!مرغوب المسائل چینل!

@margubulmasail


https://telegram.me/margubulmasail

تحقیقی مسائل اور فقہ حنفی کا مدلل مجموعہ جس میں آپ حضرات کو الحمدللہ فقہاء کی عبارت سے مزین مسائل روزانہ بطور استفادہ حاصل ہونگے۔۔
@MargubulmasailBot

منتظم:محمدمرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

21 Oct, 02:51


سوال نمبر: 164711
عنوان:ہینگ اور خشخاش کا حکم
سوال:ہینگ اورخشخاش کھانا اسلام میں درست ہے یا نہیں؟
جواب نمبر: 164711
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1355-1148/N=1/1440
ہینگ اور خشخاش اسلام میں جائز ہیں، انھیں کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال کرنا درست ہے؛ البتہ اِن سے کوئی نشہ آور چیز تیار کرکے استعمال کرنا جائز نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

21 Oct, 02:43


کیا ہینگ کھانا جائز ہے ؟
سوال
ہینگ کھانا جائز  ہے؟
جواب
صورت مسئولہ میں ہینگ کھاناجائز ہے؛ البتہ ہینگ سے کوئی نشہ آور چیز تیار کرکے استعمال کرنا جائز نہیں۔
الحاوي في الطب میں ہے:
"وإن كانت بلغمية فأسهله بلغما ولطف التدبير وصومه يوم الحمى وبعد النضج استعمل أدوية حارة كدواء ‌الحتيت وينفعه القيء".
(جوامع البحران،٤٨٣/٤،ط : دار احياء التراث العربي)
القاموس الوحید میں ہے:
"الحتيت:ہینگ (خاص قسم کا خوشبودار گوند)دوااور کھانے میں استعمال ہوتاہے". 
(حلت،٣٦٧،ط: ادارہ اسلامیات )
فقط واللہ اعلم 
 
فتوی نمبر : 144507100852
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

16 Oct, 03:46


(مظاہر حق: 3/236،ط: دارالاشاعت )
فتاویٰ شامی میں ہے:
"شركة ملك ، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما هو الحق؛ فلو دفع المديون لأحدهما فللآخر الرجوع بنصف ما أخذ۔"
(کتاب الشرکۃ : 4 / 299 ، ط : سعید)
وفیہ ایضاً:
"والربح في شركة الملك على قدر المال۔"
(مطلب فیما یبطل الشرکۃ : 4 / 316 ، ط : سعید)
درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے  :
( المادة 1073 ) ( تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم.
(القواعد الکلیة / 3 / 22 / ط: دار الکتب العلمیة)
فقط و الله اعلم
فتوی نمبر : 144305100653
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

16 Oct, 03:46


ترکہ کے نفع میں ورثا کا حصہ
سوال
میرے شوہر کی پہلی بیوی کے بیٹے محمد اقبال کا 2010 میں انتقال ہوا ہے، اس وقت میرے شوہر حیات  تھے، اقبال کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ اور کاروبار اس کی بیوہ کی تحویل میں ہے،  کیا اقبال کے انتقال کے بعد اس کے کاروبار میں ہونے والے نفع میں میرے شوہر کا حصہ ہوگا؟ 
جواب
مذکورہ صورت میں  آپ کے شوہر بھی محمد اقبال  کے ورثاء  میں شامل ہیں اور محمد اقبال کی بیوہ بھی وارث ہیں، اور دیگر ورثاء  سمیت سب کا مرحوم کے ترکہ میں حصہ ہے۔ اب تک کاروبار سے جو نفع ہوا ہےوہ اگر کسی وارث نے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر حاصل کیا ہے تو اس کے لیے اپنے حصے سے زائد پاکیز ہ وحلال نہیں ہے۔مرحوم محمداقبال کے  ترکہ کی تقسیم کا طریقہ اور ہر  وارث کا حصہ معلوم کرنے کے لیے مرحوم کے انتقال کے وقت موجود تمام ورثاء  کی تفصیل درکار ہوگی۔  فقط واللہ اعلم 
فتوی نمبر : 143902200010
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
----------------------------------------------
میراث میں بہنوں کا بھی حق ہے، ترکہ کے مال سے حاصل شدہ منافع تمام ورثا میں تقسیم ہوں گے
سوال
میرے سسر کا کپڑے کا کاروبار تھا، ان کے پاس ایک مکان اور ایک دوکان تھی، دکان پگڑی کی تھی، سسر   کا انتقال ہوا ، ورثاء میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں،  سسر كے انتقال کے   وقت میرے شوہر  اور  ان کے بڑے بھائی  شادی شدہ  تھے، دو بھائی چھوٹے تھے، ان کی شادی نہیں ہوئی تھی، سسر  کے انتقال کے بعد بھائیوں نے  میرا اور میری جیٹھانی (شوہر کے بڑے بھائی کی بیوی) کا زیور لیا اور اس سے دوسری دکان پگڑی پر لی،  ایک دکان میرے شوہر اور ان  کے بڑے بھائی دونوں کے نام پر تھی اور دوسری دکان دو چھوٹے بھائیوں کے نام پر تھی، اس کے بعد میرے شوہر نے وہ دکان چھوڑ دی،  جب میری بیٹی کی شادی ہوئی تو میرا زیور مجھے واپس دے دیا  اور شوہر نے اپنا الگ کاروبار شروع کردیا،  آج سے گیارہ سال پہلے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا ، ورثاء میں  بیوہ،  ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔
میرے شوہر کے تین بھائیوں نے سسر کے کاروبار کو سنبھالا اور سسر کے انتقال کے بعد اس مشترکہ  کاروبار سے نفع کمایا، اس میں سے نہ   میرے شوہر کو حصہ دیا اور نہ ہی   تین بہنوں کو ، اور اسی   کاروبار سے مزید تین گھر بنائےہیں،   ابھی تک ان کو تقسیم بھی نہیں کیا ہے،   پگڑی کی دونوں دکانیں چار کروڑ روپے میں  فروخت کی ہیں،( دونوں کانوں میں میں کچھ کا م  بھی  کروایا  تھا) ،  اس میں سے ہر ایک بھائی نے ایک ایک کروڑ روپے لیے اور میرے شوہر کے ایک کروڑ روپے مجھے  دیے، جس میں ان کی بہنوں کا بھی حصہ تھااور  مجھ سے اورمیرے بیٹوں سے کہا کہ :"اب تم جانو اور پھوپھیاں جانیں"، ان میں سے 1250000 شوہر نے بھائیوں سے قرضہ لیا تھا، اس کی مد میں واپس کردیے ،پھر  تین بھائیوں نے  بہنوں کو اپنے اپنے حصوں میں سے ان کا  شرعی حصہ دے  دیا ، لیکن میں نے شوہر کی بہنوں کو ایک کروڑ میں سے حصہ نہیں دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ :
کیا میرے شوہر کے حصے میں سے بھی ان کی بہنوں کو حصہ دینا لازمی ہے ؟
ان تین بھائیوں نے اس کاروبار سے مزید تین گھر بنائے ، اس میں میرا اور میرے بچوں کا کوئی حق بنتا ہے یا نہیں ؟
جواب
1۔صورتِ مسئولہ میں   چوں کہ سائلہ کے سسر  کی دکانوں میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کا بھی حق تھا، لیکن بیٹوں نے دکانیں فروخت کرکے رقم آپس میں تقسیم کردی تھی ، پھر بقیہ بیٹوں نے اپنے اپنے حصوں میں سے بہنوں کو حصہ دے دیا ، لیکن سائلہ کے شوہر  کے حصے میں جو  رقم سائلہ کو دی گئی ، اس میں  چوں کہ سائلہ کے شوہر کی بہنوں کا بھی حق تھا؛ لہذا سائلہ  پر سب سے پہلے شوہر کی بہنوں کو  اس رقم سے ان کا حصہ دینا لازم ہے، پھر بقیہ رقم شوہر کے  ورثاء میں تقسیم  ہو گی۔
2۔اگر سائلہ کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ سائلہ کے سسر کے کاروبار کو سائلہ کے دیوروں نے بڑھایا اور اس سے نفع کمایااور اس کمائی سے تین گھر بنائے تو والد(سائلہ کےسسر) کے کاروبار سےبیٹوں نے   جتنا کچھ کمایا ، اس  میں سائلہ کے سسر کے   تمام ورثاء کا حق ہے، جن میں سائلہ کا شوہر بھی داخل ہے ،اب اس کی وفات کے بعد  اس کا حق ان کے ورثاء کو ملے گا۔
مشکوٰۃ شریف میں ہے:
عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» .
(کتاب الفرائض ، باب الوصایا ، الفصل الثالث/1/462/ط،البشرٰی).
ترجمہ:       حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم  صلیٰ  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  :کہ جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

!مرغوب المسائل چینل!

16 Oct, 03:38


سوال نمبر: 176471
عنوان:دیگر ورثہ کی اجازت کے بغیر حاصل کیے ہوئے منافع كا حكم؟
سوال:دارالافتاء آن لائن کی ویب سائٹ سے 24 جنوری 2008 کو جواب نمبر: 4953 جو جاری کیا گیا اس کے اندر یہ بات لکھی ہے کہ اگر کوئی وارث دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر مال مورث کے اندر کچھ تصرف کرے تو اس کے منافع کا حقدار صرف وہی متصرف ہوگا۔ اسی طرح کا ایک فتوی حضرت اقدس مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا فتاوی محمودیہ میں درج ہے ۔ لیکن مذکورہ دونوں فتووَں میں اس کے واجب التصدق ہونے نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ جبکہ حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک فتوی امدادالفتاوی قدیم 4/34 پر مذکور ہے جس میں اس کے واجب التصدق ہونے کا ذکر موجود ہے ۔اب معلوم یہ کرنا تھا کہ وہ منافع واجب التصدق ہوں گے یا نہیں؟بصورت دیگر امدادالفتاوی کے جواب کا محمل کیا ہوگا؟
جواب نمبر: 176471
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:560-484/L=7/1441
ورثاء کی اجازت اور ان کی رضامندی کے بغیر جو نفع حاصل ہوا یہ کسبِ خبیث میں داخل ہے اور اس کا اصل حکم تصدق کا ہی ہے؛ البتہ اگر نفع کو ورثاء پر ہی لوٹادیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ مزید تفصیل کے لیے (اسلام اور جدید معاشی مسائل: ۴/ ۸۴۔ ۸۶)کا مطالعہ کرلیا جائے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
------------------------------------------------
سوال نمبر: 4953
عنوان:
اگر منافع کی تقسیم ہو تو جن بیٹوں نے باپ کی وفات کے بعد محنت کی ہے ان کو حق محنت بطور اجرت دیا جائے گا یا نفع میں کمی بیشی کی جائے گی؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس سوال کے بارے میں، پانچ جزئیات ہیں۔ (۱) زید کی وفات ہوئی لاکھوں کی تجارت ہے، چند بیٹے باپ کے ساتھ کام کررہے ہیں ، دوسرے بیٹے اپنا کام علیحدہ کررہے ہیں۔ باپ کے انتقال کے دس سال بعد ترکہ تقسیم ہورہا ہے۔ تو باپ کی وفات کے وقت جو مال تھا اس حساب سے تقسیم ہوگا یا گزشتہ سالوں کے منافع کے ساتھ تقسیم ہوگا؟ (۲) اس زمانے میں عام طور پر ترکہ میں تاخیر ہوتی ہے، منفعت صرف متصرفین کی ہو تو دوسرے ورثاء کا بھاری نقصان ہے قصداً تاخیر کی جائے گی تو کیا حکم ہے؟ (۳)اگر منافع کی تقسیم ہو تو جن بیٹوں نے باپ کی وفات کے بعد تصرف کیا ہے ان کو حق محنت بطور اجرت دیا جائے گا یا نفع میں کمی بیشی کی جائے گی؟ (۴) نفع میں کمی بیشی کس بنیاد پر کی جائے گی، کیا شرکت مضاربت کے لحاظ سے تقسیم ہوسکتی ہے؟ (۵) اگر متصرف ورثاتقسیم ترکہ میں قصداً تاخیر کریں تو وہ غاصب قرار دئے جائیں گے، یا اس تصرف کو شرکت قرار دیا جاسکتا ہے؟ شرکت قرار دیا جائے تو کونسی شرکت ہوگی؟
جواب نمبر: 4953
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 522=567/ل
 
شامی میں ہے: لو اجتمع اخوة یعملون فی ترکة أبیہم و نما المال فہو بینہم سویہ ولو اختلفوا فی العمل والرأی (شامی: ۶/۵۰۲ ط زکریا دیوبند) علامہ شامی رحمہ اللہ نے شرکة فاسدہ میں اس جزئیہ کو نقل کیا ہے اور اس طرح کی شرکت سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اس کو شرکاء کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اور شرح المجلہ میں ہے: وإذا أخذ الورثة مبلغاً من نقود الترکة قبل القسمة بدون إذن الآخرین وعمل فیہ و خسر کانت الخسارة علیہ کما إذا ربح لا یجوز لبقیة الورثة ان یقاسموالربح (شرح المجلة:۱/۶۱۰ رقم المادّہ ۱۰۹۰) پتہ چلا کہ اگر والد کی وفات کے بعد باتفاق شرکا اس ترکہ سے کام ہورہا ہے تو حاصل شدہ نفع ترکہ بن جائے گا اور حسب حصص شرعیہ اس کو ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور اگر کوئی وارث دیگر شرکاء کی اجازت کے بغیر یا ان کے تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنے کے باوجود تصرف کرتا ہے تو نفع و نقصان خالص اسی کا ہوگا دیگر ورثاء اس میں شریک نہ ہوں گے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

13 Oct, 10:10


مدراس کے فارغین ضائع کیوں ہوجاتے ہیں؟


مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں قصور کچھ اربابِ مدارس (مہتممین) کا ہے۔۔۔۔۔ مدارس والے مدرسین کو اتنا دیتے ہی نہیں کہ وہ زندگی بھر دلجمعی کے ساتھ کام کرسکیں ، گارا بنانے والے مزدور کو بھی(آج سے بیس سال پہلے ) یومیہ سوا سو روپے ملتے ہیں، یعنی ماہانہ اس کی چار ہزار کی آمدنی ہوتی ہے اور مدرس کو دو ڈھائی ہزار روپے ملتے ہیں۔ جس نے پندرہ سال محنت کی ہے اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت خرچ کیا وہ گارا بنانے والے مزدور کے ہم تول بھی نہیں؟! تو کیا مزدور کے خرچ کے بقدر بھی مولوی کے گھر کا خرچ نہیں ہوگا؟ مگر اہل مدارس سمجھتے نہیں ، بلکہ وہ یہ عذرِ لنگ پیش کرتے ہیں کہ مدرسہ میں گنجائش نہیں ، سوال یہ ہے کہ پھر بلڈنگیں کہاں سے بن رہی ہیں؟ اور مہتم بکارِ مدرسہ کیسے گھوم رہا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ آدمی چاہے ہی نہ تو باتیں ہزار ہیں۔ غرض جب تک کارکنان کو بقدرِ ضرورت روزگار مہیا نہیں کیا جائے گا وہ زندگی بھر کام سے کیسے چمٹے رہیں گے؟ اور آدمی تو بنتا ہی ہے پوری زندگی کھپانے سے ، دس بیس سال پڑھانے سے کوئی شیخ الحدیث نہیں بنتا
۔
(تحفہ الالمعی ج5 ص116)
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

https://t.me/margubulmasail

!مرغوب المسائل چینل!

12 Oct, 13:47


سوال نمبر: 67071
عنوان:ولادت کے بعد کتنے دنوں تک نماز کا انتظار کرنا پڑے گا؟
سوال:(۱) حمل کے دوران مختلف امتناعی احکامات کے بارے میں بتائیں۔ (۲) ولادت کے بعد کتنے دنوں تک نماز کا انتظار کرنا پڑے گا؟ (۳) کیا ہم حاملہ عورت کے بسترکے قریب بیٹھ سکتے ہیں؟ (۴) کچھ احتیاط اورپاکی سے متعلق بھی بتائیں۔
جواب نمبر: 67071
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 989-1032/SN=11/1437

(۱) ”حاملہ“ عورت بھی عام عورت کی طرح ہے، شرعاً اس کے لیے کچھ خاص احکامات نہیں ہیں؛ ہاں اس کے لیے کچھ طبی احتیاطیں ہوتی ہیں، جن کے لیے آپ کسی اچھے طبیب یاڈاکڑ سے رابطہ کریں، اس سلسلے میں کچھ ہدایات بہشتی زیور کے نویں حصے میں بھی موجود ہیں، اسے بھی دیکھ سکتے ہیں؛ باقی اگر حمل کی وجہ سے کسی حکمِ شرعی پر عمل دشوار ہو رہا ہوتو اسے لکھ کر یہاں سے یا کسی مقامی عالم سے حکم معلوم کرسکتے ہیں۔
(۲) ولادت کے بعد جب تک خون جاری رہے وہ نماز نہ پڑھے گی، خون بند ہونے کے بعد پڑھے گی؛ البتہ اگر خون چالیس دن سے زیادہ جاری رہے تو پھر چالیس دن کے بعد نہا دھوکر نماز شروع کردے گی، چالیس دن کے بعد ”نماز“ میں چھوٹ نہیں ہے۔ (اور اگر عورت معتادہ ہو تو عادت سے زائد ایام استحاضہ ہوں گے اور ان دنوں کی نمازیں پڑھنی ہوں گی۔ (ن) )
(۳) جی ہاں! بیٹھ سکتے ہیں، حمل کے دوران اس کے ساتھ ہمبستری کرنا بھی جائز ہے؛ البتہ اطباء کے مطابق احتیاط بہتر ہے بالخصوص شروع اور اخیر کے مہینوں میں ۔
(۴) اس کا جواب سوال (۱) کے جواب کے تحت گذر چکا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

07 Oct, 15:51


سوال نمبر: 158238
عنوان:کیا مکہ و مدینہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ کی زیارت کے لیے جانا کیسا ہے؟
سوال:آج کل کافی لوگ بغداد ایران اور اجمیر وغیرہ زیارات کے لیے جاتے ہیں اور ایسا کرنے کو باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں جبکہ میں نے ایک حدیث پڑھی یے جس کے مطابق ایسا کرنا حرام ہے لیکن مجھے اس حدیث کا حوالہ یاد نہیں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب نمبر: 158238
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 512-476/M=5/1439
بخاری اور مسلم شریف کی روایت ہے کہ: ”لا تُشَدّ الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجدي ہذا، والمسجد الأقصی“ اس کے متعلق حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ”اور حدیث لا تشد الرحال کا تعلق زیارت قبور سے نہیں بلکہ اجر وثواب زیادہ حاصل کرنے کی نیت سے مساجد ثلاثہ کے علاوہ دیگر مساجد کے لیے سفر کرنے سے ہے“۔ (امداد الفتاوی)
حاصل یہ ہے کہ حرمین شریفین اور مسجد اقصی کے علاوہ بقیہ تمام مساجد برابر ہیں ان کی کوئی خاص فضیلت وارد نہیں، اس لیے حرم مکہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کو چھوڑکر کسی ملک مثلاً ایران، بغداد کی زیارت کے لیے جانا یا کسی پیر بزرگ کے مزار پر حاضر ہونا فی نفسہ ممنوع نہیں لیکن دیگر مقامات کی زیارت کو باعث اجر وثواب سمجھنا غلط ہے، اسی طرح اولیائے کرام کے مزاروں پر عرس اور میلوں کے موقع پر جانے سے بھی بچنا چاہیے تاکہ غیرشرعی رسومات کی رونق بڑھانے میں اعانت نہ پائی جائے۔ شامی میں ہے:
وفی الحدیث المتفق علیہ ”لا تشد الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ہذا والمسجد الأقصی" والمعنی کما أفادہ في الإحیاء أنہ لا تشد الرحال لمسجد من المساجد إلا لہذہ الثلاثة لما فیہا من المضاعفة، بخلاف بقیة المساجد فإنہا متساویة فی ذلک، فلا یرد أنہ قد تشد الرحال لغیر ذلک کصلة رحم وتعلم علم وزیارة المشاہد کقبر النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - وقبر الخلیل - علیہ السلام - وسائر الأئمة (شامی زکریا: ۴/۵۵، باب الہدی)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

07 Oct, 15:30


سوال نمبر: 606478
عنوان:
مساجد کی زیارت کیلئے جانا
سوال:
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ مسجد اقصیٰ ۔ مسجد نبوی اور مسجد الحرام کے علاوہ کسی اور مسجد کی خصوصی طور پر زیارت کے لیے نہیں جانا چاہئے ۔ براہ کرم کسی حوالہ سے رہنمائی فرما دیں کہ یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟ شکریہ
جواب نمبر: 606478
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 157-114/B=02/1443
 جاہلیت کے زمانہ میں لوگ بہت سے مقامات کو لوگ باعظمت سمجھ کر خصوصیت کے ساتھ وہاں کا سفر کرتے تھے اور وہاں عبادت کرنا افضل سمجھتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سد باب کرنے کے لئے فرمایا: لا تشد الرحال إلا إلی ثلثة مساجد: مسجد الحرام، والمسجد الأقصیٰ ومسجدی ہذا (بخاری ومسلم) بحوالہ مشکاة، ص: 68) یعنی بطور خاص کسی مسجد کے لیے سفر نہ کیا جائے۔ اگر کسی مسجد کے لیے سفر کرنا ہے تو صرف تین مسجدوں کے لیے سفر کرسکتے ہیں۔ مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی کے لئے۔ یہ حدیث صحیح ہے، بخاری ومسلم کی حدیث ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

27 Sep, 13:14


ایپ پر ٹاسک پورے کر کے پیسے کمانا
سوال کا متن:
 نیٹ پر ایک ایپ ہے جس پر آن لائن کام کرنا ہوتا ہے، کام ایسے کیا جاتا ہے کہ پہلے 4000 روپے ایزی پیسہ/جاز کیش کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں ،جس کے بعد روزانہ کے چار عدد ٹاسک دیے جاتے، جس میں کھانا بنانے کی ویڈیو ہوتی ہے اس کو پلے(چلا کر) کر کےلائک کرنا ہوتا ہے، جس کے 40 روپے ملتے ہیں اور روزانہ کے 160 روپے بنتے ہیں اور 7 دن کے بعد وہ روپے ایزی پیسہ/ جاز کیش کے ذریعے واپس لے سکتے ہیں، ابتدا میں 4000 روپے دیے جاتے وہ 12 مہینے تک چلتے ہیں، چھ ماہ کام کرنے پر ایپ جمع شدہ چار ہزار واپس کر دیتی ہے اپنے ریفرنس کے ذریعے کسی کو اس ایپ پر لانے کے 400 روپے دیے جاتے ہیں جب وہ اپنے 4000 روپے جمع کرواتا ہے، اسکے بارے میں پتہ کرنا ہے کہ یہ جائز ہےیانہیں؟
جواب کا متن:
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ایپ سے کمانے میں درج ذیل  شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں ،جس کی وجہ سے مذکورہ ایپ سے پیسے کمانا ناجائز ہے  :
1۔ایپ کا ٹاسک(کام)  مکمل کرنے پر پیسے ملنا اجارے کے حکم میں ہے لیکن اس کے لیے ابتدائی 4000  روپے جمع کرانے کی شرط لگانا شرط فاسد ہے اور  ناجائز ہے۔
2۔ابتداء 4000 روپے جو بعد میں واپس دیے جاتے ہیں ،قرض کے حکم میں ہیں، چناں چہ اس  رقم پر ایپ سے اضافی منافع حاصل   کرنا سود کے حکم میں ہے۔
3۔   عام طور پر اس نوع کی ایپ سے مقصود  وڈیو ،ایپ،پروڈکٹ  وغیرہ کی تشہیر ہوتی ہے ،تاکہ خریدار / ناظرین کے اعداد و شمار بڑھ جائیں اور  دیگر لوگوں کو راغب کیا جائے حالاں کہ  اس طرح کرنے والے حقیقی خریدار بھی نہیں ،کمپنی / ایپ   والے پیسے دے کر جعلی تشہیر کرواتے ہیں جو کہ دھوکے پر مبنی ہے ۔
4۔ اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے،  جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جس سے اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے، حال آں کہ یہ بات بھی خلافِ  واقعہ اور  دھوکا دہی  ہے۔
5۔  نیز ایڈ پر کلک ایسی چیز نہیں ہے جو منفعت مقصودہ ہو، اس لیے یہ اجارہ صحیح نہیں ہے۔
6۔   اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کے تصاویر بھی ہوں تو یہ اس پر مستزاد قباحت ہے۔
7۔  مذکورہ ایپ سے رقم حاصل کرنا چوں کہ شرعاً جائز نہیں ؛لہذا اس ایپ میں کسی کو انوائٹ کرکے اس کے عوض کمیشن لینا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ ۔
لہذا  اس طرح کی ویب سائٹ میں رجسٹرڈ ہونا یا اس سے پیسہ کمانا جائز نہیں ۔
مسند امام احمد میں ہے :
"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 
(‌‌،تتمة مسند الأنصار،حديث أبي أمامة الباهلي، ج: 36، صفحہ: 504، رقم الحدیث: 22170، ط:  مؤسسة الرسالة)
شعب الإيمان میں ہے:
"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: ‌سئل ‌رسول ‌الله - ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم - ‌أي ‌الكسب ‌أطيب؟ قال: عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."
(الثالث عشر من شعب الإيمان،ج4،ص434،رقم:1170،ط:مكتبة الرشد )
رد المحتار میں ہے:
"هي لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
(كتاب الإجارة،ج6،ص4،ط:سعید)
الموسوعة الفقهية الكويتية ميں هے:
"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة."
(إجارة،‌‌الفصل السابع،‌‌الفرع الثالث،‌‌الإجارة على المعاصي والطاعات،ج1،ص290،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)
فقط واللہ اعلم
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144503100188
تاریخ اجراء :17-09-2023
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

27 Sep, 13:13


موبائل ایپلیکیشن پر ایڈ دیکھ كر پیسے کمانا
سوال
آج کل KG کے نام سے ایک موبائل ایپلیکیشن چل رہا جس سے لوگ پیسے کماتے ہیں جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ اپ اس میں 1000 ،2000 ، 4000 ، 8000 ، 18000 روپے deposit کرتے ہیں جس پر اپ کو روزانہ کی بنیاد پر کچھ فیس بک کے پوسٹ(ایڈ) آتے ہیں جس کو آپ نے دیکھنا ہے اور اس کے اسکرین شاٹ اپ نے ایپلیکیشن میں سبمٹ کرنے ہوتے ہیں اور اس طرح آپ کو روزانہ کی بنیاد پر پیسے آتے ہیں تو کیا اس طرح پیسے کمانا ٹھیک ہے ؟
جواب
مختلف موبائل ایپلیکیشن اور  ویب سائٹ پر ایڈ دیکھنے کو کمائی کا ذریعہ بنانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:
1۔ اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔
 2۔ جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں؛ لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔
3۔ ان اشتہارات میں بسا اوقات  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔
4۔  نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ، لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے،چناں چہ مذکورہ ایپلیکیشن کے ذریعے پیسے کمانا ناجائز ہے ۔
حدیث شریف میں ہے:
" عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور ".
(شعب الإيمان ،فصل في عذاب القبر،التوكل بالله عزوجل والتسليم لأمره تعالي فى كل شيئ،2/ 434، ط: الرشد )
ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔
فتاوی شامی میں ہے :
"هي لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية"
(كتاب الإجارة ،6/ 4،ط: سعيد) 
وفیہ ایضا :
"(أو) استأجر (خبازا ليخبز له كذا) كقفيز دقيق (اليوم بدرهم) فسدت عند الإمام لجمعه بين العمل والوقت ولا ترجيح لأحدهما فيفضي للمنازعة (قوله فيفضي للمنازعة) فيقول المؤجر المعقود عليه: العمل والوقت ذكر للتعجيل ويقول المستأجر: بل هو الوقت والعمل للبيان". 
(كتاب الاجارة ، مطلب فى الإستئجار على المعاصى ،6/ 56،ط: سعید)
الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ  میں ہے :
"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... و لايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير".
(إجارة ، الفصل السابع ،الإجارة على المعاصى والطاعات ،1/ 290،ط:دارالسلاسل )
فقط واللہ اعلم 
فتوی نمبر : 144402100808
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 16:40


ایک مسجد کے قرآن کریم کے زائد نسخےاوردوسری زائد اشیاء کسی اور مسجد یامدرسہ کو بلا معاوضہ دینے کا حکم
سوال کا متن:
میں بحیثیت  صدر انجمن ِمسجد سلیمانیہ بلاک 6،نرسری،پی ای سی ایچ ایس کراچی آپ سے چند سوالات پوچھنا چاہتاہوں :
1۔ہماری مسجد میں کافی  تعداد میں قرآن ِکریم کے نسخے اوردیگر اسلامی کتابیں موجود ہیں اوروہ استعمال میں نہیں آرہی ہیں ،ہم چاہتے ہیں کی ان کو کسی مسجد یامدرسہ میں بلامعاوضہ دے دیاجائے،شریعت  کے روسے اس کا کیا حکم ہے؟۔
2۔مسجد میں کافی تعدادمیں صفیں موجودہیں جو کہ زیرِاستعمال نہیں اورہم چاہتے ہیں کہ ان کو کسی مسجد یا مدرسہ میں بلامعاوضہ دے دیاجائے،اس پر قرآن وسنت  کی روشنی میں جواب دیاجائے۔
3۔ مسجد میں کافی تعداد میں پنکھے ،اسپیکر مشین اوردوسری اشیاء موجود ہیں جو کہ استعمال میں نہیں آرہی ہیں کہ ان اشیاء کو کسی مسجدیا مدرسہ میں بلامعاوضہ دے دیاجائے ،شرعاً اس  کا کیا حکم ہے؟۔
جواب کا متن:
اگر مسجد کے لیے وقف اشیاء فی الحال استعمال میں نہ ہوں، لیکن آئندہ استعمال کی امید ہو اور وہ اشیاء محفوظ رکھے جاسکتے ہوں تو انہیں آگے کسی اورمسجدیامدرسہ کونہ دیاجائے، بلکہ محفوظ رکھا جائے اور بوقتِ ضرورت اسی مسجد میں ہی استعمال کیا جائے،  البتہ اگر آئندہ استعمال کی امید نہ ہو، یا محفوظ کرنا ممکن نہ ہو، ضائع ہونے کا امکان ہو تو مسجد  کی ملکیت میں موجود زائد از ضرورت اشیاء کو کسی دوسری قریبی مسجد یامدرسہ  میں دیے جاسکتے ہیں۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًامذکورہ مسجد میں    قرآن پاک اوردیگر اسلامی کتابیں  کئی زائدنسخے ہیں کہ  وہ پڑھنے میں ہی نہ آتے ،کافی تعداد میں صفیں ہیں اورکئی زائد پنکھے اسپیکر مشین اوردوسری اشیاء موجودہیں جو کہ استعمال میں نہیں آرہی ہیں  اور انہیں سنبھالنا بھی مشکل ہے  تو انتظامیہ باہمی مشورت سے انہیں کسی قریبی مسجد یا مدرسہ میں دینا جائز ہیں ۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"اگر مسجد میں چٹائیاں زائد موجود ہیں اور حفاظت کی کوئی صورت نہیں، خراب اور ضائع ہورہی ہیں تو زائد چٹائیاں ایسی مساجد میں بچھانا درست ہے جہاں ضرورت ہو، متولی اور دیگر اہل رائے حضرات کے مشورہ سے دے سکتے ہیں، بلا مشورہ نہ دیں؛ تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔"
(فتاوی محمودیہ 14 / 588 ط: فاروقیہ)
کفایت المفتی میں ہے:
’’زائد قرآن مجیدوں کو دوسری مساجد یا مدرسوں میں پڑھنے کے  لیے دے دیا جائے؛ کیوں کہ ان کے وقف کرنے والوں کی غرض یہی ہے کہ ان قرآن مجیدوں میں تلاوت کی جائے‘‘۔ 
(کتاب الوقف، ج:7،  ص : 257) 
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومثله) في الخلاف المذكور (حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه)."
(كتاب الوقف،ج:4،ص:359،ط:سعید)
فقط والله أعلم
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144403102264
تاریخ اجراء :25-10-2022
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 16:28


سوال نمبر: 605968
عنوان:
تلاوت کرنے کے لیے مسجد کا قرآن گھر لانا؟
سوال:
سوال : ہماری مسجد میں بہت سارے قرآن مجید ایصال ثواب کے طور پر دیئے گئے ہیں، لیکن یہاں پڑھنے کے لئے لوگ بہت کم ہیں تو ان قرآن مجید کو ہم جن کے گھر میں میں قرآن نہیں ہے کیا ہم مستقل طور پر انہیں دے سکتے ہیں ؟
جواب نمبر: 605968
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 7-5/B=01/1443
 مسجد میں برائے ایصال ثواب جو قرآن کریم رکھے جاتے ہیں، وہ وقف ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو مسجد میں بیٹھ کر پڑھنا تو درست ہے، کسی کو مستقل طور پر گھر لے جانے کی اجازت دینا درست نہیں ہے۔
قال فی الحصکفي إذا تمّ ولزم لا یملک ولا یملک۔ الدر المختار مع ردالمحتار: 6/539، ط: زکریا دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 14:23


فتاوی عثمانی: (74/1، ط: معارف القرآن)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 14:23


عنوان: عیسائی مرد سے شادی کرنے والی لڑکی کا حکم(4775-No)
سوال: مفتی صاحب ! ایک مسلمان گھرانے کی لڑکی نے گھر سے فرار ہو کر ایک عیسائی لڑکے کے ساتھ گرجا گھر میں جا کر شادی کر لی اور گرجا گھر (عیسائیوں کا عبادت خانہ) میں خود کو اور اپنے گھر والوں کو عیسائی ظاہر کیا، نیز گرجا گھر کے شادی سرٹیفکیٹ میں خود کو اور اپنے والدین کو عیسائی لکھا اور لکھوایا، اس شادی کروانے میں دو چار مسلمان بھی عملاً شامل تھے۔
اس ضمن میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) ایسی لڑکی کا کیا حکم ہے؟
(2) ایسی شادی کروانے میں جو مسلمان خود بھی شریک تھے، ان کا کیا حکم ہے؟
(3) کیا ایسی لڑکی والدین کی جائیداد میں وراثت کا حق رکھتی ہے؟
(4) ایک عاقل بالغ لڑکی گھر سے فرار ہو کر اس قسم کی شادی کرے، تو کیا اس کا گناہ اور وبال والدین پر بھی آئے گا؟

جواب: (1) واضح رہے کہ مسلمان عورت کے لیے کسی بھی غیر مسلم مرد (چاہے وہ عیسائی ہی کیوں نہ ہو) کے ساتھ نکاح کرنا بالاتفاق حرام ہے، اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
(2)جن مسلمانوں نے اس نکاح کا شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود اس شادی میں شرکت کی، وہ شریعت کی نظرمیں حرام کام کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے سخت مجرم اور گناہگار ہوئے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ اس شادی کا شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود حلال سمجھ کر شریک ہوئے، تو اس صورت میں (نعوذ باللہ) ان کا گناہ کفر تک پہنچ جائے گا۔
(3) کسی مسلمان کا دیدہ دانستہ اپنے آپ کی نسبت صراحۃً کافر مذہب کی طرف کرنا سراسر موجبِ کفر ہے، اگر کوئی ایسا کرلے، تو ایسے شخص پر واجب ہے کہ فوراً صدقِ دل توبہ کر کے تجدیدِ ایمان کرلے، اور آئندہ ایسا کرنے سے مکمل پرہیز کرے، لہذا اگر لڑکی نے صراحۃً اپنے عیسائی ہونے کا دعویٰ کیا، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، تو اس دعویٰ کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئی ہے، اور کافر کو مسلمانوں کی میراث سے کچھ نہیں ملتا ہے، لہذا ایسی لڑکی کو اپنے مسلمان رشتہ داروں کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
(4) اگر والدین اُس کے اِس عمل پر راضی تھے، تو اس گناہ کا وبال والدین پر بھی آئے گا، اور اگر والدین راضی نہیں تھے، تو والدین کے اوپر اس گناہ کا وبال نہیں ہوگا۔


تفسیر الطبری: (711/3)
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [البقرة: ٢٢١] اخْتَلَفَ أَهْلُ التَّأْوِيلِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: هَلْ نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا كُلُّ مُشْرِكَةٍ، أَمْ مُرَادًا بِحُكْمِهَا بَعْضَ الْمُشْرِكَاتِ دُونَ بَعْضٍ؟ وَهَلْ نُسِخَ مِنْهَا بَعْدَ وُجُوبِ الْحُكْمِ بِهَا شَيْءٌ أَمْ لَا؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا تَحْرِيمُ نِكَاحِ كُلِّ مُشْرِكَةٍ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ مِنْ أَيِّ أَجْنَاسِ الشِّرْكِ كَانَتْ عَابِدَةَ وَثَنٍ أَوْ كَانَتْ يَهُودِيَّةً أَوْ نَصْرَانِيَّةً أَوْ مَجُوسِيَّةً أَوْ مِنْ غَيْرِهِمْ مِنْ أَصْنَافِ الشِّرْكِ، ثُمَّ نُسِخَ تَحْرِيمُ نِكَاحِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِقَوْلِهِ: {يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ} [المائدة: ٤] إِلَى {وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [المائدة: ٥]

صحیح البخاری: (باب لا يرث المسلم الكافر و لا الكافر المسلم، رقم الحدیث: 6764، 272/4، ط: دار الکتب العلمیة)
حدثنا أبو عاصم عن ابن جريج عن ابن شهاب عن علي بن حسين عن عمرو بن عثمان عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم۔

بدائع الصنائع: (کتاب النکاح، 445/3)
ومنہا : إسلام الرجل إذا کانت المرأۃ مسلمۃ فلا یجوز إنکاح المؤمنۃ الکافر لقولہ تعالی : {ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا} - ولأن في إنکاح المؤمنۃ الکافر خوف وقوع المؤمنۃ في الکفر ، لأن الزوج یدعوہا إلی دینہ، والنساء في العادات یتبعن الرجال فیما یؤثروا من الأفعال ویقلدونہم في الدین إلیہ ، وقعت الإشارۃفي آخر الآیۃ بقولہ عز وجل : {اولٓئک یدعون إلی النار} ۔ لأنہم یدعون المؤمنات إلی الکفر ، والدعاء إلی الکفر دعاء إلی النار ، لأن الکفر یوجب النار ، فکان نکاح الکافر المسلمۃ سببًا داعیًا إلی الحرام فکان حرامًا۔

الھندیۃ: (279/2- 280، ط: رشیدیة)
مسلم قال: انا ملحد، یکفر.... مسلم رای نصرانیۃ سمینۃ فتمنی ان یکون ھو نصرانیا حتی یتزوجھا یکفر۔ کذا فی المحیط۔

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 14:22


عنوان: عیسائی مرد سے نکاح کرنے والی مسلمان عورت کا حکم ہے۔(2639-No)
سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! میری فرسٹ کزن تایا كی بیٹی امریکہ میں رہتی ہے، 30 نومبر کو وہ ایک کرسچن امریکن شخص سے “ شادی” کر رہی ہے اور شادی كے پروگرام کا کارڈ پورے خاندان کو بھیجا ہے، میں نے جب اس عمل كی سخت مزاحمت كی تو جواب یہ ملا کہ اھل کتاب مرد سے شادی كی ممانعت نہیں آئی اور اس میں اختلاف بھی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ میری کزن جو اس عمل کو کر رہی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور جو مسلمان رشتہ دار رشتہ نبھانے كے خاطر یا اس عمل کو جائز سمجھ کر کر رہے ہیں، ان کی کیا حیثیت ہوگی ؟
جواب: واضح رہے کہ مسلمان عورت کے لیے کسی بھی غیر مسلم مرد (چاہے وہ عیسائی ہی کیوں نہ ہو) کے ساتھ نکاح کرنا بالاتفاق حرام ہے،اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
صورت مسئلہ میں جو لڑکی ایک عیسائی مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے، اور اس کے خاندان والے بھی اس پر راضی ہیں، تو شرعی حکم معلوم ہونے کے بعد ان پر لازم ہے کہ وہ اس شادی کرانے اور اس میں شرکت کرنے سے مکمل اجتناب کریں، لیکن اگر وہ شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود اس شادی کرنے اورکرانے سے باز نہیں آتے، اس صورت میں وہ شریعت کی نظرمیں حرام کام کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے سخت مجرم اور گناہگار ہوں گے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ اس شادی کا شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود حلال سمجھ کر شادی کرینگے یا حلال سمجھ کر شریک ہونگے، اس صورت میں (نعوذ باللہ) ان کا گناہ کفر تک پہنچ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [البقرة: ٢٢١]
اخْتَلَفَ أَهْلُ التَّأْوِيلِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: هَلْ نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا كُلُّ مُشْرِكَةٍ، أَمْ مُرَادًا بِحُكْمِهَا بَعْضَ الْمُشْرِكَاتِ دُونَ بَعْضٍ؟ وَهَلْ نُسِخَ مِنْهَا بَعْدَ وُجُوبِ الْحُكْمِ بِهَا شَيْءٌ أَمْ لَا؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا تَحْرِيمُ نِكَاحِ كُلِّ مُشْرِكَةٍ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ مِنْ أَيِّ أَجْنَاسِ الشِّرْكِ كَانَتْ عَابِدَةَ وَثَنٍ أَوْ كَانَتْ يَهُودِيَّةً أَوْ نَصْرَانِيَّةً أَوْ مَجُوسِيَّةً أَوْ مِنْ غَيْرِهِمْ مِنْ أَصْنَافِ الشِّرْكِ، ثُمَّ نُسِخَ تَحْرِيمُ نِكَاحِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِقَوْلِهِ: {يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ} [المائدة: ٤] إِلَى {وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [المائدة: ٥]

بدائع الصنائع: (کتاب النکاح، فصل في عدم نکاح الکافر المسلمۃ، 445/3)
ومنہا : إسلام الرجل إذا کانت المرأۃ مسلمۃ فلا یجوز إنکاح المؤمنۃ الکافر لقولہ تعالی : {ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا} - ولأن في إنکاح المؤمنۃ الکافر خوف وقوع المؤمنۃ في الکفر ، لأن الزوج یدعوہا إلی دینہ، والنساء في العادات یتبعن الرجال فیما یؤثروا من الأفعال ویقلدونہم في الدین إلیہ ، وقعت الإشارۃفي آخر الآیۃ بقولہ عز وجل : {اولٓئک یدعون إلی النار} ۔ لأنہم یدعون المؤمنات إلی الکفر ، والدعاء إلی الکفر دعاء إلی النار ، لأن الکفر یوجب النار ، فکان نکاح الکافر المسلمۃ سببًا داعیًا إلی الحرام فکان حرامًا ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 14:15


مسلمان خاتون کا کافر سے نکاح کرنا
سوال
اگر کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد سے جان بوجھ کر نکاح کرتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ عورت مسلمان رہے گی یا نہیں؟ اور اس کی سزا کیا ہے؟ جواب جلد عنایت فرمائیں!
جواب
کسی غیر مسلم مرد سے خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو ، مسلمان عورت کا نکاح  نہیں ہوسکتا، اس لیے جب تک مذکورہ عورت اس غیرمسلم مرد کے ساتھ رہے گی، مسلسل گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہوگی ، ایسی عورت  کو سمجھا کر غیرمسلم مرد سے علیحدہ کیا جائے ۔اگر عورت نے اپنا مذہب ترک نہیں کیا، بلکہ خواہشاتِ نفسانیہ کی بنا پر غیر مسلم کے ساتھ چلی گئی ایسی صورت میں مذکورہ عورت اسلام سے خارج نہیں، البتہ سخت جرم اورگناہ کی مرتکب ہے ۔جرائم کی بنا پر سزا کا نفاذ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے، عزیزواقارب کو چاہیے کہ مذکورہ عورت کو اس جرم کی شناعت وقباحت بتلاکر اور سمجھاکر دونوں میں فوراً جدائی کروادی جائے۔البتہ اگر کسی مسلمان خاتون نے مذکورہ قرآنی حکم کا انکار کرتے ہوئے اور اسے حلال سمجھتے ہوئے ایسا قبیح اقدام کیا ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی، جس کی وجہ سے سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے تجدیدِ ایمان کرنا لازم ہوگا۔  بدائع الصنائع میں ہے:
'ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر ؛ لقوله تعالى : ﴿ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوا﴾؛ ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه، وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل:﴿ أُولٰئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ﴾؛ لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سبباً داعياً إلى الحرام فكان حراماً، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة، فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى:﴿ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا﴾، فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لايجوز".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200718
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 14:09


سوال نمبر: 10919
عنوان:
ایک مسلمان مرد ایک غیر مسلم عورت سے کس طرح شادی کرسکتا ہے؟
سوال:
ایک مسلمان مرد ایک غیر مسلم عورت سے کس طرح شادی کرسکتا ہے؟
جواب نمبر: 10919
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 303=303/م
 
جب تک عورت غیرمسلم ہے تو مسلمان مرد اس سے شادی نہیں کرسکتا، ہاں اگر کبھی عورت اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے صدق دل سے رضائے الٰہی کی خاطر اسلام قبول کرلے، اور پھر کوئی مسلمان اس سے شرعی طریقے پر نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 14:07


مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت سے نکاح کرنے کا حکم
سوال
ایک مسلمان مرد کا کسی غیر مسلم یا غیر مذہب عورت سے شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
کسی مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت  سے نکاح کرنے کی چند صورتیں ہیں:
1۔ اگر وہ غیر مسلم عورت مسلمان ہوجائے  تو اس سے نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے۔
2۔اگر وہ غیر مسلم عورت اہلِ کتاب ( یعنی عیسائی یا یہودی مذہب کی پیروکار ) ہو  تو اس سے نکاح کرنامکروہ ہے، کیوں کہ موجودہ زمانے میں ان کے ساتھ بود و باش کی صورت میں اپنے یا اپنے بچوں کے دین اوران کی  اسلامی روایات کو بچانا مشکل ہے۔
3۔ اگر وہ غیر مسلم عورت کسی آسمانی دین کی ماننے والی نہیں، بلکہ دہریہ / مشرکہ  ہے تو اس سے نکاح کرنا جائزنہیں ہے۔
نوٹ:
اہلِ کتاب ے نکاح سے متعلق دوباتیں سمجھنے کی ہیں:
1-   اہلِ کتاب سے نکاح اس وقت جائزہے جب وہ حقیقتاً  آسمانی کتاب کے ماننے والے اور اس کے تابع دارہوں،دھریے نہ ہوں۔ اگرتحقیق سے کسی عورت کااہل کتاب ہونا ثابت ہوجائے تو ا س سے اگرچہ نکاح جائزہے، تاہم چندمفاسد کی وجہ سے مکروہ ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورمبارک میں اس پرسخت ناراضگی کااظہارفرمایاتھا۔
2- مسلمان مرد کو کتابیہ عورت کے ساتھ  اس شرط کے ساتھ نکاح کی اجازت ہے کہ وہ مسلمان مرد اسلام کی قوی اور روشن حجتوں اور مضبوط دلائل  کے ذریعہ کتابیہ عورت اور اس کے خاندان کے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرسکے،اگریہ اندیشہ ہوکہ کتابیہ عورت سے نکاح کے بعد خود مسلمان مرد اپنے ایمان کو قربان کربیٹھے گا توپھرمسلمان مرد کو کتابیہ سے نکاح کی اجازت نہ ہوگی۔
دوسری جانب چوں کہ عورت طبعی طور پربھی اور عقلی طور پربھی کم زور ہوتی ہے اور شوہر کے تابع ہوتی ہے ، اس میں یہ طاقت نہیں کہ مردکواپنے تابع بناسکے،اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے مسلمان عورت کا  کتابی مردکے ساتھ نکاح کرنے کو ممنوع قراردیاہے،تاکہ اس کادین سلامت رہے ۔ (معارف االقرآن 2/447،مولانامحمدادریس کاندہلویؒ،ط:مکتبۃ المعارف شہداد پور)
الفتاوى الهندية (1/ 281):
"ويجوز للمسلم نكاح الكتابية الحربية والذمية حرةً كانت أو أمةً، كذا في محيط السرخسي. والأولى أن لايفعل". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201718
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

!مرغوب المسائل چینل!

19 Sep, 14:07


سوال نمبر: 58785
عنوان:اگر کسی مسلمان مرد نے کسی غیر مسلم عورت سے شادی کی
سوال:اگر کسی مسلمان مرد نے کسی غیر مسلم عورت سے شادی کی (کورٹ میرج) اور اس کی اس بیوی سے بچہ ہے جو اسلام پر عمل کرتاہے تو جب وہ لڑکا بالغ ہوا اور وہ نکاح کرنا چاہتاہے کسی مسلمان لڑکی سے تو کیا اس کی والدہ کا غیر مسلم ہونا کیا شریعت میں اس کے لیے شادی کرنے سے مانع ہوگی یا نہیں؟
جواب نمبر: 58785
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 327-327/Sd=7/1436-U مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، دونوں کے مابین علیحدگی لازم ہے؛ البتہ جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ مسلمان قرار دیا جائے گا اور بالغ ہونے کے بعد اگر وہ اسلام پر باقی ہے تو اس کا مسلمان لڑکی سے نکاح جائز ہے، اگرچہ اس کی والدہ غیرمسلم ہوں، والدہ کا غیر مسلم ہونا مسلمان لڑکے کے نکاح کے لئے مانع نہیں ہے۔ قال الحصکفي: والولد یتبع خیر الأبوین دینًا قال ابن عابدین: مسلم زنی بنصرانیة فأتت بولد، فہل یکون مسلما؟ قال: یظہر لي الحکم بالإسلام للحدیث الصحیح: ”کل مولود یولد علی الفطرة حتی یکون أبواہ ھما اللذان یھودانہ أو ینصرانہ“ فإنہم قالوا: إنہ جعل اتفاقہما ناقلاً لہ عن الفطرة فإذا لم یتفقا بقي علی أصل الفطرة أو علی ما ہو أقرب إلیہما- إلخ (الدر المختار مع رد المحتار: ۴/ ۲۷۶، کتاب النکاح، الولد یتبع خیر الأبوین دینًا، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمدمرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ

1,680

subscribers

52

photos

2

videos