◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆ @nuqoosh_e_hadees Channel on Telegram

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

@nuqoosh_e_hadees


بعض وائرل روایات کی تحقیق ● گروپ "تخریج الأحاديث" کے بعض حل شدہ روایات کا مجموعہ ● اور بھی فنونِ حدیث سے متعلق بہت کچھ مواد حاصل کرنے کے لیے جوائن کیجیے ۔
@Takhreej_e_ahadith
سوال کے لیے” تخریج الأحاديث “ گروپ کی لنک 👆

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆ (Urdu)

نقوشِ حدیث یہ ایک تلگرام چینل ہے جہاں آپ کو وائرل روایات کی تحقیق اور تخریج الأحاديث کے بعض حل شدہ روایات کا مجموعہ ملےگا۔ یہاں آپ بہت سے فنونِ حدیث سے متعلق بہترین مواد حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی سوال ہے یا اور مواد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو فوراً @Takhreej_e_ahadith گروپ کو جوائن کریں۔ وہاں آپ کو مکمل جواب ملےگا اور آپ اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر سکیں گے۔ تو بغیر دیر کیے ابھی نقوشِ حدیث چینل کو جوائن کریں اور حدیث سے متعلق معلومات بہترین طریقے سے حاصل کریں۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

22 Nov, 15:51


📚 آخری وقت میں بھی حدیث سنتے رہے 📚

🔹حافظ محدث امام ابو طاہر احمد بن محمد السِلفی (المتوفی : 576ھ) علیہ الرحمہ

تُوُفِّيَ الحَافِظ فِي صَبِيْحَة يَوْمَ الجُمُعَةِ وَلَمْ يَزَلْ يُقرَأُ عَلَيْهِ الحَدِيْث يَوْمَ الخَمِيْسِ إِلَى أَنْ غربتِ الشَّمْس مِنْ لَيْلَة وَفَاته، وَهُوَ يَردّ عَلَى القَارِئ اللَّحْنَ الخفِيَّ، وَصَلَّى يَوْمَ الجُمُعَةِ الصُّبْح عِنْد انفجَار الفَجْر، وَتُوُفِّيَ بَعْدهَا فُجَاءةً

"جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو سارا دن ان کا شاگرد ان کو حدیث سناتا رہا اور وہ پست آواز میں اس کی اصلاح کرتے رہے۔
پھر انھوں نے جمعہ کے دن نماز فجر اول وقت میں ادا کی جس کے فوراً بعد وہ وفات پاگئے".

•[سير أعلام النبلاء ج.21 ص.39]

#آخری_لمحات [➎]
#موت_کے_وقت
#احوال_سلف
#تذکرۃ_السلف
#محدثین_کرام

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

20 Nov, 14:19


https://youtu.be/Hgna4si8n5s

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

20 Nov, 13:48


ابن حَجَر، اثنَان، كِلاَهُمَا اسمُهُ أَحمَد، ولَقَبُهُ شِهَاب الدِّين (!).

الأول: المُحدِّث أَبو الفضل أَحمَد بن عَلِي بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن عَلِي الكِنَانِي العَسقَلاَنِي (ت 852ه‍).(صاحب فتح الباري)


والثَّاني: الفَقيهُ أَبُو العَبَّاس أحمَد بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن عَلِي ابن حَجَر الهَيتَمِيُّ المكِّيُّ (ت 974ه‍)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Nov, 13:46


قال الإمام زرُّوق (ت899هـ):

وَأُصُولُ العِلْمِ ثَلَاثَةٌ:

1. الحَدِيثُ، وَلَا يُؤْخَذُ إِلَّا عَنْ ثِقَةٍ مَأْمُونٍ ضَابِطٍ حَافِظٍ.

2. وَالفِقْهُ، وَلَا يُؤْخَذُ إِلَّا عَنْ نَزِيهٍ فَصِيحٍ عَارِفٍ بِالإِشْكَالَاتِ وَحَلِّهَا.

3. وَالتَّصَوُّفُ، لَا يُؤْخَذُ إِلَّا عَنْ وَرِعٍ مُتَّبِعٍ، أَوْ تَقِيٍّ عَالِمٍ بِالحَقِّ.

النصحة الكبرى (ص21)

منقول

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Nov, 04:33


*فائدة*
بہت دفعہ ہم عبارت میں بعض الفاظ کا لغوی معنی تلاش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ مکمل جملہ کی صورت میں ایک ضرب المثل یا کہاوت یا باقاعدہ ایک اصطلاح ہوتی ہے۔

*مثال* امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: قُلْتُ: مَنْ غَرَائِبِه المُنْفَرِدِ بِهَا حَدِيْثُ الأَعْمَالِ عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَرَ، *وَقَدْ جَازَ القَنْطَرَةَ*، وَاحْتَجَّ بِهِ أَهْلُ الصِّحَاحِ *بِلاَ مَثْنَوِيَّةٍ*
[الذهبي، شمس الدين ,سير أعلام النبلاء ط الرسالة ,5/295]

اس میں وقد جاز القنطرة کا کیا معنی ہوگا؟
اس کا لغوی معنی ہے؛ *اس نے پل پار کر لیا۔* یا اس شخص نے یہ پل عبور کر لیا ہے یعنی دشوار مرحلہ طے کر لیا ہے۔

لیکن یہ یہاں اس لغوی میں مستعمل نہیں بلکہ یہ باقاعدہ ایک اصطلاح ہے۔ جاز القنظرۃ کا محاورہ محدثین کے ہاں ان کے حق میں بولا جاتا ہے جن پر جرح تو ہوئی ہو لیکن جرح غیر موثر ہو ۔ اور جرح کے باوجود وہ ثقہ و ثبت ہو۔
اس راوی کی عدالت مشہور، ضبط مضبوط اور اس کی احادیث قابل احتجاج ہو تو اس وقت یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

*چند حوالہ جات*
وقد كان أبو الحسن المقدسي *يقول في الرجل الذي يخرج عنه في الصحيح هذا جاز القنطرة، يعني لا يلتفت إلى ما قيل فيه*
[ شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري، ٢١/١]

وَقد كَانَ الشَّيْخ أَبُو الْحسن الْمَقْدِسِي يَقُول *فِي الرجل الَّذِي يخرج عَنهُ فِي الصَّحِيح هَذَا جَازَ القنطرة يَعْنِي بذلك أَنه لَا يلْتَفت إِلَى مَا قيل فِيهِ*
[ فتح الباري لابن حجر، ٣٨٤/١]

نقل بن دَقِيق الْعِيد عَن بن الْمُفَضَّلِ وَكَانَ شَيْخَ وَالِدِهِ أَنَّهُ كَانَ *يَقُولُ فِيمَنْ خُرِّجَ لَهُ فِي الصَّحِيحَيْنِ هَذَا جَازَ القنطرة*
[ فتح الباري لابن حجر، ٤٥٧/١٣]

اور بلامثنویة ای بلا استثنا
اس کا مطلب بنے گا غير معنوية بلا استثناء کے معنی میں ہے یعنی اہل صحاح نے بلا استثناء ان سے احتجاج کیا ہے۔ کسی روایت یا کسی راوی وغیرہ کا استثناء نہیں کیا..

واللہ اعلم بالصواب۔

مختلف علماء کی تفصیل کا خلاصہ

ترتیب و پیشکش
ابو الحسن محمد شعیب خان
15 جولائی 2021

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Nov, 18:44


#مطالعہ_کیجیے(109)
#اربعین

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Nov, 18:44


@faizanealahazrat

شرح اربعین نوویه از مفتی احمد یار خان نعیمی

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ شرح مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح سے ماخوذ شرح اربعین نوویہ

           شرح اربعین نوویه

     شارح مشکٰوۃ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ

تحقیق و تدوین :

عمران رضا عطاری مدنی

پیش کش : مجمع التصانیف

#SHRAH #NOVI #DARSI #NISAB #NAEEMI #FOURTY #HADEES
#درسی_کتب #شرح #شرح_حدیث #اربعین

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Nov, 17:10


@faizanealahazrat
فیضان  اعلی حضرت  لائبریری
FAIZAN E ALAHAZRAT LIBRARY

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Nov, 17:10


@faizanealahazrat
650

نبی کریم ﷺ کے عظیم الشان معجزہ رد شمس(یعنی سورج کے غروب ہونے کے بعد واپس لوٹ آنے)کے ثبوت اور معجزہ کے منکرین کے اعتراضات کے جوابات پر اپنی نوعیت کی منفرد اور ضیخم ترین کتاب

سورج پھرا الٹے قدم معجزہ رد شمس
مرتب
میثم عباس قادری رضوی
ناشر
اکبر بک سیلرز

#MEESAM #MOJZAT #SABOOT #JAWAB #RAD #BADMAZHAB

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

04 Nov, 15:53


🌷 صحابہ کی توہین کرنے والا 🌷

♦️امام شمس الدین محمد سخاوی (المتوفی :902ھ) علیہ الرحمہ نے فتح المغیث عدالت صحابہ کے باب میں امام ابو زرعہ رازی (المتوفی:264)  علیہ الرحمہ کا یہ قول نقل کیا ہے :

🔹ثُمَّ أُسْنِدَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرّازِيِّ أَنَّهُ قَالَ : إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَنْتَقِصُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَاعْلَمْ أَنَّهُ زِنْدِيقٌ ; وَذَلِكَ أَنَّ الرَّسُولَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَقٌّ ، وَالْقُرْآنَ حَقٌّ ، وَمَا جَاءَ بِهِ حَقٌّ ، وَإِنَّمَا أَدَّى إِلَيْنَا ذَلِكَ كُلَّهُ الصَّحَابَةُ ، وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ يَجْرَحُوا شُهُودَنَا ; لِيُبْطِلُوا الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ . وَالْجَرْحُ بِهِمْ أَوْلَى ، وَهُمْ زَنَادِقَةُ . انْتَهَى .

🔸” جب تو کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک صحابی میں نقص تلاش کرتا ہے تو تو جان لے کہ وہ زندیق ہے ۔
کیوں کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق و سچے ہیں اور قرآن حق و سچا ہے اور ہم تک یہ قرآن اور سنتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے پہنچی ہیں وہ (صحابہ کے مخالف) چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو شریعت کے گواہ ہیں) پر جرح کریں تاکہ کتاب وسنت کو باطل کر دیں اور جب کہ وہ خود جرح کے زیادہ مستحق اور زندیق ہیں"۔

•[الكفاية في علم الرواية ص.97]
•[تهذيب الكمال في أسماء الرجال ج.19 ص.96 موسسة الرسالة]
•[فتح المغيث ج.4 ص.95]
•[]الاصابة ج.1 ص.11]

#فضائل_صحابہ (➊)
#شان_و_عظمت_صحابہ
#حرمت_و_ناموس_صحابہ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Oct, 00:43


( الأئمة الأربعة وأدبهم مع سيدنا رسول الله ﷺ ورضوان الله تبارك وتعالى عليهم أجمعين )

وَكُلُّهُمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ مُلْتَمِسٌ
غَرْفًا مِنَ البَحْرِ أَوْ رَشْفًا مِنَ الدِّيَمِ

* الإمام أبو حنيفة - رضي الله عنه - قال :
( يا أكرم الثقلين يا كنز الورى ....
جد لي بجود وارضني برضاك
أنا طامع في الجود منك ولم يكن....
لأبي حنيفة في الأنام سواك )
كتاب ( فتح القدير ) للإمام الكمال بن الهمام .

* الإمام مالك - رضي الله عنه - قال للخليفة :
( هو وسيلتك ووسيلة أبيك آدم - عليه السلام - )
كتاب ( الشفا ) للإمام القاضي عياض .

الإمام الشافعي - رضي الله عنه - قال :
( فلم تمس بنا نعمة ظهرت ولا بطنت ، نلنا بها حظا في دين ودنيا ، أو دفع بها عنا مكروه فيهما وفي واحد منهما ، إلا ومحمد - صلى الله عليه وسلم - سببها ، القائد إلى خيرها ، الهادي إلى رشدها .... )
كتاب ( الرسالة ) للإمام الشافعي .

* الإمام أحمد بن حنبل - رضي الله عنه -
سأله ابنه عبد الله عن الرجل يمس قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - ويتبرك بمسه ويقبله ويفعل بالقبر مثل ذلك أو نحو هذا يريد التقرب إلى الله عز وجل ؟
فقال الإمام أحمد : لا بأس بذلك .
كتاب ( العلل ومعرفة الرجال ) للإمام أحمد بن حنبل .

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

29 Oct, 16:10


📚اگر علماء علم کی قدر کرتے 📚

♦️حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ، صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوهُ عِنْدَ أَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ فَهَانُوا عَلَيْهِمْ سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَقُولُ ‏ "‏ مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَىِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ ‏"‏ ‏.‏

"اگر اہل علم علم کی قدر کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرتے تو وہ اپنے اہلِ زمانہ کے سردار بن جاتے۔
لیکن انہوں نے اسے اہلِ دنیا پر خرچ کیا تاکہ اس سے اپنی دنیا بنائیں تو وہ ان کی نظروں میں بھی گر گئے ۔
میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ :
"جس نے آخرت کے غم کو ہی اپنا واحد غم بنا لیا اللہ اس کے لیے اس کے دنیاوی غموں میں
کافی ہو جائے گا ۔
اور جس کو طرح طرح کی دنیاوی فکروں نے الجھا دیا تو اللہ بھی اس کی پر واہ نہیں کرے گا کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہوتا ہے".

•[سنن ابن ماجہ کتاب العلم : باب الاِنْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ ر:257]

#العلم_و_العلماء 𓊈𝟏𝟒𝟑𓊉 
#فضائل_علم 
#اہمیت_علم
#اقوال_صحابہ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:37


بالخصوص  درجہ خامسہ میں مشکاۃ کے ساتھ مرآۃ کو پڑھنا  دیگر درجوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔  اس درجہ میں پڑھ لی تو فبہا ورنہ درس نظامی مکمل ہونے سے قبل  حدیث کی  ایک کتاب  مکمل مع شرح  کا مطالعہ کرہی لینا چاہیے۔  جو طلبہ کرام ابھی ثانیہ، ثالثہ یا رابعہ میں ہیں تو وہ بھی اپنے درجے میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث میں مذکور احادیث کی شروحات کو اس مرآۃ  کتاب سے  ڈھونڈ کر پڑھ سکتے ہیں ، اس سے ان کے علم میں اضافہ بھی ہوگا اور فہمِ حدیث کا مادہ بھی پڑھے گا ۔
                ••══◉☆◉༺══••
اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

•؀ *ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی شیئر کیجئے*

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:36


*مرآة المناجيح: ایک تعارفی جائزہ*

••══◉☆◉༺══••
*✍🏻 معراج عالم عطاری (بنارس)*
درجہ دورۃ الحدیث
📍مرکزی جامعۃ المدینہ ناگپور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

درس نظامی کے نصاب میں يوں تو کئی کتب احادیث داخلِ نصاب ہیں ،جن میں سے ایک مشہور و معروف کتاب مشکاۃ المصابیح بھی ہے، یہ درجہ خامسہ کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے ، اس کے مصنف شیخ ولی الدين الخطيب التبریزی رحمۃ اللہ علیہ (ت: ٧٤١ھ) ہیں ،آپ نے کئی مشہور کتب احادیث کی مرویات کو جمع کیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر کئی شروحات عربی، اردو اور فارسی زبان میں لکھی گئی ہیں، جیسے مرقاۃ المفاتیح ، ،لمعات التنقيح ، اشعۃ اللمعات ،فتح الآله في شرح المشكاة ،مرآۃ المناجیح وغیرہ۔
مرآۃ المناجیح اردو زبان میں عام فہم انداز میں علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ (ت:۱۳۹۱ھ) نے لکھی ہے، تاکہ خواص کے ساتھ عام لوگ بھی اس سے استفادہ کرسکیں !

*سبب تصنیف*
مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: عرصہ دراز سے حدیث پاک کی مشہور ومعروف کتاب مشکاۃ المصابیح جس کی مقبولیت عرب و عجم میں عام ہے، عربی فارسی اردو زبان میں اس کتاب کی بہت شرحیں لکھی گئی، لیکن میں ایسی شرح لکھنا چاہتا تھا، جو طلبہ علما و عوام مسلمین کو یکساں مفید ہو جس میں نئے نئے مذاہب اور ان کے احادیث مبارکہ پر اعتراضات کے جوابات بھی ہوں، کیوں کہ مرقاۃ اور لمعات والوں کے زمانے میں اور رنگ تھا انہوں نے اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شرحیں لکھیں لہذا زمانے کے رنگ اور اس کے فسادات کو دیکھتے ہوئے اس شرح کو لکھنے کا قصد کیا ۔
( ملخصاً ، مرآۃ المناجیح ج: ۱ ص: ١٨.١٩، مطبع، ادبی دنیا مٹیا محل دہلی )

*مرآة المناجیح کی خصوصیات*
❶ اس کتاب کو عام فہم ، اردو زبان میں لکھا گیا ہے جسےصرف علما ہی نہیں بلکہ طلبہ اور عوام اہل سنت بآسانی سے سمجھ سکتے ہے۔
❷ہر حدیث کے ترجمہ کو بھی شامل کیا ہے اور اس ترجمہ پر شرح نمبر ڈال کر ایک ایک جزئیہ کی شرح آسان انداز میں کی ہے۔ شرح نہ زیادہ لمبی ہے نہ زیادہ مختصر، عمومی شروحات معتدل انداز پر ہیں ، تاکہ بات مکمل طور پر واضح ہو جائے۔
❸بعض جگہ جن احادیث کے متعلق کوئی واقعہ یا نصیحت ہے تو اس کو بھی بیان فرمایا ۔
❹اِن احادیث میں سے جن سے احکام ومسائل کا استنباط ہوتا ہے ان مسائل کو بھی زیر ِ تحریر لائے ہیں۔
❺راوی صحابی کے مختصر حالات کو بیان کیا ہے۔
❻حدیث پر وارد ہونے والے مستشرقین، دیابنہ، وہابیہ اور دیگر فرقۂ باطلہ کے اعتراضات کا ردّ بھی کیا ۔
❼ کئی مقامات پرمصنف نے شرح میں عاشقانہ انداز پر گفتگو بھی کی ہے، جسے پڑھ سن کر عشق رسول میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے ایک مقام پر لکھتے ہیں : اگر ہماری کھالوں کے جوتے بنیں اور رشتہ جان کے تسمے اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اسے استعمال فرمائیں تو ان کے حق کا کروڑواں حصہ ادا نہ ہو۔ ( مرآۃ المناجیح، ج:۳، ص:۶۸)
یہ چند چیزیں زیر نظر رہیں حالاں کہ یہ کتاب اور بھی بہت خوبیوں کی جامع ہے، اس کا مطالعہ ہر طالب علم کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگا ۔

*شرح حدیث کیوں پڑھیں ؟*
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : السنة مفسّرة للقرآن، ومبيّنة له. سنت(حدیث) قرآن کی تفسیر اور اس کی وضاحت کرتی ہے۔
(جامع لعلوم الامام احمد، ج:۵، ص:۹۰)
اور ہمیں حدیث سمجھنے کے لیے بزرگان دین کی لکھی گئی شروحات پڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ہم عربی زبان کے اسلوب سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہم عربی تعبیرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس طور پر کہ حدیث پاک میں بعض جگہ ایسی روایات آئی ہیں جن کی مراد ہم پر واضح نہیں ہوتی، پھر اگر ہم شرح حدیث نہ دیکھیں تو ان کا سمجھنا مشکل ہوگا ، اس طرح حدیث سے مُستَخْرَج مسائل کی فہم بھی عام شخص کے لیے بے حد دشوار ہے جب کہ شرح میں
یہ مسائل بھی مل جاتے ہیں۔
مرآۃ المناجیح مکمل کیسے پڑھیں؟
اگر آپ چاہیں تو ایک سال سے کم مدت میں آپ مرآۃ المناجیح کی آٹھ جلدیں بآسانی پڑھ سکتے ہیں
اس طور کہ ایام تعلیم تقریبًا دس ماہ ہوتے ہیں آٹھ جلدوں میں سے ہر جلد کے 550 صفحات فرض کریں، تقریبًا آٹھ جلدیں 4400 صفحات کی ہوں گی، پھر ان صفحات کو دس مہینے پر تقسیم کریں تو ہر مہینہ تقریبًا 440 صفحات بنیں گے، پھر اگر ان440 صفحات کو یومیہ تقسیم کریں تو تقریباً ایک دن کے15 صفحات بنیں گے ، اس طرح روزانہ مرآۃ المناجیح سے 15 صفحات مطالعہ کریں تو محض دس ماہ کی مختصر مدت میں ہم مرآۃ المناجیح کی تمام جلدوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:29


سلام میں "وبرکاتہ" کے بعد "و مغفرتہ" بھی کہنا چاہیے یا نہیں ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7604
تاریخ اجراء:15ربیع الآخر 1443ھ/21نومبر 2021

دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)

سوال
    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں  کہ جب کسی مسلمان سے ملاقات ہو، تو سلام کرتے ہوئے "ومغفرتہ"  کا اضافہ کرنا چاہیے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سلام اور جواب، دونوں میں "برکاتہ" تک کہنا چاہیے، "ومغفرتہ" کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں ارشاد فرمایا:
﴿ وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَااِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا﴾
ترجمہ کنزالعرفان: "اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے، تو تم اس سے بہتر لفظ سے جواب دو یا وہی الفاظ کہہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔"
(پارہ5، سورۃ النساء، آیت86)
  
اِس کے تحت ابو السعود علامہ محمد بن محمد عَمادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 951ھ/1544ء) لکھتے  ہیں " بأن تقولوا وعليكم السلام ورحمة اللہ إن اقتصر المسلم على الأول وبأن تزیدوا  وبركاته إن جمعها المسلم وهي النهاية۔"
ترجمہ: یعنی اگر مسلمان صرف " السلام علیکم" کہے تو تم کہو "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ" اور اگر وہ دونوں کو جمع کرے، (یعنی یوں کہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ) تو تم "برکاتہ" کا اضافہ کرو اور یہ انتہا ہے۔
(تفسیر ابی السعود، جلد2، صفحہ 211، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
    شعب الایمان میں ہے: "سلم عليه رجل، فقال: سلام عليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرته، فانتهره ابن عمر، وقال:حسبك إذا انتهيت إلى وبركاته۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو ایک شخص نے یوں سلام کیا: سلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ" تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا کہ جب تم "وبرکاتہ" تک پہنچ جاؤ ،  تو اتنا   سلام   ہی تمہیں کافی ہے۔
(شعب الایمان، جلد11، فصل فی کیفیۃ السلام، صفحہ 247، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/1836ء) بحوالہ فتاویٰ تاتارخانیہ لکھتے  ہیں: الأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاته ‌والمجيب كذلك يرد، ولا ينبغي أن يزاد على البركات شيء۔"
ترجمہ: مسلمان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ یوں کہے: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ"  اور جواب دینے والا بھی ایسے ہی کہے اور "برکاتہ" کے بعد کسی حرف کا اضافہ مناسب نہیں۔
(ردالمحتار مع درمختار، جلد9، کتاب الحظر و الاباحۃ، صفحہ683، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاویٰ عالَمگیری میں ہے: "لا ينبغي أن يزاد علی ‌البركات شيء، قال ابن عباس  رضي اللہ عنهما لكل شيء منتهى ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط۔"
ترجمہ: "برکاتہ" کے بعد کسی حرف کا اضافہ کیا جانا مناسب نہیں۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کی ایک انتہاء ہے اور سلام کی انتہاء صیغہِ "برکات" پر ہے۔
(الفتاوى الھندیۃ، جلد5، الباب السابع فی السلام ، صفحہ 325، مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: "بہتر یہ ہے کہ سلام میں رحمت و برکت کا بھی ذکر کرے یعنی اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکاتُہٗ کہے اور جواب دینے والا بھی وہی کہے بَرَکاتُہ، پر سلام کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اور الفاظ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔"
(بھار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ459،  مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    تحقیقِ مسئلہ:
    مطالعہِ احادیث سے تین روایتیں ایسی سامنے آتی ہیں، جن میں "ومغفرتہ" کا اضافہ ہے۔ علمِ اصولِ حدیث کی روشنی میں تینوں روایات کے محدثین نے جوابات دیے  ہیں۔
پہلی روایت اور اُس کا جواب:
(1) ابو داؤد شریف میں ہے:’’ثم أتى آخر، فقال: السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ ومغفرتہ، فقال: أربعون۔
ترجمہ: پھر ایک اور شخص آیا اور اُس نےکہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِس کےلیے چالیس نیکیاں ہیں۔
(سنن ابی داؤد، جلد7، باب فضل من بدأ السلام، صفحہ 492، مطبوعہ الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)

    یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔ اِس کی سند میں ایک راوی "عبدالرحیم بن میمون" ہے، جس کے متعلق امام ابو حاتم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: یکتب حدیثہ ولایحتج بہ ۔
ترجمہ: اُس کی حدیث لکھی جائے گی، مگر استدلال نہیں کر سکتے۔
(میزان الاعتدال، جلد2، صفحہ607، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:29


    مشہور محدث علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 852ھ/1449ء) بیان کردہ حدیث کا ذکر یوں کرتے ہیں: أخرج أبوداود من حدیث سھل بن معاذ بن أنس الجهني عن أبيه بسند ضعيف۔"
ترجمہ: امام ابو داؤد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سہل بن معاذ بن انس جُہنی  کی روایت ضعیف سند کے ساتھ نقل کی۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    اور علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ  جب اُس روایت کو ذکر کرتے ہیں، جس میں صرف "وبرکاتہ" تک سلام موجود ہےاور جس پر فقہائے احناف نے اعتماد کر کے مسئلہ بیان کیا، تو اُس روایت کے متعلق لکھا: "أخرج أبو داود والترمذي والنسائي بسند قوي عن عمران بن حصين۔"
ترجمہ: امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام نسائی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم نے حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  سے قوی سند کے ساتھ اِس حدیث کو روایت کیا۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    دوسری روایت اور اُس کا جواب:
     (2) امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 364ھ/974ء) روایت کرتے ہیں: "كان رجل يمر بالنبي صلى اللہ عليه وسلم يرعى دواب أصحابه، فيقول: السلام عليك يا رسول اللہ! فيقول له النبي صلى اللہ عليه وسلم: وعليك السلام ورحمة اللہ وبركاته ومغفرته ‌ورضوانه۔"
ترجمہ: ایک جانور چَرانے والے صاحِب،  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ جب گزرتے تو یوں سلام کرتے:السلام علیک یارسول اللہ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جواباً فرماتے: وعليك السلام ورحمة الله وبركاته ومغفرته ‌ورضوانه۔
(عمل الیوم واللیلۃ، صفحہ 151، باب منتھی رد السلام، مطبوعہ دار الارقم، بیروت)

    اِس حدیثِ مبارک پر تبصرہ کرتے ہوئے  علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: "أخرج ابن السني في كتابه بسند واہ ۔"
ترجمہ: امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے  اپنی کتاب میں اِس حدیث کی  واہی یعنی  بہت کمزور سَنَد سے تخریج کی ہے۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 676ھ/1277ء) اِس روایت کا سَنَدِی معیار بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں: روينا في کتاب ‌ابن ‌السني، باسناد ضعیف عن أنس رضي اللہ عنه قال: "كان رجل يمر بالنبي صلى اللہ عليه وسلم۔۔۔الخ۔"
ترجمہ: ہم نے امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب میں ضعیف سند کے ساتھ، حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کیا کہ ایک جانور چَرانے والے صاحب،  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔الخ۔
(الاذکار المنتخبۃ من کلام سید الابرار، باب کیفیۃ السلام، صفحہ 196، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

    تیسری  روایت اور اُس کا جواب:
(3) شعب الایمان میں ہے:’’عن زيد بن أرقم، قال: كان النبي صلى اللہ عليه وسلم إذا سلم علينا، فرددنا عليه السلام قلنا:وعليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرتہ۔"
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہمیں سلام کرتے تو ہم یوں جواب دیتے: وعليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرتہ۔
(شعب الایمان، جلد11، فصل فی کیفیۃ السلام، صفحہ 247، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    اِس کے متعلق حافِظ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا: "أخرج البيهقي في الشعب بسند ضعيف أيضا من حديث زيد بن أرقم۔"
ترجمہ: امام بیہقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شعب الایمان میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث کی تخریج کی۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    نتیجہ!
     (1) "وبرکاتہ" تک سلام والی روایات سنداً قوی اور اِس پر اضافے والی ضعیف ہیں۔
    (2) چند روایات میں "برکاتہ" پر اضافہ ثابت ہے، جبکہ دیگر روایات میں اضافے پر "ممانعت" موجود  ہے ۔ اجازت و ممانعت دونوں کی روایات ہوں تو ممانعت کو ترجیح ہوتی ہے  ، اِسی وجہ سے فقہائے احناف نے بھی "لاینبغی " یا "الافضل للمسلم" کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

    لہٰذا سلام اور جواب، دونوں میں "برکاتہ" تک کہنا چاہیے، "ومغفرتہ" کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔
 
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

26 Oct, 16:20


🌻کیا آج یہ حالات نہیں 🌻

♦️امام الصوفیہ حضرت سہل بن عبداللہ تستری (المتوفی :283ھ)علیہ الرحمہ صاحب فراست تھے ان کی فراست نظر اس قول میں دیکھیں فرماتے ہیں :

🔹عَلَيْكُمْ بِالِاقْتِدَاءِ بِالْأَثَرِ وَالسُّنَّةِ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنَّهُ سَيَأْتِي عَنْ قَلِيلٍ زَمَانٌ إِذَا ذَكَرَ إِنْسَانٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والاقتداء به في جميع أحوال ذَمُّوهُ وَنَفَرُوا عَنْهُ وَتَبْرَءُوا مِنْهُ وَأَذَلُّوهُ وَأَهَانُوهُ.

🔸"تم پر اثر و سنت کی اقتدا کرنا لازم ہے، کیونکہ ڈر ہے کہ عنقریب وہ زمانہ آئے گا جب کوئی انسان حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام احوال میں آپ کی اقتدا اور پیروی کرنے کا ذکر کرے گا تو لوگ اس کی مذمت کریں گے اور اس سے نفرت کریں گے اور اس سے برات اختیار کرلیں گے اور وہ اسے ذلیل ورسوا کریں گے".

•[تفسیر القرطبی سورۃ الانعام : 151-153 ج.7 ص.139 اردو ج.4 ص.175]

📌اس قول کی تشریح میں میں کچھ نہیں کہوں گا آج کل جو حال ہے وہ آپ سب پر عیاں ہیں ۔


#اتباع_سنت ⊰24
#سنت_کی_اہمیت_و_فضیلت
#مقام_سنت #اتباع_کتاب_سنت
#سنت_اور_اسلاف
#صوفیہ_اور_سنت
#اتباع_شریعت
#شریعت_و_طریقت
#کتاب_الفتن #الفتن
#علامت_قیامت
#قرب_قیامت

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

26 Oct, 16:12


📚 دین پر قائم رہو اور علم حاصل کرو 📚

♦️حضرت عبد اللہ بن مسعود ہی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

🔹تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ، وَقَبْضُهُ أَنْ يَذْهَبَ أَهْلُهُ، أَلَا وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَالتَّعَمُّقَ وَالْبِدَعَ ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ

🔸"تم علم سیکھ لو اس سے پہلے کہ اسے قبض کر لیا جائے اور اس کا قبض کرنا یہ ہے کہ اہل علم اٹھ جائیں (فوت ہو جائیں ) خبردار تم کلام میں غلو کرنے ، اس کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے (یا چرب زبانی سے باتیں کرنے ) اور بدعت سے بچو، اور تم پر قدیم اول (العتیق : ابتدائی پرانا دین طریقہ صحابہ) کو پکڑنا لازم ہے".

•[تفسیر القرطبی سورۃ الانعام : 151-153 ج.7 ص.138 اردو ج.4 ص.173]

#عقائد ⧼⑥②
#احقاق_حق_و_ابطال_باطل
#اہل_سنت_اہل_جنت
#اہل_حق
#رد_بدمذہبیت
#اہل_بدعت
#رد_الحاد

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

26 Oct, 08:45


*تدریسِ قرآن صدقہ جاریہ ہے*
حضرت ابوسعید خدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے
(مَنْ عَلَّمَ آيَةً مِّنْ كِتَابِ اللّٰهِ أَوْ بَابًامِِّنْ عِلْمٍ أَنْمَى اللّٰهُ أَجْرَهُ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)
یعنی : جو شخص قرآن مجیدکی کوئی آیت یاعِلم کاکچھ حصہ سکھائے تواللہ تعالٰی اس کے ثواب کوقیامت تک بڑھائےگا۔
(جامع ترمذی )

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 16:32


🌻 فرشتوں کو نماز پڑھا رہے ہیں 🌻

♦️حضرت حفص بن عبد اللہ رحمہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے امام المحدثین حضرت
ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا کہ وہ پہلے آسمان پر فرشتوں کو نماز پڑھا رہے ہیں ۔

میں نے پوچھا: اے ابو زرعہ ! آپ کو یہ اعزاز و اکرام کیسے ملا ہے؟

اُنہوں نے ارشاد فرمایا:
”میں نے اپنے ہاتھ سے دس (10) لاکھ حدیثیں لکھی ہیں اور میں ہر حدیث میں درود پاک پڑھا کرتا تھا اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جو مسلمان ایک مرتبہ مجھ پر درود شریف بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے".

•[شرح الصدور ص.125]
•[بڑھاپے میں یاد خدا ص.1]

#ما_فعل_الله_بك ⧼𝟜𝟡⧽
#اللہ_نے_آپ_کے_ساتھ_کیا_معاملہ_کیا
#خواب_میں_دیکھا_گیا
#بعد_وصال_کیا_بیتی
#محدثین_کرام
#فضائل_درود_و_سلام
#پڑھو_درود

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:46


اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ یہ روایت انہوں نے اپنے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کی ہے اور ان کے متعلق یہ بات رجال حدیث کے یہاں مسلم ہیں کہ اگر وہ اپنے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے کوئی روایت بیان کریں تو یہ خطا کر جاتے ہیں چونکہ یہ روایت بھی انہوں نے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے ہی بیان کی ہے لہذا غالب ظن ملحق بالیقین ہے کہ ان سے اس روایت میں خطا ہوئی
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب قرائن اس بات پر دال ہیں کہ یہ روایت منکر ہے ۔
نیز یہ کہ محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی جو اس سند کے اصل راوی ہیں ان پر اصحاب جرح و تعدیل نے کافی کلام کیا ہے نیز انہوں نے فرمایا کہ محمد بن عمر بن علقمہ اللیثی سے مروی یہ اثر درحقیقت حدیث نہیں بلکہ امام زہری رحمہ اللہ کا کلام ہے یعنی ان کے مراسیل سے ہے جسے محمد بن عمر بن علقمہ اللیثی نے حدیث میں داخل کر دیا ہے ۔

رہا امام زہری رحمہ اللہ کے مراسیل کا مسئلہ تو اس بارے میں حاصل کلام یہ ہے کہ اگر ان کے مراسیل ابو الاسود یتیم بن عروہ جیسے غیر معتمد علیہ راویوں سےمروی ہوں تو ان کی حیثیت ہوا سے بڑھ کر نہیں ۔ نیز اس تعلق سے جو کچھ بھی شواہد و قرائن پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کہ بیت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے جلانے کا واقعہ من گھڑت ہے رافضیوں کا وضع کردہ ہے رہا دھمکی کا مسئلہ تو یہ جس حدیث اور جس روایت میں آیا ہے اس کی پوری تفصیل اوپر مذکور ہے اس سے بخوبی واضح ہے کہ یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے لہذا اس طرح کی روایتوں کا سہارا لے کر حضرت شیخین بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق طعن و تشنیع کا دروازہ کھولنا یا ان کے حق میں بدگمانی کرنا سوائے گمراہی کے کچھ نہیں ہے ۔

ابوالقاسم مصباحی سنبھلی
ربیع الآخر/ ١٤٤٦ھ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:46


رافضیوں کی طرف سے عائد کردہ ایک الزام کا جواب بلفظ دیگر واقعہ تحریق بیت فاطمہ کی حقیقت

رافضیوں کی طرف سے حضرت شیخین رضی اللہ عنہما پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ بیعت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے موقع پر انہی کے حکم پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ کے گھر کو جلا دیا اس الزام سے ان کا مقصد حضرات شیخین کی شان میں گستاخیاں کرنا ہے نیز اس کو جائز ٹھہرانا ہے اور بھولے بھالے لوگوں کو ان کے متعلق بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قصہ کھلا ہوا بہتان ہے اس کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ اس طرح کی کوئی صحیح روایت کسی کتب حدیث میں موجود نہیں اور جو کچھ روایتیں اس طرح کی ہیں وہ سب رافضیوں کی وضع شدہ ہیں
رہا مخالفین کا یہ کہنا کہ اس طرح کی ایک روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ہے
تو ہم کہیں گے کہ اس روایت میں اور اوپر مذکور قصہ میں بہت فرق ہے اس روایت میں گھر جلانے کا ذکر نہیں بلکہ اس میں فقط اتنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ملی کہ چند لوگ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں جمع ہوتے ہیں چنانچہ آپ تشریف لائے اور آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ ( جو خود ان سے نالاں تھیں لیکن حسن اخلاق کی بنیاد پر ان کو صراحتاً منع نہیں کر پاتی تھیں )
سے فرمایا کہ اگر ان لوگوں نے یہاں جمع ہونا ترک نہ کیا تو میں ضرور اس گھر کو ان کے اوپر جلا دوں گا یعنی فقط دھمکی کا ذکر ہے اس فعل کے وقوع کا نہیں نیز یہ دھمکی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے نہیں تھی بلکہ بقول شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے یہ دھمکی ان لوگوں کے لیے تھی جو اس گھر میں جمع ہو رہے تھے ۔
الحاصل شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب مستطاب تحفہ اثناعشریہ میں اس حدیث پر درایتا کافی بحث کی ہے من شاء التفصیل فلیراجع الیہ
انشاءاللہ ہم اپنے اس مختصر مضمون میں مختصرا اس اثر پر روایتا یعنی سندا و متنا بحث کریں گے ۔
یہ روایت متعدد علل قادحہ پر مشتمل ہے ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں

اول یہ کہ یہ روایت مرسل خفی ہے کیونکہ نہ تو راوی وقت قصہ وہاں موجود تھا بلکہ وہ تو اس وقت مدینہ میں بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی اس نے اس واقعہ کو کسی ایسے شخص سے مسندا روایت کیا جو اس واقعہ کا مشاہد ہو
الحاصل یہ روایت مرسل خفی ہے اس پر اعتماد اصول حدیث کے ضابطوں کے مطابق اسی وقت کیا جا سکتا ہے جبکہ کسی اور روایت میں تحدیث کی صراحت مل جائے جیسا کہ اہل علم پر واضح ہے اور ایسی کوئی اور روایت موجود نہیں ۔

ثانیا یہ کہ یہ روایت منکر ہے اور خود اس کی سند میں چند ایسے قرائن موجود ہیں جو اس بات کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ یہ روایت منکر ہے ان میں سے چند قرائن مندرجہ ذیل ہیں ۔
١- راوی کا اپنے شیخ سے روایت میں متفرد ہونا جبکہ اس میں بے شمار لوگوں کی مشارکت متصور ہے کیونکہ راوی سمیت بے شمار لوگوں نے شیخ سے ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں یہ احادیث سماعت فرمائیں پھر ان میں سے فقط ایک ہی راوی کا اس حدیث کو روایت کرنا اس بات پر دال ہے کہ ضرور یہ روایت علت خفیہ پر مشتمل ہے ۔ مزید یہ کہ اس میں کثیر کی مخالفت بھی ہے۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کی بنیاد جس راوی(زید بن اسلم) پر ہے ان کی روایتوں کے سب سے زیادہ حافظ اور ان کے سلسلہ میں سب سے زیادہ معتمد علیہ شخص مالک بن أنس ہیں ۔ (امام) مالک نے ان سے بے شمار روایتیں نقل کی ہیں البتہ ان سے کوئی روایت اس طرح کی زید بن اسلم سے منقول نہیں ۔

تیسرا قرینہ یہ ہے کہ محمد بن بشر العبدی جو اس روایت کے راوی ہیں ان سے روایت کرنے میں خطا ہوئی ہے جیسا کہ ان سے بعض اور مقامات پر بھی ثقات سے روایت کرنے میں خطا ہوئی ہے

چوتھا قرینہ یہ ہے کہ یہ روایت سند( عن عبيد الله بن عمر عن زيد بن اسلم) یہ ایسی سند ہے کہ جس کا وجود عادتاً چند اسباب کی بنا پر عقل میں نہیں آتا

اولا تو یہ کہ عبید اللہ بن عمر کی یہ روایت جملہ روایات کی بنسبت سندا و متنا نادر ہے
ثانیا راوی اور مروی عنہ کے درمیان سخت معاصرانہ چشمک تھی جس کی وجہ سے بھی راوی کا مروی عنہ سے روایت نقل کرنا عقل میں نہیں آتا ۔
پانچواں قرینہ یہ ہے کہ یہ روایت مخالفت پر مشتمل ہے یعنی یہ کہ محمد بن بشر العبدی سے اس روایت کی سند میں خطا ہوگئی یعنی یہ کہ انہوں نے اصل راوی کے نام کو چھوڑ کر دوسرے راوی کو ذکر کر دیا۔ جیسا کہ دوسری سند سے واضح ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند محمد بن بشر العبدی پر آ کر منقلب ہو گئی یعنی یہ کہ یہ سند عن محمد بن بشر عن محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی تھی لیکن محمد بن بشر العبدی نے اپنی روایت میں محمد بن عمر بن علقمہ اللیثی کی جگہ عبید اللہ بن عمر کا ذکر کر دیا ۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:42


فتاوی شارح بخاری ، فتاوی فقیہ ملت اور فتاوی یورپ وغیرہ میں جو دھوبی والے واقعہ کے بےاصل ہونے کی بات کی گئی ہے تو ہوسکتا ہے کہ عین دھوبی کے بارے میں ہو کہ اصل واقعہ تو فاسق کا ہے اور لوگ بیان کرتےہیں دھوبی کے بارےمیں ، نفس ۔واقعہ کے انکار کی کوئی شرعی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
دھوبی والے واقعہ سے بھی عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ بارہ برس کی ڈوبی ہوئی بارات حضور غوث الاعظم کی دعا سے دولہا اور مع کل سامان کے صحیح و سالم دریا سے نکل آئی۔
اس روایت کے متعلق میرے آقا اعلی حضرت فرماتے ہیں! اگرچہ نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے. اور اس میں کوئی امر خلافِ شرع نہیں،اس کا انکار نہ کیا جائے۔

اب دھوبی والی روایت کا انکار اگر لفظ دھوبی کی وجہ سے ہو کہ ان الفاظ کے ساتھ جو عموما خطباء و واعظین بیان کرتے ہیں کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں بلکہ اصل روایت فاسق کے لفظوں کے ساتھ ہے تب تو بلکل درست ہے۔
اور اگر کوئی اسے خلافِ شرع سمجھتے ہوئے بے بنیاد اور باطل کہتا ہے تو یہ محض تعصب و جہالت ہے یا کم از کم بازِ اشہب کی غلامی سے آنکھیں پھیرنے کے مترادف ہے۔

بازِ اَشْہَب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اُڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فِکْر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرا تیرا۔۔۔

بات تو اتنی تھی کہ اس لفظ دھوبی کے ساتھ واقعہ کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں۔ تاہم اس پر یہ پروپیگنڈہ اور سازش کی جانے لگی کہ یہ سنی بریلوی لوگ تو فقط من گھڑت قصے اور کرامات ہی بیان کرتے ہیں۔تعلیماتِ اولیاء بیان نہیں کرتے جو کہ اصل ہے۔کرامت و منقبت بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔

حالانکہ کسی ولی اور برگزیدہ شخصیت کی کرامت و فضیلت کا حسبِ ضرورت وقتا فوقتا بیان و اظہار نہایت اہم ہے کہ اس سے ان ہستیوں کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور ان کی پیروی و تعلیمات پر عمل کا جذبہ نصیب ہوتا ہے۔باقی افراط و تفریط ہر جگہ ہے اس سے بچتے ہوئے ہمیں راہِ اعتدال اختیار کرنی چاہیے۔

کرامات و فضائل کا بیان اس طرح نہ ہو کہ عوام اسی پر بھروسہ کر لیں اور عمل سے غافل ہو جائیں اور نہ ہی تعلیماتِ اولیاء کو اس طرح اصل قرار دیا جائے کہ ان کے فضائل ومناقب کے انکار کی راہ ہموار کی جانے لگے۔

کرامت و فضیلت کا بیان تو قران و سنت میں موجود ہے ۔کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب بندی کے ساتھ مناقب و کرامات کا ذکر ہے۔
اگر یہ غیر ضروری ہوتا تو کبھی محدثین کرام اس کے لیے ابواب قائم نہ کرتے۔

نوٹ۔ دھوبی والی روایت، سیاق و سباق اور توجیہ وغیرہ کے متعلق کنز العلماء ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی صاحب دام ظلہ العالی کے خطبات کے مجموعہ کو (جو کتابی شکل میں "طلوعِ غوثِ اعظم" کے نام سے شائع شدہ) بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم

از۔۔۔۔ابو الایمن
منگل 8 رییع الآخر 1445
بمطابق 24 اکتوبر 2023

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:42


دھوبی والے واقعے کی اصل


شیخ الحدیث والتفسیر استاذ محترم حضرت علامہ حامد رضا مصطفائی حفظہ اللہ کی باکمال تحریر ملاحظہ فرمائیے :

"دھوبی" لفظ کے ساتھ واقعہ نہ سہی!
"شانِ غوثِ اعظم تو ثابت ہے"

ہمارے کچھ کرم فرما وقتا فوقتا حضور سیدی غوث اعظم رحمةالله علیہ اور دھوبی والی روایت زیر بحث لاتے رہتے ہیں بالخصوص بڑی گیارویں شریف کے دنوں میں اس پر کافی پوسٹیں گردش کرتی ہیں۔
جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس بارے لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔

اور خطباء و واعظین کی اصلاح اور ان کی درست رہنمائی کرنے کی بجائے شان و مقام غوث اعظم سے منہ موڑتے نظر آتے ہیں۔
اور بہت سے تو دھوبی والی روایت کو اس انداز سے موضوع بحث بناتے ہیں کہ جیسے حضور پرنور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی تمام تر شان و عظمت کا دارو مدار صرف اسی ایک واقعہ پر ہے۔کہ اس کے غیر ثابت ہونے سے گویا عظمتِ غوثِ اعظم کا باب بند ہو جائے گا۔
لیکن یہ بھول گئے کہ۔۔۔۔

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تِرا ذِکر ہے اُونچا تیرا
مِٹ گئے مِٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اَعدا تیرے
نہ مِٹا ہے نہ مِٹے گا کبھی چرچا تیرا

کسی صاحب نے طنز و مزاح کے انداز میں ایک پوسٹ کی کہ۔۔۔ہاں بھائی وہ دھوبی والی روایت کا کیا کرنا ہے فلاں فلاں فقیہ اور عالم نے اس کو بے اصل اور باطل کہا ہے، فلاں عالم نے یہ روایت بیان کرنے سے منع کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔

میں نے کہا اگر آپ جناب کا مطالعہ اتنا ہی وسیع ہے کہ دھوبی والی روایت کا بے اصل اور باطل ہونا آپ نے جان لیا۔ تو حق یہ تھا کہ آپ خطباء و واعظین کی اصلاح کرتے اور اس روایت کے متبادل اور اس سے بھی عجیب تر بیسیوں روایات (جو کتب معتبرہ میں موجود ہیں) کا پتہ بتا دیتے تاکہ شانِ غوثِ اعظم کا اظہار بھی ہو جاتا اور اصلاحِ خطباء و عوام کا فریضہ بھی بخوبی پورا ہوتا۔

سرِ دست ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
یروی انہ کان فی زمن الغوث رجل فاسق مصر علی الذنوب ولکن تمکنت محبۃ الغوث فی قلبہ المحجوب فلما توفی دفنوہ فجاء منکر و نکیر و سالاہ من ربک و من نبیک و مادینک فاجابہما فی کل سوال بعبدالقادر فجاءھماالخطاب من الرب القدیر یا منکر ونکیر ان کان ھذا العبد من الفاسقین لکنہ فی محبۃ محبوبی السید عبدالقادر من الصادقین فلاجلہ غفرت لہ و وسعت قبرہ بمحبتہ وحسن اعتقادہ فیہ رضی اللہ عنہ “

(تفریح الخاطر فی ترجمۃ الشیخ عبدالقادر ص ٢٨ ، ٢٩ ، دعوت اسلامی عربک ویب سائٹ)
یعنی مروی ہے کہ غوث پاک کے زمانہ میں ایک فاسق آدمی تھا جو گناہوں پر اصرار کرتا تھا ، لیکن اس کے دل کے نہاں خانے میں غوث پاک کی محبت متمکن تھی ، جب اس کی وفات ہوئی تو لوگوں نے دفن کردیا ، منکر نکیر آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا رب کون ہے ، تیرے نبی کون ہیں اور تیرا دین کیاہے؟ تو اس نے انہیں ہر سوال کا جواب عبدالقادر سے دیا ، فرشتوں کو رب قدیر کی جانب سے خطاب آیا کہ اگرچہ یہ بندہ فاسقین میں سے ہے مگر میرے محبوب بندے عبدالقادر کی محبت میں صادق ہے ، تو میں نے عبدالقادر کی وجہ سے اسے بخش دیا ، اس کی قبر غوث پاک کی محبت اور ان کے بارے میں حسن اعتقاد کی وجہ سے کشادہ کردی گئی۔

یاد رہے کہ علامہ اربلی کی مذکورہ بالا کتاب
" تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر " ایک معتبر و مستند کتاب ہے۔
اعلی حضرت ، امامِ اہل سنت، الشاہ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے بھی اس سے استناد فرمایا ہے۔

:ایک روایت(کہ شبِ معراج حضرت غوث الاعظم شیخ محی الدین رحمة اللہ علیہ کی روح پاک نے حاضر ہو کر گردنِ نیاز صاحبِ لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اور خواجہ عالم صلی اللہ علیہ وسلم گردنِ غوثِ اعظم پر قدم مبارک رکھ کر براق پر سوار ہوئے) کے بارے میں حوالہ دیتےہوئے آپ فرماتے ہیں! فاضل عبدالقادر قادری بن شیخ محی الدین اربلی نے تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ میں یہ روایت لکھی ہے اور اس روایت کو جامع شریعت وحقیقت شیخ رشیدبن محمدجنیدی رحمہ اللہ کی کتاب "حرز العاشقین" سے نقل کیا ہے اور ایسے امور میں اتنی ہی سند بس( کافی) ہے۔ (اگرچہ کتبِ احادیث و سیر میں اس کا نشان تک نہیں )
(فتاوی رضویہ ج٢٨ ص٤٢٩ ، رضا فاؤنڈیشن)

فلہذا شیخ اربلی علیہ الرحمہ خود بھی معتمد ہیں اور ان کی کتاب تفریح الخاطر بھی مستند ۔

تفریح الخاطر کے مذکورہ واقعہ میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ اس میں منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے کا انکار ہے اور نہ ہی ان کی کوئی گستاخی۔
دوسری طرف احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے خوش نصیب ایسے ہیں جن سے قبر کے سوالات اصلا ہوتے ہی نہیں ہیں۔
تو اگر ربّ رحیم و کریم اپنے محبوب بندے الشیخ عبد القادر غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے نام پاک کی برکت سے نکیرین کے جواب میں ” عبدالقادر “ کہنےپر گناہگار کی مغفرت فرمادے تو اس کی رحمت سے کیا بعید ہے.

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

21 Oct, 16:05


📚 جس حدیث سے امام اعظم استدلال کریں 📚

♦️ حضرت علی بن جعد جوہری جو امام بخاری اور
امام ابوداود رضی اللہ عنہم کے استاد ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ:

أبو حنيفة إذا جاء بالحديث جاء بمثل الدرر.

"امام اعظم  ابو حنیفہ علیہ الرحمہ جس حدیث سے استدلال کرتے ہیں وہ موتی کی طرح چمکتی ہوتی ہے".

•[مسند أبي حنيفة لابن الحارث ص.229 ر:657]

#علم_حدیث 『𝟓𝟏』
#علم_جرح_و_تعدیل
#علوم_الحدیث #اصول_حدیث
#مصطلح_الحدیث
#اسماء_الرجال

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Oct, 03:45


احادیثِ احکام پر حنفی عالمِ کبیر علاء الدین مغلطائی بن قليج بن عبد الله المصري الحنفي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ:762ھ) کی اہم کتاب جس کا تعارف اور منہج بیان کرتے ہوئے مقدمہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”فقد جمعت في هذا الكتاب أحاديث الأحكام ، المحكمة النظام ، ما أجمع على تخريج أصله الستة الأعلام : البخاري ، ومسلم ، وأبو داود ، والترمذي ، والنسائي ، وابن ماجه الإمام ، ولكونه أصح صحيح يوجد من كلام المصطفى محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم.
ومتبعه إثر كل باب من أبوابه ، من الحديث مشهور الضعف بين أربابه : أبي عيسى ، والعقيلي ، وأبي الفرج ، وابن عدي ، والخطيب ، والدارقطني الذي له من هذا العلم أوفر نصيب ، وسميته :
الدر المنظوم ، من كلام المصطفى المعصوم
والله أسأل أن يجعله لي نافعاً ، ولكل من قرأه وحفظه رافعاً.“

( الدر المنظوم ، مقدمة المصنف : ٩٤ ت حسن عبجي)

ترجمہ:
"میں نے اس کتاب میں احادیثِ احکام کو جمع کیا ہے، جن کا نظام مستحکم ہے، اور جن کی اصل چھ مشہور ائمہ نے روایت کی ہے: بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، اور ابن ماجہ۔ یہ احادیث مصطفیٰ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے صحیح کلام میں شمار ہوتی ہیں۔
ہر باب کے بعد میں نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے جن کی کمزوری محدثین کے ہاں مشہور ہے، جیسے: ابو عیسیٰ، عقیلی، ابو الفرج، ابن عدی، خطیب، اور دارقطنی، جنہیں اس علم میں بڑا مقام حاصل ہے۔ میں نے اس کتاب کا نام رکھا ہے:
'الدر المنظوم، من کلام المصطفیٰ المعصوم'۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اسے میرے لیے اور ہر اس شخص کے لیے نفع بخش بنائے جو اسے پڑھے اور حفظ کرے۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Oct, 03:45


اہم کتاب

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

14 Oct, 18:07


قال ابن الجوزي:

وكانَ خِيارُ السَّلَفِ يُؤثِرُونَ الوحدة والعُزلةَ عنِ النّاسِ اشتغالًا بالعلم والتعبد؛ إلا أنّ عُزلة القوم لم تقطعهم عن جمعة ولا جماعة ولا عيادة مريض ولا شهود جنازة ولا قيام بحق، وإنما هي عزلة عن الشر وأهله ومخالطة البطّالِين.

📙بيان تلبيس إبليس| صـ ٣٧٨

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


البتہ حتی الامکان اس طرح کے چیزوں کے اچھے محمل نکالے جائیں
بہرحال دونوں آراء سامنے اگئیں
(1)یہ جرح ہی درست نہیں
(2)جرح بعض صرف واقعات پر ہے اکثر کتاب قانون شریعت کے موافق ہے
واللہ اعلم بالصواب

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


قلت وهذا الكتاب موجود عند بعض أصحابنا بالقاهرة وبوقف الخانقاه الصلاحية وأخبرني به عن مؤلفه أجازة شيخنا الحافظ محي الدين عبد القادر الحنفي وغيره، توفي يوم السبت أذان الظهر ودفن يوم الأحد العشرين من ذي الحجة سنة ثلاث عشرة وسبعمائة.

[غاية النهاية في طبقات القراء ,1/585]

اگر یہ جرح قابل التفات ہوتی تو امام ابن الجزری (سال وفات 833ھ)ان مکذوبات کی اجازتیں نہ لیتے

▪️دلیل سوم▪️

اس کے علاوہ ہم امام عمر بن عبدالوهاب حلبی(سال وفات 1024ھ)کا جواب بھی نقل کر کے ہیں

کہ بھجۃ الاسرار کی روایات کے متابعات بھی موجود ہیں امام یافعی امام زکی حلبی رحمہما اللہ وغیرہ ان کو ذکر کیا ہے

[,الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ,67]

🔹عمر بن عبد الوہاب حلبی کا تعارف 🔹

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عمر بن عبد الوهاب الحلبی کا مختصرا تعارف پیش کردوں

علامہ محبی دمشقی رحمہ اللہ (م1111ھ) لکھتے ہیں:

عمر بن عبد الْوَهَّاب بن ابراهيم بن مَحْمُود بن على بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن الْحُسَيْن العرضى الحلبى الشافعى القادرى الْمُحدث الْفَقِيه الْكَبِير مفتى حلب وواعظ تِلْكَ الدائرة كَانَ أوحد وقته فى فنون الحَدِيث وَالْفِقْه والادب وشهرته تغنى عَن الاطراء فى وَصفه

[خلاصة الأثر في أعيان القرن الحادي عشر ,3/215]

▪️دلیل چہارم ▪️

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ (سال وفات 1052ھ)سیدی اعلی حضرت، رحمہ اللہ (سال وفات 1340ھ)اسی طرح علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ(سال وفات 1304 ھ) نے امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748 ھ) سے ان کی تعریف تو نہیں کی لیکن جرح نقل نہیں یہ اس بات پر دلیل ہے کہ یہ بلا دلیل جرح مقبول نہیں

[ زبدة الآثار تلخیص بهجة الأسرار ، 27]
[فتاوی رضویہ 577/7]
[الآثار المرفوعة 67]

▪️دلیل. پنجم ▪️

سیدی اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ (سال وفات 1340ھ)فرماتے ہیں:

امام شمس الدین ذہبی مصنف میزان الاعتدال کہ علم حدیث ونقدرجال میں اُن کی جلالت شان عالم آشکار، اس جناب کے معاصر تھے اور باآنکہ حضرات صوفیہ کرام کے ساتھ اُن کی روش معلوم ہے سامحنا اﷲ تعالٰی وایاہ

[فتاوی رضویہ 574/7]٨

معلوم ہوا امام ذھبی رحمہ اللہ صوفیہ کے متعلق متشدد تھے

اسی چیز کو ان کے شاگرد علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ (سال وفات 771ھ) نے بھی بیان کیا

فلقد اكثر الوقيعة في اهل الدين اعني الفقراء الذين هم صفوة الخلق

[السبكي، تاج الدين، قاعدة في المؤرخين، ٦٦]

نیز امام شطنوفی رحمہ اللہ کے معاصر بھی تھے لہذا ان کی یہ جرح مقبول نہیں

▪️دلیل ششم ▪️

صراحۃ علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ(سال وفات 1304ھ) نے فرمادیا کہ یہ امام. ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ) کی غلط فاحش ہے

[اللكنوي، ,الآثار المرفوعة ,66]

🔹امام ابن حجر عسقلانی کی معتدلانہ رائے🔹

امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ(سال وفات 852ھ)فرماتے ہیں:

أما ما يتعلَّق بالبهجة، فقد طالعتُ أكثرها، فما رأيتُ الأمرَ كما ذكره الحافظُ ابن رجب على إطلاقه، بل هي مشتملة على أقسام:

القسم الأول: ما لا منابذةَ لقاعدةِ الشَّريعة فيه بحسب الظَّاهر، بل جائزٌ شرعًا وعقلًا، وهذا معظم الكتاب، فإنَّ ظهورَ الخوارق على البشر واقعة في الوجود، ولا ينكِرها إلا معانِدٌ.

القسم الثاني: منابِذٌ لقوانين الشَّريعة في الطاهر، فإن أمكن حملُه بالتَّأويلِ على أمر شائع فذاك، وإلا فينبغي في اجتنابه وتحسين الظَّنِّ بقائله يحتاجُ إلى أن يدَّعي أنَّ ذلك صَدَر في حال غَيْبَةٍ له مِنْ غير اختيار.

والقسم الثالث: ما تردَّد بين الأمرين، فهذا ينبغي الجَزْمُ بحمله على لمحمَلِ الصَّحيح ولو بالتأويل، بخلاف الذي قبله، فإنَّه يجوزُ أن يكون غير ثابتٍ.

ولا شكَّ أنه مَنْ ليست له بصيرةٌ بنقد الرواة ثمَّ قصد الإكثار، فإنَّه يصير حاطِبَ ليل يجمع الغثَّ والسَّمينَ وهو لا يدري، وهذا حال جامع "البهجة".

فلا يضرّ ما وقع في هذه"البهجة" مما ينسب إليه، لأنّه إن كان على قانون الشريعة فنسبته إليه جائزة،وما عدا ذلك، إن كان ثابتًا عنه حمل على أنَّه صدر منه في حال غيبته، وإن كانت أحواله الغالبة لم تكن له فيها غيبة، وإن لم يكن ثابتًا فالعهدة على ناقله؛ والغرض تعظيم شأنه؛ وهو بلا شكّ يستحقّ التعظيم،

[ الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر، ٩٤١/٢]
[مسائل أجاب عنها الحافظ ابن حجر العسقلاني , 18]

خلاصہ:

علامہ شطنوفی رحمہ ثقہ ہیں البتہ انہوں نے چونکہ احاطہ و اکثار کا ارادہ کیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جہاں جامعیت و احاطہ ہوتا ہے وہاں نقد کم ہوتا ہے اور غث وسمین بھی جمع ہوجاتے ہیں

لہذا اس کتاب میں بھی بعض مجہول راویوں کی وجہ سے کچھ غیر ثابت قصے اگئے ہیں جن پر ابن رجب(سال وفات 795ھ)ذھبی(سال وفات 748ھ)و ابن الوردی(سال وفات 739ھ) نے جرح کی

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


🔹صاحب بهجة الْأَسْرَار کی توثیق🔹

تحریر :#زبیرجمالوی
27/11/2021ھ

🔹علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ🔹

علامه ابو الحسنات محمد عبد الحي لکھنوی رحمہ الله ( سال وفات 1304ھ) حدیث صلوۃ الرغائب میں موجود مجروح راوی ابن جھضم الھمدانی (سال وفات 414ھ) پہ کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

قلت قد توهم بعض أَبنَاء عصرنا بمطالعة الْمِيزَان وَلسَانه إِن وَاضع حَدِيث صَلَاة الرغائب هُوَ مؤلف بهجة الْأَسْرَار الَّذِي هُوَ عُمْدَة الْكتب الْمُؤَلّفَة فِي مَنَاقِب السَّيِّد عبد الْقَادِر الجيلاني وَغَيره من الأكابر وَهُوَ توهم فَاسد* فَإِن ابْن جَهْضَم الَّذِي اتهمَ بِوَضْع ذَلِكَ الحَدِيث تقدم على السَّيِّد الجيلاني مندرج فِي سلسلة أسانيده كَمَا مر منا نَقله وَهُوَ من رجال الْمِائَة الْخَامِسَة ومؤلف بهجة الْأَسْرَار الْمُشْتَمل على مَنَاقِب السَّيِّد الجيلاني وَغَيره من الْأَبْرَار من رجال الْمِائَة السَّابِعَة مُتَأَخّر عَن السَّيِّد الجيلاني كَمَا لَا يخفى على من طالع الْبَهْجَة

فَإِن كَانَ مُرَاد الذَّهَبِيّ من بهجة الْأَسْرَار هُوَ هَذَا فَهُوَ غلط فَاحش مِنْهُ، وَإِن كَانَ مُرَاده غَيره فَتوهم من توهم الِاتِّحَاد خبط مِنْهُ.

▪️حاجی خلیفہ رحمہ اللہ (سال وفات 1067ھ)

وَقد ذكر فِي كشف الظنون أَن بهجة الْأَسْرَار ومعدن الْأَنْوَار فِي مَنَاقِب السَّادة الأخيار من المشائخ الْأَبْرَار أَوَّلهمْ الشَّيْخ عبد الْقَادِر وَآخرهمْ الإِمَام احْمَد بْن حَنْبَل للشَّيْخ نور الدَّين أبي الْحسن على بن يُوسُف اللَّخْمِيّ الشَّافِعِي الْمَعْرُوف بِابْن جَهْضَم الْهَمدَانِي مجاور الْحرم أَلفه فِي حُدُود سنة سِتِّينَ وسِتمِائَة وَجعل على أحد وَأَرْبَعين فصلا الأول فِي مَنَاقِب الشَّيْخ عبد الْقَادِر وَهُوَ طَوِيل جدا يتنصف الْكتاب بِهِ أَوله استفتح بَاب العون بأيدي محامد الله أَلفه لما سُئِلَ عَن قَول شَيْخه قدمي هَذِه على رَقَبَة كل ولي الله فَجمع مَا وَقع لَهُ مَرْفُوع الْأَسَانِيد وَفصل بِذكر أَعْيَان الْمَشَايِخ وأفعالهم وأقوالهم، ثُمَّ اخْتَصَرَهُ بعض الْمَشَايِخ بِحَذْف الْأَسَانِيد.

▪️ امام ابن الودری الجد ((سال وفات 749ھ) کا اعتراض

قَالَ الشَّيْخ عمر بْن عبد الْوَهَّاب الفرضي الْحلَبِي فِي ظهر نُسْخَة من نسخ الْبَهْجَة.
ذكر ابْن الوردي فِي تَارِيخه إِن فِي الْبَهْجَة أمورا لَا تصح ومبالغات فِي شَأْن الشَّيْخ عبد الْقَادِر لَا تلِيق إِلَّا بالربوبية انْتهى. أَي كَلَام ابْن الوردي وبمثله نقل عَن الشهَاب ابْن حجر الْعَسْقَلَانِي.

▪️ عمر بن عبد الوھاب الحلبی کا جواب (سال وفات 1024ھ)

وَأَقُول مَا المبالغات الَّتِي عزيت إِلَيْهِ مِمَّا لَا يجوز على مثله، وَقد تتبعتها فَلم أجد فِيهَا نقلا إِلَّا وَله فِيهِ متابعون وغالب مَا أوردهُ فِيهَا نَقله اليافعي فِي أسى المفاخر وفى نشر المحاسن وَروض الرياحين وشمس الدَّين الزكي الْحلَبِي أَيْضا فِي كتاب الْأَشْرَاف وَأعظم شَيْء نقل عَنهُ إِنَّه أحيي الْمَوْتَى كإحيائه الدَّجَاجَة، ولعمري أَن هَذِه الْقِصَّة نقلهَا تَاج الدَّين السُّبْكِيّ، وَنقل أَيْضا عَنِ ابْنِ الرِّفَاعِي وَغَيره وَأَنِّي لغبي جَاهِل حَاسِد ضيع عمره فِي فهم مَا من السطور وقنع بذلك عَن تَزْكِيَة النَّفس وإقبالها على الله أَن يفهم مَا يُعْطي الله أولياءه من التصريف فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة، وَلِهَذَا قَالَ الْجُنَيْد: التَّصْدِيق بطريقتنا ولَايَة انْتهى. أَي كَلَام الْحلَبِي انْتهى.

▪️شیخ عبد الحق محدث دہلوی (سال وفات 1052ھ)

وَذكر مؤلف زبدة الْآثَار منتخب بهجة الْآثَار أَن كتاب بهجة الْأَسْرَار كتاب عَظِيم شرِيف مَشْهُور ومصنفة من عُلَمَاء الْقِرَاءَة

▪️امام شمس الدین ذہبی (سال وفات 748ھ)

وَقد ذكره الذَّهَبِيّ فِي طَبَقَات الْقُرَّاء بقوله: على بْن يُوسُف بن جرير اللَّخْمِيّ الشطنوفي، الإِمَام الأوحد المقرئي نور الدَّين شيخ الْقُرَّاء بالديار المصرية أَبُو الْحسن أَصله من الشَّام ومولده بِالْقَاهِرَةِ سنة أَرْبَعِينَ وسِتمِائَة وتصدر للإقراء والتدريس بالجامع الْأَزْهَر، وَذكر الذَّهَبِيّ أَيْضا إِنِّي حضرت مجْلِس إقرائه فَأَعْجَبَنِي سمته وسكوته وَكَانَت لَهُ غَايَة غرام وعشق بالشيخ عبد الْقَادِر وَقد جمع فِي أخباره ومناقبه انْتهى كَلَام الذَّهَبِيّ بمحصله

▪️امام ابن الجزری (سال وفات 833ھ)

. وَذكر مؤلف الْحصن الْحصين مُحَمَّد بن مُحَمَّد الْجَزرِي فِي تذكرة الْقُرَّاء أَن مؤلف بهجة الْأَسْرَار كَانَ من أجلة مَشَايِخ مصر وَكَانَ من بَينه وَبَين الشَّيْخ عبد الْقَادِر واسطتان انْتهى مَا فِي الزبدة معربا.

▪️امام جلال الدین سیوطی (سال وفات 911ھ)

(1)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


عَليّ بن يُوسُف بن حريز بن معضاد بن مُحَمَّد بن أَحْمد القارىء الْمَشْهُور بالشيخ نور الدّين الشطنوفي اللَّخْمِيّ الشَّافِعِي كَانَ أَصله من الشَّام من البلقاء وَولد بِالْقَاهِرَةِ فِي أَوَاخِر شَوَّال سنة 647 وَأخذ القراآت عَن تَقِيّ الدّين ابْن الجرائدي وزين الدّين ابْن الجزائرى وَغَيرهمَا والعربية عَن صَالح ابْن إِبْرَاهِيم بن أَحْمد الاسعردي إِمَام جَامع الْحَاكِم وَسمع من النجيب والصفي الْخَلِيل وَغَيرهمَا وَولي تدريس التَّفْسِير بالجامع الطولوني والإقراء بِجَامِع الْحَاكِم وَكَانَ النَّاس يكرمونه ويعظمونه وينسبونه إِلَى الصّلاح وانتفع بِهِ جمَاعَة فِي القراآت وَجمع هُوَ مَنَاقِب الشَّيْخ عبد الْقَادِر وسمى الْكتاب الْبَهْجَة قَالَ الْكَمَال جَعْفَر وَذكر فِيهَا غرائب وعجائب وَطعن النَّاس فِي كثير من حكاياته وَمن أسانيده فِيهَا وَكَانَ عَالما تقيا مشكور السِّيرَة

[ ,الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة ,4/168]

🔹امام ابن الوردی الجد 🔹

امام زین الدین ابن الوردی رحمہ اللہ (سال وفات 749ھ) فرماتے ہیں:

قَالَ الشَّيْخ الإِمَام نور الدّين أَبُو الْحسن عَليّ بن يُوسُف بن جرير بن معضاد بن فضل اللَّخْمِيّ رَحمَه الله تَعَالَى

[ ,تاريخ ابن الوردي ,2/63]

🔹امام. عفیف الدین یافعی 🔹

امام عفیف الدين یافعی رحمہ اللہ (سال وفات 768ھ) لکھتے ہیں:

الشيخ الإمام الفقيه العالم المقرىء أبو الحسن علي بن يوسف بن جرير بن معضاد الشافعي اللخمي

[,مرآة الجنان وعبرة اليقظان ,3/268]

🔹شمس الدین ابن الجزری🔹

امام ابن الجزری رحمہ اللہ (سال وفات 833ھ) لکھتے ہیں:

علي بن يوسف بن حريز بن فضل بن معضاد النور أبو الحسن اللخمي المعروف بالشطونفي الشافعي الأستاذ المحقق البارع شيخ الديار المصرية*،

[ ,غاية النهاية في طبقات القراء ,1/585]

شمس الدین داؤدی رحمہ اللہ (سال وفات 945ھ) لکھتے ہیں :

علي بن يوسف بن حريز بن معضاد بن فضل اللخمي الشطنوفي نور الدين أبو الحسن المقرئ النحوي... وكان كثير من الناس يعتقده، والقضاة تكرمه وقال ابن مكتوم: كان رئيس المقرئين بالديار المصرية، ومعدودا في المشايخ من النحاة، وله اليد الطولى في علم التفسير، وعلق فيه تعليقا. وله «كتاب في مناقب الشيخ عبد القادر الكيلاني» نفعنا الله ببركاته؛ في ثلاث مجلدات

[طبقات المفسرين للداوودي، ٤٤١/١]

🔹حاجی خلیفہ چلپی🔹

حاجی خلیفہ رحمہ اللہ (سال وفات 1067ھ) لکھتے ہیں:

الشيخ نور الدين أبو الحسن علي بن يوسف بن حريز بن معضاد بن فضل اللخمي الشافعي صاحب "بهجة الأسرار في مناقب الشيخ عبد القادر"،

[ ,سلم الوصول إلى طبقات الفحول ,5/62]

▪️شیخ خیر الدین الزرکلی (سال وفات 1396ھ) لکھتے ہیں:

علي بن يوسف بن حَرِيز بن معضاد اللخمي، أبو الحسن، الشطنوفي: عالم بالقراآت، كان شيخ الديار المصرية في عصره. من فقهاء الشافعية. أصله من البلقاء بالشام، ومولده ووفاته بالقاهرة. له " بهجة الأسرار ومعدن الأنوار

[ ,الأعلام للزركلي ,5/34]

🔹 بهجة الأسرار نامی کتابیں دو ہیں 🔹

ایک ابن جہضم ہمدانی(سال وفات 414ھ)کی ہے جو بقول. محدثین کرام صلاۃ الرغائب کی حدیث کا واضع بھی ہے اور دوسری کتاب امام شطنوفی (سال وفات 713ھ) کی ہے

اس چیز کو کم. پہلے علامہ لکھنوی رحمہ اللہ (سال وفات 1304ھ) کے حوالہ سے بھی بیان کر کے ہیں

اور الأعلام للزرکلی کے محقق ابن جھضم کی کتاب بھجة الأسرار پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وسمي كتابه " الأنوار وبهجة الأسرار " وقال: أربعون جزءا. قلت: كتاب " بهجة الاسرار " لابن جمهضم هذا، غير كتاب " بهجة الأسرار - ط " للشطنوفي " علي بن يوسف " المتوفى سنة 713 وقد جعلهما صاحب كشف الظنون، ص 256 شخصا واحدا، وبينهما ثلاثمئة عام،

[حاشية الأعلام للزركلي ,4/304]

🔹اعتراض🔹

امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ)وغیرہ نے فرمایا ہے
کہ اس کتاب میں صحیح ومکذوب سب موجود ہیں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (سال وفات 852ھ)فرماتے ہیں:
اس میں اسناد کے لحاظ سے کلام ہے

🔹جواب 🔹

امام ذھبی کی یہ جرح مقبول نہیں جب وہ خود لکھ رہے ہیں
کہ انکی مکاشفات و کرامات متواتر ہیں اور دوسری طرف امام شطنوفی(سال وفات 713ھ)کی تعریف بھی کررہے (کما ذکرنا)

پھر کیا وجہ ہے کہ بلا دلیل بھجۃ الاسرار میں جھوٹی روایات کا قول فرمایا

▪️دلیل اول▪️

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ(سال وفات 911ھ) نے بغیة الوعاة میں امام شطنوفی کی تعریف امام ابن مکتوم سے نقل کی اور ان کی کتاب بھجۃ الاسرار کا تذکرہ بھی کیا لیکن امام شطنوفی رحمہ اللہ پر امام ذھبی رحمہ اللہ کی جرح نقل نہیں کی حالانکہ اگر وہ جرح کچھ بھی قابل التفات ہوتی تو امام سیوطی رحمہ اللہ ضرور نقل فرماتے

[السيوطي ,بغية الوعاة ,2/213]

▪️دلیل دوم▪️

امام ابن الجزری رحمہ اللہ (سال وفات 833ھ)نے امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ)کی جرح نقل کی لیکن پھر فرمایا

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


وَقَالَ السُّيُوطِيّ فِي حسن المحاضرة بأخبار مصر والقاهرة عِنْد ذكر الْقُرَّاء الَّذين كَانُوا بِمصْر على بْن يُوسُف بن جرير اللَّخْمِيّ الشطنوفي الْأَمَام الأوحد نور الدَّين أَبُو الْحسن شيخ الْقُرَّاء بالديار المصرية ولد بِالْقَاهِرَةِ سنة أَربع وَأَرْبَعين وسِتمِائَة وَقَرَأَ على التقي الجرائدي والصفي خَلِيل وَسمع من النجيب عبد اللَّطِيف وتصدر للإقراء بالجامع الْأَزْهَر وتكاثر عَلَيْهِ الطّلبَة مَاتَ سنة ثَلَاث عشرَة وَسَبْعمائة انْتهى.

(2)

وَقَالَ السُّيُوطِيُّ أَيْضا فِي بغية الوعاة فِي طَبَقَات النُّحَاة على بن يُوسُف بن جرير بْن معضاد بْن فضل اللَّخْمِيّ الشطنوفي نور الدَّين أَبُو الْحسن المقرئي النَّحْوِيّ كَذَا ذكره الأدفوي. وَقَالَ: قَرَأَ الْقرَاءَات على التقي يَعْقُوب والنحو على الضياء صَالح بْن إِبْرَاهِيم إِمَام جَامع الْحَاكِم، وَسمع من النجيب وَتَوَلَّى التدريس بالجامع الطولوني وتصدر للإقراء بِجَامِع الْحَاكِم وَكَانَ كثير من النَّاس يَعْتَقِدهُ والقضاة تكرمه. مَاتَ بِالْقَاهِرَةِ يَوْم السبت تَاسِع عشر من ذِي الْحجَّة سنة ثَلَاث عشرَة وَسَبْعمائة..

▪️امام ابن مکتوم (سال وفات 747ھ)

وَقَالَ ابْن مَكْتُوم كَانَ رَئِيس المقرئين بالديار المصرية ومعدودا فِي الْمَشَايِخ من النُّحَاة وَله الْيَد الطولي فِي علم التَّفْسِير وعلق فِيهِ تَعْلِيقا وَله كتاب فِي مَنَاقِب الشَّيْخ عبد الْقَادِر الكيلاني مولده سنة سبع وَأَرْبَعين وسِتمِائَة انْتهى

▪️امام عفیف الدین یافعی(سال وفات 768ھ)

وَقَالَ اليافعي فِي مرْآة الْجنان فِي حوادث سنة أَربع عشرَة وَأَرْبَعمِائَة فِيهَا توفّي الشَّيْخ أَبُو الْحسن الْمَعْرُوف بِابْن جَهْضَم الْهَمدَانِي شيخ الصُّوفِيَّة بِالْحرم الشريف ومؤلف كتاب بهجة الْأَسْرَار فِي التصوف انْتهى.

▪️نتیجہ▪️

فَعلم من هَذِه الْعبارَات أَن ابْن جَهْضَم وَاضع حَدِيث صَلَاة الرغائب غير مؤلف بهجة الْأَسْرَار فِي مَنَاقِب السَّيِّد الجيلاني وَغَيره وَأَن بهجة الْأَسْرَار الَّذِي هُوَ من تأليف ابْن جَهْضَم غَيره فاحفظ هَذِه الْفَائِدَة الغريبة وانظمها فِي سلك النفائس العجيبة.

[اللكنوي، ,الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة , 68]

🔹امام شمس الدین ذھبی 🔹

امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ) نے اپنی کتاب المعین فی طبقات المحدثین میں بطور محدث صاحب بهجة الأسرار امام شطنوفی (سال وفات 713ھ)کا نام لکھا ہے

ومقرئ مصر نور الدّين عَليّ بن يُوسُف بن جرير الشطنوفي

[ المعين في طبقات المحدثين , 230]

آپ کتاب کے مقدمہ میں کتاب کا تعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فَهَذِهِ مُقَدّمَة فِي ذكر أَسمَاء أَعْلَام حَملَة الْآثَار النَّبَوِيَّة تبصر الطَّالِب النبيه وتذكر الْمُحدث الْمُفِيد بِمن يقبح بالطلبة أَن يجهلوهم وَلَيْسَ هَذَا كتاب بالمستوعب للكبار بل لمن سَار ذكره فِي الأقطار والأعصاروَبِاللَّهِ أَعْتَصِم وَإِلَيْهِ أنيب

[المعين في طبقات المحدثين 17]

🔹امام ابن کثیر دمشقی 🔹

علامہ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ (سال وفات 774ھ) فرماتے ہیں:

شيخ القراءات السبع الشيخ نور الدين الشطنوفى،

[ابن كثير ,البداية والنهاية,14/33]

🔹امام صلاح الدین صفدی 🔹

امام صلاح الدین صفدی رحمہ اللہ (سال وفات 764ھ) لکھتے ہیں:

(الشَّطَّنوفي) عَليّ بن يُوسُف الشَّطَّنوفي شيخ القرّاء نور الدّين توفّي رَحمَه الله تَعَالَى فِي سنة ثَلَاث عشرَة وَسبع مائَة وَهُوَ بالشين الْمُعْجَمَة والطاء الْمُهْملَة وَالنُّون وَالْوَاو وَالْفَاء وياء النِّسْبَة

[الصفدي ,الوافي بالوفيات ,22/220]

امام صلاح الدین صفدی رحمہ اللہ (سال وفات 764ھ) اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

علي بن يوسف بن حريز بالحاء المهملة والراء والياء آخر الحروف الساكنة والزاي. الشيخ نور الدين أبو الحسن الشطنوفي، شيخ القراء. قرأ القراءات على تقي الدين الجرائدي، وعلى ابن القلال، وقرأ النحو على صالح إمام جامع الحاكم.
وسمع من النجيب الحراني، وتولى التفسير بجامع ابن طولون، وتصدر للإقراء بجامع الحاك، وكان القضاة يكرمونه، *والعلماء يعظمونه، ويعتقد الناس صلاحه،* ويرون انه ممن جعل الدعاء سلاحه، وقرأ عليه جماعة وخلائق، وصفت منه له البواطن والخلائق.ولم يزل على حاله إلى أن شط المزار من الشطنوفي، وبطل ما كان يسنده منه إلى البصري والكوفي.

[الصفدي ,أعيان العصر وأعوان النصر ,3/583]

🔹إمام سراج الدین ابن الملقن 🔹

امام ابن الملقن رحمہ اللہ (سال وفات 804ھ) فرماتے ہیں:

الشيخ نور الدين أبو الحسن علي بن يوسف بن حريز بن معضاد، الشافعي اللخمي.

[ابن الملقن ,طبقات الأولياء , 246]

🔹حافظ ابن حجر عسقلانی 🔹

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (سال وفات 852ھ) لکھتے ہیں:

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 16:32


📚اس طرح حدیث حفظ کرتے 📚

🔹علامہ ذہبی علیہ االرحمہ نے ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کے متعلق یہ الفاظ ابو علی نیشاپوری کے حوالہ سے نقل کئے ہیں کہ:

كان ابن خزيمة يحفظ الفقهيات من حديثه كما يحفظ القارئ السورة

"فقہی حدیثوں کو ابن خزیمہ اسی طرح یاد کرتے تھے جیسے کہ قاری قرآنی سورتوں کو یاد کرتا ہے" .

•[تذکرۃ الحفاظ ج.2 ص.61]

#تذکرۃ_السلف ⊰𝟑𝟕⊱
#اکابرین
#محدثین_کرام
#حفظ_حدیث

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 16:27


🌻 خبر واحد کا انکار کرنے والا 🌻

♦️شیخ الاسلام فخر الاسلام بزدوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

ومن الناس من أنكر العلم, بطريق الخبر أصلا, وهذا رجل سفيه لم يعرف نفسه, ولا دينه, ولا دنياه ولا أمه, ولا أباه مثل من أنكر العيان

"جس نے خبر واحد کا انکار کیا وہ دراصل ایک بیوقوف آدمی ہے، اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتا نہ اپنے دین کو، نہ دنیا کو، نہ اپنی ماں کو، نہ اپنے باپ کو ، نہ اپنی آنکھوں کو،
یعنی خبر واحد کا انکار کرنے والا اپنی دونوں آنکھوں کے انکار کرنے والے کے مترادف ہے".

•[كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوي ط العلمية ج.2 ص.525]

#علم_حدیث 『𝟓𝟎』
#علم_جرح_و_تعدیل
#علوم_الحدیث #اصول_حدیث
#مصطلح_الحدیث
#اسماء_الرجال

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

12 Oct, 10:30


عصر حاضر میں حصول علم دین کے بغیر شارٹ کٹ (short cut) طریقے سے پیر بننے اور ایک دو چلے کاٹ کر ولایت کا دعوی کرنے والوں کے لیے حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے صد یوں پہلےارشاد فرمایا:

*پہلے فقہ سیکھو، اس کے بعد خلوت نشیں ہو! جو بغیر علم کے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ جتنا سنوارے گا اس سے زیادہ بگاڑے گا۔ لہذا اپنے ساتھ شریعت کی شمع لے لو۔*
[بہجۃالاسرار ،ذکر فصول من کلامہ مرصعابشئ، ص : ١٠٦ ]
___

محمد محمود اشرف قادری مصباحي سوتیہارا ،سیتامڑھی،بہار

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Oct, 17:57


اللہ پاک کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ شیخ الحدیث والتفسیر استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا قاضی عبد الرزاق بھترالوی علیہ الرحمہ کے مزار پر انوار پر ۔۔۔۔

حضرت کا عظیم علمی و تحقیقی کارنامہ ، سنن ابن ماجہ کی پانچ جلدوں پر مشتمل مفصل شرح ۔ ان شاءاللہ عزوجل عنقریب منظر عام پر !!!

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Oct, 04:52


یہ مصر کے اخبار "الاہرام" سے ایک اقتباس ہے، جس میں 1924 میں طائف پر وہابیوں کے حملے کے دوران کیے گئے کچھ مظالم کا ذکر کیا گیا ہے۔

" وہابیوں کا ایک گروہ نے شہر طائف پر حملہ کیا، اسکولوں اور گھروں کو جلا دیا، نیک لوگوں کی قبروں کو مسمار کر دیا جن میں اس امت کے عالم حضرت عبداللہ ابن عباس کی قبر بھی شامل تھی۔

انہوں نے املاک لوٹ لیں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور علما کو قتل کیا۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے انہیں قتل کیا اور ان کی عزتیں پامال کیں۔ "

11 September 1924

منقول

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

07 Oct, 14:42


🌷 موضوع روایت بیان کرنا 🌷

♦️امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"من گھڑت حدیث(موضوع) کا علم يا ظن ہو جانے کے بعد اس کی روایت حرام ہے ۔
( سوائے اس کی حقیقت واضح کرنے والے کیلئے ) اور جو جانتے ہوئے ایسا کرے گا وہ اس حدیث (مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ) میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا۔
اس سلسلے میں یہ بھی کوئی فرق نہیں کہ اس جھوٹ کا تعلق احکام سے ہے یا ترغیب و ترہیب اور مواعظ سے ۔
کیونکہ ہر مسئلہ میں نبی اکرم ﷺ کی طرف جھوٹی حدیث منسوب کرنا حرام ہے ، تمام دانش مندوں کا اتفاق ہے، کہ کسی بھی شخص کی طرف جھوٹ بات کا انتساب حرام ہے تو نبی اکرم ﷺ کی طرف کسی بات کو غلط طور پر منسوب کرنا کتنا بڑا گناہ ہوگا".

•[شرح النووي على مسلم ج.1 ص.63]

#علم_حدیث 『𝟒𝟖』
#علم_جرح_و_تعدیل
#علوم_الحدیث #اصول_حدیث
#مصطلح_الحدیث
#اسماء_الرجال

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

07 Oct, 07:25


📚 شرح مشكلات الموطأ 1-3 برواية الإمام محمد بن الحسن الشيباني ✍️ الإمام ملا علي القاري نور الدين أبي الحسن علي بن سلطان الهروي القاري 🔹تحقيق ودراسة أحمد فواز الحمير.

1,921

subscribers

1,157

photos

18

videos