سمیع اللہ خان @qalamehaq Channel on Telegram

سمیع اللہ خان

سمیع اللہ خان
امت اور انسانیت کے مسائل ,عظیم اسلامی تاریخ، ہندوستان کی صورتحال،عالم اسلام اور صہیونی صلیبی منظرنامہ،میڈیا کے پروپیگنڈے کےخلاف سچائی کی اشاعت،اور تعلیمی و فکری بیداری کےلیے
معروف صاحبِ علم و قلم *سمیع اللہ خان* کا غیر رسمی ٹیلیگرام چینل۔
1,860 Subscribers
1,328 Photos
115 Videos
Last Updated 15.02.2025 01:45

سمیع اللہ خان: علم و فکر کی سرپرستی

سمیع اللہ خان، ایک معروف صاحبِ علم اور قلمکار ہیں، جنہوں نے اسلامی تاریخ، امت مسلمہ کے مسائل، اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی بیداری کے لئے کوششیں کی ہیں۔ ان کا غیر رسمی ٹیلیگرام چینل ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے، جہاں وہ مسلمانوں کے مسائل، عظیم اسلامی تاریخ، اور حالیہ عالمی منظرنامے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ چینل نہ صرف علمی و فکری بیداری کا ذریعہ ہے بلکہ یہ لوگوں کو میڈیا کے پروپیگنڈے کے خلاف سچائی کی اشاعت کی طرف بھی راغب کرتا ہے۔ سمیع اللہ خان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان ایک قوم کے طور پر اپنی شناخت کو مضبوط کریں اور عالمی چالوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔

سمیع اللہ خان کا ٹیلیگرام چینل کس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے؟

سمیع اللہ خان کا ٹیلیگرام چینل بنیادی طور پر مسلمانوں کی علمی و فکری بیداری کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس پلیٹ فارم پر وہ امت مسلمہ کے مسائل، جیسے کہ اجتماعی وحدت، تعلیمی بحران، اور عالمی چیلنجز پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ چینل لوگوں کو اس بات کی معلومات فراہم کرتا ہے کہ کیسے ان کے مسائل کو سمجھا جائے اور حل کیا جائے۔

اس چینل کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو صحیح معلومات فراہم کی جائیں تاکہ وہ میڈیا کے پروپیگنڈے کا سامنا کرسکیں۔ سمیع اللہ خان ان موضوعات کی وضاحت کرتے ہیں جو عالمی سطح پر مسلمانوں کو متاثر کرتے ہیں، تاکہ لوگ ان مسائل کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور اپنی سوچ میں بہتری لا سکیں۔

عظیم اسلامی تاریخ کی تعلیم کیوں ضروری ہے؟

عظیم اسلامی تاریخ کی تعلیم مسلمانوں کے لئے اہم ہے کیونکہ یہ انہیں اپنی شناخت، ثقافت اور وراثت سے جوڑتی ہے۔ تاریخ جاننے کے ذریعے مسلمان اپنے ماضی کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ سمیع اللہ خان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کی سمجھ بوجھ حوصلہ افزائی کرسکتی ہے اور مسلمانوں کو ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے تیار کرتی ہے۔

علاوہ ازیں، اسلامی تاریخ پڑھنے سے مسلمان ایک مضبوط قومی شناخت پیدا کرسکتے ہیں جو انہیں نہ صرف اپنی روایات کی حفاظت کرنے کے قابل بناتی ہے، بلکہ انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی مؤثر انداز میں پیش کرتی ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنی ثقافتی وراثت کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بہتر مثال قائم کرسکتے ہیں۔

امت مسلمہ کے مسائل کیا ہیں؟

امت مسلمہ کے مسائل میں سیاسی عدم استحکام، اقتصادی چیلنجز، اور تعلیمی بحران شامل ہیں۔ مختلف ممالک میں مسلمانوں کی حالت زار اور ان کی سیاسی حیثیت کے مسائل جیسے فلسطین کا مسئلہ، کشمیری تنازعہ اور دیگر تنازعات ہیں جو مسلمانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ سمیع اللہ خان اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔

اس کے علاوہ، اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف جذبات بھی اہم مسائل میں شامل ہیں۔ مسلمانوں کو عالمی سطح پر اپنی شناخت کی حفاظت کے لئے خود کو بہتر طریقے سے پیش کرنا ہوگا اور ان چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے خود کو متحد رکھنا ہوگا۔ سمیع اللہ خان اس شبہ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے کردار کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہم ایک طاقتور امت کے طور پر ابھر سکیں۔

میڈیا کے پروپیگنڈے کے خلاف سچائی کی اشاعت کیوں اہم ہے؟

میڈیا کے پروپیگنڈے کے خلاف سچائی کی اشاعت اس لئے اہم ہے کیونکہ یہ لوگوں کو حقیقی معلومات فراہم کرتا ہے۔ سمیع اللہ خان کا ماننا ہے کہ غیر جانبدارانہ معلومات کا حصول انتہاپسندانہ نظریات کے مقابلے میں ایک مثبت روش ہے۔ یہ پس پردہ رہ جانے والے حقائق کو اجاگر کرتا ہے اور شفافیت کے ذریعے عوامی شعور کو بڑھاتا ہے۔

مزید یہ کہ، سچائی کی اشاعت لوگوں کو ان کے حقوق کی آگاہی دیتی ہے اور انہیں اپنی آواز اٹھانے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اگر مسلمان اپنے مسائل کو سمجھتے ہیں تو وہ زیادہ موثر طریقے سے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ سمیع اللہ خان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سچائی کی آگاہی لوگوں کے شعور کو بڑھاتی ہے اور ایک مضبوط معاشرے کی تشکیل میں مدد کرتی ہے۔

تعلیمی و فکری بیداری کا مقصد کیا ہے؟

تعلیمی و فکری بیداری کا مقصد مسلمانوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھانا، اور ان کو خود کو بہتر بنانے کے لئے تیار کرنا ہے۔ سمیع اللہ خان نے اپنے ٹیلیگرام چینل کے ذریعے اپنی تعلیم و تربیت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور نوجوانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ جدید چیلنجز کا سامنا کرسکیں۔

تعلیمی بیداری بھی امت مسلمہ کے اتحاد کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب لوگ علم حاصل کرتے ہیں تو وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں اور اپنی ثقافت کی حفاظت کے لئے بہتر کوششیں کر سکتے ہیں۔ سمیع اللہ خان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تعلیم اور فکری بیداری ہی مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کن عنصر ہے۔

سمیع اللہ خان Telegram Channel

سمیع اللہ خان نامی ٹیلیگرام چینل ایک معروف صاحبِ علم و قلم کا غیر رسمی چینل ہے۔ یہ چینل امت اور انسانیت کے مسائل، عظیم اسلامی تاریخ، ہندوستان کی صورتحال، عالم اسلام اور صہیونی صلیبی منظرنامہ، میڈیا کے پروپیگنڈے کےخلاف سچائی کی اشاعت، اور تعلیمی و فکری بیداری کےلیے معلومات فراہم کرتا ہے۔ چینل کا نام qalamehaq ہے اور یہ وہاں سمیع اللہ خان کے انسائیقہ اور تعلیمی تجربات کی معلومات سے منسلک وجوہات کا تحفظ کرتا ہے۔ اگر آپ علمی، فکری اور اجتماعی موضوعات پر تفکر کرتے ہیں تو سمیع اللہ خان ٹیلیگرام چینل آپ کے لیے ایک بہترین رہنما ہو سکتا ہے۔ مندرجہ بالا موضوعات کے علاوہ، چینل میں مختلف تعلیمی و فکری موضوعات پر بھی بحث کی جاتی ہے جو آپ کے علمی عقائد کو بڑھانے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ اگر آپ ان موضوعات پر بحث کرنا یا نئی باتیں جاننا چاہتے ہیں تو سمیع اللہ خان ٹیلیگرام چینل آپ کے لیے ایک منفرد تجربہ فراہم کر سکتا ہے۔ بنیادی معلومات، تاریخی وجوہات، اور کثیر سوالات کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ چینل ایک بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔ بنیادی تعلیم، تفکر کی بڑھتی ہوئی ضروریت کو سمجھنے کے لئے، سمیع اللہ خان ٹیلیگرام چینل آپ کو آگے بڑھانے کی عظیم مدد فراہم کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے چینل کو فالو کریں اور نئی معلومات اور تجربات سے روشنی میں رہیں۔

سمیع اللہ خان Latest Posts

Post image

*ایک ادیب کی گستاخی !*
*فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف ایک مسلمان ادیب کی بدتمیزی اور زبان درازی کا نفسیاتی پہلو :*
✍️: سمیع اللہ خان
احمد جاوید صاحب نے فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف جو کچھ کہا ہے اسے بدتمیزی کےعلاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ غداری وہ کر نہیں سکتے ہیں نہ ہی غامدیوں کا ایجنڈا وہ چلا سکتے ہیں اس لیے ان کے بیان کو بدتمیزی کہا جائےگا۔
فلسطینی مزاحمت کار جس عزت و احترام کے حقدار ہیں اس کے پیش نظر احمد جاوید صاحب کے الفاظ کو " زبان درازی " سے تعبیر کیا جانا چاہیے ۔
ہندوپاک سے کئی ایک اہل علم اور مخلص نظریاتی شخصیات جو ماشاءاللہ مزاحمت و مقاومہ کے قلمی شہہ سوار و علمبردار ہیں وہ احمد جاوید صاحب کے بیان کا علمی، منطقی اور تکنیکی جواب دے رہے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر وہ موصوف کے بیان کو ادیب کی گستاخی ، بدتمیزی اور زبان درازی کے تناظر میں سمجھیں گے تو ان کی مخلصانہ محنت ضائع نہیں ہوگی، اسی لیے میں ان کی گستاخی پر مختصراً نفسیاتی سطریں لکھ رہا ہوں۔
احمد جاوید کوئی ایسے شخص نہیں ہیں کہ ان کےپاس فلسطینی مزاحمت کاروں کی مزاحمت کے منطقی اور ایمانی ہونے کی معلومات پر دلائل موجود نہ ہوں، بنیادی طور پر ان کا اعتراض ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف جو اقدام کیا وہ تیاری کےبغیر کیا اور سب کو داؤ پر لگادیا، یہ کوئی نیا اعتراض تو ہے نہیں کہ اس پر الگ سے مدلل لکھا جائے، انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ان دلائل سے واقفیت کے باوجود کہا ہے۔
یہ بیان دراصل ایک کیفیت کا نتیجہ ہے، جب کوئی شخص علم و کتاب اور مطالعات میں ایسا غرق ہوتا ہے کہ اس کے مطالعات ہی تجربات ہوتے ہیں تو پھر وہ ایک نفسیاتی کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے اور کتابی سطروں کو دنیا میں من و عن دیکھنا چاہتا ہے، بہت بھرپور ادیب یا بہت بھرپور صاحبِ مطالعہ شخص اگر دنیا کی جدوجھد، زندگی کی مزاحمت اور عدل و انصاف کی تحریکات کا عملی حصہ کبھی نہیں بنا ہے تو اسے مزاحمت، حقوق اور عدل و انصاف کی خاطر برپا ہونے والے شور سے الرجی ہونے لگتی ہے، وہ قربانیوں کو خون خرابہ اور عزم و استقامت نیز حق خودارادیت کے جنون کو خودکشی سمجھنے لگتا ہے، ایسے اہل علم و دانش آج ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں جو ایسی نفسیات کے شکار ہورہے ہیں وہ ظلم و ستم اور ظالم کے خلاف مظلوموں کی اسپرٹ آواز اور انگڑائیوں پر غصہ اتارتے ہیں اور انہیں پاگل و جذباتی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے علم و دانش کو زمین پر عدل و انصاف کی تحریکات سے ملنے والی زندگی کی غذائیت نہیں مل سکی ہے، وہ انقلاب و احتجاج کو اپنے کمرہءمطالعہ میں حرج سمجھتے ہیں اگر " احمد جاوید "حقوق حاصل کرنے کی جدوجھد کے بدلے ملنے والی "حیاتِ جاوید" کا بھی تجرباتی ایمانی شعور رکھتے تو کبھی مزاحمت کاروں کی ایمانی فراست پر سوال نہیں اٹھاتے، ایمانی فراست پر شک کرنا ایمانی نظر سے محرومی کی علامت ہے اور ایک مسلمان ادیب کی حیثیت سے فرضِ کفایہ ادا کرنے والے فلسطین کے حسین دل عظیم جہد کاروں کی شان میں کمی کرنا گستاخی، بدتمیزی اور زبان درازی ہے۔
ایک ادیب کی انقلابیت معاشرے کو انقلابی بناتی ہے، ایک ادیب کی نظریاتی قوت سماج کو اپنے پیروں پر کھڑا کرتی ہے، ایک ادیب کی آزادانہ رومانیت سماج کو بے حیا بنادیتی ہے، ایک ادیب کی زندہ دلی معاشرے کو باحوصلہ بناتی ہے، ایک ادیب کے دل کی روحانی زندگی سماج میں ربانی سوز و ساز پیدا کرتی ہے، لیکن اگر ادیب حقوق حاصل کرنے کی اسپرٹ اور ظالموں کے خلاف مزاحمت کی جدوجھد کی حیاتِ جاوید سے محروم ہے تو جذبہء حرّیت کےخلاف اس کی گستاخیاں سماج کو غلام بنا سکتی ہیں !
https://www.facebook.com/share/p/167LUD5U5C/

12 Feb, 06:09
205
Post image

*نریندر مودی اور ہندوتوادیوں کی ٹرمپ کے ہاتھوں ذلّت !*
✍️: سمیع اللہ خان
یہ نریندر مودی ہے، بڑی بڑی ڈینگیں اس کا سرمایہ ہے، اس نے ہندوؤں کو مسلمانوں کی ایسی نفرت کا نشہ لگا دیا ہے کہ آج مودی کے حامی ہندو منتظر رہتے ہیں کہ کب مسلمانوں کص نقصان پہنچے مسلمانوں کا خون بہے اور یہ جشن منانا شروع کردیں،
مسلمانوں کی اذیت و تکلیف ان کی لذت ہے،
لیکن فطرتاً یہ لوگ کتنے بزدل ہیں اس کا اندازہ لگائیے :
شیطان ٹرمپ نے جیسے ہی غزہ پر قبضے کا اعلان کیا ہندوؤں نے جشن منانا شروع کر دیا اور فلسطینیوں کا مضحکہ اڑانے لگے،
لیکن اسی ٹرمپ نے جب ہندوستانی تارکینِ وطن کو ذلیل کرکے، پیروں میں بیڑیاں ڈال کر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر امریکا سے بھگایا تو یہ مودی اور اس کا ہندوتوا خیمہ منہ میں دہی جما کر بیٹھا ہے،
مودی خود کو وِشو گرو کہتا ہے لیکن ٹرمپ نے اس فیصلے سے پہلے اس کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جس سے اس کے عالمی لیڈر ہونے کی اصلی نوعیت سامنے آچکی ہے اور جن ہندوؤں نے ٹرمپ کے لیے اس کی اسلام دشمنی کی وجہ سے اسے الیکشن میں جتانے کی مہم چلائی تھی انہی ہندوؤں کو ٹرمپ نے بلا تردد اٹھا کر امریکا سے باہر پھینک دیا،
نہ مودی اُف کرسکتا ہے نہ ہندوتوادی ہندو احتجاج کر پارہے ہیں کیونکہ انہیں اپنی اوقات پتا ہے، کہ یہ بزدل بھی ہیں اور بے حیثیت بھی۔
ہندوستان میں ان کم ظرف ظالموں کے عروج سے گھبرانے والے لوگوں کے لیے اس میں ایمان افروز عبرت ہے، اپنا قبلہ درست رکھیں اور ایمان کا سینہ مضبوط رکھیں یہ سب خس و خاشاک کی طرح گزر جائیں گے اور بھارت میں بھی عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، البتہ اس کے لیے آئین و جمہوریت کی رو سے احتجاجی اقدامات اور قانونی انقلابات برپا کرنا ہوں گے۔
https://www.facebook.com/share/p/15URgGbaPG/

06 Feb, 14:15
446
Post image

غزہ امریکا کے لیے قبرستان بن جائے گا ۔
✍️: سمیع اللہ خان
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ یعنی کہ امریکا غزہ کو اپنے کنٹرول میں رکھےگا، غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی خالی کرالیا جائےگا،
ٹرمپ کی یہ دھمکی یقیناً ایک اور تباہ کن جنگ کا بیانیہ ہوسکتی ہے لیکن اگر ایمان کی نظر سے دیکھا جائے تو غزہ کو خالی کرانے کی یہ کوشش امریکا کو تہس نہس اور تباہ و برباد کردے گی، جس کے بعد امریکا کا کوئی قابلِ ذکر وجود باقی نہیں رہےگا۔
یہی افغانستان میں ہوا، یہی شام میں ہوا، یہی فلسطین میں جاری ہے اب اگر امریکا باضابطہ اس میں کودنا چاہتا ہے تو ایک بھیانک جنگ ہوگی جو پھیل جائے گی اور انجام کار امریکہ ختم ہو جائے گا اور غزہ باقی رہےگا۔
اگر ٹرمپ غزہ کو اسرائیل میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا غزہ کو امریکی کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں دیگر عرب ممالک کا اندرونی امن و سکون تاراج ہو جائے گا اور ان کی بقا و سلامتی خطرے میں آجائےگی، یہ سمجھنا غلط ہے کہ عرب ممالک کی عامۃ المسلمین سوفیصد اپنے صہیونی حکمرانوں کے ساتھ ہے۔ اگر ٹرمپ غزہ کو ختم کرنے کے لیے پیشقدمی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں صرف عالم عربی ہی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام میں ایک مثبت ایمانی لہر چل پڑےگی، یہ جہاں رحمان کے عالمی دیوان کی طرف تکوینی قدم ہوگا وہیں ہر سطح کے منافقین بے نقاب ہوں گے اور مسلم دنیا میں گھسے ہوئے صہیونی حکمرانوں کے خلاف عوامی مزاحمت شروع ہوگی۔
اس کےعلاوہ غزہ میں موجود مزاحمت کاروں کو ٹرمپ اور اس کا شیطانی لشکر کچھ وقت کے لیے نقصان تو پہنچا سکتا ہے لیکن جانبازوں کی یہ سرزمین ٹرمپ کے لیے بالآخر قبرستان بن جائے گی اور امریکا یہاں سے جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوگا۔
https://www.facebook.com/share/p/1XuHTeaHQh/

06 Feb, 06:53
462
Post image

*#ملّی_تجربات : #ایک_واقعہ !*
*ہمارے اسلاف دعوتیں کیوں نہیں قبول کرتے تھے ؟ اپنے ایک تجربے کی روشنی میں:*
✍️: سمیع اللہ خان
یہ بات بارہا پڑھی تھی کہ ہمارے اسلاف, عظیم علمی، فکری اور روحانی ہستیوں میں ایک نمایاں وصف یہ ہوتا تھا کہ وہ اہلِ مال کی دعوتیں قبول نہیں کرتے تھے اور امراء و اہلِ مال کی دعوتوں سے بہت پرہیز کرتے تھے، یہ پرہیز کس وبا سے بچنے کے لیے تھا؟ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ مجھے اس کا تجرباتی علم تین سال پہلے ہوا جسے آج لکھ رہا ہوں ۔
ایک ریاست کی ایک بہت ہی معروف شخصیت جوکہ ایک عدد ملّی تنظیم کے اہم عہدیدار بھی ہیں اور کاروباری لحاظ سے دنیادار بھی، مجھے ایک عرصے سے اپنے یہاں مدعو کررہے تھے لیکن میں جا نہیں پارہا تھا، ایک تو دیگر مصروفیات مانع تھیں دوسرے طبیعت پتا نہیں کیوں آمادہ نہیں تھی، آخرکار ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے ان کے شہر جانا پڑا، ملاقات ہوئی، استقبال کیا، ایسا پرتپاک استقبال کہ قدم قدم پر گویا کہ پھول بچھائے، اپنے کاموں کا گھنٹوں تعارف کراتے رہے، یہاں تک کہ فقیر و فقرا کو جو کھانا کھلاتے ہیں وہ بھی مجھے بتاتے رہے،
انہیں مجھ سے ایک کام تھا، جو میں کرسکتا تھا،
میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے بلا تردد کردیا، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ ماشاءاللہ بڑے پیمانے پر فلاحی رفاہی اور خدمت خلق کا کام کررہے ہیں۔ میں نے اس ملاقات سے پہلے بھی ان کے حق میں تقویت کا کام کیا تھا ۔
اچھی ضیافت کی انہوں نے اور نکلتے ہوئے ایک تحفہ پیش کرنے لگے، جس کی قیمت مشکل سے 5 سے 10 ہزار ہوگی ۔ یہ میرے مزاج کے سخت خلاف تھا میں نے سختی سے منع کیا تو وہ رونے لگے اور گلے لگ کر رونے لگے کہ آپ ایسا کام کررہے ہیں اور آپ ملت کے ایسے ہیرے ہیں اور امت کا سرمایہ ہیں اور پتا نہیں کیا کیا، اس لمحے میں کمزور پڑ گیا، دنیاوی لحاظ سے اتنے بڑے آدمی کو اس انداز میں دیکھ کر تھوڑا اچھا نہیں لگا اور ان کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے تحفہ رکھ لیا۔
روانگی ہوگئی۔
کم ظرفی کا اظہار:
قریب ڈیڑھ سال بعد ایک معاملے میں میری رائے ان کی رائے سے الگ تھی اور میں اپنی رائے پر بڑی مضبوطی کے ساتھ قائم تھا، جس پر ان کے دست راست نے اپنے یہاں دعوت کھلانے اور تحفہ دینے والی بات ایک واٹس ایپ گروپ میں لکھ دی۔ مجھے ان کے ہی قریبی ایک شخص نے بتادیا کہ یہ کمینہ خصلتی ان کے ہی اشارے پر ہوئی ہے، اس کم ظرفی سے مجھے ٹھیس تو پہنچی لیکن یہ میرے لیے سبق آموز واقعہ بن گیا چونکہ میں طبعی طور پر اپنی عزت نفس اور خودداری کو لےکر حساس ہوں اس لیے کئی دنوں تک میرا دل اس کم ظرفی کی چوٹ سے اُبھر نہیں سکا تھا۔ قریب چار دنوں تک میں کچھ لکھ نہیں سکا نہ کسی پروگرام میں شرکت کرسکا، اپنے گاؤں کی وادیوں میں رہا، غور وفکر اور فطرت کی سرگوشیوں میں رہا، پھر واپس آکر انہیں صرف اتنا جواب دیا کہ ۔ میرا کرایہ آپکے تحفے سے زیادہ تھا اور جو کام آپکا کیا وہ آپکی ایک ہزار دعوتوں سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔ لیکن آپ نے مجھے جو سبق دےدیا ہے وہ عمر بھر کی متاع ہے۔
میں اسے کم ظرفی سے اس لیے تعبیر کرتا ہوں کہ کم ظرفی دنیا کی سب سے بدترین خصلت ہے جو کم ظرف ہوگا وہ کسی کا نہیں ہوسکتا ۔ ظرف خاندانی اور تربیتی دولت ہے۔ اس سے محروم انسان کسی کے بھی ساتھ وفادار نہیں ہوسکتا ہے ۔
اب کوئی میرے سامنے ہزار سر پٹخے اور ہزار خلوص کا اعلان کرے تو بھی ایسی غلطی نہیں کرتا ہوں۔
اس عملی تجربے سے مجھے یہ تعلیم ملی کہ ہمارے اسلاف کتنی عظمت اور ایمانی فراست کے حامل تھے، اور وہ اہل مال کی دعوتوں سے کیوں بچتے تھے؟ ملی تنظیموں کے عہدوں پر فائز اہلِ مال تو مزید خطرناک ہیں ۔
ملّی معاملات میں سرگرمی کے سبب ایسے بےشمار تجربات ہوئے ہیں وقتاً فوقتاً یاد آتے ہیں تو پیش کرتا ہوں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ واقعہ گزر جانے کے کم از کم ایک سال بعد اسے بیان کیا جائے۔
https://www.facebook.com/share/p/15uwQHXBaP/

04 Feb, 05:29
577