✍ مولانا حسن نوری گونڈوی صاحب
آج کل لوگ علمائے کرام سے وہ مسائل پوچھتے ہیں جسے نہ جاننا ضروری اور نہ ہی بتانا اور ان مسائل سے آگاہی بالکل حاصل نہیں کرتے جن کا جاننا ان پر فرض اور واجب ہیں ـ
https://whatsapp.com/channel/0029Va4xNTcBlHpj2ZXcdA3J
ایک صاحب نے سوال کیا کہ چاند پر پہنچنے کے بعد نماز کس طرح پڑھی جائےگی؟
جبکہ ان کا معاملہ یہ تھا کہ زمین پر رہتے ہوئے بھی عید الفطر و عید الاضحٰی کے علاوہ کبھی مسجد میں دیکھا نہ گیا تھا ـ
اخلاق العلماء میں ہے کہ فضل بن زیاد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے امام احمد بن حنبل سے باصرار مشکل مسائل دریافت کئے، امام نے فرمایا یہ تم دو غلاموں، دو آدمیوں کی بات کیا پوچھ رہے ہو؟ نماز اور زکوٰۃ کے باب میں کچھ پوچھو جس سے تمہیں نفع ہو، اچھا بتاؤ روزہ دار کو احتلام ہو گیا تو مسئلہ کیا ہے؟
اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا، فرمایا کہ جس چیز سے نفع ہے اسے تو پوچھتے نہیں اور دو آدمیوں اور دو غلاموں کے متعلق پوچھ رہے ہو، پھر امام نے حضرت حسن بصری کے حوالے سے فرمایا کہ احتلام ہونے سے روزہ میں خلل نہیں پڑتا - حضرت جابر بن زید سے احتلام کا مسئلہ دریافت کیا گیا، تو فرمایا کہ روزہ میں کچھ نقصان نہیں البتہ آنکھ کھلنے کے بعد غسل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے -
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حضرات علماء خود کو بھی ان آداب کا پابند اور خوگر بنائیں، جن کے پابند ائمہ مسلمین رہے ہیں تو خود بھی علم سے نفع اندوز ہوں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکیںگے، اور تھوڑے علم میں حق تعالٰی برکت عطا فرمائےگا اور وہ منصب امامت پر اس کی برکت سے فائز ہو سکتا ہیں -
لا علمی (علم نہ ہونے) کا اعتراف:
عالم سے اگر کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کا اسے علم نہیں تو لا علمی کے اظہار و اعتراف میں کوئی شرم و عار نہیں محسوس کرنی چاہئے، یہی طریقہ صحابہ کرام؛ اور ائمہ مسلمین کا رہا ہے،
اس بات میں ان حضرات کو نبی کریم علیہ السلام کا اتباع حاصل رہا ہے، کیونکہ آپ سے بھی کوئی ایسی بات دریافت کی جاتی جس کا علم آپ کو بذریعہ وحی نا ہو چکا ہوتا تو آپ بے تکلف فرما دیتے مجھے اس کا علم نہیں ـ یہ بات ہر اس کے ذمے لازم ہے جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا اور اس کے پاس اس کا یقینی علم نہیں ـ بس وہ کہہ دے کہ الله کو معلوم، میں نہیں جانتا، ہر گز تکلف سے قیاس آرائی نہ شروع کر دے کیونکہ یہ بات خدا کے نزدیک بھی قابل تعریف ہے اور اہل عقل کے نزدیک بھی ـ
اخلاق العلماء صفحہ 65 پر ہے کہ ایک روز علی ابن ابی طالب رضی الله عنہ ہمارے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ شکم مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے، اور فرما رہے تھے کہ جگر میں کیسی خنکی (ٹھنڈک) ہے، مجھ سے ایک بات پوچھی گئی جو مجھے معلوم نہ تھی میں نے کہہ دیا کہ میں نہیں جانتا، الله جانتا ہے ـ
✍ مولانا حسن نوری گونڈوی صاحب
ٹائِپِنگ: محمد جمال الدین خان قادِری
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
येह तह़रीर हिंदी Hindi ہندی में ↷
https://whatsapp.com/channel/0029Va4xNTcBlHpj2ZXcdA3J/712
Yeh Ta'hreer ᴿᵒᵐᵃⁿ ᵁʳᵈᵘ Men ↷
https://whatsapp.com/channel/0029Va4xNTcBlHpj2ZXcdA3J/711