تحقیقات @tahqeqat Channel on Telegram

تحقیقات

@tahqeqat


اس چینل پر فی زماننا مشہور ومعروف روایات کی تحقیقات بقلم ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری حفظہ الله سابرکانٹھا گجرات الھند آپ حضرات کی خدمت میں پیش کی جائیگی۔

تحقیقات (Urdu)

تحقیقات چینل پاکستان اور ہندوستان سے عظیم ادبی روایات کی تحقیقات کرنے والے افراد کے لیے ایک معقول مقام ہے۔ یہاں عوامی قبولیت کے حصہ بننے والے روایات کی تحقیقات کرنے والے سرگرم افراد کو تعلیم، معلومات، اور دیگر تجزیے فراہم کی جاتی ہیں۔ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری حفظہ الله سابرکانٹھا گجرات الھند کی تحقیقات اس چینل پر دستیاب ہیں۔ اس چینل پر بہترین تحقیقاتی مواد پیش کیا جا رہا ہے جو قدیم روایات کی اصلیت اور حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ یہاں آپ حضرات کو اصل اور سچی معلومات فراہم کی جائیگی۔ کیا آپ دنیا کے مختلف روایات سے متعلقہ حقیقتوں کی تلاش میں ہیں؟ کیا آپ ادبی خزانوں کے دلچسپ راز اور روایات پر حساب کتاب کرنا چاہتے ہیں؟ تو تحقیقات چینل ہی آپ کے لیے ہے۔ اب ہمارے ساتھ جڑ کر آسانی سے ان معلومات کا استفادہ حاصل کریں اور دنیا بھر کی قدیم روایات کے راز کو کھولیں۔

تحقیقات

11 Jul, 03:56


*متمنی حضرات درج ذیل دو نمبروں میں سے کسی ایک نمبر پر اپنا پورا تعارف ارسال کریں۔ (نام، والد کا نام، گاؤں، شہر، تحصیل، ضلع وغیرہ کا نام، حالیہ مصروفیت وغیرہ)*
+919428359610
+916354457400
اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت تک اپنے دین متین کی خدمت کے لئے قبول فرمائے، ہمیں اس کام میں اخلاص نصیب فرمائے، اور ہمیں ہمت وطاقت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
*پیش کش: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*
سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند
*خادم التدریس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات (الھند)*
رقم الاتصال: 919428359610+

تحقیقات

11 Jul, 03:56


https://mohassantajpuri.blogspot.com/2024/07/blog-post.html


*( "تخریج حدیث" ہم حدیث کیسے تلاش کریں؟ آن لائن کورس)*

*پانچویں بیچ کا آغاز*

*صرف پانچ مہینوں کے لیے۔*

*مدرس: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری (سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند)*
*استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس میں شک نہیں کہ اسنادی پہلو سے کسی حدیث کا مقام ومرتبہ جاننے کے لئے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ مطلوب حدیث ذخیرۂ حدیث میں کہاں کہاں ہے؟ اور کن کن سندوں سے مروی ہے؟ جب تک ممکنہ حد تک پورے ذخیرۂ حدیث سے حدیث کو کھنگال کر حدیث کے اطراف والفاظ سامنے نہیں لائے جائینگے تب تک اس حدیث کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، لہذا اس اہمیت وافادیت کے پیش نظر فن تخریج اور اس کے قواعد وطرق سے واقفیت ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو علوم شرعیہ سے بحث کرے؛ تاکہ وہ جان سکے کہ حدیث کی مصادر اصلیہ تک کیسے پہنچا جاۓ، خصوصا علوم حدیث سے بحث کرنے والے کے لیے اور بھی ضروری ہے کہ وہ اس فن میں واقفیت رکھے؛ تاکہ ائمہ مصنفین کے مصادر اصلیہ کی احادیث تک پہنچ سکے اور دوسروں کی رہنمائی کر سکے، اور کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی حدیث کو روایت کرے یا اس سے استدلال کرے جب تک کہ اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ کس مصنف نے اس حدیث کو سند کے ساتھ اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، اس لیے ہر محقق اور علوم اسلامیہ سے بحث کر نے والے شخص کے لیے فن تخریج سے واقفیت انتہائی ضروری ہے۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ فضلائے مدارس و جامعات کو احادیث تلاش کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور اس کی وجہ مصادرحدیث کے موضوع نہج اور اندازے ترتیب سے ناواقفیت ہوتی ہے۔
لہذا اسی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض احباب مدارس کے اصرار پر بندۂ عاجز نے *آن لائن* تخریج الحدیث کورس کا آغاز کیا ہے، اور الحمد للہ یہ پانچویں بیچ کا آغاز ہورہا ہے، جس میں ان شاءاللہ *تین چیزوں پر زیادہ توجہ دلائی جائے گی:*
*١- تعریف تخریج حدیث*
*٢- فوائد تخریج حدیث*
*٣- طرق تخریج حدیث*
*اس میں خصوصی طور پر دو طریقوں کا ذکر ہوگا*
*(١) کتب کے ذریعے تخریج کرنا اس میں پھر کل چھ 6 طریقے ہیں مثلاً:*
*حدیث کا صرف کوئی ایک لفظ یاد ہے تو حدیث کیسے تلاش کریں؟*
*صرف حدیث کے راوی اعلی (صحابی یا تابعی) کا نام یاد ہے باقی کچھ معلوم نہیں تو کن کتب کی مدد سے حدیث ملے گی؟*
*حدیث کا صرف پہلا جملہ یاد ہے تو حدیث تک رسائی کے لئے کن کتب کی طرف رجوع کریں؟*
*حدیث کے بارے میں کچھ معلوم نہیں صرف موضوع ذہن میں ہے مثلا نماز، زکوۃ، جہاد، صبر، شکر وغیرہ تو حدیث تک کون سی کتب پہنچا سکتی ہیں؟*
*حدیث کا صرف پہلا لفظ یاد ہے تو طلب حدیث میں کن مراحل سے گزریں؟*
*صرف متواتر حدیثیں کہاں لکھی ہوئی ہیں؟*
*صحیح احادیث کے مآخذ کون سے ہیں؟*
وغیرہ ان چھ طریقوں پر مفصل کلام مع تعارف کتب واجراء ان شاءاللہ پیش کیا جائے گا۔

*(٢) جدید آلات اور سافٹ ویئر کے ذریعے تخریج کرنا، اس میں مکمل احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام پہلوں پر تشفی بخش اور مفصل گفتگو ان شاءاللہ کی جائے گی، اور ان جدید آلات کے ذریعے تخریج کیسے کی جاتی ہے؟ اور کن کن احتیاطات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؟ سکھایا جائے گا۔ نیز ساتھ میں کم از کم سو سے زائد مصادر کتب اصلیہ وشبہ اصلیہ و کتب غیر اصلیہ کا مفصل تعارف بھی ان شاءاللہ العزیز بتلایا جائے گا۔*
*اہم خوبی:- ان تمام طرق کو مع مذکورہ کتب سے تخریج کرنے کا سہل اور آسان طریقہ مع اجراء ان شاءاللہ العزیز بتلایا جائے گا۔*
*اسباق کی ترتیب:-
*متمنی حضرات کے لیے -ان شاءاللہ- ایک مخصوص گروپ بنایا جائے گا۔ (ہفتے میں پانچ اسباق ہوں گے) اور ان اسباق کا اسکرین ریکارڈنگ اپنے اسی مخصوص گروپ میں ارسال کیا جائے گا۔ نیز ساتھ میں ان اسباق کے متعلق تمرینی سوالات ارسال کیے جائیں گے، جن کے جوابات لکھ کر میرے پرسنل نمبر پر ارسال کرنا ہوگا، اور تمرینی مشق کے طور پر وقتاً فوقتاً روایات ارسال کی جائیں گی، جن روایات کو اپنی صوابدید کے مطابق تلاش کرکے میرے پرسنل نمبر پر ارسال کرنا ہوگا۔*
قوی امید تو یہی ہے کہ ان اسباق کا سلسلہ ان شاءاللہ پانچ مہینوں میں پورا ہوجائے گا، اگر یہ اسباق پانچ مہینوں میں مکمل نہیں ہوسکے تو ان شاءاللہ ان بقیہ اسباق کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ فاللہ الموفق والمعین۔
*اسباق ان شاءاللہ العزیز 21/ جولائی/2024 بروز اتوار سے شروع ہوجائیں گے۔*
کل کورس کی فیس:- 1000₹
*اہم نوٹ:- پاک والے احباب سے گزارش ہے کہ کچھ خاص احتیاط کی بناء پر وہ حضرات بندے کو اس کورس کو لیکر کوئی مسیج نہ کریں۔ بقیہ حضرات کے لیے ان شاءاللہ حتی الوسع ممکنہ کوشش کی جائے گی۔*

تحقیقات

10 Jul, 03:01


*اپنے اپنے گروپ میں ارسال کرنے کی ادباً گزارش ہے۔*

*من جانب: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*

تحقیقات

10 Apr, 10:26


’’سوال:قرآن مجید کی متعدد آیات ومن ورائہم برزخ الیٰ یوم یبعثون اور انہم الیہا لایرجعون وغیرہ سے ثابت ہوتاہے کہ کسی فردِ بشر کی روح بھی عالمِ وجود سے انتقال کرلینے کے بعد لوٹ کر واپس نہیں آسکتی ہے، فتاویٰ بزازیہ کی عبارت (من قال ارواح المشائخ حاضرۃ ، یکفر) سے یہی واضح ہوتاہے کہ روحیں ہرگز ہرگز نہیں آتی ہیں، اندر یں صورت معراج کی شب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا بیت المقدس میں (مسجدِ اقصیٰ) عام پیغمبروں کی ارواح کی کرنے کی کیا کیفیت ہے جب کہ کوئی روح بمطابق عقیدہ اہل سنت والجماعت دنیا میں واپس نہیں آسکتی ہے ان روحوں کے آنے کا کیا مطلب ہے؟ جواب دیں۔
الجواب وباللہ التوفیق
جواب: شب معراج میں عالمِ مثال میں بھی امامتِ انبیاء کے مسئلہ کا محتمل ہے اور روح مع الجسد بھی باذنہ تعالیٰ محتمل ہے، علماء کے اقوال دونوں ہیں، روح المعانی وروح البیان۔ نیز ارواح کا لوٹ کر دنیا کی طرف آنا باختیارہ ممنوع ہے نہ کہ بحکمِ تعالیٰ۔ تیسرے روح جب اس عالمِ ناسوت سے منتقل ہوگئی اورجسدِ عنصری سے آزاد ہوگئی تو اب یہ عناصر باذنہ اس کے تصرف میں حاصل نہیں اور نہ ان کو ان عالمِ عنصری اوراس کے احکام پرقیاس من کل الوجوہ کرنا صحیح ہوگا، بلکہ اس کا ضابطہ اور قاعدہ یہ ہوگا کہ وہ حکمتِ علمِ خداوندی پر محمول ہوگا جن جن صورتوں میں ثبوت ہوگا ان ان صورتوں میں تسلیم ہوگا جن جن صورتوں میں انکار ہوگا ممنوع کہیں گے، اور جن جن مواقع میں سکوت ہوگا ہم بھی سکوت کریں گے، اس تقریر سے تمام جزئیاتِ نصوصیہ منطبق ہوجائیں گے۔ بزازیہ کے جملے کا محمل اسی عالمِ عنصری کے بارے میں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ : الاحقر محمد نظام الدین غفرلہٗ‘‘
الجواب صحیح : سید احمد علی سعیدمفتی
نائب مفتی ۲۴؍۲؍۱۳۸۷ھ۔

*رقمه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*
سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

*استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات*

ٹیلیگرام چینل ↙️

https://t.me/Tahqeqat

تحقیقات

10 Apr, 10:26


کیا اس حدیث کو شیخ ابن الحسن بن علی نے اپنی کتاب میں۔ اب عرض یہ ہے کہ صحیح معاملہ شرعاً کیا ہے؟
الجواب : اول تو اس کی سند قابلِ تحقیق ہے۔ دوسرے برتقدیرِ ثبوت مقید ہے اذن کے ساتھ اورحکم نفی دعویٰ عموم کے تقدیرپر ہے پس دونوں میں تعارض نہیں‘‘ ۔(۱)
۲۶/جمادی الاولیٰ۱۳۵۳؁ھ(النور ص:۹ماہ جمادی الثانی۱۳۵۴؁ھ)

*امداد الفتاویٰ جدیدکے حاشیہ میں ہے:*

’’ یہ مسئلہ بہت زیادہ قابل توجہ ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ نے امداد المفتیین ترتیب جدید مکتبہ دار الاشاعت کراچی ص:۱۲۱تا۱۲۴؍ میں عمر وبکر کے معارضاتی سوال کے جواب میں کافی لمبا جواب تحریر فرمایا ہے، وہ تمام روایات بھی اس میں ہیں جن میں اس بات کو ثابت کیا جاتا ہے کہ مردوں کی روحیں شبِ جمعہ، یومِ عاشوراء، یومِ عید وغیرہ میں اپنے گھر آکر سوالات کرتی ہیں ۔
اور فتاوی دارالعلوم جدید ۵؍۴۵۹؍ میں اس کی تردید ہے اور حضرت مولانا عبد الحیؒ کی بات کی تائید ہے، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل۱؍۶۰۶، میرٹھ۳؍۳۵۶؍ میں سائل نے سوال کیا کہ امداد المفتیین میں بکر نے جو حدیثیں اس کے ثبوت میں پیش کی ہیں وہ صحیح ہیں یانہیں؟ تو حضرت الاستاد مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے جواب دیا: وہ روایات اس پایہ کی نہیں کہ اس سے کسی ضروری مسئلہ کا اثبات کیاجا سکے، آگے حضرت اپنی طرف سے جواب میں یہ الفاظ لکھتے ہیں : میت کے انتقال کے بعد اپنے گھروالوں اور متعلقین سے کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور وہ متعلقین سے امیدوار رہتی ہیں، ہوتا یہ ہے کہ وہ امید اور تعلق ہی لوگوں کوتمثل ہو کر ظاہر ہوجاتے ہیں، مثلاً یہ کہ روح دروازہ پر کھڑی ہے کھانا مانگتی ہے اور ضروریات طلب کرتی ہے، یہ حقیقت نہیں ہوتی؛ بلکہ تمثل ہوتا ہے؛ کیوں کہ ارواح کو اس عالم میں دنیاوی ضرورت کی نہ تو حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ان کے لیے وہاں مفید ہوسکتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے طور پر جو چیزیں میت کی روح کو بخشی جاتی ہیں وہ بھی اس کو اصلی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اخروی نعمتوں کی صورت میں متشکل ہوکر پیش ہوتی ہے ‘‘۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ڈابھیل۱؍۶۰۷، میرٹھ۳؍۳۵۷)
حضرت تھانویؒ اشرف الجواب میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ اگر تنعم میں مردہ ہے تو اسے یہاں آکر لیتے پھرنے کی ضرورت کیاہے؟ اور اگر معذب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیوں کر چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو لپٹا پھرے، اشرف الجواب مکتبۃ دار الکتاب دیوبند ۲؍۱۵۶، ‘‘.

’’جواب:۳۰؍ اس سے معلوم ہوا کہ حضرتؒ اس کی تردید فرماتے ہیں ، فتاوی رشیدیہ میں حضرت گنگوہیؒ نے تین جواب لکھے ہیں، تینوں میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مردوں کی روحوں کے گھر پر آنے کی روایتیں واہیہ ہیں، اس پر عقیدہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ قدیم زکریا بکڈپو۲۴۸؍‘‘.

اس جواب پر حضرت مولانا سید احمد دہلویؒ مدرس دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتویؒ اور مولانا احمد ہزارویؒ، مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ، مولانا عبد ﷲ انصاریؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا ابو الکلامؒ، محمد اسحاق فرخ آبادیؒ وغیرہم کے دستخط ثبت ہیں ۔
دوسرے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’شبِ جمعہ اپنے گٰھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے‘‘. فتاوی رشیدیہ دارالکتاب دیوبند ص:۲۴۹۔
شبیر احمد قاسمی عفا ﷲ عنہ‘‘.

*فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:*

’’مؤمنین کی روحوں کا شبِ جمعہ اپنے گھرآنا
سوال:ارواح مؤمنین ہر جمعہ کی شب کو اپنے اہل و عیال میں آتی ہیں یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس طرح کا عقیدہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:ارواحِ مؤمنین کا شبِ جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر آنا کہیں ثابت نہیں ہوا، یہ روایات واہیہ ہیں۔ اس پر عقیدہ کرنا ہرگز نہیں چاہیے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ الراجی رحمۃ ربہ رشید احمد گنگوہی‘‘۔
الاجوبۃ صحیحۃ ابوالخیرات سید احمد عفی عنہ،مدرسن دوم مدر عالیہ دیو بند
الاجوبۃ صحیحۃ محمد یعقوب النا نوتوی عفی عنہ،مدرسہ اول مدرسہ عالیہ دیو بند
الاجوبۃ صحیحۃ،احمد ہزاروی عفی عنہ
الاجوبۃ کلہا صحیحۃ، عزیز الرحمن الدیوبندی کان اللہ لہ (وتوکل علی العزیز الرحمن)
الاجوبۃ صحیحۃ۔ الاجوبۃ صحیحۃ محمد محمود عفی عنہ ۔ الٰہی عاقبت محمود گردان۔ الاجوبۃ کلہا صحیحۃ ابوالمکارم
عبداللہ انصاری عفی عنہ۔ مدرس مدر عالیہ دیو بند۔ محمد اسحاق فرخ آبادی عفی عنہ۔

وفیہ ایضا:

*’’مردہ کی روح کا شبِ جمعہ گھر آنا*
سوال:بعض علماء کہتے ہیں کہ مردہ کی روح اپنے مکان پر شبِ جمعہ کو آتی ہے اور طالبِ خیرات و ثواب ہوتی ہے اور نگاہوں سے پوشیدہ ہوتی ہے یہ امر صحیح ہے یا غلط؟
جواب:یہ روایات صحیح نہیں. فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘۔
’’شبِ جمعہ مردوں کی روحوں کا اپنے مکانوں میں آنا
سوال:شبِ جمعہ مردوں کی روحیں اپنے گھر آتی ہیں یا نہیں، جیسا کہ بعض کتب میں لکھا ہے؟
جواب:مردوں کی روحیں شبِ جمعہ میں اپنے اپنے گھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے‘‘۔

*نظام الفتاویٰ میں ہے:*

تحقیقات

10 Apr, 10:26


*تحقیقات سلسلہ نمبر 65*

بلاگ لینک:-
https://mohassantajpuri.blogspot.com/2021/12/blog-post.html

*سوال:* درج ذیل روایت ہے، اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے۔ کیا یہ حدیث قابل عمل ہے؟

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
*جب عید کا دن ہوتا ہے نیز دسویں کا دن، ماہ رجب المرجب کا پہلا جمعہ، شعبان کی پندرہویں رات اور جمعہ کی رات ہوتی ہے تو ارواح اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اپنے گھروں کے دروازوں کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں، اور کہنے لگتی ہیں: اس رات میں ہم پر رحم فرمائیں صدقے سے، اگرچہ روٹی کے ایک ٹکڑے سے، اس لیے کہ ہم ابھی اس کے محتاج ہیں، پس اگر وہ کسی چیز کو نہیں پاتیں تو حسرت کے ساتھ لوٹ جاتی ہیں۔*

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
*الجواب بعون الملک الوھاب:-* یہ روایت تلاش بسیار کے بعد بھی معتمد کتب احادیث مبارکہ میں نہیں ملی، نہ صحاح میں اور نہ ضعفاء میں، حتیٰ کہ موضوعات میں بھی نہیں ملی، لہذا جب تک یہ صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ نہیں مل جاتی تب تک اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا یا اس کو قابل عمل سمجھنا درست اور صحیح نہیں ہے۔

ہاں البتہ یہ روایت بغیر سند کے *دقائق الأخبار فی وصف الجنۃ والنار للإمام عبدالرحیم بن احمد القاضي* میں ہے، لکین وہ کتاب معتبر نہیں ہے، چونکہ اس میں سب روایات قابل غور اور بے سند نقل کردی گئی ہیں، الحمد للہ کتاب کو دیکھنے کا موقع میسر ہوا اس میں سب روایات بے سند اور قابل غور ہیں، موضوع اور من گھڑت روایات ہیں، لہذا سوال میں مذکور روایت کو نشر کرنے اور قابل للاعتبار سمجھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، نیز اس میں کچھ الفاظ بھی اس طرح سے ہیں جن سے ان کا حدیث میں ہونا محال اور مشکل معلوم ہوتا ہے، جیسے کہ اس میں جو اوقات ذکر کیے گئے ہیں وہ یوم اور لیل ( رات ودن) دونوں ہیں پھر جب ارواح کا قول منقول ہے وہاں لکھا ہے: *ویقولون ترحموا علينا في الليلة* تو اس میں صرف رات کا ذکر ہے، نیز اور بھی کچھ چیزیں قابل ذکر ہیں، لہذا ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ثابت نہیں ہوسکتیں، لہذا ان کی نسبت نہ کرنا اور اجتناب کرنا لازمی اور ضروری ہے۔

*اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇*
*عن ابن عباس إذا کان یوم العید ویوم العشر ویوم جمعۃ الأولی من شھر رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلۃ الجمعۃ یخرج الأموات من قبورھم ويقفون على أبواب بيوتهم ویقولون ترحموا علينا في الليلة بصدقة ولوبلقمة من خبز فإنا محتاجون إليها فإن لم يجدوا شيئا يرجعون بالحسرۃ.*

*دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار پر تبصرہ:*

اسلام ویب، فتوی نمبر:45458 پر"دقائق الأخبار" سے متعلق سوال کے جواب میں لکھا گیا کہ
"دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار" میں قصص اور آخرت سے متعلق خبریں یعنی: بعثت، حساب اور جنت کی صفات اور نعمتیں اور جہنم کے اوصاف اور عذاب کا تذکرہ ہے اور بلاشک و شبہ اس کتاب میں ذکر کردہ بہت سی حکایات اور قصص کسی معتبر شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ یہ باتیں ان امور غیبیہ میں سے ہیں، جن میں رائے کو کوئی دخل نہیں ہے، لہذا جو بات صحیح یا حسن ہوگی، وہی قابل قبول ہوگی۔

ایک اور سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ اس کتاب کی نسبت بہت سے مولفین کی طرف کی گئی ہے، بعض نے اس کو امام سیوطی کی طرف منسوب کیا اور بعض نے اس کو امام غزالی کی طرف اور بعض نے امام عبدالرحیم بن احمد قاضی کی طرف نسبت کی ہے، اور اکثریت نے اس کی نسبت آخر الذکر کی طرف کی ہے۔

*کتب فتاوی میں اس کے بارے میں درج ذیل تفصیل ملتی ہے:*

*آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:*

کیا روحوں کا دنیا میں آنا ثابت ہے؟
س… کیا روحیں دنیا میں آتی ہیں یا عالمِ برزخ میں ہی قیام کرتی ہیں؟ اکثر ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں اپنے اعزہ کے پاس آتی ہیں، شبِ برأت میں بھی روحوں کی آمد کے بارے میں سنا ہے۔ آپ اس مسئلے کی ضرور وضاحت کیجیے، مرنے کے بعد سوم، دسواں اور چہلم کی شرعی حیثیت کی وضاحت بھی بذریعہ اخبار کردیجیے؛ تاکہ عوام الناس کا بھلا ہو۔

ج… دنیا میں روحوں کے آنے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث ہی وارد ہے۔ سوئم، دسواں اور چہلم خودساختہ رسمیں ہیں، ان کی مکمل تفصیل آپ کو میری کتاب “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں ملے گی۔

*امداد الفتاویٰ جدید میں ہے:*

*’’روحوں کا شب جمعہ میں گھر آنے کی بات کہاں تک صحیح ہے؟*
سوال(۷۵۳):قدیم۱/۷۶۸-فتاویٰ رشیدیہ حصہ دویم ص:۹۸پرایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مردوں کی روحیں شب جمعہ میں گھر نہیں آتیں یہ روایت غلط ہے اور اس کے خلاف نورالصدور ص۱۶۸پر بروایت ابوہریرہؓ بایں فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ شبِ جمعہ کو مؤمنوں کی روحیں اپنے اپنے مکانوں کے مقابل کھڑی ہو کر پکارتی ہیں کہ ہم کو کچھ دو اور ہر روح ہزار مردوں اورعورتوں کو پکارتی ہے، روایت

تحقیقات

11 Mar, 08:26


📚 باسمہ تعالیٰ 📚

*(تحقیقات سلسلہ نمبر 62)*

بلاگ لینک:-
https://mohassantajpuri.blogspot.com/2021/04/blog-post.html

12 / اپریل 2021 بروز پیر

*🔘((رمضان کے چاند دیکھنے کے بعد عشاء کی نماز تک سروۂ فتح پڑھنے کی فضیلت کے متعلق مکمل تحقیق))*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

*سؤال :-* *درج ذیل ایک فضیلت ذکر کی گئی ہے، اس کی تحقیق مطلوب ہے؟*

فضیلت:- *جو شخص رمضان المبارک کے چاند دیکھنے کے بعد عشاء کی نماز تک سورۂ فتح پڑھ لے تو اس کے لیے سارا سال رزق لکھ دیا جاتاہے*
اس کی کیا حقیقت ہے؟

سائل:- قاری صفوان صاحب کاکوسی مد ظلہ
استاذ قراءت وتجوید:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

فقط والسلام مع الاحترام۔۔۔

*الجواب بعون الملك الوهاب :*
تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں یہ الفاظ کتب احادیث میں نہیں ملے، نہ صحاح میں نہ ضعفاء میں، ہاں البتہ مجربات اکابرین میں سے ہے، حضرت انور شاہ کشمیری رحمۃاللہ علیہ نے اپنی عملیات کی کتاب گنجینۂ اسرار میں اسکو تحریر فرمایا ہے… لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کیے بغیر اور اس کو سنت سمجھے بغیر عمل کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کی پابندی نہ کی جائے، اور نہ اس کے پڑھنے کو لازم سمجھا جائے۔

ہاں البتہ اس جیسی ایک روایت کتب احادیث میں موجود ہے، لکین اس پر غور کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی موضوع اور من گھڑت روایت ہے، اس کی نسبت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔

اس کا ملخص۔۔۔۔ 👈مدار الرواية على المسعودي ، وقد اختَلَط في آخر عمره ، وممن روى عنه بعد تغيُّره : يزيد بن هارون ، كما في هذه الرواية . ثم إن المسعودي لم يسند الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم ولا إلى غيره ، بل قال : "بلغني" وهذا يدل على انقطاع السند ، ولا ندري هل هي مرفوعة أو موقوفة . فالرواية ضعيفة لأجل الانقطاع واختلاط المسعودي ، ولا يصح نسبتها إلى الرسول صلى الله عليه وسلم .

خلاصۂ کلام:- نعیم بٹ صاحب مد ظلہم نے اپنے بیان میں جو بات بتائی ہے، اس کا حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، مجربات کے قبیل سے ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے بغیر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔ ھذا ما ظھر لی۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

*📖 الأجوبة المستحكمة في سلسلة الأحاديث الضعيفة أوالموضوعة 📖*

✍️ *كتبه : ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری حفظہ الله ورعاہ (سابرکانٹھا گجرات الھند)*

مدرس : جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا، سابرکانٹھا، گجرات (الھند)

📜 *ٹیلیگرام چینل* : ↙️
https://t.me/Tahqeqat

تحقیقات

03 Jan, 16:31


*اپنے اپنے گروپ میں ارسال کرنے کی ادباً گزارش ہے۔*






جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ

تحقیقات

31 Dec, 15:59


اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت تک اپنے دین متین کی خدمت کے لئے قبول فرمائے، ہمیں اس کام میں اخلاص نصیب فرمائے، اور ہمیں ہمت وطاقت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

*پیش کش: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*
سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

*خادم التدریس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات (الھند)*
رقم الاتصال: 919428359610+

تحقیقات

31 Dec, 15:59


*( "تخریج حدیث" ہم حدیث کیسے تلاش کریں؟ آن لائن کورس)*
*چوتھی بیچ کا آغاز*

*صرف پانچ مہینوں کے لیے۔*

*مدرس: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*

*خادم التدریس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات*

https://mohassantajpuri.blogspot.com/2023/12/blog-post.html

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس میں شک نہیں کہ اسنادی پہلو سے کسی حدیث کا مقام ومرتبہ جاننے کے لئے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ مطلوب حدیث ذخیرۂ حدیث میں کہاں کہاں ہے؟ اور کن کن سندوں سے مروی ہے؟ جب تک ممکنہ حد تک پورے ذخیرۂ حدیث سے حدیث کو کھنگال کر حدیث کے اطراف والفاظ سامنے نہیں لائے جائینگے تب تک اس حدیث کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، لہذا اس اہمیت وافادیت کے پیش نظر فن تخریج اور اس کے قواعد وطرق سے واقفیت ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو علوم شرعیہ سے بحث کرے؛ تاکہ وہ جان سکے کہ حدیث کی مصادر اصلیہ تک کیسے پہنچا جاۓ، خصوصا علوم حدیث سے بحث کرنے والے کے لیے اور بھی ضروری ہے کہ وہ اس فن میں واقفیت رکھے؛ تاکہ ائمہ مصنفین کے مصادر اصلیہ کی احادیث تک پہنچ سکے اور دوسروں کی رہنمائی کر سکے، اور کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی حدیث کو روایت کرے یا اس سے استدلال کرے جب تک کہ اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ کس مصنف نے اس حدیث کو سند کے ساتھ اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، اس لیے ہر محقق اور علوم اسلامیہ سے بحث کر نے والے شخص کے لیے فن تخریج سے واقفیت انتہائی ضروری ہے۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ فضلائے مدارس و جامعات کو احادیث تلاش کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور اس کی وجہ مصادرحدیث کے موضوع نہج اور اندازے ترتیب سے ناواقفیت ہوتی ہے۔
لہذا اسی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض احباب مدارس کے اصرار پر بندۂ عاجز نے *آن لائن* *تخریج الحدیث* کورس کا آغاز کیا ہے، اور الحمد للہ یہ *چوتھی بیچ* کا آغاز ہورہا ہے، جس میں ان شاءاللہ *تین چیزوں پر زیادہ توجہ دلائی جائے گی:*

*١- تعریف تخریج حدیث*
*٢- فوائد تخریج حدیث*
*٣- طرق تخریج حدیث*

*اس میں خصوصی طور پر دو طریقوں کا ذکر ہوگا*
*(١) کتب کے ذریعے تخریج کرنا اس میں پھر کل چھ 6 طریقے ہیں مثلاً:*
*حدیث کا صرف کوئی ایک لفظ یاد ہے تو حدیث کیسے تلاش کریں؟*
*صرف حدیث کے راوی اعلی (صحابی یا تابعی) کا نام یاد ہے باقی کچھ معلوم نہیں تو کن کتب کی مدد سے حدیث ملے گی؟*
*حدیث کا صرف پہلا جملہ یاد ہے تو حدیث تک رسائی کے لئے کن کتب کی طرف رجوع کریں؟*
*حدیث کے بارے میں کچھ معلوم نہیں صرف موضوع ذہن میں ہے مثلا نماز، زکوۃ، جہاد، صبر، شکر وغیرہ تو حدیث تک کون سی کتب پہنچا سکتی ہیں؟*
*حدیث کا صرف پہلا لفظ یاد ہے تو طلب حدیث میں کن مراحل سے گزریں؟*
*صرف متواتر حدیثیں کہاں لکھی ہوئی ہیں؟*
*صحیح احادیث کے مآخذ کون سے ہیں؟*
وغیرہ ان چھ طریقوں پر مفصل کلام مع تعارف کتب واجراء ان شاءاللہ پیش کیا جائے گا۔

*(٢) جدید آلات اور سافٹ ویئر کے ذریعے تخریج کرنا، اس میں مکمل احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام پہلوں پر تشفی بخش اور مفصل گفتگو ان شاءاللہ کی جائے گی، اور ان جدید آلات کے ذریعے تخریج کیسے کی جاتی ہے؟ اور کن کن احتیاطات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؟ سکھایا جائے گا۔ نیز ساتھ میں کم از کم دو سو سے زائد مصادر کتب اصلیہ وشبہ اصلیہ و کتب غیر اصلیہ کا مفصل تعارف بھی ان شاءاللہ العزیز بتلایا جائے گا۔*

*اہم خوبی:- ان تمام طرق کو مع مذکورہ کتب سے تخریج کرنے کا سہل اور آسان طریقہ مع اجراء ان شاءاللہ العزیز بتلایا جائے گا۔*

*اسباق کی ترتیب:-*
*متمنی حضرات کے لیے -ان شاءاللہ- ایک مخصوص گروپ بنایا جائے گا۔ (ہفتے میں پانچ اسباق ہوں گے) اور ان اسباق کا اسکرین ریکارڈنگ اپنے اسی مخصوص گروپ میں ارسال کیا جائے گا۔ نیز ساتھ میں ان اسباق کے متعلق تمرینی سوالات ارسال کیے جائیں گے، جن کے جوابات لکھ کر میرے پرسنل نمبر پر ارسال کرنا ہوگا، اور تمرینی مشق کے طور پر وقتاً فوقتاً روایات ارسال کی جائیں گی، جن روایات کو اپنی صوابدید کے مطابق تلاش کرکے میرے پرسنل نمبر پر ارسال کرنا ہوگا۔*

قوی امید تو یہی ہے کہ ان اسباق کا سلسلہ ان شاءاللہ پانچ مہینوں میں پورا ہوجائے گا، اگر یہ اسباق پانچ مہینوں میں مکمل نہیں ہوسکے تو ان شاءاللہ ان بقیہ اسباق کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ فاللہ الموفق والمعین۔

*اسباق ان شاءاللہ العزیز 06/ جنوری/2024 بروز سنیچر سے شروع ہوجائیں گے۔* ان شاءاللہ

کل کورس کی فیس:- 1000₹

*اہم نوٹ:- پاک والے احباب سے گزارش ہے کہ کچھ خاص احتیاط کی بناء پر وہ حضرات بندے کو اس کورس کو لیکر کوئی مسیج نہ کریں۔ بقیہ حضرات کے لیے ان شاءاللہ حتی الوسع ممکنہ کوشش کی جائے گی۔*

*متمنی حضرات درج ذیل دو نمبروں میں سے کسی ایک نمبر پر اپنا پورا تعارف ارسال کریں۔ (نام، والد کا نام، گاؤں، شہر، تحصیل، ضلع وغیرہ کا نام، حالیہ مصروفیت وغیرہ)*
+919428359610
+916354457400

تحقیقات

29 Oct, 10:35


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آپ محترم حضرات بخیر و عافیت ہوں گے۔

اللہ تعالی آپ حضرات کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

تخریج حدیث کے ان باقی اسباق کے ساتھ ساتھ *اجرائے علوم حدیث* کا کورس شروع کرنے کی بعض احباب کی طرف سے کافی عرصے سے گزارش ہے۔

*آپ حضرات اس سلسلے میں اپنی مفید آراء پیش فرمائیں۔*


بندہ اس کورس کو تین حصوں (مراحل) میں منقسم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے:

(١) المرحلۃ الأولی: اولاً جمیع مصطلحات حدیث کو ایک جدول سے سمجھایا جائیں۔ جس جدول کو بندے نے خود تیار کیا ہے۔ بحمدہ سبحانہ وتعالی۔ جس میں ہر اصطلاح کو ایک ایک مثال سے پیش کیا جائیں۔

(٢) المرحلۃ الثانیہ: تیسیر مصطلح الحدیث لمحمود الطحان صاحب کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام مصطلحات حدیث کا اجراء کرایا جائیں۔
پھر اس اجراء کو تین مراحل میں منقسم کیا جائیں: (١) حدیث متواتر حدیث مشہور وغیرہ کا اجراء۔
(٢) اخبار آحاد کا اجراء صرف کتب تسعہ سے (باعتبار صفات روات، باعتبار مخالفت روات، باعتبار تعارض روایت) یہ اجراء صرف تقریب لابن حجر اور الکاشف للذھبی سے تلاش کیا جائیں۔
(٣) باقی ماندہ مصطلحات کا اجراء۔

المرحلۃ الثالثہ: جمیع کتب احادیث سے اجراء مع جمیع کتب تراجم اسماء الرجال۔
جس میں مدلسین کے طبقات، مختلطین کے طبقات اور ائمہ جرح و تعدیل کے طبقات مع دفع تعارض۔


آپ حضرات اپنی مفید آراء پیش فرمائیں۔


*ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*

واٹس اپ پر رابطہ کریں۔ 9428359610

تحقیقات

14 Jul, 16:41


*سوانح شریف اردو*
*بیادگار: حضرت مولانا شریف صاحب تاجپوری رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ*

*پی ڈی ایف کی شکل میں پہلی بار منظر عام پر۔*

*زیر نگرانی: والد ماجد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب تاجپوری دامت برکاتہم العالیہ۔*

*مؤلف ومرتب: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*
*استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا*

رابطہ نمبر: 9428359610

تحقیقات

21 Jun, 11:32


*(علم تجوید کے واضع اول کون؟)*

سوال:- مدوّن وواضع علم تجوید کے متعلق معلومات دریافت کرنی ہے۔

جواب دیکر عند اللہ ماجور ہوں۔

*حضرت قاری وصی اللہ صاحب بھاگلوی دامت برکاتہم*


*استاذ قراءت وتجوید جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا*


الجواب بعون الملک الوھاب:- تو سب سے پہلے یہ بات مد نظر رہے کہ عملی میدان میں اس فن (علم تجوید) کے مدون وواضع اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن ہوں نے باقاعدہ منزل من السماء کے عین مطابق ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو پڑھایا اور سنایا، اور خالص پڑھایا یا سنایا ہی نہیں بلکہ اس کے مطابق پڑھنے کی ترغیب بھی دی۔ *صلی اللہ علیہ وسلم* لیکن چونکہ بعد میں فتوحات کا زمانہ آیا اور عجم حضرات عرب کے ساتھ ملے اور ان کو قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے کا مسئلہ پیدا ہوا تو علم تجوید کے قواعد کا وجود ہوا، لہذا راجح قول کے مطابق اس کے قواعد کو وضع کرنے والے سب سے پہلے خلیل بن احمد الفراھیدی ہے، جن کی کوئی تصنیف تو منظر عام پر نہیں آئی لیکن ان ہوں نے سب سے پہلے قواعد تجوید کو مدون کیا اور وضع کیا، جن قواعد کو سمجھ کر عجم بھی تجوید کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکے اور سکھ سکے۔

*أما واضعه من الناحية العملية فهو رسول الله صلى الله عليه وسلم.*
*ومن ناحية وضع قواعده فهو الخليل بن أحمد الفراهيدي وغيره من أئمة القراء والتابعين وأتباعهم رضي الله عنهم.*



لیکن اس سلسلے میں علماء کرام کے چار اقوام ہیں، ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں

01. قيل إنَّ أول مَن وضع علم التجويد هو *أبو الأسود الدؤلي*
*(هداية القاري الى تجويد كلام الباري -عبدالفتّاح السيد عجمي المرصفي- ص46)*

02. وقيل إنَّه *الخليلُ بن أحمد الفراهيدي*
*(هداية القاري الى تجويد كلام الباري -عبدالفتّاح السيد عجمي المرصفي- ص46)*

بندہ ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری غفرلہ کے نزدیک یہ قول زیادہ راجح ہے، اس لیے کہ ان کا نام واضع علم تجوید میں اکثر حضرات نے پیش کیا ہے۔ ھذا ما ظھر لی۔ واللہ اعلم بالصواب

وقيل إنَّ الواضع لعلم التجويد هو *أبو القاسم عبيد بن سلام* توفي ابن سلام بمكة سنة: 224هـ.
*(هداية القاري الى تجويد كلام الباري -عبدالفتّاح السيد عجمي المرصفي- ص46)*


*قواعد تجوید میں سب سے پہلے تصنیف کرنے والے 👇*
04. وأمَّا أولُ قصيدة رائية مكوَّنة من واحد وخمسين بيتًا نُظمت في علم التجويد فهي *لأبي مُزاحم الخاقاني* المتوفَّى سنة: 325 هـ، وكان ذلك في أواخر القرن الثالث الهجري وقيل هو أول من صنَّف في التجويد۔
*(سير أعلام النبلاء- الذهبي- ج15 / ص94، الأعلام- خير الدين الزركلي- ج7 / ص324)*


*جمع وترتیب: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری*

*خادم التدریس: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا گجرات*

تحقیقات

18 May, 17:12


*સવાનિહે શરીફ ગુજરાતી*

*પી. ડી. એફ. કી શકલ મેં પહેલી બાર મનજરે આમ પર.*

*ઝેરે નિગરાની*
*હઝરત મૌલાના યુનુસ સાહબ તાજપૂરી દા.બ.*
*શૈખુલ હદીષ: જામિઅહ ઈસ્લામિયહ ઈન્દાદુલ ઉલૂમ વડાલી*

*મુઅલ્લિફ વ મુરત્તિબ*
*અબૂઅહમદ હસ્સાન બિન શેખ યુનુસ તાજપૂરી*
*ઉસ્તાઝે હદીષ: જામિઅહ તહફીઝુલ કુર્આન ઈસ્લામપૂરા*


*નાશિર: જામિઅહ ઈસ્લામિયહ ઈમ્નાદુલ ઉલૂમ વડાલી*

Number: 9428359610

1,340

subscribers

37

photos

5

videos