فاطمہ شیخ 9 جنوری 1831 میں پیدا ہوئیں -
فاطمہ شیخ ایک ہندوستانی معلمہ و مربیہ اور مشہور سماجی مصلح جیوتی راؤ پُھلے اور ساوتری بائی پُھلے کی ساتھی تھیں۔ فاطمہ شیخ میاں عثمان شیخ کی ہمشیرہ تھیں جن کے گھر میں جیوتی با اور ساوتری بائی نے قیام کیا تھا۔ وہ جدید ہندوستان کی اولین مسلمان معلمات میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے پُھلے کے اسکول میں دلت بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ جیوتی با اور ساوتری بائی نے فاطمہ شیخ کے ساتھ مل کر نچلے طبقے میں تعلیم کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی نے عورتوں، نچلے اور دبے ہوئے طبقے کے لوگوں کو تعلیم دینا شروع کی تو ان کو مقامی افراد کی جانب سے دھمکیاں ملیں، ان کے خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ آیا وہ لوگوں کو پڑھانا چھوڑ دیں یا پھر گھر بدر ہو جائیں۔ ان کے اس عزم میں نہ تو ان کا خاندان اور نہ ہی قبیلہ ان کی مدد کو آگے آیا۔ انھوں نے اپنے لیے جاے پناہ تلاش کی اور دبے کچلے لوگوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پونہ کے گجن پیٹھ علاقے میں فاطمہ شیخ کے بھائی عثمان شیخ رہتے تھے، وہ پُھلے کو اپنا گھر دینے پر راضی ہو گئے اور اپنے احاطے میں ایک اسکول بھی کھول دیا۔ سنہ 1848ء میں عثمان شیخ اور ان کی بہن فاطمہ شیخ کے گھر میں ایک اسکول کھل گیا۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ اعلیٰ طبقے کے تقریباً تمام افراد ان دونوں کی اس حرکت سے ناراض تھے اور ان لوگوں کو سماجی طور پر پریشان کرکے بار بار روکنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن ایسے وقت میں فاطمہ شیخ آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں اور ساوتری بائی کی ہر ممکن مدد کی۔ فاطمہ شیخ نے بھی ساوتری بائی کے ساتھ اسی اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔ ان دونوں کو سگونہ بائی کا ساتھ ملا اور بعد میں چل کر تعلیمی میدان کی ایک اور رہنما ثابت ہوئیں۔ فاطمہ شیخ کے بھائی عثمان شیخ بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ اس دور کی دستاویزوں کے مطابق عثمان شیخ نے ہی فاطمہ شیخ کو تعلیمی میدان میں کام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
جب فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی نے جیوتی با کے اسکول میں جانا شروع کیا تو لوگ ان کو ستاتے تھے اور روکتے تھے۔ ان کو سنگسار تک کیا گیا اور گوبر آلود بھی کیا گیا۔ لیکن انھوں نے تعلیم عام کرنے کے اپنے عزم کو کبھی بھی ترک نہ کیا۔
فاطمہ شیخ کو اس دور کے بعض مسلم گھرانوں سے بھی بہت تکلیفیں سہنے کو ملیں لیکن انھوں نے اپنے عزائم کو مسلسل جاری رکھا، دلت اور نچلے طبقے کے ساتھ ساتھ مسلم عورتوں کو بھی تعلیم دلانے کے لیے کوشش کرتی رہیں۔ فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی پُھلے کا کہنا تھا کہ اگر ایک لڑکا تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ اکیلا تعلیم یافتہ کہلاتا ہے جب کہ اگر ایک لڑکی تعلیم حاصل کرتی ہے تو وہ پورے خاندان کو تعلیم یافتہ کرسکتی ہے۔
فاطمہ شیخ کی تعلیم نسواں، بیواؤں کی شادیوں اور دیگر سماجی و اصلاحی کاموں کو سراہتے ہوئے اس وقت کے انگریز کلکٹر نے فاطمہ شیخ کو اعلیٰ سماجی خدمات کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔
*फातिमा शेख*
*फातिमा शेख (जन्म: 9 जानेवारी 1831 – मृत्यू: 1902)* या भारतातील *पहिल्या मुस्लिम शिक्षिका* आणि सामाजिक कार्यकर्त्या होत्या. त्या महिलांच्या आणि वंचित समाजाच्या शिक्षणासाठी कार्य करणाऱ्या अग्रणी व्यक्तींमध्ये होत्या. फातिमा शेख यांनी ज्योतिराव फुले आणि सावित्रीबाई फुले यांच्यासोबत सामाजिक सुधारणांच्या चळवळीत मोलाचे योगदान दिले.
*फातिमा शेख यांचे योगदान:*
*1. महिला शिक्षणासाठी पुढाकार:*
फातिमा शेख यांनी सावित्रीबाई फुले यांच्यासोबत मुलींच्या शिक्षणासाठी कार्य केले. त्यांनी स्वतःच्या घराचे दार उघडून शाळा सुरू केली, जिथे दलित आणि वंचित समाजातील मुलींना शिकवले जात होते.
*2. सामाजिक अन्यायाविरोधी भूमिका:*
त्या काळी जातिवाद, धार्मिक असहिष्णुता, आणि महिला शिक्षणावरील बंधने यांना विरोध करत फातिमा शेख यांनी शिक्षणाचा प्रचार केला. त्या महिलांच्या सक्षमीकरणासाठी लढल्या.
*3. सावित्रीबाई फुले यांना साथ:*
ज्योतिराव आणि सावित्रीबाई फुले यांना त्यांच्या शाळा चालवण्यासाठी आणि सामाजिक कार्यांसाठी आधार देण्यात फातिमा शेख यांची भूमिका महत्त्वाची होती. समाजाने फुले दांपत्यावर बहिष्कार टाकला असताना फातिमा शेख यांनी त्यांना मदत केली.
*4. पहिली मुस्लिम शिक्षिका:*
फातिमा शेख यांना भारतातील पहिल्या मुस्लिम शिक्षिका म्हणून ओळखले जाते. त्यांनी महिलांना शिक्षित करण्याचे महत्त्व पटवून दिले.
*स्मरण:*
फातिमा शेख यांच्या योगदानाला दीर्घ काळ दुर्लक्षित केले गेले, परंतु त्यांच्या कार्याचे महत्त्व आधुनिक काळात अधिक अधोरेखित केले जात आहे. 2022 मध्ये, Google ने त्यांच्या जयंतीनिमित्त डूडल प्रकाशित केले आणि त्यांच्या कार्याला सलाम केला.
त्यांचे कार्य आजही महिलांच्या शिक्षण व सामाजिक सक्षमीकरणासाठी प्रेरणादायी आहे.