📚الترغيب والترهيب📚 @attargib Channel on Telegram

📚الترغيب والترهيب📚

@attargib


اس چینل میں شیخ طلحہ منیار حفظہ اللہ( تلميذ رشید شیخ عبد الفتاح ابو غدہ قدس سرہ) کی پیش کردہ *احادیث کی تحقیقات کی لنک* شائع کی جاتی ہے،جو *احادیث مشہورہ نامی بلاگ* میں اپلوڈ کی جاتی ہے،
نیز اور تحقیقات حدیث و اہم نکات حدیث پیش کئے جاتے ہے_

📚 الترغيب والترهيب 📚 (Urdu)

ہمارے ٹیلیگرام چینل "attargib" میں شیخ طلحہ منیار حفظہ اللہ( تلميذ رشید شیخ عبد الفتاح ابو غدہ قدس سرہ) کی پیش کردہ احادیث کی تحقیقات کی لنک شائع کی جاتی ہے۔ یہ احادیث مشہورہ نامی بلاگ میں اپلوڈ کی جاتی ہیں اور تحقیقات حدیث اور اہم نکات حدیث پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر آپ اسلامی علوم اور حدیث کی تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو یہ چینل آپ کے لئے بہترین مکان ہے۔ شیخ طلحہ منیار کی تحقیقات نے معلومات کو زیادہ فہم کرنے میں مدد فراہم کی ہے اور آپ کو اسلامی تعلیمات کی بہترین سمجھ فراہم کر سکتی ہے۔ چینل کو ابھی فالو کریں اور نیئے اور معلوماتی پوسٹس سے باخبر رہیں!

📚الترغيب والترهيب📚

06 Nov, 03:53


تفسیر جلالین شریف کس قراءت کے مطابق ہے اور فتح الباری کس کی روایت کے مطابق ؟
شیخ محمد طلحہ منیار حفظہ اللہ ورعاہ

📚الترغيب والترهيب📚

05 Nov, 17:34


https://www.youtube.com/live/8tsKhxUhgLo?si=YywX01QQfOAQOwwp

📚الترغيب والترهيب📚

25 Oct, 12:44


أحكام علماء الحديث على حديث من صلى.pdf

📚الترغيب والترهيب📚

09 Oct, 11:31


︎ ابوداؤد شریف حدیث نمبر 679 (سوال وجواب)
بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Abu-Dawood-Hadith-679-Tahqeeq.pdf

📚الترغيب والترهيب📚

05 Oct, 12:12


قصة المرأة عند القبر.pdf

📚الترغيب والترهيب📚

05 Oct, 12:09


ألفاظ حديث خيركم من تعلم القرآن

📚الترغيب والترهيب📚

04 Sep, 10:11


*پنیری سے خمیر تک*

معلوم نہیں عاجز سے اللہ تعالیٰ کو کوئی کام (فضائل اعمال) کے متعلق لینا منظور ہے؟

کئی دنوں کے بعد آج تعلیم پڑھی، فضائلِ ذکر، بابِ سوم، حدیث نمبر 4

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، تو انھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے، اور بہترین پانی، لیکن وہ بالکل چٹیل میدان ہے، اور اس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إله إلا الله والله اکبر ہیں، ( یعنی جتنے کسی کا دل چاہے درخت لگائے ) ۔

اس حدیث کے فائدے کے اخیر میں حضرت شیخ رحمہ اللہ نے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی (الکوکب الدری علی جامع الترمذی) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

شیخ المشائخ حضرت مولانا گنگوہیؒ کا ارشاد - جو ’’کوکب دُرِّی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے- یہ ہے کہ:

اُس کے سارے درخت *خَمیر* کی طرح سے ایک جگہ مجتمع ہیں، ہر شخص جس قدر اَعمالِ خیر کرتا رہتا ہے اُتنا ہی اُس کے حِصَّے کی زمین میں لگتے رہتے ہیں اور نَشو ونَما پاتے رہتے ہیں۔اھ

جس ایڈیشن سے میں پڑھ رہا تھا اس میں لفظِ *خمیر* کے بعد قوسین میں معنی لکھا تھا (گندھے ہوئے آٹے کی طرح)۔

مجھے حضرت گنگوہی سے نقل کی گئی عبارت کی صحت میں تردد ہوا، کیونکہ پودے اور گندھے ہوئے آٹے کے ما بین کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آئی۔

اس لیے "الکوکب الدری علی جامع الترمذی" دیکھی تو اس میں حضرت گنگوہی کی عبارت اس طرح سے ہے:

قوله: [وإنها قيعان] ظاهرُه مخالف لقوله تعالى: {جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}

والجواب: أن أشجارها في مواضعها مجتمعة، وليست منثورة في جملة أراضيها، *كما هو دأب أصحاب البساتين أنهم يغرسون صنفًا من الأشجار في قطعة من الأرض صغيرة، بحيث لا يكون بينها كثير فصل،* ثم لما أرادوا قلعوها من هناك وأثبتوها حيث شاءوا۔

فكذلك أشجار الجنة إنما هي في قطاعات من الجنة، وليست في كل أراضيها بحيث لا يشذ منها أرض إلا وفيها شجر، بل هي بأصنافها منبتة في موضع معلوم، فإذا سبح الرجل أو فعل غير ذلك مما هو موجب للغراس نقلت الشجرة إلى مقامه الذي أعد له، فاغتنم هذا.

مذکورہ عبارت میں کہیں خمیر کا تذکرہ نہیں ہے۔

مزید تحقیق کے لیے پاکستان سے چھپے ہوئے دو ایک ایڈیشن دیکھے تو ان میں *خمیر* کے بجائے *پنیر* لکھا تھا، لغت میں دیکھا تو اس میں *پنیری* کے ما تحت لکھا ہے:

*بوئے ہوئے بیج سے پھوٹی ہوئی ننھی پود، جو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اگائی جاتی ہے۔*

یہ مطلب دیکھ کر ٹھنڈی سانس لی کہ بس یہی درست ہے، اور حضرت گنگوہی کی بھی یہی مراد ہے، فالحمد للہ علی توفیقہ۔

فضائلِ اعمال کے طابعین نے اس لفظ کو مسخ کرکے خمیر بنادیا، پھر (یحسبون انہم یحسنون صنعا) کی بنا پر تشریح بھی لکھ دی: *گُندھے ہوئے آٹے کی طرح* ، جس کی وجہ سے مزید اشکال پیدا ہوا۔

لہذا اس کو *پنیری* یائے معروف کے ساتھ پڑھیں، اور خمیر کو یہاں سے گھر منتقل کرکے مزیدار چپاتی بنالیں۔
بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ

بتاریخ : ٤ ستمبر ٢٠٢٤

فضائل اعمال کے ذکر کردہ پیج👇
https://shorturl.at/2T6xY

📚الترغيب والترهيب📚

04 Sep, 09:57


*پنیری سے خمیر تک*

معلوم نہیں عاجز سے اللہ تعالیٰ کو کوئی کام (فضائل اعمال) کے متعلق لینا منظور ہے؟

کئی دنوں کے بعد آج تعلیم پڑھی، فضائلِ ذکر، بابِ سوم، حدیث نمبر 4

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، تو انھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے، اور بہترین پانی، لیکن وہ بالکل چٹیل میدان ہے، اور اس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إله إلا الله والله اکبر ہیں، ( یعنی جتنے کسی کا دل چاہے درخت لگائے ) ۔

اس حدیث کے فائدے کے اخیر میں حضرت شیخ رحمہ اللہ نے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی (الکوکب الدری علی جامع الترمذی) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

شیخ المشائخ حضرت مولانا گنگوہیؒ کا ارشاد - جو ’’کوکب دُرِّی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے- یہ ہے کہ:

اُس کے سارے درخت *خَمیر* کی طرح سے ایک جگہ مجتمع ہیں، ہر شخص جس قدر اَعمالِ خیر کرتا رہتا ہے اُتنا ہی اُس کے حِصَّے کی زمین میں لگتے رہتے ہیں اور نَشو ونَما پاتے رہتے ہیں۔اھ

جس ایڈیشن سے میں پڑھ رہا تھا اس میں لفظِ *خمیر* کے بعد قوسین میں معنی لکھا تھا (گندھے ہوئے آٹے کی طرح)۔

مجھے حضرت گنگوہی سے نقل کی گئی عبارت کی صحت میں تردد ہوا، کیونکہ پودے اور گندھے ہوئے آٹے کے ما بین کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آئی۔

اس لیے "الکوکب الدری علی جامع الترمذی" دیکھی تو اس میں حضرت گنگوہی کی عبارت اس طرح سے ہے:

قوله: [وإنها قيعان] ظاهرُه مخالف لقوله تعالى: {جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}

والجواب: أن أشجارها في مواضعها مجتمعة، وليست منثورة في جملة أراضيها، *كما هو دأب أصحاب البساتين أنهم يغرسون صنفًا من الأشجار في قطعة من الأرض صغيرة، بحيث لا يكون بينها كثير فصل،* ثم لما أرادوا قلعوها من هناك وأثبتوها حيث شاءوا۔

فكذلك أشجار الجنة إنما هي في قطاعات من الجنة، وليست في كل أراضيها بحيث لا يشذ منها أرض إلا وفيها شجر، بل هي بأصنافها منبتة في موضع معلوم، فإذا سبح الرجل أو فعل غير ذلك مما هو موجب للغراس نقلت الشجرة إلى مقامه الذي أعد له، فاغتنم هذا.

مذکورہ عبارت میں کہیں خمیر کا تذکرہ نہیں ہے۔

مزید تحقیق کے لیے پاکستان سے چھپے ہوئے دو ایک ایڈیشن دیکھے تو ان میں *خمیر* کے بجائے *پنیر* لکھا تھا، لغت میں دیکھا تو اس میں *پنیری* کے ما تحت لکھا ہے:

*بوئے ہوئے بیج سے پھوٹی ہوئی ننھی پود، جو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اگائی جاتی ہے۔*

یہ مطلب دیکھ کر ٹھنڈی سانس لی کہ بس یہی درست ہے، اور حضرت گنگوہی کی بھی یہی مراد ہے، فالحمد للہ علی توفیقہ۔

فضائلِ اعمال کے طابعین نے اس لفظ کو مسخ کرکے خمیر بنادیا، پھر (یحسبون انہم یحسنون صنعا) کی بنا پر تشریح بھی لکھ دی: *گُندھے ہوئے آٹے کی طرح* ، جس کی وجہ سے مزید اشکال پیدا ہوا۔

لہذا اس کو *پنیری* یائے معروف کے ساتھ پڑھیں، اور خمیر کو یہاں سے گھر منتقل کرکے مزیدار چپاتی بنالیں۔
بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ

بتاریخ : ٤ ستمبر ٢٠٢٤
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib

📚الترغيب والترهيب📚

30 Aug, 13:28


رياض الصالحين، باب الصبر

وَعَنْ أبي زَيْدٍ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَىٰ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم وَحِبِّهِ وَابْنِ حِبِّهِ رضي الله عنهما قَالَ: أرْسَلَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم : إِنَّ ابْني قَد احْتُضِرَ فَاشْهَدْنَا، فَأرْسَلَ يُقْرِئ السَّلامَ وَيَقُول: «إِنَّ لله مَا أخَذَ، وَلَهُ مَا أعْطَى، وَكُلُّ شَيْء عِنْدَهُ بِأجَلٍ مُسَمَّىً، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ» فَأرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا. فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبـَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرِجَالٌ رضي الله عنهم، فَرُفِعَ إِلَىٰ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم الصَّبيُّ، فَأقْعَدَهُ في حِجْرِهِ، وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رسولَ الله مَا هذا؟ فَقَالَ: «هذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ تَعَالَىٰ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ» وفي رِواية: «في قُلُوبِ مَن شَاءَ مِنْ عِبَادِهِ ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ». مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.


*فوائد* :

١- *ابو زید* : دادا کے نام پر پوتے کا نام رکھنا۔ زید بن اسامہ بن زید۔

٢- *وحبہ وابن حبہ* : حضرت اسامہ رنگت کے اعتبار سے سانوالے تھے، کیونکہ ان کی والدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا حبشیہ تھیں، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم محبت میں ان کے اور حضراتِ حسنین میں فرق نہیں کرتے تھے۔
رنگ کے اعتبار سے انسانوں میں تفریق کرنا، اسلامی تعلیم نہیں ہے۔

٣- *بنت النبی* : یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں۔

علوم حدیث میں اس طرح کے ناموں کی تعیین کرنے کو *علم المبہمات* کہتے ہیں، شروحات سے بھی اصل نام معلوم ہوسکتا ہے۔

٤- *ابني* : بچے کا نام علی تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی دو اولاد تھیں: علی، جو بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔

اور امامہ، جن سے بعد میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تھا۔

٥- *يقرئ السلام* : پیغام کے جواب کے ساتھ سلام کہلوانا۔ واٹس ایپ کے پیغامات میں اس پر عمل کرنا چاہیے۔

٦- *فلتصبر* : یہ لام لامِ امر ہے، جو اصل میں مکسور ہوتا ہے، حرف عطف کی وجہ سے تخفیفا ساکن کیا جاتا ہے۔

اور لامِ امر صرف افعال مضارعہ پر داخل ہوتا ہے، اس کے پہلے الف نہیں لکھی جاتی ہے، *فالتصبر* لکھنا غلط ہے۔

الف لام تو اسماء میں لکھتے ہیں: السماء، الارض، الانسان ۔۔۔ یہ لام *لامِ تعریف* ہے۔

٧- *ففاضت عيناه* : تکلیف میں آنسو بہانا صبر کرنے کے منافی نہیں ہے۔

اپنے سماج میں اس کو کمزوری سمجھتے ہیں، اور جس کو رونا نہ آئے اس کی تعریف ہوتی ہے، کہ بہت صابر ہے۔

٨- *تقعقَعُ* : یہ لفظ تلواروں کی جھنکار، یا بادل کی گرجدار آواز کے لئے بولا جاتا ہے، نارمل سانس لینے میں کوئی آواز نہیں ہوتی ہے، مگر جان کنی کے وقت جب سانس اکھڑنے لگتی ہے تو اس وقت زفیر وشہیق کی آواز مسموع ہوتی ہے، اس لئے تقعقع سے تعبیر کیا۔

اصل میں: *تتقعقع* ہے، تفعلل کے باب سے، پہلی تا اس طرح کے افعال میں اکثر محذوف ہوتی ہے، کیونکہ وہ زائد ہوتی ہے۔

٩- *وانما يرحم الله* ... : یہ حدیثِ مسلسل بالاولیہ کے لیے شاھد ہے۔

بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ

بتاریخ : ٢٢ اپریل ٢٠٢٤
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib

📚الترغيب والترهيب📚

16 Jul, 12:01


︎ عاشوراء اور یوم القیامہ

بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Aashura-Yoam-al-Qiyamah.pdf

📚الترغيب والترهيب📚

15 Jul, 02:36


﴿۱﴾ عاشوراء کے دن وسعت علی العیال

﴿۲﴾ عاشوراء کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت

بقلم الشیخ محمد طلحه بلال احمد منیار حفظه
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Aashura-Special.pdf

📚الترغيب والترهيب📚

08 May, 12:27


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن، میں ایک حدیث ہے:

*رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة وهو يقول ما أطيبك وأطيب ريحك* ... الحديث

https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Talha-Bilal-Maniar/Sunan-Ibn-Majah-Ki-Hadith-3932-Main-Aik-Rawi-Par-Bahs.pdf

بقلم الشیخ محمد طلحہ منیار حفظہ اللہ

📚الترغيب والترهيب📚

27 Apr, 11:53


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن، میں ایک حدیث ہے:

*رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة وهو يقول ما أطيبك وأطيب ريحك* ... الحديث
http://surl.li/tcazl

بقلم الشیخ محمد طلحہ منیار حفظہ اللہ

📚الترغيب والترهيب📚

18 Apr, 18:40


ربما کانت القراءۃ سلیمۃ من اللحن
بصوت الشیخ طلحہ منیار حفظہ اللہ

📚الترغيب والترهيب📚

17 Apr, 04:55


پٹن کا سفر

حضرت مولانا عبد القادر صاحب پٹنی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا تھا کہ پٹن میں میری موجودگی میں ایک مرتبہ آئیں، میں بعض نادر چیزیں بتاؤں گا۔

اِس وقت حضرت کا وہاں پر قیام 15 اپریل تک تھا، بھائیوں سے مشورہ کرکے 14 اپریل کو جانا طے ہوا، ظہر سے پہلے سورت سے روانہ ہوکر مغرب کی نماز کے وقت الحمد للہ مدرسہ کنزِ مرغوب پٹن پہنچ گئے۔

مغرب کے بعد حضرت والا دامت برکاتہم تشریف لائے، بہت خوشی ومسرت کا اظہار کیا، اور رات کو مظبی (جو پٹن کا مشہور کھانا ہے) سے ضیافت کی۔

پیر کے دن فجر کے بعد چند آثارِ قدیمہ کی زیارت کی مکانات مقابر مساجد وغیرہ، خصوصا علامہ محمد بن طاہر پٹنی کا مکان، مزار، نیز ان کا مدرسہ جو اب غیروں کی تحویل میں چلا گیا۔

پھر حضرتِ والا کے مکان پر مختصر ناشتہ کیا، اس کے بعد کنزِ مرغوب میں آکر ظہر تک آرام کیا۔

ظہر بعد مدرسے کے کتب خانے کی زیارت کی، مجھے چند قلمی کتابیں دیکھنی تھیں، جیسے: حصن حصین، معانی الآثار، مجمع بحار الانوار وغیرہ، مگر ان سب کے نسخے یا تو متاخر تھے، یا ناقص۔

لیکن سب سے زیادہ جو نسخہ نادر ونایاب لگا وہ فتاوی سراجیہ کا نسخہ ہے، جو غالبا قرن سادس یا سابع ہجری کا لکھا ہوا ہے، اس کے نسخے کم یاب ہیں، فتاوی کا پرانا مطبوعہ محرف ہے، ساؤتھ افریقہ سے جو چھپا ہے وہ مصحح ہے، اگر اِس نسخے سے بھی تقابل ہوجائے تو بہتر ہے۔

ناظمِ کتب خانہ مولوی عبد الرحمن پٹنی صاحب نے بتایا کہ ہمارے یہاں چارسو قلمی کتابیں ہیں، ہم کوشش میں ہیں کہ ان سب کی اسکین ہوجائے، اور از سرِ نو جلد سازی ہوجائے، اللہ تعالیٰ آسان فرمائے۔

میں نے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو بعض کتابیں چار سو سال پہلے لکھی گئیں ہیں، مگر ان کے اوراق اور روشنائی کی چمک سے ایسا لگ رہا ہے کہ کاتب نے ابھی لکھی ہے۔

پرانی قلمی کتابیں ہندوستان میں ادھر اودھر بکھری ہوئی پڑی ہیں، بہت سے مدارس ومساجد میں جو کتابیں ہیں، ان کی کوئی فہرست نہیں ہیں، حالانکہ ان میں بعض کتابیں بڑی نایاب ہوتی ہیں۔

آباء واجداد کے ان قیمتی ذخائر کی حفاظت کا نظم ہونا چاہیے۔

الشیخ محمد طلحہ منیار حفظہ اللہ
https://chat.whatsapp.com/GLo4xnQmOkn7v0DlYgC5pr

📚الترغيب والترهيب📚

15 Apr, 13:24


✦───────────
تخریج دعا : اللهم سلمني لرمضان الخ۔۔۔

بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib

📚الترغيب والترهيب📚

03 Mar, 12:21


سوال آیا ہے کہ: ختم قرآن کی دعا میں: (ذکرنی منہ ما نَسِیتُ) ہے، یا (نُسّیتُ)؟

الجواب: یہ روایت ایک ہی سند سے وارد ہے، اور وہ بھی متصل نہیں ہے۔

قال ابن الجزري في النشر:
روى أبو منصور المظفر بن الحسين الأرجاني في كتابه فضائل القرآن ، وأبو بكر بن الضحاك في الشمائل كلاهما من طريق أبي ذر الهروي من رواية أبي سليمان داود بن قيس قال :

كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : يقول عند ختم القرآن " اللهم ارحمني بالقرآن واجعله لي إماما ونورا وهدى ورحمة ، اللهم ذكرني منه ما نسيت وعلمني منه ما جهلت وارزقني تلاوته آناء الليل وأطراف النهار واجعله لي حجة يا رب العالمين "

حديث معضل لأن داود بن قيس هذا هو الفراء الدباغ المدني من تابعي التابعين.

معضل اس لیے ہے کہ اس میں دو واسطے (تابعی، صحابی) مذکور نہیں ہیں، تو یہ روایت معضل ہے۔

جہاں تک (نسیت) یا (نسینا) کی بات ہے، تو حدیث میں آیا ہے: "بئسما لأحدِكم - أو بئسما لأحدِهم - أن يقولَ نَسِيتُ آيةَ كَيتَ وكَيت بل هو نُسِّيَ ..." (بخاري ومسلم)

اس میں (نَسِيتُ) بصیغۂ فاعل کی ممانعت ہے، کیونکہ اس میں نسیان کی نسبت متکلم اپنی طرف کر رہا ہے۔

ممانعت کی متعدد وجوہات حافظ ابن حجر نے شرح بخاری ذکر کی ہے، راجح یہ ہے کہ اس سے تغافل اور ترکِ تعاھُد مترشح ہوتا ہے، جبکہ بصیغۂ مجہول میں وہ بات نہیں۔

بعض علماء نے بصیغۂ فاعل کے جواز کے لیے قرآن کریم میں سے (نسیت الحوت) (لا تؤاخذني بما نسيت) اور حدیث میں سے (سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ آيَةً، فَقَالَ : " رَحِمَهُ اللہ ؛ لَقَدْ أَذْكَرَنِي آيَةً كُنْتُ نَسِيتُهَا ".) اور (انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون) بطور دلیل پیش کیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دونوں طرح سے پڑھ سکتے ہیں، مگر مجہول پڑھنے میں احتیاط زیادہ ہے، اگرچہ نسیان امر طبعی بشری ہے، مگر قرآن مجید کے حق میں مذموم ہے۔

واللہ اعلم

بقلم الشیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ
✦───────────
👈 ❋ الترغیب والترھیب ❋
https://t.me/Attargib

3,583

subscribers

20

photos

1

videos