برتائو کو مہار کرنا اپنے افکار اور احساسات کو کنٹرول کرنے کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ جہاں تک ہمارا بس چلے ہمیں منظم انداز سے اور حساب کتاب کے ساتھ برتائو کرنا چاہئے۔ ہر میدان میں نظم اور ادب آداب کی رعایت افکار اور احساسات کو کنٹرول کرنے کی طاقت میں بہت زیادہ اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اگر یہ نظم اور ادب آداب کی رعایت خدا کی اطاعت کے لئے ہو تو، بہت ہی اعلی ہے۔
🔹استاد علی رضا پناہیان کے آثار و افکار کے مروج ادارے بیان معنوی کا قیام سن 2008 میں استاد علی رضا پناہیان کے زیر نظر نوجوانوں کے ایک گروہ کے زریعے عمل میں آیا۔ اسوقت دنیا کی آٹھ رائج زبانوں میں تقریبا چالیس سے زیادہ رضاکار اس ادارے میں سرگرم عمل ہیں۔( ہماری ویب سائیٹ panahian.net)
🔹یہ ادارہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی جانب سے مالی مدد نہیں لیتا اور اس کے بیشتر اخراجات عوامی مالی تعاون سے پورے کئے جاتے ہیں۔
🌱اپنی مالی مدد اور ادارے کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے اس لنک پر رجوع کریں۔ Panahian.net/donate
ہم آپ کے جانب سے کی جانے والی مالی مدد کے قدر دان ہیں @PanahianUR
خودشناسی کی ایک راہ یہ ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرے۔ تب جا کر وہ اپنے نفس کی استقامت کا مشاہدہ کرپائے گا۔ برائیوں کے ترک کرنے میں ہمارا نفس جتنا زیادہ اور شدت کے ساتھ استقامت دکھائے گا ہماری حالت اتنی ہی بری ہوتی چلی جائے گی، مگر یہ کہ یہ برائی جینیاتی طور پر ہارے وجود میں موجود ہو کہ ایسی صورت میں یہ ہمارے باطن کی برائی شمار نہیں ہوگی۔
دین انسان کی فطرت کی حفاظت اور اس کے فطری رشد کے لئے ہے۔ ہماری اندرونی فطرت بھی ہماری بیرونی فطرت کی مانند خوبصورت اور محترم ہے۔ ہم فطرت پر تصرف کی طاقت رکھتے ہیں لیکن اپنی طاقت فطرت کو خراب کرنے پر صرف کردیتے ہیں۔
انسان پہلے اپنے وجود سے آگاہ ہو، پھر اپنی باطنی پاکیزگی کے ساتھ خدا پر ایمان لائے، پھر تلاوت قرآن سے آشنائی حاصل کرے، پھر خدا کے احکامات پر عمل کے زریعے اس سے تھوڑا بہت نزدیک ہو، پھر مناجات اور دعا کے زریعے خدا سے مانوس ہو، اسکے بعد دوستان خدا کے ساتھ محبت، تواضع اور انکی خدمت کے زریعے خدا کا محبوب بنے، تب کہیں جا کر انسان خدا کا عاشق بنے گا۔
ہر کچھ عرصے بعد ہمیں یہ مہلت دی جاتی ہے کہ ہم ایک گراں قدر انتخاب کریں۔ اگر ہمارا انتخاب قابل قدر نہیں ہوگا یا ہم سرے سے کوئی انتخاب ہی نہیں کریں گے، تو ایسے امور ہم پر مسلط کر دیئے جائیں گے جن کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہوگی۔ اسوقت ہم اپنی عمر اور زندگی کو بے ہودہ امور کے پیچھے ضائع کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے انتخاب کے لئے خدا سے مدد طلب کریں۔
گناہ کا اثر سایہ کی مانند ہم سے چپکا رہتا ہے اور ہمارے وجود کو تاریک کردیتا ہے اور اسکے اثرات سایہ میں دوام کی مانند زمین کے اوپر ہمارے ساتھ ساتھ کھنچتے چلے آتے ہیں اور ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بعض اوقات یہ سایہ ہم سے بہت زیادہ بڑا ہوجاتا ہے۔ ایک برے عمل کا اثر اس کے حجم سے کہیں زیادہ بڑا ہے، یہ فرق کرتا ہے کہ ہم نور کے مدمقابل کس زاویے میں کھڑے ہیں۔
عبادت ہم انسانوں کا اصل کام ہے، باقی جتنے بھی کام ہیں وہ سب فرعی ہیں۔ اس یقین تک پہنچنے کے لئے ہمیں یہ فکر کرنی چاہئے کہ ہمیں کیوں خلق کیا گیا ہے؟ آیا خدا سے ملاقات کے سوا کسی اور کام کے لئے خلق کیا گیا ہے؟ کیا ہماری زندگی کا سب سے عظیم واقعہ خدا سے ملاقات نہیں ہے؟ عبادت کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا کے سامنے کھڑے ہو کر اس کے بارے میں غور و فکر کریں۔