🌺جدیدفقہی مسائل🌺 @jadid_faqhi_masail Channel on Telegram

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

@jadid_faqhi_masail


ان شاءاللہ اس چینل میں جدید مسائل باحوالہ سینڈ کئےجائیں گے
https://telegram.me/jadid_faqhi_masail
لنک تشہیر کرنے کی گزارش ہے-

رابطہ 👇
https://telegram.me/Munazir_arariawi

🌺جدیدفقہی مسائل🌺 (Urdu)

اس چینل 'جدیدفقہی مسائل' کا آغاز کرنے کا مقصد فقہی معاملات کے نئے اور دلچسپ مسائل پر بات چیت کرنا ہے۔ یہاں آپ کو فقہی مسائل کی تازہ ترین بحثیں اور تجاویز ملیں گی، جو کہ آپ کی علمی مارفت اور فہم میں اضافہ کریں گی۔ اس چینل کی تشہیر کے لیے دوستوں کو بھی شعور دلائیں اور انہیں بھی جوابی بات چیت کا شوق ہے۔ فقہی مسائل پر بات چیت کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔ چینل کا لنک: https://telegram.me/jadid_faqhi_masail

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

16 Mar, 04:44


السلام علیکم ورحمة الّلہ وبرکاتہ
مفتی صاحب
اگر کوٸی مسجد میں آیا چار رکعت اسکی تراویح چھوٹ گٸ کیا پھلے وہ چھوٹی ھوٸی تراویح پڑھیگا یا جماعت میں شریک ھوگا؟
نیز یہ بھی بتاٸیں اگر کسی نے عشا۶ کی نماز نھیں پڑھی ھے کیا وہ ترا ویح پڑھ سکتا ھے ؟
المستفتی
محمد حیدر گڈاوی جھار کھنڈ حال مقیم دھلی





۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمة الّلہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ وفتاوی
اگر کوٸی عشا۶ کی نماز گھر پڑھنے کے بعد مسجد میں آیا اور تراویح کی نماز ھورھی ھے تو وہ ترویح میں شریک ھوجاۓ
اپنی چھوٹی ھوٸی تراویح چار رکعت کے بعد جو ترویحہ ھوتی ھے اس میں پڑھ لے یا تراویح اور وتر سے فارغ ھوکر اپنی چھوٹی ھوٸی تراویح پڑھ لے
تراویح یہ عشا۶ کے تابع ھے اور اسکا وقت عشا۶ کی نماز کے بعد ھے اگر کسی نے عشا۶ کی نماز نھیں پڑھی ھے تو وہ تراویح نھیں پڑھ سکتا ھے اگر پڑھیگا تو اسکی تراویح صحیح نھیں ھوگی
تراویح عشا۶ کے تابع ھے اسی لیۓ فقھا ۶ نے لکھا ھے اگر کسی نے عشا۶ کی نماز پڑھی پھر اسکے بعد تراویح پڑھی بعد میں پتہ چلاکہ عشا۶ کی نماز کسی وجہ سے صحیح نھیں ھوٸی تھی تو اب عشا۶ کے ساتھ تراویح کی نماز بھی لوٹانی ھوگی کیونکہ تراویح عشا۶ کے تابع ھے ۔۔۔۔
اذا فاتتہ ترویحة اوترویحتان فلو اشتغل بھا یفوتہ الوتر بالجماعة یشتغل بالوتر ثمّ یصلّی مافات من التراویح وبہ کان یفتی الشیخ الامام الاستاذ ظھیر الدین ۔۔۔الفتاوی الھندیة کتاب الصلاة الباب التاسع فی النوافل فصل فی التراویح /176/ج/1/جدید
والّلہ سبحانہ وتعالی اعلم
کتبہ العبد محمد طیب القاسمی غفرلہ
دار الافتا۶ والارشاد مدینہ مسجد ترھوتا بابوبرھی مد۶وبنی بھار
23 شعبان المعظم 1445 الھج الموافق 05 مارس 2024 المیلادی
یوم الثلاثا۶ قبل صلاة الظھر

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

24 Dec, 13:13


السلامُ علیکــــــــم ورحمۃ اللَّهِ وبرکاتہ
امید کرتاہوں حضرت آپ بخیر وعافیت ہو نگے
ایک مسٸلہ ہے کہ جنازہ مرد اور عورت کا ایک ساتھ ہو سکتــا ہے یا نہیں دونو بالغ ہیں
اس مسلہ کی وضاحت فرمایں
المستفتی محمــــــــد صبغت اللّہ مدھو بنی بھار






۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمة الّلہ وبرکاتہ
الجواب وبالّلہ التّوفیق
کٸ افراد کے جنازہ کی نماز ایک ساتھ ھوسکتی ھے اس میں کوٸی حرج نھیں ھے مرد وعورت کی بھی نماز جنازہ ایک ساتھ ھو سکتی ھے اس میں کوٸی حرج نھیں ھے حرمین شریفین زادھما الّلہ شرفاََ وکرامةََ میں آ ج بھی عمل اسکے اوپر جاری ھے
جنازہ رکھنے کی ترتیب اسطرح ھوگی امام کے متصل آگے مرد کا جنازہ رکھا جاۓ پھر اسکے بعد قبلہ کی طرف مرد کے جنازہ کے متصل عورت کا جنازہ رکھا جاۓ اگر مرد مختلف ھوں تو جو ان میں نیک وصالح ھو انکے جنازہ کو امام کے متصل رکھا جاۓ یھی ترتیب عورتوں میں بھی ھوگی
اگر مرد و عورت کے علاوہ بچے کا بھی جنازہ ھو تو امام کے متصل بالغ مرد پھر اسکے بعد بچے پھر اسکے بعد خنثی پھر عورتوں کا جنازہ رکھا جاۓ۔۔۔
عن عمّار مولی الحارث ابن نوفل انّہ شھد جنازة امّ کلثوم وابنھا فجعل الغلام ممّا یلی الامام فانکر علی ذالک،وفی القوم ابن عباسؓ وابو سعید الخدریؓ وابو قتادةؓ وابو ھریرةؓفقالوا ھذہ السنة ۔۔۔سنن ابی داٶد باب حضر جناٸز رجال ونسا۶ من یقدّم /455/ج/2/دار السلام رقم الحدیث /3193/
فیصفّ الرجال الی جھة الامام ثم الصبیان ثمّ الخناثی ثمّ النسا۶ ۔۔۔الفتاوی الھندیة الباب الحادی والعشرون فی صلاة الجنازة الفصل الخامس فی الصلاة علی المیت /226/ج/1/زکریا جدید
والّہ سبحانہ وتعالی اعلم
کتبہ العبد محمد طیب القاسمی غفرلہ
27 ربیع الثانی۔1444 الھج الموافق 21 نوفمبر 2022 المیلادی لیلةیوم الاثنین قبیل صلاة العشا۶

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

15 Oct, 13:24


سوال نمبر: 145649

عنوان:غیروں كے تہوار پر مبارکباد دینا کیسا ہے؟

سوال:میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں کچھ مسلم نوجوان اپنے ہندو دوستوں کو واٹس ایپ کے ذریعہ Durga Puja ان کے تہوار درگا پوجا یا دیوالی کے موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔Happy Durga Puja, Happy Diwali جیسے الفاظ کے ساتھ،کیا اس طرح مبارکباد پیش کرنے سے وہ من رای منکرا...... ومن لم یستطع فبقلبہ وذالک....کی وجہ سے ایمان سے خارج ہوگا؟کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ اگر اس میں گناہ ہے تو کس درجے کا؟برائے مہربانی مفصل و مدلل جواب دیں۔

جواب نمبر: 145649

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 103-121/L=2/1438

 

غیر مسلم حضرات کے تہوار وغیرہ ان کے مشرکانہ اعتقاد پر مبنی ہوتے ہیں؛ اس لیے ہمارے لیے مشرک سے برأت اور بے تعلقی کا اظہار ضروری ہے، اور چونکہ مبارکبادی دینے میں ان کے فکر و عقیدے کی توثیق و تائید ہوتی ہے؛ اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے بسا اوقات یہ سلبِ ایمان کا بھی باعث ہوسکتا ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

18 Sep, 17:01


سوال
آج کل لڑکوں میں لمبے بالوں پر ہئیر رنگ (hair ring) لگانے رواج بڑھ رہا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب
بال سنبھالنے کے لیے ہیئر رنگ (hair ring) کا استعمال کرنے میں فساق و فجار کی مشابہت نیز عورتوں کی مشابہت وغیرہ جیسے مفاسد ہیں؛ لہذا اس کا استعمال ناجائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 624):

"فإن التشبه بهم لايكره في كل شيء، بل في المذموم وفيما يقصد به التشبه، كما في البحر."

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144202200171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

18 Sep, 16:50


اللّٰہ حافظ کہنا كیسا ہے؟
سوال
خط وکتابت یا واٹس پر چاٹ کر اختتام پر اللّٰہ حافظ کہنا کیسا ہے ؟ کیا یہ خلافت سُنّت ہے یا غیروں کا طریقہ ہے ؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:291-912/H=3/1439
خط وکتابت یا واٹس ایپ وغیرہ کے اختتام پر اللہ حافظ کہنا نہ سنت ہے نہ مستحب بلکہ اس کو اختیار کرنے کی عادت کا خلافِ سنت ہونا ظاہر ہے،غیروں کا طریقہ ہے یا نہیں اس کی ہمیں تحقیق نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :156334
تاریخ اجراء :Nov 27, 2017


کیا روانگی کے وقت ” اللہ حافظ /خدا حافظ “ کہنا بدعت ہے؟
سوال
کیا روانگی کے وقت ” اللہ حافظ /خدا حافظ “ کہنا بدعت ہے؟ایک عالم صاحب نے کہا کہ یہ بدعت ہے؟کیوں کہ یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے اور آپ نے یہ لفظ کبھی استعمال نہیں کیا ،بلکہ ملاقات کرتے اور جاتے وقت ہمیشہ ” السلام علیکم “کہتے تھے ، لیکن میں نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ اس لفظ کو استعمال کررہے ہیں، جب میں نے ان کو کہا کہ یہ بدعت ہے تو وہ اس بات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں۔ براہ کرم، مع حوالہ مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 286-251/Sn=5/1436-U
رخصت ہوتے وقت مسنون یہ ہے کہ سلام کرے اور درج ذیل دعا پڑھے: أَسْتَوْدِعُ اللَّہَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیمَ عَمَلِکَ یعنی میں تمھارا دین تمھاری امانت اور آخری عمل (حسن خاتمہ) کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں۔ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو رخصت کرتے تو اس کا ہاتھ تھام لیتے اور مذکورہ بالا دعا پڑھتے (ترمذی، باب ما یقول إذا ودّع إنسانا)؛ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ روانگی کے وقت اسی کے مطابق پہلے سلام کریں، پھر یہ دعا پڑھیں۔ سلام اور دعا چھوڑکر صرف ”خدا حافظ“ یا ”اللہ حافظ“ کو اس کی جگہ پر استعمال کرنا خلافِ سنت اور مکروہ ہے، باقی اگر کوئی شخص سلام کے ساتھ ساتھ یہ یا اس طرح کے دوسرے ہم معنی الفاظ بھی کہہ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :57239
تاریخ اجراء :Nov 5, 2016
ان شاءاللہ اس چینل میں جدید مسائل باحوالہ سینڈ کئےجائیں گے
https://telegram.me/jadid_faqhi_masail
لنک تشہیر کرنے کی گزارش ہے-

رابطہ 👇
https://telegram.me/Munazir_arariawi

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

14 Aug, 07:55


*عنوان:کویہ( ایک سانپ یا مچھلی ) کا حکم*

سوال:سوال: ۱) پانی میں ایک سانپ پایا جاتا ہے اس کو اوندھاو سانپ کہتے ہیں جس کو ہنود کھاتے ہیں کسی جگہ جاص کر بہار میں اونھو بھی کہتے ہے ۔ اور بنغال میں کویہ کہتے ہے ۔ ۲) اس کے باالمقابل ایک مچھلی ہوتی ہے اس کوبام یامار ماہی کہتے ہیں اس کی میلی سی ہوتی ہے ۔ بام کا حکم اکثر کتابوں میں مل جاتاہے لیکن وہ دوسرا والا اوندھاو یا اونھو یا کویہ نام والا سانپ کے مسئلہ مل نہیں رہے ۔ مع حوالہ جواب مطلوب ہے ۔
جواب نمبر: 173524
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:60-35/sn=2/1441

پانی کے جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے، اس کے ما سوا سب حرام ہے،آپ نے سوال میں جس جانور کا ذکر کیا ہے، وہ کیسا ہوتا ہے؟ وہ مچھلی کے قبیل سے ہے یا وہ در حقیقت سانپ ہے؟ سوال میں مذکور مختصر تفصیل سے یہ بات واضح نہیں ہوئی ؛ اس لیے کوئی حتمی بات نہیں لکھی جا سکتی؛ البتہ اصولی طور پر یہ معلوم رہے کہ کسی جانور کے مچھلی ہونے یا نہ ہونے کا مدار عدول مبصرین یعنی ان لوگوں کے قول پر ہے جو اس سلسلے میں بصیرت رکھتے ہیں نیز وہ قابل اعتماد بھی ہیں؛ لہذا اگر اس نوعیت کے لوگ اس جانور کو سانپ جانتے ہیں تو اس کا کھانا جائز نہ ہوگا، اگر وہ اسے مچھلی قرار دیتے ہیں تو اس کا کھانا جائز ہوگا۔ (دیکھیں: امداد الفتاوی4/103،104،ط: کراچی)


واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

18 Apr, 07:27


شرم گاہ میں انگلی داخل کرنے کی صورت میں روزے کا حکم

سوال

ایک عورت اپنی شرم گاہ میں کتنی حد تک انگلی داخل کرسکتی ہے جس سے روزہ نہیں ٹوٹتا؟

آج کل جدید اطباء کی کیا رائے ہے کہ شرم گاہ اور معدے کا راستہ الگ الگ ہے ؟

اور ایک عورت کو اس مسئلے کی معلومات نہ ہوں تو وہ کیا کرے؟

اور روزوں کی تعداد بھی معلوم نہ ہو تو اب کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ شرم گاہ میں انگلی داخل کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا مدار دو امور پر ہے:

1۔ روزے سے ہونا یاد ہو۔

2۔ انگلی گیلی ہو، خشک نہ ہو۔

پس ایسی روزہ دار خاتون  جسے اپنا روزے سے ہونا یاد بھی  ہو  اور وہ گیلی انگلی (خواہ پانی سے ہو، یا تیل یا  دوائی، یا شرم گاہ کی اندرونی رطوبت سے انگلی تر ہو)  اپنی  شرم گاہ میں داخل کرے، تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، صرف قضا لازم ہوگی،  کفارہ لازم نہ ہوگا، البتہ  اگر روزے کی حالت میں خشک انگلی ڈالے تو اس سے روزہ فاسد نہ ہوگا، تاہم ایک مرتبہ داخل کرکے نکالنے کے بعد واپس وہی انگلی شرم گاہ میں ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔

ملحوظ رہے کہ شرم گاہ کے اوپری حصہ (جسے فرج خارج کہا جاتا ہے)  پر آبِ دست (استنجا کے وقت دھونے) کے دوران گیلی انگلی  لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، مذکورہ حکم فرج داخل (اندرونی شرم گاہ) سے متعلق ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو أدخل أصبعه في استه أو المرأة في فرجها لايفسد، وهو المختار، إلا إذا كانت مبتلةً بالماء أو الدهن فحينئذ يفسد؛ لوصول الماء أو الدهن، هكذا في الظهيرية. هذا إذا كان ذاكرا للصوم، وهذا تنبيه حسن يجب أن يحفظ؛ لأن الصوم إنما يفسد في جميع الفصول إذا كان ذاكراً للصوم، وإلا فلا، هكذا في الزاهدي."

( كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد، النوع الأول ما يوجب القضاء دون الكفارة، ١ / ٢٠٤، ط: دار الفكر)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّمیں ہے:

"لو أدخلت الصائمة أصبعها في فرجها أو دبرها لا يفسد على المختار إلا أن تكون مبلولةً بماء أو دهن.

(قوله: إلا أن تكون مبلولةً بماء أو دهن) أي فإنه يفسد إن كانت ذاكرةً صومها، قلت: وهذا تنبيه حسن يجب أن يحفظ؛ إذ الصوم إنما يفسد في جميع الفصول إذا كان ذاكراً للصوم وإلا فلا اهـ دراية."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ١ / ٣٣٠، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة )

2۔ جسم کے منافذِ خلقی (ناک، کان، منہ، آگے پیچھے کی شرم گاہ) کے راستوں سے جسم میں کسی چیز کا داخل ہونا، مفسداتِ  صوم (روزہ توڑنے کے اسباب) میں سے ہے۔ اطباء کی آراء مختلف ہوں تو بھی مذکورہ مسئلے پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔

3۔ جواب کے جزء نمبر 1 میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق اگر روزہ فاسد ہوئے ہوں تو ان روزوں  کی قضا لازم ہوگی، البتہ اگر تعداد یاد نہ ہو تو یاد کرنے کی کوشش کرے، غالب گمان  کے مطابق تعداد متعین کرکے اتنے روزوں کی قضارلے۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144203201250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

24 Mar, 07:16


سوال نمبر: 19172

عنوان:

بیٹا پیدا ہونے کے لیے عمل

سوال:

میں ایک ہندوستانی ہوں سعودی عربیہ میں رہتا ہوں۔ میری دو لڑکیاں ہیں پہلی بارہ سال کی اور دوسری تین سال کی ہے دونوں آپریشن سے پیدا ہوئی تھیں۔ اب ہم ایک لڑکا چاہتے ہیں اور آپریشن کی وجہ سے ہم صرف اس مرتبہ ہی کوشش کرسکتے ہیں اس کے بعد یہ میری بیوی کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اس لیے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس کے لیے کوئی خاص دعا ہے؟
جواب نمبر: 19172
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 195=188-2/1431
 
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمة نے اس کے لیے ایک نسخہ تحریر فرمایا ہے کہ عورت کا خاوند یا کوئی دوسری عورت اس کے پیٹ پر انگلی سے کنڈل یعنی دائرہ ستر بار بنادے اور ہردفعہ میں [یَا مَتِیْنُ] کہے، ان شاء اللہ لڑکا پیدا ہوگا (اختری بہشتی زیور ۹/۷۸۵) نیز [رَبِّ لاَ تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ] کا پڑھنا بھی مفید ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

25 Feb, 15:32


سوتے وقت کس سمت پاؤں پھیلانا ممنوع ہے؟

سوال

سوتے وقت کس کس سمت پاؤں کرنا منع ہے؟

جواب

سوتے اور جاگتے ہوئے جان بوجھ کر قبلہ کی طرف، اسی طرح دینی کتب کی طرف پیر پھیلانا مکروہ ہے۔ اور جان کر کسی بزرگ اور عالم کی طرف پاؤں پھیلانا ادب کے خلاف ہے۔

فتاوی هنديةمیں ہے:

"وَيُكْرَهُ مَدُّ الرِّجْلَيْنِ إلَى الْكَعْبَةِ فِي النَّوْمِ وَغَيْرِهِ عَمْدًا، وَكَذَلِكَ إلَى كُتُبِ الشَّرِيعَةِ، وَكَذَلِكَ فِي حَالِ مُوَاقَعَةِ الْأَهْلِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ". (كتاب الكراهية، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي آدَابِ الْمَسْجِدِ وَالْقِبْلَةِ وَالْمُصْحَفِ وَمَا كُتِبَ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ الْقُرْآنِ نَحْوُ الدَّرَاهِمِ وَالْقِرْطَاسِ أَوْ كُتِبَ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ تَعَالَى، ٥ / ٣١٩) فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144012200417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

محمدمرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

25 Feb, 15:25


نابالغ اولاد کا نکاح

 
نابالغ لڑکے، لڑکی کا نکاح جائز ہے
س… عرض یہ ہے کہ ہماری برداری میں لڑکے یا لڑکی ابھی چار پانچ سال کے بھی نہیں ہوتے کہ ان کی شادی کردی جاتی ہے، جب وہ جوان ہوتے ہیں تو ان کی رُخصتی کردیتے ہیں۔ لڑکے یا لڑکی کی طرف سے ایجاب و قبول ان کے والدین کرتے ہیں جبکہ لڑکے یا لڑکی کی رضامندی نہیں ہوتی۔ اس طرح کی شادیاں ہمارے اسلام میں جائز ہیں یا نہیں؟
ج… نابالغ لڑکے، لڑکی کا نکاح ان کے ولی کے ایجاب و قبول کے ساتھ صحیح ہے، اور بالغ ہونے کے بعد باپ دادا کے کئے ہوئے نکاح کو مسترد کرنے کا اختیار ان کو نہیں۔
بالغ ہوتے ہی نکاح فوراً مسترد کرنے کا اختیار
س… کیا نابالغ لڑکی کا نکاح نابالغ لڑکے سے ہوجاتا ہے، جبکہ وہ دونوں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اپنی والدہ کا دُودھ پی رہے ہوتے ہیں؟ بعض خاندانوں میں ایسے نکاح کا رواج عام ہے، اور اس نکاح کے تمام فرائض لڑکی کی ماں اور لڑکے کا باپ انجام دیتا ہے، کیا یہ نکاح شریعت کی رُو سے جائز ہے؟
ج… نابالغی میں بچوں کا نکاح نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ان کے بالغ ہونے کے بعد ان کے رُجحان کا لحاظ کرتے ہوئے کرنا چاہئے۔ تاہم بعض اوقات والدین اَزراہِ شفقت اسی میں بھلائی دیکھتے ہیں کہ نابالغی میں بچے کا عقد کردیا جائے۔ اس لئے شریعت نے نابالغی کے نکاح کو بھی جائز رکھا ہے۔ پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر نکاح باپ یا دادا نے کیا ہو تو بچوں کو بالغ ہونے کے بعد اختیار نہیں، بلکہ لڑکا اگر اس رشتے کو پسند نہیں کرتا تو طلاق دے سکتا ہے، اور اگر لڑکی پسند نہیں کرتی تو خلع لے سکتی ہے۔ اور اگر باپ یا دادا کے علاوہ کسی اور نے نابالغ کا نکاح کردیا تھا تو بالغ ہونے کے بعد ان کو اس نکاح کے رکھنے یا مسترد کرنے کا اختیار ہے، مگر اس کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ جس مجلس میں وہ بالغ ہوئے ہوں، اسی مجلس میں بالغ ہوتے ہی اس کو مسترد کردیں۔ اور اگر بالغ ہونے کے بعد فوراً اسی مجلس میں نکاح کو مسترد نہیں کیا، بلکہ مجلس کے برخاست ہونے تک خاموش رہے تو نکاح پکا ہوجائے گا، بعد میں اس کو مسترد نہیں کرسکتے۔
نابالغی کا نکاح اور بلوغت کے بعد اختیار
س… ہمارے گاوٴں میں نکاح کا ایک طریقہ رائج ہے، جو کہ کم و بیش ہی پایا جاتا ہے، وہ یہ کہ لڑکا اور لڑکی ابھی چھوٹی عمر کے ہی ہوتے ہیں یعنی بالکل نابالغ بچے ہوتے ہیں کہ ان کے والدین ان نابالغ بچوں کے نکاح کا آپس میں ایک معاہدہ کرلیتے ہیں۔ میری آپ سے گزارش یہ ہے کہ کیا یہ نکاح اسلام میں جائز ہے؟ ہماری مقامی زبان میں اسے ”جابہ قبولہ“ کہتے ہیں، کیونکہ میں نے کتاب میں پڑھا ہے کہ نکاح میں لڑکے اور لڑکی کا رضامند ہونا نہایت ہی ضروری ہے ورنہ جبراً نکاح نہیں ہوتا۔ اگر یہ جابہ قبولہ جائز ہے تو اس کی شرائط کیا ہیں؟ اور یہ معاہدہ کون کرسکتا ہے؟ نیز بالغ ہونے پر لڑکے اور لڑکی کی رضامندی نہ ہو تو ان کے لئے کیا حکم ہے؟ اور اس معاہدہ یعنی جابہ قبولہ کا شریعت کی رُو سے نام کیا ہے؟
ج… نابالغی کا نکاح جائز ہے، پھر اگر باپ اور دادا کے علاوہ کسی اور نے کرادیا تھا تو بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو اختیار ہوگا کہ وہ اسے رکھے یا مسترد کردے، مگر شرط یہ ہے کہ جس مجلس میں لڑکی بالغ ہو اسی مجلس میں اعلان کردے، ورنہ نکاح لازم ہوجائے گا اور بعد میں مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اور باپ دادا کے کئے ہوئے نکاح کو مسترد کرنے کا اختیار نہیں، اِلَّا یہ کہ واضح طور پر یہ نکاح اولاد کی رعایت و شفقت کی بنا پر نہیں بلکہ کسی لالچ کی بنا پر کیا ہو۔
باپ دادا کے علاوہ دُوسرے کا کیا ہوا نکاح لڑکی بلوغت کے بعد فسخ کرسکتی ہے
س… مسماة زینب کا نکاح مسمّیٰ زید سے اس وقت منعقد ہوا جب زینب بالغ نہیں تھی، چنانچہ زینب کی طرف سے زینب کے والدین کی عدم موجودگی میں زینب کے ماموں نے قبول کیا، دو سال بعد زینب بالغ ہوگئی، بلوغت کے ساتھ ہی زینب نے اس نکاح کو فسخ کرڈالا، اس صورت میں مسماة زینب کے لئے شرعاً و قانوناً دُوسرے شوہر کے نکاح میں جانے کا جواز ہے یا نہیں؟ جانے میں عدّت کا مسئلہ طے ہوگا کہ نہیں؟
ج… نابالغ بچی کا نکاح اگر اس کے باپ دادا کے علاوہ کسی اور نے کردیا ہو تو اس بچی کو بالغ ہونے کے بعد اختیار ہے، خواہ اس نکاح کو برقرار رکھے یا مسترد کردے۔ چونکہ زینب نے بالغ ہونے کے فوراً بعد اس نکاح کو، جو اس کے ماموں نے کیا تھا، مسترد کردیا اس لئے یہ نکاح فسخ ہوگیا، لڑکی دُوسری جگہ عقد کرسکتی ہے، چونکہ ماموں کا کیا ہوا نکاح رُخصتی سے پہلے ہی کالعدم ہوگیا اس لئے لڑکی کے ذمہ عدّت بھی نہیں۔
نابالغ لڑکی کا نکاح اگر باپ کردے تو بلوغت کے بعد اسے فسخ کا اختیار نہیں
س… ایک نابالغ لڑکی کا نکاح اس کے والد نے کردیا تھا، پھر اس کا والد فوت ہوگیا، وہ لڑکی اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہے، یہاں تک کہ اب بالغ ہے، اب لڑکے والے اصرار کرتے ہیں کہ لڑکی ہمارے ہاں رُخصتی کردو لیکن لڑکی کی ماں اور لڑکی نہیں مان رہی ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟ اور لڑکے والے چھوڑ نہیں رہے، اب عدالت میں لڑکے سے طلاق د

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

25 Feb, 15:25


ِلوائی جائے یا لڑکی کو بھیج کر پھر وہ خودبخود طلاق دے دے یا مہر واپس کرکے طلاق لی جائے؟
ج… جب نابالغ کا نکاح اس کے والد نے کردیا اور نکاح گواہوں کے سامنے ہوا تو یہ نکاح برقرار ہے، اور لڑکے والے اپنے مطالبے میں حق بجانب ہیں، اور لڑکی اور اس کی والدہ کا انکار صحیح نہیں، اب اگر لڑکی وہاں آباد نہیں ہونا چاہتی تو اس کے شوہر سے طلاق لے لی جائے، اور اگر شوہر مہر معاف کرنے کے بدلے میں طلاق دینا چاہتا ہے تو مہر چھوڑ دیا جائے۔ لڑکے کو بھی چاہئے کہ جب لڑکی اس کے گھر آباد ہونا نہیں چاہتی تو خواہ مخواہ اس کو روک کر گنہگار نہ ہو، بلکہ خوش اُسلوبی سے طلاق دے کر فارغ کردے۔ بہرحال جب تک لڑکے سے طلاق نہ لی جائے (خلع بھی طلاق ہی کی ایک شکل ہے) تب تک یہ نکاح قائم ہے، محض لڑکی کے یا لڑکی کی والدہ کے انکار کردینے سے نکاح فسخ نہیں ہوگا، اور لڑکی دُوسری جگہ عقد کرنے کی مجاز نہیں ہوگی۔




*مستفاد از آپکے مسائل اور انکا حل*

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

25 Feb, 15:25


صُفَّہ اسلامک ریسرچ سنٹر


پورسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت

16 March, 2016


سوال:پورسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اگر جائز ہے تو کن صورتوں میں اور ناجائز ہے تو کن وجوہات کی بناء پر ؟ مفصلا ً جواب چاہیئے۔
الجواب حامداً ومصلیاً
مردہ کی چیر پھاڑ کرنا درجِ ذیل وجوہات میں جائز ہے :
۱) یہ کہ عورت انتقال کرجائے اور اس کے پیٹ میں زندہ  بچہ ہو تو اس بچہ کو پیٹ چاک کرکے نکالا جائے (۱)۔
۲) یہ کہ کوئی شخص کسی کی رقم نگل جائے اس کے بعد اسکا انتقال ہوجائے اور ترکہ میں اس قدر مال نہ چھوڑے جس سے اس کی رقم ادا کی جاسکے تو اس صورت میں بھی اس کا جسم چیر کر صاحبِ حق کو اسکا حق دیا جائے گا۔
            اور ان صورتوں میں حتی الامکان ستر کا اہتمام رکھا جائے ۔
            چنانچہ درِ مختار میں ہے :
الدر المختار – (2 / 238)
( حامل ماتت وولدها حي ) يضطرب ( شق بطنها ) من الأيسر ( ويخرج ولدها )…… ولو بلع مال غيره ومات هل يشق قولان والأولى نعم.                                فتح
باقی حادثات میں ہلاک ہونے یا قتل ہوجانے والوں کا پوسٹ مارٹم کرنا،ان کے جسم کو چیر پھاڑ کر اندرونی حصوں کا معائنہ کرنا شرعاً جائز نہیں ۔
            چند وجوہات درجِ ذیل ہیں :
(۱)انسان جس طرح زندگی میں قابلِ احترام ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی قابلِ احترام رہتا ہے اور یہ چیڑ پھاڑ اس کے تقدس اور احترام کے منافی ہے(۲) 
    ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ} [الإسراء : 70]
(2)جس طرح کسی کی زندگی میں اس کا ستر (پوشیدہ اعضاء ) دیکھنا جائز نہیں اسی طرح اس کے مرنے کے بعد بھی یہی حکم ہے ۔
حضرت علی ؓ سے نبی ﷺ نے فرمایا :
 مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – (2 / 205)
” يا علي….لا تنظر إلى فخذ حي ولا ميت “
(۳)مسلمان میت اگر عورت ہو تو اسکے پردے اور ستر کے احکام زندگی کے احکام سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ،چنانچہ اسکا شوہر بھی اسکے جسم کو ہاتھ نہیں لگاسکتا۔
            لہذا اجنبی کے ہاتھ میں کس طرح عورت کی لاش دی جاسکتی ہے ؟
جبکہ پوسٹ مارٹم میں یہ سب خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔
مزید یہ کہ اگر چیر پھاڑ کرنے سے موت کا سبب معلوم بھی ہوجائے تو اس بناء پر کسی کو مجرم  قرار دینا درست نہیں  جبتکہ شرعی طریقہ یعنی اسکے اقرار یا گواہوں کے ذریعہ اسکا مجرم ہونا ثابت نہ ہوجائے ۔
لہذا مروجہ پوسٹ مارٹم جائز نہیں
التخريج
 
(۱)مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 6560)
حامل ماتت وولدها حي يضارب- أي في بطنها- يشق بطنها من الأيسر ويخرج ولدها.
 
 
فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (3 / 431)
امْرَأَةٌ حَامِلٌ مَاتَتْ وَاضْطَرَبَ فِي بَطْنِهَا شَيْءٌ وَكَانَ رَأْيُهُمْ أَنَّهُ وَلَدٌ حَيٌّ شُقَّ بَطْنُهَا ، فَرْقٌ بَيْنَ هَذَا وَبَيْنَ مَا إذَا ابْتَلَعَ الرَّجُلُ دُرَّةً فَمَاتَ وَلَمْ يَدَعْ مَالًا عَلَيْهِ الْقِيمَةُ وَلَا يُشَقُّ بَطْنُهُ لِأَنَّ فِي الْمَسْأَلَةِ الْأُولَى إبْطَالَ حُرْمَةِ الْمَيِّتِ لِصِيَانَةِ حُرْمَةِ الْحَيِّ فَيَجُوزُ .
أَمَّا فِي الْمَسْأَلَةِ الثَّانِيَةِ إبْطَالُ حُرْمَةِ الْأَعْلَى وَهُوَ الْآدَمِيُّ لِصِيَانَةِ حُرْمَةِ الْأَدْنَى وَهُوَ الْمَالُ ، وَلَا كَذَلِكَ فِي الْمَسْأَلَةِ الْأُولَى انْتَهَى
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (8 / 233)
حَامِلٌ مَاتَتْ فَاضْطَرَبَ الْوَلَدُ فِي بَطْنِهَا فَإِنْ كَانَ أَكْبَرُ رَأْيِهِ أَنَّهُ حَيٌّ يَشُقُّ بَطْنَهَا؛ لِأَنَّ ذَلِكَ تَسَبُّبٌ فِي إحْيَاءِ نَفْسٍ مُحْتَرَمَةٍ بِتَرْكِ تَعْظِيمِ الْمَيِّتِ فَالْإِحْيَاءُ أَوْلَى وَيَشُقُّ بَطْنَهَا مِنْ الْجَانِبِ الْأَيْ……. وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَجُلٌ ابْتَلَعَ دُرَّةً أَوْ دَنَانِيرَ لِآخَرَ فَمَاتَ الْمُبْتَلِعُ وَلَمْ يَتْرُكْ مَالًا فَعَلَيْهِ الْقِيمَةُ وَلَا يَشُقُّ بَطْنَهُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ إبْطَالُ حُرْمَةِ الْمَيِّتِ لِأَجْلِ الْأَمْوَالِ.
(۲)سنن أبى داود-ن – (3 / 204)
 عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا ».

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

25 Feb, 15:25


كيا پوسٹ مارٹم پر اجر وثواب كی امید كی جاسكتی ہے؟

سوال:گر مسلمان میت کا بغیر اجازت پوسٹ مارٹم کیا جائے تو کیا یہ اسکے حق ثواب کا باعث بنے گا یا اس کے گناہوں کا کفارہ بنے گا؟ برائے مہربانی جلدی جواب دے کر مشکور فرمائیں ۔ جواب میں عربی حوالہ ضرور لکھیں ۔

جواب نمبر: 172352
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1190-1156/D=01/1441
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے کو بھی تکلیف کا احساس ہوتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: کسر عظم المیت ککسرہ حیّا (ابوداوٴد ، الجنائز ، ۳۲۰۷) اور دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو خواہ کتنی ہی چھوٹی مصیبت پہنچے اللہ تعالی اس کے بدلے ایک نیکی لکھتے ہیں، اور ایک گناہ معاف کرتے ہیں، (مشکل الآثار : ۲۳۶۷، ۲۳۶۸، الباب ۳۵۳) جس میں زندگی اور موت کی کوئی تفصیل نہیں ہے، لہٰذا رحمت خداوندی سے امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمان میت کو بھی اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ان شا ء اللہ اس کے لئے بھی نیکیاں لکھی جائیں گی، اور گناہ معاف ہوں گے، اب نیکیاں کس کی لکھی جائیں گی اور کس کے گناہ معاف ہوں گے؟ تو امام طحطاوی نے مشکل الآثار میں یہ احادیث ذکر کرکے جو کلام کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رفع درجات اور نیکیوں کا لکھا جانا اس شخص کے لئے ہے جس کا کوئی گناہ نہ ہو، اور گناہ کا معاف کیا جانا اس شخص کے حق میں ہے جس کے گناہ ہوں۔
وکان ما في ہاذین الحدیثین من جعل حط الخطایا أرید بہ من لہ خطایا، وما فیہا من الأجر ومن الرفع في الدرجات علی من لا خطایا لہ، ولا ذنوب علیہ، ممن نزلت بہ ۔ (مشکل الآثار، ۲/۵۰، الباب: ۳۵۳، ط: دارالکتب العلمیة) مذکورہ تفصیل کی روشنی میں رحمت خداوندی سے امید کی جاسکتی ہے کہ جس شخص کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا اگر وہ گناہوں سے محفوظ ہوتو بقدر مصیبت نیکیاں بڑھ جائیں گی، اور اگر گناہ ہوں گے تو اسی کے حساب سے گناہ معاف ہو جائیں گے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

23 Feb, 08:42


عنوان:تبلیغی جماعت میں جانے کی نذر کا حکم

سوال:امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے ۔ اس ناچیز کا ایک سوال ہے کہ میں نے ایک کام کے ہو نے کے لئے ایک منت مانی تھی کہ میں کام کے ہونے پر چالیس دن کے لئے جماعت میں جاؤں گا۔ لیکن حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ اس میں ہونے والے خرچ کو کسی مدرسہ میں دے دوں یا کسی غریب کو دے دوں۔ تو کیا ایسی صورت میں میری منت پوری ہو جائے گی؟ یا شریعت کے مطابق کوئی اور جائز صورتیں ہوں تو بتائیں۔ عنایت ہوگی۔ جزاک اللّہ۔

جواب نمبر: 169952
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:785-669/sn=8/1440
نذر کے منعقد ہونے کے لئے منذور بہ کا شرعا عبادت مقصودہ ہونا ضروری ہے نیزیہ بھی ضروری ہے اس کی جنس میں سے فرض یا واجب ہو اور تبلیغی جماعت میں جانے کی نذر میں یہ شرط موجود نہیں ہے؛ اس لئے مذکور فی السوال نذر شرعا منعقد نہیں ہوئی ، اس کا ایفا ضروری نہیں ہے؛ باقی اگر کام ہونے کے شکرانے کے طور پر کچھ رقم راہِ خدا میں صدقہ کردیں تو اچھا ہے ؛ لیکن شرعا یہ آپ پر واجب نہیں ہے۔
(ومنہا)أن یکون قربة فلایصح النذر بمالیس بقربة رأساکالنذربالمعاصی...(ومنہا)أن یکون قربة مقصودة، فلایصح النذربعیادة المرضی وتشییع الجنائزوالوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغیر ذلک وإن کانت قربا ؛لأنہا لیست بقرب مقصودة،ویصح النذربالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بہما والعتق والبدنة والہدی والاعتکاف ونحوذلک ؛لأنہاقرب مقصودةإلخ(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 4/227،ط:زکریا)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

23 Feb, 08:42


موسیٰ کلیم نام رکھنا

سوال

موسیٰ کلیم نام رکھنا کیسا ہے؟ نیز موسیٰ کے معنی کیا ہیں؟

جواب

موسیٰ : جلیل القدر نبی کا نام ہے، اور انبیاء کے نام پر نام رکھنے پر معنی ملحوظ نہیں ہوتا، بلکہ اس نام کے اچھے اور درست ہونے کے لیے صرف اتنا کافی ہے وہ کسی نبی کا نام ہے،   اور کلیم  کے معنی : ”بات کرنے والا “ ہے۔ لہذا ’’موسیٰ کلیم‘‘ نام رکھنا جائز ہے، ’’موسیٰ کلیم اللہ‘‘  مناسب نہیں ہوگا۔
تاج العروس (40/ 199۔201):
"ومُوسَى: اسْمُ نَبِيَ مِن أَنْبياءِ اللهاِ، صلى الله عَلَيْهِ وعَلى نبيِّنا وَسلم؛ والنِّسْبَةُ {مُوسِيُّ} ومُوسَوِيُّ. وَقد ذُكِرَ فِي عِيسَى".  فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144107200979

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

17 Feb, 11:42


مراقبہ کا شرعی حکم کیا ھے دلائل سے آگاہ کریں ۔

سوال:مراقبہ کا شرعی حکم کیا ھے دلائل سے آگاہ کریں ۔ عین نوازش ھوگی ۔

جواب نمبر: 62945
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 243-243/M=3/1437-U مراقبہ یعنی دل سے ہروقت یہ دھیان رکھے کہ اللہ تعالیٰ کو میری تمام چیزوں کی خبر ہے، وہ ظاہر سے بھی واقف ہے اور باطن سے بھی، یَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُورُ (القرآن) کوئی بھی عمل کرے دل میں یہ خیال جمائے رکھے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے، مراقبہ سے اللہ تعالیٰ کا استحضار نصیب ہوتا ہے برائیوں سے بچنے کی توفیق ہوتی رہتی ہے اور نیکیوں کو خوب اچھی طرح بجالانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے یہ تزکیہ کا ایک طریقہ ہے جو مستحسن ہے، روحانی معالجین (بزرگان دین) اس کی تجویز فرماتے ہیں جو شخص کسی پیر ومرشد کی جانب منسوب ہو اس کو اپنے شیخ کی ہدایت کردہ مراقبے کو اختیار کرنا چاہیے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

17 Feb, 11:14


سوال نمبر: 175411

عنوان:كیا میت كے مصنوعی دانت نكالنا ضروری ہے؟

سوال:حضرت میری خالہ کے 3 دانت ہل گئے تہے توانہوں نے ان دانتوں کی جگہ دوسرے دانت لگوائے جو کہ فکس ہوتے ہیں یعنی انہیں اتارا نہیں جا سکتا. اب وہ کہتی ہیں کہ یہ بتا دیں کہ آیا ایسا کرنا صیح ہے. نیز انہیں اتارا نہیں جاسکتا تو مرنے کے وقت ان دانتوں کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے توبہ استغفار بہی کی ہے لیکن انہیں اس بات کی پریشانی ہے کہ موت ہونے کی صورت میں بہی دانت اتر نہیں سکتے کیا اس صورت میں مردے کا غسل ہوجاتا ہے؟

جواب نمبر: 175411

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 424-341/H=03/1441

فکس دانت لگوانے میں بھی کچھ حرج نہیں بلکہ بلاکراہت جائز ہے وفات ہو جانے پر ان دانتوں کو نکالنے کا حکم نہیں ہے ان دانتوں کے لگے ہوئے ہونے کی حالت میں زندہ اور میت دونوں کا غسل درست ہو جاتا ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

31 Oct, 12:23


سوال:فرض نماز میں سورة فاتحہ کی اگر ایک آیت چھوٹ گئی ہے تو کیا حکم ہے ؟

جواب نمبر: 170229

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:890-763/SD=9/1440

راجح قول کے مطابق سورہ فاتحہ کی اکثر آیتیں پڑھ لینے سے واجب ادا ہوجاتا ہے اور ایک دو آیت چھوٹنے سے سجدہٴ سہو واجب نہیں ہوتا۔

(ثم واجبات الصلاة أنواع) (منہا) قرائة الفاتحة والسورة إذا ترک الفاتحة فی الأولیین أو إحداہما یلزمہ السہو وإن قرأ أکثر الفاتحة ونسی الباقی لا سہو علیہ وإن بقی الأکثر کان علیہ السہو إماما کان أو منفردا، کذا فی فتاوی قاضی خان.[الفتاوی الہندیة 1/ 126) نیز دیکھیں : حاشیة الطحطاوی علی المراقی(ص:460،ط: اشرفی)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

#نقلہ_محمد__عظیم__اللہ__قاسمی__دیوبند

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

23 Oct, 06:35


سوال

جمعہ کے دن ظہر  کی نماز عورت کس وقت پڑھ سکتی ہے؟

جواب

عورتیں  جمعہ کے دن  ظہر کا وقت داخل ہونے کے بعد ، شہر میں جمعہ کی نماز سے پہلے بھی اور بعد میں بھی  ظہر کی نماز ادا کرسکتی ہیں، البتہ ان کے لیے اول وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے،   باقی عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جب تک جمعہ  کے دن جمعہ کی نماز مسجد میں ختم نہ ہوجائے عورتیں گھروں میں ظہر کی نماز  نہ پڑھیں، یہ بات درست نہیں ہے،بلکہ خواتین  ظہر کا وقت ہونے کے بعد  جمعہ کی نماز سے پہلے بھی  اپنے گھروں میں ظہر کی نماز  پڑھ سکتی ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 367):
’’ذكر شراح الهداية وغيرهم في باب التيمم: أن أداء الصلاة في أول الوقت أفضل، إلا إذا تضمن التأخير فضيلة لا تحصل بدونه، كتكثير الجماعة؛ ولهذا كان أولى للنساء أن يصلين في أول الوقت؛ لأنهن لا يخرجن إلى الجماعة، كذا في مبسوطي شمس الأئمة وفخر الإسلام.‘‘اهـ.فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144004200216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


#نقلہ_محمد__عظیم__اللہ__قاسمی__دیوبند

🌺جدیدفقہی مسائل🌺

23 Oct, 06:34


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں

دو لڑکے بات کر رہے تھے اس دوران ایک نے دوسرے سے کہا کہ "تو شادی کرے تو طلاق تجھے قبول ہے" دوسرے نے جوابا کہا کہ "قبول ہے" تو کیا اس صورت میں اگر دوسرا جو قبول کرنے والا ہے وہ شادی کرے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی
جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی

سائل ہارون مانگرول

مرسل عبدالقادر سورت



الجواب و باللہ التوفیق :
دریافت کردہ صورت میں دوسرے کے شادی کرنے سے اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ اس کا کہنا کہ :
قبول ہے

اس میں بہت سے بہت یہ معنی ہے کہ شادی کرنے پر طلاق قبول ہے، اور جب شوہر یکطرفہ طور پر طلاق قبول کرنے کا اظہار کرے تو اس سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، فقھاء نے لکھا ہے کہ قبولیت طلاق میں طلاق کو وجود میں لانے ( ایقاع طلاق، یعنی انشاء طلاق) کا معنی نہیں ہے ۔اس لئے صورت مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوگی ۔

أن القبول لا يصلح للإيقاع منه،
( شامی 326/3 )

شاھد علی قاسمی