بزرگوں کی صحبت انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ترقی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ان کی قربت کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان کے اخلاق و کردار کو اپنائے، اپنی زندگی میں سچائی اور عاجزی پیدا کرے، اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض افراد اس عظیم نعمت کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اپنے خودغرض مقاصد کے لیے ایسے رویے اپناتے ہیں جو نہ صرف ان کی نیتوں کی خرابی ظاہر کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے مشکلات بھی پیدا کرتے ہیں۔
یہ لوگ بظاہر بزرگوں کے خیرخواہ اور قریبی بن کر رہتے ہیں، لیکن اندرونی طور پر ان کا مقصد اپنی مصنوعی عزت اور مقام حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ عجیب و غریب حرکتوں سے گریز نہیں کرتے۔ کبھی دوسروں کی معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، تو کبھی جھوٹے واقعات گڑھ کر بزرگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل نہ صرف دوسروں کی شخصیت کو مجروح کرتا ہے بلکہ بزرگوں کے سکون اور یکسوئی میں بھی خلل ڈالتا ہے۔
ایسے افراد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بزرگانِ دین صرف ظاہری قربت کو اہمیت نہیں دیتے، بلکہ اخلاص، سچائی، اور نیت کی پاکیزگی کو فوقیت دیتے ہیں۔ بزرگوں کی صحبت میں رہنے کا حق یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنایا جائے اور دوسروں کے لیے رحمت اور خیر کا ذریعہ بنا جائے، نہ کہ دوسروں کو نیچا دکھا کر اپنے لیے مقام حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ رویے نہ صرف ان افراد کی شخصیت کو دوسروں کی نظروں میں گراتے ہیں بلکہ خود بزرگ بھی ان کی نیتوں کو سمجھ جاتے ہیں۔ سچی عزت اور مقام وہی ہے جو اخلاص، کردار کی مضبوطی، اور سچائی کے ذریعے حاصل ہو۔ جھوٹ اور دکھاوے کی بنیاد پر حاصل کی گئی عزت ہمیشہ عارضی اور ناپائیدار رہتی ہے۔
لہٰذا، ایسے افراد کو اپنی نیتوں اور اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ بزرگوں کی قربت کا مقصد دنیاوی مفادات حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے اخلاق و کردار کو بہتر بنانا اور دوسروں کے لیے فائدہ مند بننا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف دنیا میں حقیقی عزت کا سبب بنتا ہے بلکہ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
ابو بشری رحمانی