الحلقة العلمية (الهند) @alhalqatulilmia Channel on Telegram

الحلقة العلمية (الهند)

@alhalqatulilmia


علمائے اہل سنت کے تیار کردہ جوابات، عوام اہل سنت کے لئے

الحلقة العلمية (الهند) (Urdu)

الحلقة العلمية (الهند) یہ ایک ٹیلیگرام چینل ہے جو علمائے اہل سنت کے تیار کردہ جوابات فراہم کرتا ہے۔ یہاں آپ کو عوام اہل سنت کے لئے تازہ ترین علمی معلومات، مختلف موضوعات پر تجزیے اور تبصرے ملیں گے۔ یہ چینل اہل سنت کے معتقدات اور عقائد کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور علماء کی رہنمائی سے عوام کو صحیح راستے پر لے کر جاتا ہے۔ اس چینل پر مختلف عرصے کے علماء کے تجربات اور تعلیمی وضاحتیں شیئر کی جاتی ہیں تاکہ آپ اپنی روشنی کی طرف بڑھ سکیں۔ اگر آپ علم سے محبت رکھتے ہیں اور اہل سنت کی تعلیمات اور اقوال سے بخوبی واقف ہیں تو یہ ٹیلیگرام چینل آپ کے لئے ایک معاشرتہ بنانے والا تجربہ ہوگا۔ یہاں آپ کو علم کی عمق سے روشنی پھیلانے والے مواد ملیں گے جو آپ کے دینی علم میں اضافہ کریں گے۔ چینل کو منظوری دینے کے بعد، آپ مکمل اخباری راہنمائی حاصل کریں گے اور ہر روز نیا مواد حاصل کریں گے۔ سو چینل کو فوری طور پر شامل کریں اور علمی ترویج اور بہترین تعلیمی مواد سے مستفید ہوں۔

الحلقة العلمية (الهند)

06 Nov, 14:14


الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد ھاشم رضا المصباحی غفرلہ
قاضی شرع و مفتی ادارہ شرعیہ کھرگون ایم پی الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب الصحیح فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:6/11/2024

1398

الحلقة العلمية (الهند)

06 Nov, 14:14


نیز یہ حکم صرف فرائض کا بلکہ نماز جنازہ کے علاوہ ہر نماز چاہے فرض ہو یا واجب ، سنن ہوں یا نوافل سب یہی حکم ہے

چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" من فرائضها) التي لا تصح بدونها (التخريمة) قائماً وهي شرط) في غير جنازة على القادر "*

*📔(الدرالمختار ، کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلاۃ ، ص۶۲ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، نماز کے فرائض جن کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی ان میں سے تکبیر تحریمہ ہے اور یہ نماز جنازہ کے علاوہ نمازوں میں قادر پر شرط ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*" تکبیر تحریمه در هر نماز مطلقا حتى صلاة الجنازة وركوع و سجود قرات و قعود در هر نماز مطلق اگرچه نافله باشد و قیام در هر نماز فرض و واجب و نیز در سنت فجر علی الاصح "*

(فتاوی رضویہ ، کتاب الصلاۃ ، باب الاوقات ، ۵/۳۲۷ ، رقم المسئلہ ۳۰۳ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)
یعنی ، تکبیر تحریمہ ، ہر نماز میں، حتی کہ نماز جنازہ میں بھی، رکوع، سجود، قرات اور قعود ( نماز جنازہ کے علاوہ) ہر نماز میں، خواہ نفلی نماز ہو قیام، ہر اس نماز میں جو فرض اور واجب ہو اور اصح قول کے مطابق فجر کی سنتوں میں بھی

جب یہ ثابت ہوگیا کہ تکبیر تحریمہ نماز کیلئے (چاہے فرض و واجب ہو یا سنن و نوافل) شرط ہے ! فاقول ؛ وباللہ التوفیق :
شریعتِ میں شرط اگرچہ خارج شئے ہوتی ہے مگر شئے کا وجود اس پر موقوف ہوتا ہے

چنانچہ علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی ۱۰۶۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وفي الشريعة هو ما يتوقف على وجوده الشيء وهو خارج عن ماهيته "*

*📔(مراقی الفلاح ، کتاب الصلاۃ ، باب شروط الصلاة وأركانها ، ص۸۰ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الثانیہ:۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، شریعت میں شرط اس چیز کو کہتے ہیں جس کے وجود پر کسی شئے کا وجود موقوف ہو اور یہ شئے کی ماہیت سے خارج ہوتی ہے

فلہذا جب امام نے نماز عید میں تکبیر تحریمہ چھوڑ دیا تو نماز شروع ہی نہیں ہوئی اس لئے اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب
یہاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ نماز عید کی پہلی رکعت میں ثنا کے بعد پڑھے جانے والی تکبیرات زوائد اس کا قائم مقام ہوسکتی ہے
کیونکہ یہ تکبیرات اس قائم مقام ہوتیں جب کہ اولاً نماز شروع ہوئی ہوتی ، جب نماز ہی شروع نہیں ہوئی تو تکبیرات زوائد بھی کالعدم ! لان اذا فات الشرط فات المشروط

امام ظہیرالدین عبد الرشید ولوالجی حنفی متوفی ۵۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" والأصل في هذا أن المتروك ثلاثة أنواع فرض، وسنة، وواجب.ففي الوجه الأول: إن أمكنه التدارك بالقضاء يقضي وإلا فسدت صلاته؛ لأن الفرائض أركان وركن الشيء ما به قيام ذلك الشيء .... "*

*📔(الفتاوی الولوالجیہ ، كتاب الطهارة / الفصل التاسع ، ۱/۹۹ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، اس بارے میں اصل یہ ہے کہ متروک تین قسم کے ہیں ، فرض ، سنت ، واجب ؛ پہلی صورت میں قضا کے ذریعے تدارک ممکن ہوتو قضا کی جائےگی ورنہ نماز فاسد ہوگی ، کیونکہ فرائض رکن ہیں اور شئے کا رکن وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ اس شئے کا قیام ہوتا ہے

اور ملک العلماء امام علاؤالدین ابوبکر کاسانی حنفی متوفی ۵۸۷ھ فرماتے ہیں

*🖋️" والكلام في الصلاة من هذا القبيل، لأن حالة الصلاة تمنع من ذلك عادة، فكان النسيان فيها نادراً فلم يجعل عذراً؛ وكذلك ترك تكبيرة الافتتاح سهواً لأن الشروع في الصلاة يكون بها، وتركها سهواً عند تصميم العزم على الشروع فيها مما يندر، فلم يعذر "*

*📔(بدائع الصنائع ، كتاب الذبائح والصيود ، ۶/۲۴۳ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الثانیہ: ۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، نماز میں کلام کرنا اسی قبیل سے ہے کیونکہ حالت نماز عادتاً اس سے روکتی ہے فلہذا بھولنا بہت نادر ہے ، اس لئے اسے عذر نہیں مانا جا سکتا ، یہی حکم بھول کر تکبیر تحریمہ چھوڑنے کا ہے اس لئے کہ نماز اسی سے شروع ہوتی ہے تو اسے عزم افتتاح کے وقت سہوا چھوڑنا بہت نایاب ہے لہذا اسے بھی عذر قرار نہیں دیا جاسکتا ( لہذا جب سہوا عذر ترک قابل قبول نہیں تو عمدا بدرجہ اولیٰ قابل قبول نہیں ہوگا)

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲/ جمادی الاول ۱۴۴۶ھ مطابق ۵/ نومبر ۲۰۲۴م*

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____

الحلقة العلمية (الهند)

06 Nov, 14:14


*🌹 نماز عید یا کسی بھی نماز میں امام یا منفرد یا مقتدی تکبیر تحریمہ چھوڑ دے تو کیا حکم ہے ؟ تکبیر تحریمہ کی تفصیلات 🌹*
ا__(💚)____
السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهْ
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ

*اگر امام نمازِ عید میں تکبیر تحریمہ چھوڑ دے تو نماز کا کیا حکم ہوگا۔؟*
مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں اللّٰه پاک آپ کو شاد و آباد رکھے
سائل نظام اختر پیلی بھیت
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

اصح قول پر نماز جنازہ کے علاوہ تمام نمازوں کیلئے تکبیر تحریمہ شرط ہے جسے تکبیر افتتاح بھی کہا جاتا ہے ، اس کے بغیر نماز شروع ہی نہیں ہو سکتی

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

*" وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۷۴/۳)*
ترجمہ: اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کرو

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں

*" مفتاح الصلاة الطهور، وتحريمها التكبير، وتحليلها التسليم "*

*📒(الجامع للترمذی ، كتاب الصلاة ، باب ما جاء في تحريم الصلاة وتحليلها ، ص۸۹ ، رقم الحدیث ۳۳۸ ، دارالفکر بیروت)*
یعنی ، نماز کی کنجی طہارت، اس کی تحریم تکبیر کہنا، اور تحلیل سلام پھیرنا ہے

اسی لئے محقق علی الاطلاق امام کمال ابن ہمام حنفی متوفی ۸۶۱ھ شرائط نماز شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" والتحريمة : وتنعقد بكل اسم الله سبحانه مشتمل على التعظيم،غير مشوب بدعاء "*

*📔(زادالفقیر ، بیان شروط الصلاۃ ، ص۱۲۲ ، دارالبشائرالاسلامیہ)*
یعنی ، نماز کے شرائط میں سے تحریمہ ہے یہ اللہ تعالیٰ ہر اس نام پاک سے منعقد ہوتا ہے جو تعظیم پر مشتمل ہو دعا کے ساتھ مخلوط نہ ہو

اور علامہ احمد بن ابراہیم دقدوسی حنفی متوفی ۱۱۳۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" (و) سادسها : (التحريمة) أي: التكبيرة الأولى، سميت بذلك لأنها تحرم الأمور المباحة قبلها دون غيرها. وتسمى أيضا تكبيرة الافتتاح؛ لأنها تفتتح بها الصلاة، وقد عدها المصنف في الشرائط لما أن الأصح أنها شرط "*

*📔(اسعاف مولی القدیر شرح زاد الفقیر ، بیان شروط الصلاۃ ، ص۲۷۴ ، مطبوعہ اردن)*
یعنی ، نماز کی چھٹی شرط ہے تحریمہ یعنی پہلی تکبیر ، اس کا نام تحریمہ اس لئے ہے کہ یہ ان مباح امور کا کو نمازی پر حرام کردیتا ہے جو اس سے پہلے تھیں ، اس کا نام تکبیر افتتاح بھی ہے کیونکہ اسی سے نماز کی شروعات ہوتی ہے ، مصنف علیہ الرحمہ نے اسے شرائط میں شمار فرمایا کیونکہ اصح یہی ہے کہ یہ نماز کی شرط ہے

بعض حضرات نے اسے فرائض نماز میں شمار فرمایا ہے

چنانچہ امام ابو عبداللہ محمد بن محمد کاشغری حنفی متوفی ۷۰۵ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وأما فرائض الصلاة فثمان : ستة على الوفاق ، واثنتان على الخلاف . وهي : تكبيرة الافتتاح ، والقيام ، والقراءة ، والركوع ، والسجود ،والقعدة الأخيرة ، مقدار قراءة التشهد الخ"*

*📔(منیۃ المصلی ، فرائض الصلاۃ ، ص۱۶۷ ، دارالقلم دمشق ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۸ھ)*
یعنی ، نماز کے فرائض آٹھ ہیں چھ متفق علیہ اور دو مختلف فیہ : اور وہ ہیں ؛ تکبیر افتتاح ، قیام ، قرات ، رکوع ، سجود ، تشہد پڑھنے کے مقدار قعدہ اخیرہ

مگر یہ اس وجہ سے ہے کہ اسے افعال نماز سے بہت زیادہ اتصال ہے ولہذا فرائض نماز میں اس کا شمار ہوا ورنہ حقیقت میں یہ شرائط میں سے ہی ہے

چنانچہ امام ابراہیم حلبی حنفی متوفی ۹۵۶ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وتكبيرة الافتتاح وهي وإن عدت مع الأركان في جميع الكتب، فإنما ذلك لشدة اتصالها بها، لا؛ لأنها ركن؛ بل هي شرط بإجماع أئمتنا "*

*(غنیۃ المتملی ، فصل في فرائض الصلاة ، ۲/۶۲ ، مطبوعہ الجامعۃ الاسلامیہ ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۴۲ھ)*
یعنی ، تکبیر افتتاح ! تمام کتب میں یہ ارکان کے ساتھ اس لئے شمار ہوا کہ ارکان کے اس کو بہت زیادہ اتصال ہے ، اس لئے نہیں کہ یہ رکن ہے ، بلکہ ہمارے ائمہ کے اجماع سے یہ شرط ہے

اسی وجہ امام شمس الدین محمد ابن امیرحاج حنفی متوفی ۸۷۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" أما الفريضة الأولى وهي تكبيرة الافتتاح، فلا يصح للقادر عليها الشروع في الصلاة بدونها عند عامة العلماء "*

*📔(حلبۃ المجلی ، کتاب الصلاۃ ، باب فرائض الصلاۃ ، ۲/۸ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۳۶ھ)*
یعنی ، نماز کا پہلا فرض تکبیر افتتاح ہے ، لہذا عام علماء کے نزدیک قدرت رکھنے والے کیلئے اس کے بغیر نماز شروع کرنا درست نہیں ہوگا

البتہ جو اس کی ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو اس کیلئے شرط نہیں

چنانچہ علامہ وصی احمد سورتی حنفی متوفی ۱۳۳۴ھ فرماتے ہیں

*🖋️" و اما العاجز فیجوز افتتاحہ بالنیۃ لانہ اتی باقصی ما فی وسعہ "*

*📔(التعلیق المجلی لما فی منیۃ المصلی ، کتاب الصلاۃ ، باب فرائض الصلاۃ ، ص۲۳۷ ، ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور)*
یعنی ، لیکن عاجز جیساکہ گونگا ! اس کا نیت کے ساتھ ہی نماز شروع کرنا جائز ہے کیونکہ اس نے آخری درجے کی کوشش کرلی

الحلقة العلمية (الهند)

30 Oct, 01:53


چنانچہ امام زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️’’ و اشار الی انہ لا يحل ‌سماع ‌المؤذن إذا لحن كما صرحوا به ودل كلامه أنه لا يحل في القراءة أيضا ‘‘*

*📒(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ۱/۴۴۶ ،دارالکتب العلمیہ، بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
ترجمہ ، اور امام حلوانی نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جب مؤذن اذان میں لحن جلی کرے، تو اُس کی اذان کی طرف توجہ کرنا ہی حلال نہیں، جیسا کہ فقہائے کرام نے تصریح فرمائی اور صاحبِ ”فتح القدیر“ کے کلام نے بھی اِسی پر دلالت کی کہ قراءت میں بھی لحنِ جلی حلال نہیں (اور اُس کا استماع بھی درست نہیں

اور علامہ ابن عابدین شامی حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" وقد ذكر في البحر أنهم صرحوا بأنه لا يحل سماع المؤذن إذا لحن كالقارئ "*

*📒(ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ۲/۶۶ )*
یعنی ، بحر میں مذکور ہے کہ فقہائے کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ مؤذِّن لحن جلی کرے، تو اُس کی اذان کی طرف توجہ کرنا ، جائز نہیں، جیسا کہ اگر تلاوت کرنے والا لحن جلی کرے تو اُس کی تلاوت کو توجہ سےسماعت کرنا، جائز نہیں

البتہ جماعت واجب ہونے کی صورت میں جواب بالقدم بہرحال واجب ہی رہے گا

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۴/ ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۸/ اکتوبر ۲۰۲۴م*

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:30/10/2024م

1397

الحلقة العلمية (الهند)

30 Oct, 01:53


*🌹 عادت سے کم پر خون حیض بند ہوا تو وطی کرنا / لحن جلی کے ساتھ پڑھی گئی اذان کا جواب دینا کیسا ہے ؟ 🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
١ - کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ کسی خاتون کو عادت کے دنوں سے پہلے حیض بند ہو جائے تو وہ نماز روزہ کرنا شروع کر دے غسل کر کے ، لیکن شوہر اس سے صحبت نہیں کر سکتا جب تک کہ عادت کے دن نہ پورے ہو جائیں ، میرا سوال یہ ہے اگر عورت کو حیض عادت کے دنوں سے کچھ پہلے بند ہو گیا عورت پاک ہو گئی اور شوہر نے اس سے صحبت کر لی تو یہ حرام ہوگا ناجائز ہوگا یا خلاف اولی ؟

٢ - جو اذان تجوید کے ساتھ نہیں دی جا رہی ہے تو اس کا جواب نہ دینا چاہیے ایسا مسئلہ کتب فقہ میں لکھا ہے , اگر کسی نے اس اذان کا جواب دے دیا جو اذان تجوید کے ساتھ نہیں دی جا رہی تھی اس اذان میں لحن جلی لحن خفی شامل تھا ، تو اگر کسی نے اس اذان کا جواب دے دیا تو گناہ ہوگا یا ناجائز ہوگا ؟

المستفتی محمد عابد علی یوپی
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

(۱)
حرام ہوگا ! کیونکہ خون اگرچہ منقطع ہوگیا ہے لیکن زمانہ حیض کا ہی ہے اور عادت کے ایام میں خون دوبارہ آنا غالب ہوتا ہے

چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ص۴۴ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، اگر خون اکثر مدت سے کم پر بند ہوا تو اگر عادت سے بھی کم پر بند ہوا ہے تو اس سے وطی حلال نہیں ہے

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قوله : (لم يحل أي الوطء وإن اغتسلت لأن العود في العادة غالب "*

*📒(ردالمحتار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ۱/۴۹۰ ، دار عالم الکتب ریاض ، طبعۃ خاصۃ :۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، وطی حلال نہیں ہے اگرچہ غسل کرلے کیونکہ عادت کے اندر خون کا لوٹنا غالب ہے

اور علامہ محمد عابد سندی انصاری حنفی متوفی ۱۲۵۷ھ فرماتے ہیں

*📒" كانت عادتها في الحيض سبعة أيام، فانقطع الخمس لم يحل وطئها، ولا تزوجها، حتى تمضي عادتها، وإن اغتسلت لأن العود في العادة غالب، فكان الاحتياط في الاجتناب "*

*📒(طوالع الانوار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ۱/۶۱۳ ، جامعۃ السند جامشورو)*
یعنی ، کسی عورت کی عادت سات دن تھی اور خون پانچ دن میں بند ہوگیا تو اس سے وطی و تزوج بہ زوج ثانی حلال نہیں ہے جب تک کہ عادت کے دن نہ گزر جائیں اگرچہ غسل کرلے کیونکہ عادت میں خون کا لوٹنا غالب ہوتا ہے تو احتیاط اجتناب ہی میں ہے

بعینہ یہی علت عادت پر انقطاع دم کے وقت قبل غسل و مضی وقت صلاۃ وطی میں بھی ہے

چنانچہ امام قوام الدين أمير كاتب بن أمير عُمَر الأَثْقَانِي الفَارَابِي الحَنَفِي متوفی ۷۵۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اعلَمْ أَنَّ وَطْأها لا يحِلُّ قبل أن تغتسل إذا انقَطَعَ دَمُهَا لِأَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ أَيَّامٍ)، أَو بِمُضِي وقتِ صلاة ، وهي تَقْدِرُ فِيهِ عَلى الاغتسال والتحريمة ؛ لأنَّ مُعاودة الدم فيما دون العشرة غالبةٌ ، فَلا يُؤْمَنُ عَن الوقوع في الحرام "*

*📒(غایۃ البیان ، كتاب الطهارات ، باب الحيض والاستحاضة ، ۱/۳۴۸ ، دارالضیاء کویت)*
یعنی ، دس دن سے کم پر خون منقطع ہونے کی صورت میں غسل سے پہلے یا نماز کا وقت گزرنے سے پہلے وطی حلال نہیں ہے ، کیونکہ دس دن سے کم میں خون کا لوٹ آنا غالب ہوتا ہے ، لہذا وقوع حرام سے محفوظ نہیں رہ پائےگا

نیز فقہائے کرام نے عادت پر انقطاع دم ہونے اور غسل کرنے کے درمیان کے وقت کو حیض کا وقت ہی شمار فرمایا ہے

چنانچہ علامہ عابد سندی حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" وأشار الشيخ "الرحمتي" إلى وجه انتظار الغسل في حل الوطء بأن زمن الغسل من الحيض قبل العشرة، فلو وطئها قبله لكان واطئاً في الحيض "*

*📒(طوالع الانوار ، ۱/۶۱۴)*
یعنی ، شیخ رحمتی نے حلت وطی میں غسل کے انتظار کی وجہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ دس دن سے پہلے انقطاع دم پر غسل کا زمانہ حیض میں سے ہے تو اگر غسل سے پہلے وطی کرےگا تو وہ حیض میں وطی کرےگا

ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ (۱) دس دن سے پہلے قبل عادت انقطاع دم کا زمانہ حیض ہی کا زمانہ ہے (۲) اس زمانہ میں خون کا عود کرنا عین ممکن ہے (۳) لہذا احتیاطاً وطی سے اجتناب لازم ہے جس طرح عورت پر احتیاطاً غسل کرکے نماز روزہ لازم (۴) ایسے میں وطی کرنا گویا کہ حالت حیض میں وطی کرنا ہے (۵) جس کی وجہ سے بندہ حرام سے محفوظ نہیں رہ پائےگا
فلہذا ثابت ہوا کہ صورت مسئولہ میں صحبت حرام ہے نہ کہ محض خلاف اولیٰ

(۲)
اگر واقعی لحن جلی سے اذان پڑھے تو بے شک گناہ ہوگا کہ لحن جلی کے ساتھ اذان و قرات حرام ہے جس کی طرف توجہ دینا ہی جائز نہیں چہ جائیکہ اس کا جواب دیا جائے کہ جواب دینے کیلئے توجہ درکار اور وہ ہی ناجائز

الحلقة العلمية (الهند)

29 Oct, 19:29


*اســــــبابِــــــــــــــــــــ نَـــجـــاتـــــــــــــــــــــ*

ـﮩـﮩﮩ٨ـﮩـﮩﮩ٨ـﮩ٨ـﮩﮩ٨ـ🫀ـﮩـﮩﮩﮩ٨ـﮩﮩ٨ـﮩـﮩﮩ٨ـ
【5】 *خدا کی طرف سے یہ وعدہ ہو چکا ہے کہ اے بندے ! اگر تو غلام آزاد کرے گا، پل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی (فَكُن رقبة) یعنی قیامت کی سختیوں سے بچنے کا راستہ غلام کو آزاد کرنا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! ہمیں غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں ہےتو ہم کیا کریں؟*
*اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، (اَوْ اِطْعٰمٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ) یعنی تنگی کے وقت جبکہ کھانا ملنا دشوار ہو، اگر تو کسی بھوکے کو شکم سیر کرے گا تو پل صراط سے سلامتی کے ساتھ گذر جائے گا۔*
*ا•───────────────────•*
*✒️ :ابــو حنـــیـــفـــہ محـــمـــد اکـبــــر اشــرفــی رضـوی، مانـخـــورد مـــمـــبـــئـــی*
𝒯𝓌𝑒𝑒𝓉𝑒𝓇(𝒳) & 𝐼𝓃𝓈𝓉𝒶𝑔𝓇𝒶𝓂
@𝘼𝘽𝙐𝙃𝘼𝙉𝙀𝙀𝙁𝘼𝘼𝙍
𝓕𝓪𝓬𝓮𝓫𝓸𝓸𝓴 & 𝓨𝓸𝓾𝓣𝓾𝓫𝓮
𝘼𝙗𝙪 𝙃𝙖𝙣𝙚𝙚𝙛𝙖 𝘼𝙨𝙝𝙧𝙖𝙛𝙞 𝙍𝙖𝙯𝙫𝙞
⁹¹⁶⁷⁶⁹⁸⁷⁰⁸

https://whatsapp.com/channel/0029VagsGaJEAKWJk07Hdl2k

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:34


بعض خانقاہوں کے جاہل پیرخود بھی کفر کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اور ساتھ میں مریدوں اور عقیدت مندوں کو بھی کافر بنا رہے ہیں !

ایک صاحب نے ایک ویڈیو بھیجا جس میں بزعم خویش پیر صاحب مسند پہ براجمان ہیں اور مریدین و معتقدین چاروں طرف سے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور قوالی مع مزامیر چل رہی ہے ، قوال یہ شعر پڑھ رہا ہے کہ :

عرش پہونچے محمد دی صدا حق نے محبوب میرے

تھوڑی سی دیر رک جایئے بس میں نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے

استغفِرُاللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ

اللہ تعالیٰ کیلئے " جی " یعنی دل ، حسرت ، آرزو تمنا ، گزارش ، لاچاری ، مجبوری وغیرہ وغیرہ سب کچھ ثابت کردیا

نعوذباللہ من ذالک !

لیجئے ! آپ حضرات بھی دیکھ اور سن لیجئے

محمد شکیل اخترقادری نعیمی غفرلہ

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:27


مسلمان اللہ تعالٰی سے ڈریں ، یاد رکھیں کہ ایمان اس کائنات کی سب سے بڑی دولت ہے کہ وہی مدار نجات ہے ، وہ سیاست کس کام کی جس میں ایمان چلا جائے یا جانے کا اندیشہ ہو ، ایک مسلمان کیلئے لازم ہے ہر لمحہ ہر آن احکام شرعیہ کی پاسداری کرے اور حتی الامکان ان پر عمل بھی

ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۴/ ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ مطابق ۸/ اکتوبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جلال الدین احمد امجدی نعیمی غفرلہ
جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں ناندیڑ مہاراشٹر الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:09/10/2024

1396

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:27


یعنی ، یونہی اس رات میں نکلنا جس میں کفار ہند آگ سے کھیلتے ہیں (ہولی) اور اس رات ان کے افعال میں موافقت کرنے سے کفر لازم آتا ہے ، اسی طرح اس دن نکلنا جس دن کفار ہند " سرتھی " نامی کھیل کھیلتے ہیں اور ان کے ان کاموں میں موافقت کرنا جیسے کہ بیلوں ، گھوڑوں کو سجانا اور مالداروں کے گھر جانا تو اس سے بھی کفر لازم آتا ہے

اور علامہ نظام الدین برہان پوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" وبتحسين أمر الكفار اتفاقاً "*

*📒(فتاویٰ ہندیہ ، كتاب السير / باب في أحكام المرتدين ، موجبات الكفر انواع ، ومنها ما يتعلق بتلقين الكفر والأمر بالارتداد وتعليمه والتشبه بالكفار وغيره من الإقرارصريحاً وكناية ، ۲/۲۹۵ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، کفار کے معاملات کی تحسین یعنی اچھا جاننا کفر ہے

اور علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" أن تبجيل الكافر كفر "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب الحظر والاباحۃ ، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ، ص۶۶۶ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، کافر کی تعظیم (بلاغرض صحیح) کفر ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" فعل کفر میں جو دل سے شریک ہو وہ ظاہر کا باطنا کافر ہے، اور جو اکراہ و اضطرار و مجبوری محض سے بظاہر شریک ہو اسے معافی ہے۔ مگر اکراہ صحیح شرعی درکار ہے، کسی کی خاطر وغیرہ سے مجبور ہونا شرعی مجبوری نہیں اور بلا اکراہ شرعی شرکت کفر پر بھی شریعت مطہرہ لزوم کفر و تجدید اسلام و تجدید نکاح کا حکم دے گی "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب السیر ، ۱۵/۱۰۱ ، رقم المسئلہ ۱۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

دوسری جگہ فرماتے ہیں

*🖋️" مسلمان کو دسہرے کی شرکت حرام ہے، بلکہ فقہاء نے اسے کفر کہا اور اس میں بہ نیت موافقت ہنود ناقوس بجانا بیشک کفر ہے اور معبود ان کفار پر پھول چڑھانا کہ ان کا طریقہ عبادت ہے اشد و اخبث کفر "*

*📒(ایضاً ، ۱۴/۶۷۳ ، رقم المسئلہ ۲۹۹)*

اور تاجدار اہلسنت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا قادری حنفی متوفی ۱۴۰۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" فقہائے کرام کتب فقہ میں ایسی صورت میں کہ اس میں تحسین اعمال کفار اور شرکت افعال کفار اور موافقت ان کی عبادت کی ہو حکم کفر لکھتے ہیں۔ اور جو شخص مرتکب ایسے امر کا ہو جس کا سوال میں ذکر ہےاس پر حکم لزوم تجدید ایمان و تجدید نکاح دیتے ہیں "*

*📒(فتاوی مفتی اعظم ، كتاب العقائد والكلام ، ۲/۱۵۳ ، امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)*

اور قاضی القضاۃ تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا قادری حنفی متوفی ۱۴۳۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اس موقع پر ان کفار کے گلے میں ہار ڈالنا ان کے اس کفری تہوار کی تحسین و تعظیم پر صریح دلالت ہے اور ان کے کفری معاملات کی نری تحسین ہی کفر "*

*📒(فتاوی تاج الشریعہ ، کتاب العقائد ، ۲/۱۰۴ ، جامعۃ الرضا بریلی شریف)*

اور شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی حنفی متوفی ۱۴۲۱ھ فرماتے ہیں

*🖋️" بکر نے رام لیلا پوجا میں شرکت کی اور مورتی کو ہار پہنایا اس کی وجہ سے وہ خارج از اسلام ہو گیا، کافر و مرتد ہو گیا۔ اس کے تمام اعمال حسنہ اکارت ہو گئے اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی ۔ اس پر فرض ہے کہ فورا بلا تاخیر علانیہ تو بہ کرے، کلمہ پڑھ کر پھر سے مسلمان ہو، بیوی سے پھر سے نکاح کرے "*

*📒(فتاوی شارح بخاری ، ۲/۶۰۷ ، دائرۃ البرکات گھوسی)*

ایک اور جگہ فرماتے ہیں

*🖋️" ان مشرکانہ مذہبی تیوہاروں پر ہندوؤں کو مبارک باد دینا اشد حرام بلکہ منجر الی الکفر ہے۔ جو مسلمان ایسا کرتے ہیں ان پر تو بہ و تجدید ایمان و نکاح لازم ہے "*

*📒(ایضاً ، ص۵۶۶)*

ان تمام تصریحات سے روز روشن کی واضح ہوگیا کہ اعمال کفار کی تحسین ، عبادات کفار کی موافقت ، ان کے مذہبی شعار میں مشابہت ، افعال مذہبی میں کفر و کفار کی بلا عذر شرعی معاونت ، ایسے ہی ان کے مذہبی شعار پر ان کو مبارکباد پیش کرنا وغیرہ سب کفر کے کام ہیں

فلہذا بر صدق مستفتی صورت مسئولہ میں زید مذکور کے مذکورہ افعال میں کم از کم تحسین و تعاون و تبریک کفر ( کفر کو اچھا جاننا ، کفر کی مدد کرنا ، کفر کی مبارکباد دینا ) ضرور ہے لہذا وہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہے ، اس پر وہ تمام احکام نافذ ہوں گے جو ایک کافر و مرتد کیلئے ہیں ، اگر بیوی والا ہے تو اس کی بیوی بھی اس کے نکاح سے نکل گئی اس پر فرض ہے کہ ان سب حرکات سے تو بہ کرے ، پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو ، بیوی والا ہے تو پھر سے نکاح کرے ، اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو مسلمانوں پر واجب کہ اس سے میل جول،سلام کلام بند کردیں اسی حالت میں اگر مر جائے تو نہ اسے مسلمانوں کی طرح غسل دینا جائز ، نہ بطریق مسنون کفن دینا جائز ، نہ اس کی نماز جنازہ جائز ، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز ، نہ مسلمانوں کی طرح دفن کرنا جائز

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:27


*🌹 ہاتھ جوڑ کر بتوں کی تصویر کے اپنی تصویر شائع کرنا ، مشرکین کے مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا شرعاً کیسا ہے 🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام کہ زید جوکہ مسلمان ہے لیکن سیاست سے بھی جڑا ہوا ہے گاہے بگاہے وہ ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کی تصاویر کے ساتھ اپنی تصویر بھی ہاتھ جوڑ کر لگادیتا ہے اور ان کے تہواروں کے موقع پر مبارک بادی بھی دیتا ہے پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس کے اس فعل سے وہ مسلمان رہتا ہے یا وہ اسلام سے خارج ہو جائیگا
قران وحدیث کی روشنی میں مکمل جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں
فقط ۔۔ العارض محمد شکیل احمد قادری ، دارالعلوم رضویہ مصباح العلوم ایجوکیشنل ٹرسٹ نعمت ٹولہ ، بنیاپور چھپرہ بہار
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

فقہائے کرام رحمھم اللہ نے دلی طور پر اعمال کفار کی تحسین ، افعال کفار میں شرکت ، عبادات کفار کی موافقت ، ان کے مذہبی شعار میں ان کی مشابہت ، کفر اور کفار کی تعظیم و عظمت ، افعال کفار کا اعلان اور بلاعذر شرعی ان کی اعانت کو بحکم حدیث کفر قرار دیا ہے

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم فرماتے ہیں

*" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَمِنْهُمْ "*

*📔(سنن ابی داؤد ، كتاب اللباس ، باب في لبس الشهرة ، رقم الحدیث ۴۰۳۱ ، ص ۷۵۰ ، مطبوعہ دارالفکر بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۵ھ)*
ترجمہ: جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے

دوسری حدیث پاک میں ہے

*" من كثر سواد قوم ، فهو منهم ، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به "*

*📔(نصب الرایہ ، كتاب الجنايات ، ۴/۳۴۶ ، رقم الحدیث ۷۷۷۸ ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
ترجمہ: جو شخص کسی قوم کی تعداد بڑھائے وہ انہی میں سے ہے اور جو کسی قوم کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے

اور حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت ہے کہ

*" ، ومن كثر سواداً كان من أهله ، ومن رضى عملا كان شريك من عمله "*

*📔(ایضاً ، رقم الحدیث ۷۷۷۹)*
ترجمہ: جس نے کوئی مجمع بڑھایا وہ اسی مجمع والوں میں سے ہے اور جو کسی کام سے راضی ہوا وہ اس کام میں شریک ہے

اسی لئے برہان الدین ابوالمعالی محمود بن احمد بن مازہ مرغینانی بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قال الشيخ - الإمام الزاهد - أبو بكر بن طرخان - رحمه الله - : من خرج إلى السدة فقد كفر ؛ لأن فيه إعلان الكفر فكأنه أعان عليه "*

*📒(ذخیرۃ الفتاوی ، کتاب السیر ، الفصل الخامس والعشرون مسائل المرتدين وأحكامهم ضيافة المجوس ، ۷/۱۳۹ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۰ھ)*
یعنی ، امام زاہد ابوبکر بن طرخان رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو مجمع اہل کفر بڑھانے کیلئے نکلا وہ کافر ہوگیا کیونکہ اس میں کفر کا اعلان ہے گویا کہ اس نے کفر پر تعاون کیا

اور امام محمود بن إسرائيل الشهير بابن قاضي سماونه حنفی متوفی ۸۲۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" الخروج الى نيروز المجوس والموافقة معهم فيما يفعلونه في ذلك اليوم كفر "*

*📒(جامع الفصولین ، الفصل الثامن والثلاثون في مسائل الكلمات الكفرية ، ۲/۲۲۹ ، المطبعۃ الکبری بولاق مصر ، الطبعۃ الاولی:۱۳۰۱ھ)*
یعنی ، مجوسیوں کے میلے میں جانا اور اس دن ان کے افعال میں موافقت کرنا کفر ہے

اور امام قاضی جگن گجراتی حنفی متوفی ۹۲۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اگر مسلمانی در عید کافران بھاك وديوالي وجاتو حاضر شود اگرچه نیت سودا یا برای تماشا حاضر شود و در احضار مسلمانان قوت ورجحان در عید ایشان می شود کافر گردد "*

*📒(خزانۃ الروایات ، کتاب السیر ، باب الارتداد و الفاظ الکفر ، ص۲۹۷ ، مخطوطہ ، رقم المخطوط: ۱۵۲۲)*
یعنی ، اگر کوئی مسلمان کافروں کی عید مثلاً بھاک ، دیوالی ، جاتو وغیرہ میں حاضر ہو اگرچہ تجارت یا تماشا کی نیت سے ہو اور مسلمانوں کی حاضری سے ان کی عید میں قوت و رجحان ہوتی ہو تو حاضر ہونے والا مسلمان کافر ہوجائےگا

اور امام جعفر بن عبد الکریم المعروف بمیراں بن یعقوب سندھی حنفی متوفی ۱۰۰۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وكذا الخروج في الليلة التي تَلْعَبُ كَفَرَةُ الهند فيها بالنيران إلى لعبهم والموافقة معهم فيما يفعلون في تلك الليلة يلزم أن يكون كفراً وكذا الخروج إلى لعب كفَرَة الهند في اليوم الذي تدعوه أهل الهند (بسرتھی) والموافقة معهم فيما يفعلون في ذلك اليوم من تزيين البقور والأفراس والذهاب إلى دار الأغنياء يلزم أن يكون كفراً» "*

*📒(المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ ، کتاب السرقۃ ، ص۱۰۰۱ ، دارالکتب ، پشاور)*

الحلقة العلمية (الهند)

05 Oct, 01:10


اور علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ و جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية "*

*📒(فتاوی ہندیہ ، کتاب الطلاق ، باب في الرجعة وفيما تحل به المطلقة ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ، ۱/۵۰۶ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، اگر کسی نے آزاد عورت کو تین طلاق اور باندی کو دو طلاقیں دی تو وہ حلال نہیں ہوگی جب تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح صحیح نہ کرے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور پھر طلاق دے یا اس کی موت ہوجائے

ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۴/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۸/ ستمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:05/10/2024

1395

الحلقة العلمية (الهند)

05 Oct, 01:10


*🌹 بیوی سے کہا: ایک طلاق دو طلاق ، گھر سے نکل جاؤ ؛ تو کیا حکم ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرح متین اس مسئلے کے بارے میں کے زید اپنی بیوی کے سامنے کہا ایک طلاق دو طلاق سالی گھر سے نکل جاؤ ایسی صورت میں طلاق واقع ہو گئی یا نہیں جواب عنایت فرمائیں گے مہربانی ہوگی
سائل محمد رمضان علی دیناجپوری مغربی بنگال
(نوٹ) سائل نے وضاحت کی کہ زید نے بیوی کے سامنے بیوی کو ہی مخاطب کرکے کہا اور " سالی گھر سے نکل جاؤ " میں زید کی نیت طلاق ہی کی تھی
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
بر صدق سائل صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاق بائن پڑ چکی ہے اور طلاق مغلظہ کے ساتھ اس کے نکاح سے نکل گئی ہے ، کیونکہ سائل کی وضاحت کے مطابق چونکہ " ایک طلاق دو طلاق " کہتے وقت زید اپنی بیوی سے ہی مخاطب تھا فلہذا اضافت معنوی متعین ہونے کے سبب وہ دونوں طلاقیں فوراً ہی واقع ہوگئیں ، پھر جب کہا کہ " سالی گھر سے نکل جاؤ " تو اس میں بھی سائل کی وضاحت کے مطابق طلاق ہی کی نیت تھی فلہذا یہ طلاق بھی واقع ہوگئی

ان میں سے پہلی دو طلاقیں صریح ہیں جن میں نیت کی کوئی ضرورت نہیں یعنی نیت ہو یا نہ ہو بہرحال طلاق واقع ہو جاتی ہے

چنانچہ امام ابو الحسین قدوری حنفی متوفی ۴۲۸ھ طلاق صریح کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" وَلَا يَفْتَقِرُ إِلَى النِّيةِ "*

*📒(مختصر القدوری ، کتاب الطلاق ، ص۳۶۳ ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۶ھ)*
یعنی ، طلاق صریح میں نیت کی ضرورت نہیں پڑتی

اس کی علت بیان کرتے ہوئے امام ابو نصر الاقطع بغدادی حنفی متوفی ۴۷۴ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لأن النيَّة يُحتاج إليها في اللفظ المُستعمل في شيئين ليُصْرَفَ بها عن أحدهما إلى الآخر، وقد بينا أن ألفاظ الطلاق لا تُستعمل في غير الزوجات فلم تَفْتقرُ إلى نية "*

*📒(شرح مختصر القدوری ، کتاب الطلاق ، ۵/۱۸۷ ، دارالمنہاج القویم دمشق ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۴ھ)*
یعنی ، اسلئے کہ نیت کی ضرورت اس لفظ میں پڑتی ہے جو دو چیزوں میں مستعمل ہو تاکہ ان میں سے ایک سے دوسرے کی طرف پھیرا جا سکے ، اور ہم بیان کر چکے کہ الفاظ طلاق بیویوں کے علاوہ کسی اور پر استعمال نہیں ہوتے لہذا نیت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی

اور تیسری طلاق زید کے قول " سالی گھر سے نکل جاؤ " سے پڑی کہ یہ کنایہ ہے اور کنایہ میں نیت کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں پر سائل کی وضاحت کے مطابق موجود ہے

چنانچہ امام علاؤالدین سمرقندی حنفی متوفی ۵۳۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" إذا ذكر لفظا يصلح للطلاق في غير حال مذاكرة الطلاق ، وحال الغضب ، كيفما كان : فإذا نوى به الطلاق : يقع ، وإن لم يكن له نية : لا يقع ، لأنه كما يصلح للفرقة لأمر آخر "*

*📒(تحفۃ الفقھاء ، کتاب الطلاق ، ۲/۱۸۱ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۰۵ھ)*
یعنی ، جب ایسا لفظ ذکر کرے جو طلاق کی صلاحیت رکھتا ہو غیر حالت مذاکرہ طلاق میں اور حالت غضب میں چاہے جس طرح بھی ہو تو جب طلاق کی نیت کرےگا تو طلاق واقع ہوگی اور اگر نیت نہ ہوتو طلاق واقع نہیں ہوگی

زید کا قول " گھر سے یا میرے گھر سے نکل جا " اسی قسم کا لفظ کنایہ ہے جس میں بہرحال نیت کی ضرورت ہوتی ہے کہ طلاق کی نیت ہو تو طلاق واقع ہوجاتی ہے اور نیت نہ ہو تو نہیں

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" تو میرے مکان سے نکل جا کہ حاصل معنی " اخرجی " کا ہے بشرط نیت اس سے طلاق بائن ہو جاتی ہے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الطلاق ، باب الکنایہ ، ۱۲/۵۹۴ ، رقم المسئلہ ۲۹۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اب چونکہ دو طلاق صریح کے بعد تیسری طلاق بائن ہے لہذا اس تیسری بائن طلاق نے پہلی دونوں صریح طلاقوں کے ساتھ مل کر ان دونوں کو بھی بائن کردیا اور یوں کل ملا کر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئیں

چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" زید نے اس لفظ سے کہ " تو میرے گھر سے نکل جا" اگر طلاق کی نیت کی تھی تو دو طلاقیں بائن پڑیں ، فان البائن يلحق الصريح والرجعي يصير بأئنا بلحوق البائن ( بائن طلاق رجعی طلاق کو لاحق ہو سکتی ہے تو بائنہ کے لاحق پر رجعی بھی بائنہ ہو جاتی ہے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، ۱۲/۴۵۷ ، رقم المسئلہ ۲۲۶)*

خلاصہ کلام یہ کہ صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، اور طلاق مغلظہ کے ساتھ عورت زید کے نکاح سے نکل گئی ہے ، اب بلا حلالہ دوبارہ اس کے نکاح میں واپسی کی کوئی صورت نہیں

فان اللہ تعالیٰ قال

*" فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ- "*

*📙(القرآن الکریم ، ۲/۲۳۰)*
ترجمہ: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے

الحلقة العلمية (الهند)

03 Oct, 06:41


*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۱/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۵/ ستمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:03/10/2024


1394

الحلقة العلمية (الهند)

03 Oct, 06:41


*🌹 کیا انار کا درخت گھر کے آنگن میں لگانا منع ہے ؟ کیا یہ غیر مسلموں کا درخت ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمتہ اللہُ برکاتہ کیا انار کا درخت گھر کے آنگن میں یا نزدیک لگانا منع ہے کہ غیروں (ہنود) کا درخت ہے اور اسمیں پریاں رہتی ہیں علمائے کرام اس پر توجہ فرمائیں عین نوازش ہوگی محمد عبد الجلیل اشرفی دیناجپور
ا__(💚)____
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

انار ان پھلوں میں سے ہے جن کا ذکر رب العالمین جل جلالہ نے اپنی پاک کتاب میں کئی بار فرمایا ہے

چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے

*" وَجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ "*

*📔(القرآن الکریم ، ۶/۹۹)*
ترجمہ: اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار(نکالتے ہیں

و قال اللہ تبارک وتعالیٰ

*" وَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ "*

*📔(ایضا ، ۶/۱۴۱)*
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے کچھ باغات زمین پر پھیلے ہوئے اور کچھ نہ پھیلے ہوئے (تنوں والے) اور کھجور اور کھیتی کو پیدا کیا جن کے کھانے مختلف ہیں اور زیتون اور انار (کو پیدا کیا، یہ سب) کسی بات میں آپس میں ملتے ہیں اور کسی میں نہیں ملتے

و ایضاً قال اللہ تعالیٰ

*" فِیْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ "*

📔(ایضاً ، ۵۵/۶۸)
ترجمہ: ان میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں

نیز احادیث کریمہ میں بھی انار کا ذکر موجود ہے ، بلکہ جن پھلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں باریابی کا شرف ملا ان میں سے انار بھی ہے

چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ

*" مرض النبي ﷺ فأتاه جبريل بطبق فيه رمان وعنب فأكل منه النبي ﷺ فسبح . رواه القاضي عياض في الشفاء» ونقله عنه الحافظ أبو الفضل في فتح الباري "*

📒(المواہب اللدنیۃ ، المقصد الرابع فی المعجزات والخصائص ، الفصل الاول ، تسبیح الطعام ، ۲/۵۳۳ ، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ، الطبعۃ الثانیہ:۱۴۲۵ھ)
ترجمہ: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیمار ہوئے تو حضرت جبریل علیہ السّلام آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک پلیٹ لے کر حاضر ہوئے جس میں انار اور انگور رکھے ہوئے تھے، تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس میں سے تناول فرمایا ، تو انار نے تسبیح کی ۔ اس حدیث کو قاضی عیاض نے شفاء میں روایت کیا اور امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں نقل کیا

دوسری حدیث پاک میں ہے

*" جاء ناس من اليهود إلى رسول الله ﷺ ، فقالوا : يا محمد ، أفي الجنة فاكهة ؟ قال : نعم ، فيها فاكهة ونخل ورمان» . قالوا : فيأكلون كما يأكلون في الدنيا ؟ قال : نعم ، وأضعافه "*

📒(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ، سورۃ الرحمن الآیۃ ۶۸ ، ۱۴/۱۵۶ ، مرکز ھجر للبحوث ، الطبعۃ الاولی :۱۴۲۴ھ)
ترجمہ: یہود میں سے کچھ لوگ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے:اے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیا جنّت میں میوے ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں، اس میں میوے، کھجوریں اور انار ہوں گے۔ پھر انہوں نے عرض کی: کیا اہلِ جنّت وہاں اسی طرح کھایا کریں گے جس طرح اہلِ دنیا، دنیا میں کھاتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں بلکہ اس سے دوگنا

ایک اور حدیث پاک میں ہے

*" نظرتُ إلى الجنة فإذا الرمانة من رُمانِها كمثل البعير المُقْتَبِ "*

📒(ایضاً ، ص ۱۵۷)
ترجمہ: میں نے جنّت کا نظارہ کیا تو اس کے انار اُس اونٹ کی مثل تھے جس پر پالان کسا ہوا ہو

ایک حدیث پاک میں یہ بھی ہے کہ

*" ما من رمان من رمانكم إلا وهو يلقح بحبة من رمان الجنة "*

*📒(تاریخ مدینۃ دمشق لابن عساکر ، محمد بن الوليد بن أبان ، ۵۶/۱۸۶ ، دارالفکر بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
ترجمہ: ایسا کوئی انار نہیں جس ميں جنتی اناروں کا دانہ شامل نہ ہو

غرض کہ انار بابرکت پھل ہے فلہذا اس کے بارے میں اس قسم کے توہمات بے بنیاد ہیں اور اسے غیروں یعنی غیر مسلموں کا پھل کہنا حد درجہ جہالت ہے ، اس کے اوپر پریوں کے بسیرا کرنے کی بات بھی سراسر بے اصل ہے ، دیگر درختوں کی طرح اسے بھی آنگن میں لگانا جائز ہے ، البتہ چونکہ انار کا درخت گھنا اور سایہ دار ہوتا ہے اس لئے سانپ جیسے موذی جانور اس کے آس پاس رہنا پسند کرتے ہیں ، لہذا اگر اس وجہ کوئی اس درخت کو آنگن میں لگانے کو اچھا نہ سمجھے تو کوئی الزام نہیں ورنہ شرعی اعتبار سے انار کا درخت آنگن میں ہو یا کہیں اور لگانے میں کوئی حرج نہیں

الحلقة العلمية (الهند)

02 Oct, 12:37


ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:02/10/2024

1393

الحلقة العلمية (الهند)

02 Oct, 12:37


*📔(الصحیح للمسلم ، کتاب الایمان ، باب قولِ النَّبِيِّ ﷺ: «مَنْ غَشَّنَا فليس مِنَّا» ، ص۷۰ ، دارالفکر بیروت)*
ترجمہ: جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جو دھوکہ دے وہ مجھ سے نہیں

فلہذا بر صدق مستفتی صورتِ مسئولہ میں اگر شخص مذکور واقعتاً مسجد یا جماعت کی رقم بغیر اجازت لینے اور خرد برد کرنے کا مجرم ہے اور شرعی گواہوں سے اس کا جرم ثابت بھی ہوگیا ہے ، تو ایسے شخص کو اذان و امامت کے منصب پر قائم رکھنا درست نہیں ، جماعت والوں نے اسے معزول کرکے اچھا کام کیا اور شرعی تقاضے کو پورا کیا
نیز جب تک یہ شخص توبہ صحیحہ نہ کر لے اسے دوسری جگہ بھی اذان و اقامت کے لیے نہ رکھا جائے کیونکہ یہ فاسق ہے اور فاسق کی اذان و اقامت مکروہ ہے اور اگر وہ اذان دے دے تو اس کا اعادہ کیا جائے گا

چنانچہ علامہ سید احمد طحطاوی حنفی متوفی ۱۲۳۱ھ فاسق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" هو الخارج عن أمر الشرع بارتكاب كبيرة كذا في الحموي "*

*📒(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح ، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ص۱۹۹ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی : ۱۴۱۸ھ)*
یعنی ، فاسق وہ ہے جو کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے امر شرع سے نکل گیا ہو جیساکہ حموی میں ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" فاسق وہ کہ کسی گناہ کبیرہ کامرتکب ہوا اور وہی فاجر ہے، اور کبھی فاجر خاص زانی کو کہتے ہیں، فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے پھر اگر معلن نہ ہو یعنی وہ گناہ چھپ کر کرتا ہو معروف و مشہور نہ ہو تو کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی ، اگر فاسق معلن ہے کہ علانیہ کبیرہ کا ارتکاب یا صغیرہ پر اصرار کرتا ہے تو اسے امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کے پڑھنی گناہ اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب "*

*📒(فتاوی رضویہ مترجم ، کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ، ۶/۶۰۱ ، رقم المسئلہ ۷۵۳)*

اور امام برہان الدین محمود احمد مرغینانی بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وكذا يكره أذان الفاسق؛ لأنه أمانة شرعية ولا يؤتمن الفاسق عليه "*

*📒(ذخیرۃ الفتاویٰ ، کتاب الصلاۃ ، الفصل الثالث: في مسائل الأذان ، أذان المحدث والجنب وإقامتهما ، ۲/۷ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۰ھ)*
یعنی ، یونہی فاسق کی اذان مکروہ ہے کیونکہ اذان امانت شرعیہ ہے اور فاسق اس کی پاسداری نہیں کرتا

اور امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے، تو جب تک یہ شخص صدق دل سے تائب نہ ہو "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ۵/۳۷۷)*

اور خاص اس قسم کے خائن و سارق مؤذن کا حکم شرعی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" اگر یہ باتیں واقعی ہیں تو وہ مؤذن سخت فاسق فاجر ہے اُسے مؤذن بنانے کی ہرگز اجازت نہیں اُسے معزول کرنا لازم، نبی صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الامام ضامن والمؤذن مؤتمن (امام ذمہ دار ہے اور مؤذن امین ہے) رواہ ابو داود والترمذي "*

*(📒ایضاً ، ص۴۲۵)*

(نوٹ) یہ فتویٰ اس صورت میں ہے جب کہ مؤذن مذکور پر لگائے گئے الزامات شرعی گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوں ، ورنہ اگر محض دشمنی نکالنے کیلئے یا کسی سازش کے تحت یہ الزامات لگائے گئے ہیں تو یہ فتویٰ سائل کیلئے ہرگز مفید نہ ہوگا

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۸/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۲/ اکتوبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد سجاد عثمان النعیمی دارالافتاء الضیاٸیہ عظیم پلازہ کراچی

الحلقة العلمية (الهند)

02 Oct, 12:37


*🌹 جماعت کا پیسہ لےکر بھاگنے والے ، جعلی رسید بنوا کر جماعت کا پیسہ کھانے والے کی اذان و امامت کا شرعی حکم 🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک مؤذن ہے جو ثانی امام بھی ہے وہ جماعت کے ہزاروں روپے بغیر اجازت لے کر چلے گئے ، جماعت والوں نے جب تحقیق کی تو ثابت ہوا کہ وہ جماعت کا پیسہ لے کر چلے گئے ہیں ۔ جماعت والوں نے جب اس مؤذن سے رابطہ کیا تو اس نے قبول کیا کہ میں بغیر اطلاع کے پیسہ لے کر آیا ہوں کیونکہ مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اور اس نے پیسہ واپس دینے کا جماعت والوں سے وعدہ کیا ، ابھی تک اس نے آدھے پیسے واپس کیا ہے ،
پھر جماعت والوں نے اس کے بارے میں مزید تفتیش کی تو پتہ چلا کہ جماعت کے تحت چلنے والے شادی ہال کی جعلی رسیدیں بنوا کر پیسے کھا رہا تھا ، یہ ساری دھوکے بازیاں دیکھ کر جماعت والوں نے اسے اس کے عہدے سے ہٹا دیا ہے
اب یہی شخص دوسری مسجد میں مؤذن اور ثانی امام کے فرائض انجام دینے کیلئے جا رہا ہے
سوال یہ ہے کہ ایسے مؤذن کی اذان اور امام کی غیر موجودگی میں اس کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں ؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی: عبداللہ ، ہبلی کرناٹک
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

مسجد ، مدرسہ اور جماعت وغیرہ کے چندہ کی رقم امانت ہوتی ہے اور کسی امانت کی چیز کو مالک کی اجازت کے بغیر تصرف میں لانا اور استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں جو ایسا کرے وہ شرعاً خیانت کرنے والا ہے اور خیانت کرنے والا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند

چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے

*" {اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۸/۵۸)*
ترجمہ: ' بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

*" {اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۲۲/۳۸)*
ترجمہ: کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا، اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم فرماتے ہیں

*" إن بعدكم قوماً يخونون ولا يُؤتمنون ، ويشهدون ولا يُستشهدون ، وينذرون ولا يفون ، ويَظْهَرُ فيهِمُ السَّمَن "*

*📔(الصحیح للبخاری ، كتاب الشهادات ، باب لا يَشْهَدُ على شهادةِ جُورٍ إِذا أُشْهِدَ ، رقم الحدیث ۲۶۵۱ ، ص۶۴۴ ، مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
ترجمہ: بے شک تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خیانت کریں گے اور وہ امانت کی پاس داری کرنے والے نہیں ہوں گے، اور وہ گواہی دیں گے اور حال یہ ہوگا کہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی اور نذریں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا عام ہوگا

اسی لئے علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب الغصب ، ص۶۱۷ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، بغیر اذن و ولایت کے دوسرے کے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي "*

*📒(ردالمحتار ، كتاب الحدود ، باب التعزير ، مَطْلَبٌ فِي التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ ، ۶/۱۰۶ ، دار عالم الکتب ریاض ، الطبعۃ الخاصۃ :۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، مسلمانوں میں سے کسی کیلئے جائز نہیں کہ کسی کا مال سبب شرعی کے بغیر لے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" مسجد خواہ غیرمسجد کسی کی امانت اپنے صرف میں لانا اگرچہ قرض سمجھ کر ہو حرام و خیانت ہے تو بہ واستغفار فرض ہے اورتاوان لازم پھر دے دینے سے تاوان ادا ہو گیا ، وہ گناہ نہ مٹا جب تک توبہ نہ کرے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الوقف ، باب المسجد ، ۱۶/۴۹۰ ، رقم المسئلہ ۲۹۶ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں

*🖋️" جب اس نے مال وقف میں خیانت کی اس کا معزول کرنا واجب "*

*📒(ایضاً ، ص۵۸۳ ، رقم المسئلہ ۳۸۹)*

اسی طرح جعلی رسید بنوا کر شادی ہال کے کرایہ رقم وصول کرنا بھی ناجائز و حرام ہے کہ یہ دھوکا دینا بھی ہے اور حصول زر کا باطل طریقہ بھی

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے

*" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۴/۲۹)*
ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

*" وَمَنْ غَشْنَا فَلَيْسَ مِنَّا» و فی روایۃ : مَنْ غَشِ فَلَيْسَ مِنِّي "*

الحلقة العلمية (الهند)

23 Sep, 19:30


*🌹 ایک بیٹے نے مرحوم باپ کا قرضہ ادا کردیا تو تقسیم میراث کے وقت وہ رقم واپس لے سکتا ہے یا نہیں ؟ 🌹*
ا__(💚)____

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته
حضرت علامہ و مولانا مفتی محمدشکیل اختر قادری صاحب قبلہ !
میرے والد مرحوم جناب یعقوب صاحب سید نے اپنے انتقال سے پہلے حوالدار ( ریلوے سرونٹ ) کو ایک لاکھ روپئے میں مکان گروی پر دئے تھے۔ اور ان کی بیوی اور 4 فرزند، 2 دختر میں سے بڑے فرزند ( سید احمد ) نے اس قرض کو ادا کیا۔ کیا مجھے یہ والد کا ادا کیا ہوا قرض واپس ملے گا ، اور جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے ایک لاکھ روپئے جو قرض ادا کیا تھا۔ اس کا مطالبہ کر سکتا ہوں، برائے کرم شریعت کے مطابق اور دلیل کے ساتھ جواب ارشاد فرمائیں۔

آپ کا شکر گزارش : سید احمد ، جونی ہبلی ، ہبلی کرناٹک
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
اگر مکان کے گرو کی رقم ادا کرتے وقت آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ " میں اپنی طرف سے ادا کررہا ہوں ، مجھے یہ ایک لاکھ روپے نہیں چاہئے " تو بے شک آپ کو یہ رقم ملےگی ، گرو کا مکان چھڑانے کیلئے دوسرے وارثوں سے چاہے آپ نے اجازت لی ہو یا نہ لی ہو ، بہرحال آپ کو مطالبہ کا حق حاصل ہے ، کیونکہ یہ آپ کے والد مرحوم کے اوپر قرض تھا ، اور جب آپ نے قرض ادا کرتے وقت " واپس نہ لینے " کی بات نہیں کی تھی تو سب سے پہلے آپ کے والد مرحوم کے مال متروکہ سے ان کا یہ قرض ادا کیا جائےگا ، اس کے بعد ہی بقیہ مال وارثوں میں تقسیم ہوگا

چنانچہ امام فقیہ النفس قاضی خان اوزجندی فرغانی حنفی متوفی ۵۹۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" بعض الورثة إذا قضى دين الميت أو كفن الميت من مال نفسه أو اشترى الوارث الكبير طعاماً، أو كسوة للصغير من مال نفسه لا يكون متطوعاً، وكان له الرجوع في مال الميت والتركة "*

*📒(فتاوی قاضیخان ، کتاب الوصایا ، فصل تصرفات الوصی ، ۳/۴۵۴ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۲۰۰۹ھ)*
یعنی ، کسی وارث نے میت کا قرض ادا کردیا یا اپنے مال سے میت کو کفن دیا ، یا وارث کبیر نے وارث صغیر کیلئے اپنے مال سے کھانا یا کپڑا خریدا تو یہ تطوع نہیں ہوگا اور مال و ترکہ میت کی طرف رجوع کا حق حاصل رہےگا

اور علامہ نظام الدین برہان پوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ و جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" أحد الورثة اذا قضى دين الميت من خالص ملكه حتى كان له الرجوع في التركة "*
یعنی ، کسی وارث نے میت کا قرض خاص اپنی ملکیت کے مال سے ادا کردیا تو اسے میت کے ترکہ سے واپس لینے کا حق حاصل ہے

نیز اسی میں ہے

*🖋️" واللوارث ان يقضى دين الميت وأن يكفنه بغير أمر الورثة وكان له أن يرجع في مال الميت "*

*📒(فتاوی عالمگیری ، کتاب الوصایا ، الباب التاسع فی الوصی وما یملکہ ، ۶/۱۵۵ ، المطبعۃ الکبری بولاق مصر ، الطبعۃ الثانیہ: ۱۳۱۰)*
یعنی ، وارث کو یہ حق حاصل ہے کہ دیگر ورثہ کی اجازت کے بغیر بھی میت کا قرض ادا کردے یا اسے کفن دے ، اور اسے مال میت سے اپنی رقم واپس لینے کا بھی حق حاصل ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قرض مورث کہ بکر پسر بالغ نے ادا کیا تمام و کمال ترکہ مورث سے مجرا پائے گا جبکہ وقت ادا تصریح نہ کر دی ہو کہ مجرا نہ لوں گا "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الوصایا ، ۲۵/۳۸۵ ، رقم المسئلہ ۱۳۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اور اسی جلد کی فہرست میں ہے

*🖋️" اگر پسر نے باپ کا قرضہ ادا کر دیا تو تقسیم میراث کے وقت اس کو وصول کر سکتا ہے "*

*(📒ایضاً ص ۲۲)*

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۱۴/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۸/ ستمبر ۲۰۲۴م

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:23/09/2024

1392

1,653

subscribers

5

photos

2

videos