فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور @faizan_e_darululoom_amjadia_ngp Channel on Telegram

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

@faizan_e_darululoom_amjadia_ngp


اہلسنت و جماعت مسلک اعلیٰ حضرت کا ترجمان، وسط ہند کی عظیم درسگاہ " دارالعلوم امجدیہ ناگپور مہاراشٹرا" کے نام سے منسوب گروپ

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور (Urdu)

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور یہ ٹیلیگرام چینل اہلسنت و جماعت مسلک اعلیٰ حضرت کا ترجمان ہے۔ اس چینل کا مقصد وسط ہند کی عظیم درسگاہ، "دارالعلوم امجدیہ ناگپور مہاراشٹرا" کے نام سے منسوب گروپ ہے۔ یہاں آپ کو علم کی روشنی میں رہنے کے لئے معلومات، تعلیمی مواد اور دینی موضوعات فراہم کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ اہلسنت و جماعت کے مواضع پر عمل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو یہ ٹیلیگرام چینل ضرور جوائن کرنا چاہئے۔

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

09 Apr, 15:20


الصلاۃ والسلام علیڪ یا رسول اللہ ﷺ ❤️

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

09 Apr, 02:29


مسجد قبا

السلام علیکم
کچھ دنوں کے لیے پوسٹ کا سلسلہ بند کیا جا رہا ہے۔
مدینہ شریف آیا ہوں ، ان شاء اللہ! زیارت کراتا رہوں گا۔

اڈمین

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 14:48


📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯شیخ الہند حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯


اسم گرامی: شیخ سلیم الدین۔
لقب: شیخ الہند۔
سلسلہ نسب: شیخ سلیم الدین بن بہاءالدین بن شیخ سلطان بن شیخ آدم بن شیخ موسیٰ بن شیخ مودود بن شیخ بدرالدین بن شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ عنہم اجمعین۔

خاندانی پس منظر: آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرر رحمۃ اللّٰه علیہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام بی بی احد ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد اجودھن سے ہجرت کرکے لدھیانہ آئے، کچھ عرصہ لدھیانہ میں رہے، پھر دہلی میں سکونت اختیار کی، آپ کے والدین دہلی سے ترک سکونت کرکے فتح پور سیکری میں رہنے لگے۔

ولادت باسعادت: آپ کی ولادت 897ھ [بقول بعض 877، 884ھ] بمطابق 1492ء یا 1479ء کو دہلی کے اس وقت کے محلہ سرائے علاءالدین زندہ پیر میں ہوئی۔

بچپن کی کرامت: آپ نے پیدا ہوتے ہی سجدہ کیا۔ آپ کی پیشانی میں دھان کا ایک دانہ چبھ گیا۔ اس کا نشان پیشانی پر تمام عمر رہا۔ ایک بار اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ دھان کے دانے چبھنے سے کافی تکلیف ہوتی تھی۔ اس کو نکالنا چاہا، لیکن اس خیال سے نہیں نکالا کہ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوگا۔

تحصیلِ علم: ابھی آپ کم سن ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے بڑے بھائی کے زیرِ سایہ ہوئی۔ آپ کے بڑے بھائی شیخ موسیٰ نے آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ سنِ بلوغ پر پہنچ کر آپ نے تحصیلِ علم کےلئے سفر کا ارادہ کیا، اپنے بڑے بھائی سے اجازت مانگی، آپ کے بڑے بھائی نے آپ کو اجازت نہیں دی اور کہا کہ میری اولاد نہیں ہے، اور میں نے تمہیں اولاد کی طرح پالا ہے، لہذا تمہاری جدائی برداشت نہیں ہوگی۔ یہ سن کر آپ نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ ناامید نہ ہونا چاہیے، آپ کے ہاں ان شاء اللّٰه لڑکا پیدا ہوگا اور تمہارا گھر روشن ہوگا، چنانچہ ایساہی ہوا، نو مہینے کے بعد شیخ موسیٰ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ پھر آپ نے برادر اکبر کی اجازت و رضامندی سے مزید تحصیل علم کےلئے فتح پور سیکری سے سرہند تشریف لائے اور ملک العلماء شیخ مجدالدین رحمۃ اللّٰه علیہ سے علوم ظاہری کی تکمیل کی، جس زمانے میں آپ کا قیام سرہند میں تھا، آپ کبھی کبھی قصبہ بدالی جاتے اور حضرت شیخ زین العابدین چشتی قدس سرہ کے مزار سے فیوض و برکات حاصل کرتے۔ آپ تمام علوم کے جامع تھے۔

بیعت و خلافت: سیر و سیاحت کے دوران آپ بہت سے بزرگوں اور درویشوں سے ملے اور ان سے فیوض و برکات حاصل کئے، حضرت شیخ ابراہیم چشتی قدس سرہ کے دست حق پرست پر آپ بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت پایا۔

سیرت و خصائص: سید الاولیاء، سندا لاتقیاء، رئیس الصوفیاء، جامع الکمالات، عارف بااللہ، واصل باللہ، متصرف الامور، نادر الوجود، صاحب الیقین حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کمالات علمیہ و روحانیہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت شیخ الاسلام فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللّٰه علیہ سے خاندانی تعلق تھا۔ آپ حضرت گنج شکر کے روحانی کمالات کے پرتوِ جمیل تھے۔ آپ کے تصرفات و کرامات کا شہرہ چہار دانگ عالم میں تھا۔ آپ کوہ سیکری کے بیابان جنگلات و غاروں میں اقامت گزیں ہوتے، لیکن اس کے باوجود مخلوق خدا کا ایک جم غفیر آپ کی خدمت میں حاضر رہتا۔ آپ نے اس جنگل کو اپنی عبادت ریاضت کی برکت سے مخلوق خدا کی دلوں کی تسکین بنا دیا تھا۔ جہاں بھی آپ تشریف لے جاتے آپ کی ذات مرجعِ خلائق بن جاتی، جب آپ حرمین طیبین تشریف لے گئے تو عرب شریف میں ’’شیخ الہند‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ تمام عمر صوم وصال رکھتے، بے انتہا عبادت و ریاضت گزار تھے۔ آپ کی مشقتیں دیکھ کر حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجاہدات شاقہ کی یاد تازہ ہوجاتی۔ ابتدائی ایام جوانی میں مجاہدین جیسا لباس زیب تن فرماتے۔ (اخبار الاخیار، 656)
آپ صاحب علم و فضل، جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے، زہد و تقویٰ، ریاضت، مجاہدات، ترک و تجرید، تحمل، بردباری میں یگانہ عصر تھے، جب تک آپ بہت کمزور و ضعیف نہ ہوگئے، آپ نے طے کے روزے نہیں چھوڑے، آپ کو پرانا سرکہ اور ٹھنڈی ترکاریاں بہت مرغوب تھیں، ٹھنڈے پانی سے روزانہ غسل فرماتے تھے، کیسی ہی سردی ہو، آپ کے لباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی، جاڑے کے موسم میں بھی باریک کرتا زیب تن فرماتے تھے، نماز اول وقت پڑھتے تھے۔ آپ کی نشست گاہ بالکل امیروں اور حاکموں کی طرح تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان باتوں سے جو خلاف شریعت ہیں طاقت سے روکتے تھے، جب آپ محفل میں رونق افروز ہوتے تو ہر شخص پر نگاہ رکھتے، کسی کو ڈانٹتے، کسی کو نصیحت فرماتے اور کسی کو تعلیم و تلقین فرماتے۔ (اخبار الاخیار، 657۔ تذکرہ اولیائے پاک و ہند، 210)

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 14:48


تعلیم سے فراغت کے بعد 1525ء کو حج کے لئے تشریف لے گئے۔ مکہ معظمہ و مدینہ کے علاوہ بلاد اسلامیہ کی سیاحت فرماتے ہوئے، ہندوستان فتح پور سیکری تشریف لائے۔ یہاں خانقاہ تعمیر کرائی، کنوئیں کھدوائے اور تلقین و ارشاد میں مصروف ہوگئے۔ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ نے 24 حج کیے تھے۔ جب آخری مرتبہ حج کےلیے تشریف لےگئے تو چار سال مکہ میں اور چار سال مدینہ منورہ میں گزارے۔ حج کے ایام مکے میں اور میلاد کے ایام مدینے میں گزارتے تھے۔ (چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر، 134)

سلاطین سے تعلقات: علاوہ امراء کے سلاطین بھی آپ کے معتقد تھے۔ خواص خاں جو امرائے کبار میں تھا، آپ سے بہت عقیدت رکھتا تھا، کئی بادشاہ آپ کے معتقد تھے۔ شیرشاہ، سلیم شاہ (جہانگیر) اور اکبر آپ سے ارادت و عقیدت رکھتے تھے اور بہت خلوص، محبت اور عزت اور تعظیم و تکریم سے آپ سے پیش آتے تھے۔

جہانگیر بادشاہ کی پیدائش آپ کی دعا کی بدولت ہوئی: شہنشاہ اکبر کا کوئی لڑکا نہ تھا، آپ سے دعا کا طالب ہوا، آپ نے مراقبہ کیا اور شہنشاہ اکبر سے کہا: ’’افسوس کہ تیری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے‘‘۔ شہنشاہ اکبر نے یہ سن کر آپ سے عرض کیا۔ چونکہ میری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے، اسی لئے تو آپ سے عرض کیا ہے، آپ دعا کیجئے۔ (یعنی اگر تقدیر میں ہوتا تو ویسے ہی مل جاتا، آپ کی بارگاہ میں آنے کا کیا فائدہ؟) آپ شہنشاہ اکبر کے اس جواب سے خوش ہوئے، تھوڑی دیر مراقبہ کیا اور پھر فرمایا۔ "اس ملک میں راجپوتوں کی حکومت بہت عرصہ تک رہےگی۔ اچھا کلاپنی بیگم کو میری بیوی کے پاس بھیج دینا"۔ دوسرے دن جب بادشاہ کی بیگم آپ کے یہاں آئی تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو رانی کی پشت سے پشت ملاکر بیٹھنے کا حکم دیا، جب آپ کی اہلیہ محترمہ رانی کی پشت سے پشت ملاکر بیٹھیں تو آپ نے اپنی چادر دونوں پر ڈال دی، پھر اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ اپنا ہونے والا فرزند رانی کو دے دو۔ جب بادشاہ بیگم کے لڑکا پیدا ہوا تو اس لڑکے کا نام آپ نے اپنے نام پر "سلیم" رکھا، شہزادہ سلیم آپ کو "شیخو بابا" کہا کرتا تھا، شہزادہ سلیم اپنے والد شہنشاہ اکبر کے انتقال کے بعد تخت و تاج کا مالک ہوا اور "جہاں گیر" کے لقب سے مشہور ہوا۔ اکبر نے شہر فتح پور آپ کی عقیدت میں تعمیر کرایا تھا۔ اس وقت اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی تھی۔ اِس وقت بھی اس کی اکثر تعمیرات اپنی خوبصورتی، اور فن تعمیر کا شاہکار ہونے کی وجہ سے عالمی ورثہ قرار دی جاچکی ہیں۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ حجرے سے نماز کےلئے مسجد جا رہے تھے، ایک فقیر کو دیکھا کہ سو رہا تھا، آپ نے اس کو جگایا اور اس سے فرمایا۔ "فقیروں کو کسی سے لڑنا نہیں چاہیے"۔ وہ فقیر یہ سن کر شرمندہ ہوا اور اقرار کیا کہ واقعی وہ خواب میں لڑ رہا تھا۔ آپ نے فتح پور سیکری کے لوگوں سے شاہی عمارت تعمیر ہونے والی پندرہ سال قبل فرمایا تھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ مکانات کشادہ بنالیں، ورنہ پھر جگہ نہیں ملے گی۔

وصال: آپ کا وصال 29 رمضان المبارک 979ھ بمطابق ماہ فروری 1571ء کو ہوا۔ آپ کا عالی شان مزار فتح پور سیکری میں مرجعِ خلائق ہے۔

ماخذ و مراجع: اخبار الاخیار۔ خزینۃ الاصفیاء، ج 2۔ تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام۔چشتی خانقاہیں اور سربراہان بر صغیر۔ سفینۃ الاولیاء۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 11:41


❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁
📚امجـــدی اقــــوالِ زریں📚
❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁


🕯ان لوگوں کو وضاحتیں دے دے کر اپنا وقت اور سکون برباد نہ کریں جو ہمیشہ آپ کو غلط سمجھنے کے لیے مصروفِ عمل رہتے ہیں۔

🕯اگر آپ اچھی اور میٹھی گفتگو نہیں جانتے تو چپ رہنا چاہئے کیونکہ چپ رہنا بھی اتنا ہی بڑا کام ہے جتنا کہ بولنا۔


❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁
المرسل📬 شمـــس تبـــریز نــوری امجـــدی
📱
+966551830750
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 10:24


*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚نابالغ و مجنون پر کیا فطرہ دینا واجب ہے؟📚*


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نابالغ و پاگل پر صدقے فطر دینا کیسا ہے واجب یا اور کچھ جواب سے نوازیں
*المستفتی: واصل قادری*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب:*
نابالغ و مجنون پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب جبکہ یہ مالک نصاب ہو! اور اگر مالک نصاب نہیں ہیں تو واجب نہیں!

لہذا اگر مالک نصاب ہیں تو ان کا ولی (سرپرست) انکی طرف سے ادا کرے اور اگر ولی نے ادا نہیں کیا تو نابالغ جب بالغ ہوگا ادا کرنا ہوگا اور اسی طرح مجنون کا جنون جب جاۓ گا ادا کرنا ہوگا!

جیساکہ درمختار میں ہے ۔۔۔۔
*{صدقةالفطر واجبة}عَلَى كُلِّ حُرٍّ مُسْلِمٍ وَلَوْ صَغِيرًا مَجْنُونًا حَتَّى لَوْ لَمْ يُخْرِجْهَا وَلِيُّهُمَا وَجَبَ الْأَدَاءُ بَعْدَ الْبُلُوغِ "*

ردالمحتار میں ہے ۔۔۔
*(قَوْلُهُ: وَلَوْ صَغِيرًا مَجْنُونًا) فِي بَعْضِ النُّسَخِ: أَوْ مَجْنُونًا بِالْعَطْفِ بِأَوْ وَفِي بَعْضِهَا بِالْوَاوِ، وَهَذَا لَوْ كَانَ لَهُمَا مَالٌ قَالَ فِي الْبَدَائِعِ.*
*وَأَمَّا الْعَقْلُ وَالْبُلُوغُ فَلَيْسَا مِنْ شَرَائِطِ الْوُجُوبِ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ، حَتَّى تَجِبَ عَلَى الصَّبِيِّ وَالْمَجْنُونِ إذَا كَانَ لَهُمَا مَالٌ "*
*( 📚المجلدالثالث ، باب صدقةالفطر ، ص ٣٦٥ ،بیروت لبنان)*

اور فتاویٰ ھندیہ میں ہے۔۔۔
*" كَانَ لِلْوَلَدِ الصَّغِيرِ أَوْ الْمَجْنُونِ مَالٌ فَإِنَّ الْأَبَ أَوْ وَصِيُّهُ أَوْ جَدُّهُمَا أَوْ وَصِيُّهُ يُخْرِجُ صَدَقَةَ فِطْرِ أَنْفُسِهِمَا وَرَقِيقِهِمَا مِنْ مَالِهِمَا عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ- رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى "*
*(📘المجلدالاوّل ، کتاب الزکوة ، ص ١٩٢، مکتبہ زکریا)*

اور بہارشریعت میں ہے ۔۔۔
نابالغ یا مجنون اگر مالک نصاب ہیں تو ان پر صدقہ فطر واجب ہے، ان کا ولی ان کے مال سے ادا کرے، اگر ولی نے ادا نہ کیا اور نابالغ بالغ ہوگیا یا مجنون کا جنون جاتا رہا تو اب یہ خود ادا کر دیں اور اگر خود مالک نصاب نہ تھے اور ولی نے ادا نہ کیا تو بالغ ہونے یا ہوش میں آنے پر ان کے ذمہ ادا کرنا نہیں،
*(📚بہارشریعت ، حصہ ٥ ، ص ٩٣٦' مکتبہ مدینہ دھلی )*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*✍🏻کتبــــــــــــــــــــه:*
*حضرت مولانا عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*

*الجواب صحیح : حضرت مولانا مفتی محمد اسامہ قادری صاحب قبلہ پاکستان۔*
*الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مفتی شان محمد مصباحی القادری صاحب قبلہ فرخ آباد یوپی۔*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 07:23


اگر علمِ تفسیر،علمِ حدیث اور علمِ فقہ اسلام کے مد مقابل نہیں بلکہ اسی کی تشریح و توضیح کا نام ہےتو علمِ تصوف بھی اسلام کی تشریح و توضیح ہی کا نام ہے اور اگر تفسیر و حدیث و فقہ کا علم اسلام کےمتوازی کسی اور علم کا نام نہیں اور ان علوم پر عمل کسی اور دین پر عمل نہیں تو علمِ تصوف بھی علمِ دین کے متوازی کوئی دوسرا علم نہیں اور اس پر عمل اسلام کے مدمقابل کسی دوسرے دین پر عمل نہیں بلکہ تصوف اسلام ہی کے ایک شعبے کا علم اور تصوف کے اعمال اسلام ہی پر عمل کی صورت ہیں۔

اللہ و رسول جل جلالہ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کی مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے تشریح و توضیح کرنے پر یہ کہنا کہ یہ ایک دوسرے کے مد مقابل ہے یعنی برخلاف ہےتو یہ سوچ کی کج روی، فہم کی غلطی اور اندازِ فکر کا ٹیڑھا پن ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بخاری شریف کی مشہور حدیث مبارک ہے جسے حدیثِ جبرئیل بھی کہتے ہیں اور حدیثِ احسان بھی۔ خلاصہ حدیث یہ ہے کہ جبرئیل امین علیہ الصّلوۃ والسّلام،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کئے۔ ان میں تین سوال یہ تھے، پہلا سوال تھا: ماالایمان یعنی ایمان کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا: ماالاسلام اسلام کیا ہے؟ تیسرا سوال تھا: ماالاحسان احسان کیا ہے؟نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اللہ کے فرشتوں اوراللہ سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھو۔ اسلام کے متعلق فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ احسان کے متعلق فرمایا کہ احسان یہ ہےکہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہواور اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

اب ذرا اس حدیث پر غور کریں تو نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسلام کو جدا بیان کیا،ایمان کو جدا بیان کیا اوراحسان کو جدا بیان کیا۔تو کیا یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟کیا اسلام،ایمان نہیں ہے؟بالکل ہے۔ کیا احسان اسلام نہیں ہے؟بالکل ہے۔ تو بات یہ ہے کہ دین ِ اسلام کی مختلف شعبوں کے اعتبار سے تقسیم ہے اور اسی تقسیم میں جو تیسری قسم ہے جسے احسان فرمایا گیا، اسی احسان کو ہزاروں اولیاء اور لاکھوں علماء تصوف کہتے چلے آرہے ہیں۔ تصوف کے مختلف نام ہیں، جیسے تصوف، احسان، تزکیۂ نفس، طریقت،مجاہدہ نفس۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اسے تصوف کہہ لیں یا احسان کہہ لیں یا تزکیۂ نفس کہہ لیں یا طریقت کہہ لیں،یہ اصطلاحات ہیں، اس کی وجہ سے اس حقیقت کا انکار نہیں ہوسکتا کہ دین میں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ ہے یا دین میں جیسے اللہ، آخرت پر ایمان ہے،اسی طرح عبادت کا وہ اعلیٰ درجہ جو اللہ کی بارگاہ میں سب سے پسندیدہ ہے،وہ بھی دین کا حصہ ہےاور اسی کا نام تصوف ہے بلکہ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ

تصوف روحِ دین ہے کیونکہ تصوف اعمالِ شریعت کو اعلیٰ و احسن انداز میں ادا کرنے کا نام ہے مثلاً نماز اس قدر عمدہ انداز میں پڑھی جائے کہ

)اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-( (پ21،العنکبوت:45)

”بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔“

کا مظہر بن جائے اور یہ نماز وہی ہوگی جو حدیث میں فرمایا کہ ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ دوسرے انداز میں یوں کہہ لیں کہ نماز کے فرائض، واجبات اور سنتیں ادا کرنا شریعت ہےاور اسی نمازمیں اتنا خشوع و خضوع شامل کردیناکہ وہ برائی اوربے حیائی سے روکنے والی بن جائے، یہ تصوف ہے۔

)كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ( (پ2،البقرۃ:183)

”تم پر روزے فرض کئے گئے“

کے حکم پر عمل کرنا شریعت ہے اور روزے ایسے رکھناکہ تقوی مل جائے،نفس قابو میں آجائے اور آیت کے حصے

)لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)( (پ2،البقرۃ:183)

’’تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ ‘‘

پر عمل ہوجائے، یہ تصوف ہے۔ گویا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ شریعت ہے اور لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ تصوف ہے۔

زکوۃ کیا ہے؟ مخصوص شرائط کی موجودگی میں مال کی مخصوص مقدار راہِ خدا میں دینا۔ اتنا مال دیدیا تو شریعت پر عمل ہوگیا، لیکن قرآن نے فرمایا :

)خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا( (پ11،التوبۃ:103)

’’ اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔ ‘‘

یعنی اے حبیب لوگوں کے مال سے زکوۃ وصول کرو اور اس کے ذریعے تم ان کے دل سے دنیا اور مال کی محبت ختم کرکے ان کے دل پاک صاف کردو۔گویا خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً شریعت ہے اور تُطَهِّرُهُمْ اور تُزَكِّیْهِمْ تصوف ہے۔

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 07:23


خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعت اور تصوف کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں، یہ خود دین کے احکام کی روح سمجھنے کے برخلاف ہے۔ جو شخص دین کے احکام پوری طرح نہیں سمجھتا کہ افعالِ شرع کے پیچھے مطلوب کیا ہے، وہی ایسی بات کہہ سکتا ہے، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ تصوف اسلام کے متوازی،مد مقابل کسی اور دین کا نام نہیں بلکہ تصوف وہی ’’ اِحسان ‘‘ہے جسے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایمان اور اسلام کے ساتھ ملا کر بیان کیا اور تصوف وہی مطلوب ِ شرع ہے جسے قرآن ہی میں احکام ِ شرع کے ساتھ جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp

*از قلــم✍🏻 مفتی محمد قاسم عطاری مدنی۔*

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 07:23


📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*🕯️کیا تصوف الگ سے کوئی دین ہے؟🕯️*


📬 مسلمانوں میں صوفیاء کرام سے محبت ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ صوفیاء کو دوسرے الفاظ میں صالحین یعنی نیکیوں کے شائق اور عامل کہہ سکتے ہیں۔ صوفیاء کرام جس طرزِ عمل کو اختیار کرتے ہیں، اسے اصطلاح میں تصوف کہا جاتا ہے اور علمی طور پر اسے علمِ تصوف سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مفسرین و محدثین ومجددین و علماء و فقہاء کی سیرتوں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ صوفیاء کرام کا بہت اِکرام کرتے اور تصوف سے بڑی محبت کرتے تھے۔ اپنی علمی تصنیفات میں کتبِ تصوف کا حوالہ دینا، صوفیاء کرام کے اقوال لکھنا اور دین کے معیاری عمل کی مثالیں پیش کرنے کےلئے اہلِ تصوف کے احوال و واقعات نقل کرنا ہمیشہ سے اکابرعلمائے اسلام کا معمول رہا ہے۔ اس سب کے باوجود، دورِ جدید میں قرآن و حدیث کا ناقص فہم رکھنے والے بعض لوگ تصوف کاکلیۃً انکار کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ تصوف تو دینِ اسلام سے الگ اور اس کے مدمقابل دوسرا دین ہے۔

اس منفی طرزِ فکر اور ناقص ترین فہم ِ دین پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ بہرحال اہلِ دانش کے لئے کچھ وضاحت پیش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تصوف اسی طرح ایک علم ہے جیسے علم تفسیر، علم حدیث اور علم ِ فقہ وغیرہا۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں علم تفسیر کے نام سے کوئی علم نہیں تھا، قرآن مجید تھا،اور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث تھیں۔ صحابہ کرام نے قرآن سمجھنا ہوتا،تو رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سمجھ لیتے تھے، یہ نہیں تھا کہ جداگانہ علم تفسیر اور اصولِ تفسیر کو سامنے رکھ کر تدبرِ قرآن کرتے۔ اسی طرح زمانہِ رسالت میں احادیثِ مبارکہ تو موجود تھیں لیکن اصولِ حدیث،فن ِحدیث یا علم ِحدیث نام کا کوئی جدا علم نہیں تھا۔ اسی طرح نماز، روزہ،حج،زکوٰۃ،نکاح، طلاق، حلال و حرام وغیرہ کے شرعی مسائل تو تھے لیکن علم ِفقہ یا علمِ اصولِ فقہ کے نام سے کوئی علم نہیں تھا۔لوگوں کو جو مسائل پیش آتے، وہ نبیِّ پاک علیہ الصّلوۃ والسّلام یا اکابر صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم سے پوچھ کرعمل کرلیتے۔ مذکور بالا علوم باقاعدہ مدوّن و منضبط نہیں تھے، بلکہ زمانہِ صحابہ کے بعدمعرضِ تحریر میں آئے اور پوری اُمّت کے درمیان مقبول ہوئے۔ پھر ہر علم کے ماہرین تیار ہوئے۔علمِ تفسیر کے اپنے ماہرین حضرت قتادہ، عکرمہ،طبری علیہم الرحمۃ، علمِ حدیث کے اپنے ماہرین جیسے اما م بخاری،امام مالک، امام احمد، امام مسلم علیہم الرحمۃ۔علمِ فقہ کے اپنے ماہرین ہیں جیسے امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی، امام احمد علیہم الرحمۃ۔

یہی معاملہ علمِ تصوف کا ہے۔علمِ تصوف بھی اسی طرح ایک علم ہےکہ قرآن و حدیث کے علوم کو جس طرح مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا کہ وہ علم جس میں کلام اللہ یعنی قرآن مجید کےالفاظ،معانی اور اس کےمتعلق کلام ہو، اسے علم تفسیر کہا گیا،یونہی جس علم میں نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اعمال و اقوال و سکوت کا بیان ہو، وہ علم حدیث ہوگیا اور اس کے قواعد و ضوابط کا علم، علمِ اصولِ حدیث قرار پایا۔ یونہی جس علم میں یہ بیان ہے کہ آدمی نماز کیسے پڑھے؟ کیا چیز حلال ہے؟ کیا چیز حرام ہے؟ اس طرح کے تمام امور کے علم کو علم ِ فقہ کا نام دیا گیا۔

اسی طریقے سے قرآن مجید اور احادیثِ طیبہ کا ایک بڑا حصہ وہ ہےجس کا تعلق قلبی اعمال و احوال سے ہے جیسے اخلاص، صبر،شکر، توکل،قناعت،زہد،فکرِ آخرت،محبت ِ الٰہی، تسلیم و رضا یعنی اللہ کی رضا کو ہر شے پر فوقیت دینااور اس کی مشیت پر راضی رہنا۔ یہ تمام وہ اوصاف ہیں جنہیں قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے۔ان اوصاف کے برعکس کچھ دوسرے قلبی اعمال ہیں جنہیں رذائل سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے ریاکاری، بے صبری، تنگ دلی، ناشکری، ترکِ توکل، محبتِ دنیا، آخرت سے غفلت،تکبر، حسد، بغض وغیرہا۔ ان سب کی مذمت بھی قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ پہلی قسم کے اعمال کا حصول اور دوسری قسم کے اعمال سے اجتناب شریعت کا مطلوب ہے اور ان امور پر ضمنی طور پر تو کتبِ تفسیر و شروحِ حدیث میں کلام کیا جاتا ہے لیکن ان علوم میں مفصل نہیں۔ لہٰذا جس طرح مسلمانوں کی سہولت کےلئے فقہ ِ ظاہر کے احکام کو جداگانہ علمِ فقہ میں بیان کیا جاتا ہے اسی طرح فقہِ باطن یعنی قلبی اعمال و احوال کے احکام، تصوف کی کتابوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ کتبِ تصوف کا بنیادی موضوع قلبی نیک اعمال کی پہچان اور حصول کے طریقے نیز قلبی رذیل اعمال کی پہچان اور بچنے کے طریقے سیکھنا ہے۔ اس حقیقت کی زندہ مثال دیکھنی ہو تو تصوف کی مرکزی اور مشہور ترین چند کتابوں کا مطالعہ کرلیں مثلاً کیمیائے سعادت، احیاء العلوم، عوارف المعارف، الفتح الربانی، فتوح الغیب، کشف المحجوب، رسالہ قشیریہ، مکتوباتِ مجدد الف ثانی وغیرہا۔

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

08 Apr, 07:19


●•••┈┉•••═•••═•••≈≈•••═•••═•••┉┈•••●
🕯 مختصـــر شـــرح کلام رضــــا 🕯
« کلام نمبر 72 » « شعـر نمبر 28 »
●•••┈┉•••═•••═•••≈≈•••═•••═•••┉┈•••●

شعـــــر
یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے

افاعیــل
۱) فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن
۲) مفاعلن فاعلن فعولن مفاعلن فاعلن فعولن

حـل لغــات
آمد: آنے کا عمل، تشریف آوری، آیا۔ (فارسی)
دبدبہ: شان و شوکت، رعب داب، جاہ و جلال۔ (فارسی)
نکھار: صفائی، اجلاپن، زیب و زینت، تزئین۔ (ہندی)
نجوم: ستارے۔ (عربی)
افلاک: آسمان۔ (عربی)
جام: پیالا، گلاس، پینے کا برتن۔ (فارسی)
مینا: صراحی۔ (فارسی)
اجالنا: زنگ یا میل کچیل دور کرنا، اجلا و صاف کرنا۔ (ہندی)
کھنگالنا: پانی سے برتن کو صاف کرنا۔ (سنسکرت/ہندی)

تشـــریح
شہنشاہ کائنات ﷺ کی آمد تھی اس لیے آپ کے رعب اور دبدبے کی وجہ سے ہر شئی کو اجلا کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ ستارے اور آسمان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ ساغر و مینا (گلاس اور صراحی) کو اچھی طرح اجلا و مصفیٰ کرو اس لیے وہ ان برتنوں کو آب کوثر میں کھنگال کھنگال کر ان کی میل کچیل کو دور کر رہے ہیں تاکہ عشق مصطفیٰ کی شراب طہور سے آسمان والوں کو نوازا جائے، کیوں کہ بادشاہ جس علاقے کے دورے پہ جاتے ہیں اس علاقے کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کچھ کرکے آتے ہیں (ہمارے دنیا دار حکام صرف اعلان ہی کرتے ہیں) جبکہ ہمارے آقا کام بھی کرتے ہیں۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
●•••┈┉•••═•••═•••≈≈•••═•••═•••┉┈•••●
قسط جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
●•••┈┉•••═•••═•••≈≈•••═•••═•••┉┈•••●

تحقیق و تخریج📝 شمــس تبــریز نــوری امجــدی بانی گروپ فیضــانِ دارالعــلوم امجــدیہ ناگپور 966551830750+📲

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

07 Apr, 14:03


ماخذ و مراجع: تذکرۃ المحدثین۔ محدثین عظام حیات و خدمات۔ سير أعلام النبلاء۔ وفيات الأعيان۔ تهذيب التهذيب۔ البداية والنهاية۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

07 Apr, 14:03


تصانیف: امام ابن ماجہ بلند پایہ مصنف بھی تھے۔ آپ کی تین اہم کتابیں مشہور ہیں۔ سنن ابن ماجہ، تفسیر ابن ماجہ، تاریخ ابن ماجہ عہد رسالت سے لے کر مصف کے زمانے تک کی مبسوط تاریخ ہے حافظ ابن طاہر مقدسی کہتے ہیں میں نے قزوین میں اس کا ایک نسخہ دیکھا تھا لیکن اب یہ کتاب ناپید ہوچکی ہے۔ یہ کتاب امام ابن ماجہ کے درک فی التاریخ کی دلیل ہے تفسیر قرآن میں ان کی ایک نادر کتاب تھی۔ ابن کثیر لکھتے ہیں ‘‘ولا بن ماجہ تفسیر حافل’’ اب یہ کتاب ناپید ہے اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ماجہ کو تفسیر اور علوم قرآنیہ میں دستگاہ حاصل تھی۔ مگر ان کا خاص میدان علم حدیث تھا اور اسی فن میں انہیں شہر دوام حاصل ہوئی آپ کی سنن کے سامنے بہت سی حدیثی مجموعے پھیکے پڑگئے، سنن ابن ماجہ میں ایک ہزار پانچ سو ابواب ہیں جس میں چار ہزار احادیث ہیں، جب امام ابن ماجہ اس کتاب کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو اسے حافظ ابو زرعہ کے سامنے پیش کیا وہ اسے دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ اگر یہ کتاب لوگوں کے ہاتھ میں پہونچ گئی تو اس دور کی اکثر جوامع مصنفات بے کار و معطل ہوکر رہ جائیں گی۔ ابن ماجہ فرماتے ہیں: عرضت ھذہ السنن علی ابی زرعۃ فنظر فیہ وقال اظن ان وقع ھذا فی ایدی الناس تعطلت ھذہ الجوامع اواکثرھا۔ (تذکرہ، ج 2، ص 189)

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ‘‘کتابہ فی؛السنن جامع جید کثیر الابواب والغرائب وفیہ احادیث ضعیفۃ جدا’’ ابن ماجہ کی کتاب سنن میں جامع، عمدہ، کثیر الابواب ولغرائب ہے اور اس میں بہت سی ضعیف حدیثیں ہیں۔ (تہذیب، ج 9، ص 468)
ابن کثیر کہتے ہیں: صاحب کتاب السنن المشہورۃ وھی دالۃ علی عملہ و تبحر واطلاعہ واتباعہ للسنۃ فی الاصول والفروع، ابن ماجہ مشہور کتاب سنن کے مصنف ہیں اور یہ کتاب ان کے عمل، علم، تبحر اور اطلاع اور اصول و فروغ میں ان کے اتباع سنت کی دلیل ہے۔
(ابن کثیر، ج 11، ص 52)

سنن ابن ماجہ کی قبولیت کا بنیادی سبب روایات کا حسن انتخاب ہے۔ ابواب کی فقہی رعایت سے اور ترتیب احادیث سے مسائل کو واضح کرتے ہیں استنباط اور تراجم ابواب کی احادیث سے بغیر کسی پیچیدگی کے مطابقت نے بھی سنن ابن ماجہ کے حسن کو نکھارا ہے۔
سنن ابن ماجہ کی بعض اہم خصوصیات حسب ذیل ہیں:
سنن ابن ماجہ میں بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جو دیگر کتب صحاح میں موجود ہیں۔
حسن ترتیب میں وہ تمام کتب صحاح پر فائز ہے۔
عدم تکرار اور اختصار کے باوصف وہ انتہائی جامع کتا ہے اور دوسری کتابوں کے مقابل زیادہ مسائل و معلومات پر مشتمل ہے بعض مقامات پر حدیث کی فنی حدیثیت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
اس کی مرویات مسائل و احکام سے متعلق ہیں فضائل و مناقب سے متعلق احادیث نہیں سنن ابن ماجہ کا شمار صحاح ستہ میں ہیں یا نہیں اس باب میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف رہا ہے پانچویں صدی کے آخر تک صحاح کی بنیادی کتابوں میں صرف پانچ کتابیں، بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی کا شمار ہوتا تھا۔ شیخ بن صلاح اور علامہ نووی نے بھی انہیں پانچوں کا شمار صحاح میں کیا ہے۔ سب سے پہلے۔ حافظ ابو الفضل محمد بن ماجہ کی شروط سے بھی بحث کی اور ان کی سنن کو بھی بنیادی کتابوں کے ساتھ ملا کر صحاح کی اصل چھ کتابیں قرار دیں اسی دور میں حافظ طاہر کے معاصرے محدث رزین بن معاویہ مالکی نے اپنی کتاب التحرید الصحاح والسنن میں کتب خمسہ کے ساتھ سنن ابن ماجہ اور مؤطا امام مالک کو لاحق کردیا اس کے بعد اختلاف رہا کہ صحاح ستہ کی چھٹی کتاب سنن ابن ماجہ ہے یا مؤطا امام مالک۔ اہل مغرب مؤطا کو ترجیح دیتے تھے اور اہل مشرق سنن ابن ماجہ کو لیکن متاخرین نے سنن ابن ماجہ کے حق میں اتفاق کرلیا اور اب علماء ملت کی غالب اکثریت صحاح ستہ کی چھٹی کتاب سنن ابن ماجہ ہی قرار دیتی ہے۔ (تذکرۃ المحدثین سعیدی، ص 324)
علامہ ابو الحسن سندھی لکھتے ہے: اور متاخرین کی غالب اکثریت اس بات پر ہے کہ سنن ابن ماجہ صحاح ستہ کی چھٹی کتاب ہے۔
سنن ابن ماجہ پر دیگر صحاح کی طرح ہر دور میں شروح و حواشی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کا کام ہوتا رہا ہے جو اس کتاب کی مقبولیت و اہمیت اور افادیت کا واضح ثبوت ہے شرح سنن ابن ماجہ حافظ علاء الدین مغلطائی۔ شرح ابن ماجہ حافظ برہان الدین حلبی، الدیباچہ علی سنن ابن ماجہ شیخ کمال بن محمد بن موسیٰ، مصباح الجاجہ حافظ جلال الدین سیوطی۔ شرح سنن ابن ماجہ، حافظ ابو الحسن محمد بن عبدالباری، شرح ابن ماجہ شیخ سراج احمد فاروقی سرہندی بالخصوص قابل ذکر ہیں۔

اخلاق و کردار: امام ابن ماجہ فضل و کمال کی طرح تدین و تقویٰ اور زہد و صلاح کے بھی جامع تھے احکام شریعت کی شدت کے ساتھ پابندی کرتے تھے اور اصول و فروغ میں پورے طور پر متبع سنت تھے اس پر خود ان کی سنن شاہد ہے۔

وصال: ابن ماجہ نے دوشنبہ 27 یا 22 رمضان المبارک 273ھ کو 64 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، دوسرے دن سہ شنبہ کو تجہیز و تکفین ہوئی آپ کے بھائی ابوبکر نے نماز جنازہ پڑھائی بیٹے عبداللہ اور آپ کے دو بھائیوں نے لحد میں اتارا۔

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

07 Apr, 14:03


📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯امام ابو عبداللہ محمد ابن ماجہ قزوینی ربعی رحمۃ اللہ علیہ🕯


اسم گرامی: محمد۔
کنیت: ابو عبداللہ۔
لقب: حافظ۔
سلسلہ نسب: محمد بن یزید بن عبداللہ بن ماجہ ربعی قزوینی۔ علیہم الرحمہ۔
ماجہ آپ کے والد کا لقب تھا جس کی تائید علامہ نووی نے تہذیب الاسماء و اللغات میں علامہ مجدد الدین فیروز آبادی نے قاموس میں علامہ ابو الحسن سندھی نے ابن ماجہ کی شرح میں شاہ عبدالعزیز نے عجالہ میں قزوین کے مشہور مورخ حافظ خلیلی نے اور محدث رافعی نے تاریخ قزوین میں اور امام ابن ماجہ کے شاگرد خاص حافظ ابو الحسن بن قطان نے کی ہے۔
شاہ عبدالعزیز عجالہ نافعہ میں لکھتے ہیں ‘‘ماجہ لقب پدر ابو عبداللہ است نہ لقب جد او نہ نام مادر او’’ (عجالۂ نافعہ، ص 23)

ولادت باسعادت: آپ کی ولادت عراق کے مشہور شہر قزوین میں 209ھ میں ہوئی۔ آپ نسلاً عجمی تھے قبیلہ ربیعہ کی طرف نسب ولاء کرتے ہوئے ربعی کہلاتے ہیں۔

تحصیل علم: ابن ماجہ کا زمانہ علم حدیث کی ترقی و اشاعت کا زریں عہد تھا اس علم میں کمال پیدا کرنا ہی علمی حلقوں میں فضیلت کا معیار تھا چناں چہ امام صاحب نے ابتدائی تعلیم کے بعد دیگر بلاد و امصار کی سیاحت و سفر بغرض سماع حدیث شروع کی۔ ابن خلکان کا بیان ہے ‘‘ارتحل الی العراق والبصرۃ والکوفۃ و بغداد و مکۃ والشام و مصر لکتب الحدیث’’ ابن ماجہ نے کتاب حدیث کے لیے عراق، بصرہ، کوفہ، بغداد، مکہ، شام، مصر اور رے کا سفر کیا۔ (وفیات، ج 2، ص 363)
شاہ عبدالعزیز قدس سرہ کے مطابق ابن ماجہ کو عراق، بصرہ، بغداد، مکہ، مدینہ، شام، مصر، واسط رے اور دوسرے اسلامی شہروں میں سفر کا اتفاق ہوا۔ (بستان المحدثین، ص 191)

اساتذۂ کرام: آپ نے کثیر شیوخ حدیث سے سماع کیا چند اساتذہ کے نام یہ ہیں: محمد بن عبداللہ بن نمیر، حیارہ بن مفلس، ابراہیم بن منذر الخرمی، عبداللہ بن معاویہ، ہشام بن عمار، محمدبن رمح، داؤد بن رشید۔ (تذکرہ، ج 2، ص 189)
ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبدہ، نصرہ بن علی، ابو مروان محمد بن عباد، عباس بن عبدالعظیم، عبداللہ بن عامر، ابو خثیمہ، زبیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ، عبداللہ بن احمد، اسماعیل بن بشر، یحییٰ بن حکیم۔
(تذکرۃ المحدثین سعیدی، ص 315)

حلقۂ درس اور تلامذہ: ان اہم ترین شیوخ سے کسب فیض کے بعد ابن ماجہ نے علم حدیث میں وہ رتبہ بلند پالیا تھا جس کا تقاضا تھا کہ آپ کی بارگاہ طالبان حدیث کا مرجع بن جائے چناں چہ ایسا ہی ہوا آپ سے بے شمار لوگوں نے حدیثیں سنیں اور روایت کیں جن میں اکابر، معاصر، اصاغر، سبھی شامل ہیں۔ چند اہم نام یہ ہیں:
علی بن سعید بن عبداللہ غذانی، ابراہیم بن دینار جرشی، احمد بن ابراہیم قزوینی، ابو طیب احمد بن روح شعرانی، اسحاق بن محمد قزوینی، جعفر بن ادریس، حسین بن علی بن برانیاد، سلیمان بن یزید قزوینی محمد بن عیسیٰ صغار، ابو الحسن علی بن ابراہیم بن سلمہ قزوینی، ابو عمر واحمد بن حکیم مدنی۔ (تہذیب، ج 9، ص 468)
محمد بن عیسیٰ ابہری، احمد بن مدح بغدادی، ابو بکر حامدی۔
(تذکرۃ المحدثین سعیدی، ص 315)

فضل و کمال: امام ابن ماجہ نے حدیث، علوم حدیث، تاریخ و تفسیر میں جو کمال پیدا کرلیا تھا اس کا اعتراف علماء اور ارباب سیر نے کیا ہے۔
ابن خلکان: ‘‘کان اماماً فی الحدیث عارفا بعلومہ وجمیع مایتعلق بہ’’
ابن ماجہ حدیث کے امام تھے اور علوم حدیث کے جاننے والے اور تمام فنون کا ادراک رکھتے تھے جو حدیث سے متعلق ہیں۔
ابو یعلیٰ خلیلی: ‘‘ثقۃ کبیر متفق علیہ محتج بہ لہ معرفۃ بالحدیث و حفظ و لہ مصنفات فی السنن والتفسیر والتاریخ’’ وہ ثقہ کبیر ہیں ان کی جلالت علم پر سب کا اتفاق ہے وہ حجت ہیں اور علم حدیث میں انہیں گہری معرفت ہے اور وہ حافظ حدیث ہیں۔ سنن، تفسیر اور تاریخ میں ان کی متعدد کتابیں ہیں۔
(تہذیب، ج 9، ص 468)
حافظ ذہبی: ‘‘الحافظ الکبیر المفسر صاحب السنن والتفسیر والتاریخ و محدث تلک الدیار’’ الحافظ الکبیر امام، سنن، تفسیر اور تاریخ کے مصنف اور ملک خراسان کے محدث ہیں۔ (تذکرہ، ج 2، ص 189)
ابن جوزی: وہ حدیث و تاریخ اور تفسیر کے ممتاز ماہر تھے۔
ابو القاسم رافعی: ائمہ مسلمین میں ابن ماجہ بھی ایک بڑے معتبر امام ہیں۔ ان کی مقبولیت پر سب کا اتفاق ہے۔
ابن اثیر: وہ ذی عقل، صاحب علم اور امام حدیث تھے۔
جلال الدین تغری: ابن ماجہ امام حجت اور ناقد حدیث تھے۔
ابن ناصر الدین: مشہور علماء اسلام میں ایک ابن ماجہ بھی ہیں وہ حدیثوں کے حافظ اور اس میں نہایت معتبر اور بلند پایہ شخص تھے۔

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

07 Apr, 10:13


❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁
📚امجـــدی اقــــوالِ زریں📚
❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁


🕯زندگی کی جنگ خود لڑنا پڑتی ہے، لوگ تو صرف مبارکباد دینے یا افسوس کے لئے آتے ہیں۔

🕯کسی کو پسندیدہ بنا لینا اعلیٰ ظرفی ہے اور کسی کا پسندیدہ بن جانا خوش قسمتی ہے، خوش قسمت اگر تکبر نہ کرے تو سونا ہے اور اعلیٰ ظرف اگر منافق نہ ہو تو ہیرا ہے۔


❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁
المرسل📬 شمـــس تبـــریز نــوری امجـــدی
📱
+966551830750
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

07 Apr, 08:14


*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚حمل کا فطرہ واجب ہے کہ نہیں؟📚*


السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ
سوال عرض ہے آج ایک صاحب فطرہ وصول کرنے آئے تھے۔ تو جو عورت حاملہ ہیں بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہے اسکا بھی فطرہ وصول رہے تھے کیا یہ صحیح و درست ہے ؟
جواب عنایت فرمائیں
*المستفتی: محمد معراج رضا نوری گونڈہ اترپردیش*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب:*
درست نہیں ہے!
یاد رکھیں حمل کا صدقہ فطر واجب نہیں!

علامہ شیخ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی متوفی ٧١٠ھ تحریرفرماتےہیں۔۔۔
*"- ولا (یخرج ای صدقة الفطر) عن الحمل "-*
اورنہ حمل کاصدقہ فطرنکالا جاۓ گا
*( 📕البحرالرائق شرح کنزالدقاٸق ، المجلدالثانی ، کتاب الزکوة ، ص ٤٤٢ بیروت لبنان)*

ہاں اگر بچہ عیدکی صبح صادق سےپہلے پیدا ہوجاۓ تو واجب ہے!

علامہ شیخ نظام الدین حنفی متوفی ١٠٩٢ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے تحریر فرمایا ہے
*"- ووقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثاني من يوم الفطر۔۔۔۔۔ ومن ولد أو أسلم قبله وجبت ومن ولد أو أسلم بعده لم تجب ۔۔۔۔*
*( 📘الفتاویٰ الھندیة ، المجلدالاول ، کتاب الزکوة ، ص٢١١ بیروت لبنان)*

لہذا صورت مسٶلہ میں ان مولانا صاحب کا مذکورہ عمل قطعا درست نہیں انکو چاہیے حمل کی وصول کردہ رقم واپس کریں اور شرع کے مطابق عمل کریں اور تلقیں کریں !

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*✍🏻کتبــــــــــــــــــــه:*
*حضرت قاری عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*

*الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مفتی محمد جابر القادری صاحب قبلہ جمشید پور جھارکھنڈ ۔*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

06 Apr, 15:10


📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯حضرت مولانا آل احمد پھلواری رحمۃ اللہ علیہ🕯


اسم گرامی: آل احمد۔
سلسلہ نسب: حضرت مولانا آل احمد بن حضرت مولانا شاہ محمد امام بن حضرت مولانا شاہ نعمت اللہ پھلواری رحمہم اللہ۔

ولادت باسعادت: آپ کی ولادت 7 رمضان المبارک 1223ھ میں ہوئی۔

تحصیل علم: درسیات کی تکمیل اپنے والد ماجد حضرت مولانا شاہ محمد امام رحمہ اللہ سے کی اور وہ مولانا احمدی پھلواری علیہ الرحمہ کے تلمیذ رشید تھے۔ 1243ھ میں حرمین شریفین کے ارادے سے گھر سے نکلے، ایک سال کلکتہ میں قیام کیا، 27 رجب المرجب 1244ھ میں حرمین مکرمین میں حاضر ہوئے، وہاں پر آپ نے تین سال تک قیام کیا۔ حضرت شیخ الاسلام سید احمد زینی دحلان وغیرہ سے آپ نے سندات حدیث حاصل کیں۔ 1247ھ میں ہندوستان آئے اور حیدرآباد میں مولانا میر شجاع الدین مرحوم کے مدرسہ میں مدرس ہوگئے۔ 1251ھ میں پھلواری وطن پہونچے، اس وقت مسند ارشاد پر حضرت فرد فائز تھے۔ ان سے استفادۂ باطنی کیا، ایک سال بعد قصدِ بنارس کیا، مزارات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے جونپور پہونچے۔ حضرت استاذ العلماء امام الحکماء مولانا ہدایت اللہ خاں قادری رامپوری رحمہ اللہ نے آپ سے سند حدیث حاصل کی۔ 1264ھ میں پھر عرب کے قصد سے سفر کیا، بغداد مقدس، کاظمین، نجف اشرف کی زیارت کرتے ہوئے مکہ معظمہ حاضر ہوئے۔ 1272ھ میں آپ کی اپنے چچا مولانا شاہ محمد حسین رحمہ اللہ سے ایک روز طواف سے فراغت کے بعد ملاقات ہوئی۔ 1272ھ تا 1285ھ مدینہ منورہ میں درس حدیث میں مشغول رہے۔ 1285ھ میں حضرت شاہ علی حبیب نصر ابن حضرت فرد نے تحصیل حدیث کے لیے پھلواری بلایا اور سبقاً سبقاً تمام کتب صحاح و مسانید پڑھ کر سند حاصل کی، 1288ھ میں واپس تشریف لے گئے۔

بیعت: 17 برس کی عمر میں 20 جمادی الاولیٰ 1240ھ میں اپنے دادا بزرگوار حضرت مولانا شاہ نعمت اللہ پھلواری قدس سرہ سے بیعت کی۔

سیرت و خصائص: منبع فیوض و برکات و کمالات و حسنات، مجسمۂ اخلاق و محبت، غریق بحر عشق و محبت، شہباز میدان حقیقت و معرفت، یادگار سلف، عالم ربانی، جامع علوم و فنون حضرت مولانا آل احمد پھلواری رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ از حد وارفتہ حال تھے۔ بادۂ حب نبی ﷺ سے سرشار رہتے۔ مولانا شاہ علی حبیب نصر نے جب تحصیل حدیث کی غرض سے آپ کو بلایا تو آپ نے تامل فرمایا اور عرض کیا کہ ڈرتا ہوں کہ کہیں وہاں کا پیوند خاک نہ ہو جاؤں۔ سرور کائنات ﷺ نے آپ کے سر پر دست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا "تم پھر مدینہ واپس آ جاؤ گے" اس روز سے آپ نے اتنے حصے کے بالوں کو نہیں کٹوایا۔

وصال: آپ کا وصال 26 رمضان المبارک 1295ھ کو ہوا۔ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ (آثارات پھلواری شریف)

ماخذ و مراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت، ص 48- 49۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

06 Apr, 11:31


❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁
📚امجـــدی اقــــوالِ زریں📚
❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁


🕯ایک لڑکے کی تربیت ایک فرد کی تربیت ہوتی ہے اور ایک لڑکی کی تربیت پورے خاندان کی تربیت ہوتی ہے۔

🕯سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحات وہ ہوتے ہیں جب آپ اپنی سب سے قیمتی چیز کو بچانے میں خود کو بےبس محسوس کرتے ہیں۔


❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁
المرسل📬 شمـــس تبـــریز نــوری امجـــدی
📱
+966551830750
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

06 Apr, 07:57


*(📓بحوالہ, احسن الفتاویٰ ج 4/ص 469 / کتاب الفقہ ج 1/ص 1014 /فتاوی عالمگیری ج4 ص 39 / درمختار ج 1/ص 141 / ماخوذ مسائل زکوٰۃ ص 207تا 208)*
*واللہ تعالیٰ اعلم*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــــه:*
*حضرت قاری محمد انور رضا رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی پیاگپور بہرائچ شریف*

*الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت علامہ جابرالقادری صاحب قبلہ۔*
*الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مفتی الفاظ قریشی نجمی صاحب قبلہ۔*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فیضـان دارالعــلوم امجـدیہ ناگپور

06 Apr, 07:57


*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚کیا سگے نانا کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟📚*


السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
علماء کرام رہنمائی فرمائیں
کہ اپنے سگے نانا کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں جبکہ وہ مستحق ہیں اور اپنے ننہال یعنی کہ نانا کے گاؤں میں بہت سے لوگ رشتے میں منہ بولے نانا لگتے ہیں انھیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں.. یہ بھی لکھ دیں حضرت کن رشتے دار کو زکوٰۃ دینا چاہیے اور کن کو نہیں
بڑی مہربانی ہوگی
جزاک اللہ خیرا
*سائل: انور علی بلرام پور*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*
*الجواب اللھم ہدایت الحق والصواب:*
سگے نانا کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی
جن حضرات کو زکواۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوگی ان لوگوں کی فہرست کچھ اس طرح ہے
1,اپنے حقیقی ,علاتی ,اخیافی, رضاعی بھائی, بہنوں, کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ,اسی طرح انکے اولادوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے
2,اپنے چچا, پھوپھی, کو زکواۃ دینا جائز ہے ,اسی طرح انکے اولادوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے
3, اپنے ماموں, خالہ ,کو زکواۃ دینا جائز ہے, اسی طرح انکے اولادوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے
4,اپنے سوتیلے ماں ,باپ, کو زکوٰۃ دینا جائز ہے, اسی طرح انکے اولادوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے
5 اپنے خسر ,اور ساس ,کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اسی طرح انکے اولادوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے
6, مالدار کے والدین جو مستحق زکوٰۃ ہیں, انکو زکوٰۃ دینا جائز ہے
7, مالدار کی بالغ اولاد جو مستحق زکوٰۃ ہیں انکو زکوٰۃ دینا جائز ہے
8, 9,مالدار بیوی کا شوہر جو مستحق زکوٰۃ ہیں انکو زکوٰۃ دینا جائز ہے
10, اپنے داماد ,اور بہو کو زکوٰۃ دینا جائز ہے
11, شاگرد کا استاذ کو اور استاذ کا شاگرد کو زکوٰۃ دینا جائز ہے (محض استاذ اور شاگرد کا تعلق مانع زکوٰۃ نہیں ہے)
12, شوہر کا اپنی بیوی کی ایسی اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز ہے جو اسکے پہلے شوہر سے ہو
13, بیوی کا اپنے شوہر کی ایسی اولاد کو زکواۃ دینا جائز ہے جو اس کی پہلی بیوی سے ہو
14, مسافر کو زکوٰۃ دینا جائز ہے جبکہ سفر میں اسکے پاس مال نہ ہو, اگرچہ اس کے پاس گھر پر نصاب کے بقدر مال موجود ہو
15, نابالغ محتاج کو زکوٰۃ دینا جائز ہے جبکہ اسکا باپ صاحب نصاب نہ ہو, اگرچہ ماں صاحب نصاب ہو
16, عورت اپنے شوہر کی اولاد کو جبکہ اس کی دوسری بیوی سے ہو زکوٰۃ دے سکتی ہے
17, کسی شخص کی سو روپیہ آمدنی ہے اور اپنا گھر بھی ہے لیکن خرچ تین سو روپیہ کا ہے تو وہ مصرف زکوٰۃ ہے
18, جس شخص کی آمدنی کافی ہے لیکن وہ مقروض ہو اور قرض ادا نہ کر سکے تو وہ بھی مصرف زکوٰۃ ہے
19, زکوٰۃ ہر اس شخص کو دی جا سکتی ہے جس کے پاس مقدار نصاب سے کم مال ہو, اگرچہ وہ شخص تندرست کمائی کرنے کے قابل ہو
لہذا مندرجہ بالا حضرات اگر مستحق زکوٰۃ ہیں تو انکی مدد زکوٰۃ کی رقم سے کرسکتے ہیں ,اور انکو یہ بھی بتلانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ خود نیت کرلینا کافی ہے

اور جن حضرات کو زکواۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی انکی فہرست کچھ اس طرح ہے
1, اپنے ماں ,باپ, دادا, دادی ,پر دادا, پر دادی ,کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے
2, اپنی ماں, نانا ,نانی, پر نانا ,پر نانی, کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے
3, اپنے حقیقی لڑکے, پوتے, پوتیاں ,پر پوتے, پر پوتیاں ,کو زکوٰۃ دیناناجائز ہے
4, اپنے حقیقی لڑکی, نواسے, نواسی, پر نوسے, پر نوسی ,کو زکوٰۃ دینانا جائز ہے
5, شوہر کا اپنی بیوی, کو زکوٰۃ دینا اس طرح بیوی کا اپنے شوہر کو زکواۃ دینا نا جائز ہے
6, ایسی مطلقہ عورت جو عدت گزار رہی ہو اسکے شوہر کا اس کو زکوٰۃ دینا نا جائزہے
7, مالدار صاحب نصاب کی محتاج نابالغ اولاد کو زکواۃ دینا ناجائز ہے
8, جو عورت (بیوہ) مالک نصاب ہے اسکو اور اسکے نابالغ بچوں کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے
9, مدرس مدرسہ کو امام مسجد کو زکوٰۃ کا روپیہ تنخواہ میں دینا ناجائز ہے
10, حضور نبی اکرم ﷺ کے خاندان کو زکوٰۃ دینانا جائز ہے اگر وہ غریب ہیں تو انکی مدد زکوٰۃ کے علاوہ روپیہ سے کرنا چاہیے
11, مالدار مالک نصاب کو زکوٰۃ دینا نا جائز ہے
12, زکوٰۃ کا روپیہ مسجد کی مدرسہ کی خانقاہ کی مسافر خانہ کی یتیم خانہ کی اسکول شاہراہ عام کی تعمیر میں, کنویں اور نہرورں کی کھدائی میں لگانا نا جائز ہے
13, زکوٰۃ کا روپیہ میت کے کفن میں صرف کرنا اسی طرح زکوٰۃ کے روپیہ سے قبرستان کے لئے زمین خریدنا نا جائز ہے
14, وہ تمام صورتیں جن میں مالک بنانا نہیں پایا جاتا وہ زکوٰۃ کے مصارف نہیں ہیں

نوٹ
حقیقی بھائی, بہن, انکو کہتے ہیں جنکے ماں باپ ایک ہو علاتی, بھائی بہن, اسکو کہتے ہیں کہ دونوں کا باپ ایک ہو اور ماں الگ الگ ہو, اخیافی بھائی بہن انکو کہتے ہیں کہ دونوں کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ رضاعی بھائی بہن انکو کہتے ہیں جنہونے ایک عورت سے دودھ پیا ہو

1,631

subscribers

175

photos

16

videos