پسندیدہ اسکالرز سے جڑنے کی کوشش کرتی ہے، سنبھل کے اس بچے پر یہ جو مشکل آئی ہے یہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر رہنمائی لینے کی عادت کے نقصانات میں سے بڑے نقصان کی زندہ مثال ہے۔ بھارت میں، ہمارے نوجوانوں کو پاکستانی شخصیات سے جڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے آپ، آپ کے خاندان، اور آپ کی کمیونٹی کو کئی مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بھارت میں بہترین اسلامی ادارے اور عالمی شہرت یافتہ اسلامی علما موجود ہیں، لہذا پاکستانی علما پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا یہ رجحان ایک سیاسی تنازعہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اور آپکا یہ غیر ضروری عمل بھارت میں اسلاموفوبک عناصر کے مسلم دشمن ایجنڈے کے لیے موقع بن جائےگا۔ میں تو پاکستانی اسکالرز سے بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر وہ مخلص ہیں تو اپنے پروگراموں میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایسی شرکت کا آپشن نہ ہی رکھیں تو بہتر ہے کیونکہ اس سے صرف مسائل اور نزاعات ہی پیدا ہورہے ہیں، سننا الگ ہے اور شرکت الگ ۔
ویسے بھی میرا ماننا ہے کہ سوشل میڈیائی پاکستانی اسکالرز کی بھارت کے مسائل پر دی گئی آرا متنازعہ ہوتی ہیں اور پاکستانی اسکالرز کے جوابات بھارت-پاک سیاسی مسائل سے متاثر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے یہ عمل غیر ضروری ہے اور اس سے بچا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اتر پردیش کی موجودہ حکومت یوگی کی حکمرانی پر کام کر رہی ہے نہ کہ آئین کی حکمرانی پر، اور عمومی طور پر بی جے پی کی حکومتیں بھارتی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا موقع نہیں چھوڑتیں۔ ایسے میں متنازعہ پاکستانی انجینئر کے پروگرامز میں شامل ہونا اور بھارت کے سیاسی مسائل پر رائے طلب کرنا ایک بچکانہ اور غیر ذمہ دارانہ عمل ہے، جو خود کو مشکلات میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ *جیسے ہمیں بی جے پی کے مظالم کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے اور قانونی و جمہوری طریقوں سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے، ویسے ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اتنی عقل و فہم اور بصیرت رکھتے ہوں کہ اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں نہ ڈالیں جہاں ہمیں ہندوتوادی سرکاروں کے ذریعے آسانی سے نقصان اور نشانہ بنایا جا سکے۔ بغیر عقل کے حوصلہ، بے قابو ہاتھی کی طرح ہوتا