زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے @zindagi_gulzar_hai Channel on Telegram

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

@zindagi_gulzar_hai


رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے

@Naveed_Akhtar

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے (Urdu)

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے is a Telegram channel dedicated to the beauty of life through Roman novels, beautiful poetry, moral lessons, and touching verses. Created for lovers of Urdu literature, poetry, and children's literature, this channel allows you to immerse yourself in the rich world of prose, poetry, and literature. With content curated by renowned poet Naveed Akhtar, you can expect to find a treasure trove of soul-stirring poetry, thought-provoking novels, and educational material that will touch your heart. Whether you are a seasoned literature enthusiast or just starting to explore the world of Urdu literature, this channel is sure to captivate you with its diverse range of content. Join زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے today and let the beauty of Urdu literature enchant you.

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

17 Oct, 16:48


20 لاکھ سے زیادہ لوگ 140 مربع میل پر محیط دیواروں اور دروازے سے بند کھلے فضائی کیمپ میں 17 سالوں سے مجبور تھے، اب سب سے زیادہ جدید ایٹمی فوج جس میں پانی کو کاٹنے کے بعد سفید فاسفورس شامل ہے، سب سے جدید ترین جوہری فوج کے ذریعے مسلسل دو ہفتوں تک ان پر بمباری کی جا رہی ہے۔ خوراک، طبی سامان، بجلی، اور مواصلات، ہسپتالوں، سکولوں، رہائشی عمارتوں، گرجا گھروں اور مساجد، سڑکوں اور تمام انفراسٹرکچر کو تباہ کر کے سینکڑوں بچے، مائیں، معذور اور بوڑھے ہلاک ہوئے۔

یہ نسل کشی کی مہم ہے جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بیہودہ قتل کو روکنا ہوگا۔ بنیادی انسانی حقوق اور شرافت کو بحال کیا جائے۔ زمین پر ہم اس تمام تباہی سے امن کے حصول کی امید کیسے رکھتے ہیں؟ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

15 Oct, 18:09


اے اللہ! ہمیں آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اہل فلسطین پر رحم فرما۔ دنیا کو وہ جھوٹ اور مظالم دکھائیں جو ان پر ڈھائے گئے ہیں۔ حقیقت صرف آپ ہی جانتے ہیں۔ آپ معجزات کے مالک ہیں۔ انہیں ان مشکل لمحات میں فتح عطا فرما۔ آمین

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

14 Oct, 17:43


हज़ारों ज़ुल्म हों मज़लूम पर तो चुप रहे दुनिया
अगर मज़लूम कुछ बोले तो दहशत-गर्द कहती है!😥

#FreePalestine #FreeGaza

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

14 Oct, 17:29


‏مسلم حکمرانوں کا اس وقت رویہ یہی ہے
اگر آپ غزہ کی صورتحال سے پریشان ہیں اور مسلم حکمرانوں کو تلاش کر رہے ہیں تو اس کارٹونسٹ نے ان کی حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے
‎#طوفان_الاقصى_ ‎#Gazagenocide ‎#غزة_الآن

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

13 Oct, 19:18


O Allah! Protect and comfort the people of Palestine. Ease their pain and suffering. Calm their hearts amid the turmoil and devastation. Grant them a swift end to the decades of oppression and suffering. Grant them the victory they deserve. Aameen.

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

30 Jun, 10:07


ڈیڑھ سے دو ارب مسلمانوں میں اکیلا یہی بندا نہ صرف صراط مستقیم پر چل رہا ہے بلکہ فرشتوں کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے،،،
موت کے فرشتوں کے ساتھ۔۔۔

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

26 May, 09:11


امریکی تاریخ کی عجیب خودکشی ___!!!

رونالڈ أوبوس نام کے ایک شخص نے خودکشی کرنی چاہی تو اس نے اس کے لیے سب سے آسان طریقہ استعمال کیا اور وہ یہ کہ اس عمارت سے چھلانگ لگا دے جس میں وہ رہتا تھا۔ اس نے عمارت کی دسویں منزل سے چھلانگ لگا دی اور اپنوں کے لیے ایک خط چھوڑا جس میں اس نے خودکشی کی وجہ یہ بتائی کہ وہ زندگی سے مایوس ہو گیا تھا۔

لیکن 23 مارچ 1994 کو جب اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تو موت کی وجہ یہ پتہ چلی کہ رونالڈ کی موت چھت پر گرنے سے نہیں بلکہ سر پر گولی لگنے سے ہوئی ہے۔

جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ رونالڈ کو گولی اسی عمارت سے لگی ہے جس میں وہ رہتا تھا اور وہ گولی نویں منزل سے چلائی گئی تھی اور اس نویں منزل میں دو بوڑھے میاں بیوی کئی سالوں سے رہ رہے تھے۔

ہمسایوں سے معلوم ہوا کہ دونوں میاں بیوی آپس میں ہر وقت لڑتے جھگڑتے تھے اور عجیب بات یہ تھی کہ جب رونالڈ نے چھت پر سے اپنے آپ کو پھینکا عین اسی وقت بوڑھا شوہر پستول تھامے اپنی بیوی کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہا تھا۔

شدید غصے و ہیجان کی حالت میں شوہر نے غیر ارادی طور پر اپنی بیوی پر گولی چلائی لیکن چونکہ بیوی نشانے سے دور تھی اس لئے گولی اس وقت کھڑکی سے نکلی عین اس وقت جب رونالڈ نے خودکشی کے لیے چھلانگ لگائی جس سے وہ گولی اس کے سر میں لگی ، جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔

(کہانی میں ٹوئسٹ ابھی باقی ہے)

عدالت میں بوڑھے شوہر پر غیر ارادی طور پر قتل کا مقدمہ چلا لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ وہ میاں بیوی ہر وقت لڑتے رہتے ہیں اور وہ ہر وقت اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے لیکن پستول ہر وقت فارغ ہی رہتا ہے اس میں گولیاں نہیں ہوتیں۔

مزید تحقیقات کرنے پر ایک عجیب بات یہ معلوم ہوئی کہ بوڑھے جوڑے کے رشتہ داروں میں سے کسی نے ایک ہفتہ قبل ان میاں بیوی کے بیٹے کو پستول میں گولیاں ڈالتے دیکھا تھا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ماں نے بیٹے کو مالی امداد دینے سے منع کر دیا تھا۔ تو بیٹے نے بوڑھے ماں باپ سے جان چھڑانے کی سوجھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین ہر وقت لڑتے رہتے ہیں اور لڑتے ہوئے وہ خالی پستول ماں پر تان لیتا ہے اس لئے اس نے پستول میں گولی لوڈ کی تاکہ وہ ایک تیر سے دو شکار کرے۔

لیکن گولی اس کی ماں کو نہ لگی اور وہ رونالڈ کے سر میں اس وقت لگی جب وہ خودکشی کر رہا تھا۔ اور اس طرح قتل کی تہمت کا مقدمہ باپ سے ہٹ کر بیٹے پر جا لگا۔

(حیران ہو گئے آپ ۔۔ عقل گھوم گئی ناں ۔۔ اچھا اب میرے ساتھ ساتھ کہانی پر نظر رکھیں)

اس سارے واقعے میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ رونالڈ بذات خود ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کا بیٹا تھا اور اس نے ہی اس پستول میں گولی ڈالی تھی تاکہ وہ اپنے ماں باپ سے خلاصی پا سکے۔

لیکن مالی حالات خراب ہونے اور باپ کا اس کی ماں کو مارنے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے اس نے خود کشی کا فیصلہ کیا اور اوپری منزل سے چھلانگ لگاتے ہوئے وہی گولی اس کو لگی جو اس نے خود پستول میں ڈالی تھی اس طرح وہ بذات خود قاتل بھی ہوا اور مقتول بھی!
(نقل وچسپاں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

23 Apr, 12:52


پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے جس کا سٹاپ آجائے، اترتا جاتا ہے، پھر ایک سٹاپ آتا ہے جب ہم نے بھی اترنا ہوتا ہے۔
یہی نظم چلتا ہے، ٹرین میں بھی ایسا ہی ہے۔
زندگی میں بھی ہمارے ساتھ والے دنیا سے جاتے رہتے ہیں، جس کا سٹاپ آیا ، اتر گیا بلکہ کہنا چاہیے کہ اتار دیا گیا۔
پھر وہ اوجھل ہوجاتا ہے۔
پھر ایک دن ہمارا سٹاپ بھی آجائے گا، ہمیں بھی اتار دیا جائے گا۔
پبلک ٹرانسپورٹ سے یہ فرق ہے کہ یہاں اترنا اپنی مرضی لیے ہے، سٹاپ کا انتخاب اپنا ہے، باری کا بھی معلوم ہے اور وقت کا بھی کچھ نہ کچھ اندازہ ہے
جبکہ دنیا میں زندگی سے اترنا اپنی مرضی سے نہیں، سٹاپ یعنی موت کا انتخاب اپنا نہیں، باری کا بھی معلوم نہیں اور وقت یعنی عمر کا بھی کافی حد تک عام طور پر اندازہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں جب سٹاپ قریب آنے لگے تو انسان اپنا سامان سمیٹنے لگتا ہے، کوئی ساتھی یار دوست عزیز ہو تو اسے الوداع کہتا ہے اور پھر اتر جاتا ہے۔
سامان ہلکا اور ضرورت کا عموماً ساتھ رکھا جاتا ہے، ایک حد سے زیادہ تو رکھ بھی نہیں سکتے۔
اور یہی راحت لیے ہے۔
زندگی میں بھی یہ اصول رکھنا چاہیے، ضرورت کا ہو، قدرے ممکنہ آسائش کا بھی ہوجائے لیکن انبار نہ ہوں ورنہ زندگی کے سٹاپ سے اترتے ہوئے خوامخواہ بوجھ کا باعث بنیں گے۔
عزیز رشتہ داروں یار دوستوں کے ساتھ ایسے رہا جائے کہ زندگی سے اترنے کا وقت جب آئے تو الوداع کہنا مشکل نہ لگے۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
🖊️آفاق احمد
ــــــــــــــــــــــــــــــ

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

10 Apr, 08:37


خاموش اور نرم رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کمزور ہیں۔ ایسے لوگ طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں جو قابو میں ہے۔ یہ جانتا ہے کہ کب بولنا ہے اور کب سننا ہے؛ کب کارروائی کرنی ہے اور کب انتظار کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کو کم نہ سمجھیں۔ وہ بڑی طاقت کے ساتھ چلتے ہیں۔

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

03 Apr, 17:47


مفتی عبدالرؤف سکھروی لکھتے ہیں "بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے لہذا جب جماعت کو وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں پھر اس ترتیب سے جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہوں تو اول وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں اگر وہ پوری ہو چکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہو جائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں کیوں کہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں ۔مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے نماز شروع ہو جانے کے بعد میں نہیں ۔بچے اگر تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے مردوں کی نماز خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علاحدہ صف نہ بنائی جائے ۔بہتر ہوگا کہ مردوں کی صفوں میں دائیں جانب یا بائیں جانب بچوں کو کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کر کے بڑوں کی نماز خراب نہ کریں ۔ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہیت نہیں آئے گی ۔(صف بندی کے آداب ص23)
بعض مساجد میں بعض لوگ بچوں کے ساتھ بہت ناروا سلوک کرتے ہیں خود دو تین رکعت ہوجانے کے بعد آتے ہیں اور پھر پہلے سے نماز پڑھ رہے بچوں کو کھینچ کھینچ کر پیچھے کرتے ہیں جو بچوں کو انتہائی ناگوار گزرتا ہے ۔بہتر ہوگا کہ والدین گھروں پر بچوں کو نماز اور مسجد کے آداب سکھائیں ۔پھر دو چار حضرت اللہ کے واسطے بچوں کی صف بندی کے لیے وقت دیں ان کی ترتیب بنائیں ۔ان کو نیت باندھنے کی تاکید کریں ۔ان شاء اللہ بچے شرارت نہیں کریں گے ۔"جب کہ بچوں کی شرارت سے نماز باطل اور فاسد نہیں ہوتی" ۔
عیدین کے موقع پر عورتوں کو بھی عید گاہ جانے کا حکم حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ۔اگر چہ ہمارے مسلک میں عید گاہ اور مسجد میں فتنہ و فسادِ زمانہ کی وجہ سے خواتین کا حاضر ہونا پسندیدہ اور معمول بہ نہیں ہے مگر یہ تو پتہ چلتا ہے کہ جب عورتیں جائیں گی تو بچے بھی جائیں گے ۔لڑکے اپنے والد بڑے بھائی وغیرہ کے ساتھ جائیں گے ۔عید گاہ پر بڑا مجمع ہوتا ہے اگر بچوں کی صف علاحدہ بنائی جائے تو بچے بچھڑ جائیں، گم ہو جائیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نماز کے بعد گمشدگی کا اعلان ہوتا ہے ۔بچے الگ پریشان اور والد وغیرہ الگ پریشان ۔حالانکہ کے روایتی طور سے عید گاہ میں جماعت کھڑی ہونے کے وقت اعلان ہوتا ہے کہ بچوں کو بڑوں کی صف سے نکال دیں لیکن کسی عید گاہ میں بچوں کو نکالا نہیں جاتا کیوں کہ وہ بہت حرج اور پریشانی کی بات ہے ۔اعلان کرنے والے اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن بچوں کو صفوں سے نکالا نہیں جاتا ۔بڑا مجمع ہونے کی وجہ سے بہت کچھ برداشت کیا جاتا ہے تو مصلحتاً بڑوں کی صف میں بچوں کو مخصوص حالات میں برداشت کر لینا چاہیے جب کہ نماز بھی فاسد نہیں ہوتی ۔بچے بڑے شوق سے اپنے بڑوں کے ساتھ عید گاہ جاتے ہیں ۔رمضان المبارک میں ہر مسجد میں مصلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔بچے بالخصوص روزہ دار بچے بڑی تعداد میں مسجدوں میں آتے ہیں جن کی وجہ سے تقریباً ہر مسجد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بعض مساجد میں بچوں کو پڑوس کی مسجد میں جانے کی ہدایت دی جاتی ہے حالانکہ بچے پھر بھی آتے ہیں ۔بعض جگہ ان کو اوپر ہال میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں جاکر بچے اور آزادی سے نئی نئی شرارت کرتے ہیں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بہتر ہوگا کہ ان کو مسجد میں آنے سے روکنے کی بجائے ان کی اصلاح و تربیت کی جائے ۔ان کے ساتھ کچھ لوگ اپنا وقت فارغ کر کے نماز اور مسجد کے آداب سمجھائیں ۔
فجر اور تراویح کے بعد بھی بچے دھوم مستی اور شور و غل کرتے ہیں اس پر بھی دھیان دیا جائے کیوں کہ سونے والوں اور بیماروں کو ان کے شور و غل سے تکلیف پہنچتی ہے ۔
امید ہے کہ برادران اسلام مذکورہ باتوں کی طرف دھیان دیں گے ۔

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

03 Apr, 17:47


(نوٹ:بچوں کا مساجد میں آنے کو لے کر اکثر مباحثہ چھڑا رہتا ہے اسی موضوع پر مولانا ادریس عقیل ملی دامت برکاتہم نے نہایت ہی معتدل اور قرآن و حدیث سے میل کھاتا ہوا نظریہ پیش کیا ہے جسے ہر شخص کو ایک بار ضرور پڑھانا چاہیے ۔)
________
"بچے مسجد اور رمضان"
تحریر :حضرت مولانا ادریس عقیل ملی دامت برکاتہم، (شیخ الحدیث معہد ملت)
________
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ۔شب برات سے ہی مصلیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور بڑی تعداد میں بچے بھی مسجد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔خاص طور سے رمضان میں بچے کثرت سے مسجد میں آتے ہیں اور بچے اپنی فطرت کے مطابق دھوم مستی بھی کرتے ہیں ۔اس ضمن میں بنیادی طور پر یہ حدیث پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو نماز کا حکم کرو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو جب وہ دس سال کے ہوجائیں ۔اسی طرح یہ حدیث بھی سامنے رہنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "اپنی مسجدوں کو بچوں اور پاگلوں اور خرید و فروخت سے بچاؤ" ۔علماء کہتے ہیں کہ ایسے ناسمجھ بچے جو آدابِ مسجد سے ناواقف ہوں، جو پیشاب، پاخانہ، طہارت، نجاست کا شعور نہ رکھتے ہوں ان کو مسجدوں میں نہیں لانا چاہیے ۔ہاں اگر ان کو شعور اور تمیز ہوجائے جس کی حد سات سال ہے ان کو مسجد میں لا سکتے ہیں اور دس سال کے لڑکے اگر مسجد میں نہ آئیں، نماز نہ پڑھیں تو ان کو تنبیہ اور سرزنش کی جا سکتی ہے ۔حالانکہ ابھی نماز فرض ہونے کی عمر نہیں ہے ۔نماز تو پندرہ سال کا ہوجانے پر (بالغ ہوجانے پر) فرض ہوتی ہے ۔اسی بنیاد پر حدیث میں صف بندی کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ پہلے بالغ مردوں کی صف ہوگی پھر بچوں کی اور اس کے بعد عورتوں کی صف ہوگی ۔فی زمانہ خواتین کے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کا معمول ہے تاہم حدیث سے یہ تو معلوم ہوا کہ بچے مسجدوں میں آئیں گے اور ان کی صف بالغ مردوں کے پیچھے ہوگی ۔بعض لوگوں مسجدوں میں بچوں کے سلسلے میں بہت متشدد ہوتے ہیں وہ بچوں کو مسجد سے ہی بھگا دیتے ہیں یا کچھ شرارت ہو جائے تو ذلت آمیز طریقے سے کھینچ دھکیل کرتے ہیں ۔بعض لوگ تو سخت انداز میں مار پیٹ بھی کر دیتے ہیں ۔پھر جس کو مارا اس کے والدین سے جھگڑا بھی ہو جاتا ہے ۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج کے یہ بچے کل کے مصلی اور مساجد کے آباد کرنے والے ہیں ۔ان کے ساتھ نفرت والا سلوک ان کو ہمیشہ کے لیے مسجد سے دور کر سکتا ہے ۔ان کو نرمی اور محبت کے ساتھ مسجد اور نماز کے آداب سکھانا چاہیے ۔ان کو بتانا چاہیے کہ ان کی صف کہاں ہوگی، نماز کیسے پڑھنا ہے ۔شرارت بھاگ دوڑ اور چیخ پکار سے بچنا چاہیے ۔بچے اپنی فطرت کی وجہ سے کچھ حرکت تو ضرور کریں گے ایسے میں بڑوں کو اپنا فرض نبھانا چاہیے ۔آج بچے بہت کچھ حرکت کرتے ہیں لیکن مصلی سجدے میں ہوں تو ان کی پیٹھ پر تو نہیں بیٹھ جاتے ۔حدیث میں یہاں تک ملتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو آپ کے نواسے سجدے کی حالت میں آپ کی پشت پر بیٹھ گئے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک سجدے میں رہ گئے ۔نماز کے بعد صحابہ کرام نے پوچھا آپ دیر تک سجدے میں رہ گئے تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی معاملہ پیش آ گیا یا پھر آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے کوئی بات نہیں تھی بلکہ میرا بیٹا میرے اوپر سوار تھا مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت کروں ۔
حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جب کہ آپ سجدے میں ہوتے تو آپ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے ۔آپ انہیں اتارتے نہیں تھے جب تک وہ خود اتر نہیں جاتے اور کبھی آپ رکوع میں ہوتے تو اپنے دونوں پیروں کو پھیلا دیتے اور وہ درمیان سے دوسری طرف نکل جاتے پھر کہیں روایات میں یہ نہیں ملتا کہ آپ نے بعد میں حضرت فاطمہ رض کو کہا ہو کہ یہ بچے مسجد میں نماز کے دوران کیوں آ جاتے ہیں انہیں روکو ۔
مذکورہ باتوں کے پیش کرنے سے ہرگز ہرگز یہ مقصد نہیں کہ بچوں کو شرارت کی ترغیب دی جائے یا مصلیوں کی پیٹھ پر بیٹھنے یا پیروں کے درمیان سے نکلنے کی گنجائش دی جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ بچوں کو مسجدوں میں بہت حد تک برداشت کرنا چاہیے ۔
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل کر دوں پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ لمبی نماز اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے ۔

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

23 Mar, 19:08


جب زلزلے کے جھٹکے رکے‼️

جب زلزلے کے جھٹکے رکے۔ لوگ لپکے ۔ موبائل ہاتھ میں لیے۔ استغفار ٹائپ کیا اور فوراً سوشل میڈیا کے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرکے اپنی توبہ دوسروں تک پہنچائی۔

اس موقع پر وہ اپنے پیاروں کی سلامتی کے حوالے سے بھی خاصے فکرمند نظر آئے۔ چنانچہ جب اپنی توبہ استغفار سے فارغ ہوگئے تو انکی خیریت دریافت کی ۔ اپنی توبہ ان تک پہنچائی اور ان کی توبہ وصول کی۔

ایسے میں کچھ لوگوں کو استغفار میں محض اسلیے دیر ہوگئی کہ وہ موقع کی مناسبت سے پراثر جملے ، مشہور فقرات اور درد انگیز اشعار سرچ کرنے لگے ۔ البتہ جوں ہی انھیں مواد میسر آیا انھوں نے اپنا سٹیٹس تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگائی۔

ایسے لوگ بھی تھے جنہیں زلزلے کا علم صبح لوگوں کی زبانی ہوا۔ یہ لوگ اس بات پر کف افسوس ملتے رہے کہ وہ اول وقت میں اپنی توبہ لوگوں سے شئیر کیوں نہ کرسکے۔ کیونکہ توبہ میں جو کیفیت مطلوب ہے ، وہ زلزلے کا لوگوں کی زبانی سن کر ، بننا ممکن نہ تھی۔

آسانی کےلیے ہم تمام لوگوں کو پانچ درجات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اول درجے پر وہ لوگ فائز ہیں ، جنہوں نے زلزلے کے جھٹکوں کے دوران ہی اپنی توبہ ٹائپ کی اور اول وقت میں اپنا واٹس ایپ سٹیٹس تبدیل کیا۔ ان لوگوں کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ان میں بھی ان لوگوں کا درجہ زیادہ ہے ، جنہوں نے زیادہ مؤثر انداز میں اپنی توبہ کو پیش کیا۔ سب سے زیادہ لائکس بھی انھی کے حصے میں آئے ۔

دوسرا مرتبہ ان کا ہے ، جو جھٹکے محسوس کر کے بےاختیار عمارت سے باہر دوڑے آئے اور ان کا موبائل اندر رہ گیا۔ اگرچہ زمین کو جب واقعی قرار آگیا تو انھوں نے موبائل دبوچنے اور استغفار کی کار روائی مکمل کرنے میں دیر نہیں لگائی ، لیکن اس چند سیکنڈز کی تاخیر نے انھیں دوسرے نمبر پر دھکیل دیا۔

تیسری پوزیشن پر ان لوگوں کو رکھا جا سکتا ہے ، جو سیدھے سادے اور آسان الفاظ میں استغفاری کلمات ٹائپ کرنے کی بجائے تکلف میں پڑ گئے ۔ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے موقع کی مناسبت سے منقول جملے اور اشعار ڈھونڈنے لگے ۔ اس لمحوں کی خطا نے انھیں پہلی دو پوزیشنوں سے محروم کردیا۔

چوتھی پوزیشن کا مستحق انھیں ٹھہرایا جا سکتا ہے ، جنہیں صبح لوگوں کی زبانی زلزلے کی اطلاع ملی۔ یہ ان کی غیراختیاری غلطی تھی۔ ان لوگوں کو ہمیشہ یہ افسوس رہے گا کہ کیونکر وہ اول وقت میں اپنا استغفار لوگوں سے شئیر کرکے داد وصول نہ کرسکے۔

سب سے نچلا طبقہ ، جسے ہم محروم طبقہ کہہ سکتے ہیں ان افراد کا ہے ، جنہوں نے بہ ہوش وحواس زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے اور اپنی توبہ لوگوں تک پہنچانے کی وہ شدید خواہش بھی رکھتے تھے ، امید کا دامن تھامتے ہوئے انھوں نے استغفاری کلمات ٹائپ بھی کیے لیکن انکے موبائل نے ناکافی بیلنس اور پیکج کے ختم ہوجانے کی وجہ سے ان کا استغفار شیئر کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ان کے حصے میں محض ندامت اور پچھتاوا ہی آیا۔

انھی لوگوں نے حقیقتاً زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے۔

( رات سڑکوں ، چوکوں ، کھلی جگہوں اور سوشل میڈیا پر توبہ استغفار کرنے والوں کی کل تعداد کا نصف بھی ، صبح مسجد میں موجود نہ تھی ۔ )

✍️ عبیدالرحمان

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

17 Mar, 13:57


*واحد گناہ*

دنیا کا واحد گناہ جہالت ھے
ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ھوا "شیوانا" (قبل از اسلام کے ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا.. "میری ماں نے فیصلہ کیا ھے کہ معبد کے کاھن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے.. آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں.."
شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ھے کہ عورت نے بچی کے ھاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ھیں اور چھری ھاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رھی ھے.. بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے اور بُت خانے کا کاھن بڑے فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رھا تھا.. شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ھے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رھی ھے مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاھتی ھے..
شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رھی ھے.. عورت نے جواب دیا.. "کاھن نے مجھے ھدایت کی ھے کہ میں معبد کے بُت کی خوشنودی کے لئے اپنی عزیز ترین ھستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ھمیشہ کے لئے ختم ھو جائیں.."
شیوانا نے مسکرا کر کہا.. "مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ھستی تھوڑی ھے..؟ اِسے تو تم نے ھلاک کرنے کا ارداہ کیا ھے.. تمہاری جو ھستی سب سے زیادہ عزیز ھے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاھن ھے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچّی کی جان لینے پر تُل گئی ھو.. یہ بُت احمق نہیں ھے.. وہ تمہاری عزیز ترین ھستی کی قربانی چاھتا ھے.. تم نے اگر کاھن کی بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ھو کہ بُت تم سے مزید خفا ھو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے.."
عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ھاتھ پاؤں کھول دیئے اور چھری ھاتھ میں لے کر کاھن کی طرف دوڑی مگر وہ پہلے ھی وھاں سے جا چکا تھا.. کہتے ھیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاھن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا..
دنیا میں صرف آگاھی کو فضیلت حاصل ھے اور واحد گناہ جہالت ھے.. جس دن ہم اپنے "کاہنوں" کو پہچان گئے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے !!
منقول

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

10 Mar, 14:21


"شاید تجھے اسی کے نصیب سے رزق دیا جاتا ہو( لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ)"


یہ حدیث پڑھ کر واللہ، میری آنکھیں نم ہوگئیں۔
ہمارے یہاں عام طور سے محنت مزدوری کرنے والے گھر کے بڑے بھائی یا جاب یا بزنس کررہے چھوٹے بھائیوں کی یہ شکایت رہتی ہے کہ گھر میں، بڑی محنت سے کما کر میں ہی لاتا ہوں اور باقی بھائی بیٹھ کر کھاتے ہیں، میں یہ بات اب مزید برداشت نہیں کرسکتا۔
اس کے جواب میں، کل کائنات کے محبوب و آقا، محسن انسانیت، ہمارے پیارے نبی نے کیا ہی عمدہ بات فرمائی ہے، سبحان اللہ۔
آپ بھی پڑھیے اور اپنے سارے شکوے گلے بھول جائیے۔

حضرت انس ابن مالك بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں دو بھائی تھے ، جن میں ایک بھائی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تھا ، اور دوسرا بھائی مزدوری کرتا تھا تو اس محنت مزدوری کرنے والے نے اپنے بھائی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی ، تو آپ نے فرمایا ، ہو سکتا ہے کہ تم کو اسی کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہو ۔
(ترمذی و مشکوۃ، حسن, صحیح)

صاحبِ مظاہرِحق، مولانا قطب الدین دہلوی رحمہ اللہ اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ تم یہی کیوں سمجھتے ہو کہ تمہیں جو رزق ملتا ہے ، وہ حقیقت میں تمہارے کمانے کی وجہ سے ملتا ہے ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ تم اپنے اس بھائی کے ساتھ جو ایثار کا معاملہ کرتے ہو ، اور اس کی معاشی ضروریات کا بوجھ برداشت کرکے جس طرح اس کو فکر و غم سے دور رکھتے ہو ، اسی کی برکت کی وجہ سے تمہیں بھی رزق دیا جاتا ہو ، پس اس صورت میں شکوہ و شکایت کرنے اور اس پر احسان رکھنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔

ایڈٹ:
ایک سیاق یہ بھی ہے کہ جن بھائیوں کی آمدنی کم ہو اور جوائنٹ فیملی میں ان کو اور ان کی فیملی کو بھی اگر کھلایا جارہا ہو تو صبرو شکر کرنا چاہیے، کہ اللہ بہتر اجر دینے والا ہے.

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

06 Mar, 15:50


حضور ﷺ کی کوئی بہن نہیں تھی لیکن جب آپ سیدہ حلیمہ سعدؓیہ کے پاس گئے تو وہاں حضور کی ایک رضاعی بہن کا ذکر بھی آتا ہے جو آپ کو لوریاں دیتی تھیں اس کا نام سیدہ شیؓما تھا ۔
شام کے وقت جب خواتین کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتیں ،تو بہنیں اپنے بھائی اٹھا کر باہر لے جاتیں اور ہر بہن کا خیال یہ ہوتا کہ میرے بھائی زمانے میں سب سے زیادہ خوب صورت ہے ۔ ۔
بنوسعد کے محلے میں بچیاں اپنے بھائی اٹھاتیں ایک کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں اور دوسری کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں
اتنے میں سیدہ شیمؓا اپنا بھائی سیدنا محمد ﷺ اٹھا کے لے آتیں اور دور سے کہتی میرا بھائی بھی آ گیا ہے تو سب کے سر جھک جاتے اور سب کہتیں ، نہیں نہیں تیرے بھائی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ہم تو آپس کی بات کر رہے ہیں ۔۔۔
----(ابن ہشام سیرت کی سب سے پہلی کتاب) ----- ہے اسی میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
سیدہ شیمؓا حضور ﷺ کو اپنی گود میں لے کے سمیٹتیں اور پھر جھومتیں اور پھر وہ لوری دیتیں اور لوری کے الفاظ بھی لکھ دیئے ہیں جن کا ترجمہ ہے
اے ہمارے رب میرے بھائی محمد کو سلامت رکھنا آج یہ پالنے میں بچوں کا سردار ہے کل وہ جوانوں کا بھی سردار ہوگا اور پھر جھوم جاتیں ۔
پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ حضور ﷺ مکے چلے گئے اور سیدہ شیمؓا بھی جوان ہوئیں ، اُن کی شادی بھی کسی قبیلے میں ہوگئی حضور ﷺ نے اعلان نبوت کیا تیرہ سال کا وقت بھی گزر گیا اور آپ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے ۔
جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو جس قبیلے میں سیدہ شیمؓا کی شادی ہوئی تھی اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ ہو گیا ۔۔۔ اللہ رَبُّ العِزَّت نے مسلمانوں کو فتح عطا کر دی تو اس قبیلے کے چند لوگ صحابہ کرام ؓ کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قید کر دیئے گئے ، تب وہ لوگ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے فدیہ جمع کرنے لگے ، قبیلے کے سردار بھی گھر گھر جا کر رقم جمع کر رہے تھے ۔
چلتے چلتے وہ سیدہ شیمؓا کے گھر پہنچ گئے جو کہ اپنی عمر کا ایک خاصا حصہ گزار چکی تھیں، کہنے لگے کہ اتنا حصہ آپکا بھی آتا ہے ۔
سیدہ شیمؓا نے کہا حصہ کس لئے ؟
لوگوں نے کہا جو لڑائی ہوئی ہے اور اس میں ہمارے آدمی گرفتار ہوچکے ہیں ، باتیں کرتے کرتے کسی کے لبوں پر محمد ﷺ کا نام بھی آ گیا تو سیدہ شیؓما سن کر کہنے لگی اچھا تو کیا انہوں نے تمہارے لوگ پکڑے ہیں ؟
کہا ۔۔۔ ہاں
سیدہ شیمؓا نے کہا تم رقم اکٹھی کرنا چھوڑ دو مجھے ساتھ لے چلو ۔
سردار نے کہا آپ کو ساتھ لے چلیں ؟
سیدہ شیؓما کہنے لگیں ہاں تم نہیں جانتے وہ میرا بھائی لگتا ہے ۔
قبیلے کے سردار کے ساتھ جب سیدہ شیؓما حضور ﷺ کے نوری خیموں کی طرف جا رہی تھیں اور صحابہ کرامؓ ننگی تلواروں سے پہرہ دے رہے تھے ، وہ مدنی دور تھا ۔
سیدہ شیمؓا قوم کے سرداروں کے ساتھ جب آگے بڑھنے لگیں تو صحابہ ؓ نے تلواريں سونتیں اور پکارا
او دیہاتی عورت رک جا ، دیکھتی نہیں آگے کوچہء ِ رسول ﷺ ہے ۔۔۔آ گے بغیر اذن کے جبریلؑ بھی نہیں جا سکتے تم کون ہو؟
سیدہ شیمؓا نے جواب میں جو الفاظ کہے ان کا اردو ترجمہ یہ ہے ۔۔۔۔ میری راہیں چھوڑ دو تم جانتے نہیں میں تمہارے نبی ﷺ کی بہن لگتی ہوں ۔
تلواریں جھک گئیں ، آنکھوں پر پلکوں کی چلمنیں آ گئیں راستہ چھوڑ دیا گیا۔۔۔ سیدہ شیمؓا حضور ﷺ کے خیمہء ِ نوری میں داخل ہو گئیں تو حضور ﷺ نے دیکھا اور پہچان گئے ۔ فورا اٹھ کھڑے ہوئے فرمایا بہن کیسے آنا ہوا ؟
کہا آپ ﷺ کے لوگوں نے ہمارے کچھ بندے پکڑ لئے ہیں ان کو چھڑانے آئی ہوں ۔
حضور ﷺ نے فرمایا بہن تم نے زحمت گوارا کیوں کی ۔پیغام بھیج دیتیں میں چھوڑ دیتا لیکن تم آ گئیں اچھا ہوا ملاقات ہو گئی ۔
پھر حضور ﷺ نے قیدیوں کو چھوڑنے کا اعلان کیا کچھ گھوڑے اور چند جوڑے سیدہ شیؓما کو تحفے میں دیدیئے کیونکہ بھائیوں کے دروازے پر جب بہنیں آتی ہیں تو بھائی خالی ہاتھ تو بہنوں کو نہیں لوٹایا کرتے ۔
حضور ﷺ نے بہت کچھ عطا کیا اور رخصت کرنے خیمے سے باہر تشریف لے آئے تو صحابہ ؓ کی جماعت منتظر تھی
فرمایا اے صحابہ ! آپ جانتے ہیں کہ جب بھی میں قیدی چھوڑا کرتا ہوں تو میری یہ عادت ہے کہ آپ سے مشاورت کرتا ہوں لیکن آج ایسا موقع آیا کہ میں نے آپ سے مشاورت نہیں کی اور قیدی بھی چھوڑ دیئے
صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ مشاورت کیوں نہیں کی؟ ارشاد تو فرمائیں ۔۔۔
فرمایا آج میرے دروازے پر میری بہن آئی تھیں۔۔۔

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

26 Feb, 19:16


‏ہماری دنیا کے مسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں جتنے طنز، سوال ،دل دکھانے والے تبصرے ہیں__
اگر صرف زبان روک لی جائے تو۔۔۔لوگوں کے دلوں کی تکالیف کم ہو جائیں گی..
اور بہت سے دلوں کو سکون مل جائے گا__

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

26 Feb, 18:07


‏"ہر بدبخت احمق جس کے پاس کچھ بھی نہیں جس پر وہ فخر کر سکے، وہ اس قوم پر فخر کرتا جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔ وہ اس قوم کی تمام خرابیوں سے خوش اور حماقتوں کا دل و جاں سے دفاع کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے، اس طرح وہ خود کو اپنی کمتری کا بدلہ دیتا ہے۔"

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

19 Feb, 11:42


ہر درد کے لیے جو تم سہتے ہو،
ہر اس خوف کے لیے جو آپ کے دل کو گرفت میں لے،
ہر پریشانی کے لیے جو آپ کو بیدار رکھتی ہے،
ہر اس نقصان کے لیے جس پر تم غمگین ہو،
کسی بھی چیز اور ہر چیز کے لیے جسے آپ سنبھال نہیں سکتے،
اسے رب العالمین پر چھوڑ دو۔
وہ ہمارے معاملات کا بہترین تصرف کرنے والا ہے۔

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

18 Feb, 19:41


#copied
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ سخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔
تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔
ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔
میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔
کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔ کتنے ہی مرد و خواتین کتنی ہی بار گھٹیا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مرد اسے اپنی جیت اور عورت اپنی جیت کا نام دیتی ہے۔
اور اگلی بار ایک نیا شکار ہوتا ہے۔۔
پہلی بار گناہ ہر دل زور زور سے دھڑکے گا آپکا، دماغ غیر شعوری سگنل دے گا۔ ایک ٹیس اٹھے گی ذہن میں۔ جسم لاغر ہونے لگے گا ، کانپنے لگے گا
یہ وہ وقت ہوگا جس ایمان جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، چلا رہا ہوتا ہے کہ دور ہٹو، باز رہو۔
مگر دوسری بار یہ شدت کم ہو جائے گی۔ اور پھر ختم۔
پھر انسان مست رہتا ہے۔ اور خوش بھی۔ مگر افسوس کہ اوپر والا اس سے اپنا تعلق قطع کر لیتا ہے۔۔
گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا اور آسان بھی، مگر یاد رکھیے سچ کا راستہ دشوار ہوتا ہے اس میں بے شمار تکلیفیں ہونگی، آزمائشیں، مصیبتیں سب ہونگی مگر گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا۔۔
کسی زمین میں گندم خود بخود نہیں اگ آتی۔ آگائی جاتی ہے۔ محنت کی جاتی ہے، خیال کیا جاتا ہے، حفاظت کی جاتی ہے تب جا کے پھل ملتا ہے مگر کسی زمین میں جھاڑیاں، غیر ضروری گھاس پھوس ، کانٹے دار پودے خود ہی اگتے ہیں۔ ان پہ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، وہ خود ہی اگتی ہیں اور کچھ ہی دنوں میں پوری زمین کو لپیٹ میں لیکر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے۔۔
اسی طرح بالکل آپکے دل کی زمین ہے جہاں گناہوں کا تصور از خود پیدا ہوگا۔ اور بڑھے گا۔ مگر نیکیوں کے لیے گناہوں سے بچنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔۔ دشواریوں سے گذرنا ہوگا۔۔
خدارا اس لعنت سے بچیں ۔ اس میں ملوث ہونا کوئی کمال نہیں،
بچنا کمال ہے۔۔ باز رہنا کمال ہے۔ سوچیے ، نکلیے اس گناہ سے
کیوں حیا کا اٹھ جانا۔ ایمان اٹھ جانے کی نشانی ہے۔ نشانی ہے اس بات کی کہ اندھیری قبر میں بہت برا ہونے والا ہے۔
*خدا ہم سب کو ہدایت دے۔۔*
*آمین۔*