◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆ @nuqoosh_e_hadees Channel on Telegram

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

@nuqoosh_e_hadees


بعض وائرل روایات کی تحقیق ● گروپ "تخریج الأحاديث" کے بعض حل شدہ روایات کا مجموعہ ● اور بھی فنونِ حدیث سے متعلق بہت کچھ مواد حاصل کرنے کے لیے جوائن کیجیے ۔
@Takhreej_e_ahadith
سوال کے لیے” تخریج الأحاديث “ گروپ کی لنک 👆

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆ (Urdu)

نقوشِ حدیث یہ ایک تلگرام چینل ہے جہاں آپ کو وائرل روایات کی تحقیق اور تخریج الأحاديث کے بعض حل شدہ روایات کا مجموعہ ملےگا۔ یہاں آپ بہت سے فنونِ حدیث سے متعلق بہترین مواد حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی سوال ہے یا اور مواد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو فوراً @Takhreej_e_ahadith گروپ کو جوائن کریں۔ وہاں آپ کو مکمل جواب ملےگا اور آپ اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر سکیں گے۔ تو بغیر دیر کیے ابھی نقوشِ حدیث چینل کو جوائن کریں اور حدیث سے متعلق معلومات بہترین طریقے سے حاصل کریں۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

16 Feb, 14:12


حضرت پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللّٰه علیه فرماتے ہیں:
جب ہم حدیث پڑھتے تھے تو کبھی کبھی خود حدیث والے آقا ﷺ کرم فرماتے تھے۔

(مہر منیر، ص84)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

16 Feb, 07:42


*عامی کا حدیث کے ظاہر پر عمل کرنا*

قال الامام ابو يوسف رحمه الله: على العامى الاقتداء بالفقهاء لعدم الاهتداء فى حقه إلى معرفة الأحاديث. (الهداية)

قال العينى رحمه الله تعالى: يعنى العامی اذا سمع حدیثا لیس له ان یاخذ بظاهرہ لانه لا یهتدي الی معرفة احواله، لانه قد یکون منسوخا او متروکا اور مصروفا علی ظاهرہ.
(البناية ٤/١١)

مفہوم: امام ابو یوسف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: عامی انسان پر لازم ہے کہ وہ فقہاء کرام کی پیروی کرے کیونکہ اسے خود سے احادیث کی معرفت نہیں۔ (یعنی خود سے احادیث کو نہیں سمجھ سکتا)

اس پر علامہ عینی علیہ الرحمہ یوں تبصرہ فرماتے ہیں: عامی انسان جب کوئی حدیث سنے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ حدیث کے ظاہر پر عمل کرے کیونکہ اسے احوال حدیث کی معرفت نہیں، کیونکہ کبھی حدیث منسوخ ہوتی ہے، کبھی متروک ہوتی ہے اور کبھی اپنے ظاہری معنی سے پھری ہوئی ہے۔ یعنی ظاہر پر عمل نہیں ہوتا۔

امام اہل سنت فرماتے ہیں: مجرد صحت مصطلحہ اثر صحت عمل مجتہد کے لئے ہر گز کافی نہیں۔صحابہ کرام سے لیکر ائمہ مجتہدین تک کوئی مجتہد ایسا نہیں جس نے بعض احادیث صحیحہ کو مؤول یا مرجوح یا کسی نہ کسی وجہ سے متروك العمل نہ ٹھہرایا ہو۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: فقط حدیث معلوم ہو جانا فہم حکم کے لئے کافی نہیں۔
(مفہوم)
[فتاوي رضويه]

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: واعظ کا کرسی پر مسجد میں بیٹھنا جائز ہے۔۔۔۔۔ *ایک آدھ بار حدیث سے یہ ثابت ہے مگر ایک آدھ بار سے فعل سنت نہیں بن جاتا۔*

آج کل یہ رجحان بہت زیادہ ہے ہر بندہ ظاہر حدیث کا فقط ترجمہ پڑھ کر ائمہ مجتہدین اور اکابرین امت پر طعن و تشنیع شروع کرتا ہے اور امت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ ایسے لوگ ترجمہ کی صلاحیت تک نہیں رکھتے بس کسی کا ترجمہ کیا ہوا پڑھتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھ لیتے ہیں۔

ہمیں علماء کرام سے حدیث کا مفہوم سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے اسی میں دین دنیا کی بھلائی ہے۔ اللہ تعالی ہمیشہ اکابرین امت اور علماء کرام کے دامن سے وابسطہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

ابو الحسن شعیب خان

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

15 Feb, 16:45


🌹ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھیں 🌹

🔹عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ ، فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ - قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ - عَلَيْكُمْ

🔸حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی طرف دیکھو جو (مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے، اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے، یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔" ابو معاویہ نےکہا: " (وہ نعمت) جو تم پر کی گئی۔"
•[صحیح مسلم ر:7430]

♦️امام نووی علیہ الرحمہ اس حدیث شریف کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:

🔹قال ابن جرير وغيره هذا حديث جامع لأنواع من الخير لأن الإنسان إذا رأى من فضل عليه في الدنيا طلبت نفسـه مثــل ذلــك واستصغر ما عنده من نعمة الله تعالى وحرص على الازدياد ليلحق بذلك أو يقاربه هذا هو الموجود في غالب الناس وأما إذا نظر في أمور الدنيا إلى من هو دونه فيها ظهرت له نعمة الله تعالى عليه فشكرها وتواضع وفعل فيه الخير.

🔸"علامہ ابن جریر اور دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث نیکی و بھلائی کے کئی اقسام کو شامل ہیں اس لئے کہ جب انسان کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جس کو دنیاوی اعتبار سے کچھ فضیلت حاصل ہو تو وہ اسی طرح کی فضیلت چاہنے لگتا ہے اور اللہ کی دی ہوئی نعمت کو کمتر سمجھنے لگتا ہے اور زیادہ کی حرص کرتا ہے تاکہ اس شخص کی طرح یا اس کے قریب قریب ہو جائے اور یہ بات اکثر لوگوں میں موجود ہے ۔
اور جب دنیاوی امور میں اپنے سے کم تر درجے والے کو دیکھے گا تو اس کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ظاہر ہو جائیں گے تو ان پر شکر کرے گا اور تواضع اختیار کرے گا اور اس میں نیکی و بھلائی اختیار کرے گا“۔

•[شرح النووي على مسلم ج.18 ص. 97]

♦️حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

🔹في هذا الحديث دواء الداء لأن الشخص إذا نظر إلى من هو فوقه لم يأمن أن يؤثر ذلك فيه حسدا ودواؤه أن ينظر إلى من هو أسفل منه ليكون ذلك داعيا إلى الشكر .

🔸" یہ حدیث بیماری کا علاج ہے اس لئے کہ جب انسان اپنے سے اوپر درجے والے کو دیکھتا ہے تو یہ چیز اسے حسد میں مبتلا کر دیتی ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ آدمی اپنے سے کم تر درجے والے کو دیکھے تو یہ اس کے لئے شکر ادا کرنے کا ذریعہ بنے گا“۔

•[فتح الباري ج.11 ص.323]

♦️حضرت عون بن عبداللہ علیہ الرحمہ نے کہا:

كنت أجالس الأغنياء فلا أزال مغموما، كنت أرى ثوباً أحسن من ثوبي، ودابةً أَفْرَهَ من دابتي، فجالست الفقراء فاسترحت.

"جب میں امیر لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا تھا تو ہمیشہ غمگین رہتا تھا، کیونکہ میں اپنے کپڑوں سے بہتر کپڑے اور اپنی سواری سے بہتر سواریاں دیکھتا تھا۔ پھر جب میں غریبوں کی صحبت میں بیٹھنے لگا تو مجھے سکون مل گیا".

•[العزلة للخطابي]

#الحدیث ⟦𝟙𝟟⟧
#حدیث #السنة 
#شرح_حدیث
#منتخب_احادیث

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

15 Feb, 12:15


كتابٌ للحافظ ابن حجر رحمه الله تعالى استغرق تأليفُهُ 40 سنةً :

ليسَ هو فتح الباري الذي استغرق تأليفه (25) سنة ، بل هو " الإصابة في تمييز الصحابة " الذي يُعتبر أوسع كتابٍ في تراجم الصحابة رضي الله عنهم ، قال فيه رحمه الله تعالى :
( انتهتْ كتابتي مع باب الهوامش في ثالث ذي الحجة عام سبعة وأربعين ، ‌وكان ‌الابتداء ‌في ‌جمعة سنة تسع وثمانمائة فقارب.الأربعين ، لكن كانت الكتابة فيه بالتراخي ، وكتبتُهُ في المسودات ثلاث مراتٍ من أجلِ الترتيب الّذي اخترعتُهُ ) اهـ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

14 Feb, 20:48


استحباب، حدیث ضعیف سے ثابت ہوتی ہے۔

امام اہل سنت فرماتے ہیں: حدیث ضعیف ثبوت استحباب کے لئے بس ہے۔ امام شیخ الاسلام ابو زکریا نفعنا اللہ تعالی ببرکاتہ کتاب "الاذکار المنتخب من کلام سید الابرار" صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
قال العلماء من المحدثین والفقھاء و غیرھم یجوز ویستحب العمل فی الفضائل والترغیب والترھیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعا۔

محدثین وفقہا وغیرہم علما نے فرمایا کہ فضائل اور نیک بات کی ترغیب اور بری بات سے خوف دلانے میں حدیث ضعیف پر عمل جائز و مستحب ہے جبکہ موضوع نہ ہو۔

(کتاب الاذکار المنتخب من کلام سید الابرار صلی اللہ تعالی علیہ سلم فصل قال العلماء من المحدثین مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ص ۷)

بعینہا یہی الفاظ امام ابن الهائم نے "العقد النضید فی تحقیق کلمة التوحید" پھر عارف باللہ سیدی عبدالغنی نابلسی نے "حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ" میں نقل فرمائے، امام فقیہ النفس محقق علی الاطلاق "فتح القدیر" میں فرماتے ہیں :الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع۔

(حدیث ضعیف سے کہ موضوع نہ ہو فعل کا مستحب ہونا ثابت ہوجاتا ہے)

( فتح القدیر فصل فی الصلاۃ علی المیت مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۹۵)

علامہ ابراہیم حلبی "غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی" میں فرماتے ہیں : یستحب ان یمسح بدنه بمندیل بعدالغسل) لماروت عائشة رضی اللہ تعالی عنھا قالت کان للنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خرقة یتنشف بھا بعدالوضوء رواہ الترمذی وھو ضعیف ولکن یجوز العمل بالضعیف فی الفضائل۔

(نہا کر رومال سے بدن پونچھنا مستحب ہے جیسا کہ ترمذی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وضو کے بعد رومال سے اعضاء مبارک صاف فرماتے۔ ترمذی نے روایت کیا یہ حدیث ضعیف ہے مگر فضائل میں ضعیف پر عمل روا۔

( غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی سنن الغسل سہیل اکیدمی لاہور ص۵۲)

مولانا علی قاری "موضوعات کبیر"میں حدیث مسح گردن کا ضعف بیان کرکے فرماتے ہیں:الضعیف یعمل به فی الفضائل الاعمال اتفاقا ولذا قال ائمتنا ان مسح الرقبة مستحب او سنة.

فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر بالاتفاق عمل کیا جاتا ہے اسی لئے ہمارے ائمہ کرام نے فرمایا کہ وضو میں گردن کا مسح مستحب یا سنت ہے۔

(موضوعات کبیر حدیث مسح الرقبۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ص ۶۳)

امام جلیل سیوطی "طلوع الثریا باظہار ما کان خفیا" میں فرماتے ہیں:استحبه ابن الصلاح و تبعه النووی نظر الی ان الحدیث الضعیف یتسامح بہ فی فضائل الاعمال۔

تلقین کو امام ابن الصلاح پھر امام نووی نے اس نظر سے مستحب مانا کہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے۔

(الحاوی للفتاوی خفیا دارالفکر بیروت ۲/ ۱۹۱)

علامہ محقق جلال دوانی رحمہ اللہ تعالی "انموذج العلوم" میں فرماتے ہیں: الذی یصلح للتعویل علیه ان یقال اذا وجد حدیث فی فضیلة عمل من الاعمال لایحتمل الحرمة والکراھیة یجوز العمل بہ ویستحب لانه مامون الخطر ومرجو النفع۔

( نسیم الریاض شرح شفا دیباجہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۱/ ۴۳)

اعتماد کے قابل یہ بات ہے کہ جب کسی عمل کی فضیلت میں کوئی حدیث پائی جائے اور وہ حرمت وکراہت کے قابل نہ ہو تو اس حدیث پر عمل جائز ومستحب ہے کہ اندیشہ سے امان ہے اور نفع کی امید۔اندیشہ سے امان یوں کہ حرمت وکراہت کا محل نہیں اور نفع کی امید یوں کہ فضیلت میں حدیث مروی ہے اگرچہ ضعیف ہی سہی۔

(ملخصا و ملتقطا فتاوی رضویہ جلد 5)

عجیب بات ہے محدثین و فقہاء کرام حدیث ضعیف سے استحباب ثابت کر رہے ہیں جبکہ بعض لوگ انکار کر رہے ہیں۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

14 Feb, 17:29


📖 علماء جنت میں بھی عِلمی موضوعات پر مذاکرہ کریں گے 📖

🔹وذكر ابن أبي الدنيا من حديث الربيع بن صبيح عن الحسن عن أنس يرفعه إذا دخل أهل الجنة الجنة فيشتاق الإخوان بعضهم إلى بعض فيسير سرير هذا إلى سرير هذا وسرير هذا إلى سرير هذا حتى يجتمعا جميعا فيتكئ هذا أو يتكئ هذا فيقول أحدهما لصاحبه تعلم متى غفر الله لنا فيقول صاحبه نعم يوم كذا وكذا وموضع كذا وكذا فدعونا الله فغفر لنا

🔸ابن ابی الدنیا نے ربیع ابن صبیح سے اور انہوں نے حسن اور ان نے انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ جب اہل جنت جنت میں داخل ہو جائیں گے تو بعض کو بعض دوستوں کی ملاقات کی خواہش پیدا ہوگی تو دونوں کی مسہریاں(تخت, bed) ایک دوسرے کے پاس چل کر آئیں گی یہاں تک اکٹھے ہو جائیں گے اور دونوں اپنی اپنی مسریوں پر تکیہ لگا کر بیٹھ جائیں گے ایک ساتھی دوسرے سے پوچھے گا آپ کو معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے کب ہماری بخشش فرمائی ؟
وہ کہے گا ہاں فلاں فلاں دن ہم فلاں جگہ تھے وہاں ہم نے اللہ سے دعا مانگی تو اس نے ہماری مغفرت فرمادی ".

رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ دِينَارٍ، وَالرَّبِيعِ بْنِ صُبَيْحٍ، وَهُمَا ضَعِيفَانِ، وَقَدْ وُثِّقَا

•[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ج.10 ص.441]

اس حدیث کے تحت فرمایا گیا ہے :

🔹وإذا تذاكروا ما كان بينهم فتذاكرهم فيما كان يشكل عليهم في الدنيا من مسائل العلم وفهم القرآن والسنة وصحة الأحاديث أولى وأحرى فان المذاكرة في الدنيا في ذلك ألذ من الطعام والشراب والجماع فتذاكر في الجنة أعظم لذة وهذه لذة يختص بها أهل العلم ويتميزون بها على من عداهم

🔸" دنیا کے بارے میں وہ مذاکرہ کر سکتے ہیں تو پھر علماء تو دنیا والے علم کے مشکل مسائل اور فہم قرآن اور احادیث کی صحت پر ضرور بحث کریں گے۔
کیونکہ جب اس میں دنیا میں مذاکرہ اور مباحثہ کرنا کھانے پینے اور جماع سے بڑھ کر لذیذ ہے تو پھر جنت میں تو اس میں سب سے زیادہ لذت ہوگی اور یہ ایسی لذت ہوگی جو اہل علم کے ساتھ مخصوص ہوگی اور اس میں علماء کرام دوسرے جنتیوں سے ممتاز رہیں گے۔

•[حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح - ط المدني ص.405]

#الحدیث ⟦𝟙𝟞⟧
#حدیث #السنة 
#شرح_حدیث
#منتخب_احادیث
#العلم_و_العلماء 𓊈𝟏𝟔𝟕𓊉 
#فضائل_علم 
#اہمیت_علم
#اقوال_سلف

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

14 Feb, 16:54


📚 تمہیں مبسوط جیسی عظیم القدر کتاب کے حفظ کی نعمت ہی کافی ہے 📚

♦️"شیخ محمد بن الفضل أبو بكر الفضلي الكماري(متوفی :381ھ) رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ

🔹 اپنے وقت کے امام کبیر، درایت و روایت میں معتمد تھے، کتب فتاویٰ آپ کے اقوال و فتاوی سے بھری ہوئی ہیں،
آپ کو فتاوی لکھنے کی اجازت آپ کے مشائخ نے کم عمری ہی میں دے دی تھی جس پر فقیہ بلخ ہندوانی وغیرہ کو بھی اعتراض ہوا مگر جب وہ آپ سے ملنے آئے اور پوری پوری رات آپ کو مطالعہ کتب میں مشغول دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ جب نیند آتی ہے تو وضو کر کے پھر مطالعہ شروع کر دیتے ہیں تو کہا کہ اس لڑکے کو فتوی لکھنے کی اجازت دینا کسی طرح بے جا نہیں ہے" ۔

"صاحب کرامات بھی تھے جب مہمان آتے تو ان کے سامنے غیر موسم کے پھل پیش کرتے اور فرماتے کہ چالیس سال سے میں نے کوئی حرام چیز ہاتھ میں نہیں پکڑی اور نہ حرام کے راستہ پر چلا ہوں نہ کوئی حرام چیز کھائی ہے، لہذا جو شخص چاہے کہ ایسی کرامت پائے وہ میری طرح کرے".

يحكي أن أبا بكر محمد بن الفضل وعده والده بألف دينار أو أكثرا لشك مني عند تمام حفظه المبسوط وكذلك لأخيه فلما حفظه دفع المال لأخيه وقال له يكفيك حفظ المبسوط

" آپ کے والد نے آپ سے اور آپ کے بھائی سے کہا تھا کہ اگر تم مبسوط کو یاد کر لو گے تو ایک ہزار اشرفی بطور انعام دوں گا ، تو آپ نے اس کو حفظ کر لیا،
والد ماجد نے مال تو آپ کے بھائی کو دیدیا اور آپ سے کہا کے تمہیں مبسوط جیسی عظیم القدر کتاب کے حفظ کی نعمت ہی کافی ہے،

  •[الجواهر المضية في طبقات الحنفية، وحدائق حنفیہ]

▪️حضرت مفتی نثار احمد مصباحی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب "الأصل" کا نام "مبسوط" ہے۔
وہی یہاں مراد ہوگی۔
واللہ تعالی أعلم۔

#تذکرۃ_السلف ⊰𝟓𝟖⊱
#اکابرین
#محدثین_کرام
#اولیائے_کرام
#احوال_سلف

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Feb, 13:54


❶ ــــ کیا شب براءت کے نوافل حرام ہیں؟
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/740
ـــــــ از : #فیضان_سرور_مصباحی

❷ ـــ کیا پندرہ شعبان کی فضیلت ماننا بدعت ہے؟
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/741
ـــــــ از : فیصل خان رضوی

❸ ـــ گھروں کی صفائی ستھرائی کے حوالے سے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا طرز عمل
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/743
ـــــــ از : #فیضان_سرور_مصباحی

❹ ـــ ماذا فی الشعبان ؟
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/744
ـــــــ از : سید محمدبن علوی مالکی علیہ الرحمہ

❺ ـــ احادیث رسول - ﷺ -میں نصف شعبان کی فضیلت
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/747
ـــــــ از : اسد الرحمن

❻ ـــ حدیث نصف شعبان میں " مشاحن" سے مراد
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/748

❼ ـــ شعبان قاریوں کا مہینہ
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/2034
❽ ـــ شعبان میں معمولات بزرگانِ دین پر عمل کا حکم
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/1989
ـــــــ از : #نثار_مصباحی
ـــــــ ابوالحسن شعیب خان

❾ ـــ کیا 14 شعبان کو مرحومین کی عید ہوتی ہے؟ روحیں گھر آتی ہیں؟
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/735?single
ـــــــ از : دار الإفتاء اہل سنت(دعوت اسلامی)

❿ ـــ شب براءت اور حلوہ
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/2107
ـــــــ از : ابو الحسن شعیب خان

⓫ ـــ شب براءت سے متعلق سوال https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/2091
ـــــــ از : مفتی محمد قاسم عطاری مدنی

⓬ ـــ روحوں کے گھر آنے کے بارے میں امام سیوطی کی الدرر الحسان کا حوالہ
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/583
از : #فیضان_سرور_مصباحی

13-- شب براءت میں گستاخان صحابہ کی محرومی
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/2111
از : أبو الحس شعیب خان
پروفیسر محمداعجاز جنجوعہ

14 - - پندرہ شعبان کے ۶ ؍ رکعت نوافل اور دعا کا ثبوت
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/2112
ـــــــ از : ابو الحسن شعیب خان

15 - - شعبان کے روزے سرر سے مراد
https://t.me/Nuqoosh_e_hadees/2113
ـــــــ از : ابوالحسن شعیب خان

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

12 Feb, 17:33


🌺 ایک خاتون کا اپنے آپ کو ایک عالم سے شادی اور خدمت کے لئے پیش کرنا 🌺

♦️امام ذہبی علیہ الرحمہ ابو نصر سجزی کے حالات میں لکھتے ہیں کہ : وہ حافظ ، امام ، سنت کے علمبر دار عبد الله بن سعید بن حاتم ابو نصر مجری متوفی 444 ہجری ہیں،

اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظ حدیث تھے، علم حدیث کی طلب میں پوری دنیا چھان ماری ،
حافظ ابو اسحق حبال فرماتے ہیں کہ :

میں ایک روز ابو نصر سجزی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اچانک کسی نے دروازہ بجایا، میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو ایک عورت اندر آئی اس نے ایک ہزار دبیار کی تھیلی نکال کر شیخ کے سامنے رکھ دی اور کہنے لگی ، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف فرمائیں ، وہ فرمانے لگے تم کیا چاہتی ہو ؟
وہ بولی آپ مجھ سے شادی کر لیں، مگر اس لئے نہیں کہ مجھے شادی کی ضرورت ہے بلکہ صرف آپ کی خدمت کرنے کے لئے ۔

شیخ نے فرمایا کہ تھیلی اٹھائیے اور یہاں سے نکل جائیے ! جب وہ چلی گئی تو فرمانے لگے :

"میں سجستان سے طلب علم کے لئے نکلا تھا، اگر میں نے شادی کر لی تو میرا نام طالب علم نہ رہے گا، میں طالب علمی کے اجر و ثواب پر کسی اور چیز کوترجیح نہیں دے سکتا".

(اللہ اکبر کیا اخلاص تھا)

•[سیر اعلام والنبلاء]
•[راویان حدیث میں خواتین کا مقام]

#تذکرۃ_السلف ⊰𝟓𝟔⊱
#اکابرین
#محدثین_کرام
#اولیائے_کرام
#احوال_سلف
#اخلاص

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

12 Feb, 17:33


📙 گھر کی عورتوں کی دینی تعلیم 📙

♦️علامہ ابن الحاج المالکی (المتوفی:737ھ)  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ :

اشہب کا ایک قصہ معروف ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں رہتے تھے ایک بچی سے انہوں نے سبزی خرید کی اہل مدینہ سبزی روٹی دونوں ساتھ بیچتے تھے علیحدہ سبزی نہ بیچتے تھے اور کہنے لگے ۔
جب شام کے وقت ہمارے ہاں روٹی آئے تو آجانا اسی وقت تمہیں اس کی قیمت دے دیں گے وہ بچی کہنے لگی یہ معاملہ تو ناجائز ہے اور بولے کیوں ؟
کہنے لگی طعام کی بیع طعام کے بدلے ادھار جائز نہیں ہے ،
اس نے ببچی کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس کی بچی ہے، انہیں بتایا گیا کہ یہ مالک بن انس علیہ الرحمہ کی باندی ہے۔
ان حضرات کے ہاں تو یہ صورت حال تھی، کہ ان کی تو خرید و فروخت بھی دوسروں کی تنبیہ کے لئے ہوتی تھی".

🔹پھر علامہ فرماتے ہیں :

"ہمارے اس زمانے میں بھی ایک بزرگ ابو محمد تھے، ان کی اہلیہ نے ان کے سامنے قرآن مجید پڑھ کر انہیں سنایا تو اسے یاد ہو گیا".

اس طرح شیخ ابو محمد بن ابو زید کا رساله
اور نصف موطا امام مالک یاد ہو گئی ۔

اس طرح ان کی دو لڑکیاں ہیں وہ بھی ضبط و حفظ میں اپنی والدہ کے قریب قریب ہیں ۔

"جب ہمارے زمانے کے لوگوں کے حفظ و اتقان کا یہ عالم ہے تو اسلاف کے زمانے میں کیا عالم ہو گا۔
عالم اپنے اہل خانہ کے حصول مراتب میں زیادہ مساعدت کر سکتا ہے اور ان کی بہتر نگہداشت کر سکتا ہے۔
کیونکہ وہ اس کی مسئولیت(یعنی ان کے متعلق اسے سوال ہوگا)  میں داخل ہونے کی وجہ سے اور اس پر واجب ہونے کی وجہ سے پوری پوری رعایت رکھے گا، اور معاملہ یہیں پریس نہیں ہوا کہ بعض علماء نے اس سلسلے میں اپنی بہنوں، بھتیجیوں اور
پوتیوں کی بھی خوب نگرانی فرمائی ".

•[المدخل ج.2 ص.215]
•[راویان حدیث میں خواتین کا مقام]

#تذکرۃ_الصالحات ⦍⑨⦎
#عظیم_خواتین
#اولیائے_کرام
#العلم_و_العلماء

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

12 Feb, 17:33


📚 میں تمہیں پڑھاتی ہوں ان کا سارا علم میرے پاس ہے 📚

♦️بنت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہا

ان کے شوہر ان کے والد کے پاس پڑھتے تھے،
شب زفاف کی صبح جب یہ اپنی چادر اٹھا کر باہر جانے لگے تو ان کی بیوی نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟
کہنے لگے سعید بن مسیب علیہ الرحمہ کی مجلس میں حصول علم کے لئے جارہا ہوں،
تو وہ کہنے لگیں نہیں بیٹھ جاؤ ! سعید بن مسیب کا سارا علم میرے پاس ہے، میں تمہیں پڑھاتی ہوں ".

•[حلیۃ الاولیاء ج.2 ص.167]
•[راویان حدیث میں خواتین کا مقام]

#تذکرۃ_الصالحات ⦍⑧⦎
#عظیم_خواتین
#اولیائے_کرام

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

12 Feb, 02:22


امام اوزاعی علیہ الرحمہ (المتوفى ١٥٧) فرماتے ہیں: جس کے دل میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کینہ ہو تو شب برات میں اس کی بخشش نہیں ہوتی۔(لطائف المعارف الصفحة ٢٦٦)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

11 Feb, 15:42


سنی خطیب کی سنی سنائی باتیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت مولانا سید علیم اشرف جائسی صاحب، اہل سنت و جماعت کے نامور علما میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر حالیہ ان کی ایک تقریر میں جو عجیب و غریب بات سامنے آئی ہے، وہ حیرت ناک بھی ہے اور افسوس ناک ہے ۔
وہ پہلے اسلام لانے والے صحابہ کی تقسیم پر نہ صرف اپنی پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں، بلکہ اسے ایک سازش کا حصہ بتارہے ہیں، اور پھر لہجے میں ایسی کرختگی ہے کہ، الأمان والحفیظ

وہ کہتے ہیں :
” میں سنی خطیب ہوں، اور ہمیشہ میں نے سنا کہ ...“
اس کا ظاہر یہی ہے کہ یہ سنی سنائی باتیں شیئر کر رہے ہیں، جب کہ محقق کو تحقیقی باتیں رکھنی چاہئیں، سنی سنائی باتوں پر اعتقاد کی بنیاد اہل علم کا شیوہ نہیں ۔

آگے کہتے ہیں:
” آخر یہ قید صرف مردوں کے ساتھ کیوں ہے؟ “
یہ بھی بے سروپا بات ہے، ورنہ تو عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانی والی شخصیت حضرت خدیجۃ الکبری کا اسم گرامی کتابوں میں درج ہے ۔
محدث أبو بكر بن أبي شيبة (ت ٢٣٥) لکھتے ہیں :
عن ابن شهاب قال: بلغنا أن خديجة بنت خويلد زوج النبي ﷺ كانت أول من آمن باللَّه ورسوله، وماتت قبل أن تفرض الصلاة .

المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري ٢٠/‏١٢٥ — أبو بكر بن أبي شيبة (ت ٢٣٥)
ترجمہ:
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں، اور وہ اس سے پہلے وفات پا گئیں کہ نماز فرض ہوتی۔

یہ روایت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام لانے والوں میں سب سے پہلے تھیں ۔ لہذا ایسی کچی باتیں کرنا بہت افسوس ناک ہے ۔

اور پھر یہ کہنا کہ
” بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک خاص مقصد کے تحت حضرت علی کی اولیت مطلقہ کو پردے میں رکھنے کے لیے یہ تقسیم کی گئی ہے ۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ اول المؤمنین ہیں اس کو چھپانے کے یہ تقسیم کی گئی ہے، ورنہ اگر ارادہ نیک ہوتا ... “

یہ بھی سراسر غلط بات کہ اولیت مطلقہ کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے، مستند اسلامی مؤرخين اور فقہاء و محدثین پر ایسے بے تکی باتیں کرنا ہے، اور ذخیرۂ کتب اسلامی میں سلف و صالحین کی کوششوں پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے کی مذموم حرکت ہے ۔

بلکہ اس تقسیم کی وجہ پہلے اسلام لانے والوں کے بارے میں متعدد روایات کا سامنے آنا ہے ، اور اس طرح کی روایات میں اصول جمع و تطبیق پر عمل کیا جاتا ہے کہ
” اِعمال، اِھمال سے افضل ہوتا ہے ۔ “
لہذا اصول کی روشنی میں میں ہی سلف صالحین نے مختلف روایات میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا یہ فرمایا ہے ۔

پھر” اس جمع و تطبیق کا عمل کرنے والے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں، کیا ان کی نیک نیتی، یا دیانت داری پر شک کرلیا جائے؟
علامہ سخاوی نے تاریخ نیشاپور للحاکم کے حوالے سے لکھا ہے :
وَرَوَى الحَاكِمُ في”تَارِيخِ نَيْسَابُورَ “فِي تَرْجَمَةِ أَحْمَدَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ حَمْزَةَ الوَاعِظِ، مِنْ طَرِيقِ أَبِي مِسْهَرٍ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ، قَالَ:
كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُو بَكْرٍ، وَمِنَ النِّسَاءِ خَدِيجَةُ، وَمِنَ الصِّبْيَانِ عَلِيٌّ». انتهى

فتح المغيث بشرح ألفية الحديث ، ٤/‏١٢٧ " للسخاوي (ت ٩٠٢)

علامہ جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وجمع بين الأقوال بأن أبا بكر أول من أسلم من الرجال، وعلي أول من أسلم من الصبيان، وخديجة أول من أسلمت من النساء، وأول من ذكر هذا الجمعتين الإمام أبو حنيفة ﵀رضي الله عنه.

تاريخ الخلفاء ١/‏٣١ — الجلال السيوطي (ت ٩١١)ـ

ان دونوں اقتباسات کا ماحصل یہ ہے کہ اولیت اسلام سے متعلق روایات مختلفہ میں جمع وتطبیق کا کام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، آپ مجتہد اعظم اور جلیل القدر تابعی ہیں، لہذا اس جمع و تطبیق پر انگشت نمائی کرنا، یا ان کے ارادے، یا نیک نیتی پر شک کرنا، نہ سنیت ہے، نہ حنفیت ہے، بلکہ خطاب کا تیور اور گفتگو کا سیاق، رفض سے فیض یابی کا پتہ دیتا ہے۔ اسی لیے بدمذہبوں کی صحبت کو زہر قاتل بتایا گیا ہے، مگر لوگ مانتے کہاں ہیں، پھر نتیجہ واضح ہے .

#فیضان_سرور_مصباحی
دارالقضاء ادارۂ شرعیہ اورنگ آباد
11 / فروری 2025 | منگل

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Feb, 19:10


جس نے طالب علم کی مدد کی 📚

حضرت الحبيب محمد بن هادي السقاف رحمه الله (المتوفی :1382ھ)  کا قول ہے

من اعان طالب العلم ولو بقلم مكسور فكأنما بنى الكعبة سبعين مره

"جو شخص طالب علم کی مدد کرے، چاہے ایک ٹوٹے ہوئے قلم سے، گویا اس نے ستر بار کعبہ تعمیر کیا۔"

#العلم_و_العلماء 𓊈𝟏𝟔𝟔𓊉 
#فضائل_علم 
#اہمیت_علم
#اقوال_سلف

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Feb, 16:41


🌹 امام بخاری علیہ الرحمہ اور مسجد کا تنکا 🌹

♦️محمد بن عباس الفربری علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ :

كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْبُخَارِيِّ بِفِرَبْرِ فِي الْمَسْجِدِ ، فَدَفَعْتُ مِنْ لِحْيَتِهِ قَذَاةً مِثْلَ الذَّرَّةِ أَذْكُرُهَا ، فَأَرَدْتُ أَنْ أُلْقِيَهَا فِي الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ : أَلْقِهَا خَارِجًا مِنَ الْمَسْجِدِ

"میں امام بخاری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ فربر کی مسجد میں تھا،
میں نے ایک معمولی تنکا ان کی ڈاڑھی میں سے نکالا اور چاہا کہ اسے مسجد میں پھینک دوں،
مگر انھوں نے فرمایا:
" اسے مسجد سے باہر پھینک کر آؤ".

•[سير أعلام النبلاء ج.12 ص.445]

🔹 وقال الحافظ أبو الفضل أحمد بن علي السليماني: سمعت علي بن محمد بن منصور يقول: سمعت أبي يقول: كنا في مجلس أبي عبد الله البخاري، فرفع إنسان من لحيته قذاة وطرحها إلى الأرض، قال: فرأيت محمد بن إسماعيل ينظر إليها وإلى الناس، فلما غفل الناس رأيته مد يده، فرفع القذاة من الأرض، فأدخلها في كمه، فلما خرج من المسجد رأيته أخرجها وطرحها على الأرض، فكأنه صان المسجد عما تصان عنه لحيته .

🔸حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے بھی اس نوعیت کا ایک واقعہ محمد بن منصور علیہ الرحمہ سے نقل کیا ہے کہ ہم امام بخاری رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب نے ان کی ڈاڑھی سے تنکا نکال کر مسجد میں پھینک دیا۔
محمد بن منصور علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام بخاری رضی اللہ عنہ اس تنکے اور لوگوں کی طرف التفات فرماتے ہیں، چنانچہ جب لوگوں کو غافل پایا تو امام صاحب نے تنکا اٹھا کر اپنی آستین میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر تشریف لے گئے تب اسے مسجد سے باہر پھینک دیا۔
گویا انھوں نے سمجھا کہ جو چیز ڈاڑھی میں نہیں رہ سکتی وہ مسجد میں کیسے رہ سکتی ہے".

•[هدي الساري مقدمة فتح الباري ص.481]

#تذکرۃ_السلف ⊰𝟓𝟒⊱
#اکابرین
#محدثین_کرام
#اولیائے_کرام
#احوال_سلف
#تقوی

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Feb, 16:22


جو شخص دنیا کی محبت میں حد سے تجاوز کرے گا، اس کے دل سے آخرت کا خوف ختم ہو جائے گا۔
جس شخص نے زیادہ علم حاصل کیا پھر دنیا کی حرص و ہوس میں مبتلا ہو گیا ( یعنی عمل کی توفیق نہ ہوئی) تو وہ حق تعالی سے دور ہی ہوتا جائے گا۔
اور اللہ تعالی کے غیض وغضب کا شکار ہوتا جاۓ گا".

•[جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر ص.669]

#العلم_و_العلماء 𓊈𝟏𝟔𝟓𓊉 
#فضائل_علم 
#اہمیت_علم
#اقوال_سلف
#الحدیث ⟦𝟙𝟛⟧
#حدیث #السنة 
#شرح_حدیث
#منتخب_احادیث

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Feb, 13:30


یہ شرح معانی آلآثار کا قدیم قلمی نسخہ ہے جس کے سرِ ورق بڑا خوبصورت جملہ لکھا ہوا ہے کہ
ھذا کتاب لو یباع بوزنہ ذھبا لکان البائع المجنونا الخ ۔۔۔
کہ یہ ایسی کتاب ہے کہ اگر اسے اسکے وزن برابر سونا کے عوض بھی بیچ دیا جائے تو بیچنے والا کوئی مجنون ہی ہو گا ۔ کیا یہ نقصان نہیں کہ (اے بیچنے والے!) تم سونا لے رہے ہو اور ایک خفیہ خزانہ دے رہے ہو ۔۔۔!

منقول

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Feb, 01:35


ابن خلدون کی حالت
از قلم اعلی حضرت قدس سرہ - رسالہ دوام العیش
--------------
ابن خلدون کی حالت عجیب ہے
1- اوس کے کلام سے کہیں اعتزال کی بوآتی ہے،
2- کہیں نیچر یانہ اسباب پرستی کی جھلک پائی جاتی ہے
3- اولیائے کرام کا صاف دشمن ہے
4- اون کو رافضیوں کا مقلد بتاتا ہے
5- کہتا ہے اون کے دلوں میں رافضیوں کے اقوال رچ گئے اور اون کے مذاہب کو اپنا دین بنانے میں تو غل کیا
6- یہاں تک کہ طریقت کا سلسلہ علی تک پہنچایا اور کہا اونہوں نے حسن بصری کو خرقہ پہنایا اور اون سے ان کے پیر جنید تک پہنچا اس تخصیص علی اور ان کی اور باتوں سے سمجھا جاتا ہے کہ یہ رافضیوں میں داخل ہیں
7- ولہذا رافضیوں کی طرح ایک امام مہدی کے انتظار میں ہیں جن کے آنے کی کچھ صحت نہیں
8- اسی طرح اقطاب و ابدال کا یک لخت منکر ہے
9- اس میں بھی اولیا کے مقلد ِروافض ہونے کا مشعر ہے کہ جس طرح رافضیوں نے ہر زمانے میں ایک امام باطن اور اوس کے نیچے نقبا مانے ہیں، یونہی اون سے سیکھ کر صوفیہ نے ہردور میں ایک قطب اور اوس کے ماتحت ابدال گھڑے ہیں، حالانکہ احادیثِ مرفوعۂ حضور سید عالم صلى الله تعالى عليه وسلم کے علاوہ جن کے بیان میں امام جلال الدین سیوطی کا ایک رسالہ ہے حضور سیدنا غوث اعظم رضي الله تعالى عنه و دیگر اجلۂ اقطاب کرام قدست أسرارهم سب سے اقطاب وابدال کی حقیقت متواتر ہے یونہی کون ساصاحبِ سلسلہ ہے جس کا سلسلہ امیر المومنین علی تک نہیں پہنچتا تو وہ ان تمام حضرات اکابرکرام کومعاذاﷲ دین میں مخترع اور رافضیوں کا متبع بلکہ سلکِ روافض میں منسلک ٹھہراتاہے
10- فتوحات اسلام کا راز، عربی صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم کا وحشی ہونا بتایا ہے
11- اور یہ کہ امیر المؤمنین فاروق اعظم رضي الله تعالى عنه نے جہاد پر بھیجتے وقت انہیں وحشیت پر اور اوبھاردیا کیونکہ وحشی ہی قوم کا ملک وسیع ہوتا ہے
12- نیز کہتا ہے صحابہ وحشی ہونے کے سبب لکھنا ٹھیک نہ جانتے تھے
13- اس لئے قرآن عظیم جا بجا غلط لکھا ہے
14- اور اولیا کو جادوگروں کے حکم میں رکھنے کےلئے کہا جو کسی کو اپنی کرامت سے قتل کردے وہ صاحبِ کرامت قتل کیا جائے گا جیسے ساحر کو اپنے سحر سے قتل کرے۔ اجلہ ٔاکابر محبوبانِ خدا کو نام بنام حتی کہ شیخ الاسلام ہروی کو لکھتا ہے کہ یہ حلولی تھے اور یہ کفر انہوں نے روافض اسمعیلیہ سے سیکھا إلى غير ذلك من هفوات الشنيعة (اس کے علاوہ اس کے بہت سے برے ہفوات ہیں۔ت)

اور پھر تستّر کےلئے یا خود اپنے حال سے ناواقفی کے باعث جابجا سنیت واعتقاد اولیا کا اظہار بھی کرتا ہے جس نے محققین یا شیخ الاسلام امام ہروی کی طرف کفر میں تقلید ِروافض نسبت کردی وہ اگر محققین وامام باقلانی کی طرف بدعت میں تقلیدِ خوارج نسبت کردے کیا بعید ہے۔

ہاں عجب اون مدعیان ِسنت سے کہ تمام اکابر ائمہ وعلمائے اہلسنت کے ارشادات عالیہ پر پانی پھیرنے کےلئے ایک ایسے مؤرخ کا دامن تھا میں، کیا آیہ کریمہ بئس للظٰلمين بدلا (ظالموں کو کیا ہی برابدلہ ملا۔ت) یہاں وراد نہ ہوگی۔ ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم.

ابو محمد عارفین صاحب

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Feb, 16:15


امام طحاوی نے فقہی مسلک کیوں تبدیل کیا؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
از : شمساد مصباحی ازہری

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

07 Feb, 12:25


قرآن کریم میں کہیں اسحار کہیں غسق اللیل کہیں بکرة واصیلا کہیں زلفی کہیں صبح کہیں فجر کہیں ظہر کہیں عصر۔ طلوع غروب شروق لیل نہار ضحی غداة زوال شمس۔ آناء اللیل اور اسی قسم کے کلمات جو کہ اوقات وساعات کے بیان میں وارد ہوئے ہیں انکو سمھجنے کے لئے یہ مفید رہے گا۔

هذه الساعة لفهم الاوقات والساعات الواردة في القرآن الكريم مثل ضحي ليل نهار غداة عشي بكرة واصيلا زلفى فجر ظهر عصر مغرب عشا وغيرها
عن ابن عباس رضي الله عنه قال: الصلوات الخمس في القرآن، فقيل له: أين ؟ فقال: قال الله تعالى: (فسبحان الله حين تمسون) صلاة المغرب والعشاء، (وحين تصبحون) صلاة الفجر، (وعشياً) العصر، (وحين تُظهرون) الظهر.

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

05 Feb, 17:53


🌹جو شکریہ ادا نہیں کرتا 🌹

🔹عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”لَا يَشْكُرُ اللَّهُ مَنْ لاَ يَشْكُرُ النَّاسَ‏.‏

🔸سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا جو لوگوں کا شکر گزار نہ ہو۔“

🔹عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْ اللَّهَ

🔸 ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:' جس نے لوگوں کا شکریہ ادانہ کیا اس نے اللہ کا شکر ادانہیں کیا

•[ترمذی شریف ر:1955-1956 صحیح ]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟳𝟬
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

05 Feb, 17:42


🌷 دلائل شرعیہ میں تعارض نہیں 🌷

♦️امام شمس الائمہ سرخسی  (المتوفی :483) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ :

اعلم بأن الحجج الشرعية من الكتاب والسنة لا يقع بينهما التعارض والتناقض وضعا، لان ذلك من أمارات العجز والله يتعالى عن أن يوصف به، وإنما يقع التعارض لجهلنا بالتاريخ

دلائل شرعیہ(کتاب و سنت)  میں تعارض و تناقص نہیں ہے کیونکہ یہ عاجز ہونے کی دلیل ہےاور اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہے۔تعارض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم تاریخ سے لاعلم ہوتے ہیں".

•[كتاب أصول السرخسي = تمهيد الفصول في الأصول - ت الأفغاني ج.2 ص.12]

#متفرقات {➒➏}
#الفوائد_المهمة
#اہم_اصول_و_نکات

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

05 Feb, 17:05


🌸 علم حدیث 🌸

♦️أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم العراقی علیہ الرحمہ (المتوفی :806ھ)  لکھتے ہیں :

فعلم الحديث خطير وقعه، كبيرٌ نفعُه، عليه مدار أكثرِ الأحكامِ، وبه يعرف الحلال والحرام، ولأهله اصطلاحٌ لا بُدَّ للطَّالب من فهمه؛ فلهذا نُدِب إلى تقديم العناية بكتابٍ في علمه

"علم حدیث بہت اہم علم ہے، اس کا فائدہ بہت عظیم ہے، زیادہ تر احکام کا دارومدار اسی پر ہے، اسی کے ذریعے حلال اور حرام کی پہچان ہوتی ہے، اور اس کے ماہرین کی اصطلاحات ہیں جنہیں سمجھنا طالب علم کے لیے ضروری ہے؛ اسی لیے اس علم کی کتابوں پر خصوصی توجہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔"

•[التبصرة والتذكرة ج.1 ص.97]

#علم_حدیث 『𝟓𝟓』
#فضائل_علم_حدیث

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

05 Feb, 13:55


حدیث معراج کے راوی

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

03 Feb, 07:50


تربت نور امیرالمئومنین فی الحدیث امام بخاری رضی اللہ عنہ۔۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

03 Feb, 03:59


شجرۂ علم الحدیث امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

02 Feb, 20:34


‏الترتيب الزمني لتواليف الإمام ٱبن حجر العسقلاني الشافعي (تـ852ھ) -طيّب اللَّٰهُ ثراهُ-:

تغليق التعليق (804ھ).
تهذيب التهذيب (807ھ).
نخبة الفكر (812ھ).
التلخيص الحبير (812ھ)، وزاد فيه إلى (820ھ).
هُدَىٰ الساري (813ھ).
المدلسين (815ھ).
نزهة النظر (818ھ).
التقريب (827ھ).
البلوغ (828ھ).
تعجيل المنفعة (835ھ).
فتح الباري (842ھ).
الإصابة (850ھ).
نتائج الأفكار (852ھ).

وعند الٱختلاف يرجح الآخر منها، وبالله ﷻ نتأيّد!!

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

01 Feb, 10:27


امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ (150ھ) کی عظمت اور فہم دین

امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

الإمام، فقيه الملة، عالم العراق أبو حنيفة النعمان بن ثابت بن زوطي التيمي، الكوفي

صفحہ 402 پر لکھتے ہیں:

وروى حيان بن موسى المروزي ، قال : سئل ابن المبارك : مالك أفقه، أو أبو حنيفة؟ قال : أبو حنيفة . وقال الخريبي : ما يقع في أبي حنيفة إلا حاسد أو جاهل .

حیان بن موسٰی المروزی نے روایت کی کہ ابن المبارک سے سوال کیا گیا: "کیا آپ کو زیادہ فقیہ کون لگتا ہے، امام مالک یا امام ابو حنیفہ؟" تو انہوں نے جواب دیا: "امام ابو حنیفہ۔" الخریبی نے کہا: "امام ابو حنیفہ کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے، وہ یا تو حسد کرنے والوں کا قول ہوتا ہے یا جاہلوں کا۔

(سیر أعلام النبلاء جلد 6 صفحہ 402 مطبوعہ مؤسسة الرسالة)

امام ابو حنیفہ کی علمی حیثیت اور ان کے فہم دین پر ہونے والی تنقید اکثر بدگمانی یا علم کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، یا پھر اعتراض کرنے والا حسد کا شکار ہوتا ہے۔

ذیشان برکاتی رضوی
(1 فروری 2025 / 2 شعبان المعظم 1446ھ)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

01 Feb, 10:18


امام عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ (1304ھ) نے الرفع والتكميل کیوں لکھی؟؟

اس کا جواب آپ خود اپنی کتاب کے مقدمہ میں دیتے ہیں:

بعثني على تأليفها ما رأيت من كثير من علماء عصري، وفضلاء دهري، من ركوبهم على متن عمياء، وخبطهم كخبط العشواء، تراهم في بحث التعديل والجرح من أصحاب القرح، فهم كالحبارى في الصحاري، والسكارى في الصحارى

مجھے اس کتاب کے لکھنے کی تحریک اس بات سے ملی کہ میں نے اپنے زمانے کے بہت سے علماء اور فضلاء کو دیکھا کہ وہ اندھی راہوں کے راستے پر گامزن ہیں اور تحقیق و نقد میں ایسی بے سمتی کا شکار ہیں جیسے اندھیری رات میں راستہ بھٹکنے والا مسافر۔ تم انہیں جرح و تعدیل کے مسائل میں مبتلا دیکھو گے، گویا وہ زخم خوردہ لوگ ہیں جو صحیح راستہ نہیں پا سکتے یا جیسے صحرا میں حیران و پریشان چکور یا بے ہوشی میں لڑکھڑاتے مسافر۔

وما ذلك إلا لجهلهم بمسائل الجرح والتعديل، وعدم وصولهم إلى منازل الرفع والتكميل كم من فاضل قد جرح الأسانيد الصحيحة! وكم من كامل قد صحح الأسانيد الضعيفة! يصححون الضعيف، ويضعفون القوي ! ولا يهتدون إلى الصراط السوي .

یہ سب ان کی جرح و تعدیل کے مسائل سے جہالت اور علمی تکمیل کے منازل تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ہے۔ کتنے ہی فضلاء ہیں جنہوں نے صحیح اسناد کو مجروح قرار دیا! اور کتنے ہی کاملین ہیں جنہوں نے ضعیف اسناد کو صحیح قرار دیا! وہ ضعیف کو صحیح ٹھہراتے ہیں اور صحیح کو ضعیف قرار دیتے ہیں، اور سیدھے راستے کی ہدایت نہیں پاتے۔

مزید لکھتے ہیں:

تراهم قد ظنوا نقل الجرح والتعديل من كتب نقاد الرجال كـ «تهذيب الكمال للحافظ المزي ، وميزان الاعتدال للذهبي و«تهذيب التهذيب»، وتقريب التهذيب»، و«المغني» و«كامل» ابن عدي، ولسان الميزان وغيرها من كتب أهل الشأن - أمراً يسيراً، وما تركوا في هذا الباب قِطْمِيراً ونقيراً، مع جهلهم باصطلاحات أئمة التعديل والجرح، وعدم فرقهم بين الجرح المبهم والجرح الغير المبهم، وبين ما هو مقبول وبين ما هو غير مقبول عند حملة ألوية الشرع وبعد مداركهم عن إدراك مراتب الأئمة ، من معدلي الأمة .

انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ جرح و تعدیل کے اقوال کو ناقدینِ رجال کی کتب، جیسے حافظ مزی کی تهذيب الكمال، امام ذہبی کی ميزان الاعتدال، ابن حجر عسقلانی کی تهذيب التهذيب اور تقريب التهذيب، ابن عدی کی الكامل، المغني اور لسان الميزان وغیرہ سے نقل کرنا نہایت آسان کام ہے۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اس باب میں کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا گیا، نہ ذرہ برابر نہ معمولی نکتہ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے اصول و اصطلاحات سے ناواقف ہیں۔ انہیں جرح مبہم اور غیر مبہم کے درمیان فرق معلوم نہیں، نہ یہ جانتے ہیں کہ کون سی جرح قبول کی جاتی ہے اور کون سی رد کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ وہ شرعی علوم کے معتبر ائمہ کے مراتب کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور امت کے معتمد معدّلون کی حیثیت اور ان کی علمی قدر کو پہچاننے سے بھی دور ہیں۔

أوما علموا أن الدخول في هذه المسالك الصعبة التي زلت فيها أقدام الكملة، أمر عظيم ، لا يتيسر من كل حبر كريم ، فضلاً عمن يتصف بالسالك في أودية الضلال والخابط في ظلماء الليال؟! أو ما فهموا أن لكل مقام مقال ، ولكل فن رجال ، وأن جرح من هو خال عنه في الواقع، وتعديل من هو مجروح في الواقع، أمر ذو خطر، لا يليق بالقيام به كل بشر؟

کیا وہ نہیں جانتے کہ ان مشکل راستوں میں داخل ہونا جن میں بڑے بڑے کاملین کے قدم پھسل گئے، ایک بہت عظیم معاملہ ہے جو ہر عالی مرتبہ عالم کے لیے بھی آسان نہیں، کجا کہ وہ شخص جو گمراہی کے وادیوں میں بھٹکتا اور اندھیری راتوں میں بھٹکتا ہو کیا وہ نہیں سمجھتے کہ ہر مقام کے لیے ایک مخصوص بات ہوتی ہے اور ہر فن کے ماہرین ہوتے ہیں؟! اور یہ کہ ایسے شخص پر جرح کرنا جو حقیقت میں اس سے بری ہو، یا اس کی توثیق کرنا جو حقیقت میں مجروح ہو، ایک نہایت نازک معاملہ ہے جو ہر انسان کے لیے مناسب نہیں

(الرفع والتكميل في الجرح والتعديل صفحہ 49،50 مطبوعہ مكتب المطبوعات الإسلامية)

ابو سبطین برکاتی رضوی
(31 جنوری 2025 / 1 شعبان المعظم 1446ھ)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Jan, 09:19


یہ فتح الباری کا ایک نسخہ ہے حافظ ابن حجر رحمه الله اپنے میز پر قلم اور سیاہی چھوڑ کر نمازہ جنازہ کے لیے تشریف لے گئے انکی تین سالہ بیٹی میز پر بیٹھ گئی اور نسخہ پر قلم سے لکیریں مار دیں امام ابن حجر رحمه الله نے بیٹی کی محبت میں اس نسخہ کو ایسے چھوڑ دیا۔۔۔۔!

وقار احمد

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Jan, 18:12


أصحاب الحديث 💜

قال العلامة المحدث ابن ناصر الدين الدمشقي تــ842هـ :

"وقد نصب الله تعالى للسنة رجالاً،
رحلوا في طلبها إلى البلاد الشاسعة،
وجمعوها من الأماكن القاصية،
على اختلاف وجوهها،
وتشعب طرقها،
وتغاير ألفاظها،
وهذبوا إسنادها الذي أكرم الله به هذه الأمة،
وحرروا أحوال رجالها،
وبينوا الثقة من الصدوق،
والعدل من المستور،
والمشهور من المجهول،
والقوي من اللين، والضعيف من الواهي،
والمتروك من الكذاب،
حتى عرف صحيح السنن من سقيمها،
ومسندها ومرسلها،
ومرفوعها من موقوفها،
وموصولها من مقطوعها،
ومعللها من سليمها، ومقلوبها من قويمها،
ومتواترها من أفرادها،
وشاذها ومشهورها من غريبها،
وناسخها من منسوخها،
ومبينها من مجملها،
ودونوها للطالبين، ونفوا عنها تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وشبه المبتدعين، فأهلها هم خلفاء رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الذين دعا لهم بالرحمة والنضرة"⁽¹⁾.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
⑴ «افتتاح القارئ لصحيح البخاري» (ص10).

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Jan, 18:07


『محمد بن إسحاق』 في الرواة، منهم :

محمد بن إسحاق الذى مات سنة [١٥٣هـ]، وهو ابن يسار العلامة الحافظ الأخباري، صاحب المغازي المعروف.

محمد بن إسحاق الذى مات سنة [٢٣٦هـ]، وهو القرشي المخزومي المسيبي، أبو عبد الله المدني، ثقة، من رجال مسلم.

محمد بن إسحاق الذى مات سنة [٢٧٠هـ]، وهو الصغاني، قال أبو بكر الخطيب : كان الصغاني أحد الأثبات المتقنين، مع صلابة في الدين، واشتهار بالسنة، واتساع في الرواية.

محمد بن إسحاق الذى مات سنة [٢٩٤هـ]، وهو القاضي أبو الحسن الحافظ ابن الحافظ إسحاق بن رهويه.

محمد بن إسحاق الذى مات سنة [٣١١هـ]، وهو الإمام الحافظ أبو بكر ابن خزيمة النيسابوري المعروف.

محمد بن إسحاق الذى مات سنة [٣١٣هـ]، وهو أبو العباس السراج النيسابوري، الحافظ الثقة، محدث خراسان، صاحب المسند الكبير على الأبواب والتاريخ وغير ذلك.

محمد بن إسحاق الذى مات سنة [٣٩٥هـ]، وهو الإمام الحافظ أبو عبدالله ابن منده الأصبهاني المعروف.

منقول

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Jan, 16:36


🔥قیامت قریب آ چکی اور لوگ 🔥

♦️حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے
فرمایا:

" اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَلَا يَزْدَادُ النَّاسُ عَلَى الدُّنْيَا إِلَّا حِرْصًا وَلَا يَزْدَادُونَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا بُعْدًا "

"قیامت قریب آچکی ہے اور لوگ دنیا بی کے لالچی بن کر اللہ تعالٰی سے دور جا رہے ہیں ".

•[المستدرک علی الصحيحين ج.5 ص.461 حديث : 7987 •إسناده صحيح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟵
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Jan, 05:46


*حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھاہے:

فقیر کی وصیت ہے کہ ہر مسلمان ہمیشہ تہجد پڑھے اور اس نماز کا ثواب حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ کر دیا کرے ، بلکہ ان ہی کی طرف سے ادا کیا جائے ، ان شاء اللہ ! وہاں سے بہت کچھ ملے گا۔

مرأة المناج - جلد - 3 - صفحہ 193 - مادری پبلشرز)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

24 Jan, 07:21


امام أبوالحسن الجوبري رحمه الله (٤٢٥ھ)کے پاس کوئی حدیث سننے آیا تو آپ فرماتے ہیں ؛

" فما أحدثك حتى أدري مذهبك في معاوية."

میں تجھے اس وقت تک حدیث بیان نہ کروں گا جب تک کہ میں سیدنا معاویه رضي الله عنه کے متعلق تیرا مذھب نہ جان لوں۔

(سير أعلام النبلاء للذهبي ،٤١٥/١٧ ،تاريخ مدينة دمشق لابن عساكر ،٣٩٢/٣٥)

منقول

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

20 Jan, 08:46


*حافظہ کو تیز کرنے کا بہترین علاج*

قال علي بن خشرم : ما رأيت بيد وكيع كتابا قط ، إنما هو حفظ ، فسألته عن أدوية الحفظ ، فقال : إن علمتك الدواء استعملته ؟ قلت : إي والله . قال : ترك المعاصي ما جربت مثله للحفظ .
(سیر اعلام النبلاء)
مفھوم۔ علی بن خشرم کہتے ہیں میں نے کبھی بھی امام وکیع علیہ الرحمہ کے ہاتھ میں کتاب نہیں دیکھی۔ وہ حافظ تھے (سب کچھ حافظہ سے بیان فرماتے) تو میں نے ان سے حفظ کی دوا کے بارے میں پوچھا ( کہ حافظہ کیسے تیز ہوتا ہے؟) تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں تجھے دعا سکھاوں تو، تو استعمال کرے گا؟ تو میں نے کہا ہاں اللہ تعالی کی قسم (ضرور استعمال کروں گا) تو انہوں نے فرمایا۔ گناہوں کو چھوڑ دو میں نے حفظ کے لئے اس سے زیادہ کسی شیئ کو مجرب نہیں پایا۔

امام وکیع علیہ الرحمہ نے یہی وصیت امام شافعی علیہ الرحمہ کو بھی فرمائی تھی جب انہوں نے سوء حفظ کی شکایت کی۔ فرماتے ہیں۔
شَكَوْتُ إلَى وَكِيعٍ سُوءَ حِفْظِي - فَأرْشَدَنِي إلَى تَرْكِ المعَاصي
وَأخْبَرَنِي بأَنَّ العِلْمَ نُورٌ -ونورُ الله لا يهدى لعاصي.

اسی طرح امام علی بن حشرم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ میں نے امام وکیع علیہ الرحمہ سے قلة حفظ کی شکایت کی۔ تو انہوں نے فرمایا۔
استعن على الحفظ بقلة الذنوب۔

(شعب الایمان للبیہقی۔ رقم 1604 جلد 3 صفحہ 244)

ابو الحسن محمد شعیب خان
14 مئی 2020

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

18 Jan, 17:17


🌷 جزاك الله تعالى خيرا کہا کرو 🌷

♦️حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لو يعلم أحدكم ما له في قوله لأخيه : جزاك الله خيراً ؛ لأكثر منها بعضكم لبعض .

"اگر تم میں سے کوئی یہ جان لے کہ اس کے لیے اپنے بھائی کو 'جزاک اللہ خیراً' (اللہ تمہیں بہترین بدلہ دے) کہنے میں کتنا اجر ہے، تو تم ایک دوسرے کے لیے یہ کلمات کثرت سے کہنے لگو۔"

•[رواه ابن أبي شيبة ج.1 ص.436]

#متفرقات {➏➏}
#الفوائد_المهمة
#اہم_اصول_و_نکات

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

15 Jan, 17:26


🌺 ھم حزن غم سے پناہ 🌺

♦️وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ»

▪️حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں فکر و غم، عاجزی اور سستی، بزدلی اور بخل، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “
متفق علیہ

•[مشکاۃ المصابیح ر:2458]

🔹علامہ ابوالبقا حنفی (المتوفی:1094ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

الهم بالفتح الحزن والقلق . والهم يغلظ النفس والحزن يقبضها .

"لفظ ھم فتح کے ساتھ غم اور پریشانی ہے اور ھم نفس کی سختی اور غم نفس کی ہلاکت کا سبب ہوتا ہے".

🔸امام راغب اصفہانی (المتوفی:506ھ)علیہ الرحمہ نے لکھا ہے:

الهم : الحزن الذي يذيب الإنسان .

"ہم وہ رنج ہے جو انسان کو پگھلا دیتا ہے".

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟴
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

15 Jan, 14:46


🌻امام بخاری رضی اللہ عنہ کا عقیدہ🌻

♦️امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

🔹القُرْآنُ كَلَامُ اللهِ غَيْرُ مَخْلُوقِ ..... عَلى هَذَا حَبيتُ وَعَلِيهِ أَمُوتُ وَعَلِيهِ أُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.

" قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، مخلوق نہیں۔ اسی عقیدہ پر میں زندہ ہوں،
اس پر فوت ہوں گا اور ان شاء اللہ اس پر اٹھایا جاؤں گا ۔“

🔸أَفْضَلُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ عَلِيٌّ، عَلَى هَذَا حَييتُ وَعَلِيهِ أَمُوتُ وَعَلِيهِ أُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ .

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں افضل ترین سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر سیدنا عمر ، ان کے بعد سیدنا عثمان اور پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔

اسی عقیدہ پر میں زندہ ہوں ، اسی پر فوت ہوں گا اور ان شاء اللہ اسی پر اٹھایا جاؤں گا۔“

•[هدى الساري، ص.491]

#عقائد ⧼⑨②
#احقاق_حق_و_ابطال_باطل
#اہل_سنت_اہل_جنت
#اہل_حق
#رد_بدمذہبیت
#اہل_بدعت
#فضائل_صحابہ
#شان_و_عظمت_صحابہ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

15 Jan, 14:37


🌷ِبغض علی رکھنے والے راوی سے روایت پر پکڑ 🌷

🔹حضرت سیدنا عبد الله الصنعانی قدس سره الربانی حضرت سیدنا حوثرہ بن محمد المقری علیہ الرحمہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا یزید بن ہارون واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے انتقال کے بعد چار راتیں گزر گئیں پھر میں نے انہیں خواب میں دیکھا تو
پوچھا: مَافَعَلَ اللهُ بكَ ، یعنی اللہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟
آپ علیہ الرحمہ فرمانے لگے کہ میرے رحیم
پروردگار عزو جل نے میری نیکیاں قبول فرما لیں اور میرے گناہ معاف فرما دیئے اور مجھے بہت سارے خُدام عطا فرمائے ۔

میں نے پوچھا: ” پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

فرمایا: کریم کرم ہی کرتا ہے، میرا مولیٰ عزوجل بہت کریم ہے، اس نے میرے سارے گناہ
معاف فرما دیئے اور مجھے جنت میں داخل فرما دیا۔

میں نے پوچھا: ” آپ (رحمۃ اللہ تعالی علیہ ) کو یہ مقام ومرتبہ رکن اعمال کی بدولت
حاصل ہوا ؟

آپ نے ارشاد فرمایا:
” ان پانچ چیزوں کے سبب حاصل ہوا:
(۱) اجتماع ذکر میں شرکت
(۲) گفتگو میں سچائی
(۳) حدیث بیان کرنے میں امانت وصدق سے کام لینا
(۴) نماز میں طویل قیام کرنا
(۵) تنگدستی اور فقر وفاقہ کی حالت
میں صبر و شکر کرنا “

میں نے پوچھا: منکرنکیر کا معاملہ کیا رہا؟

فرمایا: اس اللہ عزوجل کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی عبادت کے لائق ہے ! منکر نکیر میری قبر میں آئے اور مجھے کھڑا کر کے سوالات کرنے شروع کر دیئے:
(۱) تیرا رب کون ہے؟
(۲) تیرا دین کیا ہے؟
(۳) تیرا نبی کون ہے ؟
ان کے یہ سوالات سن کر میں نے اپنی سفید داڑھی سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہا: "اے فرشتو! کیا تم مجھ سے سوال کرتے ہو؟ میں یزید بن ہارون واسطی ہوں، میں دنیا میں (اللہ عز وجل کی رضا کی خاطر ) ساٹھ سال تک
لوگوں کو علم دین سکھاتا رہا ہوں۔
میری یہ بات سن کر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا: ”
اس نے سچ کہا ہے، یہ واقعی یزید بن ہارون واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی ہے ۔

پھر مجھ سے کہا: اب تو دلہن کی طرح سکون کی نیند سو جا، آج کے بعد مجھے کسی قسم کا غم وخوف نہ ہوگا۔

پھر دوسرے فرشتے نے مجھ سے پوچھا:
” کیا تو نے جریر بن عثمان سے بھی کوئی حدیث سیکھی ہے؟
میں نے کہا: ہاں ! وہ تو حدیث میں ثقہ (یعنی پختہ ) راوی ہے ۔
اس فرشتے نے کہا: ” یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے لیکن وہ حضرت سیدنا علی المرتضى كرم الله تعالى وَجْهَهُ الكَرِيم سے بغض رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ عزوجل کے ہاں نا پسندیدہ شخص ہے۔“

🔸حضرت سیدنا یزید بن ہارون واسطی علیہ رحمۃ الہ القوی و خواب میں دیکھنے والا واقعہ اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک
شخص حضرت سیدنا احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہو اور عرض کی :

” حضور! میں نے حضرت سیدنا یزید بن ہارون
واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو خواب میں دیکھا تو پوچھا:

مَا فَعَلَ اللهُ بكَ یعنی اللہ عز و جل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟

تو انہوں نے جواب دیا:

” میرے پاک پروردگار عزوجل نے میرے گناہوں کو بخش دیا، مجھے پر خوب کرم فرمایا لیکن مجھ پر عتاب بھی ہوا۔

میں ان کی یہ بات سن کر متعجب ہوا اور پوچھا: ”
آپ کی مغفرت بھی ہوگئی ، آپ پر رحم بھی کیا گیا پھر عتاب بھی ہوا؟

تو انہوں نے جوابا فرمایا: ہاں! مجھ سے پوچھا گیا کہ اے یزید بن ہارون واسطی ! کیا تو نے جریر بن عثمان سے کوئی حدیث نقل کی ہے؟

میں نے کہا: ہاں! اللہ رب العزت عزوجل کی قسم! میں نے اس میں ہمیشہ بھلائی ہی پائی ۔

پھر مجھ سے کہا گیا: مگر وہ ابوالحسن حضرت سیدنا علی المرتضى كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ الكَرِيم سے بغض رکھتا تھا۔“

•[عیون الحکایت ج.1 ص.302-303]

#ما_فعل_الله_بك ⧼𝟝𝟟⧽
#اللہ_نے_آپ_کے_ساتھ_کیا_معاملہ_کیا
#خواب_میں_دیکھا_گیا
#بعد_وصال_کیا_بیتی
#فضائل_صحابہ
#شان_و_عظمت_صحابہ
#علم_حدیث

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

14 Jan, 12:40


عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ عَلِيًّا أَفْضَلَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَرَى أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِنْ بَعْدِ رَسُولِ اللَّهِ أَفْضَلَ مِنْكَ.
قَالَ: أَوَلَا أُحَدِّثُكَ يَا أَبَا جُحَيْفَةَ بِأَفْضَلِ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قُلْتُ: بَلَى.
قَالَ: أَبُو بَكْرٍ
قَالَ: أَفَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ وَأَبِي بَكْرٍ؟
قَالَ: قُلْتُ: بَلَى فَدَيْتُكَ.
قَالَ: عُمَرُ.

فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل ١/‏٣٠٢ — أحمد بن حنبل (ت ٢٤١)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Jan, 15:36


جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ختم بخاری شریف کی بابرکت تقریب
16 جنوری 2025، بروز جمعرات
صبح 10 بجے

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Jan, 00:05


• فائدة جليلة وجميلة للقرطبي حينما قال :

"لماذا شبّه الله - سبحانه - الدّنيا بالماء" عند قوله تعال : "واضرب لهم مثَلَ الحياة الدنيا كماءٍ أنزلناه من السّماء..." 45 الكهف .

قال الحكماء:
شبّه الله - سبحانه وتعالى - الدُّنيا بالماء:
1- ﻷنّ الماء ﻻ يستقرّ في موضع،
كذلك الدُّنيا ﻻ تبقى على حالٍ واحدة.

2- وﻷنّ الماء يذهب وﻻ يبقى،
فكذلك الدنيا تفنى. ولاتبقى.

3- وﻷنّ الماء ﻻ يَقدر أحدٌ أن يدخلَه وﻻ يبتلّ، وكذلك الدُّنيا ﻻ يسلم أحدٌ من فتنتها وآفتها.

4- وﻷنّ الماء إذا كان بقدرٍ كان نافعًا مُنبتًا، وإذا جاوز المقدارَ كان ضاراًّ مُهلكًا، وكذلك الدُّنيا ؛ الكفافُ منها ينفع، وفضولُها يضرّ".

الجامع ﻷحكام القرآن القرطبي 289/13

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Jan, 00:05


توبة الأنبياء ليستْ رجوعا من الذَّنب، وإنما هي انتقالٌ من مقامٍ إلى مقامٍ أعلى منه.

الإمام ابن عرفة التونسي [ت٨٠٣هـ]

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

09 Jan, 17:19


لا تخلط بين (الأُشْمُونِيِّ النَّحوي) شارح "ألفيَّة" ٱبن مالك، و(الأُشْمُوني المقرئ) صاحب "منار الهدى في بيان الوقف والٱبتدا"..

فالأوَّل ٱسمه: علي بن محمد بن عيسى، نور الدين الأُشْمُوني الشَّافعي (تـ929ھ) -رحمه اللَّٰه- .

والثَّاني ٱسمه: أحمد بن عبد الكريم الأُشْموني، من علماء القرن الحادي عشر الهجري.

(والأُشْمُوني) بضم الهمزة، نسبة إلى (أُشْمُون) بلدة في مِصْر.

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

09 Jan, 17:19


لا تخلط بين (الدَّارِمي) صاحب الرد على بِشْر المَرِيسي، وبين (الدَّارِمي) صاحب السنن؛ فالأول ٱسمه عثمان بن سعيد الدَّارِمي (تـ280ھ) -رحمه اللَّٰه-، والثَّاني ٱسمه عبد الله بن عبد الرحمن الدَّارِمي (تـ255ھ) -رحمه اللَّٰه-.

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

09 Jan, 17:18


⁃ لا تخلط بين (السَّخَاوي المقرئ) وبين (السَّخاوي المحدِّث).

◄ فالسَّخَاوي المقرئ هو أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الصمد، الملقب بـ(عَلم الدين)، صاحب «المنظومة السخاويَّة في متشابهات الآياتِ القرآنِيَّة»، و«النونية السَّخاوية في التجويد»، وكتاب «جمال القراء وكمال الإقراء»، و«شرح الشَّاطبية في القراءات» وغيرها، وهو تلميذ الشَّاطبي صاحب الشَّاطبية، وتوفي سنة (643ھ) -رحمه اللَّٰه-.

◄ والسَّخَاوي المحدِّث هو أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد الشَّافعي، الملقب بـ(شمس الدين) صاحب «فتح المغيث في شرح ألفية الحديث»، و«الضوء اللامع لأهل القرن التاسع»، وغيرهما، وهو تلميذ الحافظ ٱبن حجر، وتوفي شمس الدين السَّخاوي سنة (902ھ) -رحمه اللَّٰه-.

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

09 Jan, 16:10


🌷 جانوروں کے ساتھ بھلائی نیکی ہے 🌷

🔹قوله صلى الله عليه وسلم :
( في كل كبد رطبة أجر )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر تر جگر (ذی روح) کے ساتھ نیکی کرنے میں اجر ہے ".

🔸امام نووی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :

معناه في الإحسان إلى كل حيوان حتى بسقيه ونحوه أجر.
ففي هذا الحديث الحث على الإحسان إلى الحيوان المحترم وهو مالايؤمر بقتله فأما المأمور بقتله فيتمثل أمر الشرع في قتله".


"اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر ذی روح کے ساتھ بھلائی کرنی چاہیے، خواہ پانی پلانا ہی کیوں نہ ہو یا کسی اور چیز کے ساتھ ہو۔
آپ کو اس کا اجر ملے گا، اس حدیث شریف میں محترم حیوانات کے ساتھ نیکی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور محترم وہی حیوانات ہیں جن کو شارع نے مارنے کا حکم نہیں دیا اور جن کو شارع نے مارنے کا حکم دیا ہے صرف انھی کو مارنے میں شارع کا حکم مانا جائے گا".

•[شرح صحیح مسلم ج.14 ص.402]

#الحدیث ⟦𝟙𝟚⟧
#حدیث #السنة 
#شرح_حدیث
#منتخب_احادیث

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

07 Jan, 16:03


امام فضل بن دکین رحمه الله حدیث روایت کرنے کے عوض تھوڑی سی رقم لیتے تھے ، بعض لوگوں نے اُن پر اعتراض کیا تو فرمانے لگے : حیرت ہے کہ وہ مجھ پر معترض ہیں حالانکہ میرے گھر میں تیرہ افراد ہیں اور روٹی کا ایک ٹکڑا نہیں ۔

( سیر أعلام النبلاء : ١٥٢/١٠ )

علی سنان

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

06 Jan, 11:06


*قلت* (الزبيدي): روى الطبراني في الأوسط من حديث عائشة قلت يا رسول الله - صلّى الله عليه وسلم - ليس الشهداء إلا من قتل في سبيل الله قال يا عائشة إن شهداء أمتي إذاً لقليل من قال في يوم خمسة وعشرين مرة اللهم بارك لي في اليوم وفيما بعد اليوم ثم مات على فراشه أعطاه الله أجر شهيد في إسناده من لا يعرف حاله.

لیکن افسوس ایک فی زمانہ شاملی گوگلی محققین حضرات ہیں جو شاملہ یا گوگل پر نہ ملنے پر لم اجد یا الم اقف تو دور کی بات بلکہ فورا موضوع کا حکم لگا دیتے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ احیاء العلوم میں احادیث پر وضع کا حکم ہر بندے کا کام نہیں.

نوٹ: یہ باقاعدہ تحریر نہیں بلک ایک بندے نے امام غزالی علیہ الرحمہ پر الزام لگایا کہ آپ علیہ الرحمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹی احادیث بیان کی ہے۔ جلدی جلدی یہ چند سطور بطور جواب لکھے۔

ابو الحسن محمد شعیب خان
31 اگست 2022

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

06 Jan, 11:06


احیاء العلوم احادیث موضوعہ کا مجموعہ ؟

فی زمانہ بعض لوگ احادیث پر وضع کا حکم لگانے میں انتہائی جری ہیں، حتی کہ بعض دفعہ ضعیف روایات پر بھی وضع کا حکم لگاتے ہیں اور اکابرین امت کی بے ادبی کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ سیدنا امام غزالی علیہ الرحمہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹی احادیث بیان کی ہے۔ اور احیاء العلوم احادیث موضوعہ کا مجموعہ ہے. (نعوذ باللہ من ذلک)

فقیر احادیث "احیاء العلوم" کے متعلق دو عظیم محدثین علامہ حافظ عراقی اور علامہ زبیدی علیہما الرحمہ کی رائے ذکر کرتا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ واقعی احیاء العلوم احادیث موضوعہ کا مجموعہ ہے؟ ان دونوں محدثین نے احیاء العلوم میں موجود احادیت کی تخریج پر باقاعدہ کتب تالیف فرمائی ہے۔

امام عراقی کی تخریج کا نام " المغني عن حمل الاسفار في الأسفار في تخريج ما في الإحياء لأبي حامد الغزالي من الأخبار" علامہ زبیدی کی تخریج کا نام "إتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين" ہے۔

امام عراقی علیہ الرحمہ اپنی کتاب " المغني عن حمل الاسفار" تخریج "احیاء العلوم" کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: فلما وفق الله تعالي لإكمال الكلام علي احاديث "احياء علوم الدين" في سنة احدي و خمسين *تعذر الوقوف علي بعض احاديثه، فاخرت تبييضه الي سنة ستين، فظفرت بكثير مما عزب عني علمه* ثم شرعت في تبييضه في مصنف متوسط حجمه و انا مع ذالك متباطى في اكماله غير متعرض لتركه و اهماله *الي ان ظفرت بأكثر ما كنت لم أقف عليه.*

مفہوم: علامہ عراقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ احادیث احیاء العلوم پر تحکیم کی تکمیل کے بعد تقریبا نو سے دس سال تک تبییض کو موخر کیا کیونکہ بعض احادیث پر وقوف متعذر تھی تو نو دس سال بعد کثیر ایسی احادیث پر کامیابی ملی جس کا مجھے علم نہ تھا۔۔۔۔اس کے بعد متوسط الحجم کتاب کے مبیضہ کا آغاز کیا لیکن اس کے ساتھ تکمیل میں کوئی جلدی نہیں تھی تو جن احادیث پر میں نے لم اقف لکھا تھا اس میں سے اکثر پر کامیابی ملی۔

اس میں ہائی لائٹ کر دہ دو جملوں پر غور کیجئے۔ ایک *فظفرت بكثير مما عزب عني علمه* اور دوسرا *الي ان ظفرت بأكثر ما كنت لم أقف عليه.*

نیز فرماتے ہیں: و *حيث عزوت الحديث لمن خرجه من الأئمة فلا اريد ذالك اللفظ بعينه بل قد يكون بلفظ و قد يكون بمعناه* او باختلاف علي قاعدة المستخرجات و *حيث لم يجد ذالك الحديث ذكرت ما يغني عنه غالبا و ربما لم أذكره.*

یعنی تخریج میں بعینہ الفاظ نہیں ہوتے بلکہ معنی و مفہوم ایک جیسا ہو اگرچہ الفاظ میں رد وبدل ہو تب درست کیونکہ یہ روایت بالمعنی کی قبیل سے ہوگا۔ بلکہ بعض اوقات تو بعض الفاظ یا بعض معنی اگرچہ دور کی مناسبت ہو تب بھی کافی ہوتی ہے۔

نوٹ: کتبِ حدیث کی ایک نوع "مستخرج" بھی ہے۔ اس نوع کی کتابیں مستخرجات کہی جاتی ہیں۔ اس میں کوئی بعد کا محدث کسی سابق محدث کی کتاب میں روایت کردہ احادیث کو اپنی اسانید کے ساتھ درج کرتا ہے۔ اور سابق محدث کے شیخ یا شیخ الشیخ وغیرہ پر دونوں سندیں مل جاتی ہیں۔ جیسے "مستخرج أبی عوانہ علی صحیح مسلم" وغیرہ۔ مستخرجات کے کثیر فوائد ہیں، جن میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات الفاظِ حدیث میں اختلاف بھی ان کے ذریعے معلوم ہوجاتا ہے۔ یعنی سابق کتاب میں درج الفاظ سے کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ وہ حدیث مستخرجات میں ہوتی ہے۔ حافظ عراقی کی مذکورہ عبارت میں "أو باختلاف علی قاعدۃ المستخرجات" سے مراد یہ ہے کہ ہماری تخریج کردہ روایت کے الفاظ مستخرجات کی بنیاد پر کچھ مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ جن کی طرف ہم نے تخریج منسوب کی ہے بعینہ انہی کے الفاظ ہونا ضروری نہیں۔
ھذا ما ظہر لی۔ واللہ تعالی أعلم۔
(یہ افادہ مفتی نثار احمد مصباحی صاحب کا ہے)

احادیث "احیاء العلوم" کے متعلق علامہ محدث سيد مرتضى زبيدي علیہ الرحمہ (المتوفي ١٢٠٥) فرماتے ہیں: ان احاديث التي ذكرها المصنف ما بين متفق عليه من صحيح و حسن باقسامهما، و فيه الضعيف والشاذ والمنكر *والموضوع علي قلة كما ستقف عليه ان شاء الله تعالي.*
(إتحاف السادة المتقين ١/٣٨ دار الكتب العلمية بيروت)

مفہوم: مصنف کی ذکردہ احادیث متفق علیہ میں سے صحیح، حسن اقسام سمیت ہے۔ اور اس میں ضعیف ، شاذ اور منکر بھی ہیں۔ اور موضوع قلیل ہیں جیسا کہ عنقریب معلوم ہوجائے گا۔ اس جملے پر غور کریں *والموضوع علي قلة كما ستقف عليه ان شاء الله تعالي.*

نوٹ: سیدنا امام غزالی علیہ الرحمہ پر بعض اعتراضات کی جوابات کے لئے علامہ زبیدی علیہ الرحمہ کے مقدمہ کا لازمی مطالعہ کیجئے۔

نوٹ: بعض احادیث پر لم اقف لہ علی اسناد فرمایا لیکن علامہ زبیدی علیہ الرحمہ نے اس کی تخریج فرمائی ہے۔ مثلا علامہ عراقی اور ابن سبکی علیہما الرحمہ ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: ہمیں اس کی سند نہیں ملی لیکن علامہ زبیدی علیہ الرحمہ نے بحوالہ طبرانی اوسط نقل کیا ہے۔

*وقال العراقي: لم أقف له على إسناد.*
قال ابن السبكي: (6/ 375) *لم أجد له إسناداً.*

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

04 Jan, 17:10


🌹 نماز کی پابندی کرنا 🌹

🔸عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ‏:‏
كَانَ آخِرُ كَلاَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”الصَّلاَةَ، الصَّلاَةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ‏.‏“

🔹سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام یہ تھا:
”نماز کی پابندی کرنا، نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرنا۔“

•[الادب المفرد ر:158 صحیح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟳
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

02 Jan, 09:40


"اس قضیۂ فدک میں بحث مباحثے کے سبب لوگوں کے درمیان فتنہ واقع ہوا ہے لہذا اس بحث مباحثے کو ترک کردینے میں سلامتی ہے"

(شمس الائمة محمد بن احمد السرخسی رحمه الله المتوفي483ھ)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

01 Jan, 18:43


فتاویٰ رضویہ پر الزام ہے کہ اس میں موضوع و ضعیف احادیث ہیں، اور پھر ان احادیث کو اکٹھا کرکے ایک کتاب تیار کی گئی ہے۔
اس کا کیا توڑ ہے عالی جاہ!
ـ از :
سعادت ثانی مرادآبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب : فتاویٰ رضویہ میں یقیناً ضعاف موجود ہیں، اور ضعاف کا ہونا کوئی عیب بھی نہیں ۔ فضائل و ترغیب و ترہیب میں اس کو سلف و صالحین اور ائمہ محدثین نے روا رکھا ہے ۔
اور رہی بات ” موضوعات “ کی، تو یہ دعویٰ بلادلیل ہے ۔ یعنی کہ موضوعات بطورِ استدلال نہیں لائے گئے ہیں ۔ ــــ بلکہ بطورِ رد کہیں کہیں ملتے ہیں ، جن کو ذکر کر کے امت کو متنبہ کیا ہے کہ یہ موضوع، باطل یا اسرائیلیات سے ہیں ۔ ان سے بچو۔
مولانا اسلم رضا اشفاقی کا اس پر ایک رسالہ بھی ہے، جس میں انھوں نے ان موضوع روایات کو اکٹھا کیا ہے، جن کے موضوع اور باطل کی صراحت کرکے فتاویٰ رضویہ میں ان سے بچنے کی تنبیہ کی گئی ہے ۔
اگر موضوع روایات کو امت کو بچانے کی نیت سے کتابوں میں لانا اور پھر ان سے بچنے کی تلقین کرنا کوئی جرم ہے تو ملا علی قاری، ابن الجوزي، لکنوی وغیرہم محدثین بھی مجرم قرار پائیں گے، اور اگر یہ جرم نہیں تو پھر بلاوجہ کے شور مچانے والے کا علاج ضربِ فاروقی کے علاوہ کیا ہے؟

اور اگر پھر بھی کوئی شخص موضوع بطورِ دلیل لانے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر دلیل لانا لازم ہے ۔ ایسی دلیل جو دلیل بننے کی صلاحیت بھی رکھے، نہ کہ اپنی لاعلمی کو عدم وجود مان کر موضوع کا قول کرے ۔ یا خود ساختہ اصول یا مجروح ومطرود قول سے جدل و نزاع کا بازار گرم کرنے کی کوشش کرے۔

تفصیلات ” منیر العین“ وغیرہ کتب رضویہ میں موجود ہیں کہ ضعاف کب، اور کن شرائط پر قبول کیے جائیں گے، احادیث سے استدلال کے انداز اور اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی کا منہج اسی میں دیکھنا چاہیے ۔ اور پھر انہی کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصل بیماری وہ ہے، جس کی طرف محدث عصر شیخ محمد عوامہ نے صراحت کی ہے، کہ البانوی پیشہ افراد ضعیف کو موضوع کے ہم معنی مانتے ہیں ۔

لہذا فتاویٰ رضویہ میں موجود ضعاف کو { بطورِ موضوعات } کوئی اکٹھا کردے تو پھر تین کیا پانچ جلدیں بھی چھاپی جاسکتی ہیں ۔ اور اس میں موضوع کے وجود استدلالی کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے ۔
مگر یہ ضرور یاد رہے کہ انصاف پسندوں کے نزدیک یہ عمل بے خیانت سے تعبیر کیا جائے گا ۔ اور ” أنا فی واد ،وأنت فی واد “ کا مصداق قرار پائے گا ۔ فافھم

#فیضان_سرور_مصباحی
یکم جنوری ٢٠٢٥ ء| بدھ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

01 Jan, 17:13


"حافظ الکبیر عبدالغنی المقدسی(رحمه الله) نے شاہی قلعے کے پاس آلات موسیقی دیکھے تو اُنہیں توڑ دیا اور درسِ حدیث میں مشغول ہو گئے ۔ سلطان کا قاصد آیا اور کہنے لگا : آپ کو سلطان نے دربار میں دَف اور بانسری وغیرہ پر مناظرے کیلئے طلب کیا ہے ۔ حافظ نے ٹِکا سا جواب دیا : یہ چیزیں حرام ہیں اور وہاں آنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ، یہ کہ کر دوبارہ احادیث پڑھانے لگے ۔ کچھ دیر بعد قاصد پھر سے لوٹ آیا اور کہنے لگا : آپ کو ضرور سلطان کے پاس جانا پڑے گا ، آپ نے اُن کیلئے یہ چیزیں حرام ٹھہرا دی ہیں ۔ حافظ عبدالغنی جلال میں آئے اور فرمانے لگے : تم اور تمہارے سلطان دونوں پر خدا کی مار ہو ۔ لوگ گھبرا گئے لیکن اُس کے بعد کوئی قاصد نہ آیا اور نہ ہی کسی میں ہمت ہوئی کہ حافظ کو نقصان پہنچاتا ۔"

( سیر أعلام النبلاء : ٤٥٦/٢١ )

علی سنان

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

01 Jan, 17:05


🌸 دعوت قبول کرو 🌸

🔹عَنْ عَبْدِ اللهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏
”أَجِيبُوا الدَّاعِيَ،
وَلاَ تَرُدُّوا الْهَدِيَّةَ،
وَلاَ تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِينَ‏.‏“


🔸سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو اور تحفہ واپس نہ کرو، نیز مسلمانوں کو نہ مارو.“

•[الادب المفرد ر:157 صحیح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟲
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

01 Jan, 08:36


حدث في مثل هذا اليوم 1 رجب 842هـ.
فرغ الحافظ ابن حجر العسقلاني(ت 852هـ) رحمه الله. من تأليف كتابه "فتح الباري شرح صحيح البخاري"
1.مدة تأليفه 25 سنة.
2. بدأ في تأليفه سنة 817هـ.
3. أملاه على طلبته في مئات المجالس،
4. رجع فيه إلى 1430 كتاب.
5. استدل فيه ب 6280 حديث.
6. أول طبعة له ببولاق بمصر 1301هـ.

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Dec, 23:30


*نقل اور روایت میں فرق*

بعض لوگ حدیث ذکر کرتے وقت "روایت" کی جگہ "نقل" اور "نقل" کی جگہ "روایت استعمال کرتے ہیں حالانکہ دونوں کے استعمال میں فرق ہے۔

*روایت* جو محدث یا حافظ سند کے ساتھ حدیث بیان کرے اسے "روایت" کہتے ہیں جیسے امام بخاری، مسلم، ابن حبان وغیرہ

*نقل* جو محدث یا حافظ سند کے ساتھ حدیث بیان نہیں کرتا بلکہ حدیث کو کتب حدیث سے دیکھ کر اپنی کتب میں ذکر کرتا ہے تو اسے "نقل" کہتے ہیں جیسے حافظ ابن حجر اور امام سیوطی وغیرہ

تو جہاں سند کے ساتھ حدیث بیان کرنے والے، کتب سے حدیث بیان کر رہا ہو تو یوں کہیں اور لکھیں کہ "روایت" کیا ہے۔ اور جہاں ان کتب کے علاوہ کسی کتاب سے حدیث بیان کریں تو یوں کہیں اور لکھیں کہ "نقل" کیا ہے اور جس سے نقل کیا ہے اس کتاب یا محدث کا نام بھی بیان کریں یا جہاں کوئی محدث "اخرجه" کہے جیسے "اخرجه الطبرانی" تو مطلب ہے امام طبرانی علیہ الرحمہ نے روایت کیا ہے اور جہاں "خرجه" کہے جیسے "خرجه" ابن حجر تو اس کو سند بیان کرنے والے کی طرف حدیث کی نسبت کرنے والے کیلئے استعمال کرتے ہیں.

تعلیق از مفتي نثار احمد مصباحي صاحب.

اچھا کیا آپ نے یہ فرق ذکر کر دیا. بہت سے لوگ "نقل" یا "ذکر" کی جگہ "روایت" کا لفظ استعمال کرتے ہیں.
مشہور دیوبندی عبارت "حضور کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں" اس نے اسی طرح لکھی ہے : "شیخ عبد الحق روایت کرتے ہیں کہ مجھے دیوار کے پیچھے کا علم نہیں." جب کہ شیخ قدس سرہ اس کے صرف ناقل ہیں, راوی نہیں. وہ بھی نقل کرکے انھوں نے اسے "بےاصل" قرار دیا ہے.
بہت سے معاصر اور پیش رو اہلِ علم کے یہاں یہ چیز پائی جاتی ہے. خاص طور سے امام سیوطی وغیرہ کے بارے میں بکثرت "رواہ السیوطی" کے الفاظ مل جاتے ہیں.
میرے خیال سے یہ "تجوزا" یا "مسامحۃ" ہے.
مگر بعض کے یہاں فرق سے انجان ہونے کی وجہ سے بھی یہ استعمال پایا جاتا ہے.

ترتیب و پیشکش
ابو الحسن محمد شعیب خان
٢٣ مارچ ٢٠١٨ (ترمیم)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Dec, 18:49


احناف کی نماز مدلل 👆

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Dec, 18:49


نماز حنفی احادیث کی روشنی میں
http://marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=b121be69-d962-4a83-bbb8-2e9b7840d203

صلوۃ الرسول یعنی امام الانبیاء کی نماز
http://marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=cee4e140-3625-4b2a-9b31-22c3016d6747

سنی حنفی نماز مترجم
http://marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=3da38f3c-c1ab-4ddb-b1db-839d64d0cff6

نماز حنفی
http://marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=55f5a2d1-d125-4735-99c7-5cd2dd86186f

http://marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=90b61400-a0ad-46af-b813-9dd37925680d

علامہ محدث کوٹلوی علیہ الرحمہ کی کتاب حنفی نماز مدلل
http://marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=4fe78318-a7cc-4189-b074-b5ba08af25f1

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Dec, 18:49


@faizanealahazrat

🌴 فیضان اعلی حضرت لائبریری 📚

FAIZAN E ALAHAZRAT LIBRARY

جناب رسول اللہﷺ کی نماز

علامہ مفتی شفقات احمد قادری مدظلہ العالی
قادری رضوی کتب خانہ لاہور

#NAMAZ #NABI

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Dec, 18:49


@faizanealahazrat

مرد اور عورت کی نماز میں فرق
احادیث مبارکہ کی روشنی میں

شیخ الحدیث علامہ قاضی عبدالرزاق بھترالوی حطاروی مدظلہ العالی
شکریال راولپنڈی

#NAMAZ #HADEES #MASAIL #HATTARVI #AURAT


👇 مزید کتابیں حاصل کرنے کے لئے لائبریری میں شمولیت اختیار فرمائیں 👇


https://telegram.me/faizanealahazrat

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Dec, 16:52


🌷 تو نے آگ سے رکاوٹ بنا لی ہے 🌷

🔹عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ

فَقَالَتِ‏:‏  ادْعُ لَهُ، فَقَدْ دَفَنْتُ ثَلاَثَةً،

فَقَالَ‏:‏ ”احْتَظَرْتِ بِحِظَارٍ شَدِيدٍ مِنَ النَّارِ‏.‏“


🔸سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لے کر آئی اور عرض کیا: (اللہ کے رسول!) اس کے لیے دعا فرمائیں، میرے تین بچے فوت ہو چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تو نے آگ سے بہت بڑی رکاوٹ بنا لی ہے۔“

•[الادب المفرد ر:143 صحیح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟱
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

29 Dec, 16:53


حسین بن حسن رازی(رحمه الله) کہتے ہیں : میں مصر میں ایک دکاندار کے پاس گیا ۔ باتوں باتوں میں اس نے پوچھا : تم احمد بن حنبل(رحمه الله) کو جانتے ہو؟ میں نے کہا : میں ان کا شاگرد ہوں ، اُن سے حدیث لکھنے کا اعزاز حاصل کر چکا ہوں ۔ بعد میں جب میں اسے پیسے دینے لگا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا : میں ان لوگوں سے پیسے نہیں لیتا جو امام احمد(رحمه الله) کو جانتے ہیں یا جن لوگوں نے کبھی انہیں دیکھا ہے ۔

( الجرح والتعديل : ١/٣٠٧ )

علی سنان

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

27 Dec, 16:37


🎋 جس کے تین بچے فوت ہو جائیں 🎋

🔹عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏
”لاَ يَمُوتُ لأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثَلاَثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ، فَتَمَسَّهُ النَّارُ، إِلاَّ تَحِلَّةَ الْقَسَمِ‏.‏“

🔸سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے تین بچے فوت ہو جائیں (اور وہ صبر کرے) اسے آگ نہیں چھوئے گی، البتہ قسم پوری کرنے کے لیے (اسے آگ پر لایا جائے گا)۔“
•[الادب المفرد ر:143 صحیح]

🔹عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏

”مَنْ مَاتَ لَهُ ثَلاَثَةٌ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ،
أَدْخَلَهُ اللَّهُ وَإِيَّاهُمْ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ الْجَنَّةَ‏.‏“


🔸سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے تین بچے بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے فوت ہوئے الله تعالیٰ اپنے خاص فضل سے اس شخص اور ان بچوں کو ضرور جنت میں داخل فرمائے گا".

•[الادب المفرد ر:151 صحیح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟰
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

26 Dec, 16:41


🔥 جو فتنے سے محفوظ رہا 🔥

🔹سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنی فرماتے ہیں کہ :
"اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

"إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُيْبَ الْفِتَنَ،
إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنبَ الْفِتَن
إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنّبَ الْفِتَنُ ،
وَلَمَنِ ابْتُلِيَ فَصَبَرَ ، فَوَاهَا .

"بلاشبہ وہ شخص خوش نصیب ہے جو فتوں سے محفوظ رہا۔
بلاشبہ وہ شخص خوش نصیب ہے جو فتنوں سے محفوظ رہا۔
بلاشبہ وہ شخص خوش نصیب ہے جوفتوں سے محفوظ رہا۔
اور جو امتحان اور آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے صبر کیا تو اس کے کیا کہنے ".

•[سنن أبي داؤد، كتاب الفتن والملاحم، باب النهي عن السعى فى الفتنة، رقم: 4263 : صحیح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟯
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ
#کتاب_الفتن『25』
#الفتن #علامت_قیامت
#قرب_قیامت
#أحاديث_نبوية_في_الفتن_➊

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Dec, 16:45


🌹یتیم کی کفالت کرنے والا 🌹

🔹عَنْ أُمِّ سَعِيدٍ بِنْتِ مُرَّةَ الْفِهْرِيِّ، عَنْ أَبِيهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏

”أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ، أَوْ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ‏.“‏

شَكَّ سُفْيَانُ فِي الْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ‏.‏

🔸سیدنا مرہ بن عمرو فہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے (جیسے شہادت والی اور ساتھ والی انگلی ہے) یا جیسے یہ اور یہ انگلی (ساتھ ساتھ ہیں)۔“

سفیان نے درمیان والی انگلی اور انگوٹھے کے ساتھ والی میں شک کیا ہے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی انگلی سے اشارہ فرمایا)۔

🔹سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏
”أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا“،

وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى‏.‏


🔸سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا۔


🔸حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ كَانَ لاَ يَأْكُلُ طَعَامًا إِلاَّ وَعَلَى خِوَانِهِ يَتِيمٌ‏.‏

🔹حضرت ابوبکر بن حفص رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب بھی کھانا کھاتے ان کے دسترخوان پر ضرور کوئی یتیم ہوتا۔

•[الادب المفرد :133-136 صحیح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟮
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

24 Dec, 16:36


🌺بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو 🌺

🔹 عَنْ جَدَّتِهِ، أَنَّهَا قَالَتْ‏:‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏
يَا نِسَاءَ الْمُؤْمِنَاتِ،
لاَ تَحْقِرَنَّ امْرَأَةٌ مِنْكُنَّ لِجَارَتِهَا،
وَلَوْ كُرَاعُ شَاةٍ مُحَرَّقٍ.“


🔸عمرو بن معاذ اشہلی اپنی دادی (حواء بنت یزید) رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مومن عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسن کے لیے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا جلا ہوا پایہ ہی ہو۔“

•[الادب المفرد ر:122 صحیح]

🔹عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏:‏
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏
”يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ، يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ،
لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنُ شَاةٍ.“


🔸سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مسلمان عورتو! اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے (ہدیہ دینا یا لینا) حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا کھر ہی ہو۔“

•[الادب المفرد ر:123 صحیح]

#حفظ_حدیث ⊰𝟭𝟲𝟭
#چھوٹی_حدیثیں
#الأحاديث_القصار
#حدیث_برائے_حفظ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

24 Dec, 09:22


کیا امام اعظم کی مستدل حدیث: ((نھی عن لحوم الخیل)) ضعیف یا مضطرب یا منسوخ ہے؟!
(از: ابن فقیہ ملت)

أما الحديث: فهوى ما روى عن خالد بن الوليد أنه قال: ((نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن لحوم الخيل و البغال و الحمير و كل ذي ناب من السباع)) رواه أبو داود و النسائي و ابن ماجه.
و هذا الحديث ضعيف، ضعفه الألباني في ضعيف أبي داود و قال الحافظ موسى بن هارون: هذا حديث ضعيف، و قال البخاري: هذا الحديث فيه نظر، و قال البيهقي: هذا إسناد مضطرب، و مع اضطرابه هو مخالف لأحاديث الثقات يعني في إباحة لحم الخيل، و قال الخطابي: في إسناده نظر، و قال أبو داود: هذا الحديث منسوخ، و قال النسائي: حديث الإباحة أصح، قال: و يشبه إن كان صحيحا أن يكون منسوخا؛ لأن قوله في الحديث الصحيح: ((أذن في لحوم الخيل)) دليل على ذلك‘‘۔ انتهى من المجموع. (۵؍۹۔۷) و الله أعلم.
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مذکورہ بالا مسئلے میں حضرت خالد بن و لید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے سلسلے میں آپ کی کیا راے ہے؟ حرمت اکل خیل سے متعلق حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی مستدل وہی حدیث ہے؛ لہذا حدیث حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا حکم، اصحاب جرح و تعدیل کے نزدیک کیا ہے؟
المستفتی: (مفتی) کہف الوری مصباحی
جعفر پوروا، نیپال گنج، نیپال۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اس حدیث کے بارے میں میری اپنی خاص کوئی راے نہیں، البتہ اپنے وقت کے محدث، ناقد و فقیہ امام بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث سے متعلق، قابل قبول دلائل و براہین کی روشنی میں بحث کرکے، ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے؛ اس لیے میرے نزدیک بھی یہ حدیث صیح ہے۔
سوال میں اس حدیث کے بارے میں جو اقوال ذکر کیے گیے ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، مگر یہ قول درست نہیں؛ کیوں کہ یہ حدیث ضعیف نہیں بلکہ صحیح ہے۔
امام عینی علیہ الرحمۃ کی کتاب ’نخب الأفکار‘ میں ہے: ’’ص: حدثنا ربيع الجيزى، قال: ثنا نعيم (ح). وحدثنا عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي، قال: ثنا يزيد بن عبد ربه وخالد بن خلي، قالوا: ثنا بقية بن الوليد، عن ثور بن يزيد، عن صالح بن يحيى بن المقدام، عن أبيه، عن جده، عن خالد بن الوليد - رضي الله عنه - أن رسول الله -عليه السلام- نهى عن لحوم الخيل والبغال والحمير.
ش: هذان طريقان: الأول: عن ربيع بن سليمان الجيزى الأعرج شيخ أبي داود والنسائي، عن نعيم بن حماد المروزي الفارض الأعور شيخ البخاري في المقرنات، وثقه يحيى وأحمد، عن بقية بن الوليد بن صائد الكلاعي الحمصي، قال العجلي: ثقة فيما روى عن المعروفين. قال الذهبي: قال غير واحد: كان مدلسًا فإذا قال: "عن" فليس بحجة. روى له البخاري مستشهدا ومسلم في المتابعات.
عن ثور بن يزيد الكلاعي الحمصي روى له الجماعة سوى مسلم، عن صالح بن يحيى بن المقدام الكندي الشامي، وثقه ابن حبان وروى له هؤلاء.
عن أبيه يحيى بن المقدام الكندي الحمصي، وثقه ابن حبان وروى له هؤلاء.
عن جده المقدام بن معدي كرب الكندي الصحابي، عن خالد بن الوليد - رضي الله عنه -.
وأخرجه أبو داود: ثنا سعيد بن شبيب وحيوة بن شريح -قال حيوة-: ثنا بقية، عن ثور بن يزيد، عن صالح بن يحيى بن المقدام بن معدي كرب، عن أبيه، عن جده، عن خالد بن الوليد: "أن رسول الله -عليه السلام- نهى عن أكل لحوم الخيل والبغال والحمير- زاد حيوة- وكل ذي ناب من السباع.
الثاني: عن عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي الحافظ الكبير، شيخ أبي داود والطبراني، عن يزيد بن عبد ربه الزبيدى الحمصي المؤذن، قال يحيى: ثقة صاحب حديث روى له مسلم والنسائي وابن ماجه.
عن خالد بن حلي الكلاعي الحمصى القاضي قال البخاري: صدوق. وقال النسائي: ليس به بأس. وروى له، وكلاهما يرويان عن بقية بن الوليد. . . . إلى آخره.
وأخرجه النسائي وابن ماجه. فإن قيل: ما حكم هذا الحديث؟
قلت: صحيح ولهذا لم يتعرض إليه أبو داود غير قوله: وهذا منسوخ‘‘.( نخب الأفکار فی تنقیح مبانی الأخبار فی شرح معانی الآثار،امام عینی، باب أکل لحم الفرس، ج۱۳ص۱۵۹‒۱۶۱، ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلاميۃ، قطر)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ’’وَلَا يَخْفَى أَنَّ مَا نَقَلَهُ عَنْ أَنَّ دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيَّ، مُخَالِفٌ لِدَعْوَاهُ مِنِ اتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِينَ عَلَى أَنَّهُ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ ضَعِيفًا لَمَا احْتَاجُوا إِلَى الْقَوْلِ بِنَسْخِهِ، مَعَ أَنَّ قَوْلَ النَّسَائِيِّ: حَدِيثُ الْإِبَاحَةِ أَصَحُّ صَرِيحٌ فِي أَنَّ حَدِيثَ التَّحْرِيمِ صَحِيحٌ، وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّهُ صَحِيحٌ عِنْدَ الْمُجْتَهِدِينَ فَلَا يُلْتَفَتُ إِلَى قَوْلِ أَحَدٍ مِنَ الْمُتَأَخِّرِينَ أَنَّ حَدِيثَ مُعَارِضِهِ أَصَحُّ لِعُرُوضِ الْفَسَادِ فِي الْإِسْنَادِ، مَعَ أَنَّهُ قَدْ يَخْتَصُّ بِإِسْنَادِهِ‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، امام ملا علی القاری، باب مایحل أکلہ و ما یحرم، ج۷ص۲۶۶۳، ط:

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

24 Dec, 09:22


دار الفکر، بیروت)
سوال میں زیر بحث حدیث کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس کی اسناد میں اضطراب ہے، یہ قول بھی محل نظر ہے؛ کیوں کہ امام بیہقی نے اس حدیث میں دو راوی: محمد بن حمیر اور عمر بن ہارون بلخی کے ذریعے اضطراب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دونوں راوی ضعیف ہیں اور ضعیف راواۃ کے ذریعے، ثقہ راوۃ کی روایت کو مضطرب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
نخب الأفکار ہی میں ہے: ’’ ثم أخرجه من طريق آخر من حديث الدارقطني وفيه: "نهي يوم خيبر" ثم قال: ورواه محمَّد بن حمير، عن ثور، عن صالح، سمع جده المقدام، ورواه عمر بن هارون البلخي، عن ثور، عن يحيى بن المقدام، عن أبيه، عن خالد. فهذا إسناده مضطرب‘‘۔ (نخب الأفکار، امام عینی، باب أکل لحم الفرس، ج۱۳ص۱۶۱)
نیز اسی نخب الأفکار میں ہے: ’’وأما إثبات الاضطراب في الحديث بعمر بن هارون ومحمد بن حمير فغير مقبول؛ لأن عمر بن هارون متروك ومحمد بن حمير ضعيف، قال يعقوب بن سفيان: ليس بالقوى فكيف توجب رواية مثل هذين اضطرابًا لما رواه إسحاق بن راهوية وغيره عن بقية؟! فافهم‘‘۔ (نخب الأفکار، امام عینی، باب أکل لحم الفرس، ج۱۳ص۱۶۲)
سوال میں اس حدیث کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے، یہ قول بھی محل نظر ہے؛ کیوں کہ ثبوت نسخ کے لیے تاریخی حیثیت سے ایک حدیث کا دوسری حدیث پر تقدم و تاخر ، معلوم ہونا ضروری اور یہاں تقدم و تاخر ، تاریخی حیثیت معلوم نہیں؛ لہذا اس حدیث کے منسوخ ہونے کا قول بھی قابل قبول نہیں۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ’’وَأَمَّا دَعْوَى النَّسْخِ مَعَ كَوْنِهَا مُشْتَرَكَةً فَتَحْتَاجُ إِلَى بَيَانِ التَّارِيخِ مِنْ تَقْدِيمِ أَحَدِهَا عَلَى الْآخَرِ، وَهُوَ مَفْقُودٌ غَيْرُ مَوْجُودٍ‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، امام ملا علی القاری، باب مایحل أکلہ و ما یحرم، ج۷ص۲۶۶۴، ط: دار الفکر، بیروت) و اللہ تعالی أعلم........................................................
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۱؍ جمادی الآخرۃ ۱۴۴۶ھ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

22 Nov, 15:51


📚 آخری وقت میں بھی حدیث سنتے رہے 📚

🔹حافظ محدث امام ابو طاہر احمد بن محمد السِلفی (المتوفی : 576ھ) علیہ الرحمہ

تُوُفِّيَ الحَافِظ فِي صَبِيْحَة يَوْمَ الجُمُعَةِ وَلَمْ يَزَلْ يُقرَأُ عَلَيْهِ الحَدِيْث يَوْمَ الخَمِيْسِ إِلَى أَنْ غربتِ الشَّمْس مِنْ لَيْلَة وَفَاته، وَهُوَ يَردّ عَلَى القَارِئ اللَّحْنَ الخفِيَّ، وَصَلَّى يَوْمَ الجُمُعَةِ الصُّبْح عِنْد انفجَار الفَجْر، وَتُوُفِّيَ بَعْدهَا فُجَاءةً

"جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو سارا دن ان کا شاگرد ان کو حدیث سناتا رہا اور وہ پست آواز میں اس کی اصلاح کرتے رہے۔
پھر انھوں نے جمعہ کے دن نماز فجر اول وقت میں ادا کی جس کے فوراً بعد وہ وفات پاگئے".

•[سير أعلام النبلاء ج.21 ص.39]

#آخری_لمحات [➎]
#موت_کے_وقت
#احوال_سلف
#تذکرۃ_السلف
#محدثین_کرام

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

20 Nov, 14:19


https://youtu.be/Hgna4si8n5s

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

20 Nov, 13:48


ابن حَجَر، اثنَان، كِلاَهُمَا اسمُهُ أَحمَد، ولَقَبُهُ شِهَاب الدِّين (!).

الأول: المُحدِّث أَبو الفضل أَحمَد بن عَلِي بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن عَلِي الكِنَانِي العَسقَلاَنِي (ت 852ه‍).(صاحب فتح الباري)


والثَّاني: الفَقيهُ أَبُو العَبَّاس أحمَد بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن عَلِي ابن حَجَر الهَيتَمِيُّ المكِّيُّ (ت 974ه‍)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Nov, 13:46


قال الإمام زرُّوق (ت899هـ):

وَأُصُولُ العِلْمِ ثَلَاثَةٌ:

1. الحَدِيثُ، وَلَا يُؤْخَذُ إِلَّا عَنْ ثِقَةٍ مَأْمُونٍ ضَابِطٍ حَافِظٍ.

2. وَالفِقْهُ، وَلَا يُؤْخَذُ إِلَّا عَنْ نَزِيهٍ فَصِيحٍ عَارِفٍ بِالإِشْكَالَاتِ وَحَلِّهَا.

3. وَالتَّصَوُّفُ، لَا يُؤْخَذُ إِلَّا عَنْ وَرِعٍ مُتَّبِعٍ، أَوْ تَقِيٍّ عَالِمٍ بِالحَقِّ.

النصحة الكبرى (ص21)

منقول

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Nov, 04:33


*فائدة*
بہت دفعہ ہم عبارت میں بعض الفاظ کا لغوی معنی تلاش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ مکمل جملہ کی صورت میں ایک ضرب المثل یا کہاوت یا باقاعدہ ایک اصطلاح ہوتی ہے۔

*مثال* امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: قُلْتُ: مَنْ غَرَائِبِه المُنْفَرِدِ بِهَا حَدِيْثُ الأَعْمَالِ عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَرَ، *وَقَدْ جَازَ القَنْطَرَةَ*، وَاحْتَجَّ بِهِ أَهْلُ الصِّحَاحِ *بِلاَ مَثْنَوِيَّةٍ*
[الذهبي، شمس الدين ,سير أعلام النبلاء ط الرسالة ,5/295]

اس میں وقد جاز القنطرة کا کیا معنی ہوگا؟
اس کا لغوی معنی ہے؛ *اس نے پل پار کر لیا۔* یا اس شخص نے یہ پل عبور کر لیا ہے یعنی دشوار مرحلہ طے کر لیا ہے۔

لیکن یہ یہاں اس لغوی میں مستعمل نہیں بلکہ یہ باقاعدہ ایک اصطلاح ہے۔ جاز القنظرۃ کا محاورہ محدثین کے ہاں ان کے حق میں بولا جاتا ہے جن پر جرح تو ہوئی ہو لیکن جرح غیر موثر ہو ۔ اور جرح کے باوجود وہ ثقہ و ثبت ہو۔
اس راوی کی عدالت مشہور، ضبط مضبوط اور اس کی احادیث قابل احتجاج ہو تو اس وقت یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

*چند حوالہ جات*
وقد كان أبو الحسن المقدسي *يقول في الرجل الذي يخرج عنه في الصحيح هذا جاز القنطرة، يعني لا يلتفت إلى ما قيل فيه*
[ شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري، ٢١/١]

وَقد كَانَ الشَّيْخ أَبُو الْحسن الْمَقْدِسِي يَقُول *فِي الرجل الَّذِي يخرج عَنهُ فِي الصَّحِيح هَذَا جَازَ القنطرة يَعْنِي بذلك أَنه لَا يلْتَفت إِلَى مَا قيل فِيهِ*
[ فتح الباري لابن حجر، ٣٨٤/١]

نقل بن دَقِيق الْعِيد عَن بن الْمُفَضَّلِ وَكَانَ شَيْخَ وَالِدِهِ أَنَّهُ كَانَ *يَقُولُ فِيمَنْ خُرِّجَ لَهُ فِي الصَّحِيحَيْنِ هَذَا جَازَ القنطرة*
[ فتح الباري لابن حجر، ٤٥٧/١٣]

اور بلامثنویة ای بلا استثنا
اس کا مطلب بنے گا غير معنوية بلا استثناء کے معنی میں ہے یعنی اہل صحاح نے بلا استثناء ان سے احتجاج کیا ہے۔ کسی روایت یا کسی راوی وغیرہ کا استثناء نہیں کیا..

واللہ اعلم بالصواب۔

مختلف علماء کی تفصیل کا خلاصہ

ترتیب و پیشکش
ابو الحسن محمد شعیب خان
15 جولائی 2021

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Nov, 18:44


#مطالعہ_کیجیے(109)
#اربعین

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

10 Nov, 18:44


@faizanealahazrat

شرح اربعین نوویه از مفتی احمد یار خان نعیمی

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ شرح مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح سے ماخوذ شرح اربعین نوویہ

           شرح اربعین نوویه

     شارح مشکٰوۃ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ

تحقیق و تدوین :

عمران رضا عطاری مدنی

پیش کش : مجمع التصانیف

#SHRAH #NOVI #DARSI #NISAB #NAEEMI #FOURTY #HADEES
#درسی_کتب #شرح #شرح_حدیث #اربعین

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Nov, 17:10


@faizanealahazrat
650

نبی کریم ﷺ کے عظیم الشان معجزہ رد شمس(یعنی سورج کے غروب ہونے کے بعد واپس لوٹ آنے)کے ثبوت اور معجزہ کے منکرین کے اعتراضات کے جوابات پر اپنی نوعیت کی منفرد اور ضیخم ترین کتاب

سورج پھرا الٹے قدم معجزہ رد شمس
مرتب
میثم عباس قادری رضوی
ناشر
اکبر بک سیلرز

#MEESAM #MOJZAT #SABOOT #JAWAB #RAD #BADMAZHAB

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Nov, 17:10


@faizanealahazrat
فیضان  اعلی حضرت  لائبریری
FAIZAN E ALAHAZRAT LIBRARY

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

04 Nov, 15:53


🌷 صحابہ کی توہین کرنے والا 🌷

♦️امام شمس الدین محمد سخاوی (المتوفی :902ھ) علیہ الرحمہ نے فتح المغیث عدالت صحابہ کے باب میں امام ابو زرعہ رازی (المتوفی:264)  علیہ الرحمہ کا یہ قول نقل کیا ہے :

🔹ثُمَّ أُسْنِدَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرّازِيِّ أَنَّهُ قَالَ : إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَنْتَقِصُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَاعْلَمْ أَنَّهُ زِنْدِيقٌ ; وَذَلِكَ أَنَّ الرَّسُولَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَقٌّ ، وَالْقُرْآنَ حَقٌّ ، وَمَا جَاءَ بِهِ حَقٌّ ، وَإِنَّمَا أَدَّى إِلَيْنَا ذَلِكَ كُلَّهُ الصَّحَابَةُ ، وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ يَجْرَحُوا شُهُودَنَا ; لِيُبْطِلُوا الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ . وَالْجَرْحُ بِهِمْ أَوْلَى ، وَهُمْ زَنَادِقَةُ . انْتَهَى .

🔸” جب تو کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک صحابی میں نقص تلاش کرتا ہے تو تو جان لے کہ وہ زندیق ہے ۔
کیوں کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق و سچے ہیں اور قرآن حق و سچا ہے اور ہم تک یہ قرآن اور سنتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے پہنچی ہیں وہ (صحابہ کے مخالف) چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو شریعت کے گواہ ہیں) پر جرح کریں تاکہ کتاب وسنت کو باطل کر دیں اور جب کہ وہ خود جرح کے زیادہ مستحق اور زندیق ہیں"۔

•[الكفاية في علم الرواية ص.97]
•[تهذيب الكمال في أسماء الرجال ج.19 ص.96 موسسة الرسالة]
•[فتح المغيث ج.4 ص.95]
•[]الاصابة ج.1 ص.11]

#فضائل_صحابہ (➊)
#شان_و_عظمت_صحابہ
#حرمت_و_ناموس_صحابہ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

31 Oct, 00:43


( الأئمة الأربعة وأدبهم مع سيدنا رسول الله ﷺ ورضوان الله تبارك وتعالى عليهم أجمعين )

وَكُلُّهُمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ مُلْتَمِسٌ
غَرْفًا مِنَ البَحْرِ أَوْ رَشْفًا مِنَ الدِّيَمِ

* الإمام أبو حنيفة - رضي الله عنه - قال :
( يا أكرم الثقلين يا كنز الورى ....
جد لي بجود وارضني برضاك
أنا طامع في الجود منك ولم يكن....
لأبي حنيفة في الأنام سواك )
كتاب ( فتح القدير ) للإمام الكمال بن الهمام .

* الإمام مالك - رضي الله عنه - قال للخليفة :
( هو وسيلتك ووسيلة أبيك آدم - عليه السلام - )
كتاب ( الشفا ) للإمام القاضي عياض .

الإمام الشافعي - رضي الله عنه - قال :
( فلم تمس بنا نعمة ظهرت ولا بطنت ، نلنا بها حظا في دين ودنيا ، أو دفع بها عنا مكروه فيهما وفي واحد منهما ، إلا ومحمد - صلى الله عليه وسلم - سببها ، القائد إلى خيرها ، الهادي إلى رشدها .... )
كتاب ( الرسالة ) للإمام الشافعي .

* الإمام أحمد بن حنبل - رضي الله عنه -
سأله ابنه عبد الله عن الرجل يمس قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - ويتبرك بمسه ويقبله ويفعل بالقبر مثل ذلك أو نحو هذا يريد التقرب إلى الله عز وجل ؟
فقال الإمام أحمد : لا بأس بذلك .
كتاب ( العلل ومعرفة الرجال ) للإمام أحمد بن حنبل .

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

29 Oct, 16:10


📚اگر علماء علم کی قدر کرتے 📚

♦️حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ، صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوهُ عِنْدَ أَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ فَهَانُوا عَلَيْهِمْ سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَقُولُ ‏ "‏ مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَىِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ ‏"‏ ‏.‏

"اگر اہل علم علم کی قدر کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرتے تو وہ اپنے اہلِ زمانہ کے سردار بن جاتے۔
لیکن انہوں نے اسے اہلِ دنیا پر خرچ کیا تاکہ اس سے اپنی دنیا بنائیں تو وہ ان کی نظروں میں بھی گر گئے ۔
میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ :
"جس نے آخرت کے غم کو ہی اپنا واحد غم بنا لیا اللہ اس کے لیے اس کے دنیاوی غموں میں
کافی ہو جائے گا ۔
اور جس کو طرح طرح کی دنیاوی فکروں نے الجھا دیا تو اللہ بھی اس کی پر واہ نہیں کرے گا کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہوتا ہے".

•[سنن ابن ماجہ کتاب العلم : باب الاِنْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ ر:257]

#العلم_و_العلماء 𓊈𝟏𝟒𝟑𓊉 
#فضائل_علم 
#اہمیت_علم
#اقوال_صحابہ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:37


بالخصوص  درجہ خامسہ میں مشکاۃ کے ساتھ مرآۃ کو پڑھنا  دیگر درجوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔  اس درجہ میں پڑھ لی تو فبہا ورنہ درس نظامی مکمل ہونے سے قبل  حدیث کی  ایک کتاب  مکمل مع شرح  کا مطالعہ کرہی لینا چاہیے۔  جو طلبہ کرام ابھی ثانیہ، ثالثہ یا رابعہ میں ہیں تو وہ بھی اپنے درجے میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث میں مذکور احادیث کی شروحات کو اس مرآۃ  کتاب سے  ڈھونڈ کر پڑھ سکتے ہیں ، اس سے ان کے علم میں اضافہ بھی ہوگا اور فہمِ حدیث کا مادہ بھی پڑھے گا ۔
                ••══◉☆◉༺══••
اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

•؀ *ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی شیئر کیجئے*

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:36


*مرآة المناجيح: ایک تعارفی جائزہ*

••══◉☆◉༺══••
*✍🏻 معراج عالم عطاری (بنارس)*
درجہ دورۃ الحدیث
📍مرکزی جامعۃ المدینہ ناگپور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

درس نظامی کے نصاب میں يوں تو کئی کتب احادیث داخلِ نصاب ہیں ،جن میں سے ایک مشہور و معروف کتاب مشکاۃ المصابیح بھی ہے، یہ درجہ خامسہ کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے ، اس کے مصنف شیخ ولی الدين الخطيب التبریزی رحمۃ اللہ علیہ (ت: ٧٤١ھ) ہیں ،آپ نے کئی مشہور کتب احادیث کی مرویات کو جمع کیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر کئی شروحات عربی، اردو اور فارسی زبان میں لکھی گئی ہیں، جیسے مرقاۃ المفاتیح ، ،لمعات التنقيح ، اشعۃ اللمعات ،فتح الآله في شرح المشكاة ،مرآۃ المناجیح وغیرہ۔
مرآۃ المناجیح اردو زبان میں عام فہم انداز میں علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ (ت:۱۳۹۱ھ) نے لکھی ہے، تاکہ خواص کے ساتھ عام لوگ بھی اس سے استفادہ کرسکیں !

*سبب تصنیف*
مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: عرصہ دراز سے حدیث پاک کی مشہور ومعروف کتاب مشکاۃ المصابیح جس کی مقبولیت عرب و عجم میں عام ہے، عربی فارسی اردو زبان میں اس کتاب کی بہت شرحیں لکھی گئی، لیکن میں ایسی شرح لکھنا چاہتا تھا، جو طلبہ علما و عوام مسلمین کو یکساں مفید ہو جس میں نئے نئے مذاہب اور ان کے احادیث مبارکہ پر اعتراضات کے جوابات بھی ہوں، کیوں کہ مرقاۃ اور لمعات والوں کے زمانے میں اور رنگ تھا انہوں نے اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شرحیں لکھیں لہذا زمانے کے رنگ اور اس کے فسادات کو دیکھتے ہوئے اس شرح کو لکھنے کا قصد کیا ۔
( ملخصاً ، مرآۃ المناجیح ج: ۱ ص: ١٨.١٩، مطبع، ادبی دنیا مٹیا محل دہلی )

*مرآة المناجیح کی خصوصیات*
❶ اس کتاب کو عام فہم ، اردو زبان میں لکھا گیا ہے جسےصرف علما ہی نہیں بلکہ طلبہ اور عوام اہل سنت بآسانی سے سمجھ سکتے ہے۔
❷ہر حدیث کے ترجمہ کو بھی شامل کیا ہے اور اس ترجمہ پر شرح نمبر ڈال کر ایک ایک جزئیہ کی شرح آسان انداز میں کی ہے۔ شرح نہ زیادہ لمبی ہے نہ زیادہ مختصر، عمومی شروحات معتدل انداز پر ہیں ، تاکہ بات مکمل طور پر واضح ہو جائے۔
❸بعض جگہ جن احادیث کے متعلق کوئی واقعہ یا نصیحت ہے تو اس کو بھی بیان فرمایا ۔
❹اِن احادیث میں سے جن سے احکام ومسائل کا استنباط ہوتا ہے ان مسائل کو بھی زیر ِ تحریر لائے ہیں۔
❺راوی صحابی کے مختصر حالات کو بیان کیا ہے۔
❻حدیث پر وارد ہونے والے مستشرقین، دیابنہ، وہابیہ اور دیگر فرقۂ باطلہ کے اعتراضات کا ردّ بھی کیا ۔
❼ کئی مقامات پرمصنف نے شرح میں عاشقانہ انداز پر گفتگو بھی کی ہے، جسے پڑھ سن کر عشق رسول میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے ایک مقام پر لکھتے ہیں : اگر ہماری کھالوں کے جوتے بنیں اور رشتہ جان کے تسمے اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اسے استعمال فرمائیں تو ان کے حق کا کروڑواں حصہ ادا نہ ہو۔ ( مرآۃ المناجیح، ج:۳، ص:۶۸)
یہ چند چیزیں زیر نظر رہیں حالاں کہ یہ کتاب اور بھی بہت خوبیوں کی جامع ہے، اس کا مطالعہ ہر طالب علم کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگا ۔

*شرح حدیث کیوں پڑھیں ؟*
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : السنة مفسّرة للقرآن، ومبيّنة له. سنت(حدیث) قرآن کی تفسیر اور اس کی وضاحت کرتی ہے۔
(جامع لعلوم الامام احمد، ج:۵، ص:۹۰)
اور ہمیں حدیث سمجھنے کے لیے بزرگان دین کی لکھی گئی شروحات پڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ہم عربی زبان کے اسلوب سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہم عربی تعبیرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس طور پر کہ حدیث پاک میں بعض جگہ ایسی روایات آئی ہیں جن کی مراد ہم پر واضح نہیں ہوتی، پھر اگر ہم شرح حدیث نہ دیکھیں تو ان کا سمجھنا مشکل ہوگا ، اس طرح حدیث سے مُستَخْرَج مسائل کی فہم بھی عام شخص کے لیے بے حد دشوار ہے جب کہ شرح میں
یہ مسائل بھی مل جاتے ہیں۔
مرآۃ المناجیح مکمل کیسے پڑھیں؟
اگر آپ چاہیں تو ایک سال سے کم مدت میں آپ مرآۃ المناجیح کی آٹھ جلدیں بآسانی پڑھ سکتے ہیں
اس طور کہ ایام تعلیم تقریبًا دس ماہ ہوتے ہیں آٹھ جلدوں میں سے ہر جلد کے 550 صفحات فرض کریں، تقریبًا آٹھ جلدیں 4400 صفحات کی ہوں گی، پھر ان صفحات کو دس مہینے پر تقسیم کریں تو ہر مہینہ تقریبًا 440 صفحات بنیں گے، پھر اگر ان440 صفحات کو یومیہ تقسیم کریں تو تقریباً ایک دن کے15 صفحات بنیں گے ، اس طرح روزانہ مرآۃ المناجیح سے 15 صفحات مطالعہ کریں تو محض دس ماہ کی مختصر مدت میں ہم مرآۃ المناجیح کی تمام جلدوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:29


    مشہور محدث علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 852ھ/1449ء) بیان کردہ حدیث کا ذکر یوں کرتے ہیں: أخرج أبوداود من حدیث سھل بن معاذ بن أنس الجهني عن أبيه بسند ضعيف۔"
ترجمہ: امام ابو داؤد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سہل بن معاذ بن انس جُہنی  کی روایت ضعیف سند کے ساتھ نقل کی۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    اور علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ  جب اُس روایت کو ذکر کرتے ہیں، جس میں صرف "وبرکاتہ" تک سلام موجود ہےاور جس پر فقہائے احناف نے اعتماد کر کے مسئلہ بیان کیا، تو اُس روایت کے متعلق لکھا: "أخرج أبو داود والترمذي والنسائي بسند قوي عن عمران بن حصين۔"
ترجمہ: امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام نسائی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم نے حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  سے قوی سند کے ساتھ اِس حدیث کو روایت کیا۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    دوسری روایت اور اُس کا جواب:
     (2) امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 364ھ/974ء) روایت کرتے ہیں: "كان رجل يمر بالنبي صلى اللہ عليه وسلم يرعى دواب أصحابه، فيقول: السلام عليك يا رسول اللہ! فيقول له النبي صلى اللہ عليه وسلم: وعليك السلام ورحمة اللہ وبركاته ومغفرته ‌ورضوانه۔"
ترجمہ: ایک جانور چَرانے والے صاحِب،  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ جب گزرتے تو یوں سلام کرتے:السلام علیک یارسول اللہ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جواباً فرماتے: وعليك السلام ورحمة الله وبركاته ومغفرته ‌ورضوانه۔
(عمل الیوم واللیلۃ، صفحہ 151، باب منتھی رد السلام، مطبوعہ دار الارقم، بیروت)

    اِس حدیثِ مبارک پر تبصرہ کرتے ہوئے  علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: "أخرج ابن السني في كتابه بسند واہ ۔"
ترجمہ: امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے  اپنی کتاب میں اِس حدیث کی  واہی یعنی  بہت کمزور سَنَد سے تخریج کی ہے۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 676ھ/1277ء) اِس روایت کا سَنَدِی معیار بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں: روينا في کتاب ‌ابن ‌السني، باسناد ضعیف عن أنس رضي اللہ عنه قال: "كان رجل يمر بالنبي صلى اللہ عليه وسلم۔۔۔الخ۔"
ترجمہ: ہم نے امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب میں ضعیف سند کے ساتھ، حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کیا کہ ایک جانور چَرانے والے صاحب،  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔الخ۔
(الاذکار المنتخبۃ من کلام سید الابرار، باب کیفیۃ السلام، صفحہ 196، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

    تیسری  روایت اور اُس کا جواب:
(3) شعب الایمان میں ہے:’’عن زيد بن أرقم، قال: كان النبي صلى اللہ عليه وسلم إذا سلم علينا، فرددنا عليه السلام قلنا:وعليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرتہ۔"
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہمیں سلام کرتے تو ہم یوں جواب دیتے: وعليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرتہ۔
(شعب الایمان، جلد11، فصل فی کیفیۃ السلام، صفحہ 247، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    اِس کے متعلق حافِظ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا: "أخرج البيهقي في الشعب بسند ضعيف أيضا من حديث زيد بن أرقم۔"
ترجمہ: امام بیہقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شعب الایمان میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث کی تخریج کی۔
(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    نتیجہ!
     (1) "وبرکاتہ" تک سلام والی روایات سنداً قوی اور اِس پر اضافے والی ضعیف ہیں۔
    (2) چند روایات میں "برکاتہ" پر اضافہ ثابت ہے، جبکہ دیگر روایات میں اضافے پر "ممانعت" موجود  ہے ۔ اجازت و ممانعت دونوں کی روایات ہوں تو ممانعت کو ترجیح ہوتی ہے  ، اِسی وجہ سے فقہائے احناف نے بھی "لاینبغی " یا "الافضل للمسلم" کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

    لہٰذا سلام اور جواب، دونوں میں "برکاتہ" تک کہنا چاہیے، "ومغفرتہ" کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔
 
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

28 Oct, 18:29


سلام میں "وبرکاتہ" کے بعد "و مغفرتہ" بھی کہنا چاہیے یا نہیں ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7604
تاریخ اجراء:15ربیع الآخر 1443ھ/21نومبر 2021

دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)

سوال
    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں  کہ جب کسی مسلمان سے ملاقات ہو، تو سلام کرتے ہوئے "ومغفرتہ"  کا اضافہ کرنا چاہیے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سلام اور جواب، دونوں میں "برکاتہ" تک کہنا چاہیے، "ومغفرتہ" کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں ارشاد فرمایا:
﴿ وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَااِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا﴾
ترجمہ کنزالعرفان: "اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے، تو تم اس سے بہتر لفظ سے جواب دو یا وہی الفاظ کہہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔"
(پارہ5، سورۃ النساء، آیت86)
  
اِس کے تحت ابو السعود علامہ محمد بن محمد عَمادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 951ھ/1544ء) لکھتے  ہیں " بأن تقولوا وعليكم السلام ورحمة اللہ إن اقتصر المسلم على الأول وبأن تزیدوا  وبركاته إن جمعها المسلم وهي النهاية۔"
ترجمہ: یعنی اگر مسلمان صرف " السلام علیکم" کہے تو تم کہو "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ" اور اگر وہ دونوں کو جمع کرے، (یعنی یوں کہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ) تو تم "برکاتہ" کا اضافہ کرو اور یہ انتہا ہے۔
(تفسیر ابی السعود، جلد2، صفحہ 211، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
    شعب الایمان میں ہے: "سلم عليه رجل، فقال: سلام عليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرته، فانتهره ابن عمر، وقال:حسبك إذا انتهيت إلى وبركاته۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو ایک شخص نے یوں سلام کیا: سلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ" تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا کہ جب تم "وبرکاتہ" تک پہنچ جاؤ ،  تو اتنا   سلام   ہی تمہیں کافی ہے۔
(شعب الایمان، جلد11، فصل فی کیفیۃ السلام، صفحہ 247، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/1836ء) بحوالہ فتاویٰ تاتارخانیہ لکھتے  ہیں: الأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاته ‌والمجيب كذلك يرد، ولا ينبغي أن يزاد على البركات شيء۔"
ترجمہ: مسلمان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ یوں کہے: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ"  اور جواب دینے والا بھی ایسے ہی کہے اور "برکاتہ" کے بعد کسی حرف کا اضافہ مناسب نہیں۔
(ردالمحتار مع درمختار، جلد9، کتاب الحظر و الاباحۃ، صفحہ683، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاویٰ عالَمگیری میں ہے: "لا ينبغي أن يزاد علی ‌البركات شيء، قال ابن عباس  رضي اللہ عنهما لكل شيء منتهى ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط۔"
ترجمہ: "برکاتہ" کے بعد کسی حرف کا اضافہ کیا جانا مناسب نہیں۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کی ایک انتہاء ہے اور سلام کی انتہاء صیغہِ "برکات" پر ہے۔
(الفتاوى الھندیۃ، جلد5، الباب السابع فی السلام ، صفحہ 325، مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: "بہتر یہ ہے کہ سلام میں رحمت و برکت کا بھی ذکر کرے یعنی اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکاتُہٗ کہے اور جواب دینے والا بھی وہی کہے بَرَکاتُہ، پر سلام کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اور الفاظ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔"
(بھار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ459،  مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    تحقیقِ مسئلہ:
    مطالعہِ احادیث سے تین روایتیں ایسی سامنے آتی ہیں، جن میں "ومغفرتہ" کا اضافہ ہے۔ علمِ اصولِ حدیث کی روشنی میں تینوں روایات کے محدثین نے جوابات دیے  ہیں۔
پہلی روایت اور اُس کا جواب:
(1) ابو داؤد شریف میں ہے:’’ثم أتى آخر، فقال: السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ ومغفرتہ، فقال: أربعون۔
ترجمہ: پھر ایک اور شخص آیا اور اُس نےکہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِس کےلیے چالیس نیکیاں ہیں۔
(سنن ابی داؤد، جلد7، باب فضل من بدأ السلام، صفحہ 492، مطبوعہ الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)

    یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔ اِس کی سند میں ایک راوی "عبدالرحیم بن میمون" ہے، جس کے متعلق امام ابو حاتم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: یکتب حدیثہ ولایحتج بہ ۔
ترجمہ: اُس کی حدیث لکھی جائے گی، مگر استدلال نہیں کر سکتے۔
(میزان الاعتدال، جلد2، صفحہ607، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

26 Oct, 16:20


🌻کیا آج یہ حالات نہیں 🌻

♦️امام الصوفیہ حضرت سہل بن عبداللہ تستری (المتوفی :283ھ)علیہ الرحمہ صاحب فراست تھے ان کی فراست نظر اس قول میں دیکھیں فرماتے ہیں :

🔹عَلَيْكُمْ بِالِاقْتِدَاءِ بِالْأَثَرِ وَالسُّنَّةِ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنَّهُ سَيَأْتِي عَنْ قَلِيلٍ زَمَانٌ إِذَا ذَكَرَ إِنْسَانٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والاقتداء به في جميع أحوال ذَمُّوهُ وَنَفَرُوا عَنْهُ وَتَبْرَءُوا مِنْهُ وَأَذَلُّوهُ وَأَهَانُوهُ.

🔸"تم پر اثر و سنت کی اقتدا کرنا لازم ہے، کیونکہ ڈر ہے کہ عنقریب وہ زمانہ آئے گا جب کوئی انسان حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام احوال میں آپ کی اقتدا اور پیروی کرنے کا ذکر کرے گا تو لوگ اس کی مذمت کریں گے اور اس سے نفرت کریں گے اور اس سے برات اختیار کرلیں گے اور وہ اسے ذلیل ورسوا کریں گے".

•[تفسیر القرطبی سورۃ الانعام : 151-153 ج.7 ص.139 اردو ج.4 ص.175]

📌اس قول کی تشریح میں میں کچھ نہیں کہوں گا آج کل جو حال ہے وہ آپ سب پر عیاں ہیں ۔


#اتباع_سنت ⊰24
#سنت_کی_اہمیت_و_فضیلت
#مقام_سنت #اتباع_کتاب_سنت
#سنت_اور_اسلاف
#صوفیہ_اور_سنت
#اتباع_شریعت
#شریعت_و_طریقت
#کتاب_الفتن #الفتن
#علامت_قیامت
#قرب_قیامت

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

26 Oct, 16:12


📚 دین پر قائم رہو اور علم حاصل کرو 📚

♦️حضرت عبد اللہ بن مسعود ہی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

🔹تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ، وَقَبْضُهُ أَنْ يَذْهَبَ أَهْلُهُ، أَلَا وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَالتَّعَمُّقَ وَالْبِدَعَ ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ

🔸"تم علم سیکھ لو اس سے پہلے کہ اسے قبض کر لیا جائے اور اس کا قبض کرنا یہ ہے کہ اہل علم اٹھ جائیں (فوت ہو جائیں ) خبردار تم کلام میں غلو کرنے ، اس کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے (یا چرب زبانی سے باتیں کرنے ) اور بدعت سے بچو، اور تم پر قدیم اول (العتیق : ابتدائی پرانا دین طریقہ صحابہ) کو پکڑنا لازم ہے".

•[تفسیر القرطبی سورۃ الانعام : 151-153 ج.7 ص.138 اردو ج.4 ص.173]

#عقائد ⧼⑥②
#احقاق_حق_و_ابطال_باطل
#اہل_سنت_اہل_جنت
#اہل_حق
#رد_بدمذہبیت
#اہل_بدعت
#رد_الحاد

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

26 Oct, 08:45


*تدریسِ قرآن صدقہ جاریہ ہے*
حضرت ابوسعید خدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے
(مَنْ عَلَّمَ آيَةً مِّنْ كِتَابِ اللّٰهِ أَوْ بَابًامِِّنْ عِلْمٍ أَنْمَى اللّٰهُ أَجْرَهُ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)
یعنی : جو شخص قرآن مجیدکی کوئی آیت یاعِلم کاکچھ حصہ سکھائے تواللہ تعالٰی اس کے ثواب کوقیامت تک بڑھائےگا۔
(جامع ترمذی )

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 16:32


🌻 فرشتوں کو نماز پڑھا رہے ہیں 🌻

♦️حضرت حفص بن عبد اللہ رحمہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے امام المحدثین حضرت
ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا کہ وہ پہلے آسمان پر فرشتوں کو نماز پڑھا رہے ہیں ۔

میں نے پوچھا: اے ابو زرعہ ! آپ کو یہ اعزاز و اکرام کیسے ملا ہے؟

اُنہوں نے ارشاد فرمایا:
”میں نے اپنے ہاتھ سے دس (10) لاکھ حدیثیں لکھی ہیں اور میں ہر حدیث میں درود پاک پڑھا کرتا تھا اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جو مسلمان ایک مرتبہ مجھ پر درود شریف بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے".

•[شرح الصدور ص.125]
•[بڑھاپے میں یاد خدا ص.1]

#ما_فعل_الله_بك ⧼𝟜𝟡⧽
#اللہ_نے_آپ_کے_ساتھ_کیا_معاملہ_کیا
#خواب_میں_دیکھا_گیا
#بعد_وصال_کیا_بیتی
#محدثین_کرام
#فضائل_درود_و_سلام
#پڑھو_درود

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:46


اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ یہ روایت انہوں نے اپنے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کی ہے اور ان کے متعلق یہ بات رجال حدیث کے یہاں مسلم ہیں کہ اگر وہ اپنے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے کوئی روایت بیان کریں تو یہ خطا کر جاتے ہیں چونکہ یہ روایت بھی انہوں نے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے ہی بیان کی ہے لہذا غالب ظن ملحق بالیقین ہے کہ ان سے اس روایت میں خطا ہوئی
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب قرائن اس بات پر دال ہیں کہ یہ روایت منکر ہے ۔
نیز یہ کہ محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی جو اس سند کے اصل راوی ہیں ان پر اصحاب جرح و تعدیل نے کافی کلام کیا ہے نیز انہوں نے فرمایا کہ محمد بن عمر بن علقمہ اللیثی سے مروی یہ اثر درحقیقت حدیث نہیں بلکہ امام زہری رحمہ اللہ کا کلام ہے یعنی ان کے مراسیل سے ہے جسے محمد بن عمر بن علقمہ اللیثی نے حدیث میں داخل کر دیا ہے ۔

رہا امام زہری رحمہ اللہ کے مراسیل کا مسئلہ تو اس بارے میں حاصل کلام یہ ہے کہ اگر ان کے مراسیل ابو الاسود یتیم بن عروہ جیسے غیر معتمد علیہ راویوں سےمروی ہوں تو ان کی حیثیت ہوا سے بڑھ کر نہیں ۔ نیز اس تعلق سے جو کچھ بھی شواہد و قرائن پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کہ بیت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے جلانے کا واقعہ من گھڑت ہے رافضیوں کا وضع کردہ ہے رہا دھمکی کا مسئلہ تو یہ جس حدیث اور جس روایت میں آیا ہے اس کی پوری تفصیل اوپر مذکور ہے اس سے بخوبی واضح ہے کہ یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے لہذا اس طرح کی روایتوں کا سہارا لے کر حضرت شیخین بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق طعن و تشنیع کا دروازہ کھولنا یا ان کے حق میں بدگمانی کرنا سوائے گمراہی کے کچھ نہیں ہے ۔

ابوالقاسم مصباحی سنبھلی
ربیع الآخر/ ١٤٤٦ھ

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:46


رافضیوں کی طرف سے عائد کردہ ایک الزام کا جواب بلفظ دیگر واقعہ تحریق بیت فاطمہ کی حقیقت

رافضیوں کی طرف سے حضرت شیخین رضی اللہ عنہما پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ بیعت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے موقع پر انہی کے حکم پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ کے گھر کو جلا دیا اس الزام سے ان کا مقصد حضرات شیخین کی شان میں گستاخیاں کرنا ہے نیز اس کو جائز ٹھہرانا ہے اور بھولے بھالے لوگوں کو ان کے متعلق بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قصہ کھلا ہوا بہتان ہے اس کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ اس طرح کی کوئی صحیح روایت کسی کتب حدیث میں موجود نہیں اور جو کچھ روایتیں اس طرح کی ہیں وہ سب رافضیوں کی وضع شدہ ہیں
رہا مخالفین کا یہ کہنا کہ اس طرح کی ایک روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ہے
تو ہم کہیں گے کہ اس روایت میں اور اوپر مذکور قصہ میں بہت فرق ہے اس روایت میں گھر جلانے کا ذکر نہیں بلکہ اس میں فقط اتنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ملی کہ چند لوگ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں جمع ہوتے ہیں چنانچہ آپ تشریف لائے اور آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ ( جو خود ان سے نالاں تھیں لیکن حسن اخلاق کی بنیاد پر ان کو صراحتاً منع نہیں کر پاتی تھیں )
سے فرمایا کہ اگر ان لوگوں نے یہاں جمع ہونا ترک نہ کیا تو میں ضرور اس گھر کو ان کے اوپر جلا دوں گا یعنی فقط دھمکی کا ذکر ہے اس فعل کے وقوع کا نہیں نیز یہ دھمکی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے نہیں تھی بلکہ بقول شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے یہ دھمکی ان لوگوں کے لیے تھی جو اس گھر میں جمع ہو رہے تھے ۔
الحاصل شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب مستطاب تحفہ اثناعشریہ میں اس حدیث پر درایتا کافی بحث کی ہے من شاء التفصیل فلیراجع الیہ
انشاءاللہ ہم اپنے اس مختصر مضمون میں مختصرا اس اثر پر روایتا یعنی سندا و متنا بحث کریں گے ۔
یہ روایت متعدد علل قادحہ پر مشتمل ہے ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں

اول یہ کہ یہ روایت مرسل خفی ہے کیونکہ نہ تو راوی وقت قصہ وہاں موجود تھا بلکہ وہ تو اس وقت مدینہ میں بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی اس نے اس واقعہ کو کسی ایسے شخص سے مسندا روایت کیا جو اس واقعہ کا مشاہد ہو
الحاصل یہ روایت مرسل خفی ہے اس پر اعتماد اصول حدیث کے ضابطوں کے مطابق اسی وقت کیا جا سکتا ہے جبکہ کسی اور روایت میں تحدیث کی صراحت مل جائے جیسا کہ اہل علم پر واضح ہے اور ایسی کوئی اور روایت موجود نہیں ۔

ثانیا یہ کہ یہ روایت منکر ہے اور خود اس کی سند میں چند ایسے قرائن موجود ہیں جو اس بات کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ یہ روایت منکر ہے ان میں سے چند قرائن مندرجہ ذیل ہیں ۔
١- راوی کا اپنے شیخ سے روایت میں متفرد ہونا جبکہ اس میں بے شمار لوگوں کی مشارکت متصور ہے کیونکہ راوی سمیت بے شمار لوگوں نے شیخ سے ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں یہ احادیث سماعت فرمائیں پھر ان میں سے فقط ایک ہی راوی کا اس حدیث کو روایت کرنا اس بات پر دال ہے کہ ضرور یہ روایت علت خفیہ پر مشتمل ہے ۔ مزید یہ کہ اس میں کثیر کی مخالفت بھی ہے۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کی بنیاد جس راوی(زید بن اسلم) پر ہے ان کی روایتوں کے سب سے زیادہ حافظ اور ان کے سلسلہ میں سب سے زیادہ معتمد علیہ شخص مالک بن أنس ہیں ۔ (امام) مالک نے ان سے بے شمار روایتیں نقل کی ہیں البتہ ان سے کوئی روایت اس طرح کی زید بن اسلم سے منقول نہیں ۔

تیسرا قرینہ یہ ہے کہ محمد بن بشر العبدی جو اس روایت کے راوی ہیں ان سے روایت کرنے میں خطا ہوئی ہے جیسا کہ ان سے بعض اور مقامات پر بھی ثقات سے روایت کرنے میں خطا ہوئی ہے

چوتھا قرینہ یہ ہے کہ یہ روایت سند( عن عبيد الله بن عمر عن زيد بن اسلم) یہ ایسی سند ہے کہ جس کا وجود عادتاً چند اسباب کی بنا پر عقل میں نہیں آتا

اولا تو یہ کہ عبید اللہ بن عمر کی یہ روایت جملہ روایات کی بنسبت سندا و متنا نادر ہے
ثانیا راوی اور مروی عنہ کے درمیان سخت معاصرانہ چشمک تھی جس کی وجہ سے بھی راوی کا مروی عنہ سے روایت نقل کرنا عقل میں نہیں آتا ۔
پانچواں قرینہ یہ ہے کہ یہ روایت مخالفت پر مشتمل ہے یعنی یہ کہ محمد بن بشر العبدی سے اس روایت کی سند میں خطا ہوگئی یعنی یہ کہ انہوں نے اصل راوی کے نام کو چھوڑ کر دوسرے راوی کو ذکر کر دیا۔ جیسا کہ دوسری سند سے واضح ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند محمد بن بشر العبدی پر آ کر منقلب ہو گئی یعنی یہ کہ یہ سند عن محمد بن بشر عن محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی تھی لیکن محمد بن بشر العبدی نے اپنی روایت میں محمد بن عمر بن علقمہ اللیثی کی جگہ عبید اللہ بن عمر کا ذکر کر دیا ۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:42


فتاوی شارح بخاری ، فتاوی فقیہ ملت اور فتاوی یورپ وغیرہ میں جو دھوبی والے واقعہ کے بےاصل ہونے کی بات کی گئی ہے تو ہوسکتا ہے کہ عین دھوبی کے بارے میں ہو کہ اصل واقعہ تو فاسق کا ہے اور لوگ بیان کرتےہیں دھوبی کے بارےمیں ، نفس ۔واقعہ کے انکار کی کوئی شرعی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
دھوبی والے واقعہ سے بھی عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ بارہ برس کی ڈوبی ہوئی بارات حضور غوث الاعظم کی دعا سے دولہا اور مع کل سامان کے صحیح و سالم دریا سے نکل آئی۔
اس روایت کے متعلق میرے آقا اعلی حضرت فرماتے ہیں! اگرچہ نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے. اور اس میں کوئی امر خلافِ شرع نہیں،اس کا انکار نہ کیا جائے۔

اب دھوبی والی روایت کا انکار اگر لفظ دھوبی کی وجہ سے ہو کہ ان الفاظ کے ساتھ جو عموما خطباء و واعظین بیان کرتے ہیں کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں بلکہ اصل روایت فاسق کے لفظوں کے ساتھ ہے تب تو بلکل درست ہے۔
اور اگر کوئی اسے خلافِ شرع سمجھتے ہوئے بے بنیاد اور باطل کہتا ہے تو یہ محض تعصب و جہالت ہے یا کم از کم بازِ اشہب کی غلامی سے آنکھیں پھیرنے کے مترادف ہے۔

بازِ اَشْہَب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اُڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فِکْر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرا تیرا۔۔۔

بات تو اتنی تھی کہ اس لفظ دھوبی کے ساتھ واقعہ کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں۔ تاہم اس پر یہ پروپیگنڈہ اور سازش کی جانے لگی کہ یہ سنی بریلوی لوگ تو فقط من گھڑت قصے اور کرامات ہی بیان کرتے ہیں۔تعلیماتِ اولیاء بیان نہیں کرتے جو کہ اصل ہے۔کرامت و منقبت بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔

حالانکہ کسی ولی اور برگزیدہ شخصیت کی کرامت و فضیلت کا حسبِ ضرورت وقتا فوقتا بیان و اظہار نہایت اہم ہے کہ اس سے ان ہستیوں کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور ان کی پیروی و تعلیمات پر عمل کا جذبہ نصیب ہوتا ہے۔باقی افراط و تفریط ہر جگہ ہے اس سے بچتے ہوئے ہمیں راہِ اعتدال اختیار کرنی چاہیے۔

کرامات و فضائل کا بیان اس طرح نہ ہو کہ عوام اسی پر بھروسہ کر لیں اور عمل سے غافل ہو جائیں اور نہ ہی تعلیماتِ اولیاء کو اس طرح اصل قرار دیا جائے کہ ان کے فضائل ومناقب کے انکار کی راہ ہموار کی جانے لگے۔

کرامت و فضیلت کا بیان تو قران و سنت میں موجود ہے ۔کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب بندی کے ساتھ مناقب و کرامات کا ذکر ہے۔
اگر یہ غیر ضروری ہوتا تو کبھی محدثین کرام اس کے لیے ابواب قائم نہ کرتے۔

نوٹ۔ دھوبی والی روایت، سیاق و سباق اور توجیہ وغیرہ کے متعلق کنز العلماء ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی صاحب دام ظلہ العالی کے خطبات کے مجموعہ کو (جو کتابی شکل میں "طلوعِ غوثِ اعظم" کے نام سے شائع شدہ) بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم

از۔۔۔۔ابو الایمن
منگل 8 رییع الآخر 1445
بمطابق 24 اکتوبر 2023

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

25 Oct, 01:42


دھوبی والے واقعے کی اصل


شیخ الحدیث والتفسیر استاذ محترم حضرت علامہ حامد رضا مصطفائی حفظہ اللہ کی باکمال تحریر ملاحظہ فرمائیے :

"دھوبی" لفظ کے ساتھ واقعہ نہ سہی!
"شانِ غوثِ اعظم تو ثابت ہے"

ہمارے کچھ کرم فرما وقتا فوقتا حضور سیدی غوث اعظم رحمةالله علیہ اور دھوبی والی روایت زیر بحث لاتے رہتے ہیں بالخصوص بڑی گیارویں شریف کے دنوں میں اس پر کافی پوسٹیں گردش کرتی ہیں۔
جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس بارے لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔

اور خطباء و واعظین کی اصلاح اور ان کی درست رہنمائی کرنے کی بجائے شان و مقام غوث اعظم سے منہ موڑتے نظر آتے ہیں۔
اور بہت سے تو دھوبی والی روایت کو اس انداز سے موضوع بحث بناتے ہیں کہ جیسے حضور پرنور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی تمام تر شان و عظمت کا دارو مدار صرف اسی ایک واقعہ پر ہے۔کہ اس کے غیر ثابت ہونے سے گویا عظمتِ غوثِ اعظم کا باب بند ہو جائے گا۔
لیکن یہ بھول گئے کہ۔۔۔۔

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تِرا ذِکر ہے اُونچا تیرا
مِٹ گئے مِٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اَعدا تیرے
نہ مِٹا ہے نہ مِٹے گا کبھی چرچا تیرا

کسی صاحب نے طنز و مزاح کے انداز میں ایک پوسٹ کی کہ۔۔۔ہاں بھائی وہ دھوبی والی روایت کا کیا کرنا ہے فلاں فلاں فقیہ اور عالم نے اس کو بے اصل اور باطل کہا ہے، فلاں عالم نے یہ روایت بیان کرنے سے منع کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔

میں نے کہا اگر آپ جناب کا مطالعہ اتنا ہی وسیع ہے کہ دھوبی والی روایت کا بے اصل اور باطل ہونا آپ نے جان لیا۔ تو حق یہ تھا کہ آپ خطباء و واعظین کی اصلاح کرتے اور اس روایت کے متبادل اور اس سے بھی عجیب تر بیسیوں روایات (جو کتب معتبرہ میں موجود ہیں) کا پتہ بتا دیتے تاکہ شانِ غوثِ اعظم کا اظہار بھی ہو جاتا اور اصلاحِ خطباء و عوام کا فریضہ بھی بخوبی پورا ہوتا۔

سرِ دست ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
یروی انہ کان فی زمن الغوث رجل فاسق مصر علی الذنوب ولکن تمکنت محبۃ الغوث فی قلبہ المحجوب فلما توفی دفنوہ فجاء منکر و نکیر و سالاہ من ربک و من نبیک و مادینک فاجابہما فی کل سوال بعبدالقادر فجاءھماالخطاب من الرب القدیر یا منکر ونکیر ان کان ھذا العبد من الفاسقین لکنہ فی محبۃ محبوبی السید عبدالقادر من الصادقین فلاجلہ غفرت لہ و وسعت قبرہ بمحبتہ وحسن اعتقادہ فیہ رضی اللہ عنہ “

(تفریح الخاطر فی ترجمۃ الشیخ عبدالقادر ص ٢٨ ، ٢٩ ، دعوت اسلامی عربک ویب سائٹ)
یعنی مروی ہے کہ غوث پاک کے زمانہ میں ایک فاسق آدمی تھا جو گناہوں پر اصرار کرتا تھا ، لیکن اس کے دل کے نہاں خانے میں غوث پاک کی محبت متمکن تھی ، جب اس کی وفات ہوئی تو لوگوں نے دفن کردیا ، منکر نکیر آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا رب کون ہے ، تیرے نبی کون ہیں اور تیرا دین کیاہے؟ تو اس نے انہیں ہر سوال کا جواب عبدالقادر سے دیا ، فرشتوں کو رب قدیر کی جانب سے خطاب آیا کہ اگرچہ یہ بندہ فاسقین میں سے ہے مگر میرے محبوب بندے عبدالقادر کی محبت میں صادق ہے ، تو میں نے عبدالقادر کی وجہ سے اسے بخش دیا ، اس کی قبر غوث پاک کی محبت اور ان کے بارے میں حسن اعتقاد کی وجہ سے کشادہ کردی گئی۔

یاد رہے کہ علامہ اربلی کی مذکورہ بالا کتاب
" تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر " ایک معتبر و مستند کتاب ہے۔
اعلی حضرت ، امامِ اہل سنت، الشاہ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے بھی اس سے استناد فرمایا ہے۔

:ایک روایت(کہ شبِ معراج حضرت غوث الاعظم شیخ محی الدین رحمة اللہ علیہ کی روح پاک نے حاضر ہو کر گردنِ نیاز صاحبِ لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اور خواجہ عالم صلی اللہ علیہ وسلم گردنِ غوثِ اعظم پر قدم مبارک رکھ کر براق پر سوار ہوئے) کے بارے میں حوالہ دیتےہوئے آپ فرماتے ہیں! فاضل عبدالقادر قادری بن شیخ محی الدین اربلی نے تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ میں یہ روایت لکھی ہے اور اس روایت کو جامع شریعت وحقیقت شیخ رشیدبن محمدجنیدی رحمہ اللہ کی کتاب "حرز العاشقین" سے نقل کیا ہے اور ایسے امور میں اتنی ہی سند بس( کافی) ہے۔ (اگرچہ کتبِ احادیث و سیر میں اس کا نشان تک نہیں )
(فتاوی رضویہ ج٢٨ ص٤٢٩ ، رضا فاؤنڈیشن)

فلہذا شیخ اربلی علیہ الرحمہ خود بھی معتمد ہیں اور ان کی کتاب تفریح الخاطر بھی مستند ۔

تفریح الخاطر کے مذکورہ واقعہ میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ اس میں منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے کا انکار ہے اور نہ ہی ان کی کوئی گستاخی۔
دوسری طرف احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے خوش نصیب ایسے ہیں جن سے قبر کے سوالات اصلا ہوتے ہی نہیں ہیں۔
تو اگر ربّ رحیم و کریم اپنے محبوب بندے الشیخ عبد القادر غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے نام پاک کی برکت سے نکیرین کے جواب میں ” عبدالقادر “ کہنےپر گناہگار کی مغفرت فرمادے تو اس کی رحمت سے کیا بعید ہے.

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

21 Oct, 16:05


📚 جس حدیث سے امام اعظم استدلال کریں 📚

♦️ حضرت علی بن جعد جوہری جو امام بخاری اور
امام ابوداود رضی اللہ عنہم کے استاد ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ:

أبو حنيفة إذا جاء بالحديث جاء بمثل الدرر.

"امام اعظم  ابو حنیفہ علیہ الرحمہ جس حدیث سے استدلال کرتے ہیں وہ موتی کی طرح چمکتی ہوتی ہے".

•[مسند أبي حنيفة لابن الحارث ص.229 ر:657]

#علم_حدیث 『𝟓𝟏』
#علم_جرح_و_تعدیل
#علوم_الحدیث #اصول_حدیث
#مصطلح_الحدیث
#اسماء_الرجال

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Oct, 03:45


احادیثِ احکام پر حنفی عالمِ کبیر علاء الدین مغلطائی بن قليج بن عبد الله المصري الحنفي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ:762ھ) کی اہم کتاب جس کا تعارف اور منہج بیان کرتے ہوئے مقدمہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”فقد جمعت في هذا الكتاب أحاديث الأحكام ، المحكمة النظام ، ما أجمع على تخريج أصله الستة الأعلام : البخاري ، ومسلم ، وأبو داود ، والترمذي ، والنسائي ، وابن ماجه الإمام ، ولكونه أصح صحيح يوجد من كلام المصطفى محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم.
ومتبعه إثر كل باب من أبوابه ، من الحديث مشهور الضعف بين أربابه : أبي عيسى ، والعقيلي ، وأبي الفرج ، وابن عدي ، والخطيب ، والدارقطني الذي له من هذا العلم أوفر نصيب ، وسميته :
الدر المنظوم ، من كلام المصطفى المعصوم
والله أسأل أن يجعله لي نافعاً ، ولكل من قرأه وحفظه رافعاً.“

( الدر المنظوم ، مقدمة المصنف : ٩٤ ت حسن عبجي)

ترجمہ:
"میں نے اس کتاب میں احادیثِ احکام کو جمع کیا ہے، جن کا نظام مستحکم ہے، اور جن کی اصل چھ مشہور ائمہ نے روایت کی ہے: بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، اور ابن ماجہ۔ یہ احادیث مصطفیٰ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے صحیح کلام میں شمار ہوتی ہیں۔
ہر باب کے بعد میں نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے جن کی کمزوری محدثین کے ہاں مشہور ہے، جیسے: ابو عیسیٰ، عقیلی، ابو الفرج، ابن عدی، خطیب، اور دارقطنی، جنہیں اس علم میں بڑا مقام حاصل ہے۔ میں نے اس کتاب کا نام رکھا ہے:
'الدر المنظوم، من کلام المصطفیٰ المعصوم'۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اسے میرے لیے اور ہر اس شخص کے لیے نفع بخش بنائے جو اسے پڑھے اور حفظ کرے۔

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

19 Oct, 03:45


اہم کتاب

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

14 Oct, 18:07


قال ابن الجوزي:

وكانَ خِيارُ السَّلَفِ يُؤثِرُونَ الوحدة والعُزلةَ عنِ النّاسِ اشتغالًا بالعلم والتعبد؛ إلا أنّ عُزلة القوم لم تقطعهم عن جمعة ولا جماعة ولا عيادة مريض ولا شهود جنازة ولا قيام بحق، وإنما هي عزلة عن الشر وأهله ومخالطة البطّالِين.

📙بيان تلبيس إبليس| صـ ٣٧٨

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


قلت وهذا الكتاب موجود عند بعض أصحابنا بالقاهرة وبوقف الخانقاه الصلاحية وأخبرني به عن مؤلفه أجازة شيخنا الحافظ محي الدين عبد القادر الحنفي وغيره، توفي يوم السبت أذان الظهر ودفن يوم الأحد العشرين من ذي الحجة سنة ثلاث عشرة وسبعمائة.

[غاية النهاية في طبقات القراء ,1/585]

اگر یہ جرح قابل التفات ہوتی تو امام ابن الجزری (سال وفات 833ھ)ان مکذوبات کی اجازتیں نہ لیتے

▪️دلیل سوم▪️

اس کے علاوہ ہم امام عمر بن عبدالوهاب حلبی(سال وفات 1024ھ)کا جواب بھی نقل کر کے ہیں

کہ بھجۃ الاسرار کی روایات کے متابعات بھی موجود ہیں امام یافعی امام زکی حلبی رحمہما اللہ وغیرہ ان کو ذکر کیا ہے

[,الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ,67]

🔹عمر بن عبد الوہاب حلبی کا تعارف 🔹

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عمر بن عبد الوهاب الحلبی کا مختصرا تعارف پیش کردوں

علامہ محبی دمشقی رحمہ اللہ (م1111ھ) لکھتے ہیں:

عمر بن عبد الْوَهَّاب بن ابراهيم بن مَحْمُود بن على بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن مُحَمَّد بن الْحُسَيْن العرضى الحلبى الشافعى القادرى الْمُحدث الْفَقِيه الْكَبِير مفتى حلب وواعظ تِلْكَ الدائرة كَانَ أوحد وقته فى فنون الحَدِيث وَالْفِقْه والادب وشهرته تغنى عَن الاطراء فى وَصفه

[خلاصة الأثر في أعيان القرن الحادي عشر ,3/215]

▪️دلیل چہارم ▪️

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ (سال وفات 1052ھ)سیدی اعلی حضرت، رحمہ اللہ (سال وفات 1340ھ)اسی طرح علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ(سال وفات 1304 ھ) نے امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748 ھ) سے ان کی تعریف تو نہیں کی لیکن جرح نقل نہیں یہ اس بات پر دلیل ہے کہ یہ بلا دلیل جرح مقبول نہیں

[ زبدة الآثار تلخیص بهجة الأسرار ، 27]
[فتاوی رضویہ 577/7]
[الآثار المرفوعة 67]

▪️دلیل. پنجم ▪️

سیدی اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ (سال وفات 1340ھ)فرماتے ہیں:

امام شمس الدین ذہبی مصنف میزان الاعتدال کہ علم حدیث ونقدرجال میں اُن کی جلالت شان عالم آشکار، اس جناب کے معاصر تھے اور باآنکہ حضرات صوفیہ کرام کے ساتھ اُن کی روش معلوم ہے سامحنا اﷲ تعالٰی وایاہ

[فتاوی رضویہ 574/7]٨

معلوم ہوا امام ذھبی رحمہ اللہ صوفیہ کے متعلق متشدد تھے

اسی چیز کو ان کے شاگرد علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ (سال وفات 771ھ) نے بھی بیان کیا

فلقد اكثر الوقيعة في اهل الدين اعني الفقراء الذين هم صفوة الخلق

[السبكي، تاج الدين، قاعدة في المؤرخين، ٦٦]

نیز امام شطنوفی رحمہ اللہ کے معاصر بھی تھے لہذا ان کی یہ جرح مقبول نہیں

▪️دلیل ششم ▪️

صراحۃ علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ(سال وفات 1304ھ) نے فرمادیا کہ یہ امام. ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ) کی غلط فاحش ہے

[اللكنوي، ,الآثار المرفوعة ,66]

🔹امام ابن حجر عسقلانی کی معتدلانہ رائے🔹

امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ(سال وفات 852ھ)فرماتے ہیں:

أما ما يتعلَّق بالبهجة، فقد طالعتُ أكثرها، فما رأيتُ الأمرَ كما ذكره الحافظُ ابن رجب على إطلاقه، بل هي مشتملة على أقسام:

القسم الأول: ما لا منابذةَ لقاعدةِ الشَّريعة فيه بحسب الظَّاهر، بل جائزٌ شرعًا وعقلًا، وهذا معظم الكتاب، فإنَّ ظهورَ الخوارق على البشر واقعة في الوجود، ولا ينكِرها إلا معانِدٌ.

القسم الثاني: منابِذٌ لقوانين الشَّريعة في الطاهر، فإن أمكن حملُه بالتَّأويلِ على أمر شائع فذاك، وإلا فينبغي في اجتنابه وتحسين الظَّنِّ بقائله يحتاجُ إلى أن يدَّعي أنَّ ذلك صَدَر في حال غَيْبَةٍ له مِنْ غير اختيار.

والقسم الثالث: ما تردَّد بين الأمرين، فهذا ينبغي الجَزْمُ بحمله على لمحمَلِ الصَّحيح ولو بالتأويل، بخلاف الذي قبله، فإنَّه يجوزُ أن يكون غير ثابتٍ.

ولا شكَّ أنه مَنْ ليست له بصيرةٌ بنقد الرواة ثمَّ قصد الإكثار، فإنَّه يصير حاطِبَ ليل يجمع الغثَّ والسَّمينَ وهو لا يدري، وهذا حال جامع "البهجة".

فلا يضرّ ما وقع في هذه"البهجة" مما ينسب إليه، لأنّه إن كان على قانون الشريعة فنسبته إليه جائزة،وما عدا ذلك، إن كان ثابتًا عنه حمل على أنَّه صدر منه في حال غيبته، وإن كانت أحواله الغالبة لم تكن له فيها غيبة، وإن لم يكن ثابتًا فالعهدة على ناقله؛ والغرض تعظيم شأنه؛ وهو بلا شكّ يستحقّ التعظيم،

[ الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر، ٩٤١/٢]
[مسائل أجاب عنها الحافظ ابن حجر العسقلاني , 18]

خلاصہ:

علامہ شطنوفی رحمہ ثقہ ہیں البتہ انہوں نے چونکہ احاطہ و اکثار کا ارادہ کیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جہاں جامعیت و احاطہ ہوتا ہے وہاں نقد کم ہوتا ہے اور غث وسمین بھی جمع ہوجاتے ہیں

لہذا اس کتاب میں بھی بعض مجہول راویوں کی وجہ سے کچھ غیر ثابت قصے اگئے ہیں جن پر ابن رجب(سال وفات 795ھ)ذھبی(سال وفات 748ھ)و ابن الوردی(سال وفات 739ھ) نے جرح کی

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


البتہ حتی الامکان اس طرح کے چیزوں کے اچھے محمل نکالے جائیں
بہرحال دونوں آراء سامنے اگئیں
(1)یہ جرح ہی درست نہیں
(2)جرح بعض صرف واقعات پر ہے اکثر کتاب قانون شریعت کے موافق ہے
واللہ اعلم بالصواب

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


🔹صاحب بهجة الْأَسْرَار کی توثیق🔹

تحریر :#زبیرجمالوی
27/11/2021ھ

🔹علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ🔹

علامه ابو الحسنات محمد عبد الحي لکھنوی رحمہ الله ( سال وفات 1304ھ) حدیث صلوۃ الرغائب میں موجود مجروح راوی ابن جھضم الھمدانی (سال وفات 414ھ) پہ کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

قلت قد توهم بعض أَبنَاء عصرنا بمطالعة الْمِيزَان وَلسَانه إِن وَاضع حَدِيث صَلَاة الرغائب هُوَ مؤلف بهجة الْأَسْرَار الَّذِي هُوَ عُمْدَة الْكتب الْمُؤَلّفَة فِي مَنَاقِب السَّيِّد عبد الْقَادِر الجيلاني وَغَيره من الأكابر وَهُوَ توهم فَاسد* فَإِن ابْن جَهْضَم الَّذِي اتهمَ بِوَضْع ذَلِكَ الحَدِيث تقدم على السَّيِّد الجيلاني مندرج فِي سلسلة أسانيده كَمَا مر منا نَقله وَهُوَ من رجال الْمِائَة الْخَامِسَة ومؤلف بهجة الْأَسْرَار الْمُشْتَمل على مَنَاقِب السَّيِّد الجيلاني وَغَيره من الْأَبْرَار من رجال الْمِائَة السَّابِعَة مُتَأَخّر عَن السَّيِّد الجيلاني كَمَا لَا يخفى على من طالع الْبَهْجَة

فَإِن كَانَ مُرَاد الذَّهَبِيّ من بهجة الْأَسْرَار هُوَ هَذَا فَهُوَ غلط فَاحش مِنْهُ، وَإِن كَانَ مُرَاده غَيره فَتوهم من توهم الِاتِّحَاد خبط مِنْهُ.

▪️حاجی خلیفہ رحمہ اللہ (سال وفات 1067ھ)

وَقد ذكر فِي كشف الظنون أَن بهجة الْأَسْرَار ومعدن الْأَنْوَار فِي مَنَاقِب السَّادة الأخيار من المشائخ الْأَبْرَار أَوَّلهمْ الشَّيْخ عبد الْقَادِر وَآخرهمْ الإِمَام احْمَد بْن حَنْبَل للشَّيْخ نور الدَّين أبي الْحسن على بن يُوسُف اللَّخْمِيّ الشَّافِعِي الْمَعْرُوف بِابْن جَهْضَم الْهَمدَانِي مجاور الْحرم أَلفه فِي حُدُود سنة سِتِّينَ وسِتمِائَة وَجعل على أحد وَأَرْبَعين فصلا الأول فِي مَنَاقِب الشَّيْخ عبد الْقَادِر وَهُوَ طَوِيل جدا يتنصف الْكتاب بِهِ أَوله استفتح بَاب العون بأيدي محامد الله أَلفه لما سُئِلَ عَن قَول شَيْخه قدمي هَذِه على رَقَبَة كل ولي الله فَجمع مَا وَقع لَهُ مَرْفُوع الْأَسَانِيد وَفصل بِذكر أَعْيَان الْمَشَايِخ وأفعالهم وأقوالهم، ثُمَّ اخْتَصَرَهُ بعض الْمَشَايِخ بِحَذْف الْأَسَانِيد.

▪️ امام ابن الودری الجد ((سال وفات 749ھ) کا اعتراض

قَالَ الشَّيْخ عمر بْن عبد الْوَهَّاب الفرضي الْحلَبِي فِي ظهر نُسْخَة من نسخ الْبَهْجَة.
ذكر ابْن الوردي فِي تَارِيخه إِن فِي الْبَهْجَة أمورا لَا تصح ومبالغات فِي شَأْن الشَّيْخ عبد الْقَادِر لَا تلِيق إِلَّا بالربوبية انْتهى. أَي كَلَام ابْن الوردي وبمثله نقل عَن الشهَاب ابْن حجر الْعَسْقَلَانِي.

▪️ عمر بن عبد الوھاب الحلبی کا جواب (سال وفات 1024ھ)

وَأَقُول مَا المبالغات الَّتِي عزيت إِلَيْهِ مِمَّا لَا يجوز على مثله، وَقد تتبعتها فَلم أجد فِيهَا نقلا إِلَّا وَله فِيهِ متابعون وغالب مَا أوردهُ فِيهَا نَقله اليافعي فِي أسى المفاخر وفى نشر المحاسن وَروض الرياحين وشمس الدَّين الزكي الْحلَبِي أَيْضا فِي كتاب الْأَشْرَاف وَأعظم شَيْء نقل عَنهُ إِنَّه أحيي الْمَوْتَى كإحيائه الدَّجَاجَة، ولعمري أَن هَذِه الْقِصَّة نقلهَا تَاج الدَّين السُّبْكِيّ، وَنقل أَيْضا عَنِ ابْنِ الرِّفَاعِي وَغَيره وَأَنِّي لغبي جَاهِل حَاسِد ضيع عمره فِي فهم مَا من السطور وقنع بذلك عَن تَزْكِيَة النَّفس وإقبالها على الله أَن يفهم مَا يُعْطي الله أولياءه من التصريف فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة، وَلِهَذَا قَالَ الْجُنَيْد: التَّصْدِيق بطريقتنا ولَايَة انْتهى. أَي كَلَام الْحلَبِي انْتهى.

▪️شیخ عبد الحق محدث دہلوی (سال وفات 1052ھ)

وَذكر مؤلف زبدة الْآثَار منتخب بهجة الْآثَار أَن كتاب بهجة الْأَسْرَار كتاب عَظِيم شرِيف مَشْهُور ومصنفة من عُلَمَاء الْقِرَاءَة

▪️امام شمس الدین ذہبی (سال وفات 748ھ)

وَقد ذكره الذَّهَبِيّ فِي طَبَقَات الْقُرَّاء بقوله: على بْن يُوسُف بن جرير اللَّخْمِيّ الشطنوفي، الإِمَام الأوحد المقرئي نور الدَّين شيخ الْقُرَّاء بالديار المصرية أَبُو الْحسن أَصله من الشَّام ومولده بِالْقَاهِرَةِ سنة أَرْبَعِينَ وسِتمِائَة وتصدر للإقراء والتدريس بالجامع الْأَزْهَر، وَذكر الذَّهَبِيّ أَيْضا إِنِّي حضرت مجْلِس إقرائه فَأَعْجَبَنِي سمته وسكوته وَكَانَت لَهُ غَايَة غرام وعشق بالشيخ عبد الْقَادِر وَقد جمع فِي أخباره ومناقبه انْتهى كَلَام الذَّهَبِيّ بمحصله

▪️امام ابن الجزری (سال وفات 833ھ)

. وَذكر مؤلف الْحصن الْحصين مُحَمَّد بن مُحَمَّد الْجَزرِي فِي تذكرة الْقُرَّاء أَن مؤلف بهجة الْأَسْرَار كَانَ من أجلة مَشَايِخ مصر وَكَانَ من بَينه وَبَين الشَّيْخ عبد الْقَادِر واسطتان انْتهى مَا فِي الزبدة معربا.

▪️امام جلال الدین سیوطی (سال وفات 911ھ)

(1)

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


عَليّ بن يُوسُف بن حريز بن معضاد بن مُحَمَّد بن أَحْمد القارىء الْمَشْهُور بالشيخ نور الدّين الشطنوفي اللَّخْمِيّ الشَّافِعِي كَانَ أَصله من الشَّام من البلقاء وَولد بِالْقَاهِرَةِ فِي أَوَاخِر شَوَّال سنة 647 وَأخذ القراآت عَن تَقِيّ الدّين ابْن الجرائدي وزين الدّين ابْن الجزائرى وَغَيرهمَا والعربية عَن صَالح ابْن إِبْرَاهِيم بن أَحْمد الاسعردي إِمَام جَامع الْحَاكِم وَسمع من النجيب والصفي الْخَلِيل وَغَيرهمَا وَولي تدريس التَّفْسِير بالجامع الطولوني والإقراء بِجَامِع الْحَاكِم وَكَانَ النَّاس يكرمونه ويعظمونه وينسبونه إِلَى الصّلاح وانتفع بِهِ جمَاعَة فِي القراآت وَجمع هُوَ مَنَاقِب الشَّيْخ عبد الْقَادِر وسمى الْكتاب الْبَهْجَة قَالَ الْكَمَال جَعْفَر وَذكر فِيهَا غرائب وعجائب وَطعن النَّاس فِي كثير من حكاياته وَمن أسانيده فِيهَا وَكَانَ عَالما تقيا مشكور السِّيرَة

[ ,الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة ,4/168]

🔹امام ابن الوردی الجد 🔹

امام زین الدین ابن الوردی رحمہ اللہ (سال وفات 749ھ) فرماتے ہیں:

قَالَ الشَّيْخ الإِمَام نور الدّين أَبُو الْحسن عَليّ بن يُوسُف بن جرير بن معضاد بن فضل اللَّخْمِيّ رَحمَه الله تَعَالَى

[ ,تاريخ ابن الوردي ,2/63]

🔹امام. عفیف الدین یافعی 🔹

امام عفیف الدين یافعی رحمہ اللہ (سال وفات 768ھ) لکھتے ہیں:

الشيخ الإمام الفقيه العالم المقرىء أبو الحسن علي بن يوسف بن جرير بن معضاد الشافعي اللخمي

[,مرآة الجنان وعبرة اليقظان ,3/268]

🔹شمس الدین ابن الجزری🔹

امام ابن الجزری رحمہ اللہ (سال وفات 833ھ) لکھتے ہیں:

علي بن يوسف بن حريز بن فضل بن معضاد النور أبو الحسن اللخمي المعروف بالشطونفي الشافعي الأستاذ المحقق البارع شيخ الديار المصرية*،

[ ,غاية النهاية في طبقات القراء ,1/585]

شمس الدین داؤدی رحمہ اللہ (سال وفات 945ھ) لکھتے ہیں :

علي بن يوسف بن حريز بن معضاد بن فضل اللخمي الشطنوفي نور الدين أبو الحسن المقرئ النحوي... وكان كثير من الناس يعتقده، والقضاة تكرمه وقال ابن مكتوم: كان رئيس المقرئين بالديار المصرية، ومعدودا في المشايخ من النحاة، وله اليد الطولى في علم التفسير، وعلق فيه تعليقا. وله «كتاب في مناقب الشيخ عبد القادر الكيلاني» نفعنا الله ببركاته؛ في ثلاث مجلدات

[طبقات المفسرين للداوودي، ٤٤١/١]

🔹حاجی خلیفہ چلپی🔹

حاجی خلیفہ رحمہ اللہ (سال وفات 1067ھ) لکھتے ہیں:

الشيخ نور الدين أبو الحسن علي بن يوسف بن حريز بن معضاد بن فضل اللخمي الشافعي صاحب "بهجة الأسرار في مناقب الشيخ عبد القادر"،

[ ,سلم الوصول إلى طبقات الفحول ,5/62]

▪️شیخ خیر الدین الزرکلی (سال وفات 1396ھ) لکھتے ہیں:

علي بن يوسف بن حَرِيز بن معضاد اللخمي، أبو الحسن، الشطنوفي: عالم بالقراآت، كان شيخ الديار المصرية في عصره. من فقهاء الشافعية. أصله من البلقاء بالشام، ومولده ووفاته بالقاهرة. له " بهجة الأسرار ومعدن الأنوار

[ ,الأعلام للزركلي ,5/34]

🔹 بهجة الأسرار نامی کتابیں دو ہیں 🔹

ایک ابن جہضم ہمدانی(سال وفات 414ھ)کی ہے جو بقول. محدثین کرام صلاۃ الرغائب کی حدیث کا واضع بھی ہے اور دوسری کتاب امام شطنوفی (سال وفات 713ھ) کی ہے

اس چیز کو کم. پہلے علامہ لکھنوی رحمہ اللہ (سال وفات 1304ھ) کے حوالہ سے بھی بیان کر کے ہیں

اور الأعلام للزرکلی کے محقق ابن جھضم کی کتاب بھجة الأسرار پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وسمي كتابه " الأنوار وبهجة الأسرار " وقال: أربعون جزءا. قلت: كتاب " بهجة الاسرار " لابن جمهضم هذا، غير كتاب " بهجة الأسرار - ط " للشطنوفي " علي بن يوسف " المتوفى سنة 713 وقد جعلهما صاحب كشف الظنون، ص 256 شخصا واحدا، وبينهما ثلاثمئة عام،

[حاشية الأعلام للزركلي ,4/304]

🔹اعتراض🔹

امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ)وغیرہ نے فرمایا ہے
کہ اس کتاب میں صحیح ومکذوب سب موجود ہیں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (سال وفات 852ھ)فرماتے ہیں:
اس میں اسناد کے لحاظ سے کلام ہے

🔹جواب 🔹

امام ذھبی کی یہ جرح مقبول نہیں جب وہ خود لکھ رہے ہیں
کہ انکی مکاشفات و کرامات متواتر ہیں اور دوسری طرف امام شطنوفی(سال وفات 713ھ)کی تعریف بھی کررہے (کما ذکرنا)

پھر کیا وجہ ہے کہ بلا دلیل بھجۃ الاسرار میں جھوٹی روایات کا قول فرمایا

▪️دلیل اول▪️

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ(سال وفات 911ھ) نے بغیة الوعاة میں امام شطنوفی کی تعریف امام ابن مکتوم سے نقل کی اور ان کی کتاب بھجۃ الاسرار کا تذکرہ بھی کیا لیکن امام شطنوفی رحمہ اللہ پر امام ذھبی رحمہ اللہ کی جرح نقل نہیں کی حالانکہ اگر وہ جرح کچھ بھی قابل التفات ہوتی تو امام سیوطی رحمہ اللہ ضرور نقل فرماتے

[السيوطي ,بغية الوعاة ,2/213]

▪️دلیل دوم▪️

امام ابن الجزری رحمہ اللہ (سال وفات 833ھ)نے امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ)کی جرح نقل کی لیکن پھر فرمایا

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 17:38


وَقَالَ السُّيُوطِيّ فِي حسن المحاضرة بأخبار مصر والقاهرة عِنْد ذكر الْقُرَّاء الَّذين كَانُوا بِمصْر على بْن يُوسُف بن جرير اللَّخْمِيّ الشطنوفي الْأَمَام الأوحد نور الدَّين أَبُو الْحسن شيخ الْقُرَّاء بالديار المصرية ولد بِالْقَاهِرَةِ سنة أَربع وَأَرْبَعين وسِتمِائَة وَقَرَأَ على التقي الجرائدي والصفي خَلِيل وَسمع من النجيب عبد اللَّطِيف وتصدر للإقراء بالجامع الْأَزْهَر وتكاثر عَلَيْهِ الطّلبَة مَاتَ سنة ثَلَاث عشرَة وَسَبْعمائة انْتهى.

(2)

وَقَالَ السُّيُوطِيُّ أَيْضا فِي بغية الوعاة فِي طَبَقَات النُّحَاة على بن يُوسُف بن جرير بْن معضاد بْن فضل اللَّخْمِيّ الشطنوفي نور الدَّين أَبُو الْحسن المقرئي النَّحْوِيّ كَذَا ذكره الأدفوي. وَقَالَ: قَرَأَ الْقرَاءَات على التقي يَعْقُوب والنحو على الضياء صَالح بْن إِبْرَاهِيم إِمَام جَامع الْحَاكِم، وَسمع من النجيب وَتَوَلَّى التدريس بالجامع الطولوني وتصدر للإقراء بِجَامِع الْحَاكِم وَكَانَ كثير من النَّاس يَعْتَقِدهُ والقضاة تكرمه. مَاتَ بِالْقَاهِرَةِ يَوْم السبت تَاسِع عشر من ذِي الْحجَّة سنة ثَلَاث عشرَة وَسَبْعمائة..

▪️امام ابن مکتوم (سال وفات 747ھ)

وَقَالَ ابْن مَكْتُوم كَانَ رَئِيس المقرئين بالديار المصرية ومعدودا فِي الْمَشَايِخ من النُّحَاة وَله الْيَد الطولي فِي علم التَّفْسِير وعلق فِيهِ تَعْلِيقا وَله كتاب فِي مَنَاقِب الشَّيْخ عبد الْقَادِر الكيلاني مولده سنة سبع وَأَرْبَعين وسِتمِائَة انْتهى

▪️امام عفیف الدین یافعی(سال وفات 768ھ)

وَقَالَ اليافعي فِي مرْآة الْجنان فِي حوادث سنة أَربع عشرَة وَأَرْبَعمِائَة فِيهَا توفّي الشَّيْخ أَبُو الْحسن الْمَعْرُوف بِابْن جَهْضَم الْهَمدَانِي شيخ الصُّوفِيَّة بِالْحرم الشريف ومؤلف كتاب بهجة الْأَسْرَار فِي التصوف انْتهى.

▪️نتیجہ▪️

فَعلم من هَذِه الْعبارَات أَن ابْن جَهْضَم وَاضع حَدِيث صَلَاة الرغائب غير مؤلف بهجة الْأَسْرَار فِي مَنَاقِب السَّيِّد الجيلاني وَغَيره وَأَن بهجة الْأَسْرَار الَّذِي هُوَ من تأليف ابْن جَهْضَم غَيره فاحفظ هَذِه الْفَائِدَة الغريبة وانظمها فِي سلك النفائس العجيبة.

[اللكنوي، ,الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة , 68]

🔹امام شمس الدین ذھبی 🔹

امام ذھبی رحمہ اللہ (سال وفات 748ھ) نے اپنی کتاب المعین فی طبقات المحدثین میں بطور محدث صاحب بهجة الأسرار امام شطنوفی (سال وفات 713ھ)کا نام لکھا ہے

ومقرئ مصر نور الدّين عَليّ بن يُوسُف بن جرير الشطنوفي

[ المعين في طبقات المحدثين , 230]

آپ کتاب کے مقدمہ میں کتاب کا تعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فَهَذِهِ مُقَدّمَة فِي ذكر أَسمَاء أَعْلَام حَملَة الْآثَار النَّبَوِيَّة تبصر الطَّالِب النبيه وتذكر الْمُحدث الْمُفِيد بِمن يقبح بالطلبة أَن يجهلوهم وَلَيْسَ هَذَا كتاب بالمستوعب للكبار بل لمن سَار ذكره فِي الأقطار والأعصاروَبِاللَّهِ أَعْتَصِم وَإِلَيْهِ أنيب

[المعين في طبقات المحدثين 17]

🔹امام ابن کثیر دمشقی 🔹

علامہ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ (سال وفات 774ھ) فرماتے ہیں:

شيخ القراءات السبع الشيخ نور الدين الشطنوفى،

[ابن كثير ,البداية والنهاية,14/33]

🔹امام صلاح الدین صفدی 🔹

امام صلاح الدین صفدی رحمہ اللہ (سال وفات 764ھ) لکھتے ہیں:

(الشَّطَّنوفي) عَليّ بن يُوسُف الشَّطَّنوفي شيخ القرّاء نور الدّين توفّي رَحمَه الله تَعَالَى فِي سنة ثَلَاث عشرَة وَسبع مائَة وَهُوَ بالشين الْمُعْجَمَة والطاء الْمُهْملَة وَالنُّون وَالْوَاو وَالْفَاء وياء النِّسْبَة

[الصفدي ,الوافي بالوفيات ,22/220]

امام صلاح الدین صفدی رحمہ اللہ (سال وفات 764ھ) اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

علي بن يوسف بن حريز بالحاء المهملة والراء والياء آخر الحروف الساكنة والزاي. الشيخ نور الدين أبو الحسن الشطنوفي، شيخ القراء. قرأ القراءات على تقي الدين الجرائدي، وعلى ابن القلال، وقرأ النحو على صالح إمام جامع الحاكم.
وسمع من النجيب الحراني، وتولى التفسير بجامع ابن طولون، وتصدر للإقراء بجامع الحاك، وكان القضاة يكرمونه، *والعلماء يعظمونه، ويعتقد الناس صلاحه،* ويرون انه ممن جعل الدعاء سلاحه، وقرأ عليه جماعة وخلائق، وصفت منه له البواطن والخلائق.ولم يزل على حاله إلى أن شط المزار من الشطنوفي، وبطل ما كان يسنده منه إلى البصري والكوفي.

[الصفدي ,أعيان العصر وأعوان النصر ,3/583]

🔹إمام سراج الدین ابن الملقن 🔹

امام ابن الملقن رحمہ اللہ (سال وفات 804ھ) فرماتے ہیں:

الشيخ نور الدين أبو الحسن علي بن يوسف بن حريز بن معضاد، الشافعي اللخمي.

[ابن الملقن ,طبقات الأولياء , 246]

🔹حافظ ابن حجر عسقلانی 🔹

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (سال وفات 852ھ) لکھتے ہیں:

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 16:32


📚اس طرح حدیث حفظ کرتے 📚

🔹علامہ ذہبی علیہ االرحمہ نے ابن خزیمہ علیہ الرحمہ کے متعلق یہ الفاظ ابو علی نیشاپوری کے حوالہ سے نقل کئے ہیں کہ:

كان ابن خزيمة يحفظ الفقهيات من حديثه كما يحفظ القارئ السورة

"فقہی حدیثوں کو ابن خزیمہ اسی طرح یاد کرتے تھے جیسے کہ قاری قرآنی سورتوں کو یاد کرتا ہے" .

•[تذکرۃ الحفاظ ج.2 ص.61]

#تذکرۃ_السلف ⊰𝟑𝟕⊱
#اکابرین
#محدثین_کرام
#حفظ_حدیث

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

13 Oct, 16:27


🌻 خبر واحد کا انکار کرنے والا 🌻

♦️شیخ الاسلام فخر الاسلام بزدوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

ومن الناس من أنكر العلم, بطريق الخبر أصلا, وهذا رجل سفيه لم يعرف نفسه, ولا دينه, ولا دنياه ولا أمه, ولا أباه مثل من أنكر العيان

"جس نے خبر واحد کا انکار کیا وہ دراصل ایک بیوقوف آدمی ہے، اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتا نہ اپنے دین کو، نہ دنیا کو، نہ اپنی ماں کو، نہ اپنے باپ کو ، نہ اپنی آنکھوں کو،
یعنی خبر واحد کا انکار کرنے والا اپنی دونوں آنکھوں کے انکار کرنے والے کے مترادف ہے".

•[كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوي ط العلمية ج.2 ص.525]

#علم_حدیث 『𝟓𝟎』
#علم_جرح_و_تعدیل
#علوم_الحدیث #اصول_حدیث
#مصطلح_الحدیث
#اسماء_الرجال

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

12 Oct, 10:30


عصر حاضر میں حصول علم دین کے بغیر شارٹ کٹ (short cut) طریقے سے پیر بننے اور ایک دو چلے کاٹ کر ولایت کا دعوی کرنے والوں کے لیے حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے صد یوں پہلےارشاد فرمایا:

*پہلے فقہ سیکھو، اس کے بعد خلوت نشیں ہو! جو بغیر علم کے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ جتنا سنوارے گا اس سے زیادہ بگاڑے گا۔ لہذا اپنے ساتھ شریعت کی شمع لے لو۔*
[بہجۃالاسرار ،ذکر فصول من کلامہ مرصعابشئ، ص : ١٠٦ ]
___

محمد محمود اشرف قادری مصباحي سوتیہارا ،سیتامڑھی،بہار

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Oct, 17:57


اللہ پاک کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ شیخ الحدیث والتفسیر استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا قاضی عبد الرزاق بھترالوی علیہ الرحمہ کے مزار پر انوار پر ۔۔۔۔

حضرت کا عظیم علمی و تحقیقی کارنامہ ، سنن ابن ماجہ کی پانچ جلدوں پر مشتمل مفصل شرح ۔ ان شاءاللہ عزوجل عنقریب منظر عام پر !!!

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

08 Oct, 04:52


یہ مصر کے اخبار "الاہرام" سے ایک اقتباس ہے، جس میں 1924 میں طائف پر وہابیوں کے حملے کے دوران کیے گئے کچھ مظالم کا ذکر کیا گیا ہے۔

" وہابیوں کا ایک گروہ نے شہر طائف پر حملہ کیا، اسکولوں اور گھروں کو جلا دیا، نیک لوگوں کی قبروں کو مسمار کر دیا جن میں اس امت کے عالم حضرت عبداللہ ابن عباس کی قبر بھی شامل تھی۔

انہوں نے املاک لوٹ لیں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور علما کو قتل کیا۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے انہیں قتل کیا اور ان کی عزتیں پامال کیں۔ "

11 September 1924

منقول

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

07 Oct, 14:42


🌷 موضوع روایت بیان کرنا 🌷

♦️امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"من گھڑت حدیث(موضوع) کا علم يا ظن ہو جانے کے بعد اس کی روایت حرام ہے ۔
( سوائے اس کی حقیقت واضح کرنے والے کیلئے ) اور جو جانتے ہوئے ایسا کرے گا وہ اس حدیث (مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ) میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا۔
اس سلسلے میں یہ بھی کوئی فرق نہیں کہ اس جھوٹ کا تعلق احکام سے ہے یا ترغیب و ترہیب اور مواعظ سے ۔
کیونکہ ہر مسئلہ میں نبی اکرم ﷺ کی طرف جھوٹی حدیث منسوب کرنا حرام ہے ، تمام دانش مندوں کا اتفاق ہے، کہ کسی بھی شخص کی طرف جھوٹ بات کا انتساب حرام ہے تو نبی اکرم ﷺ کی طرف کسی بات کو غلط طور پر منسوب کرنا کتنا بڑا گناہ ہوگا".

•[شرح النووي على مسلم ج.1 ص.63]

#علم_حدیث 『𝟒𝟖』
#علم_جرح_و_تعدیل
#علوم_الحدیث #اصول_حدیث
#مصطلح_الحدیث
#اسماء_الرجال

◆❍ نقوشِ حدیث ❍◆

07 Oct, 07:25


📚 شرح مشكلات الموطأ 1-3 برواية الإمام محمد بن الحسن الشيباني ✍️ الإمام ملا علي القاري نور الدين أبي الحسن علي بن سلطان الهروي القاري 🔹تحقيق ودراسة أحمد فواز الحمير.

2,069

subscribers

1,137

photos

18

videos