ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC @rzurdu Channel on Telegram

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

@rzurdu


🧾زرمبش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے تحت ریڈیو زرمبش کی اردو سروس۔ یہاں اردو زبان میں ریڈیو بلیٹن اور پروگرامات کے علاوہ تحریری صورت میں بھی خبریں ، رپورٹس اور مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔🎙

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC (Urdu)

زرمبش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے تحت ریڈیو زرمبش کی اردو سروس۔ یہاں اردو زبان میں ریڈیو بلیٹن اور پروگرامات کے علاوہ تحریری صورت میں بھی خبریں ، رپورٹس اور مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔ ریڈیو زرمبش اردو چینل کے ذریعہ آپ ہر قسم کی تازہ ترین اور سرگرم کن کہانیوں ، مضامین اور رپورٹس سننے اور پڑھنے کا موقع حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو تبصرے دینے کا بھی موقع ملے گا تاکہ آپ اپنی رائے سے اظہار کر سکیں۔ ریڈیو زرمبش اردو آپ کو مختلف موضوعات پر خبریں فراہم کرتا ہے تاکہ آپ ہمیشہ معلومات سے متعلقہ رہ سکیں۔ جلد ہی ریڈیو زرمبش اردو کے ساتھ جڑ کر اردو زبان میں مختلف پروگرامات اور سروسز کا لطف اُٹھائیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

23 Jan, 13:26


https://urdu.zrumbesh.com/14060/

آوران دو افراد لاپتہ ،تجابان فوج کشی جاری، مند میں قافلے پہنچنا شروع

جمعرات ،23 جنوری، 2025 / زرمبش اردو

کیچ ( نامہ نگاران ) بلوچستان ضلع
آواران تحصیل مشکے تنک زاہد آباد،اور تراتدان کے رہائشی دو افراد
اختر محمد سکنہ زاہد آباد اور ￶گریبو سکنہ تراتدان کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا ہے،

بتایا جارہاہے کہ انھیں پانچ دن قبل لاپتہ کیا گیا ہے جس کے بعد تاحال لاپتہ ہیں ۔

ادھر کیچ تجابان میں پاکستانی فورسز کی فوج کشی جاری ،جبکہ مند میں فورسز قافلے جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔۔

تفصیلات کے مطابق پاکستانی فورسز آج دوپہر کے وقت تجابان گاوں پر دھاوا بول کر گھر گھر تلاشی شروع کردی اور اس دوران علاقہ مکینوں کو حراساں کیاگیا ۔ تاہم کسی کو اغوا کرکے جبری لاپتہ کرنے کی اطلاع نہیں ملی ہے ۔

دوسری جانب ضلع کیچ تحصیل مند میں 12 گاڑیوں پر مشتمل فورسز قافلہ پہنچ گیا ہے ،گمان کیاجارہاہے کہ فورسز نئی فوج کشی کی تیاری کر رہے ہیں ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

23 Jan, 12:08


https://urdu.zrumbesh.com/14057/

پنجگور پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں 3 افراد جبری لاپتہ


جمعرات ، 23 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

پنجگور ( نمائندہ خصوصی ) بلوچستان ضلع پنجگور میں پاکستانی خفیہ اداروں اور فورسز نے چھاپہ دوران یاسر ولد یاسین ،حیات ولد ولی محمد ساکن مجبور آباد بونستان پَنجگُور اور جلیل ولد عبدالخالق ساکن عیسئی پنجگور نامی افراد کو حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا۔

لواحقین کے مطابق انھیں رواں مہینے19جنوری 2025 صبح 5بجے گھر سے اُٹھا کر لیے گئے جس کے بعد انکے بارے انھیں معلومات نہیں دیئے گئے ہیں کہ انھیں کیوں اغوا کیا گیا ہے اور کہاں رکھا گیا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

23 Jan, 12:08


لیکن بلوچ مسلح اور سیاسی جدوجہد کے پیش نظر اس وقت سی پیک اور ان سے منسلک پروجیکٹس چائنا کے لے ایک ٹیسٹ کیس ثابت
ہوچکاہے۔ اور حالیہ مزاحمتی اور فدائیانہ حملوں نے چینی سرمایہ کاروں کے ان منصوبوں کو خاک میں ملادیاہے۔ اور سی پیک کا کام کسی حد تک رک گیاہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں سی پیک اور چین کے دیگر استحصالی پروجیکٹس نہ صرف بلوچستان میں حساس منصوبہ بن چکے ہیں،۔ بلکہ عالمی سطع پر بعض ممالک میں ان سامراجی منصوبوں کے خلاف شدید تحفظات اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ اور بلخصوص بلوچستان میں اسے جغرافیائی، سیاسی اور گوریلا جدوجہد جیسے سیکورٹی چیلنجز کا سامناہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

23 Jan, 12:08


اس کے علاوہ بلوچستان کے معدنی وسائل کا چین کی صنعتی ترقی میں کلیدی رول ہے۔ یہاں کے معدنی ذخائر نہ صرف چین کوضروری خام مال فراہم کررہے ہیں،بلکہ ان ذخائر کا استعمال چین کی مختلف صنعتوں میں بھی ہورہاہے۔

جوچین کی صنعتوں میں چینی آلات کی تیاری جیسے الیکٹرانکس آلات، ٹیکنالوجی اور مینو فیکچرنگ کے شعبہ میں استعمال ہوتے ہیں جن کو کمپیوٹرز،ٹی وی،کیمرے موبائل فونز، آٹوموبائلز،سولر پینلز،مکینکل آلات،ہائبرڈ گاڑیوں اور فضائی و بحری جہازوں کے پرزے، اس کے علاوہ رنگ،پلاسٹک، کھاد، ادویات بیٹری اور ڈیجیٹل آلات تعمیرات، توانائی اور حتی کے کیمیائی ہتھیاروں میں بھی استعمال میں لائے جارہے ہیں۔
بلوچستان چین کے لے سونے کا چڑیا ہی نہیں بلکہ سونے کا ”ہمالیہ“ ثابت ہواہے۔ خاص طور پر بلوچ وطن کی معدنی وسائل، جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت چین کی اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی تجارتی نیٹ ورک کی توسیع کے لے معاون ثابت ہوچکی ہے۔

اس وقت تک چین بلوچستان کے کھربوں سے زیادہ کی مالیت پر مبنی معدنی وسائل کو پنجابی کالونائزر کی تعاون سے چوری کرچکاہے۔ اور
مزید کھربوں مالیت پر مبنی معدنیات پر چین کا نظر ہے جن کی عالمی مارکیٹ میں بہت بڑی مانگ ہے۔
چین اس وقت سیندھک سے روزانہ پندرہ ہزار ٹن خالص سونا اور کئی قسم کے کچے دھات ٹنوں کے حساب سے لوٹ رہاہے۔سیندک جو
بلوچستان کا ”سہریں ڈک“ یعنی سونے کاٹیلہ ہے۔جہاں چین اپنے بڑھتے ہوئے سامراجی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لے نظریں مرکوز کرکے گدھوں کی مانند کھڑی ہے۔

اس کے علاوہ تیل و گیس کی تلاش میں چینی کمپنیاں جن میں چائنا نیشنل پٹرولیم کارپوریشن سرگرم ہیں۔ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں بلخصوص قلات زون ہربوئی، شیخڑی ، محمد تاوہ، نیچارہ،پندران، مکھی، مرو،ڈھاڈر، سبی،کوہلو، تربت، ڈیرہ بگٹی، چاغی اور گوادر کے ساحلی علاقہ جہاں پاکستانی حکومت کے تعاون سے نہ صرف جغرافیائی سروے کیا ہے۔ بلکہ بعض علاقوں میں سالوں تک ایف سی کے سیکورٹی دستوں کے بندوبست میں رہ کر“ ڈرلنگ“اور کھدائی بھی شروع کی ہے۔جہاں ڈرلنگ رگ، ہائیڈرولک فریکچرنگ ٹیکنالوجی،گہرے سینسرز سمیت ہائی ٹیک مشینری استعمال کی جارہی ہے۔ جو بلوچ توانائی کے ذخائرکے بے رحمانہ استحصالی منصوبوں پر مشتمل ہے۔تیل و گیس کی تلاش کئے جانے والے چینی کمپنیوں کی سرگرمیاں پہلے بہت زیادہ تھے،لیکن اب بلوچ مسلح جدوجہد کی برق رفتاری سے محدود ہورہے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھاجائے کہ چینی کمپنیاں بلوچستان میں اپنی تجارتی مفادات کے لے بلوچ قدرتی وسائل کو عالمی مارکیٹ میں ایکسپلائیٹ کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے جس بے رحمانہ اور غیر قانونی طریقہ سے ڈرلنگ کی ہے۔ اس سے ممکنہ خدشہ ہے کہ ہائی ٹیک مشینریوں کے استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح میں تبدیلی،زمین کی ساخت اور سمندری حیات پرسنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مثلا اس سے زیر زمین پانی میں نمکین، کیمیائی اجزاء ور آلودگی شامل ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی اور زراعت کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔دوسرا غیر متوازن اور بے ضابطہ ڈرلنگ جو زمین کی ساخت کو متاثر کرکے زلزلہ،لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر قدرتی آفات کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ اور حال ہی تین ہفتہ پہلے نیچارہ ہربوئی، محمدتاوہ اور پندران میں زلزلہ کی وجہ بھی ممکنہ طور پر یہی غیر متوازن ڈرلنگ ہے۔کیونکہ ان مخصوص ایریاز میں اچانک زلزلہ کا آنا اور صرف ان ہی علاقوں کے حدود تک محدود ہونا یہ ثابت کرتاہے یہ وہی UnregulatedDrilling کے منفی اثرات ہے جو آہستہ آہستہ نمایاں ہورہے ہیں۔

ہم یہاں ایک دفعہ پھر یہ دہرانا چاہتے ہیں،کہ چین گزشتہ پچیس سالوں سے جس کرشماتی اور گلوبل ترقی کا شور مچارہاہے۔ وہ ترقی قدرتی یا اچانک واقعہ نہیں ہے ۔بلکہ چین کی معاشی اور اقتصادی طاقت کا بڑاحصہ بلوچ وطن اور کئی دیگر خطوں کے وسائل کی لوٹ مار، کمزور ممالک پر اقتصادی دباؤ اور معاشی اجارہ داری قائم کرنے کی مکروہ کوششوں پر منحصر ہے۔

یہی وسائل چین کی معیشت کو”ایندھن“ یا”آکسیجن“ فرائم کرتے ہیں۔ چین کی معاشی طاقت کا یہ ماڈل دوسرے ممالک کے قدرتی وسائل کے استحصال سے چل رہاہے۔جو خطہ میں ”نیا سامراج“کے طور پر ابھر رہاہے۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں،کہ بیجنگ اور اسلام آباد بلوچ تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لے مشترکہ جنگی شراکت دار ہے۔ اور چین بلوچستان میں اپن عسکری موجودگی کو وسعت دینے کے لئے پنجابی امپرلسٹ کے ہمراہی میں یہاں کے کا سہ لیس پارٹیوں کی حصہ داری سے بلوچ
قوم کی نسل کشی پر مبنی گوادر پورٹ کو ایک ملٹری پورٹ بنانے کی تگ دو میں ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

23 Jan, 12:08


نیشنل پارٹی دورہ غداری اور لوٹ مار کے معائدے ۔ (حصہ ہشتم )
تحریر رامین بلوچ

https://urdu.zrumbesh.com/14054/

زرمبش مضمون

بلوچستان میں موجودہ قدرتی وسائل کا استحصال صرف قیمتی معدنیات تک محدود نہیں ہے۔ حتی کہ بحر بلوچ اور دیگر علاقوں کے ریت اور بجری جیسے بنیادی قدرتی وسائل اور تعمیراتی مواد بھی چین کو فرائم کیا جارہاہے۔ بلوچستان میں چین کی کئی مائننگ کمپنیز جو مقامی دلالوں کے ساتھ خفیہ کان کنی اور ان کی پروسیسنگ کے عمل میں شریک ہے۔ اور انہیں خفیہ طریقہ سے مقامی افراد کے نام پر کان کنی کا ٹھیکہ دیا گیاہے۔ جس میں اندر طلب چین سرمایہ کاری کررہاہے۔ اور اس وسائل کو خفیہ طریقہ سے فوجی کانوائیوں کی شکل میں لے جا یا جارہاہے، ان کی متعددمستند شواہد موجود ہیں۔یہ چین کے اقتصادی،معاشی طاقت اور توانائی کے شعبوں اور صنعتوں میں نہایت اہمیت کے حامل ہے۔ اس سے چین کے اقتصادی ترقی کو بہت زیادہ سہارا مل رہاہے۔

بلوچ وسائل کے اس بیدردی سے لوٹ مار کے وسائل میں پنجابی سٹبلشمنٹ سمیت کٹھ پتلی حکومت،مقامی سیاسی پارٹیاں جن میں نیشنل پارٹی اور دیگر کئی نیٹ ورک شامل ہے۔جو بلوچ وسائل کے لوٹ اور استحصال میں حصہ دار ہے۔ اس کے علاوہ بلوچ وطن کے سمندری وسائل فشریز (مچھلی کے وسائل)کا بھی چینی کمپنیاں بڑی مقدار میں شکار کررہی ہیں۔،چینی کمپنیاں گوادر اور پسنی میں ماہی گیری کے عمل کو صنعتی سطع پر انجام دیکر گہرے چینی ٹرالرز لے کرماہی گیری کے بڑے جالوں کے زریعہ مچھلیوں کا شکار کرنے کے ساتھ ساتھ سمندر ی ماحول کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ جہاں بلوچ ماہی گیر چھوٹی کشتیوں کے زریعہ اپنے روزی روٹی کا سامان کررہے تھے۔ چینی ٹرالرز نے ان سے ان کی واحد زریعہ معاش چھین لی ہے۔جوبلوچ ماہی گیری معیشت کابڑے پیمانے کانقصان ہے۔

سمندری وسائل بحر بلوچ کے آس پاس بلوچ آبادی کی معیشت کا بنیادی زریعہ ہے۔جہاں بلوچ ماہی گیر چھوٹی کشتیوں کے زریعہ چار پانچ گھنٹے کے سفر میں سوکلو تک کی مچھلی پکڑ سکتے تھے۔ لیکن ان چینی فشنگ ٹرالز نے انہیں اس نہج پر پہنچا دیاہے کہ وہ بمشکل ڈیزل کا خرچہ پورا کر سکتے ہیں ۔

یہاں یہ نوٹ کیاجائے، کہ فشنگ ٹرالرز میں جال پھینکنے اور کھینچنے کے لے بھاری مشینری کا استعمال کیا جاتاہے۔یہ ایک مخصوص قسم کا بڑا جال
ہوتاہے،جو طاقتور انجن اور دور تک گہرے سمندر میں لمبے عرصہ تک سفرکرنے کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں مچھلیاں پکڑکر انہیں فریز کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ماحول کے بقاء کے لئے کام کرنے والے ایک عالمی ادارےworld wide fund for natureنے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ٹرالنگ کے آلات سمندر کی تہہ کو تباہ کردیتے ہیں۔جب یہ چلتے ہیں تو سمندر میں جھاڑو پھیر دیتے ہیں۔ اور سطح کو”ہل“ کی طرح کھود دیتے ہیں۔ جس سے آبی حیات کو نقصان پہنچتاہے۔ اس جال میں مچھلی اور جھینگوں کے ساتھ چھوٹی مچھلیاں، مچھلیوں کے انڈے، اور ان کی آماجگاہوں تک سب کو کھینچ لیتے ہیں جو مچھلی کی نسل کشی کا باعث ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فشنگ ٹرالرزFishing Trawlersبحر بلوچ میں سمندری حیات کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔کیونک
ہ نہ صرف بالغ مچھلیوں کو پکڑتے ہیں، بلکہ ان کے Breeding Grounds کو بھی تباہ کردیتے ہیں،بحیرہ بلوچ میں مچھلیوں کی نسل کشی ایک سنگین مسئلہ ہے،جس کی وجہ سے سمندری حیات کاتوازن بگڑ رہاہے۔
بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں انسانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔

کیا چین کی سامراجی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے سوشلسٹ یا انسان دوست ملک کہنا انسانیت اور سوشلزم کی توہین نہیں ہے؟
جو ترقی انسانی نسل کشی،ان کی قدرتی وسائل کی لوٹ مار،زمینوں کی ضبطگی، ماحولیاتی تبائی، مزدور قوت کے استحصال، سمندر حیات کی نسل کشی اور قوموں کی آزادی،و خود مختیاریوں کو سلب کرنے پر مبنی ہوتو ایسی ترقی ہر صورت میں ایک سامراجی ترقی پر مبنی ہے کیونکہ یہ طاقت اور استحصال پر مبنی ہے۔جس سے انسانیت یا کسی قوم یا خطہ کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کے سات لاکھ سے زائدآبادی کی روزی روٹی بحر بلوچ سے جڑی ہوئی ہے۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیری اور سمندری وسائل پر انحصار کرنے والے بلوچ آبادیوں کی معیشت اسی پر مبنی ہے۔ بلکہ ان کی مجموعی زندگی کی دارو مدار انہی سمندری وسائل سے وابسطہ ہے۔
لیکن جہان اب تیس چینی فشنگ ٹرالرز ڈیپ سی پالیسی کے تحت قابض ریاست کی لائسنز پر سینکڑوں کلومیٹر دور تک ماہی گیری کرکے سمندری حیات کو نقصان دینے کے ساتھ ساتھ، بلوچ ماہی گیر جن کی معاش اور زندگی ان ہی سمندری وسائل سے منسلک ہے۔ لیکن چینی فشنگ کمپنیاں ان سے ان کی معاشی زرائع پیداوار پر قابض ہو کر نہ صرف ان سے ان کی کئی صدیوں پر مشتمل روزگار چھین رہے ہیں،بلکہ ان کے جینیاتی وسائل پر غیر متناسب اثرات ڈال رہے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

23 Jan, 08:14


سامراجیت کے بحران کو سمجھنا سامراجیت کیا ہے اور بائیں بازو کو اس کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے؟

الیکس کیلینیکوس (حصہ دوم)

https://urdu.zrumbesh.com/14051/

نیولیبرل ازم کو سابقہ سٹالنسٹ ریاستوں اور عالمی جنوبی ممالک میں برآمد کیا گیا، اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن قائم کی گئی۔ اس کا مقصد امریکی کمپنیوں اور بینکوں کو دنیا بھر میں آزادانہ طور پر منافع کی تلاش میں منتقل ہونے کی اجازت دینا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیٹو اور یورپی یونین نے مشرقی اور وسطی یورپ میں توسیع کی، باوجود اس کے کہ روس نے اس کی شدید مخالفت کی تھی — جسے امریکی صدر براک اوباما نے صرف "علاقائی طاقت" قرار دیا تھا۔

لیکن امریکہ کی حکمت عملی اس کے سامنے ناکام ہو گئی۔ نیولیبرل ازم کو عالمی سطح پر مسلط کرنے کی کوششوں نے بغاوتوں کو جنم دیا۔ مثال کے طور پر، ہم نے 1990 کی دہائی کے آخر سے "اینٹی گلوبلائزیشن" تحریک دیکھی، 2011 میں عرب بغاوتیں اور وبا کے آغاز کے قریب ایک اور ابھار دیکھنے کو ملا۔

مالیاتی ریگولیشن کے خاتمے نے 2007-09 کے دوران 1930 کی دہائی کے بعد سب سے بڑے اقتصادی بحران کو جنم دیا۔ اور عراق اور افغانستان میں امریکہ کی شکست نے امریکی فوجی طاقت کی حدود کو ظاہر کیا۔ عالمی مالیاتی بحران کے بعد سست اقتصادی ترقی نے 1930 کی دہائی کی طرح جیوپولیٹیکل حریفوں کے درمیان مسابقت کو مزید بڑھا دیا۔

امریکہ کی اجارہ داری کے لیے سب سے زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ یہ ترقیات چین کے تیزی سے صنعتی ہونے کے ساتھ "ہم پلہ حریف" کے طور پر ابھرتے ہوئے تعلقات میں آئیں۔ عالمی مالیاتی بحران کے بعد، شی جن پنگ نے چین کی قیادت سنبھالی جو اب دنیا کی سب سے بڑی صنعتی اور برآمدی معیشت بن چکی تھی۔ ان کی چین کی صنعت کو ٹیکنالوجی میں اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی امریکی اجارہ داری کے اقتصادی ستونوں، جیسے "مگنیفیسنٹ سیون" (الفابیٹ، ایمیزون، ایپل، انوڈیا، میٹا، مائیکروسافٹ اور ٹیسلا) کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔

چین کی کمپنیوں جیسے BYD کا تیز ترقی کرنا جو کم قیمت والی الیکٹرک گاڑیاں تیار کر رہی ہیں، امریکہ اور یورپی گاڑیوں کی صنعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اسی دوران، چین اپنے فوجی صلاحیتوں کو اپ گریڈ کر رہا ہے تاکہ وہ امریکہ کو مغربی بحر الکاہل سے باہر نکال سکے۔ چونکہ ایشیا اب عالمی سرمایہ داری کا سب سے متحرک خطہ ہے، اگر چین کامیاب ہو گیا تو یہ امریکہ کی عالمی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگا۔

ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ (2017-21) ان تبدیلیوں کے ردعمل میں تھی۔ اس نے عالمی مالیاتی بحران کے اثرات سے پیدا ہونے والے غصے کو نسل پرستی اور قوم پرستی کے رنگ میں ڈالا اور امریکہ کی "ہمیشہ کی جنگوں" کی مذمت کی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس نے چین کے خلاف اقتصادی جنگ شروع کی، اور دیگر بڑے برآمد کنندگان، خاص طور پر جرمنی کو بھی یہی دھمکی دی۔

جو بائیڈن نے ٹرمپ کے ٹیریفز کو برقرار رکھا اور چین تک مغربی جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی رسائی روکنے کی کوشش کرکے اقتصادی جنگ کو مزید بڑھایا۔ انہوں نے چین کے خلاف امریکی صنعتی کمپنیوں کی مسابقتی صلاحیت بڑھانے کی کوشش میں بڑی ریاستی سبسڈیز استعمال کیں۔

یہ سب کچھ بائیں بازو کے نقطہ نظر سے سامراجیت کے بحران کو مزید بڑھاتا ہے، جس کے نتائج عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بہرحال، یہ واضح ہے کہ غالب سامراجی طاقت اپنے غلبے کو درپیش بڑھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے طاقت کے استعمال کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ بہترین صورت میں یہ ان وسائل کا خوفناک ضیاع ہے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر درکار ہیں۔ بدترین صورت میں، یہ انسانی تہذیب کے تباہ ہونے کی دھمکی دیتا ہے۔

اچانک جھٹکوں کی بڑھتی ہوئی تعدد—مثال کے طور پر، شام میں اسد کا زوال اور جنوبی کوریا میں مارشل لا کے نفاذ کی کوشش—نظام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عدم استحکام کو اجاگر کرتی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک مخالف سامراجی تحریک کی اشد ضرورت ہے۔

اسے حاصل کرنے میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ رادیکال اور انقلابی بائیں بازو کے ایک بڑے حصے نے "کیمپ ازم" کے دو ورژن میں سے ایک کو اپنایا ہوا ہے۔ روایتی شکل عالمی جنوبی حصوں میں غالب ہے، جیسے بھارت اور جنوبی افریقہ۔ یہ سامراجیت کو امریکی غلبے تک محدود کر دیتی ہے اور چین اور روس کو "ترقی پسند" چیلنج کرنے والے کے طور پر شناخت کرتی ہے۔ یہ بات عجیب ہے کیونکہ پوتن ہمیشہ نیولیبرل سامراجیت کی پیروی کر رہا ہے اور عالمی جنوبی ممالک پر چین کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 19:16


مزاحمت کا ستون

بلوچ قومی جہد و جہد سے 50 سالہ وابستی
تحریر : مہلب کمبر
آواز : مہلب بلوچ

https://youtu.be/Sx_GfV5Jz6I

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 18:05


https://urdu.zrumbesh.com/14048/

گوادر کوسٹل ہاوے کسٹم پوسٹ پر حملہ اسلح گاڑیاں چھین لی گئیں، ،خضدار میں بم دھماکہ

بدھ ، 22 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

گوادر ( مانیٹرنگ ڈیسک ) گوادر نلینٹ زیرو پوائنٹ کے قریب کوسٹل ہائی وے پولیس اور کسٹم پوسٹ پر نامعلوم افراد کا حملہ، ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے کاروائی کے دوران اسلحہ اور سرکاری گاڑیاں چھین لیں اور موقع سے فرار ہو گئے۔

چھینی گئی اشیاء میں کسٹم اور کوسٹل ہائی وے پولیس کے پستل، ایس ایم جی اور گاڑی شامل ہیں، کوئی جانی نقصان یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

علاوہ ازیں خضدار میں زور دار دھماکے کی آواز سنی گئی ،مزید تفصیلات آنا باقی ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 17:32


کندھ کوٹ سے ایک ہی برادری کے 8 افراد اغوا

بدھ ، 22 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

سندھ ( مانیٹرنگ ڈیسک )کندھ کوٹ کچے کے ڈاکو آپے سے باہر ہوگئے، ڈکیت گروہ نے سرغنہ کے بھائی کی ہلاکت کے بعد اوگاہی برادری کے 8 افراد کو اغوا کرلیاگیا ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1882118798481965233?t=blJs0gMF5MgC3A5kYde1OQ&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 17:23


https://urdu.zrumbesh.com/14046/

نوشکی اور دکی حملوں میں قابض فوج کے 5 اہلکار ہلاک کردیئے گئے – بی ایل اے

بدھ ، 22 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارے سرمچاروں نے نوشکی اور دکی میں تین مختلف حملوں میں قابض پاکستانی فوج اور معدنیات لے جانے والی گاڑیوں کو نشانہ بنایا، جن کے نتیجے میں 5 دشمن اہلکار ہلاک اور چھ گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

ترجمان نے کہا ہےکہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے آج دوپہر کے وقت نوشکی شہر کے نواح میں غریب آباد بائی پاس کے مقام پر قابض پاکستانی فوج کے تین گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو گھات لگا کر حملے میں نشانہ بنایا، دشمن فوج کی ایک گاڑی براہ راست حملے کی زد میں آئی۔

انہوں نے کہا ہےکہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے دشمن فوج کو خودکار ہتھیاروں اور گرینیڈ لانچر سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک دشمن اہلکار موقع پر ہلاک اور کم از کم تین زخمی ہوگئے۔

ترجمان نے کہا ہےکہ گذشتہ شب بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے نوشکی ہی میں زور آباد کے قریب مرکزی شاہراہ پر بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار میں شریک پانچ گاڑیوں کو حملے میں نشانہ بنایا۔ سرمچاروں نے تین گاڑیوں کو نذرآتش کرکے تباہ کردیا جبکہ دو گاڑیوں کو فائرنگ کرکے ناکارہ کردیا۔

ترجمان نے مزید کہا ہےکہ دریں اثنا، گذشتہ شب بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے دکی میں قابض پاکستانی فوج کے قافلے کو گھات لگا کر حملے میں نشانہ بنایا۔

جیئند بلوچ نے آخری بیان میں کہا ہےکہ سرمچاروں نے پاکستانی فوج کے 12 گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو بھاری و خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم چار دشمن اہلکار ہلاک ہوگئے۔

بلوچ لبریشن آرمی مذکورہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 15:21


امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر سینکڑوں افغان مہاجرین کے لیے پروازیں منسوخ

https://urdu.zrumbesh.com/14041/

بدھ ، 22 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک)ٹرمپ انتظامیہ نے تقریباﹰ 1700 افغان شہریوں کو اجازت کے باوجود امریکہ آنے سے روک دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ
 اس فیصلے نے بطور پناہ گزین امریکہ میں آباد ہونے کے منتظر ہزاروں دیگر افغانوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔

 ایک امریکی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہےکہ گروپ میں بچے بھی شامل ہیں ،جو امریکہ میں اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملنے کے منتظر ہیں ،اور وہ افغان شہری بھی جنھیں طالبان سے انتقام کا خطرہ ہے کیونکہ انہوں نے سابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا ساتھ دیا تھا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 14:56


بلخصوص سیندھک پروجیکٹ جیسے ”سونے کے پہاڑ“ کے معدنی ذخائرکے استحصال کابے رحمانہ پہلو، تانبے اور سونے کی کان کنی چین موجودہ اقتصادی ترقی کی راہ میں ایندھن کی مانند ہے۔ایک اندازے کے مطابق سیندھک پروجیکٹ میں سونے اور تانبے کے کان کنی کی مالیت کا کل تخمینہ ایک ارب ہزار ڈالر تک ہوسکتی ہے۔

2002
سے تادم موجود جس کی پچاس فیصد یعنی50 ارب ہزار ڈالر تک چین استفادہ کرچکاہے۔ اور مزید معدنیات نکالنے کا عمل جاری ہے۔ چین کی سرمایہ کارانہ لوٹ مار صرف سیندھک تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر سونے اور تانبے کے علاوہ کوئلہ،سلیکا،سلفر، لیتھیم، نیوڈیمیئم، زنک، سن اسٹون،چاندی،پوئمک سٹون، گرینائٹ، کلسائیڈ اور وائٹ گولڈ ک سمیت سینکڑوں اقسام کے معدنیات کی چوری میں ملوث ہے۔ اس سے نہ صرف بلوچستان سے چین کو قیمتی دھاتوں کی فراہمی ہورہی ہے۔۔بلکہ اس میں مقامی سردار، کٹھ پتلی پارلیمنٹ،سیاسی ایجنٹ، ساہوکار، پیشہ ور کاروباری دلا ل، الیکٹیبلز اور بڑے بڑے سمگلر و سینیٹربھی اس لوٹ مار میں شامل ہے۔ اس قسم کے مختلف گروپس اور عناصر غیر قانونی طریقہ اور بلوچ مرضی و منشاء کے برخلاف سینکڑوں قسم کے معدنیات کی بڑی مقدار چین تک پہنچائے جانے میں سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں.

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 14:56


https://urdu.zrumbesh.com/14032/

نیشنل پارٹی دورہ غداری اور لوٹ مار کے معائدے (حصہ ہفتم )
تحریر را مین بلوچ

(یہ تحریر بنیادی طور پر نیشنل پارٹی کے چین سے کئے گئے معائدات پر مرکوز ہونی چاہیے تھی، لیکن تحریر کی طوالت کی وجہ سے میں قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہوں،اب یہ تحریر ”چین کے عالمی سامراجی عزائم اور بلوچ وطن کے تناظر“میں لکھا جارہاہے۔اس تحریر میں ہم کوشش کریں گے چین کی ان سامراجی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جائے ،جو بلوچ وطن سمیت مختلف خطوں میں اپنا پنجہ گاڑھ رہاہے۔میری ذاتی خوائش ہے کہ قارئین کو چین کی توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ کروں۔جس کی ترقی کا اتنا واویلا ہے، اس ترقی کے پیچھے چھپے سامراجی حربوں کومکمل بے نقاب کروں۔چین کے سامراجی عزائم سے آگائی اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کی پالیسیاں نہ صرف عالمی امن کے لئے خطرہ ہے بلکہ بلوچ وطن کی آزادانہ حیثیت،اور داخلی معاملات میں مداخلت بھی شامل ہیں۔)

(چین کی قبضہ گیرانہ پالیسیوں کا دائرہ کار صرف مشرقی ترکستان(سنکیانگ) تک محدود نہیں۔بلکہ یہ کئی علاقوں تک پہنچ چکی ہے، ان میں تبت،ہانگ کانگ،،گلگت بلتستان،تائیوان، انڈیا اور کشمیر شامل ہیں۔چین نے ان علاقوں میں اپنے سیاسی، فوجی، اور اقتصادی سٹرکچر منصوبوں کے زریعہ توسیع پسندانہ اثر و رسوخ بڑھانے کی مجرمانہ کوششیں کررہاہے۔۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو چین نے اپنے سیاسی اور فوجی اجارہ داری کو افریقہ، تاجکستان، سری لنکا اور کئی دیگر خطوں تک پھیلا رہاہے۔ ان کی یہ جارحانہ پالیساں عالمی سطح پر مختلف قسم کی کشیدگیوں اور تنازعات کو بڑھادیاہے، جو تیسری جنگ عظیم کا سبب بن سکتے ہیں۔

چین نے 1950 میں پر فوج کاروائی کے زریعہ”تبت“ پر قبضہ کیا۔ یہ اقدام چین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ابتدائی حصہ تھا، جہاں چائنا کی فوج پیپلز لبریشن آرمی نے تبتیوں پر فوج کشی کرکے فوجی کاروائی کے تحت ان کی آزادی اور خود مختیاری کو سلب کرلیا گیا ۔ اور اسے زبر دستی اور فوجی طاقت کے ذریعہ بلجبر چین کے ساتھ ضم کیا گیا۔ اگر چہ تبت کے عوام نے اس فوجی کاروائی کے خلاف مزاحمت کی۔مگر اپنی فوجی قوت کے بلبوتے پر ان کی تحریکوں کو وقتی طور پر کچل دیا گیا۔

تبت ایک آزاد اورمتنازعہ خطہ ہے۔ چین کے ساتھ اس کے الحاق کا کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور یہاں چین کے قبضہ کے روز اول سے آزادی کی تحریکیں جاری ہے۔”تبت“ جو اپنے مخصوص جغرافیائی خصوصیات کی وجہ سے دنیا کی ”چھت“کہا جاتاہے۔”تبت“یہ زمین کا انتہائی بلند ترین علاقہ ہے۔ اس سے آگے انسانی آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں دنیا ”کے ٹو“ اور ”ماؤنٹ ایورسٹ“میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک عظیم بدھ ریاست ہے۔بدھ مت ایک روحانی فلسفہ یا مذہب ہے۔ جس کی بنیاد ہندوستان کے عظیم فلسفی گوتم بدھ نے رکھی تھی۔
تبت جس کی تاریخ بہت قدیم ہے، اور اس کی ریاستی حیثیت تاریخ میں 7ویں صدی عیسوی میں ملتی ہے۔ یہ نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے اہم حیثیت کا حامل ہے، بلکہ ثقافتی اور روحانی اعتبار سے بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

جہاں بدھ مت کی عبادات اور روایات کا آغاز ہوا تھا۔ یہاں دنیا کی بلند ترین پہاڑی سلسلہ جیسے کوہ ہمالیہ پائے جاتے ہیں۔یہ اپنے بلندوبالا پہاڑی ماحول، برف پوش چوٹیوں،اور وسیع عریض میدانوں کی وجہ سے دنیا کی چھت کا لقب پایا۔

تبتی اب بھی خود کو چین کا اکائی یا حصہ نہیں سمجھتے۔ اور وہاں آزادی کی جدوجہد تادم موجود جاری ہے۔۔تبتی سمجھتے ہیں کہ چین نے ان کی ان کی آزادی اور شناخت کو متاثر کی ہے۔ چین کے خلاف تبت اور تبت سے باہر آزادی کی تحریکیں اور احتجاجات جاری ہیں۔

1959دلائی لامہ کی قیادت میں چین کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ لڑی گئی۔ جو اب بھی نشیب و فراز کے ساتھ تسلسل رکھتاہے اس کے زیر قیادت تحریکوں نے چین کے تسلط کو عالمی سطح پر چیلنج کردیا ہے۔عالمی سطع پر تبت کی آزادی کے لئے آوازیں ا ٹھ رہی ہیں، اور کئی ممالک بین الاقوامی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تبت کی آزادی کی حمایت میں چین کے پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اور اس وقت مختلف تبتی تنظیمیں بھی عالمی اور علاقائی سطح پر تبت کی آزادی کے لے سر گرم ہیں جن میں عالمی سطع پر
(international Tibet Network),Tibet Support GroupTibet Rights colletiv,,Free Tibetسمیت کئی دیگر تنظیمیں بین لاقوامی سطع پر چین کے تسلط اور انسانی حقوق کے پائمالیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج اور مزاحمت کررہے ہیں۔ جبکہ تبت کے دیگر کئی تنظیمیں Tibetan InDependence Movement, Tibeten Youth Congressچین سے مکمل آزادی کے لئے نہ صرف داخلی طور پر متحرک اور فعال ہیں۔ بلکہ عالمی سطع پر بھی سرگرم عمل ہے۔اور اس کے علاوہ14 ویں ”دلائی لامہ“ کی زیر قیادت مختلف تنظیمیں تبت کی آزادی کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی فورمز پر آوازیں بلند کررہے ہیں۔ اور چین کی جانب سے تبتیوں کی نسل کشی کی اورانسانی حقوق

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 14:56


کی پائمالیوں کی مذمت کررہے ہیں۔ دلائی لامہ ساٹھ کے دہائی میں آزادی کے اولین لڑائی کے دوراں بھارت جلاء وطن ہوئے تھے۔ اورا س وقت اس کی عمر اسی سال ہے۔لیکن وہ اپنی آزادی کے موقف پر کسی قسم کی سمجھوتہ کے حق میں نہیں ہے۔ اور وہ پر امن طریقے سے چین سے نجات کی جدوجہد میں عالمی سطع پر سیاسی اور سفارتی مشن پر کام کررہے ہیں۔

تبت میں آزادی کی جدوجہد محض مذہب یا روحانیت سے جڑی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قومی تحریک ہے۔ جس کا مقصد تبتی قوم کی آزادی، زبان،ثقافتی ورثہ اور قومی شناخت کو بچانا ہے۔

چین اور پاکستان تبت کی آزادی کی لڑائی کو محض مذہبی پابندیوں کے طور پر پیش کرکے وہاں کے زمینی حقیقت کو مسخ کررہے ہیں۔تبت کی آزادی کی جدوجہد صرف مذہبی آزادی نہیں، بلکہ اس سے کہیں ذیادہ ایک قومی اور سیاسی جدوجہد ہے۔

تبت مشرقی ترکستان کی طرح قدرتی وسائل سے مالا مال اور چین کے مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اور چین کے لئے اس کی جغرافیائی اور قدرتی وسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس سرزمین میں دنیا کے اہم قدرتی اور صنعتی ذخائر موجود ہیں۔تبت میں سونے چاندی تانبے،زنک لوہا کوئلہ، قدرتی گیس اور تیل کے وافر ذخائر ہیں۔ تبت کی جغرافیائی اہمیت اس کے قدرتی وسائل کے تناظر نے چین کو وحشی بنادیاہے جو تبت کے قدرتی وسائل کو بے دردی کے ساتھ لوٹ کر اپنی معاشی طاقت اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لے استعمال

کررہاہے۔تبت کی زمین زرعی اور آبی لحاظ سے بھی اہم ہے۔یہ کئی اہم دریاؤں کا منبع ہے۔ یہ ایشیا کا ”واٹر ٹاور“ہے یہاں کی برفانی جھلیں
اور گلیشیئرزچین کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء اور مشرقی ایشیاء کے کئی ممالک کے لے پانی کا اہم زریعہ ہے۔ لیکن اس وقت چین تبت کے ان دریاوں کو اپنے کنٹرول میں لے کر چین کے مختلف حصوں تک پہنچانے کے لے بڑے منصوبے بنارہاہے۔

تبت میں سرگرم آزادی پسند قوتوں کا کہناہے۔ کہ پچھلے چھ دہائیوں سے چین کی جانب سے جاری ظلم و جبراور زیادتیوں کا تسلسل تبتی قوم کی نسل کشی پر مبنی ہے۔ ان کا کہناہے کہ چین نے تبتی زبان، تعلیم اور قومی روایات وثقات پر سخت قسم کی پابندیاں لاگو کی ہے۔اور ”ہن چینی“ آبادکاری کی پالیسی کے ذریعہ تبتیوں کواقلیت کو میں تبدیل کررہی ہے۔اس کے علاوہ چینی سامراج پر امن احتجاجی مظاہرین کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کرتا رہاہے۔جن میں بشمول سٹیٹ فائرنگ، تشدد، تبتی جہد کاروں کو تشویش ناک سزائیں، قید وبند۔ ذہنی وجسمانی اذیت یہ چین کی جابرانہ پالیسیوں کا معمول ہے۔
”سٹوڈنٹ فار فری تبت“کے راہنماء”ڈاکٹر بی زیرنگ“ جو معروف تبتی دانشور، رائٹر،محقق اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہے،کا کہناہے کہ 1959 سے لے کر آج تک ایک ملین سے زیادہ تبتیوں کو آزادی کے پاداش میں شہید کئے جا چکے ہیں، جب کہ ہزاروں قید و بند کی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چین کے پہلے صدر ماؤزے کے دور میں تبت میں جارحانہ اقدامات شدت اختیار کر گئے۔اور اس دور میں ہزاروں تبتیوں کوشہید کیا گیا،اور انہیں غداری یا ”چینی کمیونسٹ پارٹی“کے خلاف سر گرمیوں کے الزام میں قتل کیا گیا۔ان کا کہناہے کہ تبتی اپنی آزادی کے لئے جدوجہد میں کھبی پیچھے نہیں ہٹیں گے،چاہے چین کے جتنی جبر و ظلم کا سامناکرنا پڑے، انہوں نے تبت کی آزادی کے لئے عالمی سطع پر آواز اٹھائی ہے۔ او رعالمی دنیا سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ چین کے حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ تبتیوں کو ان آزادی واپس مل سکے۔

گزشتہ ؎ دو دہائیوں سے چینی صنوعات کے عالمی سطع پر مقبولیت،برآمدات کے غیر معمولی اضافہ کاچر چا اپنی جگہ،لیکن چینی و پاکستانی ذرائع ابلاغ اور ان کے حواری چین کے اس ترقیاتی معجزے کو جس طرح پیش کررہے ہیں۔ جیسے کے چین نے دنیا کو حیران کردیاہے۔ لیکن اگرچین کے گزشتہ دو دودہائیوں میں ”معجزاتی ترقی“ اورمعاشی طاقت کے اسباب کو تلاش کیا جائے تو یہ ایک غیر انسانی اور سامراجی نظام پر مبنی ہے جو انسانی حقوق کی پائمالی، قوموں کی آزادی پر قدغن، ان کے وسائل کے لوٹ،جبر وا ستحصال کے اندوہناک واقعات پر مشتمل ہے۔

اس نام نہاد ترقی کے پیچھے جبر و بر بریت کے تاریک پہلو پر پردہ نہیں ڈلا جاسکتا،جس کی بنیاد پر چین اپنی معاشی مفادات کی تکمیل کررہاہے۔ اس ترقی کے پیچھے کئی ایسے عوامل ہیں،جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہ ترقی داخلی اقدامات یا آسمانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ ان کی کرشماتی قسمت کا نتیجہ ہے۔بلکہ اس کے پیچھے کئی متنازعہ خطوں پر قبضہ اور وسائل کی لوٹ مار شامل ہے۔ چین کا اچانک علاقائی طاقت سے عالمی قوت بننا کوئی معجزہ نہیں ہے۔ چین کے یہ ترقی صرف اقتصادی اصلا حات کا پیش خیمہ نہیں بلکہ یہ دنیا کے مختلف خطوں کے قدرتی وسائل کے لوٹ،اور انسانی حقوق کی پائمالی اور انسانی قتل عام کی قیمت پر آیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں، کہ گزشتہ دو عشروں سے چین کا بلوچستان میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور بلوچ قدرتی وسائل پر قابض ہونے کا عمل۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 14:55


گوادر کتابی میلہ بند کرنے طلباء خلاف ایف آئی آر درج کرنے خلاف ریلی

بدھ ، 22 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

گوادر ( مانیٹرنگ ڈیسک ) گوادر میں کتابی میلہ لگائے جانیوالے طلبہ کی پولیس کی جانب سے گرفتاری و کتابوں کو تحویل لینے کے خلاف گوادر جامعہ کے طلبہ کا احتجاج ،ریلی نکالی مظاہرہ کیاگیا ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1882079286074671156?t=BJ-QlLU_UoAEIyWa60srLw&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 14:20


https://urdu.zrumbesh.com/14039/

نوشکی،دکی فورسز قافلوں پر مسلح افراد کا حملہ

بدھ ، 22 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

نوشکی ،دکی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع نوشکی اور دکی میں نامعلوم مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کو دو مختلف حملو میں نشانہ بنایا ۔

ذرائع کے مطابق نوشکی غریب آباد بائی پاس کے قریب پہلے سے گھات لگائے نامعلوم مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کے قافلے کو نشانہ بنایاگیا۔

اطلاعات ہیں کہ حملے میں فورسز کو نقصانات کا سامنا رہا ہے تاہم حکام کا موقف تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔

دوسری گذشتہ شب ضلع دکی میں گھات لگانے مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کی گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو حملے میں نشانہ بنایا ۔

علاقائی ذرائع کے مطابق گذشتہ شب دس سے زائد گاڑیوں کے قافلے کو مسلح افراد نے نشانہ بنایا اس دوران شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آواز سنی گئی۔

مذکورہ دونوں حملوں کے حوالے سے تاحال حکام کی جانب سے کوئی موقف پیش نہیں کیا گیا ہے جبکہ حملوں کی ذمہ داری بھی تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 12:45


https://urdu.zrumbesh.com/14035/

احتجاج کا 5707 دن ، گوادر میں کتاب کا اسٹال لگانے پر طلباء کی گرفتاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ماما قدیر بلوچ

بدھ ،22 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کو انصاف کی فراہمی کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5707 دن ہو گئے۔ سیبی سے سماجی کارکنان عبد الغنی سیلانی ، عمران بلوچ اور دھنی بخش سومرو نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے گوادر میں کتاب کا اسٹال لگانے پر طالب علموں کی گرفتاری کی مذمت کی اور تشویش کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا ایک ایسے ڈپٹی کمشنر کی انتظامیہ نے جو زیارت میں لائبریری بنانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں گوادر میں چار طالب علموں کو کتاب کا اسٹال لگانے کی جرم میں گرفتار کیا۔ ان کو قید میں رکھا اور جھوٹے ایف آئی آر درج کرکے مجرموں کی طرح ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا۔ اس پر افسوس بھی ہے اور سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں یہ گوادر انتظامیہ کے لیے باعث شرم ہے انھیں ان بچوں کو بلاوجہ ہتھکڑیاں نہیں لگانی چاہیے تھیں۔ کتابیں پڑھنا ، کتابیں فروخت کرنا نہ انشتاری عمل ہے اور نہ ہی جرم ہے۔ اس پر کسی کی گرفتاری انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ طالب علموں کو پڑھنے اور مثبت سرگرمیوں مصروف رہنا چاہیے امید ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں کا خنداں پیشانی سے مقابلہ کریں گے۔

ماما قدیر نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا کہ بلوچ ہمت اور بہادری سے جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر بلوچ کی سفارتکاری میں پیش رفت ہوئی ہے اور چند واضح کامیابیاں ملی ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

22 Jan, 07:42


کتاب اور شعور پر پہرے

  زرمبش رپورٹ

https://youtu.be/qiGsr47_MNQ?si=f7Is-mr5B6dixsYp

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Jan, 20:56


https://urdu.zrumbesh.com/14029/


ضلع سانگھڑ میں بلوچ خاتون کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، قتل کا الزام شوہر پر لگایا جارہا ہے

منگل ، 21 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

سندھ ضلع سانگھڑ( مانیٹرنگ ڈیسک ) سنجھورو 20 سالہ خاتون عظمی بگٹی کی مسخ شده نعش سنجھورو کے کھیتوں سے ملی۔

عظمی بگٹی کی نعش دو دن بعد ایک بوری میں کھیتوں سے برآمد ہوئی۔ ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا، ان کی جلد اتاری گئی تھی اور ان کے سینے اور بازو کاٹ دیے گئے تھے، جو کہ انتہائی بہیمانہ عمل ہے۔

مقتولہ کے بھائی کے مطابق عظمی گھریلو تنازعات کے بعد اپنے والد کے گھر واپس آئی تھیں۔ چند دن بعد ان کے شوہر عمر بگٹی ان سے صلح کرنے آئے۔ تاہم، عمر نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیوی پانچ دن پہلے گھر سے چلی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے خادری پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی اور انہیں حال ہی میں ان کے قتل کے بارے میں پتہ چلا۔

پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ اس دوران عمر اور ان کے بھائی کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔ ایس ایچ او اسد نواز خاصخیلی نے دی رائز نیوز کو بتایا کہ تحقیقات منصفانہ طریقے سے کی جائیں گی اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

خاندان نے ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں کرائی ہے۔ پولیس حکام نے متاثرہ خاندان سے کیس درج کرانے کے لیے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر خاندان نے ہچکچاہٹ دکھائی تو ریاست از خود ایف آئی آر درج کرے گی۔

*"پوسٹ مارٹم رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات"*

ڈاکٹر غلام شبیر چھینہ ایم ایس سول اسپتال سنجھورو نے عظمیٰ کے قتل کے بارے میں چونکا دینے والی تفصیلات بتائی ہیں۔ انہیں تیز دھار آلے سے نشانہ بنایا گیا، ان کا سر قلم کیا گیا، جلد اتاری گئی اور ان کے سینے اور بازو مسخ کیے گئے۔ ان کا ایک بازو غائب ہے، اور ان کے جنسی اعضا کو بھی مسخ کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کے گردے اور جگر نکال دیے گئے، اور ان کا دل اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ عظمیٰ کے شوہر پر کالا جادو کرنے اور سونے کی تلاش میں ملوث ہونے کا الزام ہے، اور یہ سرگرمیاں ان کے قتل کا سبب بن سکتی ہیں۔

علاقائی ذرائع کے مطابق مقامی لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ علاقے میں دیا بھیل کے وحشیانہ قتل کے بعد دوسرا ہولناک کیس ہے۔ پولیس ابھی تک دیا بھیل کے کیس میں ملزمان کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Jan, 20:36


تربت بی وائی سی کی جانب سے آگاہی مہم کے سلسلے میں ریلی نکالی گئی

منگل ،21 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

تربت( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی بی وائی سی کی جانب سے 25 جنوری کو منعقدہ جلسہ عام کے سلسلے میں تیاریاں جاری آگاہی ریلی نکالی گئی اور احتجاج کیاگیا ۔

دوسری جانب مظاہرہ بی وائی سی کی بلوچستان بھر میں احتجاجی سلسلے کے تحت کی جارہی ہیں۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1881802609323086150?t=vSp07Rmfi3NzovydviWwqw&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 18:43


کراچی، بلوچ یکجہتی کمیٹی اور پیپلز پارٹی

زرمبش اداریہ

https://urdu.zrumbesh.com/13949/
کراچی بلوچ قوم کی قدیم اور تاریخی سرزمین ہے، جس کا ماضی شاندار اور ثقافتی ورثہ بے مثال ہے۔ لیکن انگریزوں کی سرپرستی میں پاکستان کے قیام کے بعد بلوچ سرزمین پر قبضے کی راہ ہموار کی گئی، اور اس کے ساتھ ہی بلوچ قوم کی تاریخ، ثقافت اور زبان کو مسخ کرنے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا۔

کراچی کو ان منصوبوں کا مرکز بنایا گیا اور پیپلز پارٹی کو بلوچوں پر مسلط کرکے اس قدیم شہر کو بلوچستان سے دور رکھنے کی سازش کی گئی۔ اس کے باوجود، خون، زبان اور ثقافت کا رشتہ ایسا گہرا اور مضبوط ہوتا ہے کہ اسے کسی سازش یا جبر سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رشتہ ایک اجتماعی درد اور شعور کا عکاس ہے جو پوری قوم کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔

بلوچ یکجہتی اور ثقافتی شناخت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور ورثے کو زندہ رکھیں اور ان کوششوں کا بھرپور مقابلہ کریں جو ہماری شناخت کو مٹانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔



بی ایس او کی بنیاد ہو یا سیاسی تحریکیں، کراچی نے ہمیشہ ایک اہم اور تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ہر مشکل وقت میں اس شہر نے بلوچستان کے سپوتوں کے ساتھ کھڑے ہو کر یکجہتی کا ثبوت دیا ہے۔

گزشتہ روز لیاری، کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پچیس جنوری کو دالبندین میں منعقد ہونے والے بلوچ نسل کشی کے یادگاری دن، بلوچ راچی مچی، کے سلسلے میں ایک شعوری پروگرام کا انعقاد کیا۔ تاہم، اس پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔ پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی پولیس اہلکاروں نے خواتین، نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں پر لاٹھی چارج کیا اور تشدد کا سہارا لیتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار شدگان میں سمی دین بلوچ، آمنہ بلوچ، فوزیہ شاشانی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر لالہ وہاب اور دیگر مظاہرین شامل ہیں۔

یہ عمل سندھ حکومت کی ہدایت پر سندھ پولیس کی جانب سے ایک گھناونا اقدام تھا، جو ان کے جمہوریت کے کھوکھلے دعووں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ بلوچ عوام کے جائز مطالبات کو دبانے کی کوششوں کا ایک اور ثبوت بھی ہے۔

کراچی کے بلوچوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سیاسی تاریخ کو مد نظر رکھ کر اپنی قومی سیاست، تاریخ، ثقافت کو محفوظ کرنے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کریں جو ان کے اسلاف نے ہر دور میں ادا کیا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 18:41


تربت جامعہ کے گیٹ کے ناکہ پر مسلح افراد اور پولیس درمیان جھڑپ ،پولیس کا اسلح چھین لیا

اتوار ، 19 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچستان ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت جامعہ کے گیٹ سامنے پولیس ناکہ پر مسلح افراد اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا ، جس میں مسلح افراد پولیس درمیان فیئرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد پولیس نے ہتھیار ڈال دیئے ،مسلح افراد پولیس اہلکاروں کا اسلحہ ضبط کرکے لے گئے ۔


https://x.com/rzurduZBC/status/1881049061417226605?t=79_Tf_OsEGbLZbeTnJJkQQ&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 18:39


تربت جامعہ کے سامنے مسلح افراد اور پولیس درمیان جھڑپ ،پولیس کا اسلح چھین لیا


کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچستان ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت جامعہ کے قریب مسلح افراد اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا ، جس میں مسلح افراد پولیس درمیان فیئرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد پولیس نے ہتھیار ڈال دیئے ،مسلح افراد پولیس اہلکاروں کا اسلحہ ضبط کرکے لے گئے ۔


https://bsky.app/profile/balochistanstoday.bsky.social/post/3lg4hkwprrk2a

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 17:40


ڈھاڈر مسلح افراد نے لیویز چوکی پر حملہ کرکے اسلح چھین لیا

اتوار ، 19 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

ضلع کچھی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقہ ڈھاڈر کے علاقے صبری میں مسلح افراد نے لیویز اہلکاروں کو یرغمال بناکر ان کا اسلحہ و دیگر سامان اپنے قبضے میں لیکر بعد ازاں انھیں چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔

لیویز اسلح چھیننے کی ذمہداری کسی نے قبول نہیں کی ہے ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1881033564596379742?t=TXoQrnS4h19afDJsAdnw-A&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 17:40


https://urdu.zrumbesh.com/13945/

احتجاج کا 5704 دن ، جعلی مینڈیٹ والی حکومت کا سیاسی کارکنان کے خلاف لہجہ دھمکی آمیز ہے۔ ماما قدیر بلوچ

اتوار ،19 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ( وی بی ایم پی ) کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی آزادی چھین کر یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی ہے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموش ہے۔

انھوں نے یہ باتیں وی بی ایم پی کی جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ میں آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیں۔

شال میں قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5704 دن مکمل ہوگئے ہیں۔ بسیمہ سے سیاسی و سماجی کارکنان عبدالحکیم سیاہ پاد ، نور احمد ، خالقداد اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

ماما قدیر نے اس موقع پر بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا جبر کے زور پر بلوچستان کو کالونی بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ جتنی زیادہ طاقت استعمال کی جائے گی مزاحمت کا دائرہ پھیلتا جائے گا اور انسانی حقوق متاثر ہوں گے۔

انھوں نے کہا جن کو حکومت کا جعلی مینڈیٹ دیا گیا ہے وہ بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف دھمکی آمیز لہجے میں بات کر رہے ہیں۔ کسی کی آزادی سلب کرنا بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ جب تک جبر کا ماحول ہے ، قومی و سیاسی حقوق غصب ہیں صورتحال میں بہتری کی امید نہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 17:12


https://urdu.zrumbesh.com/13943/

قلات میں فوجی کشی جاری، اسکول میں کیمپ قائم

اتوار ، 19 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

قلات ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع قلات نیچارہ اور گردنواح میں پاکستانی فورسز کی فوج کشی جاری ہے ۔

علاقائی ذرائع کا کہنا ہے کہ نیچار کے اسکول میں فورسز نے کیمپ قائم کردیا ہے جہاں متعدد اہلکار موجود ہیں جبکہ اسکول پر مورچے بھی قائم کیئے گئے ہیں۔

مزید برآں چیڑخمب کے علاقے میں فورسز پیش قدمی کررہے ہیں۔

حکام نے تاحال اس حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہے جبکہ علاقے میں مواصلاتی نظام کے بندش کے باعث بروقت خبروں تک رسائی ممکن نہیں ہوپارہی ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 16:50


https://urdu.zrumbesh.com/13939/

لیاری واقعہ“دفاعِ بلوچ اقدار” کے نام سے احتجاج ،دالبندین قومی اجتماع کے لیے آگاہی مہمات مشترکہ ، منعقد کی جائیں گی۔
بی وائی سی

اتوار ، 19 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری اعلامیہ میں کہا ہے کہ گزشتہ روز لیاری میں دالبندین قومی اجتماع کے لیے جاری آگاہی مہم کے سلسلے میں ایک پُرامن عوامی اجتماع منعقد کیا گیا، لیکن حسبِ روایت ریاستِ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے پُرامن اجتماع پر دھاوا بول کر بلوچ خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما لالا وہاب بلوچ، سمی دین بلوچ سمیت ہمارے متعدد ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ۔ بلوچ خواتین کو چھ سے سات گھنٹے حبسِ بے جا میں رکھنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد رہا کر دیا گیا، لیکن لالا وہاب بلوچ سمیت دیگر ساتھیوں کے بارے میں تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ لیاری عوامی اجتماع پر ریاستِ پاکستان اور پیپلز پارٹی حکومت کا حملہ بلوچ قوم کے خلاف نفرت کا اظہار اور بلوچ خواتین کے چادروں پر ہاتھ ڈالنا بلوچ قومی اقدار پر براہِ راست حملہ ہے۔ بلوچ قوم ریاستِ پاکستان اور پیپلز پارٹی کی ایسی وحشیانہ کارروائیوں اور بربریت کو اپنی قومی یادداشت میں محفوظ رکھے گی اور اس کو اپنے قومی شعور کا حصہ بناتے ہوئے ایک عظیم قومی مزاحمت میں تبدیل کرے گی۔ بلوچ خواتین اور بزرگ لاوارث نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے پوری بلوچ قوم کھڑی ہے۔ بلوچ قوم گزشتہ 77 سالوں سے ایسی بربریت اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتی آ رہی ہے اور ایسے گھناؤنے اعمال ہماری قومی مزاحمتی تحریک کو مزید منظم اور مضبوط کریں گے۔

ترجمان نے کہاہے کہ ریاستِ پاکستان بلوچ نسل کشی کی یادگاری دن کے موقع پر دالبندین میں ہونے والے بلوچ قومی اجتماع کو ناکام بنانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت اور تشدد کا استعمال کر رہی ہے۔ کل لیاری واقعے کے علاوہ مستونگ اور نصیر آباد میں پُرامن عوامی اجتماعات کے انعقاد پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، مرکزی رہنما صبغت اللہ شاہ جی اور دیگر ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، اور ہر علاقے میں پروگرام کو ناکام بنانے کے لیے انٹرنیٹ سروسز بند کی جا رہی ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ لیکن ریاست کے یہ تمام پرتشدد حربے اور سازشیں ہر قدم پر ناکام ہو رہی ہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ کل لیاری میں ہونے والا واقعہ ریاستی دہشتگردی اور درندگی کا مظاہرہ تھا۔ اس دہشتگردی اور درندگی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کل بروز پیر سے بلوچستان بھر میں “دفاعِ بلوچ اقدار” کے نام سے احتجاج کا سلسلہ شروع کرے گی۔

ترجمان نے آخر میں کہاہے کہ دالبندین قومی اجتماع کے لیے جاری آگاہی مہم اور احتجاج مشترکہ طور پر پورے بلوچستان میں منعقد کیے جائیں گے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان اور بلوچ قوم دالبندین قومی اجتماع کی تیاریوں کے سلسلے میں اپنی سرگرمیوں کو مزید تیز کریں گے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 16:15


تربت فائرنگ ایک شخص قتل

اتوار ، 19 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک )تربت پولیس کے مطابق محمد عارف ولد محمد عمر سکنہ پنجگور نامی شخص کو نامعلوم مسلح افراد نے ناگزیر وجوہات کی بناپر پر فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا ، جب وہ شام کے وقت اپنے گھر واقع آپسر جار ہاتھا ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1881012119816294507?t=RcIoSwIN1uwaeY4HjNJY8g&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 13:53


https://urdu.zrumbesh.com/13934/

ہرنائی ،کراچی ،نوشکی پاکستانی فورسز ہاتھوں 4 افراد جبری لاپتہ

اتوار ، 19 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

ہرنائی ،کراچی ،نوشکی ( نامہ نگاران ،مانیٹرنگ ڈیسک ) مقبوضہ بلوچستان کے شہر ہرنائی سے قابض پاکستانی فورسز نے ایک عمر رسیدہ شخص کو جبری لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ جس کی شناخت عطاء اللہ مری کے نام سے ہوئی ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ میاں کور، پھوڑ کے علاقے کا رہائش پذیر ہے۔

ذرائع کے مطابق عطاء اللہ مری کو دو مہینہ قبل قابض پاکستانی فورسز نے جبراً گمشدہ کردیا تھا جس کے بعد تاحال لاپتہ ہے۔ تاہم، اس کی جبری گمشدگی کی فوری اطلاعات میڈیا پر موصول نہیں ہوسکا تھا ۔

ذرائع نے مزید کہا کہ عطاء اللہ مری شعبے کے لحاظ سے ایک مالدار ہے، مال مویشیاں پالتے اور چَراتے ہیں۔

خیال رہے کہ قابض ریاست کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان کے متعدد علاقوں میں میڈیا بلیک آؤٹ عائد کردیا گیا ہے جس کے باعث ان علاقوں میں واقعات اور حادثات کے متعلق خبریں اور رپورٹس بسا اوقات میڈیا پر نشر ہوتے نہیں یا عرصہ گزرنے کے بعد میڈیا پر آتے ہیں۔

اس طرح ہرنائی سے قابض پاکستانی فورسز نے ایک اور شخص کو لاپتہ کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق قابض پاکستانی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان کے شہر ہرنائی کانٹا پراگُو کے مقام سے ایک شخص کو جبری طور پر اُٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ مذکورہ شخص کی شناخت محمد دین مری ولد لال خان مری کے نام سے ہوا ہے اور ہرنائی میں مقیم ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کے شکار محمد دین مری کے ایک بھائی کو کچھ عرصہ قبل قابض پاکستانی فورسز نے جبراً لاپتہ کردیا تھا جو کہ تاحال لاپتہ ہے۔ اب محمد دین مری کو پراگُو ہرنائی سے جبری لاپتہ کردیا ہے۔

علاوہ ازیں کیچ تمپ کے رہائشی زبیر کو پاکستانی فورسز نے گذشتہ صبح ملیر جام گوٹ کراچی سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے ۔
دریں اثناء نوشکی سے آصف بلوچ ولد عمر خان کو 4 جنوری 2025 کی صبح 4:00 بجے کے قریب قاضی آباد، نوشکی ان کے گھر سے پاکستانی فورسز نے جبری لاپتہ کر دیا ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 09:35


https://urdu.zrumbesh.com/13931/

شال جواد بلوچ سیون شریف سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ

اتوار ، 19 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے نوجوان سندھ میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ، تفصیلات کے مطابق مغوی جبری لاپتہ محمد جواد ولد قدرت ﷲ قبیلہ قمبرانی بلوچ کے چچازاد بھائی کا کہنا ہے وہ دوستوں کے ہمراہ سندھ تفریح کے لیے گئے تھے۔ جس طرح ہم سرد علاقوں کے لوگ اکثر سردیوں میں چلے جاتے ہیں، تو میرا چچا زاد بھائی بھی چلا گیا ،جہاں بمورخہ 2025-01-17 بوقت 06:45 شام کے وقت سیون شریف دربار سے سادہ لباس میں ملبوس افراد نے انھیں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جس کے بعد وہ لاپتہ ہے ۔

انھوں نے کہاہے ان کے اغوا کا سن کر ہم صدمے سے دوچار ہیں دعا کرتے ہیں وہ خیریت سے لوٹے اور حکومت سندھ سے اپیل ہے کہ وہ جواد بلوچ کی بازیابی کیلے اپنا کردار اداکرے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 08:53


مگر آزادی کی تحریک کا تنظیم ساتھی ایسا سوچنا اپنے لیئے گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، وہ کسی کو مجبور کرکے اس سے بھتہ نہیں لیتے ،چاہئے وہ ساتھی ہو یا عام مظلوم ،یا ہائی طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شہری ، وہ انھیں بندوق کے زور پر مجبور نہیں کرتے، ہاں وہ اپنی مرضی منشاء گنجائش دیکھ کر مدد کرسکتے ہیں ، ٹھیک اگر نہیں تو اس پر زور نہیں دیا جاتا، اس لیے برسوں سے دکھ تکلیف سے گزرنے والے ساتھیوں کو کبھی خوف نہیں رہتا ہے کہ ہم اگر جسمانی ،ذہنی بندوق اٹھانے سے تھک کر قلم اٹھاتے ، دکانداری ،کاشتکاری، کرکے کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تو وہ کسی گینگسٹر وریپسٹ کی طرح خوف سے ہمیں قتل کرکے ہماری بیوی بچوں کو مصیبت میں ڈال دیں گے ، بلکہ انھیں فخر ہوتاہے کہ ہمارے غریبی ،بیماری ،مفلسی حاضری غیر حاضری میں تنظیم جہدکار ساتھی مشکل کی ہر گھڑی میں ہمارا ساتھ دیکر دکھوں کا مداوا نہیں کر سکے تو مشکلات کھڑی بھی نہیں کریں گے ، وہ ہماری مشترکہ ڈوبتی کشتی کو کنارے لانے کی کوشش کریں گے بیچ راستے اسے ڈبو نے کا تصور نہیں کریں گے جس پر وہ خود سوار ہوکر منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔

مگر گینگسٹر وریپسٹ کیلے مظلومیت کمزوری عیب ہے وہ نہیں چاہتے کہ آپ ان سے علم ،شعور ،پیسے ،دولت میں آگے نکلیں ، حتی کہ وہ آپ کے پرنسلٹی ،آپ کیلے پہناوے سے بھی چڑ کھاتے ہونگے کہ یہ کپڑے کوٹ اس پر کیوں جچتے ہیں ، گدھے کے بجائے گاڑی پر کیوں سواری کرتے ہیں یا گاڑی سے جہاز تک پہنچتے ہیں ،ان کے بیوی بچے تعلیم شعور میں ہمارے بچوں سے کیوں آگے ہیں۔

یقینا قارئین کرام آپ کیلے یہ فرق کرنا آسان ہوگا کہ آزادی پسند اور گینگسٹر و ریپسٹ کو ایک دوسرے سے کیسے الگ کرکے اتنی آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے ۔

آسان الفاظ میں کہیں تو اگر کسی بندوق بردار ، کے نذدیک آنے پر آپ کیلے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، کسی مصیبت کے لمحے ان کے کاندھے پر سر رکھ کر جی بھر کر روسکتے ہیں ، تو وہ بندوق بردار آزادی کا سپاہی سرمچار ہے ،اگر اس کے آنے پر آپ کے مسائل دکھ بڑھتے ہیں آپ کو رونے کابھی حق بھی چھینا جاتاہے تو آپ سمجھ جائیں کہ یہ گینگسٹر ریپسٹ بھیڑیا ہے، ،صرف بھیڑ کی کھال پہنن کر تحریک میں کھسا ہوا ہے، اسے کے دل میں کسی ساتھی کامریڈ کیلے کوئی فیلنگ درد نہیں ،اگر فیلنگ ہے تو محض اپنی ذات کیلے ہے، اس سے دوست ساتھی عوام مظلوم ،امیر غریب اپنی جگہ وہ اپنے بچوں کے بھی نہیں ہوتے ،آخری آسان نشانی گینگسٹر ریپسٹ کی یہ ہوتی ہے کہ وہ بابا سنجیدت کی طرح گردن میں زنجیر انگلیوں میں بڑی بڑی انگوٹھیاں ڈال کر (ہاتھ میں بڑی تسبیح اگر مسلمان ہے تو لیکر )مصنوعی منافقانہ مسکراہٹ سے ہر وقت آپ کو دیکھ کراندر ہی اندر جلتا ہوا آپ کو تکتا رہے گا ،اس کے مقابل جہد کار سادہ لباس، ٹھاٹ باٹ سے بے نیاز ہوتا ہوگا ،درد دکھ میں آپ کے سامنے آپ کے پکار اور یاد کرنے سے پہلے یونس ایمرے بن کر آپ کے سامنے خود آکر کھڑا ہوگاکہ کہیں آپ بھوکے یا کسی مصیبت میں تو نہیں ہیں ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Jan, 08:53


*مسلح آزادی پسند اور گینگسٹر و ریپسٹ میں فرق*

تحریر ۔ سمیر جیئند بلوچ

https://urdu.zrumbesh.com/13928/

زرمبش مضمون

ہم پاکستان جیسے غیر ذمہدار ریاستوں کو چھوڑ کر کہیں کسی ملک میں چلے جائیں، ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر قانون ،قواعد اور روزہ مرہ کے ہر کام میں نظم و ضبط نظر آئے گا ۔ مثال کے طورپر آپ کسی سڑک پر جارہے ہیں تو روڈ پر ہر جگہ آپ کو علامات و نشانات نظر آئیں گے ،جو آپ کے حفاظت تحفظ کیلے لگائے گئے ہوتے ہیں، کہیں روڈ پر ڈبل لکیر کا سائن یے تو کہیں کٹ کہیں زیبرا کراس ہے توکہیں جھمپ ، غرض ہر جگہ علامات ،اعداد شمار سے آپ کی رہنمائی کی جاتی ہے ، ان کے زریعے آپ کو بتایا جاتاہے کہ یہاں انسان ،جانور ،مخالف سے آنے یا جانے والے کو آپ نے کس طرح راستہ دیکر خود بھی کیسے منزل پر کتنی تیزی یا دھیمی رفتار سے حفاظت کے ساتھ پہنچنا ہے ۔
ان سب کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ آپ کسی کیلے سردرد یا مصیبت کا باعث نہ بنیں اور وہ آپ کیلے مسئلے کھڑے نہیں کرپائیں ، بس مدار میں ہر کوئی آسانی سے گھومتا رہے کوئی توڑ پھوڑ پیدا نہیں ہوتا نہ کسی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح مسلح آزادی پسند تنظیم اور ایک گینگ میں معمولی فرق ہوتا ہے ،یہاں دونوں کے ساتھی بظاہر مسلح ہوتے ہیں ۔ یہاں بھی انھیں منفرد کرنے والا ان کا اپنا اپنا کردار بن جاتاہے ،جس طرح سڑک پر آپ محفوظ ڈرائیونگ سے گائیڈ لائن کو اپنا کر باآسانی پہنچ جاتے ہیں، اس طرح ذمہدار تنظیم جہد کار بندوق ذریعے آپ کو تحفظ دیکر آپ کو آزادی کے مقصد تک پہنچا دیتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا جہد کار اور ایک گینگ میں لکھے پڑھے انپڑھ یعنی معاشرہ کے ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوتے ہیں ،جہد کار اپنے کم لکھے پڑھے ،یا چرواہا کیوں نہ ہو ، ساتھیوں کا تربیت کرکے انھیں معاشرہ کیلے با کردار بناتے ہیں ،یہاں سوال و جواب کی آزادی ہوتی ہے، ،محنت، جفا کش ،دانشور ،مصنف ،لکھاری ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کی قدر ان سے سیکھنے کی جستجو سپاہی سے لیکر لیڈر تک ہوتی ہے ،چھوٹوں سے شفقت بچوں سے پیار مظلوم سے لگاؤ رکھتے ہیں۔

یہاں کسی کے خواہش کے برعکس بدتمیزی، بندوق کے زور ہیرا پھیری سے اپنی بات منوائی نہیں جاتی ، بلکہ دلیل سے ایک دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ،بحث مباحثے کو رواج دی جاتی ہے ، اگر سامنے والا علم دانش میں ان سے زیادہ علم رکھتا ہے تو جلدی اپنی شکست تسلیم کرکے اس کی قدر کرکے ان سے سیکھنے صلاح مشورہ کرکے کام کو آگے بڑھانے کیلے راہیں ڈھونڈ لیتا ہے ،یہ نہیں دیکھا جاتاہے سامنے والا کس صنف سے تعلق رکھتا ہے ،اگر وہ خاتون ہے یا مرد اس کی قابلیت و علم دیکھا جاتاہے کسی کےصنف کو لیکر اسے نیچا نہیں دکھایا جاتا ہے ،
نہ ہی بیٹھ پیچھے اسے سوال کرنے پر دشمن غدار کے القابات سے نوازا جاتاہے اور نہ اسے ذہنی ٹارچر یا معاشی رکاوٹ پیدا کرکے دیگر مسائل میں الجھایا جاتاہے ، بلکہ اس کے علم دانش پر فخر کرکے اسے مزید قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔

یہ کبھی نہیں سوچا جاتا کہ ہم ہار نہیں مانیں گے ،کیوں کہ وہ خاتون ہے،اور یہ نہیں سمجھا جاتا کہ سب خاتون برابر ہیں ، یہاں دیکھا جاتاہے کہ سامنے والی صنفی خاتون بیشک ہے مگر وہ پڑھی لکھی اور ایک،استانی ، فلاسفر ، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں تو عام گھریلو خاتون کی لیول پر اسے نہیں دیکھا جانا چاہئے اور نہیں ان سے موازنہ کیاجاتاہے،مگرگینگ میں ان سب کے متضاد الٹ برتاؤ کیاجا تا ہے ۔اگر سامنے والا ان سے زائد علم رکھتا ہے تو اسے راستے سے ہٹانے کیلے شیطانی منصوبے پر کام شروع کیاجاتاہے کہ کہیں وہ مجھ سے آگ نہ نکل جائیں۔

ایک گینگسٹر و ریپسٹ کیلے یہ معنی نہیں رکھتا کہ جو میرے ساتھ ہے، مجھ سے ہزار گناہ عقل مند ہے تو اسے راستے سے ہٹادینا نہیں چاہئے ، بلکہ وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیسے اپنا خوف پھیلاکر ساتھیوں سمیت عام لوگوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیاجائے ، تاکہ وہ مجھ سے آگے کبھی نہ نکلیں ۔وہ سوچتے ہیں کہ
عوام جتنا مظلوم پسا ہوا رہے گا ، ان کے لٹنے کیلے اسے اتنا آسان راستہ ملے گا ۔

انھیں اس سے غرض نہیں ہے کہ جو مزدور دیہاڑی دار ،ملازم ،کاشتکار ہے ، وہ کس تکلیف سے پیسے جوڑتا اپنے بال بچوں کا پیت پالتاہے ،اس سے اسکو مطلب نہیں ، بس اسے ماہانہ بھتہ وقت پرچاہئے ہوتا ہے، آپ کسی کو قتل کرتے ہیں ، منشیات بیچتے ،قحبہ خانے چلاتے ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے اس کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، بس پیسے تمہیں اسے دیئے ہوئے وقت پر پہنچانا ہر حال میں ہوگا ،پیسہ کیلے ساتھی دوست خاندان معنی نہیں رکھتا ۔

اگر ساتھی برائی میں مزید ساتھ دینے سے انکار کرتا ہے تو اسے کسی کو سپاری، یا اکیلے بلواکر شواہد مٹاکر راستے سے ہٹادینا ،اپنا فرض سمجھتا ہے، کیوں کہ انھیں خطرہ رہتاہے کہ ان کی موجودگی میں ، کہیں جاری برائی ،بربریت غیر انسانی عمل جلدی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ پائے اور وہ بے نقاب ہوجائیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 21:04


https://urdu.zrumbesh.com/13925/

بلوچستان فائرنگ حادثات وواقعات لوٹ مار ،4 افراد ھلاک خواتین سمیت متعدد افراد زخمی
ہفتہ ، 18 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

حب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پرنس ہوٹل کا ملازم ھلاک ،
ھلاک شخص کی شناخت صلاح الدین عرف چنگاری سکنہ مستونگ کے نام سے ہوا ہے ۔بتایا جارہاہے کہ مقتول کافی دیر سے ہوٹل میں کام کرہاتھا ۔تاہم قتل کے وجوہات معلوم نہیں ہوئے ہیں۔

پسنی (نامہ نگار)پسنی ، مکران کوسٹل ہائی وے پسنی زیرو پوائنٹ کے مقام پر تیز رفتار گاڑی نے دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار نوجوانوں کو کچل دیا، حادثے میں عدید ولد اسماعیل سکنہ وارڈ نمبر 6 پسنی موقع پر ھلاک جبکہ حبیب، فیصل صوالی اور عارس نامی نوجوان زخمی ہو گئے، ھلاک اور زخمیوں کو عمان ہسپتال منتقل کر دیا گیا، حادثے کے بعد گاڑی کا ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا۔


اس طرح نوشکی آر سی ڈی شاہراہ پر ٹریفک حادثہ دو افراد ھلاک دو شدید زخمی ہوگئے ۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کی شام کیشنگی کے علاقہ گلنگور کے مقام پر آر سی ڈی شاہراہ پر دو گاڑ یوں میں تصادم ہوا جس کے نتیجے میں دو افراد ایمل خان ولد یار جان کاسی سکنہ شال اور نزیر احمد ولد زیب سکنہ شال سے ہواہے ۔ جبکہ احمد ذیب ولد سردار محمد کاسی اور اورنگزیب شاہ ولد حسن شاہ سکنہ کوئٹہ شدید زخمی ہو گئے ۔

بتایا جارہاہے کہ زخمیوں کو نوشکی شہر میں واقع گورنمنٹ میر گل خان نصیر ٹیچنگ ہسپتال نوشکی میں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد شال ریفر کر دیا گیا حادثہ کی مزید تفتیش کیشنگی لیویز کر رہی ہے ۔

علاو ازیں سنی شوران روڈ پر ڈاکوؤں کا راج رات 10بجے مزدا گاڈی سنی جا رہی تھی تو ڈاکوؤں کے لوٹنے پر مزاحمت میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے سراج ولد روشن جتوئی شدید زخمی جبکہ الٰہی بخش عرف سردار معمولی زخمی ہوئے جنہیں ڈھاڈر ہسپتال سے سبی ریفر کردیاگیا۔

دوسری جانب نصیرآباد نوتال اور ربیع کے درمیان مرکزی شاہراہ پر ڈاکوؤں کی چھوٹی و بڑی گاڑیوں کے مسافروں سے اسلحہ کے زور پر لوٹ مار جاری رہا ۔
علاقائی ذرائع کے مطابق مسلح ڈاکوؤں نے مسافروں سے نقدی، موبائل فونز اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیے،
جبکہ ڈاکوؤں نے خواتین مسافروں سے بھی لوٹ مار کرکے , زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء چھین کر باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔

دریں اثناء لسبیلہ شال سے کراچی جانے والی مہران کار تیز رفتاری کے باعث بیلہ کے قریب آر سی ڈی شاہراہ کاٹھوڑ کے مقام پر موٹ کاٹتے ہوئے الٹ گئی جس کے نتیجے میں محمد امین ولد ظفر خان نثار خان ولد محمد امین آمنہ زوجہ نثار خان فریدہ دختر نثار خان ساہرہ دختر نثار خان شدید زخمی ہوگئیں ، اطلاع پاتے ہی ریسکیو 1122سینٹر ٹیارہ کے رضاکاروں نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو سول ہسپتال بیلہ پہنچادیا ،جہاں طبی امداد کے بعد زخمیوں کو کراچی منتقل کردیا گیا ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 20:14


https://urdu.zrumbesh.com/13922/

نائیجیریا آئل ٹینکر دھماکا، 70 افراد ہلاک، درجنوں زخمی

ہفتہ ، 18 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

نائیجر ( مانیٹرنگ ڈیسک) آئل ٹینکر کے الٹنے کے بعد خوفناک دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پٹرول سے لدا ایک ٹینکر سڑک پر الٹ گیا، جس سے پٹرول بہنا شروع ہوگیا۔ مقامی لوگ بڑی تعداد میں تیل جمع کرنے کے لیے موقع پر پہنچ گئے، تاہم حکام کی جانب سے بار بار انتباہ کے باوجود وہ باز نہ آئے۔

نائیجیریا کی فیڈرل روڈ سیفٹی کور (ایف آر ایس سی) کے مطابق، اچانک ٹینکر میں دھماکا ہوا، جس سے آگ کے شعلے بلند ہوگئے اور قریب موجود دوسرے ٹینکر کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔

ایف آر ایس سی کے سیکٹر کمانڈر کمار ٹسوکوام کا کہنا تھا کہ واقعے کے نتیجے میں 70 افراد کی موت ہوچکی ہے جبکہ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ امدادی کارروائیاں مکمل کرلی گئی ہیں اور فائر فائٹرز نے آگ پر قابو پا لیا ہے۔

آپ کو علم ہے نائیجیریا میں غربت اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باعث لوگ اس طرح کے خطرناک حادثات کے باوجود مفت تیل جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے مواقع پر احتیاط کریں اور اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 19:38


https://urdu.zrumbesh.com/13920/

بساک نے بلوچستان کتاب کاروان مہم کے تحت آج ڈالبندین، خاران، کلات، منگچر، بل نگور اور حب میں کُتب میلوں کا انعقاد کیا گیا۔

ہفتہ ، 18 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے نئے سال کے آغاز کے موقع پر بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے شروع کیا گیا مہم آج آٹھارویں روز بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری رہا۔ بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے جاری کُتب میلے آج ڈالبندین، خاران، کلات، منگچر، بل نگور، اور حب میں اسٹالوں کا انعقاد کیا گیا۔ بلوچستان کے مختلف شہروں میں لگائے گئے کُتب میلوں کو پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے مسلسل ختم کرنے اور دوستوں کو حراساں کرنے کے باوجود طلباء و طالبات سمیت دیگر لوگ بڑی تعداد میں شرکت کر کے علم اور کتاب دوستی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

بلوچستان کتاب کاروان بلوچستان میں کتب بینی اور علمی و شعوری ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے جو کہ تنظیم کی طرف سے پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔
جنوری کے آغاز میں شروع کیا گیا مہم کل بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری رہے گا جن میں دشت، بلیدہ، ہوشاپ، جھل مگسی، ڈالبندین، سوراب، حب اور پَنجگُور شامل ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 19:20


https://urdu.zrumbesh.com/13918/

تربت اور زامران میں تین مختلف حملوں کی زمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

ہفتہ ، 18 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سرمچاروں نے کیچ کے علاقے زامران اور تربت میں قابض پاکستانی فوج اور پولیس کو تین مختلف حملوں میں نشانہ بنایا، جس سے قابض فوج جانی و مالی نقصان پہنچا جبکہ پولیس اہلکاروں کے اسلحے ضبط کرلئے۔

انہوں نے کہا ہےکہ بی ایل ایف کے اسنائپر ٹیکٹیکل ٹیم نے 17 جنوری دن کے 12 بجے کے قریب زامران میں چُر مبارکی کوہ کے مقام پر قابض فوج کے ایک اہلکار کو نشانہ بناکر ہلاک کیا، اس کے بعد دشمن فورسز کے نقل و حمل کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمچاروں نے خودکار ہتھیاروں کا بھرپور استعمال کیا۔ جس سے دشمن فوج کو مزید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

ترجمان نے کہاہے کہ دوسرا حملہ زامران کے علاقے پگنزان میں قائم قابض فوج کی چوکی پر کیا گیا جہاں جدید و بھاری ہتھیاروں کے استعمال سے دشمن فوج کے دو اہلکار زخمی ہوئے۔

تیسرا حملہ تربت سنگانی سر میں قائم پولیس چوکی پر کیا، جہاں سرمچاروں نے پولیس اسلحے کو اپنے قبضے میں لیکر چوکی کو آگ لگادی اور پولیس اہلکاروں کو بلوچ ہونے کے ناطے تنبیہ کرکے چھوڑ دیا۔

ترجمان نے مزید کہا ہےکہ قابض فوج نے پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو نقل مکانی پر مجبوری کیا ہے کیونکہ گوریلا جنگ کی شدت نے قابض فوج کو نفسیاتی بیمار بنادیا ہے اس لیے وہ ہر بلوچ کو سرمچار سمجھتا ہے جو اسکے لئے شکست کی نشانی ہے۔

انہوں نے آخر میں کہا یےکہ بلوچستان لبریشن فرنٹ ان تینوں حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور پولیس کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ سرمچاروں کے تعاقب کرنے سے گریز کریں ورنہ ان کو بھی نشانہ بنایا جائے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 18:59


https://urdu.zrumbesh.com/13914/

کراچی میں بی وائی سی کی ریلی پر کریک ڈاؤن جبر کا ایک واضح مظاہرہ ہے ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ

ہفتہ ، 18 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جاری بیان میں کہا ہے کہ ریاست پاکستان نے ایک پرامن احتجاج کو دبانے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرکے ایک بار پھر اپنے آمرانہ رجحانات کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ جبر ریاستی فاشزم کی ایک روشن مثال ہے جس کا مقصد انصاف اور انسانی حقوق کی وکالت کرنے والی آوازوں کو خاموش کرنا ہے۔

انہوں نے کہاہےکہ بلوچ نسل کشی کی یاد میں 25 جنوری کو دالبندین میں عوامی اجتماع سے متعلق آگاہی پروگراموں کے ایک حصے کے طور پر، لیاری، کراچی میں دوپہر 2 بجے ایک ریلی نکالی گئی۔تاہم، ریلی شروع ہونے سے پہلے، کراچی پولیس نے شرکاء پر پرتشدد کریک ڈاؤن کیا۔ اس کے دوران مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ماہ رنگ نے مزید کہا ہےکہ بی وائی سی کے رہنما سمیع دین بلوچ، لالہ وہاب بلوچ کو کئی دیگر کارکنوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ مزید برآں، علاقے کو مکمل طور پر محاصرے میں لے لیا گیا، رسائی منقطع کر دی گئی۔

انہوں نے آخر میں کہا ہےکہ پرامن احتجاج کے خلاف طاقت کا یہ استعمال جائز آوازوں کو دبانے اور جمہوری حقوق کو مجروح کرنے کے لیے ریاست کی جاری مہم کو نمایاں کرتا ہے۔ ان جابرانہ اقدامات کے باوجود انصاف اور انسانی حقوق کی وکالت کرنے والوں کا عزم متزلزل ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 18:35


https://urdu.zrumbesh.com/13903/

سراج جتوئی کے ہلاکت اور ایف ڈبلیو او پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

ہفتہ ، 18 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ سرمچاروں نے قابض پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے تشکیل کردہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ سراج جتوئی کے سزائے موت پر عمل درآمد کردی جبکہ تربت میں ایف ڈبلیو او کی گاڑی کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے 9 جنوری کی شب ڈھاڈر میں ایک کاروائی کے دوران قابض پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی تشکیل کردہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے ٹھکانے پر چھاپہ مارتے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ سراج جتوئی ولد موسیٰ خان سمیت چار افراد کو حراست میں لیا۔

دوران حراست سراج جتوئی نے اعتراف کیا کہ وہ 2019 سے قابض پاکستانی فوج کے پیرول پر کام کررہا ہے، اس نے قابض فوج کی سرپرستی میں علاقے میں مسلح گروہ تشکیل دی جو فوجی جارحیت سمیت گھروں پر چھاپوں و جبری گمشدگیوں میں قابض فوج کی معاونت کرتی رہی ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ آلہ کار سراج جتوئی نے اعتراف کیا تھاکہ قابض فوج کے کرنل وقاص کے سرپرستی کے بعد کرنل ضیاء اور بعدازاں برگیڈیئر عمر کے سرپرستی میں کام کرتا رہا ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ بیس افراد اس کے ڈیتھ اسکواڈ کا حصہ ہیں۔ اس نے اعتراف کیا کہ مذکورہ مسلح جھتہ ڈھاڈر سے لیکر بی بی نانی تک دشمن فوج کے پیرول پر کام کرتے ہیں جبکہ ڈھاڈر سمیت گردنواح کے علاقوں میں فوجی جارحیت میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔

آلہ کار سراج جتوئی کو قومی غداری کا مرتکب ہونے پر بلوچ قومی عدالت نے سزائے موت سنائی جس پر گذشتہ شب بی ایل اے کے سرمچاروں نے عمل در آمد کرتے ہوئے اس کو ہلاک کردیا جبکہ دیگر تین افراد کو بے قصور ہونے پر رہا کردیا گیا۔ آلہ کار سراج نے دوران تفتیش اس نیٹورک سے منسلک افراد کے نام و تفصیلات افشاء کیئے، مذکورہ افراد کو جلد ہی بی ایل اے کے سرمچار ان کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

ترجمان نے کہاہے کہ آج بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے تربت کے علاقے کلاتک میں ایک ریموٹ کنٹرول آئی ای ڈی حملے میں استحصالی کمپنی فرنٹیئر کور ورکس (ایف ڈبلیو او) کی گاڑی کو دھماکے میں نشانہ بنایا، دھماکے میں تین آلہ کار زخمی ہوگئے جبکہ گاڑی کو شدید نقصان پہنچا۔

مذکورہ دونوں کاروائیوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی قبول کرتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 18:35


https://urdu.zrumbesh.com/13911/

بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5703 دن مکمل ، ہزاروں جبری گمشدگان میں تین سو خواتین اور دو سو کم سن بچے بھی شامل ہیں ۔ ماما قدیر بلوچ

ہفتہ ، 18 جنوری، 2025/ زرمبش اردو

یہاں شال میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتال کیمپ کو 5703 دن ہوگئے۔ تربت سے سیاسی و سماجی کارکنان گل محمد ، ذاکر، دلجان اور خواتین نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

وی بی ایم پی کا بھوک ہڑتالی کیمپ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتی ہے۔ جن افراد کو جبری گمشدگی کے دوران قتل کیا گیا ان کے قاتلوں کا محاسبہ کیے بغیر اںصاف کا عمل نامکمل ہوگا۔ جبری گمشدگی کے خاتمے کے ساتھ ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی ضرری ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا مشرف رجیم کے زمانے میں بلوچوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ تیز ہوا اور اب تک ہزاروں افراد کو پاکستانی فورسز نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا جبری گمشدگان میں 300 بلوچ خواتین اور ان کے 200 کمسن بچے شامل ہیں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ان بلوچ خواتین اور بچوں کوپاکستانی فوج نےکوھلو ، کاھان کے مختلف علاقوں سے فوجی کارروائیوں کےدوراں تحویل میں لیا اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ملتان ، راولپنڈی، لاہور، سلام آباد اور بلوچستان میں شال اور دیگر علاقوں کے فوجی کیمپوں میں منتقل کیا جہاں انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ماما قدیر نے کہا ان بلوچ جبری لاپتہ خواتین میں سرفہرست زرینہ مری اور حنیفہ بگٹی ہیں۔زرینہ مری کو کوھستان مری کے ایک مقامی سکول سے اس وقت جبری اغوا کیا جب وہ اپنے محلے میں پرائمری اسکول کے بچوں کو پڑھا رہی تھی دل خراش حقیقت یہ ہےکہ اس اسکول میں 10 کمسن بچوں کو بھی فوجی اہلکاروں نے زرینہ مری کے ہمراہ جبری لاپتہ کیا تھا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Jan, 18:35


https://urdu.zrumbesh.com/13905/

سانحہ شمسر نے ہر حساس دل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ دل مراد بلوچ

ہفتہ ، 18 جنوری ، 2025 | زرمبش اردو

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے کہا ہے گزشتہ سال آج کے دن بلوچ قوم نے اپنی تاریخ کا ایک اور اندوہناک باب دیکھا، جب پاکستان نے ایرانی بندوبستی بلوچستان میں بی این ایم کے علاقائی رہنما، دوست جان عرف چیئرمین دوستا، کو ان کے پورے خاندان سمیت شہید کر دیا۔ پاکستان نے رات کے تاریکی میں مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور دوست جان کے معصوم بچوں بابردوست، ھانی دوست، ان کی اہلیہ شازیہ بلوچ اور شہید یونس بلوچ کے خاندان سے اماں نجمہ بلوچ، معصوم ماہ زیب جان، معصوم ماھکان جان اور فرھاد جان کو نیند کے دوران میزائل حملے کرکے قتل کردیا۔ یہ حملہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، جس نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

انھوں نے کہا دوست جان محض ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ وہ محبت، شجاعت اور قربانی کی علامت تھے۔ ان کی شفقت اور دوستانہ رویہ انھیں ہر دلعزیز بناتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو ایک دھاگے میں پرونے والے ایسے رہنما تھے جنھوں نے اپنی ذاتی زندگی کو ہمیشہ قومی جدوجہد پر قربان کر دیا۔ ان کے ہر لفظ، عمل اور قربانی میں قوم کی آزادی کے لیے خلوص جھلکتا تھا۔ دوست جان کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ نہ صرف ایک رہنما تھے بلکہ ایک بے لوث انسان تھے جو اپنے بچوں اور خاندان سمیت اپنی قوم کے لیے قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔

دل مراد بلوچ نے کہا ان میزائل حملوں نے صرف دوست جان کے خاندان کو ختم نہیں کیا بلکہ بلوچ قوم کے سینے میں ایک گہرا زخم لگادیا۔ یہ پاکستانی جبر کی وہ گھناؤنی شکل ہے جس کا مقصد آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے لیکن دشمن یہ بھول جاتا ہے کہ شہیدوں کا لہو ہمیشہ تحریکوں کو مزید توانائی اور ولولہ دیتا ہے۔ دوست جان اور خاندان کی شہادت ایک بلوچ قومی عزم اور حوصلے کو ختم کرنے کی کوشش تھی مگر ان کے خون نے جدوجہد کے چراغ کو مزید روشن کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا آج، ان کی پہلی برسی پر، ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ دوست جان اور ان کے معصوم بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کی قربانی ہماری تحریک کا وہ ستون ہے جس پر آزادی کے خواب کی عمارت کھڑی ہے۔ بلوچ قوم کبھی اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرے گی۔

دل مراد بلوچ نے کہا دوست جان، آپ کی شفیق مسکراہٹ، آپ کی قربانی اور آپ کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ آپ نے ہمیں سکھایا کہ جدوجہد محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ آپ اور آپ کے بچوں کی شہادت ہماری تحریک کے لیے ایک دائمی تحریک ہے، جو ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ حق کی راہ میں قربانیاں ہی کامیابی کی ضمانت ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

13 Jan, 10:43


https://urdu.zrumbesh.com/13627/

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا چوتھا مرکزی کمیٹی اجلاس مرکزی چیئرمین شبیر بلوچ کے زیر صدارت منعقد ہوا

سوموار ، 12 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( پریس ریلیز ) بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا چوتھا مرکزی کمیٹی اجلاس مرکزی چیئرمین شبیر بلوچ کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ دو روز جاری اجلاس میں سابقہ کارکردگی رپورٹ، تنقیدی نشست، تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ لائع عمل کے ایجنڈوں پر تفصیلی کفتگو کے بعد مختلف فیصلے لیے گئے۔

اجلاس کے پہلے روز کا آغاز چیئرمیں شبیر بلوچ کی اجازت کے بعد تنظیم کی سابقہ کارکردگی رپورٹ جس میں جنرل سیکٹری رپورٹ، کمیٹیوں کی رپورٹ جن میں میڈیا، لٹریچر، فائنانس، بلوچ لٹریسی کیمپئن، اور بلوچستان کتاب کاروان کمیٹی رپورٹ شامل تھے۔ کمیٹیوں کے رپورٹ کے ساتھ ساتھ تنظیم کے تمام زون کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کا دوسرا ایجنڈا تنقیدی نشست پر مشتمل تھا جس میں تنظیم کی کمزوریوں کی نشاندہی اور ان کے حل کے لیے دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سیاست اور سیاسی تنظیموں میں تنقید کی اہمیت پر مرکزی رہنماؤں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ تنقید ایک ایسا عمل ہے جس سے گزر کر ہی ایک سیاسی جہدکار اپنے رویوں اور خامیوں پر قابو پا کر نہ صرف اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے بلکہ پختہ انقلابی کی شکل اختیار کرتا ہے۔ تنظیموں میں تنقیدی ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تنقید کرنے والا اور سننے والا دونوں میں برداشت کی صلاحیت ہونی چائیے۔ برداشت سے نہ صرف تنقید پر مبنی انقلابی معاشرہ پیدا ہوسکتا ہے بلکہ تحریک میں موجود کمزوریوں اور رد انقلابی رویوں پر قابو اور بہتری لائی جاسکتی ہے۔

اجلاس کے پہلے دن کے اختتام کے بعد دوسرے روز کا آغاز مرکزی چیرمین کے اجازت سے کیا گیا۔ دوسرے دن تنظیمی امور کے ایجنڈے پر دوستوں نے اپنے لکھے گئے ڈرافٹ پیش کیے جن میں گزشتہ تنظیمی کارکردگی اور ان میں بہتری کے ساتھ آنے والے تنظیمی سرگرمیوں کے لیے اپنے تجویز پیش شامل تھے۔ تنظیمی امور کے ایجنڈے میں مرکزی دوستوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے تنظیم نہ صرف بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں فعال ہوا ہے بلکہ بلوچ نوجوانوں میں علمی اور شعوری ماحول پیدا کرنے میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ دوستوں کی ہمت اور مخلصی کے سبب تنظیمی سرگرمیوں اور پالیسیوں میں دن بہ دن بہتری آرہی ہے لیکن بطور بلوچ اور سیاسی کارکن ہمیں اپنے عمل اور سرگرمیوں پر مطمین ہونے کے بجائے مزید تیزی اور بہتری لانے کی گنجائش کو محسوس کرتے ہوئے مسلسل جدوجہد کا فلسفہ اپنا کر عمل کرنا ہے۔ تنظیم بلوچستان کتاب کاروان کی عملی اور شعوری سفر سے لے کر بلوچ لٹریسی کیمپئن کے تحت بلوچستان کے تعلیمی پسماندگی پر آواز اٹھانے تک بطور ایک طلباء تنظیم اپنے جدوجہد میں مصروف ہے جس میں تنظیم کامیابی کی طرف جارہی ہے۔

اجلاس کا آخری ایجنڈا آئندہ لائحمل پر دوستوں کے دیے گئے تجاویز پر غور کر کے آئندہ کے سرگرمیوں کے لیے فیصلے لیے گئے۔ آئندہ صباہ لٹریری فیسٹیول کا انعقاد ملیراور ڈی جی خان میں کیا جائے گا۔ عالمی مادری زبان کے دن کے موقع پر عبدالکریم شورش اور عبدالعزیز کُرد کے نام سے سیمنار کا انعقاد کیا جائے گا، بلوچستان کتاب کاروان کو مزید منظم کرتے ہوئے نئے سال کے آغاز پر پورے بلوچستان میں مہم چلایا جائے گا اور مہم کا اختتام ایک سیمنار سے کیا جائے گا۔ بلوچ طلباء سیاست کے موضوع پر شال اور اوتھل میں سیمنار کا انعقاد کیا جائے گا، بلوچ لٹریسی کیمپئن کی سرگرمیوں کو منظم کرتے ہوئے اسکولوں کے حاصل کیے گئے تفصیلات کو شائع کرنے کے علاوہ ایک بریفنگ سیمنار کا منعقد کیا جائے گا، بلوچستان کتاب کاروان، میڈیا اور کریئر کاؤنسلنگ پر بُک لیٹ شائع کیا جائے گا۔ ان کے علاوہ مرکزی کمیٹی کے تین رکن شیراز بلوچ ، فوزیہ اور مصدق بلوچ کے استعفی ناموں کو منظور کر کے ان کی جگہ خضدار زون کے سابقہ صدر جویریہ بلوچ، شال زون کے صدر فہد بلوچ اور شال زون کے سابقہ جنرل سیکٹری علی بلوچ مرکزی کمیٹی کے رُکن کے طور پر منتخب کیے گئے۔

دو روزہ مرکزی کمیٹی کا چوتھا اجلاس تمام ایجنڈوں پر تفصیلی گفتگو اور آئندہ کے تنظیمی سرگرمیوں کے حوالے سے لیے گئے فیصلوں کے بعد چیئرمین کی اجازت سے اختتام ہوا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

13 Jan, 10:20


گرینڈ ہیلتھ الائنس کے  رہنماؤں پر ایف آئی آر درج کرنے کا مقصد ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں موجود مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔ این ڈی پی

پیر، 13 جنوری، 2025 / زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13628/

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ این ڈی پی گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر بہار شاہ اور ان کے ساتھی ڈاکٹر حفیظ مندوخیل کی بوگس ایف آئی آر کے ذریعے گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ ایک جمہوری معاشرے کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ ڈاکٹر بہار شاہ اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کے دیگر اراکین پچھلے کئی مہینوں سے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں موجود کرپشن، اقربا پروری، اور دیگر مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمین کے جائز مطالبات کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت بلوچستان ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے مختلف حربے استعمال کرکے انہیں دبانے کی کوشش کر رہی ہے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ این ڈی پی یہ سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر بہار شاہ کی گرفتاری اور ان کے خلاف بوگس ایف آئی آر درج کرنے کا مقصد ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں موجود مسائل سے توجہ ہٹانا اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کو دباؤ میں لانا ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے عدالت عالیہ کا سہارا لے کر خصوصاً صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں عائد کیں، جو جمہوری اصولوں کے صریحاً منافی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ڈاکٹرز اور ملازمین کو دھمکانے اور ہراساں کرنے کے لیے غیر قانونی اقدامات کیے جا رہے ہیں، جو بلوچستان کے عوام کے بنیادی حقوق پر حملہ ہیں۔

ترجمان نے کہا ہے کہ این ڈی پی مطالبہ کرتی ہے کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر بہار شاہ اور ان کے ساتھیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے خلاف تمام بوگس مقدمات ختم کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں موجود مسائل کو حل کرنے اور ملازمین کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے، بجائے اس کے کہ وہ جمہوری جدوجہد کرنے والوں کو دبانے کی کوشش کرے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہم واضح کرتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر بہار شاہ اور ان کے ساتھیوں کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا، تو گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے جو بھی فیصلہ لیا جائے گا، این ڈی پی اس کی مکمل حمایت کرے گی۔ بلوچستان کے عوام اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے این ڈی پی ہر محاذ پر آواز بلند کرتی رہے گی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

13 Jan, 09:53


سوراب، زہری، 12 افراد کی جبری گمشدگی کیخلاف گذشتہ روز سے دھرنا جاری کراچی شاہراہ بدستور بند

https://urdu.zrumbesh.com/13625/

سوموار ،13 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

سوراب، زہری ( مانیٹرنگ ڈیسک ) گذشتہ چوبیس گھنٹوں سے 12 افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف لواحقین کا دھرنا دوماقامات پر مرکزی شاہراہ پر جاری ہے ، لواحقین نے شدید سردی میں گذشتہ شب شاہراہ پر گذاری۔

ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوگئے، ادھر زہری میں بازار میں میں بھی گذشتہ روز سے مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے جہاں دکانداروں نے رضاکارانہ اظہار یکجہتی کے طور پر اپنی دکانیں بند کر رکھی ہیں.

لواحقین کا مطالبہ ہے فورسز درندگی کا نوٹس لیکر ہمارے پیاروں کو بازیاب کرا لیا جائے۔

اگر نہیں تو احتجاج دھرنا ،شاہراہ بند رہیں گے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

13 Jan, 06:47


تمپ: مسلح افراد کا پاکستانی فورسز کے کیمپ پر حملہ

پیر، 13 جنوری، 2025 / زرمبش اردو

کیچ: تمپ میں گزشتہ رات مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کے کیمپ کو حملے میں نشانہ بنایا ہے۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب تمپ قلات میں قائم پاکستانی فورسز کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے، حملے کے وقت علاقے میں متعدد دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔

حملے میں پاکستانی فورسز کے جانی اور مالی نقصان کا خدشہ ہے تاہم ابھی تک کسی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

13 Jan, 05:56


تربت: دھماکے میں ایک شخص ہلاک

پیر، 13 جنوری، 2025 / زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13621/

کیچ کے مرکزی شہر تربت میں M8 شاہراہ پر دھماکے میں ایک شخص ہلاک ہوگئے۔

اطلاعات کے مطابق تربت میں جوسک کے نزدیک M8 شاہراہ پر رات 4 بجے کے قریب ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کی زد میں آنے سے ایک شخص ہلاک ہوگئے جس کی شناخت اتفاق احمد ولد منظور کے نام سے ہوئی ہے جو محکمہ صحت میں چوکیدار تھے۔

تاہم دھماکے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 19:19


سوراب میں جاری احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ بی وائی سی سوراب زون

https://urdu.zrumbesh.com/13616/

اتوار ، 12 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

سوراب ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی سوراب زون کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ زہری سے بڑی تعداد میں لوگوں کو جبراً گمشدہ کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام اور انکے فیملیوں کی جانب سے زہری میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور کوئٹہ ٹو کراچی سوراب کے قریب سی پیک شاہراہ بلاک کرکے دھرنا دیا جارہا ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔ ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اس سنگین مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کریں۔

ترجمان نے کہاہے کہ ہم متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ان کی جدوجہد میں ہر ممکن تعاون کرینگے ۔
سوراب کے غیور عوام سے اپیل کرتے ہے کے وہ لاپتہ افراد کے فیملیز کا ساتھ دیکر یکجہتی کا اظہار کریں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 18:53


https://urdu.zrumbesh.com/13613/

حب میں لاپتہ افراد بازیانی کے لئے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ اختتام پذیر، احتجاجی ریلی نکالی گئی ،مظاہرہ کیاگیا

اتوار ، 12 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

حب ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے قائم تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ آج تیسرے دن اختتام پذیر ہو گیا۔ کیمپ کے آخری روز لواحقین نے حب پریس کلب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی، جو شہر کے مختلف شاہراہوں سے گزرتی ہوئی واپس پریس کلب کے سامنے ختم ہوا۔

یہ بھوک ہڑتالی کیمپ جبری گمشدگی کے شکار دو بھائیوں جنید حمید اور یاسر حمید کے لواحقین کی جانب سے لگائی گئی تھی، جو گذشتہ سال اکتوبر میں حب چوکی اور قلات سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ کیے گئے تھے۔

کیمپ میں دیگر لاپتہ افراد کے خاندانوں کے علاوہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین، سیاسی کارکنان، اور شہریوں نے بھی شرکت کی تھی۔

کیمپ میں شریک دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین میں بلوچ کارکن راشد حسین کی والدہ، بی ایس او آزاد کے طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیماء بلوچ، لاپتہ چاکر خان بگٹی اور نوروز اسلام کے اہلخانہ، اور نصیر جان کے والدہ سمیت پنجگور کے رہائشی ظہیر بلوچ کے خاندان کے افراد شامل تھے۔

ریلی میں شریک لاپتہ یاسر اور جنید حمید کی بہن یاسمین نے خطاب کرتے ہوئے کہا، میرے بھائی تین ماہ سے ریاستی اداروں کے غیرقانونی حراست میں ہیں، اور ہمیں اب تک نہیں بتایا گیا کہ ان پر کیا الزام ہے یا انہوں نے کون سا جرم کیا ہے۔

یاسمین حمید کا کہنا تھا میرے بھائی محنت کش ہیں، ان کا کسی سیاسی یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں جبری طور پر لاپتہ کرنا آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

شبیر بلوچ کی بہن سیماء بلوچ نے اپنی تقریر میں کہا، میں 2016 سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی ہوں ہر روز پریس کلبوں کے باہر احتجاج کرنا ہمارے لیے معمول بن چکا ہے، لیکن عدلیہ، قانون، اور ریاستی ادارے اپنے وجود اور کردار کھو چکے ہیں۔

سیماء بلوچ نے کہا ہمارے سوالوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم صرف اپنے پیاروں کی زندگی اور آزادی مانگ رہے ہیں، کیا یہ بھی جرم ہے؟”

راشد حسین کی والدہ نے اس موقع پر کہا چھ سال مکمل ہو گئے ہیں، لیکن عدالتوں، کمیشنز اور جے آئی ٹیز نے ہمیں کبھی انصاف فراہم نہیں کیا میں اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے اب بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوں۔ کیا ایک ماں کا اپنے بیٹے کے لیے انصاف مانگنا بھی جرم بن چکا ہے؟

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حب اور کراچی سے آئے ہوئے اراکین نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا۔

ان کا کہنا تھا یہ ایک المیہ ہے کہ بلوچستان میں ہر دوسرے روز کسی نہ کسی خاندان کو جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے حب چوکی میں احتجاج کرنے والے ان خاندانوں کی کہانیاں ہمارے لیے نئے نہیں ہیں یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے، لیکن ریاستی اداروں کی بے حسی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان لاپتہ افراد کو فوری طور پر منظرعام پر لایا جائے اور جبری گمشدگی کے اس غیر انسانی عمل کو روکا جائے۔

انہوں نے مزید کہا ریاستی ادارے اور عدلیہ کے ذمہ داران یاد رکھیں کہ بلوچ عوام اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اگر آج حب چوکی کے یہ خاندان یہاں کھڑے ہیں، تو کل بلوچستان کے ہر کونے سے لوگ کھڑے ہوں گے۔”

ریلی میں شریک دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، لیکن یوں جبری طور پر لاپتہ کر کے ہمیں اذیت میں مبتلا کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

مظاہرین نے حکومت سے جبری گمشدگی کے خاتمے اور لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرہ صرف شروعات ہے، اگر ان کے پیاروں کو بازیاب نہ کیا گیا تو احتجاج کا دائرہ پورے بلوچستان میں پھیلایا جائے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 18:27


براہوئی،بلوچی زبان میں گانا میری عبادت اور قومی فریضہ ہے ۔سیمک بلوچ

https://urdu.zrumbesh.com/13603/

اتوار ، 12 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچی موسیقی کی پروڈکشن سے منسلک تاھیر پروڈکشن نے اپنا سیزن 3 ریلیز کردیا، جسکے قسط 4 میں سیمک بلوچ کا گایا ہوا “دانکو” شائع کیا گیا ہے۔

دانکو، کو سیمک بلوچ نے اپنی مدُھر آواز کیساتھ گایا ہے اور اس میں بلوچ قومی روایات اور ثقافت کو بھرپور اجاگر کیا گیا ہے، جسے بہت پسند کیا جا رہا ہے۔

دانکو کے بول استاد مراد پارکوئی کے ہیں اور ڈاکٹر منظور بلوچ نے ترتیب دیئے ہیں، کمپوزیشن استاد مراد پارکوئی کی ہے ،جس میں شاہ سومل، ھاوند بگٹی اور عبید جی ایم نے اپنے رنگ بھرے ہیں، جبکہ میوزک عبید جی ایم نے دی ہے۔ ڈاکٹر امداد بلوچ نے اسکرپٹ اور محراب خالد نے ڈائریکشن دی ہے۔

انکی سریلی آواز، خوبصورت بول اور موسیقاروں کے شاندار تال میل نے گیت کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ دانکو ریلیز کیساتھ ہی سوشل میڈیا پر دھوم مچانے لگا۔

12 سالہ سیمک بلوچ کلاس ششم کا طالب علم اور کچی حال شال ، کا رہائشی ہے ، انکا کہنا ہے کہ بلوچی اور براہوئی میں گانا میری صرف شوق نہیں بلکہ عبادت اور قومی ذمہ داری ہے ۔

انکا کہنا ہے کہ اسکول میں میری ٹیچر نے مجھے سپورٹ کیا اور آج میری میوزک کے ٹیچر خاوند بگٹی نے میری آواز اور سروں کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 18:25


21 دسمبر کو بانک کریمہ کی یاد میں منعقدہ پروگرام، ڈاکٹر شلی بلوچ سمیت کئی لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج

اتوار ، 12  جنوری ، 2025 | زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13609/

21 دسمبر کو بانک کریمہ کے یاد میں منعقدہ پروگرام کے خلاف بلوچ وومن فارم کے آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ سمیت کئی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔


بلوچ وومن فارم نے میڈیا کو بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شلی بلوچ، ذکیہ بلوچ، آرز ملک بلوچ سمیت دیگر مقامی افراد کے خلاف 21 دسمبر 2024 کو تیرتیج میں منعقدہ لمّہ وطن بانک کریمہ بلوچ کے چوتھی شہادت کے برسی کے موقع پر سیمینار کے انعقاد اور اس میں شرکت کرنے پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ سیمینار ریاست مخالف تھا۔ سیمنار میں ریاست اور بچوں کا برین واش کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ کئی بار ریاستی ادارے مقامی لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں براہ راست ملوث ہوتے ہیں۔ ان خلاف ورزیوں کو خطے کا امن خراب کرنے اور بچوں کے ذہنوں سے کھیلنے کے لیے ریاست مخالف کارروائیاں قرار دینے کے بجائے انہوں نے ایک پرامن تقریب پر ایف آئی آر درج کرائی جس کا مقصد ایک بلوچ رہنما کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔

بلوچ وومن فارم نے کہا ہے کہ ہم فورم کے مرکزی رہنما اور علاقہ مکینوں کے خلاف درج ایف آئی آر کی مذمت کرتے ہیں اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ معاشرے میں پرامن سیاست کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے باز رہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 17:22


https://urdu.zrumbesh.com/13598/

ڈیرہ بگٹی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں 9 افراد جبری لاپتہ

اتوار ، 12 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

ڈیرہ بگٹی( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سوئی حمزہ کالونی میں پاکستانی فورسز نے چھاپہ مارکر 9 افراد سے زائد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ۔

لاپتہ ہونے والوں کی شناخت رستم ولد علی شیر بگٹی ،سکندر ولد علی خان بگٹی، محمد ولد ہاشم بگٹی، علی شیر ولد جنگیان بگٹی، جمال دین ولد شاہ میر بگٹی، داد خان ولد اخلاق بگٹی، موج علی ولد جنگیان بگٹی، سندر ولد عالی بگٹی اور عالی ولد شاہ میر بگٹی ناموں سے ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی، حمزانی کالونی میں فرنٹیئر کور اور سی ٹی ڈی چھاپہ مارکر گھروں کو لوٹ کرکے لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

لاپتہ ہونے والے نو کی شناخت ابتک ہوسکی ہے تاہم ذرائع کے مطابق لاپتہ ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 17:19


کوہلو میں محبت خان مری کے ڈیتھ اسکواڈ کیمپ کو تباہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

اتوار ، 12  جنوری ، 2025 | زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13600/

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے مستونگ، کوہلو، تمپ اور نوشکی میں 4 مختلف کاروائیوں میں قابض پاکستانی فوج، نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں اور معدنیات لیجانے والی گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے آج دوپہر کے وقت مستونگ کے علاقے اسپلنجی میں قابض پاکستانی فوج کو ایک حملے میں نشانہ بنایا، سرمچاروں نے دشمن فوج پر اس وقت گھات لگاکر حملہ کیا جب وہ فوجی جارحیت کی غرض سے علاقے میں پیش قدمی کررہے تھے۔ سرمچاروں کے حملے کے وقت بھاگنے کی کوشش میں دشمن فوج کے کم از کم دو اہلکار زخمی ہوگئے۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے گذشتہ روز مغرب کے وقت کوہلو کے علاقے نوئے شم میں لونڈ کے مقام پر محبت خان مری کی سربراہی میں چلنے والے نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے کیمپ کو ایک حملے میں نشانہ بنایا۔ حملے میں ڈیتھ اسکواڈ کے آٹھ بزدل کارندے اپنا اسلحہ و دیگر سامان چھوڑ کر بھاگ گئے، بھاگنے کی کوشش میں ڈیتھ اسکواڈ کے تین کارندے زخمی ہوگئے جن میں ایک شدید زخمی شامل ہے۔ سرمچاروں نے کارندوں کا اسلحہ اپنی تحویل میں لے لیا جبکہ ان کے کیمپ کو نذر آتش کردیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ کارندوں کو بارہا تنبیہ کیا گیا ہے کہ وہ قابض فوج کی معاونت ترک کردیں، ہم کوہلو و گردنواح میں قابض پاکستانی فوج کے پیرول پر کام کرنے والے افراد پر واضح کرتے ہیں کہ قوم دشمن اعمال ترک کردیں وگرنہ اپنے جانی و مالی نقصان کے ذمہ دار خود ہونگے۔

انہوں نے کہا ہے کہ بی ایل اے کوہستان مری  سمیت پورے بلوچستان میں بلوچ قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی کسی کواجازت نہیں دے گی جو بھی اس عمل میں ملوث پایا گیا وہ ہمارے نشانے پر ہونگے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے ایک اور کاروائی میں گذشتہ روز تمپ کے علاقے کوھاڈ میں مسلح حملے میں قابض پاکستانی فوج کے پیرول پر کام کرنے والے نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے اہم کارندے جمیل ولد ملک داد اللہ کو ہلاک کرکے اس کا اسلحہ و موٹر سائیکل اپنے قبضے میں لے لیا۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ مذکورہ کارندہ علاقے میں مسلح گروہ تشکیل دینے سمیت گھروں پر چھاپوں میں قابض فوج کے ہمراہ براہ راست ملوث تھا، آلہ کار جمیل کی سربراہی میں مسلح جھتہ نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث پایا گیا۔ اس نیٹورک سے منسلک دیگر کارندوں کی نشاندہی بی ایل اے انٹیلی جنس ونگ “زراب” کرچکی ہے اور جلد مذکورہ کارندوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

جیئند بلوچ نے کہا ہے کہ ایک اور کاروائی میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے گذشتہ روز مغرب کے وقت نوشکی میں بدل کاریز کراس کے موقع پر بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار میں ملوث تین ٹرکوں کو حملے میں نشانہ بنایا۔ سرمچاروں نے ایک ٹرک کو نذر آتش کرکے تباہ کردیا جبکہ دو ٹرکوں کو فائرنگ کرکے شدید نقصان پہنچایا۔

ترجمان نے آخر میں کہا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی ان تمام حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے، اور دشمن پر ان کاری ضربوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کے عزم اعادہ کرتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 15:02


https://urdu.zrumbesh.com/13595/

سردار عطاللہ خان مینگل کے بڑے فرزند میر ظفراللہ مینگل انتقال کرگئے

اتوار ، 12 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

وڈھ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بزرگ بلوچ رہنما ء مرحوم سردار عطااللہ خان مینگل کے بڑے فرزند بلوچستان نینشل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے بڑے بھائی سردارذادہ میر ظفر اللہ خان مینگل انتقال کرگئے ،اہلخانہ کے مطابق نمازہ جنازہ کل بعداز نماز ظہر سرداری شہر قبرستان میں ادا کی جائیگی ، فاتح خوانی و تعزیت مینگل کوٹ وڈھ میں لے جائیگی ۔
میر ظفر اللہ مینگل ذہنی طور پر معزور تھے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 14:38


ذاکریا بلوچ کا ماورائے عدالت قتل پاکستانی اداروں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

زرمبش اداریہ

https://urdu.zrumbesh.com/13586/

گوادر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ذاکریا بلوچ کے ماورائے عدالت قتل انسانی جانوں کی صریح بے توقیری اور ان اداروں کے وحشیانہ اقدامات میں حالیہ مہینوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں ذاکریا بلوچ جیسے نوجوان، ہونہار افراد کا ماورائے عدالت قتل ایک اہم مثال ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ ادارے بلوچ عوام کی نسل کشی میں اضافہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور اب یہ بلوچ قوم کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے نوجوانوں کو ان سفاک وحشیوں سے بچائیں۔

ذاکریا بلوچ کا واقعہ پاکستانی اداروں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک روشن اور باصلاحیت فرد ہونے کے باوجود، ذاکریا کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ان کے حقوق یا قانون کے مناسب عمل کی پرواہ کیے بغیر بے دردی سے قتل کر دیا۔ یہ بلوچستان میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل کے ان گنت واقعات میں سے ایک ہے، جس نے خاندانوں کو تباہی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔

قابض پاکستانی اداروں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ بلوچ عوام کی جانوں کی قدر نہیں کرتے۔ بلوچ قوم کی طرف سے مزاحمت کی کسی بھی شکل کو دبانے اور ختم کرنے کے لیے ان کے اقدامات ان کے ارادوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ پاکستانی ریاست نے جبری گمشدگیوں سے لے کر پرامن احتجاج پر پرتشدد کریک ڈاؤن تک بلوچ عوام کی آوازوں کو دبانے کے لیے ہر ممکن طریقے استعمال کیے ہیں۔

لیکن اس طرح کی بربریت کے سامنے بلوچ قوم نے لچک اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ بلوچستان کے نوجوان ذاکریا بلوچ کی طرح اپنے حقوق اور اپنی سرزمین کی آزادی کی جدوجہد میں سب سے آگے رہے ہیں۔ انہوں نے قابض افواج سے خوفزدہ ہونے سے انکار کیا ہے اور خطرات کے باوجود اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

اب یہ بلوچ قوم پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کی حفاظت کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ بلوچ عوام کو متحد ہوکر ان ظالم قوتوں کے خلاف لڑنا ہوگا جو ان کی شناخت اور ثقافت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کی آواز کو بلند کیا جانا چاہیے اور ان کی کہانیوں کو عالمی برادری کو سنانا چاہیے۔

اس کے علاوہ قابض پاکستانی اداروں کو ان کے اعمال کا جوابدہ ہونا چاہیے۔ عالمی برادری کو بلوچستان میں ہونے والی نسل کشی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر تنظیموں کو چاہیے کہ وہ جاری مظالم کو رکوانے اور متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف دلانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

بلوچ قوم نے صدیوں کے ظلم و جبر کا سامنا کیا ہے لیکن حق خود ارادیت کی جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔ ذاکر بلوچ جیسے بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بلوچ قوم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرے اور ریاستی سلامتی کے نام پر ہونے والے ظلم و بربریت کا خاتمہ کرے۔

آخر میں، قابض پاکستانی اداروں نے ذاکریا بلوچ جیسے نوجوان کو ماورائے عدالت قتل کرکے اور کھل کر اپنی بربریت کا اظہار کرکے نسل کشی میں اضافہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ان کے اقدامات انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اب یہ بلوچ قوم پر منحصر ہے کہ وہ ایک ساتھ کھڑے ہوکر اپنے نوجوانوں کو ان سفاک وحشیوں سے بچائیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 13:39


پاکستانی خفیہ اداروں اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی زمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ایس آر اے

اتوار ، 12  جنوری ، 2025 | زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13592/

سندھودیش روولیوشنری آرمی کے ترجمان سوڈھو سندھی نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس آر اے آج صبح سٹی شہداد کوٹ میں پاکستانی ایجنسیوں کے مخبر اور آٹوز مالک پنجابی سیٹلر جہانگیر کنبوہ اور دو دن پہلے نوشہرو فيروز نيشنل ھائے وے بائے پاس پر این ایل سی ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی ریاست، سندھو دريا سے 6 کینال نکال کر سندھی قوم کی معاشی تباہی کے ساتھ نسل کشی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سندھ کی زمینوں پر گرین پاکستان منصوبہ کے نام پر پنجابی فوج لاکھوں ایکڑ زمينوں پر قبضہ کر رہی ہے۔ سندھ کے اندر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی پنجابی آبادی کو شفٹ کر کے سندھ کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے وجود اور بقا کے ساتھ جڑے ایسے سارے مسئلوں اور منصوبوں کے خلاف ایس آر اے پہلے بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے اور ابھی بھی فنا اور بقا کی اس جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔

ترجمان نے کہا ہے کہ سندھودیش روولیوشنری آرمی سندھ کی مکمل قومی آزادی تک اپنی مزاحمتی جنگ جاری رکھنے کا عزم دہراتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 13:20


https://urdu.zrumbesh.com/13589/

اسپلنجی فوج کشی میں مصروف فورسز اہلکاروں پر مسلح افراد کا حملہ

اتوار ، 12 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

مستونگ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) مستونگ کے علاقے اسپلنجی میں فوج کشی
میں مصروف پاکستانی فورسز کو مسلح افراد نے حملے میں نشانہ بنایا ۔

علاقائی ذرائع کے مطابق آج پاکستانی فورسز پر مسلح افراد نے اس وقت حملہ کیا جب وہ علاقے میں پیش قدمی میں مصروف تھے۔ حملے کے وقت شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آواز سنی گئی ۔

فورسز پر حملے کی ذمہداری کسی مسلح تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 11:35


تمپ: اسنائپر حملے میں قابض دشمن کا ایک اہلکار ہلاک کیا۔ بی ایل ایف

اتوار ، 12  جنوری ، 2025 | زرمبش اردو


بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے گیارہ جنوری کی شام چار بجے کیچ کے علاقے تمپ میں قابض پاکستانی فوج پر حملے میں ایک فوجی اہلکار کو نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔

ترجمان نے کہا ہے کہ اسنائپر ٹیکٹیکل ٹیم نے دشمن فوج کے تمپ آزیان میں قائم فوجی چوکی کے باہر کھڑے ایک فوجی اہلکار کو نشانہ بنایا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ جس کے بعد سرمچاروں نے چوکی کو خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا، جس سے قابض دشمن کو مزید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اس حملے کی زمہ داری قبول کرتی ہے اور سرزمین کی آزادی تک قابض فورسز پر حملے جاری رہیں گے۔

https://urdu.zrumbesh.com/13583/

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 11:29


پاکستانی فوج میدان جنگ میں شکست کھا چکی ہے اس لیے وہ بے گناہ بلوچ عوام کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

اتوار ، 12  جنوری ، 2025 | زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13580/

بلوچ آزادی پسند رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج حالیہ شکستوں کے بعد نہ صرف میدان جنگ میں اخلاقی اور ذہنی پستی کا شکار ہو چکی ہے بلکہ اپنی لاشیں چھپانے اور حقائق مسخ کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔ گوادر سے لے کر کوہ سلیمان تک، شکست خوردہ فوج بے گناہ بلوچ عوام کو نشانہ بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ یہ مظالم نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک قابض ریاست کی وحشیانہ ذہنیت کو بھی عیاں کرتے ہیں۔

بلوچ رہنما نے مزید کہا ہے کہ گوادر واقعہ اور دیگر واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جب پاکستانی فوج میدان جنگ میں مقابلہ کرنے سے قاصر رہتی ہے تو اپنی ناکامی کا بدلہ نہتے عوام کے قتل عام سے لیتی ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہے کہ یہ ایک منظم نسل کشی ہے۔ اب تک بلوچ قوم نے اپنی جدوجہد آزادی میں بے حد صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن اگر یہ بربریت جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب بلوچ عوام مجبور ہو کر ردعمل ظاہر کریں گے، جس کے نتیجے میں پنجاب اور اسلام آباد کا محفوظ رہنا مشکل ہو جائے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 07:54


سوراب: زہری انجیرہ کراس پر خضدار کے علاقے زہری سے لاپتہ ہونے والے افراد کے بازیابی کے لیے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو احتجاجاً بلاک کردیا گیا ہے۔

احتجاج میں خواتین سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، قومی شاہراہ بند ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1878349737499197475?t=yO5V2e30KmdAtLB4b8A32w&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 07:24


زہری: پاکستانی فورسز کا گھروں پر چھاپہ، معتدد افراد جبری لاپتہ

اتوار ، 12  جنوری ، 2025 | زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13577/

خضدار کے علاقے زہری میں گزشتہ رات پاکستانی فورسز نے چھاپہ مار کر معتدد افراد کو حراست میں لے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی شناخت  فہد علی اکبر، فردین کریم ،شیخ صمد درازئی کا بیٹا خالد، سرور ڈائیہ کا بیٹا نادر، شبیر، فیاض، بلال، ناصر، زبیر، جنگی خان، بلال ولد استاد محمد بخش اور دیگر شامل ہیں۔

علاقے سے ذرائع کے مطابق گزشتہ رات زہری کے علاقے نوراگامہ سمیت متعدد مقامات پر فورسز نے چھاپے مارے اور گھروں سے بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے جن کی تاحال کوئی خبر نہیں ہے۔

گرفتار افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد نے انجیرہ کراس سے قومی شاہراہ بلاک کر دی جبکہ خواتین کی بڑی تعداد سمیت مظاہرین نے قنات لگا کر کے سڑک بلاک کر دی ہے۔

زہری بازار میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کیا جارہا ہے اور گرفتاریوں کے خلاف لیویز تھانے کے سامنے بھی دھرنا دیا جارہا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

12 Jan, 04:15


جان مکڈونل اور چیئرمین بی این ایم کے درمیان آنلائن نشست ، بلوچستان کے  سفارتی عمل میں تیزی لانے پر اتفاق

اتوار ، 12  جنوری ، 2025 | زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13571/

بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے برطانوی  پارلیمنٹ کے ممبر  جان مکڈونل سے آنلائن  نشست میں بلوچستان کی صورتحال پر بات کی اور ان امکانات کا جائزہ لیا کہ برطانیہ میں بلوچستان کی تحریک کے لیے کیسے حمایت حاصل کی جائے اور وہاں کی حکومت کو قائل کیا جائے کہ وہ بلوچستان کی گھمبیر صورتحال میں کردار ادا کرئے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین نے آنے والے دنوں بلوچستان کے موضوع اور مسائل پر برطانیہ میں پروگرامات کے انعقاد پر بھی گفتگو کی۔

جان مکڈونل نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ وہ بلوچ قوم کی حمایت جاری رکھیں گے اور ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

اس موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم )  کے خارجہ سیکریٹری فہیم بلوچ بھی موجود تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اس نشست میں پارٹی چیئرمین اور جان مکڈونل کے درمیان بلوچستان کے لیے سفارتی عمل میں تیزی لانے کے لیے متعدد اقدامات پر اتفاق کیا گیا جن پر عنقریب عمل کیا جائے گا۔

جان مکڈونل ایک نامور برطانوی سیاستدان ہیں جو بلوچ قوم کے ایک پرجوش حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے متعدد مواقع پر کھل کر بلوچوں کی وکالت کی ہے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر پاکستان کے محاسبہ کا مطالبہ کیا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 19:23


تربت پرائیویٹ اسکول ٹیچر شگراللہ محمد علی بازیاب ہوگئے-

ہفتہ ، 11 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

کیچ ( نامہ نگار ) تربت شاہی تمپ کے رہائشی اور نجی اسکول کے ٹیچر شگراللہ محمد علی آج شام بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے، لواحقین کے مطابق انہیں گزشتہ دنوں فورسز نے شاہی تمپ میں واقع گھر سے اٹھاکر لاپتہ کیا تھا-

انکے لواحقین شہید فدا چوک پر بیٹھے لاپتہ افراد کے دھرنے میں بھی شامل رہے اور شگراللہ بلوچ کی بازیابی کیلئے احتجاج بھی کیا تھا-

https://x.com/rzurduZBC/status/1878160281664147682?t=cv3Ao3-ecru8oNJxDao-9g&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 19:23


مستونگ بلوچ شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے موٹرسائیکل آگاہی ریلی نکالی گئی اور تقریبات کا انعقاد کیاگیا

ہفتہ ، 11 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو


https://urdu.zrumbesh.com/13568/


مستونگ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی مستونگ زون، ساروان ریجن کی جانب سے ہفتہ 11 جنوری کو بلوچ شہداء اور ماورائے عدالت قتل کے متاثرین کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آگاہی مہم موٹرسائیکل ریلی نکالی گئی اور تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

ریلی بس اڈہ مستونگ سے شروع ہو کر کلی دتو کے قبرستان تک پہنچی، جہاں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ، بیبرگ بلوچ، اور دیگر نے سنگت ثنا سمیت دیگر بلوچ شہداء کی قبروں پر بلوچی چادریں چڑھائیں، پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں، اور ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

اس موقع پر خواتین سمیت عوام کی بڑی تعداد انکے ہمراہ موجود تھی۔

ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ 25 جنوری 2025 کو دالبندین میں ایک قومی اجتماع منعقد کیا جائے گا، جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ بلوچ قومی نسل کشی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم دنیا کو یہ باور کرائیں گے کہ نہ ہماری قوم لاوارث ہے اور نہ ہی ہماری سرزمین یہ لاوارث لاشیں اور قبریں درحقیقت ہمارے عظیم شہداء کی نشانی ہیں۔ میں تمام بلوچ قوم سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ 25 جنوری کو دالبندین میں منعقد ہونے والے قومی اجتماع میں بھرپور شرکت کریں اور یہ ثابت کریں کہ ہم اپنے شہداء کے وارث ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزرز نے عوام پر زور دیا کہ وہ شہداء کے نظریے اور جدوجہد کو زندہ رکھیں اور ظلم و ناانصافی کے خلاف اجتماعی مزاحمت کو مضبوط کریں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 18:33


https://urdu.zrumbesh.com/13565/

بلوچستان فائرنگ کے مختلف واقعات اور کوئلہ کان حادثہ میں 6 افراد ھلاک ایک زخمی

ہفتہ ، 11 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) حب نامعلوم مسلح افراد کی رکشہ پر فائرنگ 2 افراد ھلاک ، تفصیلات کے مطابق
حب کے علاقے دارو ہوٹل کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے عزیز اللہ ولد رحمت اللہ عمر 40 سال اور عطاء محمد ولد رحمت اللہ 30 سال کو قتل کردیا ۔ جنہیں ایدھی ایمبوولینس کے ذریعے سول ہسپتال حب منتقل کیا گیا ،جہاں پولیس کی ضروری کاروائی کے بعد نعشوں کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا ۔

اس طرح تربت ، تمپ کے علاقہ کوھاڑ میں موٹرسائیکل پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے جمیل ولد ملک داد اللہ سکنہ تمپ کوہاڑ کو قتل کردیا ، فائرنگ سے معراج عارف نامی شخص زخمی ہوگیا ، جنہیں تربت سول ہسپتال منتقل کردیا گیا تاہم وہ ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

واقعہ کے بعد ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم ابھی تک قتل کے اس واقعہ کی وجوہات سامنے نہ آسکے ہیں۔

علاوہ ازیں قلات کے پہاڑی علاقے نرمک سے ایک شخص کی نعش ملی ہے ،
جس کی شناخت قادر بخش ولد موسی خان کے نام سے ہواہے ۔
جسے گولیاں مار کر قتل کیاگیا ہے ۔

ورثا کے مطابق نامعلوم افراد نے قادر بخش کو کچھ دن پہلے اغوا کرکے لاپتہ کیا تھا۔
نعش ہسپتال پہنچا نے کے بعد ورثاء کے حوالے کیاگیا ۔
مزید تفتیش لیویز ایس ایچ او جوہان کررہے ہیں۔

ادھر گوادر نامعلوم افراد کی فائرنگ ایک شخص زخمی،گوادر کے پدی زر میرین ڈرائیور دی اوئیسس اسکول کے کراس میں نامعلوم افراد نے ایک رکشے والے پر فائرنگ کی جس سے رکشہ والا زخمی ہوگیا ،زخمی شخص کو سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

دریں اثناء دکی میں کوئلے کی کان میں مٹی کا تودا گرنے سے ایک کانکن ھلاک ہوگیا ۔ انتظامیہ کے مطابق ہفتہ کو دکی کے علاقے
ایریا میں کوئلہ کان میں کام کے دوران مٹی کا تودا گرنے سے محمد رمضان نامی کانکن ھلاک ہوگیا ۔

انتظامیہ نے نعش کو تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کردیا ۔ جہاں ضروری کارروائی کے بعد نعش کو آبائی علاقے قلعہ سیف اللہ روانہ کر دیا گیا ۔
جبکہ اس واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 17:52


تمپ پاکستانی فورسز چوکی پر مسلح افراد کا حملہ

ہفتہ ، 11 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

کیچ( نامہ نگار ) بلوچستان ضلع کیچ کے علاقہ تمپ آزیان میں مسلح افراد نے پاکستانی چوکی کو حملے میں نشانہ بنایا ۔

بتایا جارہاہے کہ آج عصر کے وقت فورسز چوکی پر حملہ کیا گیا ۔خدشہ ہے کہ فورسز کو جانی مالی نقصان پہنچا ہوگا ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1878137720444227897?t=8XsRj5VM3ktSfnAueXnI5A&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 17:45


گْوادر پاکستانی فورسز نے دو نوجوانوں کو جبری لاپتہ کردیا

ہفتہ ، 11 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

گوادر ( مانیٹرنگ ڈیسک ) گوادر سے پاکستانی فورسز نے رواں مہینے نو تاریخ کو ڈیزل ڈپو پر کام کرنے والے دو مزدوروں گنی ولد نوربخش سکنہ ہوت آباد اور ￶سید ولد حسین سکنہ خیر آباد کو حراست میں لیکر بعد ازاں لاپتہ کردیا ، جس کے بعد وہ لاپتہ ہیں ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1878135838371942667?t=5ceJ-HEYsY0wWJLQr-VyfA&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 17:24


نوشکی معدنیات لے جانے والی گاڑیوں پر حملہ ایک ٹر کو نذر آتش کردیا۔

ہفتہ ، 11 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

نوشکی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے بدل کاریز کراس پر معدنیات لے جانے والی تین گاڑیوں کو حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آوروں نے ایک گاڑی کو آگ لگا دی جبکہ دیگر دو گاڑیوں کو فائرنگ کرکے شدید نقصان پہنچا یا-

https://x.com/rzurduZBC/status/1878130178284544167?t=puzqsfQipGDwEpsqj-ncbQ&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 15:24


حب جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلے احتجاجی کیمپ دوسرے روز بھی جاری

ہفتہ ، 11 جنوری، 2025 / زرمبش اردو


https://urdu.zrumbesh.com/13562/

حب چوکی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) حب جبری لاپتہ جنید حمید اور یاسر حمید کے جبری گمشدگیوں کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ دوسرے روز جاری، جبری لاپتہ چاکر بگٹی، شبیر بلوچ اور راشد حسین و دیگر کے لواحقین بھی کیمپ میں موجود ہیں ، جبکہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماء شاہ زیب نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 14:31


https://urdu.zrumbesh.com/13557/


کیچ ،سبی ،تین افراد جبری لاپتہ ، ایک بازیاب

ہفتہ ، 11 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

کیچ ،سبی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے پاکستانی فورسز نے دو افراد کو جبری لاپتہ کردیا جبکہ ایک نوجوان شدید تشدد کے بعد بازیاب ہوگیا ہے ۔

تفصیلات کے ارشاد احمد نامی نوجوان کو افتخار میڈیکل تربت سے پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کیا ہے۔

دوسرے لاپتہ نوجوان کی شناخت 17 سالہ نواز نادل کے نام سے ہوا ہے، اور بی آر سی کالج میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے جنہیں پاکستانی فورسز نے گمشاد ہوٹل سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔

علاوہ ازیں شاہ زیب ولد اللہ داد جس کو رواں ماہ سات تاریخ کو پاکستانی فورسز نے گھر سے جبری لاپتہ کیا تھا آج بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا ہے ۔ تاہم شدید تشدد سے اسکی حالت غیر بتائی جاتی ہے،

دریں اثناء پاکستانی فورسز نےسبی بولان مسافر خانہ سے تقریبا رات نو بجے 19 نومبر 2024 کو
گل حسن صابر ولد کھٹا خان نامی نوجوان کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیاتھا۔

لواحقین نے نوجوان کی جبری گمشدگی کی تصدیق آج کی ہے اور کہاہے کہ ناگزیر وجوہات کی بناپر ہم نے خبر جاری کرنے میں دیر کردی ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 13:32


گوادر: جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہونے والا نوجوان لیویز اہلکار قتل

ہفتہ، 11 جنوری، 2024 / زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13554/

گوادر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہونے کے بعد بازیاب ہونے والے نوجوان کو نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر قتل کردیا۔

قتل ہونے والے لیویز اہلکار کی شناخت ذکریا ولد زہیر کے نام سے ہوئی ہے جو لیویز فورس میں بطور ملازم اپنے ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔

حال ہی میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدہ بھی ہوا تھا جو بعدزاں رہا ہوا۔ رہائی کے بعد آج نامعلوم مسلح افراد نے انہیں فائرنگ کرکے انہیں قتل کردیا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 11:01


بی ایل ایف کے ماہانہ مگزین “اسپر” کا چوتھا شمارہ شائع

ہفتہ، 11 جنوری، 2024 / زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13547/

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ماہانہ میگزین اسپر کا چوتھا شمارہ شائع ہو گیا ہے۔

اس حوالے بی ایل ایف نے بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے تحت آشوب پبلیکیشن کی جانب سے بلوچ سرمچاروں اور بلوچ نوجوانوں کی سیاسی و نظریاتی تربیت کے لئے ماہنامہ اسپر کا شمارہ نمبر چہارم شائع کردیا گیا ہے۔ اس شمارے میں بلوچی اور اردو کالم کو شامل کیا گیا ہے، اسکے علاوہ اداریہ، ڈاکٹر اللہ نذر کا پیغام، بی ایل ایف کی ماہانہ کاروائیوں کی رپورٹ اور تجزیہ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین کو ہماری یہ کوشش پسند آئیگی اور ہمیں اپنے بہترین آرا سے نواز کر میگزین کو مذید بہتر بنانے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 08:42


مزاحمت کا ستون: بلوچ قومی جدوجہد سے 50 سالہ وابستگی

تحریر: مھلب کمبر بلوچ



https://urdu.zrumbesh.com/13544/



میرے بابا، استاد واحد کمبر، اسکول کے زمانے سے ہی قومی شعور رکھتے تھے۔ جب وہ کراچی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے، تو وہ محض ایک عام طالب علم نہیں تھے بلکہ ایک بصیرت رکھنے والے قومی جہدکار کی طرح اپنے مشن پر کاربند تھے۔ ان کے لیے تعلیم محض ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ ایک ایسا راستہ تھی جس کے ذریعے وہ خود کو قومی حقوق کی جدوجہد کے لیے تیار اور اہل بنا سکیں۔

یہی وہ سوچ تھی جس نے میرے بابا کو ہمیشہ بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم و ستم اور سفاکیت کے خلاف مضطرب رکھا۔ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے زمانے میں ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ علم کو اس پختہ عزم کے ساتھ حاصل کریں گے تاکہ اپنی قومی مزاحمت کا ایک ستون بن سکیں۔

میرے بابا کی زندگی میں 1970 کی دہائی ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ انہوں نے بلوچ طلبہ سیاست میں شمولیت اختیار کی اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد نے بلوچ نوجوانوں میں سیاسی شعور کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ انہی کاوشوں نے نوجوانوں میں مزاحمت اور آگاہی کا احساس اجاگر کیا۔ تاریخ میں ماسٹرز ڈگری اور ایک مضبوط سیاسی وژن کے ساتھ، وہ مکران واپس آئے اور اپنی مزاحمتی سوچ کو پورے بلوچستان میں پھیلانے لگے۔



ایک استاد اور معلم کی حیثیت سے واحد کمبر کی اپنی قوم کے لیے وابستگی سیاست تک محدود نہیں تھی۔ انہوں نے کئی سالوں تک تمپ میں استاد کی حیثیت سے اپنی قوم کے بچوں کو مفت تعلیم دی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ، وہ اپنی سیاسی جدوجہد کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی دوران، انہیں "استاد" کا لقب دیا گیا، جو ان کی نوجوانوں کو تعلیم اور قومی شعور دینے کی گہری لگن کا عکاس ہے۔



1980 کی دہائی کے اوائل تک، استاد واحد کمبر کی سیاسی سرگرمیاں بلوچستان کے مختلف علاقوں تک پھیل چکی تھیں۔ انہوں نے بلوچ وسائل کے استحصال اور اپنی قوم کو درپیش منظم جبر کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے ملاقاتوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا۔ استاد واحد کمبر کا پختہ یقین تھا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مزاحمت ہے۔اس قابض کے خلاف مزاحمت جو بلوچ قوم کی شناخت اور حقوق کو مٹانے کی واضح کوشش کر رہا تھا۔



ہمارے بابا کی ترجیحات ابتدا سے ہی واضح تھیں، سب سے پہلے قومی بقا اور قومی شناخت۔ انہوں نے ان دونوں کی حفاظت کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جسے اکثر لوگوں نے "دیوانہ پن" قرار دیا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں، جب عام لوگ سیاسی معاملات سے کٹے ہوئے تھے اور سیاست موقع پرستوں کے قبضے میں تھی لیکن بلوچستان کے لیے واحد کمبر کی غیر متزلزل وابستگی نے ان تمام خیالات کو غلط ثابت کر دیا۔



آج بھی، پیرانہ سالہ اور متعدد امراض کے باوجود ہمارے بابا اپنی قوم کی کھوئی ہوئی شناخت بحال کرنے کے مشن پر ثابت قدم ہیں۔ ان کا سفر، جسے استقامت، جدوجہد اور قربانی کا عملی نمونہ ہے، بلوچ قوم کے لیے امید اور مزاحمت کی ایک دائمی علامت کے طور پر قائم رہے گا۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے بہادر بابا زندان میں بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 07:34


https://urdu.zrumbesh.com/13538/

نوید حمید ایک ماہ گزرنے باوجود ورثاء کوانصاف نہیں ملا

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

کیچ ( پریس ریلیز ) سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ نوید حمید کی ھلاکت کو ایک ماہ گزرگیا مگر ہلخانہ کو انصاف نہیں ملا ۔ ان کے بھانجے ان کی یاد میں ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے آتے ہیں اور ان کے پیغام اور قربانی کو یاد کرتے ہیں۔ ان بچوں کے بنائے گئے فتح کے نشان ان کے ماموں کی بہادری اور اس مشن پر یقین کی ایک علامت ہیں جس کے لیے وہ کھڑے رہے۔ اگرچہ ان کے دل غم سے بھرے ہیں، لیکن وہ انہیں فخر کے ساتھ ایک ایسے شہید کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے اپنی قوم اور لوگوں کے انصاف کے لیے اپنی جان دی۔

انھوں نے کہاہے کہ اس افسوسناک واقعے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لیکن نوید کے خاندان کو اب تک وہ انصاف نہیں ملا جس کے وہ حقدار ہیں۔ حکام کی خاموشی، جو نہ تحقیقات کر رہے ہیں نہ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں، بلکہ ان کے درد میں مزید اضافہ کر رہے ہے۔ یہ غفلت نہ صرف نوید کے خاندان کے لیے بلکہ انصاف اور انسانیت پر یقین رکھنے والے تمام لوگوں کی توہین ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ ہمیں اس ناانصافی کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے۔ نوید کی کہانی ہم سب کے لیے ایک پکار ہے کہ ہم اکٹھے ہوں اور انصاف کا مطالبہ کریں۔ نوید کے لیے انصاف ہر اس بلوچ کے لیے انصاف ہے جو جبر اور خوف سے آزاد زندگی کا خواب دیکھتا ہے۔ ہم نوید ، اس کے خاندان، اور ان تمام لوگوں کے انصاف لیے لڑیں۔ جو ایسی ہی جدوجہد کا سامنا کرتے ہیں، اور ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

11 Jan, 07:34


https://urdu.zrumbesh.com/13541/

بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے بلوچستان بھر میں کُتب میلوں کا سلسلہ جاری ہے ۔بساک

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( پریس ریلیز ) بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ بی وائی سی کی طرف سے بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے بلوچستان بھر میں کُتب میلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تنظیم کی جانب سے نئے سال کے آغاز کے موقع پر بلوچستان بھر میں کُتب میلوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ کُتب میلے بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے بلوچستان کے مختلف شہروں میں جاری ہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ آج بروز 10 جنوری کوہلو، کراچی، ملیر، سیوی، شال اور اوستہ محمد میں کتب میلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان کُتب میلے طلباء و طالبات، سیاسی ءُ ￶سماجی ادبی شخصیات سمیت عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے اپنے پسند کی کتابیں خریدیں۔

اسی طرح بلوچستان کتاب کاروان کے کُتب میلے کل بروز 11 جنوری سیوی، کراچی، ملیر، مستونگ، تونسہ، خاران اور کوہلو میں انعقاد کیا جائے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 16:15


https://urdu.zrumbesh.com/13536/

کولپور، زہری، زامران، قلات اور حب حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے کولپور، زہری، زامران، قلات اور حب میں سات مختلف کاروائیوں میں قابض پاکستانی فوج، اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی، ڈپٹی کمشنر آفس اور پولیس تھانے کو نشانہ بنایا اور مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کرکے فورسز کے چوکی کو قبضے میں لیکر ان کا اسلحہ ضبط کیا جبکہ استحصالی کمپنی کے فیکٹری کو تباہ کردیا۔
 
ترجمان نے کہا ہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے گذشتہ شب کولپور میں مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کی، یہ ناکہ بندی آٹھ بجے سے شب گیارہ بجے تک جاری رہی، اس دوران سرمچاروں نے شاہراہ پر گاڑیوں کی سنیپ چیکنگ کی۔
 
انہوں نے کہا ہےکہ اس دوران سرمچاروں کے ایک اور دستے نے شاہراہ پر قائم لیویز چوکی کو قبضے میں لےلیا اور وہاں موجود چار اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا جن کو بعدازاں بلوچ ہونے کے ناطے تنبیہہ کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ فورسز اہلکاروں سے تین عدد کلاشنکوف قبضے میں لیا گیا۔
 
ترجمان نے کہا ہےکہ سرمچاروں کے تیسرے دستے نے مذکورہ مقام پر استحصالی تعمیراتی کمپنی کے تمام مشینری کو نذرآتش کرکے تباہ کردیا۔

انہوں نے کہا ہےکہ آج مغرب کے وقت بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے زہری میں چشمہ کے مقام اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول آئی آی ڈی حملے میں نشانہ بنایا۔

ترجمان نے کہا ہےکہ اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ خضدار شہر سے کیو آر ایف کے ہمراہ چوکیوں کے دورے پر پہنچا تھا۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے 8 جنوری کو زامران کے علاقے کنٹگان میں ایک آئی ای ڈی حملے میں قابض پاکستانی فوج کے پیدل اہلکاروں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک اہلکار موقع پر ہلاک ہوگیا۔
 
ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے ایک اور کاروائی میں منگل کی شب قلات شہر میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو دستی بم حملے میں نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں دفتر کی عمارت کو نقصان پہنچا۔
 
انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے گذشتہ شب حب شہر میں پولیس تھانے کے مرکزی گیٹ پر تعینات اہلکاروں کو دستی بم حملے میں نشانہ بنایا۔
 
انہوں نے کہا ہےکہ بلوچ لبریشن آرمی ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 15:41


https://urdu.zrumbesh.com/13533/

مستونگ کل کے ریلی میں بلوچستان کے شہیدوں کے قبر پر حاضری دے کر بلوچی چادر کشائی اور دعا کی جائے گی۔ بی وائی سی

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

مستونگ ( پریس ریلیز ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اعلامیہ مطابق کل پرانا بس اڈہ نزد عید گاہ مستونگ سٹی سے کھڈ کوچہ تک ،صبح 11 بجے
بی وائی سی احتجاجی ریلی ساروان ریجن مستونگ
کے زیر اہتمام نکالی جائے گی ۔

انھوں نے مزید کہاہے کہ ریلی کی ر ہنمائی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی قیادت خود کرے گی،
مستونگ کے باشعور عوام سے گزارش ہے کہ اس ریلی میں بھر پور شرکت کر کہ اس استقبال کو تاریخ ساز بنائی جائے ریلی کھڈکوچہ سے واپسی شہدائے دتو قبرستان پر اختتام پذیر ہوگا۔

ترجمان نے آخر میں کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ان تمام تر بلوچ فرزندان اور ان کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آگاہی مہم کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مستونگ ، قلات ، منگوچر اور شال سے ریاستی مظالم کا شکار ہونے والے شہدا کے آرام گاہوں میں ریلیوں کی صورت میں حاضری دی جائیںگی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 15:00


دلبندین ڈاکٹر ماہ رنگ کی بلوچ قوم سے 25 جنوری کو قومی اجتماع میں بھرپور شرکت کی اپیل

جمعہ ، 10 جنوری ،2025 / زرمبش اردو


https://urdu.zrumbesh.com/13531/


شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں قوم سے 25 جنوری کودالبندین میں قومی اجتماع میں بھرپور شرکت کی اپیل کرتے ہوئےکہا ہےکہ بلوچستان ایک ایسی سرزمین بن چکی ہے جہاں روز بروز بربریت، سفاکیت، اور متشدد کارروائیوں کی انتہا ہر طرف جھلکتی ہے۔ ہر گزرتے دن کسی ماں سے اس کا بچہ چھین لیا جاتا ہے اور پھر قید خانوں میں رکھنے کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش کو لاوارثوں کی طرح ویرانوں اور بیابانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ کسی ایدھی سنٹر کے ہسپتال میں پڑ کر “لاوارث” کا ٹائٹل اپنے نام کر کے گمنامی کے ساتھ دفنائی جاتی ہے۔ بعض اوقات سالہا سال عقوبت خانوں میں رکھ کر اس کی انسانی پہچان چھین لی جاتی ہے اور اسے انسانیت سوز اور وحشت ناک اذیتوں سے دوچار کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہر گزرتے دن ایک ایسا دردناک واقعہ سامنے آتا ہے جس میں پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے کسی بلوچ خاندان کے گھر پر چھاپہ مار کر عورتوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور مردوں کو جبراً اغوا کر لیتے ہیں۔ ایک سوچے سمجھے اور منظم منصوبے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کو جبراً ماتم زدہ اور عذاب خانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ بلوچ قوم کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ظالم اور وحشی ریاستی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہےکہ دوسری جانب، کئی سالوں سے پاکستانی فوج اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ کے درندے جس بے دردی سے ہمارے ہزاروں پیاروں کو لاپتہ کرنے کے بعد مسخ کرکے غیر انسانی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر مذہبی انداز میں لاوارث سمجھ کر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گمنام قبرستانوں میں دفنا رہے ہیں، اس کا مقصد بلوچ قوم کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ اپنی ہی سرزمین پر نہ صرف لاوارث ہیں بلکہ ان کی زندگی و موت کا فیصلہ بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ظالمانہ عمل درحقیقت ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ اس سرزمین پر ہماری حیثیت جانوروں سے زیادہ کچھ نہیں۔

بی وائی سی رہنما نے کہا ہےکہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنی غیر قانونی طاقت کا رعب جمانے اور بلوچ سرزمین کے وسائل کا بے دردی سے استحصال کرنے کے لیے ایک منظم منصوبہ بنا چکے ہیں، جس کے تحت بلوچ قوم کی نسل کشی کو دوام دینا ان کے منصوبے کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ بحیثیت بلوچ قوم، ہم ایک ایسی لازوال تاریخ اور تہذیب کے مالک ہیں جس میں مزاحمت ہمیشہ سرِفہرست رہی ہے۔ ہم نے ایک زندہ اور جاوید قوم کی حیثیت سے ہزاروں سال سے کسی بھی ظالم، جابر، وحشی ریاست یا قابض قوت کے سامنے سر نہیں جھکایا بلکہ ہمیشہ مزاحمت کا پرچم بلند رکھا۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیشہ مزاحمت کی راہ اپناتے ہوئے دشمنوں کو یہ پیغام دیا کہ نہ وہ اور نہ ہی ان کی سرزمین لاوارث ہے۔ ہمیں اسی وراثت کو زندہ رکھنا ہے اور مزاحمتی طرز عمل کے ذریعے اپنی قوم کو متحد کرکے ریاست سمیت دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم اس سرزمین کے وارث ہیں اور ایک بہادر قوم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی بنیادوں پر جینے کا حق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہےکہ ہم لاوارث نہیں ہیں کہ پاکستانی فوج اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے ہمارے پیاروں کو مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں گمنامی کے ساتھ دفنائیں۔ آج اگر ہم اس وحشیانہ نسل کشی کے خلاف خاموش رہے اور اس ظلم و جبر کو ناقابل تسخیر سمجھ لیا تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی آگ میں جھلس جائیں گی یا اجتماعی قبروں کا شکار ہو جائیں گی اور ہماری ہزاروں سال پرانی شناخت مٹی میں مل جائے گی۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہےکہ لیکن اس وحشیانہ نسل کشی کو خاموشی کے ساتھ قبول کرنا بحیثیت قوم ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے گزشتہ روز مستونگ کے علاقے دشت میں اپنے گمشدہ پیاروں کی اجتماعی قبروں کے سامنے صرف ایک پریس کانفرنس نہیں بلکہ ایک عہد کیا ہے کہ نہ یہ قبریں لاوارث ہیں اور نہ ہی بلوچ سرزمین لاوارث ہے۔ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کی وراثت کو زندہ رکھ کر جبر و سفاکیت کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔

انھوں نے مزید کہاہےکہ اسی لیے ہم نے اس پریس کانفرنس کے توسط سے یہ اعلان کیا ہے کہ 25 جنوری 2025 کو دالبندین میں ایک قومی اجتماع منعقد کرکے دنیا کے سامنے یہ ثابت کریں گے کہ ہم بلوچ قومی نسل کشی کو نہ برداشت کریں گے اور نہ ہی اس پر خاموش رہیں گے۔ ہم دنیا کو یہ باور کرائیں گے کہ نہ ہماری قوم لاوارث ہے اور نہ ہی ہماری سرزمین۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 15:00


آخر میں انہوں نے کہاہے کہ لہٰذا، ہم تمام بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ 25 جنوری کو دالبندین کے مقام پر منعقد ہونے والے قومی اجتماع میں بھرپور شرکت کرکے یہ ثابت کریں کہ یہ لاوارث نعشیں اور قبریں درحقیقت ہمارے عظیم شہداء ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 14:32


https://urdu.zrumbesh.com/13528/

لاس اینجلس آگ سے 10 ہزار سے زائد مکانات جل کر خاکستر، اموات کی تعداد سات ہوگئی

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ سے اب تک تقریباً 10 ہزار مکانات و عمارتیں جل کر خاکستر ہو گئی ہیں جب کہ ایک لاکھ 80 ہزار افراد نقل مکانی کر گئے ہیں اور مزید دو لاکھ شہریوں کے علاقہ چھوڑنے کا اندیشہ ہے۔

خبروں کے مطابق لاس اینجلس میں منگل کی صبح لگنے والی آگ کو تین روز ہو چکے ہیں ، جو پانچ مختلف مقامات پر بھڑک رہی ہے۔ آگ سے سب سے زیادہ نقصان پیسیفک پیلیسیڈز کے رہائشی علاقے اور پیساڈینا کاؤنٹی کے علاقوں میں ہوا ہے۔ جسے شہر کی تاریخ کی سب سے تباہ کن آگ قرار دیا جا رہا ہے۔

مذکورہ دونوں علاقوں میں آگ کی وجہ سے 34 ہزار ایکٹر رقبہ جل کر خاکستر ہو گیا ہے جب کہ فائر فائٹرز آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

جن مقامات پر آگ بجھا دی گئی ہے وہاں واپس آنے والے رہائشیوں کو راکھ کے سوا کچھ نہیں مل رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مختلف مقامات پر لگنے والی آگ سے حکام کے مطابق سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وہ اس وقت تک ہلاکتوں سے متعلق درست اعداد و شمار نہیں دے سکتے جب تک امدادی ٹیمیں گھر گھر جا کر چھان بین نہیں کر لیتیں۔

بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے پیشِ نظر انہوں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ لونا کے مطابق اس طرح لگ رہا ہے جیسے علاقے میں ایٹامک بم گرایا گیا ہے۔

مختلف مقامات پر لگنے والی آگ کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔ پیسیفک پیلیسیڈز کے علاقے میں آگ کو ‘پیلیسیڈز فائر’ اور پیساڈینا کی آگ کو ‘ایٹون فائر’ کا نام دیا گیا ہے۔

اسی طرح ہالی وڈ ہلز پر لگنے والی آگ کو ‘سن سیٹ فائر’، روینا کی آگ کو ‘لڈیا فائر’ اور سانتا کلیریٹا کی آگ کو ‘ہرسٹ فائر’ کا نام دیا گیا ہے۔

لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا کے مطابق صرف ایٹون فائر کے نتیجے میں چار سے پانچ ہزار مکانات تباہ یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ پیلیسیڈز فائر سے 5300 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے لاس اینجلس کے میئر کیرن باس کا کہنا ہے کہ ہم شہر کی دوبارہ تعمیر کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب صدر جو بائیڈن نے جمعرات کا وعدہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت ملبے کو ٹھکانے لگانے، عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنے اور آفت سے لڑنے والے کارکنوں کو آئندہ 180 دن میں سو فی صد معاوضے کی ادائیگی کرے گی۔

صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اپنے سینئر مشیروں سے ملاقات کے بعد کہا کہ انہوں نے لاس اینجلس کے گورنر اور مقامی عہدیداروں کو کہہ دیا ہے کہ آگ پر قابو پانے کے لیے انہیں جن اخراجات کی ضرورت ہے وہ کریں۔

ریاست کیلی فورنیا کے شہر کالاباسز کے قریب جمعرات کو آگ لگی جو تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کالاباسز کا شمار امریکہ کے مہنگے ترین شہروں میں ہوتا ہے جہاں متعدد سلیبریٹیز رہائش پذیر ہیں۔

لاس اینجلس کاؤنٹی کے حکام نے غلطی سے پوری کاؤنٹی میں مقیم تقریباً 90 لاکھ آبادی کو علاقہ خالی کرنے کا حکم جاری کیا۔ تاہم یہ حکم کینتھ فائر کے علاقے کے لیے تھا جہاں 960 ایکڑ تک اراضی جل چکی ہے۔ بعدازاں حکام کو غلطی کا احساس ہونے پر فوری طور پر درست نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 13:57


ہتھیار کو استعمال میں لارہاہے۔ یہ ظاہر سی بات ہے کہ جن کے پاس لوٹ مار کے بے پناہ وسائل ہو تو وہ علم و ہنر، سائنس ٹیکنالوجی میں سبقت لے سکتاہے۔ لیکن سب سے اولیت ”سرمایہ“ رکھتا ہے اور آج کے اس سرمایہ داری دنیا میں شرح منافع کے ہوس سرمایہ کے ارتکاز کو بڑھاتاہے۔ سرمایہ داری نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت انسانی سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے منافع کی شرح کو بڑھانے اور استحصال کو نئی شکل دینے کے لئے کی
جاتی ہے۔

چین کی حالیہ معاشی شرح نمو بھی استحصال ظلم اور سفاکیت پر قائم ہیں۔جوایک غیر انسانی نظام کی شکل میں انسانیت کو بربریت میں دھکیل رہی ہے۔ حالانکہ کوئی بھی قومی سماج قومی محنت کے بنیاد پر اپنی توازن قائم رکھتاہے۔ ایک قوم یا سماج اپنی محنت، صلاحیت، تعاون اور اورقومی یکجہتی سے ترقی کرتاہے۔ جو فطرت کو زیر استعمال لاکر خود کو آزاد اور زندھ رکھنے کے لئے پیداوار کرتاہے۔ اور ذرائع پیداوار کو ترقی دیتاہے۔ جس سے سماجی ہیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ قومی محنت سے سماج میں خود اعتمادی اور قومی فخر بڑھتاہے۔ ان میں ایک احساس کامیابی اور مشترکہ مقصد کی طرف رجحان پیدا ہوتاہے۔ ترقی کا مفہوم محض طاقت کے استعمال،توسیع پسندی، اجارہ داری یا دوسرے اقوام کے وسائل اور جغرافیہ کے استحصال پر مبنی نہیں ہوتا۔ترقی در اصل ایک سماجی عمل ہوتاہے ۔ترقی اسے نہیں کہتے، کہ ایک غیر ملکی اپنے علاقے یا اثر رسوخ کو بڑھانے کے لئے دوسرے ملکی اقوام پر طاقت کا استعمال کرے۔ چائے وہ جنگ کے زریعہ ہو،سیاسی دباؤ کے شکل میں ہو،یا تذویراتی مفادات کے لے ہو،یا کسی قوم کی نسل کشی پر مبنی ہو۔ اس سامراجی عمل کو ترقی کہنا حقیقی اور زمینی ترقی کی توہین ہے۔ جو بین الاقوامی اور انسانی قوانیں،امن، سلامتی کے خلاف ہیں۔

حقیقی ترقی وہی ہیں جو دوسرے اقوام کے آزادی ان کے انسانی حقوق، ان کے وسائل کے لوٹ مار اور ان کی معاشی اقتصادی اور جغرافیائی استحصال پر مبنی نہ ہو۔ بعض اقوام اب بھی سمجھتے ہوں گے کہ چین امریکہ کے مقابلہ میں ان کے لئے کوئی متبادل مسیحا ثابت ہوگا،ایسا بلکل بھی نہیں ہے ، بلکہ چین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سیاسی، اقتصادی، اور فوجی طاقت اسے ایک نیا سامراجی کھلاڑی بناچکی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں،چین کی عالمی پالیسی اور ناقص اقتصادی عمل ایک سامراجی نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسری ممالک کی سیاست، زمین اور تحریکی پوزیشن میں مداخلت کرنا اس کی سامراجی پالیسیوں کی کھلم کھلاعلامت ہے۔چین کی بلوچستان میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ، اور ان کے اقتصادی اور فوجی مفادات کے تناطرمیں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ چین اپنے مفادات کی تکمیل کے لے بلوچ قوم کے آزادی اور قومی خودمختیاری کو نظر انداز کرکے پاکستان کے ساتھ جنگی شراکت داری میں براہ راست حصہ دار ہے۔ چین کا بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پاکستانی فوجی تعاون کے ذریعہ اپنے پروجیکٹس کا تحفظ بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قومی مفادات کے ساتھ کھلا تضاد ہے ۔

1949سے پہلے چین خود ایک نوآبادی اور مقبوضہ ملک تھا۔اس وقت چین بیک وقت جاپان برطانیہ اور یورپ کے ستم ظریفیوں اور قبضہ کا شکار تھی۔جبکہ کہا یہ جاتاہے،کہ برطانیہ نے چین میں افیون کی اتنی زیادہ مقدار میں سپلائی کہ تاکہ چینی قوم منشیات کے لت میں رہ کر سوجائیں اور اپنی آزادی کے جدوجہد کرنے کے قابل نہ ہو ۔چین اس وقت افیون کی بہت بڑی منڈی بن چکا تھا۔ جبکہ برطانیہ جواس وقت ہندوستان پر قابض تھی۔ اس نے افیون کی پیداوار کے لے ہندوستان کے سرزمین کو چنا۔جہاں برطانیہ کا افیون کی تجارت کے لے اقتصادی مفادات تھے۔وہاں برطانیہ یہ چاہتا تھا کہ چینی افیوں میں لت ہوکر غلامی سے نہ نکلے۔ اس کے علاوہ جاپان نے چین کو کمزور کرنے کے لئے بڑی تعداد میں چینیوں کی نسل کشی کی اور اپنی قبضہ کو دوام دی۔(جاری ہے)اس وقت ہمارے آس پاس چین کی ڈرامائی ترقی کا اس قدر واویلا ہے، جیسے کہ زمین کی ٹیکنوٹک پلیٹس کی حرکت سے زلزلہ یاآتش فشان جیسے قدرتی آفات رونما ہونے سے جو ہنگامہ برپاء ہوتاہے۔ بلکل اسی مانند پنجابی امپرلسٹ،کچھ پاکستانی دانشورزاورچینی گماشتہ اینکرز کے، ساتھ ساتھ پنجابی ساختہ بلوچ جماعتیں، چین کی ڈرامائی ترقی کا خیر مقدم کرتے ہوئے، اسے جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔جیسے چین کی یہ غیرمعمولی ترقی ان کی سیاسی، سماجی،تکنیکی یا انقلابی ترقی ہے۔ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ، دلالی اور کاسہ لیسی کے عوض کمیشنز، تنخواہ، یا ریوینیو کے مد میں دستر خوان کے بھچے کھچے ہڈیوں کا ملنا الگ سی بات ہے۔ لیکن سامراج نہ کھبی کسی کو ترقی دی ہے، اور نہ ہی سامراج کی یہ فطرت میں شامل ہے وہ کسی دوسرے مقبوضہ قوم کی ترقی کے لے کوئی اقدامات کرے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 13:57


نوآبادیاتی اور سامراجی قوتوں نے عموما ترقی کے نام پر ہمیشہ سے اپنے سیاسی اقتصادی اور فوجی مفادات کو تحفظ اور بڑھا وادیاہے۔ مثال کے طور پر برطانوی سامراج نے ہندوستان اور بلوچستان میں اپنی قبضہ کے دوران ترقی کی جو دعوی کئے، ریلوے لائن، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے بنانے کے مقاصد میں ان کے استحصالی پالیسیاں شامل تھیں۔ برطانیہ کے لئے ہندوستان سونے کی چڑیا تھی۔
برطانوی راج کے دوران وہ ہندوستان کے سونے، چاندی ، ریشم چمڑے ، کپاس اور حتی کہ تمام زرائع پیداوار، زراعت، صنعت اور تجارت کو کنٹرول میں رکھ کر اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔وہاں کے خام مال کو سستے داموں میں خرید کر عالمی منڈیوں میں مہنگے داموں میں فروخت کرکے ہندوستانیوں کا سفاکانہ استحصال کیا گیا۔

برطانیہ نے ہندوستان میں ”مغلیہ حکومت“ میں سب سے پہلے ایک سفیر ٹامس کو بھیجا۔ جو ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تھا کہ انگلستان کو ہندوستان میں آزادانہ تجارت کا موقع دیا جائے۔ اس وقت جہانگیر ہندوستان کا سربراہ تھا، انہوں نے اس قسم کے تجارتی معائدے کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ انگلستان جیسے چھوٹے جزیرے کو ہندوستان کے مقابلے میں، اپنا مد مقابل نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن ٹامس نے با رہا کوشش کرتے ہوئے ہندوستان کے ولی عہد شاہجان کے دور میں 1618 میں ایک معائدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہوگئے۔جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کو آزادانہ تجارت کا با ضابطہ پروانہ ملا۔جس نے چند ہی سالوں اور مجموعی طور پر دو سوسالوں میں ہندوستان کے وسائل کو اتنا لوٹا کہ کہ وہاں کے شاہ ان کے وظیفہ خور بن گئے۔

اس سلسلے میں ایک ماہر معاشیات مہناز مرچنٹ کا کہناہے کہ ”انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والی مجموعی مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زر مبادلے کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے“ سترھویں صدی میں ہندوستان تن تنہا دنیا کی 22.6 فی صد دولت پیدا کرنے والا ملک تھا۔جو تمام یورپ کے مجموعی دولت کے برابر تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانیہ راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے جو بھیانک اثرات مرتب ہوئے، وہ بہت خوفناک تھے۔برطانوی راج کے دوران صرف قحط سے تین کروڑ ہندوستانی اور بنگالی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ جو تاریخ کے بدترین سفاکیوں میں سب سے اول رہا۔

ماہرین معاشیات نے ہندوستان میں ہونے والے اس قحط کو
قدرتی آفات کے بجائے برطانوی تجارتی استحصال(commercial expolation )کی علامت قراردی۔
ہندوستان میں آنے والے قحط سے ہندوستاں میں تین کروڑ گلے، سڑے انسانی ڈھانچوں کے حوالہ سے مشہور فلاسفر ویل ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ ”ہندوستان میں آنے والی خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ برطانوی قبضہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد، اور ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہونے والے کسان انہیں ادا نہیں کرسکتے تھے۔۔۔
برطانوی راج مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی“
ان مثالوں سے ظاہر ہوتاں کہ نوآبادیاتی قوتیں وہ جو کچھ بھی ”ترقی“ کے نام پر کرتاہے۔وہ صرف اپنے غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے،اور اپنے نفع اور فائدہ کا سوچتاہے۔

مقبوضہ قوم اپنے ذہن سے یہ غلط فہمی نکال دے کہ سامراجی درندگی کے تحت امن، خوشحالی اور ترقی کا تصور کیاجاسکتا ہو۔ بلکہ ان کی مودجودگی میں مقبوضہ سماج میں نہ صرف انسانی حقوق کی پائمالی ہوتی ہے۔ بلکہ سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی ناہمواری بڑھ جاتی ہیں۔ سامراجی طاقتیں درندہ صفت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے نئے شکار تلاش کرتی ہیں۔ اور یہ شکار ان کی مکروہ مقاصد اور بھو ک کو پورا کرنے کا ذریعہ ہوتاہے۔جو مقبوضہ ملک کے وسائل، زمین اور انسانی قوت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتاہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے؟ کہ بلوچستان اور بلخصوص گوادر بندرگاہ پر چین کے ممکنہ بحری اڈوں یا گوادر ایئر پورٹ کو آپریٹ کرنے، یا چین و پاکستانی اقتصادی راہداری سے، یا تیل و گیس کی تلاش اور کسی سلک روڈ یا ایکسپریس ہائی وے سے بلوچستان یا بلوچ کو کیا فائدہ ہوگا؟اور بلخصوص اس صورت حال میں جب بلوچ وطن خود مقبوضہ ہو۔ جہاں مالک سے معائدات نہیں کئے جارہے ہیں کہ اس سے مشروط طور پر ہمیں کوئی فائدہ ملے، بلکہ قابض یا کرایہ دار سے سودا کیا جارہاہے،اس وقت بھی ممکنہ طور پر گوادر بندرگاہ سے تجارتی مقاصد کی مد میں 90 فیصد چین اپنے پاس رکھے گا،اور 10فیصد پنجابی ریاست کو چوکیداری کے مد میں دیگا۔ بلوچ کے لے اب بھی اس میں کوئی اقتصادی فوائد شامل نہیں ہے، جو کسی کٹھ پتلی حکومت کو ملے۔ ہاں اس دس فیصد سے مقامی دلالی کے لے اجرت کے طور پر نیشنل پارٹی یا اس جیسے کٹھ پتلی وزراء کو ذاتی طور پر شیئر ملے گا۔ لیکن مجموعی طورپر بلوچ کے لئے چینی سامراجی عزائم زہر قاتل اور تریاق ثابت ہوگی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 13:57


پیداوار کرتاہے۔ اور ذرائع پیداوار کو ترقی دیتاہے۔ جس سے سماجی ہیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ قومی محنت سے سماج میں خود اعتمادی اور قومی فخر بڑھتاہے۔ ان میں ایک احساس کامیابی اور مشترکہ مقصد کی طرف رجحان پیدا ہوتاہے۔ ترقی کا مفہوم محض طاقت کے استعمال،توسیع پسندی، اجارہ داری یا دوسرے اقوام کے وسائل اور جغرافیہ کے استحصال پر مبنی نہیں ہوتا۔ترقی در اصل ایک سماجی عمل ہوتاہے ۔ترقی اسے نہیں کہتے، کہ ایک غیر ملکی اپنے علاقے یا اثر رسوخ کو بڑھانے کے لئے دوسرے ملکی اقوام پر طاقت کا استعمال کرے۔ چائے وہ جنگ کے زریعہ ہو،سیاسی دباؤ کے شکل میں ہو،یا تذویراتی مفادات کے لے ہو،یا کسی قوم کی نسل کشی پر مبنی ہو۔ اس سامراجی عمل کو ترقی کہنا حقیقی اور زمینی ترقی کی توہین ہے۔ جو بین الاقوامی اور انسانی قوانیں،امن، سلامتی کے خلاف ہیں۔

حقیقی ترقی وہی ہیں جو دوسرے اقوام کے آزادی ان کے انسانی حقوق، ان کے وسائل کے لوٹ مار اور ان کی معاشی اقتصادی اور جغرافیائی استحصال پر مبنی نہ ہو۔ بعض اقوام اب بھی سمجھتے ہوں گے کہ چین امریکہ کے مقابلہ میں ان کے لئے کوئی متبادل مسیحا ثابت ہوگا،ایسا بلکل بھی نہیں ہے ، بلکہ چین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سیاسی، اقتصادی، اور فوجی طاقت اسے ایک نیا سامراجی کھلاڑی بناچکی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں،چین کی عالمی پالیسی اور ناقص اقتصادی عمل ایک سامراجی نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسری ممالک کی سیاست، زمین اور تحریکی پوزیشن میں مداخلت کرنا اس کی سامراجی پالیسیوں کی کھلم کھلاعلامت ہے۔چین کی بلوچستان میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ، اور ان کے اقتصادی اور فوجی مفادات کے تناطرمیں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ چین اپنے مفادات کی تکمیل کے لے بلوچ قوم کے آزادی اور قومی خودمختیاری کو نظر انداز کرکے پاکستان کے ساتھ جنگی شراکت داری میں براہ راست حصہ دار ہے۔ چین کا بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پاکستانی فوجی تعاون کے ذریعہ اپنے پروجیکٹس کا تحفظ بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قومی مفادات کے ساتھ کھلا تضاد ہے ۔

1949سے پہلے چین خود ایک نوآبادی اور مقبوضہ ملک تھا۔اس وقت چین بیک وقت جاپان برطانیہ اور یورپ کے ستم ظریفیوں اور قبضہ کا شکار تھی۔جبکہ کہا یہ جاتاہے،کہ برطانیہ نے چین میں افیون کی اتنی زیادہ مقدار میں سپلائی کہ تاکہ چینی قوم منشیات کے لت میں رہ کر سوجائیں اور اپنی آزادی کے جدوجہد کرنے کے قابل نہ ہو ۔چین اس وقت افیون کی بہت بڑی منڈی بن چکا تھا۔ جبکہ برطانیہ جواس وقت ہندوستان پر قابض تھی۔ اس نے افیون کی پیداوار کے لے ہندوستان کے سرزمین کو چنا۔جہاں برطانیہ کا افیون کی تجارت کے لے اقتصادی مفادات تھے۔وہاں برطانیہ یہ چاہتا تھا کہ چینی افیوں میں لت ہوکر غلامی سے نہ نکلے۔ اس کے علاوہ جاپان نے چین کو کمزور کرنے کے لئے بڑی تعداد میں چینیوں کی نسل کشی کی اور اپنی قبضہ کو دوام دی۔(جاری ہے)

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 13:57


اس سے پہلے 2002 سے سیندھک سے نکلنے والے سونا،تانبا سلفر اور لیڈ جیسے قیمتی دھاتوں اور اس عظیم معدنی ذخائر کی لوٹ سے بلوچ قوم کو کیا فائدہ ملا؟ کہ اب سی پیک سے ملے گا چینی کمپنی چائنا نیشنل گولڈ گروپ کارپوریشن(CNGGC) نے بلوچ معدنی ذخائر کو لوٹنے کے علاوہ ہمیں کیا دیا؟اس سے صرف چین کے صنعتی ترقی میں گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اور آج چین جس ترقی کے نہج پر ہے، اس میں پچاس فیصد بلوچستان کے معدنی ذخائر اور بلخصوص سیندھک کا کردارہے۔ سیندھک کے آس پاس انسانی آبادی کو سونے کے اس پہاڑ سے کیا ملا؟ وہی پھٹے جوتے اور کپڑے، غربت،تنگ دستی اور سب سے بڑھ کر غلامی!جو غربت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اب نیشنل پارٹی جس سی پیک پروجیکٹ میں چین کی ساتھ تعاون کے لے معائدہ جاتی سازش میں شراکت دار بننے جارہاہے۔تو یہ بلوچ قوم کی اجتماعی خودکشی پر دستخط کی مترادف ہوگی۔ اگر نیشنل پارٹی کو بلوچ دشمن پارٹی نہ کہا جائے، تو کیااسے پھولوں کا ہار پہنائے، جو بلوچ قبضہ گیریت اور
نسل کشی کو دوام دینے کے لئے سامراجی سہولت کار کا کردارادا کررہاہے۔ جو چین کے معاشی انجن کو ہمارے زمین،جغرافیہ اور بلوچ خطے کی
تذویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھاکر ایندھن دینا چاہتے ہیں۔ اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نیشنل پارٹی بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر چین و پاکستان جنگی شراکت داری اور سازشوں کا ایک اکائی ہے۔ معذرت کے ساتھ نیشنل پارٹی پنجابی سٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہتے ہوئے،جس طرح چینی پروجیکٹس کی حفاظت کے لئے خود کو بطور سہولت کار اس انداز میں پیش کررہاہے، جیسے ایک شخص اپنے ملکیت یا لوٹ مار کے تحفظ کے لئے ایک وحشی کتے کو زنجیر ڈال کر رکھ دیتاہے۔ یہ مثال نیشنل پارٹی کے کردار پر صادق آتی ہے۔ جسے زنجیروں سے باندھ کر ان کے سامنے بچھے کھچے ہڈیون کو پھینک دیا جاتاہے تاکہ وہ صرف بھونکتارہے۔

اگر چین کی ترقی کی موجودہ ترقی کے اسباب یا وعوامل پر گہرے سنجیدہ اور ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے، یا چین کے”ڈرامائی معاشی معجزات‘کا جائزہ لیں۔ تو ہمیں اندازہ ہوگا،کہ ا س کے موجودہ معاشی ابھار کے پس منظر میں کونسے نظریات کار فرماہے؟کیا چین کی موجودہ اقتصادی ترقی نیشنلزم کے پالیسیوں سے جڑاہوائے؟ یا یہ سوشلزم کے نظریات کا رہین منت ہے؟ یا یہ سرمایہ داری نظام کی نقالی پر مبنی ہے؟یااس کے موجودہ سٹریٹیجک پوزیشن میں لوٹ مار، قبضہ گیریت اور سامراجی عزائم شامل ہے؟

اگر ہم چین کے موجودہ معاشی پوزیشن پر نظر ڈالیں، تو بلا مبالغہ ہمارے سامنے جو حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ کہ چین کی موجودہ اقتصادی ترقی کے پیچھے اس کے قدرتی، فطری آزادی یا کوئی ارتقائی عوامل یا محنت کار فرما نہیں۔ بلکہ اس کا یہ اقتصادی ابھار ہر زاویہ سے مکمل سامراجیت اور لوٹ مارپر مبنی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سامراجیت کیاہے؟ اور چین بیسویں صدی کا سامراج کیسے بنا؟کیا ماؤزے تنگ کے قیادت میں اور چینی نیشنلزم کی بنیاد پر آزاد ہونے والے چین کو سامراج کے القاب دینا درست ہوگا؟

اگر چین کے سامراجی ہتکھنڈوں پر نظر ثانی کیا جائے، تو اس میں کوئی مغالطہ نہیں، کہ سامراجیت کا روپ اختیار کرنے والا یہ بھوکا اژدہا نہ صرف بلوچستان پر اپنا پنجہ گاڑھنے اور بحیرہ بلوچ کو اپنے تجارتی مقاصد کے لے استعمال میں لانا چاہتاہے۔ بلکہ کئی دیگر خطے ہیں،جن پر نہ صرف اپنی ملکیت کا دعوی، کرکے اسے اپنے اکائی سمجھتاہے، بلکہ ان کا غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی استحصال کررہاہے۔ ان کے قدرتی
و سائل جیسے قیمتی معدنیات، آبی ذخائر،تیل گیس اور دیگر قدرتی ذخائر کو بے دریغ لوٹ رہاہے۔ جس میں 50فیصد بلوچستان کے اثاثے اور50فیصد دیگر خطوں کے وسائل اور اثاثے شامل ہیں۔جو چین کے مالیاتی سرمائے کے حجم میں اضافے کا سبب ہے۔ چین کی اس معاشی مہم جوئی میں ان کی فطری محنت، صلاحیت شامل نہیں۔ بلکہ وہ پاگلوں کی طرح اپنی معیشت کی حیات نو کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں نہ صرف سرمایہ کاری کررہاہے۔ بلکہ 90فیصد ریوینیو کا مالک بن کر لانگ ٹرم اقتصادی ہتھیار کو استعمال میں لارہاہے۔ یہ ظاہر سی بات ہے کہ جن کے پاس لوٹ مار کے بے پناہ وسائل ہو تو وہ علم و ہنر، سائنس ٹیکنالوجی میں سبقت لے سکتاہے۔ لیکن سب سے اولیت ”سرمایہ“ رکھتا ہے اور آج کے اس سرمایہ داری دنیا میں شرح منافع کے ہوس سرمایہ کے ارتکاز کو بڑھاتاہے۔ سرمایہ داری نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت انسانی سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے منافع کی شرح کو بڑھانے اور استحصال کو نئی شکل دینے کے لئے کی
جاتی ہے۔

چین کی حالیہ معاشی شرح نمو بھی استحصال ظلم اور سفاکیت پر قائم ہیں۔جوایک غیر انسانی نظام کی شکل میں انسانیت کو بربریت میں دھکیل رہی ہے۔ حالانکہ کوئی بھی قومی سماج قومی محنت کے بنیاد پر اپنی توازن قائم رکھتاہے۔ ایک قوم یا سماج اپنی محنت، صلاحیت، تعاون اور اورقومی یکجہتی سے ترقی کرتاہے۔ جو فطرت کو زیر استعمال لاکر خود کو آزاد اور زندھ رکھنے کے لئے

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 13:57


https://urdu.zrumbesh.com/13526/

چمن ،اور زہری فورسز پر ریموٹ کنٹرول بم حملے 4 افراد زخمی

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

چمن(مانیٹر نگ ڈیسک) چمن ریلوے سٹیشن روڈ پر سیکیورٹی فورسز اور زہری چشمہ میں لیویز کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم حملوں میں نشانہ بنایا گیا، 4 افراد زخمی ۔ تفصیلات کے مطابق ریلوے سٹیشن روڈ پر پاکستانی فورسز کی گاڑی کے گزرنے کے دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا ۔ جس کے بعد فورسز نے علاقے کو مکمل گھیرے میں لے لیا ۔
دوسری جانب خضدار تحصیل زہری سے اطلاعات ہیں کہ زہری چشمہ میں لیویز فورس کی گاڑی کو ریموٹ بم حملے میں نشانہ بنایا گیا ہے ۔

تاہم نقصانات بارے معلومات نہیں مل سکے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 13:57


کو آپریٹ کرنے، یا چین و پاکستانی اقتصادی راہداری سے، یا تیل و گیس کی تلاش اور کسی سلک روڈ یا ایکسپریس ہائی وے سے بلوچستان یا بلوچ کو کیا فائدہ ہوگا؟اور بلخصوص اس صورت حال میں جب بلوچ وطن خود مقبوضہ ہو۔ جہاں مالک سے معائدات نہیں کئے جارہے ہیں کہ اس سے مشروط طور پر ہمیں کوئی فائدہ ملے، بلکہ قابض یا کرایہ دار سے سودا کیا جارہاہے،اس وقت بھی ممکنہ طور پر گوادر بندرگاہ سے تجارتی مقاصد کی مد میں 90 فیصد چین اپنے پاس رکھے گا،اور 10فیصد پنجابی ریاست کو چوکیداری کے مد میں دیگا۔

بلوچ کے لے اب بھی اس میں کوئی اقتصادی فوائد شامل نہیں ہے، جو کسی کٹھ پتلی حکومت کو ملے۔ ہاں اس دس فیصد سے مقامی دلالی کے لے اجرت کے طور پر نیشنل پارٹی یا اس جیسے کٹھ پتلی وزراء کو ذاتی طور پر شیئر ملے گا۔ لیکن مجموعی طورپر بلوچ کے لئے چینی سامراجی عزائم زہر قاتل اور تریاق ثابت ہوگی۔
اس سے پہلے 2002 سے سیندھک سے نکلنے والے سونا،تانبا سلفر اور لیڈ جیسے قیمتی دھاتوں اور اس عظیم معدنی ذخائر کی لوٹ سے بلوچ قوم کو کیا فائدہ ملا؟ کہ اب سی پیک سے ملے گا چینی کمپنی چائنا نیشنل گولڈ گروپ کارپوریشن(CNGGC) نے بلوچ معدنی ذخائر کو لوٹنے کے علاوہ ہمیں کیا دیا؟اس سے صرف چین کے صنعتی ترقی میں گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اور آج چین جس ترقی کے نہج پر ہے، اس میں پچاس فیصد بلوچستان کے معدنی ذخائر اور بلخصوص سیندھک کا کردارہے۔

سیندک کے آس پاس انسانی آبادی کو سونے کے اس پہاڑ سے کیا ملا؟ وہی پھٹے جوتے اور کپڑے، غربت،تنگ دستی اور سب سے بڑھ کر غلامی!جو غربت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اب نیشنل پارٹی جس سی پیک پروجیکٹ میں چین کی ساتھ تعاون کے لے معائدہ جاتی سازش میں شراکت دار بننے جارہاہے۔تو یہ بلوچ قوم کی اجتماعی خودکشی پر دستخط کی مترادف ہوگی۔ اگر نیشنل پارٹی کو بلوچ دشمن پارٹی نہ کہا جائے، تو کیااسے پھولوں کا ہار پہنائے، جو بلوچ قبضہ گیریت اور
نسل کشی کو دوام دینے کے لئے سامراجی سہولت کار کا کردارادا کررہاہے۔ جو چین کے معاشی انجن کو ہمارے زمین،جغرافیہ اور بلوچ خطے کی
تذویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھاکر ایندھن دینا چاہتے ہیں۔ اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نیشنل پارٹی بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر چین و پاکستان جنگی شراکت داری اور سازشوں کا ایک اکائی ہے۔

معذرت کے ساتھ نیشنل پارٹی پنجابی سٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہتے ہوئے،جس طرح چینی پروجیکٹس کی حفاظت کے لئے خود کو بطور سہولت کار اس انداز میں پیش کررہاہے، جیسے ایک شخص اپنے ملکیت یا لوٹ مار کے تحفظ کے لئے ایک وحشی کتے کو زنجیر ڈال کر رکھ دیتاہے۔
یہ مثال نیشنل پارٹی کے کردار پر صادق آتی ہے۔ جسے زنجیروں سے باندھ کر ان کے سامنے بچھے کھچے ہڈیون کو پھینک دیا جاتاہے تاکہ وہ صرف بھونکتارہے۔

اگر چین کی ترقی کی موجودہ ترقی کے اسباب یا وعوامل پر گہرے سنجیدہ اور ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے، یا چین کے”ڈرامائی معاشی معجزات‘کا جائزہ لیں۔ تو ہمیں اندازہ ہوگا،کہ ا س کے موجودہ معاشی ابھار کے پس منظر میں کونسے نظریات کار فرماہے؟کیا چین کی موجودہ اقتصادی ترقی نیشنلزم کے پالیسیوں سے جڑاہوائے؟ یا یہ سوشلزم کے نظریات کا رہین منت ہے؟ یا یہ سرمایہ داری نظام کی نقالی پر مبنی ہے؟یااس کے موجودہ سٹریٹیجک پوزیشن میں لوٹ مار، قبضہ گیریت اور سامراجی عزائم شامل ہے؟

اگر ہم چین کے موجودہ معاشی پوزیشن پر نظر ڈالیں، تو بلا مبالغہ ہمارے سامنے جو حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ کہ چین کی موجودہ اقتصادی ترقی کے پیچھے اس کے قدرتی، فطری آزادی یا کوئی ارتقائی عوامل یا محنت کار فرما نہیں۔ بلکہ اس کا یہ اقتصادی ابھار ہر زاویہ سے مکمل سامراجیت اور لوٹ مارپر مبنی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سامراجیت کیاہے؟ اور چین بیسویں صدی کا سامراج کیسے بنا؟کیا ماؤزے تنگ کے قیادت میں اور چینی نیشنلزم کی بنیاد پر آزاد ہونے والے چین کو سامراج کے القاب دینا درست ہوگا؟

اگر چین کے سامراجی ہتکھنڈوں پر نظر ثانی کیا جائے، تو اس میں کوئی مغالطہ نہیں، کہ سامراجیت کا روپ اختیار کرنے والا یہ بھوکا اژدہا نہ صرف بلوچستان پر اپنا پنجہ گاڑھنے اور بحیرہ بلوچ کو اپنے تجارتی مقاصد کے لے استعمال میں لانا چاہتاہے۔ بلکہ کئی دیگر خطے ہیں،جن پر نہ صرف اپنی ملکیت کا دعوی، کرکے اسے اپنے اکائی سمجھتاہے، بلکہ ان کا غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی استحصال کررہاہے۔ ان کے قدرتی
و سائل جیسے قیمتی معدنیات، آبی ذخائر،تیل گیس اور دیگر قدرتی ذخائر کو بے دریغ لوٹ رہاہے۔ جس میں 50فیصد بلوچستان کے اثاثے اور50فیصد دیگر خطوں کے وسائل اور اثاثے شامل ہیں۔جو چین کے مالیاتی سرمائے کے حجم میں اضافے کا سبب ہے۔ چین کی اس معاشی مہم جوئی میں ان کی فطری محنت، صلاحیت شامل نہیں۔ بلکہ وہ پاگلوں کی طرح اپنی معیشت کی حیات نو کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں نہ صرف سرمایہ کاری کررہاہے۔ بلکہ 90فیصد ریوینیو کا مالک بن کر لانگ ٹرم اقتصادی

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 13:57


https://urdu.zrumbesh.com/13518/

نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معائدے

حصہ چہارم۔ تحریر رامین بلوچ

زرمبش مضمون

اس وقت ہمارے آس پاس چین کی ڈرامائی ترقی کا اس قدر واویلا ہے، جیسے کہ زمین کی ٹیکنوٹک پلیٹس کی حرکت سے زلزلہ یاآتش فشان جیسے قدرتی آفات رونما ہونے سے جو ہنگامہ برپاء ہوتاہے۔ بلکل اسی مانند پنجابی امپرلسٹ،کچھ پاکستانی دانشورزاورچینی گماشتہ اینکرز کے، ساتھ ساتھ پنجابی ساختہ بلوچ جماعتیں، چین کی ڈرامائی ترقی کا خیر مقدم کرتے ہوئے، اسے جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔جیسے چین کی یہ غیرمعمولی ترقی ان کی سیاسی، سماجی،تکنیکی یا انقلابی ترقی ہے۔ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ، دلالی اور کاسہ لیسی کے عوض کمیشنز، تنخواہ، یا ریوینیو کے مد میں دستر خوان کے بھچے کھچے ہڈیوں کا ملنا الگ سی بات ہے۔ لیکن سامراج نہ کھبی کسی کو ترقی دی ہے، اور نہ ہی سامراج کی یہ فطرت میں شامل ہے وہ کسی دوسرے مقبوضہ قوم کی ترقی کے لے کوئی اقدامات کرے۔

نوآبادیاتی اور سامراجی قوتوں نے عموما ترقی کے نام پر ہمیشہ سے اپنے سیاسی اقتصادی اور فوجی مفادات کو تحفظ اور بڑھا وادیاہے۔ مثال کے طور پر برطانوی سامراج نے ہندوستان اور بلوچستان میں اپنی قبضہ کے دوران ترقی کی جو دعوی کئے، ریلوے لائن، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے بنانے کے مقاصد میں ان کے استحصالی پالیسیاں شامل تھیں۔ برطانیہ کے لئے ہندوستان سونے کی چڑیا تھی۔
برطانوی راج کے دوران وہ ہندوستان کے سونے، چاندی ، ریشم چمڑے ، کپاس اور حتی کہ تمام زرائع پیداوار، زراعت، صنعت اور تجارت کو کنٹرول میں رکھ کر اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔وہاں کے خام مال کو سستے داموں میں خرید کر عالمی منڈیوں میں مہنگے داموں میں فروخت کرکے ہندوستانیوں کا سفاکانہ استحصال کیا گیا۔

برطانیہ نے ہندوستان میں ”مغلیہ حکومت“ میں سب سے پہلے ایک سفیر ٹامس کو بھیجا۔ جو ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تھا کہ انگلستان کو ہندوستان میں آزادانہ تجارت کا موقع دیا جائے۔ اس وقت جہانگیر ہندوستان کا سربراہ تھا، انہوں نے اس قسم کے تجارتی معائدے کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ انگلستان جیسے چھوٹے جزیرے کو ہندوستان کے مقابلے میں، اپنا مد مقابل نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن ٹامس نے با رہا کوشش کرتے ہوئے ہندوستان کے ولی عہد شاہجان کے دور میں 1618 میں ایک معائدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہوگئے۔جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کو آزادانہ تجارت کا با ضابطہ پروانہ ملا۔جس نے چند ہی سالوں اور مجموعی طور پر دو سوسالوں میں ہندوستان کے وسائل کو اتنا لوٹا کہ کہ وہاں کے شاہ ان کے وظیفہ خور بن گئے۔

اس سلسلے میں ایک ماہر معاشیات مہناز مرچنٹ کا کہناہے کہ ”انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والی مجموعی مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زر مبادلے کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے“ سترھویں صدی میں ہندوستان تن تنہا دنیا کی 22.6 فی صد دولت پیدا کرنے والا ملک تھا۔جو تمام یورپ کے مجموعی دولت کے برابر تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانیہ راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے جو بھیانک اثرات مرتب ہوئے، وہ بہت خوفناک تھے۔برطانوی راج کے دوران صرف قحط سے تین کروڑ ہندوستانی اور بنگالی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ جو تاریخ کے بدترین سفاکیوں میں سب سے اول رہا۔

ماہرین معاشیات نے ہندوستان میں ہونے والے اس قحط کو
قدرتی آفات کے بجائے برطانوی تجارتی استحصال(commercial expolation )کی علامت قراردی۔
ہندوستان میں آنے والے قحط سے ہندوستاں میں تین کروڑ گلے، سڑے انسانی ڈھانچوں کے حوالہ سے مشہور فلاسفر ویل ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ ”ہندوستان میں آنے والی خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ برطانوی قبضہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد، اور ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہونے والے کسان انہیں ادا نہیں کرسکتے تھے۔۔۔
برطانوی راج مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی“
ان مثالوں سے ظاہر ہوتاں کہ نوآبادیاتی قوتیں وہ جو کچھ بھی ”ترقی“ کے نام پر کرتاہے۔وہ صرف اپنے غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے،اور اپنے نفع اور فائدہ کا سوچتاہے۔

مقبوضہ قوم اپنے ذہن سے یہ غلط فہمی نکال دے کہ سامراجی درندگی کے تحت امن، خوشحالی اور ترقی کا تصور کیاجاسکتا ہو۔ بلکہ ان کی مودجودگی میں مقبوضہ سماج میں نہ صرف انسانی حقوق کی پائمالی ہوتی ہے۔ بلکہ سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی ناہمواری بڑھ جاتی ہیں۔ سامراجی طاقتیں درندہ صفت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے نئے شکار تلاش کرتی ہیں۔ اور یہ شکار ان کی مکروہ مقاصد اور بھو ک کو پورا کرنے کا ذریعہ ہوتاہے۔جو مقبوضہ ملک کے وسائل، زمین اور انسانی قوت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتاہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے؟ کہ بلوچستان اور بلخصوص گوادر بندرگاہ پر چین کے ممکنہ بحری اڈوں یا گوادر ایئر پورٹ

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 12:17


دشت: قابض فوج پر حملے میں دشمن کا ایک اہلکار ہلاک دو زخمی ہوئے۔ بی ایل ایف

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے نو جنوری بروز جمعرات بوقت شام ساتھ بجے بلنگور دشت کے مقام پر قائم قابض پاکستانی فوج کے کیمپ پر حملہ کیا۔

ترجمان نے کہا ہے کہ حملے میں سرمچاروں نے قابض پاکستانی فوج کے کیمپ کو جدید و بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں دشمن فوج کا ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور آزاد بلوچستان کے حصول تک قابض فورسز کو نشانہ بناتی رہیگی۔

https://urdu.zrumbesh.com/13523/

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 11:58


https://urdu.zrumbesh.com/13514/

احتجاج کے 5698 دن ، قومی شناخت سے محبت کرنے والوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ ماما قدیر بلوچ

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( پریس ریلیز) قومی شناخت سے محبت کرنے والوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وی بی ایم پی کی جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے قانون و عدالت قتل کیے گئے بلوچ شہدا کو انصاف کی فراہمی کے لیے احتجاجی کیمپ میں آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

آج وی بی ایم پی کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5695دن ہوگئے۔ پنجگور سے سیاسی و سماجی کارکنان داد محمد ، الطاف ، منظور اور دیگر نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچ دانشور، لکھاری اور ادیب بلوچ نسل کشی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کریں۔

انھوں نے کہا ہماری جدوجہد پر امن ہے ۔جبری لاپتہ افراد کا کیمپ بلوچستان میں ایک ایسا احتجاجی مرکز ہے کہ یہاں جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین آکر اس سنگین مسئلے کو اجاگر کرتے ہیں اور انصاف طلب کرتے ہیں لیکن اسے بھی بار ہا جلایا جاتا ہے۔ یہ کسی کو مارنا اور رونے بھی نہ دینے والی بات ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 11:43


https://urdu.zrumbesh.com/13512/

حب ، فائرنگ وروڈ حادثہ دو بھائیوں سمیت 4 افراد قتل

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

لسبیلہ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) حب گڈانی کنڈ کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو بھائی قتل ہوگئے ،
دونوں کی نعشیں ایدھی ایمبولینس کے ذریعے حب سول منتقل کر دیا گیا جہاں انکی شناخت 30 سالہ جاوید اور 25 سالہ عباس پسران محمد اسماعیل پالاری سے ہواہے ۔

علاوہ ازیں اوتھل کھانٹا ندی کے قریب شیزور اور ٹرک میں تصادم ہوا جس کے نتیجے میں شہزور میں سوار دونوں افراد ھلاک ہوگئے ۔

جس کی اطلاع ملتے ہی ERC لیاری ٹیم اور MERC ٹیارو ٹیم جائے وقوع پر بروقت پہنچ کر ھلاک افراد کی نعشوں کو ریسکیو کیا گیا،

بعد ازاں نعشوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کردیا گیا

ھلاک افراد کا تعلق کنراج سے ہے جن کی شناخت محمد اکرم ولد پیر محمد اور امام بخش ولد محمد امین سے ہواہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 11:17


https://urdu.zrumbesh.com/13508/

حب، خاران، تربت جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ مختلف مقامات پرجاری ،مرکزی شاہراہ بند

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے صنعتی شہر حب ، خاران اور تربت میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی دھرنے جاری ہیں ، جبکہ حب میں بھوانی کے مقام پر کراچی ، شال اور مکران کا مرکزی شاہراہ مکمل بند کیا گیا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق آج حب میں لسبیلہ پریس کلب کے سامنے جبری لاپتہ ‏جنید حمید اور یاسر حمید کے لواحقین کے ہمراہ لاپتہ چاکر بگٹی کے لواحقین کی جانب سے ان کی باحفاظت بازیابی کیلئے 3 روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ اس دوران ضلعی انتظامیہ نے لواحقین کو احتجاج کرنے سے روکنے کی کوشش کی تاہم وہ ناکام ہوگئے۔

اس موقع پر جبری لاپتہ جنید ولد عبدالحمید کے ہمشیرہ کہاکہ 8 اکتوبر 2024 کی رات دس بجے کے قریب حب بھوانی شاہ پمپ کے قریب سے میرے بڑے بھائی جنید حمید ولد عبدالحمید کو تین گاڑیوں پر مشتمل ایک درجن کے قریب مسلح افراد نے بندوق کے زور پر اغواء کرکے زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ 28 سالہ میرا بھائی جنید ولد عبدالحمید اسی صنعتی شہر حب میں ایک کمپنی OTsuka پاکستان لمیٹڈ میں ملازم ہے اور اہل علاقہ بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ جنید حمید پہلے جبکہ یاسر حمید کو 11 اکتوبر 2024 کی رات قلات میں اس وقت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جب وہ اپنے ایک رشتہ دار کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ انھیں اس سے قبل بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انھیں بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اسی طرح حب شہر میں بھوانی کے مقام پر ایک سال قبل پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ اسرار بلوچ کے لواحقین نے کراچی، شال اور مکران کے مرکزی شاہراہ کو ٹائر جاکر ٹریفک کے لئے بند کردیا اور اسرار بلوچ کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا ۔ احتجاج کے باعث ٹریفک کی روانی معطل ہے ، ضلعی انتظامیہ سے لواحقین کے مزاکرات ناکام ہوگئے۔

علاوہ ازیں خاران سے جبری لاپتہ بلاول بلوچ اور عاصم بلوچ کی لواحقین کی طرف سے خاران ریڈ زون میں دھرنا جاری ہے ۔

اس موقع پر لاپتہ بلاول بلوچ کی ماں نے ریاستی اداروں سے اپیل کی ہے کہ میرے بیٹے نے جو بھی گناہ کیا ہے اسے اپنے عدالت میں پیش کریں ۔

انہوں نے خاران کے عوام سے اپیل کی کہ اس مشکل وقت میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے دردمند اہلخانہ کا ساتھ دیکر خاران ریڈ زون میں پہنچ جائیں اور احتجاج میں شامل ہوجائیں ۔

دریں اثناء کیچ کے مرکزی شہر تربت آبسر کلولوائی بازار کے رہائشی فدا والیداد کی بازیابی کے لیے فدا شہید مین چوک پر آج دوسرے روز بھی دھرنا جاری ہے ۔

دھرنے میں دیگر 8 لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شامل ہو گئے ہیں، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔

مظاہرین نے حکومت اور انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ ان کے پیاروں کے بارے میں آگاہ کیا جائے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 09:48


https://urdu.zrumbesh.com/13504/

خاران میں ریاستی کارندوں کے ٹھکانوں پر مختلف اوقات میں بم حملے کیے۔ بی ایل اے

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

خاران (مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچستان لبریشن آرمی بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے جاری بیان میں کہا ہے کہ 6 جنوری کو رات کے وقت ہمارے سرمچاروں نے باب خاران کے قریب واقع ریاستی کارندے لطیف نوتیزی کے ٹھکانے کے مغربی دروازے کے قریب بارودی سرنگ سے حملہ کیا۔

انھوں نے کہاہے کہ گزشتہ روز 9 جنوری کو مغرب کے بعد سرمچاروں نے جنگل روڈ پر فوجی آلہ کار و کٹھ پتلی وزیر شعیب نوشیروانی کے ٹھکانے پر مسلح جھتے کی موجودگی میں بم حملہ کیا۔

ان دونوں حملوں کی ذمہ داری ہماری تنظیم بلوچ لبریشن آرمی قبول کرتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 08:45


پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے جنید بلوچ، یاسر بلوچ، نوروز اور چاکر بگٹی کے اہل خانہ نے حب لسبیلہ پریس کلب کے باہر تین روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگا رکھا ہے جب کہ پولیس کی جانب سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

#حب #بلوچستان

https://x.com/rzurduZBC/status/1877637441827336368?t=0nSBLu65hneahFcx4GAX9w&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 07:51


دشت: مسلح افراد کا پاکستانی فورسز کے کیمپ پر حملہ

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/13501/

کیچ: مسلح افراد نے دشت میں پاکستانی فورسز کے کیمپ کو حملے میں نشانہ بنایا ہے۔

اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے گزشتہ شام سات بجے کے قریب دشت بلنگور میں قائم فورسز کے کیمپ کو حملے میں نشانہ بنایا ہے۔

حملے کے وقت علاقے میں میں معتدد دھماکوں سمیت شدید فائرنگ کی آواز سنائی گئی جس سے خدشہ ہے کہ فورسز کو جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حملے کی زمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے ان علاقوں میں مسلح آزادی پسند تنظیمیں متحرک ہیں جو پاکستانی فورسز پر حملوں کی زمہ داری قبول کرتے رہتے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 06:52


شال کوئلہ کان منہدم ہونے سے 12 کانکن دب گئے

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے مرکزی شہر شال سے 40 کلومیٹر دور سنجدی کے علاقے میں کوئلے کی ایک کان گزشتہ روز میتھین گیس کے دھماکے کے باعث منہدم ہو گئی، جس کے نتیجے میں 12 کان کن کان کے اندر پھنس گئے۔

ریسکیو ٹیمیں متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی ہیں۔


https://x.com/rzurduZBC/status/1877608983055257670?t=-hRzFwMAZ3SLVysk5G0skg&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 06:27


https://urdu.zrumbesh.com/13498/

آپسر کولوائی بازار سے فدا بلوچ کی جبری گمشدگی پر اہل خانہ کا فدا شہید چوک پر دھرنا اور تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

تربت( مانیٹرنگ ڈیسک)بلوچستان ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت آپسر کولوائی بازار کے رہائشی فدا ولی داد کے اہل خانہ نے گزشتہ روز تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فدا ولی داد کو 9 جنوری کی شب سیکیورٹی فورسز نے گھر پر چھاپہ کے دوران حراست میں لے کر لاپتہ کیا، نہ ہمیں ان کا جرم بتایا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں معلومات دی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فدا ولی داد کا پیشہ مزدوری ہے، وہ دبئی میں کافی. عرصہ مزدوری کے بعد 3 ماہ پہلے چھٹیوں پر اپنے گھر آیا تھا ، یہاں بھی وہ کبھی غیر ضروری سرگرمی یا کسی سیاسی جماعت پارٹی کا حصہ رہاہے ،نہ وہ کبھی گھر سے نکل کر فضول آوارہ گردی کی۔ وہ ایک محنتی اور اپنے کام سے کام رکھنے والا نوجوان ہے۔۔

انہوں نے کہا کہ اگر فدا ولی داد قانون کی نظر میں مجرم ہے یا سیکیورٹی فورسز کو ان کے بارے میں کوئی ایسی علم ہے جو. خلاف قانون شمار ہوتی ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ اس طرح غیر قانونی جبری گمشدگی کے بجائے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور ان کے جرائم بتائے جائیں تاکہ قانون ان کو مجرم ثابت کرکے آئین کے تحت سزا دے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس غیر قانونی عمل کے خلاف احتجاج کا راستہ اپناکر پر امن طریقہ سے اپنا احتجاج ریکارڈ کریں گے۔ بعدازاں خواتین کی بڑی تعداد نے شہید فدا چوک پر احتجاج کرتے ہوئے نعرہ بازی کی اور فدا ولی داد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 06:16


https://urdu.zrumbesh.com/13496/

حب پولیس تھانہ سامنے اور خاران میں وزیر کےگھر پر بم دھماکہ

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

حب ،خاران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی میں سٹی تھانے کے مرکزی دروازے کے سامنے گزشتہ رات نصب بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی آواز دور دور تک سنائی دی گئی ۔

دھماکے کے بعد فورسز اور پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ تاہم، اب تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

دوسری جانب گزشتہ شام خاران میں جنگل روڈ پر واقع وزیر خزانہ و معدنیات ایم پی اے شعیب نوشیروانی کے رہائش گاہ پر نامعلوم مسلح افراد نے دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے۔

واقعے میں بھی کسی قسم کے جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 06:14


https://urdu.zrumbesh.com/13492/

کولپور مرکزی شاہراہ کی رات گئےمسلح افراد نے ناکہ بندی کی، فورسز اسلحہ ضبط، فیکٹری نذر آتش کردیا

جمعہ ، 10 جنوری ، 2025 / زرمبش اردو

کچھی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے کولپور میں مرکزی شاہراہ پر رات گئے مسلح افراد نے گھنٹوں تک ناکہ بندی کی ، لیویز فورس کا اسلحہ ضبط کرلی دوسری جانب سیمنٹ فیکٹری کی مشینری کو نذر آتش کردیا ۔

اطلاعات کے مطابق رات گئے مسلح افراد کی بڑی تعداد نے کولپور کے علاقے میں مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کرکے گاڑی کی تلاشی لی۔

اس دوران مسلح افراد نے لیویز چوکی کو قبضے میں لیکر اہلکاروں کا اسلحہ و موٹر سائیکل چھین لیا اور بعدازاں چوکی کو نذرآتش کردیا جبکہ ایک سیمنٹ فیکٹری کے تمام مشینری کو نذرآتش کردیا۔

علاقائی ذرائع کے مطابق مسلح افراد نے دو گھنٹوں سے زائد شاہراہ پر ناکہ بندی کی اور بعدازاں نامعلوم سمت چلے گئے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

10 Jan, 06:14


https://urdu.zrumbesh.com/13494/

زہری فورسز نے ایک گھر کا محاصرہ کرکے ایک شخص کو قتل کردیا

جمعہ ، 10 جنوری ،2025 / زرمبش اردو

خضدار( مانیٹرنگ ڈیسک ) ضلع خضدار تحصیل زہری میں کے علاقے فراخود '' بلبل یونین کونسل '' میں فورسز نے ایک گھر کا محاصرہ کرکے اس دوران گھر میں موجود ایک نوجوان سراج احمد ولد نزیر احمد قوم پندرانی نامی شخص کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، بعدا ازاں نعش ہسپتال پہنچائی ۔

علاقائی ذرائع کا کہنا ہے محاصرے فائرنگ دوران کتنے لوگ حراست میں لے کر لاپتہ کردیے گئے ہیں تعداد بارے معلومات نہیں مل پائے ہیں ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 17:47


https://urdu.zrumbesh.com/11630/

بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران کے زیر اہتمام ایڈوکیسی میٹینگ کا انعقادکیاگیا

بدھ ، 27 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

تربت ( پریس ریلیز ) 20 نومبر 2024 کو بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران کے زیر اہتمام تربت آفس میں ایک ایڈوکیسی میٹینگ منعقد ہوئی جس میں خواتین و حضرات اور بچوں نے شرکت کی ۔

اس موقع پر پروفیسر غنی پرواز، نازخاتون ،محمد کریم گچکی، مقبول ناصر،عبدالغنی مندی،نائیلہ خدابخش ، سجاد حمید دشتی اور شہزاد احمد شامل تھے، اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر غنی پرواز نے کہاکہ بچے قوموں کے مستقبل ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو آج کے جوانوں اور بوڑھوں کی جگہیں لے کر قوموں کو اپنے تمام شعبہاے زندگی میں زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکتے ہیں ان ہی وجوہات کی بنا پر بچوں کے ماہرین اور زندہ قوموں اور ممالک خود بچوں اور ان کی زندگی اور مستقبل کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں،اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں ۔انہی حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 20 نومبر 1989 کو ایک کنونشن ہوا جس کے ذریعے 54 دفعات پر مشتمل ایک عہد نامہ سامنے ایا جس کی پہلی دفہ کے مطابق بچے سے مراد وہ انسان ہوتا ہے جس کی عمر 18 سال سے کم ہو چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا، تا ہم ممبر ملکوں کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہےکہ اگر وہ اپنے حالات کے مطابق چاہیں تو اس میں کمی کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان نے اپنے آئین میں بیٹی کی عمر 14 سال اور بیٹے کی عمر 16 سال مقرر کی ہے چنانچہ مذکورہ عہدنامے کے مطابق بچوں کے بہت سارے حقوق ہوتے ہیں ۔

انھوں نے کہاکہ بچوں کا حق ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے والدین کے ساتھ رہیں جب تک کہ ان کے ساتھ رہنا ان کے لیے نقصاندہ نہ ہو ۔ان کا حق ہے کہ والدین کی علیحدگی کی صورت میں وہ کسی نہ کسی طرح سے دونوں سے رابطے رکھ سکیں۔ان کا حق ہے کہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت دی جائے۔ان کا حق ہے کہ ان کی صحت کا اچھی طرح سے خیال رکھا جائے۔ان کا حق ہے کہ ان سے ایسا کوئی کام نہ لیا جائے جس سے ان کی تعلیم اور صحت متاثر ہوں۔ان کا حق ہے کہ گھروں میں بھی "چائلڈ ورک" کے حوالے سے ان پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔ان کا حق ہے کہ ان سے مشقت طلب کام نہ لیا جائے جو عام طور پر کارخانوں، فیکٹریوں ، ہوٹلوں اور گیرجوں میں لیا جاتا ہے۔

ان کا حق ہے کہ انہیں "چائلڈ ابیوز "کے حوالے سے تمام غیر اخلاقی سرگرمیوں سے بچایا جائے۔انہیں اغواہ ،خرید و فروخت ،اسمگلنگ، جنسی تشدد اور اسی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں سے بچایا جائے۔قیدی بچوں کا حق ہے کہ انہیں قید کے دوران بڑے قیدیوں سے الگ رکھا جائے۔قیدی بچوں کا حق ہے کہ انہیں ضرورت کے وقت قانونی امداد فراہم کیا جائے۔قیدی بچوں کا حق ہے کہ انہیں اپنے والدین اور خاندان کے دیگر قریبی لوگوں سے ملنے کا موقع دیا جائے۔

انھوں نے کہاکہ اقلیتی بچوں کا حق ہے کہ انہیں اپنے مذہب و عقائد کے مطابق تعلیم و تربیت دی جائے۔تمام بچوں کا حق ہے کہ انہیں منشیات کی پیداوار استعمال اور خرید و فروخت سے محفوظ رکھا جائے۔تمام بچوں کا حق ہے کہ انہیں جنگوں سے محفوظ رکھا جائے اور جنگوں کے دوران انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔

تا ہم دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ دنیا بھر میں اور خصوصاً ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں انہیں اپنے یہ جائز حقوق پورے طور پر فراہم نہیں کیے جاتے۔

مثال کے طور پر پاکستان میں لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں،لاکھوں بچے کارخانوں ،فیکٹریوں ،ہوٹلوں اور گیرجوں میں محنت مشقت کر رہے ہیں،لاکھوں بچے اغوا ہو کر جبری طور پر لاپتہ ہو چکے ہیں جن میں سے ہزاروں کی تعداد میں قتل بھی ہو چکے ہیں،لاکھوں بچوں کو اغوا کر کے عرب ممالک لے جایا جا چکا ہے جنہیں وہاں پر اونٹ دوڑ کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے،اور لاکھوں بچوں کو اغوا کر کے مغربی ممالک لے جایا جا چکا ہے جہاں ان کے مختلف اعضاء پیوند کاری کے لیے استعمال کیے جا چکے ہیں اور یہ سارا سلسلہ ابھی تک جاری ہے،جبکہ فلسطین اور اسرائیل کی جنگوں کے دوران لاکھوں بچوں کو جانوں سے مارا جا چکا ہے،خصوصا اسرائیل کے جنگی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی اور لبنانی بچے جانوں سے مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں بچے معذور بھی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے،

ضرورت اس بات کی ہے پاکستان، فلسطین اور لبنان سمیت دنیا بھر میں نہ صرف بچوں کو انکے جائز حقوق فوری طور پر فراہم کیے جائیں بلکہ انہیں ہر قسم کے نقصانات سے بھی محفوظ رکھا جائے تاکہ بڑے ہو کر وہ دنیا اور انسانیت کی ترقی کے لیے اپنا ضروری کردار ادا کر سکیں ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 17:47


چھوٹی بچی ناز خاتون نے انگلش میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں وہ جیسا دیکھتے ہیں ویسا ہی سیکھتے ہیں لہذا ہمارے مستقبل کے لیے ایک صحیح تعلیم و تربیت کا ماحول بنایا جائے۔

محمد کریم گچکی کا کہنا تھاکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بچے فطرت سلیم لے کر آتا ہے اسے والدین صحیح اور غلط انسان بناتے ہیں،

بچے کی پہلی تعلیم و تربیت گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے وہ جیسے بچے کی تربیت کرے گا ویسا ہی بچہ سیکھے گا دوسرے ممالک میں ریاست بچوں کی 18 سال کی عمر تک ذمہداری اٹھاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو بچوں میں فرق پیدا کرتے ہیں یہ ایک غلط روایت ہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو ایک ہی نظر میں دیکھنا چاہیے۔


مقبول ناصر کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ جنگ زدہ ہے ہمیں انٹرٹینمنٹ کے لیے کوئی چیز میسر نہیں اکثر لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے یا تو جنگ کرتے ہیں یا افزائش نسل بڑھاتے ہیں، ایچ ار سی پی کو چاہیے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کرے اور ایک ٹیم بنائے جو ہمیشہ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرے۔

عبدالغنی مندی کا کہنا تھا کہ بچوں کے جتنے بھی حقوق ہیں وہ قانوناً تو موجود ہیں لیکن عملی طور پر پامال ہو رہے ہیں اور ان کی پامالی کی سب سے بڑی صورت انکو لاگو نہیں کرنا ہے،حکومت کو چاہیے کہ بچوں کا عہد نامہ اسکولوں کے نصابوں میں شامل کرے ۔

نائیلہ خدا بخش کا کہنا تھا کہ بچوں کے جتنے حقوق ہیں وہ تو ہمیں پتہ ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں امیروں کے بچوں کے لیے تو حقوق لاگو ہوتے ہیں لیکن غریبوں کے بچوں کے لیے حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے اسکولوں اور ریڈیو اسٹیشنوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اداروں میں بچوں کے عالمی دن کے مناسبت سے پروگرام کریں۔

سجاد حمید کا کہنا تھا کہ بچوں کے عالمی دن لوگوں میں شعور و اگاہی پیدا کرنے کے لیے منایا جاتا ہے لیکن جو میڈل کلاس لوگ ہیں وہ غریبی کی وجہ سے بچوں کے بنیادی حقوق بمشکل پورا کرتے ہیں۔

شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن اب اس سلسلے میں عملی طور پر بھی کام ہونا چاہیے۔

آخر میں اتفاق رائے سے 4 قراردادیں منظور کر لی گئیں ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ بچوں کے حقوق کا عہد نامہ اسکولوں کے نصابوں میں شامل کیا جائے۔

اسکولوں اور ریڈیو اسٹیشنوں میں ہر سال بچوں کا عالمی دن منایا جائے۔

کم از کم میٹرک تک تعلیم مفت کی جائے اور طلبہ کو وضائف فراہم کیے جائیں اور اس سلسلے میں متاثرہ اور یتیم بچوں کو ترجیح دی جائے۔

ایچ ار سی پی کی جانب سے ایک سروے کمیٹی تشکیل دیکر اسے فنڈنگ کی جائے جو تمام آپریشنوں کے دوران متاثرہ بچوں ،اغوا ہونے والے بچوں،ہلاک ہونے والے بچوں،زخمی ہونے والے بچوں اور معذور ہونے والے بچوں کے اعداد و شمار جمع کرکے رپورٹیں شائع کردے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 16:21


https://urdu.zrumbesh.com/11627/

آواران حکومتی ادارے دھرنا ختم کرنے کیلےبطور دباؤ پانی اور کھانے کی سپلائی بند کردی ہے، ۔ سیمینار میں دلجان کے لواحقین کا خطاب

بدھ ، 27 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع آواران میں جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے جاری احتجاجی دھرنے کے دسویں روز دھرنا گاہ میں دلجان کے لواحقین نے سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں آسیہ بلوچ سمی دین بلوچ، سلطانہ بلوچ، آسیہ بلوچ اور گلزار دوست نے خطاب کیا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ دلجان بلوچ کے لواحقین میں شریک آسیہ بلوچ نے مقامی انتظامیہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ “ہم پر دباؤ ڈالنے کے لیے پانی اور کھانے کی سپلائی بند کر دی گئی ہے، اور ہمیں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن ہم اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں یہ احتجاج ہمارے دلوں کی آواز ہے اور ہم اپنے پیارے کی بازیابی کے لیے آخری دم تک کھڑے رہیں گے۔”

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ ہمارے ساتھ وہ سلوک کر رہی ہے جیسے ہم اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کے مجرم ہوں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ جدوجہد ایک طویل جنگ کا حصہ ہے، اور ہم اس میں کامیاب ہو کر رہیں گے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما 14 سال سے جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے کہا کہ دلجان بلوچ کی گمشدگی بلوچستان میں ایک طویل سلسلے کا حصہ ہے جہاں ہر خاندان کو جبری گمشدگی کا سامنا ہے دلجان جیسے نوجوانوں کو غائب کرکے بلوچ عوام کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے لیکن یہ ظلم ہماری مزاحمت کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ بلوچ قوم ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے کھڑی رہی ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں کوئی ایسا گھر نہیں جہاں جبری گمشدگی کا درد نہ ہو ہمارے لوگ برسوں سے اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں لیکن ان تمام مظالم کے باوجود ہم نے نہ جھکنے کا عزم کیا ہے اور نہ ہی خاموش رہنے کا۔

اس موقع پر بلوچ ویمن فورم کی رہنما سلطانہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے سرگرم رہی ہیں اور آج بھی وہ اپنی زمین، اپنے بچوں اور اپنے قومی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ دلجان بلوچ کی گمشدگی و بلوچستان میں دیگر جبری گمشدگیوں کے جیسے واقعات بلوچ مزاحمت کو کچلنے کی ایک سازش ہے۔
انہوں نے اس موقع پر کہا یہ تحریک خواتین کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ہماری مائیں، بہنیں، اور بیٹیاں اس جدوجہد میں برابر کی شریک ہیں ہم مظالم کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ہماری ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی ہم اس تحریک کو جاری رکھیں گے جب تک کہ تمام لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہو جاتے۔

سماجی کارکن گلزار دوست نے کہاکہ آواران کے عوام نے پیدل چل کر سیمینار میں شرکت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ظلم کے خلاف متحد ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹ بند کرنا اور دیگر رکاوٹیں ڈالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس احتجاج سے خوفزدہ ہیں لیکن ان کی تمام سازشوں کے باوجود، عوام کی شرکت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا یہ سیمینار صرف دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں جاری مظالم کے خلاف ایک پیغام ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دلجان بلوچ کو فوری بازیاب کیا جائے، جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں، اور مظاہرین کو دھمکیاں دینا بند کی جائیں۔
سیمینار کے شرکاء نے متفقہ طور پر کہا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی۔ شرکاء نے دلجان بلوچ کی فوری بازیابی، جھوٹے مقدمات کے خاتمے، اور مظاہرین کے خلاف دھمکیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 13:22


https://urdu.zrumbesh.com/11624/

طلباء نے میڈیکل کالج کی بندش و ہاسٹل پر پولیس قبضہ کیخلاف احتجاجی کیمپ لگادیا

بدھ ، 27 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کی بندش اور ہاسٹلوں پر پولیس قبضے کے خلاف بلوچستان کی پشتون بلوچ طلباء تنظیموں نے کالج کے مرکزی دروازے کے سامنے احتجاجی کیمپ لگادیا۔

طلباءنےکہا کہ یہ احتجاجی کیمپ کالج اور ہاسٹلوں کی دوبارہ بحالی تک قائم رہے گا۔

طلباء رہنماؤں نے کہا کہ پولیس نے بلاجواز ہاسٹل پر دھاوا بولا، طلباء کو گرفتار کیا اور تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے کہاکہ احتجاجی کیمپ مطالبات میں گرفتار طلباء کو فوری طور پر رہائی، کالج اور ہاسٹلوں کو دوبارہ کھولنا، واقعے میں ملوث پولیس اور کالج انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہیں۔

طلباء تنظیموں نے پولیس کارروائی کو بلوچ اور پشتون طلباء کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی سازش قرار دیا اور کہا کہ یہ عمل تعلیمی اداروں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ طلباء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ “ہم تعلیمی اداروں کو امن و امان کے مراکز دیکھنا چاہتے ہیں، نہ کہ پولیس کارروائیوں کا میدان۔”

طلباء تنظیموں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ کاروسیع کر دیا جائے گا اور بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں مظاہرے کیے جائیں گے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 11:00


https://urdu.zrumbesh.com/11622/

مند: شیراز میں پاکستانی فورسز کا فوج کشی جاری

بدھ ، 27 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

کیچ ( نمائندہ خصوصی ) بلوچستان بھر میں پاکستانی فورسز کا فوج کشی جاری، آج مند سے فورسز کا بڑا قافلہ شیراز کے جانب روانہ ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق مند کے علاقے شیراز میں پاکستانی فورسز کے جنگی ہیلی کاپٹرز پہاڑوں پر مسلسل گشت کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی فورسز کا ایک بڑا قافلہ مند سے نکل کر شیراز کی طرف بڑھ رہا ہے۔

آپ کو علم ہے گذشتہ روز بلوچستان کے ضلع قلات کے مختلف علاقوں سے فوج کشی دوران 40 کے قریب افراد کو فوج کشی کے دوران فورسز نے جبری لاپتہ کردیا تھا۔ یہ سلسلہ بلوچستان کے مختلف فوج کشی کے زد میں آنے والے اضلاع میں جاری ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 07:43


https://urdu.zrumbesh.com/11620/

تمپ اور زامران میں پاکستانی فورسز کی فوج کشی جاری

بدھ ، 27 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

کیچ ( نامہ نگار ) بلوچستان اور زامران کے مختلف علاقوں میں فورسز کا فوج کشی جاری فورسز کے اہلکار پہاڑی کے اندر داخل ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات پاکستانی فورسز کے پیدل اہلکار تمپ کے علاقے گومازی کے پہاڑی علاقوں دیزیگ، گنردان، چگردی میں داخل ہوکر فوج کشی کر رہی ہیں۔

جبکہ دوسری جانب اطلاع ہے کہ گزشتہ روز سے پاکستانی فورسز زامران کے علاقوں میں بھی فوج کشی میں مصروف ہیں ،جبکہ آج بلیدہ میں پاکستانی فورسز کے بڑی تعداد کو بسد کے پہاڑی کے جانب بڑھتے دیکھا گیا ہے۔

پہاڑی علاقوں میں ہیلی کاپٹر بھی مسلسل گشت کر رہے ہیں۔

مزید تفصیلات آنا باقی ہیں ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 07:10


آواران جبری گمشدگیوں کیخلاف اور لاپتہ دلجان بلوچ کی بازیابی کیلے جاری دھرنا گاہ میں منعقدہ ہونے والےسیمینار میں لوگوں کو شرکت سے روکنے کیلئے مقامی انتظامیہ نے ٹراسپورٹ بند کردی، لوگوں کی بڑی تعداد سیمینار میں شرکت کیلئے کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1861668663645913518?t=OPTbuRfHx8QTZquKUocEGQ&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

27 Nov, 06:59


https://urdu.zrumbesh.com/11617/

قلات میں فوج کشی دوران 40 سے زائد افراد جبری لاپتہ کردیئے گئےہیں ،ذرائع

بدھ ، 27 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

قلات ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع قلات میں گزشتہ روز پاکستانی فورسزکی فوج کشی دوران قلات شہر، اسکلکو، یوسفی اور ہربوئی کے علاقوں سے چالیس کے قریب افراد کو جبری لاپتہ کردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ہربوئی کے رہائشی آٹھ افراد کو پاکستانی فورسز نے اس وقت حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جب وہ قلات شہر سے واپس اپنے گھروں کو جارہے تھے۔

بتایا جارہاہے کہ اسکلکو اور یوسفی سے بڑی تعداد بھی لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ تاہم تمام جبری لاپتہ افراد بارے مکمل تفصیلات نہیں مل سکے ہیں ۔
کیوں کہ علاقہ میں مواصلاتی نظام بلکل جام کردیاگیا ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 18:58


کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ زامران کے درمیانی پہاڑی علاقوں پٹانی ، گرچیر اور کلیری میں بڑی تعداد میں فوج کشی کرنے کیلے پاکستانی فورسز داخل ہوگئے ہیں ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1861484230858981671?t=VlIqYYephfZdA-2RmAltTw&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 17:55


https://urdu.zrumbesh.com/11615/

آواران کل جبری لاپتہ دلجان کی بازیابی کیلے جاری دھرنے کے مقام پر سیمنار کا انعقاد کیاجائے گا ۔بی وائی سی

منگل ، 26 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

اواران ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مرکزی ترجمان کے اعلامیہ کے مطابق بروز بدھ صبح 10 بجے 27 نومبر 2024 کو آواران میں جاری دھرنہ گاہ جس کی قیادت جبری لاپتہ ہونے والے دل جان بلوچ کے اہل خانہ کر رہے ہیں۔ کےمقام پر ریاست کی ہاتھوں شہریوں کو لاپتہ کیے جانے کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے بی وائی سی اور دل جان بلوچ کے لواحقین ایک سیمینار کا انعقاد کر رہے ہیں ۔

انھوں نے کہاہے کہ سیمینار میں گزشتہ 14 سال سے جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمیع دین بلوچ، دل جان بلوچ کے لواحقین اور دیگر خطاب کریں گے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 17:18


آج، سمی دین بلوچ کی آواز صرف ایک فرد کی آواز نہیں، بلکہ وہ ایک قوم کی چیخ ہے جو انصاف کی طلب میں، سچائی کی جستجو میں اور آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی آرزو میں زندہ ہے۔ اگر آج اس کی آواز کو نہ سنا گیا، تو یہ آواز کل لاکھوں لوگوں کی بن جائے گی۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو ہر مظلوم قوم کے دل میں گونجتا ہے کہ جب جبر کی انتہا ہوتی ہے، تو مزاحمت کی لہر خود بخود پیدا ہوتی ہے۔

سمی دین بلوچ نے دنیا کو یہ دکھا دیا ہے کہ ایک مظلوم قوم کی بیٹی، جب سچائی کے لئے کھڑی ہوتی ہے، تو وہ کسی بھی ظالم قوت کے سامنے نہ جھکنے کا عزم رکھتی ہے۔ اس کی جدوجہد، اس کی قربانی، اور اس کی جرات ہر اس لڑکی کے لئے ایک مثال ہے جو اپنی مظلومیت کو اپنی طاقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سمی کی کہانی آج بھی جاری ہے، اور اس کی گونج، بلوچستان کے ہر پہاڑ، ہر وادی اور ہر دل میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 17:18


https://urdu.zrumbesh.com/11612/

ظلم کے سائے میں امید کی شمع: سمی دین بلوچ کی داستان

تحریر: عبیداللہ بلوچ


تاریخ کے ہر دور میں مظلوم قوموں کی لڑکیاں ایک ایسی روشنی بن کر ابھری ہیں جو ظلم کے اندھیروں کو چیر کر اپنے لوگوں کے لئے آزادی کی شمع جلانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ آج بلوچ قوم کی ایک ایسی ہی بیٹی، سمی دین بلوچ، ایک سچے جدوجہد کی علامت کے طور پر کھڑی ہے۔ اس کی آواز اُس ہر شخص کی آواز ہے جو جبر و ظلم کا شکار ہوا ہے۔ سمی کی داستان، اس کے درد، اس کی مظلومیت اور اس کی جرات نے بلوچستان کے ہر کونے میں آزادی اور انصاف کی پکار کو زندہ رکھا ہے۔

15 سالوں سے سمی دین بلوچ اپنے والد دین جان کے جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ یہ سمی کا عزم اور حوصلہ ہے کہ اس نے بلوچستان کے نامعلوم راستوں، تپتے صحراؤں اور تاریک راتوں میں بھی اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کو جاری رکھا ہے۔ آواران جیسے دور افتادہ اور بنیادی سہولیات سے محروم علاقے میں بھی، سمی نے خود کو ان مظلوموں کا حصہ بنا دیا ہے جو اپنے پیاروں کی تلاش میں نکلے ہیں۔ اس کی آواز ان سبھی کے دلوں میں گونجتی ہے جو کسی نہ کسی طور پر اپنے حقوق کی پامالی کا شکار ہوئے ہیں۔

اس کی جدوجہد کو دیکھ کر ویتنام کی ان کامریڈ لڑکیوں کی یاد آتی ہے جنہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے جان کی بازی لگائی۔ جب سامراجی طاقتیں ان پر ٹوٹ پڑیں، تو ویتنام کی خواتین اپنے ہی دیس کی آزادی کے لئے دشمن کی گولیوں کا سامنا کرتی رہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں کو چھوڑا، اپنے بچوں کو پیچھے چھوڑا اور ہتھیار اٹھا کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان کی بہادری نے ایک مضبوط پیغام دیا کہ خواتین کسی بھی جنگ میں نہ صرف برابر کی حصہ دار ہو سکتی ہیں بلکہ میدان میں مقابلہ بھی کر سکتی ہیں۔ ان کے عزم نے پوری دنیا کو دکھایا کہ طاقت اور جرات جنس کی محتاج نہیں۔

اسی طرح، امریکی انقلاب کے وقت، خواتین نے اپنی آوازوں کو بلند کیا۔ ایک مشہور مثال ایک نوجوان لڑکی، فلیس ویتھ کی ہے، جو آزادی کی جستجو میں شامل ہوئی۔ اس نے آزادی کے نعروں کو گلی کوچوں تک پہنچایا اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے سامراجی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوئی۔ اس کی جرات اور قربانی نے امریکی عوام کے دلوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی اور انہیں مظلومیت کے اندھیروں سے نکالنے کی جستجو میں مدد دی۔

سمی دین بلوچ کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس نے اپنے ذاتی غم کو قوم کی آواز بنا دیا۔ جبری گمشدگیوں کے اندھیرے میں، وہ ایک امید کی کرن بن کر ابھری ہے۔ اس کی جرات نے بلوچ قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ جبر و استحصال کے خلاف کھڑے ہونا کوئی آسان کام نہیں، لیکن سچ کی تلاش اور حق کی جدوجہد کا راستہ ضرور ملتا ہے۔ اس نے اپنے آنسوؤں کو ایک نئے جوش اور جذبے میں ڈھال کر ایک طوفان کی شکل دے دی ہے جو ان تمام ظالم قوتوں کے خلاف اٹھ رہا ہے جو بلوچ قوم کو اس کے حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں ایسی اور بھی مثالیں ہیں جہاں خواتین نے ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ ہندوستان میں، جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے انگریزی سامراج کے خلاف اپنی تلوار سے بغاوت کا اعلان کیا۔ اس نے اپنے بچوں کو اپنے پیچھے چھوڑا اور خود میدان جنگ میں اتر گئی۔ اس کی بہادری نے ہندوستان کے آزاد منش افراد کو تحریک دی اور انگریزی سامراج کی جڑیں ہلا دیں۔ آج بھی، اس کی قربانی کی کہانی تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف میں لکھی جاتی ہے۔

فرانس کی ژاں دارک کو کون بھول سکتا ہے؟ اس نوجوان لڑکی نے، اپنے لوگوں کو آزاد کرانے کے لئے، اپنی جان قربان کر دی۔ اس کی جرات اور شجاعت نے فرانس کے لوگوں کو سامراجی استحصال کے خلاف کھڑا ہونے کی تحریک دی۔ اسی طرح سمی دین بلوچ بھی اپنی قوم کے لئے ایک روشنی بن چکی ہے جو اندھیروں کو چیر کر اپنے پیاروں کے لئے انصاف کی روشنی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آج دنیا کے کئی خطوں میں، خواتین نے اپنی جانیں دی ہیں مگر کبھی اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ ایران میں، مہرخاوا نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے خود کو قربان کیا۔ افغانستان میں، خواتین نے طالبان کے جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ فلسطین میں، نوجوان لڑکیاں اسرائیلی مظالم کے خلاف پتھر اٹھائے کھڑی رہیں۔ ان سب کی جدوجہد نے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت کی ہمت اور عزم کسی بھی استبدادی قوت کو چیلنج کر سکتی ہے۔

سمی دین بلوچ، بلوچستان کے ان ویران راستوں پر، جب اپنے والد کی تلاش میں نکلی، تو وہ محض ایک مظلوم بیٹی نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کی آواز بن چکی ہے۔ اس کی جرات نے بلوچستان کے ہر نوجوان کو جبر و استحصال کے خلاف اٹھنے کی تحریک دی ہے۔ وہ ان ہزاروں جبری گمشدگیوں کے شکار لوگوں کی ایک مثال بن چکی ہے جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے امید کی روشنی دیکھ رہے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 17:09


بی ایس او آج بھی بلوچ نوجوانوں کا حقیقی نمائندہ تنظیم ہے اور تنظیم آج بھی واضح موقف کیساتھ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ بابل ملک بلوچ

26نومبر2024 زرمبش اُردو

مستونگ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے 57واں یوم تاسیس کے موقع پر بی ایس او (پجار )کے جانب سے مستونگ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او (پجار) کے وائس چیرمین بابل ملک بلوچ نیشنل پارٹی کے صدر حاجی نذیر احمد سرپرہ میر سکندر خان ملازئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے جاری ریاستی جبر کے باجود بی ایس او آج بھی بلوچ نوجوانوں کا حقیقی نمائندہ تنظیم ہے اور تنظیم آج بھی واضح موقف کیساتھ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے

بلوچستان میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سیاسی بیگانگی پھیلایا جارہا ہے تاکہ بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو غیر سیاسی عناصر اور سیاسی عمل سے نابلد عناصر کو متعارف کیا جارہا قبائلی و گروہ بندی کو فروغ دیا جارہا بلوچستان کے عوام کو اس بدترین صورتحال سے نکالنے کے لیئے بی ایس او پجار کو اپنا تاریخی اور قومی کردار کو ادا کرنا پڑیگا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کا سنگ بنیاد 1920 میں مستونگ سے عظیم قومی رہنما میر عبدالعزیز کرد نے صرف 13 سال کی عمر میں ینگ بلوچ نامی تنظیم کے نام سے رکھا جسے بعد ازاں 1967 میں بلوچ طلبا کی مضبوط سیاسی تنظیم بی ایس او نے بڑے منظم انداز سے آگے بڑھایا۔ مرکزی سینٹرل کمیٹی کے ممبر منصور بلوچ زونل آرگنائزر نبی بخش بلوچ سیف بلوچ نیشنل پارٹی کے لیبر سیکریٹری حاجی نذیر احمد بگٹی نصیب بلوچ نثار بلوچ ظفر اقبال بلوچ رئیس ناصر احمد سارنگزئی عبدالقدیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بی ایس او نے حقیقی قومی جدوجہد کا راستہ اپنا کر بلوچ نوجوانوں کو قومی حقوق کے حصول کے لیے ایک واضح سمت مہیا کی ہے۔ بلوچ نوجوانوں نے بی ایس او کے بینر تلے خود کو یکجا کیا اور نظریاتی حوالے سے پختہ سیاسی کارکنان کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا کرجدوجہد کو جلا بخشی ہے۔

بی ایس اوکے نئے نظریے، بلوچ قومی تحریک میں اہم کردار اور عوام میں پذیرائی کے سبب تنظیم روز اول سے ریاستی عتاب کا شکار رہی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، درجنوں کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں جبکہ کئی رہنما برسوں گزرنے کے باوجود تاحال اسیر ہیں۔ نوجوانوں میں خوف وہراس پھیلانے اور تنظیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ظلم و جبر کیساتھ طلباء سیاست و سیاسی سرکلنگ پر پابندی عائد کرنے سمیت مختلف سازشی حربوں کو بروئے کار لایا گیا۔
https://urdu.zrumbesh.com/11610/

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 17:00


https://urdu.zrumbesh.com/11605/

گوادر بشیر احمد کی ماورائے عدالت قتل کل تمام دکانیں کاروباری مرکز بند رہیں گے ۔حق دو تحریک

منگل ، 26 نومبر ، 2024/ زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بشیر احمد کے ماورائے آئین قتل کے خلاف کل ضلع گوادر کے تمام علاقوں میں کاروباری مراکز بند اور ہڑتال کا اعلان کرتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار حق دو تحریک بلوچستان کے مرکزی آرگنائزر حفیظ کیازئی نے آج شال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔
انھوں نے کہاکہ کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی کے زیر حراست مقتول بشیر احمد کے ماورائے آئین قتل کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ اس دل سوز اور غیر انسانی واقعہ کے خلاف انجمن تاجران اور کاروباری حضرات سے خصوصی تعاون کی اپیل کی جاتی ہے۔

آپ کو علم ہے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے رواں مہینے 22 نومبر کو آواران، کیچ اور ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقوں میں آپریشنز اور جھڑپوں کے دوران چار افراد کے مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔

22 نومبر 2024 کو بشیر احمد ولد عبدالغنی کی نعش بلوچستان کے علاقے آواران میں ملی۔ بشیر احمد کو مئی 2024 میں گوادر سے پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا، جہاں بعد ازاں سی ٹی ڈی اور اس وقت کے بلوچستان کے کھٹ پتلی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے شال میں پریس کانفرنس کے دوران انکی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے ان پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 15:18


اوستہ محمد(مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچستان کے علاقہ اوستہ محمد میں ایری لاڑا کے مقام انتظار عرف موتبر چانڈیو نامی شخص کو قتل کر دیا گیا ۔بتایا جاتا ہے سرفراز چانڈیو اور ان کے ساتھی نے رشتہ کے تنازعہ پر اسے قتل کردیا ہے ۔پولیس تحقیق کر رہی ہے ۔


https://x.com/rzurduZBC/status/1861429103028551713?t=LQXImveFpvtimM4vp9ysdw&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 14:54


https://urdu.zrumbesh.com/11602/

بلیدہ میں پاکستانی فورسز پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

منگل ، 26 نومبر ،2024 / زرمبش اردو

کیچ ( پریس ریلیز ) بلوچستان ضلع کیچ بلوچستان لبریشن فرنٹ بی ایل ایف کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ سرمچاروں نے چھبیس نومبر بروز منگل ایک بجے کیچ کے علاقے بلیدہ زیردان میں قابض پاکستانی فوج کی گشتی ٹیم کی حفاظت پر مامور اہلکاروں پر حملہ کرکے دو اہلکاروں کو شدید زخمی کیا۔
حملے کے بعد نفسیاتی شکست سے دوچار فورسز نے اپنی فطرت کے مطابق راستوں کی ناکہ بندی کی اور تلاشی کے نام پر بلوچ عوام کی تذلیل کی ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ بلیدہ و گرد نواع میں مقامی ڈیتھ اسکواڈ، منشیات فروش، کاروباری حضرات قابض کے لئے سہولت کاری سر انجام دیکر قوم دشمنی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہم نے متعدد بار اپنے بیانات میں لوگوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ قابض فورسز کی سہولت کاری کرکے قوم دشمنی سے باز آجائیں ورنہ انجام عبرتناک ہوگا۔

انھوں نے کہاہے کہ ہم فوج کے لئے سہولت کاری کرنے والے افراد کے فیملیز کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو اس قوم دشمن کام سے روکیں کیونکہ بلوچ سرمچار ہر اس شخص کو نشانہ بنانے کے لئے تیار ہیں جو قابض فوج کی سہولت کاری میں اپنے عوام کو ظلم وجبر کا نشانہ بنارہے ہیں اور نسل کشی میں قابض کے ساتھ ہیں۔

ترجمان نے کہاہے کہ بلوچ قوم نے قومی آزادی کے لئے جبری گمشدگی و شہادت سے لیکر نقل مکانی کی تکلیف برداشت کی ہے، ہزاروں فرزند قربان کئے ہیں۔ ان قربانیوں کو ایک ریاستی ایجنٹ اور قوم دشمن کے لئے ضائع نہیں ہونے دینگے۔

بی ایل ایف اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور قوم کو یقین دلاتی ہے کہ قابض فوج نفسیاتی و اخلاقی شکست کا شکار ہے جلد یا بدیر قابض کو اپنی سرزمین سے انخلاء پر مجبور کرکے اپنے شہداء کے خواب کو پورا کریں گے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 14:08


https://urdu.zrumbesh.com/11599/

متحدہ عرب امارات میں مزدوری کرنے والا نوجوان کراچی سے فورسز ہاتھوں جبری لاپتہ

منگل ، 26 نومبر ، 2024/ زرمبش اردو

کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع آواران تیرتیج کے رہائشی نوجوان پرویز ولد عبدالصمد نامی نوجوان کو پاکستانی فوج نے کراچی سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ۔

بتایا جارہاہے کہ مذکورہ نوجوان کو گذشتہ رات کراچی کے علاقے لیاری کلری سے پاکستانی فوج نے حراست میں لے لیا ، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کے مطابق پرویز متحدہ عرب امارات میں کئی سالوں سے مزدوری کررہا تھا ۔

انہوں نے جبری گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ پرویز کی بازیابی جتنی جلدی ہوسکے ممکن بنائیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 12:51


https://urdu.zrumbesh.com/11596/

اسرار بلوچ کی فورسز ہاتھوں بیہیمانہ قتل اور اس پر دہشت گردی کی لیبل لگانے کی مذمت کرتے ہیں ۔ بی وائی سی

منگل ،26 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

تربت( مانیٹرنگ ڈیسک ) تربت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ گزشتہ رات سول ہسپتال تربت میں ایک طالب علم اور نرسنگ اسسٹنٹ 16 سالہ اسرار بلوچ ولد راشد کو فرنٹیئر کور اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے المناک طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔

انھوں نے کہاہے کہ تربت کے تحصیل چوک پر ہونے والے المناک بم دھماکے کے نتیجے میں تین راہگیر وسیم اکرم، عامر وسیم اور اسرار راشد زخمی ہوگئے تھے ،جنہیں علاج کے لیے سول ہسپتال تربت منتقل کردیا گیا۔ اسرار بلوچ کو علاج کے دوران سی ٹی ڈی اور فرنٹیئر کور کے اہلکار زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد ازاں اس کے اہل خانہ کو اطلاع ملی کہ اس کی بے جانعش مردہ خانے میں رکھ دی گئی ہے۔

جب لواحقین اس کی نعش لینے گئے تو انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں نے انہیں اسرار بلوچ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ایک غیر قانونی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ خاندان نے اس من گھڑت اور بے بنیاد دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، جس میں ان کے اکلوتے بیٹے اور واحد کمانے والے پر دہشت گرد ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ نتیجے کے طور پر، حکام نے دستاویز پر دستخط ہونے تک اس کی نعش حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ کافی مزاحمت کے بعد نعش کو لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔

ترجمان نے کہاہے کہ اسرار بلوچ کو دھماکے کے دوران تعلیمی چوک سے گزرتے ہوئے معمولی زخم آئے تھے۔ تاہم اسے ہسپتال سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ صبح 2 بجے کے قریب جب اس کی نعش کو واپس لایا گیا تو اس پر تشدد کے کئی نشانات تھے جن میں گولیوں کے زخم اور اس کی نعش پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی تھی۔

انھوں نے کہاہے کہ بی وائی سی اسرار بلوچ کے بیہیمانہ قتل اور اسے دہشت گرد قرار دینے کے بے بنیاد لیبل کی شدید مذمت کرتی ہے۔جو کہ اس کے قتل کو جواز فراہم کرنے کی دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے۔ جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین نے تصدیق کی ہے کہ واقعہ کے وقت اسرار تعلیمی چوک پر محض راہگیر تھا جو دھماکہ کے وقت دوسرے افراد کی طرح زخمی ہواتھا ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 10:57


بلوچستان کے ضلع چاغی، خزانگی کے علاقے میں کسٹم گشتی ٹیم پر مسلح افراد نے حملہ کرکے ایک اہلکار کو ہلاک، دوسرے کو زخمی کردیا ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1861363311205351448?t=4bm8ob7nueQkxujBpytdjg&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

26 Nov, 10:46


https://urdu.zrumbesh.com/11594/

زرمبش کے ساتھیو کے کاوشوں پر انھیں مبارک باد ، دلمراد بلوچ

منگل ، 26 نومبر ،2024 / زرمبش اردو


شال ( نامہ نگار ) بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے سیکٹری جنرل دلمراد بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے ( شعبہ اردو کے ایڈیٹر کے علاوہ) کسی نے صحافت کسی یونیورسٹی سے نہیں پڑھی ہے۔ آپ سند یافتہ صحافی نہیں ہیں لیکن آپ عام صحافی بھی نہیں۔ آپ بلوچ درد کے سمندر سے چند قطرے اٹھاتے ہیں، اسے خبر کی شکل دیتے ہیں اور بلوچ تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے عوض میں یہ درد آپ کو گلے لگاتا ہے اور آپ کو توانائی دیتا ہے۔
آپ کام کرتے جائیں، غلطیاں کریں، ان سے سیکھیں۔ طنز اور تنقید برداشت کرتے رہیں۔ عصری فلاطون اور ارسطو کے زہر آلود الفاظ اور نشتر بھی سہہ بھی لیں لیکن اپنے کام میں مصروف رہیں کیونکہ آپ کا مقصد عظیم ہے اور آپ کی راہ خاص۔

انھوں نے کہاہے کہ یوٹیوب پر ایک لاکھ سبسکرائبرز دنیا کے لیے کچھ بھی نہ نہیں، بخدا کچھ بھی نہیں لیکن ہمارے لیے یہ بہت معنی رکھتا ہے۔ یہ اس راہ کی چھوٹی سی کامیابی ہے، یہاں رکنا نہیں۔ اب نظریں "ملین سبسکرائبرز" پر رکھیں اور۔۔۔۔اور آپ یہ کر سکتے ہیں کیونکہ آپ یہ سب "تن خواہ" کے لیے نہیں کر رہے، بلکہ "من خواہ" کے لیے کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ زرمبش کے ساتھیو، یہ آپ کی محنت کا ثمر ہے۔ آگے بڑھتے رہیں!

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 19:44


https://urdu.zrumbesh.com/11482/

شال، خضدار اوستہ محمد فائرنگ کے مختلف واقعات میں خاتون سمیت 4 افراد قتل

جمعرات ، 21 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال بلوچستان کےدارالحکومت شال میں تھانہ جناح ٹاون کی حدود میں کلی برات میں دکاندار کو قتل کر دیا گیاپولیس کے مطابق مقتول کو تیز دار آلے سے دکان کے اندر قتل کیا گیاواقعے کا مقدمہ درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی پولیس کے مطابق مقتول کا تعلق بلوچستان کے ضلع نصیرآباد سے ہے۔

اس طرح شال کے علاقے کیچی بیگ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو قتل کردیا پولیس کے مطابق گزشتہ شب شال کے علاقے کیچی بیگ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے نصیب اللہ نامی شخص کو قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔

واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے موقع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور نعش کو تحویل میں لیکر ہسپتال منتقل کردیا نعش ضروری کارروائی کے بعد ورثاءکے حوالے کردیا گیا پولیس نے مزید کارروائی شروع کردی۔


ادھر خضدار میں این 25 شاہراہ پر مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ھلاک خاتون زخمی ۔

بلوچستان کے ضلع خضدارکے علاقے گریڈ اسٹیشن کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے محمداسلم نامی شخص ھلاک جبکہ فائرنگ سے مناز بی بی نامی خاتون زخمی ہوگئی ۔

پولیس نعش اور زخمی کوہسپتال پہنچادیا جہاں نعش ضروری کارروائی کے بعد نعش ورثاء کے حوالے کردیا ۔

پولیس مزید کارروائی کررہی ہے۔

علاوہ ازیں اوستہ محمد کے صدر تھانہ کی حدود میں عمرانی اور کھوکھر قبائل تصادم کے کے دؤران گھروں پر فائرنگ سے نتیجے دو افراد موقع پر ھلاک جبکہ ایک شدید زخمی ہوگیا ، واقعہ دونوں قبائل میں پرانی دشمنی کا شاخسانہ بتایا جاتاہے ۔

دریں اثناء ضلع لسبیلہ کے صدرمقام اوتھل کے قریب چھلیواری کے مقام پر تیز رفتاری کے باعث موٹر سائیکل سے گر کر دو افراد بلال احمد اور ابراراحمد زخمی ہوگئے، جنہیں ابتدائی طبی امداد فراہمی کی لئے اوتھل منتقل کیا گیا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 19:07


https://urdu.zrumbesh.com/11479/

زامران سے اکستانی فورسز ہاتھوں 2 افراد جبری لاپتہ

جمعرات ، 21 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع کیچ کے تحصیل زامران میں پاکستانی فورسز نے گھروں پر چھاپوں کے دوران پُٹانی زامران سے دو افراد کو جبری لاپتہ کردیا ہے ۔

جبری لاپتہ افراد کی شناخت عزیر ولد اُمید اور عبدالرحمن ولد قدیر سے ہواہے ۔

ذرائع کے مطابق عبدالرحمن کو فورسز نے امید کے گھر سے حراست میں لے لیا ۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دوران فورسز اہلکاروں نے انکے لواحقین کو بتایا کہ انہیں تفتیش کے بعد جلد گھروں کو بھیجا جائے گا ۔پریشان نہ ہوں ۔

آپ کو علم ہے دو مہینے قبل اُمید کے دوسرے بیٹوں نذیر اُمید اور انیف اُمید کو فورسز نے گلی بلیدہ سے جبری گمشدہ کرکے شدید تشدد کے سولہ روز بعد چھوڑ دیا تھا ۔

لواحقین نے کہاہےکہ ہم پاکستانی فورسز سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو بازیاب کریں اور بار بار ہمارے بچوں کو بغیر کوئی وجہ سے لاپتہ نہ کریں اور ہمیں اختجاج کرنے پر مجبور نہ کریں۔

انہوں نے تمام انسان دوستوں سے اپیل کی ہے کہ ہمارے پیاروں کی بازیابی کیلئے آواز اُٹھا ئیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 18:41


https://urdu.zrumbesh.com/11477/


قومی آزادی کی جدوجہد میں شہید ہونے والے ساتھی کیپٹن نیاز قادر اور لیفٹیننٹ ظریف بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

جمعرات ، 21 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو


کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ، پریس ریلیز ) بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ 19 نومبر کو کولواہ کے علاقے گیشکور میں سرمچار تنظیمی مشن کے لیے جا رہے تھے کہ پہلے سے گھات لگائے بیٹھے دشمن فورسز نے ان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں تنظیم کے دو اہم اور دیرینہ ساتھی شہید ہو گئے۔ شہید سرمچار کیپٹن نیاز قادر عرف استاد گمان موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ لیفٹیننٹ ظریف بلوچ عرف شئے جان شدید زخمی ہوگیا۔ مشن میں شامل ساتھیوں نے دشمن فورسز کو منہ توڑ جواب دیا اور لڑائی کے دوران شہید کیپٹن نیاز قادر اور ان کے ساتھ زخمی شئے جان اور ان کا جنگی سازوسامان ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔

ترجمان نے کہاہے کہ کیپٹن نیاز قادر ولد قادر بخش سکنہ گڈوپ پاھو نے 2013 میں تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی اور 2014 میں بی ایل ایف کے پلیٹ فارم کا باقاعدہ حصہ بنا۔ ایک طویل جدوجہد کے دوران کیپٹن نیاز قادر کے پورے خاندان کو اجتماعی سزاؤں کی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن انہوں نے قومی آزادی کے حوالے سے اپنا موقف ترک نہیں کیا۔ شہید کے بڑے بھائی شہید لیفٹیننٹ صابر بلوچ عرف تاہیر اور چچازاد بھائی کیپٹن ظہور بالی اپنے تنظیمی ساتھیوں سیکنڈ لیفٹنینٹ ساجد سمیر اور اکبر حمل سمیت 2022 میں دشمن فورسز کے ایک فضائی حملے میں شہید ہوگئے۔

انھوں نے کہاہے کہ ان کے والدین کو پاکستانی فورسز نے متعدد بار جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔ آج وہ آئی ڈی پیز کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کیپٹن نیاز قادر نے وقتاً بہ فوقتاً تنظیم کے سیاسی، عسکری اور انٹیلی جنس شعبوں میں انتہائی اہم خدمات سرانجام دیں اور دشمن کے اہم پروگراموں کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے بلوچستان کے بیشتر علاقوں آواران، جھاؤ، کولواہ، اورماڑہ، کیلکور اور بالگتر کے معرکوں میں مرکزی کردار ادا کیا اور دشمن پہ مہلک حملے کیے۔

ترجمان نے کہاہے کہ کیپٹن نیاز قادر آواران اور کولواہ میں براس سے متعلق تنظیمی سطح پر اہم عہدے پر فائز رہا۔ اپنی جنگی مہارت اور جدید ٹیکنالوجی کے اہلیت کی وجہ سے وہ اپنے تنظیمی دوستوں میں ایک استاد کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے تنظیم میں قربان یونٹ سے منسلک سرمچاروں کو جنگی اور جسمانی فٹنس کے لیے تیار کرنے کے لیے بڑی محنت اور بے پناہ محبت کے ساتھ کام لیا۔

انھوں نے کہاہے کہ لیفٹیننٹ ظریف بلوچ عرف شئے جان ولد حمل بلوچ سکنہ گیشکور سنڈوم نے 2013 میں تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی اور 2014 میں بی ایل ایف کے پلیٹ فارم کا باقاعدہ حصہ بنا، اس طویل جدوجہد میں دشمن فورسز کے ظلم و جبر اور بدترین ظلم و ستم کا مقابلہ کیا۔ آپ کے خاندان کے خلاف پرتشدد ریاستی کاروائیاں آپ کے فکر و خیالات اور عمل کو کمزور نہیں کر سکے۔ 19 نومبر کو ایک تنظیمی مشن کے دوران دشمن کی فوج سے جھڑپ میں شدید زخمی ہو گئے اور انہیں ان کے تنظیمی ساتھیوں نے محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ دو دن تک تنظیم سے وابستہ میڈیکل ٹیم نے ان کی صحت یابی کے لیے اپنے تمام محدود وسائل بروئے کار لائے۔ بدقسمتی سے، وہ اسے بچانے میں ناکام رہے۔ تحریک آزادی میں آپ نے دس سال کے عرصے میں ناقابل بیان اور ناقابل فراموش جنگی معرکوں میں اپنا کردار ادا کیا اور بڑی محنت و مشقت کے ساتھ تنظیم کے معاشی شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں جس کی بدولت ریجنل کمانڈ کونسل نے آپ کی عسکری اور سیاسی پختگی کی وجہ سے آپ کو لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز کیا۔ آپ نے نہایت جفاکشی اور دیانت داری کے ساتھ تنظیمی پروگرام کو اولین ترجیح دی اور اپنی آخری سانس تک ثابت قدم رہے۔ آپ جدوجہد آزادی میں اپنے قائدانہ کردار کی بدولت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ اپنے ساتھی سرمچاروں کیپٹن نیاز قادر عرف استاد گمان اور لیفٹیننٹ شہید ظریف بلوچ عرف شئے جان سمیت بلوچ قومی جدوجہد کی راہ میں شہید ہونے والے تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ ان کی لازوال قربانیوں پر بلوچستان لبریشن فرنٹ اپنے سیاسی اور جنگی پروگرام کو شدت کے ساتھ جاری رکھے گی۔ اور ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ بلوچ شہداء کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا بلکہ آزاد بلوچستان تک جدوجہد جاری رہے گی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 18:18


https://urdu.zrumbesh.com/11474/

آواران لاپتہ دلجان بلوچ کی بازیابی کیلے لواحقین کا احتجاجی دھرنا تین مقامات پر چوتھے روز بھی جاری

جمعرات ، 21 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو


آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچستان ضلع آواران تیرتیج سے جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی لواحقین کا احتجاجی دھرنا آواران ڈی سی آفس سمیت بیدی، آواران گیس پلانٹ اور مشکے کراس پر دھرنا جاری ہے۔ مختلف مقامات پر جاری دھرنوں کی وجہ سے مسافر رل گئے ۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ کل رات نامعلوم افراد کی جانب سےہم پر گاڑی چلانے کی ناکام کوشش کی گئی ، ہم ایک بار پھر آواران ضلعی انتظامیہ کو یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر احتجاج میں موجود کسی کو کوئی نقصان پہنچایا گیا تو اس کی زمہ دار ضلعی انتظامیہ ہوگی۔

لواحقین کے مطابق مظاہرین کو ضلعی انتظامیہ و پولیس کی طرف سے سیکیورٹی نہیں دی جارہی ہے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کا زمہ دار آواران پولیس اور ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

انھوں نےمزید کہا ہےکہ ضلعی انتظامیہ ڈی سی آواران نے آج تک دھرنا گاہ تک آنے کی نہ خود زحمت کی ہے نہ اپنے کسی زمہدار کو اپنی طرف سے بھیجا ہے۔ آج تک ڈپٹی کشنر آواران نے مظاہرین سے بات چیت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

لواحقین نے آخر میں کہا ہے کہ کیا ایک بلوچ خاتون ڈپٹی کمشنر کو سرد راتوں میں بیٹھی دوسری بلوچ خواتین کا زرا بھر بھی احساس نہیں جو گزشتہ چار راتوں سے کھلے آسان تلے سڑکوں پر رات گزارنے پر مجبور ہیں؟ ضلعی انتظامیہ خود کو کیسے بری الزمہ قرار دے سکتی ہے جبکہ ان کے اپنے اسسٹنٹ کمشنر نے باقاعدہ طور پر دستخط کرکے دیا ہے کہ دس دنوں میں دلجان بلوچ کو بازیاب کیا جائے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 16:46


مستونگ پاکستانی فورسز کا ٹرکوں پر فائرنگ،پانچ ڈرائیور لاپتہ ،متعدد زخمی ، واقع کخلاف احتجاج جاری


جمعرات ، 21 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/11466/


مستونگ ( ویب ڈیسک ) مستونگ میں ایف سی نے ڈیرہ مراد جمالی جانے والی ٹرکوں پر مستونگ کے علاقے دشت کمبیلا کے مقام پر فائرنگ کردی اور ٹرکوں کے ٹائر پھاڑ دیئے۔ پانچ ڈرائیور لاپتہ ہوگئے ہیں جن کے نام تاحال معلوم نہیں ہوسکے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں ۔

بتایا جارہاہے کہ ایف سی نے دشت کمبیلا مستونگ کے مقام پر متعدد ٹرکوں پر فائرنگ کردی جس سے ٹرکوں کے ٹائر پھٹ گئے اور ٹرک ڈرائیور بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے۔

مقامی افراد کے مطابق ایک شخص جب زخمی ڈرائیوروں کو اپنے کار میں ڈال کر ہسپتال لے جارہا تھا تو ایف سی نے اس کار کو بھی مستونگ ایف سی کیمپ کے سامنے روک کر ان پر تشدد کیا اور کار گاڑی کے بھی شیشے توڑ دیئے، کار ڈرائیور کو بھی دوسرے زخمیوں کے ساتھ ہسپتال پہنچا دیا گیا۔

واقعہ کے خلاف ٹرک ڈرائیوروں کا احتجاج جاری ہے اور ایف سی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 16:30


پاراچنار سانحہ ،ھلاک افراد کی تعداد 81 جن میں مسافر خواتین کی تعداد 21 ہو گئی، 17 شیر خوار بچے، 21 بچوں کی عمریں 7 اور 13 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں ۔ ھلاک اور زخمی خواتین وحضرات کا تعلق اہل تشیع سے بتایا جارہاہے۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1859634796801998963?t=xK3-f0yJ7KCf-P9eWoTy3g&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 16:03


ضلع کیچ کا علاقہ دشت کھڈان ایک ہفتہ سے محاصرے میں متعدد نوجوان لاپتہ ہیں ۔ ترجمان بی وائی سی

جمعرات ، 21 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کے جاری بیان کے مطابق ضلع کیچ کی تحصیل دشت کا دور افتادہ علاقہ کُھڈان فوجی محاصرے میں ہے اور فوج کشی ایک ہفتے سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ پورے علاقے پر سیکورٹی فورسز کا سختی سے کنٹرول ہے اور لوگ یرغمال کی زندگی گزار رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے (LEAs) گھر گھر چھاپے مار رہے ہیں، آگ لگا رہے ہیں اور لوگوں کو خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو زبردستی غائب کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سے کئی بلوچ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا چکا ہے۔ کچھ کیسز درج کیے گئے ہیں جب کہ بہت سے خوف، ہراساں کیے جانے اور مواصلاتی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو اداروں کی بربریت اور اپنے حالات بارے کسی کو کچھ بتانے سے قاصر ہیں ۔

انھوں نے کہاہے کہ فوجی بربریت دوران ابتک طلال عمر ولد محمد عمر، ایف ایس سی کا طالب علم، 10 نومبر کو لاپتہ ہو گیا،
سلمان ولد لیاقت اور عامر ولد محمد ابراہیم دونوں طالب علم ہیں، 10 اور 11 نومبر کو لاپتہ ہوئے۔

حبیب ولد مجیب، میٹرک کا طالب علم 19 نومبر کو لاپتہ ہو گیا۔
حکیم بلوچ، ایک مزدور 10 نومبر کو لاپتہ ہو گیا۔
مزید برآں، مقامی بلوچ عوام پر فوجی آپریشنز کے خوف اور نفسیاتی اثرات کی کوئی مثال نہیں ملتی اور اس نے ان کی زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔

ترجمان نے کہاہے کہ نسل کشی کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی دشت کے علاقے اور پورے بلوچستان میں جاری استعماری تشدد کی مذمت کرتی ہے۔ عالمی برادری نوٹس لے اور ریاست کو بلوچوں کی نسل کشی سے باز رکھے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بلوچوں کے بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو اجاگر کریں۔ بلوچ قوم کو اپنی مزاحمت جاری رکھنی چاہیے اور اس فوجی آپریشن کے خلاف متحد ہونا چاہیے جس سے ہمارے قومی وجود کو خطرہ ہے۔

https://urdu.zrumbesh.com/11471/

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 15:42


مستونگ حملے میں دشمن کے تین اہلکار ہلاک کردیئے گئے - بی ایل اے

https://urdu.zrumbesh.com/11469/

مستونگ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ  سرمچاروں نے مستونگ میں ایک حملے میں قابض پاکستانی فوج کے تین اہلکاروں کو ہلاک اور پانچ زخمی کردیئے۔
ترجمان نے کہا ہےکہ سرمچاروں نے اسپلنجی میں پاکستانی فوج کی گاڑیوں کے ایک قافلے کو ریموٹ کنٹرولڈ آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنانے کے بعد راکٹ اور دیگر بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا ہے کہ حملے میں دشمن فوج کی بکتر بند سمیت تین گاڑیاں زد میں آئیں، جس کے نتیجے میں کم از کم تین دشمن اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔
ترجمان نے کہاہے کہ بلوچ لبریشن آرمی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے-

 

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 13:24


https://urdu.zrumbesh.com/11463/

کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ سے 6 خواتین سمیت 39 افراد ہلاک متعدد

جمعرات ، 21 نومبر ،2024 / زرمبش اردو


پشاور ( مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے میں 39 افراد ہلاک 11 زخمی ہو گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ واقعہ لوئر کرم کے علاقے مندروی میں اس وقت پیش آیا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار آنے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملہ کیا گیا۔

مندروی کے بنیادی مرکزِ صحت میں تعینات ڈاکٹر محمد نواز نے بی بی سی کے افتخار خان کو بتایا کہ اب تک 33 لاشیں لائی گئی ہیں جن میں چھ خواتین بھی شامل ہیں۔

کانوائے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ’ہم پانچ سے چھ اہلکار تھے، پتا نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی۔ ہمارا ایک ساتھی بھی فائرنگ سے زخمی ہوا ہے۔‘

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

21 Nov, 09:06


https://urdu.zrumbesh.com/11460/

نوشکی ،کیچ فوج کشی تیسرے روز بھی جاری 2 نوجوان جبری لاپتہ

جمعرات ، 21 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

نوشکی، کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع نوشکی میں تین دن سے فوج کشی جاری ، کیچ سے فورسز ہاتھوں دو نوجوان جبری لاپتہ ۔

تفصیلات کے مطابق نوشکی علاقے میں پاکستانی فورسز کی فوج کشی جاری ہے آج تیسرے دن بھی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازیں جاری ہیں جبکہ وقتاً بہ وقتاً فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں بھی سنی جارہی ہیں۔

آخری اطلاع تک مزکورہ فوج کشی دوران کسی قسم کے نقصانات بارے معلومات نہیں مل سکے ہیں ۔

ادھر ضلع کیچ کے علاقہ دشت کھڈان سے اطلاعات ہیں کہ حبیب ولد مجیب اور علی اصغر ولد محمود نامی دو نوجوانوں کو فورسز نے حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 19:50


https://urdu.zrumbesh.com/11457/

سنجاوی نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے علاقائی سیاسی رہنما زخمی

بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

سنجاوی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے علاقہ سنجاوی میں گھر کے قریب فائرنگ سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے علاقائی سیکرٹری ملک احسان دومڑ شدید زخمی ہوگئے ۔

بتایا جارہاہے کہ ملک احسان دومڑ قبائلی رہنما ملک لاجور خان دومڑ کا بیٹا اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سنجاوی کا سیکرٹری ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 19:36


https://urdu.zrumbesh.com/11455/

آواران جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے بجائے انکےلواحقین کو ریاستی فورسز اور اداروں کی جانب سے ہراساں کرنا سمجھ سے بالا ہے ۔ بی وائی سی


بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ رواں سال کے شروع میں 2 مئی کو جبری لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین - سجاد عظیم، ولی جان اور حاصل خان کو اغوا کیا گیا، 26 اپریل کو علاقہ مکینوں نے متاثرین کے ساتھ، تین روزہ دھرنا دے کر ان ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کیاگیا ۔

انھوں نے کہاہے کہ جیسا کہ بلوچستان میں اکثر ہوتا ہے، حکام نے ان ہولناک جرائم پر توجہ دینے کے بجائے ان خاندانوں کے افراد کو تشدد اور ذلیل کرنے کا سہارا لیا ہے جو محض پرامن زندگی گزارنے کے اپنے بنیادی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں مشکے میں تعینات سکیورٹی فورسز نے خواتین اور بچوں سمیت ان خاندانوں کو زبردستی فوجی کیمپوں میں بلا کر ان کی ہراسانی میں اضافہ کیا ہے۔

ترجمان نے کہاہے کہ اس طرح کے عمل بلوچستان میں خطرناک حد تک عام ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جو طویل فوجی محاصرے اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ ان میں فوجی کیمپوں میں خواتین کی تذلیل اور بلوچ مردوں کی جبری مشقت شامل ہے۔ تشدد کی یہ گھناؤنی کارروائیاں، جبری گمشدگیاں اور جبری مشقت جاری بلوچ نسل کشی کے واضح اشارے ہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچ قوم کی ایک جائز آواز کے طور پر ان جرائم کی شدید مذمت کرتی ہے اور پہلے سے مظلوم اور محروم بلوچ عوام کے خلاف ایسے مظالم کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم تمام باضمیر افراد اور برادریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان جرائم کا نوٹس لیں اور ان کی مزاحمت کریں۔ یہ صرف انسانی حقوق کا نہیں بلکہ عزت اور وقار کا بھی معاملہ ہے، خاص طور پر جب ہماری خواتین کو فوجی کیمپوں میں اس طرح کی تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 19:04


https://urdu.zrumbesh.com/11453/

ڈیرہ بگٹی میں فوج کشی کیلے علاقہ میں داخل ہونے والے فورسز سے جھڑپ جاری ہے ۔ بی آر اے

بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

ڈیرہ بگٹی( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) کے ترجمان سرباز بلوچ کے جاری کردہ بیان کے مطابق، بی آر اے کے سرمچاروں نے بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے چبدر میں حال ہی میں قائم کردہ پاکستانی فوج کے مرکزی کیمپ پر شدید حملہ کیا ہے۔

ترجمان کے مطابق، اس حملے میں فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جس کی ذمہداری قبول کرتے ہیں ۔

ترجمان نے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ سرمچاروں نے کیمپ کی دو حفاظتی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ جبکہ چبدر، لوپ سہرانی، اور آس پاس کے علاقوں میں پاکستانی فورسز کے اہلکار آپریشن کی غرض سے داخل ہوئے ہیں جن سے بی آر اے کے سرمچاروں کی جھڑپیں جاری ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 18:45


https://urdu.zrumbesh.com/11451/

نام نہاد ایپکس کمیٹی کا فیصلہ بلوچ نسل کشی کو وسعت دینے کی نئی پالیسی ہے۔ بی ایس او آزاد

بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال ( پ ر ) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے بلوچ طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے بلوچ نوجوان “عملی تعلیم” پر توجہ دیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ قابض پاکستانی اداروں کی جانب سے بلوچستان میں جاری جارحیت، قتل و غارت گری، اغوا، جعلی مقابلوں میں جاری قتل عام کو مزید شدت دینے کیلئے نام نہاد ایپکس کمیٹی کی میٹنگ میں بلوچستان میں ایک نئی جارحیت لانچ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے، جس کا مقصد بلوچ نسل کشی کے تسلسل کو منظم انداز میں جاری رکھنا ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ سیکورٹی ادارے پہلے ہی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہیں اور بلوچ عوام مند سے لیکر آواران تک ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔ قابض پاکستان کی جانب سے بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک سروس کو بند کرنے کا مقصد بلوچستان میں جاری نسل کشی اور قتل عام کو دنیا سے چھپانے کی کوشش ہے۔ بلوچ عوام قابض کے اس غیر انسانی رویے پر مبنی جارحیت کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔

انہوں نے کہاہےکہ قابض پاکستان ایک ملٹی ڈائریکشنل اپروچ کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، جس میں فوجی کارروائی کے ساتھ پروپیگنڈا، نام نہاد ترقیاتی منصوبے، اجتماعی سزا اور جبری نقل مکانی جیسی پالیسیاں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ریاست سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کر سکتی ہے۔ قابض کے اس جنگ میں چین براہ راست اس کی حمایت کر رہا ہے، جبکہ ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی اس غیر انسانی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا ہے کہ عالمی دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ بلوچ قوم اپنی زبردستی چھینی گئی ریاست کو دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ قابض پاکستان جیسے غیر فطری ریاست کا ساتھ دینے والے مستقبل میں اپنی پالیسیوں پر ضرور پشیمان ہوں گے۔

انہوں نے آخر میں کہاہےکہ بی ایس او آزاد بلوچ نوجوانوں اور بالخصوص اپنے کارکنوں پر زور دیتی ہے کہ وہ “عملی تعلیم” پر توجہ مرکوز کریں تاکہ قومی تحریک کو مزید مضبوط کیا جا سکے اور مستقبل کے چیلنجز کا مؤثر انداز میں سامنا کیا جا سکے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 18:29


انھوں نے مزید کہا ہےکہ میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے شاید یہ سمجھنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے کہ ہم کمزور پڑ کر من مانیاں من و عن قبول کریں گے یہ محض اک بھول ہی ہوگی ہاں اس طرح کے اقدامات  ضرور ٹھیس پہنچا کر دوریوں کی باعث بنیں گی مگر بی ایس سی ملتان کی بقاء کی خاطر یہ دوریاں سر خم کرکے تسلیم کرتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کونسل کی بقاء کے فیصلے وہ شخص نا کرے جس نے ہمارے گراؤنڈ پر ایک لمحہ تک نہیں گزارا ہے۔بی ایس سی ملتان کے فیصلے بی ایس سی ملتان کے جنرل باڈی سے ہی پاس ہوں نا کہ بیرونی انجان افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوکر فیصلے توپنے کی روایت شروع ہو۔

ترجمان نے آخر میں کہا ہےکہ کونسلز میں مسائل اب بھی سر اٹھا رہے ہم بھی کونسلز کے مسائل سے بہ خوبی آشنا ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی کونسل کے مسئلہ کو ڈسکس کرنا گوارا نہیں سمجھا جو کہ ہماری ادارے کی ڈسپلن کے پیروی کرنے کی ثبوت ہے۔مگر وفاق و پنجاب کی شائع شدہ تحریر یہ آشنائی ملی کہ انکی نظریں ملتان کونسل پر ٹکی ہیں اس سے ہزار گنا بہتر یہی ہے وہ اپنی مسائل کا حل ڈھونڈیں اگر وہ اپنی مسائل کو بائی پاس کرکے ملتان کونسل پر نظر ٹکانے کی کوشش میں ہیں تو یہ خلا میں تیر چلانے کی مترادف ہوگی کہ جسکا نشانہ نا پکا اور نہ ہی کچا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 18:29


https://urdu.zrumbesh.com/11448/

من چاہی اتحاد و اجنبی سرزمین کی ڈھونگ رچانےوالے ایک ہی روداد کو بار بار شائع کرکے اپنی بھوکلاہٹ اور طفلانہ طرظِ سیاست کی ثبوت دے کر واضح بھی کررہے ہیں۔ بی ایس سی ملتان

بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو


ملتان ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل مُلتان کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پہلے کئی دفعہ یہ واضح کرچکے ہیں اور ابھی تک اپنی گزشتہ وضاحت پر قائم بھی ہیں کہ بی ایس سی ملتان ایک آزاد ادارہ ہے جس کی منشور اپنی ہی ممبران جو بلوچ طلباء ملتان میں زیر تعلیم ہیں انہی کی توسط سے قائم و کارگر ہے جسکا ملتان سے باہر کسی بھی کوئی تنظیم یا کونسلز کے ساتھ آئینی رشتہ نہیں ہے۔البتہ بہ حیثیت بلوچ یہ بارہا کہا جا چکا ہے کہ اخلاقی رشتہ قائم ہے استوار کرنے کی سوالی بھی ہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے نام پر بننے والی اتحاد کو دفعتاََ اصولوں کو مد نظر رکھ کر جواب نفی میں دی ہے جو کہ ایک ادارے کی حیثیت سے جواب دینے کا حق بھی رکھتے ہیں۔مگر ایک ہی روداد کو بار بار اسٹیٹمنٹ شکل میں شائع کرنا  خود کو دودھ کے دھلے اور بی ایس سی ملتان کی ساخت پر داغ اچھالنے کی ناکام کوشش ہے جس کی مزمت اسلئے نہیں کرتے کہ ”یہ محض ایک بچگانہ سیاسی عمل ہے“ اس طرح کے حربوں سے بی ایس سی ملتان کسی کی ایموشنل اپروچ اور طفلی سوچ کے شکنجے میں نہ پھنسنے والی ہے اور نا ہی ایسی کمزوریوں کو جگہ دے گی جو مستقبل میں پھنسنے کے باعث بنیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے نام پر بننے والی اتحاد ایک من چاہی اتحاد ہے جو کہ محض ایک گروہ کی من چاہی اشارے،مفاد،ڈکٹیشن اور کونسلز کی مزاج کو ٹھیس پہنچانے کی مترادف ہے جنکو مد نظر رکھ کر اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ لیا مگر بی ایس سی پنجاب کے کسی بھی کام میں خلل کی وجہ بنے ہیں اور نا ہی بنیں گے مگر وفاق و پنجاب کی جانب شائع شدہ اسٹیٹمنٹ سے واضح ہے کہ وہ چاہتے ہی یہی ہیں کہ بی ایس سی ملتان انکی من چاہی اتحاد کے جال میں پھنس کر اپنی ادارتی وقار کھو بھیٹے جو کہ محض اک خواب کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔

ترجمان نے مزید کہا ہے کہ اتحاد قوموں کی جانبِ منزل روانگی کی ایک اہم کڑی ہے مگر اتحاد کا فیصلہ لینے والوں کی نیت میں کھوٹ ہو تو اسے اتحاد نہیں سینہ زوری کہنا مناسب سمجھیں گے۔اُس اتحاد کو خیر آمد کہتے ہیں جو کونسلز کی بلائی و بقاء کیلیے ہو جس کے لئیے کسی بھی وقت قدم بہ قدم تیار ہیں۔
ہائیجیکنگ کے مورد الزام ٹہرانے والوں کو اتنی تک نہیں پتہ کہ ہائیجیکنگ کرنا کس کو کہتے ہیں رٹی رٹائی اصطلاحات سے من گھڑت سیاسی ٹوٹکے بن تو سکتے ہیں مگر جب بھکریں تو زمہ دار کون؟

انھوں نے کہا ہے کہ اجنبی سرزمین کی راگ آلاپنے والے خود یہ کہتے نہیں تھکتے کہ بلوچ جہاں بھی ہو بلوچ ہے مگر جب من مانیاں پوری نہ ہوں تو طرح طرح کی اصطلاحات قلم بند کرکے عارضی اور نہ جواب پانے والے تجسس سے اپنی اور باقی طلباء کی مزاجی مستقل تجسس سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں جو صرف اور صرف کونسلز کو استوار کرنے کا ایک غیر پوشیدہ بہانہ اور سیاسی دل بہلانا ہی ہے جس کو جامد و وسیع نظریہ سے کوئی بھی لینا دینا نہیں۔

ترجمان نے کہا ہےکہ ادروں میں مسائل کا ظہور لازم و ملزوم ہے اسی طرح بی ایس سی ملتان بھی مسائل سے انکاری نہیں کوشانِ حل ضرور ہے  لیکن حل وہ جو ادارے کی بہتری کیلئے ہو نا کہ اس سے ایک گروہ کی پروٹوکول مضبوط ہو اور ادارے نکھار میں دھندلا پن آجائے ۔مگر آل کونسلز کی جانب آئے ہوئے دوستوں نے مسئلہ کو بہ زور و سماجت کی حل دینے کی کوشش کی اور جب ناکام رہے تو منہ چھپانے کے بجائے غلاف اوڑھ کر آسانیاں ڈھونڈنے میں کوشاں رہے تب بھی ہم انکے مشکور ہیں کہ انہوں نے وقت نکالنے کی جسارت کی لیکن حقائق پہ مبنی الفاظ استعمال کرتے تب شاید من چاہی اتحاد کو وقت کا تقاضہ سمجھ کر اپنا لیتے لیکن جو ہم شک کی نگاہ سے دیکھ کر اندیشہ ظاہر کررہے تھے  انکی قلم کی رویہ سے حقیقت میں بدل گیا اور اتحاد کی تابوت کو آخری کیل ٹونکنے کی ذمہ داری نبھائی۔

بی ایس سی ترجمان نے کہا ہےکہ ایک مرتبہ پھر واضح کرتے ہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان ایک با اختیار ادارہ ہے جو اپنے اندرونی مسائل میں بیرونی مداخلت قبول نہیں کریگی چاہے وہ مداخلت نام نہاد اتحاد کی ہو یا بلوچیت کے نام پر ایموشنل اپروچز کے پیچھے چپے سیاسی دکانداری کی ہو اور نا ہی کسی کونسل کی مسائل میں مداخلت کرنے کی اجازت بی ایس سی ملتان کی آئین دیتی ہے جسکی پاسداری کرتے ہوئے ہمیں کسی کونسل یا کونسلز کی مسائل سے سروکار نہیں  ہے۔البتہ بلوچ طلباء کے اجتماعی مسائل میں کسی بھی وقت شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے سے گریز نہیں کریں گے جو کہ ہماری ماضی کی تسلسل کا حصہ ہے اور برقرار رہے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 18:00


ڈیرہ بگٹی مسلح افراد کا فورسز کیمپ پر حملہ

بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/11446/

ڈیرہ بگٹی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے چبدر میں پاکستان فوج کے کیمپ پر مسلح افرادنے
راکٹوں اور بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا ۔

ذرائع کا کہنا ہے متعدد مقامات پر پاکستانی فوج اور مسلح افراد کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 17:43


شال شاہ زیب ساتکزئی بلوچ کی میت لواحقین کے حوالے، کل صبح نماز جنازہ آبائی علاقے ڈغاری میں ادا کی جائے گی۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1859291285271597141?t=5ZUeTOCoIT2YQNZ_B63Jug&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 17:35


https://urdu.zrumbesh.com/11443/

بلوچستان میں مزید عسکری طاقت کے استعمال کی سوچ پر شد ید تشویش ہے۔ ایچ آر سی پی

بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک )انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان ایچ آر سی پی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ تنظیم یقینی طور سے یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں جاری شورش اور تشدد کے مسئلے کا حل فوری، اعلٰی اختیاراتی اور فیصلہ کن سیاسی مذاکراتی عمل سے ہی ممکن ہے جس میں تمام متعلقہ فریقین شامل ہوں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ حکومت مسئلے کے حل کے لیے اور زيادہ عسکری طاقت کے استعمال کے متعلق سوچ بچار کر رہی ہے۔

ترجمان ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات ماضی میں کئی بار کیے جا چکے ہیں جن کے نتیجے میں صرف مقامی آبادی کے غصّے اور بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے ، خاص طور پر اس وجہ سے کہ ایسے اقدامات میں شفافیت اور ان پر سویلین نگرانی کا فقدان ہوتا ہے جس سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایچ آر سی پی مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست ہر قسم کے حالات میں بلوچستان کے شہریوں کے دستوری و قانونی حقوق کا تحفظ کرے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

20 Nov, 17:15


https://urdu.zrumbesh.com/11441/

تربت مدرسہ کے قریب بم دھماکہ فائرنگ 3 طلباء زخمی

بدھ ، 20 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

تربت ( نامہ نگار ) بلوچستان ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت مدرسہ جامع اشاعت التوحید ملک آباد تربت کے قریب بم دھماکہ اور فائرنگ سے تین طالب علم زخمی

اطلاع کے مطابق تربت میں مدرسہ جامع اشاعت التوحید ملک آباد میں بم دہماکہ کے بعد دو طرفہ فائرنگ کی گئی۔

دھماکہ اور فائرنگ کی زد میں آنے سے ابتدائی اطلاع کے مطابق مدرسہ کے تین طالب علم زخمی ہوگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مزکورہ مدرسہ کے مہتمم معروف عقلم دین مفتی شاہ میر ہیں جب کہ اس کی سرپرستی مکران کے معروف عالم اور مذہبی رہنما مولانا الیاس دلاوری کر رہے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 21:57


https://urdu.zrumbesh.com/11427/

اسلام آباد ایپکس کمیٹی کا اجلاس، بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوج کشی کی منظوری دی گئی

منگل ، 19 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرصدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی وفاقی وزرا، بلوچستان کے کھٹ پتلی وزیر اعلی سمیت دیگر وزرائے اعلیٰ، آرمی چیف جنرل ملا عاصم منیر اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کا ایجنڈا پاکستان کی انسداد دہشتگردی مہم کو دوبارہ فعال کرنا تھا۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ کے مطابق شرکا نے بلوچستان میں سرگرم تنظیموں بشمول مجید بریگیڈ، بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے کے خلاف جامع فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی۔ جو دشمن بیرونی طاقتوں کی ایما پر عدم تحفظ پیدا کرکے پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے معصوم شہریوں اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس کے شرکا کو سیکیورٹی کے بدلتے ہوئے منظر نامے، دہشت گردی اور دیگر اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات بشمول امن و امان کی عمومی صورتحال، قوم پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دینے کی کوششوں کے خلاف کارروائیوں، غیرقانونی اسپیکٹرم کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی نے ان چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ایک متحد سیاسی آواز اور ایک مربوط قومی بیانیے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا گیا کہ ہمیں دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے مکمل اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔

اجلاس میں وفاقی، صوبائی حکومتوں سمیت متعلقہ اداروں اور وزارتوں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے پر خصوصی زور دیا گیا۔

اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے موصول ہونے والی ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی ایپکس کمیٹیوں کے تحت ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قومی سلامتی کو لاحق تمام خطرات کے خاتمے اور امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کی بھرپور حمایت کرنے کے لیے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔

اختتام پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ہدایت کی کہ وہ بیان کردہ اقدامات کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھاتے ہوئے ان کے بروقت نفاذ کو یقینی بنائیں۔

انہوں نے پاکستان کی خودمختاری، اس کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور معاشی و سماجی استحکام کو تقویت دینے کے لیے پائیدار اور مربوط کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 21:42


جانی خیل بنو ایف سی چیک پوسٹ پر خودکش حملہ ، فائرنگ 11 اہلکاروں کی ھلاکت متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1858988856202473508?t=JarKuscRPfzlOhdl66FiBA&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 20:32


https://urdu.zrumbesh.com/11424/

قلات جھڑپ میں جانبحق نوجوان کے ہمشیرہ کی نعش حوالگی کا مطالبہ، حکام کا انکار

منگل ، 19 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو


قلات ( مانیٹرنگ ڈیسک ) قلات میں پاکستانی فورسز کے کیمپ پر حالیہ حملے اور جھڑپ میں ھلاک بلوچ لبریشن آرمی کے فتح اسکواڈ کے رکن شاہ زیب ساتکزئی کی لاش کو حکام نے لواحقین کے حوالہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

شاہ زیب کے ہمشیرہ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کے منتظر ہیں، مگر حکام نے اب تک لاش کی حوالگی سے انکار کر رکھا ہے۔

شاہ زیب کی ہمشیرہ نے مزید بتایا کہ جب وہ اپنے بھائی کی لاش لینے کے لیے سول اسپتال پہنچے تو اسپتال انتظامیہ نے انہیں سی ٹی ڈی حکام کے پاس جانے کا کہا۔ وہاں جانے پر انہیں قلات میں عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ عدالت بھی گئے، مگر سی ٹی ڈی اور اسپتال انتظامیہ تاحال لاش کی حوالگی سے انکار کر رہے ہیں۔

شاہ زیب کی ہمشیرہ نے بلوچ سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان سے اپیل کی ہے کہ وہ کل صبح دوبارہ اسپتال آئیں اور بلوچ ہمدرد دوست بھی ان کے ساتھ آئیں تاکہ وہ اپنے بھائی کی جسد خاکی حاصل کر سکیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں اکثر ہسپتال انتظامیہ پاکستانی فورسز کے احکامات پر بلوچ آزادی پسندوں کی لاشوں کی حوالگی سے انکار کر دیتی ہے، اور اس دوران لواحقین سے مختلف دستاویزات پر دستخط کروائے جاتے ہیں۔ حکام ان دستاویزات کو بعد میں آزادی پسندوں اور سیاسی حلقوں کے خلاف بطور پروپیگنڈہ استعمال کرتے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 20:15


https://urdu.zrumbesh.com/11421/

بی ایم سی کی فوج حوالگی کے خلاف بلوچستان طلباء تنظیموں کا مشترکہ گرینڈ اجلاس

منگل ، 19 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال ( پ ر ) بلوچستان کے طلباء تنظیموں کے ترجمان کے جاری بیان کے مطابق بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی جانب سے بولان میڈیکل کالج پر پولیس قبضے اور ہاسٹلوں کی بندش کے خلاف آج بولان میڈیکل کالج میں گرینڈ مشترکہ میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں طلباء و طالبات نے شرکت کی۔

انھوں نے کہاہے کہ گرینڈ مشترکہ میٹنگ میں طلباء الائنس جن میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار اور کثیر تعداد میں میڈیکل اسٹوڈنٹس ، بی ایم سی کے دیگر تنظیموں سمیت کثیر تعداد میں طالبعلموں نے شرکت کی۔

ترجمان نے کہاہے کہ گرینڈ میٹنگ میں تمام طالبعلموں اور شرکاء نے بلوچستان حکومت اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد بولان میڈیکل کالج اور ہاسٹلز کو فورآ کھولا جائے بصورت دیگر کل سے بولان میڈیکل کالج کے سامنے احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا جائے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 19:56


https://urdu.zrumbesh.com/11418/

آواران کی گمشدہ صدا:
جہاں روشنی آنے سے ڈرتی ہے، وہاں اندھیروں کے نام پر لہو بہایا جاتا ہے

تحریر: سنگت آوارانی


آواران، بلوچستان کا وہ گوشہ جسے دنیا شاید بھول چکی ہے، ایک بے آواز خطہ جہاں ظلم اور بربریت کی داستانیں خاموشی سے دفن ہو جاتی ہیں۔ اس خاموشی کو توڑنے والے چند لوگ جب اپنے پیاروں کی تلاش میں نکلتے ہیں، تو ان کے دل میں ایک چنگاری جلتی ہے، ایک امید کہ شاید ان کے گمشدہ عزیزوں کی واپسی ممکن ہو۔ لیکن اس چنگاری کو جلا بخشنے والا سورج بھی یہاں طلوع ہونے سے ڈرتا ہے، جیسے کہ وہ بھی اس خطے کے دکھ اور تکلیف کی گواہی دینے سے خوف زدہ ہو۔

یہاں نہ تو بازار ہے، نہ سڑکیں ہیں، جہاں لوگ احتجاج کرے نہ دکانیں ہیں جہاں کوئی پوسٹر بنائے ہا بینر تیار کرے نہ کوئی انٹرنٹ، نہ کوئی میڈیا جہاں کوئی اپنا آواز بنلد کرے۔ آواران ایک ایسا مقام ہے جہاں اندھیرا روشنی کو نگل لیتا ہے اور ہر گلی، ہر کونا، ہر پہاڑ خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ لیکن اس خاموشی میں ایک صدا ہے، ایک درد بھری پکار، جسے سننے والا شاید کوئی نہیں۔

دلجان، ایک اور نام، ایک اور انسان، ایک اور بلوچ، جو اس بربریت کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کی گمشدگی کا غم، اس کی ماں کے آنسو، اس کے بچوں کی بے چین نگاہیں، اس کے والد کی جھکی ہوئی کمر، یہ سب وہ تصویریں ہیں جو آواران کی ہر گلی، ہر کونے میں بکھری ہوئی ہیں۔ لیکن کیا یہ تصویریں کسی کی توجہ حاصل کر سکیں گی؟ کیا اس بربریت کا کوئی انجام ہوگا؟ شاید نہیں، شاید یہ ریاست اسی بزدلی کی چادر میں لپٹی رہے گی، شاید یہ اندھیرے کبھی ختم نہ ہوں۔

دلجان کی ماں، جس نے اپنے بیٹے کو اپنے گود میں پال پوس کر بڑا کیا، آج اس کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ اس کے آنسو، اس کی فریاد، اس کا درد، وہ ہر درخت، ہر پتھر سے ٹکراتی ہے، لیکن اس کے درد کا کوئی جواب نہیں۔ اس کی آواز ایک گہرے کنویں کی گونج کی طرح واپس آتی ہے، ایک بے آواز چیخ جو کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔

آواران کی فضا میں ہر سانس کے ساتھ ایک درد کی کہانی گھلی ہوئی ہے، ہر لمحہ ایک اذیت کی تصویر ہے۔ یہاں کے بچے، جن کی معصوم آنکھوں میں خوف اور مایوسی کی جھلک ہوتی ہے، وہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا مستقبل اندھیروں میں گم ہے۔ ان کی مسکراہٹیں، ان کے کھیل، ان کی ہنسی، سب کچھ اس جبر کی چادر تلے دب چکی ہیں۔

جبری گمشدگی ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا، جو ہر دن، ہر لمحہ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ بلوچستان کے لوگ، جنہوں نے اپنے پیاروں کو رات کی تاریکی میں کھو دیا، وہ دن کی روشنی میں ان کی تلاش میں نکلتے ہیں، لیکن یہ روشنی بھی انہیں مایوسی اور اندھیروں کی طرف لے جاتی ہے۔

بلوچستان میں رہنے والے لوگ شاید دنیا کی نظر میں کمزور ہوں، لیکن ان کے دل میں ایک آتش ہے، ایک شعلہ جو اس جبر کے خلاف جلتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر آج انہوں نے آواز نہ اٹھائی، اگر آج انہوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج نہ کیا، تو کل یہ آتش خود ان کے دلوں کو جلا دے گی۔

آج دلجان کی گمشدگی کا غم پورے بلوچستان کا غم ہے۔ اس کی بازیابی کی جنگ میں، وہ لوگ جو اپنی آنکھوں میں آنسو چھپا کر نکلتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ صرف دلجان کے لیے نہیں ہے، یہ جنگ ہر اس بلوچ کے لیے ہے جو اس بزدل ریاست کے جبر کا شکار ہوا ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہیں، اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو کل شاید ہم خود اس اندھیرے کا حصہ بن جائیں گے۔دلجان کے لواحقین کو مدد کی ضرورت ہے، انہیں حوصلہ چاہیے، انہیں وہ لوگ چاہیے جو ان کے ساتھ کھڑے ہوں، جو ان کے درد کو سمجھیں۔آواران میں تنظیم جسے کہ سول سوسائٹی کے کارکن، بی ایس او
اور بی ایس ایف کے نمائندے، اور دوسرے تنظیم جس کا مقصد عوام کو ازیت اور تکلیف سے بچانا ہے انہیں دلجان کی بازیابی کے لیے میدان میں اترنا ہوگا۔ یہ جنگ ایک فرد کی بازیابی کی نہیں، یہ جنگ اس پوری قوم کی شناخت کی ہے، اس کی بقا کی ہے۔

اگر آج ہم دلجان کے لواحقین کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، اگر آج ہم نے ان کے درد کو محسوس نہ کیا، تو کل شاید ہم بھی اسی درد کا شکار ہوں۔ یہ یاد رکھنا کہ آج دلجان کی گمشدگی کل ہماری گمشدگی بن سکتی ہے۔ آج کے آنسو، کل کی چیخیں، آج کی خاموشی، کل کا شور بن سکتی ہے۔

بلوچستان کی یہ زمین، جس نے نہ جانے کتنے دلجانو ں کو اپنے اندر چھپا رکھا ہے، آج چیخ چیخ کر ہمیں پکار رہی ہے۔ آج اس کے ہر ذرّے میں ایک داستان دفن ہے، ایک ایسا راز جو ہمیں آواز اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمیں اس زمین کے ساتھ وفا کرنی ہوگی، ہمیں اس کی آواز بننا ہوگا، ہمیں ان بے گناہوں کے لیے کھڑا ہونا ہوگا جو اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 19:56


یہ وقت ہے کہ ہم اس بربریت کے خلاف ایک متحد آواز بنیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس ظلم کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کے لیے کھڑے ہوں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس جبر کی چادر کو پھاڑ کر ایک نئی صبح کا آغاز کریں۔ کیونکہ آج دلجان کی ماں، اس کی بہن، اس کے بھائی، سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں ایک امید ہے کہ شاید ہم ان کے لیے کچھ کر سکیں۔

ہمیں ان کی اس امید کو ٹوٹنے نہیں دینا، ہمیں ان کے آنسوؤں کو ضائع نہیں جانے دینا۔ ہمیں اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا، کیونکہ یہ صرف دلجان کی بازیابی کی جنگ نہیں ہے، یہ ایک قوم کی بقا کی جنگ ہے، ایک قوم کی شناخت کی جنگ ہے۔ آج اگر ہم نے قدم نہ اٹھایا، تو شاید کل ہمیں بھی کوئی اس اندھیری وادی میں تلاش کرتا ہوا نظر آئے۔یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس بربریت کے خلاف ایک دیوار بنیں، ایک مضبوط آواز بنیں، ایک ایسی قوت بنیں جو اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے کافی ہو۔ کیونکہ یہ جنگ صرف آج کی نہیں، یہ جنگ آنے والی نسلوں کے لیے ہے، یہ جنگ ان بچوں کے لیے ہے جو اس ظلم کے سائے میں بڑے ہو رہے ہیں، یہ جنگ ان کے مستقبل کے لیے ہے۔

ہمیں اس اندھیرے کو روشنی میں بدلنا ہوگا، ہمیں اس جبر کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں اس زمین کو اس کے اصل رنگ واپس دینا ہوگا۔ آج کا دن، ایک نئے سفر کا آغاز ہے، ایک نئی امید کا جنم ہے، ایک نئی روشنی کی تلاش ہے۔ ہمیں اس سفر میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا، ہمیں اس سفر کو انجام تک پہنچانا ہوگا، کیونکہ یہ جنگ ہماری ہے، یہ زمین ہماری ہے، یہ شناخت ہماری ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 17:22


https://urdu.zrumbesh.com/11415/

جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری
احتجاجی کیمپ کو 5641 دن ہوگئے


کوئٹہ ( پ ر )جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5641 دن ہو گئے ۔

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے جلیل بلوچ, درابلوچ, نے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاہےکہ اگرچہ بلوچ کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیٸےگٸے ہیں لیکن کبھی بھی بلوچ ماٸیں سڑکوں پر احتجاج کرنے نہیں نکلے۔ ماٶں کے اپنے جبری لاپتہ بچوں کےلیٸے آنسو اور درد تکلیف دہ انداز سے اس تفریق کو نمایاں طورپر ظاہر کرتی ہے ان کے جبری لاپتہ بچے اور وہ آسودہ ماٸیں اور اُن غمزدہ ماٶں کےلیٸے ہمدردی کا آغاز کرنا چاہیٸے اوراپنی ذمہ داروں کو سمجهتے ہوٸے یہاں ارو دوسری جگھوں میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کرناچاہٸے۔

ماماقدیر بلوچ کہاہےکہ ان ماٶں نے فوجی حکومت کی دہشت گردی کی پرواہ نہیں کرتی کیونکہ اپنے بچوں کے لیٸے ان کی محبت نے ان کے اندر سے ذاتی تحفظ کا خوف نکال دیاہے ان کی اعلانیہ پرامن جدوجہد نے اپنے جبر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیٸے (16)سالوں سے بھوک ہرتالی کیمپ اور پریس کلبوں کے سامنے جمع ہوتی ہے اور دنیاکواپنے جبری لاپتہ بچوں کی یاددلاتی ہیں۔ ان بہادر ماٶں بہنوں پر ظلم ستم کیٸےگٸے اور ان پرتشدد کیاگیا۔لیکن وہ پھربھی ثابت قدم رٸیں اور یہ ثابت کیاکہ ایک ماں اپنے لاپتہ لخت جگر کے لیٸے کرب مستقل اور غیرمتزلزل ہے ۔

انھوں نےکہا ہےکہ بلوچ ماٶں اور بہنوں کو بھی بے بنیاد حیلوں اور بہانوں کے زریعے انہیں شاہراہ ریڑزون سے دور رکہا جاتاہے وہ ملک بھر میں مختلف پریس کلبوں کے اپنے پیاروں کے جبری اغوا کے خلاف احتجاج کرنے کےلیٸے بھوک ہرتالی کیمپ لگایا ہے یہ واقعی اہم ہے اگر بلوچ کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیٸے کٸے ہیں لیکن بلوچ ماٸیں سڑکوں پر احتجاج کرنے نہیں نکلیں۔موجودہ باقاعدہ اور منظم جنگ جسے بلوچ کے خلاف مسلط کیاہے اس نے اُنہیں اپنے جبری لاپتہ پیاروں کی حمایت میں باہر آنے پر مجبورکردیاہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 17:20


https://urdu.zrumbesh.com/11415/

جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری
احتجاجی کیمپ کو 5641 دن ہوگئے

منگل ، 19 نومبر ، 2024/ زرمبش اردو

شال ( پ ر )جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5641 دن ہو گئے ۔

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے جلیل بلوچ, درابلوچ, نے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاہےکہ اگرچہ بلوچ کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیٸےگٸے ہیں لیکن کبھی بھی بلوچ ماٸیں سڑکوں پر احتجاج کرنے نہیں نکلے۔ ماٶں کے اپنے جبری لاپتہ بچوں کےلیٸے آنسو اور درد تکلیف دہ انداز سے اس تفریق کو نمایاں طورپر ظاہر کرتی ہے ان کے جبری لاپتہ بچے اور وہ آسودہ ماٸیں اور اُن غمزدہ ماٶں کےلیٸے ہمدردی کا آغاز کرنا چاہیٸے اوراپنی ذمہ داروں کو سمجهتے ہوٸے یہاں ارو دوسری جگھوں میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کرناچاہٸے۔

ماماقدیر بلوچ کہاہےکہ ان ماٶں نے فوجی حکومت کی دہشت گردی کی پرواہ نہیں کرتی کیونکہ اپنے بچوں کے لیٸے ان کی محبت نے ان کے اندر سے ذاتی تحفظ کا خوف نکال دیاہے ان کی اعلانیہ پرامن جدوجہد نے اپنے جبر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیٸے (16)سالوں سے بھوک ہرتالی کیمپ اور پریس کلبوں کے سامنے جمع ہوتی ہے اور دنیاکواپنے جبری لاپتہ بچوں کی یاددلاتی ہیں۔ ان بہادر ماٶں بہنوں پر ظلم ستم کیٸےگٸے اور ان پرتشدد کیاگیا۔لیکن وہ پھربھی ثابت قدم رٸیں اور یہ ثابت کیاکہ ایک ماں اپنے لاپتہ لخت جگر کے لیٸے کرب مستقل اور غیرمتزلزل ہے ۔

انھوں نےکہا ہےکہ بلوچ ماٶں اور بہنوں کو بھی بے بنیاد حیلوں اور بہانوں کے زریعے انہیں شاہراہ ریڑزون سے دور رکہا جاتاہے وہ ملک بھر میں مختلف پریس کلبوں کے اپنے پیاروں کے جبری اغوا کے خلاف احتجاج کرنے کےلیٸے بھوک ہرتالی کیمپ لگایا ہے یہ واقعی اہم ہے اگر بلوچ کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیٸے کٸے ہیں لیکن بلوچ ماٸیں سڑکوں پر احتجاج کرنے نہیں نکلیں۔موجودہ باقاعدہ اور منظم جنگ جسے بلوچ کے خلاف مسلط کیاہے اس نے اُنہیں اپنے جبری لاپتہ پیاروں کی حمایت میں باہر آنے پر مجبورکردیاہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 12:56


https://urdu.zrumbesh.com/11412/

آواران دلجان بلوچ کے لواحقین اور مکینوں نے احتجاجاً کراچی آواران شاہراہ کو بند کردیا۔

منگل ، 19 نومبر ، 2024/ زرمبش اردو

آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ اور مکینوں کا احتجاج جاری مظاہرین آواران کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کے دفتر کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں جبکہ اس موقع پر آواران تا کراچی مرکزی شاہراہ کو بیدی کے مقام پر بند کردیا گیا۔

مظاہرین کے مطابق وہ سخت سردی کے باوجود وہ کھلے آسمان تلے دھرنا دے رہے ہیں کیونکہ ٹینٹ مالکان نے ریاستی دھمکیوں کے باعث مظاہرین کو سہولت فراہم کرنے سے منع کر دیا ہے۔

مظاہرین کے مطابق، پاکستانی فوج اور پولیس مسلسل حراساں کر رہے ہیں تاکہ احتجاج ختم کروایا جا سکے، لیکن وہ اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک دلجان بلوچ بازیاب نہیں ہو جاتے۔

آپ کو علم ہے دلجان بلوچ کو 12 جون 2024 کو پاکستانی فورسز نے آواران سے حراست میں لیا تھا، اور ان کی گمشدگی کے بعد اہل خانہ نے 3 اکتوبر 2024 کو ڈی سی آفس آواران کے سامنے چار روزہ دھرنا دیا تھا۔

لواحقین کے مطابق اس وقت ڈی سی آواران اور دیگر ضلعی حکام نے معاہدہ کیا تھا کہ دلجان بلوچ کو 10 دن کے اندر بازیاب کیا جائے گا، لیکن آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جھوٹے وعدے اور دھوکہ دہی کے باعث وہ دوبارہ احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔

مظاہرین نے اس موقع پر ٹرانسپورٹ مالکان، اور عام عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے احتجاج میں شامل ہوکر ظلم کے خلاف اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں، مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر دھرنے کے شرکاء کو کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ اور موجودہ حکومت پر عائد ہوگی۔

دلجان بلوچ کے اہل خانہ نے مزید کہا کہ ماضی میں احتجاج ختم کروانے کے لیے جھوٹی تسلیاں دی گئی، لیکن اب وہ کسی یقین دہانی کے بغیر احتجاج جاری رکھیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ دلجان بلوچ کی بازیابی ان کا بنیادی مطالبہ ہے اور وہ کسی صورت اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

19 Nov, 11:30


کوہلو؛ کشک کے مقام پر نصب یوفون موبائل ٹاور کو مسلح افراد نے فائرنگ کرکے مشینری کو نقصان پہنچایا دیا ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1858834753136242947?t=-32UV1PwRkA_oGMjOV_0Kg&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 19:43


https://urdu.zrumbesh.com/11402/

شہداء کی قربانیوں کی بدولت بلوچ تحریک آگے بڑھ رہی ہے ، بی این ایم شہید صدیق بزدار سیل

پیر ، 18 نومبر ، 2024 | زرمبش اردو

شہدا کے فلسفے اور شہادت کی بدولت بلوچ تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں بلوچ شہداء نے ہمیں یہی پیغام دیا ہے کہ ہمیں آزادی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے شہید صدیق بزدار سیل کی طرف سے منعقدہ یادگاری ریفرنس میں کیا گیا۔

اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے درویش بلوچ نے کہا ہمیں قربانی کا سبق اپنے رہنماء شہید چیئرمین غلام محمد سے ملا ہے کہ انھوں نے اسی راستے میں اپنا سر قربان کیا۔اسی طرح ہم ہمارے سابقہ سیکریٹری جنرل شہید ڈاکٹر منان کی زندگی بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔13 نومبر ان تمام شہداء کو یاد کرنے کا دن ہے جنھوں نے گلزمین کے لیے خود کو قربان کیا۔ ان ہزاروں گمنام شہیدوں کو بھی ہم یاد کرتے ہیں جھنوں نے خاموشی سے اپنے سر دھرتی ماتا کے لیے نچھاور کیے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 17:46


بنوں میں احمد زئی سب ڈویژن روچہ چیک پوسٹ کو قبضہ کرکے 7 پولیس اہلکاروں کو اغواء کرلیا ،پولیس کا کہنا ہے کہ مغویوں کی تلاش جاری ہے۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1858566612376265075?t=CWUim37Qdg3lDx9AM0Wx7w&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 17:28


آواران پولیس دھمکی کے بعد دکاندرا نے جبری لاپتہ دلجان کے لواحقین کو ٹینٹ دینے سے انکار کردیا ۔دوسری جانب لواحقین کا احتجاجی دھرنا انتظامیہ کی وعدہ خلافی کے بعد پھر جاری ہے۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1858545224215077104?t=PnNfW3i-bpA5A0kulKJyBw&s=19

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 16:08


https://urdu.zrumbesh.com/11400/

شال سے اغواء شدہ بچے کی عدم بازیابی، لواحقین کا دھرنا چوتھے روز بھی جاری

سوموار ، 18 نومبر ، 2024/ زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچستان کے دارالحکومت شال اسکول وین سے اغوا ہونے والے 10 سالہ بچے محمد مصور کی بازیابی کے لیے احتجاج کا سلسلہ چوتھے روز بھی جاری ۔

مظاہرین نے پولیس اور حکومت پر الزام عائد کیا ہےکہ وہ بچے کی محفوظ واپسی میں ناکام رہے ہیں۔

اغواء شدہ بچے کے اہل خانہ نے اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے بچے کی بازیابی کے لیے مناسب قدم نہیں اٹھا رہے ہیں ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 15:34


https://urdu.zrumbesh.com/11398/

پنجگور ایک شخص پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ

سوموار ، 18 نومبر ، 2024/ زرمبش اردو


بنجگور ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع پنجگور سے پاکستانی فورسز نے فرید نامی ایک شخص کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ۔

بتایا جارہاہے کہ مذکورہ شخص کو پنجگور کے علاقے خدابادان میں گھر پر فورسز نے چھاپہ مارکر حراست میں لیا ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 14:50


https://urdu.zrumbesh.com/11395/

بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی بی ایم سی مسئلہ پر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان

سوموار ، 18 نومبر ، 2024 / زرمبش

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے طلباء تنظیموں نے بی ایم سی مسئلہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ گذشتہ دنوں بولان میڈیکل کالج میں طالبعلموں کے درمیان ایک معمولی مسئلہ ہوا تھا جس کے ردعمل میں شال پولیس نے کالج کے اندر داخل ہو کر ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے بولان میڈیکل کالج کے طلباء پر شدید تشدد کیا جس کی وجہ سے بہت سے طلباء شدید زخمی ہوگئے اور سینکڑوں طالبعلموں کو ہاسٹلز اور کالج کے احاطے کمروں سے نکال کر گرفتار کر لیا تھا۔

پریس کانفرنس میں انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ پولیس نے کمروں کو‌توڑ کر پڑھنے والے طالبعلموں پر‌ بھی لاٹھی برسائے اور شدید تشدد کا نشانہ‌بناتے رہے پولیس تشدد، گرفتاریوں اور غیر قانونی چھاپوں کے خلاف جب طالبعلموں نے بی ایم سی کے مین گیٹ پر دھرنا دینے کی کوشش کی تو پولیس نے طلباء کے احتجاجی دھرنے پر دھاوا بول کر طالبعلموں پر ایک بار پھر آنسو گیس کی بے دریغ شیل داغے اور یہاں پر بھی طالبعلموں سمیت راہگیروں پر تشدد اور گرفتاریاں کی گئی جس کی وجہ سے کچھ طالبعلوں کی حالت انتہائی خراب ہوگئی تھی جنہیں بعد میں اسپتال منتقل کردیاگیا۔

‏طلباء نے کہا کہ بی ایم سی کے طالبعلموں پر پولیس تشدد اور گرفتاریاں بلوچ و پشتون طالبعلموں کے خلاف حکومتی جارحانہ پالیسیوں کی واضع مثال ہے جو کہ پچھلے کئی سالوں سے جاری ہیں۔ بی ایم سی طلباء کے خلاف کاروائیوں کے بعد کوئٹہ پولیس نے دیگر نجی ہاسٹلز و پلازوں پر بھی چھاپے مار کر کئی طالبعلموں کو گرفتار کر کے ان کے سامان کو بھی ضبط کرلیا۔

طلباء کے مطابق بوائز ہاسٹلز پر چھاپے اور گرفتاریوں کے بعد ہاسٹلز کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے جو کہ اب پولیس کے قبضے میں ہیں، جبکہ گرلز ہاسٹل کو بھی جبری طور پر خالی کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری گرلز ہاسٹل کے باہر تعینات ہے جو کہ پچھلے تین دنوں سے طالبات کو‌ ذہنی حوالے سے ہراسںاں کرنے سمیت انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اس طرح پولیس کی بھاری نفری گرلز ہاسٹل کا محاصرہ‌ کررہی ہے جس سے طلباء و طالبات زہنی کوفت کے شکار ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ پولیس نے تمام تر روایات کو پامال کرتے ہوئے طالبات پر بھی تشدد کی اور گرلز ہاسٹل کے پانی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کو بھی بند کردیا گیا ہے جس سے بہت سے طالبات کی حالت خراب ہے۔ پولیس کی جانب اس طرح کا وحشیانہ تشدد بی ایم سی کو سوچے سمجھے سازش کے تحت ملٹرائزیشن کی طرف دھکیلنا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔

‏طلباء تنظیموں کے مطابق گذشتہ چار دنوں سے بولان میڈیکل کالج میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بی ایم سی کے ہاسٹلز کو سازش کے تحت قبضہ کر کے ادارے کو ملٹرائزیشن کی طرف لے جایا جارہا ہے آج کی پریس کانفرنس کے توسط سے ہم طلباء تنظیمیں نہ صرف ان واقعات کی مزمت کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف منظم تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہیں۔

طلباء تنظیموں نے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ‏ ہمارا پہلا مطالبہ طالبعلموں کی رہائی کا تھا جس میں تمام گرفتار طالبعلموں کو رہا کردیا گیا ہے، ہمارے دوسرے مطالبات جن میں بی ایم سی ہاسٹلز جو کہ غیرقانونی طریقے سے سیل کردیے گئے ہیں ان کی دوبارہ فعالی، مختلف چھاپوں اور گرفتاریوں کے دوران طالبعلموں کے سامان جو کہ پولیس کے قبضے میں ہیں ان کی واپسی اور ‏ بی ایم سی مسلئے پر غفلت برتنے والے انتظامیہ اور اس کے بعد طالبعلموں پہ پولیس گردی کرنے والے زمہ داران کے خلاف کاروائی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کی ملٹرائزیشن بند کی جائے-

انہوں نے کہا کہ مطالبات کے حوالے سے ابھی تک‌ متعلقہ اداروں کی‌جانب کوئی‌پیش رفت نہیں ہوئی البتہ وہ اپنے گھناونے عمل‌ پر شرمندہ‌ ہونے کی‌ بجائے گرلز ہاسٹل پر بھی دھاوا بولنے جارہے ہیں جوکہ ایک اور پیچیدہ مسئلے کا سبب بنے گی۔‏

‏طلباء کا کہناتھا کہ اس تحریک کے تسلسل میں ہم بلوچستان حکومت اور کالج‏ انتظامیہ کو ایک دن کا مہلت دیتے ہیں کہ وہ کالج کو کھول کر ہاسٹلز بحال کریں اور ہمارے دیگر مطالبات کی شنوائی کریں بصورت دیگر بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی‌ جانب سے بروز بدھ بولان میڈیکل کالج کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع کیا جائے گا اور بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں پرامن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا‌ جائے گا۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ اس کے علاوہ کل بروز منگل بولان میڈیکل کالج میں تمام طلباء تنظیموں کے گرینڈ میٹنگ کا بھی انعقاد کیا جائے گا، جس میں تمام طلباء و طالبات، ڈاکٹر حضرات اور بی ایم سی کے دیگر تنظیموں سے شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 14:28


https://urdu.zrumbesh.com/11393/

خضدار بی این پی رہنماء کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا

سوموار ، 18 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

خضدار ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع خضدار نیشنل پارٹی (مینگل) کے رہنما خیر محمد مردوئی فیروز آباد خیسون چڑھائی کے مقام پر پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہو گئے تھے، انہیں ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا، تاہم وہ راستے میں ھلاک ہو گئے۔

پولیس اور لیویز فورسز جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور نعش کو ضروری کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کردیا گیا ۔

تاہم واقعہ کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

18 Nov, 11:51


https://urdu.zrumbesh.com/11389/

دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے آواران میں احتجاج ریلی نکالی گئی اور دھرنا دیا گیا

سوموار ، 18 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) آواران بازار میں دلجان بلوچ کے لواحقین کی جانب سے ان کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی ، جو ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہو گئی۔ احتجاج میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں مظاہرین نے شرکت کی۔

مظاہرین نے دلجان بلوچ کی باحفاظت واپسی کا پر زور مطالبہ کرتے ہوئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی پر شدید تنقید کی۔

انھوں نے کہاکہ تین ہفتے قبل دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے ایک غیر معینہ مدت تک دھرنا دیا گیا تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ دلجان بلوچ کو جلد از جلد منظر عام پر لایا جائے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے۔

مظاہرین نے کہاکہ مذکورہ دھرنے کے دوران ضلعی انتظامیہ، ڈی پی او آواران، اور مقامی سیاسی و سماجی رہنماؤں نے 14 دن کے اندر دلجان بلوچ کی بازیابی کی یقین دہانی کرائی تھی، جس پر مظاہرین نے دھرنا عارضی طور پر مؤخر کر دیا تھا یقین دہانی کی مدت ختم ہونے کے باوجود دلجان بلوچ کی بازیابی ممکن نہ ہو سکی جس کے بعد لواحقین ایک بار پھر سراپا احتجاج ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور حکومت نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ اس صورتحال کے باعث دلجان بلوچ کےلواحقین نے آج دوبارہ ڈی سی کمپلیکس کے سامنے مظاہرہ شروع کیا ہے۔

مظاہرین نے مطالبہ ہے کیا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے اور دلجان بلوچ سمیت تمام گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ اگر دلجان بلوچ کسی الزام میں گرفتار ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ورنہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

مظاہرین نے واضح کیا کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے، احتجاج جاری رہے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

17 Nov, 21:54


شہداء کی یاد میں بی این ایم کیچ گوادر ھنکین کی تقریب ، بلوچ کے لیے اس کے وطن اور شناخت کی اہمیت اس کی زندگی سے بڑھ کر ہے

اتوار ، 17 نومبر ، 2024 | زرمبش اردو

https://urdu.zrumbesh.com/11385/

گوادر ( نامہ نگار ) بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) شہید انور ایڈوکیٹ کیچ ۔ گوادر ھنکین کی طرف سے بی این ایم کے بزرگ رکن یوسف بلوچ کی صدارت میں یوم بلوچ شہداء کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

اس تقریب کی نظامت کی ذمہ داری ھنکین کے نائب صدر بھار بلوچ نے نبھائی جبکہ بی این ایم کے سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ ، ھنکین کے صدر بابا جی آر اور ڈپٹی جنرل سیکریٹری زینل بلوچ نے خطاب کیا۔

انھوں نے کہا کل بھی بلوچ کے لیے اس کے وطن اور سرزمین کی اہمیت اس کی زندگی سے بڑھ کر تھی آج بھی قوم ، قومی آزادی اور وہ چیز جو قومی شناخت سے وابستہ ہے اس کی اہمیت ہر شخص کی ذات اور زندگی سے بڑھ کر ہے۔بلوچستان کی آزادی پر قربان ہونے والے شخصیات نے نقصاندہ عمل نہیں کیا اگر بلوچ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے موت سے خوفزدہ ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے تو ہمیشہ کے لییے اپنی شناخت سے محروم ہوگا۔یہ صرف زمین کی جنگ نہیں بلکہ اس دنیا پر بلوچ بقاء اور شناخت کے حفاظت کی لڑائی بھی ہے۔

انھوں نے کہا کوئی بھی شخص فضول میں اپنی مفید زندگی کو زوال نہیں کرتا اور اگر کوئی ایسا کرئے تب بھی یہ عقلمندانہ عمل نہیں ہوگا لیکن آزادی وہ چیز ہے کہ اس کے بغیر زندگی اپنے ہر طرح کے رنگ و بو سے محروم ہوجاتی ہے۔کوئی قوم آزادی کے بغیر خوشحال زندگی اور بہتر مستقبل کا مالک نہیں ہوسکتی۔اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ بدتریں زندگی سے نکل کر خوشحال زندگی کے لیے ہے۔اس کے ساتھ غلامی کی تاریک زندگی سے نکل کر آزادی کے روشن سماج میں سانس لینے کی خواہش وابستہ ہے۔ غلامی ایک ایسا سست اثر زہر ہے کہ اگر کوئی قوم اسے قبول کرئے تو آئستہ آئستہ مر جاتی ہے اور اس کا نشان مٹ جاتا ہے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں کہا شہداء کی حکمرانی اس دن سے شروع ہوتی ہے جب وہ شہید ہوتے ہیں کیونکہ شہید کبھی نہیں مرتے بلکہ ابد تک زندہ رہتے ہیں۔ آج ہم شہداء کو یات کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بھی شہداء کی طرح اپنے راستے سے نہیں ہٹنا۔

مقررین نے کہا بلوچ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ بلوچ تحریک کو اپنی تحریک سمجھیں اور اس کا ساتھ دیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

17 Nov, 21:45


https://urdu.zrumbesh.com/11383/

شاپک اور شہرک حملوں کی زمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

اتوار ، 17 نومبر ، 2024 / زرمبش اردو

کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ
سرمچاروں نے شاپک اور شہرک میں قابض پاکستانی فورسز کو دو مختلف حملوں میں نشانہ بنایا جس سے قابض فوج کے دو اہلکار ہلاک ہوئے۔

انھوں نے کہاہے کہ17 نومبر دن کے گیارہ بجکر پچاس منٹ پر کیچ کے علاقے شہرک ڈیم بازار میں سرمچاروں نے دشمن کے پیدل گشتی ٹیم اور ایک گاڑی کو آئی ای ڈی بم حملے میں نشانہ بنایا۔ حملے میں قابض دشمن فوج کے دو اہلکار موقع پر ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سرمچاروں نے دشمن کے پیدل اہلکاروں کو خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا، جس سے دشمن کو مزید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

ترجمان نے کہاہےکہ اور حملے میں سرمچاروں نے تیرہ نومبر بروز بدھ صبح گیارہ بجے شہرک میں قائم قابض پاکستانی فوج کی چوکی کو جدید و بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا، حملہ بیس منٹ جاری رہا جس کے نتیجے میں قابض فوج کو جانی و مالی نقصان پہنچا۔

حملے کے دوسرے دن قابض فورسز نے علاقے میں پہنچ کر بلوچ عوام کو ہراساں کیا جو کہ قابض کی شکست کی علامت ہے۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور قابض فوج کے انخلاء تک حملے جاری رکھنے کا عزم کرتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 19:35


https://urdu.zrumbesh.com/10615/


بنی آدم کے سماجی ارتقاء میں قیادت کا شعوری کردار

( انسانیت کی پرورش، تخلیقی عمل میں قیادت کے وژن و بصیرت کا شعوری کردار)

تحریر: محمد یوسف بلوچ

جب سے بنی نوح انسانی صورت میں کرہ ارض پر کائینات الہی کی بصیرت سے ظہور پزیر ہوئی، جو یقیناّ وہ لاشعوری مخلوقات میں شمار ہوا کرتا تھا۔ جن کے مطالق تاریخی منصفان خضرات نے مختلف آراہیں اور روایات اپنے تحریروں کی زینت بنا کر تاریخ کے حصہ بنا لیے جو اُنھیں جینے اور زندگی گزارنے کی تخلیق کرنے کی عمل سے گزرنا پڑا جو کہ اپنے آپ شعوری عمل کی تخلیق کرکے وہ صرف ایک جاندار کی صورت میں اپنی زندگیوں کو ایک نئی سماجیت و نسلیت اور قومیت و لسانیت کی سانچے میں ڈھلتے ہوئے مختلف قومیت، لیسانیت اور نسل و رنگوں میں تشکیل پا کر قوموں، مہذب و فرقوں اور سماجوں میں تقسیم ہوئے اور اس ادوار میں جینے کی سلیقہ سیکھا جس کیلئے تعلیم اور ہنر کی ضرورتیں پورا کرنے کیلئےاکثر ریاستی ڈھانچہ اور انتظامیہ نظم وضبط کے ساتھ ریاست کی حکمرانی چلانے کیلئے ایک ایسی قیادت اور رہبر کی ضرورت بھی پیش آتی تھی جو مختلف قوموں کی یکجہتی اور شعوری و نظریاتی تربیت کرکے ریاست کی دفاع اور قومی شناخت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے ایک طاقتور قومی ریاست کی تشکل کرکے اپنی قومی وجود و شناخت برقرار رکھ سکیں۔ مگر بلوچ وہ بد نصیب قوم ہے جو آج تک تاریخی صورت میں ایک متضاد قوم کی شکل مین آپنی پہچان کی جستجو میں سر گردان ہے اور بلوچ تاریخ دانوں کی غفلت اور دربادی سوچ کی وجہ سے آپنی شاندار ماضی سے غیر آشنا ہے اور ہماری کئ تاریخ کی چمپیں حضرات نے بلوچ قومیت کے ساتھ ساتھ بلوچ کے عظیم ہیروز میر چاکر خان اور نصیر نوری کو بھی تاریخ میں آپنے قلم سے متضاد بنا کر پیش کرچکے جو سامراجی استعصالی قوتوں کی خوشنودی کیلئے سر انجام دےچکے ہیں کچھ تحریروں میں بلوچ حاکمیت کو گیارہ بارہ ہزار سالہ تاریخ کی وارث ظاہر کرتے اور کوێیغیر اقوم کے دانشوروں نے بقول پروفیسر ڈاکٹر فاروقق بلوچ کے 1410 سے 1948 تک کی حاکمیت کی وارثیت بخشتی ہے۔مگر اس لمبی مدت میں کئی نامور درباری بلوچ دانشوار لکھاریوں نے کئی کتابوں کی منصب ہونے کی شرف پاکر بلوچ قوم کو تاریخی شناخت فراہم کرنے میں قاصر رہے ہیں ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھ میں وہ طاقت اور قابلیت نہیں ہے کہ میں عنوان بالا موضوع پر کچھ تحریر کرسکوں، کیونکہ مجھ میں وہ شعور یا علمی قابلیت نہیں اور نہ وہ الفاظ میسر ہیں جو اس تاریخی موضوع کو خوبصورتی عطا کر سکے۔ چونکہ مجھ سے کئی بہترین لکھاری و دانشوار، ادیب اور تخلیق کار اس جہان میں قدرت نے پیدا
کئے ہیں جنہون نے اپنی سرسری تحقیقات سے اس موضوع پر بہتر انداز میں شاہد قارئین کی معلومات کیلئے تحریر کر چکے ہیں، مگر پھر بھی آج مجھے میرا دل کچھ لکھنے پر اُکسا رہا ہے کہ آپ بھی قلم اٹھا کر کچھ لکھنے کی کوششیں کرین ۔اورآپنے کچھ تضادات قارہین کی گوشگزار کرسکوں۔

جو میرے اپنے ناکس معذور ذہنی اظہار کی صورت میں تحریر ہیں۔ بیشک پڑھنے والے حضرات میں کچھ لوگوں کو اس پر لکھنے اور تحقیق کرنے کی توفیق ہو جو بہتر انداز میں لکھیں اور پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کر سکیں کیونکہ ہر ایک لکھنے والے کی اپنا اپنا خیالات اور مارشت ہوتے ہیں جو قلم کی نوک میں لاکر اپنے آرزوِ دل سے سفید کاغذ کو رنگیلا بنا دیتے ہیں۔

میں بھی اپنے قلم کے ٹوٹے نب کو طاقت بخشا اور اس خوف کے عالم میں لکھنے کی کوششیں کر رہا ہوں کہ کہیں پڑھنے والے کچھ گالی تو نہ دیں کہ اس نادان بیوقوف بھی اپنے آپ کو لکھاری سمجھ بیٹھا ہے اور ہمارا قیمتی وقت ضائع کررہا ہے۔ مگر پھر بھی دل میں یہ آس لگا بیٹھا ہوں کہ شاہد کہیں کم از کم کچھ میرے طرح کہ نادان میرا حوصلہ افزائی کرلیں اور اس موضوع پر اپنی چشم مبارک کی شرف بخش دیں۔

ہاں! میرا چونکہ تحریر کی موضوع بلوچ قوم کی تشکیل اور سماجی کردار سے موسوم ہے، کیونکہ بلوچ قوم بھی بنی آدم سے تشکیل پانے والے اقوام میں سے ایک قوم کی شکل میں اسی سماج میں زندگی کی دہلیز میں وجود رکھتی ہےاور کئی ادوار سے مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آج تک اسی سماج کی جبر و بربریت کا مقابلہ جوانمردی اور بہادری سے کر کے اپنی قومی شناخت وزبان کو برقرار رکھتی ہوئے جدیدیت کی طرف گامزن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کئی اقوم قدیمیت سے نکل کر جدیدیت میں بلوچ اقوام سے کئی سال پہلے اپنی قومی و سماجی شناخت پا کر اسی سماج میں طاقتور اقوام کی شکل میں اپنی پہچان رکھنے میں کامیاب ہوئے اور بلوچ قوم اسی عرصے میں بھی اپنی شناخت اور قومی پہچان کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ جس کی وجوہات آج تک بلوچ اقوام کی دہلیز تک نہیں پہنچا ہے۔ کئی تاریخوں میں پڑھا جاتا اور سینہ بہ سینہ سننے میں اکثر آتا ہے کہ بلوچ اقوام کی اس سماج میں ولادت گیارہ (11)یا 12 ہزار سال پرانا ہے۔جو مہرگڑھ کی

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 19:35


آثار قدیمہ کی تحقیوں سے ثابت ہوتی ہے۔

میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اتنی مدت کی اقوام کیوں سماج میں اپنی قومی شناخت برقرار رکھنے میں ناکام اور دوسری قومیں کامیابی سے ہمکنار ہوکر آج اسی سماج میں طاقتور باشرف اقوام کی روپ دار کر دنیا کے نقشے پر ظہور پزیر ہیں جس کو تاریخ کے مصنفوں کیلئے سوالیہ مارک بن چکا ہے، کیونکہ بلوچ قومی تاریخوں کی مختلف مصنف حضرات اکثر و بیشتر مختلف راہے رکھتے ہوئے بلوچ قومی تاریخ میں کنفیوژن اور تضادات پیدا کرکے بلوچ قوم کو مختلف اقوام کی نسلوں میں پیش کرتے ہیں آج تک میں نے بلوچ قوم کو بحیثیت نسلی بلوچ کے روپ میں کسی بھی مصنف اور دانشوروں کی تحریروں اور تحقیقاتی، کتابی معلومات کی روشنی میں نہ پڑھا اور نا دیکھ لیا ہے۔ اکثر بلوچ کو مختلف قومی نسلیں قرار دیکر بلوچ کی وجود کو تاریخی متضاد بنا کر بلوچ تاریخ کو مسخ کرچکے ہیں، ہاں ڈاکٹر پروفیسر فاروق بلوچ کی تحقیقات اور تحریر کردہ کتاب ” بلوچ و ان کا وطن“ میں بلوچ قوم کو بحیثت نسلاّ بلوچ قوم ظاہر کرکے سابقہ تمام تاریخی مصنفان کی نظریہ کو رد کر دیا ہے جنہوں نے بلو چ قوم کو آریائی یا حضرت حمزہ و قریش عرب قبیلہ یا دوسری مختلف اقوام کے نسلوں کی تسلسل سے جوڑ کر بلوچ اقوام کی نسلی حیثیت اور شناخت کو مسخ کرکے متنازعہ بنا چکے تھے۔ یہ بلوچ قومی بدنصیبی کہوں یا درباری دانشور اور مفاد پرست لالچی منصف حضرات کی غیر تعقیقاتی دانشوری جنہوں نے آج تلک بلوچ قومی نسل کو متنازعہ بنا کر بلوچ کو ایک نسلی قومی تاریخی کتاب کے اوراقوں میں ثابت کرنے میں ناکام ہو چکے یا اپنی آقاؤں کی درباری نظریہ اور درآمد شدہ دانشوروں کی غلامی کی رنگ میں ڈال کر سامراجی لکھاریوں کی سوچ کو اپنائیت بخشا جس سے بلوچ اقوام کی قدیم نسلی تسلسل کو پارہ پارہ کرکے مختلف نقالی داستانون میں ڈال کر مسخ کر چکے ہیں۔

جبکہ آثار قدیمہ سے ظاہر ہے کہ بلوچ قوم گبارہ ۱۲سالہ تاریخ رکھتا جس کو مھرگڑھ کی خوبصورت باطن میں دفنا گیا ہے جس کی جستجو کیلئے تاریخ کے لکھاریوں نے آ￴پنے قومی شناخت کیلئےآ ثارقدیمہ کی سینہ چھیر کر بلوچ قوم جو ایک زبان ایک خوبصورت زمیں اور ثقافت کی وارث ہوتے ہوئے اپنی نسلی قومی پہچان سے قاصر ہے جیسے ہمارے نام نہاد تاریخ دانوں نے اپنے متضاد نظریہ سے بلوچ قومی اور ثقافت و شناخت کو داغدار کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بلوچ تاریخ ایسی درباری دانشوروں کو اپنی صحفوں میں ناکام اور قومی مجرم تصور کرکے نسل در نسل یاد کرینگے۔

میں بحیثیت ایک بلوچ اپنے تمام بلوچ دانشوروں اور لکھاری حضرات سے التجا کرتا ہوں کہ بلوچ قومی نسلی تاریخ پر حقائق کی ساتھ مزید تخلیقی جستجو کرکے بلوچ تاریخ کو جلا بخشے تاکہ تاریخی غلطیوں کی ازالہ ہو سکے اور بلوچ قوم اپنی نسلی وارثت پا سکے۔ میں نے زمانے طالبالعلمی کی ادواروں مین جب میر گل خان نصیر، شاہ محمد مری، اطو رام یا دوسری درباری لکھاریوں کے تاریخ بلوچستان کا مطالعہ کرچکا تھا تو میری ناکس ضمیر میں تضاد نے جنم لیا اور اسی تضاد یقین میں اس وقت بدل گیا جب میرے آنکھوں کے سامنے ڈاکٹر حمید بلوچ اور پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ کی تحقیقاتی کتابوں پر پڑی اور میں نے مطالعہ کرکے مجھے درباری لکھاریوں کے بارے مںیں اپنی تضادات کو جائز تصور کرنے پر مجبور ہوا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 18:37


https://urdu.zrumbesh.com/10606/

چاغی جبری گمشدگیوں کے خلاف بی وائی سی کا یک مچ میں احتجاجی مظاہرہ ریلی

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024/ زرمبش اردو

چاغی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع چاغی کے علاقہ یک مچ میں بھی خاموشی توڑنا جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا کے عنوان سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک ریلی نکالی گئی اور احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

یک مچ ریلی میں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین کے ہمراہ شہریوں نے اس ریلی میں شرکت کی ۔

مظاہرین نے اس دؤران جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کے تصاویر ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے اور انکی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے۔

واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مہم، “خاموشی توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں جہاں اس سے قبل سندھ کے دارلحکومت کراچی اور بلوچستان کے شہروں حب چوکی، خضدار، تربت، پنجگور، خاران، کوئٹہ، نوشکی، دالبندین میں احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا ۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا اعلان حالیہ ماہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ اور تیزی کے خلاف کئے جارہے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 18:07


https://urdu.zrumbesh.com/10604/

بلوچستان مختلف اضلاع میں فائرنگ حادثات میں 2 خواتین سمیت 13 افراد ھلاک ،درجنوں افراد زخمی

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) ڈیرہ مراد جمالی جیکب آباد مرکزی شاہراہ بیل پٹ ایریاء میں ویگن اور مزدا ٹرک کے درمیان خوفناک تصادم میں 4افراد زندگی کی بازی ہار گئے.

پولیس موقع پر پہنچ کر نعش اور زخمیوں کو سول ہسپتال ڈیرہ مرادجمالی پہنچادیا ۔

دالبندین نوشکی سے امین آباد انے والی باراتیوں کی گاڑی کو حادثہ جس کے نتیجے میں خاتون سمیت دو افراد ھلاک جبکہ بچوں سمیت چھ افراد شدید زخمی ہوگئے ھلاک ہونے والوں کا تعلق نوشکی سے بتایا جاتاہے ۔ زخمیوں اور نعشوں کو پرنس فہد ہسپتال دالبندین پہنچادیا مزید علاج کیلے شال ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔
ہونے والوں کا تعلق نوشکی سے بتائی جاتی ہے۔

شال ،نوا کلی گھر میں گھس کر فائرنگ ۔ خاتون ھلاک ہوگئی ۔ نواں کلی ٹیچر کالونی میں ایک شخص نے گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے خاتون کو قتل کرکے فرار ہوگیا، پولیس کے مطابق نواں کلی کے علاقے ٹیچر کالونی میں رہائش پذیر خاتون بی بی باران کے گھر میں نامعلوم شخص نے گھس کر اس پر فائرنگ کر دی اور فرار ہوگیا، فائرنگ کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ھلاک ہوگی، اطلاع ملنے پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر نعش کو ہسپتال منتقل کیا جہاں ضروری کارروائی کے بعد ورثاء کے حوالے کردی گئی ، پولیس نے بتایا کہ مقتولہ اغواء کے کیس میں ضمانت پر تھی ۔

ضلع واشک تحصیل ناگ کے علاقہ سوراپ چیک پوسٹ کے قریب تیل سے لوڈ زمیاد آپس میں ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں
تمام افراد جھلس کر خاکستر ہوگئے۔

اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق نعشوں کی تعداد چار سے پانچ ہوسکتا ہے تاہم ان کی شناخت نہیں ہوپائی ہے ۔

لیویز ذرائع کے مطابق فائز برگیڈ کی سہولت نہ ہونے کے باعث آگ پر قابو نہیں پایا جا سکاتھا۔

شال سریاب کسٹم کے مقام پر نامعلوم افرادکی گاڑی پر فاٸرنگ سے ایک شخص ھلاک تین شدید زخمی ہوگئے ، ھلاک افراد کا تعلق راہجہ قبیلے سے ہے ۔

گوادر سے کراچی جانے والی ایک تیز رفتار کرولا گاڑی، جس کا نمبر BLR 213 ہے، ٹائر پھٹنے کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہوا اورماڑہ کے قریب منیجی ایریا میں محمد عصا کے پمپ کے پاس پیش آیا۔

کوسٹل ہائی وے پولیس زون ون کے اہلکار اطلاع ملتے ہی فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچے۔ حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو فوری طور پر ابتدائی طبی امداد کے بعد نزدیکی ہسپتال، اورماڑہ منتقل کیا گیا۔ علاج دوران علی غلام ولد عوان، رہائشی ٹنڈو آدم، سندھ جانبر نہ ہوسکا ۔
جبکہ گل حسن ولد حاجی محمد خان رہائشی حب چوکی، نور محمد ولد میان بخش – رہائشی ٹنڈو آدم، سندھ، اور محمد عباس ولد حاجی محمد خان رہائشی حب کی علاج جاری ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 17:25


https://urdu.zrumbesh.com/10601/


کیچ جبری لاپتہ نوجوان بازیاب ہوگیا

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

کیچ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان ضلع کیچ کے علاقہ بلیدہ سے تعلق رکھنے والا نوجوان مسلم عارف ولد عارف بلوچ جنھیں 15 جون 2023 کو فورسز ہاتھوں جبری لاپتہ ہوا تھا آج بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 17:08


https://urdu.zrumbesh.com/10599/


پاکستانی ایجنٹ عبدالخالق راجپوت کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ایس آر اے

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) سندھودیش روولیوشنری آرمی کے ترجمان سوڈھو سندھی نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل رات خورشید کالونی، سائیٹ ایریا کوٹڑی (جامشورو) میں پاکستانی ایجنسیوں کے انفارمر اور سہولت کار ڈاکٹر عبدالخالق راجپوت کو مارنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی پنجابی ریاست کی جانب سے مادر وطن سندھ کے اوپر مسلط کثیر الجہتی قومی غلامی کے خلاف بحیثیت ایک قوم اور قومی تحریک ہمیں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایس آر اے بحیثیت ایک ذمہ دار تنظیم، پہلے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہے اور اب بھی ہم صف اول میں کھڑے ہوکر اپنا بھرپور مزاحمتی کردار ادا کرینگے.

ترجمان نے کہا کہ سندھ وطن کے ایک ایک انچ کا دفاع ہم اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اسی پاداش میں نوجوان فرزندانِ وطن کے بہائے ہوئے خون کے ایک ایک قطرے اور مسخ شدہ لاش کا حساب لیا جائے گا۔

انہوں نے آخر کہا ہے کہ ایس آر اے سندھ کی مکمل آزادی تک اپنی مزاحمتی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہراتی ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 16:21


https://urdu.zrumbesh.com/10596/

ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں، بی این ایم
ماہ رنگ اور شاہ جی کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنا قابل مذمت ہے ،جاوید مینگل

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو


شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ ایمان مزاری جو ایک دلیر وکیل اور مسنگ پرسنز کی کھلے عام وکیل ہیں، ان کے شوہر ہادی علی کے ساتھ گرفتاری انتہائی قابل مذمت ہے۔ اسلام آباد پولیس کی یہ کھلی کارروائی اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ: پاکستان میں ناانصافیوں، خاص طور پر جبری گمشدگیوں کے خلاف بات کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ ایمان مزاری بغیر کسی وضاحت کے لاپتہ ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ انصاف اور احتساب کے لیے مسلسل کھڑی ہے۔ ان کی حراست ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے جہاں پاکستان ان جبری گمشدگیوں کے ذمہ داروں کو پکڑنے کے بجائے سچائی کو بے نقاب کرنے والوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ اقدام ان آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے جو پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سامنے لاتی ہیں۔ عالمی برادری کو ایمان مزاری اور ہادی علی کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے اور پاکستان پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنے متاثرین کے لیے انصاف کے خواہاں افراد کو سزا دینے کے بجائے تحفظ فراہم کرے۔

اس طرح بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق جنرل سیکرٹری اور بلوچ رہنما رحیم ایڈووکیٹ بلوچ نے شوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‏محترمہ ایمان زینب حاضر مزاری ایڈووکیٹ اور عبدالہادی ایڈووکیٹ کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج اور ان کی گرفتاری قانون اور اختیارات کی غلط استعمال کا ایک قابل مذمت عمل ہے۔ وہ دونوں کوئی مفرور مجرم نہیں ہیں جنھیں پولیس نے گرفتار کیا بلکہ قابل احترام شہری اور معروف وکلاء ہیں جو مقدمات کی پیروی میں روز عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ دونوں کی گرفتاری در اصل ریاستی پالیسیوں کے ناقدین اور مخالفین کی آواز دبانے کی فسطائی پالیسی کا مظہر ہے، کیونکہ محترمہ ایمان مزاری انسانی حقوق کی پامالیوں، خصوصاً جبری گمشدگیوں کی ریاستی پالیسی کے خلاف ایک توانا آواز ہے جو نہ صرف سیاسی میدان اور میڈیا میں جبری گمشدگیوں کے ذمہدار ریاستی اداروں کو للکارتی رہی ہے بلکہ عدالتوں میں بھی انھیں گھسیٹتی رہی ہے۔

‏انہوں نے کہا ہے کہ اندازہ لگائیں کہ اسلام آباد جیسے شہر اقتدار میں محترمہ ایمان مزاری اور مسٹر عبدالہادی ایڈووکیٹ جیسے معروف شخصیات کو پولیس ایک بے بنیاد اور معمولی مقدمہ میں گرفتار کرکے حراساں کرنے کی کوشش کرسکتی ہے تو مقبوضہ بلوچستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں، چھوٹے دیہاتوں اور قصبات میں پولیس، فوج، خفیہ ادارے اور ان کی تشکیل کردہ مسلح جتھے کیا کیا مظالم نہیں کرتے ہونگے۔

دوسری جانب بلوچ قوم پرست رہنما جاوید مینگل نے جاری بیان میں کہا ہے کہ میں انسانی حقوق کی معروف وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہر ایڈووکیٹ ہادی علی کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ان کی بے باک آواز انسانی حقوق کے لیے نہایت اہم ہے۔ میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان غیر قانونی اقدامات کا نوٹس لیں اور ایمان مزاری اور ہادی علی کے خلاف دہشت گردی کے تحت قائم مقدمات کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان کی رہائی کے لیے کام کریں۔

انھوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور صبغت اللہ شاہ جی کے خلاف ریاستی اقدامات اور ان کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کے عمل کو ریاستی انتقامی کارروائیوں اور نوآبادیاتی جبر کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ پاکستان کی بلوچستان کے لیے نئی قانون سازی کے نتائج بلوچوں کے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، اور آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ مارشل لاء کو بھی مات دے دی ہے ان جمہوری کٹھ پتلی چیمپئنوں نے۔ بدقسمتی سے ہمارا واسطہ ایک ایسے غیر مہذب دشمن سے پڑا ہے جس کا نہ کوئی ایمان ہے اور نہ ہی کوئی ظرف۔ اب دیکھتے ہیں کہ قاتل کے زورِ بازو میں کتنا دم ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 16:04


https://urdu.zrumbesh.com/10593/

پنجگور، کیچ اور کوئٹہ میں 7 مخبر و آلہ کاروں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل اے

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی کی یونٹ، فتح اسکواڈ کے سرمچاروں نے گذشتہ شب پنجگور میں بی ایل اے انٹیلی جنس ونگ زراب (ZIRAB) کی فراہم کردہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر پروم، دِزگٹ میں پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی تشکیل دیئے گئے جرائم پیشہ افراد کے گروہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے ایک ٹھکانے پر ایک بڑے پیمانے کا حملہ کردیا۔

انہوں نے کہاہےکہ سرمچاروں کے حملے میں چار ڈیتھ اسکواڈ کارندے موقع پر ہلاک ہوگئے جبکہ ان کا ایک ساتھی اپنا اسلحہ پھینک کر فرار ہوگیا۔ جبکہ ہلاک کارندوں کا اسلحہ و دیگر فوجی ساز وسامان سرمچاروں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

ترجمان نے مزید کہاہےکہ اسی دوران سرمچاروں کے ایک اور دستے نے حملے کے مقام کی جانب پیش قدمی کرنے والے نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ بجار شمبے زئی کے بھائی ظاہر شمبے زئی کو حملے میں نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہلاک ہوگیا جبکہ اس کے دو ساتھی زخمی حالت میں فرار ہوگئے۔

ترجمان نے کہاہے کہ سرمچاروں نے اسی مقام پر استحصالی پروجیکٹ کے دو کریش پلانٹس و دیگر بھاری مشینری سمیت ٹھکانے کو نذرآتش کرکے مکمل تباہ کردیا۔

جیئند بلوچ نے کہاہےکہ پنجگور کے علاقے پروم میں کچھ قومی غدار اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قابض فوج و ڈیتھ اسکواڈ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، اور بلوچ قومی تحریک کیخلاف متحرک ہیں، اور  دشمن ریاست پاکستان کی فوج کے لیے مخبر و سہولت کار کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ ان مکروہ سرگرمیوں میں بلوچ نوجوانوں کی مخبری، دشمن فوج کے لیے راشن پہنچانا، خفیہ اداروں کے افسروں کو اپنی ذاتی گاڑیوں میں ٹرانسپورٹ مہیا کرنا، دشمن فوج کے لیے کیمرے اور سولر سسٹم نصب کرنا وغیرہ جیسی سہولت کاریاں شامل ہیں جبکہ ان تمام بلوچ دشمن اعمال کو محض فوج سے کاروباری تعلق کا نام دے کر سرانجام دیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہاہےکہ پنجگور میں چند مخصوص لوگ 'لائن' کے نام سے سادہ لوح لوگوں کو دشمن فوج کیلئے مخبری پر مجبور کر رہے ہیں۔ مذکورہ لوگ فوج کے لیے سہولت کاری کے انعام میں لائن انچارج مقرر ہوئے ہیں، جبکہ گولڈ سمڈ لائن پر تیل کی کاروبار کیلئے دشمن فوج انہیں اسٹیکرز فراہم کرتی ہے۔ مذکورہ افراد عام بلوچوں کے معاشی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں مخبری کے عوض اسٹیکر کا لالچ دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ غیر مسلح مخبر  شکار، تفریح اور مویشیوں کے دیکھ بال کے بہانے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور سرمچاروں کے ٹھکانوں اور راستوں کا پتہ لگانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

ترجمان نے کہاہےکہ بلوچ لبریشن آرمی واضح کرتی ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ونگ مذکورہ تمام افراد پر نظر رکھے ہوئی ہے، اگر مذکورہ افراد اپنے قوم دشمن سرگرمیوں سے باز نہیں آئے تو انہیں عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے گا۔

انہوں نے کہاہےکہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے کیچ کے علاقے ھوشاب تل میں تین روز قبل ایک کاروائی میں مقصود ولد گواران سکنہ ھوشاب تل سر کو حراست میں لیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا ہےکہ مذکورہ مخبر و آلہ کار نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ اس نے پاکستان فوج کے کرنل میران سے ہوشاب کیمپ میں ملاقات کی تھی اور اس کے ہدایت پر  بعدازاں نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کارندے شہداد ولد بہروز کی سرپرستی میں بطور مخبر و آلہ کار کام کررہا تھا۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ مخبر مقصود نے اعتراف کیا کہ اس نے ہمدرد کی شکل میں سرمچاروں کے راشن میں “ٹریکنگ چِپ” چھپاکر سرمچاروں کے کیمپ تک پہنچایا تھا، جہاں دشمن فوج نے جنوری 2023 میں ایک ڈرون حملے میں سرمچاروں کے کیمپ کو نشانہ بناکر حملے کا آغاز کیا تھا اور دشمن سے جھڑپوں میں ساتھی تنظیم کے تین سرمچار عامر خان عرف عابد جان، یحییٰ جان عرف کمبر جان، رضا عرف گزین اور بی ایل اے کے ساتھی ممتاز ولد قاضی عرف ملا یاسر نے جام شہادت نوش کیا تھا۔

انہوں نے کہاہےکہ مخبر و آلہ کار مقصود نے اپنے جرائم کے اعتراف سمیت اپنے دیگر ساتھیوں کے نام بھی افشاں کیئے۔ قومی غداری کے مرتکب ہونے پر بلوچ قومی عدالت کے فیصلے کے تحت آلہ کار مقصود کو سرمچاروں نے ہلاک کردیا، جبکہ زراب مذکورہ نیٹ ورک کے دوسرے مخبروں کا تعاقب کررہی ہے، جنہیں جلد انکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

ترجمان نے ایک اور بیان میں کہاہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے آج صبح کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی میں ایک  انٹیلی جنس بیسڈ کاروائی کے دوران قابض پاکستان فوج کے خفیہ ادارے ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے ایک اہم کارندے سید حان ولد کریم بخش بگٹی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 16:04


انہوں نے کہا ہےکہ پاکستانی فوج کے ملٹری انٹیلی جنس کا کارندہ سید حان کوئٹہ میں قابض فوج کیلئے مخبری سمیت لوگوں کو خفیہ اداروں میں بطور مخبربھرتی کرنے میں ملوث تھا۔ مذکورہ آلہ کار کا اصل سکونت محمد کالونی سوئی ڈیرہ بگٹی تھا جبکہ موجودہ سکونت کوئٹہ کلی قمبرانی میں تھی۔

جیئند بلوچ نے کہا ہےکہ تمام معلومات و شواہد کے بعد بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے آج صبح کلی قمبرانی کوئٹہ میں آلہ کار سید حان کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا اور اس کا اسلحہ بھی ضبط کرلیا۔

آخر میں انہوں نے کہاہےکہ بلوچ لبریشن آرمی ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے، اور مزید یہ واضح کرتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک و مفادات کیخلاف جو بھی متحرک ہوگا، چاہے اسکا تعلق جس بھی قوم، نسل، مذہب و فرقے سے ہو، انہیں ایک دشمن و غدار کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 15:51


https://urdu.zrumbesh.com/10590/

محمد نور مری کی جبری گمشدگی کے کوائف لواحقین نے جمع کرادیئے ہیں ۔نصراللہ بلوچ

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) شال فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ محمد نور مری کی جبری گمشدگی کی تفصیلات لواحقین نے وی بی ایم پی کو فراہم کردیں ۔

لواحقین نے تنظیم سے شکایت کی کہ محمد نور مری ولد یار محمد کو رواں ماہ کی 12 تاریخ کو فورسز نے پیر صاحب ایف سی چیک پوسٹ ہرنائی سے غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا اور اہلخانہ کو محمد نواز مری کے حوالے سے معلومات بھی فراہم نہیں کیے جارہے ہیں ۔ جسکی وجہ سے وہ شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہے ۔

انھوں نے کہاہے کہ تنظیمی سطح پر لواحقین کو یقین دھانی کرائی گئی کہ محمد نور کی کیس کو حکومت اور لاپتہ افراد کے حوالے بنائی گئی کمیشن کو فراہم کیا جائے گا اور انکی باحفاظت بازیابی کے لیے ہر فورم پر آواز بھی اٹھائی جائے گی۔

نصراللہ بلوچ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ محمد انور مری پر کوئی الزام ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالت میں پیش کیا جائے اگر بےقصور ہے تو فوری طور پر رہا کرکے انکے خاندان کو ذہنی اذیت سے نجات دلائی جائے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 11:57


https://urdu.zrumbesh.com/10582/

گوادر سے لاپتہ 2 نوجوان سی ٹی ڈی کے حوالے

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

گواد ( نامہ نگار) پاکستانی فورسز ہاتھوں جبری لاپتہ دو نوجوان ایوب ولد حمزہ سکنہ دشت محلہ بشولی اور مھراج دشت مسکر جنھیں پاکستانی فورسز نے رواں سال 26 ،26 ستمبر کی رات گوادر نیو ٹاون سے حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا تھا ،کو گوادر کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی کے حوالے کیاگیا ہے جہاں سی ٹی ڈی نے انکے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی ہے ۔

آپ جانتے ہیں ،مذکورہ نوجوانوں کے ساتھ اعجاز ولد حسین نامی نوجوان بھی جبری گمشدگی کا شکار ہواتھا ،دو دن قبل بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

29 Oct, 11:12


https://urdu.zrumbesh.com/10577/

پنجگور: ہلاک ڈیتھ اسکواڈ کارندوں کی شناخت ہوگئی، گورکوپ میں ایک نعش برآمد

منگل ، 29 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو


پنجگور ( نامہ نگار ) پنجگور میں مسلح افراد کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کی شناخت ہو گئی ، جبکہ گورکوپ میں ڈیتھ اسکواڈ کے ایک کارندے کی نعش برآمد ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ شپ مسلح افراد نے ڈیم کی حفاظت پر مامور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ مقامی گاڑیوں سے رقم وصول کر رہے تھے۔ حملے میں پانچ ڈیتھ اسکواڈ کارندے ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں کی شناخت ظاہر علی ولد محمد علی سکنہ مجبور آباد پنجگور، امین اللہ سکنہ کوئٹہ، نواز سکنہ سندھ، حسین علی شاہ ولد محمد حق سکنہ سنگے قلات چتکان پنجگور اور عبدالغفور ولد انعام اللہ سکنہ بالگتر کے ناموں سے ہوا ہے۔ جبکہ محمد شفیع ولد شہزاد سکنہ کیلکور بالگتر سمیت ایک اور شخص زخمی ہوا ہے۔

علاوہ ازیں ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ سے ڈیتھ اسکواڈ کے ایک کارندے کی نعش برآمد ہوا ہے جسے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا ہونے والے مقصود ولد گوران سکنہ ہوشاب تال سر کی نعش گورکوپ، سری کلگ سے ملی ہے۔

علاقائی ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص کا تعلق حکومتی حمایت یافتہ گروپ ڈیتھ اسکواڈ سے تھا تاہم واقعے کے پیچھے محرکات کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکے ہیں ۔

مذکورہ واقعات میں ھلاک کارندوں بارے تاحال کسی تنظیم نے بیان جاری نہیں کی ہے ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 21:48


https://urdu.zrumbesh.com/10574/

پروم مسلح افراد کا ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں پر حملہ ‎

سوموار ، 28 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

پنجگور ( نامہ نگار ) پنجگور مسلح افراد نے پاکستانی فوج کی جانب سے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں پر حملہ کر دیا۔

اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے دز پروم گٹ میں زیر تعمیر ڈیم کی حفاظت پر مامور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ اسی مقام پر مقامی گاڑیوں کی چیکنگ اور بھتہ لے رہے تھے۔

حملہ کافی دیر تک جاری ہے جس میں ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں کو جانی نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ یہ اطلاع ہے کہ حملے میں بجار شمبیے زئی کا بھائی مارا گیا ہے، تاہم ابھی تک آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ابھی تک کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم ایسے حملے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی جانب سے کیے جاتے رہے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 17:54


https://urdu.zrumbesh.com/10569/

لوامز یونیورسٹی میں طلباء پر جامعہ انتظامیہ کی فائرنگ قابل مذمت ہے ، انتظامی کی نااہلی خلاف احتجاج پر مجبور ہونگے – طلباء کی پریس کانفرنس

سوموار ، 28 اگست ، 2024/ زرمبش اردو

انتظامیہ حق احتجاج کی پاداش میں طلباء پر فائرنگ کرکے جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی، اگر کاروائی نہیں کی گئی تو احتجاج پر مجبور ہونگے –ان خیالات کا اظہار اوتھل جامعہ کے طلباء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان بھر کے دیگر جامعات کی طرح لسبیلہ یونیورسٹی بھی مختلف مسائل کی آماجگاہ بن چکی ہے جہاں انتظامیہ طلباء کو بنیادی سہولیات فراہم نہ کرنے کے ساتھ اساتذہ کو بھی تنخواہیں دینے سے قاصر ہے جو مالی بحرانات کے ساتھ انتظامی نااہلی اور کرپشن کو ظاہر کرتی ہے-

طلباء نے کہا کہ لسبیلہ یونیورسٹی جو کہ پورے خطے میں اپنا ایک اہم مقام رکھتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ انتظامی بحرانات اور مقتدرہ قوتوں کی عدم توجہی کے سبب صرف ایک خستہ حال عمارت بنتا جارہا ہے جہاں تعلیم حاصل کرنے کے تمام تر دروازے بند کیے جارہے ہیں اور یونیورسٹی صرف ایک ڈگری دینے اور فیسیں وصول کرنے کا مرکز بنتا جارہا ہے۔

انھوں نے کہاکہ لسبیلہ یونیورسٹی میں سال بھر بمشکل تین سے چار ماہ کلاسز شیڈول ہیں جو کہ امتحانات میں گزر جاتے ہیں اور بیشتر ماہ طالبعلم چھٹیوں میں گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں سیمسٹر فیسز میں بے تحاشہ اضافہ ہر سال کیا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب پہلے سے موجود اساتذہ کرام کو بھی تنخواہیں نہیں دی جارہی اور اکثر ڈیپارٹمنٹس میں فیکلٹی کی کمی ہے جسے پورا نہیں کیا جارہا ہے۔

پریس کانفرنس میں کہاکہ لسبیلہ یونیورسٹی کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایک طرف یونیورسٹی مختلف مسائل کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے تو دوسری جانب انتظامیہ کے درمیان اقتدار اور عہدوں کی جنگ جاری ہے اور آئے روز اقتدار کے اس جنگ میں عام طالبعلموں کو گھسیٹنے کی روایت زور پکڑتی جارہی ہے جو کہ طالبعلموں کے روشن مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

طلباء نے کہاکہ یونیورسٹی میں جاری انتظامی بحرانات، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، فیکلٹی کا فقدان، اکیڈمک کیلنڈر کی پامالیاں، ڈیپارٹمنٹس میں بنیادی سہولیات کی کمی، ہاسٹلز میس کا درہم نظام ان تمام مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو حل کرنے کے لئے متعدد مرتبہ یونیورسٹی انتظامیہ سے ملاقاتیں کی گئی لیکن انتظامیہ کے جانب سے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے الٹا طالبعلموں کو قصوروار ٹھراتا رہا ہے جس کی حالیہ مثال ایک سیمینار میں طلباء کے سخت سوالات کے جواب میں وی سی لوامز یونیورسٹی دوست محمود کی طلباء پر الٹا الزام تراشی ہیں جوکہ افسوس ناک عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کا کام طالبعلموں کو تعلیمی ماحول کی فراہمی کے ساتھ تمام تر بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہے لیکن بلوچستان کے جامعات میں انتظامیہ اور عہدوں پر فائز لوگ اپنے فرائض بھول جاتے ہیں جس سے دن بہ دن جامعات تباہ ہوتے جارہے ہیں۔

طلباء کے مطابق انتظامییہ سے کئی بار ملاقاتیں کرنے اور مسائل کو گوشوار کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن جب شنوائی نہ ہوئی تو بنیادی سہولیات سے محروم اور انتظامیہ کے رویے سے تنگ طالبعلموں نے احتجاجاً ہاسٹل وارڈن کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ طلباء کے تمام ہاسٹل مسائل کو حل کیا جائے لیکن ہاسٹل وارڈن اور یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبعلموں کے جائز مطالبات کو سننے کی بجائے تشدد کا راستہ اپنایا اور ہاسٹل وارڈن شعیب جمالی کی جانب سے طالب علموں پر براہ راست فائرنگ کی گئی خوش قسمتی سے کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک واقعہ کے دوران ہاسٹل پروسٹ نوید اور دیگر سیکورٹی گارڈز موجود تھے یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکورٹی گارڈز کی موجودگی میں ہاسٹل وارڈن پستول لہرا کر فائرنگ کرتا ہے جو کہ سنگین قسم کے سیکورٹی سوالات کو جنم دیتی ہے کہ ایک تعلیمی ادارے کے اندر ہاسٹل وارڈن خود کس طرح اسلحہ رکھ سکتے ہیں اور اس طرح کھلے عام طالبعلموں پر فائرنگ کرتے ہیں لیکن ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی۔

بلوچ طلباء کا کہنا تھا ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مگسی ہاسٹل میں ہونے والے واقعہ میں ملوث ہاسٹل وارڈن شعیب جمالی کو 48 گھنٹے کے اندر برطرف کرکے اس واقعے میں ملوث تمام کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور ہمارے دیگر مطالبات کی شنوائی کی جائے بصورت دیگر لوامز کے تمام طالبعلم اس طرح کے آمرانہ رویوں کے خلاف یکجاہ ہیں اور مطالبے کی شنوائی نہ ہونے کی صورت میں طلباء جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے سخت لائحہ عمل بنانے پر مجبور ہوں گے جس کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پرعائد ہوگی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 17:35


https://urdu.zrumbesh.com/10567/

حمیدہ نہ صرف بلوچ کاز کی ایک سرشار حمایتی تھیں بلکہ ایک ہمدرد روح تھیں۔ چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ

سوموار ، 28 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

شال ( ویب ڈیسک )بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے شوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حمیدہ بلوچ کے بے وقت انتقال پر غمزدہ، جو کینسر کے ساتھ اپنی جنگ ہار گئی تھی۔ یہ ایک المیہ ہے جو بلوچستان میں بہت عام ہے، جہاں پاکستان کے جوہری تجربات اور یورینیم کی غیر محفوظ کان کنی نے زہریلے ورثے چھوڑے ہیں۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ حمیدہ نہ صرف بلوچ کاز کی ایک سرشار حمایتی تھیں بلکہ ایک ہمدرد روح تھیں جن کا اپنے لوگوں کے لیے انصاف اور آزادی کے لیے عزم کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بلوچ قومی تحریک کے لیے ان کی ہمت اور اٹوٹ لگن ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 17:21


https://urdu.zrumbesh.com/10564/


ضلع نصیر آباد خاتون اور ایک مرد قتل ، مستونگ میں ڈاکٹر تیز دھار آلے کی وجہ سے شدید زخمی

سوموار ، 28 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

ضلع نصیر آباد تحصیل چھتر میں خاتون سمیت 2 افراد کو قتل کردیا گیا تفصیلات کے مطابق ضلع نصیر آباد تحصیل چھتر میں تھانہ فلیجی کی حدود گوٹھ بانڑی میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے خاتون سمیت 2 افراد کو قتل کردیا وجہ سیاہ کاری بتائی جاتی ہے نعشیں ہسپتال منتقل کردی گئیں جنہیں ضروری کارروائی کے بعد ورثاءکے حوالے کردیا گیامزید تفتیش پولیس کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر عرفان زہری گلے میں تیز دار آلے کی کٹ کی وجہ سے تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا،

تفصیلات کے مطابق مستونگ میں ڈاکٹر عرفان احمد زہری اپنے گھر میں گردن پر شدید کٹ کے ساتھ زخمی حالت میں پائے گئے، ہسپتال ذرائع کے مطابق انکے جسم پر متعدد جگوں پر زخم لگے ہیں۔جس کی وجہ سے انکی حالت تشویشناک ہے۔
جسے زخمی حالت میں شہید نواب غوث بخش میموریل ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا ۔

بعد از طبی امداد مزید علاج معالجے کے لیئے ٹراما سینٹر شال ریفر کردیا گیا، اور طبی ماہرین ان کی جان بچانے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 16:14


https://urdu.zrumbesh.com/10560/


دالبندیں خاموشی توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے بی وائی سی نےاحتجاج ریکارڈ کرایا


سوموار ، 28 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

دالبندین (مانیٹر نگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مہم، “خاموشی توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ،آج بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر دالبندین میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور شہریوں کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جو عرب مسجد سے شروع ہوکر شہر کے مرکزی شاہراہ سے ہوتے ہوئے دالبندین پریس کلب کے سامنے پہنچا۔

شرکاء نے دالبندین پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا ، ریلی میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شامل تھے۔

ریلی سے لاپتہ افراد غلام اللہ کے بھائی اور عامر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے ہم عدالتوں کو مانتے ہیں ،مگر عدالتوں اور قانون کو روندتے آپ لوگ ہو۔ اس وقت بلوچستان میں ظلم و بربریت جاری ہے آئے روز لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پر دربدر ہے مگر ہمیں کوئی انصاف نہیں مل رہا ہے اور مزید بلوچستان کے نوجوانوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔

لواحقین نے مطالبہ کیا تمام لاپتہ افراد منظر عام پر لاکر عدالتوں میں پیش کیا جائے اگر انھوں نے کوئی جرم کیا تو انھیں شفاف ٹرائل کا موقع دیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مہم، “خاموشی توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں اس سے قبل کراچی، حب چوکی، خضدار، تربت، پنجگور، خاران، کوئٹہ، نوشکی اور آج دالبندین میں احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 15:55


https://urdu.zrumbesh.com/10558/


خاران جبری لاپتہ عبید اللہ کی ایک ہفتہ کے اندر بازیابی کی یقین دہانی پر بی وائی سی نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا

سوموار ، 28 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

خاران( مانیٹرنگ ڈیسک ) خاران بلوچ یکجہتی کمیٹی وجبری ‎لاپتہ افراد کے لواحقین نے حکومتی اور ضلعی حکام سے مذاکرات کے بعد گذشتہ کئی روز سے جاری دھرنا ختم کردیا۔

بتایا جارہاہے کہ خاران سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے عبیداللہ تکاپی کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے خاران ریڈزون میں جاری دھرنا آج مذاکرات اور یقین دھانیوں کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔

بلوچستان اسمبلی کے وزیر و ایم پی اے خاران شعیب نوشیروانی نے لاپتہ عبیدتگاپی کی عدم بازیابی کیخلاف اور طلباء کی جانب سے بی وائی سی کارکنان طلباء رہنماوں عزیز اکرم، آصف نور ،مظفر بلوچ پر ایف آئی آر کیخلاف خاران ریڈ زون میں جاری احتجاجی دھرنا گاہ کیمپ پہنچ کر لواحقین اور بی وائی سی کارکنان سے مذاکرات کیے۔

اس موقع پر انھوں نے حکام کی جانب سے ایک ہفتے تک لاپتہ عبید تگاپی کی بازیابی اور تینوں طلباء کو ایم پی اے اور ڈی سی کے ذمہ داری پر گرفتار نہ کرنے اور ایف آئی آر ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد لواحقین بلوچ یکجہتی کمیٹی اور طلباء نے احتجاجی دھرنا ختم کردیا۔

آپ کو علم ہے کہ دو ہفتے قبل خاران سے عبیداللہ تکاپی کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے،جس کے بازیابی کیلے لواحقین بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مل کر خاران ریڈ زون کے قریب شال روڈ پر کیمپ قائم کرکے دھرناشروع کر دیا تھا۔

خاران پولیس نے گذشتہ روز دھرنا دینے اور سڑک بند کرنے پر مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی خاران کے ذمہ داران کو نامزد کیا تھا۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 15:21


https://urdu.zrumbesh.com/10556/

بارکھان اور مستونگ کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔بی ایل ایف

سوموار ، 28 اکتوبر ، 2024 / زرمبش اردو

بارکھان ( پ ر ) بارکھان بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سرمچاروں نے بارکھان کے علاقے جاندران کوہ میں موبائل ٹاور اور مشینری کو نذر آتش اور مستونگ کھڈ کوچہ میں لیویز اہلکاروں کا اسلحہ ضبط کیاہے۔

انھوں نے کہاہے کہ 23 اکتوبر شام سات بجے بارکھان کے علاقے بیبر ٹک جاندران کوہ میں نصب یوفون ٹاور اور مشینری کو فائرنگ کرکے نذر آتش کیا۔جبکہ دوسری کاروائی 28 اکتوبر دوپہر ایک بجے مستونگ کھڈ کوچہ میں دوران گشت لیویز اہلکاروں سے اسلحہ ضبط کرنے کے بعد انسانیت اور بلوچیت کے ناطے انہیں چھوڑدیا۔

انھوں نے کہاہے کہ بلوچستان کے مختلف و محدود علاقوں میں بکثرت ٹاورز لگانا بلوچ سرمچاروں کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کو مانیٹر کرنا ہے۔ اکیسویں صدی کے دور میں بلوچ سرمچار کم وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے ریاستی منصوبوں کو نشانہ بنارہے ہیں جو سرمچاروں کی کامیابی کا ثبوت ہے۔

ترجمان نے کہاہے کہ لیویز اور پولیس فورس کے حاضر سروس بلوچ اہلکاروں کوہم بارہا تنبیہ کرتے رہے ہیں کہ بلوچ سرمچاروں کا پیچھا کرنے، ان کا راستہ روکنے اور بلوچ عوام کے خلاف قابض ریاست کی فوج اور خفیہ اداروں کی ظلم و جبر میں شریک ہوکر ریاستی مشینری کو ایندھن فراہم کرنے سے گریز کریں بصورت دیگر بی ایل ایف لیویز اور پولیس کو بھی اسی طرح ہدف بنائے گی جیسے پاکستان کی سفاک فوج، خفیہ اداروں اور ان کے مقامی معاونین و مخبروں کو ہدف بناتی ہے۔

قبضہ گیر ریاست کی بندوق اس کے جبر کی علامت ہے اور مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی بندوقیں دے کر وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کے کالونیل جبر اور استحصال کو مقامی حمایت حاصل ہے۔ انہی مقامی بندوق برداروں کو وہ بلوچ نسل کشی کے لیے استعمال کرتا ہے اور انہی کے ذریعے وہ اپنے قبضے کو تقویت دیتا ہے۔

ہم ہرگز کسی کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ روزگار یا ڈیوٹی کے نام پہ بلوچ سرزمین پر قابض کا معاون بن کر اس کی تھمائی ہوئی بندوق کا رُخ سرمچاروں یا بلوچ عوام کی جانب کرے۔ آج ایک دفعہ پھرہم اپنے ہم وطنوں سے کہتے ہیں کہ وہ ریاست کی دی ہوئی بندوق کو بلوچ قوم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں استعمال کرنے کی بجائے اپنے قوم اور انسانیت کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔


بی ایل ایف بلوچ قوم کو یقین دلاتی ہے کہ بلوچ نسل کشی میں ملوث ریاست اور اس ریاست کے شریک جرم تمام بدنما کرداروں کا کڑا احتساب کرتے رہیں گے۔


بلوچستان لبریشن فرنٹ دونوں کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہےاور اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ آزاد بلوچستان کے حصول تک قابض فورسز اور ان کے شراکت داروں کو نشانہ بناتی رہیگی۔

ریڈیو زرمبش اردو | 🎙ZBC

28 Oct, 14:48


شال ( ویب ڈیسک ) باڈر بندش کیخلاف مکران اور رخشان ڈویژن کے لوگوں نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا دے دیا ،
اپوزیشن اراکین بھی دھرنے میں شریک ہوگئے ۔

https://x.com/rzurduZBC/status/1850912126132498836?t=xeDUmQTgidWL21oQ8oGsZQ&s=19