مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat @taleematashrafiya Channel on Telegram

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

@taleematashrafiya


تعلیمات: حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ

Contact: @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat (Urdu)

مشربِ حکیم الامت: ایک تعلیمی چینل جو حکیم الامت، مجددالملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کی تعلیمات اور علمی باتوں کو شیئر کرتا ہے۔ یہاں آپ حضرت شاہ اشرف علی تھانوی کی زندگی، فکری تربیت، ان کی تصانیف اور ان کے علمی فروغ کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔nnمشربِ حکیم الامت چینل میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کے قدیم ترین تعلیمی تجربات، علمی نصیحت، اور عقائدی مواقف کی روشنی میں آپ کو روشنی کی راہ دکھائی جائے گی۔nnآپ اس چینل سے وابستہ رہ کر حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کے علمی وارثان کی تربیت میں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس چینل کے ذریعے آپ حضرت شاہ اشرف علی تھانوی کی متنبی نظریات کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور ان کی رہنمائی اور توجیہات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔nnاس چینل سے منسلک ہونے کے لیے اور مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے @talemaateashrafiya_bot سے رابطہ کیجیے۔

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

23 Jan, 13:13


اسی طرح جو مرد ظاہری حالت سے مسلمان سمجھا جائے لیکن عقائد اس کے کفر تک پہنچے ہوں اس سے مسلمان عورت کا نکاح درست نہیں، اور اگر نکاح ہو جانے کے بعد ایسے عقائد خراب ہو جاویں تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے، جیسے آجکل بہت سے آدمی اپنے مذہب سے ناواقف سائنس کے اثر سے اپنے عقائد تباہ کرلیتے ہیں، لڑکی والوں پر واجب ہے کہ پیام آنے کے وقت اول عقائد کی تحقیق کرلیا کریں تب زبان دیں۔

~حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

(تفسیر بیان القران جلد اول صفحہ 156)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

20 Jan, 08:48


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا أَنَا بشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ؛ فأَقْضِي لَهُ بِنحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بحَقِّ أَخِيهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ
(رواه البخاری و مسلم عن ام سلمة رض)

”یعنی میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، اس میں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے معاملہ کو زیادہ رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کرے، اور میں اسی سے مطمئن ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کردوں تو (یاد رکھو کہ حقیقتِ حال تو صاحبِ معاملہ کو خود معلوم ہوتی ہے) اگر فی الواقع وہ اس کا حق نہیں ہو تو اس کو لینا نہیں چاہتے، کیونکہ اس صورت میں جو کچھ میں اس کو دوں گا وہ جہنم کا ایک قطعہ ہوگا۔“

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں واضح فرمادیا کہ اگر امام یا قاضی یا امام المسلمین کسی مغالطہ کی وجہ سے کوئی فیصلہ کر دے جس میں ایک کا حق دوسرے کو ناجائز طور پر مل رہا ہو، تو اس عدالتی فیصلہ کی وجہ سے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہو جاتا، اور جس کے لئے حلال ہے اس کے لئے حرام نہیں ہو جاتا، الغرض عدالت کا فیصلہ کیسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں بناتا، اگر کوئی شخص دھوکہ فریب یا جھوٹی شہادت یا جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی کا مال بذریعہ عدالت لے لے، تو اس کا وبال اس کی گردن پر رہے گا اس کو چاہئے کہ آخرت کے حساب کتاب اور علیم و خبیر (اللہ تعالیٰ شانہ) کی عدالت میں پیشی کا خیال کر کے اس کو چھوڑ دے۔

~مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

معارف القرآن جلد اول صفحہ 461

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

19 Jan, 08:47


اسی سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ مالی فرض صرف زکوٰۃ سے پورا نہیں ہوتا ہے، زکوٰۃ کے علاوہ بھی بہت جگہ پر مال خرچ کرنا فرض و واجب ہوتا ہے۔
(جصاص، قرطبی)

جیسے رشتہ داروں پر خرچ کرنا کہ جب وہ کمانے سے معذور ہوں تو نفقہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے، کوئی مسکین غریب مررہا ہے اور آپ اپنی زکوٰۃ ادا کر چکے ہیں، مگر اس وقت مال خرچ کر کے اس کی جان بچانا فرض ہے۔
اسی طرح ضرورت کی جگہ مسجد بنانا یا دینی تعلیم کے لئے مدارس و مکاتب بنانا یہ سب فرائض مالی میں داخل ہیں، فرق اتنا ہے کہ زکوٰة کا ایک خاص قانون ہے اس کے مطابق ہر حال میں زکوہ کا ادا کرنا ضروری ہے، اور یہ دوسرے مصارف ضرورت و حاجت پر موقوف ہیں، جہاں ضرورت ہو خرچ کرنا فرض ہو جائے گا جہاں نہ ہو فرض نہیں ہو گا۔

~مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ
(معارف القرآن جلد اول صفحہ 432-433)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

18 Jan, 07:34


آج کا دور: ایمان کے لٹیرے اور فتنہ گروں کا دور

پسند فرمودہ: شیخ المشائخ مولانا حمیداللہ لون صاحب دامت برکاتہم

یہ دور فتنے، آزمائش اور چالبازیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ایمان کے لٹیرے اور فتنہ گر مختلف صورتوں میں نمودار ہو کر لوگوں کے عقائد اور اعمال کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک عمل درویشی کے نام پر شریعت سے انحراف اور خرافات کا فروغ ہے۔

درویشی ایک پاکیزہ مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے احکامات کی پیروی سے مشروط ہے، لیکن آج کل بعض افراد درویشی کے دعوے کرتے ہوئے شریعت سے تجاوز کرتے ہیں۔ ان کے عقائد اور اعمال نہ صرف شریعت کے منافی ہیں بلکہ کفر اور شرک کی حدود کو چھوتے ہیں۔ یہ لوگ لوگوں کو ایسے غلط عقائد کی طرف مائل کرتے ہیں جن سے نہ صرف ایمان خطرے میں پڑتا ہے بلکہ انسانیت کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔

باطل عقائد کی مثالیں

ایسے افراد کی تعلیمات میں یہ عقیدہ شامل ہے کہ بعض بزرگ، اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بزرگوں کو خودمختار قرار دیتے ہیں، جو ایک صریح گمراہی اور کفر ہے۔
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ان باطل عقائد کو سختی سے رد کیا ہے۔ ان کے مطابق، اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ بزرگ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی کام کر سکتے ہیں، تو یہ یقینی طور پر شرکِ اکبر ہے۔ یہ عقیدہ شریعت اور توحید کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔
ارشاد فرماتے ہیں کہ "بزرگوں کے متعلق اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ حق تعالیٰ نے ان کو ایسا اختیار دیا ہے کہ جب چاہیں اس اختیار سے تصرف کر سکتے ہیں، حق تعالیٰ کی مشیت جزئیہ کی حاجت نہیں رہتی، یعنی یہ اعتقاد ہو کہ وہ بزرگ اگر کسی کام کو کرنا چاہیں اور حق تعالی نہ اس کام کو روکیں، نہ اس کام کا ارادہ کریں تو ایسی حالت میں اگر وہ بزرگ چاہیں تو اس کام کو کر سکتے ہیں، یہ یقینی کفر اور شرکِ اکبر ہے۔" (انفاس عیسیٰ 370)

قرآنی رہنمائی

قرآن مجید ہمیں ان گمراہ کن عقائد اور اعمال سے خبردار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں واضح طور پر فرمایا ہے:
اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ ﴿۱۶۶﴾
قَالَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا لَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنۡہُمۡ کَمَا تَبَرَّءُوۡا مِنَّا ؕ کَذٰلِکَ یُرِیۡہِمُ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ حَسَرٰتٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَا ھُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنَ النَّارِ ﴿۱۶۷﴾
ترجمہ:
جب وہ (پیشوا) جن کے پیچھے یہ لوگ چلتے رہے ہیں، اپنے پیروکاروں سے مکمل بےتعلقی کا اعلان کریں گے اور یہ سب لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے، اور ان کے تمام باہمی رشتے کٹ کر رہ جائیں گے
اور جنہوں نے ان ( پیشواؤں) کی پیروی کی تھی وہ کہیں گے کہ کاش ہمیں ایک مرتبہ پھر (دنیا میں) لوٹنے کا موقع دے دیا جائے تو ہم بھی ان (پیشواؤں) سے اسی طرح بےتعلقی کا اعلان کریں جیسے انہوں نے ہم سے بےتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح اللہ انہیں دکھا دے گا کہ ان کے اعمال ( آج) ان کے لیے حسرت ہی حسرت بن چکے ہیں اور اب وہ کسی صورت دوزخ سے نکلنے والے نہیں ہیں۔ (سورہ البقرہ: 166-167)
یہ آیات ہمیں نصیحت کرتی ہیں کہ جھوٹے رہنماؤں اور گمراہ کن عقائد کے پیچھے چلنے والوں کا انجام قیامت کے دن شرمندگی اور عذاب ہوگا۔

درست رویہ اور اصلاح

ہمیں اپنے عقائد اور اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے۔ شریعت کی روشنی میں زندگی گزارنا اور ہر عمل کو قرآن و سنت کے مطابق پرکھنا ضروری ہے۔ درویشی کے دعووں کے پیچھے چھپی گمراہی کو پہچاننا اور ان سے خود کو بچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

آج کا دور فتنوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن قرآن اور سنت کی رہنمائی ہمیشہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے ہدایت اور استقامت کی دعا کریں، تاکہ ہم قیامت کے دن کامیاب ہو سکیں۔

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

17 Jan, 13:11


وَ مَاتُوۡا وَھُمۡ کُفَّارٌ کے لفظ سے جصّاص اور قرطبی وغیرہ نے یہ استنباط کیا ہے کہ جس کافر کے کفر کی حالت میں مرنے کا یقین نہ ہو اس پر لعنت کرنا جائز نہیں اور چونکہ ہمیں کسی شخص کے خاتمہ کا یقینی علم ہونے کا اب کوئی ذریعہ نہیں، اس لئے کسی کافر کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کافروں پر نام لے کر لعنت کی ہے آپ کو ان کی موت علی الکفر کا منجانب اللہ علم ہو گیا تھا، البتہ عام کافروں، ظالموں پر بغیر تعیین کے لعنت کرنا درست ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جب لعنت کا معاملہ اتنا شدید ہے کہ کسی کافر پر بھی اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کا یقین نہ ہو جائے کہ اس کی موت کفر ہی پر ہوگی، تو کسی مسلمان پر یا کسی جانور پر لعنت کیسے جائز ہوسکتی ہے، اور عوام اس سے بالکل غفلت میں ہے خصوصاً عورتیں کہ بات بات پر لعنت کے الفاظ اپنے متعلقین کے متعلق استعمال کرتی رہتی ہیں، اور لعنت صرف لفظ لعنت ہی کے کہنے سے نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ہم معنی جو الفاظ ہیں وہ بھی لعنت ہی کے حکم میں ہیں، لعنت کے اصلی معنی خدا تعالیٰ کی رحمت سے دور کرنے کے ہیں، اس لئے کسی کو مردود، راندۂ درگاہ، اللہ مارا وغیرہ کے الفاظ کہنا بھی لعنت ہی کے حکم میں ہے۔

مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

(معارف القرآن جلد اول صفحہ 405)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

15 Jan, 13:16


آجکل مسلمانوں میں بے علمی اور بے دینی پھیلنے کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین اگر خود دین سے واقف اور دیندار بھی ہیں تو اس کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری اولاد بھی دیندار ہو کر دائمی راحت کی مستحق ہو، عام طور پر ہماری نظریں صرف اولاد کی دنیوی اور چند روزہ راحت پر رہتی ہیں اس کے لئے انتظامات کرتے رہتے ہیں، دولتِ لازوال کی طرف توجہ نہیں دیتے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمادیں، کہ آخرت کی فکر میں لگ جائیں، اور اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے سب سے بڑا سرمایہ ایمان اور عمل صالح کو سمجھ کر اس کی کوشش کریں۔

مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

(معارف القرآن جلد اول صفحہ 351)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

15 Jan, 12:58


اسلام کے معنی اور حقیقت، اطاعتِ حق تعالیٰ شانہ ہے

مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے اور جتنی کتابیں اور شرائع نازل ہوئے ان سب کی روح اسلام یعنی اطاعت حق ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں فرمانِ حق کی اطاعت اور اتباعِ ہوٰی کو چھوڑ کر اتباع ہدٰی کی پابندی۔

افسوس ہے کہ آج اسلام کا نام لینے والے لاکھوں مسلمان بھی اس حقیقت سے بیگانہ ہو گئے اور دین و مذہب کے نام پر بھی اپنی خواہشات کا اتباع کرنا چاہتے ہیں، انھیں قرآن و حدیث کی صرف وہ تفسیر و تعبیر بھلی معلوم ہوتی ہے جو اُن کی خواہش کے مطابق ہو، ورنہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جامۂ شریعت کو کھینچ تان کر بلکہ چیر پھاڑ کر اپنے اغراض اور اہوا نفسانی کے بتوں کا لباس بنائیں کہ دیکھنے میں دین و مذہب کا اتباع نظر آئے، اگرچہ وہ حقیقت میں خالص اتباعِ ہوٰی اور خواہشات کی پیروی ہے؂
سو وه شد از سجدہ راه بتان پیشانیم
چند بر خود تہمتِ دینِ مسلمانی نہم

غافل انسان یہ نہیں جانتا کہ یہ حیلے اور تاویلیں مخلوق کے سامنے تو چل سکتی ہیں، مگر خالق کے سامنے جس کا علم ذرہ ذرہ کو محیط ہے جو دلوں کے چھپے ہوئے ارادوں بھیدوں کو دیکھتا اور جاتا ہے اس کے آگے بجز خالص اطاعت کے کوئی چیز کارگر نہیں ہے؂
کارہا با حلق آری جملہ راست
با خدا تزویر و حیلہ کے رد است

حقیقی اسلام یہ ہے کہ اپنے اغراض اور خواہشات سے بالکل خالی الذہن ہو کر انسان کو اس کی تلاش ہو کہ حضرتِ حق جل شانہ کی رضا کس کام میں ہے، اور اس کا فرمان میرے لئے کیا ہے، وہ ایک فرمانبردار غلام کی طرح گوش بر آواز رہے، کہ کس طرف جانے کا اور کس کام کا حکم ہوتا ہے اور اس کام کو کس انداز سے کیا جائے، جس سے وہ مقبول ہو اور میرا مالک راضی ہو، اس کا نام عبادت و بندگی ہے؂

در راه عشق وسوسۂ اہر من بسے ست
ہشدار و گوش را بہ پیام سروش دار

اسی جذبۂ اطاعت و محبت کا کمال انسان کی ترقی کا آخری مقام ہے، جس کو مقام عبدیت کہا جاتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں پہونچ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کا خطاب پاتے ہیں، اور سید الرسل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو عَبْدَنَا کا خطاب ملتا ہے، اسی عبدیت اور اطاعت کے ذیلی درجات پر امت کے اولیاء، اقطاب و ابدال کے درجات دائر ہوتے ہیں، اور یہی حقیقی توحید ہے جس کے حاصل ہونے پر انسان کے خوف و امید صرف ایک اللہ جل شانہ کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں؂
امید و ہراسش نباشد زکس
ہمیں ست بنیادِ توحید و بس

غرض اسلام کے معنی اور حقیقت اطاعتِ حق ہے، اور اس کا راستہ صرف اتباعِ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں منحصر ہے، جس کو قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اس طرح ارشاد فرمایا

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

تیرے رب کی قسم وہ کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک وہ آپ کو اپنے تمام اختلافی معاملات میں حَکَم تسلیم نہ کرلیں اور پھر آپ کے فیصلہ سے کوئی دل تنگی محسوس نہ کریں، اور فیصلہ کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کریں۔

معارف القرآن جلد اول صفحہ 346-347

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

14 Jan, 08:21


جو خوش نصیب حضرات رسول کریمﷺ کے سامنے زیر تعلیم رہے، تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا باطنی تزکیہ بھی ہوتا گیا، اور جو جماعت صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپﷺ کی زیرِ تربیت تیار ہوئی، ایک طرف اُن کی عقل و دانش اور علم و حکمت کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ساری دنیا کے فلسفے اس کے سامنے گرد ہو گئے، تو دوسری طرف ان کے تزکیۂ باطنی اور تعلق مع اللہ اور اعتماد علی اللہ کا یہ درجہ تھا جو خود قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ (۲۹:۴۸)
"اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں، تم انہیں رکوع سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی تلاش کرتے ہیں۔"

یہی وجہ تھی کہ وہ جس طرف چلتے تھے فتح و نصرت اُن کے قدم (چوم) لیتی تھی، تائید ربانی ان کے ساتھ ہوتی تھی، اُن کے محیر العقول کارنامے جو آج بھی ہر قوم و ملت کے ذہنوں کو مرعوب کئے ہوہے ہیں وہ اسی تعليم و تزکیہ کے اعلی نتائج ہیں، آج دنیا میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تبدیل و ترمیم پر تو سب لوگ غور کرتے ہیں لیکن تعلیم کی روح کو درست کرنے کی عام طور پر توجہ نہیں جاتی کہ مدرس اور معلم کی اخلاقی حالت اور مصلحانہ تربیت کو دیکھا جائے اس پر زور دیا جائے، اس کا نتیجہ ہے کہ ہزار کوششوں کے بعد بھی ایسے مکمل انسان پیدا نہیں ہوتے جن کے عمدہ اخلاق دوسروں پر اثر انداز ہوں، اور دوسروں کی تربیت کر سکیں۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اساتذہ جس علم و عمل اور اخلاق و کردار کے مالک ہونگے ان سے پڑھنے والے طلبہ زیادہ سے زیادہ انہی جیسے پیدا ہوسکیں گے، اس لئے تعلیم کو مفید اور بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تدوین ترمیم سے زیادہ اس نصاب کے پڑھانے والوں کی علمی و عملی و اخلاقی حالات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

معارف القرآن جلد اول صفحہ 340-341

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

13 Jan, 03:44


ہر جگہ ایمان کے تقاضوں پر عمل ضروری ہے

~شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

لہذا ایمان کے اعمال کی تعداد ستر سے کہیں زیادہ ہے اور وہ سب شعبے ایمان کا حصہ ہیں۔ اگر انسان کسی ایک شعبے کو پکڑ کر بیٹھ جائے اور یہ سمجھے کہ میں مومنِ کامل ہو گیا، یہ بات درست نہیں۔ مثالاً کسی نے نماز پڑھنی شروع کردی یا مثلاً روزہ رکھنا شروع کر دیا یا عبادات پر عمل کرنا شروع کر دیا تو وہ آدمی یہ نہ سمجھے کہ بس میرا ایمان کامل ہو گیا اور اب مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ مومن صرف مسجد میں اور مصلے پر مومن نہیں ہوتا، بلکہ جس وقت وہ گھر میں بیٹھ کر کام کر رہا ہے اس وقت بھی مومن ہوتا ہے، جس وقت بازار میں خرید و فروخت کر رہا ہے اس وقت بھی مومن، جب دفتر میں کام کر رہا ہے اس وقت بھی مومن، وہ تو ہر جگہ مومن ہے اور جب ہر جگہ مومن ہے تو پھر ہر جگہ پر ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا بھی اس کے لیے ضروری ہے، چاہے وہ عبادت ہو یا معاملات ہوں، معاشرت ہو یا اخلاقیات ہوں، جتنے بھی زندگی کے شعبے ہیں ان سب میں ایک مومن کا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکام کی پیروی کرے۔ اس کے تو کوئی معنی نہیں کہ مسجد میں آکر تو عبادت کرلی اور اللہ تعالی کے حضور سجدہ کر لیا، لیکن بازار پہنچا تو اللہ کے بجائے شیطان کو محبوب بنالیا۔ اس کو یہ فکر نہیں کہ یہ لقمہ جو میں کھا رہا ہو ہوں یہ حلال کا لقمہ ہے یا حرام کا لقمہ ہے اور اپنے بیوی بچوں کو جو کھلا رہا ہوں یہ حرام کھلا رہا ہوں یا حلال کھلا رہا ہوں۔ اگر اس کی فکر اس کے دل میں نہ ہو تو اس کا ایمان کامل نہیں۔

(مواعظ عثمانی جلد اول صفحہ 226-227)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/Li0hPLTL2IhAJVrywmFCMq

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

11 Jan, 04:05


دوسروں کو تکلیف پہنچانا اسلام کے خلاف ہے

~شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

جناب رسول اللہﷺ نے یہ فرمادیا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (صحیح البخاری)، اور دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچانا گناہِ کبیرہ ہے اور حرام ہے اور یہ ایسا ہی بڑا گناہ ہے جیسے شراب پینا گناہ ہے، جیسے بدکاری کرنا گناہ ہے، جیسے سور کھانا گناہ ہے اور تکلیف پہنچانے کے جتنے راستے ہیں وہ سب گناہ کبیرہ ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض یہ ہے کہ اپنی ذات سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائے۔ مثلاً آپ گاڑی لے کر جا رہے ہیں اور کسی جگہ جا کر گاڑی کھڑی کرنے کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے ایسی جگہ جاکر گاڑی کھڑی کردی جو دوسرے لوگوں کے لیے گزرنے کی جگہ تھی، آپ کے گاڑی کھڑی کرنے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو گزرنا مشکل ہو گیا، اب آپ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے زیادہ سے زیادہ ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ آپ اس کو دین کی خلاف ورزی اور گناہ نہیں سمجھتے حالانکہ یہ صرف بداخلاقی کی بات نہیں بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔ ایسا ہی گناہ ہے جیسے شراب پینا گناہ ہے۔ اس لیے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمادیا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے یعنی اس کے پورے وجود سے دوسرے انسان محفوظ رہیں، ان کو تکلیف نہ پہنچے۔ آپ نے اپنی گاڑی غلط جگہ پارک کر کے دوسروں کو تکلیف پہنچائی۔ آج ہم نے دین اسلام کو عبادت کی حد تک اور نماز روزے کی حد تک اور مسجد کی حد تک اور وظائف و تسبیحات کی حد تک محدود کر لیا ہے اور بندوں کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں ان کو ہم نے دین سے بالکل خارج کر دیا۔

(مواعظ عثمانی جلد اول 190-191)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

09 Jan, 13:13


سلیمان (ابن عبد الملک) نے (حضرت ابو حازم تابعی رحمہ اللہ سے) کہا کہ مجھے کچھ وصیت فرمادیں:
ارشاد فرمایا کہ مختصر یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت و جلال اس درجہ میں رکھو، کہ وہ تمہیں اس مقام پر نہ دیکھے جس سے منع کیا ہے، اور اس مقام سے غیر حاضر نہ پائے جس کی طرف آنے کا اس نے حکم دیا ہے۔

مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

(معارف القرآن جلد اول صفحہ 211)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

09 Jan, 03:46


شیطانی داؤ کا توڑ ... اداءِ شکر

~شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم


حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو بہت پسند فرماتے ہیں اور اس سے راضی ہو جاتے ہیں، جو بندہ کوئی لقمہ کھاتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی کا کوئی گھونٹ پیتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ [صحیح مسلم ٢٠٩٥/٤ (٢٧٣٤)]

مطلب یہ ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت پر کثرت سے شکر ادا کرتا رہتا ہے، اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتے ہیں۔

یہ بات بار بار عرض کر چکا ہوں کہ شکر سو عبادتوں کی ایک عبادت ہے اور ہمارے حضرت ڈاکٹر عبد الحی صاحب (عارفی) قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ کہاں کرو گے مجاہدات اور ریاضتیں۔ اور کہاں وہ مشتقیں اُٹھاؤ گے جیسی صوفیائے کرام نے اٹھائیں، لیکن یہ ایک چٹکلا اختیار کر لو کہ ہر بات پر شکر ادا کرنے کی عادت ڈال لو۔ کھانا کھاؤ تو شکر، پانی پیو تو شکر، ہوا چلے تو شکر، بچہ سامنے آئے، اچھا لگے تو شکر، گھر والوں کو دیکھو اور دیکھ کر راحت ہو تو شکر ادا کرو۔ شکر ادا کرنے کی عادت ڈالو اور رٹ لگاؤ: "الحمد لله، اللهم لك الحمد ولك الشكر اللهم لك الحمد ولك الشكر “ یاد رکھو کہ یہ شکر کی عادت ایسی چیز ہے کہ یہ بہت سارے امراضِ باطنی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ یہ تکبر، یہ حسد، یہ عجب ان سب کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ جو آدمی کثرت سے شکر ادا کرتا ہے، وہ عام طور سے تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا۔ یہ بزرگوں کا تجربہ ہے، بلکہ اس پر نص وارد ہے۔

جب اللہ تعالی نے شیطان کو راندہ درگاہ کیا اور نکال دیا، تو کم بخت نے جاتے جاتے کہہ دیا کہ مجھے ساری عمر کی مہلت دے دیجیے۔ اللہ تعالی نے اس کو مہلت دے دی۔ اس نے کہا کہ اب میں تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا۔ اور ان کو گمراہ کرنے کے لیے دائیں بائیں، آگے، پیچھے، غرض ہر طرف سے آؤں گا اور ان کو تیرے راستے سے بھٹکا دوں گا۔ اور آخر میں اس نے کہا
وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (سورة الأعراف 17)
میرے بہکانے کے نتیجے میں آپ اپنے بندوں میں سے اکثر کو ناشکرا پائیں گے۔

حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کا جو بنیادی داؤ ہے، وہ ہے ناشکری پیدا کرنا۔ اگر ناشکری پیدا ہوگئی تو معلوم نہیں کتنے امراض میں مبتلا ہو گیا، اور اس داؤ کا توڑ شکر کرنا ہے۔ جتنا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو گے اتنا ہی شیطان کے حملوں سے محفوظ رہو گے۔ اس لیے روحانی بیماریوں سے بچنے کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ، دن رات صبح شام رٹ لگاؤ: "اللهم لك الحمد ولك الشكر" اس سے ان شاء اللہ شیطان کے حملوں کا سد باب ہو جائے گا۔

(مواعظ عثمانی جلد 1 صفحہ 133-134)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

08 Jan, 14:43


کفر اور ہر گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی مگر بعض گناہوں کی کچھ سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے، پھر یہ دنیا کی سزا بعض اوقات یہ شکل اختیار کرتی ہے کہ اصلاحِ حال کی توفیق سلب ہو جاتی ہے، انسان آخرت کے حساب و کتاب سے بےفکر ہو کر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے، اور اس کی برائی کا احساس بھی اس کے دل سے جاتا رہتا ہے، ایسے حال کے متعلق بعض بزرگوں کا ارشاد ہے ”إن من جزاء السيئةِ السيئةُ بعدها ، و إن من جزاء الحسنةِ الحسنةُ بعدها“ یعنی گناہ کی ایک سزا یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچ لاتا ہے جس طرح نیکی کا نقد بدلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے۔

اور حدیث میں ہے کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور جس طرح سفید کپڑے پر ایک سیاہ نقطہ انسان کو ناگوار نظر آتا ہے، پہلے نقطۂ گناہ سے بھی انسان پریشان ہوتا ہے، لیکن اگر اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی اور دوسرا گناہ کر لیا تو ایک دوسرا نقطۂ سیاہ لگ جاتا ہے اور اسی طرح ہر گناہ پر سیاہ نقطے لگتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ یہ سیاہی سارے قلب پر محیط ہو جاتی ہے، اور اب اس کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ نہ کسی اچھی چیز کو اچھا سمجھ سکتا ہے نہ بری چیز کو بُرا، غرض نیکی بدی کا امتیاز اس کے دل سے اُٹھ جاتا ہے، اور پھر فرمایا کہ اسی ظلمت و سیاہی کا نام قرآن کریم میں رآن یا رین آیا ہے، كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ۔
(مشکوه از مسند احمد و ترمذی)

(معارف القرآن جلد اول صفحہ 118-119)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

07 Jan, 07:31


دنیا کے فساد و بگاڑ کا اصل علاج تعلیماتِ نبویہﷺ میں ہے

~مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

اور جب انسان اپنے انسانی اخلاق کھو بیٹھا، تو انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں فساد ہی فساد آجاتا ہے، فساد بھی ایسا عظیم جو نہ درندے جانوروں سے متوقع ہے نہ ڈاکوؤں اور چوروں سے کیونکہ ان کے فساد کو قانون اور حکومت کی طاقت سے روکا جا سکتا ہے، مگر قانون تو انسان ہی جاری کرتے ہیں، جب انسان انسان نہ رہا تو قانون کی جو گت بنے گی اس کا تماشا آج کھلی آنکھوں ہر شخص ہر محکمہ اور ہر ادارہ میں دیکھتا ہے، آج دنیا کا تمدن ترقی پذیر ہے، تعلیم و تعلم کے اداروں کا جال گاؤں گاؤں تک پھیلا ہوا ہے، تہذیب تہذیب کے الفاظ ہر شخص کی زبان پر ہیں، قانون سازی کی مجلسوں کا بازار گرم ہے، تنفیذِ قانون کے بے شمار ادارے اربوں روپے کے خرچ سے قائم ہیں، دفتری انتظامات کی بھول بھلیاں ہے، مگر جرائم اور فتنے فساد روز بروز بڑھتے ہی جاتے ہیں، وجہ اس کے سوا نہیں کہ کوئی قانون خود کار مشین نہیں ہوتا، بلکہ اس کو انسان چلاتے ہیں، جب انسان اپنی انسانیت کھو بیٹھا تو پھر اس فساد کا علاج نہ قانون سے ہوسکتا ہے نہ حکومت اور محکموں کے چکر سے، اسی لئے انسانت کے عظیم ترین محسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز فرمائی ہے کہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنا دیں، تو پھر فساد و جرائم خود بخود ختم ہو جاتے ہیں، نہ پولیس کی زیادہ ضرورت رہتی ہے نہ عدالتوں کے اس پھیلاؤ کی جو دنیا میں پایا جاتا ہے، اور جب تک دنیا کے جس حصہ میں آپ کی تعلیمات و ہدایات پر عمل ہوتا رہا دنیا نے وہ امن و امان دیکھا جس کی نظیر نہ پہلے کبھی دیکھی گئی نہ ان تعلیمات کو چھوڑنے کے بعد متوقع ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کی روح ہے اللہ تعالیٰ کا خوف، اور قیامت کے حساب کتاب کی فکر، اس کے بغیر کوئی قانون و دستور اور کوئی محکمہ اور کوئی مدرسہ اور یونیورسٹی انسان کو جرائم سے باز رکھنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔
آج کی دنیا میں جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیار کی باگ ہے وہ جرائم کے انسداد کے لئے نئے سے نئے انتظام کو تو سوچتے ہیں، مگر اس رُوحِ انتظام یعنی خوفِ خدا سے نہ صرف غفلت برتتے ہیں بلکہ اس کو فنا کرنے کے اسباب مہیا کرتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ ہمیشہ یہی سامنے آتا رہتا ہے کہ؂
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کھلے طور پر فساد مچانے والے چوروں، غارت گروں کا علاج سہل ہے، مگر ان انسانیت فراموش انسانوں کا فساد ہمیشہ برنگ ِاصلاح ہوتا ہے، وہ کوئی دلچسپ دلفریب اصلاحی اسکیم بھی سامنے رکھ لیتے ہیں، اور خالص ذاتی اغراض فاسدہ کو اصلاح کا رنگ دے کر إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ کے نعرے لگاتے رہتے ہیں، اسی لئے حق تعالیٰ سبحانہ نے جہاں فساد سے روکا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا وَاللهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِح (۲۲۰۰۲) یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون؟ جس میں اشارہ فرمایا کہ فساد و صلاح کی اصل حقیقت حق تعالیٰ ہی جانتے ہیں جو دلوں کے حال اور نیتوں سے بھی واقف ہیں، اور ہر عمل کے خواص و نتائج کو بھی جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ صلاح ہوگا یا فساد، اس لئے اصلاح کے لئے صرف نیتِ اصلاح کافی نہیں، بلکہ عمل کا رخ بھی شریعت کے مطابق صحیح ہونا ضروری ہے، بعض اوقات کوئی عمل پوری نیک نیتی اور اصلاح کے قصد سے کیا جاتا ہے مگر اس کا اثر فساد و فتنہ ہوتا ہے۔


معارف القرآن جلد اول صفحہ 130-131

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

06 Jan, 12:00


ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ کے معنی یہ ہیں کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، یعنی دنیا میں جہاں کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے، کیونکہ اس جہانِ رنگ و بو میں جہاں ہزاروں حسین مناظر اور لاکھوں دلکش نظارے اور کروڑوں نفع بخش چیزیں انسان کے دامنِ دل کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں اور اپنی تعریف پر مجبور کرتی ہیں، اگر ذرا نظر کو گہرا کیا جائے تو ان سب چیزوں کے پردے میں ایک ہی دستِ قدرت کارفرما نظر آتا ہے، اور دنیا میں جہاں کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں جیسے کسی نقش و نگار یا تصویر کی یا کسی صنعت کی تعریف کی جائے کہ یہ سب تعریفیں در حقیقت نقّاش اور مصوّر کی یا صنّاع کی ہوتی ہیں، اس جملے نے کثرتوں کے تلاطم میں پھنسے ہوئے انسان کے سامنے ایک حقیقت کا دروازہ کھول کر یہ دکھلا دیا کہ یہ ساری کثرتیں ایک ہی وحدت سے مربوط ہیں، اور ساری تعریفیں در حقیقت اسی ایک قادرِ مطلق کی ہیں، ان کو کسی دوسرے کی تعریف سمجھنا نظر و بصیرت کی کوتاہی ہے ؎
حمد را با تو نسبتی ست درست بر در ہر کہ رفت بر در تست

مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ

(معارف القرآن جلد اول صفحہ 79-80)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

06 Jan, 03:32


اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے کوئی حکم آجائے تو انسان آگے سے ”کیوں“ کا سوال نہ کرے بلکہ اس پر سر تسلیم خم کر کے اس کے مطابق عمل کرے، اس لیے کہ ”کیوں“ کا سوال بندگی کا نہیں، اعتراض کا ہے۔
جیسا کہ ہمارے یہاں جب بھی دین سے متعلق کوئی حکم بیان کیا جاتا ہے تو اس میں ایک گمراہانہ طریقہ رائج ہے کہ ایسا حکم کیوں ہے؟ اور بعض اوقات اس کے پیچھے یہ جذبہ ہوتا ہے کہ اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آگئی تو ہم اس کو مان کر اس پر عمل کریں گے، ورنہ نہیں۔ یہ چیز اسلام کی روح کے خلاف ہے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

(مواعظ عثمانی جلد اول صفحہ 78)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

05 Jan, 15:18


ہر کام کو بسم اللہ سے شروع کرنے کی حکمت

~مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی رحمہ اللہ

اسلام نے ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت دے کر انسان کی پوری زندگی کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح پھیر دیا ہے کہ وہ قدم قدم پر اس حلف وفاداری کی تجدید کرتا ہے، کہ میرا وجود اور میرا کوئی کام بغیر اللہ تعالیٰ کی مشیّت و ارادے اور اس کی امداد کے نہیں ہو سکتا، جس نے اس کی ہر نقل و حرکت اور تمام معاشی اور دنیوی کاموں کو بھی ایک عبادت بنا دیا۔
عمل کتنا مختصر ہے کہ نہ اس میں کوئی وقت خرچ ہوتا ہے نہ محنت اور فائدہ کتنا کیمیاوی اور بڑا ہے کہ دنیا بھی دین بن گئی، ایک کافر بھی کھاتا پیتا ہے اور ایک مسلمان بھی، مگر مسلمان اپنے لقمے سے پہلے بسم اللہ کہہ کہ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ لقمہ زمین سے پیدا ہونے سے لیکر پک کر تیار ہونے تک آسمان زمین اور سيّاروں اور ہوا و فضائی مخلوقات کی طاقتیں، پھر لاکھوں انسانوں کی محنت صرف ہو کر تیار ہوا ہے، اس کا حاصل کرنا میرے بس میں نہ تھا، اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان تمام مراحل سے گزار کر یہ لقمہ یا گھونٹ مجھے عطا فرمایا ہے، مومن و کافر دونوں سوتے جاگتے بھی ہیں، چلتے پھرتے بھی ہیں، مگر ہر مومن سونے سے پہلے اور بیدار ہونے کے وقت اللہ کا نام لے کر اللہ کے ساتھ اسی طرح اپنے رابطے کی تجدید کرتا ہے جس سے یہ تمام دنیاوی اور معاشی ضرورتیں ذکر خدا بنکر عبادت میں لکھی جاتی ہیں، مومن سواری پر سوار ہوتے ہوئے بسم اللہ کہہ کر گویا یہ شہادت دیتا ہے کہ اس سواری کا پیدا کرنا یا مہیا کرنا پھر اس کو میرے قبضے میں دے دینا انسان کی قدرت سے باہر چیز ہے، رب العزت ہی کے بنائے ہوئے نظامِ محکم کا کام ہے کہ کہیں کی لکڑی کہیں کا لوہا، کہیں کی مختلف دھاتیں، کہیں کے کاریگر، کہیں کے چلانے والے سب کے سب میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں، چند پیسے خرچ کرنے سے اتنی بڑی خلقِ خدا کی محنت کو ہم اپنے کام میں لاسکتے ہیں، اور وہ پیسے بھی ہم اپنے ساتھ کہیں سے نہیں لائے تھے، بلکہ اس کے حاصل کرنے کے تمام اسباب بھی اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں، غور کیجئے کہ اسلام کی صرف اسی ایک ہی مختصر سی تعلیم نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ ایک نسخۂ اکسیر ہے جس سے تانبے کا نہیں بلکہ خاک کا سونا بنتا ہے، فلله الحمد على دين الاسلام وتعليماته۔

معارف القرآن جلد اول - تفسیر بسم اللہ - صفحہ 74-75

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

05 Jan, 06:03


باسمه سبحانه و تعالی

خدمت کے لئے سلیقہ اور ادب چاہیے تاکہ مخدوم خوب مسرور ہو جائے اور نوازشوں کی بارش برسائے ، اسی طرح اللہ تعالٰی کی طاعت و عبادت کیلئے بہترین سلیقہ اور کمالِ ادب کی اشد ضرورت ہے تب جا کے تھوڑی بہت اچھی عبادت کی توفیق نصیب ھو جائے ، مگر ایک ہم ہیں کہ نہ لباس ڈھنگ کا، نہ صورت و شکل ڈھنگ کی... صفِ اول میں گھس جاتے ہیں، کبھی کان، کبھی ناک، کبھی ریش اور کبھی لباس کو چھوتے رہتے ہیں۔۔۔ حرمین شریفین میں بھی اب اللہ کا ذکر نہیں بلکہ اپنے ذکر و اذکار کے لئے چھوٹے بڑے، دوران اذان، دوران طواف ویڈیو گرافی کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں.... اب تو لوگ اللہ کو راضی کرنے کے لیے نہیں ناراض کرنے کے لئے عمرے کرتے ہیں اور بے ادبیوں، گستاخیوں اور جرائم کا بھاری بوجھ اپنے اوپر لاد کر اپنے گھر واپس لوٹتے ہیں اور بدفہم خوش ہیں کہ بہت نیک اعمال کئے... قدم قدم پر اتباع سنت کی ضرورت ہے ورنہ اعمال رائیگاں ہوتے ہیں۔

شیخ المشائخ مولانا حمیداللہ لون صاحب دامت برکاتہم
۴ رجب ۱۴۴۶ھ

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

05 Jan, 04:18


سہاگن وہی جس کو پیا چاہے

~شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

میرے والد ماجد (مفتی محمد شفیع صاحب) قدس اللہ سرہ فرماتے تھے کہ ہندی میں مثل مشہور ہے 'سہاگن وہی جس کو پیا چاہے' اس کی تفصیل میں فرماتے تھے کہ اس جملے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک لڑکی کی شادی ہو رہی تھی اور اس کی سہیلیاں اس کو دلہن بنا رہی تھیں۔ سب اس کی تعریف کر رہی تھیں، وہ بیچاری دلہن سب کی تعریفیں سنتی اور خاموش رہ جاتی۔ کسی سہیلی نے کہا اے اللہ کی بندی! سب لوگ تیری خوبصورتی اور سنگھار کی تعریف کر رہے ہیں اور تو کسی کا شکریہ ادا نہیں کرتی۔ اس نے کہا کہ میں شکریہ تو ادا کرتی ہوں ، لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ اگر میری سہیلیاں میری تعریف کرتی ہیں، تو ان کی تعریف سے مجھے کیا ملے گا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میں جہاں جارہی ہوں، وہاں میری تعریف ہو اور وہاں میں پسند آجاؤں۔

میرے والد ماجد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مخلوق تعریفیں کر رہی ہے اور القاب سے نواز رہی ہے۔ کوئی علامہ کہہ رہا ہے، کوئی شیخ الاسلام کہہ رہا ہے تو اس مخلوق کی تعریف کا کوئی بھروسہ نہیں، جب قبر میں پہنچیں گے تو مخلوق کی تعریفیں کام نہیں آئیں گی ۔ آئے گا تو یہ جملہ کام آئے گا: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ  اِلٰی  رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿۲۸﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿۲۹﴾ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾
اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے، اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اُس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔

میرے والد ماجد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک بزرگ بڑے درجے کے اولیاء اللہ میں سے تھے۔ ان کے ایک دشمن نے ایک مرتبہ یہ کہہ دیا کہ تجھ سے تو کتا بہتر ہے۔ حضرت تو ولایت کے بڑے درجے پر فائز تھے۔ ان پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت اس نے آپ کو اتنی بڑی گالی دی اور آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ تو فرمایا بھائی! واقعی میرے خیال میں تو کتا مجھ سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ مجھے پتہ نہیں ہے کہ کتا مجھ سے اچھا ہے یا میں کتے سے اچھا ہوں۔ ہاں! - میں جس دن اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤں اور اللہ میرے اعمال کو قبول فرمالے تب تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں کتے سے اچھا ہوں، لیکن اگر میرے اعمال قبول نہ ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی کتا مجھ سے اچھا ہے، کیونکہ کتا کم از کم حساب و کتاب سے تو بری ہے اور اس کے اعمال کا وزن نہیں ہوگا۔

واقعی اللہ کے مخلص بندوں کو دنیا کی تعریف، نام و نمود اور شہرت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انہیں تو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے اعمال کا کیا وزن ہوگا اور کیا قدر و قیمت ہوگی۔

(مواعظ عثمانی جلد اول ۶۴-۶۵-۶۶ - وعظ اخلاص پیدا کیجئے)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

04 Jan, 15:38


توحید عملی کا مطلب

~شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

توحید عملی کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعتقاد کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے یہ انسان کی عملی زندگی میں اس طرح رچ بس جائے کہ ہر آن اس کو یہ حقیقت مستحضر رہے کہ اللہ کے سوا کوئی شخص مجھ کو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی واجب الاطاعت ہے، مجھے اللہ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے، اللہ کے حکم کی اطاعت میں کسی بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا، یہ اعتقاد جب انسان کی زندگی میں رچ بس جاتا ہے تو اس کو صوفیاء کی اصطلاح میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو توحیدِ عملی کا مقام حاصل ہو گیا۔

اس توحید عملی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہر موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام کو پیشِ نظر رکھتا ہے، وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرے اس قدم سے اللہ راضی ہوگا یا ناراض ہو گا، کہیں ایسا تو نہیں کہ میرے اس عمل سے اللہ کی نافرمانی ہو جائے، اگر نافرمانی کا اندیشہ ہو تو وہ اس قدم سے باز رہتا ہے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہیں کھاتا، کسی سے امید نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف اگر کوئی شخص اس کے قدموں میں ساری دنیا جہاں کی دولت لاکر ڈھیر کر دے تو بھی وہ دولت اس کے پائے استقامت کو لغزش میں نہیں لا سکتی، وہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی نہیں کر سکتا، کوئی شخص زور اور زبردستی کی انتہا کر دے اور اس کو اپنے سامنے موت ناچتی نظر آ رہی ہو، لیکن اس کے باوجود وہ جانتا ہے کہ موت اور زندگی، شفاء اور مرض اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، اگر اس نے میرے لیے یہی وقت مقرر کیا ہے تو اس کو کوئی نہیں ٹلا سکتا اور اگر میری زندگی باقی ہے تو کوئی شخص مجھے موت کے حوالے نہیں کر سکتا، اس لیے وہ کبھی بھی کسی ڈر اور خوف کی بنا پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے روگردانی پر آمادہ نہیں ہوتا۔

اسی کو شیخ سعدی فرماتے ہیں :
موحّد کہ برپائے ریزی زرش
چہ شمشیر ہندی نہی برسرش
امید و ہراسش نباشد زکس
ہمیں است بنیادِ توحید و بس
( گلستان ص ۳۴۲)
موحد کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اگر تم اس کے پاؤں پر دنیا جہاں کا سونا ڈھیر کر دو یا اس کے سر پر ہندی تلوار لٹکا دوں
اسکو خدا کے سوا نہ کسی اور سے امید قائم ہوتی ہے، نہ خدا کے سوا کسی کا خوف ہوتا ہے اور یہی توحید کی بنیاد ہے۔

مواعظ عثمانی جلد اول - توحید باری تعالیٰ صفحہ ۴۸-۴۹-۵۰

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

04 Jan, 06:30


حلال کمانا فرض ہے اور حرام سے بچنا بھی فرض ہے۔ یہ تقویٰ کا اعلیٰ معیار ہے، یہ نہ ہو تو تقویٰ نہیں ہے۔ اکلِ حلال اور صدقِ مقام مومن کو صاحبِ کرامت بنا دیتا ہے۔ حلال خور جنت کی طرف اور حرام خور (حرام کھانے والا) جہنم کی طرف تیزی سے جارہا ہے۔

شیخ المشائخ مولانا حمیداللہ لون صاحب دامت برکاتہم


۰۳ رجب ۱۴۴۶ ھ
04 جنوری 2025

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

03 Jan, 05:49


ایک بار ایک شخص حاضر ہو کر افسوس کرنے لگے کہ میں اتنے روز دن بیمار رہا اور حرم میں نماز نصیب نہ ہوئی حضرت (حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ) صاحب نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عارف ہوتا ہے وہ حرم میں بلااختیار نماز نہ ملنے پر متاسف (رنجیدہ) نہیں ہوتا کیوں کہ طريق قرب مختلف ہیں اگر محبوب نے بجائے صلوٰۃ فی الحرم کے مرض کو طریق قرب تجویز فرمایا ہو تو اس شخص کا کیا منصب ہے کہ اپنی تجویز کو ترجیح دے۔

(ضمیمۂ کمالات امدادیہ کمال 12)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

29 Dec, 06:51


(سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ) جب کوئی مسئلہ علماء کے سامنے حقائق کا ارشاد فرماتے تو یہ بھی فرمادیا کرتے کہ بھائی میں ناخواندہ آدمی ہوں تم لوگ عالم ہو میرے قلب پر جو وارد ہوا اُس کو بیان کر دیا اگر کتاب و سنت کے خلاف ہونے سے اس میں کوئی غلطی ہو تو تم لوگ لحاظ و حجاب مت کیا کرو مجھے اطلاع کر دیا کرو ورنہ میں قیامت میں یہ کہہ دونگا کہ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا انھوں نے ظاہر نہیں کیا۔

فائدہ: ورع و حق پرستی و اتباع و تحقیق ظنیت الہام

اس سے حضرت (حاجی امداداللہ مہاجر مکی) صاحب کا کمال ورع اور حق پرستی اور اتباع شرع جو کچھ ثابت ہے ظاہر ہے ورنہ آج کل کے صوفی کھینچ تان کر خود شرع کو اپنے تصوف پر منطبق کرنا چاہتے ہیں یا شریعت کو صاف رد کر دیتے ہیں مگر حضرت صاحب نے شریعت کو متبوع اور اپنے الہام و وارد کو تابع بنایا جو کہ عین طریق محققین کا ہے اور اس میں یہ بھی ظاہر فرمادیا کہ الہام مثل وحی کے یقینی نہیں کیوں کہ یقینیات میں باہم تعارض نہیں ہوتا اور یہ بھی ظاہر فرمادیا کہ ایسے امور میں صوفیہ محتاج ہیں علماء کے بخلاف جہلۂ صوفیہ کے کہ علماء کی سخت تحقیر کرتے ہیں اور اپنے مریدوں کو ان سے نفرت دلاتے ہیں۔

(کمالات امدادیہ کمال 59)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

28 Dec, 14:36


موافقت سنت کا طبعی ہوجانا غایت درجہ کا کمال ہے۔

(کمالات امدادیہ - فائدہ حب خمول و کتمان حال و قوت انس باللہ - کمال 54)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

28 Dec, 09:34


سنت نبویہ مقبولانِ حق کی طبیعت بن جاتی ہے۔

(کمالات امدادیہ - فائدہ ورع و علو ہمت کمال 45)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

26 Dec, 13:21


اور اتباع سنت کا بے تکلف ہونے لگنا
اعلیٰ درجہ کی درویشی ہے۔

(کمالات امدادیہ - فائدہ مراعات اصحاب کمال 32)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

26 Dec, 13:11


جو شخص (حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ سے) عرض کرتا کہ حضرت ذکر سے کچھ نفع نہیں ہوتا تو آپ ارشاد فرماتے بندۂ خدا کیا ذکر خود نفع نہیں ہے اللہ کا نام لیتے ہو کیا یہ تھوڑی بات ہے۔

فائدہ: اس سے حضرت (حاجی) صاحب کی شانِ تحقیق اور نیز حسنِ تربیت ظاہر ہے۔ تحقیق تو یہ کہ بتلا دیا کہ ذکر خود مقصود ہے اور اس کو حقیر سمجھنا بڑی غلطی ہے۔
گفت آں اللہ تو لبیک ماست ویں نیاز و سوز ودردت پیک ماست
اور تربیت یہ کہ تجربہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ حالات اور کیفیات کو مقصود سمجھنے سے ساری عمر تشویش میں گذر جاتی ہے اور ذکر سے کچھ نفع نہیں ہوتا اور خود ذکر کو مقصود سمجھنے سے یکسوئی میسر ہوتی ہے جس سے حالات و واردات سب کچھ بتدریج نصیب ہو جاتے ہیں اور مقصودیت ذکر میں حضرت (حاجی) صاحب اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے
یا بم اورا یا نیابم، جستجوئے می کنم حاصل آید یا نیاید، آرزوئے می کنم

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

24 Dec, 04:41


ارشاد فرمایا کہ پھٹے پیوند زدہ کپڑے، ٹوٹے جوتے میرے نزدیک ہرگز ذلت نہیں ہاں ذلت یہ ہے کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرے خواہ ظاہراً یا باطناً کیونکہ بعض اوقات ظاہراً سوال نہیں کیا جاتا مگر دل میں سوال ہوتا ہے تو اسکا بھی اثر پڑتا ہے۔ حق تعالیٰ تو دلوں کے بھید اور اسرار پر مطلع ہیں وہ دلی سوال کا بھی وہی اثر مرتب فرما دیتے ہیں جو ظاہری سوال کا ہوتا ہے یعنی مخاطب کے نزدیک ذلت و خواری۔

(مجالسِ حکیم الامت مع ملفوظات از مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ صفحہ 354)

پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ

Whatsapp: https://chat.whatsapp.com/IthggNQBhXk2gtnCggD0Zp

Telegram: https://t.me/taleematashrafiya

Contact @talemaateashrafiya_bot

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

24 Dec, 03:47


English translation of Malfozaat (sayings) of Hakeemul Ummah Maulana Ashraf Ali Thanwi RH

Part nine

https://t.me/taleematashrafiya

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

24 Dec, 03:47


English translation of Malfozaat (sayings) of Hakeemul Ummah Maulana Ashraf Ali Thanwi RH

Part eight

https://t.me/taleematashrafiya

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

24 Dec, 03:47


English translation of Malfozaat (sayings) of Hakeemul Ummah Maulana Ashraf Ali Thanwi RH

Part seven

https://t.me/taleematashrafiya

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

24 Dec, 03:47


English translation of Malfozaat (sayings) of Hakeemul Ummah Maulana Ashraf Ali Thanwi RH

Part six

https://t.me/taleematashrafiya

مشربِ حکیم الامتؒ | Mashrab-e-Hakeemul Ummat

24 Dec, 03:47


English translation of Malfozaat (sayings) of Hakeemul Ummah Maulana Ashraf Ali Thanwi RH

Part five

https://t.me/taleematashrafiya

1,298

subscribers

615

photos

200

videos