الحلقة العلمية (الهند) @alhalqatulilmia Channel on Telegram

الحلقة العلمية (الهند)

@alhalqatulilmia


علمائے اہل سنت کے تیار کردہ جوابات، عوام اہل سنت کے لئے

الحلقة العلمية (الهند) (Urdu)

الحلقة العلمية (الهند) یہ ایک ٹیلیگرام چینل ہے جو علمائے اہل سنت کے تیار کردہ جوابات فراہم کرتا ہے۔ یہاں آپ کو عوام اہل سنت کے لئے تازہ ترین علمی معلومات، مختلف موضوعات پر تجزیے اور تبصرے ملیں گے۔ یہ چینل اہل سنت کے معتقدات اور عقائد کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور علماء کی رہنمائی سے عوام کو صحیح راستے پر لے کر جاتا ہے۔ اس چینل پر مختلف عرصے کے علماء کے تجربات اور تعلیمی وضاحتیں شیئر کی جاتی ہیں تاکہ آپ اپنی روشنی کی طرف بڑھ سکیں۔ اگر آپ علم سے محبت رکھتے ہیں اور اہل سنت کی تعلیمات اور اقوال سے بخوبی واقف ہیں تو یہ ٹیلیگرام چینل آپ کے لئے ایک معاشرتہ بنانے والا تجربہ ہوگا۔ یہاں آپ کو علم کی عمق سے روشنی پھیلانے والے مواد ملیں گے جو آپ کے دینی علم میں اضافہ کریں گے۔ چینل کو منظوری دینے کے بعد، آپ مکمل اخباری راہنمائی حاصل کریں گے اور ہر روز نیا مواد حاصل کریں گے۔ سو چینل کو فوری طور پر شامل کریں اور علمی ترویج اور بہترین تعلیمی مواد سے مستفید ہوں۔

الحلقة العلمية (الهند)

21 Feb, 19:15


*🌹 تین طلاق کے بعد حلالہ کے علاوہ واپسی کی کوئی صورت نہیں ہے 🌹*


السلام علیکم و رحمتہ اللّه و برکاتہ ۔۔

کیا فرماتے ہیں علما کرام و مفتیان عظام مسلہ هذا میں کہ
زید اور ہندہ کے نکاح کو کچھ عرصہ گزرا تھا اسی دوران ہندہ نے صبح زید کو جگانا چاہا تو زید نے نیند سے بیدار ہو کر غصے میں پورے ہوش و حواس میں ہندہ کو طلاق دے دی اور تین بار اپنی زبان میں طلاق کہنے کے بعد آخر میں پھر کہا کہ میں طلاق دیتا ہوں اپنے گھر چلی جا ۔۔۔۔۔ اب کچھ افسوس سوچ و فکر کے بعد دوبارہ زید اسی ہندہ سے رشتہ جوڑنا چاہتا ہے ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا حلالہ کے علاوہ شریعت میں کوئی اور طریقہ ہے جس سے رشتہ کو جائز بنایا جائے یا نہیں ؟؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمایں ۔۔۔۔۔۔
فقط و السلام ۔
(نوٹ) زید نے بھری جماعت اور ایک مفتی اسلام کی موجودگی میں اقرار کیا ہے کہ ہاں میں نے طلاق کہا ہے

سائلہ :۔ کنیز مصطفیٰ کرناٹک ۔۔۔
_____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ میں اگر واقعی یہ بیان صحیح ہے اور واقعی زید نے بھری جماعت میں اور ایک مفتی اسلام کی موجودگی میں اتنی دفعہ طلاق دینے کا اقرار کیا ہے جتنی سوال میں مذکور ہے تو ہندہ پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور ہندہ زید کے نکاح سے اس طرح نکل چکی ہے کہ اب بلا حلالہ شرعی کے اس کے نکاح میں واپسی کی کوئی صورت نہیں ہے

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے

*" فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ "*

*📕(القرآن الکریم ، ۲/۲۳۰)*
ترجمہ: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقہ ثلاثہ امرأة رفاعة سے فرمایا

*" أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا ، حتى تذوقي عُسَيلَتَه ويذوقَ عُسَيْلتَكِ "*

*📔(صحیح البخاری ، كتاب الشهادات ، باب شهادة المختبىء ، ص۶۴۱ ، رقم الحدیث ۲۶۳۹ ، مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)*
ترجمہ ؛ کیا تم رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو ؟ نہیں جا سکتیں ! جب تک کہ وہ تمہارا اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو

اور محرر مذہب نعمانی سیدنا امام محمد بن حسن شیبانی متوفی ۱۸۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ولا تحل لہ امراتہ اذا وقع الثلاث تطلیقات حتی تنکح زوجا غیرہ و یدخل بہا و بلغنا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ اذا طلق الرجل امراتہ ثلاثا فتزوجت غیرہ انہا لا تحل للاول حتی یدخل بہا الثانی ثم یطلقہا "*

*📒( الاصل ، کتاب الطلاق ، ۴/۳۹۲ ، مطبوعہ دار ابن حزم ، الطبعۃ الاولی:۱۴۳۳ھ)*
یعنی ؛ جب تین طلاقیں واقع ہوگئیں تو عورت اس کیلئے حلال نہیں ہوگی جب تک عورت دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے اور وہ شوہر اس کے ساتھ صحبت بھی کرے ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پاک پہونچی ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو عورت نے دوسرے مرد سے شادی کی تو یہ عورت شوہر اول کیلئے اس وقت حلال نہیں ہوگی جب تک کہ شوہر ثانی صحبت نہ کرلے پھر طلاق دے دے

اور علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی و جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية "*

*📒(فتاوی ہندیہ ، کتاب الطلاق ، باب في الرجعة وفيما تحل به المطلقة ، ۱/۵۰۶ ، دارالکتب العلمیہ بیروت)*
یعنی ؛ جب طلاق آزاد عورت میں تین اور باندی میں دو ہوں تو عورت اس مرد کیلئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ عورت دوسرے شوہر سے نکاح صحیح نہ کرے اور وہ شوہر ثانی اس سے صحبت بھی کرے پھر طلاق دے یا وفات پا جائے

فلہذا اگر ہندہ زید کے پاس واپس جانا چاہتی ہے تو شرعی طور پر حلالہ کرنا ہی ہوگا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ، البتہ اگر زید کے پاس نہ جانا چاہے تو کوئی زبردستی نہیں ، جہاں چاہے اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے ، کما ھو مصرح فی کتب الفقہ والفتاوی

*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ___*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۲/ شعبان المعظم ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۱/ فروری ۲۰۲۵م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ

الحلقة العلمية (الهند)

21 Feb, 19:15


المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبد الرحمن قادری غفرلہ
دارالافتاء غریب نواز لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
عبداللہ الفہیمی النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء انوار القرآن ملتان
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:22/02/2025

الحلقة العلمية (الهند)

20 Feb, 12:55


*📒(الھدایہ ، کتاب الکراھیۃ ، فصل في الوطئ والنظر والمس ، ۷/۱۹۱ ، ادارۃ القرآن کراتشی)*
یعنی ؛ جو چیز ضرورت کے تحت ثابت ہوتی ہے وہ اسی مقدار کے ساتھ متعین ہوتی ہے

نیز شریعت مطہرہ کا قاعدہ کلیہ ہے کہ

*🖋️" أن من ابتلي ببليتين وهما متساويتان يأخذ بأيتهما شاء، وإن اختلفا يختار أهونهما "*

*📒(الاشباہ والنظائر ، ص۷۶)*
یعنی ؛: جو دو مصیبتوں میں مبتلا ہو اور وہ دونوں برابر ہوں تو جس کو چاہے اختیار کرے اور اگر مختلف ہوں تو آسان کو اختیار کرے

فلہذا اولا تو کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس میں زمین مسجد کی تبدیلی لازم نہ آئے لیکن اگر کوئی صورت ممکن نہیں ہے تو لوہے یا پلاسٹک وغیرہ کی باریک دیوار لب سڑک مسجد کی دیوار سے متصل اس طرح بنائی جائے کہ گورمنٹ کو اعتراض نہ ہو ، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو بدرجہ مجبوری پتلی چہار دیواری بنائی جائے جس سے مسجد کی کم سے کم زمین چہار دیواری میں صرف ہو مثلاً دس انچ کی دیوار کے بجائے پانچ کی دیوار بنائی جائے لیکن یہ چہار دیواری بھی چونکہ دراصل مسجد کی زمین پر ہی ہوگی لہذا اس کا ادب و احترام بھی مسجد کی طرح ہی مسلمانوں پر لازم ہوگا ، البتہ اگر لب سڑک غیر محسوس طور پر ٹین ، یا لوہے یا پلاسٹک کی باریک دیوار بنا دی جائے تو پھر وہ مسجدیت سے خارج ہوگی

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ _*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۱۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۶/ فروری ۲۰۲۵م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی شرف الدین الرضوی غفرلہ
دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہروز عالم اکرمی غفرلہ
دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد ہاشم رضا مصباحی غفرلہ
دارالقضاء والافتاء کھرگون ایم پی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
جلال الدین احمد امجدی نعیمی غفرلہ
جامعہ گلشن فاطمہ پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:21/02/2025

1405

الحلقة العلمية (الهند)

20 Feb, 12:55


*🌹 مسجد کی دیوار کو باؤنڈری وال قرار دے کر اندر سے دوسری دیوار بنانا شرعاً کیسا ہے ؟🌹*
ا__(💚)____

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک مسجد جو بالکل لب سڑک ہے ، سڑک بھی گورنمنٹ کی ہے ، ستر سال پرانی مسجد ہے ، کبھی شاید مسلمانوں کی وہاں اچھی خاصی آبادی رہی ہوگی مگر اب چند ہی گھر ہیں ، جبکہ چہار اطراف سے دور دور تک ہندؤں کی آبادی ہے
اپنے تہواروں میں وہ بڑی بدتمیزی کرتے ہیں ، عقبی حصہ سے متصل چوراہے پر مورتیاں بٹھاتے ہیں ، ہولی کھیلتے ہیں ، پٹاخے چھوڑتے ہیں ، جس کی وجہ ہولی کے رنگ ، پٹاخے کی چنگاریاں مسجد کی دیوار کو آلودہ کردیتے ہیں ، حفاظت کیلئے الگ سے باؤنڈری وال بنانے کی جگہ نہیں ہے
اب کمیٹی والے پرانی تعمیر کو شہید کرکے نئی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، ان کا ارادہ ہے کہ ابھی جو دیوار ہے اس کو باؤنڈری وال قرار دے دیا جائے اور ایک دو فٹ جگہ چھوڑ کر اندر دوسری دیوار مسجد کی بنائی جائے

اب مفتیانِ کرام فرمائیں کہ ایسا کرنا جائز ہوگا یا نہیں ؟
سائل _ عبداللہ ، ہبلی کرناٹک الھند
_____
الجواب بعون الملک الوھاب
( مذکورہ جماعت کے ذمہ داروں نے مجھے لے جا کر محل وقوع کا معائنہ کرایا ، واقعی چہار اطراف سے ہندؤں کی آبادی ہے اور ایسے میں بالکل لب سڑک ہونے کی وجہ سے ان کی شرارتوں سے خصوصاً مسجد کی دیواروں کو بچانا بہت مشکل ہے )
صورت مسئولہ کے جواب سے پہلے بطور مقدمہ یہ جان لینا چاہئے کہ زمین کا جو حصہ ایک بار مسجد قرار دے دیا گیا وہ قیامت تک مسجد ہی رہےگا ، اس میں کسی قسم کی تبدیلی ہرگز جائز نہیں

چنانچہ امام زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قال أبو يوسف : هو مسجد أبداً إلى قيام الساعة لا يعود ميراثاً ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى؛ كذا في الحاوي القدسي "*

*📒( البحر الرائق ، کتاب الوقف ، ۵/۴۲۱ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
یعنی ؛ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ وہ زمین قیام قیامت تک مسجد ہے نہ بطور میراث لوٹے گی اور نہ اس کا منتقل کرنا جائز ہے نہ اس کا مال دوسری مسجد کو دینا جائز ، چاہے اس میں لوگ نماز پڑھتے ہوں یا نہ پڑھتے ہوں ، یہی فتویٰ ہے جیساکہ حاوی قدسی میں ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" جو زمین مسجد ہوچکی اس کے کسی حصہ کسی جز کا غیر مسجد کر دینا اور اگرچہ متعلقات مسجد ہی سے کوئی چیز ہو حرام قطعی ہے قال الله تعالى " وَأَنَّ الْمَسْجِدَ للهِ " (اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ہیں "*

*📒(فتاویٰ رضویہ ، کتاب الوقف ، باب المسجد ، ۱۶/۴۸۳ ، رقم المسئلہ ۲۸۸ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

حتی کہ مسجد کی دیوار کا بھی وہی حکم ہے جو فرش مسجد کا ہے اسی لئے کسی کا اس کی دیوار پر میخ تک گاڑنا بھی ناجائز و حرام ہے

چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" دیوار مسجد میں جو سوراخ کیا ہے وہ سوراخ اسکے ایمان میں ہو گیا اس پر فرض قطعی ہے کہ اس ناپاک کڑی کو ابھی ابھی فوراً نکال لے اور دیوار مسجد کی ویسی ہی اصلاح کر دے جیسی تھی "*

*📒(ایضاً ، ص۳۰۹ ، رقم المسئلہ ۱۴۸)*

فلہذا صورت مسئولہ میں بنیادی طور پر موجودہ دیوار کو چہار دیواری قرار دینا اور اندر سے مسجد کیلئے ایک اور دیوار بنانا ہرگز جائز نہیں
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمان مسجد کی بے حرمتی کسی طرح گوارہ نہیں کر سکتے ، اور یہ مشرکین بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے ، خصوصاً ملک عزیز کے موجودہ حالات میں ان کی شرارتیں بڑھ گئی ہیں لہذا ان کی شرارتوں اور بے ادبیوں سے مسلمان مشتعل ہو سکتے ہیں اور ان مشرکین کے حد سے تجاوز کرنے پر فرقہ وارانہ فسادات تک کی نوبت آ سکتی ہے اور فتنہ برپا ہو سکتا ہے ، اور قرآن کریم میں فتنہ کو قتل سے زیادہ سخت فرمایا گیا ہے

چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے

*" وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ "*
*📕(القرآن الکریم ، ۲/۱۹۱)*
ترجمہ: اور فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہوتا ہے

فلہذا حفظ ما تقدم کی خاطر فتنہ و فساد سے بچنے کیلئے حاجت و ضرورت کے تحت اندر سے ایک الگ دیوار بنانے کی اجازت ہو سکتی ہے کیونکہ شرعی ضرورت کے وقت ناجائز چیز جائز ہو جاتی ہے

چنانچہ امام ابن نجیم مصری حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" الضرورات تبيح المحظورات "*

*📒(الاشباہ والنظائر ، الفن الاول ، القاعدۃ الخامسۃ ، ص۷۳ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۹ھ)*
یعنی ؛ ضرورتیں ناجائز کو جائز بنا دیتی ہیں

مگر یہاں یہ ضرور خیال رہے کہ ضرورت جتنی مقدار میں ہو جواز بھی اتنی مقدار میں رہتا ہے ، ضرورت سے زیادہ کی اجازت ہرگز نہیں ہوتی

چنانچہ امام برہان الدین ابوالحسن علی مرغینانی حنفی متوفی ۵۹۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ما ثبت بالضرورة يتقدر بقدرها "*

الحلقة العلمية (الهند)

15 Feb, 13:38


*🌹 تین طلاق یافتہ عورت کو بعد حلالہ شوہر اول سے نکاح کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟🌹*
ا__(💚)____

مسئلہ عرض یہ ہے کہ زید نے ہندہ کو غصے میں آکر تین یا چار مرتبہ طلاق کہا ہے ۔اور زید کا سارا گھرانہ جاہلانہ ہے کچھ علم نہیں رکھتا ۔
اب پھر افسوس کے بعد دوبارہ زید ہندہ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے ۔اور کوشش میں ہے کہ کوئی بہتر صورت حال نظر آئے تو رشتہ قائم رکھ سکے جب کہ ھندہ کی دوسری شادی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔

ادھر ہندہ ان جاہل لوگوں سے آزادی چاہتی ہے اور وہ اب تک بہت کچھ برداشت کر چکی ہے شاید خدا نے اسکے ساتھ بہتر معاملہ فرمایا ہے تاکہ وہ مزید ان جاہلوں کے قربت سے آزاد ہو سکے ۔۔۔۔

مگر ہندہ کے گھر والے حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ بھی کسی طرح اس رشتہ کو جوڑ کر رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اب ہندہ پریشان ہے بے قرار ہے کہ کس طرح اس مسئلے کو جلد از جلد ختم کرے
سائل ...... عبداللہ ، کرناٹک
ا__(💚)____
*الجواب بعون الملک الوھاب*
سائل کا بیان اگر واقعی درست ہے تو ہندہ پر تین طلاقیں پڑ چکی ہیں

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے

*" فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ- "*

*📕(القرآن الکریم ، ۲/۲۳۰)*
ترجمہ: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے

اب بلا حلالہ واپسی کی کوئی صورت نہیں اور حلالہ یہ ہے کہ عدت گزرنے کے بعد عورت دوسرے مرد سے نکاح صحیح کرے اور وہ مرد اس سے صحبت بھی کرے پھر وہ طلاق دے اور عورت اس کی بھی عدت گزارے تب جاکر وہ شوہر اول کیلئے حلال ہوگی جیساکہ قرآن کریم کی اسی مذکورہ آیت کریمہ سے واضح ہے

اور محرر مذہب نعمانی حضرت امام محمد بن حسن شیبانی متوفی ۱۸۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ولا تحل له امرأته إذا وقع الثلاث تطليقات حتى تنكح زوجاً غيره ويدخل بها. وبلغنا عن رسول الله ﷺ أنه إذا طلق الرجل امرأته ثلاثاً فتزوجت زوجاً غيره أنها لا تحل للأول حتى يدخل بها الثاني ثم يطلقها "*

*📒(کتاب الاصل ، کتاب الطلاق ، ۴/۳۹۲ ، مطبوعہ دار ابن حزم ، الطبعۃ الاولی:۱۴۳۳ھ)*
یعنی ؛ جب تین طلاقیں واقع ہوگئیں تو اس کیلئے عورت حلال نہیں ہوگی جب تک کہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرےاور وہ اس کے ساتھ دخول نہ کرے ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی یہ حدیث پاک پہونچی ہے کہ جب مرد نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو عورت نے دوسرے مرد سے شادی کی تو پہلے شوہر کیلئے وہ حلال نہیں ہوگی حتی کہ شوہر ثانی اس سے صحبت کرے پھر طلاق دے

نیز عاقل بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر جائز نہیں

چنانچہ حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

*" إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهَا."*

*📔(الصحیح للبخاری ، کتاب النکاح ، باب إذا زوج الرجل ابنته وهي كَارِهَةٌ ، فنكاحُه مَرْدُود ، رقم الحدیث ۵۱۳۸ ، ص ۱۳۱۰ ، دار ابن کثیر بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
ترجمہ ؛ ان کے والد ماجد نے ان کی شادی کر دی جبکہ وہ ثیبہ تھیں، مگر اُنہیں یہ شادی ناپسند تھی۔ تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرما دیا

اور دوسری حدیث پاک میں ہے کہ

*" لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ. "*

*📔(ایضاً ، باب لا يُنكح الأب وغيره البكر والثَّيِّب إلا برضاهما ، رقم الحدیث ۵۱۳۶)*
ترجمہ ؛ بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنوای لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اللہ ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے

اور امام ابوبکر علی بن حداد حنفی متوفی ۸۰۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكراً كانت أو ثيباً "*

*📒(السراج الوھاج ، کتاب النکاح ، ص ۳۲۰ ، مخطوطہ ، رقم المخطوط: ۱۶۲۱ ، نورو عثمانیہ)*
یعنی ؛ اگر عقل صحیح والی بالغہ عورت کا نکاح کسی کے ساتھ باپ نے یا سلطان نے اس کی رضامندی یا اجازت کے بغیر کردیا چاہے باکرہ ہو یا ثیبہ تو وہ جائز نہیں ہوگا

اور علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكراً كانت أو ثيباً فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته جاز وإن ردته بطل "*

الحلقة العلمية (الهند)

15 Feb, 13:38


*📒(الفتاوی الھندیہ ، کتاب النکاح ، الباب الرابع فی الاولیاء ، ۱/۳۱۶ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۱ھ)*
یعنی ؛ اگر عقل صحیح والی بالغہ عورت کا نکاح کسی کے ساتھ باپ نے یا سلطان نے اس کی رضامندی یا اجازت کے بغیر کردیا چاہے باکرہ ہو یا ثیبہ تو ایسی صورت میں وہ نکاح عورت کی اجازت پر موقوف رہےگا اگر عورت نے اجازت دے دی تو درست ہوجائےگا اور رد کردے تو رد ہوجائےگا

فلہذا اگر ہندہ زید کے ساتھ دوبارہ نکاح نہیں کرنا چاہتی تو شرعاً اسے اس نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ بغیر رضامندی نکاح پر مجبور کرنا سراسر ظلم ہے

چنانچہ امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ اور علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ولا تجبر البالغة البكر على النكاح لانقطاع الولاية بالبلوغ "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب النکاح باب الولی ، ص۱۸۳ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ؛ بالغہ باکرہ لڑکی کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بلوغت کی وجہ سے ولایت منقطع ہو چکی ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" کسی کی بیٹی کو جبرا بلا نکاح لے جانا پھر بالجبر نکاح کرنا ظلم پرظلم اور مسلمان کو عار لاحق کرنا ہے..... جب بے مرضی لکڑی لینی حرام ہے لڑکی لینی کسی درجہ حرام واشد حرام ہو گی "*

*📒(فتاویٰ رضویہ ، کتاب النکاح ، ۱۱/۲۰۴ ، رقم المسئلہ ۲۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

البتہ اگر کوئی شرعی قابل قبول عذر نہیں ہے تو عورت کو اپنے گھر والوں کی بات ماننی چاہئے کہ گھر والے اپنی بچی کا برا نہیں چاہتے ہوسکتا ہے کہ اس کا بھلا وہیں ہو جہاں اس کے گھر والے چاہتے ہیں

چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" باقی رہا کہ مجبور کرنا شرعا کوئی وجہ الزام رکھتا ہے یا نہیں۔ ممکن نہ رکھتا ہو بلکہ عورت کی خیر خواہی ہو عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہیں، اور باپ سے زیادہ اولاد پر کون مہربان ہے سوا اللہ ورسول کے ، ظاہر یہی ہے کہ جہاں وہ چاہتی تھی اس میں شر تھا اور جہاں باپ نے چاہا اس میں خیر ، تو ایسے احتمال قوی کی حالت میں اس جبر کو بوجہ الزام نہیں ٹھہرا سکتے جیسے مریض کو بالجبر دوا پلانا "*

*📒(ایضاً ، باب الولی ، ص۶۷۹ ، رقم المسئلہ ۴۱۵)*

خلاصہ یہ کہ بر صدق سائل ہندہ پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ، اب بے حلالہ زید کے نکاح میں نہیں آسکتی ، اور چونکہ ہندہ بعد حلالہ بھی زید کے پاس جانے پر کسی طرح راضی نہیں ہے لہذا اسے شرعاً مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے گھر والوں کو چاہئے اس کی مرضی کے مطابق رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کریں ، البتہ اگر ہندہ بلا کسی عذر شرعی و معقول وجہ کے زید کے پاس دوبارہ نہیں جانا چاہتی تو اسے اپنے فیصلہ پر غور کرنا چاہئے اور گھر والوں کی بات ماننی چاہئے

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ......*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۱۱/ شعبان المعظم ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۰/ فروری ۲۰۲۵م*

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبد الرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز ، لمبی جامع مسجد
ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ابواسید عبید رضا المدنی النعیمی غفرلہ
دارالافتاء اہلسنت عیسی خیل میانوالی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:15/02/2025

1404

الحلقة العلمية (الهند)

14 Feb, 11:36


1403

الحلقة العلمية (الهند)

06 Jan, 01:50


فلہذا اصل حکم تو یہ ہے کہ مذکورہ مکان کو مسجد کمیٹی اصل یا اس سے کم کرایہ پر اور کچھ زیادتی کی صورت میں زیادہ پر دوسرے کو دے سکتی ہے
لیکن فی زمانہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کی گورمنٹ کی زمینیں مالکانہ حقوق نہ ہونے کے باوجود قابض حضرات اپنا قبضہ آپس میں خطیر رقم پر بیچتے خریدتے ہیں اور قابض آدمی رقم لے کر باؤنڈ بنا کر قبضہ دوسرے شخص کو دے دیتا ہے ، یہی عرف ہے اور اسی پر تعامل ہے ، اور گورنمنٹ کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا ، بلکہ کارپوریشن والے خود فریق ثانی یا ثالث وغیرہ کے نام پٹہ بنا کر دیتے ہیں فلہذا " المعروف المشروط " کے تحت اور گورنمنٹ کے قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے کے سبب یہ جائز ہے

فلہذا صورت مسئولہ میں اس شخص کا وہ مکان مسجد کمیٹی کے حوالے کرنا بھی درست تھا اور مسجد کا اسے قبضے میں لینا بھی درست ، اب اگر کمیٹی مناسب رقم لے کر دوسرے کو پٹے کی یہ زمین اور اس پر بنا ہوا مکان دینا چاہتی ہے تو دے سکتی ہے شرعاً کوئی حرج نہیں کہ یہ زیادتی زمین پر بنے ہوئے مکان اور تعامل مسلمین کی وجہ سے ہے

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۸/ جمادی الآخر ۱۴۴۶ھ مطابق ۳۱/ دسمبر ۲۰۲۴ء*

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی شرف الدین الرضوی غفرلہ
دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:06/1/2025

1402

الحلقة العلمية (الهند)

06 Jan, 01:50


*🌹 دوامی پٹے کی گورمنٹی زمین دوسرے کو کرایہ پر دینا شرعاً کیسا ہے ؟ 🌹*
ا__(💚)____
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک شخص کے پاس گورنمنٹ کے پٹے کی زمین تھی پٹے کی زمین کا در اصل جس کے قبضے میں ہوتی ہے وہ تھوڑا بہت گورمنٹ کو کرایہ دیتا ہے صاحب مکان نے مسجد کی کمیٹی کو دے دیا کئی سالوں پہلے یہ کہہ کر کے اس کی آمدنی مسجد کے مصارف میں خرچ کرے ۔۔اب مکان بہت پرانا ہو چکا ہے مسجد کمیٹی کے پاس نئے سرے سے بنانے کے لیے خطیر رقم نہیں ہے اس لیے مسجد کمیٹی چاہتی ہے کہ اس مکان کو دوسرے کے حوالے کر کے رقم لے کر مسجد کے مصارف میں خرچ کیا جائے
کیا پٹے کی زمین کو مسجد کمیٹی دوسرے کے حوالے کر کے رقم لے سکتا ہے یا نہیں مسجد کمیٹی بیچ نہیں رہی ہے بلکہ دوسرے کو یوں ہی دے کر رقم لینا چاہتی ہے

سائل اراکین کمیٹی سیندھوا ایم پی
ا__(💚)____
الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ دوامی پٹہ کی ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ حکومت یا کسی وقف کے ادارے یا بیت المال یا کسی کی شخصی ملکیت سے کوئی زمین یا مکان یا دکان باہمی رضامندی سے متعین کرایہ پر لے لے ، اس عقد میں زمین یا مکان یا دکان کا مالک کرایہ دار کے نام پر یہ لکھ کر دے دیتا ہے کہ یہ زمین/مکان/دکان ہمیشہ کیلئے کرایہ دار کو دی جا رہی ہے ، جس کے بعد مالک اور کرایہ دار دونوں اس بات سے واقف رہتے ہیں کہ اب سے زمین/مکان/دکان پر ملکیت تو مالک کی ہی رہےگی مگر اس کو ہمیشہ کیلئے استعمال کرنے کا حق کرایہ دار کے پاس رہےگا
فقہائے متاخرین نے دائمی حق استعمال کی یقین دہانی ، کرایہ دار کی اس زمین / مکان / دکان پر صرف رقم و محنت ، تعمیر عین کی شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے
اس وضاحت سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ دوامی پٹہ میں جائیداد پر جو دائمی حق کرایہ دار کو ملتا ہے اور اس کے انتقال کے بعد اس کے ورثہ کی طرف یہ حق منتقل ہوتا ہے وہ صرف بطور " استعمال" نہ کہ بطور ملکیت ! فلہذا مساجد مدارس وغیرہ کیلئے اس کا وقف درست نہیں کہ صحت وقف کیلئے واقف کی ملکیت ضروری ہے کما فی بہار شریعت ، کتاب الوقف ۲/۵۲۷ ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراتشی

صورت مسئولہ میں جس آدمی نے پٹے کی یہ گورمنٹی مکان مسجد کمیٹی کو دیا وہ بطور وقف نہیں ہوسکتا کہ ملکیت مفقود ہے ، ہاں حق استعمال اس نے مسجد کو دیا جو کہ شرعاً جائز امر ہے

اور چونکہ کرایہ پر لی ہوئی زمین / مکان / دکان اس شرط کے ساتھ آگے بھی کرایہ پر دینا جائز ہے کہ جتنا کرایہ خود کرایہ دار گورنمنٹ یا مالک کو ادا کررہا ہے اتنے ہی کرایہ پر یا اس سے کم کرایہ پر دوسرے کو دے سکتا ہے

چنانچہ علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" وإذا استأجر داراً وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل "*

*(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الاجارۃ ، الباب السابع في إجارة المستأجر ، ۴/۴۷۹ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی: کسی نے گھر کرایہ پر لیا اور اس پر قبضہ بھی کرلیا تو اس کیلئے جائز ہے کہ اتنے ہی کرایہ پر یا اس سے کم پر دوسرے کو کرایہ پر دے

البتہ اگر کمیٹی نے اس میں کوئی زیادتی کی ہو مثلاً کنواں کھدوایا ہو یا بورنگ کی ہو یا کھڑکی دروازے لگائے ہوں وغیرہ جو مکان کیلئے مفید ہو تو اب زیادہ کرایہ پر بھی دے سکتی ہے کہ اب کرایہ کی یہ زیادتی اس مکان میں زیادتی کے عوض ہوجائےگی

چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" ولو زاد في الدار زيادة - كما لو وتد فيها وتداً أو حفر فيها بئرا أو طيناً أو أصلح أبوابها أو شيئاً من حوائطها طابت له الزيادة "*

*📒(ایضاً)*
یعنی: اگر گھر میں کچھ زیادتی کی مثلاً کیل گاڑا یا کنواں کھودا یا مٹی سے لپائی کی یا دروازے اور دیوار ٹھیک کروائے تو زیادتی اس کیلئے حلال ہوگی

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اگر رضائے زمیندار ہے تو جب تک بھی ہے کاشت کار اس میں کاشت کر سکتا ہے۔ اور دوسروں کو ذیلی بھی بنا سکتا ہے۔ مگر زر لگان جتنا خود ادا کرتا ہے اس سے زیادہ دوسرے سے نہیں لے سکتا، اگر لے گا مال خبیث ہوگا، مگر تین صورتوں میں، ایک یہ کہ لگان کی جنس بدل دے مثلاز میندار سے روپے ٹھہرے ہیں، یہ ذیلی سے سونا یا نوٹ ٹھہرائے یا اس زمین میں کوئی مالیت کی چیز مثل کنویں کے اضافہ کرے یا اس زمین کے ساتھ دوسری زمین ملاکر مجموع کو ذیلی کاشت میں دے، مثلا ڈھائی روپے بیگھ پر اس سے لی ہے۔ یہ ایک بیگھہ زمین اس میں اور شامل کرکے مجموع ۲۱ بیگھہ بلا تفصیل ذیلی کو ایک سو پانچ روپے پر دے، یہ صورتیں جائز ہیں "*

*📒(فتاویٰ رضویہ ، کتاب المزارعہ ، ۲۰/۲۵ ، رقم المسئلہ ۵۷ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

الحلقة العلمية (الهند)

18 Dec, 08:41


*🌹 پٹھان شخص اگر بیٹی کا نکاح رنگریز لڑکے سے کرے تو کیا حکم ہے ؟ برادری والوں کا اس پر بائیکاٹ کرنا کیسا ہے ؟ کفو کا مسئلہ🌹*
ا__(💚)____

السلام علیکم کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک پٹھان برادری سے تعلق رکھتا ہوں اب میں اپنی بیٹی کا نکاح رنگریز برادری میں کرنا چاہتا ہوں جبکہ دونوں لڑکے لڑکی کے ماں باپ بھی راضی ہے لیکن رنگریز سماج کی پنچایت والے اعتراض کر رہے ہیں اور جرمانہ کی دھمکی اور برادری سے بائیکاٹ بھی کر دیتے ہیں۔ تو ایسی پنچایت پر کیا حکم ہوگا؟
اور فتوی آنے پر بھی پنچایت نہیں مانے تو کیا حکم ہوگا؟
قادری راجستھان
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

شرعا کفو کے معنی یہ ہیں کہ مذہب یا نسب یا پیشہ یا چال چلن کسی بات میں مرد ایسا کم نہ ہو کہ اس کے ساتھ اس عورت کا نکاح اولیائے زن کے لئے باعث ننگ و عار ہو

*📒(فتاویٰ رضویہ مترجم ، ۱۱/۶۸۰)*

باب کفاءت میں اعتبار اسی شرعی کفو کا ہے ، ہم قوم ہونے یعنی قومی کفو کا اعتبار نہیں ، کہ بسا اوقات قومی کفو ہونے کے باوجود شرعی کفاءت نہ ہونے کے سبب نکاح منعقد نہیں ہوتا

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اور اگر اس معنی شرعی پر کفو نہیں اگر چہ ہم قوم ہو جسے عوام میں کفو کہتے ہیں مثلا مذہب یا پیشہ یا چال چلن میں ایسا کم ہو کہ اس عورت کا اس سے نکاح ولی زن کے لئے باعث عار و بد نامی ہے تو زن مکلفہ کا بے اجازت ولی اس سے نکاح باطل و مردود محض ہے "*

*📒(فتاویٰ رضویہ مترجم ، کتاب النکاح ، باب الکفو ، ۱۱/۵۸۱ ، رقم المسئلہ ۴۱۷ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اسی لئے علامہ مفتی محمد اجمل نعیمی حنفی متوفی ۱۳۸۳ھ نے فرمایا

*🖋️" عام لوگ غیر کفو کے معنی صرف غیر قوم جانتے ہیں اگر چہ وہ علم ، تقوی نسب مال شرافت، وجاہت میں اپنا ہمسر ہی ہو اسطرح کفو کے معنی صرف ہم قوم بجھتے ہیں اس بنا پر یہ لوگ اپنے ہم قوم فاسق کو صالحہ یا بنت صالح کا کفو جانتے ہیں اور اپنے ہم قوم ایسے غریب کو جو مہر معجل اور نفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو مالدار عورت کا کفو قرار دیتے ہیں اور اپنے ہم قوم عالم کو جاہل کا کفو ٹھراتے ہیں اور سب سے بڑی جہالت یہ ہے کہ اپنے ہم قوم بد مذہب جیسے وہابی غیر مقلد و رافضی، قادیانی وغیرہ کو صحیح العقید سنی حنفی کا کفو سجھتے ہیں لہذا کفو کے یہ معنی محض عوام نے گڑھے ہیں۔ شریعت مطہرہ میں کفو کے یہ معنی نہیں، کفو کے شرعی یہ معنی ہیں کہ مذہب نسب تقوی، پیشہ اور مال میں کوئی ایسی کمی یا نقص نہ ہو جو عورت کے ولیوں کے لئے ننگ و عار کا سبب ہو ..... تو اب شریعت کی رو سے سنی العقیدہ بد مذہب کا کفو نہیں، اچھے پیشے والا ذلیل پیشے والے کا کفو نہیں متقی فاسق کا کفو نہیں، مالدار ایسے غریب کا کفو نہیں جو مہر معجل اور نفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔ اب چاہے یہ تمام ہم قوم ہی کیوں نہ ہوں۔ تو شریعت نے کفاءت کے لئے ان باتوں کا اعتبار کیا ہے اور اسی معنی پر احکام مرتب فرمائے ہیں ...... تو اب جہاں کفو کا لفظ آتا ہے اس سے یہ شرعی معنی مراد ہوتے ہیں نہ یہ عرفی معنی جو عوام کے گڑھے ہوئے ہیں "*

*📒(فتاویٰ اجملیہ ، کتاب النکاح ، باب الکفو ، ۳/۸۹,۹۰ ، شبیر برادرز لاہور)*

نیز اگر لڑکی غیر کفو میں نکاح کرنا چاہتی ہے اور نکاح سےپہلے ولی لڑکے کے احوال پر مطلع ہوکر اجازت دے دے تو نکاح درست ہوجائےگا

چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" یہ نکاح اس صورت میں جائز ہو سکے گا کہ ولی نے پیش از نکاح اس غیر کفو بمعنی مذکور کی حالت مذکورہ پر مطلع ہو کر دیدہ و دانستہ صراحت بالغہ کو اس کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دے دی ہو "*

*📒(فتاویٰ رضویہ مترجم ، ۱۱/۲۸۱ ، رقم المسئلہ ۱۱۶)*

بلکہ عوامی کفو کے غیر میں اگر لڑکی بے اذن و رضائے ولی بھی نکاح کرلے تو نکاح درست ہوگا حتی یہاں ولی کو حق اعتراض بھی نہیں رہےگا

چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" ہاں عوام کے محاورہ میں غیر کفو سے کہتے ہیں جو اپنا ہم قوم نہ ہو مثلا سید و شیخ یا شیخ اور پٹھان یا پٹھان اور مغل، ایسا غیر کفو اگر اس شرعی معنی پر غیر کفو نہ ہو تو بالغہ کا بے اذن ولی بلکہ بنا راضی ولی اس سے نکاح کر لینا جائز ہے اور ولی کو اس پر کوئی حق اعتراض نہیں "*

*📒(ایضاً ، ص۲۸۱)*

ان تمام تصریحات کی روشنی میں صورت مسئولہ کا حکم واضح ہے کہ جب لڑکا ، لڑکی اور ان دونوں کے اولیاء راضی ہیں تو یہ نکاح بلاشبہ درست ہے اور رنگریز برادری کا اعتراض محض قومیت و برادری کی بنا پر ہے جو شرعاً ہرگز لائق اعتناء نہیں ، نہ ان کا بائیکاٹ کرنا جائز ہے نہ جرمانہ عائد کرنا درست ، جائز معاملات میں مالی جرمانہ ناجائز ہے تو ایک ناجائز بات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے جرمانہ عائد کرنا بدرجہ اولیٰ ناجائز و حرام ہے ،

الحلقة العلمية (الهند)

18 Dec, 08:41


بحر العلوم علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی حنفی متوفی ۱۴۳۴ھ اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں

*" اگر ہندہ کے اولیاء کو اس رشتہ پر اعتراض نہیں تھا اور وہ جان بوجھ کر اس نکاح پر راضی ہوئے تو نکاح صحیح ہو گیا ، جو لوگ زید کو صرف اس نکاح کی وجہ سے چٹائی سے باہر کرتے ہیں ظلم کرتے ہیں، ان لوگوں کو اس ظلم سے باز آنا چاہیے "*

*📒(فتاویٰ بحر العلوم ، کتاب النکاح ، باب الکفو ، ۲/۴۷۰ ، شبیر برادرز لاہور)*

وہاں کی اس رنگریز برادری پر لازم ہے کہ حکم شرع کے آگے سر تسلیم خم کریں ،
مسلمان پر مکمل اسلام کے احکامات ماننا ضروری ہے،جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

*" ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾"*
ترجمہ:اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

*📔(القرآن،پارہ 2،سورۃ البقرۃ،آیت208)*

ایمان و الوں کا طرز عمل یہ ہے ، جو اللہ و رسول عزو جل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم ملے تو اسے قبول کرتے ہیں اور بِلا چون و چرا عمل کرتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

*"﴿اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیۡنَہُمْ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ﴾"*

ترجمہ: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرمادے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی او ریہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔“

*📔(القرآن،پارہ 18،سورۃ النور،آیت51)*

یاد رکھیں کہ فتویٰ چونکہ حکم شرعی ہے، لہذا اس کا احترام کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ اس کی توہین سے شریعت کی توہین ہوگی جس میں نہ صرف کفر کا اندیشہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات کفر بھی ہوتا ہے

چنانچہ امام افتخار الدین طاهر بن احمد بخاری حنفی متوفی ۵۴۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" القی الفتوی علی الارض و قال چہ شرع است ایں "*

*📒(خلاصۃ الفتاوی ، کتاب الفاظ الکفر ، الفصل الثانی ، الجنس الثامن ، ۴/۳۸۸ ، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
یعنی ، کسی نے فتوی کو زمین پر پھینک کر کہا یہ کیا شریعت ہے (تو کافر ہوگیا)

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۸/ جمادی الاخرہ ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۱/ دسمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:18/12/2024

1402

الحلقة العلمية (الهند)

12 Dec, 17:48


*🌹 کنویں کے قریبی گڑھے کا ناپاک پانی کنویں میں گرا تو کیا حکم ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں
کنویں کے قریب ایک نل ہے اس نل کا پانی ٹپک رہا تھا کتے نے اس نل سے پانی چوس کر پی لیا کچھ پانی نل کے نیچے ایک گڑھے میں جمع ہو کر کنویں میں گر گیا تو اب اس کنویں والے پانی کا کیا حکم ہے؟
جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائلہ شاہین فاطمہ پونے انڈیا
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

کتے کا جھوٹا ناپاک ہے

چنانچہ امام ابوالحسین قدوری حنفی متوفی ۴۲۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وَسُورُ الْكَلْبِ، وَالْخِنْزِيرِ ، وَسِبَاعِ الْبَهَائِم نَجِسٌ "*

*📒(مختصر القدوری ، کتاب الطھارۃ ، احکام السور ، ص۴۹ ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۶ھ)*
یعنی ، کتا ، خنزیر اور درندے جانوروں کا جھوٹا ناپاک ہے

اور غیر ماء جاری اور غیر غدیر عظیم میں تھوڑی سے سی بھی نجاست گرنے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے

چنانچہ امام ابوجعفراحمد طحاوی حنفی متوفی ۳۲۱ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وإذا وقعت نجاسة في الماء فظهر فيه لونها أو طعمها أو ريحها أو لم يظهر ذلك فيه فقد نجسته قليلا كان ذلك أو كثيراً إلا أن يكون بحراً أو ما حكمه حكم البحر وهو مالا يتحرك أحد أطرافه بتحريك ما سواه من أطرافه "*

*📒(مختصر الطحاوی ، کتاب الطھارۃ ، ص۱۶ ، مطبوعہ المعارف النعمانیہ حیدرآباد)*
یعنی ، جب پانی میں نجاست گر جائے اور اس میں اس کا رنگ یا مزہ یا بو ظاہر ہو یا ظاہر نہ ہو پانی کو ناپاک کردےگی چاہے پانی چاہے قلیل ہو یا کثیر ، مگر یہ کہ دریا ہو یا دریا کے حکم میں ہو اور دریا کے حکم میں وہ ہے جس کا ایک کنارہ ہلانے سے دوسرے کنارے نہ ہلیں

فلہذا صورت مسئولہ میں اگر کنواں جاری نہیں ہے یا دہ در دہ سے کم ہے تو مذکورہ کنواں ناپاک ہوجائےگا ، کیونکہ کتے نے جب نل سے منہ لگا کر چوس کر پانی پیا اور پیتے ہوئے کچھ پانی گرا تو اس کے منہ سے لگ کر گرنے والا پانی یقیناً ناپاک ہے ، اور وہ جب گڑھے میں گیا (بشرطیکہ وہ گڑھا بھی دہ در دہ سے کم ہو یا ایک طرف سے پانی داخل ہوکر دوسری طرف سے بہہ کر نہیں نکلتا ہو) تو گڑھے کا پورا پانی بھی ناپاک ہوگیا ، اب جب یہ ناپاک پانی کنویں میں گرگیا تو کنویں کا پورا پانی بھی ناپاک ہوگیا

چنانچہ امام ابوبکر جصاص رازی حنفی متوفی ۳۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" تحصيل المذهب فيه أن كل ما تيقنا فيه جزءاً من النجاسة، أو غلب ذلك في رأينا : فهو نجس لا يجوز استعماله "*

*(شرح مختصر الطحاوی ، کتاب الطھارۃ ، ۱/۲۳۹ ، دارالبشائر الاسلامیہ ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۳۱ھ)*
یعنی ، حاصل مذہب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس میں نجاست کا کوئی جزء یقینی طور موجود ہو یا موجود ہونے کا ظن غالب ہو وہ ناپاک ہے اس کا استعمال جائز نہیں ہے

اور امام برہان الدین محمود ابن نازہ بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ھ فرماتے ہیں

*🖋️" النجاسة وإن كانت في بعض السقف، إلا أن الماء قد مر عليها ، فينجس، فهذا ماء جار نجس، ولكن الصحيح : أنه ينظر في الذي يسيل من السقف والثقب إن كان مطراً دائما لم ينقطع بعد، فما سال من الثقب فهو طاهر ، وأما إذا انقطع المطر ، وسال من السقف شيء ، فما سال فهو نجس . "*

*📒(المحیط البرھانی ، كتاب الطهارات ، الفصل الرابع في المياه ، ۱/۲۴۰ ، ادارۃ القرآن کراتشی ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، نجاست چھت کے کسی حصے میں ہو اور پانی اس پر سے گزر کر جائے تو وہ بہتا ہوا پانی ناپاک ہوگا ، لیکن صحیح یہ ہےکہ چھت سے جو پانی بہہ رہا ہے اسے دیکھا جائے گا اگر بارش لگاتار ہورہی ہے بہنے کے بعد بھی بارش منقطع نہیں ہوئی ہے تو چھت سے یا سوراخ سے بہنے والا پانی پاک ہے ، لیکن اگر بارش تھم چکی ہے اور اس کے بعد چھت سے پانی بہا تو پانی ناپاک ہے

صورت مسئولہ میں بھی یہی حال جب وہ گڑھا چھوٹا ہے اور ایک طرف سے پانی داخل ہوکر دوسری طرف سے بہہ کر نہیں نکلتا تو وہ ٹھہرا ہوا پانی کتے کے جھوٹے کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے ناپاک ہوگیا اور یہ ناپاک پانی کنویں میں گرا تو وہ بھی ناپاک ہوا ، اور جب کنواں ناپاک ہو جائے تو اس کا پورا پانی نکالنا واجب ہوتا ہے

چنانچہ امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ فرماتے ہیں

*🖋️" إذا وقعت نجاسة في بئر دون القدر الكثير أو مات فيها حيوان دموي وانتفخ أو تفسخ ينزح كل مائها بعد إخراجه "*

*📒(تنویر الابصار ، کتاب الطھارۃ ، فصل فی البئر ، ص۱۴ ، دارالکتب العلمیہ بیروت)*
یعنی ، جب دہ در دہ سے کم مقدار کے کنویں میں نجاست گر جائے یا کوئی دموی جانور اس میں مرجائے یا پھول جائے یا پھٹ جائے تو نجاست کو نکالنے کے بعد پورا پانی نکالا جائےگا

الحلقة العلمية (الهند)

12 Dec, 17:48


*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۷/ جمادی الثانی ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۰/ دسمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:12/12/2024

1401

الحلقة العلمية (الهند)

11 Dec, 01:48


*🌹 سنی لڑکے نے وہابی لڑکی سے شادی کی تو اس کے ولیمہ میں جانا شرعاً کیسا ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس سوال کا جو اب ارجنٹ مطلوب ہے۔۔۔لڑکا سنی ہے اور دیوبندی لڑکی سے شادی کر رہا ہے کیا اس کے یہاں ولیمہ کی دعوت میں جانا درست ہے یا نہیں۔
سائل ۔ اسماعیل رضوی ، اتردیناجپور بنگال
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

لڑکی اگر واقعی دیوبندی ہے یعنی اس کے وہی عقائد ہیں جو حقیقی دیوبندیوں کے ہیں یا طواغیت اربعہ کی کفریہ عبارتوں پر مطلع ہے اور انہیں درست سمجھتی ہے یا کم از کم ان طواغیت اربعہ کو مسلمان جانتی ہے تو وہ کافر و مرتد ہے ، اس کا نکاح کسی مسلمان سے تو کیا دنیا میں کسی سے نہیں ہوسکتا ، کما ھو مبرھن فی کتب الفقہ والفتاوی لاسیما فی الفتاوی الرضویۃ ، والفتاوی المصطفویۃ ، و فیض الرسول ، و فتاوی شارح البخاری ، و فتاویٰ تاج الشریعۃ وغیرھا
فلہذا ایسی صورت میں یہ نکاح ہی باطل ہے تو ولیمہ چہ معنی دارد ؟ بلکہ یہ تو حرامکاری کی خوشی کی دعوت ہوگئی ، جس میں شرکت کی ہرگز اجازت نہیں ہوسکتی

اور اگر واقعی دیوبندی نہیں ہے بلکہ بس سنی دیوبندی اختلافات کو محض نیاز فاتحہ وغیرہ تک محدود جانتی ہے اور تجربہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ عموماً دیوبندی عورتوں کو اصل اختلافات کی خبر تک نہیں ہوتی تو ایسی صورت میں نکاح اگرچہ درست ہے کہ وہ محض گمراہ و بدمذہب ہیں ، مگر چوں کہ گمراہ و بد مذہب سے میل جول ، دوستی، یارانہ جائز نہیں اس لیے ایسے دیو بندیوں سے بھی بیاہ شادی ہرگز ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ شادی کے بعد میل جول، دوستی ، یارانہ لازم ہے ،

*📒(فتاویٰ شارح بخاری ، ۳/ ۲۸۷ ، ۳۳۱ ، )*

اس لئے اس صورت میں بھی اس ولیمہ میں شرکت ہرگز نہ چاہئے تاکہ اس کے آئے ہوئے دیوبندی رشتہ داروں سے اختلاط پیدا نہ ہو ، نیز ایسے سنی مسلمانوں کو عبرت ہو تاکہ دوسرے اس قسم نکاح و شادی سے بچیں ،

قال اللہ تبارک وتعالیٰ

*وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ*

*📔(القرآن الکریم ، ۵/۲)*

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*8/12/2024*

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
دار الافتاء غوثیہ کاشی فور ، اتراکھنڈ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:10/12/2024

1400

الحلقة العلمية (الهند)

11 Dec, 01:33


ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:10/12/2024

1399

الحلقة العلمية (الهند)

11 Dec, 01:33


*🌹 امامت سے معزولی کے بعد بھی سابق امام کا وقف بورڈ کی رقم لینا شرعاً کیسا ہے ؟🌹*

ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ علماء کرام و مفتیان کرام کی بارگاہ میں سوال ہے کہ ایک امام صاحب امامت کرتے تھے اب وہ چھوڑ دیے اور جو ان کے نام سے وقف بورڈ کا پیسہ ا رہا تھا وہ چھوڑ کے 11 مہینہ ہو چکا یہ 11 مہینہ سابق امام کو ہی پیسہ ایا اور جماعت والے ان سے یہ پیسے مانگ رہے ہیں کیا یہ پیسے وہ امام دینا یا نہیں دینا جو ابھی امامت کر رہے ہیں ان کو مسجد والوں نے اپنے طرف سے وہ وقف کا پیسہ دے رہے ہیں
اس صورت میں پہلے والے امام کے اوپر شرعا کیا حکم نافذ ہوگا جواب عنایت فرمائیں
سائل ۔۔ محمد رضا ، ہبلی
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسئولہ میں سابق امام کا وہ پیسہ لینا ہرگز جائز نہیں کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے کہ وقف بورڈ کسی بھی مسجد کے امام کو جو رقم دیتا ہے وہ اسی بنا پر دیتا ہے کہ وہ اس مسجد میں خدمت انجام دیتا ہے ، تو جب تک وہ اس مسجد میں خدمت پر مامور ہے تب تک اس رقم کا مستحق بھی ہے خدمت سے معزولی کے ساتھ ہی اس استحقاق بھی ختم ہوگیا ، لہذا اب مستحق وہ امام ہوگا جو فی الوقت خدمت انجام دے رہا ہے نہ کہ سابق امام ،
محض اس کے اکاؤنٹ میں پیسوں کا آنا اس کے استحقاق کو ثابت نہیں کرتا کیونکہ اس کے اکاؤنٹ میں آنا بھی اسی بنا پر تھا کہ وہ اس مسجد کا امام تھا ،
البتہ کمیٹی والوں کی یہ کوتاہی ضرور ہے کہ گیارہ مہینوں تک اسی سابق امام کا نام وقف بورڈ میں رہنے دیا جس کی وجہ سے دوسرے یعنی موجودہ امام کو اپنے حق سے محروم رہنا پڑا ، نیز سابق امام کی نیت بگڑنے میں بھی کمیٹی والوں کی کوتاہی کار فرما ہے کہ اگر اس کے معزول ہوتے ہی نئے امام کا نام ڈال دیتی تو سابق امام کی نیت نہیں بگڑتی کہ نہ اس کے اکاؤنٹ میں رقم جاتی نہ وہ اپنی نیت میں فتور لاتا

بہرحال ! حکم شرع یہی ہے سابق امام کی معزولی اور موجودہ امام کی بحالی کے بعد جتنی رقم وقف بورڈ سے آئی ان سب کا مستحق موجودہ امام ہے نہ کہ سابق امام

سابق امام پر لازم ہے کہ وہ ساری رقم موجودہ امام کو ادا کرے اور ناحق کسی کا مال کھانے سے باز رہے

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

*وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ*

*(القرآن ، ۲/۱۸۸)*
ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

*" كُلُّ أَحَدٍ أَحَقُّ بِمَالِهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ "*

* (السنن الكبرى للبيهقي ، كتاب النفقات ، باب نفقه الابوين ، رقم الحدیث :۱۵۷۵۳،۷/۷۹۰ ،مطبوعة :دار الكتب العلمية بيروت لبنان ، الطبعة الثانية : ۱۴۲۴ھ)

ترجمہ : ہر شخص اپنے مال کا اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہے ،

اور علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز التصرف في مال غيره بلا اذنه ولا ولايته "*

*📒( الدر المختار ، كتاب الغصب ، ص ۶۱۷ ، مطبوعہ دار الكتب العلمية ، الطبعة الاولى : ١٤٢٣هـ)*
یعنی ، بغیر اذن و ولایت کے دوسرے کے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعی "*

* (رد المحتار ، كتاب الحدود ، باب التعزير ، مطلب في التعزير بأخذ المال ، ۶/۱۰۶ ، دار عالم الكتب رياض ، الطبعة الخاصة : ١٤٢٣هـ)
* یعنی ، مسلمانوں میں سے کسی کیلئے جائز نہیں کہ کسی کا مال سبب شرعی کے بغیر لے
کمیٹی والوں کو بھی چاہئے کہ جلد از جلد وقف بورڈ میں سابق امام کا نام کاٹ کر موجودہ امام کا نام رجسٹرڈ کرائیں تاکہ حق والے کو اس کا حق بغیر پریشانی کے مل سکے

قال اللہ تبارک وتعالیٰ

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ

*📔(القرآن الکریم ، ۵/۲)*
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ ۔۔۔
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*7/12/2024*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی

الحلقة العلمية (الهند)

06 Nov, 14:14


نیز یہ حکم صرف فرائض کا بلکہ نماز جنازہ کے علاوہ ہر نماز چاہے فرض ہو یا واجب ، سنن ہوں یا نوافل سب یہی حکم ہے

چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" من فرائضها) التي لا تصح بدونها (التخريمة) قائماً وهي شرط) في غير جنازة على القادر "*

*📔(الدرالمختار ، کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلاۃ ، ص۶۲ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، نماز کے فرائض جن کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی ان میں سے تکبیر تحریمہ ہے اور یہ نماز جنازہ کے علاوہ نمازوں میں قادر پر شرط ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*" تکبیر تحریمه در هر نماز مطلقا حتى صلاة الجنازة وركوع و سجود قرات و قعود در هر نماز مطلق اگرچه نافله باشد و قیام در هر نماز فرض و واجب و نیز در سنت فجر علی الاصح "*

(فتاوی رضویہ ، کتاب الصلاۃ ، باب الاوقات ، ۵/۳۲۷ ، رقم المسئلہ ۳۰۳ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)
یعنی ، تکبیر تحریمہ ، ہر نماز میں، حتی کہ نماز جنازہ میں بھی، رکوع، سجود، قرات اور قعود ( نماز جنازہ کے علاوہ) ہر نماز میں، خواہ نفلی نماز ہو قیام، ہر اس نماز میں جو فرض اور واجب ہو اور اصح قول کے مطابق فجر کی سنتوں میں بھی

جب یہ ثابت ہوگیا کہ تکبیر تحریمہ نماز کیلئے (چاہے فرض و واجب ہو یا سنن و نوافل) شرط ہے ! فاقول ؛ وباللہ التوفیق :
شریعتِ میں شرط اگرچہ خارج شئے ہوتی ہے مگر شئے کا وجود اس پر موقوف ہوتا ہے

چنانچہ علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی ۱۰۶۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وفي الشريعة هو ما يتوقف على وجوده الشيء وهو خارج عن ماهيته "*

*📔(مراقی الفلاح ، کتاب الصلاۃ ، باب شروط الصلاة وأركانها ، ص۸۰ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الثانیہ:۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، شریعت میں شرط اس چیز کو کہتے ہیں جس کے وجود پر کسی شئے کا وجود موقوف ہو اور یہ شئے کی ماہیت سے خارج ہوتی ہے

فلہذا جب امام نے نماز عید میں تکبیر تحریمہ چھوڑ دیا تو نماز شروع ہی نہیں ہوئی اس لئے اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب
یہاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ نماز عید کی پہلی رکعت میں ثنا کے بعد پڑھے جانے والی تکبیرات زوائد اس کا قائم مقام ہوسکتی ہے
کیونکہ یہ تکبیرات اس قائم مقام ہوتیں جب کہ اولاً نماز شروع ہوئی ہوتی ، جب نماز ہی شروع نہیں ہوئی تو تکبیرات زوائد بھی کالعدم ! لان اذا فات الشرط فات المشروط

امام ظہیرالدین عبد الرشید ولوالجی حنفی متوفی ۵۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" والأصل في هذا أن المتروك ثلاثة أنواع فرض، وسنة، وواجب.ففي الوجه الأول: إن أمكنه التدارك بالقضاء يقضي وإلا فسدت صلاته؛ لأن الفرائض أركان وركن الشيء ما به قيام ذلك الشيء .... "*

*📔(الفتاوی الولوالجیہ ، كتاب الطهارة / الفصل التاسع ، ۱/۹۹ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، اس بارے میں اصل یہ ہے کہ متروک تین قسم کے ہیں ، فرض ، سنت ، واجب ؛ پہلی صورت میں قضا کے ذریعے تدارک ممکن ہوتو قضا کی جائےگی ورنہ نماز فاسد ہوگی ، کیونکہ فرائض رکن ہیں اور شئے کا رکن وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ اس شئے کا قیام ہوتا ہے

اور ملک العلماء امام علاؤالدین ابوبکر کاسانی حنفی متوفی ۵۸۷ھ فرماتے ہیں

*🖋️" والكلام في الصلاة من هذا القبيل، لأن حالة الصلاة تمنع من ذلك عادة، فكان النسيان فيها نادراً فلم يجعل عذراً؛ وكذلك ترك تكبيرة الافتتاح سهواً لأن الشروع في الصلاة يكون بها، وتركها سهواً عند تصميم العزم على الشروع فيها مما يندر، فلم يعذر "*

*📔(بدائع الصنائع ، كتاب الذبائح والصيود ، ۶/۲۴۳ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الثانیہ: ۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، نماز میں کلام کرنا اسی قبیل سے ہے کیونکہ حالت نماز عادتاً اس سے روکتی ہے فلہذا بھولنا بہت نادر ہے ، اس لئے اسے عذر نہیں مانا جا سکتا ، یہی حکم بھول کر تکبیر تحریمہ چھوڑنے کا ہے اس لئے کہ نماز اسی سے شروع ہوتی ہے تو اسے عزم افتتاح کے وقت سہوا چھوڑنا بہت نایاب ہے لہذا اسے بھی عذر قرار نہیں دیا جاسکتا ( لہذا جب سہوا عذر ترک قابل قبول نہیں تو عمدا بدرجہ اولیٰ قابل قبول نہیں ہوگا)

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲/ جمادی الاول ۱۴۴۶ھ مطابق ۵/ نومبر ۲۰۲۴م*

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____

الحلقة العلمية (الهند)

06 Nov, 14:14


الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد ھاشم رضا المصباحی غفرلہ
قاضی شرع و مفتی ادارہ شرعیہ کھرگون ایم پی الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب الصحیح فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:6/11/2024

1398

الحلقة العلمية (الهند)

06 Nov, 14:14


*🌹 نماز عید یا کسی بھی نماز میں امام یا منفرد یا مقتدی تکبیر تحریمہ چھوڑ دے تو کیا حکم ہے ؟ تکبیر تحریمہ کی تفصیلات 🌹*
ا__(💚)____
السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهْ
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ

*اگر امام نمازِ عید میں تکبیر تحریمہ چھوڑ دے تو نماز کا کیا حکم ہوگا۔؟*
مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں اللّٰه پاک آپ کو شاد و آباد رکھے
سائل نظام اختر پیلی بھیت
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

اصح قول پر نماز جنازہ کے علاوہ تمام نمازوں کیلئے تکبیر تحریمہ شرط ہے جسے تکبیر افتتاح بھی کہا جاتا ہے ، اس کے بغیر نماز شروع ہی نہیں ہو سکتی

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

*" وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۷۴/۳)*
ترجمہ: اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کرو

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں

*" مفتاح الصلاة الطهور، وتحريمها التكبير، وتحليلها التسليم "*

*📒(الجامع للترمذی ، كتاب الصلاة ، باب ما جاء في تحريم الصلاة وتحليلها ، ص۸۹ ، رقم الحدیث ۳۳۸ ، دارالفکر بیروت)*
یعنی ، نماز کی کنجی طہارت، اس کی تحریم تکبیر کہنا، اور تحلیل سلام پھیرنا ہے

اسی لئے محقق علی الاطلاق امام کمال ابن ہمام حنفی متوفی ۸۶۱ھ شرائط نماز شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" والتحريمة : وتنعقد بكل اسم الله سبحانه مشتمل على التعظيم،غير مشوب بدعاء "*

*📔(زادالفقیر ، بیان شروط الصلاۃ ، ص۱۲۲ ، دارالبشائرالاسلامیہ)*
یعنی ، نماز کے شرائط میں سے تحریمہ ہے یہ اللہ تعالیٰ ہر اس نام پاک سے منعقد ہوتا ہے جو تعظیم پر مشتمل ہو دعا کے ساتھ مخلوط نہ ہو

اور علامہ احمد بن ابراہیم دقدوسی حنفی متوفی ۱۱۳۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" (و) سادسها : (التحريمة) أي: التكبيرة الأولى، سميت بذلك لأنها تحرم الأمور المباحة قبلها دون غيرها. وتسمى أيضا تكبيرة الافتتاح؛ لأنها تفتتح بها الصلاة، وقد عدها المصنف في الشرائط لما أن الأصح أنها شرط "*

*📔(اسعاف مولی القدیر شرح زاد الفقیر ، بیان شروط الصلاۃ ، ص۲۷۴ ، مطبوعہ اردن)*
یعنی ، نماز کی چھٹی شرط ہے تحریمہ یعنی پہلی تکبیر ، اس کا نام تحریمہ اس لئے ہے کہ یہ ان مباح امور کا کو نمازی پر حرام کردیتا ہے جو اس سے پہلے تھیں ، اس کا نام تکبیر افتتاح بھی ہے کیونکہ اسی سے نماز کی شروعات ہوتی ہے ، مصنف علیہ الرحمہ نے اسے شرائط میں شمار فرمایا کیونکہ اصح یہی ہے کہ یہ نماز کی شرط ہے

بعض حضرات نے اسے فرائض نماز میں شمار فرمایا ہے

چنانچہ امام ابو عبداللہ محمد بن محمد کاشغری حنفی متوفی ۷۰۵ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وأما فرائض الصلاة فثمان : ستة على الوفاق ، واثنتان على الخلاف . وهي : تكبيرة الافتتاح ، والقيام ، والقراءة ، والركوع ، والسجود ،والقعدة الأخيرة ، مقدار قراءة التشهد الخ"*

*📔(منیۃ المصلی ، فرائض الصلاۃ ، ص۱۶۷ ، دارالقلم دمشق ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۸ھ)*
یعنی ، نماز کے فرائض آٹھ ہیں چھ متفق علیہ اور دو مختلف فیہ : اور وہ ہیں ؛ تکبیر افتتاح ، قیام ، قرات ، رکوع ، سجود ، تشہد پڑھنے کے مقدار قعدہ اخیرہ

مگر یہ اس وجہ سے ہے کہ اسے افعال نماز سے بہت زیادہ اتصال ہے ولہذا فرائض نماز میں اس کا شمار ہوا ورنہ حقیقت میں یہ شرائط میں سے ہی ہے

چنانچہ امام ابراہیم حلبی حنفی متوفی ۹۵۶ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وتكبيرة الافتتاح وهي وإن عدت مع الأركان في جميع الكتب، فإنما ذلك لشدة اتصالها بها، لا؛ لأنها ركن؛ بل هي شرط بإجماع أئمتنا "*

*(غنیۃ المتملی ، فصل في فرائض الصلاة ، ۲/۶۲ ، مطبوعہ الجامعۃ الاسلامیہ ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۴۲ھ)*
یعنی ، تکبیر افتتاح ! تمام کتب میں یہ ارکان کے ساتھ اس لئے شمار ہوا کہ ارکان کے اس کو بہت زیادہ اتصال ہے ، اس لئے نہیں کہ یہ رکن ہے ، بلکہ ہمارے ائمہ کے اجماع سے یہ شرط ہے

اسی وجہ امام شمس الدین محمد ابن امیرحاج حنفی متوفی ۸۷۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" أما الفريضة الأولى وهي تكبيرة الافتتاح، فلا يصح للقادر عليها الشروع في الصلاة بدونها عند عامة العلماء "*

*📔(حلبۃ المجلی ، کتاب الصلاۃ ، باب فرائض الصلاۃ ، ۲/۸ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۳۶ھ)*
یعنی ، نماز کا پہلا فرض تکبیر افتتاح ہے ، لہذا عام علماء کے نزدیک قدرت رکھنے والے کیلئے اس کے بغیر نماز شروع کرنا درست نہیں ہوگا

البتہ جو اس کی ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو اس کیلئے شرط نہیں

چنانچہ علامہ وصی احمد سورتی حنفی متوفی ۱۳۳۴ھ فرماتے ہیں

*🖋️" و اما العاجز فیجوز افتتاحہ بالنیۃ لانہ اتی باقصی ما فی وسعہ "*

*📔(التعلیق المجلی لما فی منیۃ المصلی ، کتاب الصلاۃ ، باب فرائض الصلاۃ ، ص۲۳۷ ، ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور)*
یعنی ، لیکن عاجز جیساکہ گونگا ! اس کا نیت کے ساتھ ہی نماز شروع کرنا جائز ہے کیونکہ اس نے آخری درجے کی کوشش کرلی

الحلقة العلمية (الهند)

30 Oct, 01:53


چنانچہ امام زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️’’ و اشار الی انہ لا يحل ‌سماع ‌المؤذن إذا لحن كما صرحوا به ودل كلامه أنه لا يحل في القراءة أيضا ‘‘*

*📒(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ۱/۴۴۶ ،دارالکتب العلمیہ، بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
ترجمہ ، اور امام حلوانی نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جب مؤذن اذان میں لحن جلی کرے، تو اُس کی اذان کی طرف توجہ کرنا ہی حلال نہیں، جیسا کہ فقہائے کرام نے تصریح فرمائی اور صاحبِ ”فتح القدیر“ کے کلام نے بھی اِسی پر دلالت کی کہ قراءت میں بھی لحنِ جلی حلال نہیں (اور اُس کا استماع بھی درست نہیں

اور علامہ ابن عابدین شامی حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" وقد ذكر في البحر أنهم صرحوا بأنه لا يحل سماع المؤذن إذا لحن كالقارئ "*

*📒(ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ۲/۶۶ )*
یعنی ، بحر میں مذکور ہے کہ فقہائے کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ مؤذِّن لحن جلی کرے، تو اُس کی اذان کی طرف توجہ کرنا ، جائز نہیں، جیسا کہ اگر تلاوت کرنے والا لحن جلی کرے تو اُس کی تلاوت کو توجہ سےسماعت کرنا، جائز نہیں

البتہ جماعت واجب ہونے کی صورت میں جواب بالقدم بہرحال واجب ہی رہے گا

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۴/ ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۸/ اکتوبر ۲۰۲۴م*

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:30/10/2024م

1397

الحلقة العلمية (الهند)

30 Oct, 01:53


*🌹 عادت سے کم پر خون حیض بند ہوا تو وطی کرنا / لحن جلی کے ساتھ پڑھی گئی اذان کا جواب دینا کیسا ہے ؟ 🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
١ - کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ کسی خاتون کو عادت کے دنوں سے پہلے حیض بند ہو جائے تو وہ نماز روزہ کرنا شروع کر دے غسل کر کے ، لیکن شوہر اس سے صحبت نہیں کر سکتا جب تک کہ عادت کے دن نہ پورے ہو جائیں ، میرا سوال یہ ہے اگر عورت کو حیض عادت کے دنوں سے کچھ پہلے بند ہو گیا عورت پاک ہو گئی اور شوہر نے اس سے صحبت کر لی تو یہ حرام ہوگا ناجائز ہوگا یا خلاف اولی ؟

٢ - جو اذان تجوید کے ساتھ نہیں دی جا رہی ہے تو اس کا جواب نہ دینا چاہیے ایسا مسئلہ کتب فقہ میں لکھا ہے , اگر کسی نے اس اذان کا جواب دے دیا جو اذان تجوید کے ساتھ نہیں دی جا رہی تھی اس اذان میں لحن جلی لحن خفی شامل تھا ، تو اگر کسی نے اس اذان کا جواب دے دیا تو گناہ ہوگا یا ناجائز ہوگا ؟

المستفتی محمد عابد علی یوپی
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

(۱)
حرام ہوگا ! کیونکہ خون اگرچہ منقطع ہوگیا ہے لیکن زمانہ حیض کا ہی ہے اور عادت کے ایام میں خون دوبارہ آنا غالب ہوتا ہے

چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ص۴۴ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، اگر خون اکثر مدت سے کم پر بند ہوا تو اگر عادت سے بھی کم پر بند ہوا ہے تو اس سے وطی حلال نہیں ہے

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قوله : (لم يحل أي الوطء وإن اغتسلت لأن العود في العادة غالب "*

*📒(ردالمحتار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ۱/۴۹۰ ، دار عالم الکتب ریاض ، طبعۃ خاصۃ :۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، وطی حلال نہیں ہے اگرچہ غسل کرلے کیونکہ عادت کے اندر خون کا لوٹنا غالب ہے

اور علامہ محمد عابد سندی انصاری حنفی متوفی ۱۲۵۷ھ فرماتے ہیں

*📒" كانت عادتها في الحيض سبعة أيام، فانقطع الخمس لم يحل وطئها، ولا تزوجها، حتى تمضي عادتها، وإن اغتسلت لأن العود في العادة غالب، فكان الاحتياط في الاجتناب "*

*📒(طوالع الانوار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ۱/۶۱۳ ، جامعۃ السند جامشورو)*
یعنی ، کسی عورت کی عادت سات دن تھی اور خون پانچ دن میں بند ہوگیا تو اس سے وطی و تزوج بہ زوج ثانی حلال نہیں ہے جب تک کہ عادت کے دن نہ گزر جائیں اگرچہ غسل کرلے کیونکہ عادت میں خون کا لوٹنا غالب ہوتا ہے تو احتیاط اجتناب ہی میں ہے

بعینہ یہی علت عادت پر انقطاع دم کے وقت قبل غسل و مضی وقت صلاۃ وطی میں بھی ہے

چنانچہ امام قوام الدين أمير كاتب بن أمير عُمَر الأَثْقَانِي الفَارَابِي الحَنَفِي متوفی ۷۵۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اعلَمْ أَنَّ وَطْأها لا يحِلُّ قبل أن تغتسل إذا انقَطَعَ دَمُهَا لِأَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ أَيَّامٍ)، أَو بِمُضِي وقتِ صلاة ، وهي تَقْدِرُ فِيهِ عَلى الاغتسال والتحريمة ؛ لأنَّ مُعاودة الدم فيما دون العشرة غالبةٌ ، فَلا يُؤْمَنُ عَن الوقوع في الحرام "*

*📒(غایۃ البیان ، كتاب الطهارات ، باب الحيض والاستحاضة ، ۱/۳۴۸ ، دارالضیاء کویت)*
یعنی ، دس دن سے کم پر خون منقطع ہونے کی صورت میں غسل سے پہلے یا نماز کا وقت گزرنے سے پہلے وطی حلال نہیں ہے ، کیونکہ دس دن سے کم میں خون کا لوٹ آنا غالب ہوتا ہے ، لہذا وقوع حرام سے محفوظ نہیں رہ پائےگا

نیز فقہائے کرام نے عادت پر انقطاع دم ہونے اور غسل کرنے کے درمیان کے وقت کو حیض کا وقت ہی شمار فرمایا ہے

چنانچہ علامہ عابد سندی حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" وأشار الشيخ "الرحمتي" إلى وجه انتظار الغسل في حل الوطء بأن زمن الغسل من الحيض قبل العشرة، فلو وطئها قبله لكان واطئاً في الحيض "*

*📒(طوالع الانوار ، ۱/۶۱۴)*
یعنی ، شیخ رحمتی نے حلت وطی میں غسل کے انتظار کی وجہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ دس دن سے پہلے انقطاع دم پر غسل کا زمانہ حیض میں سے ہے تو اگر غسل سے پہلے وطی کرےگا تو وہ حیض میں وطی کرےگا

ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ (۱) دس دن سے پہلے قبل عادت انقطاع دم کا زمانہ حیض ہی کا زمانہ ہے (۲) اس زمانہ میں خون کا عود کرنا عین ممکن ہے (۳) لہذا احتیاطاً وطی سے اجتناب لازم ہے جس طرح عورت پر احتیاطاً غسل کرکے نماز روزہ لازم (۴) ایسے میں وطی کرنا گویا کہ حالت حیض میں وطی کرنا ہے (۵) جس کی وجہ سے بندہ حرام سے محفوظ نہیں رہ پائےگا
فلہذا ثابت ہوا کہ صورت مسئولہ میں صحبت حرام ہے نہ کہ محض خلاف اولیٰ

(۲)
اگر واقعی لحن جلی سے اذان پڑھے تو بے شک گناہ ہوگا کہ لحن جلی کے ساتھ اذان و قرات حرام ہے جس کی طرف توجہ دینا ہی جائز نہیں چہ جائیکہ اس کا جواب دیا جائے کہ جواب دینے کیلئے توجہ درکار اور وہ ہی ناجائز

الحلقة العلمية (الهند)

29 Oct, 19:29


*اســــــبابِــــــــــــــــــــ نَـــجـــاتـــــــــــــــــــــ*

ـﮩـﮩﮩ٨ـﮩـﮩﮩ٨ـﮩ٨ـﮩﮩ٨ـ🫀ـﮩـﮩﮩﮩ٨ـﮩﮩ٨ـﮩـﮩﮩ٨ـ
【5】 *خدا کی طرف سے یہ وعدہ ہو چکا ہے کہ اے بندے ! اگر تو غلام آزاد کرے گا، پل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی (فَكُن رقبة) یعنی قیامت کی سختیوں سے بچنے کا راستہ غلام کو آزاد کرنا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! ہمیں غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں ہےتو ہم کیا کریں؟*
*اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، (اَوْ اِطْعٰمٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ) یعنی تنگی کے وقت جبکہ کھانا ملنا دشوار ہو، اگر تو کسی بھوکے کو شکم سیر کرے گا تو پل صراط سے سلامتی کے ساتھ گذر جائے گا۔*
*ا•───────────────────•*
*✒️ :ابــو حنـــیـــفـــہ محـــمـــد اکـبــــر اشــرفــی رضـوی، مانـخـــورد مـــمـــبـــئـــی*
𝒯𝓌𝑒𝑒𝓉𝑒𝓇(𝒳) & 𝐼𝓃𝓈𝓉𝒶𝑔𝓇𝒶𝓂
@𝘼𝘽𝙐𝙃𝘼𝙉𝙀𝙀𝙁𝘼𝘼𝙍
𝓕𝓪𝓬𝓮𝓫𝓸𝓸𝓴 & 𝓨𝓸𝓾𝓣𝓾𝓫𝓮
𝘼𝙗𝙪 𝙃𝙖𝙣𝙚𝙚𝙛𝙖 𝘼𝙨𝙝𝙧𝙖𝙛𝙞 𝙍𝙖𝙯𝙫𝙞
⁹¹⁶⁷⁶⁹⁸⁷⁰⁸

https://whatsapp.com/channel/0029VagsGaJEAKWJk07Hdl2k

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:34


بعض خانقاہوں کے جاہل پیرخود بھی کفر کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اور ساتھ میں مریدوں اور عقیدت مندوں کو بھی کافر بنا رہے ہیں !

ایک صاحب نے ایک ویڈیو بھیجا جس میں بزعم خویش پیر صاحب مسند پہ براجمان ہیں اور مریدین و معتقدین چاروں طرف سے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور قوالی مع مزامیر چل رہی ہے ، قوال یہ شعر پڑھ رہا ہے کہ :

عرش پہونچے محمد دی صدا حق نے محبوب میرے

تھوڑی سی دیر رک جایئے بس میں نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے

استغفِرُاللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ

اللہ تعالیٰ کیلئے " جی " یعنی دل ، حسرت ، آرزو تمنا ، گزارش ، لاچاری ، مجبوری وغیرہ وغیرہ سب کچھ ثابت کردیا

نعوذباللہ من ذالک !

لیجئے ! آپ حضرات بھی دیکھ اور سن لیجئے

محمد شکیل اخترقادری نعیمی غفرلہ

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:27


یعنی ، یونہی اس رات میں نکلنا جس میں کفار ہند آگ سے کھیلتے ہیں (ہولی) اور اس رات ان کے افعال میں موافقت کرنے سے کفر لازم آتا ہے ، اسی طرح اس دن نکلنا جس دن کفار ہند " سرتھی " نامی کھیل کھیلتے ہیں اور ان کے ان کاموں میں موافقت کرنا جیسے کہ بیلوں ، گھوڑوں کو سجانا اور مالداروں کے گھر جانا تو اس سے بھی کفر لازم آتا ہے

اور علامہ نظام الدین برہان پوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" وبتحسين أمر الكفار اتفاقاً "*

*📒(فتاویٰ ہندیہ ، كتاب السير / باب في أحكام المرتدين ، موجبات الكفر انواع ، ومنها ما يتعلق بتلقين الكفر والأمر بالارتداد وتعليمه والتشبه بالكفار وغيره من الإقرارصريحاً وكناية ، ۲/۲۹۵ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، کفار کے معاملات کی تحسین یعنی اچھا جاننا کفر ہے

اور علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" أن تبجيل الكافر كفر "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب الحظر والاباحۃ ، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ، ص۶۶۶ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، کافر کی تعظیم (بلاغرض صحیح) کفر ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" فعل کفر میں جو دل سے شریک ہو وہ ظاہر کا باطنا کافر ہے، اور جو اکراہ و اضطرار و مجبوری محض سے بظاہر شریک ہو اسے معافی ہے۔ مگر اکراہ صحیح شرعی درکار ہے، کسی کی خاطر وغیرہ سے مجبور ہونا شرعی مجبوری نہیں اور بلا اکراہ شرعی شرکت کفر پر بھی شریعت مطہرہ لزوم کفر و تجدید اسلام و تجدید نکاح کا حکم دے گی "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب السیر ، ۱۵/۱۰۱ ، رقم المسئلہ ۱۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

دوسری جگہ فرماتے ہیں

*🖋️" مسلمان کو دسہرے کی شرکت حرام ہے، بلکہ فقہاء نے اسے کفر کہا اور اس میں بہ نیت موافقت ہنود ناقوس بجانا بیشک کفر ہے اور معبود ان کفار پر پھول چڑھانا کہ ان کا طریقہ عبادت ہے اشد و اخبث کفر "*

*📒(ایضاً ، ۱۴/۶۷۳ ، رقم المسئلہ ۲۹۹)*

اور تاجدار اہلسنت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا قادری حنفی متوفی ۱۴۰۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" فقہائے کرام کتب فقہ میں ایسی صورت میں کہ اس میں تحسین اعمال کفار اور شرکت افعال کفار اور موافقت ان کی عبادت کی ہو حکم کفر لکھتے ہیں۔ اور جو شخص مرتکب ایسے امر کا ہو جس کا سوال میں ذکر ہےاس پر حکم لزوم تجدید ایمان و تجدید نکاح دیتے ہیں "*

*📒(فتاوی مفتی اعظم ، كتاب العقائد والكلام ، ۲/۱۵۳ ، امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)*

اور قاضی القضاۃ تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا قادری حنفی متوفی ۱۴۳۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اس موقع پر ان کفار کے گلے میں ہار ڈالنا ان کے اس کفری تہوار کی تحسین و تعظیم پر صریح دلالت ہے اور ان کے کفری معاملات کی نری تحسین ہی کفر "*

*📒(فتاوی تاج الشریعہ ، کتاب العقائد ، ۲/۱۰۴ ، جامعۃ الرضا بریلی شریف)*

اور شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی حنفی متوفی ۱۴۲۱ھ فرماتے ہیں

*🖋️" بکر نے رام لیلا پوجا میں شرکت کی اور مورتی کو ہار پہنایا اس کی وجہ سے وہ خارج از اسلام ہو گیا، کافر و مرتد ہو گیا۔ اس کے تمام اعمال حسنہ اکارت ہو گئے اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی ۔ اس پر فرض ہے کہ فورا بلا تاخیر علانیہ تو بہ کرے، کلمہ پڑھ کر پھر سے مسلمان ہو، بیوی سے پھر سے نکاح کرے "*

*📒(فتاوی شارح بخاری ، ۲/۶۰۷ ، دائرۃ البرکات گھوسی)*

ایک اور جگہ فرماتے ہیں

*🖋️" ان مشرکانہ مذہبی تیوہاروں پر ہندوؤں کو مبارک باد دینا اشد حرام بلکہ منجر الی الکفر ہے۔ جو مسلمان ایسا کرتے ہیں ان پر تو بہ و تجدید ایمان و نکاح لازم ہے "*

*📒(ایضاً ، ص۵۶۶)*

ان تمام تصریحات سے روز روشن کی واضح ہوگیا کہ اعمال کفار کی تحسین ، عبادات کفار کی موافقت ، ان کے مذہبی شعار میں مشابہت ، افعال مذہبی میں کفر و کفار کی بلا عذر شرعی معاونت ، ایسے ہی ان کے مذہبی شعار پر ان کو مبارکباد پیش کرنا وغیرہ سب کفر کے کام ہیں

فلہذا بر صدق مستفتی صورت مسئولہ میں زید مذکور کے مذکورہ افعال میں کم از کم تحسین و تعاون و تبریک کفر ( کفر کو اچھا جاننا ، کفر کی مدد کرنا ، کفر کی مبارکباد دینا ) ضرور ہے لہذا وہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہے ، اس پر وہ تمام احکام نافذ ہوں گے جو ایک کافر و مرتد کیلئے ہیں ، اگر بیوی والا ہے تو اس کی بیوی بھی اس کے نکاح سے نکل گئی اس پر فرض ہے کہ ان سب حرکات سے تو بہ کرے ، پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو ، بیوی والا ہے تو پھر سے نکاح کرے ، اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو مسلمانوں پر واجب کہ اس سے میل جول،سلام کلام بند کردیں اسی حالت میں اگر مر جائے تو نہ اسے مسلمانوں کی طرح غسل دینا جائز ، نہ بطریق مسنون کفن دینا جائز ، نہ اس کی نماز جنازہ جائز ، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز ، نہ مسلمانوں کی طرح دفن کرنا جائز

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:27


مسلمان اللہ تعالٰی سے ڈریں ، یاد رکھیں کہ ایمان اس کائنات کی سب سے بڑی دولت ہے کہ وہی مدار نجات ہے ، وہ سیاست کس کام کی جس میں ایمان چلا جائے یا جانے کا اندیشہ ہو ، ایک مسلمان کیلئے لازم ہے ہر لمحہ ہر آن احکام شرعیہ کی پاسداری کرے اور حتی الامکان ان پر عمل بھی

ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۴/ ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ مطابق ۸/ اکتوبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جلال الدین احمد امجدی نعیمی غفرلہ
جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں ناندیڑ مہاراشٹر الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:09/10/2024

1396

الحلقة العلمية (الهند)

09 Oct, 08:27


*🌹 ہاتھ جوڑ کر بتوں کی تصویر کے اپنی تصویر شائع کرنا ، مشرکین کے مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا شرعاً کیسا ہے 🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام کہ زید جوکہ مسلمان ہے لیکن سیاست سے بھی جڑا ہوا ہے گاہے بگاہے وہ ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کی تصاویر کے ساتھ اپنی تصویر بھی ہاتھ جوڑ کر لگادیتا ہے اور ان کے تہواروں کے موقع پر مبارک بادی بھی دیتا ہے پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس کے اس فعل سے وہ مسلمان رہتا ہے یا وہ اسلام سے خارج ہو جائیگا
قران وحدیث کی روشنی میں مکمل جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں
فقط ۔۔ العارض محمد شکیل احمد قادری ، دارالعلوم رضویہ مصباح العلوم ایجوکیشنل ٹرسٹ نعمت ٹولہ ، بنیاپور چھپرہ بہار
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

فقہائے کرام رحمھم اللہ نے دلی طور پر اعمال کفار کی تحسین ، افعال کفار میں شرکت ، عبادات کفار کی موافقت ، ان کے مذہبی شعار میں ان کی مشابہت ، کفر اور کفار کی تعظیم و عظمت ، افعال کفار کا اعلان اور بلاعذر شرعی ان کی اعانت کو بحکم حدیث کفر قرار دیا ہے

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم فرماتے ہیں

*" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَمِنْهُمْ "*

*📔(سنن ابی داؤد ، كتاب اللباس ، باب في لبس الشهرة ، رقم الحدیث ۴۰۳۱ ، ص ۷۵۰ ، مطبوعہ دارالفکر بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۵ھ)*
ترجمہ: جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے

دوسری حدیث پاک میں ہے

*" من كثر سواد قوم ، فهو منهم ، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به "*

*📔(نصب الرایہ ، كتاب الجنايات ، ۴/۳۴۶ ، رقم الحدیث ۷۷۷۸ ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
ترجمہ: جو شخص کسی قوم کی تعداد بڑھائے وہ انہی میں سے ہے اور جو کسی قوم کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے

اور حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت ہے کہ

*" ، ومن كثر سواداً كان من أهله ، ومن رضى عملا كان شريك من عمله "*

*📔(ایضاً ، رقم الحدیث ۷۷۷۹)*
ترجمہ: جس نے کوئی مجمع بڑھایا وہ اسی مجمع والوں میں سے ہے اور جو کسی کام سے راضی ہوا وہ اس کام میں شریک ہے

اسی لئے برہان الدین ابوالمعالی محمود بن احمد بن مازہ مرغینانی بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قال الشيخ - الإمام الزاهد - أبو بكر بن طرخان - رحمه الله - : من خرج إلى السدة فقد كفر ؛ لأن فيه إعلان الكفر فكأنه أعان عليه "*

*📒(ذخیرۃ الفتاوی ، کتاب السیر ، الفصل الخامس والعشرون مسائل المرتدين وأحكامهم ضيافة المجوس ، ۷/۱۳۹ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۰ھ)*
یعنی ، امام زاہد ابوبکر بن طرخان رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو مجمع اہل کفر بڑھانے کیلئے نکلا وہ کافر ہوگیا کیونکہ اس میں کفر کا اعلان ہے گویا کہ اس نے کفر پر تعاون کیا

اور امام محمود بن إسرائيل الشهير بابن قاضي سماونه حنفی متوفی ۸۲۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" الخروج الى نيروز المجوس والموافقة معهم فيما يفعلونه في ذلك اليوم كفر "*

*📒(جامع الفصولین ، الفصل الثامن والثلاثون في مسائل الكلمات الكفرية ، ۲/۲۲۹ ، المطبعۃ الکبری بولاق مصر ، الطبعۃ الاولی:۱۳۰۱ھ)*
یعنی ، مجوسیوں کے میلے میں جانا اور اس دن ان کے افعال میں موافقت کرنا کفر ہے

اور امام قاضی جگن گجراتی حنفی متوفی ۹۲۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" اگر مسلمانی در عید کافران بھاك وديوالي وجاتو حاضر شود اگرچه نیت سودا یا برای تماشا حاضر شود و در احضار مسلمانان قوت ورجحان در عید ایشان می شود کافر گردد "*

*📒(خزانۃ الروایات ، کتاب السیر ، باب الارتداد و الفاظ الکفر ، ص۲۹۷ ، مخطوطہ ، رقم المخطوط: ۱۵۲۲)*
یعنی ، اگر کوئی مسلمان کافروں کی عید مثلاً بھاک ، دیوالی ، جاتو وغیرہ میں حاضر ہو اگرچہ تجارت یا تماشا کی نیت سے ہو اور مسلمانوں کی حاضری سے ان کی عید میں قوت و رجحان ہوتی ہو تو حاضر ہونے والا مسلمان کافر ہوجائےگا

اور امام جعفر بن عبد الکریم المعروف بمیراں بن یعقوب سندھی حنفی متوفی ۱۰۰۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وكذا الخروج في الليلة التي تَلْعَبُ كَفَرَةُ الهند فيها بالنيران إلى لعبهم والموافقة معهم فيما يفعلون في تلك الليلة يلزم أن يكون كفراً وكذا الخروج إلى لعب كفَرَة الهند في اليوم الذي تدعوه أهل الهند (بسرتھی) والموافقة معهم فيما يفعلون في ذلك اليوم من تزيين البقور والأفراس والذهاب إلى دار الأغنياء يلزم أن يكون كفراً» "*

*📒(المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ ، کتاب السرقۃ ، ص۱۰۰۱ ، دارالکتب ، پشاور)*

الحلقة العلمية (الهند)

05 Oct, 01:10


*🌹 بیوی سے کہا: ایک طلاق دو طلاق ، گھر سے نکل جاؤ ؛ تو کیا حکم ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرح متین اس مسئلے کے بارے میں کے زید اپنی بیوی کے سامنے کہا ایک طلاق دو طلاق سالی گھر سے نکل جاؤ ایسی صورت میں طلاق واقع ہو گئی یا نہیں جواب عنایت فرمائیں گے مہربانی ہوگی
سائل محمد رمضان علی دیناجپوری مغربی بنگال
(نوٹ) سائل نے وضاحت کی کہ زید نے بیوی کے سامنے بیوی کو ہی مخاطب کرکے کہا اور " سالی گھر سے نکل جاؤ " میں زید کی نیت طلاق ہی کی تھی
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
بر صدق سائل صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاق بائن پڑ چکی ہے اور طلاق مغلظہ کے ساتھ اس کے نکاح سے نکل گئی ہے ، کیونکہ سائل کی وضاحت کے مطابق چونکہ " ایک طلاق دو طلاق " کہتے وقت زید اپنی بیوی سے ہی مخاطب تھا فلہذا اضافت معنوی متعین ہونے کے سبب وہ دونوں طلاقیں فوراً ہی واقع ہوگئیں ، پھر جب کہا کہ " سالی گھر سے نکل جاؤ " تو اس میں بھی سائل کی وضاحت کے مطابق طلاق ہی کی نیت تھی فلہذا یہ طلاق بھی واقع ہوگئی

ان میں سے پہلی دو طلاقیں صریح ہیں جن میں نیت کی کوئی ضرورت نہیں یعنی نیت ہو یا نہ ہو بہرحال طلاق واقع ہو جاتی ہے

چنانچہ امام ابو الحسین قدوری حنفی متوفی ۴۲۸ھ طلاق صریح کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" وَلَا يَفْتَقِرُ إِلَى النِّيةِ "*

*📒(مختصر القدوری ، کتاب الطلاق ، ص۳۶۳ ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۶ھ)*
یعنی ، طلاق صریح میں نیت کی ضرورت نہیں پڑتی

اس کی علت بیان کرتے ہوئے امام ابو نصر الاقطع بغدادی حنفی متوفی ۴۷۴ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لأن النيَّة يُحتاج إليها في اللفظ المُستعمل في شيئين ليُصْرَفَ بها عن أحدهما إلى الآخر، وقد بينا أن ألفاظ الطلاق لا تُستعمل في غير الزوجات فلم تَفْتقرُ إلى نية "*

*📒(شرح مختصر القدوری ، کتاب الطلاق ، ۵/۱۸۷ ، دارالمنہاج القویم دمشق ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۴ھ)*
یعنی ، اسلئے کہ نیت کی ضرورت اس لفظ میں پڑتی ہے جو دو چیزوں میں مستعمل ہو تاکہ ان میں سے ایک سے دوسرے کی طرف پھیرا جا سکے ، اور ہم بیان کر چکے کہ الفاظ طلاق بیویوں کے علاوہ کسی اور پر استعمال نہیں ہوتے لہذا نیت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی

اور تیسری طلاق زید کے قول " سالی گھر سے نکل جاؤ " سے پڑی کہ یہ کنایہ ہے اور کنایہ میں نیت کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں پر سائل کی وضاحت کے مطابق موجود ہے

چنانچہ امام علاؤالدین سمرقندی حنفی متوفی ۵۳۹ھ فرماتے ہیں

*🖋️" إذا ذكر لفظا يصلح للطلاق في غير حال مذاكرة الطلاق ، وحال الغضب ، كيفما كان : فإذا نوى به الطلاق : يقع ، وإن لم يكن له نية : لا يقع ، لأنه كما يصلح للفرقة لأمر آخر "*

*📒(تحفۃ الفقھاء ، کتاب الطلاق ، ۲/۱۸۱ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۰۵ھ)*
یعنی ، جب ایسا لفظ ذکر کرے جو طلاق کی صلاحیت رکھتا ہو غیر حالت مذاکرہ طلاق میں اور حالت غضب میں چاہے جس طرح بھی ہو تو جب طلاق کی نیت کرےگا تو طلاق واقع ہوگی اور اگر نیت نہ ہوتو طلاق واقع نہیں ہوگی

زید کا قول " گھر سے یا میرے گھر سے نکل جا " اسی قسم کا لفظ کنایہ ہے جس میں بہرحال نیت کی ضرورت ہوتی ہے کہ طلاق کی نیت ہو تو طلاق واقع ہوجاتی ہے اور نیت نہ ہو تو نہیں

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" تو میرے مکان سے نکل جا کہ حاصل معنی " اخرجی " کا ہے بشرط نیت اس سے طلاق بائن ہو جاتی ہے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الطلاق ، باب الکنایہ ، ۱۲/۵۹۴ ، رقم المسئلہ ۲۹۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اب چونکہ دو طلاق صریح کے بعد تیسری طلاق بائن ہے لہذا اس تیسری بائن طلاق نے پہلی دونوں صریح طلاقوں کے ساتھ مل کر ان دونوں کو بھی بائن کردیا اور یوں کل ملا کر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئیں

چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" زید نے اس لفظ سے کہ " تو میرے گھر سے نکل جا" اگر طلاق کی نیت کی تھی تو دو طلاقیں بائن پڑیں ، فان البائن يلحق الصريح والرجعي يصير بأئنا بلحوق البائن ( بائن طلاق رجعی طلاق کو لاحق ہو سکتی ہے تو بائنہ کے لاحق پر رجعی بھی بائنہ ہو جاتی ہے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، ۱۲/۴۵۷ ، رقم المسئلہ ۲۲۶)*

خلاصہ کلام یہ کہ صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، اور طلاق مغلظہ کے ساتھ عورت زید کے نکاح سے نکل گئی ہے ، اب بلا حلالہ دوبارہ اس کے نکاح میں واپسی کی کوئی صورت نہیں

فان اللہ تعالیٰ قال

*" فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ- "*

*📙(القرآن الکریم ، ۲/۲۳۰)*
ترجمہ: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے

الحلقة العلمية (الهند)

05 Oct, 01:10


اور علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ و جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية "*

*📒(فتاوی ہندیہ ، کتاب الطلاق ، باب في الرجعة وفيما تحل به المطلقة ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ، ۱/۵۰۶ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، اگر کسی نے آزاد عورت کو تین طلاق اور باندی کو دو طلاقیں دی تو وہ حلال نہیں ہوگی جب تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح صحیح نہ کرے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور پھر طلاق دے یا اس کی موت ہوجائے

ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۴/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۸/ ستمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:05/10/2024

1395

الحلقة العلمية (الهند)

03 Oct, 06:41


*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۱/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۵/ ستمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ الھند
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:03/10/2024


1394

الحلقة العلمية (الهند)

03 Oct, 06:41


*🌹 کیا انار کا درخت گھر کے آنگن میں لگانا منع ہے ؟ کیا یہ غیر مسلموں کا درخت ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمتہ اللہُ برکاتہ کیا انار کا درخت گھر کے آنگن میں یا نزدیک لگانا منع ہے کہ غیروں (ہنود) کا درخت ہے اور اسمیں پریاں رہتی ہیں علمائے کرام اس پر توجہ فرمائیں عین نوازش ہوگی محمد عبد الجلیل اشرفی دیناجپور
ا__(💚)____
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

انار ان پھلوں میں سے ہے جن کا ذکر رب العالمین جل جلالہ نے اپنی پاک کتاب میں کئی بار فرمایا ہے

چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے

*" وَجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ "*

*📔(القرآن الکریم ، ۶/۹۹)*
ترجمہ: اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار(نکالتے ہیں

و قال اللہ تبارک وتعالیٰ

*" وَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ "*

*📔(ایضا ، ۶/۱۴۱)*
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے کچھ باغات زمین پر پھیلے ہوئے اور کچھ نہ پھیلے ہوئے (تنوں والے) اور کھجور اور کھیتی کو پیدا کیا جن کے کھانے مختلف ہیں اور زیتون اور انار (کو پیدا کیا، یہ سب) کسی بات میں آپس میں ملتے ہیں اور کسی میں نہیں ملتے

و ایضاً قال اللہ تعالیٰ

*" فِیْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ "*

📔(ایضاً ، ۵۵/۶۸)
ترجمہ: ان میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں

نیز احادیث کریمہ میں بھی انار کا ذکر موجود ہے ، بلکہ جن پھلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں باریابی کا شرف ملا ان میں سے انار بھی ہے

چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ

*" مرض النبي ﷺ فأتاه جبريل بطبق فيه رمان وعنب فأكل منه النبي ﷺ فسبح . رواه القاضي عياض في الشفاء» ونقله عنه الحافظ أبو الفضل في فتح الباري "*

📒(المواہب اللدنیۃ ، المقصد الرابع فی المعجزات والخصائص ، الفصل الاول ، تسبیح الطعام ، ۲/۵۳۳ ، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ، الطبعۃ الثانیہ:۱۴۲۵ھ)
ترجمہ: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیمار ہوئے تو حضرت جبریل علیہ السّلام آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک پلیٹ لے کر حاضر ہوئے جس میں انار اور انگور رکھے ہوئے تھے، تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس میں سے تناول فرمایا ، تو انار نے تسبیح کی ۔ اس حدیث کو قاضی عیاض نے شفاء میں روایت کیا اور امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں نقل کیا

دوسری حدیث پاک میں ہے

*" جاء ناس من اليهود إلى رسول الله ﷺ ، فقالوا : يا محمد ، أفي الجنة فاكهة ؟ قال : نعم ، فيها فاكهة ونخل ورمان» . قالوا : فيأكلون كما يأكلون في الدنيا ؟ قال : نعم ، وأضعافه "*

📒(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ، سورۃ الرحمن الآیۃ ۶۸ ، ۱۴/۱۵۶ ، مرکز ھجر للبحوث ، الطبعۃ الاولی :۱۴۲۴ھ)
ترجمہ: یہود میں سے کچھ لوگ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے:اے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیا جنّت میں میوے ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں، اس میں میوے، کھجوریں اور انار ہوں گے۔ پھر انہوں نے عرض کی: کیا اہلِ جنّت وہاں اسی طرح کھایا کریں گے جس طرح اہلِ دنیا، دنیا میں کھاتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں بلکہ اس سے دوگنا

ایک اور حدیث پاک میں ہے

*" نظرتُ إلى الجنة فإذا الرمانة من رُمانِها كمثل البعير المُقْتَبِ "*

📒(ایضاً ، ص ۱۵۷)
ترجمہ: میں نے جنّت کا نظارہ کیا تو اس کے انار اُس اونٹ کی مثل تھے جس پر پالان کسا ہوا ہو

ایک حدیث پاک میں یہ بھی ہے کہ

*" ما من رمان من رمانكم إلا وهو يلقح بحبة من رمان الجنة "*

*📒(تاریخ مدینۃ دمشق لابن عساکر ، محمد بن الوليد بن أبان ، ۵۶/۱۸۶ ، دارالفکر بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
ترجمہ: ایسا کوئی انار نہیں جس ميں جنتی اناروں کا دانہ شامل نہ ہو

غرض کہ انار بابرکت پھل ہے فلہذا اس کے بارے میں اس قسم کے توہمات بے بنیاد ہیں اور اسے غیروں یعنی غیر مسلموں کا پھل کہنا حد درجہ جہالت ہے ، اس کے اوپر پریوں کے بسیرا کرنے کی بات بھی سراسر بے اصل ہے ، دیگر درختوں کی طرح اسے بھی آنگن میں لگانا جائز ہے ، البتہ چونکہ انار کا درخت گھنا اور سایہ دار ہوتا ہے اس لئے سانپ جیسے موذی جانور اس کے آس پاس رہنا پسند کرتے ہیں ، لہذا اگر اس وجہ کوئی اس درخت کو آنگن میں لگانے کو اچھا نہ سمجھے تو کوئی الزام نہیں ورنہ شرعی اعتبار سے انار کا درخت آنگن میں ہو یا کہیں اور لگانے میں کوئی حرج نہیں

الحلقة العلمية (الهند)

02 Oct, 12:37


ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد آصف النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:02/10/2024

1393

الحلقة العلمية (الهند)

02 Oct, 12:37


*🌹 جماعت کا پیسہ لےکر بھاگنے والے ، جعلی رسید بنوا کر جماعت کا پیسہ کھانے والے کی اذان و امامت کا شرعی حکم 🌹*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک مؤذن ہے جو ثانی امام بھی ہے وہ جماعت کے ہزاروں روپے بغیر اجازت لے کر چلے گئے ، جماعت والوں نے جب تحقیق کی تو ثابت ہوا کہ وہ جماعت کا پیسہ لے کر چلے گئے ہیں ۔ جماعت والوں نے جب اس مؤذن سے رابطہ کیا تو اس نے قبول کیا کہ میں بغیر اطلاع کے پیسہ لے کر آیا ہوں کیونکہ مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اور اس نے پیسہ واپس دینے کا جماعت والوں سے وعدہ کیا ، ابھی تک اس نے آدھے پیسے واپس کیا ہے ،
پھر جماعت والوں نے اس کے بارے میں مزید تفتیش کی تو پتہ چلا کہ جماعت کے تحت چلنے والے شادی ہال کی جعلی رسیدیں بنوا کر پیسے کھا رہا تھا ، یہ ساری دھوکے بازیاں دیکھ کر جماعت والوں نے اسے اس کے عہدے سے ہٹا دیا ہے
اب یہی شخص دوسری مسجد میں مؤذن اور ثانی امام کے فرائض انجام دینے کیلئے جا رہا ہے
سوال یہ ہے کہ ایسے مؤذن کی اذان اور امام کی غیر موجودگی میں اس کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں ؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی: عبداللہ ، ہبلی کرناٹک
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

مسجد ، مدرسہ اور جماعت وغیرہ کے چندہ کی رقم امانت ہوتی ہے اور کسی امانت کی چیز کو مالک کی اجازت کے بغیر تصرف میں لانا اور استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں جو ایسا کرے وہ شرعاً خیانت کرنے والا ہے اور خیانت کرنے والا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند

چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے

*" {اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۸/۵۸)*
ترجمہ: ' بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

*" {اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۲۲/۳۸)*
ترجمہ: کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا، اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم فرماتے ہیں

*" إن بعدكم قوماً يخونون ولا يُؤتمنون ، ويشهدون ولا يُستشهدون ، وينذرون ولا يفون ، ويَظْهَرُ فيهِمُ السَّمَن "*

*📔(الصحیح للبخاری ، كتاب الشهادات ، باب لا يَشْهَدُ على شهادةِ جُورٍ إِذا أُشْهِدَ ، رقم الحدیث ۲۶۵۱ ، ص۶۴۴ ، مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
ترجمہ: بے شک تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خیانت کریں گے اور وہ امانت کی پاس داری کرنے والے نہیں ہوں گے، اور وہ گواہی دیں گے اور حال یہ ہوگا کہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی اور نذریں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا عام ہوگا

اسی لئے علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب الغصب ، ص۶۱۷ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، بغیر اذن و ولایت کے دوسرے کے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي "*

*📒(ردالمحتار ، كتاب الحدود ، باب التعزير ، مَطْلَبٌ فِي التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ ، ۶/۱۰۶ ، دار عالم الکتب ریاض ، الطبعۃ الخاصۃ :۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، مسلمانوں میں سے کسی کیلئے جائز نہیں کہ کسی کا مال سبب شرعی کے بغیر لے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" مسجد خواہ غیرمسجد کسی کی امانت اپنے صرف میں لانا اگرچہ قرض سمجھ کر ہو حرام و خیانت ہے تو بہ واستغفار فرض ہے اورتاوان لازم پھر دے دینے سے تاوان ادا ہو گیا ، وہ گناہ نہ مٹا جب تک توبہ نہ کرے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الوقف ، باب المسجد ، ۱۶/۴۹۰ ، رقم المسئلہ ۲۹۶ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں

*🖋️" جب اس نے مال وقف میں خیانت کی اس کا معزول کرنا واجب "*

*📒(ایضاً ، ص۵۸۳ ، رقم المسئلہ ۳۸۹)*

اسی طرح جعلی رسید بنوا کر شادی ہال کے کرایہ رقم وصول کرنا بھی ناجائز و حرام ہے کہ یہ دھوکا دینا بھی ہے اور حصول زر کا باطل طریقہ بھی

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے

*" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۴/۲۹)*
ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

*" وَمَنْ غَشْنَا فَلَيْسَ مِنَّا» و فی روایۃ : مَنْ غَشِ فَلَيْسَ مِنِّي "*

الحلقة العلمية (الهند)

02 Oct, 12:37


*📔(الصحیح للمسلم ، کتاب الایمان ، باب قولِ النَّبِيِّ ﷺ: «مَنْ غَشَّنَا فليس مِنَّا» ، ص۷۰ ، دارالفکر بیروت)*
ترجمہ: جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جو دھوکہ دے وہ مجھ سے نہیں

فلہذا بر صدق مستفتی صورتِ مسئولہ میں اگر شخص مذکور واقعتاً مسجد یا جماعت کی رقم بغیر اجازت لینے اور خرد برد کرنے کا مجرم ہے اور شرعی گواہوں سے اس کا جرم ثابت بھی ہوگیا ہے ، تو ایسے شخص کو اذان و امامت کے منصب پر قائم رکھنا درست نہیں ، جماعت والوں نے اسے معزول کرکے اچھا کام کیا اور شرعی تقاضے کو پورا کیا
نیز جب تک یہ شخص توبہ صحیحہ نہ کر لے اسے دوسری جگہ بھی اذان و اقامت کے لیے نہ رکھا جائے کیونکہ یہ فاسق ہے اور فاسق کی اذان و اقامت مکروہ ہے اور اگر وہ اذان دے دے تو اس کا اعادہ کیا جائے گا

چنانچہ علامہ سید احمد طحطاوی حنفی متوفی ۱۲۳۱ھ فاسق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" هو الخارج عن أمر الشرع بارتكاب كبيرة كذا في الحموي "*

*📒(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح ، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ص۱۹۹ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی : ۱۴۱۸ھ)*
یعنی ، فاسق وہ ہے جو کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے امر شرع سے نکل گیا ہو جیساکہ حموی میں ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" فاسق وہ کہ کسی گناہ کبیرہ کامرتکب ہوا اور وہی فاجر ہے، اور کبھی فاجر خاص زانی کو کہتے ہیں، فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے پھر اگر معلن نہ ہو یعنی وہ گناہ چھپ کر کرتا ہو معروف و مشہور نہ ہو تو کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی ، اگر فاسق معلن ہے کہ علانیہ کبیرہ کا ارتکاب یا صغیرہ پر اصرار کرتا ہے تو اسے امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کے پڑھنی گناہ اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب "*

*📒(فتاوی رضویہ مترجم ، کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ، ۶/۶۰۱ ، رقم المسئلہ ۷۵۳)*

اور امام برہان الدین محمود احمد مرغینانی بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وكذا يكره أذان الفاسق؛ لأنه أمانة شرعية ولا يؤتمن الفاسق عليه "*

*📒(ذخیرۃ الفتاویٰ ، کتاب الصلاۃ ، الفصل الثالث: في مسائل الأذان ، أذان المحدث والجنب وإقامتهما ، ۲/۷ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۰ھ)*
یعنی ، یونہی فاسق کی اذان مکروہ ہے کیونکہ اذان امانت شرعیہ ہے اور فاسق اس کی پاسداری نہیں کرتا

اور امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️" اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے، تو جب تک یہ شخص صدق دل سے تائب نہ ہو "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الصلاۃ ، باب الاذان ، ۵/۳۷۷)*

اور خاص اس قسم کے خائن و سارق مؤذن کا حکم شرعی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*🖋️" اگر یہ باتیں واقعی ہیں تو وہ مؤذن سخت فاسق فاجر ہے اُسے مؤذن بنانے کی ہرگز اجازت نہیں اُسے معزول کرنا لازم، نبی صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الامام ضامن والمؤذن مؤتمن (امام ذمہ دار ہے اور مؤذن امین ہے) رواہ ابو داود والترمذي "*

*(📒ایضاً ، ص۴۲۵)*

(نوٹ) یہ فتویٰ اس صورت میں ہے جب کہ مؤذن مذکور پر لگائے گئے الزامات شرعی گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوں ، ورنہ اگر محض دشمنی نکالنے کیلئے یا کسی سازش کے تحت یہ الزامات لگائے گئے ہیں تو یہ فتویٰ سائل کیلئے ہرگز مفید نہ ہوگا

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۸/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۲/ اکتوبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد سجاد عثمان النعیمی دارالافتاء الضیاٸیہ عظیم پلازہ کراچی

الحلقة العلمية (الهند)

23 Sep, 19:30


*🌹 ایک بیٹے نے مرحوم باپ کا قرضہ ادا کردیا تو تقسیم میراث کے وقت وہ رقم واپس لے سکتا ہے یا نہیں ؟ 🌹*
ا__(💚)____

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته
حضرت علامہ و مولانا مفتی محمدشکیل اختر قادری صاحب قبلہ !
میرے والد مرحوم جناب یعقوب صاحب سید نے اپنے انتقال سے پہلے حوالدار ( ریلوے سرونٹ ) کو ایک لاکھ روپئے میں مکان گروی پر دئے تھے۔ اور ان کی بیوی اور 4 فرزند، 2 دختر میں سے بڑے فرزند ( سید احمد ) نے اس قرض کو ادا کیا۔ کیا مجھے یہ والد کا ادا کیا ہوا قرض واپس ملے گا ، اور جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے ایک لاکھ روپئے جو قرض ادا کیا تھا۔ اس کا مطالبہ کر سکتا ہوں، برائے کرم شریعت کے مطابق اور دلیل کے ساتھ جواب ارشاد فرمائیں۔

آپ کا شکر گزارش : سید احمد ، جونی ہبلی ، ہبلی کرناٹک
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
اگر مکان کے گرو کی رقم ادا کرتے وقت آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ " میں اپنی طرف سے ادا کررہا ہوں ، مجھے یہ ایک لاکھ روپے نہیں چاہئے " تو بے شک آپ کو یہ رقم ملےگی ، گرو کا مکان چھڑانے کیلئے دوسرے وارثوں سے چاہے آپ نے اجازت لی ہو یا نہ لی ہو ، بہرحال آپ کو مطالبہ کا حق حاصل ہے ، کیونکہ یہ آپ کے والد مرحوم کے اوپر قرض تھا ، اور جب آپ نے قرض ادا کرتے وقت " واپس نہ لینے " کی بات نہیں کی تھی تو سب سے پہلے آپ کے والد مرحوم کے مال متروکہ سے ان کا یہ قرض ادا کیا جائےگا ، اس کے بعد ہی بقیہ مال وارثوں میں تقسیم ہوگا

چنانچہ امام فقیہ النفس قاضی خان اوزجندی فرغانی حنفی متوفی ۵۹۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" بعض الورثة إذا قضى دين الميت أو كفن الميت من مال نفسه أو اشترى الوارث الكبير طعاماً، أو كسوة للصغير من مال نفسه لا يكون متطوعاً، وكان له الرجوع في مال الميت والتركة "*

*📒(فتاوی قاضیخان ، کتاب الوصایا ، فصل تصرفات الوصی ، ۳/۴۵۴ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۲۰۰۹ھ)*
یعنی ، کسی وارث نے میت کا قرض ادا کردیا یا اپنے مال سے میت کو کفن دیا ، یا وارث کبیر نے وارث صغیر کیلئے اپنے مال سے کھانا یا کپڑا خریدا تو یہ تطوع نہیں ہوگا اور مال و ترکہ میت کی طرف رجوع کا حق حاصل رہےگا

اور علامہ نظام الدین برہان پوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ و جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" أحد الورثة اذا قضى دين الميت من خالص ملكه حتى كان له الرجوع في التركة "*
یعنی ، کسی وارث نے میت کا قرض خاص اپنی ملکیت کے مال سے ادا کردیا تو اسے میت کے ترکہ سے واپس لینے کا حق حاصل ہے

نیز اسی میں ہے

*🖋️" واللوارث ان يقضى دين الميت وأن يكفنه بغير أمر الورثة وكان له أن يرجع في مال الميت "*

*📒(فتاوی عالمگیری ، کتاب الوصایا ، الباب التاسع فی الوصی وما یملکہ ، ۶/۱۵۵ ، المطبعۃ الکبری بولاق مصر ، الطبعۃ الثانیہ: ۱۳۱۰)*
یعنی ، وارث کو یہ حق حاصل ہے کہ دیگر ورثہ کی اجازت کے بغیر بھی میت کا قرض ادا کردے یا اسے کفن دے ، اور اسے مال میت سے اپنی رقم واپس لینے کا بھی حق حاصل ہے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قرض مورث کہ بکر پسر بالغ نے ادا کیا تمام و کمال ترکہ مورث سے مجرا پائے گا جبکہ وقت ادا تصریح نہ کر دی ہو کہ مجرا نہ لوں گا "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الوصایا ، ۲۵/۳۸۵ ، رقم المسئلہ ۱۳۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اور اسی جلد کی فہرست میں ہے

*🖋️" اگر پسر نے باپ کا قرضہ ادا کر دیا تو تقسیم میراث کے وقت اس کو وصول کر سکتا ہے "*

*(📒ایضاً ص ۲۲)*

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث والمفتی بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۱۴/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۸/ ستمبر ۲۰۲۴م

ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح:23/09/2024

1392

الحلقة العلمية (الهند)

21 Sep, 16:12


اور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لڑکی جب جوان ہوگئی اور اُس کی شادی کر دی تو اب شوہر پر نفقہ ہے باپ سبکدوش ہو گیا "*

*📒(بہار شریعت ، کتاب الطلاق ، بیان نفقہ ، ۲/۲۷۴ ، رقم المسئلہ ۶۹ ، المدینۃ العلمیۃ کراتشی)*

لیکن اس صورت میں بھی بچوں کو نفقہ نہ دینے کی وجہ سے زید اگرچہ بڑا ظالم و گناہگار ہے مگر گزشتہ سالوں کے نفقے مطالبہ کا عورت کو حق نہیں ، الا یہ کہ قاضی کے حکم یا آپسی رضامندی سے مقرر ہوا تھا اور نہیں دیا تو مطالبہ کرسکتی ہے

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" پھر جو نفقہ نہ باہمی قرار داد سے مقرر ہوا ہو نہ حاکم کے حکم سے اسے اگر ایک مہینہ یا زیادہ کتنے ہی برس گزر جائیں اور اس مدت میں عورت اور اولاد قرض دام سے خواہ کسی طریقہ سے اپنی حاجت نکالتے رہیں یا عورت اپنے مال خواہ قرض یا گداگری سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالے تن ڈھکے تو اس مدت کے کسی حبہ کا مطالبہ شوہر سے نہیں ہو سکتا ، ہاں اگر بحکم حاکم یا تراضی باہمی قرار داد نفقہ ہو لیا تھا کہ مثلا اتنا ماہوار دینا ٹھہرا اور مدتیں گزریں شوہر نے نہ اس کا نفقہ دیا نہ اولاد کا، تو عورت اپنے نفقہ مقرر شدہ کا مطالبہ کر سکتی ہے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، ۱۳/۴۶۲ ، رقم المسئلہ ۱۷۸)*

خلاصہ کلام یہ کہ زید کا دوسری بیوی کو یوں معلق چھوڑ دینا سراسر ظلم و زیادتی ہے اور اس کی وجہ سے زید سخت گناہگار ہے ، اس پر فرض ہے کہ اللہ سے ڈرے اور اپنے ظلم سے باز آئے ، نکاح میں رکھنا ہے تو اچھے طریقے سے رکھے ورنہ طلاق دے کر اسے آزاد کردے ، عورت چونکہ اپنے شوہر کے پاس آنے کو تیار ہے مگر شوہر لاتا نہیں لہذا عورت کی طرف سے کوتاہی نہ ہونے کے سبب شوہر پر اس کا نفقہ ، اسی طرح اس کے بچوں کا نفقہ واجب ہے ، نہیں ادا کیا اس لئے بیشک گناہگار ہے اور اس پر معافی مانگنا اور توبہ کرنا لازم مگر پہلے سے نفقہ کی مقدار اگر متعین نہیں تھا تو گزشتہ دنوں ، مہینوں اور سالوں کے نفقے کا مطالبہ عورت نہیں کرسکتی ، ہاں ! اگر زید خوشی سے ان گزشتہ سالوں کا خرچہ عورت کو ادا کرنا چاہے تو بہت اچھی بات ہے کہ یہ تبرع و احسان ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے

*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*

*کتبہ .......*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*المفتی و شیخ الحدیث بمدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۱۱/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۵/ ستمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح: 21/09/2024

1391

الحلقة العلمية (الهند)

21 Sep, 16:12


*🖋️" بالجملہ عورت کو نان ونفقہ دینا بھی واجب اور رہنے کو مکان دینا بھی واجب اور گاہ گاہ اس سےجماع کرنا بھی واجب ،جس میں اسے پریشان نظری نہ پیدا ہواور اسے معلقہ کردینا حرام اور بے اس کے اذن و رضا کے چار مہینے تک ترکِ جماع بلاعذرصحیح شرعی ناجائز "*

*📒(ایضاً ص ۴۴۶ ، رقم المسئلہ ۱۶۸)*

صورت مسئولہ میں زید کی دوسری بیوی چونکہ زید کے پاس آنا چاہتی ہے ، اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے لہذا وہ ناشزہ (نافرمان) نہیں ہے اس لئے زید پر اس کا نان و نفقہ میکے میں رہنے کے باوجود واجب ہے

چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ولو هي في بيت أبيها إذا لم يطالبها الزوج بالنقلة به يفتى "*

*📒(الدرالمختار ، کتاب الطلاق ، باب النفقہ ، ص۲۵۸ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، اگر عورت اپنے باپ کے گھر میں ہو اور شوہر اپنے پاس آنے کا مطالبہ نہ کرے تو شوہر پر عورت کا نفقہ واجب ہے اور اسی پر فتویٰ ہے

رہ گئی بات پچھلے نو سال کے نفقہ کے مطالبہ کی ! تو اگر آپسی رضامندی یا حاکم کے فیصلہ سے انہوں نے پہلے خرچہ کیلئے کوئی رقم ہفتہ وار یا ماہانہ یا سالانہ مقرر کرلی تھی تو بے شک عورت تقرری کے دن سے اب تک کے خرچے کا مطالبہ کرسکتی ہے ، لیکن اگر کچھ متعین نہیں تھا تو شوہر اگرچہ خرچہ نہ دینے کی وجہ سے بڑا ظالم و گناہگار ہے مگر اس صورت میں عورت کو گزشتہ ایام کے خرچے کے مطالبے کا حق نہیں ہے

چنانچہ امام ابوالحسین احمد قدوری حنفی متوفی ۴۲۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وَإِذَا مَضَتْ مُدَّةً لَمْ يُنْفِقِ الزَّوْجُ عَلَيْهَا ، وطَالبَتْهُ بِذَلِكَ ، فَلا شَيْءَ لَهَا، إِلا أَنْ يَكُونَ الْقَاضِي فَرَضَ لَهَا النَّفَقَةَ، أَوْ صَالَحَتِ الزَّوْجَ عَلَى مِقْدَارِهَا ، فَيَقْضِي لَها بِنَفَقَةِ مَا مَضَى "*

*📒(مختصر القدوری ، کتاب النفقات ، ص ۴۱۳ ، مؤسسۃ الریان بیروت ، الطبعۃ الاولی ۱۴۲۶ھ)*
یعنی ، جب ایک مدت گزر گئی اور شوہر نے نفقہ نہیں دیا ، اور عورت ان دنوں کے نفقے کا مطالبہ کررہی ہے تو اسے کچھ نہیں دیا جائےگا مگر یہ کہ قاضی شرع نے اس کیلئے نفقہ مقرر کیا ہو یا کسی مقدار پر شوہر کے ساتھ عورت نے مصالحت کی ہو تو ایسی صورت میں گزشتہ ایام کا نفقہ شوہر ادا کرےگا

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں

*🖋️" رہا گزشتہ مدت کا نفقہ، اسکی دو صورتیں ہیں، اگر پہلے آپس کی رضامندی یا قاضی کے حکم سے مقدار نفقہ مقرر ہوچکی تھی کہ مثلاً مہینے میں اتنے روپے یا اس قدر اناج اور کپڑا دیا جائے گا اور اب بلاوجہ شرعی بند کردیا تو جب تک نہیں دیا ہے اس ساری مدت کا اسی قرارداد کے حساب سے عورت کو دلایا جائے گا، اور اگر عورت یونہی رہتی کھانا کھائی کپڑا پہنتی تھی کچھ قرار داد با ہمی یا بحکم قاضی نہ ہوا تھا کہ ماہوار یا سالانہ یا ششماہی پر اتنادیا جائےگا تو جتنے دنوں اس نے نہ دیا ظالم و گنہ گار ہوا مگر عورت اس گزری مدت کا دعوی نہیں کر سکتی اب سے دعوی کرکے بحکم قاضی آئندہ کے لئے مقرر کرائے، اس کے بعد اگر وہ نہ دے گا تو یہ جبراً بذریعہ نالش وصول کر سکتی ہے "*

*📒(فتاوی رضویہ ، ۱۳/۴۳۱ ، رقم المسئلہ ۱۵۸)*

اور جہاں تک اس دوسری بیوی سے زید کے دونوں بچوں کے نفقے کا سوال ہے تو ان کا نفقہ بہرحال زید پر ہی واجب ہے (چاہے طلاق یا خلع سے پہلے ہو یا بعد میں)

چنانچہ امام برہان الدین ابوالحسن علی مرغینانی حنفی متوفی ۵۹۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ونفقة الأولاد الصغار على الأب، لا يشاركه فيها أحد، كما لا يشاركه في نفقة الزوجة ؛ لقوله تعالى : وعَلَى المَوْلُودِله رِزْقُهُنَّ ، والمولود له هو الأب "*

*📒(الھدایہ ، کتاب الطلاق ، باب النفقہ ، ۳/۳۹۵,۳۹۶ ، ادارۃ القرآن کراتشی ، الطبعۃ الاولی :۱۴۱۷ھ)*
یعنی ، چھوٹے بچوں کا نفقہ باپ پر واجب ہے اس میں اس کے کوئی مشارک نہیں جیساکہ زوجہ کے نفقہ میں کوئی مشارک نہیں ہوتا ، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سبب کہ مولود لہ پر ان کے کھانے کی ذمہ داری ہے ، اور مولود لہ باپ ہوتا ہے

جب تک بچہ بڑا ہو کر کمانے کے لائق نہیں ہوتا اور جوان ہوکر ںچی کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک ان کے اخراجات باپ کے ہی ذمے ہوں گے

چنانچہ علامہ نظام الدین برہان پوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️" ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة، ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن يكون الولد عاجزاً عن الكسب الزمانة أو مرض "*

*📒(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الطلاق ، باب النفقات ، الفصل الرابع ، ۱/۵۸۵ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، لڑکیوں کا نفقہ مطلقاً باپ پر واجب ہے جب تک کہ ان کی شادی نہیں ہوجاتی جب کہ ان کا خود کا مال نہ ہو ، جیساکہ خلاصہ میں ہے ، اور بڑے لڑکوں کا نفقہ باپ پر واجب نہیں مگر یہ کہ وہ کمانے سے عاجز ہوں اپاہج یا بیمار ہونے کی وجہ سے (تو ایسی صورت میں باپ پر ہی واجب ہے)

الحلقة العلمية (الهند)

21 Sep, 16:12


*🌹 ایک سے زیادہ نکاح ، بیویوں کے درمیان عدل ، بیوی بچوں کے نفقہ وغیرہ کے احکام 🌹*
ا__(💚)____

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
زید نے پہلے ایک نکاح کیا تھا ، پہلے نکاح سے دو اولاد (ایک بیٹا ، ایک بیٹی) ہوئی
سات لاکھ روپے کے بدلے طلاق ہوئی اور لڑکی سات لاکھ روپے لےکر اس کی زندگی سے نکل گئی ، دونوں بچے زید کے پاس ہیں
پھر زید نے دوسرا نکاح کیا ، اس سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی تولد ہوئے ، تین سال تک ازدواجی زندگی ٹھیک چلی ، پھر نااتفاقی پیدا ہونے کی وجہ سے معاملہ کورٹ میں گیا اور وہاں سے جماعت میں آیا ،
یہ کیس کورٹ میں چل ہی رہا تھا کہ اس نے پھر سے تیسرا نکاح کیا
دوسری بیوی کو نان و نفقہ کچھ بھی نہیں دے رہا ہے
دوسری بیوی اس کے پاس آنا چاہتی ہے مگر زید لے کر نہیں آتا اور نہ ہی لانا چاہتا ہے
تو سوال یہ کہ دوسری بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ میکے میں بیٹھی ہوئی اس کا اور اس کے ںچوں کا نان و نفقہ زید پر واجب ہے یا نہیں ؟
زید کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا پڑےگا یا اس سب کی ذمہ داری عورت ہی اٹھائے گی ، اگر عورت خلع لیتی ہے تو بچوں کا خرچہ کس کے ذمہ ہوگا ؟
ساتھ ہی یہ بھی بیان کردیں کہ زید کی دوسری بیوی تقریباً نو سال تک جو اپنے مائیکے میں رہی ان دنوں کا خرچہ زید کو دینا پڑےگا یا نہیں ؟ کیوں کہ عورت اپنے شوہر کے پاس آنے کو تیار تھی مگر شوہر ہی لانے پر تیار نہیں تھا
شریعت مطہرہ کی روشنی جواب عنایت فرمائیں
سائل : عبداللہ ، غوثیہ ٹاؤن ، معرفت متولی صاحب رضاٹاؤن جونی ہبلی کرناٹک
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
شریعت مطہرہ میں اگر استطاعت ہو تو آزاد مرد کیلئے ایک سے زیادہ (چارتک) نکاح کرنا منع نہیں ہے
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

*" فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَۚ- "*

*📙(القرآن الکریم ، ۴/۳)*
ترجمہ: تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ،دو دو اور تین تین او ر چار چار

لیکن ایک سے زیادہ نکاح کی صورت میں مرد پر یہ بھی فرض ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل سے کام لے ، اگر عدل نہ کرسکے تو ایک ہی شادی کرے

چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

*" فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْا "*

*📙(ایضاً)*
ترجمہ: پھر اگر تمہیں اس بات کا ڈرہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو صرف ایک (سے نکاح کرو) یا لونڈیوں (پر گزارا کرو) جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو

اور علامہ نور الدین علی بن سلطان قاری حنفی متوفی ۱۰۱۴ھ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں

*🖋️" أنه سبحانه أباح للرجال الأحرار التزوج بأربع في حالة واحدة وأوجب العدل بينهن في مراعاة القسمة وحقوق النفقة والكسوة فيجب على العبد أن يراعي الواجب فإن علم أنه يقوم بحق هذا الواجب أثر هذا المباح وإن علم أنه يقصر في الواجب فلا يتعرض لهذا المباح فإن الواجب مسؤول عنه وعما يترتب عليه من الجناح "*

*📔(انوار القرآن و اسرار الفرقان ، تحت الآیہ ، ۱/۳۹۵ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۳۴ھ)*
یعنی ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آزاد مردوں کیلئے ایک وقت میں چار شادیاں کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں ان کے درمیان برابری کو فرض قرار دیا ہے ، لہذا بندے پر فرض ہے کہ ان واجبات کی رعایت کرے ، اگر اسے معلوم ہو کہ اس واجب کا حق ادا کرسکےگا تو اس اجازت کو اختیار کرے اور اگر جانتا ہو کہ اس واجب کی ادائیگی میں قصور ہوگا تو اس اجازت سے تعرض نہ کرے کیونکہ واجب کے بارے میں پوچھا جائےگا اور اس کے ترک پر گناہ مرتب ہوگا

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تاکید فرمائی ہے کہ بیوی کو لٹکتی نہ چھوڑے اس طرح کہ نہ تو اچھے طریقے سے ساتھ رکھے نہ ہی اسے طلاق دے

چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے

*" فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِؕ "*

*📙(القرآن الکریم ، ۴/۱۲۹)*
ترجمہ: تو یہ نہ کروکہ (ایک ہی بیوی کی طرف) پورے پورے جھک جاؤ اور دوسری لٹکتی ہوئی چھوڑ دو

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" جب نکاح باقی ہے، تو اس صورت میں زید پرفرض ہے کہ یا تو اسے طلاق دے دے یا اس کے نان نفقہ کی خبر گیری کرے، ورنہ یو ں معلق رکھنے میں زید بے شک گنہگار ہےاور صریح حکمِ قرآن کاخلاف کر نے والا "*

*📒(فتاوی رضویہ ، کتاب الطلاق ، باب النفقہ ، ۱۳/۴۳۵ ، رقم المسئلہ ۱۶۱ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں

الحلقة العلمية (الهند)

14 Sep, 10:39


*🌹 ایک بیوی ، ایک بیٹا اور چھ بیٹیوں کے درمیان ترکہ کی تقسیم 🌹*
ا__(💚)____
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ :
زید کا انتقال ہوگیا ہے ، اس کے وارثین میں ایک بیوہ ، ایک بیٹا اور چھ بیٹیاں ہیں ، ان کا ترکہ ( چار ایکڑ کھیت ، مکان اور پلاٹ ) شرعی طور پر کس طرح تقسیم ہوگا ؟
(چھ بیٹیوں میں سے تین کی شادی ہوچکی ہے اور تین بیٹیاں غیر شادی شدہ ہیں)
قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کردیں
المستفتی : عبد اللہ ، رضاٹاؤن ہبلی کرناٹک الھند
ا__(💚)____
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسئولہ میں بعد تقدیم ماتقدم وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین زید کے کل ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے پھر اس میں سے آٹھ (8) حصے زید کی بیوی کو دیں گے اور ہر بیٹی کو سات سات (7+7) حصے اور بیٹے کو چودہ (14) حصے ملیں گے

چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے

*"فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ” اھ*
*(📙القرآن الکریم،۴/۱۲)*
یعنی اگر تمہارے اولاد ہو تو تمہارے ترکہ میں سے تمہاری بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

*” یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ "*
*(📙القرآن الکریم، ۴/۱۱)*
ترجمہ: "اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے ” (کنزالایمان)

شادی شدہ اور غیر شادی شدہ سب بیٹیوں کو برابر حصہ ملےگا

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۷/ ربیع الاوّل ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۱/ ستمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد سجاد عثمان النعیمی دارالافتاء الضیاٸیہ عظیم پلازہ کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح: ۱۴/۹/۲۰۲۴م

1390

الحلقة العلمية (الهند)

09 Sep, 08:29


المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
ملک محمد کاشف مشتاق النعیمی العطاری غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
المفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
ا__(💚)____
تاریخ التصحیح: ۸/۹/۲۰۲۴م

1389

الحلقة العلمية (الهند)

09 Sep, 08:29


*🌹 یہ بکواس کہ جب اللہ مجھے ہی نہیں سدھار پایا تو دوسرے کو کیا سدھارےگا ! والعیاذ باللہ تعالیٰ 🌹*
ا__(💚)____
﷽اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیانِ عظام
مندرجہ ذیل مسٸلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے چند نوجوانوں کے مجلس کے دوران یہ الفاظ زبان سے کہا کہ جب اللہ تعالی مجھے ہی سدھار نہیں پایا تو دوسرے کو کیا سدھاریں گے تو ایسے الفاظ کہنا شرعا کیسا ہے اور مذکور شخص پر شرعا کیا حکم عاٸد ہوگا
برائے کرم جملہ مقدس علماۓ کرام و مفتیانِ عظام مذکورہ مسٸلہ کا جواب قرآن و حدیث اور فقہاۓ کرام کی روشنی میں بالخصوص فتاویٰ رضویہ کی رو سے مع حوالہ جواب عنایت فرماٸیں کرم بالاۓ کرم ہوگا،
ساٸل _ محمد پرویز عالم رضوی ،
اسلامپور، اتردیناجپور، بنگال،
ا__(💚)____
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
اللہ تعالی اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کے لائق ہو، اور اسی کو گمراہ کرتا ہے جو گمراہی کا حق رکھتا ہو،

چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے

فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ

*(القرآن الکریم ، ۶۱/۵)*
ترجمہ: پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا ۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظّاً مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ

*(القرآن الکریم ، ۵/۱۳)*
ترجمہ: ان کے اپنا عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا کہ وہ کلام کو اس کے محل سے بدل دیتے ہیں اور انہوں نے اس میں سے ایک حصہ بھلا دیا جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی۔

اللہ قادر و قدیر ہے ، جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، جس پر درجنوں آیات قرآنی شاہد ہیں ، اگر کوئی راہ ہدایت پر نہیں تو یہ اس کی بد نصیبی ہے ، کوئی نہیں سدھرتا تو کمی اس کے اندر ہے نہ کہ قدرت باری تعالیٰ کا قصور ! وہ اپنی نالائقی پر ماتم کرے کہ وہ اس لائق ہی نہیں تھا کہ سدھر سکتا !

بہرحال ! اگر ایسا ہی ہے جیسا سوال میں بیان کیا گیا ہے تو مذکور فی السوال شخص کافر و مرتد ہے کہ اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی صفت پر نہ صرف عیب لگایا ہے بلکہ اس کا صاف طور پر انکار اور عجز کا اثبات کیا ہے ،

فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ

*🖋️" يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به او سخر باسم من أسمائه أو بأمر من أوامره أو أنكر وعده ووعيده أو جعل له شريكاً أو ولداً أو زوجة أو نسبه إلى الجهل أو العجز أو النقص "*

*📒(الفتاوی الھندیۃ ، كتاب السير ، باب في أحكام المرتدين ، موجبات الکفر انواع ، ومنها ما يتعلق بذات الله تعالى وصفاته وغير ذلك ، ۲/۲۸۱ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)*
یعنی ، آدمی کافر ہوجائےگا جب وہ اللہ تعالیٰ کو کسی نامناسب چیز کے ساتھ موصوف کرے ، یا اس کے کسی نام ، کسی حکم کا مذاق بنائے ، یا اس کے کسی وعدے اور وعید کا انکار کرے ، یا اس کا شریک ، بیٹا ، بیوی بنائے ، یا اس کی طرف جہل ، عجز یا نقص کی نسبت کرے

اس پر وہ تمام احکام جاری ہوں گے جو ایک مرتد و کافر پر جاری ہوتے ہیں یعنی شادی شدہ ہے تو اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل چکی ہے ، مرید ہے تو بیعت ٹوٹ گئی ہے ، جب تک توبہ کرکے نئے سرے سے اسلام نہ لے آئے اس وقت تک اس کے ساتھ سلام کلام ، نشست و برخاست ، میل جول ، شادی و غمی میں شرکت ، بیمار پڑجائے تو عیادت ، مر جائے تو مقابر مسلمین میں تدفین ، اس کیلئے دعائے مغفرت و ایصال ثواب سارے معاملات مسلمین ناجائز و حرام ہے ، *و ھذہ الاحکام کلھا مذکورۃ فی کتب الفقہ والفتاوی*

*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۹/ صفر المظفر ۱۴۴۶ھ مطابق ۴/ ستمبر ۲۰۲۴م*
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
ا__(💚)____
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
ا__(💚)____
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ

1,656

subscribers

7

photos

2

videos