Publications du canal 📚الترغيب والترهيب📚

اس چینل میں شیخ طلحہ منیار حفظہ اللہ( تلميذ رشید شیخ عبد الفتاح ابو غدہ قدس سرہ) کی پیش کردہ *احادیث کی تحقیقات کی لنک* شائع کی جاتی ہے،جو *احادیث مشہورہ نامی بلاگ* میں اپلوڈ کی جاتی ہے،
نیز اور تحقیقات حدیث و اہم نکات حدیث پیش کئے جاتے ہے_
نیز اور تحقیقات حدیث و اہم نکات حدیث پیش کئے جاتے ہے_
3,674 abonnés
22 photos
1 vidéos
Dernière mise à jour 10.03.2025 08:05
Canaux similaires

5,854 abonnés

5,676 abonnés

2,762 abonnés
Le dernier contenu partagé par 📚الترغيب والترهيب📚 sur Telegram
▪︎ ابوداؤد شریف حدیث نمبر 679 (سوال وجواب)
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Abu-Dawood-Hadith-679-Tahqeeq.pdf
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Abu-Dawood-Hadith-679-Tahqeeq.pdf
*پنیری سے خمیر تک*
معلوم نہیں عاجز سے اللہ تعالیٰ کو کوئی کام (فضائل اعمال) کے متعلق لینا منظور ہے؟
کئی دنوں کے بعد آج تعلیم پڑھی، فضائلِ ذکر، بابِ سوم، حدیث نمبر 4
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، تو انھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے، اور بہترین پانی، لیکن وہ بالکل چٹیل میدان ہے، اور اس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إله إلا الله والله اکبر ہیں، ( یعنی جتنے کسی کا دل چاہے درخت لگائے ) ۔
اس حدیث کے فائدے کے اخیر میں حضرت شیخ رحمہ اللہ نے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی (الکوکب الدری علی جامع الترمذی) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
شیخ المشائخ حضرت مولانا گنگوہیؒ کا ارشاد - جو ’’کوکب دُرِّی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے- یہ ہے کہ:
اُس کے سارے درخت *خَمیر* کی طرح سے ایک جگہ مجتمع ہیں، ہر شخص جس قدر اَعمالِ خیر کرتا رہتا ہے اُتنا ہی اُس کے حِصَّے کی زمین میں لگتے رہتے ہیں اور نَشو ونَما پاتے رہتے ہیں۔اھ
جس ایڈیشن سے میں پڑھ رہا تھا اس میں لفظِ *خمیر* کے بعد قوسین میں معنی لکھا تھا (گندھے ہوئے آٹے کی طرح)۔
مجھے حضرت گنگوہی سے نقل کی گئی عبارت کی صحت میں تردد ہوا، کیونکہ پودے اور گندھے ہوئے آٹے کے ما بین کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آئی۔
اس لیے "الکوکب الدری علی جامع الترمذی" دیکھی تو اس میں حضرت گنگوہی کی عبارت اس طرح سے ہے:
قوله: [وإنها قيعان] ظاهرُه مخالف لقوله تعالى: {جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}
والجواب: أن أشجارها في مواضعها مجتمعة، وليست منثورة في جملة أراضيها، *كما هو دأب أصحاب البساتين أنهم يغرسون صنفًا من الأشجار في قطعة من الأرض صغيرة، بحيث لا يكون بينها كثير فصل،* ثم لما أرادوا قلعوها من هناك وأثبتوها حيث شاءوا۔
فكذلك أشجار الجنة إنما هي في قطاعات من الجنة، وليست في كل أراضيها بحيث لا يشذ منها أرض إلا وفيها شجر، بل هي بأصنافها منبتة في موضع معلوم، فإذا سبح الرجل أو فعل غير ذلك مما هو موجب للغراس نقلت الشجرة إلى مقامه الذي أعد له، فاغتنم هذا.
مذکورہ عبارت میں کہیں خمیر کا تذکرہ نہیں ہے۔
مزید تحقیق کے لیے پاکستان سے چھپے ہوئے دو ایک ایڈیشن دیکھے تو ان میں *خمیر* کے بجائے *پنیر* لکھا تھا، لغت میں دیکھا تو اس میں *پنیری* کے ما تحت لکھا ہے:
*بوئے ہوئے بیج سے پھوٹی ہوئی ننھی پود، جو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اگائی جاتی ہے۔*
یہ مطلب دیکھ کر ٹھنڈی سانس لی کہ بس یہی درست ہے، اور حضرت گنگوہی کی بھی یہی مراد ہے، فالحمد للہ علی توفیقہ۔
فضائلِ اعمال کے طابعین نے اس لفظ کو مسخ کرکے خمیر بنادیا، پھر (یحسبون انہم یحسنون صنعا) کی بنا پر تشریح بھی لکھ دی: *گُندھے ہوئے آٹے کی طرح* ، جس کی وجہ سے مزید اشکال پیدا ہوا۔
لہذا اس کو *پنیری* یائے معروف کے ساتھ پڑھیں، اور خمیر کو یہاں سے گھر منتقل کرکے مزیدار چپاتی بنالیں۔
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
بتاریخ : ٤ ستمبر ٢٠٢٤
فضائل اعمال کے ذکر کردہ پیج👇
https://shorturl.at/2T6xY
معلوم نہیں عاجز سے اللہ تعالیٰ کو کوئی کام (فضائل اعمال) کے متعلق لینا منظور ہے؟
کئی دنوں کے بعد آج تعلیم پڑھی، فضائلِ ذکر، بابِ سوم، حدیث نمبر 4
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، تو انھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے، اور بہترین پانی، لیکن وہ بالکل چٹیل میدان ہے، اور اس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إله إلا الله والله اکبر ہیں، ( یعنی جتنے کسی کا دل چاہے درخت لگائے ) ۔
اس حدیث کے فائدے کے اخیر میں حضرت شیخ رحمہ اللہ نے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی (الکوکب الدری علی جامع الترمذی) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
شیخ المشائخ حضرت مولانا گنگوہیؒ کا ارشاد - جو ’’کوکب دُرِّی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے- یہ ہے کہ:
اُس کے سارے درخت *خَمیر* کی طرح سے ایک جگہ مجتمع ہیں، ہر شخص جس قدر اَعمالِ خیر کرتا رہتا ہے اُتنا ہی اُس کے حِصَّے کی زمین میں لگتے رہتے ہیں اور نَشو ونَما پاتے رہتے ہیں۔اھ
جس ایڈیشن سے میں پڑھ رہا تھا اس میں لفظِ *خمیر* کے بعد قوسین میں معنی لکھا تھا (گندھے ہوئے آٹے کی طرح)۔
مجھے حضرت گنگوہی سے نقل کی گئی عبارت کی صحت میں تردد ہوا، کیونکہ پودے اور گندھے ہوئے آٹے کے ما بین کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آئی۔
اس لیے "الکوکب الدری علی جامع الترمذی" دیکھی تو اس میں حضرت گنگوہی کی عبارت اس طرح سے ہے:
قوله: [وإنها قيعان] ظاهرُه مخالف لقوله تعالى: {جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}
والجواب: أن أشجارها في مواضعها مجتمعة، وليست منثورة في جملة أراضيها، *كما هو دأب أصحاب البساتين أنهم يغرسون صنفًا من الأشجار في قطعة من الأرض صغيرة، بحيث لا يكون بينها كثير فصل،* ثم لما أرادوا قلعوها من هناك وأثبتوها حيث شاءوا۔
فكذلك أشجار الجنة إنما هي في قطاعات من الجنة، وليست في كل أراضيها بحيث لا يشذ منها أرض إلا وفيها شجر، بل هي بأصنافها منبتة في موضع معلوم، فإذا سبح الرجل أو فعل غير ذلك مما هو موجب للغراس نقلت الشجرة إلى مقامه الذي أعد له، فاغتنم هذا.
مذکورہ عبارت میں کہیں خمیر کا تذکرہ نہیں ہے۔
مزید تحقیق کے لیے پاکستان سے چھپے ہوئے دو ایک ایڈیشن دیکھے تو ان میں *خمیر* کے بجائے *پنیر* لکھا تھا، لغت میں دیکھا تو اس میں *پنیری* کے ما تحت لکھا ہے:
*بوئے ہوئے بیج سے پھوٹی ہوئی ننھی پود، جو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اگائی جاتی ہے۔*
یہ مطلب دیکھ کر ٹھنڈی سانس لی کہ بس یہی درست ہے، اور حضرت گنگوہی کی بھی یہی مراد ہے، فالحمد للہ علی توفیقہ۔
فضائلِ اعمال کے طابعین نے اس لفظ کو مسخ کرکے خمیر بنادیا، پھر (یحسبون انہم یحسنون صنعا) کی بنا پر تشریح بھی لکھ دی: *گُندھے ہوئے آٹے کی طرح* ، جس کی وجہ سے مزید اشکال پیدا ہوا۔
لہذا اس کو *پنیری* یائے معروف کے ساتھ پڑھیں، اور خمیر کو یہاں سے گھر منتقل کرکے مزیدار چپاتی بنالیں۔
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
بتاریخ : ٤ ستمبر ٢٠٢٤
فضائل اعمال کے ذکر کردہ پیج👇
https://shorturl.at/2T6xY
*پنیری سے خمیر تک*
معلوم نہیں عاجز سے اللہ تعالیٰ کو کوئی کام (فضائل اعمال) کے متعلق لینا منظور ہے؟
کئی دنوں کے بعد آج تعلیم پڑھی، فضائلِ ذکر، بابِ سوم، حدیث نمبر 4
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، تو انھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے، اور بہترین پانی، لیکن وہ بالکل چٹیل میدان ہے، اور اس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إله إلا الله والله اکبر ہیں، ( یعنی جتنے کسی کا دل چاہے درخت لگائے ) ۔
اس حدیث کے فائدے کے اخیر میں حضرت شیخ رحمہ اللہ نے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی (الکوکب الدری علی جامع الترمذی) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
شیخ المشائخ حضرت مولانا گنگوہیؒ کا ارشاد - جو ’’کوکب دُرِّی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے- یہ ہے کہ:
اُس کے سارے درخت *خَمیر* کی طرح سے ایک جگہ مجتمع ہیں، ہر شخص جس قدر اَعمالِ خیر کرتا رہتا ہے اُتنا ہی اُس کے حِصَّے کی زمین میں لگتے رہتے ہیں اور نَشو ونَما پاتے رہتے ہیں۔اھ
جس ایڈیشن سے میں پڑھ رہا تھا اس میں لفظِ *خمیر* کے بعد قوسین میں معنی لکھا تھا (گندھے ہوئے آٹے کی طرح)۔
مجھے حضرت گنگوہی سے نقل کی گئی عبارت کی صحت میں تردد ہوا، کیونکہ پودے اور گندھے ہوئے آٹے کے ما بین کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آئی۔
اس لیے "الکوکب الدری علی جامع الترمذی" دیکھی تو اس میں حضرت گنگوہی کی عبارت اس طرح سے ہے:
قوله: [وإنها قيعان] ظاهرُه مخالف لقوله تعالى: {جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}
والجواب: أن أشجارها في مواضعها مجتمعة، وليست منثورة في جملة أراضيها، *كما هو دأب أصحاب البساتين أنهم يغرسون صنفًا من الأشجار في قطعة من الأرض صغيرة، بحيث لا يكون بينها كثير فصل،* ثم لما أرادوا قلعوها من هناك وأثبتوها حيث شاءوا۔
فكذلك أشجار الجنة إنما هي في قطاعات من الجنة، وليست في كل أراضيها بحيث لا يشذ منها أرض إلا وفيها شجر، بل هي بأصنافها منبتة في موضع معلوم، فإذا سبح الرجل أو فعل غير ذلك مما هو موجب للغراس نقلت الشجرة إلى مقامه الذي أعد له، فاغتنم هذا.
مذکورہ عبارت میں کہیں خمیر کا تذکرہ نہیں ہے۔
مزید تحقیق کے لیے پاکستان سے چھپے ہوئے دو ایک ایڈیشن دیکھے تو ان میں *خمیر* کے بجائے *پنیر* لکھا تھا، لغت میں دیکھا تو اس میں *پنیری* کے ما تحت لکھا ہے:
*بوئے ہوئے بیج سے پھوٹی ہوئی ننھی پود، جو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اگائی جاتی ہے۔*
یہ مطلب دیکھ کر ٹھنڈی سانس لی کہ بس یہی درست ہے، اور حضرت گنگوہی کی بھی یہی مراد ہے، فالحمد للہ علی توفیقہ۔
فضائلِ اعمال کے طابعین نے اس لفظ کو مسخ کرکے خمیر بنادیا، پھر (یحسبون انہم یحسنون صنعا) کی بنا پر تشریح بھی لکھ دی: *گُندھے ہوئے آٹے کی طرح* ، جس کی وجہ سے مزید اشکال پیدا ہوا۔
لہذا اس کو *پنیری* یائے معروف کے ساتھ پڑھیں، اور خمیر کو یہاں سے گھر منتقل کرکے مزیدار چپاتی بنالیں۔
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
بتاریخ : ٤ ستمبر ٢٠٢٤
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib
معلوم نہیں عاجز سے اللہ تعالیٰ کو کوئی کام (فضائل اعمال) کے متعلق لینا منظور ہے؟
کئی دنوں کے بعد آج تعلیم پڑھی، فضائلِ ذکر، بابِ سوم، حدیث نمبر 4
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، تو انھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے، اور بہترین پانی، لیکن وہ بالکل چٹیل میدان ہے، اور اس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إله إلا الله والله اکبر ہیں، ( یعنی جتنے کسی کا دل چاہے درخت لگائے ) ۔
اس حدیث کے فائدے کے اخیر میں حضرت شیخ رحمہ اللہ نے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی (الکوکب الدری علی جامع الترمذی) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
شیخ المشائخ حضرت مولانا گنگوہیؒ کا ارشاد - جو ’’کوکب دُرِّی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے- یہ ہے کہ:
اُس کے سارے درخت *خَمیر* کی طرح سے ایک جگہ مجتمع ہیں، ہر شخص جس قدر اَعمالِ خیر کرتا رہتا ہے اُتنا ہی اُس کے حِصَّے کی زمین میں لگتے رہتے ہیں اور نَشو ونَما پاتے رہتے ہیں۔اھ
جس ایڈیشن سے میں پڑھ رہا تھا اس میں لفظِ *خمیر* کے بعد قوسین میں معنی لکھا تھا (گندھے ہوئے آٹے کی طرح)۔
مجھے حضرت گنگوہی سے نقل کی گئی عبارت کی صحت میں تردد ہوا، کیونکہ پودے اور گندھے ہوئے آٹے کے ما بین کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آئی۔
اس لیے "الکوکب الدری علی جامع الترمذی" دیکھی تو اس میں حضرت گنگوہی کی عبارت اس طرح سے ہے:
قوله: [وإنها قيعان] ظاهرُه مخالف لقوله تعالى: {جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}
والجواب: أن أشجارها في مواضعها مجتمعة، وليست منثورة في جملة أراضيها، *كما هو دأب أصحاب البساتين أنهم يغرسون صنفًا من الأشجار في قطعة من الأرض صغيرة، بحيث لا يكون بينها كثير فصل،* ثم لما أرادوا قلعوها من هناك وأثبتوها حيث شاءوا۔
فكذلك أشجار الجنة إنما هي في قطاعات من الجنة، وليست في كل أراضيها بحيث لا يشذ منها أرض إلا وفيها شجر، بل هي بأصنافها منبتة في موضع معلوم، فإذا سبح الرجل أو فعل غير ذلك مما هو موجب للغراس نقلت الشجرة إلى مقامه الذي أعد له، فاغتنم هذا.
مذکورہ عبارت میں کہیں خمیر کا تذکرہ نہیں ہے۔
مزید تحقیق کے لیے پاکستان سے چھپے ہوئے دو ایک ایڈیشن دیکھے تو ان میں *خمیر* کے بجائے *پنیر* لکھا تھا، لغت میں دیکھا تو اس میں *پنیری* کے ما تحت لکھا ہے:
*بوئے ہوئے بیج سے پھوٹی ہوئی ننھی پود، جو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اگائی جاتی ہے۔*
یہ مطلب دیکھ کر ٹھنڈی سانس لی کہ بس یہی درست ہے، اور حضرت گنگوہی کی بھی یہی مراد ہے، فالحمد للہ علی توفیقہ۔
فضائلِ اعمال کے طابعین نے اس لفظ کو مسخ کرکے خمیر بنادیا، پھر (یحسبون انہم یحسنون صنعا) کی بنا پر تشریح بھی لکھ دی: *گُندھے ہوئے آٹے کی طرح* ، جس کی وجہ سے مزید اشکال پیدا ہوا۔
لہذا اس کو *پنیری* یائے معروف کے ساتھ پڑھیں، اور خمیر کو یہاں سے گھر منتقل کرکے مزیدار چپاتی بنالیں۔
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
بتاریخ : ٤ ستمبر ٢٠٢٤
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib
رياض الصالحين، باب الصبر
وَعَنْ أبي زَيْدٍ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَىٰ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم وَحِبِّهِ وَابْنِ حِبِّهِ رضي الله عنهما قَالَ: أرْسَلَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم : إِنَّ ابْني قَد احْتُضِرَ فَاشْهَدْنَا، فَأرْسَلَ يُقْرِئ السَّلامَ وَيَقُول: «إِنَّ لله مَا أخَذَ، وَلَهُ مَا أعْطَى، وَكُلُّ شَيْء عِنْدَهُ بِأجَلٍ مُسَمَّىً، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ» فَأرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا. فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبـَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرِجَالٌ رضي الله عنهم، فَرُفِعَ إِلَىٰ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم الصَّبيُّ، فَأقْعَدَهُ في حِجْرِهِ، وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رسولَ الله مَا هذا؟ فَقَالَ: «هذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ تَعَالَىٰ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ» وفي رِواية: «في قُلُوبِ مَن شَاءَ مِنْ عِبَادِهِ ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ». مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
*فوائد* :
١- *ابو زید* : دادا کے نام پر پوتے کا نام رکھنا۔ زید بن اسامہ بن زید۔
٢- *وحبہ وابن حبہ* : حضرت اسامہ رنگت کے اعتبار سے سانوالے تھے، کیونکہ ان کی والدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا حبشیہ تھیں، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم محبت میں ان کے اور حضراتِ حسنین میں فرق نہیں کرتے تھے۔
رنگ کے اعتبار سے انسانوں میں تفریق کرنا، اسلامی تعلیم نہیں ہے۔
٣- *بنت النبی* : یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں۔
علوم حدیث میں اس طرح کے ناموں کی تعیین کرنے کو *علم المبہمات* کہتے ہیں، شروحات سے بھی اصل نام معلوم ہوسکتا ہے۔
٤- *ابني* : بچے کا نام علی تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی دو اولاد تھیں: علی، جو بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔
اور امامہ، جن سے بعد میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تھا۔
٥- *يقرئ السلام* : پیغام کے جواب کے ساتھ سلام کہلوانا۔ واٹس ایپ کے پیغامات میں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
٦- *فلتصبر* : یہ لام لامِ امر ہے، جو اصل میں مکسور ہوتا ہے، حرف عطف کی وجہ سے تخفیفا ساکن کیا جاتا ہے۔
اور لامِ امر صرف افعال مضارعہ پر داخل ہوتا ہے، اس کے پہلے الف نہیں لکھی جاتی ہے، *فالتصبر* لکھنا غلط ہے۔
الف لام تو اسماء میں لکھتے ہیں: السماء، الارض، الانسان ۔۔۔ یہ لام *لامِ تعریف* ہے۔
٧- *ففاضت عيناه* : تکلیف میں آنسو بہانا صبر کرنے کے منافی نہیں ہے۔
اپنے سماج میں اس کو کمزوری سمجھتے ہیں، اور جس کو رونا نہ آئے اس کی تعریف ہوتی ہے، کہ بہت صابر ہے۔
٨- *تقعقَعُ* : یہ لفظ تلواروں کی جھنکار، یا بادل کی گرجدار آواز کے لئے بولا جاتا ہے، نارمل سانس لینے میں کوئی آواز نہیں ہوتی ہے، مگر جان کنی کے وقت جب سانس اکھڑنے لگتی ہے تو اس وقت زفیر وشہیق کی آواز مسموع ہوتی ہے، اس لئے تقعقع سے تعبیر کیا۔
اصل میں: *تتقعقع* ہے، تفعلل کے باب سے، پہلی تا اس طرح کے افعال میں اکثر محذوف ہوتی ہے، کیونکہ وہ زائد ہوتی ہے۔
٩- *وانما يرحم الله* ... : یہ حدیثِ مسلسل بالاولیہ کے لیے شاھد ہے۔
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
بتاریخ : ٢٢ اپریل ٢٠٢٤
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib
وَعَنْ أبي زَيْدٍ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَىٰ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم وَحِبِّهِ وَابْنِ حِبِّهِ رضي الله عنهما قَالَ: أرْسَلَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم : إِنَّ ابْني قَد احْتُضِرَ فَاشْهَدْنَا، فَأرْسَلَ يُقْرِئ السَّلامَ وَيَقُول: «إِنَّ لله مَا أخَذَ، وَلَهُ مَا أعْطَى، وَكُلُّ شَيْء عِنْدَهُ بِأجَلٍ مُسَمَّىً، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ» فَأرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا. فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبـَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرِجَالٌ رضي الله عنهم، فَرُفِعَ إِلَىٰ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم الصَّبيُّ، فَأقْعَدَهُ في حِجْرِهِ، وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رسولَ الله مَا هذا؟ فَقَالَ: «هذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ تَعَالَىٰ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ» وفي رِواية: «في قُلُوبِ مَن شَاءَ مِنْ عِبَادِهِ ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ». مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
*فوائد* :
١- *ابو زید* : دادا کے نام پر پوتے کا نام رکھنا۔ زید بن اسامہ بن زید۔
٢- *وحبہ وابن حبہ* : حضرت اسامہ رنگت کے اعتبار سے سانوالے تھے، کیونکہ ان کی والدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا حبشیہ تھیں، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم محبت میں ان کے اور حضراتِ حسنین میں فرق نہیں کرتے تھے۔
رنگ کے اعتبار سے انسانوں میں تفریق کرنا، اسلامی تعلیم نہیں ہے۔
٣- *بنت النبی* : یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں۔
علوم حدیث میں اس طرح کے ناموں کی تعیین کرنے کو *علم المبہمات* کہتے ہیں، شروحات سے بھی اصل نام معلوم ہوسکتا ہے۔
٤- *ابني* : بچے کا نام علی تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی دو اولاد تھیں: علی، جو بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔
اور امامہ، جن سے بعد میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تھا۔
٥- *يقرئ السلام* : پیغام کے جواب کے ساتھ سلام کہلوانا۔ واٹس ایپ کے پیغامات میں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
٦- *فلتصبر* : یہ لام لامِ امر ہے، جو اصل میں مکسور ہوتا ہے، حرف عطف کی وجہ سے تخفیفا ساکن کیا جاتا ہے۔
اور لامِ امر صرف افعال مضارعہ پر داخل ہوتا ہے، اس کے پہلے الف نہیں لکھی جاتی ہے، *فالتصبر* لکھنا غلط ہے۔
الف لام تو اسماء میں لکھتے ہیں: السماء، الارض، الانسان ۔۔۔ یہ لام *لامِ تعریف* ہے۔
٧- *ففاضت عيناه* : تکلیف میں آنسو بہانا صبر کرنے کے منافی نہیں ہے۔
اپنے سماج میں اس کو کمزوری سمجھتے ہیں، اور جس کو رونا نہ آئے اس کی تعریف ہوتی ہے، کہ بہت صابر ہے۔
٨- *تقعقَعُ* : یہ لفظ تلواروں کی جھنکار، یا بادل کی گرجدار آواز کے لئے بولا جاتا ہے، نارمل سانس لینے میں کوئی آواز نہیں ہوتی ہے، مگر جان کنی کے وقت جب سانس اکھڑنے لگتی ہے تو اس وقت زفیر وشہیق کی آواز مسموع ہوتی ہے، اس لئے تقعقع سے تعبیر کیا۔
اصل میں: *تتقعقع* ہے، تفعلل کے باب سے، پہلی تا اس طرح کے افعال میں اکثر محذوف ہوتی ہے، کیونکہ وہ زائد ہوتی ہے۔
٩- *وانما يرحم الله* ... : یہ حدیثِ مسلسل بالاولیہ کے لیے شاھد ہے۔
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
بتاریخ : ٢٢ اپریل ٢٠٢٤
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib
▪︎ عاشوراء اور یوم القیامہ
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Aashura-Yoam-al-Qiyamah.pdf
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Aashura-Yoam-al-Qiyamah.pdf
﴿۱﴾ عاشوراء کے دن وسعت علی العیال
﴿۲﴾ عاشوراء کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت
✍ بقلم الشیخ محمد طلحه بلال احمد منیار حفظه
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Aashura-Special.pdf
﴿۲﴾ عاشوراء کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت
✍ بقلم الشیخ محمد طلحه بلال احمد منیار حفظه
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Aashura-Special.pdf
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن، میں ایک حدیث ہے:
*رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة وهو يقول ما أطيبك وأطيب ريحك* ... الحديث
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Sunan-Ibn-Majah-Ki-Hadith-3932-Main-Aik-Rawi-Par-Bahs.pdf
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ منیار حفظہ اللہ
سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن، میں ایک حدیث ہے:
*رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة وهو يقول ما أطيبك وأطيب ريحك* ... الحديث
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Sunan-Ibn-Majah-Ki-Hadith-3932-Main-Aik-Rawi-Par-Bahs.pdf
✍ بقلم الشیخ محمد طلحہ منیار حفظہ اللہ