مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

@fatawaulamaedeoband


اس چینل میں علماء دیوبند کے منتخب مضامین و فتاوی حسبِ فرصت ارسال کیے جاتے ہیں۔

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 22:00


مروجہ تبلیغی جماعت کی ترتیب اور نظام سے متعلق جامعہ دار العلوم کراچی کا ایک اور اہم فتوی۔

بہ شکریہ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 22:00


دین کی دعوت وتبلیغ کے درجات اور مروجہ تبلیغی جماعت کی ترتیب اور نظام سے متعلق جامعہ دار العلوم کراچی کا ایک اہم فتوی۔

بہ شکریہ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 22:00


‼️ مروجہ تبلیغی جماعت کی ترتیب اور نظام کا شرعی حکم

معروف تبلیغی جماعت میں رائج نظام اور ترتیب (یعنی سہ روزہ، عشرہ، چلہ، چار ماہ، سات ماہ اور سال وغیرہ) کے مطابق دین کی تبلیغ کرنے سے متعلق بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں، ذیل میں اس حوالے سے چند اصولی باتیں ذکر کی جارہی ہیں تاکہ شرعی حکم واضح ہوسکے، البتہ زیرِ بحث معاملے میں دین کی دعوت وتبلیغ کی اہمیت، ضرورت، افادیت، فضیلت اور شرعی حکم بیان کرنا مقصود نہیں، بلکہ معروف تبلیغی جماعت کے بزرگوں کی جانب سے وضع کردہ مفید نظام اور ترتیب سے متعلق کچھ عرض کرنا ہے، اس لیے اس تحریر کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے:
1️⃣ تبلیغی جماعت کی یہ ترتیب اور نظام بذاتِ خود مقصود نہیں بلکہ یہ دین سیکھنے اور اس کی اشاعت کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے جس میں تبدیلیاں ہوسکتی ہیں بلکہ ہوتی رہتی ہیں، اس لیے یہ اِحداث للدین کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے یہ ترتیب اور نظام بدعت نہیں، بلکہ اپنی ذات میں جائز اور مباح ہے، کیونکہ اگر اسے مقصود یعنی فرض، واجب، سنت یا مستحب سمجھا جائے تو یہ احداث فی الدین کے زمرے میں داخل ہوکر بدعت ٹھہرے گا۔
2️⃣ بزرگوں کی جانب سے وضع کردہ ایسے تمام نظام اپنی اہمیت اور افادیت سے قطع نظر اپنی ذات میں فقط مباح ہوا کرتے ہیں، البتہ ان نظاموں کی اہمیت، ضرورت اور افادیت اُن اعمال اور کاموں کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے جن کے لیے یہ نظام وضع کیے گئے ہوتے ہیں، اور لوگ بھی ان نظاموں کو اُن اعمال کی نظر سے دیکھتے ہیں جن کے لیے یہ نظام وضع کیے گئے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ان نظاموں پر وہی شرعی حکم لگاتے ہیں جو اُن اعمال کا ہوتا ہے، اور یہی غلط فہمی اور غلطی ہے، حالانکہ درست موقف یہ ہے کہ اُن اعمال کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کی وجہ سے ان مباح نظاموں کی افادیت، اہمیت اور ضرورت تو بیان کی جاسکتی ہے لیکن ان نظاموں پر وہی شرعی حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ جو اُن اعمال کا ہوتا ہے جن کے لیے یہ نظام وضع کیے گئے ہوتے ہیں۔ دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔
3️⃣ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں عرض یہ ہے کہ مروجہ تبلیغی جماعت مجموعی اعتبار سے خیر پر مبنی ایک مفید اور اہم جماعت ہے، اس کی اہمیت اور افادیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس جماعت کی ترتیب جیسے سہ روزہ، چلہ، چار ماہ، سات ماہ اور سال کے مطابق دعوت وتبلیغ کرنا فرض، واجب، سنت یا مستحب نہیں، بلکہ فقط جائز اور مباح ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: فتوی جامعہ دار العلوم کراچی نمبر: 1307/ 98 اور فتوی نمبر: 960/ 54)

✍️ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
6 محرم الحرام 1446ھ/ 13 جولائی 2024
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 21:14


اللہ تعالیٰ کو خدا کہنے سے متعلق ایک تفصیلی فتویٰ

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 21:01


ادنی جنتی کی جنت اس دنیا سے دس گنا بڑی ہوگی یا آسمان وزمین سے بڑی؟

via www.banuri.edu.pk

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 21:01


ایک حدیث کی تحقیق

سوال:میں ایک ضروری مسئلہ دریافت کرنا چاھتا ھوں۔میں نے کئی مرتبہ تبلیغی حضرات کو یہ کہتے ہوے سنا کہ "حدیث میں آتا ھے کہ جو شخص اس دنیا سے رائے کے دانے کے برابر بھی ایمان بچا کر لیجایٴگا اللہ تعالی اسے اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے " ایک مرتبہ میں بھی جماعت میں تھا تو ھمارے ایک ساتھی نے بھی یہ حدیث بیان کردی۔جس ایک صاحب کہنے لگے کہ یہ حدیث نہیں ھے ۔ یہ تو تبلیغ والے ایک دوسرے کی سنا سنی بیان کرنے لگے ۔ اب براے ٴ کرم مسٴلہ حل فرما ئیں کہ کیا واقعی یہ حدیث نہیں ھے .؟ یا حدیث تو ھے پر "دس گنا" کی قید نہیں؟ یا یہ کسی صحابی وغیرہ کی تحقیق(قول) ھے .؟ یا واقعی حدیث ھے .؟اگر حدیث ھے تو براے ٴکرم کتاب کا حوالہ دیں۔ اور ساتھ ہی راوی کا نام بھی بتا دیں ۔

جواب نمبر: 61823
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 45-45/Sd=1/1437-U اس ترتیب کے ساتھ مضمون کہ جس کے دل میں ر ائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا، اللہ تعالی اُس کو اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے، احادیث میں تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکا؛ البتہ دو مضمون کی حدیثیں الگ الگ ثابت ہیں: (۱) بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کی وجہ سے اللہ تعالی اس کو قیامت کے دن جنت میں داخل فرمائیں گے۔ عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال سمعتُ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا کان یوم القیامة، شفعت، فقلتُ: یا ربّ ! ادخل الجنة من کا في قلبہ خردلة، فیدخلون۔ وفي روایة: فأقول: یا رب أمتي یا رب أمتي، فیقول: انطَلِق، فأخرج منہا من کان في قلبہ مثقال ذرة أو خردلة من ایمان، فأخرجہ، فأنطلقُ، فأفعلُ۔۔۔ (صحیح البخاري: کتاب التوحید، باب کلام الرب عز و جل یوم القیامة مع الأنبیاء و غیرہم، رقم: ۷۵۰۹، ۷۵۱۰)۔ (۲) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جو شخص سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا، اُس کو اللہ تعالی اس دنیا سے دس گنابڑی جنت عطا فرمائیں گے۔ عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اني لأعلم آخر أہل النار خروجا منہا، و آخر أہل الجنة دخولاً الجنة۔۔۔۔۔ وفیہ: فیقول اللّٰہ تعالی لہ: اذہب، فادخل الجنة، فان لک مثل الدنیا و عشرة أمثالہا، أو ان لک عشرة أمثال الدنیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب آخر أہل النار خروجاً، رقم: ۳۰۸)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 21:01


اور عرض کرے گا :یا رب !میں نے اس کو بھرا ہوا پایا۔ اللہ فرمائیں گے کہ جا جنت میں داخل ہوجا ،تیرے لیے اس میں دنیا کے برابر اور اس کے دس گنا برابر ہے یا فرمایا کہ تیرے لیے دنیا کی مثل دس گنا ہے۔ وہ کہے گا کہ آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں یا ہنسی کرتے ہیں،حال آں کہ آپ بادشاہ ہیں! میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی مبارک ڈاڑھیں ظاہر ہوگئے اور کہا جاتا تھا کہ یہ جنت والوں کا ادنیٰ مرتبہ ہے۔

صحيح مسلم ـ - (1 / 118):

"عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إنى لأعلم آخر أهل النار خروجا منها وآخر أهل الجنة دخولا الجنة رجل يخرج من النار حبوا فيقول الله تبارك وتعالى له اذهب فادخل الجنة فيأتيها فيخيل إليه أنها ملأى فيرجع فيقول يا رب وجدتها ملأى. فيقول الله تبارك وتعالى له اذهب فادخل الجنة - قال - فيأتيها فيخيل إليه أنها ملأى فيرجع فيقول يا رب وجدتها ملأى فيقول الله له اذهب فادخل الجنة فإن لك مثل الدنيا وعشرة أمثالها أو إن لك عشرة أمثال الدنيا - قال - فيقول أتسخر بى - أو أتضحك بى - وأنت الملك » قال لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه. قال فكان يقال ذاك أدنى أهل الجنة منزلة."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (8 / 3561):

"(فإن لك مثل الدنيا) أي: في سعتها وقيمتها (وعشرة أمثالها) أي: زيادة عليها في الكمية والكيفية، وفيه إيماء إلى قوله تعالى: {من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها} [الأنعام: 160] ، فالمؤمن حيث ترك الدنيا وهي صارت كالحبس في حقه جوزي بمثلها عدلا وأضعافها فضلا، (فيقول: أتسخر) : بفتح الخاء أي: أتستهزئ (مني - أو تضحك مني -) : شك من الراوي (وأنت الملك)؟ أي: والحال أنت الملك القدوس الجليل. (فلقد رأيت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ضحك حتى بدت) أي: ظهرت (نواجذه) أي: أواخر أضراسه، (وكان يقال) : الظاهر أن هذا كلام عمران، أو من بعده من الرواة، فالمعنى: وكان يقول الصحابة أو السلف (ذلك أدنى أهل الجنة منزلة. متفق عليه)."

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144301200199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 21:01


ایمان بچانے سے متعلق ایک روایت کی تحقیق

سوال
"جو شخص دنیا سے رائی کے دانے کے برابر ایمان بچا کے لے جائے گا ،اللہ تعالی اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے "،کیا یہ حدیث ہے ؟


جواب
ان الفاظ کے ساتھ کہ :"جو شخص دنیا سے رائی کے دانے کے برابر ایمان بچا کے لے جائے گا ،اللہ تعالی اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے "،کوئی روایت ہمیں نہیں مل سکی، البتہ اس کے قریب قریب مضمون کی روایات احادیث کی کتب میں موجود ہیں، جن میں یہ صراحت ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، انہیں جنت نصیب ہوگی، رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان والا شخص نبی کریم ﷺکی آخرت میں سفارش کا مستحق ہوگا، اور سفارش کے ذریعہ جنت میں داخل ہوگا،نیز ایک روایت جو مختلف کتب حدیث میں بہ شمول بخاری ومسلم کے موجود ہے کہ جنت میں ایک شخص جو سب سے آخر میں داخل ہوگا اسے اللہ تعالیٰ اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے۔

ملاحظہ ہو:

صحيح البخاري - (1 / 12):

"عن أبي سعيد الخدري ، رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: يدخل أهل الجنة الجنة و أهل النار النار، ثم يقول الله تعالى: أخرجوا من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان، فيخرجون منها قد اسودّوا؛ فيلقون في نهر الحيا، أو الحياة -شكّ مالك- فينبتون كما تنبت الحبة في جانب السيل ألم تر أنها تخرج صفراء ملتوية."

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہوں گے، پھر وہ نہر حیا، یا نہر حیات میں ڈال دیے جائیں گے، تب وہ تروتازہ ہوجائیں گے، جس طرح دانہ (تروتازگی اور سرعت کے ساتھ) بہنے والے پانی کے کنارے اگتا ہے، (اے شخص) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دانہ کیسا سبز کونپل زردی مائل نکلتا ہے؟

صحيح مسلم - (1 / 65):

"عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « لايدخل النار أحد في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان و لايدخل الجنة أحد في قلبه مثقال حبة خردل من كبرياء»."

ترجمہ:حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا اور کوئی ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا۔

صحيح البخاري - (9 / 179):

"عن حميد قال: سمعت أنسًا رضي الله عنه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إذا كان يوم القيامة شفعت، فقلت: يا ربّ أدخل الجنة من كان في قلبه خردلة؛ فيدخلون، ثم أقول: أدخل الجنة من كان في قلبه أدنى شيء، فقال أنس: كأني أنظر إلى أصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم."

ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سے روایت ہے کہ: میں نے نبی کریم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ :جب قیامت کا دن آئے گا تو میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں درخواست کروں گا: اے پروردگار ! ہر اس شخص کو جنت میں داخل کردے جس کے دل میں رائی برابر ایمان ہو ،چنانچہ وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ۔پھر میں کہوں گا: ہر اس شخص کو جنت میں داخل کر دے جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں گویا رسول اللہ ﷺکی انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں (جن سے اشارہ کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا تھا)۔

صحيح البخاري ـ - (8 / 146):

"عن عبد الله ، رضي الله عنه ، قال النبي صلى الله عليه وسلم: إني لأعلم آخر أهل النار خروجًا منها و آخر أهل الجنة دخولًا، رجل يخرج من النار كبوًا، فيقول الله: اذهب فادخل الجنة، فيأتيها فيخيل إليه أنها ملأى، فيرجع فيقول: يا رب وجدتها ملأى، فيقول: اذهب فادخل الجنة، فيأتيها فيخيل إليه أنها ملأى، فيقول: يا رب وجدتها ملأى، فيقول: اذهب فادخل الجنة؛ فإن لك مثل الدنيا وعشرة أمثالها، أو إن لك مثل عشرة أمثال الدنيا، فيقول: تسخر مني، أو تضحك مني و أنت الملك! فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه، وكان يقال: ذلك أدنى أهل الجنة منزلةً."

ترجمہ :حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ :میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا، وہ آدمی ہوگا جو دوزخ سے اوندھے منہ نکلے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ ،وہ جنت میں آئے گا ،اس کو خیال آئے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے ،چناں چہ وہ لوٹ کر آئے گا اور عرض کرے گا :یا رب! میں نے اس کو بھرا ہوا پایا۔ اللہ فرمائیں گے کہ جا اور جنت میں داخل ہوجا ،وہ جنت میں جائے گا تو اس کو خیال ہوگا کہ بھری ہوئی ہے ،چناں چہ وہ دوبارہ لوٹ آئے گا

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 21:00


ہر نماز کی تمام رکعات میں سورتِ فاتحہ سے پہلے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔ یہ حکم امام کے لیے بھی ہے اور اکیلے نماز ادا کرنے والے مرد اور عورت کے لیے بھی ہے کیوں کہ ان کے ذمے قرأت ہے، جبکہ مقتدی امام کے پیچھے کسی بھی رکعت میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نہیں پڑھے گا کیوں کہ اس کے ذمے قرأت نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رد المحتار)
✍️ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:56


سہیمہ نام رکھنا

سوال
بچی کا نام ’’سہیمہ‘‘ رکھنا کیسا ہے؟ہمارے ہاں مشہور ہے کہ اگر بچی کا نام بشری رکھا جائےتو اس کے بعد بیٹا پیدا ہوتا ہے ،اس بات پر یقین رکھنا کیسا ہے ؟

جواب
بچی کا نام ’’سہیمہ ‘‘رکھنا درست ہے اور باعث برکت بھی ہے، ’’سہیمہ‘‘کئی صحابیات رضی اللہ عنہن کا اسم گرامی تھا ۔

کسی بچی کا نام بشریٰ رکھنا بذات خود درست ہے، البتہ یہ اعتقاد رکھنا کہ اس نام رکھنے کے بعد بیٹے کی ولادت ہوتی ہے، ایسا شریعت میں کہیں ثابت نہیں ہے۔

الاصابہ میں ہے :

"سهيمة بنت أسلم بن الحريش أخت سلمة بن أسلم شقيقته أمهما سعاد بنت رافع النجارية وزوجها محيصة بن مسعود وأسلمت سهيمة وبايعت قاله بن سعد وذكرها بن حبيب في المبايعات."

(الاصابہ فی تمییزالصحابہ، ج:۷،ص؛۷۱۷،ط:دارالجیل بیروت)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144310101013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:35


فرضیت سے پہلے حج کی ادائیگی کا حکم اور حج فرض ہونے کے بعد بِلا عُذرِ شرعی حج میں تاخیر کرنے کا حکم

سوال
بہت سال پہلے میں نے حج کیا تھا، جو مجھے کسی نے کروایا تھا ، اور اس شخص نے مجھے کہا یہ تمہیں تحفہ میں کروا رہا ہُوں، اس سفر میں اپنے لیے حج کی دعا بھی مانگنا۔ اس وقت مجھے کچھ نہیں پتہ تھا تو میں نے نفل عبادت کی نیت سے عمرہ بھی کیا اور حج بھی کیا، اور یہ نیت اور دعاء کی تھی کہ جیسے ہی حج فرض ہوگا تو خود حج کروں گا۔ اب اللہ پاک نے بہت برکتیں دی ہیں اور میں نے زکوة بھی ادا کی، تو مجھے مسجد کے امام صاحب نے کہا، اب آپ پر حج فرض ہے،تو کیا مجھ پر حج فرض ہوگا؟اگر مجھ پر حج فرض ہے تو اسی سال حج کرنا ضروری ہے؟

جواب
صورتِ مسئولہ میں سائل نے مالی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں کسی اور کے حج کروانے پر جوحج کیا ہے اس میں چُو ں کہ سائل نے مطلقاً حج کی نیت یا فرض حج کی نیت نہیں کی بلکہ خاص نفل حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کیا تھا، تو اب استطاعت و قدرت ہونے کی وجہ سے سائل پر حج فرض ہوچُکا ہے۔ نیز حج فرض ہونے کے بعد لازم ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو حج ادا کر لے، حدیث شریف میں ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو ، کسی کو کیا خبر کہ بعد میں کوئی مرض یا کوئی اور ضرورت لاحق ہو جائے۔حج فرض ہونے کے بعد وقت ملنے پر بھی بلا عذرِ شرعی (کوئی سخت بیماری آجائے یا کسی اسبابی رکاوٹ مثلاً ویزہ یا ٹکٹ نا ملنے یا پھر سرکاری پابندی) کےحج کی ادائیگی میں تاخیر کرنا گناہ ہے،تاہم اگر زندگی میں ادا کر لیا تو ادا ہو جائے گا اور تاخیر کا گناہ بھی نہ رہے گا، اور اگر زندگی میں ادا نہ کر سکا تو گناہ گار ہو گا۔ اس كے علاوه كئي احاديثِ مباركہ ميں حج كی ادائيگی ميں جلدی كی ترغيب آئی ہے كه جو شخص حج كا اراده كرے تو اسے چاہیے کہ جلدی کرے۔ لہٰذا حج فرض ہوجانے کہ بعد جلد از جلد حج ادا کرلیا جائے تاخیر کی صورت میں پچھتاوا اور محرومی کا اندیشہ تو ہے ہی لیکن گناہ سے خالی بھی نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ليفيد أنه يتعين عليه أن لا ينوي نفلا على زعم أنه لا يجب عليه لفقره ۔۔۔ فلو نواه نفلاً لزمه الحج ثانيا".

(كتاب الحج، ج:2، ص:460، ط: سعید)

حدیث شریف میں ہے:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌أراد ‌الحج ‌فليعجل. رواه أبو داود والدارمي".

(مشكاة المصابيح، کتاب المناسک، الفصل الثانی، ج:2، ص:775، رقم الحدیث:2523-:المكتب الإسلامي - بيروت)

حدیث شریف میں ہے:

"تعجلوا الخروج إلى مكة فإن أحدكم لايدري ما يعرض له من مرض أو حاجة. "الديلمي عن ابن عباس".

(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج:5، ص:16، رقم الحدیث:11851، ط:مؤسسة الرسالة)

حدیث شریف میں ہے:

" ‌من ‌أراد ‌الحج فليتعجل. "حم د1

" ‌من ‌أراد ‌الحج فليتعجل، فإنه قد يمرض المريض، وتضل الضالة وتعرض الحاجة". حم هـ عن الفضل"2

"تعجلوا إلى ‌الحج، فإن أحدكم لا يدري ما يعرض له."حم عن ابن عباس".

(کنز العمال، کتاب الحج والعمرۃ، الفصل الثالث: في آداب الحج ومحظوراته، ج:5، ص24، رقم الاحادیث، 11886، 111887، 11888، ط:مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

" (على الفور) في العام الأول عند الثاني وأصح الروايتين عن الإمام ومالك وأحمد فيفسق وترد شهادته بتأخيره أي سنينا لأن تأخيره صغيرة وبارتكابه مرة لا يفسق إلا بالإصرار بحر ووجهه أن الفورية ظنية لأن دليل الاحتياط ظني، ولذا أجمعوا أنه لو تراخى كان أداء وإن أثم بموته قبله وقالوا لو لم يحج حتى أتلف ماله وسعه أن يستقرض ويحج ولو غير قادر على وفائه ويرجى أن لا يؤاخذه الله بذلك، أي لو ناويا وفاء إذا قدر كما قيده في الظهيرية.

(قوله: كان أداء) أي ويسقط عنه الإثم اتفاقا كما في البحر قيل: المراد إثم تفويت الحج لا إثم التأخير. قلت: لا يخفى ما فيه بل الظاهر أن الصواب إثم التأخير إذ بعد الأداء لا تفويت وفي الفتح: ويأثم بالتأخير عن أول سني الإمكان فلو حج بعده ارتفع الإثم اهـ وفي القهستاني: فيأثم عند الشيخين بالتأخير إلى غيره بلا عذر إلا إذا أدى ولو في آخر عمره فإنه رافع للإثم بلا خلاف. "

(کتاب الحج، ج:2، ص:455 و456، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144411101187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:35


ستطاعت و فرضیت سے پہلے حج کرنے کے بعد فقیر شخص پر حج فرض ہوجائے تو کیا حکم ہوگا؟

سوال
جس شخص پر حج فرض نہیں، اس نے حج کر لیا ، بعد میں حج فرض ہوگیا، وہ دُوبارہ حج کرے گا؟

جواب
صورت مسئولہ میں مالی استطاعت نہ رکھنے والے شخص نے اگر صرف حج کی نیت سے یا فرض کی نیت سے احرام باندھ کر حج کیا تھا، تو اس پر مالدار ہونے کے بعد دوبارہ حج فرض نہیں ہے، لیکن اگر اس نے نفل حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کیا تھا، تو اس پر مالدار ہونے کے بعد دوبارہ حج کرنا فرض ہے۔
اگر اس نےفرض یا نفل وغیرہ کی نیت کے بغیر مطلق نیت کرکے احرام باندھا تھا، تو اس صورت میں بھی مالدار ہونے کے بعد اس شخص پر دوبارہ حج فرض نہیں ہوگا۔

لباب المناسک مع إرشاد الساری میں ہے:

"وأمّا الفقیر… ومن بمعناه… إذا حج سقط عنه الفرض إن نواه أی الفرض فی إحرام حجه أو أطلق النیة… حتی لو استغنی أو صار غنیا بحصول المال من الوجه الحلال بعد ذلک… لایجب علیه ثانیًا".

(باب شرائط الحج، النوع الرابع: شرائط وقوع الحج عن الفرض، ص: 88، ط: الإمدادیة، مکّة المکرّمة)

(غنیة الناسک، باب شرائط الحج، فصل: فیما إذا وجد شرائط الوجوب والأداء: 32، ط: إدارة القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الفقير إذا حج ماشيا ثم أيسر لا حج عليه هكذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب المناسک، الباب الأوّل: فی تفسیر الحج و فرضیته، ج:1، ص:217، ط: رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ليفيد أنه يتعين عليه أن لا ينوي نفلا على زعم أنه لا يجب عليه لفقره ۔۔۔ فلو نواه نفلا لزمه الحج ثانيا. اه.".

(كتاب الحج، ج:2، ص:460، ط: سعید)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"ولو حج الفقيرماشياً سقط عنه حجة الإسلام، حتى لو استغنى بعد ذلك لا يلزمه ثانيا".

(الاستطاعة من شروط وجوب الحج، ج:4، ص:144، ط: دار الكتب العلمية)

منحة الخالق علی ھامش البحر الرائق میں ہے:

"حج الفقير نفلا يجب عليه أن يحج حجا ثانيا اه".

(باب الحج عن الغير، ج:3، ص:74، ط: دار الكتاب الإسلامي)

مجمع الأنهر میں ہے:

"ولو حج الفقير ثم استغنى لم يحج ثانيا؛ لأن شرط الوجوب التمكن من الوصول إلى موضع الأداء ألا ترى أن المال لا يشترط في حق المكي وفي النوادر أنه يحج ثانيا".

(شروط الحج، ج:1، ص:260، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144411101061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:35


محلہ میں غرباء کی موجودگی میں حج عمرہ پہ جانا
سوال
ایک آدمی کے ہمسائے مفلس ہیں اور محلے کی مسجد کا حال فقیر کے کپڑوں جیسا ہوا ہے، تو کیا ایسی صورت حال میں محلے کے جو لوگ پیسہ جمع کرکے حج اور عمرے کرتے ہیں یہ جائز ہے یانہیں؟

جواب
واضح رہے کہ اگر کسی شخص پر حج کی شرائط پوری ہونے کی وجہ سے حج واجب ہو، تو اس کیلئے تمام نفلی کاموں میں خرچ کرنے سے زیادہ ضروری ان پیسوں سے حج کرنا ہے۔ اور اس کے پاس اگر صرف اتنے ہی پیسے ہوں کہ یا تو ان سے حج ادا کرسکے یا اس کو غریبوں پر خرچ کر سکے تو اس پر لازم ہے کہ اس رقم سے اپنا فرض حج ادا کرے ۔ اس کے بعد غریب ہمسایوں اور محلے کی مسجد میں بھی حتی الوسع تعاون کی کوشش کرنے کی چاہیے ۔

ہاں نفلی حج یا عمرہ کرنا بھی بہت عظیم سعادت اور نیکی کا کام ہے،لیکن اسی طرح مسجد میں خرچ کرنا اور غرباء پر انفاق بھی خیرِ کثیر کا حامل ہے، سارے ہی نیکی کے کام ہیں، اب ان میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ ان کاموں میں سے جس کی ضرورت زیادہ ہو اُس میں زیادہ ثواب ہو گا، یعنی اگر محلہ کی مسجد کی تعمیر کے لیے پیسوں کی کمی کی وجہ سے ضرورت زیادہ ہو تو اس مسجد کی تعمیر میں پیسے خرچ کرنا زیادہ افضل ہوگا اور اگر کسی جگہ فقراء زیادہ ضرورت مند یا نیک صالح یا سادات میں سے ہوں تو ان پر خرچ کرنا اور ان کا اکرام کرنا دیگر کاموں سے زیادہ افضل ہوگا۔ اور اگر مسجد کی تعمیر کے لیے درکار پیسے موجود ہوں اور علاقہ کے فقراء بہت زیادہ محتاج نہ ہوں، بلکہ اُن کی ضروریات کسی طرح پوری ہو رہی ہوں تو نفلی حج و عمرہ کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔

شامی میں ہے:

"بناء الرباط أفضل من حج النفل. واختلف في الصدقة، ورجح في البزازية أفضلية الحج لمشقته في المال والبدن جميعاً، قال: وبه أفتى أبو حنيفة حين حج وعرف المشقة.

(قوله: ورجح في البزازية أفضلية الحج) حيث قال: الصدقة أفضل من الحج تطوعاً، كذا روي عن الإمام لكنه لما حج وعرف المشقة أفتى بأن الحج أفضل، ومراده أنه لو حج نفلاً وأنفق ألفاً فلو تصدق بهذه الألف على المحاويج فهو أفضل لا أن يكون صدقة فليس أفضل من إنفاق ألف في سبيل الله تعالى، والمشقة في الحج لما كانت عائدةً إلى المال والبدن جميعاً فضل في المختار على الصدقة. اهـ. قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل، كما ورد: «حجة أفضل من عشر غزوات». وورد عكسه، فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل، وكذا بناء الرباط إن كان محتاجاً إليه كان أفضل من الصدقة وحج النفل وإذا كان الفقير مضطراً أو من أهل الصلاح أو من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم فقد يكون إكرامه أفضل من حجات وعمر وبناء ربط. كما حكى في المسامرات عن رجل أراد الحج فحمل ألف دينار يتأهب بها فجاءته امرأة في الطريق وقالت له: إني من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم وبي ضرورة فأفرغ لها ما معه، فلما رجع حجاج بلده صار كلما لقي رجلاً منهم يقول له: تقبل الله منك، فتعجب من قولهم، فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في نومه وقال له: تعجبت من قولهم تقبل الله منك؟ قال: نعم، يا رسول الله؛ قال: إن الله خلق ملكاً على صورتك حج عنك؛ وهو يحج عنك إلى يوم القيامة بإكرامك لامرأة مضطرة من آل بيتي؛ فانظر إلى هذا الإكرام الذي ناله لم ينله بحجات ولا ببناء ربط".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين،‌‌كتاب الحج، فروع في الحج، مطلب في تفضيل الحج على الصدقة، (رد المحتار) ،2/ 621، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144403101775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:31


مقتدیوں کا امام کی تکبیراتِ انتقال سے پہلے تکبیر کہنا

سوال
اگر امام صاحب نماز میں رکوع سجدہ کے وقت "الله اکبر" کہتے ہیں، اس کے اندر "اللہ" کہنے میں ہی مقتدی رکوع میں چلے جاتے ہیں اور امام صاحب "اکبر" رکوع میں مقتدیوں کے جانے کے بعد کہتے ہیں، اسی طرح سجدہ میں ہوتا ہے، سارے مقتدی چلے جائيں گے ، اس کے بعد امام صاحب کی "اکبر" کہنے کی آواز آتی ہے، اس کا کیا علاج ہے؟ اور ایسے میں مقتدیوں کی نماز خراب ہوگی یا نہیں؟ امام صاحب کو اس کے بارے میں کس طرح سمجھایا جائے۔ اگر امام صاحب کی یہ عادت نہیں ختم ہوئی تو کیا علاج ہے؟

جواب
مقتدیوں کا امام سے پہلے تکبیرات انتقال کہنا یا رکوع اور سجدہ ميں جانا یا سر اٹھانا مکروہ ہے، اسی طرح تکبیراتِ انتقال (اللہ اکبر) اور تسمیع (سمع الله لمن حمده) کے کلمات ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کہنا چاہیے، مکمل دوسرے رکن میں جاکر کہنا بھی مکروہ ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر امام ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے تکبیر کہنا شروع کرتے ہیں اور مقتدی ان کے تکبیر شروع کرنے کے بعد تکبیر کہتے ہیں، اور امام کے رکوع اور سجدہ میں پہنچنے کے بعد وہ رکوع اور سجدہ میں پہنچتے ہیں ، صرف ان کی تکبیرات کا "اکبر" امام سے پہلے ختم ہوجاتا ہے تو اس صورت میں ان کی نماز میں کراہت نہیں ہوگی، البتہ امام کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد تکبیر ختم کرلیا کرے، تاکہ مقتدی ان سے آگے نہ بڑھ جائیں۔

لیکن اگر مقتدی امام کے تکبیر شروع کرنے سے پہلے تکبیر شروع کردیتے ہیں، یا امام کے رکوع اور سجدہ میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع اور سجدہ میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کی نماز مکروہ ہوگی، اس لیے انہیں عجلت سے کام لینے کے بجائے امام کے دوسرے رکن میں پہنچنے کا انتظار کرنا چاہیے، بہرصورت دونوں طرف سے اعتدال کی ضرورت ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 107):

"ويكره للمأموم أن يسبق الإمام بالركوع والسجود وأن يرفع رأسه فيهما قبل الإمام. كذا في محيط السرخسي".

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144207201527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:31


فیصد کے اعتبار سے نفع متعین کرکے کاروبار میں پیسے خرچ کرنا

سوال
اگر کسی بندے کو پیسے دے اور وہ فیصد کے اعتبار سے منافع دے اور کاروبار جائز ہو تو ایسے کاروبار میں پیسے لگانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب
ایک شخص کے سرمایہ اور دوسرے کی محنت سے چلنے والا کاروبار عقد مضاربت کہلاتا ہے ۔ مضاربت کی من جملہ شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ راس المال معلوم ہو اورنفع کی تقسیم مضارب اور رب المال کے درمیان کسی خاص تناسب سے مقرر ہو یعنی نفع کو فیصد کے اعتبار سے متعین کیا جائے جب کہ نقصان کا ذمہ دار صرف رب المال(مالک مال )ہوگا۔

صورت مسئولہ کے مطابق جو بندہ پیسے دیتاہے اگر سرمایہ صرف اسی کا ہو اور دوسرے کا سرمایہ نہ ہو بلکہ اس کا صرف عمل ہو تو یہ معاملہ عقد مضاربت ہے ۔دیگرشرائط کی رعایت کے ساتھ ساتھ نفع کو فیصد کے اعتبار سے متعین کیا جائے۔

المضاربة نوع شركةعلى أن رأس المال من طرف والسعي والعمل من الطرف الآخر۔(شرح المجلة لسليم رستم باز ،كتاب المضاربة،الفصل الاول،المادة:1404ص744)

ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة من الربح۔۔۔۔لفساده فلعله لا يربح إلا هذا القدر۔(الهداية،كتاب المضاربةج3ص263)

ویشترط ایضافي المضاربةان يكون نصيب كل منهما من الربح معلوما عند العقد ؛لان الربح هو المعقود عليه ،و جهالته توجب فساد العقد ۔(فتح القدير ،كتاب المضاربةج7ص421)

فتویٰ نمبر : 2756/297/322

دارالا فتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:28


واٹسپ میں ڈیلیٹ كیا ہوا میسج بغیر اجازت پڑھنے كا شرعى حكم
t.me/FatawaUlamaeDeoband

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:15


حالت جنابت میں زیرناف بال کاٹنا
سوال
کیا جنابت کی حالت میں زیر ناف بال کاٹنا جائز ہے؟

جواب
جنابت ایسی نجاست ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی لیکن بدن کے ہر ہر جز میں حلول کر جاتی ہے یہاں تک کہ بدن کا ہر بال اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور اس کی طہارت کا واحد ذ ریعہ ٖغسل ہے ، لہذا غسل کرنے سے قبل جو بال یا ناخن کاٹا جائے، وہ نجس ہو کر بدن سے علیحدہ ہو جا تا ہے جس کے لیے بعدازاں طہارت کی کوئی صورت باتی نہیں رہتی ، اس لیے غسل سے قبل جنابت کی حالت میں بدن سے زائد بال کاٹنے یا ناخن تراشنے کوفقہاے کرام نے مکروہ لکھا ہے ۔



حلق الشعر حالة الجنابة مكروه، وكذا قص الأظافير. (الفتاوى الهنديه، كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها،ج:5، ص:358)

فتویٰ نمبر : 5115/297/328

دارالا فتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

مسائل وفتاویٰ علماء دیوبند

20 Jan, 20:15


جنبی کے لیے غسلِ جنابت کے وقت زیرِ ناف بال صاف کرنے کا حکم

سوال
کیا جنبی کے لیے غسلِ جنابت کے وقت زیرِ ناف بال صاف کرنا ضروری ہے؟



جواب
جنبی کے لیے غسلِ جنابت کے وقت زیرِناف بال صاف کرنا ضروری نہیں، ویسے بھی جنابت کی حالت میں زیرِ ناف بال کاٹنا مکروہ ہے،لہٰذا جنبی پہلے غسل کر کے جسم کو پا ک کرے ، اس کے بعد زیرِ ناف بال صاف کرے ۔ غسل میں تین چیزیں فرض ہیں، ایک منہ بھر کر کلی کرنا، دوسراناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور تیسرا پورے جسم پر پانی بہانا۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وفرض الغسل غسل فمه وأنفه وبدنه).....وقوله الغسل يعني غسل الجنابة والحيض والنفاس".

(كتاب الطهارة، 86/1، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌حلق ‌الشعر حالة الجنابة مكروه وكذا قص الأظافير كذا في الغرائب".

(كتاب الكراهية وهو مشتمل على ثلاثين بابا، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها، 358/5، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجاز في كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين......(قوله وكره تركه) أي تحريما".

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 406/6-407، ط: سعيد)

فقط والله أعلم

فتوی نمبر : 144409101362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

3,320

subscribers

351

photos

5

videos